شیطان بصورت انسان

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
شیطان بصورت انسان
خانقاہ اشرفیہ اختریہ، سرگودھا
تمہید
نحمدہ ونصلی علی رسولہ الکریم اما بعد
اعوذ باللہ من الشیطن الرجیم بسم الله الرحمن الرحيم Īقُلْ أَعُوْذُ بِرَبِّ النَّاسِ (1) مَلِكِ النَّاسِ (2) إِلٰهِ النَّاسِ (3) مِنْ شَرِّ الْوَسْوَاسِ الْخَنَّاسِ (4) الَّذِي يُوَسْوِسُ فِي صُدُورِ النَّاسِ (5) مِنَ الْجِنَّةِ وَالنَّاسِ (6)Ĩ
ہما رے تخصص فی التحقیق والدعوۃ کی خصوصیات میں سے ایک خصو صیت یہ بھی ہے کہ ہم متخصصین کو قر آن کریم کا تر جمہ ، تفسیر اور بعض چیزوں کا خلاصہ پیش کرتے ہیں۔تفسیر میں ہم تر جیح اس بات کو دیتے ہیں کہ اپنے عقائد اور مسائل پر دلائل پیش کر یں اور جن آیات سے اہلِ باطل نے استدلال کیا ہے، ان کے استدلالات کے جوابا ت دیں۔
تفسیر پڑھا نے کا مقصد
ایک صا حب مجھے فر ما نے لگے کہ جو علماء آپ کے پاس تخصص کے لیے آتے ہیں وہ تو تفسیر پڑھ کر آ تے ہیں۔ پھر تفسیر پڑھانے کا مقصد؟ میں نے کہا کہ یہ پہلے ایک پارہ پڑھتے ہیں ( درجہ ثا نیہ میں ) پھر دس پا رے مکمل کرتے ہیں (درجہ ثا لثہ میں) پھر دس پارے (رابعہ میں ) پھر دس پارے (خا مسہ میں) جب قر آن مکمل ہو تا ہے تو پھر مدارس میں جلالین پڑھاتے ہیں(سادسہ میں ) اس کے بعد تفسیر کا باب بند ہو جا تا ہے اور جب فراغت کے بعد میدا ن میں آتے ہیں تو ان کے پاس یہ تمام علوم تو محفو ظ ہو تے ہیں پڑھا نے کا سلیقہ نہیں ہو تا۔
تو ہم کو شش کرتے ہیں کہ ایسے انداز میں تفسیر پڑھا ئیں کہ جب یہ فارغ ہو نے کے بعد اپنے علاقہ کی مسجد میں جا ئیں تو ان کو قر آن کر یم کا درس دینے کا طریقہ اچھی طرح آ جائے۔ اس لئے ہم کو شش کرتے ہیں کہ الحمد سے والناس تک ان کو تفسیر پڑھا ئیں تا کہ ان کو درس قر آ ن دینے کا طریقہ آ جا ئے۔
عوام میں درس قر آن دینے کا طریقہ
عوام میں درس قر آن دینے کا سب سے بہترین طریقہ یہ ہے کہ اس با ت کا اہتمام کریں کہ جس مسجد میں درسِ قر آن دیں ، قر آن کریم کا جو مطبع اور چھا پہ آپ کے پاس ہو اسی چھا پہ کا قر آن کریم آپ کے سا معین کے پاس ہو۔ سولہ لائن کا، سترہ لائن کا، اٹھا رہ کا، جس کمپنی کا بھی ہو۔ اور جب آپ قر آن کریم کھول کر بیٹھیں تو ان کو یہ نہ بتا ئیں پارہ نمبر فلاں آیت نمبرفلاں، انہیں کہیں: جی! آپ صفحہ نمبر فلا ں نکالیں فلاں صفحہ کی تیسری سطر نکا لیں۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ درسِ قر آن میں بعض سامعین معمول کے ہو تے ہیں اور بعض مرتبہ اچا نک کو ئی مہمان آتے ہیں اور درس قرآن میں بیٹھ جاتے ہیں۔ اگر آپ بتا ئیں گے نہیں اور قر آن کریم کھول کر درس شروع کر دیں گے تو نیا آنے والابندہ الجھن کا شکا ر ہو جا ئے گا کہ پتانہیں کہاں سے کھولا ہے ؟اور یہ طرز میں نے کہاں سے لیا ہے ؟ امام اہل السنت شیخ الحدیث والتفسیر حضر ت مولانا محمد سرفراز خا ن صا حب صفدرنور اللہ مرقدہ سے اور یہ میں نے اس وقت سیکھا ہے جب میں درجہ حفظ میں گکھڑ میں زیر تعلیم تھا۔ حالانکہ اس عمر میں بندے کو سمجھ بوجھ بھی نہیں ہو تی کہ درس قر آن کیسے ہو تا ہے۔
ذلک فضل اللہ یوتیہ من یشاء
بچوں کو بھی درس قرآن میں بٹھائیں
ابھی ہما را سند ھ کا دورہ تھا۔ ایک مدرسے میں گئے تو مہتمم صا حب فرمانے لگے: حفظ کے بچوں کو آپ کے درس میں بٹھا دیں؟ میں نے کہا :ضرور بٹھائیں۔ مجھے فرمانے لگے :ان کو بیان سمجھ نہیں آئے گا۔ میں نے کہا :نہ آئے۔ فرما نے لگے: پھر بٹھا نے کا فائدہ ؟ میں نے کہا :ان کا ذوق بنے گا غیر مقلدین کے خلا ف خصوصاً اور عا م اہل باطل کے خلا ف عموما ً، جب با تیں سنیں گے تو ان کا ذہن بنے گا کہ فلاں ٹھیک ہے اور فلا ں غلط۔
دوسری بات یہ ہے کہ انہو ں نے ہمیں زمانہ طالب علمی میں دیکھا ہے ،جب یہ بڑے اور بوڑھے بھی ہو جا ئیں گے تو ان کے ذہن میں ہما را نام ہو گا کہ فلا ں مولانا صاحب ہما رے مدرسے میں آئے تھے اور ہم نے سبق سنا تھااور جب کو ئی بندہ ہما رے نظریے کی تردید کرے گا تویہ طلبہ اس کی تردیددلائل سے نہ بھی کرسکے تو عقیدت میں تردید ضرور کریں گے کہ نہیں یہ بات غلط ہے ، ہم نے فلا ں حضرت صا حب سے سنا تھا، وہ غلط با ت تو نہیں کہہ سکتے۔ اس لئے فا ئدہ بہت ہو تا ہے۔
امام اہل السنۃ رحمہ اللہ کےدرسِ قرآن کا طرز
تو حفظ میں جب میں گکھڑ منڈی حضرت مولانا محمد سرفراز خا ن صا حب صفدر رحمہ ا للہ کی خدمت میں گیا، وہاں روزانہ صبح درس ہوتا تھا؛چار دن درس قر آن اور دودن درس حدیث اور شیخ رحمہ اللہ فرما تے :صفحہ نمبر فلاں، سطرنمبر فلاں، کھولیں اس کے بعد شیخ کا طرز کیاتھا؟
1: پہلے قر آن کر یم کے جتنے حصہ کا درس دینا ہے اس کی تلا وت فرماتے۔
2: اس کے بعد اس کا مکمل تر جمہ فر ما تے۔
3: پھر تیسرے نمبر پر اس کی تشریح شروع کرتے۔
آپ بھی اس طرز پر درس قر آن دیں گے تو بہت مقبو ل ہو گا۔ ان شاء اللہ العزیز
سورت الناس
سورت الناس کی چھ آیات ہیں۔ میں اس با رے میں مختصراً عرض کرنا چاہتا ہوں۔
پہلی بات تو یہ سمجھیں کہ قرآن پا ک کا آغاز اللہ رب العزت نے جس صفت سے فرما یا ہے وہ صفت ”رب “ ہے۔
Īاَلْحَمْدُ لِلّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَĨ
فاتحہ:1
”اللہ “ذا ت ہے اور”رب “اللہ کی صفت ہے۔ قر آن پاک کے درمیان میں جس صفت کاذکر کیا گیاہے
Īإِنَّ الَّذِينَ قَالُوا رَبُّنَا اللّهُ ثُمَّ اسْتَقَامُوْاĨ
حم السجدہ30:
میں وہ بھی صفت”رب “ ہے اور قر آن پاک کا جس پر اختتام ہوا وہ بھی صفت ”رب“ ہے یعنی
Ī قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ Ĩ
الناس:1
تو آغا ز بھی”رب “، درمیان بھی ”رب “اور اختتا م بھی”رب “۔
دوسری بات یہ سمجھیں کہ انسان جب عا لم ارواح میں تھا اللہ رب العزت نے کیا یہ سوال کیا کہ
”الست بالھکم “؟
(سامعین:نہیں)
بلکہ فرما یاĪأَلَسْتُ بِرَبِّكُمْĨ
الاعراف:172
جب دنیا میں آئے تو؛
Īإِنَّ الَّذِينَ قَالُوا رَبُّنَا اللّهُ ثُمَّ اسْتَقَامُوْاĨ
حم السجدۃ
اور جب قبر میں جا ئیں گے تو فرشتہ یوں پوچھے گا : من ربک؟عالم ارواح میں”رب “، عا لم دنیا میں”رب “اور عالم برزخ میں ”رب “۔ قر آن کے آغاز میں”رب “،درمیا ن میں”رب “، اختتام میں ”رب “۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ لفظ”رب “ اللہ کی ایسی اہم صفت ہےجس میں ساری صفا ت آجا تی ہیں۔
لفظ ”رب “تمام صفات با ری تعالیٰ کو جا مع ہے
”رب “ کا معنی ہے وہ ذات جو تدریجاً تر بیت کرے اور کمال تک پہنچا ئے۔ کسی کو ابتدا ء سے لیکر انتہاء تک لیجا ئے، اس کا نام”رب “ ہے۔ جب اِس کی تر بیت شروع کی تو یہ کچھ بھی نہ تھا اور جب کمال تک پہنچایا تو یہ بہت کچھ بنا۔ ایسی تر بیت کو ن کر سکتا ہے ؟
1: وہ ذات جس کو اپنے مربّٰی (جس کی تر بیت کرتا ہے) سے محبت بھی ہو۔ اگر محبت نہ ہو تو صحیح تر بیت نہیں کرسکتا۔ اسی وجہ سے تربیت اولاد کی ماں کے ذمہ بھی ہے اور باپ کے ذمہ بھی، لیکن بچے کی ابتدائی تر بیت جس میں بچہ نے دودھ پینا ہے ، دانت نکلتےہیں، اس نے پیشاب کرنا ہے ،پاخا نہ کرناہے اس وقت کی تر بیت ماں کےذمہ ہے۔اس لئے کہ جو محبت ماں کو ہےبا پ کو نہیں۔ اس سے اللہ کی صفت ”ودود“ نکلتی ہے اور یہ ذہن میں رکھنا کہ ”ودود“ مؤدت سے ہے۔ مؤدت میں وہ محبت ہے جس میں شفقت ہو اور مفادات نہ ہو ں۔ آپ کہیں گے کہ میں نے یہ کہاں سے لیا؟ یہ قر آن کریم میں لکھا ہے
وَمِنْ آيَاتِهِ أَنْ خَلَقَ لَكُمْ مِنْ أَنْفُسِكُمْ أَزْوَاجًا لِتَسْكُنُوا إِلَيْهَا وَجَعَلَ بَيْنَكُمْ مَوَدَّةً وَرَحْمَةً
رو م :21
اللہ فر ما تے ہیں کہ ہم نے تم دونوں کے درمیان محبت رکھی ہے اور اس کےلیے لفظ”مَوَدَّةً“ فرما یا۔
2: جس کی تر بیت کررہا ہے اس کے سارے حالات جا نتا ہو۔ اس سے اس (مربّٰی)کا کو ئی حال پوشیدہ نہ ہو۔ اس سے اللہ کی صفت ”علم“آئی۔ اللہ عا لم الغیب ہے۔
3: صحیح تر بیت وہ کرسکتا ہے کہ اگر جس کی تربیت کررہا ہے اس کی تر بیت کے مطابق نہ چلے تو اس کو سزا بھی دے سکتا ہو ، جس کی تربیت کی جا رہی ہے وہ یہ سمجھے کہ اگر میں نے اپنے مربی کی بات نہ مانی تو مجھے کچھ نہیں کہہ سکتا تو تربیت اور ہو تی ہے اور یہ پتا ہو کہ میں نے نہ مانا تو مجھے بہت کچھ کہہ سکتا ہے تو تربیت اور ہو تی ہے۔ ا س سے اللہ تعا لیٰ کی صفت ”ذوانتقام“(بدلہ لینے والا)اور ”قہار“وغیرہ آئی۔
4: اس کے تمام افعال واعمال پر قادر بھی ہو تو صفت ”قدیر“ اور” قادر“ آئی۔ غرض لفظ” رب“ میں ا للہ تعا لیٰ کی ساری صفات آجا تی ہیں۔
اللہ کی تین صفات اور بندے کے تین حالات
اللہ تعا لیٰ نے یہا ں اپنی تین صفتیں بیا ن فرما ئی ہیں :
1:رب الناس 2: ملک الناس 3: الہ النا س
تین صفتیں اس لئے بیا ن فر ما ئی ہیں کہ بندے کے حالات تین ہو تے ہیں۔
1: بچپن 2:جوانی 3: بڑھاپا
بچپن میں بندہ تر بیت کا محتا ج ہو تا ہے اور جوانی میں مزاج ہو تا ہے حکومت کا اورپڑھا پے میں مزاج ہوتا ہے معذوری کا۔
”رب الناس“ کہا کہ اے اللہ !آپ نے بچپن میں ہماری تر بیت فر ما ئی ہے، والدین کے دل میں محبت آپ نے ڈا لی ہے۔ وجہ کہ آپ رب ہیں۔
”ملک الناس “ کہا کہ جوا نی میں لوگو ں کو اقتدار کا شوق ہو تا ہے! تو کہا کہ اللہ اصل مالک اور با دشاہ توتو ہے۔
”الہ الناس“ فرمایا۔ آدمی جب بڑھا پے میں آتا ہے تو جتنا بھی گیا گزرا ہو اس کا رخ عبا دت کی طرف ہو تا ہے ،تو کہا کہ آپ نے بچپن میں تربیت کی، جوانی میں طاقت دی ،اب ہم بوڑھے ہو گئے تو آپ کی عبا دت کی طرف آ گئے اور آپ کو معبود مان لیا۔
خناس اور اس سے بچاؤ کا طریقہ
الَّذِي يُوَسْوِسُ فِي صُدُورِ النَّاسِ
اللہ کی پناہ میں آ گئے، کس کے شر سے ؟فرما یا مِنْ شَرِّ الْوَسْوَاسِ الْخَنَّاسِ اے اللہ! ہمیں” خناس “کے وسوسوں کے شر سے بچا۔” خناس “ کو ن ہے ؟ اس کی فطرت یہ ہے کہ بندے کے دل میں شبہات پیدا کرتا ہے۔ ان شبہات سے بندہ چند چیزوں کی وجہ سے بچتا ہے۔
1: اپنے علم اور مطا لعہ کی وجہ سے لیکن چھوٹے درجہ میں۔
2: لیکن اصل میں بچتا ہے کسی شیخ کی صحبت کی وجہ سے۔ بعض دفعہ بڑے بڑے شبہا ت علم و مطالعہ کی وجہ سے صاف نہیں ہو تے بلکہ صحبتِ شیخ سے صا ف ہو جا تے ہیں۔صرف دلائل کا فی نہیں ہو تے بلکہ صحبت بھی ضروری ہو تی ہے۔ میری ایک نصیحت یاد رکھیں کہ بہت بڑی کم عقلی ہے کہ انسان اپنے علم اور دلائل کی بنیاد پر اپنے شیخ کو چھوڑ دے۔
آج کے دور کاخناس
آج کے دور میں خناس کی سبب سے بڑی قسم دنیا بھر کے ”غیر مقلد“ ہیں۔ میری یہ بات غور سے خود بھی سمجھیں اور دوسروں کو بھی سمجھا ئیں :
گمراہی کےلیے ایک شیطان ہے اور دوسرا خناس۔
شیطا ن اور خناس کے کا م اور دائرہ کار کیا ہے؟ذرا دھیا ن سے سمجھیں۔ابلیس کا تخت سمندر پر لگتا ہے، چھوٹے شیا طین گمراہ کرتے ہیں اور رپورٹ آ کر اس ابلیس کو دیتے ہیں۔ لیکن ایک مقام ایسا ہے جہا ں شیا طین نہیں جا سکتے وہ ہے ”مسجد“۔ جب اذا ن ہو تی ہے، حدیث مبا رک میں موجود ہے کہ شیطان دوڑتا ہے اور کس طرح دوڑتا ہے؟ حدیث پاک کے الفاظ ہیں: ولہ ضراط
صحیح البخاری:608
ہوا خا رج کرتے ہو ئے دوڑتا ہے۔ اب شیطان نے مسجد سے با ہر کام کیا، تو اب مسجد کے اندر بھی تو کوئی بندہ گمراہ کرنے کے لیے چا ہئے۔ جہا ں مسجد اور ہیڈ کوارٹر کی نشریات ختم ہو جا ئیں تو ان نشریا ت کو مزید آگے پہنچا نے کے لیے ایک اور چیز ہے جسے ” بوسٹر“ کہتے ہیں۔تو ابلیس کی نشریات سمندر کے تخت سے شروع ہو تی ہیں اور مسجد سے باہر رک جا تی ہیں۔اسے اپنی نشریات مسجد تک پہنچا نے کے لیے بوسٹر کی ضرورت تھی جوغیر مقلد کی صورت میں اسے مل گیا۔ تو غیر مقلد شیطان کا بوسٹر ہے، جہا ں ابلیس کی نشریات نہیں پہنچتیں وہاں یہ پہنچاتا ہے۔
دونوں خناسوں کے کام میں فرق
ان دونوں کے کام میں کیا فرق ہے ؟میں اکثرکہا کرتا ہو ں کہ دوکام ضروری ہیں :
1: نیک عمل کرنا 2: نیک عمل کو آگے لے کر جانا۔
شیطان محنت کرتا ہے کہ بندہ نیک عمل نہ کرے اور غیرمقلد محنت کرتا ہے کہ نیک عمل کرے لیکن اللہ کے ہا ں قبول نہ ہو۔ تو خطر ناک محنت شیطان کی ہے یا خناس کی؟(خناس کی۔سامعین) کیوں؟( اس لئے کہ )شیطان کی مانیں گے تو آپ دنیا کے مزیں کریں گے، آخرت برباد ہو گی۔ خناس کی مانیں گےتو دنیا بھی برباد ہو گئی اور آخرت بھی بربادہو گی۔
شیطان محنت کرے گا کہ آپ روزہ نہ رکھیں۔ ”کیو ں گرمی میں اپنے آپ کو مارتے ہو!“ خناس محنت کرتا ہے :”روزہ تو رکھ لو لیکن سورج غروب ہونے سے دو منٹ پہلے توڑ دینا“۔ شیطان کی ما نتے تو چلو شربت پیتے ، کھانا کھا تے، آخرت ہی بربا د ہوتی ، لیکن خناس کی مانی تو بھوک بھی برداشت کی، پیا س بھی برداشت کی اور گئے بھی جہنم میں۔
شیطان اور خناس سے بچاؤ کی محنت
شیطان کے خلا ف محنت کی جا ئے فضا ئل والی اور خناس کے خلا ف محنت کی جائے دلائل والی۔ تبلیغی جماعت کی محنت فضائل والی ہے اور ہماری محنت دلائل والی ہے۔ تبلیغی نصاب کا نا م ہے ”فضائلِ اعمال “اور ہما ری محنت کا نا م ہے” دلائلِ اعمال“فضائل سے امت اعمال پر آجائے گی اور دلائل سے اعمال بچائے گی۔ یہ محنت بھی ضروری وہ بھی ضروری۔
فضائل والی محنت ہے:
اُدْعُ إِلَى سَبِيلِ رَبِّكَ بِالْحِكْمَةِ وَالْمَوْعِظَةِ الْحَسَنَةِ
النحل:125
اور دلائل والی محنت ہے:
وَجَادِلْهُمْ بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ
اللہ ہمیں دونوں محنتیں کر نے کی تو فیق عطاء فرمائے۔آمین)
آخری با ت، لفظ ”قل“ کا معنی
آخری با ت سمجھیں کہ جب اللہ لفظ ”قل“ کہے تو معنی اور ہے اور جب بندہ ”قل“ کہے تو معنی اور ہے۔ اللہ کے قل کا مطلب ”حکم دینا“ ہے اور بندے کے ”قل“ کا مطلب اللہ کے حکم کو نقل کرنا ہے۔ اس سے بہت بڑی مباحث سمٹ جا تی ہیں۔ میں اس پر ایک مثال دیتا ہوں۔
اہلِ بدعت اذا ن سے پہلے ”الصلوۃ والسلام علیک یا رسول اللہ “ پڑھتے ہیں اور اہل السنت والجماعت نہیں پڑھتے۔ اہل السنت سے پوچھیں کہ آپ کیو ں نہیں پڑھتے ؟ تو ہمارا جواب ہو تا ہے کہ ہم اس لئے نہیں پڑھتے کہ ہم یہاں زندہ ہیں اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی قبر مبا رک میں زند ہ ہیں۔ دور سے زندہ کو”یا“ سے پکارنا ادب کے خلا ف ہے ،اس لئے ہم نہیں پڑھتے۔
اہل بدعت فوراً آپ سے کہیں گے: جب آپ ”التحیات “ پڑھتے ہو تو ”السلام علیک ایھا النبی“ تو کہتے ہو، تو یہا ں تو آپ نے بھی نے دور سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو پکار لیا۔اب اس کا جوا ب لفظ ”قل“ سے دیا جا تا ہے کہ ہم ”السلام علیک ایھا النبی“ کہہ کر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو نہیں پکارتے بلکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم جب عرش پہ گئے تھے ،اللہ تعا لیٰ نے پوچھا کہ کیا لا ئے ہو ؟ تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا فر ما یا تھا ؟ فرمایا تھا ”التحیات للہ والصلوات والطیبات“۔ اللہ نے فرمایا : ”السلام علیک ایھا النبی“۔ تو یہ خطاب اللہ نے فر مایا۔
لیکن جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز پڑھی تو فرمایا: ”السلام علیک ایھا النبی“۔ حا لانکہ حضور خود نبی ہیں، تو یہ خطاب نہیں تھا۔ اسی طرح صحا بہ کرا م رضی اللہ عنہ نے کہا : ”السلام علیک ایھا النبی“۔تو یہ خطاب نہیں تھابلکہ اللہ تعالیٰ کے خطاب کو نقل کیاتھا۔ تو اہل بدعت کو ہم کہتے ہیں کہ”السلام علیک ایھا النبی“ سے ہم حضور کو خطاب نہیں کرتے بلکہ اللہ کے خطاب کو نقل کرتے ہیں۔ اللہ تعالی سمجھ عطا فرمائیں۔
وآخر دعوانا ان الحمد للہ رب العلمین