اہل السنت والجماعت ………آقا کی عطا ہے

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
اہل السنت والجماعت ………آقا کی عطا ہے
اَلْحَمْدُ لِلَّهِ نَحْمَدُہُ وَنَسْتَعِينُهُ وَنَسْتَغْفِرُهُ،وَنَعُوذُ بِاللَّهِ مِنْ شُرُورِ أَنْفُسِنَا وَمِنْ سَيِّئَاتِ أَعْمَالِنَا . مَنْ يَهْدِهِ اللَّهُ فَلَا مُضِلَّ لَهُ ، وَمَنْ يُضْلِلْ فَلَا هَادِيَ لَهُ ، وَنَشْهَدُ أَنْ لاَ إِلٰهَ إِلَّا اللهُ وَحْدَهُ لاَ شَرِيْكَ لَهُ وَنَشْهَدُ أَنَّ سَيِّدَنَا مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَ رَسُولُهُ ، صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَعَلَى آلِهِ وَصَحْبِهِ وَسَلَّمَ تَسْلِيمًا كَثِيرًا اَمَّابَعْدُ . فَاَعُوْذُ بِاللّهِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِ بِسْمِ اللّهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ:يَوْمَ تَبْيَضُّ وُجُوهٌ وَتَسْوَدُّ وُجُوهٌ فَأَمَّا الَّذِينَ اسْوَدَّتْ وُجُوهُهُمْ أَكَفَرْتُمْ بَعْدَ إِيمَانِكُمْ فَذُوقُوا الْعَذَابَ بِمَا كُنْتُمْ تَكْفُرُونَ O وَأَمَّا الَّذِينَ ابْيَضَّتْ وُجُوهُهُمْ فَفِي رَحْمَةِ اللَّهِ هُمْ فِيهَا خَالِدُونَ O تِلْكَ آيَاتُ اللَّهِ نَتْلُوهَا عَلَيْكَ بِالْحَقِّ وَمَا اللَّهُ يُرِيدُ ظُلْمًا لِلْعَالَمِينَ Oصَدَقَ اللہُ الْعَظِیْمُ۔
 سورۃ آل عمران: 106 ،107، 108
اَللّٰهُمَّ صَلِّ عَلٰى مُحَمَّدٍ وَعَلٰى آلِ مُحَمَّدٍ كَمَا صَلَّيْتَ عَلٰى إِبْرَاهِيْمَ وَعَلٰى آلِ إِبْرَاهِيْمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ۔اَللّٰهُمَّ بَارِكْ عَلٰى مُحَمَّدٍ وَعَلٰى آلِ مُحَمَّدٍ كَمَا بَارَكْتَ عَلٰى إِبْرَاهِيْمَ وَعَلٰى آلِ إِبْرَاهِيْمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ۔
میری نہایت واجب الاحترام ماؤو ،بہنو اوربیٹیو!میں نےآپ کے سامنے پارہ نمبر4سورۃ آل عمران کی تین آیات تلاوت کی ہیں ان آیات کی روشنی میں آپ کی خدمت میں دوباتیں عرض کرناچاہتاہوں:

1)

ہمارانام کیاہےجورسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نےہمیں عطا فرمایا ہے؟

2)

ہماراکام کیاہےجورسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نےہمیں عطافرمایاہے؟
عقیدہ ختم نبوت:
ہم مسلمانوں کایہ عقیدہ ہےکہ حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم کائنات میں آخری پیغمبر، آخری نبی، آخری رسول ہیں اورآپ کےبعداب قیامت تک کوئی نبی پیدانہیں ہو گا حضرت عیسیٰ علیہ السلام آسمان سےدنیامیں تشریف لائیں گےلیکن حضرت عیسیٰ علیہ السلام اگرچہ نبی ہوں گے لیکن ان کا آنا بطورحضورصلی اللہ علیہ وسلم کے امتی ہونےکا ہو گا۔
حضرت عیسیٰ علیہ ا لسلام کی نبوت :
اس کی مثال بالکل ایسی ہی ہے جیسےایک صوبےکا گورنر موجود ہو اور حکومت اس کوکسی انتظامی امور کے سنبھالنے کیلئے کسی دوسرےصوبےمیں بھیج دے۔ اب جب وہ شخص جب کسی دوسرےصوبےمیں جاتاہےکام کرنےکیلئے تواسے پہلے صوبےکی گورنری سے معزول نہیں کیاگیابلکہ اس کوایک اضافی ذمہ داری دے دی گئی ہے۔ بالکل اسی طرح حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی نبوت تا قیامت باقی رہےگی لیکن اضافی ذمہ داری ان کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کاامتی،خلیفہ اوروارث ہونے کی مل جائےگی اورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کاوارث ہونےکی حیثیت سےحضرت عیسیٰ علیہ السلام اس امت میں کام کریں گےلیکن اس امت میں نبی ہونےکی حیثیت سےنہیں بلکہ حضورصلی اللہ علیہ وسلم کا امتی ہونے کی حیثیت سےکام کریں گے۔جب حضرت عیسیٰ علیہ السلام بھی آئیں گے تو اس امت کے نبی بن کرنہیں، تو بتاؤ کسی اور کے بارےمیں کیا تصور کیا جا سکتاہےکہ کوئی اورنبی ہوسکتاہے؟
اگر کوئی نبی ہوتا تو …………:
اس لیے ہماراعقیدہ ہےکہ حضورصلی اللہ علیہ وسلم کےبعدکسی کونبی بناتےتوعمربن خطاب رضی اللہ عنہ کونبی بنادیتےاس لیے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنا ارشاد ہے
” لو كان بعدي نبي لكان عمر بن الخطاب“
جامع الترمذی: باب فی مناقب عمر 
اگر میرے بعدکوئی نبی ہو سکتا توحضرت عمربن خطاب ہوتے،جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ نبی نہیں بنے تو اس کامعنیٰ ہے کہ اللہ کسی اورکونبوت ہرگزعطانہیں کریں گے۔
صدیق اکبر کا تذکرہ نہ فرمانے کی حکمت:
بعض حضرات کوایک علمی اشکال ہوتاہے کہ جب حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعدسب سے بڑا مقام ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ کاہےتورسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماناچاہیے تھا: ”لوکان بعدی نبی لکان ابو بکر“ کہ اگر میرے بعد کوئی نبی ہو سکتا تو ابوبکر ہوتے۔ لیکن ایسانہیں فرمایابلکہ فرمایا: اگر میرے بعدکوئی نبی ہوتا تو حضرت ابو بکررضی اللہ عنہ ہوتے۔ اس سےبظاہر یہ محسوس ہوتا ہے کہ شاید حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کامقام کم ہےاورحضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کا مقام زیادہ ہے، حالانکہ یہ بات قطعاً غلط ہے۔
بشیر و نذیر والی صفات:
پوری امت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کےبعدسب سے بڑامقام اور مرتبہ حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ کا ہے، جس کی کئی وجہ ہیں۔ تو سوال یہ ہوتا ہے کہ اس حدیث مبارک کاکیامطلب ہے؟انبیاء علیہم السلام کی ترتیب پر غور کرنے سےیہ بات معلوم ہوتی ہےکہ نبی جب آتے ہیں تو”بشیر“ و ”نذیر“ دو صفتوں کےساتھ آتےہیں اورعموماً صفت ”بشیر“ میں صفت” رحم“ کامادہ غالب ہوتا ہے۔ یعنی محبتیں اور شفقتیں،اورصفت”نذیر“میں ڈرانےکامادہ غالب ہوتا ہے۔ تو ”بشیر“وہی ہوتا ہے جس میں جمال کی صفتوں کاغلبہ ہو اور ”نذیر“وہ ہوتاہےجس میں جلال کی صفتوں کا غلبہ ہوتبھی ڈرائےگا،ورنہ ڈرائےگا کیسے؟
جلالی اور جمالی مزاج :
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بھی نبی ہیں اوران سےپہلےحضرت عیسیٰ علیہ السلام نبی ہیں اور ان سےپہلےحضرت موسیٰ علیہ السلام نبی ہیں، حضرت موسیٰ علیہ السلام کا مزاج مبارک نہایت جلالی تھااورحضرت عیسیٰ علیہ السلام کامزاج مبارک نہایت جمالی تھا، توجلالی پیغمبر کے بعداللہ نےجمالی نبی کو بھیجا۔
آقا پر جمال کا غلبہ :
حضور کے مزاج مبارک میں جمال کاغلبہ تھا۔اب اس کے بعد اگرکوئی نبی آتا تو وہ جمال والانہیں آنا تھابلکہ جلال والا آنا تھا کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پرجمال کا غلبہ ہے۔ اب اگرنبی ہوتاتوجلال کےغلبہ والاہوتاتووصف جلال کاغلبہ حضرت سیدنا عمر بن الخطاب میں ہےاوروصف جمال کاغلبہ حضرت سیدنا ابو بکر صدیق میں ہے۔اس لئے نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگر میرے بعد کوئی نبی ہوتا تو عمربن خطاب رضی اللہ عنہ ہوتے کیوں؟ اس لیے کہ اب باری جلال کی ہے، جمال کی نہیں اورجلال کاغلبہ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ پرنہیں بلکہ حضرت عمرفاروق رضی اللہ عنہ میں ہے۔ لہٰذا اس کایہ معنیٰ ہرگز نہیں کہ صدیق اکبررضی اللہ عنہ خلافت کے مستحق نہیں تھےیاان کامقام حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے کم ہے۔
جسمانی اور روحانی رشتہ:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کےبعداب نبی تو آئے گا نہیں، پھرامت کی تعلیم، امت کی ترتیب کیسی چلےگی؟ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے اس امت کونام بھی عطا فرمادیا اورکام بھی عطافرمادیا۔ ہمارےدورشتےہیں ایک اپنی ماں اورباپ سےہے اور ایک رشتہ اپنےپیغمبرنبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کےساتھ ہے۔ماں اور باپ کےساتھ رشتہ ہمارا نسب اورخون کاہے،پیغمبرکےساتھ ہمارارشتہ ایمان کاہے۔یہاں رشتہ ہےخون والااورجسم والا ہے، وہاں رشتہ ایمان والا اور روح والا ہے۔
توجب ہمارا تعلق والدین سےخونی اورجسمانی ہے تو والدین ایک نام رکھتےہیں کہ ہمارابیٹےکانام یہ ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ہمارارشتہ ایمانی اورروحانی ہے۔تونبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بھی نام رکھتےہیں کہ میری امت کا یہ نام ہے۔توایک رشتہ والدین سے ہے جو جسمانی اورخونی ہے۔توایک نام والدین نے دیا ہے اور ایک رشتہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم سےروحانی اورایمانی ہےتوایک نام نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نےدیاہے۔
روحانی باپ اور روحانی مائیں:
جس طرح ہمارے نسبی ماں اور باپ ہیں اسی طرح پیغمبرصلی اللہ علیہ وسلم ہمارے روحانی باپ اورآپ کی ازواج مطہرات ہماری روحانی مائیں ہیں۔ قرآن کریم کا فیصلہ ہے کہ پیغمبر کی بیویاں امت کی مائیں ہوتی ہیں
وَأَزْوَاجُهُ أُمَّهَاتُهُمْ.
نبی ہمارے باپ کیسے؟:
نبی ہمارے باپ کیسےہیں اورنبی کی بیویاں ہماری مائیں کیسی ہیں؟ ہمارا والدجس کی وجہ سےہمیں اللہ نے ماں کےپیٹ سےجنم دیا وہ ہمارا باپ ہےیہ توہر بندہ کوسمجھ آتا ہےکہ چونکہ ماں اور باپ کی ملاقات کی وجہ سے اولاد کو وجود ملاہےتویہ بیٹاان دونوں کےوجودکاحصہ ہےاس لیے اس کوماں اورباپ کا بیٹا کہتے ہیں۔ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے باپ کیسےہیں؟ ہم نےاللہ کےنبی صلی اللہ علیہ وسلم کاکلمہ پڑھا ہےاوررسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہمارےنبی ہیں اورہم امتی ہیں۔ ایک ہوتا ہےکلمہ پڑھنے والا اور ایک ہوتاہےجس کاکلمہ پڑھاجائے۔ کلمہ پڑھنے والا کاایمان بھی ہوتاہےاورجس کا کلمہ پڑھاجائےاس کاایمان بھی ہوتاہے۔
اصل اور نسل کا فرق :
دونوں ایمانوں میں فرق کیاہے؟جس کا کلمہ پڑھیں اُس کاایمان اصل ہوتاہےاورجوکلمہ پڑھتا ہے اِس کا ایمان نسل ہوتاہے۔کیوں؟ اِس کاایمان اُس کے ایمان سے نکلتا ہے جس کا کلمہ پڑھیں۔ اگراُس کاایمان نہ ہوتایہ بتائیں اِس کاایمان کیسے ہوتا؟اس لئے نبی کا ایمان اصل ہوتاہےاورامتی کاایمان نسل ہوتاہے۔اصل کو”باپ“ کہتےہیں اور نسل کو ”اولاد“کہتےہیں۔ تو گویانبی کاایمان یہ اصل ہےجوباپ کی حیثیت رکھتاہےاورامتی کا ایمان نسل ہوتاہےجواولادکی حیثیت رکھتاہے۔اس لیے نبی کی حیثیت باپ کی ہوتی ہے اورامتی کی حیثیت اولادکی ہوتی ہے۔جب نبی کی حیثیت باپ کی ہےتونبی کی بیوی کی حیثیت ماں کی ہے۔
جسمانی ، روحانی تعلق اور نسبت:
اس لیےہم کہتےہیں ہماراماں اور باپ سےتعلق جسمانی اورخونی ہےاورنبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم سےہماراتعلق روحانی اورایمانی ہے۔ توماں باپ نے وہ نام دیا جو ہمارےجسم اورخون والا ہے اور نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ نام دیا ہے جوروح اور ایمان والاہے۔ماں باپ نے نام کیا دیا۔ اگر میرانام ”محمد الیاس“ہےتو میری ماں اورباپ نے رکھاہے۔کسی سےپوچھ کے رکھا ہے یااپنی مرضی سے رکھا ہےلیکن ہمارا جو نام رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے دیا ہے وہ نام ”اہل السنۃ والجماعۃ“ ہے۔
اس لیے میں کہہ رہاتھاکہ ہمارا نام ”اہل السنت والجماعت“ اللہ کےنبی نے ہمیں دیاہے۔ ایک تواس کااس آیت کریمہ میں تذکرہ ہےجومیں نے تلاوت کی ہے اورایک اس کاتذکرہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث مبارک میں ہےجومیں ابھی آپ کے سامنے پیش کروں گا۔
آیات کریمہ کی روح :
قرآن کریم کی آیت کاترجمہ سمجھیں، فرمایا:﴿يَوْمَ تَبْيَضُّ وُجُوهٌ وَتَسْوَدُّ وُجُوهٌ﴾اس دن کوبھی یادرکھوکہ جس دن بعض چہرےسفیداوربعض چہرے سیاہ ہوں گے۔ ﴿فَأَمَّا الَّذِينَ اسْوَدَّتْ وُجُوهُهُمْ﴾ جن کے چہرے قیامت کے دن سیاہ ہوں گے،انہیں کہا جائے گا کہ :﴿أَكَفَرْتُمْ بَعْدَ إِيمَانِكُمْ﴾کیا ایمان کے آ جانے کے بعد تم نے کفر کیا تھا؟یعنی پہلے تم ایک بات کومانتے ہو پھر اس بات کا انکار کرتے ہو؟
﴿فَذُوقُوا الْعَذَابَ بِمَا كُنْتُمْ تَكْفُرُونَ﴾اس انکارکرنے کی وجہ سےآج تم دردناک عذاب کو چکھو۔﴿وَأَمَّا الَّذِينَ ابْيَضَّتْ وُجُوهُهُمْ فَفِي رَحْمَةِ اللَّهِ﴾
اورجن کے چہرے سفید ہوں گے وہ اللہ کی رحمت یعنی اللہ کی بنائی ہوئی جنت میں ہوں گے۔ رحمت میں بہت ساری چیزیں شامل ہیں مثلاً اللہ کے عرش کے سائے کے نیچےہوں گے حوض کوثرکاپانی ان کوملے گا، پیغمبر کی سفارش اورشفاعت ان کو ملےگی۔
﴿هُمْ فِيهَا خَالِدُونَ﴾یہ اللہ کی رحمت یعنی جنت میں جائیں گے اورپھراس میں ہمیشہ رہیں گے﴿تِلْكَ آيَاتُ اللَّهِ نَتْلُوهَا عَلَيْكَ بِالْحَقِّ﴾
اے میرے پیغمبر! یہ اللہ کی آیات ہیں جوہم آپ کو ٹھیک ٹھیک پڑھ کر سنا رہے ہیں۔
﴿وَمَا اللَّهُ يُرِيدُ ظُلْمًا لِلْعَالَمِينَ﴾
اللہ جہاں والوں پر کسی قسم کابھی ظلم نہیں فرماتے،یعنی بلا سبب اور وجہ کے کسی بندے کو جہنم میں نہیں بھیجتے بلکہ جب بندہ کرتوت جہنمیوں والےکرتاہے تواللہ اسے جہنم میں بھیج دیتےہیں، اورجب اعمال اہل جنت والے کرتا ہےتواللہ اس کوجنت میں بھیج دیتےہیں۔
ہمارا نام” اہل السنت و الجماعت“ ہے:
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں
تبيض وجوه أهل السنة والجماعة وتسود وجوه أهل البدع والضلالة.
)در منثور: ج2 ص(291
کہ جن کے چہرے سفید ہوں گےوہ ”اہل السنۃ والجماعۃ “ہوں گے اورجن کے چہرےسیاہ ہیں یہ کون ہوں گے یہ اہل بدعت و ضلالت ہوں گے۔
سفید و سیاہ چہرے :
حدیث مبارک میں ہے حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے یہ آیت تلاوت فرمائی
يَوْمَ تَبْيَضُّ وُجُوهٌ وَتَسْوَدُّ وُجُوهٌ اورفرمایا:تبيض وجوه أهل الجماعات والسنة وتسود وجوه أهل البدع والأهواء.
) تفسیر الدر المنثور: ج2 ص(
کہ جن کے چہرے سفید ہیں یہ اہل الجماعات و السنۃ یعنی اہل السنۃ والجماعۃ ہوں گے اورجن کے چہرےسیاہ ہیں یہ کون ہوں گے یہ اہل بدعت اور خواہش پرست لوگ ہوں گے۔
ہمارا جنتی نام :
پتہ یہ چلاکہ ہمارا جنتی نام ”اہل السنۃ والجماعۃ“ ہےاور منکرین کاجہنمی نام ”اہل البدعۃ والضلالۃ“ ہے، تو ہم اہل السنت والجماعت ہیں اہل بدعت نہیں ہیں۔
اعمالِ نبوی کی چار اقسام:
اس لیے ایک بات سمجھیں کہ ”سنت“ کا مطلب کیاہوتاہے؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زندگی میں چارقسم کے اعمال فرمائے ہیں۔
پہلی قسم ……….قبل از نبوت :
ایک عمل اللہ کےنبی کاوہ ہے جو آپ نےاپنی 40 سالہ عمر میں کیاہے،جب آپ کو”محمدبن عبداللہ“ کہا جاتا تھا۔ ایک تو عمر یہ ہے۔ اس کے بعدتین قسم کےاعمال وہ ہیں جوآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے چالیس سال کی عمرکےبعد،وحی آجانے کے بعد،جبرئیل امین کے اترنے کے بعد اور اعلان نبوت کے بعداللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمائے ہیں۔ وہ اعمال تین قسم کے ہیں۔
دوسری قسم………. بیانِ جواز:
ان میں سےایک عمل وہ ہے جورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اور وہ کسی خاص عذرکی وجہ سے کیا ہے، مستقل آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عادت مبارک نہیں تھی جیساصحیح بخاری میں روایت موجودہے
لَقَدْ أَتَى النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سُبَاطَةَ قَوْمٍ فَبَالَ قَائِمًا.
)صحیح البخاری: باب الوقوف والبول عند سباطۃ قوم(
نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ منورہ کےباہرایک کوڑی پرتشریف لائے اور وہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کھڑے ہو کر پیشاب کیا۔
عذر اور مجبوری الگ چیز ہے :
یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عادت مبارکہ نہیں تھی بلکہ آپ کا عذر تھا جس کی وجہ سےکھڑے ہوکرپیشاب کیا۔ ایک عذریہ بھی ہوسکتاہے کہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کےگھٹنے مبارک میں کوئی تکلیف ہو جس کی وجہ بیٹھنامشکل تھااوریہ بھی عذرہوسکتاہےکہ جگہ مناسب نہیں تھی کہ اگروہاں بیٹھ کرپیشاب کرتے توچھینٹوں کاخطرہ ہے۔
ایک وجہ یہ بھی ہوسکتی ہےجسےعلماء کی زبان میں کہتےہیں: بیان جوازکیلئے کام کرنا،کہ عام حالات میں کام کرناٹھیک نہیں ہوتا اگر ضرورت ہو تو ٹھیک ہوتا ہے۔ تونبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کبھی کبھی ایساعمل فرما دیتے تھے یہ بتانے کیلئے کہ ضرورت ہوتواس کی گنجائش ہے۔ اسے کہتے ہیں کہ یہ عمل اللہ کےنبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بیانِ جوازکیلئے فرمایا۔اس کی آج کےدورمیں کیا ضرورت پیش آسکتی ہے؟
گنجائش اور رخصت اور آج کا زمانہ :
ذراآج سےبیس، پچیس سال پہلےسوچیں جب یہ ٹائلٹ اوربیت الخلاء موجود نہیں تھے۔اگربارش مسلسل ایک ہفتہ برسےاورکوئی بندہ باہرپیشاب کرنے کیلئے جائےاوروہاں کوئی ایسی جگہ نہ ملےجہاں پیشاب بیٹھ کر کرے ، اس کیلئے اب کوئی صورت نہیں ہےسوائےاس کے کہ بندہ کھڑا ہو کر پیشاب کر لے، یہ اس کیلئے عذرہےنا، اب ایساعذرپیش آسکتاتھاتوبندہ کےذہن میں الجھن آتی کہ میں یہ عمل کیسے کروں جوپیغمبرصلی اللہ علیہ وسلم سےثابت نہیں ہے۔اس لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سےاللہ ایساعمل کروادیتےہیں تاکہ امت کو پتہ چلے کہ ضرورت ہوتوپھراس کی گنجائش موجودہے۔
کھڑے ہو کر پیشاب کرنا:
آج کے دور میں اس کی سب سےآسان مثال کیاہے۔ائیرپورٹ پہ گئے ہیں، فلائیٹ کاٹائم طے شدہ ہے اور فلائیٹ کلوز ہونےوالی ہےاگربیت الخلاء میں گئے ہیں پیشاب کیلئے تو وہاں دوقسم کےبیت الخلاء ہوتے ہیں؛ ایک وہ جن کےسامنے دروازےلگےہیں اوروہاں ٹائلٹ بناہوتاہے، ایک ان کے باہر ایسے ہوتے ہیں جہاں دروازے تو لگے نہیں ہوتے لیکن وہاں پیشاب کرنےکی جگہ ہوتی ہےاور کھڑے ہو کر پیشاب کرنا پڑتاہے۔
اب رش موجودہے یا بیت الخلاء میں کوئی بندہ موجودہے یا فلائیٹ کی کلوزنگ کاوقت ہے کہ فلائیٹ بندہوجائی گی۔ اگریہ بندہ بیت الخلاء میں جاتاہے توفلائیٹ جاتی ہےاوراگربیت الخلاء میں نہیں جاتاتوپھر کپڑےناپاک ہونے کاخطرہ ہے،اب اس کا حل کیا ہے؟ جلدی جلدی یہ جائے اورکھڑےہوکردو چار منٹ میں پیشاب کیااوریہ نکل جاتاہے، بظاہر تو بندہ سمجھتا ہے کہ اس کوایسا کام نہیں کرناچاہیئےلیکن عذر ایسا ہے کہ نہیں کرے گا تو مشکلات کا شکار ہو گا۔
بوقت ضرورت گنجائش ہے :
اب یہ صورت ایسی موجودہےکہ جوبندہ کوپیش آسکتی ہے۔ تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی کبھار ایسا عمل فرمادیاتاکہ امت کوپتہ چلےکہ ضرورت ہو تو گنجائش موجود ہے، اسےکہتےہیں کہ بیانِ جواز کیلئے نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نےیہ کام فرمایا۔
بیٹھ کر نوافل کی ادائیگی :
اس کی ایک مثال اورسمجھیں جیسےکھڑے ہوکرنفل پڑھیں تو ثواب پورا ملتا ہے، بیٹھ کر نفل پڑھیں تو ثواب آدھا ملتا ہے۔ لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نےکئی بار بیٹھ کرنفل پڑھے ہیں۔
) صحیح مسلم: رقم الحدیث 746، وغیرہ(
وہ اس لیے بیٹھ کر نفل نہیں پڑھےکہ ثواب ادھورا یعنی آدھا ملتا ہے بلکہ اس لیے پڑھی ہیں کہ امت اگر بیٹھ کرنفل پڑھنا چاہےتوان کیلئے گنجائش موجود ہے۔تواللہ کےنبی کوایسےعمل پہ ثواب آدھانہیں ثواب پورا ہی ملتاہے، ایک ثواب ملتاہے نفل پڑھنے پہ اورایک ثواب ملتاہے اس لیے کہ امت کی تعلیم کیلئے پڑھا ہے۔ تو نبی کوپھربھی ثواب پوراملتاہے تواعمال کی ایک قسم وہ ہوئی جونبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمائی ہےلیکن ضرورت کےتحت فرمائی ہےضرورت کے کوئی خاص عذرتھا۔
تیسری قسم………. خصوصیتِ نبوی:
بعض اعمال نبی نے ایسے فرمائے ہیں جو اللہ کےنبی کےساتھ خاص ہیں، امت کیلئے ان اعمال کاکرناجائزنہیں۔ جیسےنبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نےگیارہ نکاح مبارک فرمائے ہیں، بیک وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نو بیویاں نکاح میں رکھی ہیں اورامت کیلئے چارسےزیادہ بیویاں نکاح میں رکھناجائزنہیں۔ اگرعدل و انصاف نہ کرسکتاہوتوایک سے زائدبھی جائزنہیں ہے، اگرعدل وانصاف کر سکے تو چار رکھ سکتاہے اورچار سے زائد کی توگنجائش نہیں ہے۔
احکام میں تبدیلی :
اب دیکھیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کاعمل مبارک موجودہے لیکن یہ عمل اللہ کےنبی کےساتھ خاص ہے اور امت کے لیے اس میں کوئی گنجائش موجودنہیں ہے۔ یہ اعمال وہ ہیں جورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمائےہیں لیکن بعدمیں آپ نےترک فرمادیے۔
پہلی مثال :
جیسےاللہ کےنبی صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایا:
نَهِيْتُكُمْ عَنْ زِيَارَةِ الْقُبُوْرِ فَزُوْرُوْهَا.
)صحیح مسلم: رقم الحدیث (977
پہلےمیں نےتم کوقبروں کی زیارت سےمنع کیاتھا،اب اجازت ہے۔
دوسری مثال :
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ منورہ میں تشریف لائے تو16 یا 17ماہ نمازپڑھی ہےاورمنہ بیت المقدس کی طرف فرمایا ہے۔ حکم بدل گیاتومنہ کعبہ کی طرف کرلیاہے۔
) جامع الترمذی: باب ما جاء فی ابتداء القبلۃ(
توپہلے حکم پرعمل کرناچھوڑدیا۔
تیسری مثال :
نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ منورہ میں تشریف لائے، نمازپڑھتے تو اللہ کےنبی صلی اللہ علیہ وسلم پہلے نماز میں رکوع کوجاتے اوررکوع سےاٹھتےرفع یدین کرتےتھے بعدمیں چھوڑ دیا ہے۔
)اخبار الفقہاء و المحدثین: ص214، وغیرہ(
چوتھی مثال :
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین پہلے امام کےپیچھے سورۃ فاتحہ پڑھتےتھے، بعدمیں چھوڑدی ہے۔
) تفسیر ابن ابی حاتم الرزی ج4 ص259رقم9493 (
تو اعمال کی یہ تین قسمیں ہو گئیں:

1)

ایک عمل وہ ہے جو ابتدائی چالیس سالہ زندگی کے دوران کیا ہے۔

2)

وہ عمل جو بیانِ جواز کے لیے فرمایا ہے۔

3)

وہ عمل جو حضور صلی اللہ علیہ و سلم کی ذات کے ساتھ خاص ہو۔
ان اعمال کو ”سنت“ نہیں کہتے بلکہ ان اعمال کو” حدیث “کہتے ہیں۔
چوتھی قسم……… مسنون عمل :
توسنت کون ساعمل ہوگا؟سنت اس عمل کانام ہے جواللہ کےنبی صلی اللہ علیہ وسلم نےکیاہواورچالیس سال کی عمر کے بعد فرمایا ہو، مستقل فرمایاہو، بطورعادت کے فرمایا ہو، اور وہ عمل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کےساتھ خاص نہ ہو بلکہ اسے امت کیلئے فرمایاہو، تو اس عمل کو”سنت“ کہتےہیں۔
اہل السنت و الجماعت کون؟
تواہل السنت وہ ہوتاہے جونبی کےسنت اعمال کو لے کرچلے، یہ اہل سنت ہے۔ آگے جب ہم کہتےہیں کہ ہم ”اہل السنت والجماعت“ ہیں تو اس میں ”والجماعت“سےمراد”جماعتِ صحابہ“ہے۔کون ساعمل سنت بنتاہے کون سا نہیں بنتا،یہ کون بتائے گا؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کےپیارےصحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین بتائیں گے، جنہوں نےرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کودیکھاہےاوراللہ کےنبی صلی اللہ علیہ وسلم کےساتھ وقت گزارا ہے۔ اگروہ نہ بتائیں توآدمی کوپتہ چل ہی نہیں سکتا۔ اس لیے ہمارانام ”اہل السنت والجماعت“ہے،جس کا مطلب یہ ہواکہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کو لیتے ہیں اورصحابہ رضی اللہ عنہم سے پوچھ کر لیتےہیں۔
فتنوں کی پیشین گوئی ؟:
اسی طرح حدیث مبارک میں ہے۔حضرت عبداللہ بن عمررضی اللہ عنہ فرماتےہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
ليأتين على أمتي ما أتى على بني إسرائيل حذو النعل بالنعل حتى إن كان منهم من أتى أمه علانية لكان في أمتي من يصنع ذلك وإن بني إسرائيل تفرقت على ثنتين وسبعين ملة وتفترق أمتي على ثلاث وسبعين ملة كلهم في النار إلا ملة واحدة قالوا ومن هي يا رسول الله قال ما أنا عليه وأصحابي۔
)جامع الترمذی: باب ما جاء فی افتراق الامۃ(
کہ میری امت پروہ حالات آئیں گےجوحالات بنی اسرائیل پر آئے ہیں یعنی میری امت نبی اسرائیل کےنقش قدم پرچلےگی۔
”بنی اسرائیل“ کون؟
یہ ”بنی اسرائیل“ کیا ہے؟اس لفظ کوذرا سمجھیں۔ ایک لفظ ہے ”اسرا“ اورایک ہے”ئیل“۔اسرا کا معنیٰ”عبد“ہوتاہے، ”ئیل“ کامعنی”اللہ“ہوتا ہے۔ اسرائیل کامعنیٰ ہے عبداللہ۔ حضرت یعقوب علیہ السلام جو حضرت یوسف علیہ السلام کے والد محترم تھے،ان کا نام یعقوب تھااورلقب ان کا اسرائیل تھا یعنی اللہ کا بندہ۔ ان کے بارہ بیٹےتھے، ان بارہ بیٹوں سے جو آگے ان کی نسل چلی ہے تو اس اولاد کو کہتےہیں: بنواسرائیل۔
) التفسیر المظہری: ج 1 ، ص : 60(
”ابن“ کا معنیٰ”بیٹا“اور”بنون“معنیٰ ”بیٹے“ ہوتا ہے۔توبنی اسرائیل کامعنیٰ ہوا یعقوب علیہ السلام کی اولاد۔ یعقوب علیہ السلام کےبڑے بیٹے کانام یہودا تھا اور سب سے چھوٹےبیٹےکانام بنیامین تھا۔ان کی دوبیویاں تھیں،ایک سے یوسف اور بنیامین تھے اور دوسری سے ان کے باقی دس بیٹے تھے۔
امت محمدیہ؛ بنی اسرائیل کے نقشِ قدم پر :
تواللہ کےنبی صلی اللہ علیہ وسلم فرماتےہیں: میری امت پروہ حالات آئیں گے جوبنی اسرائیل پرآئےتھے،یہ ان کے نقش قدم پرچلےگی۔ وہ کیسے چلےگی؟ فرمایا
حتى إن كان منهم من أتى أمه علانية لكان في أمتي من يصنع ذلك
اگر نبی اسرائیل میں کوئی ایسابدبخت گزراہےجس نےاپنی ماں کے ساتھ منہ کالاکیاتومیری امت میں بھی ایساآئے گا جواپنی ماں کےساتھ منہ کالا کرےگا-العیاذباللہ-
73 فرقے اور نجات پانے والا گروہ :
آگےاللہ کےنبی فرمانے لگے:
وإن بني إسرائيل تفرقت على ثنتين وسبعين ملة
بنی اسرائیل میں 72 فرقے ہو گئے تھے، وتفترق أمتي على ثلاث وسبعين ملة . میری امت کے 73 فرقے ہوجائیں گے۔ كلهم في النار إلا ملة واحدة. ان میں ایک کےعلاوہ باقی سارےجہنم میں جائیں گے۔
فرقہ واریت پھیل جائے گی :
اب دیکھئے کتنےمشکل حالات ہوں گے؟ بنی اسرائیل کےنقش قدم پرچلیں گے اور ان کی اخلاقی زندگی اتنی گندی ہوگی کہ اپنی ماں کےساتھ بھی برے افعال کرنے سے باز نہیں آئیں گے اوران کی علمی سطح اتنی گندی ہوگی کہ فرقوں میں بٹ جائیں گے۔
امت کا کیا بنے گا؟:
توآدمی سوچتاہے: یااللہ! اس موقع پرامت کا کیا بنےگا؟ جب اعمال کی بھی پستی ہو گی اورعلم کے بھی پستی ہوگی، اب کیابنےگا؟ تو حضرات صحابہ رضی اللہ عنہم نے سوال کیا
ومن هي يا رسول الله؟
نجات پانے کا طریقہ کیا ہے ؟:
کہ اللہ کے رسول! وہ کون سا گروہ ہو گا جوجنتی ہو گا؟ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایا: ما أنا عليه وأصحابي. کہ جومیری سنت پہ میرےصحابہ سےپوچھ کرچلےگا ایساآدمی جنت میں جانےوالاہوگا۔
صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی تعلیمات :
توجواللہ کےنبی کی سنت صحابہ سے پوچھے نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث صحابہ سےپوچھے،نبی کادین صحابہ سےپوچھ کر چلے اسےکہتےہیں؛ اہل السنت والجماعت۔ تو اہل السنت و الجماعت اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ و سلم نےہمیں نام دیاہے۔اس نام کامعنیٰ ہو گا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت پر چلنے والے صحابہ سےپوچھ کر۔ اس لیے تمام مائیں، بہنیں اوربیٹیاں ذہن نشین کرلیں کہ اگرکوئی بندہ آپ سےپوچھےتم کون ہو؟ توتم کہا کرو :ہم اہل السنت والجماعت ہیں۔
سنت کی اطاعت؛ فہم صحابہ کی روشنی میں :
تھوڑی سی بات میں اورعرض کردیتاہوں اس کو ذہن نشین فرمالیں۔ ہم اہل السنت والجماعت ہیں، سنت نبی کی لیتےہیں اوراس کافہم؛ نبی کےصحابہ سے لیتے ہیں یعنی سمجھتےنبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کےصحابہ سےہیں۔
تقلید امام اعظم ابو حنیفہ کی :
اگلا مسئلہ یہ رہ جاتاہے کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کےصحابہ نےمیدان جہاد اور جنگوں میں زندگیاں گزار دی ہیں اورپورا دین لکھنےکاموقع نہیں ملا، اللہ تعالیٰ نے امام اعظم ابوحنیفہ نعمان بن ثابت رحمہ اللہ کوپیدافرمایا، انہوں نےسارےدین کوجمع کرکے امت کے حوالے کردیاہے۔ تودنیا میں امام توکئی گزرےہیں لیکن صحابہ کے بعدسب سےبڑے امام ”امام اعظم ابوحنیفہ نعمان بن ثابت“ ہیں۔ ان کانام ”نعمان بن ثابت“ تھا، کنیت ”ابوحنیفہ“ تھی اور لقب ”امام اعظم“ تھا۔
”حنیفہ“ اور ایک غلط فہمی کا ازالہ:
ایک بات مردوں میں مشہور ہے اور خصوصاً عورتوں میں یہ بات بڑی مشہورہے کہ ان کو ”ابوحنیفہ“ اس لیے کہتےہیں کہ ان کی بیٹی کانام ”حنیفہ“ تھا۔ یہ میں نے خودبچپن میں عورتوں سے سناہےکہ بعض عورتیں کہتیں: امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کےپاس ایک عورت مسئلہ پوچھنے کیلئےآئی اورکہاکہ ہمیں ایک مسئلہ سمجھائیں۔
امام صاحب نےفرمایا:وہ کیا؟ اس نےکہا: ہمیں مسئلہ یہ بتائیں کہ ایک مرد چارعورتوں سےنکاح کرسکتاہے، ایک عورت چار خاوند کیوں نہیں کرسکتی؟ تو کہتے ہیں: جی ،امام صاحب کی بیٹی کھڑی تھی، اس نےکہا:جی، میں اس مسئلہ کاجواب دیتی ہوں لیکن میری شرط یہ ہے کہ آپ کی کنیت ”ابوحنیفہ“ چلےگی۔ فرمایا: تو بتادے۔
اس لڑکی نے کہا: دیکھو!تم ایساکروکہ ایک گلاس خالی لےلو، اس میں چار عورتوں کا تھوڑا تھوڑا دودھ نکال کے لاؤ۔وہ تھوڑاتھوڑادودھ نکال کےاس کے اندر لے آئیں۔ اس نے کہا:اب اس میں سےہرعورت اپنااپنادودھ الگ الگ کرے۔ان عورتوں نےکہا: یہ دودھ الگ الگ نہیں کرسکتیں۔ تو اس لڑکی نےکہا: دیکھوجس طرح چارعورتیں اپنا دودھ الگ الگ نہیں کرسکتیں اگرایک عورت کے چار شوہر ہوں گے اورچارشوہر ایک عورت کےپاس جائیں گے توجوبچہ پیداہوگاوہ کس شوہرکا ہوگا؟ انہوں نےکہا:ہم تو فیصلہ نہیں کر سکتیں۔
اب لڑکی نےکہا: جس طرح چار عورتوں کادودھ ایک گلاس میں ہوتویہ فیصلہ نہیں ہوسکتاکہ کتنادودھ کس کا ہے اور کون ساہے؟ اسی طرح اگر چار شوہروں کی ایک بیوی ہوگی توپیداہونےوالی اولاد کافیصلہ مشکل ہوگاکہ یہ اولاد کس کی ہے؟ تواس دن سےامام صاحب کانام ”ابوحنیفہ“ رکھ دیاگیا۔یہ واقعہ بالکل غلط ہے اورباکل بےسند ہے،اس کی کوئی حقیقت نہیں ہے۔
ابو حنیفہ کا معنیٰ :
اس لیے یہ بات ذہن نشین فرمالیں کہ امام صاحب کو امام ابوحنیفہ اس لیے نہیں کہتےکہ ان کی بیٹی کانام حنیفہ تھااما م صاحب کاایک ہی بیٹاتھاجس کانام حمادتھا، بیٹی ان کی تھی نہیں۔
) الخیرات الحسان ص(17
”ابوحنیفہ“ کیوں کہتےہیں؟ عربی زبان میں حنیفہ کہتےہیں”خالص دین“ کو۔ تو امام صاحب نےچونکہ خالص دین امت کو لکھوایا ہے،اس لیے ان کو ابوحنیفہ کہتے ہیں یعنی خالص دین لکھوانے والا۔
ابو بکر کا معنیٰ:
جیسےپہل کرنےکو”بکر“کہتےہیں، اور وہ درخت جس پر پہلاپھل آئے، اس کا نام ہوتاہے ”بکورہ“ کہ یہ پہلی بارآیاہے اورایسی عورت جوشادی شدہ نہ ہو اور اس کا خاوند پہلی بار اس کےپاس آئے تو ایسی عورت کوکہتےہیں ”باکرہ“۔تو چونکہ ”بکر“کامعنیٰ ہوتاہے پہل کرنا اور عربی زبان میں ابو کا معنی ”والا“بھی آتا ہے اس لیے حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کو ”ابو بکر“کہتے ہیں کہ یہ اسلام لانےمیں پہل کرنےوالےہیں۔تو چونکہ امام صاحب رحمہ اللہ نے دین لکھوانے میں پہل کی ہے ان کو کہتےہیں ابوحنیفہ تویہ دین لکھوانے والے ہیں۔
ابو تراب کا معنیٰ:
ایک بار رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت علی رضی اللہ عنہ کے گھر گئے، حضرت فاطمہ سے پوچھا :تمہارا خاوند کہاں ہے؟ انہوں نے عرض کی: میرے اور ان کے درمیان کوئی بات ہو گئی ہے تو وہ غصہ ہو کر باہر چلے گئے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک بندے کو بھیجا کہ جاؤ! جا کر علی کو دیکھو! اس نے اطلاع دی کہ مسجد میں ہیں۔نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم مسجد میں گئے ،دیکھا حضرت علی وہاں لیٹے ہوئے تھے، اور ہوا چلنے کی وجہ سے ان پر مٹی آ پڑی ہے۔تورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایا
قُمْ يا أَبَا تُرَابٍ۔
) المعجم الکبیر للطبرانی: رقم الحدیث (6010
اےمٹی پر لیٹنے والے! اٹھ جا۔ اس دن سے حضرت علی رضی اللہ عنہ کی کنیت ”ابوتراب“ پڑی ہے۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ مٹی کےباپ تھے، بلکہ مطلب یہ ہے کہ مٹی پر لیٹنے والے تھے۔
ابو ہریرہ کا معنیٰ :
اسی طرح ”ابوہریرہ“ کامعنیٰ ”بلی کے بچے والے“ ہے۔ ابوہریرہ آئے اور ان کے ہاتھ میں بلی کاایک چھوٹاسا بچہ تھا، جوانہوں نے اپنی آستین کے اندر رکھا ہوا تھا حضور صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایا: یاابا ھریرۃ، بلی کےبچےوالااس دن سےنام پڑگیا ”ابوہریرہ“ اس کا مطلب تھا کہ بلی کےبچے والا، یہ مطلب نہیں تھاکہ بلی کے بچے کا باپ تھے۔ اس طرح امام صاحب کی کنیت ”ابوحنیفہ“ہے۔ تو اس کامعنیٰ یہ ہےکہ یہ دین خالص کولکھوانے والے ہیں۔
دیوبندی کسے کہتے ہیں ؟:
اسی طرح ہم دیوبندی بھی ہیں”دیوبند“ کامطلب کیا ہوتاہے؟ بعض لوگوں نے دین میں اضافہ کیاہے اوربعضوں نےدین میں کمی کی ہے۔ تو دیوبندکے علماءوہ تھےجنہوں نے دین میں کمی اوراضافےکوروک دیاہے،اس لیے ان کوکہتےہیں علماء دیوبند۔
دین کے پہرے دار :
علماءدیوبندکامعنیٰ ”دین کےپہریدار“ ہیں۔ جس طرح ایک قیمتی گھربن جائے اور کوئی گھر سےچوری کرے تو پہریدار اندرسےکوئی چیزلانےنہیں دیتا اوراگر کوئی باہر سےکوڑا کرکٹ اندرگھر میں پھینکے تو پہریدار اس کوڑے کو گھرمیں ڈالنےبھی نہیں دیتا۔
علمائے دیوبند کا بنیادی نظریہ :
علماءدیوبندسنت کوچوری کرنے والےکو،دین سےچوری بھی نہیں کرنے دیتے اور دین کےاندربدعت کو بھی داخل نہیں کرنےدیتے۔ اس لیے ان کو کہتے ہیں کہ یہ دین کےپہریدارہیں۔تو ہمارااصل نام کیاہے، اہل السنت والجماعت حنفی دیوبندی۔ حنفی؛ اس لیے کہ ہمارےامام نےدین لکھوایاہے،دیوبندی؛ اس لیے کہ ہمارےعلماءنےدین کو بچایاہے۔ توہم دین کو لکھوانے والےبھی ہیں اوردین کو بچانےوالےبھی ہیں۔
ہمارا نام اور ہمارا کام :

1)

ہمارانام کیاہے؟

2)

ہماراکام کیاہے؟
اب اگرکوئی تم سے پوچھے: تمہارا نام کیاہے؟ توصاف کہہ دیں: ہمارانام اہل السنت والجماعت ہے۔ اگرکوئی پوچھے: بھائی تمہاراکام کیاہے؟ تو کہہ دیں کہ ہم حضورصلی اللہ علیہ وسلم کےامتی ہیں اوربحیثیت امتی ہونےکے ہمارا کام نبی صلی اللہ علیہ وسلم کےدین کودنیامیں پھیلانابھی ہے اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے دین کو بچانابھی ہے۔ جس کومیں یوں بیان کرتا ہوں کہ امت کو ایمان اوراعمال پرلانابھی ہے اورامت کے ایمان اور اعمال کو بچانا بھی ہے۔ یہ ہمارا کام ہے کہ امت کوایمان اور عمل پرلائیں اورجواس پرآئیں تو ان کےایمان اور اعمال کوبچائیں۔
خواتین کی دینی ذمہ داری:
یہ مردوں کے ذمہ بھی ہےاورعورتوں کے ذمہ بھی ہے مرداپنی ترتیب پرکام کریں عورتیں اپنی ترتیب پرکام کریں۔ مردوں کاکام ہے باہر دین کا کام کرنا اور عورتوں کاکام ہے چار دیواری کے اندر دین کاکام کرنا، بچوں کی صحیح تربیت کرنا، خاوند کی خدمت کاخیال رکھنا،اپنےگھرکوصاف ستھرا رکھنا، کھانے پکانے کااہتمام کرنا۔ تو باہرکےکام مردوں کےذمےہیں اور گھر کے کام عورتوں کے ذمےہیں۔ یہ ترتیب وہ ہےجورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی اور بی بی فاطمہ رضی اللہ عنہا کے درمیان خودلگائی ہے کہ علی! تم باہر کےکام کرو اور زھرا !تم گھرکےکام کرو۔
کام کی تقسیم کا دائرہ کار :
مرد؛ دین کاکام باہر کرے، عورتیں دین کاکام گھر کے اندر کریں۔ عورت اپنےبچے کی صحیح تربیت کرے، اپنے گھرسےبدعات کوختم کرے، رسومات کوختم کرے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کاماحول اپنے گھر کو دے، ان شاءاللہ گھرکاماحول نورانی ہو جائے گا۔ مردباہرنبی کےسنتوں کو پھیلائیں گے، باہرکاماحول نورانی ہوجائےگا۔ اگر گھراورباہرکاساراماحول نورانی بنانا چاہتےہیں تومردبازاروں میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کےسنتوں کوعام کردیں اور عورتیں گھرمیں پیغمبرصلی اللہ علیہ وسلم کی سنتوں کو عام کریں۔
اللہ اور اس کا رسول کیسے خوش ہوتے ہیں ؟:
ہمارے معاشرہ میں عورتوں نے ایسے قبیح رسم وراج شروع کیےہیں کہ الامان والحفیظبندےکوسن کربھی شرم آتی ہےعورتوں کودیکھوتوبال کٹوا رہی ہیں کیونکہ خاوندخوش ہوتےہیں، مرد داڑھی کٹوادےگا،کیوں کہ میری بیوی خوش ہوتی ہے۔ بھائی ! نہ مردداڑھی کٹوائے عورت کوخوش کرنےکیلئے اور نہ عورت بال کٹوائے مرد کو خوش کرنےکیلئے۔ مردبھی سوچےکہ نبی کیسےخوش ہوتے ہیں اور عورتیں بھی سوچیں کہ ہمارےنبی کس سے خوش ہوتےہیں؟ اللہ کےنبی خوش ہوتےہیں مردمٹھی بھر ڈاڑھی رکھےاورعورت بال لمبے رکھے۔
فرشتوں کو تسبیح :
حدیث مبارک میں ہے کہ اللہ کےفرشتے یہ تسبیح پڑھتےہیں
سبحان الله الذي زين الرجال باللحى والنساء بالذوائب
)الفردوس بماثور الخطاب: رقم الحدیث(6488
اےاللہ! توپاک ہے مرد کو ڈاڑھی دےکرتونےزینت دی ہے اور عورت کولمبےبال دےکرتونےزینت دی ہے۔ تومردکاحسن ڈاڑھی میں ہے اور عورت کا حسن سرکےبالوں میں ہے۔
خواتین کے بالوں کا شرعی حکم :
اسی طرح ایک نیارواج شروع ہوگیاہے عورتوں میں، اپنےبھنویں کٹوانا شروع کر دیےہیں اوراپنےابروکٹواتی ہیں اورابرو کے بال باریک کرواتی ہے۔اللہ ہدایت عطا فرمائےکہ عورتوں نے یہ کیا کام شروع کردیاہے کہ اپنے چہرے کو گندا بنالیتی ہیں، جوحسن اللہ نے عطافرمایا اسی حسن کوکافی سمجھو اوراپنی طرف سےشیطانی حسن کےاضافے مت کرو۔
جب عورت گھر سے باہر نکلتی ہے :
بعضوں نے تو یہ کام شروع کردیاہے کہ خوشبو لگا کر باہر نکلتی ہیں۔ اللہ محفوظ رکھے۔ اس سے بچا کریں، مرد کوچاہیے خوشبولگائے، عورت کوچاہیے رنگ کا استعمال کرےلیکن وہ بھی باہر کیلئےنہیں اپنےشوہرکیلئے۔ مرد تو خوشبو لگاکے باہر جائے لیکن اگرعورتیں خوشبو لگا کر باہر نکلیں تو ان پرلعنت برستی ہے۔ جب گھر سے باہر نکلیں قطعاً خوشبولگاکرباہرنہ نکلیں۔
شوہر کی دل بستگی :
گھر کے اندرٹھہریں خوشبولگائیں شوہرکیلئے لگائیں جب شوہرگھرمیں آتا ہے اتنی گندی حالت میں ہوتی ہیں کہ شوہرکاقریب آنےکودل نہیں کرتا اور باہر جب کسی شادی کوجاناچاہیں توپھردلہن کی طرح بناؤ سنگھارکرکے جاتی ہیں،اس کی شریعت میں گنجائش نہیں۔عورت کو چاہئے اپنے گھر میں اپنےآپ کوبنا سنوار کے رکھے اور بازار میں اس حالت میں نہ جائے کہ شیطان اس کےاوپرحملہ کرے۔
بیان کا خلاصہ :
بہر حال میں نے دوباتیں آپ کےسامنے بیان کی ہیں کہ ہمارانام اہل السنت والجماعت ہے اور ہمارا کام امت کوایمان اوراعمال پرلانااورامت کاایمان اوراعمال بچانا ہے۔ ہم اپنےنام کا بھی خیال کریں اورہم اپنےکام کابھی خیال کریں۔ اللہ ہم سب کوان پرعمل کرنےکی توفیق عطافرمائے۔ اللہ مجھے سےبھی راضی ہواللہ آپ سےبھی راضی ہو۔
صراط مستقیم کورس کا اجراء
میری تمام خواتین سےگزارش ہےمیں ہربیان میں عرض کرتاہوں ماہانہ بیان میں پابندی سے شرکت کریں اوروقت پرآنےکااہتمام کریں، اپنی بچیوں کو مدرسےمیں داخل کروائیں، چھٹیاں آنےوالی ہیں جون کی، ان شاء اللہ اس دفعہ بھی ایک مہینےکا”صراط مستقیم کورس“ہوگا۔ابھی سےاپنےگاؤں میں آواز لگائیں کہ صراط مستقیم کورس کرناہے ان شاءاللہ، اپنی بچیاں جوسکول سےفارغ ہورہی ہیں ان کو مدرسے میں داخل کروائیں، قران کریم کوناظرہ وحفظ کریں،اپنی بچیوں کو بھی حفظ کرواؤ، اپنےبچوں کوبھی حافظ بناؤاورقرآن کے ساتھ دل لگاؤ۔اللہ کےنبی کےدین کےساتھ اپنےگھرکوروشن کرو، اللہ ہمارے گھر بار کو روشن فرمائے گا اللہ تعالیٰ ہمیں دنیا و آخرت کی پریشانیوں سے نجات دے اور عافیت کے ساتھ دین کی خدمت کی توفیق عطا فرمائے۔
وَآخِرُ دَعْوَانا أَنِ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ