اللہ کے نام کی محبت

User Rating: 5 / 5

Star ActiveStar ActiveStar ActiveStar ActiveStar Active
 
اللہ کے نام کی محبت
خانقاہ اشرفیہ اختریہ، سرگودھا
خطبہ مسنونہ
نحمدہ ونصلی علی رسولہ الکریم اما بعد:
اعوذ باللہ من الشیطن الرجیم بسم الله الرحمن الرحيم وَالَّذِينَ آمَنُوا أَشَدُّ حُبًّا لِلَّهِ۔
سورۃ البقرۃ، 165
و قال النبی صلی اللہ علیہ وسلم اللهم اجعل حبك أحب الأشياء إلي۔
کنز العمال، رقم الحدیث 3648
وقال علیہ السلام اللهم إني أسألك حبك وحب من يحبك والعمل الذي يبلغني حبك اللهم اجعل حبك أحب إلي من نفسي وأهلي ومن الماء البارد
سنن ترمذی رقم الحدیث 3490
محبت انسان کی فطرت ہے
دنیا میں ہر وہ شخص جس کو اللہ رب العزت نے دل عطا فرمایا ہے وہ بندہ دنیا میں محبت بھی کرتا ہے۔ اللہ رب العزت نے جس انسان کو دل دیا ہے اس کے دل میں محبت بھی رکھی ہے۔ انسان محبت اپنی ماں سے بھی کرتا ہے اس نے جنا ہے، ماں کا حق ہے۔ اپنے والد سے بھی کرتا ہے، والد نے تربیت کی ہے، باپ کا حق ہے۔ اپنے استاذ سے محبت کرتا ہے استاذ نے اس کو حیوانیت سے انسانیت سکھائی ہے استاذ کا حق ہے۔ اپنی اولاد سے محبت کرتا ہے، اولاد اس کے جسم کا حصہ ہے۔ آدمی اپنے اعضاء سے پیار کرتا ہے انہی اعضاء کا نام انسان ہے۔
آدمی اپنی دولت سے پیار کرتا ہے اور شریعت نے دولت سے پیار کرنے سے منع نہیں فرمایا بلکہ اللہ نے جو انسانی فطرت بیان کی ہے اس میں "وَإِنَّهُ لِحُبِّ الْخَيْرِ لَشَدِيدٌ" اللہ نے یہاں مال کو خیر فرمایا ہے۔ "وَإِنَّهُ لِحُبِّ الْخَيْرِ لَشَدِيدٌ" اللہ نےدولت کو کیا فرمایا؟ خیر! معلوم ہوا دولت شر نہیں ہے۔ دولت کاغلط استعمال یہ شر ہے۔ دولت شر نہیں ہے، مال شر نہیں ہے بلکہ مال کا غلط استعمال شر ہے۔ اگر ایک بندے کے پاس قرآن کی دولت ہے، تو قرآن تو خیر ہے لیکن اس قرآن کے ذریعے دنیا کماتا ہے پھر قرآن خیر نہیں اس بندے کےلیے شر ہے۔ اللہ کا نام لینا بہت بڑا کام ہے اللہ کا نام لے کر اس کو دنیا کمانے کا ذریعہ بنائے تو پھر خدا کا نام لینا اس کے لیے خیر نہیں یہ شر ہے۔
میں یہ بات سمجھا رہا تھا کہ قرآن کریم نے دولت کو کیا فرمایا؟ خیر!، اگر آپ کے پاس دولت نہیں ہے تو بتائیں لباس کیسے ہو گا، جوتی کیسے ہو گی، مکان کیسے ہو گا، خوراک کیسے ہو گی؟ یہ سارے اسباب اللہ نے بندے کو عطا فرمائے اور قرآن کریم میں ہے
"إِنْ تَرَكَ خَيْرًا الْوَصِيَّةُ"
اگر کوئی بندہ مرے اور خیر چھوڑ کر مرے تو وصیت بھی کر سکتا ہے، یہاں بھی اللہ نے دولت کو کیا فرمایا ؟خیر!
میں بات یہ سمجھا رہا تھا کہ دولت سے محبت انسان کی فطرت ہے، اولاد سے محبت انسان کی فطرت ہے، والدین سے محبت انسان کی فطرت ہے، اپنےمکان کی محبت انسان کی فطرت ہے۔ حضرت بلال رضی اللہ تعالی عنہ مکہ سے مدینہ منورہ آئےہیں اور مکہ مکرمہ میں ان پر ظلم ہوتا ہے، مکہ مکرمہ میں مار پڑتی ہے مکہ مکرمہ میں ان کو تپتی تپتی ریت پر لٹایا جاتا ہے مکہ میں کافر ان پر ظلم کرتے لیکن مکہ سے مدینہ منورہ آئے ہیں احادیث میں حضرت بلال رضی اللہ تعالی عنہ مکہ کی گھا س کا نام لے کر تذکرہ کرتے، کبھی مکہ کی پہاڑیوں کا ذکر کرتے،کیوں؟ وطن تھا ناں! تو وطن تو یاد آتا ہے۔
باوجود اس کے کہ مکہ مکرمہ میں مار پڑی ہے مدینہ میں سہولتیں ملی ہیں، مکہ میں غلام تھے مدینہ میں آقا بن کر زندگی گزارتے۔ خود حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں:
ھذا سیدنا بلال
مستدرک حاکم، رقم الحدیث 5240
کہ بلال ہمارا سردار ہے۔ یہ خوشیاں بھی ملی ہیں لیکن مکہ پھر بھی دل سے بھولتا نہیں ہےکیونکہ وطن جو ہے۔ یہ انسانی فطرت ہےکہ انسان امریکہ جائے، کینیڈا جائے، انگلینڈ جائے دنیا میں کسی بھی جگہ پر چلا جائے لیکن اپنی آبائی جگہ پر جولطف آتا ہے، وہ دنیا کے بڑے بڑے محلات میں بھی نہیں آتا۔ یہ انسانی فطرت ہے۔
اللہ کی محبت پر سب محبتیں قربان
ایک بات سمجھیں کہ دولت سے محبت فطرت ہے، اولاد سے محبت فطرت ہے، ماں باپ سے محبت فطرت ہے، اپنے مکان سےمحبت فطرت ہے اور اچھی خوبصورت چیز سے محبت انسانی فطرت ہے۔ یہ ذہن میں رکھیں کہ خوبصورت چیز سے محبت انسانی فطرت ہے۔ مگر اللہ کیا فرماتے ہیں؟ شریعت کی منشاء کیا ہے؟
وَالَّذِينَ آمَنُوا أَشَدُّ حُبًّا لِلَّهِ
سورۃ البقرۃ، 165
اس آیت کو سمجھیں "وَالَّذِينَ آمَنُوا أَشَدُّ حُبًّا لِلَّهِ"۔ فرمایا یہ مومن کی صفت ہے کہ محبت ماں سے بھی کرتا ہےمگر اللہ کی نسبت کم کرتا ہے۔ یہ باپ سے محبت کرتا ہے لیکن جو خدا سے محبت ہے اس سے کم کرتا ہے۔ اولاد سے محبت کرتا ہے لیکں جو خدا سے محبت ہے اس سے کم کرتا ہےدولت سے محبت کرتا ہے لیکن جو خدا سے محبت ہے اس سے کم کرتا ہے۔ کیا معنی؟ دولت سے پیار کرنا چاہیے لیکن اگر دولت کا پیار اور شریعت کا پیار آ جائے تو دولت کو چھوڑ کر خدا سے پیار کرے۔ والدین سے پیار کرنا چاہیے، جب شریعت اور والدین آ جائیں پھر والدین کے بجائے شریعت ہے۔ اولاد سے پیار ہونا چاہیے، اگر اولاد اور خدا آ جائیں پھر اولاد نہیں پھر خدا ہے، پھر اولاد نہیں پھر پیغمبر ہے۔
میں بات کیا سمجھا رہا تھا کہ شریعت نے محبت سے منع نہیں فرمایا۔ کیسے بہترین الفاظ قرآن نے دیے ہیں، فرمایا "وَالَّذِينَ آمَنُوا أَشَدُّ حُبًّا لِلَّهِ"ایمان والے وہ نہیں ہیں جو دولت سے پیار نہیں کرتے، ایمان والے وہ نہیں ہیں جو مکان سے پیار نہیں کرتے، ایمان والے وہ نہیں ہیں جو اولاد سے پیار نہیں کرتے، ایمان والے وہ نہیں ہیں جو رشتہ داروں سے پیار نہیں کرتے ناں ناں بلکہ رشتہ دار تو نعمت ہیں اور اتنی بڑی اتنی بڑی نعمت ہیں کہ آپ ایک بات سے اندازہ لگائیں۔ قرآن کریم میں ہے حضرت لوط علیہ السلام اللہ نبی ہیں لیکن مسافر تھے۔ حضرت شعیب علیہ السلام اپنے علاقے میں ہیں۔ تو لوط علیہ السلام کوجب قوم نے نکالنے کا فیصلہ کیا تو انہوں نے فرمایا:
لَوْ أَنَّ لِي بِكُمْ قُوَّةً أَوْ آوِي إِلَى رُكْنٍ شَدِيدٍ
سورۃ ھود، 80
اے کاش آج میرے پاس طاقت ہوتی یا کوئی میرا خاندان مضبوط ہوتا ناں تو یہ تم کبھی جرأت نہ کرتے جو آج تم نے میرےساتھ کی ہے۔اور جو حضرت شعیب علیہ السلام کی قوم تھی ان کو قوم ان کے قبیلے کی وجہ سے کچھ کہہ نہ سکی، الفاط دیکھیں
وَلَوْلَا رَهْطُكَ لَرَجَمْنَاكَ
سورۃ ھود، 91
کہ اے شعیب اگر تیرا قبیلہ نہ ہوتا تو ہم تجھے پتھر مار مار کر مار ڈالتے۔
تو شعیب علیہ السلام نے فرمایا
يَا قَوْمِ أَرَهْطِي أَعَزُّ عَلَيْكُمْ مِنَ اللَّهِ
سورۃ ھود، 92
کہ تم خدا سے نہیں ڈرتے میری برادری سے ڈرتے ہو؟ میری قوم سے ڈرتے ہو؟ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے اہل و عیال اور قوم سے کتنا پیار تھا اہل بیت سے کتنی محبت تھی؟ قرآن کریم میں ہے:
لَا أَسْأَلُكُمْ عَلَيْهِ أَجْرًا إِلَّا الْمَوَدَّةَ فِي الْقُرْبَى
سورۃ الشوری، 23
حضور نے کتنی تڑپ سے فرمایا ہو گا! فرمایا مکہ والوں تم مجھے مال تو نہ دو مال نہیں مانگتا، دولت تو نہیں مانگتا اس بات کی حیا کرو میں تمہارا رشتہ دار ہوںمیں تمہاری برادری ہوں تمہارے خاندان کا بندہ ہوں اپنے خاندان ہونےکا تو حیا کر لو۔حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے کتنے غمزدہ لہجے میں جملہ فرمایا ہو گاکہ میں تمہارا رشتہ دار ہوں۔خیر میں یہ بات سمجھا رہا تھا کہ مومن وہ نہیں جو اولاد سے پیار نہ کرے بلکہ میں کہتا ہوں خدا قسم کافر اتنا اولاد سے پیار نہیں کرتا جتنا مومن کرتا ہے۔ مومن وہ نہیں ہے جو دولت سے پیار نہ کرے، کافر دولت سے پیار کم کرتا ہے مومن زیادہ کرتا ہے۔لیکن شریعت کی منشا کیا ہے کہ دولت سے پیار کرو لیکن جب اللہ کا حکم آ جائے تو دولت کی محبت کو خدا کی محبت پر قربان کردو۔ قرآن کریم میں ہے:
وَيُطْعِمُونَ الطَّعَامَ عَلَى حُبِّهِ مِسْكِينًا وَيَتِيمًا وَأَسِيرًا
سورۃ الدھر، 8
قرآن نے مومنین کی تعریف کیا فرمائی ہے
" وَيُطْعِمُونَ الطَّعَامَ عَلَى حُبِّهِ مِسْكِينًا وَيَتِيمًا وَأَسِيرًا"
مومن کون ہے اللہ کی محبت ہوتی ہے تو پھر مال مسکین کو بھی دیتے ہیں، یتیم کو بھی دیتے ہیں، قیدی کو بھی دیتے ہیں۔ اور بعض مفسرین علماء نے کہا ہے "یطعمون علی حبہ ای حب المال"باوجود اس کے کہ ان کو مال سے پیار ہے لیکن اپنا مال پھر بھی کبھی قیدی کو دیتے ہیں کبھی یتیم کو دیتے ہیں کبھی مسکین کو دیتےہیں۔
یہ بات سمجھنا کہ اگر بندے کو دولت سے پیار ہی نہ ہو تو دولت اللہ کے راستے میں دینے پر اجر کیوں ملے گا؟ بتائیں، کیوں اجر ملے گا؟ اگر کسی بندے کو دولت سے پیار ہی نہیں ہے تو دولت دینے پر اجر کیسے ملے گا؟ اسی لیے اجر ملے گا کہ پیار ہے۔ ایک بندے کا بیٹا فوت ہوتا ہے اب بیٹے سے محبت تو ہے اگر بیٹے سے محبت ہی نہ ہوتی تو جانے پر صدمہ کیسے ہوتا؟ اب چونکہ محبت ہے صدمہ ہوا ہے اس صدمہ پر برداشت کرے گا تو اللہ اس برداشت کرنے پر بھی جنت عطا فرمائیں گے۔ کیوں؟ اس نے برداشت جو کیا ہے محبت کے باوجود۔
کھا لیں، ہم نے تو پھینک ہی دینا ہے!
اصل نیکی تو یہ ہے کہ محبوب مال خرچ کریں، اورجو چیز ردی ہو، آپ کے مطلب کی نہ ہو اس کو باہر پھینک دیں۔ میں ایک مرتبہ1993ء کی بات ہے نیروبی افریقہ میں سفرپر تھا، ایک شہر ہے ممباسا، وہاں ایک گھر میں میری دعوت تھی۔ اب تو وہ میزبان فوت ہو گیا اس کا نام تھا شیخ سراج۔ رابطہ عالم اسلامی مکہ مکرمہ کی طرف سے مبعوث تھے وہاں نیروبی میں۔ خیر ممباسا میں انہوں نے ایک پھل رکھا کہ یہ پھل کا کھائیں مجھے نہیں معلوم تھا کہ اس پھل کا نام مونکی فروٹ ہے۔ ویسے تواس کو بندر کھاتے ہیں لیکن مجھے اس کا نام Monkey Fruit نہیں معلوم تھا، خیر، رکھا؛ جی کھا لیں! اب مجھے پھل پسند نہیں آیا۔ ان کا بیٹا تھا تو اس کا دماغ تھوڑا تھا عقل اس کی تھوڑی تھی تو وہ شیخ سراج صاحب کہتے ہیں مولانا کھائیں میں نے کہا جی نہِں جزاک اللہ۔ تو بیٹا کہتا ہے مولانا صاحب کھا ہی لیں ہم نےتو پھینک ہی دینا ہے۔ بیٹا کیا کہتا ہے کہ کھا لیں ہم نےتو پھینک ہی دینا ہے۔تو ویسے تو مجھ سے پیار کرتا تھا، لیکن عقل کم تھی ناں، اب وہ بڑی محبت میں مجھے کہہ رہا ہے کہ آپ کھا لیں ورنہ ہم نے تو پھینک ہی دینا ہے۔ باپ نے اس کو بہت ڈانٹا کہ بے غیرت کیسی بات کرتا ہے۔
محبوب مال خرچ کریں
اب جو بات میں سمجھا رہا ہوں کہ جو چیز آپ نے پھینکنی ہے وہ کسی کو دیں اس پر کیا اجر ہو گا؟ اس میں کیا ثواب ملنا ہے؟ قرآن کریم میں کیا ہے:
لَنْ تَنَالُوا الْبِرَّ حَتَّى تُنْفِقُوا مِمَّا تُحِبُّونَ
سورۃ آل عمران، 92
بولیے ناں لَنْ تَنَالُوا الْبِرَّ حَتَّى تُنْفِقُوا مِمَّا تُحِبُّونَ دیکھو نیکی اس کانام ہے جو تم کو پسند ہے وہ خرچ کرو جس سے محبت ہے وہ خرچ کرو۔ اب مال خرچ کرنا چاہیے ناں؟ جب یہ آیت اتری صحابی رضی اللہ تعالی عنہ آئے انہوں نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، صحابی رضی اللہ تعالی عنہ کا مزاج دیکھو اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم یہ میرا باغ ہے یہ مجھے سب سے زیادہ محبوب ہے اللہ کے رستے میں دیتا ہوں۔ حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا سارا باغ؟ کہا جی سارا باغ ابو طلحہ انصاری رضی اللہ تعالی عنہ۔ اللہ آپ کو مسجد نبوی دکھائے، مدینہ منورہ لے جائے مسجد نبوی میں باب عبدالمجید سے داخل ہوں نا تو بائیں طرف جہاں صفیں شروع ہوتی ہیں وہاں تین نشان لگے ہیں لیکن اس کے اوپر قالین بچھے ہیں کبھی آپ جائیں میں فون نمبر دوں گا کہ بھائی فلاں بندے کو مدینہ منورہ ملیں۔ وہ پوری مسجد کی جگہیں آپ کو اندر سے دکھائیں گے پوری مسجد۔ قالین اٹھائیں تو اس کے نیچے تین نشان لگے ہیں یہ کنوئیں تھے جو حضرت ابو طلحہ انصاری رضی اللہ تعالی عنہ کے باغ کے اندر تھے۔ یہ باغ تھا انہوں نے کہا حضورصلی اللہ علیہ وسلم میں پورا باغ وقف کرتا ہوں کیوں؟ کہ مجھے بہت پسند ہے اور بعض روایات میں یوں بھی ہے کہ وہ نماز پڑھ رہے تھے کہ باغ میں ایک چڑیا اڑی اور باغ میں پھنس گئی اس کو دیکھ رہے تھے تو بعد میں خیال آیا کہ اس باغ کی وجہ سے میری نماز میں خلل آیا تو کہا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم میں پورا باغ صدقہ کرتا ہوں۔
اب نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کا مزاج سن لیں۔ حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کہ سارا باغ؟ تو کہا جی سارا باغ تو حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یوں نہ کرو تم کسی اور کو دینے کی بجائے اپنے رشتہ داروں کو دے دو۔ کسی کو دینے کی بجائے اپنے رشتہ داروں کو دے دو کیوں کہ جب تم رشتہ دار کو دو گے تو تمہیں دوہرا اجر ملے گا صدقہ کا بھی اور صلہ رحمی کا بھی۔ اس لیے فقہاء نے مسئلہ لکھا ہے اگر آپ کے رشتہ داروں میں کوئی مستحق ہو تو پہلے زکواۃ اسے دو پہلے صدقہ اپنے گھر میں دو پھر صدقہ رشتہ داروں میں قریب میں دو۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہاں تک ارشاد فرمایا :
حتى ما تجعل في في امرأتك
مؤطا امام محمد، رقم الحدیث 735
کوئی بندہ اپنی بیوی کے منہ میں لقمہ ڈالتا ہے تو یہ بھی صدقہ ہے۔اور یہ بھی ارشادفرمایا:
ولو أن تلقى أخاك بوجه طلق
صحیح ابن حبان، رقم الحدیث523
کوئی بندہ اپنے بھائی کو ہنس کردیکھتا ہےتو یہ بھی صدقہ ہے۔ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسی سہولتیں عطا فرمائی ہیں کہ بندہ بولے، مسکرا کرملے یہ بھی صدقہ ہے لیکن دل میں بغض نہ ہو پھر دیکھیں اس پر اللہ کیا عطا فرماتے ہیں۔ دو مسلمان بھائی آپس میں ملیں ان کے ہاتھ الگ نہیں ہوتے اللہ ان کے سارے گناہ معاف فرما دیتا ہے۔ لیکن مروت سے سلام نہ ہو میں نہ کروں تو محسوس کرے گا چلو مل ہی لیں دیکھیں یوں نہ کریں اللہ کے لیے کریں اللہ کے پیغمبر کےلیے کریں۔
خیر میں جو بات سمجھا رہا تھا آپ حضرات ماشاء اللہ کافی دیر سے بیان سماعت فرما رہے ہیں میں عرض یہ کر رہا تھا بات سمجھیں مال سے محبت کرنا کوئی برا ہے؟ بولیے، اولاد سے محبت؟ فرق کیا ہے، اولاد سے محبت کرو جب اللہ اولاد مانگے تو دے دو، اللہ اولاد مانگے تو دے دو، صحابیہ عورت ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم میرے بچے کو لے لیں فرمایا اس کو کیا کریں گے انہوں نے کہا اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم آپ کے صحابہ جہاد میں جائیں گےتو کسی کے پاس اگر دشمن کی تلوار روکنے کے لیے ڈھال نہ ہو تو میرا بیٹا دے دیں تلوار آئے گی میرا بیٹا کٹ جائے گا تمہارا صحابی بچ جائے گا۔ اب دیکھو بیٹا دیا ناں!
نبی صلی اللہ علیہ وسلم پاک مکہ مکرمہ سے مدینہ منورہ آئے ہیں۔ ام سلیم انہوں نے کہا حضور صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں نے آپ کی خدمت میں ہدیے پیش کیے ہیں غریب عورت ہوں میرے پاس کچھ بھی نہیں ہے یہ میرا انس آپ لے لیں، یہ میرا انس لے لیں انس، یہ آپ کی خدمت کرے گا۔ یہ بات آج کسی کو سمجھ نہیں آتی۔
خدمت اور عقیدت سے سب ملتا ہے
میں تخصص میں طلبہ سے بھی کہتا ہوں۔ پڑھو پڑھو بڑے شوق سے پڑھو لیکن جو خدمت سے ملنا ہے وہ پڑھنے سے نہیں ملنا۔ اللہ کی قسم جو عقیدت سے ملنا ہے وہ پڑھنے سے نہیں ملنا۔ یہ بات میں کیسے سمجھاؤں عقیدت سے جو ملتا ہے ویسے نہیں ملتا۔ مجھے ایک عالم بتا رہے تھے، حضرت مولانا حسن عباسی دامت برکاتہم مولانا احمد لاہوری کے آخری خلیفہ۔ شاہ پور جگہ کانام ہے سانگھڑ ضلع میں، میں گیا ہوں میں نے ان کی زیارت کی ہے میں دو تین مرتبہ خدمت میں گیا ہوں۔
کسی نے بتایا کہ وہ بیعت تھے حضرت احمد لاہوری سے، رات کو شیراں والا باغ تشریف لائے تو مولانا لاہوری نے فرمایا کہ تم یہاں ٹھہرو میں آتا ہوں، یہاں کھڑے ہو میں آتا ہوں۔ حضرت لاہوری گھر گئے تو بھول گئے صبح فجر کی نماز میں نکلے تو مولانا باہر کھڑے، رات کو فرمایاکہ تم ٹھہرو میں آتا ہوں اور صبح نکلے تو وہ باہر کھڑے ہوئے تھے۔حضرت نے فرمایا تم سوئے نہیں؟ تو انہوں نے کہا آپ نے فرمایا تھا کہ تم ٹھہرو میں آتا ہوں تو میں کیسے سوتا؟
انہوں نے کہا تم بیٹھے کیوں نہیں انہوں نے کہا کہ آپ نے فرمایا تھا کھڑے رہو تو میں بیٹھتا کیسے؟ اب کوئی بندہ سوچ سکتا ہے پوری رات کھڑے رہے کہ میرے شیخ نے فرمایا ہے کہ تم کھڑے رہو میں آتا ہوں۔ اب بتاؤ فیض کیسے نہیں ملے گا؟ میں نے آپ سے گزارش کی ہے کہ بندہ گناہ چھوڑ دے اذکار کم کرے جو عقیدت سے ملتا ہے کسی اور چیز سے قطعاً نہیں ملتا یہ آپ یقین فرما لیں۔
بس مجھے دیکھتے رہو!
میں نے آپ کو بتایا تھا کہ کراچی کے ایک لڑکے نے مجھے خط لکھا۔ مجھے اس نے کہا کہ میرےاندر مرض ہے میں لڑکوں کو دیکھتا ہوں، لڑکوں سے پیار کرتا ہوں میرے اندر مرض ہے اس کا علاج بتائیں۔ میں نے کہا تم یہاں میرے پاس سرگودھا آؤ، آ گیا، کہتا جی کیا کروں۔ تم کچھ بھی نا کرو بس فرض نمازیں پڑھو اورایک ہفتہ یہاں بیٹھ کر بس مجھے دیکھتے رہواور تمہیں کچھ بھی نہیں کرنا بس مجھے آتے جاتے دیکھتے رہو۔ ہفتہ بعد چلا گیا کہتا ہے اس کی برکت سے میرا مرض ختم ہو گیا۔
میں اللہ کی قسم کیسے تمہیں کیسے بتاؤں کہ عقیدت سے کیا چیز ملتی ہے۔ عقیدت سے بہت کچھ ملتا ہے۔ خیر میں آپ سے عرض کر رہا تھا کہ اولاد سے محبت کریں لیکن اللہ جب اولاد مانگے تو اولاد اللہ کے لیے دے دیں۔ بس پھر اللہ کے لیے پیش کر دیں مال سے محبت کریں لیکن جب اللہ مانگ لے بس پھر دے دیں۔ پھر مت روکیں "وَالَّذِينَ آمَنُوا أَشَدُّ حُبًّا لِلَّه" اللہ نے ایمان والوں کی صفت کیا بتائی ہے اللہ سے بہت پیار کرتے ہیں اللہ سے بہت پیار کرتے ہیں۔ مخلوق سے کرتے ہیں لیکن جب اللہ آ جائے تو سب کچھ چھوڑ دیتے ہیں۔ اپنے دل میں کسی کو نہیں رکھتے پیار ہوتا ہے لیکن اپنے دل میں نہیں رکھتے۔
کشتی سمندر میں چلتی ہے کشتی پانی میں ہو فرق نہیں پڑتا لیکن جب کشتی میں پانی داخل ہو جائے تو کشتی ڈوب جاتی ہے۔ پیار ہونا چاہیے دل میں داخل نہ ہو، دل میں اللہ کا پیار ہو، باقی محبتیں ضرورت کی ہوں اللہ کی قسم بندہ کبھی ناکام نہیں ہوگا۔
میں آخری بات کہتا ہوں نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا "
اللھم اجعل حبک احب الاشیاء الی"
حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا فرمائی ، حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ نہیں فرمایا کہ مجھے دنیا کی چیزوں سے محبت نہیں، بلکہ فرمایا اے اللہ دنیا کی چیزوں سے مجھے پیار ہے لیکن اپنی محبت ان سب پر غالب فرما دے، اپنی محبت ان سب پر غالب فرما دے۔ پھر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا مانگی "اللهم اجعل حبك أحب إلي من نفسي وأهلي ومن الماء البارد" اللہ مجھے اپنی جان سے پیار ہے لیکن اپنا پیار مجھے میری جان سے زیادہ دے دے، اللہ مجھے گھر والوں سے محبت ہے اپنی محبت گھر والوں سے زیادہ دے دے، اے اللہ سخت گرمی کے موسم میں ٹھنڈا پانی مجھے بہت محبوب ہے اپنی محبت مجھےٹھنڈے پانی سے زیادہ دے دے۔
اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کیسے سمجھایا ہے آدمی تصور نہیں کر سکتا
"اللهم إني أسألك حبك وحب من يحبك والعمل الذي يبلغني حبك"
اللہ میں تجھ سےتیری محبت بھی مانگتا ہوں ،اللہ ان کی محبت بھی مانگتا ہوں جو تجھ سے پیار کریں، اللہ وہ عمل بھی مانگتا ہوں جو تیری محبت کے قریب کر دے۔
اللہ کی محبت کیسے ملے گی
ہمارے شیخ حضرت حکیم صاحب دامت برکاتہم نے عجیب بات فرمائی ہے۔ فرمایا حضور نےکتنی چیزیں مانگیں اللہ تیری محبت مانگتا ہوں اولیاء کی محبت مانگتا ہوں اور اچھے عمل کی محبت مانگتا ہوں اصل تو محبت اللہ کی ہے ناں، اصل کس کی محبت ہے؟ اللہ کی، اور اللہ کی محبت ملتی ہے اچھے اعمال سے یہ درمیان میں اولیاء کو کیوں لائے ہیں؟ فرمایا اس لیے کہ محبت اللہ کی چاہیے اور اللہ کی محبت اچھے اعمال سے ملتی ہے اور اچھا عمل اللہ کے ولی کی صحبت سے ملتا ہے۔ اچھا عمل ولی کی صحبت سے ملتا ہے اور میں خدا کی قسم کھا کر یہ بات کہتا ہوں آدمی جو صحبت سےبنتا ہے آدمی وہ کسی اور چیز سے نہیں بنتا۔ جو صحبت سے بنتا ہے کسی اور چیز سے نہیں بنتا۔
لیکن صحبت بھی عقیدت سے ہو، عقیدت نہیں ہو گی تو ہزاروں سال پڑا رہے ذرہ بھی نفع نہیں ہوگا۔ عقیدت ہو گی تو ایک منٹ میں آئے گا اور بہت کچھ پا جائے گا۔ ابوجہل حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ہے عقیدت نہیں تھی اس ظالم کو کچھ نہیں ملا اور ایک صحابی ایک منٹ کے لیے آیا ہے ایک نماز بھی نہیں پڑھی اللہ کے راستے میں جان دی چلا گیا پوری امت کی اربوں نمازیں ایک طرف ہو جائیں تو اس ایک کے برابر بھی نہیں کیونکہ وہ عقیدت سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں آکر صحابی بنا۔صحابی اسے کہتے ہیں نا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ عقیدت کے ساتھ ہے۔ اللہ ہمیں بات سمجھنے کی توفیق عطا فرمائیں۔
اللہ نے قرآن میں فرمایا:
فَادْخُلِي فِي عِبَادِي وَادْخُلِي جَنَّتِي
سورۃ الفجر، 30،29
"فَادْخُلِي فِي عِبَادِي" پہلے ہے اور "وَادْخُلِي جَنَّتِي"
بعد میں ہے فرمایا کہ اگر تم نے جنت میں جانا ہے تو میرے بندوں میں داخل ہو جاؤ یہ جنت میں جائیں گے تو تم بھی جنت میں جاؤ گے۔ بس ان کے ساتھ شامل ہو جاؤ تم کبھی محروم نہیں رہو گے۔ کبھی بھی محروم نہیں ہوگے حدیث میں ہے۔
هم القوم لا يشقى بهم جليسهم
صحیح مسلم، رقم الحدیث 2689
اللہ کے نیک بندے وہ ہیں ان کے ساتھ اپنی ضرورت کے لیے بیٹھنے والا بھی محروم نہیں رہتا۔ اپنی ضرورت سے بیٹھنے والا بھی۔
اولیا کے وجود کی برکت
ملا علی قاری فرماتے ہیں حدیث شریف کی شرح ہے مرقاۃ شرح مشکواۃ ، اس میں فرماتے ہیں:
فإن عند ذكرهم تنزل الرحمة فضلا عن وجودهم وحضورهم
مرقاۃ المفاتیح، ج8 ص 300
اولیاء اللہ کا نام لیں تو خدا کی رحمت برستی ہے "فضلا عن وجودہم وحضورھم" جہاں ولی خود رہتا ہو گا وہاں کتنی رحمت برستی ہو گی؟ جن کے نام لینے سے رحمتیں آتی ہیں جہاں وہ ولی خود رہتا ہو گا وہاں کتنی رحمت برستی ہوں گی؟ بھائی یہ دعا فرمائیں کہ اللہ ہم پر اپنی محبت غالب فرمائیں۔ اللہ اپنی محبت غالب فرما دے اللہ، اللہ اپنی محبت غالب فرما دے، اللہ اپنی محبت غالب فرما دے، پھر چاہے دنیا سےپیار ہے کوئی مسئلہ نہیں، جب اللہ کی محبت غالب ہو۔
اور دنیا چھوڑ کر بندہ مرے تو دل پریشان نہیں ہوتا، دل پریشان نہیں ہوتا کیوں کہ اب حبیب سے احب کی طرف جا رہا ہے، حبیب سے احب کی طرف، ادھر پاکستان میں پیسے ہیں بڑا پیار ہے لیکن ڈالر زیادہ پیارے ہیں نا کوئی تمہیں کہے کہ سو روپیہ نہیں سو ڈالر دیں گے فوراً امریکہ جائے گا کیوں حبیب سے احب بلا رہا ہے اب ادھر جائیں گے۔ تمہاری تنخواہ یہاں دس ہزار ہے سعودی عرب تمہیں پانچ ہزار ریال دیں گے فوراً جائے گا کیوں؟ ریال سے پاکستانی پیسے سے زیادہ پیار ہے۔ اللہ کی محبت زیادہ ہوگی پھر مرتے وقت بیوی کو چھوڑنا مشکل نہیں ہے، اولاد کو چھوڑنا مشکل نہیں ہے، مکان کو چھوڑنا مشکل نہیں ہے کیوں؟ اب وہاں جا رہا ہے جس سے محبت سب سے زیادہ ہے، جس سے محبت سب سے زیادہ ہے۔
امت کے لیے مبارک باد
اور میں ایک مبارک دیتا ہوں آپ حضرات کو، آپ نے سنا ہوگا نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمارے لیے کونسا لفظ فرمایا ہے؟ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، اللہ کے نبی نے، عجیب بڑی حسرت سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک جملہ فرمایا۔ اللہ کے پیغمبر فرمانے لگے:
"متى ألقى أحبابي؟"
میں اپنے محبوبین سے کب ملوں گا۔ جن سے مجھے محبت ہے میری ملاقات کب ہوگی یعنی قیامت کو میری کب ان سے ملاقات ہو گی؟ صحابہ نے فرمایا "أوليس نحن أحباؤك؟" حضور صلی اللہ علیہ وسلم ہم آپ کے محبوب نہیں ہیں؟ وہ کون سے محبوب ہیں جن سے ملاقات کی آپ تمنا فرما رہے ہیں ؟
نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا "انتم اصحابی" تم میرے صحابہ ہو اور فرمایا "ولكن أحبابي قوم لم يروني وآمنوا بي" میری محبوب وہ قوم ہے کہ مجھے نہیں دیکھا پھر بھی مجھ پر ایمان لائے۔ تم میرے صحابہ ہو وہ میرے محبوب ہیں۔ مجھے نہیں دیکھا مجھ پر ایمان لائے ہیں۔ آگے حضورصلی اللہ علیہ وسلم کا جملہ سنو "أنا إليهم بالأشواق" تم یقین کرو ان سے ملنے کا مجھے شوق ہے۔ ان سےملنے کا مجھے شوق ہے، حضور صلی اللہ علیہ وسلم آپ سے ملاقات کے شوق کا اظہار فرما رہے ہیں۔ مجھے نہیں دیکھا پھر بھی ایمان لائے ہیں،
"أنا إليهم بالأشواق"
کنز العمال، رقم الحدیث 37213
ایک حدیث میں آتا ہے نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میرے صحابہ اگر تم نے دین کے نوے فیصد پر عمل کیا اور دس فیصد کو چھوڑا تم ناکام ہو جاؤ گے اور بعد میں آنے والے نوے فیصد کو چھوڑ دیں اور دس فیصد پر عمل کر لیں تب بھی وہ کامیاب ہو جائیں گے۔ کیوں کہ تم نے مجھےدیکھ کر کلمہ پڑھا ہے اور انہوں نے بغیر دیکھے کلمہ پڑھا ہے۔ حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے کتنی مبارکیں ہمارے لیے دی ہیں۔ اے کاش اللہ ہمیں ان مبارکوں کو سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے۔ دعا یہ فرمائیں اللہ ہمیں اپنی محبت عطا فرما دے، اللہ ہمیں اپنی محبت عطا فرما دے۔
اللہ کی محبت پیدا کرنے کا آسان نسخہ
اور محبت کیسے پیدا ہوتی ہے میں ہر بار یہ کہتا ہوں کہ دو باتوں کا اہتمام فرمائیں :

اولیاء کی مجلس میں بیٹھو

اللہ کانام بار بار، باربار لو
جب آدمی کسی کی مجلس میں بیٹھتا ہے ناں، ہمارے شیخ حضرت حکیم اختر صاحب دامت برکاتہم بڑی عجیب مثال دیتے ہیں فرماتے ہیں کہ تم دیکھا ہے کہ جب گٹھلی اگتی ہے تو یہ صرف آم ہوتا ہے۔ یہ کیا ہوتا ہے؟ آم! لیکن لنگڑا کب بنتا ہے جب اس کے ساتھ قلم کسی لنگڑے کی ہوتی ہے۔ چونسا کب بنتا ہے جب پیوند کاری چونسے کی ہوتی ہے۔ یہی بات اللہ کے نبی نے فرمائی ہے کہ جب انسان پیدا ہوتا ہے تو انسان ہوتا ہے، ولی کی صحبت میں آتا ہے تو ولی بنتا ہے، ڈاکو کی صحبت میں آتا ہے ڈاکو بنتا ہے۔ ہوتا تو آم ہی ہے لنگڑے کی صحبت میں آیا تو لنگڑا ہے، چونسے کی صحبت میں ہے تو چونسا ہے۔ اللہ ہمیں اولیاء کی صحبتیں عطا فرمائے۔
ایک گھڑی، ایک گھڑی، ایک گھڑی ولی کی صحبت مل جائے خدا کی قسم ہزار سال کی عبادت سے افضل ہے کیوں؟ ہزار سال عبادت کرے ہر وقت بگڑنے کا خطرہ موجود ہے ولی کی صحبت میں ہو بدکنے کے خطرات ختم ہو جاتے ہیں۔ اور میں خدا کی قسم کھا کر کہہ رہا ہوں۔ دنیامیں جتنے لوگ گمراہ ہوتے ہیں ان میں 99 فیصد وہ بندہ گمراہ ہو گا جو کسی شیخ کی صحبت سے دور ہے۔ شیخ سے تعلق ہو اس سے پوچھ کر چلتا ہو نہ وہ گمراہ ہوتا ہے نہ اسے کوئی گمراہ کر سکتا ہے۔کیسے کرے گا تعلق جو جڑا ہے۔
بغیر دلیل کے مانتا ہوں
امام فخرالدین رازی رحمتہ اللہ علیہ کتنے بڑے ولی ہیں تفسیر کے بادشاہ ہیں تفسیر کبیر کتنی بڑی تفسیر لکھی ہے مسلک شافعی رحمتہ اللہ علیہ پرتھے۔ امام رازی رحمتہ اللہ علیہ کے انتقال کا وقت آیا شیطان نے پوچھا فخر الدین رازی تم اللہ کے پاس کیا لے کر جا رہے ہو؟کہا میں موحد ہوں میرے پاس توحید کی دولت ہے اس نے کہا کوئی دلیل ہے تو دو امام رازی رحمتہ اللہ علیہ نے دلیل دی شیطان نے توڑ دی، پھر دی وہ توڑ دی، پھر دی وہ توڑ دی، ادھر بھی تو شیطان ہے نا ابلیس۔
میں اپنے ساتھیوں سے کہتا ہوں ایسا بلا کا مناظر ہے جو خدا سے ٹکر لے کر چلا ہے۔ ابلیس مناظرہ کس سے کر رہا ہے؟ خدا سے۔ بتاؤ اس کو علم پر کتنا ناز ہو گا؟ اللہ نےفرمایا سجدہ کرو کہا میں نہیں کرتا اللہ نے فرمایا "
مَا مَنَعَكَ أَنْ تَسْجُدَ لِمَا خَلَقْتُ بِيَدَيَّ"
اے ابلیس تو نے کیوں آدم کو سجدہ نہیں کیا؟ کہنے لگا "أَنَا خَيْرٌ مِنْهُ" اللہ مجھ سے دلیل سے بات کرو میں بہتر ہوں وہ مٹی سے بنا میں آگ سے بنا ہوں آگ اوپر جاتی ہے مٹی نیچے آتی ہے بھلا آگ مٹی کو سجدہ کرتی ہے؟ دلیل سے بات کرو۔ اب اللہ تعالی اس سے مناظرہ کیا کرتے، فرمایا
"فَاخْرُجْ مِنْهَا فَإِنَّكَ رَجِيمٌ"
دفع ہو جا ، بے ایمان ہر جگہ دلیل نہیں چلتی اللہ کے سامنے دلیل؟ ہر جگہ دلیل نہیں چلتی۔ نکل جا یہاں سے خدا نے دلیل کا جواب دے دیا۔ ابن قیم نے لکھا ہے سترہ دلیلیں ابن قیم نے اس بات پر دی ہیں کہ مٹی آگ سے افضل ہوتی ہے۔ مٹی آگ سے لیکن یہ ابن القیم کا کام ہے نا لیکن یہ اللہ کا کام تو نہیں نا کہ دلیلیں پیش کرے میں نے حکم دیا ہے تو نے ماننا ہے۔
خیر شیطان نے کہا امام رازی سے ، اس نے کہا کیا لائے ہو؟ کہا توحید۔ دلیل دو، دی، توڑ دی، دوسری دو ،توڑ دی، تیسری دی ،توڑ دی، سو دلیلیں امام رازی نے دیں سو ٹوٹ گئیں۔ شیطان کہتا لاؤ توحید کدھر ہے؟ حضرت امام رازی رحمتہ اللہ علیہ خاموش دلائل تو سارے ختم ہو گئے۔ حضرت تھانوی رحمتہ اللہ علیہ نے لکھا ہے کہ اللہ نے کرم فرمایا اللہ نے ان کے شیخ کو ان کے حالات منکشف فرما دیے، ہم کشف کے قائل ہیں لیکن یہ ولی کے اختیار میں نہیں ہوتا ولی کے اختیار میں نہیں ہوتا، ہم معجزہ کے قائل ہیں لیکن معجزہ نبی کے اختیار میں نہیں ہوتا۔
اللہ دکھانے پر آ جائے تو نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم مکہ مکرمہ میں بیٹھے ہیں اللہ بیت المقدس کے دروازے دکھا دے اللہ نہ دکھانے پر آئے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو حدیبیہ سے عثمان کا پتہ نہ چلے۔ اللہ بتانے پر آئے نبی فرش پر ہے خداعرش کی باتیں بتا دے اللہ نہ بتانے پر آئے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ان کی اونٹنی ہے اس کے پیچھے امی عائشہ رضی اللہ عنہا کہاں ہیں کچھ پتا نہیں چلتا۔ توکشف کو یہ نہ سمجھنا کہ ولی غیب جانتا ہے اللہ نے بچانا تھا امام رازی رحمتہ اللہ علیہ کو شیخ پر حالت منکشف ہو گئی شیخ نے وہاں سے کہا فخر الدین رازی تو کہہ دے بغیر دلیل کے مانتا ہوں۔ تو کہہ دے بغیر دلیل کے توحید کو مانتا ہوں۔
عرض اعمال پر ایک شبہ کا جواب
کل آئے تھے ناں علامہ خالد محمود صاحب۔ میرا خیال تھا بہت سارے شبہات ہیں جو ہم پر پیش ہوتے ہیں حضرت کا جواب سنیں یقین کریں میں عش عش کر اٹھا۔ ہم بیٹھے تھے تو میں نے کہا میں ایک بات پوچھتا ہوں فرمایا کہ وہ کونسی میں نے کہا کہ جی ہمارا عقیدہ ہے کہ حضورصلی اللہ علیہ وسلم پر امت کے اعمال پیش ہوتے ہیں حضرت عثمان رضی اللہ تعالی عنہ مکہ مکرمہ میں تھے حضورصلی اللہ علیہ وسلم حدیبیہ میں تھے جو منکرین عرض اعمال ہیں وہ کہتے ہیں کہ عثمان رضی اللہ تعالی عنہ درود پڑھتے تو حضورصلی اللہ علیہ وسلم کو پتہ تو چلتا ہوگا پھر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے بعیت کیوں لی؟ جب اعمال پیش ہوتے ہیں تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو پتہ تو چل رہا ہو گا ناں کہ درود پڑھ رہے ہیں پھر بیعت کیوں لی؟
عجیب جواب دیا، فرمایا ایک بات سمجھو اعمال پیش ہوتے ہیں لیکن وہ جو درود پڑھتے تھے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر درود تو پیش ہوتا تھا لیکن یہ تو نہیں نا کہ عثمان زندہ ہے یا چلا گیا؟ تو آدمی زندگی میں بھی درود پڑھتا ہے اور موت کے بعد بھی پڑھتا ہے۔بھائی انسان اعمال زندگی میں بھی کرتا ہے اور موت کے بعد بھی کرتا ہے۔جنت میں اعمال تو ہوں گے ناں؟ نہیں سمجھے؟ فرمایا درود تو پڑھتے تھے حضورصلی اللہ علیہ وسلم کو یہ تو پتا چلا کہ درود آ رہا ہے لیکن یہ تونہیں پتہ کہ زندہ ہے درود پھر آ رہا ہے یا چلا گیا پھر آ رہا ہے۔ بات سمجھیں خیر یہ تو جواب دیا۔
اگلی جو میں سمجھا رہا ہوں فرمایا یہ تو جواب دیا میں نے تمہیں بند کمرے میں ان سے گفتگو ہو تو پھر یہ نہیں کہنامیں نے کہا جی پھر کیا کہیں فرمایا ان سے کہنا کہ اعمال پیش ہوتے تھے کیسے ہوتے تھے ہمیں پتہ ہی نہیں ہے۔ کیوں حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا امت کے اعمال پیش ہوتے ہیں، کیسے ہوتے ہیں ہمیں اس کا نہیں پتہ۔ کیسے کی نفی کر دو تمہیں کوئی شکست دے نہیں سکتا، بس کہ دو ہمیں نہیں پتہ۔
عجیب بات کہی فرمایا انبیاء علیہ السلام اپنی قبروں میں زندہ ہیں اور معراج کی رات انبیاء علیہ السلام جمع ہوئے تھے کوئی کہتا ہے جسد مثالی تھا کوئی کہتا ہے جسد حقیقی تھا حضرت نے فرمایا کوئی تم سے پوچھے کہ جسد مثالی تھا یا حقیقی تم کہو ہمیں نہیں پتہ کیوں ہمیں یہ تو پتہ ہے کہ قبروں میں زندہ ہیں ہمیں یہ بھی پتہ ہے کہ وہاں آئے تھے بدن کونسا تھا ہمیں نہیں پتہ کیوں؟ ہم نے بلا دلیل مان لیا ہے۔
نہیں سمجھے؟ کوئی بات سمجھ آئی؟ اللہ ہمیں عقیدہ سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے۔ بس دعا کریں اللہ ہمیں اپنے نام کی لذت عطا فرمائے۔اللہ ہمیں اپنے نام کی محبت عطا فرمائے۔ آمین
وآخر دعوانا ان الحمد للہ رب العلمین