عزت نفس اور باہمی احترام

User Rating: 5 / 5

Star ActiveStar ActiveStar ActiveStar ActiveStar Active
 
عزت نفس اور باہمی احترام
اَلْحَمْدُ لِلَّهِ نَحْمَدُہُ وَنَسْتَعِينُهُ وَنَسْتَغْفِرُهُ،وَنَعُوذُ بِاللَّهِ مِنْ شُرُورِ أَنْفُسِنَا وَمِنْ سَيِّئَاتِ أَعْمَالِنَا . مَنْ يَهْدِهِ اللَّهُ فَلَا مُضِلَّ لَهُ ، وَمَنْ يُضْلِلْ فَلَا هَادِيَ لَهُ ، وَنَشْهَدُ أَنْ لاَ إِلٰهَ إِلَّا اللهُ وَحْدَهُ لاَ شَرِيْكَ لَهُ وَنَشْهَدُ أَنَّ سَيِّدَنَا مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَ رَسُولُهُ،صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَعَلَى آلِهِ وَصَحْبِهِ وَسَلَّمَ تَسْلِيمًا كَثِيرًا اَمَّابَعْدُ . فَاَعُوْذُ بِاللّهِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِ بِسْمِ اللّهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ عَسَى أَنْ يَكُونُوا خَيْرًا مِنْهُمْ وَلَا نِسَاءٌ مِنْ نِسَاءٍ عَسَى أَنْ يَكُنَّ خَيْرًا مِنْهُنَّ وَلَا تَلْمِزُوا أَنْفُسَكُمْ وَلَا تَنَابَزُوا بِالْأَلْقَابِ بِئْسَ الِاسْمُ الْفُسُوقُ بَعْدَ الْإِيمَانِ وَمَنْ لَمْ يَتُبْ فَأُولَئِكَ هُمُ الظَّالِمُونَ ؀ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اجْتَنِبُوا كَثِيرًا مِنَ الظَّنِّ إِنَّ بَعْضَ الظَّنِّ إِثْمٌ وَلَا تَجَسَّسُوا وَلَا يَغْتَبْ بَعْضُكُمْ بَعْضًا أَيُحِبُّ أَحَدُكُمْ أَنْ يَأْكُلَ لَحْمَ أَخِيهِ مَيْتًا فَكَرِهْتُمُوهُ وَاتَّقُوا اللَّهَ إِنَّ اللَّهَ تَوَّابٌ رَحِيمٌ؀ يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّا خَلَقْنَاكُمْ مِنْ ذَكَرٍ وَأُنْثَى وَجَعَلْنَاكُمْ شُعُوبًا وَقَبَائِلَ لِتَعَارَفُوا إِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللَّهِ أَتْقَاكُمْ إِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ خَبِيرٌ؀
 الحجرات: 11،12،13
اَللّٰهُمَّ صَلِّ عَلٰى مُحَمَّدٍ وَعَلٰى آلِ مُحَمَّدٍ كَمَا صَلَّيْتَ عَلٰى إِبْرَاهِيْمَ وَعَلٰى آلِ إِبْرَاهِيْمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ۔اَللّٰهُمَّ بَارِكْ عَلٰى مُحَمَّدٍ وَعَلٰى آلِ مُحَمَّدٍ كَمَا بَارَكْتَ عَلٰى إِبْرَاهِيْمَ وَعَلٰى آلِ إِبْرَاهِيْمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ۔
دینی احکامات اور اس کے مخاطبین :
پارہ نمبر 26 سورۃ الحجرات کی تین آیات میں نے تلاوت کی ہیں۔ ان آیات کریمہ میں اللہ رب العزت نے دین کے احکامات عطاء فرمائے ہیں اور ان آیات میں اللہ رب العزت نے بعض احکام بیان فرماتے وقت مردوں کو الگ خطاب کیا ہے اور خواتین کو الگ خطاب کیا ہے۔ آیت نمبر 11 میں اللہ رب العزت نے تین باتیں ارشاد فرمائی ہیں اور یہ تین باتیں ایسی ہیں جو نہایت اہم ہیں، اسی طرح اگلی آیت ، آیت نمبر 12 میں بھی اللہ رب العزت نے تین باتیں نہایت اہم ارشاد فرمائی ہیں اور آیت نمبر 13 میں خلاصہ بیان فرمایا ہے بات کو سمجھانے کے لیے۔
تمسخر ،عیب ،برے القاب اور دل آزاری:
آیت نمبر 11 میں فرمایا
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا يَسْخَرْ قَوْمٌ مِنْ قَوْمٍ عَسَى أَنْ يَكُونُوا خَيْرًا مِنْهُمْ
اے ایمان والو! تم میں سے بعض لوگ دوسرے بعض لوگوں سے مذاق ٹھٹھہ اور تمسخر نہ کریں۔ ہوسکتا ہے جن کا تم مذاق اڑاتے ہو وہ تم سے بہتر ہوں۔ اسی طرح وَلَا نِسَاءٌ مِنْ نِسَاءٍبعض عورتیں بھی دوسری بعض عورتوں کا مذاق نہ اڑائیں ،ہوسکتا ہے یہ جو مذاق اڑانے والی ہے یہ بہتر نہ ہو بلکہ وہ بہتر ہو جن کا مذاق اڑایا جارہاہے۔
وَلَا تَلْمِزُوا أَنْفُسَكُمْ وَلَا تَنَابَزُوا بِالْأَلْقَابِ
اسی طرح کسی پر عیب نہ لگاؤ،طعنہ نہ دو اور برے برے نام رکھ کے ان کے لقب نہ دیا کرو۔ بِئْسَ الِاسْمُ الْفُسُوقُ بَعْدَ الْإِيمَانِ ایمان لانے کے بعد بہت برا اور بڑا گناہ ہے کہ آدمی ایسا لفظ کسی کے لیے بولے جس سے نفرت آتی ہو اور جو شخص اس سے توبہ نہ کرے وہ بہت بڑا ظالم ہے۔
بدگمانی ، جاسوسی اور غیبت:
اسی طرح آیت نمبر 12 میں فرمایا :
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اجْتَنِبُوا كَثِيرًا مِنَ الظَّنِّ
اے ایمان والو !آپس میں” بدگمانیوں“ سے بچا کرو ،إِنَّ بَعْضَ الظَّنِّ إِثْمٌ اس لیے کہ بعض گمان جوغلط ہوں گناہ ہوتے ہیں۔ وَلَا تَجَسَّسُوا وَلَا يَغْتَبْ بَعْضُكُمْ بَعْضًا اور کسی کی ”راز کی باتیں“ تلاش نہ کیا کرو! اور تم ایک دوسرے کی” غیبت“ بھی نہ کیا کرو۔
مردہ بھائی کا گوشت کھانا:
أَيُحِبُّ أَحَدُكُمْ أَنْ يَأْكُلَ لَحْمَ أَخِيهِ مَيْتًا فَكَرِهْتُمُوهُ
کیاتم میں سے کوئی بندہ اس بات کو پسند کرتا ہے کہ اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھائے تم اس کو پسند نہیں کرتے تمہیں گھن آتی ہے لہذا اپنے بھائی کی غیبت بھی نہ کرو۔
وَاتَّقُوااللَّهَ إِنَّ اللَّهَ تَوَّابٌ رَحِيمٌ
اور تم اللہ سے ڈرو بے شک اللہ توبہ قبول کرنے والے اور رحم کرنے والے ہیں۔
تخلیق، خاندان و قبائل اور حقیقی عزت:
آیت نمبر 13 میں فرمایا
يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّا خَلَقْنَاكُمْ مِنْ ذَكَرٍ وَأُنْثَى اے لوگو ہم نے تم سب کو ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا فرمایا۔ وَجَعَلْنَاكُمْ شُعُوبًا وَقَبَائِلَ لِتَعَارَفُوا ا ور تمہاری ذاتیں ار تمہارے قبیلے بنائے تاکہ ایک دوسرے کو پہچانیںإِنَّ أَكْرَمَكُمْ عِنْدَ اللَّهِ أَتْقَاكُمْ إِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ خَبِيرٌ
۔ اللہ تعالی کے نزدیک تم میں سے زیادہ عزت والا وہ ہے کہ جو تم میں سے زیادہ متقی ہے اللہ سب کچھ جانتے ہیں اور اللہ کریم بالکل باخبر ہیں۔
تو یہ تین آیات میں نے تلاوت کی ہیں ان تین آیات میں اللہ پاک نے جو چیزیں بیان فرمائی ہیں ان میں سے پہلی چیز ہے تمسخر اور مذاق اڑانا۔
تمسخر اور مذاق کی مختلف صورتیں:
علامہ قرطبی رحمہ اللہ نے ”الجامع الاحکام القرآن “میں لکھا ہے کہ کسی شخص کی تحقیر اور توہین کے لیے اس کے کسی عیب کو اس طرح ذکر کرنا جس سے لوگ ہنسنے لگیں اس کو” تمسخر اور استہزاء “کہتے ہیں اور یہ تمسخر جیسے زبان سے ہوتا ہے ایسے ہی ہاتھ اور پاؤں سے بھی ہوتا ہے، آپ کسی کی چلتے ہوئے نقل اتاریں ،کسی کے بولنے کی نقل اتاریں، کسی کے ہاتھ کے اشارے کی نقل اتاریں، جس سے اس کی تحقیر مقصود ہو یہ تمسخر ہے، اللہ پاک اس کو حرام فرمایا ہے اس سے بچنا چاہیے۔
الزام تراشی اور بُرے القاب دینے کی ممانعت :
اسی طرح دوسری بات اللہ رب العزت نے فرمائی کہ تم کسی پر ”الزام“ لگانے کسی پر مذاق اڑانے اور کسی کے بارے میں” برا لقب دینے “سے بہت بچا کرو ! اس کی سخت ممانعت ہے۔
اللہ رب العزت نے اس آیت میں مردوں کو مستقل طور پر خطاب فرما کر منع کیا ہے اور عورتوں کو مستقل طور پر خطاب کرکے منع فرمایا ہے۔کیوں ؟اس لیے کہ مرد بھی یہ کام کرتے ہیں اور عورتیں بھی یہ کام کرتی ہیں، اللہ تعالیٰ نے سب کو منع فرمایا ہے اور بات سمجھائی ہے کہ کوئی عورت جس کسی دوسری عورت کا مذاق اڑاتی ہے ہوسکتا ہے وہ اپنے اعمال کی وجہ سے اس سے بہتر ہو ،تو بتاؤاس کا تمہیں کیا فائدہ؟ اللہ ہی جانتے ہیں کہ تم سے بہتر کون ہے اس لیے مذاق نہیں اڑانا چاہیے۔
آیت کا حاصل :
آیت کا حاصل یہ ہے کہ اگر کسی شخص کے بدن یا صورت یا قد وقامت وغیرہ میں کوئی عیب نظر آئے تو کسی کو اس پر ہنسنے اور استہزاء کرنے کی جرات نہیں کرنی چاہیئے کیونکہ اسے معلوم نہیں کہ شاید وہ اپنے اخلاص اور نیک اعمال کی وجہ سے اللہ کے ہاں اس سے بہتر اور افضل ہو۔
عمرو بن شرحبیل کی حالت :
مفتی محمد شفیع عثمانی صاحب رحمہ اللہ نے تفسیر معارف القرآن میں لکھا ہے : ہمارے اکابر نے جب یہ آیت سنی تو ان کا حال یہ تھا کہ عمرو بن شرحبیل رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ اگر کسی شخص کو بکری کے تھنوں سے منہ لگا کر دودھ پیتا دیکھوں اور اس پر مجھے ہنسی آجائے تو میں ڈرتا ہوں کہ کہیں میں بھی ایسا ہی نہ ہوجاؤں۔
عبداللہ بن مسعود کی حالت :
فقیہ الامت حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں اگر میں کسی کتے کے ساتھ بھی استہزاء کروں تو ڈر تاہوں کہ میں خود کتا نہ بنا دیا جاؤں اس قدر ڈرتا ہوں جب ہم کسی

لولہے ،لنگڑے کا مذاق کریں اللہ ہمیں ایسا نہ بنادے۔

کالے کا مذاق اڑائیں اللہ ہمیں ویسا نہ بنادے۔

کسی معذور کا کریں اللہ ہمیں ویسا نہ بنادے۔

اندھے پر مذاق اڑائیں اللہ ہمیں ویسا ہی نہ بنادے۔
اللہ کو ساری قدرتیں حاصل ہیں ،اس لیے بہت زیادہ بچنا چاہیئے۔
اللہ تعالی کی نگاہ قلوب مسلم پر:
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں صحیح مسلم شریف میں حدیث موجود ہے: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :اللہ تعالی مسلمانوں کی صورتوں اور ان کی دولت پر نظر نہیں فرماتے بلکہ اللہ مسلمان کے قلوب اور اعمال کو دیکھتے ہیں۔
کسی کو کم نگاہ سے نہ دیکھ :
اسی طرح امام قرطبی نے اس حدیث کے متعلق فرمایا اس حدیث سے قاعدہ معلوم ہوا کہ شخص کے معاملے میں اس کے ظاہری حال کو دیکھو کس حکم نہیں لگا نا چاہیئے کیونکہ ہوسکتا ہے ظاہر میں تمہیں کچھ اور نظر آتا ہو اور اس کا باطن اللہ کے ہاں بہت بہتر ہو۔ اس لیے آدمی کو اس سے بہت زیادہ بچنا چاہیئے اور اپنے اعمال کی فکر کرنی چاہیئے اور دوسرے کو حقیر سمجھنے کی بالکل اجازت نہیں ہے۔
عیب جوئی کا مرض:
دوسری چیز جس کی اس آیت میں ممانعت آتی ہے وہ ہے ”لمز“ اس آیت میں اللہ پاک نے فرمایا
وَلَا تَلْمِزُوا أَنْفُسَكُمْ۔
اسی طرح قرآن کریم میں ہے
وَلَا تَقْتُلُوا أَنْفُسَكُمْ
) النساء:29(
یہ آیت سمجھنے کی ہے فرمایا وَلَا تَلْمِزُوا أَنْفُسَكُمْتم اپنے عیب نہ نکالو اسی طرح فرمایا
وَلَا تَقْتُلُوا أَنْفُسَكُمْاپنے آپ کو قتل نہ کرو۔
اپنا قتل اور اپنے عیب ؟
انسان خود کو تو قتل نہیں کرتا، اپنے عیب تو نہیں نکالتا پھر اس کا کیا مطلب یہ ہے کہ اپنے عیب نہ نکالو، اپنے آپ کو قتل نہ کرو۔ حضرت مولانا مفتی محمد شفیع صاحب رحمہ اللہ معارف القرآن میں لکھتے ہیں اس کا مطلب یہ ہے کہ دیکھو آپس میں ایک دوسرے کو قتل نہ کرو ،ایک دوسرے کو طعنہ نہ دو اور اس انداز میں بات کیوں کی ہے؟ جب انسان دوسرے کو قتل کرتا ہے تو گویا خود کو قتل کرتا ہے ،کیوں ؟جب اس نے دوسرے کو مارنا ہے تو دوسرے اس کو ماریں گے ، اسی طرح جب انسان کسی اور کا عیب نکالتا ہے تو گویا اپنے عیب نکالتا ہے ،جب آپ کسی کو طعنہ دیں گے وہ دوسری آپ کو طعنہ دیں گے تو گویا آپ نے اپنے عیب نکالے ہیں۔
لوگوں کی آنکھیں اور تمہارے عیب :
جیسے بعض علمائے کرام فرماتے ہیں :وفیک عیوب وللناس اعینتم عیب موجود ہیں اور لوگوں کی آنکھیں ان کو دیکھتی ہیں اور تمہیں نظر نہیں آتے۔ تو جب انسان دوسرے کو قتل کرتا ہے، تو اس کے حامی اس کو ماریں گے۔ گویا اس نے خود کو ماردیا ہے ، جب دوسرے کے عیب نکالتا ہے دوسرے اس کے عیب نکالیں گے گویا اس بندے نے اپنےعیب خود نکالے ہیں اس لیے انسان کو اپنا خیال کرنا چاہیئے۔
میں عیب کیوں نکالوں ؟:
پھر یہ بھی سوچے کہ جب میں دوسروں کے عیب نکالتا ہوں تو میرے اندر کتنے عیب ہیں ، اللہ کتنا ستَّار)عیب چھپانے والا( ہے ، اللہ نے پردہ ڈالا ہوا ہے میرے عیوب اللہ پاک نے پردے میں چھپادیے ہیں ، تو مجھے خیال کرنا چاہیئے۔ جب اللہ میرے عیب پردے میں چھپاتا ہے تو میں دوسرے کے عیب کیوں نکالوں ؟
چشم پوشی سے کام لیں :
اس لیے انسان کی خوش قسمتی اور سعادت مندی ہوتی ہے کہ انسان اپنے عیب کو دیکھے اور دوسرے پر چشم پوشی کرے اور اگر عیب دیکھ بھی لے تو چھپائے۔
تین انگلیاں کیا کہتی ہیں ؟:
دیکھو ہمارے بڑے فرماتے ہیں کہ جب ہم انگلی کے ساتھ کسی کے عیب کی طرف اشارہ کرتے ہیں ہماری ایک انگلی اُدھر جاتی ہے تو تین انگلیاں ہماری طرف آتی ہیں ایک انگلی کہتی ہے اُسے دیکھو تو تین کہتی ہیں خود کو دیکھو۔ اس لیے کسی کے عیب نکالنے سے پہلے انسان کو کئی بار سوچنا چاہیئے کہ میرے اندر کتنے عیب موجود ہیں؟ اور جب انسان اپنے عیبوں کی فکر کرتا ہے تو پھر دوسرے کے عیبوں کو بھول جاتا ہے۔
پڑی اپنی برائیوں پر جو نظر
ہندوستان کا آخری بادشاہ بہادر شاہ ظفر گزرا ہے اس کی اس وقت بھی رنگون )برما( میں قبر ہے۔ اب تو برما کا نام ہی بدل گیا ہے اب یہ” میانمار “کے نام سے مشہور ہے ینگون میں بہادر شاہ ظفر مرحوم کی قبر ہے۔ میں جب برما کے دورہ پر اس سال گیا ہوں تو میں نے اس کی قبر پر جاکر دیکھا ہے۔ وہاں اس کے اشعار بھی موجود ہیں بہادر شاہ ظفر نے کہا تھا۔
نہ تھی حال کی جب ہمیں اپنی خبر
رہے دیکھتے لوگوں کے عیب و ہنر
پڑی اپنی برائیوں پہ جو نظر

تو جہاں میں کوئی برا نہ رہا

جب اپنے عیب سامنے آئے تو پتا چلا کہ سب سے بُرے ہم ہیں اور جب تک اپنے عیب پر نظر نہیں پھر انسان دوسروں کے عیب کو ٹٹولتا ہے۔ اس لیے اللہ کے لیے دوسروں کے عیب ڈھونڈنے کی بجائے ہمیں اپنے عیب ختم کرنے کی فکر کرنی چاہیئے۔
اللہ کی ناراضگی کا سبب:
اس آیت میں اللہ پاک نے تیسری بات فرمائی ہے کہ کسی دوسرے کو برے لقب سے پکارنا منع ہے۔ مثلاً

ایک آدمی ایک ٹانگ سے معذور ہے اسے کہتےہو ”اوئے لنگڑے لولہے“

ایک آدمی کی آنکھیں نہیں ہیں اسے کہتے ہو”اوئے اندھا “

ایک آدمی کی ایک آنکھ نہیں ہے اسے کہتے ہو” اوئے کانا“
تو ایسے لفظ سے جب پکارتے ہیں تو اللہ ناراض ہوتے ہیں جو نعمت اللہ پاک نے دی ہے اس نعمت کو اللہ چھین بھی سکتے ہیں۔
وہ ناراض ہوتا ہے ؟:
حضرت ابو جبیرہ انصاری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ منورہ میں آئے تو ہم میں اکثر آدمی ایسے تھے جن کے دو یا تین نام مشہور تھے بعض نام ایسے بھی تھے جو لوگوں نے ان کی تحقیر اور توہین کے لیےمشہور کر رکھے تھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو معلوم نہ تھا بسا اوقات آپ بھی ان کو وہی نام لے کر پکار لیتے۔ صحابہ نے عرض کی :یارسول اللہ !وہ اس نام سے ناراض ہوتا ہے۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی ،اللہ پاک نے فرمایا کہ کسی کو برے نام سے نہ پکارا کرو۔
آیت کی تفسیر عبداللہ بن عباس سے :
حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ اس آیت میں جو وَلَا تَنَابَزُوا بِالْأَلْقَابِ ہے اس سے مراد یہ ہے کہ کسی شخص نے کوئی گناہ یا برا عمل کیا پھر اس پر ثابت بھی ہوگیا۔ اس کے بعد اس کو اس برے عمل کے وجہ سے برے نام سے پکارنا۔ مثلاً

۝

چوری کرنے والا۔

۝

زنا کرنے والا۔

۝

شراب پینے والا۔
توبہ کے بعد طعنہ دینا:
آدمی نے چوری سے توبہ کرلی ہے۔ پھر اسے لوگ” چور“ کہتے ہیں۔ ایک آدمی نے شراب پی ہے توبہ کرلی ہے پھر بھی اسے کہتے ہیں” ڈرنکر “ (Drunker) ہے، یا پیتاہے۔ ایک آدمی نے العیاذ باللہ،بدکاری کی ہےاس کے بعد اس نے توبہ بھی کر لی ہے پھر بھی لوگ اسی نام سے پکاریں ، عار دلائیں ، تحقیر کریں ،حرام ہے۔
گناہ پر عار دلانا:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :جو شخص کسی مسلمان کو ایسے گناہ پر عار دلائے جس سے اس نے توبہ کرلی ہے، تو اللہ اپنے ذمے لے لیتا ہے کہ اس کو اسی گناہ میں مبتلا کر کے دنیا و آخرت میں رسوا کرے گا۔
قرطبی 
اللہ پاک ہم سب کی حفاظت فرمائے ،تو اس آیت میں یہ باتیں منع فرمائی ہیں پہلی کسی کا مذاق نہ اڑائیں، دوسری کسی کے عیب نہ نکالیں، تیسری کسی کو برے لقب سے یاد نہ کریں، اس کا بہت زیادہ خیال رکھنا چاہیے اللہ تعالی ہماری حفاظت فرمائے۔
چھوٹو میاں………وغیرہ :
لیکن ایک بات سن لیں! بعض لقب ایسے ہیں جو ہمارے ہاں تاریخ میں مشہورہیں اگر چہ بذات خود اچھے نہیں لیکن ان کے بغیر پہچان نہیں ہوتی ،ایک بات چل نکلی اور بندہ اس کو محسوس بھی نہیں کرتا۔ بسا اوقات ایسے لقب سے تعبیر کرنے کی اجازت ہوتی ہے۔ مثلاً ایک بندہ چھوٹے قد کا ہوتا ہے اسے” چھوٹومیاں “ کہتے ہیں۔
ایک وقت آتا ہے کہ وہ بڑا بھی ہوجاتا ہے، شادی شدہ بھی ہوجاتا ہے، پھر بھی اس کا لقب چھوٹومیاں ہی رہتا ہے تو اس کے نام کے ساتھ کہتے ہیں فلاں چھوٹو۔ وہ خود بھی محسوس نہیں کرتا ،تو ایسی بات کہنے کی اجازت ہوتی ہے۔اس طرح بعض روایات میں یوں بھی آیا ہے جیسے ایک محدث کا نام ہے اعرج اعرج کا معنی لنگڑا ہے لیکن اس کی شہرت ہے۔
گنجائش کا ثبوت:
نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک صحابی کو جس کے ہاتھ نسبتاً لمبے تھے” ذو الیدین“ فرمایا دو ہاتھوں والا۔ اللہ کے نبی نے پیار سے فرمایا اب وہ نام چل پڑا ہے۔
محض پہچان مقصود ہوتو :
حضرت عبد اللہ بن مبارک رحمہ اللہ سے دریافت کیا گیا کہ حدیث کی سندوں میں بعض ناموں کے ساتھ کچھ ایسے القاب بھی آتے ہیں جیسے کہتے ہیں حمید الطویل یعنی لمبا سلمان الاعمش یعنی چند ھی آنکھوں والا، مروان الاصفر زرد رنگ والا تو ان القاب کے ساتھ ان کا ذکر کرنا جائز ہے یا نہیں ؟
آپ نے فرمایا جب تمہارا ارادہ عیب نکالنے کا نہ ہو، صرف پہچان کا ہو تو پھر جائز ہے۔ مطلب کیا ؟ کسی آدمی کو ایسے لقب سے یاد کرنا جس کے اشارہ اس کے گناہ کی طرف ہو جس سے توبہ کرچکا ہے ، یہ جائز نہیں ہے۔ ایسے لقب سے پکارنا جو کسی کمزوری کی طرف اشارہ کرتا ہو تو جائز نہیں ہے۔ ہاں جب عیب کی نیت نہ ہواور اس کی شہرت اس نام سے تو پھر بات الگ ہوتی ہے اللہ ہمیں یہ بات سمجھنے کی توفیق عطاء فرمائے۔
نبوت کے عطا کردہ القاب :
رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کا مبارک عمل یہ تھا کہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم بسا اوقات بعض نام اور لقب دیتے لیکن جو زیادہ پسند ہوتا اسی لقب کے ساتھ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پکارا کرتے تھے۔ بعض صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لقب عطا فرمائے بھی ہیں۔ جیسے

صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کو دربار رسالت سے” عتیق“ کا لقب ملا ہے۔ عتیق کا معنیٰ ہوتا ہے ”آزاد“۔ جہنم کی آگ سے آزاد ہے۔

حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو ”فاروق“ کا لقب ملا ہے۔ فاروق کا معنیٰ ہے حق اور باطل کے درمیان فرق کرنے والا۔

حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کو” اسد اللہ“ کا لقب ملا ہے۔اور اسد اللہ کا معنیٰ ہے اللہ کا شیر۔

حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کو لقب ملا ہے ”سیف اللہ“ کا۔ سیف اللہ کا معنی ہے اللہ کی تلوار۔
ایسے اچھے اچھے لقب حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو بسا اوقات عطا فرمایا کرتے تھے۔
خلاصہ آیت:
آیت نمبر 12 میں اللہ تعالی نے تین باتیں اور تین احکام بیان فرمائے تین باتوں کو جرم قرار دیا ہے ،پہلا ظن یعنی بد گمانی ،دوسرا تجسس کسی کے پوشیدہ عیب کا سراغ نکالنا ، تیسراغیبت ،غیر موجود آدمی کے متعلق ایسی بات کہنا جس کو اگر وہ سنتا تو اس کو ناگواری ہوتی۔
گمان سے بچو !مگر کون سا گمان؟ :
یہ تین احکام بیان فرمائے
:يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اجْتَنِبُوا كَثِيرًا مِنَ الظَّنِّ
اے ایمان والو گمان سے بچو۔ یہاں گمان کا مطلب عام گمان نہیں ہےبلکہ یہاں گمان سے مراد یہ ہے کہ ایسے گمان سے بچو جو بدگمانی ہے۔ اس لیے فرمایا كَثِيرًا مِنَ الظَّنِّ بہت سے گمانوں سے بچو یہ نہیں فرمایا کہ گناہ سے بچو۔
بعض گمان گناہ ہوتے ہیں :
بلکہ یہ فرمایا کہ بہت سے گمانوں سے بچو کیوں فرمایا إِنَّ بَعْضَ الظَّنِّ إِثْمٌاس لیے کہ بعض گمان گناہ ہوتے ہیں۔ اس سے معلوم ہوا ہر گمان گناہ نہیں ہےکون سا گمان گناہ ہے؟ جس سے آدمی بچے۔ اور کون سا گمان گناہ نہیں جس سے آدمی نہ بچے، تو یہاں ظن سے مراد ”تہمت“ ہے۔ بد گمانی سے بچو اور برے گناہ سے بچو اور ایسا گمان جو برا نہیں ہے اس سے بچنا کیا ہے؟۔
گمان کی چار اقسام :
امام ابو بکر جصاص رحمہ اللہ نے احکام القرآن میں لکھا ہے ظن اور گمان کی چارقسمیں ہیں۔

1)

ایک حرام ہے۔

2)

دوسراواجب ہے۔

3)

تیسرا مستحب ہے۔

4)

اور چوتھا جائز ہے۔
حرام گمان کون سا ہے ؟:
حرام یہ ہے کہ اللہ تعالی کے ساتھ میں بدگمانی رکھیں کہ مجھے عذاب ہی دے گا اور مجھ پر مصیبت ہی نازل کرےگا، یہ اللہ تعالی کے رحمت سے مایوسی ہے۔ ایسا گمان حرام ہے۔نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
لاَ يَمُوتَنَّ أَحَدٌ مِنْكُمْ إِلاَّ وَهُوَ يُحْسِنُ الظَّنَّ بِاللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ
) مسلم رقم الحدیث:2877(
تم میں سے کسی کو اس کے بغیر موت نہیں آنی چاہیے کہ اس کا اللہ تعالی کے ساتھ گمان اچھا ہو۔
بندے کے گمان کے مطابق:
نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ تعالیٰ کے ساتھ اچھا گمان لے کر دنیا سے جاؤ۔حدیث مبارک میں ہے
أَنَا عِنْدَ ظَنِّ عَبْدِي بِيْ
) بخاری 7405(
میں اپنے بندے کے اس گمان کے مطابق فیصلہ کرتا ہوں جو بندہ میرے ساتھ گمان رکھتا ہے۔ بندہ اچھا گمان رکھتا ہے تو اللہ تعالی اس کی مغفرت فرمادیتے ہیں، اللہ تعالی کے ساتھ اچھا گمان رکھنا فرض ہے اور بد گمانی رکھنا حرام ہے۔
نیک لوگوں سے بدگمانی:
اسی طرح ایسے مسلمان جو ظاہری حالت میں نیک دیکھے جاتے ہیں ان کے ساتھ بغیر کسی قوی دلیل کے بدگمانی کرنا حرام ہے۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ۔
إِيَّاكُمْ وَالظَّنَّ فَإِنَّ الظَّنَ أَكْذَبُ الْحَدِيثِ
) بخاری 2748(
برے گمانو ں سے بچو کیونکہ گمان جھوٹی بات ہیں۔ اب یہاں بالاتفاق ظن سے مراد کسی مسلمان کے ساتھ بلا کسی مضبوط دلیل کے بدگمانی کرناہے۔ تو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بدگمانی کرنے سے منع فرمایا۔
گواہی پر عمل کرنا :
اور جو ایسے کام ہیں ان میں کسی جانب پر عمل کرنا شرعاً ضروری ہے اور اس کے متعلق قرآن وسنت میں کوئی دلیل واضح موجود نہیں وہاں پر ظن غالب پر عمل کرنا واجب ہے۔ جیسے باہمی تنازعات اور مقدمات کے فیصلےمیں ثقہ گواہوں کے گواہی کے مطابق فیصلہ دینا۔ کیونکہ حاکم اور قاضی جس کی عدالت میں مقدمہ دائر ہے اس پر اس کافیصلہ دینا واجب اور ضروری ہے اور خاص معاملے کے لئے کوئی نص قرآن وحدیث میں موجود نہیں تو ثقہ آدمیوں کی گواہی پر عمل کرنا اس کے لئے واجب ہے۔ اب اگرچہ یہ امکان ہے کہ ثقہ آدمیوں نے جھوٹ بولا ہو۔ لیکن اس کی جھوٹ پر کوئی دلیل نہیں اس لئے ان کے گواہی پر عمل کرنا واجب ہے۔
سمت قبلہ متعین کرنے میں ظن غالب :
سفرمیں سمت قبلہ معلوم نہ ہو اور کوئی بتانے والا بھی نہ ہو اب وہاں آدمی اپنے ظن اور گمان کے مطابق قبلہ متعین کرے گا، میرا دل کہتا ہے قبلہ اس طرف ہے۔ فقہاء کی زبان میں” تحری “کہتے ہیں۔ اپنے ظن غالب پر عمل کرنا واجب ہے۔
ضائع شدہ چیز کی قیمت میں ظن غالب :
اسی طرح کسی شخص پر کسی چیز کی ضمان دینا واجب ہو تو ضائع شدہ چیز کی قیمت میں ظن غالب پر عمل کرنا واجب ہے۔
ظن مباح اور جائز:
اور ظن مباح ایسا ہے جیسا نماز کی رکوع میں شک ہوجائے تین پڑھی ہیں یا چار تو ظن غالب پر عمل کرنا جائزہے۔
روز مرہ کے مسائل میں ظن کا اعتبار:
عموماً ہمارے ہاں خواتین بھی مسائل پوچھتی ہیں، لوگ مسئلے پوچھتے ہیں کہ مجھے شک پڑجاتا ہے کہ میں نے تین رکعات پڑھی ہیں یا چار؟ مجھے شک پڑجاتا ہے کہ جب میں نے وضو کرکے نماز شروع کی تھی درمیان میں وضو ٹوٹ گیاہے شاید؟ یہاں شک کو نہیں دیکھتے۔ یہاں دیکھتے ہیں کہ زیادہ گمان کس پر ہے؟ جب وضو کرکے نماز شروع کی ہے اور شک پڑا ہے تو شک کو چھوڑدے اور نماز اپنی جاری رکھے۔ رکعات میں شک پڑا ہے تین پڑھی ہیں یا چار پڑھی ہیں؟ تو شک کو چھوڑیں جو زیادہ گمان ہیں اس کی مطابق اپنی نماز پڑھے۔ اللہ تعالی ہمیں یہ بات سمجھنے کی توفیق عطافرمائیں۔
اسی طرح اب دیکھیں قرآن کریم میں ہے
لَوْلَا إِذْ سَمِعْتُمُوهُ ظَنَّ الْمُؤْمِنُونَ وَالْمُؤْمِنَاتُ بِأَنْفُسِهِمْ خَيْرًا
) النور:12(
اس میں مسلمانوں کے ساتھ اچھے گمان کی، اچھے گمان کی،تاکید کی گئی ہے ، تم نے امی عائشہ رضی اللہ عنہ والا واقعہ سنا تھا تو تم مسلمانوں کو فورا اچھا گمان رکھنا چاہیے تھا جب ان کے خلاف مضبوط دلیل نہ ہو اچھی بات کہتے۔ اس لئے کہ یہ مشہور ہے ”ان من الحزم سوء الظن “ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ بدگمانی رکھیں بلکہ آدمی احتیاط رکھیں۔ اللہ تعالی ہمیں یہ باتیں سمجھنے کی توفیق عطافرمائیں۔
بدگمانی کے بجائے حسن ظن :
تو اس آیت میں بدگمانی سے منع فرمایا گیا ہے مسلمان کے بارے میں بلاوجہ بدگمانی کاشکار نہ ہو۔ مثلاًآپ کسی کے گھر جاتی ہے اور اس گھر میں جاکر دیکھا کہ رمضان المبارک کا مہینہ ہے اور اچانک گھر میں گئے تو ایک خاتون ہے اس کا روزہ نہیں تھا۔ اب فوراً بدگمانی نہ کریں کہ روزہ نہیں رکھتی بلکہ آپ سمجھے خاتون ہیں اس کامہینہ کا عذر ہے ہوسکتا ہے اس عذر کی وجہ سے روزہ نہ رکھا ہو۔ جب ہمارے پاس ایک جائز اور معقول وجہ موجود ہے تو پھر اس کے متعلق ہم بدگمانی کاشکار کیوں ہوں؟اس لئے بلاوجہ ہمیں بدگمانی کا شکار نہیں ہونا چاہیے۔
جاسوسی سے بچنا چاہیے :
دوسری چیز اس حدیث مبارک میں سمجھائی ” وَلَا تَجَسَّسُوا “ اس کا مطلب یہ ہے کہ خفیہ کسی کا عیب تلاش نہ کرو، خفیہ کا مطلب بلا وجہ آدمی کوشش کریں کہ اس کے اندر یہ عیب ہے اس کے اندر یہ کمزوری ہے، اس میں فلاں چیز ہے، اللہ کے لئے انسان کو ایسے نہیں کرنا چاہیے اس سے انسان کو بچنا چاہیے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
لاَ تَغْتَابُوا الْمُسْلِمِينَ ، وَلاَ تَتَّبِعُوا عَوْرَاتِهِمْ۔
)سنن ابی داود رقم:4882(
مسلمان کی غیبت کبھی بھی نہ کرو اور مسلمان کی عیب کو تلاش بھی نہ کرو۔
عیب تلاش مت کیا کرو :
فَإِنَّهُ مَنِ اتَّبَعَ عَوْرَاتِهِمْ يَتَّبِعِ اللَّهُ عَوْرَتَهُ وَمَنْ يَتَّبِعِ اللَّهُ عَوْرَتَهُ يَفْضَحْهُ فِى بَيْتِهِ۔
) سنن ابی داود رقم:4882(
تم یہ کام نہ کرو کیوں کہ جو شخص کسی کے عیب کو تلاش کرتا ہے، اللہ تعالیٰ اس کے عیب کو تلاش کرے گا، اور جس کے عیب کو اللہ تعالی تلاش کریں اللہ تعالی اس بندے کو اس کے گھر کے اندر ہی ذلیل کرکے رکھ دیتے ہیں۔ اس لئے ہمیں کسی کے عیب کو تلاش نہیں کرنا چاہیے۔
جاسوسی کی صورتیں اور گنجائش :
بیان القرآن میں حکیم الامت، مجدد الملت، مولانا محمداشرف علی تھانوی رحمہ اللہ نے فرماتے، چھپ کر کسی کی بات سننا، یا اپنے کو سوتا ہوا بنا کر کسی کی باتیں سننا بھی تجسس میں داخل ہیں۔ ہاں اگر کسی کے بارے میں خطرہ ہوکہ یہ ہمیں نقصان پہچاتے ہیں اور ہمارے خلاف یہ مشورہ کرتے ہیں، ہمیں کوئی نقصان پہنچانا چاہتے ہیں، تو ایسے وقت کوئی ایسی تدبیر کرنا جس سے پتہ چل جائے ان کا منصوبہ کیا ہے؟ اس سے آدمی بچیں، تو اس کی گنجائش موجود ہے۔ لیکن بلاوجہ تجسس نہ کریں، کسی کی عیب اور گھر کی باتیں تلاش نہ کریں۔ یہ بہت بڑا گناہ ہے۔
غیبت بہت سخت گناہ ہے :
تیسری چیز اس آیت میں جو بیان فرمائی کہ کسی کی غیبت کرنا، غیبت سے بچو، اللہ تعالی نے فرمایا اس کا بہت اہتمام کروکہ کوئی انسان کسی کی کوئی غیبت نہ کریں۔
وَلَا يَغْتَبْ بَعْضُكُمْ بَعْضًا۔
غیبت نہ کرو۔ آگے ایک عجیب بات بیان فرمائی
أَيُحِبُّ أَحَدُكُمْ أَنْ يَأْكُلَ لَحْمَ أَخِيهِ مَيْتًا فَكَرِهْتُمُوهُ۔
اس آیت میں کسی مسلمان کی آبروریزی اور تحقیرو توہین کو اس کےگوشت کھانےکے مشابہ قرار دیاہے، اگر اس کے وہ شخص سامنے ہو وہ ایسا ہے جیسے کسی زندہ انسان کا گوشت نوچ کر کھایا جائے۔
کسی میں عیب تلاش کرنے کی ممانعت:
قرآن کریم میں لفظ ”لمز “ سے تعبیر کرکے حرام قراردیا گیا۔”وَلَا تَلْمِزُوا أَنْفُسَكُمْ “ آگے آئے گا
” وَيْلٌ لِكُلِّ هُمَزَةٍ لُمَزَةٍ “
) سورة الهمزة:1(
کہ دیکھیں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں جہنم کی آگ ہے ایسے آدمی کے لئے ہے کہ جو کسی کی عیب تلاش کرتے ہیں۔ تو یہ ایسی ہے جیسے انسان کسی کا مردہ گوشت کھائے، اب دیکھو جب انسان کسی کاگوشت کھائے طبعی تکلیف ہوتی ہے ،جسمانی اذیت بھی۔ فرق کیا ہےکہ ایک مردہ ہے اس کا گوشت کھائے( اللہ تعالی محفوظ فرمائے)
تب بھی دوسرے کو اذیت ہے۔ غیب کو جب تک عیب کی خبر نہ ہو اذیت نہیں لیکن جب خبر ہوگی تو پھر اس کو اس کی اذیت اور تکلیف ہوگی۔ اس لئے اللہ تعالی ہمیں بات سمجھنے کی توفیق عطا فرمائی۔
غیبت اور بہتان :
غیبت کو اللہ تعالی نے بہت بڑا، بہت بڑا گناہ قرار دیا ہے۔ ہمیں تجسس سے، غیبت سے، بدگمانی سے بچنا چاہیے۔ ایک حدیث مبارک میں ہے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم اجمعین نے عرض کیا یارسول اللہ آپ نے یہ فرمایا غیبت نہ کرو، توکسی بندے کے اندر عیب موجود ہے ہم وہی بیان کرتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اگر تمہارے بھائی میں وہ عیب نہیں جو تم نے بیان کیا پھر تو تم نے اس پر بہتان باندھا ہے۔ اور اگر عیب موجود ہے پھر بیان کیا تو یہ غیبت ہے۔ ہمیں اللہ تعالی محفوظ فرمائیں۔چغلی کرنا، غیبت کرنا، بدگمانی کرنا یہ بہت بڑے گناہ ہے۔ ہمیں اس سے بچنےکی بھر پور کوشش کرنی چاہیے۔
غیبت سننے کا گناہ :
حضرت میمون رحمہ اللہ فرماتےہیں کہ ایک مرتبہ میں نے خواب میں دیکھا کہ ایک مردہ ہے پڑا ہے، اورکوئی کہنے والا کہہ رہا ہےاس کو کھاؤ! میں نے کہا اے خدا کے بندے میں اس کو کیوں کھاؤں؟ اس نے کہا اس لئے کہ تو نے فلاں شخص کے فلاں غلام کی غیبت کی ہے۔
میں نے کہا خدا کی قسم! میں نے اس کے متعلق کوئی بری بات کی ہی نہیں، تو اس شخص نے کہا ہاں! لیکن تونے اس کی غیبت سنی تو ہے ناں اور تو اس پر راضی رہا۔
اللہ والے کی حالت :
حضرت میمون رحمہ اللہ نے فرمایا کہ اس خواب کے بعد حالت یہ تھا کہ نہ خود کسی کی غیبت کرتے اور نہ اپنی مجلس میں کسی کو غیبت کرنے دیتے۔
غیبت کرنا اور سننا دونوں گناہ ہیں :
نہ کسی کی غیبت کریں اور نہ کسی کی غیبت سنیں، اگر آپ کے مجلس کے اندر جہاں کوئی عورتیں بیٹھی ہیں اور بات کریں، تو اس کی بھی زبان بند کرو اور وہاں سے اٹھ جائے۔ کیوں کہ کسی غیبت کرنا اورکسی کی غیبت سننا بھی گناہ ہے۔
غیبت کرنے والوں کی سزا :
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم معراج کی شب جب تشریف لے گئے، تو آپ نے فرمایا :معراج کی رات میرا ایک ایسی قوم پر گزر ہوا جن کے باخن تانبے کے تھے ،اپنے چہرے اور بدن کے گوشت نوچ رہی تھی۔ میں نے جبرئیل علیہ السلام سے پوچھا یہ کون لوگ ہے؟ آپ نے فرمایا یہ وہ لوگ ہیں جو اپنے بھائی کی غیبت کرتے اور ان کی آبروریزی کرتے تھے۔
غیبت؛ زنا سے زیادہ سخت گناہ کیسے ہے؟ :
حضرت ابوسعید اور جابررضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
” الْغَيْبَةُ أَشَدُّ مِنَ الزِّنَا “
) شعب الایمان رقم:6314(
غیبت زنا سے بھی بہت بڑا گناہ ہے۔ صحابہ کرام ر ضوان اللہ عنہم اجمعین نے عرض کیا: یا رسول اللہ! یہ کیسے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ایک شخص زنا کرتا ہے اور توبہ کر لیتا ہے اس کا گناہ معاف ہوجاتا ہے۔
غیبت سے توبہ اور معافی :
غیبت کرنے والے کا گناہ اس وقت تک معاف نہیں ہوسکتا جب تک وہ شخص معاف نہ کریں، جس کی غیبت کی گئی ہے اور جس کی غیبت کی گئی ہے اگر اس کو پتہ چل گیا تو اس سے معافی مانگنا چاہیے، اگر اس کو پتہ نہیں چلا تو توبہ اور معافی مانگیں اللہ تعالی سے، اللہ تعالی معاف فرمادیں گے۔
غیبت کا تعلق حقوق اللہ اور حقوق العباد سے :
خیر میں عرض کررہا تھا ہمیں غیبت سے بچنا چاہیے، یہ غیبت حق اللہ کی بھی مخالفت ہے اور حق العبد کی بھی مخالفت ہے، جس کی غیبت کی ہے اس سے بھی معاف کرائیں اور اللہ تعالی کے حکم کی بھی مخالفت کی ہے۔ اس لئے اللہ تعالیٰ سے بھی معافی مانگیں لیکن جب تک اس کو پتہ نہ چلے اس سے معافی مانگنا ضروری نہیں ہے۔ بعض حضرات کی یہ رائے ہے اگر پتہ چل جائے تو پھر اس سے معاف کرانا ضروری ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں یہ ساری باتیں سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے۔
کافر اور مجنون کی غیبت:
آپ ایک مسئلہ یاد رکھ لیں کہ اگر کوئی بچہ ہے، مجنون ہے، یا کافر ہے اور ذمی ہے، غیبت اس کی بھی حرام ہے۔ کیونکہ ان کو بھی تکلیف دینا جائز نہیں ہے، ہاں جو کافر حربی ہے دار الکفر میں ہے، اس کا مسئلہ اور ہے۔
اشاروں سے غیبت :
اسی طرح یادرکھیں کہ جس طرح غیبت آدمی کی قول سے ہوتی ہے اسی طرح فعل اور اشارے سے بھی ہوتی ہے۔ اپنے فعل اور اشاروں سے غیبت نہیں کرنا چاہیے۔ اللہ تعالی ہمیں یہ بات سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے۔
مسئلہ پوچھنا غیبت نہیں :
ایک مسئلہ یاد رکھ لیں اگر کوئی عورت ہے اس کے خاوند کا مسئلہ ہے، کسی مفتی سے مسئلہ پوچھنا چاہتی ہے، اسے اپنی خاوند کی بات پوری بتاتی ہے تو یہ غیبت نہیں ہے۔ اس لئے کہ اگر اس نے حالات بتانے نہیں ہے تو مسئلہ پوچھیں گے کیسے؟ تو اس کو غیبت نہیں کہتے۔
قرض دار اور قرض خواہ کی غیبت:
اگر ایک آدمی نے اپنے کسی سے پیسے لینے ہیں اور اس کے بارے میں کسی کو بتائیں، میرا پیسہ مجھے نہیں دیتا یہ غیبت نہیں ہے۔ کوئی دوسری اس کی باتیں کریں یہ غیبت کا حصہ ہے۔ اللہ تعالی ہم سب کو اس سے حفاظت فرمائے۔
خلاصہ بیان:
اس آیت مبارکہ میں بھی اللہ تعالی نے تین حکم دئے ہیں، گویا کہ اللہ تعالی ان دو آیتوں میں چھ احکام عطا فرما دئیے ہیں۔ جو آپ حضرات سے آیت نمبر 11 میں فرمایا، ایک آدمی دوسرے آدمی کا تمسخر، مزاق نہ اڑائیں، پھر فرمایا عیب جوئی نہ کریں۔ اور پھر فرمایا کہ آپس میں برے لقب سے پکارو مت۔
آیت نمبر 12 میں بھی تین حکم دیے ہیں: ایک بدگمانی نہ کریں۔ دوسرا کسی کی خفیہ غیب تلاش نہ کرواور”
وَلَا يَغْتَبْ بَعْضُكُمْ بَعْضًا “
کسی کی غیبت بھی نہ کرو۔
آگے آیت نمبر 13 میں اللہ تعالی فرمایا :
يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّا خَلَقْنَاكُمْ مِنْ ذَكَرٍ وَأُنْثٰی“
اے لوگو! ہم نے تم کو ایک مرد اورایک عورت سے پیدا کیا، تمہارے ذاتیں اور جماعتیں مختلف کیوں بنائے ؟تاکہ تمہارے آپس میں پہچان ہو۔ بے شک تم میں اللہ تعالی کے ہاں عزت والاوہ ہے جو تم میں سے زیادہ پرہیزگار ہو۔
مساوات وبرابری کا درس :
اللہ تعالی نے صاف صاف فرمادیا کہ کسی کو حقیر اور ذلیل مت سمجھو، قوم کا بڑی ہونااور قوم کا چھوٹی ہونا ، کسی کے رنگ کا گورا ہونا اور کسی کے رنگ کا کالا ہونا، کسی کا دولت والا ہونا اور کسی کا غریب ہونا یہ سب بعد کی باتیں ہیں، ہم ایک باپ حضرت آدم علیہ السلام کی اولاد ہیں اور ایک ماں حضرت حوا علیہا السلام کی اولادہیں۔ اس اعتبار سے دنیا کے انسان بنو آدم ہونے کی حیثیت سے آپس میں بہن بھائی ہیں۔اس لئے آدمی کو اس کا بہت زیادہ خیال رکھنا چاہیے۔ اور یہ فخر کرنا اور مباحات کرنا، اللہ تعالی اس سے حفاظت فرمائیں، اللہ تعالی ہم سب کو محفوظ رکھیں۔
فتح مکہ کے دن حکم آیا:
یہ آیات کس موقع پر نازل ہوئیں؟ کہ مکہ فتح ہوگیا، حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت بلال حبشی رضی اللہ عنہ کو فرمایا:اذان دو۔تو قریش مکہ جو ابھی مسلمان نہیں ہوئے تھے انہوں نے کہااللہ کا شکر ہے ہمارے آباء و اجداد پہلے فوت ہوگئے ان کو یہ روز دیکھنا نہیں پڑا۔حارث بن ہشام نے کہا:آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کالےکوےکے سوا (العیاذ باللہ) کوئی آدمی نہیں ملا ،جو مسجد حرام میں اذان دےاور ابوسفیان رضی اللہ عنہ نے کہا میں کچھ نہیں کہتا، مجھے خطرہ ہے اگر میں نے کچھ کہہ دیا آسمان سے وحی آجائے گی۔
کالے گورے رنگ کی برتری کچھ نہیں :
اتنے میں حضرت جبرئیل امیں آئے انہوں نے آکر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو ساری گفتگو سنادی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو بلاکر پوچھا کہ تم نے کیا کہا تھا ؟ انہوں نے اقرار کیا۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی جس نے بتادیا فخر اور عزت کی چیز ایمان اور تقوی ہے، یہ رنگ وغیرہ کچھ بھی نہیں ہے، حضرت بلال رضی اللہ عنہ مان لیا اگرچہ کالا ہے لیکن تقویٰ اور اورایمان کے اعتبار سے بلال مجھ سے افضل ہیں۔
دو قسم کے لوگ:
حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کی روایت ہے کہ فتح مکہ کے موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی اونٹنی پر سوار ہوکر طواف فرمایا، تاکہ سب لوگ دیکھ لیں اور طواف میں فرمایا
” إِنَّ اللهَ عَزَّ وَجَلَّ قَدْ أَذْهَبَ عَنْكُمْ “
) ابوداود رقم:5118(
میں اللہ تعالی کا شکر ادا کرتا ہوں جس اللہ تعالی نے تم سے اس جاہلیت کی دبے تکبرکو دور کردیا ہے، فرمایا اے لوگوں تم یاد رکھوں”اَلنَّاسُ رَجُلاَن“ کہ لوگوں کی دو قسمیں ہیں۔ مُؤْمِنٌ تَقِىٌّ ایک آدمی وہ ہے جو نیک ہے متقی ہے شریف ہے۔ وَفَاجِرٌ شَقِىٌّ ایک وہ شخص ہے جو گناہ گار ہے اور نافرمان ہے۔
معزز افراد اور ذلیل لوگ:
جو یہ نیک آدمی ہے اللہ تعالی کے ہاں عزت والے ہیں اور یہ نافرمان ہے اللہ تعالی کے ہاں ذلیل ہے۔ پھر آیت پڑھی
يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّا خَلَقْنَاكُمْ
تو اس آیت میں فرمایا ہم نے جماعتیں اور قبیلے بنادی ہیں، تاکہ تمہارا آپس میں تعارف ہو۔ لیکن اس کی وجہ سے آدمی دوسرے پر اپنا رعب جھاڑے یہ اچھی بات نہیں۔
ہماری دعا ہے :
اللہ تعالیٰ ہمیں بات سمجھنے کی توفیق عطافرمائے، اللہ تعالی ہم سب کو گناہوں سے بچنے کی توفیق عطافرمائیں،اللہ تعالیٰ ہمیں عیب جوئی سے بچائیں،اللہ تعالیٰ ہمیں تجسس سے بچائیں اور اللہ تعالیٰ ہمیں بہتانوں سے بچائیں۔ آمین
خواتین کا تربیتی ادارہ :
میں آپ کے سامنے بارہا عرض کرتاہو کہ یہ جو ادارہ ہے”مرکز اصلاح النساء“یہ اس لئے بنا ہے اس میں بچیاں قرآن مجید پڑھیں اور اس پر عمل کریں، احادیث پڑھیں پھر اس پر عمل کریں، خواتین ہر مہینے آئیں قرآن مجید کو سنیں اور اس پر عمل کریں، درس دینے کامقصد یہ ہوتاہے اس کو اپنی زندگی میں لائے اور جو گناہ کی بات ہے اس سے بچیں، نیکی کی بات ہے اس کو قبول کریں، اللہ تعالی ہم سب کو گناہوں سے بچائیں، اور نیک اعمال کی توفیق عطافرمائیں۔
اپنی بچیوں کو مدرسے کی طرف متوجہ کرو!اپنے بچوں کو مدرسے کی طرف متوجہ کرو! بچوں کو قرآن پڑھاؤ اور بچیوں کو بھی دین پڑھاؤ،ان شاء اللہ ایسی اولاد دنیا میں بھی آپ کے آنکھوں کی ٹھنڈک بنے گی اور آخرت کے لئے بھی ذخیرہ بنے گی۔ اللہ تعالی ہم سب کو دین پڑھنے، سمجھنے،اور عمل کرنےکی توفیق عطافرمائیں۔
وَآخِرُ دَعْوَانا أَنِ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِين

َ