اللہ کی شان کریمی

User Rating: 4 / 5

Star ActiveStar ActiveStar ActiveStar ActiveStar Inactive
 
اللہ کی شان کریمی
آمنہ مسجد، سہراب گوٹھ، کراچی
خطبہ مسنونہ
نحمدہ ونصلی علی رسولہ الکریم اما بعد
اعوذ باللہ من الشیطن الرجیم بسم الله الرحمن الرحيم يَا أَيُّهَا الْإِنْسَانُ مَا غَرَّكَ بِرَبِّكَ الْكَرِيمِ
میرے نہایت واجب الاحترام بزرگو، مسلک اہل السنت والجماعت سے تعلق رکھنے والے نوجوان دوستو اور بھائیو۔ میں نے آپ حضرات کی خدمت میں قرآن کریم کی ایک آیت تلاوت کی ہے۔ "يَا أَيُّهَا الْإِنْسَانُ مَا غَرَّكَ بِرَبِّكَ الْكَرِيمِ" اس آیت کریمہ میں اللہ رب العزت نے " يَا أَيُّهَا الْإِنْسَانُ" کہہ کے خطاب ہر اُس شخص کو کیا ہے جو انسان ہے خواہ وہ مومن ہو خواہ وہ کافر ہو۔ مومن بھی اللہ کا بندہ ہے کافر بھی اللہ کا پیدا کردہ ہے۔مومن بھی اللہ کی مخلوق اور کافر بھی اللہ کی مخلوق۔
مومن اور کافر کو خطاب میں فرق
اللہ رب العزت بحیثیت انسان جب خطاب فرمائیں تو کافر کو بھی کرتے ہیں اور مومن کو بھی خطاب فرماتے ہیں۔ جب ایمان والوں کو خطاب فرمانا ہو تو "يَا أَيُّهَا النَّاسُ" نہیں کہتے"يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا" کہتے ہیں۔ اور جب مومنین اور کفار دونوں کو بات سمجھانی ہو تو پھر اللہ رب العزت " يَا أَيُّهَا النَّاسُ" کہتے ہیں۔ بعض خطابات وہ ہیں کہ جن کا تعلق ایمان اور کفر والے دونوں سے ہوتا ہے۔ اور بعض خطاب وہ ہیں کہ جن کا تعلق خاص اہل ایمان کے ساتھ ہے۔ جو شخص کلمہ پڑھ لے وہ احکام کا مکلف ہوتا ہے۔ اور جو کلمہ نہ پڑھے وہ احکام کا مکلف نہیں ہوتا۔ جب اللہ نماز، روزہ، حج اور زکوۃ کی بات کریں گے تو پھر خطاب کفار کو نہیں ہو گا اہل ایمان کو ہو گا۔ اور جب اللہ عمومی عبادت کی بات کریں گے۔ تو پھر خطاب دونوں کو ہو گا۔
مومن اور کافر کے عذاب میں فرق
مومن اور کافر میں کئی فرق ہیں۔ ایک بات آپ ذرا ذہن نشین فرما لیں۔ جہنم میں کافر تو جائےگا اہل ایمان میں سے اگر بعض لوگ جہنم میں گئے اُن کے جہنم میں جانے کی وجہ اور ہو گی اور کافر کے جہنم میں جانے کی وجہ اور ہو گی۔ اللہ کافر کو جہنم میں بھیجیں گے تو عذاب دیں گے اور مومن اگر جہنم میں جائے گا تو اس کی وجہ عذاب نہیں ہو گی اس کی وجہ تزکیہ ہو گی۔ عذاب اور چیز ہوتی ہے تزکیہ اور چیز ہوتی ہے۔ عذاب کے معنی مفسرین نے لکھا ہے "ایذاء الحی علی سبیل الھوان" کسی بندے کو تکلیف دینا ذلیل کرنے کے لیے، اس کا نام عذاب ہے۔ اگر کسی کو تکلیف دیں اور ذلیل کرنا مقصود نہ ہو اس کا نام عذاب نہیں ہے۔
میں اس کی مثال دیتا ہوں کبھی آدمی تھپڑ اپنے مخالف اور دشمن کو مارتا ہے اور کبھی تھپڑ اپنے بیٹے کو بھی مارتا ہے۔ اب دشمن کو جو ماراہے ذلیل کرنے کے لیے اور بیٹے کو مارا ہے تنبیہ کرنے کے لیے۔ اب تنبیہ کے معنی تذلیل نہیں ہوتی۔ اللہ رب العزت کافر کو جہنم میں بھیجیں گے عذاب دینے کے لیے اگر اہل ایمان جہنم میں جائیں گے تو عذاب دینے کے لیے نہیں بلکہ اس کو پاک کرنے کے لیے۔ کہ جس جگہ کا نام جنت ہے اُس میں ناپاک لوگ نہیں جاتے۔ اُس میں چونکہ گناہ کی پلیدی سےوجود کو ناپاک کیا ہے، اللہ پاک کریں گے اور پھر جنت میں اُسے داخل فرما دیں گے۔
مومن سے تقاضا اعمال کا، کافر سے ایمان کا
اللہ رب العزت اگر اہل ایمان میں سے بد اعمال لوگوں کو جہنم میں بھیجیں گے تو وجہ اور ہو گی اور کفار کو جہنم میں بھیجیں تو وجہ اور ہو گی۔ پھر اگر کافر جہنم میں جائے گا تو اس سے یہ سوال نہیں ہو گا تو نے زنا کیوں کیا تھا تو نے شراب کیوں پی تھی، تو نے سود کیوں کھایا تھا، تو نے گانا کیوں سنا تھا یہ کافر سے نہیں پوچھا جائے گا یہ مومن سے پوچھا جائے گاکہ تو نے یہ قصور کیوں کیے؟
بعض لوگوں کو تعجب ہوتا ہے کہ اگر سود کافر کھائے تو اس سے نہیں پوچھیں گے مسلمان کھائے تو اس سے پوچھیں گے، فرق کیا ہے؟ یہ فرق سمجھنا مشکل نہیں ہے۔ چھوٹی سی بات سمجھیں ایک شخص جرم کرتا ہے اور جرم کی نوعیت الگ ہےمثلا ایک حکومت کا باغی ہے اس کا اصل جرم یہ ہے کہ وہ بغاوت کرتا ہے۔ اب بغاوت کے لیے تدبیر بھی کرتا ہے۔ بغاوت کے لیے اسلحہ بھی جمع کرتا ہے، بغاوت کے لیے بہت سارے کام اور بھی کرتا ہے۔ لیکن اصل جرم اس کا بغاوت ہے باقی جرائم اس کے ضمنی ہیں۔ جب یہ عدالت میں جائے تو اس پر سب سے پہلے فرد جرم جو لگتی ہے اس کے بغاوت کرنے کی۔
اسلحہ کا، یہ بھی کیس ہے تخریب کاری ،یہ بھی کیس ہےبدامنی پھیلائی ہےیہ بھی کیس ہے بد امنی کی سزا سزائے موت نہیں ہے۔ اسلحہ کی سزا سزائے موت نہیں ہےتخریب کاری کی سزا سزائے موت نہیں ہے البتہ بغاوت کی سزا سزائے موت ہوتی ہے۔ اگر ایک شخص نے کسی کو خدا نہ کرے قتل کیا ہے اس پر عدالت میں دفعہ 302 قتل کی بھی لگے گی عدالت میں دفعہ 113، 365 ناجائز اسلحہ کے بھی لگے گی مشورہ کرنے کی بھی دفعہ لگے گی109 کی بھی دفعہ ہو گی لیکن اس کے کیس کی سماعت عدالت میں 302 کی ہوگی۔ اگر 302کے کیس میں بری ہو جائے پھر یہ عدالت کیس اسلحہ کا شروع کرتی ہے۔ اگر 302 سے بری نہ ہو تو اسلحہ کے کیس کی سماعت کی ضرورت ہی نہیں۔ اگر 302کے جرم کی وجہ سے سزائے موت مل جائے تو چھوٹے کیس کی سماعت لانے کی ضرورت ہی نہیں ہے۔
بالکل اسی طرح کافر؛ یوں سمجھیں کہ جیسے 302 کا مجرم ہے۔ اس کی سزا ابدی جہنم ہے۔ شراب کی سزا ابدی جہنم نہیں ہے۔ زنا کی سزا ابدی جہنم نہیں ہے رشوت کی سزا ابدی جہنم نہیں ہے یہ چھوٹے جرائم ہیں کفر کے مقابلے میں۔ تو چونکہ کافر کا کفر والا جرم اتنا بڑا ہو گا اس کی سزا ختم ہو گی ہی نہیں۔ تو دوسرے کیس کے شروع کرنے کی ضرورت ہی نہیں ہے۔ اور مسلمان کی ابدی سزاتو جہنم ہے ہی نہیں اس لیے اس کے نامہ اعمال میں وہ جرائم ہیں جو چھوٹے ہیں۔ جس کی سزا کے بعد بالآخر بندے نے جنت میں چلے جانا ہے۔
میں اس لیے بات کہہ رہا تھا کہ یہ جرائم کافر کے زیر بحث نہیں آئیں گے۔ یہ جرائم مسلمان کے زیر بحث آئیں گے۔ اس لیے آپ قرآن کریم پڑھ لیں، احادیث پڑ ھ لیں، اللہ فرماتے ہیں شراب نہ پیومسلمان سے کہیں گے، زنا نہ کرو مسلمان سے کہیں گے، گانے نہ سنو مسلمان سے کہیں گےفلاں جرم نہ کرو مسلمان سے کہیں گےکافر سے یہ نہیں کہیں گے کہ یہ جرائم نہ کرو کافر کو حکم ہو گا کہ تم ایمان لاؤ پہلے ایمان لاؤ اُس کے بعد احکام کی بات ہو گی اور جب تک ایمان نہیں لائے گا احکام کی بات ہی نہیں ہے۔
ایک بندہ مسجد میں ہی نہ آئے اُسے آپ کہتے ہیں وضو کرو، ادب کا خیال کرو، کندھوں پر پھلانگ کر نہیں جاتے؟ بھئی مسجد میں آئے گا تو اگلے احکام بتاؤ گےجب مسجد میں ہی نہیں آتا تو اگلے احکامات کیسے دینے شروع کر دیے؟ پہلے دائرہ ایمان میں داخل ہو گا پھر احکام ہوں گے۔اور دائرہ ایمان میں داخل نہیں ہو گا تو احکام کی بات ہی نہیں ہوگی۔میں بات یہ سمجھا رہا تھا اللہ رب العزت قرآن کریم میں کبھی لفظ "يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا" کہہ کر اپنے عاشقو ں ایمان والوں کو خطاب کرتے ہیں، کبھی " يَا أَيُّهَا النَّاسُ " کہہ کر اللہ قرآن کریم میں عام انسان کو خطاب کرتے ہیں جو آیت میں نے تلاوت کی ہے اس آیت میں اللہ رب العزت نے " يَا أَيُّهَا النَّاسُ" فرمایا ہے اور عام انسان کو خطاب کیا ہے اور ایسے پیارے لفظ سے خطاب کیا، فرمایا: " يَا أَيُّهَا الْإِنْسَانُ مَا غَرَّكَ بِرَبِّكَ الْكَرِيمِ" اے انسانوں تمہیں اپنے کریم آقا کے بارے میں کس چیز نے دھوکے میں رکھا؟ اپنےکریم آقا کے بارے میں کس چیز نے دھوکے میں رکھا؟
تمام صفات کی جامع صفت
اللہ یہاں اپنی دو صفات لائے ہیں:

نمبر1 : رب

نمبر2: کریم
اللہ رب العزت کی صفت رب وہ ہے جو اللہ کی تمام صفات کو جامع ہے آپ قرآن کریم پڑھنا شروع کریں "
الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ
"اللہ صفت رب کو لائے ہیں باقی صفات بعد میں ہیں اور جب قرآن کے درمیان میں پہنچے
"إِنَّ الَّذِينَ قَالُوا رَبُّنَا اللَّهُ ثُمَّ اسْتَقَامُوا
" اللہ صفت رب کو لائے ہیں، جب قرآن کریم ختم ہوتا ہے " قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ" اللہ صفت رب کو لائے ہیں قرآن کے آغاز میں بھی رب، قرآن کے درمیان میں بھی رب قرآن کے اختتام پر بھی رب ہے۔
آپ عالم ارواح میں دیکھیں اللہ نے خطاب کیا " أَلَسْتُ بِرَبِّكُمْ" کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں؟ اور آدمی جب قبر میں جائے فرشتہ کیا کہتا ہے "من ربک؟ " بتاؤ تمہارا رب کون ہے؟ یہاں بھی صفت رب، عالم ارواح میں بھی رب۔ اللہ کی اور صفات بھی ہیں لفظ رب کیوں لاتے ہیں؟ اللہ رب العزت لفظ رب کہہ کر بندے کو شرم و حیا کی ترغیب دیتے ہیں۔ جیسے مالک نوکر کو کہتا ہے ہمارا کھا کر ہمیں بکواس کرتے ہو، ہمارا کھا کر ہمیں گالیاں نکالتے ہو۔ کھاتے بھی ہمارا ہو اور ہمارے ساتھ نمک حرامی کرتے ہو۔ اللہ فرماتے ہیں میں تمہارا رب ہوں، میں تمہارا رب ہوں، میں تمہارا رب ہوں۔ میرا تمہارا کوئی رشتہ بھی نہ ہوتا میں تمہارا رب ہوں۔ گندے قطرے سے وجود دیتا ہوں، پورے نظام کو تمہاری خدمت میں لگاتا ہوں، بن مانگے تمہیں نعمتیں عطاء کرتا ہوں، میں تمہارا رب ہوں۔
تم غور نہیں کرتے میں تمہارا رب ہوں "يَا أَيُّهَا الْإِنْسَانُ مَا غَرَّكَ بِرَبِّكَ الْكَرِيمِ" میں تمہارا رب بھی ہوں اور میں تمہارا کریم بھی ہوں، میں تمہارا رب بھی ہوں اور میں تمہارا کریم بھی ہوں۔ اللہ نے صفت ربوبیت کا اظہار فرمایا ہے اللہ " يَا أَيُّهَا النَّاسُ " فرماتے ہیں " يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا " نہیں کہتے کیوں؟ ربوبیت کا تعلق ایمان سے نہیں ہے ربوبیت کا تعلق وجود سے ہے۔ جس کو وجود ملتا ہے اُس کو رب کی حابت پیش آتی ہے۔ رب نہ ہو تو بندے کو وجود ہی نہیں ملتا۔ اللہ پاک نے خطاب کیا اور کافر کو بھی سمجھایا کچھ حیا کرو میں تمہارا رب ہوں میں نے تمہیں وجود دیا ہے، تم نہیں مانگا تمہیں آنکھ دی ہے، نہیں مانگا تمہیں زبان دی ہے، نہیں مانگا تمہیں کان دیا ہے، نہیں مانگا تمہیں ناک دیا ہے، نہیں مانگا تمہیں ہاتھ دیئے ہیں، نہیں مانگا تمہیں پاؤں دیئے ہیں، نہیں مانگا تمہیں صحت دی ہے میں ایسا رب ہوں جو بن مانگے تمہیں دیتا ہوں، بن مانگے تمہیں دیتا ہوں۔ تم نے غور کیا ہے ہاتھ میں نے دیا میرے خلاف استعمال کرتے ہو، زبان میں نے دی ہے میرے خلاف بولتے ہو، آنکھ میں نے دی ہے میرے خلاف دیکھتے ہو، کان میں نے دیا ہے میرے خلاف سنتے ہو، اللہ لفظ رب کہہ کر بندے کو توجہ دلاتے ہیں کہ میں تمہارا رب ہوں، میں تمہارا رب ہوں، میں تمہارا رب ہوں اور ساتھ کیا فرمایا "
يَا أَيُّهَا الْإِنْسَانُ مَا غَرَّكَ بِرَبِّكَ الْكَرِيمِ"
فرمایا میں رب بھی ہوں اور میں کریم بھی ہوں۔ میں رب بھی ہوں اور میں کریم بھی ہوں۔
کریم کے معنی
مفسرین نے پانچ معنی کریم کے لکھے ہیں، میں سارے معنی عرض نہیں کرتا میں دو، تین باتیں عرض کرتا ہوں۔
نمبر ۱ مفسر علامہ آلوسی رحمتہ اللہ علیہ تفسیر روح المعانی میں فرماتے ہیں کہ کریم کسے کہتے ہیں
"الذی یعطی بدون الاستحقاق"
کریم اُس کو کہتے ہیں جو اُس کو بھی دے جولینے کا مستحق نہ ہو۔
ہم مستحق ہیں؟
حضرت مولانا شیخ الاسلام مفتی محمدتقی عثمانی دامت برکاتہم نے ایک بڑا عجیب واقعہ لکھا ہے فرمایا چھوٹے چھوٹے تھے بچپن میں تو ایک شخص دروازے پر بھیک مانگنے کے لیے آیا مجھے میرے ابا جی نے مفتی اعظم پاکستان مفتی شفیع صاحب رحمتہ اللہ علیہ نے فرمایا کہ تقی اس کو سو روپیہ دے دو یہ آج کی بات نہیں ہے مفتی شفیع صاحب رحمتہ اللہ علیہ کے دور کا سو روپیہ ہے اُس کا سو آج کا کم از کم ہزار تو ہو گا کہتے ہیں کہ مجھے ابا جی نے فرمایا کہ تقی جاؤ باہر مانگنے والے کو ایک سو روپیہ دے دو میں نے کہا ابا جی وہ تو مستحق ہی نہیں ہے اورآپ کہتے ہیں کہ اُسے سو روپیہ دے دو؟ کہتے ہیں کہ ابا جی نے مجھے عجیب جملہ فرمایا بیٹا استحقاق کی بات ہوتی ہمیں پینے کے لیے گھونٹ نہ ملتا، خدا نے بغیر استحقاق کے بیٹا ہمیں دیا ہے تو تم بھی بغیر استحقاق کے اُسے دے دو۔ ہمیں جو خدا نے دیا ہے تو بغیر استحقاق کے دیا ہے ناں!
وہ کریم آقا ہے اور تو کہتا ہے وہ مستحق نہیں ہے اُسے سو روپیہ کیوں دیں؟ آج یہی بحثیں ہم بھی کرتے ہیں مولانا صاحب ہٹاکٹا آدمی ہے اس کو کیسے دیں بھئی ہٹے کٹے آدمی کی اندر کی حالت آپ نہیں جانتے جب تک تفصیلی حالات کا علم نہ ہو مانگنے والے کو کبھی دروازے سے نہ دھکیلا کرو "وَأَمَّا السَّائِلَ فَلَا تَنْهَرْ" خدا کہتا ہے ڈانٹا کبھی نہ کرو بس خدا نے تمہیں دیا ہے تم اُسے دے دو۔
میں عرض یہ کر رہا تھا اللہ کریم ہے اور کریم کسے کہتے ہیں؟ "الذی یعطی بدون الاستحقاق" جو اُسے بھی دیتا ہے جس کا بندہ مستحق نہیں ہوتا اور کریم کرے کہتے ہیں "الذی یعطی فوق التمنی" وہ بندے کو وہ دیتا ہے جس کا بندہ تصور بھی نہیں کر سکتا۔ بندے کے مانگنے سے بڑھ کر بندے کو اللہ دیتا ہے اس اللہ کا نام کریم ہے۔ میں لفظ کریم کے لیے صرف دو تین باتیں عرض کروں گا بات کو سمجھانے کے لیے۔ اللہ رب العزت نے فرمایا "
يَا أَيُّهَا الْإِنْسَانُ مَا غَرَّكَ بِرَبِّكَ الْكَرِيمِ"
اے لوگو کبھی تم نے خیال کیا ہے تمہارا واسطہ تمہارے کریم آقا سےہے؟
اللہ کی کرم نوازی
اللہ کی کرم نوازی آپ ذرا سنیں اللہ کتنا بڑا کریم ہے کتنا بڑا کریم ہے کتنا بڑا کریم ہے بندہ سوچ بھی نہیں سکتا۔
نمبر 1 نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا اگر کوئی بندہ گناہ کا ارادہ کرے اللہ نہیں لکھتے اگر نیکی کا ارادہ کرے تو اللہ لکھ لیتے ہیں۔ عقل کا تقاضا کیا تھا نیکی کا ارادہ کرے تو لکھے گناہ کا ارادہ کرے تو لکھے۔ لکھنا ہے تو دونوں کو لکھے نہیں لکھنا تو دونوں کو نہ لکھے۔ لیکن اللہ کریم ہے اللہ کی نافرمانی کا ارادہ کرو تو اللہ نہیں لکھتے فرمانبرداری کا ارادہ کرو تو لکھ لیتے ہیں ہے ناں اللہ کتنا کریم ہے۔
نمبر 2 اگر کوئی بندہ ایک گناہ کرے اللہ نامہ اعمال میں ایک گناہ لکھتے ہیں اگر بندہ نیکی کرے اللہ نامہ اعمال میں کم از کم دس لکھتے ہیں۔ کیسا کریم آقا ہے! گناہ کرے تو ایک لکھتے ہیں اور نیکی کرے تو اللہ دس لکھتے ہیں۔ اللہ کی شان کریمی دیکھیں۔ پھر اگر کوئی بندہ، ایک گناہ کیا ہے ایک نیکی بھی کی ہے اگر کوئی شخص نیکی کرے اور پھر نیکی کے بعد گناہ کر لے اُ س کے بعد پھر نیکی کرے، نیکی کے بعد گناہ کر لینے سے اللہ اس نیکی کو ختم نہیں کرتے لیکن گناہ کے بعد نیکی کر لی اللہ گناہ کو ختم کر دیتے ہیں۔ کیسا کریم ہے نیکی کے بعد گناہ کر لیں اللہ نیکی ختم نہیں کرتے لیکن اگر گناہ کے بعد نیکی کر لیں اللہ اُس گناہ کو ختم فرما دیتے ہیں۔اچھا پھر صرف ختم نہیں کرتے کیسا کریم ہے فرمایا.
إِلَّا مَنْ تَابَ وَآمَنَ وَعَمِلَ عَمَلًا صَالِحًا فَأُولَئِكَ يُبَدِّلُ اللَّهُ سَيِّئَاتِهِمْ حَسَنَاتٍ
سورۃ الفرقان، 70
بندے نے زنا کیا ہے کتنا بڑا جرم ہے، زنا کیا کتنا بڑا جرم ہے زنا کیا اور بعد میں آ کرکہے اللہ میں نے زنا کیا مجھے معاف کر دے یہ اللہ اُس زنا کی جگہ پر بھی نیکیاں لکھ دیتے ہیں۔ بندہ شراب پیے پھر کہے اللہ آئندہ نہیں پیؤں گا اللہ اُس کی جگہ پر بھی نیکیاں لکھ دیتے ہیں۔ اللہ کا نظام دیکھیں گناہ کے بعد نیکی کریں اللہ گناہ ختم کر دیتے ہیں اور نیکی کے بعد گناہ کریں تو گناہ کے بعد وہ نیکی برقرار رہتی ہے نیکی کو ختم نہیں کرتے۔
اللہ تعالی مالک ہیں
اور دنیا بھر سے خدا کا معاملہ بالکل عجیب ہے " يَا أَيُّهَا الْإِنْسَانُ مَا غَرَّكَ بِرَبِّكَ الْكَرِيمِ" دنیا کا نظام کیا ہے اگر کوئی بندہ جرم کرے اور جرم کرنے کے بعد عدالت میں آئے عدالت اس کے جرم کو معاف کر دے اور ایک بات ذہن نشین فرما لیں عدالت میں اگر بندہ جرم کا انکار کرے اور گواہوں سے جرم ثابت ہو تو عدالت کبھی سزا بھی دیتی ہے کبھی شک کا فائدہ دے کر بری بھی کرتی ہے لیکن کوئی شخص عدالت میں آئے اور اپنے جرم کا اعتراف کر لے، اقراری مجرم کو عدالت معاف کرنے کا حق نہیں رکھتی۔ کوئی بندہ عدالت میں کہے کہ جی میں قتل کیا ہے اور جج کہے کہ میں نے پھر بھی معاف کیا ہے اس بندے کو معاف کرنے کا جج کے پاس کوئی اختیار نہیں، کوئی اختیار نہیں ہے، وہ تو سزا دینے پر مامور ہے۔
لیکن اللہ کریم کیسے ہیں اللہ رب العزت نے بندے کو اپنی شان کریمی سمجھانے کے لیے قرآن کریم کا آغاز کہاں سے کیا ہے۔ ہم روزانہ قرآن پڑھتے ہیں سنتے ہیں لیکن سمجھتے نہیں اللہ ہمیں قرآن پڑھنے کی بھی توفیق دے، اللہ سننے کی بھی توفیق دے، اللہ سمجھنے کی بھی توفیق عطاء فرمائے۔ قرآن کریم کا آغاز کہاں سے کیا
"الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ مَالِكِ يَوْمِ الدِّينِ "
اللہ نے فرمایا دیکھو ایک بات ذہن میں رکھو قیامت کے دن میرے پاس آؤ گے مجھے مالک سمجھنا مجھے جج نہ سمجھنا۔ جج کا کام اور ہوتا ہے مالک کا کام اور ہوتا ہےجج کی عدالت میں کیس اور طرح سنا جاتا ہے اور مالک کی عدالت میں کیس اور طرح سنا جاتا ہے۔ جب جج کی عدالت ہو تو نوعیت الگ ہوتی ہے اور مالک کی عدالت ہو تو پھر نوعیت بالکل الگ ہوتی ہے۔
جج اور مالک میں فرق
جج اور مالک کی عدالت میں کیا فرق ہے؟ میں بات سمجھانے کے لیے کہتا ہوں کہ جج اور مالک کی عدالت میں فرق یہ ہے اگر گواہوں کے ساتھ جج کی عدالت میں جرم ثابت ہو جائے جج معاف نہیں کر سکتا لیکن مالک کی عدالت میں گواہوں کے ساتھ جرم ثابت ہو جائے تو مالک کا جی چاہے قانون کو دیکھ کر سزا دے اور جی چاہے اپنی حکومت کو دیکھ کر معاف کر دے۔جج سزا دینے کا پابند ہے لیکن جرم ثابت ہونے کے بعد مالک سزا دینے کا پابند نہیں ہے۔ مالک کو اختیار ہے کہ دل چاہے تو سزا دے دے اور دل چاہے تو معاف کردے۔میں اس کو ایک مثال دے کر بات سمجھاتا ہوں۔
ایک شخص فیکڑی کا مالک ہے اور ایک شخص فیکڑی کا جی ایم ہے جی ایم کو ملازم کہتے ہیں اور مالک کو مالک کہتے ہیں اب اگر کوئی شخص چوری کرے اورمنشی جی اس چور کو پکڑیں اور پکڑ کر جی ایم کے پاس لے جائیں اور وہاں جا کر بتائیں یہ چوری کی، یہ چوری کی ہماری ایک سال سے فیکڑی میں چوریاں ہو رہی تھیں لیکن چور نہیں پکڑا جا رہا تھا سر میں چور پکڑ کر لے آیا ہوں اس کے خلاف یہ ثبوت ہے۔ اب سارے ثبوت سننے کے بعد اگر جی ایم اس کو بری کرنا چاہے تو منشی وہاں شور مچادے گا۔ سال بھر چوری ہوتی ہے مشکل سے میں نے ایک چور پکڑا اور جی ایم صاحب آپ نے چھوڑ دیا آپ کو کیا حق حاصل تھا چھوڑنے کا؟ اس کا مطلب آپ پر کچھ پیسہ لگا ہے ،کوئی کچھ ہوا ہے، کوئی دھمکی آئی ہے۔
لیکن اگر یہی منشی پکڑے چور کو اور مالک کی عدالت میں لے جائے اور کہے کہ اس چور نے سو چوریاں کی ہیں مالک تحمل سے چوریاں سنتا رہے اور سننے کے بعد کہہ دے جاؤ اس کو میں نے معاف کر دیا اب منشی یہاں نہیں بول سکتا اب اگر بولے گا تو مالک نے کہنا ہے کہ تو فیکڑی کا باپ لگتا ہے؟ میری اپنی فیکڑی ہے میرا دل کرے سزا دوں، میرا دل کرے بری کر دوں لیکن جی ایم صاحب یہ نہیں کہہ سکتے میرا دل کرے سزا دے دوں میرا دل کرے بری کر دوں۔ کیوں؟ جی ایم کی حیثیت جج کی ہے اور اس کی حیثیت مالک کی ہے جج قانون کا پابند ہوتا ہے مالک قانون کا پابند نہیں ہوتا۔
فرمایا "
يَا أَيُّهَا الْإِنْسَانُ مَا غَرَّكَ بِرَبِّكَ الْكَرِيمِ"
لوگو تم غور تو کرو میں تمہارا مالک کریم ہوں اور تم نے میرے دربار پہ آنا ہے۔ میں اللہ کی شان کریمی بتا رہا تھا۔ اب اس سے اگلی بات سنیں۔ اگر کسی شخص نے جرم کیا اور پھر توبہ کی اللہ اس جرم کو معاف کر کے اُس کی جگہ پر بھی نیکیاں لکھ دیتے ہیں۔اللہ کی شان کریمی اس سے اگلی دیکھیں بندہ کبھی سوچ بھی نہیں سکتا اللہ نے پھر مزید نیکیوں کے اضافہ کے لیے بندوں کے لیے سیزن رکھ دیا ہے تاکہ بندوں کے لیے اور آسانیاں پیدا ہو جائیں۔ اگر وہی نیکی بندہ رمضان کے علاوہ کرے اُس پر دس نیکیاں ملتی ہیں اور اگر وہی نیک عمل رمضان میں کرے اللہ اُس کو ستر گنا بڑھا دیتے ہیں۔ اللہ بندے کے اعمال کو ستر گنا بڑھا دیتے ہیں شان کریمی دیکھیں۔
ایصال ثواب، شان کریمی کی دلیل ہے
اس سے اگلا کرم دیکھیں جس پر بندے کو تعجب ہوتا ہے میں سمجھانے کے لیے دو لفظ استعمال کرتا ہوں ایک کا نام ہے ثواب اور ایک کا نام ہے ایصال ثواب۔ ثواب اور ایصال ثواب کا معنی کیا ہے ثواب کا مطلب یہ ہے کہ بندہ نیکی کرے اجر خود لے اس کا نام ثواب ہے اور بندہ عمل کرے اور اجر کسی اور کو دے اس کا نام ایصال ثواب ہے ہم اہل السنت و الجماعت ثواب کو بھی مانتے ہیں اور ایصال ثواب کو بھی مانتے ہیں اور یہ ایصال ثواب اللہ کے کرم کی دلیل ہے، اللہ کی شان کریمی پر دلیل ہے۔ خدا کی شان کریمی پر کیسے دلیل ہے؟ ذرا اس کو سماعت فرمائیں۔
اس اُمت کی عمر بہت تھوڑی ہے پہلی اُمتوں کی عمریں بہت زیادہ ہیں دو سو سال، چار سو سال، پانچ سو سال، چھ سو سال، ہزار سال اور اس اُمت کی عمر کتنی ہے اوسط عمر 60 سال۔ اوسط عمر اس اُمت کی 60 سال ہے لیکن عجیب بات یہ ہے عمر ان کی کم ہے درجات جنت میں ان کے زیادہ ہوں گے، عمر ان کی تھوڑی ہے جنت میں پہلے یہ جائیں گے، عمر ان کی کم ہے اکرام ان کا زیادہ ہو گا۔ بندہ سوچتا ہے جب عمر تھوڑی ہے اعمال تھوڑے ہیں تو پھر اس بندے کو زیادہ اعمال کیسے ملیں گے؟ اجر زیادہ کیسے ملے گا؟ اس کے جنت میں مقامات بلند کیسے ہوں گے؟ اللہ نے لفظ کریم کہہ کر ہمیں سمجھایا ہے اس بات کو۔ ذرا اب سمجھیں۔
اگر ایک شخص کی زندگی اللہ قیامت تک کی دے دیں قیامت تک یہ بندہ زندہ رہے اب قیامت تک نیکیاں بھی کرے گا اور قیامت تک گناہ بھی کرے گا قیامت کے دن نامہ اعمال میں گناہ بھی ہوں گے قیامت کے دن نامہ اعمال میں نیکیاں بھی ہوں گی دونوں چیزیں موجود ہیں اب اس کے نامہ اعمال میں گناہ اور نیکیاں دیکھو اور قرآن نے اصول کیا بیان فرمایا
"فَأَمَّا مَنْ ثَقُلَتْ مَوَازِينُهُ فَهُوَ فِي عِيشَةٍ رَاضِيَةٍ وَأَمَّا مَنْ خَفَّتْ مَوَازِينُهُ فَأُمُّهُ هَاوِيَةٌ"
اگر نیکیاں زیادہ تو بندہ جنت میں جائے گا اگر نیکیاں کم تو بندہ جہنم میں جائے گا اگر قیامت تک اللہ زندگی دے دیتے بندہ گناہ بھی کرتا نیک اعمال بھی کرتا تو ہم جیسے نالائقوں کے گناہ بڑھ جاتے اور نیکیاں کم ہوتیں تو شاید جنت میں جانے کا کوئی راستہ نظر نہ آتا۔ اللہ تعالی کی شان کریمی نے یہ کرم فرمایا ہماری عمر تھوڑی رکھی ہے اور اعمال کا سلسلہ جاری فرمادیا۔
عمر رکھی ہے 50 سال بندہ 50 سال تک گناہ کرے گا تو قیامت کے دن اللہ کی عدالت میں آئے گا اس کے نامہ اعمال میں 50 سال کے گناہ ہوں گے لیکن جب قیامت کے دن خدا کی عدالت میں آئے گا تو نامہ اعمال میں گناہ تو 50 سال کے ہوں گے نیکیاں پچاس سال کی نہیں ہوں گی۔ کیوں؟ اگر والد دنیا سے چلا جائے اور کوئی بیٹا گناہ کرے اور کہے یا اللہ یہ جو میں نے گناہ کیا ہے اس کا عذاب میرے باپ کو دینا تو بیٹے کے برے عمل کا اللہ باپ کو عذاب نہیں دیتے۔ کوئی باپ کے جانے کے بعد کہے کہ اللہ یہ جو میں نے چوری کی ہے اس کا گناہ میرے باپ کو دے دے اللہ جو میں نے شراب پی ہے اس کا گناہ میری ماں کو دے دے اے اللہ جو میں نے سود کھایا ہے اس کا عذاب میرے والد کو دے دے یہ نہیں ہو گا۔
لیکن اگر بندہ یہ کہہ دے اللہ جو میں نے رات کو دو نفل پڑھے ہیں اس کا ثواب میرے باپ کو دینا اللہ دے دیں گے اے اللہ جو میں نے قرآن کی تلاوت کی ہے اجر میری والدہ کو دینا اللہ اس کو دے دیں گے میں یوں سمجھاتا ہوں اگر بندہ گناہ کر کے اُس کا عذاب میت کو دینا چاہے تو نہیں ہوتا لیکن اگر نیکی کر کے اُس کا ثواب پہنچانا چاہے تومیت کو مل جاتا ہے دو لفظوں میں یوں سمجھیں ایصال ثواب تو ہوتا ہے لیکن ایصال عذاب نہیں ہوتا۔ خدا کی شان کریمی کتنی ہے بندہ گناہ کر کے والدین کے نامہ اعمال میں ڈالے اللہ نہیں ڈالتے اور نیک عمل کر کے والدین کے نامہ اعمال میں ڈالے اللہ نامہ اعمال میں پہنچا دیتے ہیں۔ نتیجہ یہ نکلے گا کہ بندہ فوت ہوا قیامت کے دن اُٹھے گا تو نامہ اعمال میں گناہ تو 50 سال کے ہوں گے اور نیکیاں قیامت تک کی ہوں گیں۔ گناہ 50 سال کے ہوں گے اور نیکیاں قیامت تک کی ہوں گی۔اب بتاو کتنی بڑی شان کریمی ہے۔
آپ نے ایک بچہ حافظ بنا دیا آپ دنیا سے چلے گئے وہ پڑھے گا اگلا پڑھے گا چلتے چلے جائیں گے تو آدمی کو عذاب تو گناہوں کا ملے گا لیکن اپنے اعمال کا ثواب بھی ملے گا اور کوئی بندہ پڑھ کر بھیجے تو اس کا ایصال ثواب بھی ملے گا۔ یہ خدا کی شان کریمی پر دلیل ہےکہ بندے کے عمل کا اجر اللہ بھی دیتے ہیں اور کوئی اچھا عمل کر کے بخشے تو اللہ ایصال ثواب بھی عطاء فرماتے ہیں۔ فرماتے ہیں
"يَا أَيُّهَا الْإِنْسَانُ مَا غَرَّكَ بِرَبِّكَ الْكَرِيم"
او انسان! تو کتنا نالائق ہے اس کریم خدا کوبھی تو نہیں سمجھتا، تو نے گناہ کا ارادہ کیا ہم نہیں لکھتے نیکی کا ارادہ کرے تو لکھ لیتے ہیں۔ گناہ ایک کرے ہم ایک لکھتے ہیں نیکی ایک کرے ہم دس لکھتے ہیں۔ گناہ کرکے کسی کو دے ہم نہیں دیتے نیکی کر کے نامہ اعمال کو پہنچائے ہم پہنچا دیتے ہیں۔
اب بندہ قیامت کے دن اللہ کی عدالت میں آئے گا تو گناہ تو بہت کم ہوں گے اور بندے کے نامہ اعمال میں آپ اندازہ فرمائیں کتنے زیادہ کتنے زیادہ ہوں گے بندہ تصور بھی نہیں کر سکتا، یہ سارے اعمال قیامت کے دن موجود ہوں گے لیکن بعض بد قسمت ایسے ہوں گے اس کے باوجود بھی ان کی نجات مشکل نظر آئے گی کیوں کہ گناہ کے مقابلے میں نیکیاں کم ہیں نہ اس نے نیکیاں کی ہیں نہ کسی نے اس کو نیکیاں بخشی ہیں نہ نیک اعمال چھوڑ کر گیا ہے کہ مرنے کے بعد لوگ ایصال ثواب کرتے بعض ایسے بد قسمت بھی موجود ہوں گے۔
حافظ، شہید اور عالم کی سفارش
نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ کتنا کریم ہے اللہ اس کے لیے ایک اور دروازہ کھولتے ہیں وہ دروازہ کون سا ہے اگر کسی بندے کا خاندان میں قرآن کا حافظ موجود تھااللہ فرمائیں گے دس کو تو جنت میں لے جا۔ اگر خاندان میں کوئی حافظ نہیں تھا ممکن ہے خاندان میں کوئی شہید ہو کوئی بے گناہ اللہ کے راستے میں مارا گیا ہو اللہ فرمائیں گے70 کو تو لے جا۔ اگر شہید بھی نہیں تھا تو کسی عالم سے عقیدت تو ہو گی ناں! معارف میں حدیث موجود ہے اللہ کے نبی نے فرمایا جس عالم سے عقیدت ہو گی وہ عالم جنت میں جائے گا اللہ فرمائیں گے اس کو تو جنت میں لے جا عقیدت مندوں کو لے کر جائے گا۔
بعض اب بھی نکمے ہوں گے۔ خاندان میں حافظ بھی نہیں ہے خاندان میں شہید بھی نہیں ہے کسی عالم سے عقیدت بھی نہیں ہے اس کا کیا بنے گا؟ امی عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا فرماتی ہیں اگر دو نابالغ بچے فوت ہوئے اللہ رب العزت نے فرمایا میرے پیغمبر ان کو بتاؤ وہ دو نابالغ اولادیں اپنے والدین کو لے کر جنت میں جائیں گی۔ امی عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا نے پوچھا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اگر کسی کا ایک نا بالغ بچہ ہودو نہیں فوت ہو ئے پھر کیا بنے گا؟ اللہ کے پیغمبر نے فرمایا عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا اگر ایک نا بالغ بچہ فوت ہو گیا تو یہ ایک بھی والدین کو جنت میں لے کر جائے گا امی عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا نے پوچھا یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم "فَمَنْ لَمْ يَكُنْ لَهُ فَرَطٌ مِنْ أُمَّتِكَ" جس کے نامہ اعمال میں کوئی نابالغ بچہ بھی نہ ہو حضور اُس کا کیا بنے گا اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا عائشہ! سنو " فَأَنَا فَرَطُ أُمَّتِي" جس کا قیامت کے دن کوئی بھی نہیں ہو گا اُس کی سفارش میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم خود کروں گا میں لے کر جاؤں گا تمہیں۔
ایمان بہت بڑی نعمت ہے
"يَا أَيُّهَا الْإِنْسَانُ مَا غَرَّكَ بِرَبِّكَ الْكَرِيم"
اللہ فرماتے ہیں اس کریم مالک کے بارے میں تم دھوکے میں ہو، اس کریم مالک کے بارے میں تم دھوکے میں ہو۔ اللہ کے لیے لوگ ایمان پر آئیں تو انہیں ایمان پر آنے دو اور میں ایک جملہ کہتا ہوں یہ کبھی جملے نہ کہا کرو خدا کی قسم ایمان والا ہو اُس کے چہرے پر ڈاڑھی نہ ہو وہ تب بھی ایمان والا ہے میں نہیں کہتا ڈاڑھی نہ رکھے ڈاڑھی تو رکھنی چاہیے، نماز نہ پڑھتا ہو وہ تب بھی ایمان والا ہے۔ اللہ نہ کرے وہ سود کھا تا ہو وہ تب بھی ایمان والا ہے سود کی لعنت سے بچنا چاہیے، بے نماز کی لعنت سے بچنا چاہیے یہ سارے نیک اعمال کرنے چاہیں لیکن کروڑوں نامہ اعمال میں گناہ موجود ہوں اور اس نے پیغمبر کا کلمہ پڑھا ہو اس بندے کو حقیر کبھی نہ سمجھنا۔
کسی مومن کو حقیر نہ سمجھیں
حضرت حکیم الامت تھانوی فرماتے ہیں اس کی حیثیت تو شہزادے کی ہے اگر کوئی شہزادہ ہو اور وہ بادشاہ کے تخت سے اُترے اور گٹر میں گر جائے کوئی بھنگی آ کر اُس کو پکڑے اور اُس گٹر میں گرے ہوئے شہزادے کو مارے کہ تیرے چہرے پر گند ہے بادشاہ کیا کہتا ہے تیری کیا اوقات ہے تو نے ہمارے شہزادے کےمنہ پر مارا تیری کیا حثیت؟ ایک بھنگی ہو کر شہزادے کو مارتا ہے؟ بھنگی ہو کر تو شہزادے کو برا کہتا ہے ؟ حضرت حکیم الامت تھانوی فرماتے ہیں یہ کیوں؟ کیونکہ وہ شہزادہ ہے اگرچہ وہ گٹر کے گند میں لتھڑا ہوا تھا لیکن بادشاہ نہیں برداشت کرتا کہ کوئی میرے بیٹے کے منہ پر مارے اس کی وجہ کہ شہزادہ غسل کرے گا باپ کے پاس آ کر پھر تخت کے اوپر بیٹھا ہو گا۔ مومن جتنا بھی گندہ ہو گا یہ مومن ایمان والا ہے ایک بار دل سے کہہ دے اللہ میں نے توبہ کی آئندہ نہیں کرو ں گا جس طرح بادشاہ بیٹے کو تخت پر جگہ دیتا ہے اللہ اس ایمان والے کو اپنے عرش کے نیچے جگہ دیتا ہےبتاؤ اتنا قیمتی ایمان والا؛ کوئی بندہ سوچ سکتا ہےکتنی قیمت ہے ایمان کی؟
میں اس لیے گزارش کرتا ہوں ہمیں اہل ایمان کو چاہیے دنیا بھر کے کفر کے سامنے یہ بات پھیلائیں بھئی حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی غلامی قبول کر لو، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا کلمہ پڑھ لو، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دامن سے وابستہ ہو جاؤ۔ میں کبھی تمہیں نہیں کہتا میں کبھی گناہ پر جری نہیں کرتا کہ گناہ کرو، گناہ سے بچنا چاہیے کبھی بندہ اتنے گناہ کرتا ہے اُن گناہوں کی نحوست کی وجہ سے بندہ کا ایمان ختم ہو جاتا ہے لیکن اگر بندہ کا ایمان موجود ہو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی غلامی مل جائے اللہ کے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کا کلمہ ملے۔
حدیث مبارک میں آتا ہے قرآن کی آیت کی تفسیر میں نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جہنم میں اہل کفر ہوں گے اور جہنم میں گناہوں کی وجہ سے بعض اہل ایمان بھی جائیں گے اہل کفر طعنہ دیں گے تم حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا کلمہ پڑھتے تھے تم " لا الہ الاللہ محمد رسول اللہ" کہتے تھے، میں آخری دور میں کہتا ہوں کافر کہے گا تم عید کے دن مسجدوں میں جا کر نمازیں پڑھتے تھے کتنے وہ لوگ مسلمان موجود ہیں جو فرض نماز بھی نہیں پڑھتے، جمعہ بھی نہیں پڑھتے عید کے دن آتے ہیں۔میں کہتا ہوں عید کے دن بھی آیا تو ہے ناں۔ اُس آنے والے کو تم کیوں ڈانٹتے ہو؟تمہیں شرم نہیں آتی۔ ارے بھئی صبح کا بھولا شام کو آ جائے چلو آ تو گیا ہے نا؟۔ دس سال بعد باپ کا بیٹا آئے تو باپ خوش ہوتا ہے۔ کہتا میرا بیٹا تھا مجرم تھا، نافرمانیاں کرتا رہا چلو بڑھاپے میں آ گیا ہے میرے پاس آیا تو ہے ناں! تو نے میری آنکھ کو ٹھنڈا کر دیا ہے۔
حدیث میں آتا ہے جب بندہ گناہ کرتا ہے توفرشتے اللہ کو کہتے ہیں اللہ ہم نہیں کہتے تھے اس بندے کو پیدا نہ کرنا یہ تیری نافرمانی کرے گا۔ لیکن حدیث میں آتا ہے کہ جب وہی بندہ توبہ کرتا ہے اللہ فرماتے ہیں میں نہیں کہتا تھا جو میں جانتا ہوں وہ تم نہیں جانتے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب یہ اہل کفر کے ساتھ بعض مومنین بد اعمال جہنم میں ہوں گے تو کافر طعنہ دیں گے تم کلمہ پڑھتے تھے تم مسلمان تھے آج تم بھی جہنم میں پڑے ہو۔ اللہ کی غیرت کو جوش آئے گااللہ فرمائیں گے ہر وہ بندہ جس کے قلب میں رتی برابر ایمان موجودہے اُ س کو جہنم سے نکال کر جنت میں لے جاؤ قرآن کہتا ہے
" رُبَمَا يَوَدُّ الَّذِينَ كَفَرُوا لَوْ كَانُوا مُسْلِمِينَ"
سورۃ الحجر، 2
اُس وقت پھر کافر تمنا کرے گا اے کاش میں نام کا مسلمان ہوتا، اے کاش میں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا کلمہ پڑھا ہوتا اے کاش میں نے نام کا کلمہ پڑھا ہوتا۔
توبہ میں کبھی دیر نہیں ہوتی
میرے دوستو بزرگو اللہ ہمیں بات سمجھنے کی توفیق عطاء فرمائے میں نے مختصر وقت میں گزارش کی ہے "يَا أَيُّهَا الْإِنْسَانُ مَا غَرَّكَ بِرَبِّكَ الْكَرِيم" اللہ ہمارے کریم، کریم کے در پر آتے ہوئے بندے کو کبھی بھی حجاب سے کام نہیں لینا چاہیے، کبھی بھی شرم سے کام نہیں لینا چاہیے۔ رمضان مبارک کا مہینہ ہے جمعہ کا دن ہے خدا کے در پہ آپ آئیں اور گڑ گڑا، گڑ گڑا کر مانگیں، رو رو کر خدا سے مانگیں۔
ایک کریم حضرت یوسف علیہ السلام تھے، ایک کریم ہمارے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم تھے ایک کریم خود اللہ کی ذات ہے۔ اور اللہ سے کہو اے اللہ تیرے یوسف علیہ السلام کتنے کریم تھے اُن کے بھائیوں نے اُن کو کنویں میں ڈالا، اُن کو فروخت کر دیا کتنا ظلم کیا ہے لیکن جب بھائی اُس بادشاہ کریم کے سامنے گئے ہیں تو کہا:
لَا تَثْرِيبَ عَلَيْكُمُ الْيَوْمَ
سورۃ یوسف، 92
جاؤ میں نے تمہیں معاف کر دیا، نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کتنے کریم تھے خاندان نے مکہ سے نکالا، گھر سے نکالا ،بدر میں خاندان کے لوگ پہنچے ہیں اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی جان لینے کے لیے اور جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم دس ہزار کا قافلہ لے کر فاتح بن کر مکہ میں داخل ہوئے ہیں حضور صلی اللہ علیہ وسلم چاہتے آج انتقام لے سکتے تھے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم چاہتے خاندان سے بدلے لے سکتے تھے حضور صلی اللہ علیہ وسلم چاہتے آج ان کی گردنوں کو اُڑایا جا سکتا تھا۔
لیکن اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا او مکہ والو! جس طرح میرے بھائی یوسف علیہ السلام نے کہا تھا " لَا تَثْرِيبَ عَلَيْكُمُ الْيَوْمَ" آج میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم بھی کہتا ہوں " لَا تَثْرِيبَ عَلَيْكُمُ الْيَوْمَ" یوسف علیہ السلام نے اپنے بھائیوں کو معاف کر دیا میں تمہیں معاف کرتا ہوں ہم بھی اللہ سے کہیں اللہ تو بڑا کریم ہے، اللہ تو تو بڑا کریم ہے یوسف علیہ السلام نے بھائیوں کو معاف کر دیا حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے خاندان کو معاف کر دیا یا اللہ تو ہم نالائقوں کو معاف کر دے آج تو بھی اعلان کر دے " لَا تَثْرِيبَ عَلَيْكُمُ الْيَوْمَ" او تم مسجد میں آئے ہو جمعہ کے دن آئے ہو رمضان مبارک میں آئے ہو، یوں کہو کہ اے اللہ تو اعلان کر دے کون ہے تجھے پوچھنے والا۔ اللہ کے دربار میں آئیں خدا سے مانگنے میں دیر ہوتی ہے اللہ کی قسم خدا کے عطاکرنے میں ذرا بھی دیر نہیں ہوتی۔
لسانی جھگڑوں کا زہر
ابھی ہمارے سامنے جو کراچی کے حالات بلکہ ساری دنیا کے حالات ہیں اللہ کفر کی سازشوں سے مجھے اور آپ کو محفوظ رکھے۔ آپ یقین فرمائیں یہ پاکستان اور یہ کراچی آپ اندازہ نہیں فرما سکتے پوری دنیا کے کافر کی کس قدر نگاہیں مسلمانوں کےملک پر ہیں۔کافر نہیں چاہتا اس ملک میں امن ہو، کفار نہیں چاہتے مسلمان آپس میں مل کر بیٹھیں۔
کبھی قومیت کے نام پر لڑائی ہے، کبھی زبان کے نام پر لڑائی ہے، کبھی کسی کے نام پر لڑائی ہے اللہ مجھے اور آپ کو قومیت کی لڑائیوں سے محفوظ رکھے، اللہ ہمیں زبان کی لڑائیوں سے محفوظ رکھے بابا یہ کیا لڑائی ہے؟ یہ پٹھان ہے، یہ مہاجر ہے، یہ پنجابی ہے،یہ کون سی لعنت والی لڑائیاں ہیں؟ ہم سب مسلمان ہیں نبی کریم کے کلمہ گو بھائی ہیں۔ ہم سب کے ذمہ ہے ایک بھائی دوسرے بھائی سے پیار کرے اور دوسرے کے خون کی قیمت کا احساس کرے۔
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حرم میں کھڑے ہو کر فرمایا اے لوگو!حجۃ الوداع کے موقع پر لوگ کھڑے ہیں فرمایا :
فَإِنَّ دِمَاءَكُمْ وَأَمْوَالَكُمْ وَأَعْرَاضَكُمْ بَيْنَكُمْ حَرَامٌ كَحُرْمَةِ يَوْمِكُمْ هَذَا فِي شَهْرِكُمْ هَذَا فِي بَلَدِكُمْ هَذَا
صحیح البخاری، رقم الحدیث 67
لوگو تم خیال کر لو مسلمان پر مسلمان کا خون اتنا قیمتی ہے جس طرح آج کا دن اس مہینے میں یہ شہر کتنا قیمت والا ہے۔ کعبہ سے بھی زیادہ مسلمان کا خون قیمتی ہے۔ اللہ مجھے اور آپ کو مسلمان کے خون کی قیمت کا احساس دلائے۔ اللہ مجھے اور آپ کو عبادات کر کے اور گناہوں سے بچ کے اپنے اللہ کو راضی کرنے کی توفیق عطاء فرمائے۔
آمین یا رب العلمین
وآخردعوانا ان الحمداللہ رب العالمین