معمارِ حرم اور معلم کتاب و حکمت

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
معمارِ حرم اور معلم کتاب و حکمت
خانقاہ اشرفیہ اختریہ، سرگودھا
خطبہ مسنونہ
نحمدہ ونصلی علی رسولہ الکریم اما بعد فاعوذ باللہ من الشیطن الرجیم بسم اللہ الرحمن الرحیم وَإِذْ يَرْفَعُ إِبْرَاهِيمُ الْقَوَاعِدَ مِنَ الْبَيْتِ وَإِسْمَاعِيلُ رَبَّنَا تَقَبَّلْ مِنَّا إِنَّكَ أَنْتَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ رَبَّنَا وَاجْعَلْنَا مُسْلِمَيْنِ لَكَ وَمِنْ ذُرِّيَّتِنَا أُمَّةً مُسْلِمَةً لَكَ وَأَرِنَا مَنَاسِكَنَا وَتُبْ عَلَيْنَا إِنَّكَ أَنْتَ التَّوَّابُ الرَّحِيمُ رَبَّنَا وَابْعَثْ فِيهِمْ رَسُولًا مِنْهُمْ يَتْلُو عَلَيْهِمْ آيَاتِكَ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَيُزَكِّيهِمْ إِنَّكَ أَنْتَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ۔ صدق اللہ العظیم
اللہ رب العزت نے جنات اور انسانوں کی ہدایت کے لیے حضرات انبیاء کرام علیہم السلام کا سلسلہ جاری فرمایا اس کا ظہور حضرت آدم علیہ السلام سے ہوا، حضرت آدم علیہ السلام پہلے وہ شخص ہیں جنہوں نے کرہ ارض پر اپنی نبوت کا اعلان فرمایا آدم علیہ السلام کے بعد انبیاء کا سلسلہ چلتا رہا اور کچھ انبیاء کے بعد حضرت نوح علیہ السلام وہ نبی ہیں کہ جب لوگوں نے ان کی بات کو نہیں مانا تو اللہ رب العزت نے کرہ ارض کے تمام انسانوں کو ختم کیا سوائے ان کے جنہوں نے نوح علیہ السلام کی بات مانی۔
اس لیے اگر یہ بات کہی جائے تو بے جا نہیں کہ قیامت تک آنے والی نسل حضرت نوح علیہ السلام کی اولاد میں سے ہے اور حضرت نوح علیہ السلام سے اوپر حضرت آدم علیہ السلام کی اولاد میں سے ہیں۔جس طرح ہمارے حسب سے پہلے والد کا نام حضرت آدم علیہ السلام ہے تو کچھ وقفے کے بعد والد کا نام حضرت نوح علیہ السلام ہے۔نوح علیہ السلام سے آگے ساری نسل چلی یعنی ان کے دور میں جو کلمہ گو بچے آگے نسل ان سے چلی۔ تو اس کے بعد نوح علیہ السلام پہلے وہ شخص ہیں جنہوں نے نبوت کا اظہار فرمایا پھر یہ سلسلہ نبوت حضرت ابراہیم تک چلتا رہا۔ابراہیم علیہ السلام کے بعد ان کی اولاد میں سے انبیاء آئے۔ ابراہیم علیہ السلام کے دو بیٹے تھے ایک کا نام اسحاق،ایک کا نام اسماعیل،حضرت اسحاق علیہ السلام کی نسل میں سے 4000انبیاء آئے۔حضرت اسماعیل علیہ السلام کی نسل میں سے صرف ایک نبی حضرت محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم آئے ہیں۔
تعمیر کعبہ کس نے کی؟
حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت اسماعیل علیہ السلام نے الگ سے دعا مانگی جب کعبہ کی دیواروں کو کھڑا کیا جارہاتھا کعبہ کی بنیاد نہیں کعبہ کی دیواریں کھڑی کی جارہی تھیں اس وقت دعا مانگی ہے۔بنیاد تو آدم علیہ السلام کے دور سے ہے۔حوادث زمانہ کی وجہ سے کعبہ نظر نہیں آتا تھا بنیاد آدم علیہ السلام نے رکھی ہے اس بنیاد پر حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل علیہ السلام نے دیواریں کھڑی کی ہیں۔حکیم الامت تھانوی علیہ الرحمۃ واذیرفع ابراہیم القواعدکا معنیٰ بنیادیں نہیں کرتے بلکہ دیواریں کرتے ہیں۔حالانکہ قواعد قاعدہ کی جمع ہے اور قاعدہ بمعنیٰ بنیاد ہے لیکن حکیم الامت بنیاد ترجمہ نہیں کرتے بلکہ دیوار کرتے ہیں۔حضرت کا ذوق دیکھیں اور خود فرماتے ہیں قواعد پر دلیل یَرفَعُ ہے۔کیونکہ یرفع کا معنیٰ ہے اٹھانا،اور دیواریں اٹھائی جاتی ہیں بنیاد تو نہیں اٹھائی جاتی۔ یہ حضرت خود اپنے ترجمہ کی وجہ بیان کرتے ہیں۔
پھر قرآن نے طرز عجیب اختیار فرمایا، وَإِذْ يَرْفَعُ إِبْرَاهِيمُ الْقَوَاعِدَ مِنَ الْبَيْتِ وَإِسْمَاعِيلُ دونوں کے درمیان تین لفظوں کا فاصلہ لا کے اس کی طرف اشارہ ہے کہ اصل دیواریں تو حضرت ابرہیم علیہ السلام نے کھڑی کی ہیں حضرت اسماعیل علیہ السلام ان معاون ہیں۔حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل کعبہ کی دیواریں کھڑی کررہے ہیں اور کعبہ کی تعمیر جاری ہے۔
معجزہ در معجزہ
اور اللہ کا احسان دیکھیں ابراہیم علیہ السلام نے دیوار بڑی کھڑی کرنی ہے اور سیڑھی پاس موجود نہیں ہے تو اللہ نے سیڑھی کا انتظام کیا۔ ایک پتھر آیا ہے اور وہ جنت والا پتھر ہے ابراہیم علیہ السلام اس پر کھڑے ہوتے ہیں پتھر اوپر چلا جاتا اوپر اینٹ رکھتے پتھر پھر ان کو نیچے لے آتا تو اللہ نے سیڑھی کا کام ایک پتھر سے لیا ہے جس پتھر کا نام ہے مقام ابراہیم اور آج بھی وہ بیت اللہ کے مطاف میں موجود ہے۔
مطاف کہتے ہیں طواف کرنے کی جگہ کو۔ ایک تو خانہ کعبہ ہے ایک خانہ کعبہ کے گرد خالی جگہ ہے، جہاں یہ لوگ طواف کرتے ہیں اس صحن کا نام ہے مطاف،اس مطاف میں آج بھی وہ پتھر وہاں پر موجود ہے جس کونے میں حجر اسود لگا ہے اس کونے سے تھوڑا سا آگے چلیں تو درمیان میں آپ نے دیکھا ہے کہ ایک خوبصورت سا شیشے کا جنگلہ بنا ہے جس کے اوپر سٹیل لگی ہے اور یہ جہاں تک بنا ہے جنگلہ سا،اس کے اندر پتھر ہے اور آج بھی اس پتھر پر ابراہیم علیہ السلام کے پاؤں کے نشان موجود ہیں۔
پتھر پہ تو کبھی پاؤں کے نشان نہیں بنتے لیکن معجزہ در معجزہ ہے ایک پتھر دیا اور پتھر کے اوپر پاؤں کے نشان لگے،تاکہ قیامت تک آنے والا بندہ دیکھے کہ ابراہیم علیہ السلام کے لیے اللہ نے پتھر بنایا۔ اور جب طواف سے فارغ ہوجائیں تو دو رکعت نفل پڑھیں اور بہتر یہ ہے کہ مقام ابراہیم کے پاس پڑھیں۔ یہ حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل دونوں کے کعبہ کی تعمیر ہے اور جب کعبہ کی تعمیر کی ہے اس وقت اللہ سے دعا کی ہے۔
رَبَّنَا وَابْعَثْ فِيهِمْ رَسُولًا مِنْهُمْ
یہ دعا مانگی ہے۔دعا کیا مانگی ہے اللہ ہم نے کعبہ کھڑا کردیا ہے ہم نے کعبہ کی دیوار بنا دی ہے، تیرا گھر ہم نے بنا دیا ہےنہ یہاں انسان ہے نہ یہاں پر کوئی چرند ہے نہ یہاں پر کوئی پرند ہے کوئی مخلوق نظر نہیں آتی، تیرے فرمانے پر ہم نے علاقہ چھوڑ دیا،یہاں پر آگئے تیرے حکم پر ہم نے تیرا گھر بنا دیا ہے بلکہ روایت میں ہے ابراہیم علیہ السلام کو اللہ نے جو حکم دیا تھا:
وَأَذِّنْ فِي النَّاسِ بِالْحَجِّ يَأْتُوكَ رِجَالًا وَعَلَى كُلِّ ضَامِرٍ يَأْتِينَ مِنْ كُلِّ فَجٍّ عَمِيقٍ
سورۃ الحج، 27
اے ابراہیم آپ یہاں پہ کھڑے ہوں اور آپ بسم اللہ پڑھ کے اذان دیں تو اذان دینا آپ کا کام ہے اعلان کرنا آپ کا کام ہے اور دور دراز سے حاجیوں کو خانہ کعبہ تک پہنچانا میرا کام ہے،ابراہیم نے آواز لگائی ہے کہاں پہ؟ ایک ایسی جگہ پر جہاں پر انسان بھی نظر نہیں آتا وہاں آواز لگائی ہے بعض روایات میں سے ہے کہ جس پتھر پہ کھڑے ہو کے آواز لگائی تھی اس پتھر کا نام بھی مقام ابراہیم ہے۔اسی پتھر پہ کھڑے ہو کے آواز دی ہے اور جنہوں نے لبیک اللہم لبیک کہہ دیا تھا وہ دھڑا دھڑ آج حج کے لیے وہاں پر خانہ کعبہ پہنچ رہے ہیں،اللہ پاک ہم سب کو جانے کی توفیق عطا فرمائے اللہ جس کے لیے لکھ دیتے ہیں اس نے چلے جانا ہوتا ہے اور اس طرح اللہ اسباب کا محتاج نہیں ہے اور اللہ بغیر اسباب کے خود ہی اسباب پیدا فرما دیتے ہیں۔
سفر حج کی داستان
مجھے ہمارے ایک بزرگ کل فرما رہے تھے کہ حج کے سفر کا ارادہ ہے؟میں نے کہا جی ارادہ توہے تو اللہ توفیق عنایت فرمائیں کس کا نہیں ہے لیکن ان شاء اللہ کبھی جائیں گے تو مجھے فرمانے لگے بس یہی عمر ہوتی ہے حج کرنے کی،میں نے کہا جی اس عمر سے بھی کئی سال پہلے میں تو 94ء میں بھی گیا تھا، جب میری عمر 23سال تھی بالکل عالم شباب تھا۔
اور آپ حیران ہوں گے کس طرح حج کیا کہ فقیر تھے پیسہ بھی نہیں تھا پاس۔ یہاں سے میں ساؤتھ افریقہ گیا وہاں ہماری تشکیل تھی۔تو ساؤتھ افریقہ میں ہم دو آدمی تھے ایک میں تھا اور ایک اور ساتھی تھے۔تومیں بالکل یہ حقائق آپ کی خدمت میں عرض کررہا ہوں،رات کو ہم سوئے تو میں نے خواب دیکھا جو ہمارے سفر کے دوسرے مولانا امیر تھے اور میں مامور تھا میں نے خواب دیکھا کہ میرا جی چاہ رہا ہے حج پر جانے کو اور یہی مجھے روک رہے ہیں یہ خواب دیکھا یا میں کہہ رہا ہوں جانا ہے یہ مجھے بھیج رہے ہیں اس طرح کر کے دیکھا اب مجھے یاد نہیں1994ء کی بات ہے۔
جب فجر کی نماز پڑھی صبح اٹھے تو وہی ہمارے امیر صاحب مجھے فرمانے لگے مولانا آپ حج پر جانا چاہیں تو چلے جائیں کل کو کہیں یہ نہ کہنا کہ میں نے جانا تھا اور اس نے روک دیا ہے۔ اللہ فقیروں کا انتظام کیسے کرتے ہیں تو میں نے کہا ٹھیک ہے جی بسم اللہ پڑھیں آپ ہم جاتے ہیں۔ ساؤتھ افریقہ ایمبسی رابطہ کیا تو وہاں سے حج کا ویزہ ملتا نہیں تھا پاکستانی پاسپورٹ پر۔ اب کیا کریں؟ کہا جی اب زامبیا پتہ کرو وہاں سے لیں میں زامبیا کا سفر پہلے کرچکا تھا تو اس وقت زامبیا میں پاکستان بلیک لسٹوں میں تھا زامبیا والے ویزہ نہیں دیتے تھے ہم نے وہاں ایک دوست تھے ان کو فون کیا کے بھائی ہم وہاں زامبیا آئیں گے اور وہاں زامبیا اوساکا سے حج کا ویزہ چاہیے ان کو فون کیا تو وہ غسل خانے میں غسل کر رہے تھے ان کی گھر والی نے کہا میں ان کو پیغام دے دیتی ہوں۔
تو ساؤتھ افریقہ سے زامبیا، زامبیا ساؤتھ افریقہ کی ریٹرن ٹکٹ میں نے لے لی، ریٹرن ٹکٹ کے بغیر چونکہ ویزہ نہیں ملتا نہ واپسی کا بھی ریٹرن ٹکٹ لیا اور زامبیا چلے گئے اور جو میزبان تھے، جنہیں پیغام دینا تھا ان کی بیوی بھول گئی۔ میں جب ائیر پورٹ پر اتر تو میں نے اپنے میزبان ابراہیم صاحب کو فون کیا، میں نے کہا جی میں تو زامبیا ائیر پورٹ پر ہوں مجھے آ کے نکالو یہاں سے یہاں تو ویزہ ملے گا نہیں، پاکستان بلیک لسٹ پر ہے انہوں نے کہا کوئی بات نہیں 10000ہزار ڈالر ہم دیں گے یہ بطور گارنٹی کے ہیں کہ آپ دس ہزار ڈالر رکھیں دو دن بعد ہمارے بندے نے چلے جانا ہے، یہ کہہ کر ویزہ لے لیتے ہیں۔
میں نے کہا ٹھیک ہے تو میں وہاں باہر گیا فون کیا واپس آیا تو زامبیا والوں کی حکومت تھی انہوں نے کہا اپنا سامان پکڑیں اور جہاز میں بیٹھیں اور ساؤتھ افریقہ جائیں آپ بلیک لسٹ پر ہیں پاکستان والے ہم ویزہ نہیں دیں گےتو اب میزبان جب آتا تو آتا بیوی اس کی بھول گئی نہ پیغام نہیں دی سکی تو ائیر پورٹ پر آتے آتے آدھا گھنٹا تو لگنا تھا۔ ان کے آنے سے پہلے قانون نے مجھے پکڑا اور سامان سمیت جہاز میں بیٹھادیا ہمارا جہاز پھر ساؤتھ افریقہ جب ساؤتھ افریقہ پہنچے تو وہاں کا ویزہ بھی نہیں تھا وہ تو ختم ہوگیا اب ادھر کا ویزہ بھی نہیں ہے اور زامبیا کا ویزہ بھی نہیں دونوں ویزے ختم ہو گئے وہاں میں نے بیگ رکھا واپس آگئے۔
انہوں نے کہا آپ ائیر پورٹ پر ٹھہریں پاسپورٹ باہر بھیجیں میں نے پاسپورٹ باہر بھجوا دیا مجھ پر پابندی تھی پاسپورٹ پر تو نہیں تھی ناں۔ انہوں نے پاسپورٹ باہر منگوا لیا پھر ہمیں کھلایا پلایا دو رات کے لیے ائیر پورٹ کے اندر ہی میں نے ہوٹل کرائے پر لیا۔ باہر گئے تو انہوں نے وہاں سے ٹکٹ کرائی کینیا کی کہا جی اب کینیا کی ہے میں نے کہاچلیں وہاں سے میں نکلا کینیا پہنچ گئے کینیا میں جان پہچان تو تھی نہیں ایک دو ساتھی میزبان تھے اور تبلیغ والے تھے مزاج سے واقف نہیں تھے تو انہوں نے کہا چلیں مولانا ٹرائی کرتے ہیں بظاہر تو مشکل ہےمیں نے کہا چلو ٹرائی تو کرو۔
بیک ڈیٹ پر ویزا
اللہ تعالی نے ایسی مدد فرمائی کہ وہاں کینیا میں سعودی ایمبیسیڈر نے مجھے بیک ڈیٹوں پہ ویزہ لگا دیا یعنی کینیا آج جارہا ہوں اور ویزہ جو ہے چار دن پہلی ڈیٹ کا ہے میں نے کہا تو اس نے کہا چلیں چلیں چلے گا آپ فکر نہ کریں۔ وہاں سے خیر ہمیں ٹکٹ ملا اور مجھے اچھی طرح یاد ہے کینیا سے لے کر حبشہ تک کا یہ کنفرم تھا اور حبشہ کے آگے مکہ مکرمہ جدہ کی جوفلائٹ تھی وہ کنفرم ٹکٹ نہیں تھا وہ ویٹنگ لسٹ پہ؛ مل گیا تو ٹھیک، نہ ملا تو نہ سہی۔ میں نے کہا بسم اللہ پڑھیں چانس ملا تو ٹھیک چانس کا ٹکٹ تھا وہاں سے نکلے اور سیدھا اللہ پاک جدہ لے گئے جدہ سے اترے اور سیدھا مکہ مکرمہ پہنچ گئے۔
میں اتنا فقیر تھا کہ مکہ مکرمہ سے منیٰ جانے کے پیسے نہیں تھے میں گاڑی کےپیچھے لٹک کر مکہ مکرمہ سے منیٰ گیا اور حج کر لیا حج تمتع تھا حج تمتع پر تو بکرا دینا پڑتا ہے بکرے کے پیسے بھی نہیں تھے ہم نے دس روزے رکھے وہ بھی پورے کر لیے تو دیکھو اللہ پاک نے کیسے حج کر ادیا۔ میں صرف کہتا ہوں کہ اللہ جب فیصلہ فر ما دے اللہ اسباب کے محتاج نہیں ہیں بس اللہ لے جاتے ہیں۔ آدمی اللہ پاک سے مانگتا رہے اللہ پاک بہت بہت کریم ہے اللہ پاک کے دربار میں کوئی کمی نہیں ہے۔
لیکن یہ بات ذہن نشین فرمائیں اللہ سب کو حج پر لے جائے۔ ایک ہوتا ہے حج بیت اللہ کا یہ بہت سارے لوگ کرتے ہیں۔ حضرت مولانا جلال الدین رومی رحمہ اللہ مولانارومی کانام توسنا ہے ناں؟ مولانا جلال الدین رحمہ اللہ نے 28 ہزار اشعار پر مشتمل کتاب لکھی ہے اور عجیب بات ہے اٹھائیس ہزار اشعار لکھنے کے بعد آخری شعرجو مولانا رومی نے لکھا ہے ناں، پھر کتاب بند کر دی اور لکھنا بند کردیا کہا جی کیوں نہیں لکھتے؟ تو کہا جب اشعار آرہے تھے تو میں لکھ رہا تھا اب لکھنا چاہتا ہوں اشعار ہی نہیں آتے تو اللہ کو جتنا منظور تھا ہم نے لکھ دیا آگے اشعار دماغ میں اترتے نہیں میں کیسے لکھوں؟ چھوڑ دیا مولا نارومی نے۔ اس میں مولانا رومی رحمہ اللہ فرماتے ہیں۔
حج کردند زیارت خانہ بود حج رب البیت مردانہ بود
فرمایا عام آدمی حج کرتا ہے تو طواف خانہ کعبہ کا کرتا ہے اور جب اللہ والا حج کرتا ہے تو طواف خانہ کعبہ کا نہیں خانہ کعبہ کے رب کا کرتاہے۔ تو ایک آدمی جاتا ہے خانہ کعبہ کے لیے دوسرا خانہ کعبہ کےلیے نہیں خانہ کعبہ کے رب اللہ کے لیے جاتا ہے۔ تو اس کا حج اور ہوتا ہے اور عام آدمی کا حج اور ہوتا ہے۔ جب آدمی تیاری کر کے جائے تو پھر حج کرنے کا لطف اور ہوتا ہے۔
خدمت کے ثمرات
حضرت عارف باللہ حکیم محمد اختر صاحب دامت برکاتہم ہمارے شیخ ہیں، حضرت کے شیخ ہیں شاہ عبدالغنی پھولپوری اور ان کے شیخ تھے حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ، شاہ عبدالغنی پھولپوری رحمہ اللہ کی حضرت حکیم صاحب دامت برکاتہم نے خدمت بہت فرمائی بہت خدمت کی پھولپور رہتے تھے حضرت کے کپڑے جوانی میں دھوتے تھے بوڑھے شیخ کے کپڑے جوانی میں خود دھوتے تھے ،بہت اپنے شیخ کی خدمت کی۔
اور جب حضرت وہاں سے کراچی تشریف لے آئے حضرت حکیم صاحب دامت برکاتہم لنگی پہنتے اور اوپر بنیان لیتے اور اپنے شیخ کے لیے مرکب معجون کوٹ رہے ہیں۔ کبھی خمیرہ بنا رہے ہیں کبھی شربت بنا رہے ہیں ہر وقت شیخ کی خدمت میں لگے رہتے۔ حب حضرت حکیم صاحب دامت برکاتہم نے معارف مثنوی لکھی مثنوی کی شرح جب یہ معارف مثنوی لکھی ہے تو مولانا یوسف بنوری شہید رحمہ اللہ کی خدمت میں بھیج دی تقریظ کے لیے تو مولانا بنوری فرماتے ہیں معارف مثنوی دیکھی تو مجھے پتہ چلا کہ حکیم اختر مولوی ہے۔ میں سمجھتا تھا عبدالغنی پھولپوری کا نوکر ہے۔
خادم نہیں، نہیں سمجھے؟ خادم تو بڑا مہذب لفظ ہے کہ میں خادم بات کر رہا ہوں اس کا مطلب ہوتا ہے کہ میں اچھا خاصا بندہ ہوں یہ عام بندہ نہیں ہے خادم تو بڑاپروٹوکول کا لفظ ہے۔ یہ نہیں کہا کہ خادم، کیافرماتے ہیں معارف مثنوی دیکھی تو مجھے پتہ چلا کہ حکیم اختر مولوی ہے ورنہ میں سمجھتا تھا کہ مولانا عبدالغنی پھولپوری کا نوکر ہے۔ حضرت جی دوائیاں کوٹ رہے ہیں شربت بنا رہے ہیں اور سب لوگ کہتے تھے اور حکیم صاحب خود فرماتے ہیں۔ میں نے سنا ہے فرماتے ہوئے کہ جب حضرت ہمارے زندہ ہوتے تھے تو مجھے مولوی کہتے تھے باباجب یہ عبدالغنی پھولپوری مر جائے گا تجھے روٹی بھی کوئی نہیں دے گا تو ہر وقت چٹنیاں کوٹ رہا ہے اور اپنے پیر کے لیے رگڑے کھا رہا ہے تجھے چٹنی کے ساتھ بھی کوئی روٹی نہیں دے گا۔ حضرت فرماتے ہیں میرے شیخ چلے گئے ہیں۔ اب خدا نے پوری دنیا کو مسخر فرما دیا ہے۔ یہ بات کسی بندے کو سمجھ نہیں آتی شیخ کی خدمت سے کیا ملتا ہے۔ یہ نہیں بندہ کو سمجھ آتا ہے عام بندہ سمجھتا ہے کہ علم سے ملتا ہے مطالعہ سے ملتا ہے عبادات سے ملتا ہے، نہ نہ جوخدا نے شیخ کی خدمت میں فیض رکھا ہے اس کا بندہ تصور بھی نہیں کرسکتا۔
گناہ شیخ سے فیض لینے میں رکاوٹ ہیں
اور یہ بات یاد رکھنا شیخ کا فیض بندے کو اس وقت نہیں ملتا ہے جب انسان کبیرہ گناہ شروع کردیتا ہے۔ جب آدمی کبیرہ گناہ شروع کرتا ہے تو کبیرہ گناہ کرنے کی وجہ سے آدمی شیخ کے فیض سے محروم ہوجاتا ہے۔ میں نے جب حضرت حکیم صاحب دامت برکاتہم کی بیعت کی وہاں جامعہ اشرف المدارس میں، یہ نیا نہیں پرانا اس وقت بالکل نئی مسجد بنی تھی۔ جامعہ اشرف المدارس وہاں بنا تھا۔ تو حضرت وہاں مجھے بیعت کے لیے گئے خانقاہ کے آگے وہاں جب ایک جگہ پر بیٹھے تو ادھر سے ہوا کا رخ تھا اور آگے دیوار تھی ہوا نہیں آ رہی تھی۔
فرمایا چلو وہاں سے اٹھ کے چھت پر چلے گئے اب چھت پر تو ہوا آرہی تھی۔ حضرت حکیم صاحب نے عجیب بات ارشاد فرمائی فرمانےلگے دیکھو ہوا آرہی تھی لیکن دیوار نے رکاوٹ پیدا کردی تھی اور ہوا نہیں آئی ہم چھت پر گئے دیوار کی رکاوٹ ختم ہوگئی ہوا پھر شروع ہو گئی فرمایا اسی طرح جب آدمی کبیرہ گناہ کرتا ہے وہ کبیرہ گناہ شیخ کے فیض کے راستے میں رکاوٹ بن جاتا ہے۔ لوگ سمجھتے ہیں شیخ نکما ہے شیخ نہیں نکما ہوتا تیرے گناہ کبیرہ شیخ کے فیض کے رستے میں رکاوٹ بنے ہوتے ہیں۔ کرتوت بھی کرتا ہے تو پھر شیخ کو بتاتا بھی نہیں ہے۔ میں بتاؤ ں گا تو شیخ کیا سمجھیں گے میں بتاؤں گا توبرا محسوس کریں گے کیا سمجھیں گے اتنا بڑا آدمی ہو کے یہ فلاں کرتوت کرتا ہے۔ یہ بہت بڑی لعنت ہے اپنے شیخ کو نہ بتانا شیخ عالم الغیب تو نہیں ہے نہ عالم الغیب تو اللہ کی ذات کی علاوہ کوئی نہیں آپ اپنا کوئی عیب بتائیں گے تو شیخ اصلاح کرے گا ناں۔ اور جب تک عیب نہیں بتائیں گے شیخ اصلاح کیسے کرے گا؟
شیخ کو عیب بتائیں
میں اللہ کی قسم کھا کے کہتا ہوں جو بندہ اپنے شیخ کو عیوب بتاتا ہے شیخ اس کے عیب سن کے پریشان نہیں ہوتا بلکہ خوش ہوتا ہے ماشاء اللہ اس کو فکر پیدا ہو گئی ہے۔ میں درجہ اولیٰ، ثانیہ، ثالثہ تین سال تک حضرت مولانا رشید احمد لدھیانوی رحمہ اللہ سے میرا اصلاحی تعلق تھا عام بندہ سمجھتاہے کہ یہ ان کا مرید ہے۔ جامعہ بنوریہ میں پڑھتا تھا، میں مرید نہیں تھا صرف اصلاحی تعلق تھا اور خط وکتابت اور بیان ہوتے تھے۔ میں حضرت کو جب خط لکھتا اس میں اپنا عیب لکھتا تو عجیب بات ہے، حضرت رحمہ اللہ بڑے خوش ہوتے فرماتے ماشاءاللہ ماشاءاللہ شکر ہے توفیق ہوئی ہے اپنا عیب بتانے کی۔ شکر ہے گناہ کی طرف توجہ ہوئی ہے میں فلاں گناہ کرتا ہوں۔
ہمارے اندر بہت بڑا المیہ ہے کہ ہم بیعت کرتے ہیں۔ دس سال گزر جاتے ہیں اور شیخ کو اپنے عیوب نہیں بتاتے پھر اصلاح نہیں ہوتی۔ بھائی اصلاح تو تب ہوگی جب شیخ کو اپنا عیب بتائیں گے، اپنا گناہ بتاؤ کہ مجھے بد نظری کا مرض ہے مجھے گانے سننے کا مرض ہے مجھے فلمیں دیکھنے کا شوق ہے، میں حرام کھاتا ہوں میری ملازمت ٹھیک نہیں ہے میں سود کھاتا ہوں، رشوت کھاتا ہوں فلاں گناہ کرتا ہوں، گناہ بتائیں گے تو اس کے بعد شیخ بتائے گا ناں کہ اس گناہ سے آپ کی جان کیسے چھوٹے گی شیخ نسخہ بھی بتائے گا اور اللہ سے مانگے گا بھی۔
میں بار بار ایک بات سنایا کرتا ہوں ہمارے شیخ حضرت حکیم صاحب دامت برکاتہم فرماتے ہیں جس طرح ماں کو پتہ چل جائے کہ میرے بیٹے کی شلوار میں پاخانہ نکلاہے تو ماں بیٹے سے نفرت نہیں کرتی پاخانہ صاف کرتی ہے۔ شیخ کو پتہ چلے میرا فلاں مرید گناہ میں غرق ہے وہ مرید سے نفرت نہیں کرتا اپنے مرید کے گناہ کو صاف کرتا ہے۔ لیکن پتہ چلے گا تو پھر ہے نہ۔ ہم ماں پر اعتماد کرتے ہیں کہ ماں کو میری گندگی کا پتہ چلے ماں نفرت نہیں کرے گی میری شلوار کو دھو دے گی۔ اور شیخ پر اتنا بھی اعتماد نہیں ہے کہ اس کو گناہ کا پتہ چلے گا تو مجھ سے نفرت کرے گا۔ یعنی ماں جتنا بھی اس پر اعتماد کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں تو بتائیں پھر اصلاح کیسے ہوگی؟
خیر میں گزارش کر رہا تھا اللہ پاک ہمیں بات سمجھنے کی توفیق عطافرمائے تو مولانا جلال الدیں رومی رحمہ اللہ نے جو بات فرمائی ہے اور عجیب بات ہے کہ مولانا رومی خود فرماتے ہیں:
مولوی ہرگز نہ شد مولائے روم
تا نہ کرد غلامی شمس تبریز
فرمایا شمس تبریز کا غلام بنا ہوں تو لوگوں نے مولانا رومی کہا جب تک شمس تبریز کا غلام نہیں بنا تو مولوی روم تومولوی بھی نہیں تھے۔ میری گزارش سمجھ آرہی ہے؟ اللہ ہمیں بات سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے۔ میں خیر کہہ رہا تھا کہ وہاں حج پر لوگ جاتے ہیں لیکن بغیر اصلاح کے جاتے ہیں۔ میری بات کا بر ا محسوس نہ فرمانا میں نے خانہ کعبہ میں ان مناظر کو دیکھا ہے سال میں کم از کم دو مرتبہ اللہ ہمیں اپنےفضل سے جانے کی توفیق عطا فرماتے ہیں۔ ہم جیسے نالائقوں اور فقیروں کو سال میں دو مرتبہ خانہ کعبہ اور نبی کے روضے کی حاضری ملے بتاؤ اور خدا سے کیا چاہیے؟ اور یہ سارے کا سارا عقیدے اور مسئلہ کی محنت کی برکت ہے ورنہ ہمیں کون پوچھتا تھا؟ ہمیں کوئی بھی نہ پوچھتا۔ بس آپ تھوڑی سی محنت کریں اللہ پاک بہت بہت عطا فرماتے ہیں۔
حج سے پہلے تزکیہ نفس
میں صرف جو بات سمجھا رہا ہوں یا میں جو بات کہہ رہا ہوں مناظر اپنی آنکھوں سے دیکھے ہیں آپ یقین فرمائیں کیونکہ شیخ سے تعلق نہیں ہے، تزکیہ نہیں ہے، خانقاہوں سے جوڑ نہیں ہے، گناہوں سے توبہ کی توفیق نہیں ملی تو پھر وہاں صفا اور مروہ کےدرمیان سعی کے دوران موبائل میں تصویریں بن رہی ہیں نامحرم عورتوں کی۔ بتاؤ بیت اللہ میں کھڑے ہیں اور اپنی بیوی کی تصویر بنا رہے ہیں بیت اللہ میں کھڑے ہیں اور گروپ فوٹو بن رہے ہیں۔
کعبہ کے سامنے کھڑے ہو کے وہاں جاکے بھی انسان گناہوں کے اندر مبتلا ہے۔ بتاؤ یہ حج اور عمرہ انسان کو کیا فائدہ دے گا؟ اللہ ہمیں بات سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے۔ میری بات سمجھ آرہی ہے؟ میں کہہ رہا تھا ابراہیم اور اسماعیل علیہم السلام نے اللہ سے دعا مانگی ہے، دعا کب مانگی؟ جب بیت اللہ کی دیواریں کھڑی کر رہے تھے او ر ساتھ اللہ سے دعا بھی مانگ رہے تھے۔ اس سےیہ بات سمجھ آئی جب کہ اللہ کوئی دینی کام کرنے کی توفیق عطا فرمائے تو اس وقت ساتھ اللہ سے قبولیت کےلیے دعائیں بھی کرنی چاہییں۔ اللہ ہم نے کعبہ بنا دیا ہے اب تجھ سے دعا مانگتے ہیں ایک یہاں کا ایسا بندہ پیدافرما دے جو اس کعبہ کی آبادی کا سبب بن جائے پھر اللہ نے کس کو پیدا فرمایا؟ اسماعیل علیہ السلام کی نسل میں حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کو پیدا فرمایا۔ اب دیکھو پوری دنیا کا دل دھڑکتاہے کعبہ کے ساتھ۔
کعبہ کیا ہے؟
اور کعبہ یاد رکھنا اس کمرے کا نام نہیں ہے اچھی طرح بات سمجھنا ہمارا قبلہ کعبہ اس کمرے کا نام نہیں ہے علامہ شامی نے فتاویٰ شامیہ میں لکھا ہے اگر بطور ولی کی کرامت کے کعبہ مکہ سے چلے اور ولی کے پاس پہنچ جائے، کرامت میں ایسا ہوتا ہے کہ نہیں یا نہیں ہوتا؟ اگر خانہ کعبہ کسی ولی کی کرامت کے طور پر مکہ سے چلے اور ولی کے پاس پہنچ جائے فرمایا ہمارا کعبہ پھر بھی تبدیل نہیں ہوگا کیونکہ ہمارا کعبہ وہ کمرہ نہیں ہے ہمارا کعبہ وہ جگہ ہے جہاں پر کمرہ تعمیر ہوا ہے۔ اس جگہ سے لے کر بیت معمور تک یہ سارے کا سارا کعبہ ہے۔ اور بیت معمور کا روزانہ ستر ہزار فرشتے طواف کرتے ہیں۔ اور جو ایک مرتبہ طواف کرے گا قیامت تک دوبارہ اس فرشتہ کی باری نہیں آئے گی۔ ستر ہزار فرشتے بتاؤ میرے اور آپ کے طواف کی اللہ کو کیا ضرورت ہے؟ اللہ ہمیں بات سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے۔
ہندو کے اعترض کا جواب
تو ہم خانہ کعبہ کی عبادت نہیں کرتے بلکہ کعبہ کے خدا کی عبادت کرتے ہیں اور کعبہ صرف اس کمرہ کا نام نہیں ہے کعبہ اس مقام کا نام ہے یہ کمرہ وہاں پہ بطور نشانی کے رکھا ہے۔ ایک ہندو نے ایک مولانا صاحب سے سوال کیا ہندو نے کہا مولوی صاحب یہ عجیب بات ہے کہ جب ہم ہندو لوگ ایک چھوٹے سے پتھر کی پوجا کریں تو تم کہتے ہو مشرک ہو اور تم اتنا بڑا پتھر کا کمرہ پوجتے ہو اور تم کو کوئی مشرک نہیں کہتا ہم بھی پتھر کو پوجتے ہیں تم بھی پتھر کو پوجتے ہو تو دونوں مشرک ہوئے ہم میں تم میں فرق کیا ہے؟ مولانا عبدالغنی پھولپوری کا اپنا واقعہ ہے یا کسی کا نقل کیا، فرمایا مولانا نے برجستہ جواب دیا:
کافر ہے جو سجدہ کرے بت خانہ سمجھ کر
سر رکھ دیا ہم نے در جاناناں سمجھ کر
جاناناں کہتے ہیں محبوب کو جس پر آدمی مرتا ہو یعنی ہم نے بت خانہ سمجھ کر سجدہ نہیں کیا ہم نے محبوب کا در سمجھ کے سجدہ کیا ہے۔ بعض لوگ شاعری میں ایسا جواب دیتے ہیں کہ اس کی مثل نہیں ملتی۔ شاہ محمد احمد رحمہ اللہ پرتاب گڑھی حکیم الامت مولانا تھانوی رحمہ اللہ کے خلفاء میں سے تھے بہت بڑے عالم بھی تھے شاعر بھی تھے۔ غالب کا ایک شعر ان کو پہنچا:
عشق نے غالب ہم کو نکما کر دیا
ورنہ آدمی تھے ہم بھی بڑے کام کے
اب مولانا نے جواب دیا، جواب سنیں :
عشق نے ہمیں کما کردیا احمد
ورنہ آدمی تھے ہم بھی صرف نام کے
کیوں؟ غالب کا عشق مرنے والی بدبودار لاشوں سے تھا اور مولانا احمد صاحب کا عشق ان بد بودار لاشوں کے خالق سے تھا۔ ظاہر ہے جو مخلوق پہ مرے گا نکما ہوگا جو خالق پہ مرے گا وہ کام کا ہے۔ عشق اور محبت کا رخ بدلنا ہے اللہ ہم سب کی محبت کا قبلہ درست فرمادے۔ خدا کی قسم آدمی کو خدا سے محبت ہو جائے جینے کا مزہ آجائے۔ یہ بات آپ کو کیسے سمجھاؤں جینے کا مزہ آتا ہے جینے کا۔
کسی کا موبائل بج اٹھے تو کیا کریں
توجہ رکھیں میں نے کئی بار کہا موبائل کی گھنٹی بجے تو غصہ نہ ہوا کرو کوئی بھی آدمی جان بوجھ کے ایسا نہیں کرتا کہ موبائل کی ٹون کھلی رکھے بھول جاتا ہے۔ تو بھولنے والے کو تھوڑا ڈانٹا کرتے ہیں؟ ایک آدمی نماز پڑھ رہا ہے بھول گیا موبائل کھلا رہ گیا اب اتنی اس کے موبائل کی کھپ نہیں ہوتی جتنی نماز کے بعد نمازی ڈالتے ہیں۔ بھائی موبائل میں تو عقل نہیں تھی وہ بول پڑا اور تم تو عقل مند تھے تم تو مسجد کا سکون برباد نہ کرو خاموش ہوجاؤ۔
ہماری مثال اس آدمی کی طرح ہے جو نماز پڑھ رہا تھا اور ایک نے آ کر پوچھا کون سی رکعت ہے نماز پڑھنے والا کہتا ہے اوئے نماز میں نہیں بولتے۔ جی ہاں! دوسرا کہتا ہے تیری نماز ٹوٹ گئی ہے، تیسرا کہتا ہے نہیں تیری بھی ٹوٹ گئی ہے۔ اور ٹوٹ سب کی گئی ہے۔ یہی حال ہے ہمارا۔ موبائل تو بے عقل ہے اس کو پتہ نہیں ہے تو جو ڈانٹ رہا ہے شور مچا رہا ہے تو کیا مسجد کے تقدس کا خیال کر رہا ہے ؟سبحان اللہ!
نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم مسجد نبوی میں آئے ایک دیہاتی کھڑے ہو کے پیشاب کر رہا تھا تو صحابہ دوڑے اس کو ڈانٹنے کےلیے تو آپ نے فرمایا : نہ نہ، مت روکو، چھوڑدو اس کو۔ اس کے بعد بلا کے حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ مسجدیں ہیں عبادت کے لیے پیشاب کےلیے نہیں ہیں۔ اب اس میں محدثین نے لمبا کلام کیا ہے کہ حضورپاک پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے روکا کیوں نہیں تھا، بہت ساری وجہیں بیان کی ہیں۔ ایک وجہ یہ بھی ہے اگر اس کو ڈانٹتے تو وہ دوڑتا تو مسجد زیادہ گندی ہوتی تو حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے چھوٹا گناہ کرنے دیا تاکہ زیادہ مسجد ناپاک نہ ہو۔ میں اس لیے سمجھاتا ہوں کہ چھوٹی چھوٹی باتوں پر ایک دوسرے کو خراب نہ کیا کرو اللہ ہمیں سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے۔
خیر میں بات عرض کر رہا تھا کہ ابراہیم اور اسماعیل علیہما السلام نے دعا مانگی اللہ نے ان کی نسل میں سے نبی دیے جن کا نام محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم ہے۔ اور پھر ان حضرات نے دعا بھی مانگی ہے اور کعبہ کی بنیادوں پر کعبہ کھڑا بھی کیا۔ تو میں سمجھا یہ رہاتھا کہ آپ کعبہ پر جائیں اللہ سب کو لے جائے لیکن جانے سے پہلے دل کا تزکیہ ضروری ہے۔ خدا کی قسم دل کو صاف نہیں کرو گے جاتے وقت جہاز میں ائیر ہوسٹس کو دیکھو گے۔ میں جھوٹ نہیں بولتا میں نے ایسے گروپوں کے ساتھ عمرہ کیا یہ ہمارا چیمبر آف کامرس لاہور کا وفد تھا پہلے یمن گئے پھر جدہ مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ گئے عمرہ کر کے جب واپس آئے تو زم زم ٹاور ہے سب سے قیمتی ہوٹل وہاں ہے زم زم ٹاور، عمرہ سے واپس آئے اور آتے ہی ٹی وی آن کیا انڈین فلم دیکھ رہے ہیں کہاں؟ مکہ مکرمہ میں اور آئے کدھر سے؟ حرم سے کیوں دل کا تزکیہ نہیں تھا تو حج اور عمرہ برباد کر کے رکھ دیا۔ اس لیے وہاں جانا چاہیے لیکن پہلے تزکیہ بہت ضروری ہے۔ خیر حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اللہ سے جو دعامانگی ہے میں اس پر بات کررہا ہوں۔
امت اور ملت
ہمارا حضرت ابراہیم علیہ السلام اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے چونکہ بہت گہرا تعلق ہے یہاں ایک چھوٹا سا نکتہ ذہن میں رکھیں ہمارا دونوں سے گہرا تعلق ہے۔ ہم ابراہیم علیہ السلام کی ملت ہیں اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی امت ہیں۔ امت اور ملت میں کیافرق ہے؟ اصولوں کے اشتراک سے ملت بنتی ہے اور اصول وفروع کے اشتراک سےامت بنتی ہے۔ جن کے اصول ایک ہوں انہیں ملت کہتے ہیں اور جن کے اصول و فروع ایک ہوں انہیں امت کہتے ہیں۔
تو اصول میں ہم ابراہیم علیہ السلام کے ساتھ ہیں، لیکن فروع اور پوری شریعت میں ان کے پابند نہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پابند ہیں۔ توملت ابراہیم کی ہے اور امت ہم حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ہیں۔ اس لیے جو سنتیں اور ان کے طریقے چل رہے تھے نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے اکثر ان کو باقی رکھا ناخن تراشنے، بغل کے بال صاف کرنے کاطریقہ، مسواک کرنا یہ ابراہیم علیہ السلام کے طریقے ہیں۔ یہ طریقے جو ابراہیم علیہ السلام نے دیے تھے ان میں سے ایک طریقہ قربانی کا بھی ہے۔ قربانی کا سلسلہ خدا نے ان سے شروع کروایا ہے۔
نبوت کے چار کام
حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل علیہما السلام نے اللہ سے جو دعا ئیں مانگیں ہیں ان میں سے ایک دعا کا تذکرہ کرنا ہے اور تھوڑی سی بات عرض کرنی ہے۔دعاکیا مانگی؟
>رَبَّنَا وَابْعَثْ فِيهِمْ رَسُولًا مِنْهُمْ اے اللہ یہ مکہ آباد ہو گا تو ان کی نسل میں ایک رسول بھیج۔ رسول ایسا ہو يَتْلُو عَلَيْهِمْ آيَاتِكَ
جو قرآن کریم کی تلاوت کرے وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ پھران کو قرآن کا ترجمہ اور تفسیر سمجھائے وَالْحِكْمَةَ ان کو حکمت سمجھائے وَيُزَكِّيهِمْ اور ان کے دلوں کو پاک کرے
اِنَّكَ أَنْتَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ
اللہ تو عزیز اور حکیم ہے یہ ہماری آپ سے دعا ہے۔ اللہ نے ان کی دعا قبول کی اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم ابراہیم علیہ السلام کی دعا کانتیجہ ہیں۔
تو کام کتنے مانگے؟

قرآن کی تلاوت کرے

قرآن کو سمجھائے

حکمت سمجھائے

دلوں کو پاک کرے
درس قرآن کس کا سنیں
یہ چار کام اس نبی نےکرنے ہیں اور چاروں کام اس نبی والے اللہ نے اس امت کے ذمہ لگائے ہیں۔ يَتْلُو عَلَيْهِمْ آيَاتِكَ تلاوت قرآن، یہ کام دنیا اور پاکستان کے قراء کر رہے ہیں وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ یہ ہمارے علماءکے ذمے ہے۔ قرآن کی تفسیر وتشریح علماء کے ذمے ہے، پروفیسروں، ڈاکٹروں کے ذمے نہیں ہے نہ یہ کام ان کے ذمے ہے نہ ان کے دروس سن کے اپنا ایمان برباد کریں۔ ہاں پروفیسر عالم ہوتو اور بات ہے عالم اگر نہیں تو اس کو کوئی حق نہیں کہ قرآن کی شرح کرے۔
تزکیہ یہ کام خانقاہوں والا ہے تو تلاوت کا کام قراء کرتے ہیں اور ایک علماء کرتے ہیں اور ایک کام یہ تزکیہ والا خانقاہ والے کرتے ہیں۔ میں بطور نعمت کے کہتا ہوں کے وہ مراکز کتنے اچھے ہوں گے جہاں پر قاری تلاوت والا بھی ہو تفسیر والے علماء بھی ہوں اور تزکیہ والے شیخ اور مرشد بھی ہو۔ ایک سُپر سٹور ہوتا ہے جہاں ساری کی ساری اشیاء ملتی ہیں میں کہتا ہوں اللہ تمہیں قدر کرنے کی توفیق عطا فرمائے اس مرکز میں بحمد اللہ ساری نعمتیں عطا فرما دی ہیں۔ آپ قرآن پڑھنا چاہیں تو موجود ہے، تفسیر پڑھنا چاہیں تو موجود ہے، اللہ اللہ کرنا چاہیں تو خانقاہ کھلی پڑی ہے۔ اس مرکز کے اثرات آپ دنیا کے کسی کونے میں جائیں گے آپ اس کے اثرات محسوس کریں گے۔
میں بحرین کے دورے پر تھا مجھے اتنا تعجب ہوا کہ وہاں بنگلہ دیش کے، برما کے، پاکستان کے، مختلف ملکوں کے علماء آرہے ہیں، مولانا آپ کے بیانات سنے ہیں استفادہ کے لیے آ سکتے ہیں؟ بحرین کے پولیس کے ملازم ہیں وہ آ رہے ہیں حتی کہ آخری دن آنے لگا تو یہ کون ہے؟ یہ کمانڈو کا انسٹرکٹر ہے کہنے لگا میرے پاس جتنے کمانڈو ہیں سب کے موبائل میں آپ کے بیان ہیں۔ اور مجھ اتنا تعجب ہوا ایک بندہ مجھے ملا میں نام نہیں لیتا کہنے لگا انٹیلی جنس کا آدمی ہوں میرے ذمے ڈیوٹی تھی یہ کون سا مولوی ہے جس کی سی ڈیز یہاں بحرین میں تقسیم کی جارہی ہیں۔ میری بہت سی ڈیز وہاں تقسیم ہوئیں۔ مولانا طارق جمیل صاحب کے دفاع میں فضائل اعمال کے دفاع میں۔
آپ یقین فرمائیں مجھے ایک پولیس ملازم نے کہا مولانا بحرین میں پہلی بار جب توصیف الرحمٰن غیر مقلد آیا تھا تو اس کے مجمعے دیکھنے والے تھے اور جب آپ کی سی ڈیز تقسیم کی گئیں تو آئندہ وہی توصیف الرحمٰن تھا اور اس کی تقریر سننے والا کوئی نہیں تھا اس نے کہا ہم سے پوچھیں اس دو گھنٹے کی سی ڈی میں کیا کمال کیا ہے پاکستان والوں کے ہاں تو اس کی قدر نہیں ہے ہم سے پوچھو۔
علماء کا اکرام
یقین کرو کوئی عالم آپ سے کھانا کھائے تو خوش ہوا کرو آپ کے دستر خوان پر کوئی عالم بیٹھ جائے اس سے بڑی کوئی نعمت نہیں میں آپ کو یہ بات کیسے سمجھاؤں پشاور گیا ایک دوست ملا انہوں نے کمرہ دکھایا اور کہا یہ صرف علماء کےلیے خاص ہے۔ اسی طرح ایک دوست سعودی عرب میں ملا گھر گئے مجلس میں بیٹھے تھے کہنا لگا آپ تھوڑی دیر کے لیے اس چار پائی پر بیٹھیں میں نے وجہ پوچھی تو کہا فلاں فلاں مشائخ اس پر بیٹھے ہیں میں چاہتا ہوں آپ بھی بیٹھیں۔
اب بتاؤ یہ بات اگر سمجھ آئے تو تب ہے ناں! جب سمجھ ہی نہ آئے تو پھر بندہ جان چھڑاتا ہے۔ صحابہ کی خواہش ہوتی تھی کہ حضور پاک ہمارے گھر کھانا کھائیں۔ ایک صحابی نے دعوت کی کہ یار سول اللہ ہمارے گھر تشریف لائیں فرمایا میری عائشہ بھی ساتھ ہوگی تو اس نے دو بار کہا کہ حضور آپ اکیلے آئیں تو آپ نے کہا نہیں عائشہ ساتھ ہوگی تیسری بار اس نے کہا حضور ہماری تو خوشی ہے کہ ہماری ماں ہیں ہم تو چاہتے ہیں کہ وہ آئیں لیکن ایک پیالہ ہے شوربے کا میں چاہتا ہوں آپ اچھی طرح کھا لیں حضور نے فرمایا یہ میرا معاملہ ہے ہم دونوں کھائیں گے۔
یہ بات ہم کو سمجھ نہیں آتی اور دیہاتوں میں تو اس کارواج ہی نہیں ہے میں بطور مذاق کہتا ہوں آپ ہر سال نہیں ہر روز عالم بلائیں انہوں نےنہیں کہنا کہ مولوی صاحب یہ عالم آرہے ہیں ان کا کھانا ہمارے ذمہ ہے بلکہ انہوں نے کہنا ہے کہ کوئی عالم آئے تو ہمیں بھی ساتھ بلالینا۔ایسے ہوتا ہے کہ نہیں؟ مولوی صاحب کوئی باروں بزرگ آوے تے سانوں وی بلالیاکرو برکت واسطے اسی وی کھالیے۔
یہ ہماری سوچ اورفکر ہے، رمضان آئےگا ہر ایک کی فکرہے میں مسجد میں افطاری کرلوں یہ نہیں فکر کہ میں کسی کو کرادوں۔ میں یہ رونا اس لیے روتا ہوں کہ اپنا مزاج بناؤبس اللہ سمجھ عطافرمائے۔ خیر میں بات کہہ رہا تھا کہ چار کام ہیں اور نبی نےچاروں کام کیے اور ہر میدان میں شاہ سوار پیدا کیے۔صحیح بخاری میں ہے
اسْتَقْرِؤا الْقُرْآنَ مِنْ أَرْبَعَةٍ مِنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ وَسَالِمٍ مَوْلَى أَبِي حُذَيْفَةَ وَأُبَيِّ بْنِ كَعْبٍ وَمُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ
صحیح البخاری، رقم الحدیث 3759
مطلب یہ ہےکہ یہ اسپیشلسٹ ہیں ان سے پڑھنا۔ تو چارکام ہیں۔
تلاوت قرآن
اس کامطلب ہے کہ مخارج کے ساتھ عربی لہجے کے ساتھ پڑھنا ہے۔
تعلیم قرآن
تعلیم کا معنی قرآن کامعنی اور تفسیر ہے۔ جو علماء کے ذمے ہے نہ کہ ڈاکٹروں اور پروفیسروں کے۔ ان کے درس میں نہ شرکت کیا کرو نہ سنا کرو اس پر تمہیں گناہ نہیں ملے گا۔
تعلیم حکمت
اس پر چھوٹی سی بات کرنا چاہتا ہوں علامہ آلوسی مفتی بغدار رحمہ اللہ نے حکمت کے پانچ معنی بیان فرمائے، اور یہ وہ شخص ہے جس کے پاس مطالعہ کے لیے چراغ نہیں ہوتا تھا، اور فرماتے ہیں:
کنت اطالع الکتب فی ضوء القمر
کہ میں چاند کی روشنی میں بیٹھ کر مطالعہ کیا کرتا تھا۔پھر جب روح المعانی لکھ کے باشاہ کو پیش کی تو تب پتہ چلا کہ بغداد میں کتنا بڑا عالم اور مفتی رہتا ہے۔ تو وہ فرماتے ہیں حکمت کے پانچ معنی ہیں:
حقائق الکتاب و دقائقہ یعنی اللہ تعالی انہیں ایسا نبی عطا فرمائے جو ان کو دین کی باریکیاں سمجھائے۔
عقل کے درجات
میں ایک بات کہتا ہوں عقل کے چار درجے ہیں ایک درجہ نابالغ کا، ایک درجہ بالغ کا، ایک درجہ عالم کا اور ایک درجہ نبی کا۔ نا بالغ کی عقل نہ حکم سمجھتی نہ حکمت سمجھتی ہے اور بالغ حکم سمجھتا ہے حکمت نہیں سمجھتا۔ اس لیے حکم کا پابند ہے۔ لوگوں کو ہر وقت حکمتیں نہ بتایا کرو آتی ہوں تب بھی نہ بتایا کرو۔ وگرنہ ہر مسئلہ پر حکمتیں پوچھیں گے جب نہیں بتاؤ گے تو پھر بے دین ہو جائیں گے۔ کیونکہ آدمی حکم سمجھتا ہے حکمت نہیں سمجھتا۔ آپ دیکھیں نماز میں ہاتھ کانوں تک کیوں اٹھاتے ہو؟ کندھے تک کیوں نہیں؟ پھر ہاتھ باندھتے ہو چھوڑتے کیوں نہیں؟ عام بندہ نہیں سمجھتا اس لیے حکمت کا پابند نہیں۔
نماز کی حکمتیں
اور میں اس کا تذکرہ کیا کرتا ہوں کہ نماز نام ہے عاجزی اور تذلل کا اور عاجزی کا پہلا مرحلہ ہے کان پکڑو یہ کان پکڑے گا، اوئے آنکھ نیچے کر اب نیچے دیکھے گا اوپر نہیں دیکھے گا۔ ہاتھ باندھ لو اب ہاتھ باندھ لیے ہیں اب مانگو معافی ’سبحانک اللہم وبحمد ک اور آخر تک یہ معافی کی تمہید ہے۔ جی آپ بڑے ہیں میں چھوٹا ہوں میری کیا حیثیت ہے یہ تمہید ہے۔ اب ہے گھٹنے ٹیکو یہ رکوع میں چلا گیا، آگے کیاہے؟ کھڑے ہو کے اعلان کرو سمع اللہ لمن حمدہ جو اللہ کی حمد کرے اللہ اس کو قبول کر لیتا ہے۔ میں کتنا نالائق ہوں پیٹ میں پاخانے ہیں، گند بھر ہوا ہے خدا پھر بھی حمد قبول کر رہا ہے۔
چلو اب ناک رگڑو، اب سجدے میں گیا ہوا ہے ناک نہ لگائے تو سجدہ نہیں ہوتا اب سجدہ سے اٹھتا ہے تو بندہ کا دل کرتا ہے اللہ میں نے یہ سب کام کر لیے اے اللہ میرے بس میں ہوتا میں اور نیچے جاتا لیکن میں جا نہیں سکتا۔ اللہ فرماتے ہیں ایک مرتبہ اور جا یہ ایک مرتبہ اور سجدہ اس خواہش کا نتیجہ ہے اس لیے ایک رکعت میں رکوع ایک ہے اور سجدے دو ہیں۔ اب یہ حکمتیں عام آدمی نہیں سمجھتا۔
یہ تو نماز کی حکمتیں ہیں۔ روزے کی الگ ہیں، حج کی الگ ہیں۔ حکمت ہر آدمی نہیں جانتا۔ حکمتوں کو بیان کیا ہے امام غزالی نے، پھر شاہ ولی اللہ دہلوی نے پھر قاسم العلوم والخیرات ناناتوی نے ان شخصوں پر حکمتیں ختم ہیں۔ تو یہ بالغ کی عقل ہے۔ اس کے بعد عقل ہے عالم کی حکم بھی سمجھتا ہے حکمت بھی سمجھتا ہے لیکن حکمت وحی سے نہیں سمجھتا بلکہ اجتہاد سے سمجھتا ہے جس میں خطا بھی ہوسکتی ہے۔ اور نبی حکم بھی سمجھتا ہے اور حکمت بھی سمجھتا ہے اور وحی کے ساتھ سمجھتا ہے جو یقین کے درجہ میں ہوتی ہے۔ خیر میں کہہ رہا تھا کہ حکمت کا معنی ہے دین کی باریکیاں سمجھنا۔ ہمارا نبی وہ ہے جو دین کی باریکیاں سمجھاتا ہے۔
مسجد میں آنے کی دعا کی حکمت
صرف ایک بات جوہمارے شیخ نے لکھی ہے۔ مسجد میں آئے تو کیا دعا ہے بسم اللہ والصلوٰۃ والسلام علی ٰ رسول اللہ رب اغفر لی ذنوبی وافتح لی ابواب رحمتک اور جب نکلے تو اللہم انی اسئلک من فضلک اس میں کیا حکمت ہے؟ توجہ رکھنا رسول اللہ معراج کی رات عرش پر ملاقات کے لیے گئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین باتیں عرض کیں ! التحیات للہ زبانی عبادتیں اللہ تیرے لیے جواب میں اللہ فرماتے ہیں تمھاری زبانی عبادتیں ہمارے لیے ہیں تو ہم سے قولی سلام لے لو فرمایا
السلام علیک ایہاالنبی والصلوات ف
رمایا بدنی عبادتیں اے اللہ تیرے لیے تو کہا پھر ہماری رحمتیں لے لو فرمایا ! ورحمۃ اللہ آگے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا! والطیبات مالی عبادتیں اے اللہ تیرے لیے تو اللہ نے کہا ! پھر برکتیں ہم سے لے لو وبرکاتہ اب دیکھو نماز روزانہ پڑھتے ہیں لیکن دماغ میں نہیں آتیں۔ تونبی نے تین خدمتیں پیش کیں تو ادھر سے تین نعمتیں مل گئیں۔
تو جب بندہ مسجد میں آیا تو کیا پڑھنے آیا؟ نماز، تو نماز پر کیا ملے گا؟ رحمت، اس لیے مانگا ہے اللہم افتح لی ابواب رحمتک اور جب باہر نکلے تو تجارت کاروبار کرتا ہے۔ مال ہے اور مال کو قرآن میں فضل کہا ہے فاذا قضیت الصلوۃ فانتشروا فی الارض وابتغوا من فضل اللہ نماز پڑھی ہے اب جاؤ اللہ کا فضل کا تلاش کرو اس لیے جب مسجد سے باہر نکلے گا تو دعا میں کیا مانگے گا؟ اللہم انی اسئلک من فضلک اے اللہ اپنا فضل دینا اور یاد رکھنا خدا کا فضل حلال ہوتا ہے حرام نہیں ہوتا۔ ہم سود کے مال سے کوٹھی بناتے ہیں ا ور اوپر لکھتے ہیں ھذامن فضل ربی یہ بھی مذاق ہے لاحول ولا قوۃ الاباللہ بات سمجھ آرہی ہے؟ یہ حکمتیں ہمیں سمجھ نہیں آتیں۔
امام اعظم رحمہ اللہ کی عقلِ رسا
اس پر ایک علمی لطیفہ عرض کرتا ہوں حضرت امام اعظم ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ ہمارے امام ہیں اور صحابہ رضی اللہ عنہم کے بعد دنیا میں سب سے بڑے آدمی ہیں، شاگردوں کو سبق پڑھا رہے تھے تو ایک دیہاتی آیا اور کہا أ بواوٍ اوبواوین؟ امام صاحب نے فرمایا بواوین تو اس نے کہا بارک اللہ فیک کما بارک فی لا ولا فرمایا آمین۔ وہ چلا گیا تو شاگردوں نے وضاحت پوچھی اور کہا ہمیں سمجھ نہیں آئی، نہ سوال کی نہ جواب کی اور اس کی دعا کی۔
اب امام کا علم دیکھو امام صاحب نے فرمایا نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے التحیات کے دو قسم کے الفاظ منقول ہیں التحیات للہ والصلوات و الطیبات اس میں دو واؤ ہیں اور ایک ہے التحیات للہ والصلوات الطیبات اس میں ایک واؤ ہے اور ایک حرف پر دس نیکیاں ملتی ہیں تو دو پر بیس نیکیاں ہوں گی۔ تو اس دیہاتی نے مجھ سے مسئلہ پوچھا ہے میں کون سا پڑھوں أ بواوٍ أوبواوین؟ ایک واؤ والا یا دو والا؟ تو میں نے کہادو والا پھر اس نے دعا دی۔ قرآن میں اللہ کے نور کی مثال بیان کی ہے تو اس میں زیتون کا ذکر ہے۔ فرمایا! زیتون ایسا درخت ہے لا شرقیۃ ولا غربیۃ زیتون جیسا درخت نہ مشرق میں ہے نہ مغرب میں ہے۔ یعنی اتنا عمدہ درخت ہے کہ نہ مشرق میں ہے نہ مغرب میں ہے تو اس نے اب مجھے دعا دی اور کہا بارک اللہ فیک کما بارک فی لا ولا یعنی ایسی برکت عطافرمائے جیسی اس کو دی ہے۔ نہ اس جیسا ادھر نہ ادھر ہے ایسی ہی تجھ کو برکت دے کہ تجھ جیسا امام نہ مشرق میں ہو نہ مغرب میں تو میں نے کہا آمین۔
اب دیکھو امام صاحب کاکیسا علم ہے بولنے والا بولتا اور امام صاحب وہاں پہنچتے جہاں تک عام آدمی نہیں پہنچتا۔ اتنا دماغ دیا تھا اللہ نے اور ظاہر ہے فقہ کے لیے تو دماغ چاہیے،بد دماغ تو فقہ سمجھ ہی نہیں سکتا۔ اس لیے دین وفقہ کا دشمن ہمیشہ بد دماغ ہوتا ہے۔ غیر مقلد کو دیکھو ڈاڑھی دیکھو تو بے وقوفوں والی !میں نہیں کہتا ابن حجر نے فتح الباری شرح بخاری میں لکھاہے ! بہت بڑی ڈاڑھی ہونا بے وقوفی کی علامت ہے سنت ایک مٹھی ڈاڑھی ہے، سنت ڈاڑھی ایک مٹھی ہے باقی تراش دو اس میں چہرہ کا حسن بھی ہے نبی کی سنت کا احیاء بھی۔ دیکھو لو غیر مقلد کو ! ایک ساتھی کہنے لگا غیر مقلد اماموں کی نہیں مانتا میں نے کہا خدا کی نہیں مانتا تو امام کی بات کرتا ہے۔ مسجد میں ایسے کھڑا ہوگا جیسے کہ خدا سے لڑنے لگا ہے سینہ تان کے ٹانگیں چوڑی ہیں۔ اب بتاؤ ایسا بد دماغ دنیا میں ہوگا؟ اس کو دین کی فقہ کیسے ملےگی؟ خیر میں کہہ رہا تھا حکمت کا ایک معنی ہے "باریکیاں" اللہ تعالیٰ عطا فرمائے۔
اکابر کا فیض
حکمت کا دوسرا معنی ہے ’’الفہم فی الدین‘‘ دین میں سمجھ، اللہ دین میں سمجھ عطا فرمائے میں ایک بات کہتا ہوں طلباء کو اور مجھے بڑی خوشی ہوتی ہے کہ میں جو بھی جملہ کہتا ہوں ناں آپ کو میرا ہر جملہ اپنے کسی نہ کسی اکابر کی کتاب میں مل جائے گا۔ اور میں دیکھا تا ہوں، ایک ساتھی مجھےکہنے لگا آپ کہتے ہیں اجماع معصوم ہے کہاں لکھا ہے؟ ابھی جب تفسیر عثمانی دیکھ رہا تھا تو اس میں حضرت عثمانی رحمہ اللہ نے والراسخون فی العلم کےتحت لکھا ہے۔ ایک محکم ہے، ایک متشابہ ہے۔ محکم وہ ہوتا ہے جس کا معنی نصوص سے واضح ہو یا اس کا معنی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمانے سے واضح ہو۔ یا اس کا معنی اجماع معصوم واضح کردے۔ میں نے کہا علامہ عثمانی نے لکھا ہے۔
اسی طرح میں نے تخصص کے طلباء کو کہا تھا ہمارے ہاں دو شرطیں ہیں۔ نمبر ایک مولوی ہو نمبر دو بے وقوف نہ ہو۔ میں سوچ رہا تھا کہاں سے ملے گا؟ آج میں اپنے شیخ حضرت حکیم صاحب کا وعظ پڑھ رہا تھا فرمایا : حکمت کا ایک معنی ہے دین میں سمجھ تو اگر یہ مولوی بے وقوف ہوگا تو بلاوجہ طاقت کا استعما ل کر ے گا۔ اس لیے سمجھ کا ہونا ضروری ہے۔ یہ علم اکابرین کی جوتیاں اٹھانے سے ملا ہے۔ ان کی جوتیاں اٹھاتے ہیں دیکھو اللہ نے ان کا علم منتقل کر دیا ہے۔ یہ بات تمھیں سمجھ نہیں آنی۔ جب آدمی ان مراحل سے گزرتاہے پھر سمجھ آتی ہے۔
سید احمد شہید کا واقعہ
حضرت تھانوی رحمہ اللہ نے ایک واقعہ بیان کیا ہے۔ فرماتےہیں: سید احمد شہید رحمہ اللہ جہاد کے لیے نکلے پشاور کے علاقے میں پہنچے تو بہت سارے علماء حسدکرنے لگے کہ دہلی کا مولوی ہمارے یہاں حکومت کرنے آیا ہے۔ جہاد کا دور تھا حضرت گھوڑے کے پاس کھڑے صفائی کررہے تھے، تو کہتے ہیں بڑے بڑے پگڑ باندھے پانچ سات مولوی آگئے اور کہا مولوی اسماعیل کون ہے؟ فرمایا: بات بتاؤ پھر کہا کہ کون ہے کہا بات بتاؤ ان کو یقین آگیا کہ یہی مولوی اسماعیل ہے تو انہوں نے معقولات منطق کے سوالات کیے حضرت نے جواب دے دیے۔
اب انہوں نے سوچا یہ تو مولوی ہے جواب دے دیے۔ چلو سید احمد شہید سے سوال کرتے ہیں سید احمد شہید تو مولوی نہیں ہے نا۔ مولوی نہیں تھے کافیہ تک پڑھا تھا جب کتاب کھولتے تو آگے نظر نہیں آتاتھا۔ ان کے شیخ حضرت شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی رحمہ اللہ تھے، ان کی خدمت میں عرض کیا فرمایا: کافیہ بند کردو خدا نے تم سے حروف والا نہیں کوئی اور کام لینا ہے۔ تربیت شروع کردو تم سکھوں کے خلاف کے کام کرو۔ اب یہ باضابطہ مولوی نہیں تھے ان کے پاس گئے حکیم الامت مولانا تھانوی رحمہ اللہ نے کتاب’’ امثال عبرت‘‘ میں لکھا ہے اس میں یہ واقعہ مل جائے گا۔
فرماتے ہیں: سید احمد شہید رحمہ اللہ بیٹھے تھے انہوں نے آ کے سوال کیے معقول اور منقول کے۔ جب منقول کا سوال کرتے شاہ جی دائیں دیکھتے اور جواب دے دیتے، پھر وہ معقول کا سوال کرے بائیں دیکھتے اور جواب دیتے۔ جب جواب دے دیے وہ اٹھ کے چلے گئے۔ ان کے بعد کسی خلیفہ یا مرید نے پوچھا حضرت دو باتیں سمجھ نہیں آئیں نمبر ایک ان کے جواب آپ نے پڑھے نہیں ہیں جواب دیے کیسے ہیں؟ نمبر دو جب وہ قرآن وحدیث کا مسئلہ پوچھتے آپ دائیں دیکھتے، جب منطق فلسفہ کا پوچھتے بائیں دیکھتے ! شاہ صاحب فرمانے لگے جب یہ میرے پاس آئے تم میرے دل میں یہ بات آئی یہ حسد کے لیے آئے ہیں اور مجھے ذلیل کرنا چاہتے ہیں میں نے دل ہی دل میں خدا سے دعا مانگی ! اللہ سید ہوں نبی کی اولاد میں سے ہوں سفر جہاد میں ہوں میری عزت کو رکھنا، اور مجھے ذلت سے بچانا۔ بس دعا کی جب یہ منقول کا مسئلہ پوچھتے اللہ دائیں طرف امام غزالی کی روح کو حاضر کردیتے میں ان سے پوچھتا اور جواب دے دیتا۔ جب یہ معقول کا مسئلہ پوچھتے بائیں طرف دیکھتا ابن سینا کی روح آتی اس سے پو چھتا اور جواب دیتا۔
اب بتاؤ! یہ بات اب وجدان اور ذوق کے بغیر سمجھ آ سکتی ہے؟ یہ کتابوں سے کیسے سمجھ آئے گی؟ اسی سے غیر مقلدیت اور مماتیت پیدا ہوتی ہے۔ جی یہ کیسے ہو سکتا ہے؟ بھائی تمھارے ساتھ ہوگا نہیں تو علم کیسے ہو سکتا ہے؟ جب اللہ ایسا کروائیں گے تو پھر دلائل کی تو احتیاج نہیں رہی گی۔
حضرت تھانوی کا پر حکمت جواب
تو حکمت کا ایک معنی ہے ’’الفہم فی الدین‘‘ دین میں سمجھ پر ایک واقعہ شاہ عبدالغنی پھولپوری رحمہ اللہ کا حضرت حکیم صاحب دامت برکاتہم نے نقل فرمایا۔ فرمایا: ایک بندہ مرید ہوگیا اور تھا بریلوی آ کے مسئلہ پوچھا جی میں درود لکھّی پڑھتاہوں، درود تاج پڑھتا ہوں پڑھوں کہ نہ پڑھوں؟ اب اگر حضرت فرماتے کہ نہ پڑھو بدعت ہے تو دوڑ جاتا تو حضرت نے یہ نہیں فرمایا، اب دین میں سمجھ دیکھو فرمایا ایک درود وہ ہے جو علماء نے بنایا اور ایک وہ ہے جو حضور علیہ السلام نے بتایا بتاؤ کونسا افضل ہے؟ اس نے کہا حضور والا تو فرمایا یہ مولویوں نے لکھا ہے جو میں بتاتا ہوں وہ حضور علیہ السلام نے بتایا ہے۔ اب بتا کون سا پڑھے گا؟ اس نے کہا حضور والا۔ اب دیکھو بدعت سے بچا کے سنت پر لگا دیا اسے کہتے ہیں’’الفہم فی الدین‘‘
تبلیغی جماعت پر ایک اعترض کا جواب
ایک آدمی حضرت مولانا الیاس صاحب بانی تبلیغ جماعت سے کہنے لگا تم نے کیا کیا تبلیغ کا کام شروع کرا کے؟ فرمایا کیا ہوا؟ اس نے کہا حدیث میں ہے
’’ من رایٰ منکم منکراً فلیغیرہ بیدہ‘‘
جب گناہ کو دیکھو تو طاقت سے روکو، طاقت سے نہیں روک سکتے تو زبان سے روکو، زبان سے نہیں روک سکتے، تو دل سے برا سمجھو تو پہلا درجہ تو ہاتھ سے روکنے کا ہے تم تو ہاتھ سے نہیں روکتے۔ حضرت فرمانے لگے جناب حدیث تو ٹھیک پڑھی ہے مگر سمجھی نہیں کیونکہ حضور نے کہاں فرمایا ہے کہ اس کو ہاتھ سے روکو؟ کہنے لگا ’’ فلیغیرہ بیدہ‘‘
فرمایا : تغییر کہا ہے منع تو نہیں فرمایا یہ تو نہیں فرمایا کہہ گناہ سے روکو بلکہ فرمایا: جب گناہ کو دیکھو تو اس کوبدل دو اس کو نیکی سے بدل دو میں گناہ سے روکتا نہیں ہوں گناہ کو نیکی میں بدل دیتا ہوں فرمایا قبر پر سجدے کر رہا تھا تم نے رگڑا لگا دیا وہ پکا مشرک ہوگیا تم نے سمجھا ہم نے روک دیا۔ ہم یوں نہیں کرتے ہم قبر سے لا کے اس کو مسجد میں لے آتے ہیں۔ ہم گناہ کو نیکی سے بدل دیتے ہیں تو روکنا اور ہوتا ہے بدلنا اور ہوتا ہے۔ دیکھو اللہ دین کی سمجھ عطا فرمائے تو کیسے بات سمجھائی ہے۔
تو حکمت کا ایک معنی ہے دین کی باریکیاں اور ایک معنی ہے دین کی سمجھ اور ایک معنی ہے طریق السنۃ اللہ سنت کی توفیق عطافرمائے اور ایک معنی ہے وضع الشی ء فی محلہ کسی بھی چیز کو اپنی جگہ پر رکھنا جو عضو اللہ نے جس مقصد کےلیے پیدا فرمایا اس کے لیے استعمال کرنا اس کا نام دین میں اللہ نے حکمت رکھا ہے بس حکمت کا معنی یہ ہے کہ ہر کام کو جس مقصد کے لیے ہے اسی کے لیے استعمال کرنا اسی کا نام ہے حکمت۔
آخری بات اور ایک معنی ہے ما تکمل بھا النفس من المعانی والاحکام جس کے ذریعے نفس کی تکمیل ہو ایسی معرفت کا مل کا جاننا حکمت ہے۔ آخری بات توجہ! حضرت نے بڑی عجیب بات ارشاد فرمائی فرمایا قرآن میں ہے :
لَنْ يُصِيبَنَا إِلَّا مَا كَتَبَ اللَّهُ لَنَا
سورہ التوبۃ، 51
جو اللہ نے لکھی ہے وہ مصیبت آتی ہے جو نہیں لکھی وہ نہیں آ سکتی یہ تو سب کا ذہن ہے ناں؟ توجہ رکھنا! لیکن ہوتا کیا ہے کبھی مصیبت میں خدا نے اتنی راحت رکھی ہوتی ہے کہ بندہ گناہ میں مبتلا ہوتا ہے اللہ اس کو مصیبت میں مبتلا کرتے ہیں یہ مصیبت گناہ چھڑوا کے نیکی کی راہ پر لگ دیتی ہے۔ تو دیکھو یہ معرفت مل جائے تو پھر انسان مصیبت کو مصیبت نہیں سمجھتا خدا کی نعمت سمجھتا ہے۔ حضرت حکیم اختر صاحب دامت برکاتہم کا اس پر بہت پیار ا شعر ہے۔ حضرت فرماتے ہیں میرا اس پر شعر ہے:
لے آئی تجھ تک جو موج رنج وغم

قربان اس پر سینکڑوں ساحل ہوئے

مطلب یہ ہے کہ آدمی ساحل پر ہوتا ہے محبوب نہیں ملتا، لیکن اس موج نے مجھے اٹھایا اور اس کے قدموں میں لے آئی۔ اب اس پر لطیفہ سنیں فرمایا: میں نے بیان میں کہا میرا شعر ہے ایک بندہ کہنے لگا یہ کیوں کہتے ہو میرا شعر ہے؟ فرمایا پھر کیا کہوں تیرا شعر ہے؟ جب میرا ہے تو میرا ہی کہوں گا۔ میرے خطبات چھپ رہے ہیں اللہ اسباب مہیا فرمائے۔ ایک آدمی کہنے لگا آپ کے خطبات علمی ہوتے ہیں لیکن آپ یہ کیوں کہتے ہیں کہ یہ نکتہ میں بیان کر رہا ہوں تمھیں تلاش کرنے سے مشکل سے ملے گا ایسی باتیں نہ کہا کرو، میں نے کہا پھر کیا کہا کروں ہر کتاب میں مل جائے گا؟ اللہ ہمیں بات سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے۔
حضرت تھانوی رحمہ اللہ نے بڑی عجیب مثال دی ہے کبھی مصیبت انسان کو گناہ سے بچا کے نعمت کیسی عطا کرتی ہے۔ فرمایا: رات بارہ بجے ایک بندہ نکلا ہے اپنے محبوب کی تلاش میں ہے اچانک تھانیدار گھوڑے پر آیا پکڑا اور گھوڑے کے آگے لگا لیا تاکہ تھانے میں بند کروں۔ ساتھ گھوڑے کو مارا اور اس کو بھی مارا اتفاق سے گھوڑا آگے نکل گیا اس نے چھلانگ لگائی اور باغ میں گر گیا۔ آگے دیکھا تو اس کا دوست بیٹھا ہوا تھا جب دوست کو دیکھا تو کہنے لگا اللہ ہزاروں رحمتیں دے اس تھانیدار پر جس نے مجھے یہاں پہنچا دیا۔ اب دیکھو تھانیدار کو گالیاں نہیں دیتا دعائیں دیتا ہے۔ یہ حکمت تب ہے جب سمجھ آئے۔ اللہ ہم سب کا تزکیہ فرمائے اور سمجھ عطا فرمائے۔ آمین ثم آمین
وآخر دعوانا عن الحمد للہ رب العٰلمین