سورۃ العصر اورانسانی معاشرہ

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
سورۃ العصر اورانسانی معاشرہ
اَلْحَمْدُ لِلَّهِ نَحْمَدُہُ وَنَسْتَعِينُهُ وَنَسْتَغْفِرُهُ،وَنَعُوذُ بِاللَّهِ مِنْ شُرُورِ أَنْفُسِنَا وَمِنْ سَيِّئَاتِ أَعْمَالِنَا . مَنْ يَهْدِهِ اللَّهُ فَلَا مُضِلَّ لَهُ ، وَمَنْ يُضْلِلْ فَلَا هَادِيَ لَهُ ، وَنَشْهَدُ أَنْ لاَ إِلٰهَ إِلَّا اللهُ وَحْدَهُ لاَ شَرِيْكَ لَهُ وَنَشْهَدُ أَنَّ سَيِّدَنَا مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ ، صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَعَلَى آلِهِ وَصَحْبِهِ وَسَلَّمَ تَسْلِيمًا كَثِيرًا اَمَّابَعْدُ فَاَعُوْذُ بِاللّهِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِ بِسْمِ اللّهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ: وَالْعَصْرِ (1) إِنَّ الْإِنْسَانَ لَفِي خُسْرٍ (2) إِلَّا الَّذِينَ آمَنُوْا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ وَتَوَاصَوْا بِالْحَقِّ وَ تَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ (3)
اَللّٰهُمَّ صَلِّ عَلٰى مُحَمَّدٍ وَعَلٰى آلِ مُحَمَّدٍ كَمَا صَلَّيْتَ عَلٰى إِبْرَاهِيْمَ وَعَلٰى آلِ إِبْرَاهِيْمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ۔اَللّٰهُمَّ بَارِكْ عَلٰى مُحَمَّدٍ وَعَلٰى آلِ مُحَمَّدٍ كَمَا بَارَكْتَ عَلٰى إِبْرَاهِيْمَ وَعَلٰى آلِ إِبْرَاهِيْمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ۔
میں نے آپ کے سامنے سورۃ العصر کی تلاوت کی،سورۃالعصر قرآن مجید میں تیسویں پارے کی نہایت مختصر تین آیات پر مشتمل سورۃہے ۔اس سورۃ مبارکہ میں اللہ رب العزت نے قسم اٹھا کر نہایت اہم مضمون ارشاد فرمایا ہے۔ پہلے اللہ رب العزت نے قسم اٹھائی ہے اور بعدمیں مضمون بیان فرمایا۔
سورۃ العصر کا آسان ترجمہ:
وَالْعَصْرِقسم ہے زمانے کی إِنَّ الْإِنْسَانَ لَفِي خُسْرٍبےشک انسان وہی کامیاب ہو سکتا ہے إِلَّا الَّذِينَ آمَنُوْاجو ایمان لائےیعنی عقیدے ٹھیک ہوںوَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ اور اعمال سنت کے مطابق ہوںوَتَوَاصَوْا بِالْحَقِّاورصحیح عقیدہ اور مسنون عمل کی دعوت دےوَ تَوَاصَوْا بِالصَّبْرِاگر اس دعوت پر مشکلات آجائیں تو خندہ پیشانی سے برداشت کرے۔
غیر اللہ کی قسم کا شرعی حکم :
پہلی بات اللہ رب العزت نے زمانے کی قسم اٹھائی،مسئلہ یاد رکھیں اللہ کی ذات کے علاوہ کسی دوسری ذات کی قسم اٹھانا جائز نہیں حتیٰ کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جو اس کائنات مین اللہ رب العزت کے بعد سب سے زیادہ محترم ومقدس ، عظمت والی ہستی ہیں ان کے نام کی بھی قسم اٹھانا امت کے لیے جائز نہیں،قسم اٹھائیں تو صرف اللہ تعالیٰ کی ذات کی۔
مروجہ غیرشرعی قسمیں :
ہمارے ہاں آج رواج چلا ہے کبھی اللہ کے علاوہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے نام کی بھی قسم اٹھاتے ہیں ،کبھی قسمیں اٹھاتے ہیں بیٹے کی،کبھی بیٹی کی،کبھی قسم اٹھاتے ہیں ماں کی،آج کے دور میں تو بڑا ظلم ہوا ہے آج قسم اٹھاتے ہیں بطور پیار کے،کہتے ہیں میری محبت کی قسم ،اللہ محفوظ فرمائے !یہ گناہ کبیرہ ہے اس گناہ سے بچنا چاہیے۔ناجائز محبت تو ویسے بھی جائز نہیں پھر اس ناجائز محبت کی قسمیں اٹھانا کتنا بڑا گناہ ہے اس سے توخطرہ ہے کہ آدمی اللہ کے نام کی بجائے غلط چیزوں کو استعمال کرے تو کہیں انسان کا ایمان ہی خراب نہ ہوجائےتو قسم اٹھائیں تو صرف اللہ کے نام کی اللہ کی ذات کے علاوہ کسی اور کی قسم اٹھانا جائز نہیں۔
قسم کی اقسام:
پھر قسم کے بارے میں دوسری بات ذہن میں رکھیں کہ قسم کی تین قسمیں ہیں۔1:یمین لغو،2:یمین غموس،3:یمین منعقدہ
عربی زبان میں قسم کو یمین کہتے ہیں تو یہ یمین کی تین قسمیں ہیں۔
یمین لغو اور اس کاحکم:
یمین لغو کسے کہتے ہیں۔لغو کا مطلب ہے آدمی خود کو سچا سمجھتا تھا لیکن قسم اس نے جھوٹی اٹھائی ہے یہ یمین لغو ہے مثلاً ایک بندہ نہیں آیا اور سمجھتا ہے کہ فلاں بندہ آیا ہے اور اس نے قسم اٹھائی ہے کہ خدا کی قسم وہ آگیا ہے لیکن وہ آیا نہیں تو یہ اپنے خیال میں قسم ٹھیک اٹھاتا ہے لیکن درحقیقت وہ ٹھیک نہیں ہوتی بلکہ خلاف واقعہ اور غلط ہوتی ہے۔اس کو لغو اس لیے کہتے ہیں کہ یہ ضائع ہوگئی نہ گناہ ہے نہ اس کے اوپر کفارہ ہے کچھ بھی نہیں یمین لغو میں یہ بھی شامل ہےکہ آدمی کہنا کچھ چاہتا ہے اور زبان سے نکل کچھ اور جاتا ہے اس کو یمین لغو کہتے ہیں۔ تو گزشتہ کام کے کرنے پر قسم اٹھائی فلاں کام کیا ہےیہ سمجھ کر کہ کیا ہے۔حالانکہ اس نے کیا نہیں تھا اسی طرح کسی نے قسم اٹھائی کے فلاں کام نہیں کیا،حالانکہ اس نے کیا تھا یہ یمین لغو ہے۔اسی طرح آئندہ کسی کام کے کرنے یا نہ کرنے کی قسم اٹھائی یا کہنا کچھ چاہتا تھا زبان سے کچھ اور نکل گیا ہے اس پر کفارہ بھی نہیں اور گناہ بھی نہیں۔
یمین غموس اور اس کاحکم:
آدمی کسی گزشتہ کا م کے کرنے پر قسم اٹھائے کہ میں نے فلاں کام کیا ہے یہ سمجھ کرکہ کیا ہے حالانکہ سمجھتا بھی ہے کہ کیا بھی نہیں جان بوجھ کر جھوٹی قسم اٹھائی اسی طرح کسی بندے نے قسم اٹھائی کہ میں نے فلاں کام نہیں کیا حالانکہ اس نے کیا تھا اور وہ سمجھتا بھی ہے کہ اس نے کیا تھا پھر بھی جھوٹ بولتا ہے کہ میں نے یہ کام نہیں کیا اسے یمین غموس کہتے ہیں۔
غموس کا معنیٰ ہے ڈوب جانا یہ قسم بھی بندے کو گناہوں میں ڈبو دیتی ہے۔ بہت بڑا گناہ ہے لیکن چونکہ ماضی کی قسم ہے اس کے اوپر کفارہ نہیں۔
یمین منعقدہ اور اس کاحکم:
آئندہ کسی کام کے کرنے یا کسی کام کے نہ کرنے کی آدمی قسم اٹھائے کہ اللہ کی قسم میں تمہیں اتنے پیسے دوں گا پھر اگر پیسے نہ دئیے تو گناہ بھی ہوگا اور کفارہ بھی ہے اس لیے کوئی کہتا ہے خدا کی قسم میں گھر نہیں آؤں گا اب جب گھر آئے گا تو اس کو گناہ بھی ہوگا اور جھوٹی قسم اٹھانے کا کفارہ بھی دینا ہوگا۔ اسلیے جوآئندہ کسی کام کے کرنے کی قسم اٹھاتا ہے پھروہ کام نہیں کرتا تو اس صورت میں کفارہ بھی ہے اور گناہ بھی ہےاور اگر نہ کرے کی قسم اٹھائی اب کر لیتا ہے تو قسم کا گناہ بھی ہے کفارہ بھی ہے۔
قسم کاکفارہ:
قسم کے کفارے کی پہلی صورت یہ ہے کہ غلام آزاد کریں۔
عام حالات میں غلام الگ ہیں نوکر الگ ہیں ہمارےہاں نوکر ہوتے ہیں غلام نہیں ہوتےاورنوکرانیاں ہوتی ہیں باندیاں نہیں ہوتیں۔ اللہ کے راستے میں جہاد کریں اور جہاد کے دوران جو مرد کافروں کے گرفتار ہوجائیں اور ان کی جو عورتیں گرفتار ہوجائیں۔ مردوں کو غلام کہتے ہیں اور عورتوں کو باندیاں کہتے ہیں۔تو غلام کو آزاد کرے لیکن آپ کے چونکہ غلام تو ہیں نہیں تو غلام آزاد کہاں سے کریں گے۔تو دوسری صورت یہ ہے کہ آدمی تین روزے رکھے اور اگر تین روزے بھی نہیں رکھ سکتا تو پھر اس کی دو صورتیں ہیں دس مسکینوں کو درمیانے قسم کے کپڑے دے دیں یا دس مسکینوں کو کھانا کھلا دیں تو جو بھی کرنا چاہیں کر سکتے ہیں غلام آزاد کریں یا تین روزے رکھیں یا دس مسکینوں کو کھانا کھلائیں یا دس مسکینوں کو کپڑے دے دیں یہ قسم کا کفارہ ہے۔اللہ ہم سب کی حفاظت فرمائے۔
ناجائز کام پر قسم کا شرعی حکم :
اگر کسی انسان نے قسم کھائی ہے لیکن غلط کھائی ہے ایک جائز کام تھا، دین کا کام تھا اور اس نے نہ کرنے پر قسم اٹھائی ہےاب اس کو اپنی قسم توڑنی چاہیے اور اس کے ذمے قسم کا توڑنا ضروری ہے مثلا ایک آدمی نے قسم کھائی کہ میں نماز نہیں پڑھوں گا اب ظاہر ہے نماز پڑھنا اس کے ذمے فرض ہے اب وہ اس قسم کو توڑےاور کفارہ ادا کرے اور نماز پڑھے اوراگر اس نے قسم اٹھائی ہے کہ میں بچوں کو انکے حقوق نہیں دوں گا تو اس کے ذمے ضروری ہے کہ اس قسم کو توڑے اور کفارہ ادا کرے اور ان کے حقوق ادا کرے اوراگر بیوی نے قسم اٹھائی کہ شوہرکی میں خدمت نہیں کروں گی میں اپنے پاس نہیں آنے دوں گی اس طرح اگر غلط قسم اٹھائی ہے تو اس قسم کو توڑے اور کفارہ ادا کرے اوراس کو پاس بھی آنے دے لہٰذاضروری ہے کہ اگر شریعت کے کام میں غلط قسم اٹھائی ہے اس قسم کو توڑنا چاہیے اور کفارہ ادا کردینا چاہیے۔
اللہ تعالیٰ نے قسم کیوں اٹھائی؟:
بہرحال میں بتا یہ رہا تھا کہ والعصر اللہ رب العزت نے قسم اٹھا کر اگلا مسئلہ سمجھایا ہے۔ اللہ کے علاوہ کسی کے نام کی قسم اٹھانا تو جائز نہیں ہے تو پھر اللہ نے یہ قسم کیوں اٹھائی ہے؟اب کسی بندے کے ذہن میں خیال آئے کہ اگر اللہ کے علاوہ کسی قسم اٹھانا جائز نہیں تو خود اللہ نے زمانے کی قسم کیوں اٹھائی ہے؟
اللہ تعالیٰ مکلف نہیں ہیں :
اس کا بڑا آسان اور صاف واضح جواب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ خالق ہیں مخلوق نہیں ،اللہ مالک ہیں مملوک نہیں ،اللہ احکام دیتے ہیں عمل نہیں کرتے ،اللہ کے ذمے احکامات دینا ہے اللہ کے ذمہ عمل کرنا نہیں
لَا يُسْئَلُ عَمَّا يَفْعَلُ وَهُمْ يُسْئَلُونَ۔
)الانبیاء:23(
اللہ تعالی ٰجو کام کریں اللہ سے کوئی نہیں پوچھ سکتاپوچھا مخلوق سے جاتاہے اس لیے اللہ تعالیٰ پابند نہیں ہیں کہ یہ کام کریں اور یہ نہ کریں ،یہ پابندیاں مخلوق پر ہیں اللہ پر نہیں۔
اللہ تعالیٰ کے قسم اٹھانےکی حکمت:
اس حوالے سے یہ بات ذہن نشین کرلیں اللہ جتنی چاہے قسمیں اٹھائیں، اللہ رب العزت جب بھی کسی چیز کی قسم اٹھاتے ہیں تو اس کی عظمت یا خاص اہمیت کی وجہ سے ہوتی ہے قرآن کریم میں لَا أُقْسِمُ بِهَذَا الْبَلَدِ اللہ نے مکہ مکرمہ کی قسم اٹھائی ہے یہ مکہ مکرمہ کی عظمت کی وجہ سے ہے۔
وَالتِّينِ وَالزَّيْتُونِ وَطُورِ سِينِينَ وَهَذَا الْبَلَدِ الْأَمِينِ۔
اللہ رب العزت نے” تین“ کی قسم اٹھائی ، زیتون کے درخت کی قسم اٹھائی، طورسینا کی قسم اٹھائی ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے شہر کی قسم اٹھائی ہے۔ ان کے فوائد کے پیش نظرزیتون کی قسم اٹھائی ہے، اہمیت کی وجہ سے ان کی قسم اٹھائی تو جب اللہ مخلوق میں سے کسی چیز کی قسم اٹھائیں تو اس کی عظمت پیش نظر ہوتی ہے یا اس کی اہمیت پیش نظر ہوتی جیسا کہ اس سورۃ مبارکہ میں قسم اٹھائی ہے۔
متاعِ وقت اور اس کی قدر :
والعصرقسم ہے زمانے کی۔ اب یہ جو زمانے قسم اٹھائی ہے تو زمانے کی اہمیت کی وجہ سے اٹھائی ہے انسان قدر کرے تو وقت اور زمانہ اللہ تعالیٰ کی بہت بڑی نعمت ہیں۔ وقت کی مثال برف کی طرح ہے برف پڑی ہو پگھلتی رہتی ہے اور آہستہ آہستہ پانی بن کے ختم ہوجاتی ہے خوش قسمت وہ انسان ہیں جو برف کو پگھلنے سے پہلے پہلے اپنے کام میں لائیں بالکل اسی طرح اللہ رب العزت نے وقت کو قیمتی بنایا ہے۔ آدمی وقت کو قیمتی بنائے صحیح استعمال کرے۔
زندگی اور لامحدود زندگی :
وقت نے گزر جانا ہے ،بچپن سے جوانی،جوانی سے بڑھاپا اور بڑھاپے سے موت ،وقت تو گرز ہی جائے گا لیکن یہ ذہن میں رکھیں دنیا کی چند روزہ زندگی پر آخرت کی زندگی کا مدار ہے۔ اللہ پابند نہیں ہیں یہ کام کریں اور یہ کام نہ کریں پابندیاں تو مخلوق پر ہیں اللہ پر نہیں۔دنیا کی تھوڑی سی زندگی دراصل ہے آخرت کی زندگی ہمیشہ رہنے والی دار الجزاء ہے۔ اس دارالعمل میں ہم جو بھی کام کریں اپنی حیثیت کے مطابق کریں گے اللہ اس دارالجزاء میں جو بھی اجر دیں گے اپنی شان کے مطابق اجر اور جزاء دیں گے۔بندے کی حیثیت محدود ہے بندے کا عمل بھی محدود ہے اللہ کی شان غیرمحدود ہے اللہ کی طرف سے دیا جانے والا اجر اور جزا دونوں بندے کے علم کے اعتبار سے غیر محدود ہیں کہ آدمی کو وقت قیمتی بنانا چاہیے ،ضائع نہیں کرنا چاہیے۔
تربیت اولاد میں کوتاہیاں:
ہمارے ہاں اگر کوئی بچپن میں کوتاہی کرے اور اس کو سمجھانے لگیں تو ڈانٹ دیتے ہیں اورکہتے ہیں چھوٹا بچہ ہے بڑا کر ہو کر سمجھ جائے گا بچوں کو ڈانٹتے ہو اور بڑی سختی کرتے ہو ،بڑے پتھر دل ہو حالانکہ یہی نرم دلی کل کو برباد کرتی ہے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ کون دنیا میں شفیق ، نرم دل اور محبت کرنے والا اور پیار کرنے والا ہوسکتاہے ؟حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تو اللہ کی قسم ماؤں سے بڑھ کر اپنی امت سے پیار فرماتے ہیں۔ ماں کو تنگ کریں تو ماں بددعا کرتی ہے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو لوگوں نے کتنا تنگ کیا ہے لیکن سوائے ایک دو مواقع کے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے امت کو دعائیں دی ہیں بددعاؤں سے نہیں نوازا اس پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے
مُرُوا أَوْلاَدَكُمْ بِالصَّلاَةِ وَهُمْ أَبْنَاءُ سَبْعِ سِنِينَ وَاضْرِبُوهُمْ عَلَيْهَا وَهُمْ أَبْنَاءُ عَشْرِ سِنِينَ۔
)سنن ابی داود (
جب تمہاری اولاد سات سال کی ہو اس کو نماز کا حکم دو اور جب یہ دس سال کی ہوجائے اور نماز نہ پڑھے تو مارو۔
مارنے کی حدود:
مارنے کا مطلب یہ نہیں کہ سر پھاڑ دو ،ہڈی توڑ دو،بازو توڑ دو لیکن ہلکی پھلکی ڈانٹ دو کہ اولاد کے ذہن میں ہو کہ اگر نماز نہ پڑھی تو ہمیں امی مارے گی نماز نہ پڑھی تو ابو ماریں گے،لیکن یہ بات تب ہے اگر ماں خود بھی پڑھے اور باپ خود بھی پڑھے اگر ماں خود نماز نہ پڑھے اوراولاد کو کہے تو اولاد پر اثر نہیں ہوگا باپ خود نہیں پڑھے گا تو اثر نہیں ہوگا۔
ناراضگی کا اظہار:
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے کہ اگر اولاد نماز نہ پڑھے تو مارو! تواب بتائیں نماز جیسے احکام چھوڑنے پر اللہ کے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم نےکس قدر ناراضگی کا اظہار فرمایا ہے۔
پیار پلس مار :
ہمارے ہاں حکومتوں نے اولاد کو خراب کرنے کے لیے جملہ دیا ہےجو سکولوں کے باہر لکھا ہوا ہے کہ” مار نہیں پیار“ ہم یہ نہیں کہتے کہ مارو ! لیکن ہم یہ کہتے ہیں کہ اس جملے کو بدلو! یہ جملہ ٹھیک نہیں بلکہ جملہ ہونا چاہیے ”پیار پلس مار“پیار بھی ہو اور مار بھی ہولیکن مار بھی محبت والی ہو، لہٰذامار نہیں پیار کی بجائے پیار پلس مار ہوناچاہیے اولاد کے ساتھ شفقت بھی ہو اور اگر بات نہ مانیں تو سزا بھی ہلکی پھلکی دینی چاہیے۔
رحمت کائنات کاتربیتی اصول :
اگر سزا دینا یہ رحمت اور محبت کے خلاف ہے تو سرور عالم صلی اللہ علیہ وسلم جیسی مقدس ہستی اولاد کو نماز نہ پڑھنے پر سزا دینے کی بات کیوں فرماتی ؟اس کا معنیٰ یہ ہے جب یہ بات تنبیہہ سے نہ سمجھ میں آئے تو اس کو سمجھانے میں ہلکی پھلکی مار کی گنجائش موجود ہے جیسے قرآن کریم میں ہے
وَاللَّاتِي تَخَافُونَ نُشُوزَهُنَّ فَعِظُوهُنَّ وَاهْجُرُوهُنَّ فِي الْمَضَاجِعِ وَاضْرِبُوهُنَّ
 النساء:36
عورت اگر شوہر کی نافرمانی کرے تو شوہر کو چاہیے کہ عورت کا سمجھائے اگر سمجھنے سے باز نہ آئے تو اس کا بستر الگ کردےاور اگر پھر بھی باز نہ آئے تو پھر اس کو ہلکی پھلکی مار بھی دے سکتا ہے۔جو حکم شریعت حکم دیتی ہے میں اور آپ کون ہوتے ہیں اس حکم کو بدلنے والےلہٰذاشریعت کے احکام کو مانے بھی اور شریعت کا مذاق اور تمسخر بھی نہ اڑائے یہ دونوں ایمان سے محروم کردینے والی باتیں ہیں۔
بچپن کی تربیت:
بچپن میں اولاد نافرمانی کرے تو سمجھاتے نہیں ہیں چھوٹے بچےکو سونے کی انگوٹھی پہنا دیتے ہیں۔ بھئی! سونے کی انگوٹھی بچے کو کیوں پہناتے ہو اگر پہنانی ہے تو بچی کو پہناؤ! بیٹے کو کیوں پہناتے ہو بیٹے کا کام انگوٹھیاں پہننانہیں۔ جب شروع میں سونے کا زیور پہنائیں گے تو عادی ہوجائےگا اورگناہوں میں مبتلا ہوگا۔ چھوٹا بچہ ہوگا تواس کو کھیلنے کے لیے مصنوعی تصویر والے جانور دیں گے کسی نے بھالو دے دیا ہے ،کسی نے کتا دیا ہے ،کسی نے بندر دیا ہے ،کسی نے ریچھ دیا ہے اور اس کو ٹی وی دے دیں گے۔ بچپن میں اولاد کو گناہ کے مت عادی بنائیں۔
بچپن اور مستانی جوانی :
میں یہ بتا رہا تھا کہ جب بچپن میں منع کریں تو کہتے ہیں کہ ابھی تو بچہ ہے بڑا ہوکر ٹھیک ہوجائے گا اور اگر جوانی میں منع کریں تو پھر کہتے ہیں کہ جوانی مستانی ہوتی ہے ،جوانی تو عمر ہی ایسی ہے اس عمر میں گناہ تو ہو ہی جاتے ہیں اور جب بوڑھا ہو پھر منع کریں تو کہتے ہیں بوڑھے تو بچوں کی طرح ہوتے ہیں اس عمر میں ڈانٹنا نہیں چاہیے۔
اب بتائیں سمجھانے کی عمر کون سی ہے؟بچپن میں نہ سمجھاؤکہ ابھی بچہ ہے، جوانی میں سمجھاؤ کہ ابھی مست ہے اور بڑھاپے میں نہ سمجھاؤ کہ بابا جی بچوں کی طرح ہیں تو پھر کس عمر میں سمجھانا ہے؟
ماں باپ تربیت کریں :
ماں کے ذمے ہے بچے کی تربیت کرے، باپ کے ذمے ہے اولاد کی تربیت کرے اور جب بچے چھوٹے ہوں تو ماں کے ذمے بچے کی تربیت باپ سے زیادہ ضروری ہے اور ماں کے ذمے باپ سے بھی زیادہ حقوق ہیں کیوں کہ ماں بچے کے پاس ہر وقت رہتی ہے تو ماں کو چاہیے کہ اس بچے کا خیال کرے اور بچوں کی تربیت کرے۔
تربیت کے ساتھ دینی تعلیم:
ایک اہم بات یہ ہے کہ اپنے بچوں کو ،اپنی بچیوں کو دین پڑھاؤ، قرآن کریم سکھاؤ، قرآن کا ترجمہ پڑھاؤ، حدیث پڑھاؤ، شریعت پڑھاؤ، ان کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مبارک دعائیں سکھاؤ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ادائیں سکھاؤ،پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کے مسنون اعمال سکھاؤ یہ بچپن میں سکھاؤ۔یہ ہم بار بار اس لیے کہتے ہیں کہ اپنی بچیاں مدرسے بھیجو !چھوٹی بچی قرآن پڑھے، قرآن کی حافظہ بنے اور بعد میں جاکےا س کو پڑھائے بھی۔
چھوٹی عمر کی بچیاں اور تعلیمی ادارے :
چھوٹی بچی کو دین کی طرف لگاؤ،جب بڑی ہوگی تو دنیا کے فنون بھی پڑھ لے گی جو سمجھنے کی عمر ہے اسکولوں میں برباد کرالیتے ہیں اور جب بعد میں بڑی ہوتی ہیں تو پھر مدرسے کی طرف بھجوا دیتےہیں اور مدرسہ ان کا مزاج بنتا نہیں ہے لہٰذاتمام آنے والی ہماری مائیں ، ہماری بہنیں ،ہماری بیٹیاں نیت کریں کہ اپنی اولاد کومدرسے میں داخل کرانا ہے بچوں کو بچوں کے مدرسے میں بھجوائیں اوربچیوں کو بچیوں کے مدرسے بھجوائیں سارے دین پڑھیں۔ دنیا میں اگر چند دن کی زندگی دین پر لگا دی تو آخرت کی ابدی زندگی ٹھیک ہوجائے گی۔
روشن مستقبل کی تلاش :
میں ایک جگہ پہ گیا تو وہاں کچھ بچیاں تھیں اور رشتے دار بھی تھے میں نے انہیں ترغیب دی کہ اپنی بچیوں کو کالج کی بجائے مدرسے داخل کراؤ آپ کے پاس ٹائم ہےجبکہ بچیوں کا اصرار یہ تھا کہ ایف اے کرنا ہے۔ بی اے کرنا ،ایم اے کرنا کوئی جرم تو نہیں ہےمیں نے کہا کہ نہیں بیٹی !جرم تو نہیں لیکن مدرسے میں جانابھی تو گناہ نہیں ہے مدرسے میں جاؤ ،ان کا خیال یہ تھا ہم کالج میں پڑھتی ہیں اپنا مستقبل سنوار رہی ہیں میں نے ان سے کہا کتنے سال پڑھا ہے تم نے ؟ایک کہتی ہے ایف۔ اے میں ہوں،ایک بی۔ اے میں،اور ایک ایم اے میں،میں نے کہا سولہ سال تم نے پڑھ لیا اپنا مستقبل سنوارنے کے لیے اب یہ بتاؤ تمہارا مستقبل کتنا بڑا ہے،60 سال، 70سال ،80 سال ،90سال کتنی عمر ہوگی تمہاری؟ ، اس امت کی اوسط عمر60 سے70 سال ہے یعنی کسی کی عمر5 سال ہے تو کسی کی 75 ہے،کسی کی 10ہے تو کسی65 ہے ،کسی کی 55 ہے تو کسی کی 95 سال ہے۔
ابدی زندگی کا نصاب :
تم نے 16 سال پڑھا ہے تو پھر موت کے بعد ابدی زندگی کے لیے تو تمہیں پوری زندگی دین پڑھنا چاہیے تھا۔کالج والے 16 پڑھاتے ہیں ، ماسٹر کرواتے ہیں پھر ڈگریاں دیتے ہیں ،پھر ڈاکٹر بناتے ہیں ہم اس کی مخالفت نہیں کرتے بلکہ میں نے کہا اگر بچی پڑھنا چاہے تو جائز ہے لیکن ہم کہتے ہیں ابدی زندگی کے لیے دو سال کا کورس کم از کم کر لے،4 سال کا درس نظامی پڑھ لے 3 سال میں قرآن کریم حفظ کرلے یہ پانچ 10سال اس پہ لگائیں اللہ برکت دے گا اور ان شاء اللہ ہمارا ارادہ بھی ہے آپ ساری مائیں بہنیں اور بیٹیاں دعا کریں اللہ یہ منصوبہ جلدی پورا فرمادے !
مرکز اصلاح النساء میں :
ہماری خواہش یہ ہے کہ ہمارے اس مرکز اصلاح النساء کے ساتھ جو جگہ ہے یہاں بچیوں کے لیے دونوں کام شروع کرا دیں بچیاں حفظ بھی کریں بچیاں دین بھی پڑھیں اور ساتھ ساتھ سکول بھی پڑھیں ان شاء اللہ۔ اللہ نے چاہا تو آئندہ سال کوئی ترتیب بنا دیں گے ورنہ اب بھی جو چھوٹی بچیاں پڑھ رہی ہیں میں نے گھر والوں سے کہا ہے کہ آپ بچیوں کو پڑھانے والی استانی تلاش کرو جو ان کو سکول بھی پڑھائے تاکہ بچیاں حفظ بھی کرتی رہیں اور ساتھ ساتھ ان کے سکول کا نظام بھی چلتا رہے تو ہم سکول کے مخالف نہیں ہیں لیکن ہم کہتے ہیں پہلے دین ہو اور دین کے بعد بچیوں کو سکول کی طرف لانا چاہیے۔
والعصر،اللہ نے قسم اٹھائی ہے زمانے کی اور قسم اٹھا کر فرمایا إِنَّ الْإِنْسَانَ لَفِي خُسْرٍ،سارے کے سارے انسان دنیا کے گھاٹے میں خسارے کے اندر ہیں مگر وہ لوگ جو ایمان لائے۔ پتہ یہ چلا کہ دنیا میں کامیابی کامدار ایمان ہے ،کامیابی کا مدار اچھے اعمال ہے ،کامیابی کا مدار شریعت پہ عمل کرنا ہے۔
إِلَّا الَّذِينَ آمَنُوا ،
کامیابی کامدار:
تو کامیابی کا مدارچار چیزیں ہوگئیں:

1)

عقیدہ ٹھیک ہو۔

2)

اعمال سنت کے مطابق ہوں۔

3)

صحیح عقیدہ اور مسنون عمل کی دعوت ہو۔

4)

اگر اس دعوت پر مشکل آجائے تو خندہ پیشانی سے برداشت کرے۔
یہ چار چیزیں کامیابی اور نجات کا مدار ہیں۔اور ہمیں ان چاروں پر عمل کرنا چاہیے ان میں سے پہلی چیزعقیدہ ہےاللہ کی ذات کے بارے میں، رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے بارےمیں ،حضرات صحابہ کرام کے بارے م،یں اولیاء کرام کے بارے میں ملائکہ کے بارے میں،جنت اور جہنم کے بارے میں ،آسمانی کتابوں کے بارے میں،تقدیر کے بارے میں۔
بنیادی عقائد:
صفت ایمان مفصل اور صفت ایمان مجمل ان ساری باتوں پر ایمان لانا ضروری ہے ان میں سے ایک چیز کو بھی چھوڑ دیا تو بندے کا عقیدہ ٹھیک نہیں ہوگا اپنے عقیدے کو ٹھیک کریں اور جن کے عقیدے غلط ہیں ان سے بھی دور رہیں ان سے الگ رہیں ان کے ساتھ شامل نہ ہوں وہ الگ ہیں اورسنی الگ ہیں ،شیعہ الگ ہیں ،مرزائی الگ ہیں،ہندو الگ ہیں، سکھ الگ ہیں۔ ہم اہل السنت والجماعت دیوبندی ہیں ،ہم سنی ہیں ،ہم حنفی ہیں۔ ہمارا تعلق علماء دیوبند کے ساتھ ہے، ہمارے عقیدے قرآن وسنت کے مطابق ہیں اور قرآن وسنت کے خلاف نہیں ہیں۔اس لیے اپنے عقیدوں کو بالکل ٹھیک ٹھاک رکھنا چاہیے تاکہ عقائد کے اندر کسی قسم کی کمی نہ ہو۔
اللہ تعالیٰ کے متعلق چند عقائد :
اللہ کی ذات کو وحدہ لاشریک لہ مانیں ،اللہ کو قادر مطلق مانیں، اللہ کو عالم الغیب مانیں ،اللہ کو مختار کل مانیں ،اللہ کو شفاء دینے والا مانیں ،اللہ کو عزت اور ذلت دینے والا مانیں، اللہ کو اولاد دینے والا مانیں ،اللہ رب العزت کو دنیا وجہاں کی پوری کائنات کا مالک مانیں ،اللہ رب العزت ہی داتا ہے، اللہ ہی مولا ہے ،اللہ ہی کارساز ہے۔ اللہ کے بارے میں عقیدہ رکھےکہ اللہ سمجھ آتا ہے نظر نہیں آتا ،اللہ ہر کسی کے دل میں ہے، اللہ عرش پر بھی ہے اور اللہ فرش پر بھی ہے، زمین پر بھی ہےاور آسمان پر بھی ہے کوئی ایسی جگہ نہیں جو اللہ کے قبضہ سے باہر ہو۔
وَكَانَ اللَّهُ بِكُلِّ شَيْءٍ مُحِيطًا
) النساء:126(
اللہ کی ذات تمام چیزوں پر محیط ہے:

۝

اللہ لامکان ہے اللہ کا جسم نہیں ہے۔

۝

آنکھ سے پاک ہے۔

۝

کان سے پاک ہے۔

۝

زبان سے پاک ہے۔

۝

اللہ ہاتھ اور پاؤں سے پاک ہے۔

۝

اللہ پکڑنے کے لیے ہاتھ کا محتاج نہیں ہے۔

۝

دیکھنے کے لیے آنکھ کا محتاج نہیں ہے۔

۝

سننے کے لیے کان کا محتاج نہیں۔

۝

بولنے کے لیے اللہ زبان کا محتاج نہیں ہے۔
اللہ ان تمام چیزوں سے پاک ہے ،اللہ مالک الملک ہیں۔ اللہ کے بارے یہ عقیدہ رکھیں۔
بشریت انبیاء علیہم السلام :
حضرت آدم علیہ السلام سے خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم تک سارے انبیاء انسان ہیں ،بشر ہیں اور ان کی صفتیں نور والی ہیں۔ صفت کے اعتبار سے نور ہیں اورذات کے اعتبار سے بشر ہیں ،کائنات میں سب سے اعلیٰ ہیں ،ان پرجو کتابیں اتری ہیں وہ بھی مانتے ہیں۔

موسیٰ علیہ السلام کو اللہ نے تورات دی ہے۔

عیسیٰ علیہ السلام کو اللہ نے انجیل دی ہے۔

حضرت داؤد علیہ السلام کو اللہ نے زبور دی ہے۔

ابراہیم علیہ السلام اور دیگر انبیاء علیہم السلام کو صحیفے دیے ہیں۔

خاتم الانبیاء سیدنا حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ نے قرآن کریم عطا فرمایاہے۔
حضور تمام انبیاء علیہم السلام سے اعلیٰ ہیں ،آخری نبی ہیں قرآن کریم واضح کتاب ہے ، تمام کتابوں سے اعلیٰ ہے۔
صحابہ کرام معیار حق ہیں :
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سارے کے سارے

مومن ہیں۔

عادل ہیں۔

محفوظ ہیں۔

حجت ہیں۔

امت کے لیے معیار حق ہیں۔

اور صحابہ کے ساتھ محبت ہمارے ایمان کا حصہ ہے۔
صحابہ رضی اللہ عنہم سے بغض رکھیں تو انسان ایمان سے نکل جاتا ہے۔ صحابہ کرام سے پیار کرنا ایمان ہے۔ ازواج مطہرات ہماری مائیں ہیں ان سے پیار کرنا ایمان ہے۔پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کی اولاد، پیغمبر کی بیٹیاں ،پیغمبر کے بیٹے ،پیغمبر کے داماد یہ سب اہل بیت میں شامل ہیں اور ہمارے ایمان کا حصہ اورہمارے سر کے تاج ہیں۔جو لوگ رسول کے صحابہ کونہ مانیں، اہل بیت کو نہ مانیں وہ ہمارے دشمن ہیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے اہل بیت کو مانیں، پیغمبر کے صحابہ کونہ مانیں وہ بھی ہمارے دشمن ہیں۔صحابہ ہمارے ایمان کا حصہ ہیں ہمارے سر کے تاج ہیں اگر آپس میں ان کا اختلاف بھی ہوجائے ،ہلکی پھلکی جنگ بھی ہوجائے ہمارا پھر بھی ایمان ہے۔
صحابہ کے بارے میں :

امی عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا ہماری ماں ہیں۔

حضرت علی رضی اللہ عنہ بھی ہمارے ہیں۔

حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ بھی ہمارے ہیں۔

حضرت حسن رضی اللہ عنہ بھی ہمارے ہیں۔

حضرت حسین رضی اللہ عنہ بھی ہمارے ہیں۔
جوصحابہ میں سےکسی کے خلاف کوئی جملہ کہے اس کے دانت توڑو ! اس کی زبان بند کرو! اسے خاموش کراؤ! کہ خبر دار !جوہمارے سامنے کسی صحابی کے بارے میں بات کہی۔ یہ جملہ چلتا ہے کہ پنجا ں تے باراں دا نام لیندے۔یہ بارہ کیا ہے؟
انبیاء معصوم ہیں :
نبی معصوم ہے نبی کے بعد کوئی معصوم نہیں ہے جو لوگ نبی کے بعد بارہ اماموں کو معصوم مانتے ہیں وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ختم نبوت پر ایمان نہیں لاتے اس لیے کہ نبی معصوم ہوتا ہے،نبی کے بعد کوئی بندہ معصوم نہیں ہے۔
سب صحابہ پاک ہیں:
پنجتن پاک کا نعرہ غلط ہے اس کا مطلب یہ ہوا اللہ کے نبی پاک ہیں علی پاک ، فاطمہ پاک ،حسن پاک ،حسین پاک ہیں اگرصرف یہ پاک ہیں تو پانچ کے علاوہ باقی

امی حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کی ماں ہیں العیاذباللہ کیا وہ پاک نہیں ہیں؟

آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہاکیا وہ پاک نہیں ہیں ؟

حضرت سودہ رضی اللہ عنہا کیا وہ پاک نہیں ہیں ؟

حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا کیا پاک نہیں ہیں ؟

حضرت زینب رضی اللہ عنہا کیا وہ پاک نہیں ہیں؟

اور پیغمبر کی چار بیٹیاں رضی اللہ عنہن کیا وہ پاک نہیں ؟

حضرت زینب رضی اللہ عنہا کیا وہ پاک نہیں ہیں ؟

حضرت رقیہ رضی اللہ عنہا کیا وہ پاک نہیں ہیں ؟

حضرت ام کلثوم رضی اللہ عنہا کیا وہ پاک نہیں ہیں ؟
حضرت فاطمۃ الزہرا رضی اللہ عنہم اجمعین۔ یہ سب پاک ہیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ساری اولاد اور سارے صحابہ پاک ہیں اس لیے پنجتن پاک والا نعرہ بالکل غلط ہے۔
خلفائے راشدین کی ترتیب :
خلفائےراشدین جن کو ”چار یار“ کہتے ہیں۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد

۝

پہلے خلیفہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ

۝

دوسرے حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ

۝

تیسرے حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ

۝

اور چوتھے حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ
یہ خلفائے راشدین ہیں۔
ائمہ اربعہ اور امام اعظم :
میں کہہ یہ رہا تھا کہ ہمیں اس بات پر ایمان لانا چاہیے کہ اللہ پر ایمان لائیں ، انبیاء کرام علیہم السلام پر بھی ایمان لائیں، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سارے صحابہ پر ایمان لائیں۔ صحابہ کے بعد ہمارے ائمہ فقہاء گزرے ہیں۔

امام اعظم ابوحنیفہ رحمہ اللہ

امام مالک بن انس رحمہ اللہ

امام محمد بن ادریس شافعی رحمہ اللہ

اور امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ
ان سارے اماموں کو مانتے ہیں لیکن جو ہمارے امام ہیں جن کی فقہ پرہم عمل کرتے ہیں ان کا نام ہے حضرت امام اعظم ابوحنیفہ نعمان بن ثابت رحمہ اللہ اور ہماری تمام ماؤں بہنوں اور بیٹیوں کو اپنے امام کا نام آنا چاہیے۔
اولیاء اللہ کو ماننا چاہیے :
حضرت امام اعظم ابوحنیفہ رحمہ اللہ یہ ہمارے بہت بڑے امام ہیں ہم انہی کی فقہ پر عمل کرتے ہیں انہی کی وجہ سے اپنے آپ کوحنفی بھی کہتے ہیں۔ ہم ان کو بھی مانتے ہیں پھر امام اعظم ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے بعد جتنے اولیاء ہیں ،فقہاء ہیں سب کو مانتے ہیں۔ انبیاء کو ماننا چاہیے، ولی کی بیعت کرنی چاہیے، ولی کی کرامت ماننی چاہیے،ولی شریعت پہ چلتا ہے ،ولی سے دعا کرانی چاہیے۔یہ سارے کام کرنے کے ہیں۔
بیعت کی اہمیت:
علماء سے تعلق رکھنا، علماء سے پوچھنا ،علماء کی دی ہوئی ہدایت کے مطابق چلنا، علماء سے بیعت کرنا یہ ہمارے ذمہ ہے۔ بیعت صرف مردوں کے لیے ہی نہیں ہے عورتوں کے لیے بھی ہے۔ مرد بھی بیعت کریں اور اپنے پیر ،شیخ،ولی سے پوچھ کر چلیں، عورتیں بھی بیعت کریں اور اپنے پیر ،شیخ ،ولی سے پوچھ کر چلیں ،اس صورت پر عمل کریں پھر جو بات ان کا پیرکہہ دے اس پر عمل کریں لیکن یہ ضروری ہے کہ بیعت اس سے کریں جو شریعت کا پابند ہو ،اس کو کسی بڑے شیخ نے اجازت دی ہو، علماء اس کے ساتھ تعلق رکھتے ہوں، دین داروں کا طبقہ اس کے ساتھ جڑا ہوا ہو،دنیا بٹورنے کی بجائے امت کو دین دیتا ہو توایسے شخص کی بیعت کرنی چاہیے ،اس سے پوچھ پوچھ کر چلنا چاہیے۔
کرامات پر ایمان لانا:
اولیاء کو ماننا، اولیا ءکی کرامات کو ماننا بہت ضروری ہے عالم کی اس کے علم کی وجہ سے توہین کرناکفر ہے انسان ایمان سے نکل جاتا ہے۔ جواولیاء کی توہین کرےتو اللہ تعالیٰ اعلان جنگ فرماتے ہیں۔ میں بتا یہ رہا تھا کہ سارے عقیدے مانیں۔ إِلَّا الَّذِينَ آمَنُوا ، ساری کتابیں مانیں؛ تورات ،انجیل، زبور، قرآن مجید ان کو مانیں ،انبیاء کرام سارے مانیں، کسی نبی کو گالی مت دیں ،کسی نبی کو برا مت کہیں اس سے آدمی ایمان سے نکل جاتاہے۔ یہودی موسیٰ علیہ السلام کو مانتے ہیں حضرت موسیٰ علیہ السلام کا انکار کردیتے ہیں ہم حضرت موسیٰ علیہ السلام کو بھی مانتے ہیں،حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو بھی مانتے ہیں۔ إِلَّا الَّذِينَ آمَنُوا ،کامیابی کے لیے دوسری چیز یہ ہے کہ انسان کے اعمال سنت کے مطابق ہونے چاہیں۔ بدعات سے بچے ،سنت کا اہتمام کرے ،زندگی سے لے کر موت تک، پیدا ہونے سے لے کر وفات تک،بچپن سے لے کر بڑھاپے تک اور اسی طرح لحد تک، پنگھوڑے سے لے کر قبر تک، ماں کے پیٹ سے لے کر قبرمیں جانے تک شریعت پر عمل کرے اور بدعات سے بچے۔
بدعات سے پرہیز:
ہمارے ہاں نت نئی بدعات آتی ہیں اللہ ہم سب کی حفاظت فرمائے۔ کبھی کنڈے کی رسم ہے ،کبھی قل کی رسم ہے ،کبھی ساتویں کی رسم ہے ،کبھی چالیسویں کی رسم ہے ،کبھی دسویں کی رسم ہے نہ معلوم کیا کیا خرافات ہیں۔ اللہ ان بدعات سےہمیں بچائے۔
سنت پرعمل کی فضیلت:
سنت کے مطابق عمل کریں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
من أحيٰ سُنَّة من سُنَّتي أمِيتَتْ بعدي فقد أحبنى ومن أحبنى كان معى فى الجنة
جب میری سنت ختم ہوجائے توجوبندہ اس کو زندہ کرے وہ میرے ساتھ محبت کرتا ہےاورجو میرے ساتھ محبت کرے گا وہ جنت میں میرے ساتھ ہوگا۔ اللہ مجھےبھی اور آپ کو بھی جنت میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جگہ عطا فرما دیں ،اللہ کے نبی کی صحبت عطا فرمادیں، نبی کی معیت عطا فر دیں۔اسلیے سنت کا اہتمام کریں اور بدعات سے بچیں
بنیادی اعمال:
اعمال میں بنیادی عمل یہ ہیں کہ کلمہ پڑھیں لاالہ الا اللہ محمد رسول اللہ پانچ وقت کی نماز پڑھیں ، اگر اللہ توفیق عطا فرمائے توزکوۃ ادا کریں۔
زیورات کی زکوٰۃ:
ہمارے ہاں بہت سی عورتیں ہیں ان کے ہاں زیور موجود ہوتا ہے عورت اپنے پاس زیور رکھتی ہے اور سال بعد زکوۃ نہیں دیتی اورشوہر کو کہتی ہے کہ زکوٰۃ تم دو ،اب اگرشوہر دے دے تو اس کی مہربانی ہے اگر نہ دے تو زکوۃ اس عورت کے ذمے ہے جو زیور کی مالک ہے۔ اگر شوہر دیتا ہے تو اس کی مرضی ہے اگر نہیں دیتا تو اس کے ذمے عورت کے زیورکی زکوٰۃاداکرنانہیں ہے عورت خودزکوۃ ادا کرے۔
زیور کا استعمال :
عورت کواگرزیور رکھنے کا شوق ہے توشریعت منع نہیں کرتی لیکن دکھلاوے کے لیے نہ ہو،دوسروں کو ذلیل جاننے کے لیے نہ ہو ،زکوۃ ادا کرے اوراللہ کا شکر ادا کرکے پہنے۔ عورتوں کی مجلس ہوتواس میں پہن لے، اپنے شوہر کے لیے پہنے، شوہر کے لیے بناؤ سنگھار کرے تو عبادت کا ثواب ملتا ہےاور غیروں کے لیے کرے تو گناہ ملتا ہے اس وجہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد ات ہیں ،نبی کے احکامات ہیں۔
پردے کااہتمام :
جب گھر سے باہر نکلے پردہ کرکے نکلے، باریک لباس پہن کے نہ نکلے، باہر جاتےوقت خوشبو استعمال نہ کرےاگر گھر میں خوشبو استعمال کرے تو بہتر ہےگھرکے علاوہ ایسی جگہوں پر بغیر خوشبو استعمال کیے جانا چاہیے۔ اس کا بہت اہتمام کریں۔ پردے کے بغیر عورتیں باہر نہ نکلیں، برقعہ پہن کے جائیں اور اگر برقعہ نہیں تو بڑی چادر لیں، چادر سے ہاتھوں کو ڈھانپ کے جائیں اور اس کے اندر کپڑے نظر نہ آئیں محسوس ہی نہ ہوکہ عورت بوڑھی ہے یا جوان ہے اس انداز میں پردہ کرے یہ ہماری ذمہ داری میں شامل ہے۔حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے واضح احکامات پردے کے بارے میں موجود ہیں۔
عمل سنت کے مطابق :
وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ،کہ اعمال کرے اور سنت کے مطابق کرے اور سنت کے مطابق آدمی عمل تب کرتا ہے جب سنت کو جانتا ہو ، سنت کا علم ہواور یہ مدارس جاننے کے لیے ہیں، مدارس شریعت پڑھنے کے لیے ہیں ،مدارس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دین کو عام کرنے کے لیے ہیں۔ میری آپ سے گزارش ہے اپنی بچیاں بھی بھیجیں اور خود بھی وقت نکالیں۔ بڑی عورتیں اپنے ماحول کو ٹھیک کریں استانیاں موجود ہیں دعائیں پڑھیں ، قرآن کریم کو ٹھیک کریں اللہ ہمیں توفیق عطا فرمائے۔
دعوت والا کام
تیسری چیزجس پرکامیابی کامدارہےوہ یہ ہے کہ وَتَوَاصَوْا بِالْحَقِّ ،کہ جو صحیح عقیدہ اور نیک عمل آپ کے پاس موجود ہے اس کی دعوت دیں ،اس کو عام کریں جو بیان سنا ہے اسے آگے عام کریں، بنات اہل السنۃ ماہنامہ رسالہ پڑھیں دوسروں کو بھی دیں خود بھی پڑھیں اور دوسروں کو بھی سکھائیں۔یہ دین کی شاخ مردوں کے ذمے ہے ان کے حدود کے مطابق ہے عورت کے ذمے ان کے حقوق کے مطابق ہے عورت کی سب بڑی دینی خدمت یہی ہوتی ہے کہ عورت خاوند کے راستے میں رکاوٹ نہ بنے تعاون کرے،خاوند کی مدد کرے،خاوند کو دینی امور میں آگے چلانے کی کوشش کرے اپنی اولاد کو موقع فراہم کرے اپنے بھائیوں کو موقع فراہم کرے ان کی بھر پور خدمت کرے انہی امور میں ان کا ساتھ دے۔
تحمل ،بردباری اور صبر:
اورچوتھی چیز یہ ہے کہ : وَتَوَاصَوْا بِالْحَقِّ وَتَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ ،شریعت پر عمل کرے اگر کوئی مشکل آجائے تو خندہ پیشانی سے برداشت کرے اور شریعت کو چھوڑے نہیں یہ مردوں کےبھی ذمے ہے اورعورتوں کے ذمے بھی۔
میری ”امی جان“ کے ایمان افروز جملے :
ہمارے گاؤں کی عورتیں بہت اچھی طرح جانتی ہیں جس وقت میں جیل میں تھا چھوٹا بھائی شعیب جیل میں اور اس سے چھوٹا خبیب جیل میں تھااور امی جان ﴿اللہ ان کی قبر پر کروڑوں رحمتیں نازل فرمائے ، اللہ ان کی مغفرت فرمائے درجات بلند فرمائے ، جتنے دینی کام اللہ نے ہم سے لیےہمارے والدین کے لیے صدقہ جاریہ بنا دے﴾گاؤں کی عورتوں نے ہماری امی سے یہ بات کہی تھی کہ اب بیٹوں کو روک لو ! بہت جہاد کر لیا بہت جیلیں کاٹ لی ہیں ،اپنے پاس رکھو تو امی نے یہ بات فرمائی تھی کہ شریعت نہیں روکتی تو میں کون ہوتی ہوں روکنے والی ، میں اپنے بیٹوں کو روک کر مجرم اور گنہگار نہیں بن سکتی،ماں کا اس طرح دل ہونا چاہیے اپنی اولاد کو دین کے لیے پیش کرے۔ اولا د نے ساتھ چھوڑ دینا ہے، اولا دنے دنیا سے چلے جانا ہے، نیک اولاد ہوگی تو والدین کے لیے نیکی کا سبب بنے گی، اچھا نام والدین کا ہوگا ،دنیا میں عزت ہوگی، قبر میں راحت ہوگی اور دعا کریں اللہ ہم سب کے عقیدے بھی صحیح فرمادے اوراعمال بھی سنت کے مطابق کرنے کی توفیق عطا فرمادے۔ اللہ رب العزت ہمیں دین پھیلانے کی توفیق دے۔ عافیت کے ساتھ دین کی خدمت کرنے کے لیے قبول فرمالیں۔
وَآخِرُ دَعْوَانا أَنِ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ