مغفرت کی طرف دوڑو

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
مغفرت کی طرف دوڑو
خانقاہ اشرفیہ اختریہ، سرگودھا
تمہید
الحمدللہ وحدہ لاشریک لہ والصلوۃ والسلام علی من لانبی بعدہ،
اما بعد!
فاعوذباللہ من الشیطان الرجیم،بسم اللہ الرحمن الرحیم۔ وَسَارِعُوا إِلَى مَغْفِرَةٍ مِنْ رَبِّكُمْ وَجَنَّةٍ عَرْضُهَا السَّمَاوَاتُ وَالْأَرْضُ أُعِدَّتْ لِلْمُتَّقِين
آل عمران:133
ترجمہ:اپنے رب کی مغفرت اور اس جنت کی طرف دوڑو جس کی وسعت ایسی ہے جیسے آسمان اور زمین ،جو خدا سے ڈرنے والوں کے لیے تیار کی گئی ہے۔
پہلے مغفرت پھر جنت
محترم دوستو اور بھائیو!اللہ رب العزت نے اس آیت میں انسان کو مغفرت اور جنت کی طرف دوڑنے کی ترغیب دی ہے۔مقصد یہ ہے کہ اپنے گناہوں کی معافی طلب کرنے میں جلدی کرو۔اس کانتیجہ یہ ہوگا کہ باری تعالیٰ تمہیں جنت عطا فرمائیں گے۔پر لطف بات یہ ہے کہ پہلے مغفرت کا ذکر ہے اور جنت کا ذکر بعد میں ہے۔ اشارہ ہے کہ پہلے معافی پھر جنت،کوئی بندہ جنت میں گناہوں کی معافی کے بغیر نہیں جاسکتا،پاک ہوکر ہی جنت میں جانا ہے۔کبھی اللہ رب العزت اپنے فضل سے پاک فرماتے ہیں اور کبھی قانونِ عدل سےیعنی گناہوں کی سزا دینے کے لیے جہنم کے عذاب میں ڈالیں گے
مومن اور کافر کے عذاب میں فرق
یہ بات ملحوظ خاطر رہے کہ عذاب کافر کو بھی ہوگا اور مومن فاسق کو بھی لیکن دونوں کے عذاب میں فرق ہے۔شیخ الہند حضرت مولانا محمود حسن دیوبندی رحمہ اللہ تعالی نےآیت کریمہ
وَلِلْكَافِرِينَ عَذَابٌ مُهِينٌ
البقرہ:90
کے تحت بڑی عجیب بات ارشاد فرمائی ہے،اکابرین رحمہم اللہ کو اللہ رب العزت نے عجیب علوم سے نوازا تھا، جن کی مثال اب بمشکل ملتی ہے۔بہت دقیق اور علمی مسائل جو بڑی بڑی کتب پڑھنے کے بعد بھی حل نہیں ہوتےحضرات اکابرین کی کتب سے حل ہوجاتے ہیں۔حضرت رحمہ اللہ فرماتے ہیں:ہر عذاب ذلت کے لیے نہیں ہوتا بلکہ مسلمانوں کو جواِن کے معاصی پر عذاب ہوگا گناہوں سے پاک کرنے کے لیے ہوگانہ بغرض تذلیل،البتہ کافروں کو بغرض تذلیل عذاب دیا جائے گا۔
عذاب میں فرق کی وجہ
وجہ یہ ہے کہ عذاب کہتے ہیں:”ایذاء الحئی علی سبیل الہوان“کو یعنی زندہ آدمی کو ذلیل کرنے کے لیے تکلیف دینا،مومن چونکہ اللہ کا پیارا ہوتا ہے اور کافر اللہ کادشمن ہوتاہے،اس لیے کافر اگر جہنم میں ڈالا جائے گا تو مقصد اس کو عذاب دینا ہوگا اور مومن فاسق اگر جہنم میں ڈالا جائے گا تو مقصد اس کو پاک کرنا اور تزکیہ کرنا ہوگا،عذاب دینا نہیں ہوگا۔میں اس کی مثال دیتا ہوں مثلاً کسی سے آپ کا جھگڑا ہوتا ہے آپ اس کو مارتے ہیں، تو یہ مارنا اس کی اصلاح کرنے کے لیے ہوتا ہے یا ذلیل کرنے کے لیے؟
[ذلیل کرنے کے لیے۔ سامعین]
یقیناً ذلیل کرنے کے لیے، اور آپ اپنے بیٹے کو مارتے ہیں تو یہ اصلاح کے لیے ہوتاہے۔تو بیٹے کو مارا ہے لیکن وجہ اور ہے اور دشمن کو بھی مارا ہے لیکن اس کی وجہ اور ہے۔
پھر جب مغفرت ہوگی تو اب جنت ملے گی۔چنانچہ فرمایا:
Īعَرْضُهَا السَّمَاوَاتُ وَالْأَرْضُĨ
آل عمران:133
زمین وآسمان کا ذکر کرنے کی وجہ
اللہ رب العزت نے جنت کی چوڑائی بیان کرنے کے لیے زمین وآسمان کا ذکر فرمایا،وجہ یہ تھی کہ بندے کی عقل کا پیمانہ محدود ہے۔جنت کی لمبائی چوڑائی اس کے ذہن میں نہیں آسکتی تھی اس لیے باری تعالیٰ نے وہ الفاظ ارشاد فرمائے جو اس کی عقل کے مطابق تھے، اس لیے فرمایا کہ دیکھو آسمان وزمین میں کتنا فاصلہ ہے ،اتنی بڑی جنت تمہیں دوں گا۔خدا کے پیمانے بہت بڑے ہیں اور بندے کی عقل بہت چھوٹی ہے۔ اس لیے باری تعالی ہماری عقل کے مطابق الفاظ استعمال فرماتے ہیں۔
گناہ ہو جائے تو کیا کریں
لہذا اس بات کا اہتمام ضرور فرمائیں کہ گناہ نہ کیا کریں۔اگر خدانخواستہ کبھی گناہ سرزد ہوبھی جائے تو اس کی معافی فوراً مانگا کریں۔
جن حضرات کا کسی شیخ سے بیعت کا تعلق ہے وہ اس بارے میں دو باتوں کا اہتمام فرمائیں۔
1: اگرگناہ ہوجائے تو اپنے شیخ کو ضرور بتائیں۔ جب آپ کے ذہن میں یہ ہوگا کہ میں نے یہ گناہ اپنے شیخ کو بتانا ہے تو یقین جانیے یہ تصور آپ کو گناہ کرنے سے روک دے گا۔یہ بھی یاد رکھیں کہ شیخ گناہ چھڑوانے کا جو نسخہ تجویز فرمائے اس پر عمل بھی کریں،پھر دیکھیں مزاج کیسے تیزی سے تبدیل ہوتے ہیں اور اللہ رب العزت سے تعلق کیسے بنتا ہے!
2: دوسرا یہ اپنے اکابرین پر اعتماد رکھیں اور ان کی تشریحات کو اپنے لیے مشعل راہ بنائیں۔ اکثر فتنوں کا دروازہ کھلتا ہی تب ہے جب انسان اپنے اکابر کی تحقیقات پر اعتماد کے بجائےخود کو محقق سمجھنے لگتا ہے۔ اللہ تعالی ہم سب کو بات سمجھنے اور اس پر عمل کی توفیق مرحمت فرمائیں۔ آمین ثم آمین
و آخر دعوانا ان الحمد للہ رب العالمین
آخر میں حضرت الشیخ حفظہ اللہ نے لاہور میں پھیلے ہوئے ڈینگی وائرس سے متاثرہ افراد اور سندھ میں سیلاب زدگان کےلیے دعا فرمائی کہ اللہ تعالیٰ ان کی مدد فرمائے اور بیماروں کو صحت نصیب فرمائے۔