کامیاب لوگوں کی صفات

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
کامیاب لوگوں کی صفات
اَلْحَمْدُ لِلَّهِ نَحْمَدُہُ وَنَسْتَعِينُهُ وَنَسْتَغْفِرُهُ وَنَعُوذُ بِاللَّهِ مِنْ شُرُورِ أَنْفُسِنَا وَمِنْ سَيِّئَاتِ أَعْمَالِنَا مَنْ يَهْدِهِ اللَّهُ فَلَا مُضِلَّ لَهُ ، وَمَنْ يُضْلِلْ فَلَا هَادِيَ لَهُ، وَ نَشْهَدُ أَنْ لاَ إِلٰهَ إِلَّا اللهُ وَحْدَهُ لاَ شَرِيْكَ لَهُ وَنَشْهَدُ أَنَّ سَيِّدَنَا مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَ رَسُولُهُ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَعَلَى آلِهِ وَصَحْبِهِ وَسَلَّمَ تَسْلِيمًا كَثِيرًا اَمَّابَعْدُ فَاَعُوْذُ بِاللّهِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِ بِسْمِ اللّهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ إِنَّ الْمُسْلِمِينَ وَالْمُسْلِمَاتِ وَالْمُؤْمِنِينَ وَالْمُؤْمِنَاتِ وَالْقَانِتِينَ وَالْقَانِتَاتِ وَالصَّادِقِينَ وَالصَّادِقَاتِ وَالصَّابِرِينَ وَالصَّابِرَاتِ وَالْخَاشِعِينَ وَالْخَاشِعَاتِ وَالْمُتَصَدِّقِينَ وَالْمُتَصَدِّقَاتِ وَالصَّائِمِينَ وَالصَّائِمَاتِ وَالْحَافِظِينَ فُرُوجَهُمْ وَالْحَافِظَاتِ وَالذَّاكِرِينَ اللَّهَ كَثِيرًا وَالذَّاكِرَاتِ أَعَدَّ اللَّهُ لَهُمْ مَغْفِرَةً وَأَجْرًا عَظِيمًا۔
اَللّٰهُمَّ صَلِّ عَلٰى مُحَمَّدٍ وَعَلٰى آلِ مُحَمَّدٍ كَمَا صَلَّيْتَ عَلٰى إِبْرَاهِيْمَ وَعَلٰى آلِ إِبْرَاهِيْمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ۔اَللّٰهُمَّ بَارِكْ عَلٰى مُحَمَّدٍ وَعَلٰى آلِ مُحَمَّدٍ كَمَا بَارَكْتَ عَلٰى إِبْرَاهِيْمَ وَعَلٰى آلِ إِبْرَاهِيْمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ۔
میں نے سورۃالاحزاب کی آیت نمبر35تلاوت کی ہے۔ اس آیت میں اللہ رب العزت نے مرد اورخواتین دونوں کا تذکرہ فرمایا اور مغفرت اور بہت بڑے اجر کا وعدہ کیا، ساتھ ساتھ ان کی دس صفات بیان فرمائیں کہ جس مرد یا عورت میں یہ دس صفات ہوں اللہ رب العزت کا ان کے ساتھ مغفرت اور بہت بڑا اجر عطا فرمانے کا وعدہ ہے یعنی صرف یہی نہیں کہ اللہ رب العزت معاف فرمائیں گے بلکہ معافی کے ساتھ اعزاز و اکرام اور بہت بڑا اجر عظیم بھی عطا فرمائیں گے۔
مغفرت اور اجر :
ایک مغفرت ہے اور ایک اجر ہے۔ ’’مغفرت‘‘ کا مطلب ہے کہ ان کی جو کوتاہیاں ہوں گی اللہ ان کو معاف فرمادیں گے اور جو اعمال کیے ہیں اللہ ان پر ”اجر“عطا فرمادیں گے،ان دونوں چیزوں کا حق تعالیٰ شانہ نے وعدہ فرمایا ہے دس صفات کون سی ہیں؟ان کو سمجھیں اور ان پر عمل کرنےکی کوشش کریں۔
پہلی صفت……… اسلام :
اللہ رب العزت اعلان فرماتے ہیں:’’إِنَّ الْمُسْلِمِينَ وَالْمُسْلِمَاتِ‘‘ وہ مرد جو اسلام لائے ،وہ عورتیں جو اسلام لائیں۔
دوسری صفت……… ایمان :
وَالْمُؤْمِنِينَ وَالْمُؤْمِنَاتِوہ مرد جو ایمان لائے،وہ عورتیں جو ایمان لائیں
ایمان اور اسلام :
اس آیت کے شروع میں بظاہر ان دو لفظوں کو الگ الگ بیان فرمایا ’’اسلام‘‘اور ’’ایمان‘‘ کو۔اسی طرح قرآن کریم میں ایک مقام پر اللہ رب العزت نے خود ارشاد فرمایا
قَالَتِ الْأَعْرَابُ آمَنَّا قُلْ لَمْ تُؤْمِنُوا وَلَكِنْ قُولُوْا أَسْلَمْنَا۔
 سورۃ الحجرات:14
کہ جب دیہاتی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آئے تو انہوں نے آکر کہا: یا رسول اللہ! ہم ایمان لائے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم ہوا کہ آپ ان کو فرمائیں کہ’’لَمْ تُؤْمِنُوا‘‘تم ایمان نہیں لائے، ہاں تم یہ کہو’’أَسْلَمْنَا‘‘ ہم اسلام لائے۔ تو یہاں بھی دیکھیں بظاہر معلوم ہوتا ہے ان کے ایمان کی نفی کی ہے اور اسلام کا اثبات کیا ہے۔
اسی طرح پارہ نمبر27 کے شروع کے پہلے رکوع میں ہے
’’فَأَخْرَجْنَا مَنْ كَانَ فِيهَا مِنَ الْمُؤْمِنِينَ فَمَا وَجَدْنَا فِيهَا غَيْرَ بَيْتٍ مِنَ الْمُسْلِمِينَ‘‘
 سورۃ الذٰریات:35، 36
اللہ تعالی فرما رہے ہیں کہ جب ہم نےقوم لوط پہ عذاب بھیجا تو اس میں جس قدر مومنین یعنی ’’ایمان والے‘‘ تھے ہم نے ان کو نکال لیا، ہم نے اس میں کوئی گھر مسلمانوں یعنی ’’اسلام والوں ‘‘ کےایک گھر [یعنی حضرت لوط علیہ السلام کے گھر] کے علاوہ نہ پایا۔تو یہاں پر بھی ایمان والوں اوراسلام والوں کو بظاہر الگ بیان کیا ہے۔
اسلام ……حدیث جبرائیل کی روشنی میں :
بالکل اسی طرح حدیث مبارک میں بھی ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں حضرت جبرائیل امین حاضر ہوئے تو انہوں نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا! أخبرني عن الإسلام؟آپ ارشاد فرمائیں کہ ایمان کیا ہے؟ تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پانچ چیزیں ارشاد فرمائیں
الإسلام أن تشهد أن لا إله إلا الله وأن محمدا رسول الله وتقيم الصلاة وتؤتي الزكاة وتصوم رمضان وتحج البيت إن استطعت إليه سبيلا۔
اسلام کے پانچ ارکان:

1.

زبان سے’’لا الٰہ الا اللہ محمدرسول اللہ‘‘ کا اقرار کرنا۔

2.

نماز کی پابندی کرنا۔

3.

زکوٰۃ ادا کرنا۔

4.

رمضان کے روزے رکھنا۔

5.

اگر طاقت ہوتو بیت اللہ کا حج کرنا۔
ایمان ……حدیث جبرائیل کی روشنی میں :
پھر جبرائیل امین نے سوال کیا: فأخبرني عن الإيمان؟ ایمان کے بارے میں ارشاد فرمائیں ایمان کیا چیز ہے؟ تو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نےجواب میں ارشاد فرمایا
أن تؤمن بالله وملائكته وكتبه ورسله واليوم الآخر وتؤمن بالقدر خيره وشره.
ایمانیات کا تعین :
یہ چھ چیزیں ارشاد فرمائیں:

1)

اللہ پر ایمان لانا۔

2)

فرشتوں پر ایمان لانا۔

3)

اللہ تعالیٰ کی نازل کردہ کتابوں پر ایمان لانا۔

4)

انبیاء اور رسولوں پر ایمان لانا۔

5)

قیامت کے دن پر ایمان لانا۔

6)

ہر تقدیر پر ایمان لانا چاہے انسان کے حق میں بہتر ہویا بظاہرانسان کے حق میں نقصان دہ اور ضرر والی ہو۔
ان چھ چیزوں کا نام ہے ’’ایمان‘‘۔
)صحیح مسلم: رقم الحدیث8(
دیکھیں’’اسلام‘‘ کی تعریف الگ کی ہے’’ایمان‘‘ کی تعریف الگ کی ہے۔
دعائے جنازہ میں :
بالکل اسی طرح جب جنازے میں ہم شرکت کرتے ہیں تو نماز جنازہ میں میت کے لیے دعا مانگتے ہوئے ایک لفظ ہم یہ بھی مانگتے ہیں جومیت پر دعا مانگنے کے ساتھ اپنے لیے ہوتی ہے
’’اللهم من أحييته منا فأحيه على الإسلام ومن توفيته منا فتوفه على الإيمان‘‘
)جامع الترمذی: رقم الحدیث 1024(
اے اللہ ہم میں سےجس کو تو زندہ رکھے اسلام پر زندہ رکھنا اور جس کو موت دے تو ایمان پر موت دینا۔
اسی طرح ہمارے ہاں دعائیں مانگتے ہیں تو کہتے ہیں:’’اللہ !ہم سب کا خاتمہ بالایمان فرمادے‘‘ کبھی یہ دعا نہیں ہوتی کہ:اللہ !ہم سب کا خاتمہ بالاسلام فرمادے‘‘
تومیں بتا یہ رہا تھا کہ قرآن کریم کی آیات میں اور اسی طرح حدیث مبارک میں جس کا میں نے تذکرہ کیا، ان میں بظاہر معلوم ہوتا ہے کہ شاید ’’اسلام‘‘ الگ چیز ہے اور ’’ایمان‘‘ الگ چیزہے۔ توان کو اگر سمجھیں تو ان شاءاللہ الجھن پیدا نہیں ہوگی، بلکہ بڑے آرام سےبات سمجھ آجائے گی کہ اس آیت کا مطلب کیا ہے کہ ’’اسلام لانے والے مرد اور اسلام لانے والی عورتیں‘‘ اور’’ایمان لانے والے مرد اورایمان لانے والی عورتیں‘‘۔
اسلام اور ایمان میں فرق:
ان دونوں میں فرق سمجھ لیں کہ ظاہر ی اطاعت کا نام ’’اسلام‘‘ ہے اور دل سے مان لینے کا نام ’’ایمان‘‘ہے۔ اسلام اور ایمان میں فرق یہ ہوگا کہ اگر دل سے مانے تواس کا نام ’’ایمان‘‘ہےاور اپنے اعضاء اورجوارح سے عمل کرے اس کا نام ’’اسلام‘‘ہے۔ تو اللہ تبارک وتعالیٰ فرماتے ہیں:’’إِنَّ الْمُسْلِمِينَ وَالْمُسْلِمَاتِ وَالْمُؤْمِنِينَ وَالْمُؤْمِنَاتِ‘‘وہ مرد جو اسلام لائے وہ عورتیں جو اسلام لائیں، وہ مرد جو ایمان لائے وہ عورتیں جو ایمان لائیں اللہ کے احکامات کو دل سے مردبھی مانیں اور عورتیں بھی مانیں، ان احکامات کواپنے بدن کے اعمال سے مرد بھی ادائیگی کریں اور عورتیں بھی ادائیگی کریں۔ ایسے مرد اور خواتین کہ جو دل سے بھی مانیں اور ظاہر کے ساتھ بھی کریں یعنی اپنے بدن سے بھی اعمال بجالائیں۔حج ہے، عمرہ ہے، پردہ ہے، نمازیں ہیں، سب چیزوں کو مانیں بھی اور عمل بھی کریں۔
تیسری صفت…… عبادت :
’’وَالْقَانِتِينَ وَالْقَانِتَاتِ‘‘
اب تھوڑی سی تفصیل سے مزید باتوں کا تذکرہ فرمایا۔ یعنی عبادت کرنے والے مرد اور عبادت کرنے والی عورتیں۔
چوتھی صفت……سچائی :
’’وَالصَّادِقِينَ وَالصَّادِقَاتِ‘‘
سچ بولنے والے مرد سچ بولنے والی عورتیں۔
سچائی کا بہت زیادہ خیال کرنا چاہیے اور کبھی بھی جھوٹ نہیں بولنا چاہیے۔ حدیث مبارک میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :’’ان الصدق ینجی والکذب یھلک‘‘صداقت اور سچائی انسان کو نجات دیتی ہے اور جھوٹ انسان کو ہلاک اور برباد کر دیتا ہے، ہمیشہ سچ بولیں۔ اللہ ہم سب کو سچ بولنے کی توفیق عطا فرمائے،اللہ ہم سب کو جھوٹ بولنے سے محفوظ رکھے۔جب بندہ سچ بولتا ہے اوراللہ رب العزت بندے کو سچ بولتا دیکھتے ہیں تو بندے کے لیے ہدایت کے فیصلے فرماتے ہیں، اللہ اس کی صداقت کو دنیا میں دین کے پھیلنے کا ذریعہ بنا دیتے ہیں۔ آدمی جھوٹ نہ بولے، ہمیشہ سچ بولے اور سچ بولنے کا بھر پور خیال کرنا چاہیے۔ اللہ ہم سب کو سچ بولنے کی توفیق عطا فرمائے۔
”توریہ “کیا چیز ہے ؟:
ذرا اچھی طرح سمجھ لیں کہ بعض مقامات ایسے ہوتے ہیں اس کا حدیث میں بھی کئی مرتبہ ذکر آتا ہے اس کو جھوٹ نہیں کہتے اس کو’’توریہ‘‘ کہتے ہیں،’’توریہ‘‘ الگ چیز ہوتی ہے اور ’’جھوٹ‘‘ الگ چیز ہوتی ہے۔’’توریہ‘‘ کا مطلب ہے کہ ایک ہی لفظ ہو اس کا معنی ٰ مخاطب او رسمجھے اور اس کا معنیٰ متکلم اور سمجھے، اس کانام ہے ’’توریہ‘‘ بات کرنے والا اس کی مراد اور لے اور سننے والا اور سمجھے، اس کا نام ’’توریہ‘‘ ہے۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام کا واقعہ:
اس کی مثال حضرت ابراہیم علیہ السلام کے واقعات میں ملتی ہےکہ جب ابراہیم علیہ السلام نے سفر فرمایاتو راستہ میں ایک ایسے علاقہ سے گزرے کہ وہاں کے بادشاہ کی ایک بری عادت تھی -اللہ حفاظت فرمائے-جب بھی کوئی راہ گزر آتا، اس کے ساتھ اس کی بیوی ہوتی تواس کو چھین لیتا تھا اور اگر اس مسافر کے ساتھ اس کی بہن ہوتی تو اس کو چھوڑ دیتا تھا۔ابراہیم علیہ السلام کی اہلیہ ان کے ساتھ تھی۔اس علاقہ میں سے گزر رہے تھے تو بادشاہ نے ان کو بلو الیا۔وہ دربارمیں گئے۔ اس نے ان کی اہلیہ کو جن کا نام حاجرہ تھا، لینے کا فیصلہ کیا۔ ابراہیم علیہ السلام نے اپنی بیوی کو فرمایا: اگر بادشاہ پوچھے یہ کون ہے تو تم کہنا میرا بھائی ہے؟ حالانکہ بھائی نہیں تھے، شوہر تھے، تو بھائی کیسے کہہ دیا ؟مقصد یہ تھا کہ وہ سمجھے گا کہ دونوں کا باپ ایک ہے اور ایک ہی پیٹ سے پیدا ہوئے ہیں۔ ابراہیم علیہ السلام کا مطلب یہ تھا کہ میں بھی کلمہ گو ہوں اور تو بھی کلمہ گو ہے ،اسلامی رشتے کے اعتبار سے ہم دونوں بہن اوربھائی ہیں۔ تو دیکھیں! بولنے والے نے معنیٰ اور سمجھا اور سننے والے نے اور سمجھا، اس کا نام ’’توریہ‘‘ ہوتاہے، اس کانام جھوٹ نہیں ہوتا۔
بعض مقامات پر توریہ کی شریعت اجازت دیتی ہے لوگ اس کو جھوٹ سمجھ لیتے ہیں۔ تو فرمایا: ’’وَالصَّادِقِينَ وَالصَّادِقَاتِ‘‘ ہمیشہ سچائی کا خیال رکھو ، جھوٹ بولنا مومن کی شان نہیں۔
جھوٹ منافق کی علامت ہے :
جھوٹ بولنا منافق کی علامت ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
آيَةُ الْمُنَافِقِ ثَلَاثٌ إِذَا حَدَّثَ كَذَبَ وَإِذَا وَعَدَ أَخْلَفَ وَإِذَا اؤْتُمِنَ خَانَ۔
صحیح البخاری: رقم الحدیث33
منافق کی تین نشانیاں ہیں۔جب بولتا ہے جھوٹ بولتا ہے،وعدہ کرتاہے تو خلاف ورزی کرتا ہے اور امانت رکھو تو خیانت کرتا ہے۔
پانچویں صفت……صبر:
’’وَالصَّابِرِينَ وَالصَّابِرَاتِ‘‘
اور صبر کرنے والے مرد اور صبر کرنے والی عورتیں۔ ہمیں صبر کا حکم دیا گیا ہے ’’صبر‘‘ کا معنیٰ یہ ہوتا ہے کہ اگر کسی آدمی کو کوئی تکلیف یا کوئی مصیبت آئے تو آدمی ڈٹ جائے اور دین کو نہ چھوڑے۔ اللہ ہم سب کو عافیت والی زندگی عطافرمائے۔
صبر کی تین اقسام:

1.

صبرعلی الطاعۃ

2.

صبر عن المعاصی

3.

صبرعلی المصیبت
ان قسموں کی وضاحت سمجھیں۔
1:صبرعلی الطاعۃ:
اس کا مطلب ہے اللہ تعالیٰ کی اطاعت پر صبر کرنا۔ سردی بہت زیادہ ہے، صبح اٹھنے کو جی نہیں کرتا اور پانی بھی ٹھنڈا ہے گرم پانی موجود نہیں اور وضو بھی کرنا ہے۔ اب مشقت برداشت کرے اور وضو کرے ،ٹھنڈا پانی ہے تب بھی کرے۔ رات دیر سے سوئے ہیں، نیند پوری نہیں ہوئی، صبح اٹھنے کی ہمت نہیں لیکن ہمت کرے اور ضرور اٹھے اور وضو کرکے نماز پڑھے یہ’’ صبرعلی الطاعۃ‘‘ ہے۔
گرمی کا مہینہ ہے اگر روزہ رکھے تو پیاس بہت لگتی ہے اور بھوک بہت لگتی ہے۔ پیاس کی شدت بندے کو بہت تنگ کرتی ہے، پیاس کو برداشت کرے صبر کرے اور روزہ رکھے۔جہنم کی گرمی اپنے ذہن میں رکھے اور جہنم کی پیاس اپنے ذہن میں رکھے۔ آدمی جب اللہ کی رضا کے لیے پیاس برداشت کرتا ہے اللہ کریم اسےجہنم کی پیاس سے محفوظ رکھتے ہیں، حشر کی پیاس سے محفوظ رکھتے ہیں اور اللہ اس کو جنت کی نعمتیں عطا فرما دیتے ہیں تو یہ ’’ صبرعلی الطاعۃ‘‘ہے۔
2:صبر عن المعاصی:
گناہ سے بچنے کے لیے جو مشقت اٹھائےیہ بھی صبر ہے۔ آدمی تکلیف برداشت کرے مگر گناہ نہ کرے۔آج ہمارے معاشرے میں بہت سارے مقامات ایسے ہیں جن میں گناہوں کو بھی گناہ نہیں سمجھا جاتا۔ ان میں بہت بڑا گناہ کیا ہے ؟ کہ شادی کے موقع پرخواتین اور مردوں کا ایک ساتھ مل کر رہنا، خواتین کا ویڈیو بنوانا، خواتین کا شادی کے موقعے پر گانے گانا، عورتوں کا بے پردگی کے ساتھ باہر نکلنا یہ سب گناہ کی باتیں ہیں اور ان سب سے بچنا ضروری ہے۔ خاندان اور معاشرہ ملامت کرے تب بھی بے پردگی نہ کرو، خاندان اور معاشرہ برا بھلا بھی کہے تب بھی بے پردگی مت کرو، لوگ کچھ بھی کہتے رہیں بندہ لوگوں کی پروا ہ نہ کرے اور اپنے آپ کو اہتمام کے ساتھ چلائے:

گناہ سے بچے۔

T.V سے بچنا ضروری ہے۔

V.C.R سے بچنا ضروری ہے۔

گانے سے بچنا ضروری ہے۔

غیبت سے بچنا ضروری ہے۔

جھوٹ سے بچنا ضروری ہے۔

بے پر دگی سے بچنا ضروری ہے۔
اس پر جتنی بھی مشقت اٹھانی پڑے اٹھاؤ۔یہ ساری چیزیں صبر کے اندر شامل ہیں۔ میں اللہ کی قسم اٹھا کر یہ بات کہہ رہا ہوں کہ اگر کچھ خواتین بھی اس کا اہتمام کر لیں تو علاقے اور خاندان بدل جاتے ہیں اور اگر وہ اہتمام نہ بھی کریں تو کم ازکم مدرسے میں پڑھنے والی بچی کو یہ سب کرنا چاہیے، خود بدلے گی تو اس کے گھر کا ماحول بدلے گا، خود نہیں بدلے گی تو گھر کا ماحول کبھی نہیں بدلے گا۔ تو خود بدلنےکا فیصلہ کریں۔ اگر مدرسے میں آنے والی بچی بھی پردے کا خیال نہ کرے تو بتاؤ اس دنیا میں پر دہ کا خیال کون کرے گا؟ شریعت کے ان امور کو زندہ کون کرے گا ؟ اس لیے میں کہہ رہا ہوں کہ پردے کا خیال کریں جتنی مشقت اٹھانی پڑے اٹھائے۔
3:صبرعلی المصیبہ:
یعنی مصیبت پر صبر کرنا۔ اللہ کی طرف سے اگر کوئی تکلیف آجائے تو ہائے وائے نہ کرے صبر سے کام لے اور اللہ کی رضا پر قائم رہے۔ اللہ کے فیصلوں کو مانے۔اس تکلیف اور مصیبت پر اللہ بہت کچھ عطافرمائیں گے۔ احادیث مبارکہ میں ہے کہ اللہ تعالیٰ نےبندے کے لیے بعض مقامات جنت میں مقرر کر دیے ہیں،جن مقامات پر بندہ اعمال سے نہیں پہنچتا۔ اللہ اس بندے کو تھوڑی سی تکلیف دے کر ان مقامات پر پہنچا دیتے ہیں اور مقامات طے کروا دیتے ہیں۔ پھر بھی اللہ سے عافیت ہی مانگیں۔ اگر مصیبت آجائے تو واویلا نہ کریں اور جزع فزع مت کریں، ہمت سے برداشت کریں۔
صبر کا فقدان :
ہمارے ہاں بیماری پر صبرختم ہو جاتا ہے، مصیبت پر صبر ختم ہوجاتا ہے، جب کوئی فوتگی ہو یا میت کا مسئلہ ہو تو وہاں صبر کا نام ونشان تک نہیں رہتا۔ اس موقع پر بہت زیادہ صبر کا خیال فرمائیں اور بے صبری کا مظاہرہ نہ کریں۔ اللہ ہم سب کو عافیت والی زندگی عطا فرمائے۔ میت پر بین کرنا، گریبان پھاڑنا، اونچی آواز سے رونا یہ سب گناہ کبیرہ ہیں،حرام ہیں۔ اگر عورتیں اس کا اہتمام نہیں کریں گی تو بتاؤ کون کرے گا؟ مرنے کے بعد قل کرنا ،ساتواں کرنا،چالیسواں کرنا یہ سب گناہ اوربدعات ہیں۔ فیصلہ کرو کہ آئندہ کبھی نہیں کریں گے، پچھلے گناہ اللہ معاف فرمادیں گے۔ گھر وں کے ماحول بدلنے کا فیصلہ کریں۔
چھٹی صفت………خشوع :
’’وَالْخَاشِعِينَ وَالْخَاشِعَاتِ‘‘
خشوع کرنے والے مرد خشوع کرنے والی عورتیں ’’خشوع‘‘ کے معنیٰ ہیں ’’عاجزی کرنا‘‘۔اللہ سے ڈرنا سیکھیں ،عاجزی کرنا سیکھیں ،تکبر اور بڑائی اللہ کو بالکل پسند نہیں ہے، اللہ متکبر سے نفرت کرتے ہیں، متکبر کوخدا ذلیل کرتا ہے۔ حدیث مبارک میں ہے:جو اللہ کے لیے جھکتا ہے اللہ اسے بلندیاں دیتے ہیں اور جو تکبر کرتا ہےاللہ اسے ذلیل کر دیتے ہیں۔
 شعب الایمان للبیہقی:7790
خوش لباسی کا نام تکبر نہیں :
ایک بات ذہن میں رکھیں: اچھا کپڑا پہننا، اچھی جوتی پہننا اس کا نام تکبر نہیں ہے۔ حدیث مبارک میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تکبرکی مذمت فرمائی ہے ایک صحابی رضی اللہ عنہ نے عرض کیا یا رسول اللہ بعض اوقات آدمی کا دل چاہتا کہ میں اچھا کپڑا پہنوں، کیا یہ بھی تکبر میں شامل ہے؟ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔
’’ إن الله جميل يحب الجمال ‘‘
) صحیح مسلم: رقم91(
اللہ خود بھی خوبصورت ہیں اورخوبصورتی کو پسند فرماتے ہیں۔
اچھا کپڑا پہننے، اچھی جوتی پہننے کا نام تکبر نہیں ہے۔ حق کو قبول نہ کرنے کانام ’’تکبر‘‘ہے۔ ایک طر ف مسئلہ ہے اور ایک طرف ذات ہے، بندہ ذات کو پیش نظر رکھے اور مسئلہ کو چھوڑ دے اس کا نام تکبر ہے۔ اللہ ہم سب کو تکبر سے بچائے۔
ساتویں صفت……صدقہ :
’’وَالْمُتَصَدِّقِينَ وَالْمُتَصَدِّقَاتِ‘‘
صدقہ دینے والے مرد اور صدقہ دینے والی عورتیں۔ صدقے کا بہت زیادہ اہتمام کرنا چاہیے۔ حدیث مبارک میں ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
الصَّدَقَةُ تُطْفِئُ غَضْبَ الرَّبِّ۔
)شعب الایمان: رقم 3080(
صدقہ اللہ کے غضب کو یوں ٹھنڈا کرتا ہے جیسے پانی آگ کو ٹھنڈا کر دیتا ہے۔
صدقے کا اہتمام :
صدقہ بلاؤں کو ٹال دیتا ہے۔ صدقہ کا معنیٰ ایک لاکھ یا دو لاکھ روپیہ دینا نہیں، صدقہ کا معنیٰ ایک ہزار یا ایک سو یا ایک روپیہ بھی ہے۔ جتنی اللہ تعالیٰ توفیق عطا فرمائیں صدقے کا اہتمام کریں اور مدرسے پڑھنے والی بچیوں کو بہ نسبت دوسروں کے زیادہ صدقے کا اہتمام کرنا چاہیے۔ہر مہینہ پانچ یا دس یا بیس روپے اللہ کے راستے میں ضرور خرچ کیا کریں۔ اگر کوئی آپ کے گھر میں سائل مانگنے والے آئے اور مستحق ہو تواس کو ضرور دیا کریں، کبھی آپ کی مسجد میں چندہ کا اعلان ہو تو دیا کریں، کبھی مدرسے کو ضرورت ہو تو اس کی ضرورت پوری کیا کریں۔ بندہ کو اللہ کے دیے میں سے خرچ کرنا چاہیے۔ جب اللہ کے نام پہ کوئی آدمی دیتا ہے تو اللہ اور عطا فرمادیتے ہیں۔
آٹھویں صفت……روزہ :
’’وَالصَّائِمِينَ وَالصَّائِمَاتِ‘‘
روزہ رکھنے والے مرد روزہ رکھنے والی عورتیں۔روزےمردوں کے بھی ذمہ ہیں اور خواتین کے بھی۔ جو روزے فرض ہیں وہ تو رکھنے ہی ہیں، ان کو تو نہیں چھوڑنا ، نفلی روزہ رکھنے کا اہتمام کرنا چاہیے۔
دسویں محرم کا روزہ :
محرم الحرام میں روزہ رکھنے کے بہت سے فضائل ہیں۔ دس محرم کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے روزہ رکھنے کا حکم دیا توصحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین نے عرض کیا ،یا رسول اللہ! دس محرم کی یہودی لوگ بہت تعظیم کرتے ہیں، یعنی اس دن یہود روزہ رکھتے ہیں۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:آئندہ اگر زندہ رہے تو ایک روزہ نویں تاریخ کو بھی رکھیں گے۔ یعنی ایک دن کا اضافہ کریں گے۔
) صحیح مسلم: رقم1134(
مخالفتِ یہود کی نبوی تعلیم :
اس کی تائید خود آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان سے بھی ہوتی ہے
صُومُوا يَوْمَ عَاشُورَاءَ وَخَالِفُوا فِيهِ الْيَهُودَ صُومُوا قَبْلَهُ يَوْمًا أَوْ بَعْدَهُ يَوْمًا
)مسند احمد: رقم 2154(
کہ دسویں محرم کے دن روزہ رکھو اور یہود کی مخالفت کرو۔ دس محرم سے ایک دن پہلے روزہ رکھو یا اس کے ایک دن بعد۔
اس لیےنوکا یا گیارہ کا اضافہ کر لیا کریں۔ ابھی سے ساری بچیاں نیت کریں کہ دس محرم اور گیارہ محرم یہ دو دن روزہ خود بھی رکھیں گی، گھر والوں کو بھی تاکید کریں گی۔
روافض کی خرافات میں شرکت کا شرعی حکم :
رافض کا محرم الحرام بالکل ہم سے الگ ہے، وہ گھوڑا نکالیں گے ،ماتم کریں گے، مرثیے بھی پڑھیں گے، کئی ناموں سے خیرات بھی کریں گے ،زنجیریں بھی ماریں گے ان سے بچنا بہت ضروری ہے۔ اس میں شرکت کرنا بہت بڑاگناہ ہے، حرام اور ناجائز ہے۔کوئی عورت گھوڑا دیکھنے کے لیے قطعاً مت جائے اور نہ ہی کسی کو جانے دے۔ اس میں لنگر کے نام سے جو بھی چندہ جمع ہو اس میں ایک روپیہ بھی دینا حرام ہے۔ اگر محرم کے نام پر کوئی بندہ گھر میں مانگنے کے لیے آئے تو اس کو قطعاً نہ دیں۔ ہاں محرم کے دنوں میں روزہ رکھیں،حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت مبارک روزہ رکھنے کی ہے۔ اہل باطل اس دن شربت اور پانی کی سبیلیں لگاتے ہیں یہ چیزیں روزے سے محروم کرتی ہیں۔لڑائی،جھگڑا نہ کریں،تشدد اور پھڈا نہ ڈالیں اور سنت پر عمل کرنے کی بھر پور کوشش کریں۔
محرم کے دنوں میں لباس اور چندہ:
محرم کے دن میں جو ہمارا رواج چلا ہے ’’کالے کپڑے پہنو‘‘ یہ گناہ ہے اس سے بچو۔ ہمارے ہاں تو رواج بنا ہے کہ محرم کے دنوں میں لوگ مانگنے آتے ہیں اور سبیل کے نام پر چندہ دیتے ہیں، ان کو چندہ دینا حرام اور نا جائز ہے۔
ہم زندہ و جاوید کا ماتم نہیں کرتے :
ہمارے ہاں لوگ ماتم کرتے ہیں یہ ماتم کرنا حرام اور ناجائز ہے۔ شہید زندہ ہوتا ہے اس پر خوشی منائی جاتی ہے اس پر غم اور دکھ نہیں کیا جاتا۔ پھر حضرت حسین بن علی رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کےنواسے ہیں، ہمیں ان کے دنیامیں قتل ہونے کا دکھ ہے لیکن شہادت تو دکھ نہیں شہادت تو دنیامیں ایک نعمت ہے جو اللہ پاک اپنے بندوں کو عطافرماتے ہیں اس لیے اس کا اہتمام فرمائیں کہ ان مرثیوں سے خود بھی بچیں اور گھر کے ماحول کو بھی بچائیں۔
کالا کپڑا پہننے کیسا ہے ؟
کالے کپڑے نہ پہنیں۔ عام دنوں میں کالا کپڑا پہننا گناہ نہیں جائز ہے لیکن محرم کے دنوں میں کالا کپڑا اہل تشیع کی نشانی ہے اس لیے محرم کے دنوں میں نہ پہنیں محرم کے دنوں میں کالا کپڑا بالکل استعمال نہ کریں۔
ماہ محرم میں شادی بیاہ :
ہمارے ہاں یہ بھی رواج ہے محرم کے دنوں میں لوگ شادی کرناگناہ سمجھتے ہیں۔ شادی کو گناہ سمجھنا بہت بڑا جرم ہے۔ اگر کسی کے نکاح کی تاریخ ان دنوں میں طے ہو جائے تو کوئی بندہ اپنی زبان سے بڑ بڑ نہ کرے، اپنی زبان استعمال نہ کرے۔ اس لیے کہ محرم کے دنوں میں کوئی گناہ نہیں دس محرم کو بھی نکاح ہوسکتا ہے، سات محرم کوبھی نکاح ہو سکتا ہے۔ محرم الحرام میں نکاح کرنا کوئی گناہ کی بات نہیں۔
نویں صفت……عز ت کی حفاظت :
’’وَالْحَافِظِينَ فُرُوجَهُمْ وَالْحَافِظَاتِ‘‘
اپنی شرم گاہ کی حفاظت کرنے والے مرد اپنی شرم گاہ کی حفاظت کرنی والی عورتیں۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔
مَنْ يَضْمَنْ لِي مَا بَيْنَ لَحْيَيْهِ وَمَا بَيْنَ رِجْلَيْهِ أَضْمَنْ لَهُ الْجَنَّةَ۔
) صحیح البخاری:رقم6474(
جو شخص مجھے اپنی زبان اور اپنی شرمگاہ کی ضمانت دے تو میں اس کو جنت کی ضمانت دوں گا۔ اللہ ہم سب کی حفاظت فرمائے۔
اپنی زبان کی حفاظت کرنا بھی ضروری ہے اور اپنی شرم گاہ کی حفاظت کرنا بھی ضروری ہے۔ یہ مردوں کے بھی ذمہ ہے یہ عورتوں کے بھی ذمہ ہے۔ اورجو چیزیں شرم گاہ کی گناہ تک پہنچائیں ان سے بچنا بھی ضروری ہے۔ قرآن کریم میں’’لَا تَزْنُوْا‘‘ نہیں فرمایا بلکہ قرآن کریم میں’’وَلَا تَقْرَبُوا الزِّنَا‘‘فرمایا۔ ’’لَا تَزْنُوْا‘‘ کا معنیٰ ہےزنا نہ کرو اور ’’وَلَا تَقْرَبُوا الزِّنَا‘‘ کا معنیٰ زنا کے قریب مت جاؤ۔
زنا کے اسباب سے بچو :
زنا کے اسباب اختیار نہ کرو، نا محرم کو دیکھنا حرام ہے،نامحرم سے بلا ضرورت بات کرناحرام ہے، گانے سننا حرام ہے، ڈانس دیکھنا اور کرنا حرام ہے کیونکہ اس سےآدمی کو زنا کی ترغیب ملتی ہے، زنا کے قریب جاتا ہے اور جو زنا کے قریب لے جانے والی چیزیں ہے اس سے منع فرمایا ہے۔ حدیث مبارک میں ہے۔
’’زِنَا الْعَيْنِ النَّظَرُ وَزِنَا اللِّسَانِ الْمَنْطِقُ ‘‘
)صحیح البخاری:6243(
آنکھ کا زنا دیکھ لینا ہے ، زبان کا زنا بات کرنا ہے۔یہ سب زنا ہیں اللہ ہمیں ان گناہوں سے محفوظ رکھے۔
دسویں صفت…… کثرت سے اللہ کا ذکر :
’’وَالذَّاكِرِينَ اللَّهَ كَثِيرًا وَالذَّاكِرَاتِ‘‘
اور کثرت کے ساتھ ذکر کرنے والے مرد اور کثرت کے ساتھ ذکر کرنے والی عورتیں۔ اللہ تعالیٰ نے صرف ’’وَالذَّاكِرِينَ اللَّهَ‘‘نہیں فرمایا بلکہ ’’وَالذَّاكِرِينَ اللَّهَ كَثِيرًا‘‘فرمایا یعنی صرف ذکر نہ کریں کثرت سے کریں۔حضر ت شیخ الحدیث مولانا محمدزکریا کاندھلوی رحمہ اللہ نے فرمایا: اگر آدمی سو مرتبہ ذکر کرے تو عربی زبان میں کثرت شمار کیا جاتا ہے۔
کلمہ شریف ، درود اور استغفار کی کثرت:
اس لیے آدمی اہتمام کرے کہ کم از کم دن میں سو مرتبہ پہلا کلمہلا الہ الا اللہ محمد رسول اللہسو مرتبہ استغفاراستغفراللہ ربی من کل ذنب و اتوب الیہ اور سو مرتبہ درودابراہیمی یا کوئی اور درود شریف پڑھ لے ، یہ ضرور پڑھ لیا کریں۔ یہ کثرت کے ساتھ اللہ کا نام لیناہے، کثرت کے ساتھ اللہ کا نام لیا کریں اس میں ان شا ء اللہ بہت زیادہ فائدہ ہوگا۔
معمولات یومیہ کا اہتمام :
اگر آپ بچیاں چاہیں یہ خانقاہ کے معمولات چھپے ہوئے ہیں ان کو منگا لیں، سارے معمولات ہمارے ان کے لیے ہیں جو بیعت کرتے ہیں۔ مرد بھی بیعت کرتے ہیں عورتیں بھی بیعت کرتی ہیں۔ مردوں کو بھی چاہیے کہ بیعت کریں اورعورتوں کو بھی چاہیے کہ بیعت کریں۔جس شیخ کی بیعت کریں اس کی باتیں مانیں اور اس کی نصیحتوں پر عمل کریں۔اس کابہت زیادہ خیال کرنا چاہیے کہ شیخ کی بات پر عمل کریں، ورنہ بیعت کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔
تو یہ دس صفتیں جس مرد یا عورت میں ہوں گی :

1.

فرمانبرداری۔

2.

دل سے ماننا۔

3.

عبادت۔

4.

سچ بولنا۔

5.

صبر کرنا۔

6.

راضی کرنا۔

7.

صدقہ کرنا۔

8.

روزہ رکھنا۔

9.

شرم گاہ کی حفاظت کرنا۔

10.

کثرت سے اللہ کا ذکر کرنا۔
ان کیلیے اللہ رب العزت نے فرمایا:
’’أَعَدَّ اللَّهُ لَهُمْ مَغْفِرَةً وَأَجْرًا عَظِيمًا‘‘
اللہ ان کی مغفرت بھی فرماتے ہیں اور اجر عظیم بھی دیتے ہیں دعا یہ کریں اللہ ہم سب کی مغفرت بھی کریں اوراللہ ہم سب کو اجر عظیم بھی عطا فرمائیں۔
وَآخِرُ دَعْوَانا أَنِ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ