فکر آخرت کے تقاضے

User Rating: 3 / 5

Star ActiveStar ActiveStar ActiveStar InactiveStar Inactive
 
فکر آخرت کے تقاضے
خانقاہِ اشرفیہ اختریہ
مرکز اہل السنۃ و الجماعۃ سرگودھا
5 جنوری 2013ء
فکر آخرت کے تقاضے
الحمدللہ نحمدہ ونستعینہ ونستغفرہ ونؤمن بہ ونتوکل علیہ ونعوذباللہ من شرور انفسنا ومن سئیات اعمالنا من یہدہ اللہ فلا مضل لہ ومن یضلل فلاہادی لہ ونشہد ان لا الہ الااللہ وحدہ لاشریک لہ ونشہد ان سیدنا ومولانا محمدا عبدہ ورسولہ،امابعد فاعوذباللہ من الشیطن الرجیم،بسم اللہ الرحمن الرحیم، اِعْلَمُوْا أَنَّمَا الْحَيَاةُ الدُّنْيَا لَعِبٌ وَلَهْوٌ وَزِينَةٌ وَتَفَاخُرٌ بَيْنَكُمْ وَتَكَاثُرٌ فِي الْأَمْوَالِ وَالْأَوْلَادِ
سورۃ الحدید:20 
قال النبی صلی اللہ علیہ وسلم: الموت تحفة المؤمن
(كنز العمال في سنن الأقوال والأفعال،رقم42138)
اَللّٰهُمَّ صَلِّ عَلٰى مُحَمَّدٍ وَعَلٰى آلِ مُحَمَّدٍ كَمَا صَلَّيْتَ عَلٰى إِبْرَاهِيْمَ وَعَلٰى آلِ إِبْرَاهِيْمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ۔ اَللّٰهُمَّ بَارِكْ عَلٰى مُحَمَّدٍ وَعَلٰى آلِ مُحَمَّدٍ كَمَا بَاركْتَ عَلٰى إِبْرَاهِيْمَ وَعَلٰى آلِ إِبْرَاهِيْمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ۔
احسانات خداوندی کی بارش:
اللہ رب العزت کا بہت بڑا کرم اور احسان ہم پر یہ ہے کہ اس نے ہمیں انسان بنایا،حق جل مجدہ کا بہت بڑا کرم واحسان یہ ہے کہ ہمیں مسلمان بنایا،اللہ تعالی کا بہت بڑا کرم واحسان ہے کہ ہمیں خاتم الانبیاء محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم کا امتی بنایا۔ یہ تین نعمتیں حق جل مجدہ کی ہم پر بنیادی نعمتیں ہیں،اس کے علاوہ کتنی نعمتیں ہیں جن کے بارے میں قرآن کریم کا اعلان ہے:
وَإِنْ تَعُدُّوْا نِعْمَتَ اللّهِ لَا تُحْصُوْهَا
سورۃ ابراہیم:34 
اگر تم اللہ کی نعمتیں شمار کرو تو تم شمار نہیں کرسکتے۔
میں موت کے موقع پر اس قدر نعمتوں کا تذکرہ اس لیے کررہاہوں کہ اگر انسان کے ذہن میں اللہ رب العزت کے انعامات ہوں تو پھر اللہ کی طرف سے دی گئی ہلکی ہلکی تکالیف انسان کو محسوس نہیں ہوتیں،اور اگر بندہ اللہ کی طرف سے آنے والی تکالیف کا تذکرہ تو کرےلیکن نعمتوں کا تذکرہ نہ کرے تو یہ بہت بڑی ناشکری،ناانصافی اور زیادتی ہوگی۔
عام انسان کا مزاج:
اللہ رب العزت نے عام انسان کا مزاج یہ بیان فرمایا:
فَأَمَّا الْإِنْسَانُ إِذَا مَا ابْتَلَاهُ رَبُّهُ فَأَكْرَمَهُ وَنَعَّمَهُ فَيَقُولُ رَبِّي أَكْرَمَنِ
سورۃ الفجر:15 
کہ جب اللہ انسان کو نعمتیں عطا فرمائے تو انسان کہتا ہے :اللہ نے میرے اوپر بہت بڑا کرم فرمایا ہے۔
وَأَمَّا إِذَا مَا ابْتَلَاهُ فَقَدَرَ عَلَيْهِ رِزْقَهُ فَيَقُولُ رَبِّي أَهَانَنِ
سورۃ الفجر:16 
اور جب اللہ اس کو امتحان میں ڈالے اور کچھ نعمتیں لے لے تو یہ کہتا ہے :خدا نے مجھے ذلیل کرکے رکھ دیا ہے۔
کس قدر ظلم کی بات ہے کہ اللہ عطا فرمائے تو خوشی کا اظہار کرے اور اللہ کچھ لے لے، تو انسان اس پر دکھ کا اظہار کرے،ایک ہوتاہے طبعاًدکھ اور خوشی کا محسوس ہونا اور ایک ہوتا ہے دکھ اور خوشی کا ضرورت سےزیادہ اظہار کرنا، دو باتیں الگ الگ ہیں۔
رضا بالقضاء:
حضرت الشیخ مجدد الف ثانی سرہندی فاروقی رحمہ اللہ اپنے ایک مکتوب میں ارشاد فرماتے ہیں کہ ایک وقت میرے اوپر ایسا آیا کہ اگر کوئی خوشی کا موقع ہوتا تو مجھے خوشی محسوس نہ ہوتی اور اگر کوئی دکھ کا موقع ہوناتو مجھے کوئی دکھ محسوس نہ ہوتا،لیکن میں نے بتکلف اپنے اوپر خوشی کا اظہار بھی کیا اور دکھ کا اظہار بھی کیا۔ کیوں؟اس لیے کہ خوشی کے موقع پر خوش ہونا اور دکھ کے موقع پر غم زدہ ہونا رسول اکرم ﷺکی سنت ہے تو اگر اتنی بڑی سنت مجھ سے چھوٹ جائے تو کتنا بڑا دکھ ہوگا،اس لیے فرماتے کہ خوشی کے موقع پر میں بتکلف خوش ہوتااور غم کے موقع پر تکلف کرکے غم کا اظہار کرتا،حالانکہ مجھے نہ خوشی پر خوشی محسوس ہوتی نہ دکھ پر دکھ محسوس ہوتا یعنی میں رضابالقدر کی ایسی کیفیت سے گزر رہا تھا کہ میرے سامنے دکھ اور خوشی کے اسباب مساوی ہوگئے تھے۔ اللہ رب العز ت ہمیں یہ بات سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے۔
دکھ انسان پر آتاہے لیکن دکھ کے وقت بھی اللہ کے انعامات واحسانات کو یاد رکھے تو پھر دکھ بندے کو ضرورت سے زیادہ محسوس نہیں ہوتا اور بنیادی بات جو یاد رکھنے کی ہے وہ میں نے عرض کی کہ ہم انسان بھی ہیں،مسلمان بھی ہیں اور خاتم الانبیاء محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم کے امتی بھی ہیں۔ کچھ انسانیت کے تقاضے ہیں اور کچھ تقاضے مسلمان ہونے کے ہیں اور پھر کچھ تقاضے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے امتی ہونے کے ہیں۔ اللہ انسان کو جتنا بڑا منصب عطافرمائے، اتنے بڑے منصب کا انسان کو خیال بھی رکھنا چاہیے۔
منصب کا تقاضا:
حضرت محمد بن ادریس شافعی رحمہ اللہ کے بارے میں ہے کہ جب حجام کے پاس جاتے اپنی حجامت بنوانے کے لیے، تو اس وقت کے حساب سے حجام کی جو اجرت ہوتی تھی، حضرت کئی گنا اس سے زیادہ دیتے۔ کوئی شخص پوچھتا کہ حضرت مزدوری مثلاً دس درہم تھی، آپ نے پچاس کیوں دئیے؟تو حضرت امام شافعی رحمہ اللہ فرماتے: یہ میرے منصب کا تقاضا ہے۔ میں زائد اس لیے دیتا ہوں کہ اس کے دل میں علماء کی عظمت بیٹھے۔ عالم وہ نہیں جو حجام کےپاس جائے اور کہے:”میرے کولوں وی دس لینڑے نیں“[مجھ سے بھی دس روپے لینے ہیں]اپنے علم کو درہم پر فروخت کرتاہے۔ یہ عالم کی غیرت کے خلاف ہے۔
انسانیت کا تقاضا:
میں بتا یہ رہاتھا کہ بعض چیزیں ایسی ہیں کہ جن کا تعلق انسانیت کے ساتھ ہے، بحیثیت انسان بندہ ان کاموں کو نہیں کرسکتا۔ اس پر ایک آپ چھوٹی سی مثال ذہن نشین فرمائیں۔ مسئلہ بھی ہے اور مثال بھی کہ ایک لاکھ چوبیس ہزار کم و بیش انبیاءکرام علیہم السلام میں سے کسی نبی کے حرم میں فاحشہ،بدکردار اور زانیہ عورت نہیں آئی،لیکن ایسے انبیاء گزرے ہیں کہ جن کے حرم میں کافرہ عورتیں آئی ہیں۔ حضرت لوط علیہ السلام نبی ہیں اور بیوی کافرہ ہے،حضرت نوح علیہ السلام نبی ہیں اور گھر میں دیکھیں ایمان نہیں، بیوی کافرہ ہے۔
(سورۃ التحریم: 10مع تفسیر معارف القرآن ج8 ص506 )
نبی کے حرم میں فاحشہ اور بدکردار عورت نہیں آتی لیکن نبی کے حرم میں کافرہ عورت آئی ہے۔ وجہ کیا ہے؟بحیثیت انسان کفر عیب شمار نہیں ہوتا البتہ بحیثیت انسان فاحشہ اور زانی ہونا عیب شمار ہوتاہے۔ اللہ نبی کے حرم میں اس کو نہیں لاتے جس پر بحیثیت انسان کوئی بدنما داغ لگا ہو،مطلب یہ کہ انسان کافر تو ہوسکتاہے لیکن انسان کو بےحیاء نہیں ہونا چاہیے،تو بعض تقاضے انسانیت کے ہوتے ہیں۔
بعض تقاضے بحیثیت مسلمان اسلام کے ہوتے ہیں۔ اسلام کے تقاضے بہت سارے ہیں۔ میں سارے عرض کرنا چاہوں گا بھی تو میرے بس میں نہیں ہیں کیونکہ اگر کوئی ایسا عذر پیش نہ آیا تو ان شاء اللہ العزیزٹھیک گیارہ بجے ہم نے جنازہ شروع کردینا ہے۔ اس لیے کہ آپ کوہمارے مزاج کا پتہ ہے کہ ہم ایسے مواقع پروقت کی پابندی کا بہت خیال کرتے ہیں اور آنے والے حضرات کو بلاوجہ تنگ نہیں کرتے۔
خیر میں عرض کررہاتھا کہ ہم انسان بھی ہیں،مسلمان بھی ہیں اور پیارےحضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے امتی بھی ہیں۔ انسانیت کا تقاضا یہ ہے کہ جو شخص کسی پر احسانات کرے اس کے احسانات کا شکریہ ادا کرنا چاہیے اور اگر احسانات کرنے والا کبھی تکلیف دے، تو اس کی تکلیف کا احسانات کے مقابلے میں زیادہ تذکرہ نہیں کرنا چاہیے۔ اس پر ایک واقعہ لکھا ہے۔
یہ میرے آقا کے احسانات کے خلاف ہے:
ایک آقا کا غلام تھا۔ ایک دن آقا اپنے غلام سے کہنے لگا: میں ککڑی کاٹتا ہوں اور تم کھاؤ،ککڑی کہتے ہیں:”تر“کو،مالک نے ککڑی کاٹنی شروع کردی،غلام نے کٹی ہوئی ککڑی کو کھانا شروع کردیا۔ اچانک آقا نے اس میں سے ایک ٹکڑا چکھا تو وہ کڑوا نکلا،آقا نے تعجب سے غلام سے کہا:تو کڑوی ککڑی کھا رہا ہے، تو نے بتایا کیوں نہیں کہ ککڑی کڑوی ہے؟غلام نے جواب دیا: جس آقا کے ہاتھ سے روزانہ میٹھی چیزیں کھاتا ہوں، ایک دن کڑوی آگئی تو اس کو کڑوی کہہ دوں، یہ میرے آقا کے احسانات کے خلاف ہے۔
اللہ رب العزت احسانات کی بارش برسائیں اور ابتلاء کے طور پر تھوڑی سی تکلیف آ جائے تو بندے کو خوشی سے برداشت کرنا چاہیے کہ یہ میرے مالک کی طر ف سے ہے، اس لیے کہ خدا بند ےسے پیار کرتاہے تو بندہ خدا سے پیار کرتاہے،اگر اللہ بندے سے پیار نہ کرے تو خدا کی قسم بندہ خدا سے پیار کر ہی نہیں سکتا۔ اللہ تعالی قرآن کریم میں فرماتے ہیں۔
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوْا مَنْ يَرْتَدَّ مِنْكُمْ عَنْ دِينِهِ فَسَوْفَ يَأْتِي اللّهُ بِقَوْمٍ يُحِبُّهُمْ وَيُحِبُّوْنَهُ
المائدہ:54 
اگر تم مرتد ہوگئے اور تم نے دین چھوڑ دیا تو اللہ رب العزت کو تمہاری ضرورت نہیں،اللہ تمہارے بدلے ایسی قوم کو لائیں گے کہ اللہ ان سے پیار کرے گا اور وہ اللہ سے پیار کریں گے۔
مفسرین کرام فرماتے ہیں کہ اللہ نے اپنی محبت کا تذکرہ پہلےکیوں فرمایا کہ اللہ ان سے پیار کرتاہے؟ دراصل یہ اس محبت کا صلہ ہے جو خدا نے پیار کیا،اگر خدا بندے سے پیار نہ کرتے، تو بندہ خدا سے پیار کر ہی نہیں سکتا۔
(التفسیر الکبیر للرازی: ج6 ص21 وغیرہ )
اس لیے اللہ احسانات کی بارش برسائیں اور کچھ امتحان،ابتلاء عطا فرمادیں تو اس پر بندے کو دل چھوٹا نہیں کرنا چاہیے۔
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے لخت جگر حضرت ابراہیم کا انتقال ہوا تو رسول اکرم ﷺکی آنکھوں سے آنسو مبارک بہہ پڑے، بعض صحابہ رضی اللہ عنہم نے کہا: وانت یا رسول اللہ؟
اللہ کے نبی! یہ ہم کیا دیکھ رہے ہیں، آپ کی آنکھوں سے بھی آنسو بہہ پڑے ؟نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:انہا لرحمۃ
(صحیح البخاری: رقم 1303 )
یہ رحمت ہے، یہ اللہ کی طرف سے جو باپ کے دل میں محبت ہوتی ہے یہ اس محبت کا اظہار ہے، اس کو نوحہ سے تعبیر نہیں کیا جاسکتا، یہ من جانب اللہ محبت ہے،اپنے اختیار میں نہیں ہوتا۔
عبد الرحیم؛ میرا لخت جگر:
خیر ایک دو باتیں میں نے اس لیے عرض کی ہیں کہ جس طرح کسی بھی شخص کی اولاد جائے،اس اولاد کے جانے پہ جو دکھ والد یا والدہ کو ہوتاہے یہ دکھ بتانے کی ضرورت نہیں ہےاور میں اپنے طلباء سے گزارش کررہا تھا کہ اولاد، اولاد میں فرق ہوتاہے۔ میری ساری اولاد میں سے مجھے سب سے زیادہ محبت اسی[عبدالرحیم]سے تھی۔ اس کی کتنی وجہیں ہیں؟ میں وہ بہت ساری وجہیں بتاؤں گا تو طلباء تو سمجھیں گے باقی لوگ اس کو نہیں سمجھیں گے کہ اس محبت کی وجہ کیا ہے؟
حضرت یعقوب علیہ السلام کے بارہ بیٹے تھے، اللہ تعالیٰ نے ان میں سب سے زیادہ محبت حضرت یعقوب علیہ السلام کے دل میں حضرت یوسف علیہ السلام کی ڈالی تھی،کیوں؟اس لیے کہ امتحان حضرت یوسف کی وجہ سے لینا تھا۔ پہلے دل میں محبت ڈالی، پھر بیٹے کی وجہ سے صدمہ دیا،یہ دیکھنے کے لیے کہ میرا یعقوب اس موقع پر شریعت کا کتنا خیال کرتاہے؟!اللہ نے پہلے ہمیں ”عبدالرحیم“کی محبت دی ہے،اس کے بعد ابتلاء دیا ہے۔ اللہ ہم سب کو ابتلاؤں سے محفوظ رکھے۔ ہم بہت کمزور ہیں۔ امتحانات سے خدا ہم سب کی حفاظت فرمائے۔ آمین
خیر میں گزارش یہ کر رہاتھا اور اس بات کو اچھی طرح سمجھیں کہ بحیثیت انسان ہمیں انسانیت کے تقاضوں کا بھی خیال رکھنا چاہیے۔ بحیثیت انسان ہمارے ذمہ ہے انسان کا خیال کرنا،غریب کا خیال کرنا حتی کہ جانوروں اور چوپایوں کا خیال کرنا۔ یہ انسانیت کا تقاضا ہے۔
مسلمان ہونے کا تقاضا:
اگلا معاملہ ہے بحیثیت مسلمان ہونے کا کہ جو احکام اللہ رب العزت نے ہمارے ذمے لگائے ہیں ان احکام کو ہم بجالائیں۔ اگلا مسئلہ ہے رسول اکرمﷺ کے امتی ہونے کا،نبی پاک کے چونکہ امتی ہیں اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم خاتم الانبیاء ہیں۔ قیامت تک اب کسی نبی نے پیدا نہیں ہونا، اب ہمارے ذمے کام یہ ہے کہ ہم شریعت کے نظریات ومسائل خود سیکھیں اور آگے امت کو یہ نظریات اور مسائل سکھائیں۔ یہ ہماری ذمہ داریوں میں شامل ہے۔ پہلی امتوں کی ذمہ داریوں میں شامل نہیں تھا کہ وہ پوری دنیا میں دین کی اشاعت کی محنت کریں،یہ ہماری ذمہ داری میں شامل ہے۔
اس تمہید کے بعد میں اس کا خلاصہ عرض کرتاہوں کہ ہم چونکہ مخلوق ہیں،اللہ ہمارا خالق ہے اور ہمارا مالک ہے،مالک کو اپنی مملوک میں اور خالق کو اپنی مخلوق میں تصرف کا پورا حق حاصل ہوتاہے۔ لہذا مالک کو یہ کہنا کہ آپ نے ایسا کیوں کیا ہے؟اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم نے دل سے اس کو مالک مانا ہی نہیں ہے۔ خالق پر اعتراض کرنا کہ آپ نے ایسا کیوں کیا ہے؟اس کا معنی کہ ہم نے دل سے خالق مانا ہی نہیں ہے۔ جب مان لیا تو پھر اعتراضات کے دروازے بند کردینے چاہییں۔
موت کی خبر سنیں تو کیا کریں؟
جب کسی کی موت کی خبر سنیں تو شریعت کا حکم یہ ہے کہ زبان سے دو جملے کہیں۔
إِنَّا لِلّهِ وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ
یہ دوجملے کیوں کہتے ہیں؟اس لیے کہ جب کسی آدمی کو صدمہ پہنچے، کسی کی موت پر آدمی کو دکھ ہوتو یہ دکھ ااور صدمے دو قسم کے ہوتے ہیں۔
پہلا صدمہ:
یہ ہوتاہے کہ یہ جلدی گیا ہے،اس کو ابھی نہیں جانا چاہیے تھا،بچہ ہے جوان ہوتا،بوڑھا ہوتا، بلکہ بوڑھا ہو تب بھی لوگ روپڑتے ہیں کہ نہیں!اس کو کچھ سال اور زندہ رہنا چاہیے تھا۔
آپ میں سے وہ حضرات جو میری سابقہ زندگی سمجھتے ہیں؛ میرے احباب اور رشتہ دار، یہ لوگ میری بات صحیح سمجھیں گے،بقیہ کو شاید سمجھ نہ آئے۔ جن مشکلات سے میں گزرا ہوں انہیں باہر کے لوگ نہیں جانتے،میری برادری جانتی ہے یا شاید رشتہ دارجانتے ہیں یا میرے قرب وجوار کے لوگ جانتے ہیں۔ ان مشکلات کے دور میں ہمارے والداور والدہ کی دعائیں شامل تھیں۔
میں ایک جملہ کہنے لگا ہوں کہ اب جب بھی خواتین ہمارے گھر آتی ہیں، وہ حسرت سے یہ بات کہتی ہیں:اے کاش!اس کی ماں زندہ ہوتی،اُس نے اِس کے دکھ دیکھے تھے،آج اس کے سکھ بھی دیکھتی،جس نے جیلیں دیکھی ہیں وہ آج بہاریں بھی دیکھتی۔ یہ بات میں نے کیوں کی؟یہ بتانے کے لیے کہ ہماری عموماً خواہش ہوتی ہے کہ اسے ابھی نہیں مرنا چاہیے،کچھ دیر بعد مرے، ان عورتوں کی خواہش تھی کہ اس کی ماں پہلے فوت نہ ہوتی، کچھ سال گزار کے فوت ہوتی۔ تو بندے کے دل میں ایک صدمہ یہ ہوتاہے کہ ابھی نہ مرتا، کچھ عرصے بعد مرتا۔
دوسرا صدمہ:
یہ ہوتاہے کہ یہ ہر وقت میرے پاس تھا، اب مجھ سے جدا ہوگیا۔ اس سے قبل بھی میرا ایک بیٹا ”عبیداللہ بہادر“ فوت ہوا ہے،ایک چھوٹی بیٹی ”عفیفہ“فوت ہوئی ہے۔ یقین کریں بعض باتیں میں سمجھانا چاہوں ممکن ہی نہیں کہ سمجھا سکوں، طلباء جو میرے پاس رہتے ہیں وہ تو سمجھتے ہیں،باہر والوں کو قلبی کیفیات سمجھانا بہت مشکل ہے۔
مجھے یاد ہے میں گھر میں وضو کررہا تھا اور چھوٹا بچہ”عبیداللہ“یا ”عبداللہ“ مجھے یاد نہیں، ساتھ کھڑا تھا، دل میں فوراً ایک حدیث مبارک آئی کہ نبی کریمﷺ نے جو اعلان فرمایا ہے کہ اگر کسی کی دو اولادیں فوت ہوگئیں تو جنت میں والدین کو لے کر جائیں گی۔ امی عائشہ رضی اللہ عنہا نے پوچھا: حضرت!اگر کسی کی ایک ہو؟فرمایا ایک فوت ہوگئی تو بھی والدین کو جنت میں لے کر جائے گی۔
(جامع الترمذی: رقم 1062)
اب غیر شعوری طور پر اور بغیر میرے چاہنے کے، ایسے ہی میرے دل میں خیال آیا کہ میرا بھی کوئی بیٹا چلا جائے،اور جب خیال آتا تو میں خود کو جھٹکتا کہ یہ بھی کوئی خیال لانے والی بات ہے۔ اور تھوڑے مغفرت کے راستے موجود ہیں۔
خیر میں بتا رہا تھا کہ بیٹا بھی چلا گیا،بیٹی بھی چلی گئی، بندہ اللہ سے پیار کی باتیں کرتاہی ہے، تو میں کہتا:اے اللہ!جو مغفرت کا نصاب اولاد کی وفات والا ہوتا ہے،ہمارا تو وہ نصاب بھی پورا ہوگیا ہے،یہ تو نصاب کے اوپر کا ایک بیٹا ہے نا۔ اور دیکھو!یہ اللہ کا کرم ہی ہے کہ اللہ نصاب سے اوپر بھی نعمتیں عطا فرمادئیے۔ خیر جو بات میں کہنے لگا تھا کہ وہ چونکہ چھوٹے تھے ایک چھ ماہ کا، ایک چار ماہ کا،میرا وقت ان کے ساتھ نہیں گزرا، میری بیوی کا وقت گزرا ہے۔ میں کبھی آیا چلا گیا،کبھی آیا چلا گیا۔ یہ جو بیٹا [عبدالرحیم] فوت ہوا سوا تین سال کا، اس کا وقت میرے ساتھ گزرا ہے اور جس کا وقت ساتھ گزرا ہو، اس کے جانے پہ دکھ بہت ہوتاہے۔
میں بتا یہ رہاتھا کہ صدمے میں دو باتیں ہوتی ہیں۔
1:ابھی نہیں جانا چاہیے تھا،کچھ دیر بعد جاتا۔
2:مجھ سے جدا ہوگیا۔
ان صدموں کا علاج:
یہ ہر وارث کے صدمے ہوتے ہیں۔ شریعت نے دونوں کا علاج بتایا ہے،فرمایا زبان سے کہو:" إِنَّا لِلّهِ "اے اللہ!ہم مملوک ہیں، تو مالک ہے،ہمارے ذہن میں تھا، آج نہیں جانا چاہیے تھا، مالک کی مرضی آج بلائے،مالک کی مرضی دس سال بعد بلائے اور دوسرا بندے کے ذہن میں خیال تھا کہ مجھ سے جدا ہوگیا۔ اس کا علاج بتایا: "وَإِنَّا إِلَيْهِ رَاجِعُونَ "کہ اپنی زبان سے کہو،یہ ہمیشہ کے لیے تم سے جدا نہیں ہوا، تھوڑی دیر کے لیے جدا ہواہے، کل وہ گیا تھا،آج ہم جانے والے ہیں۔ بیٹا امریکہ جاتاہے، ماں اس کے جانے پہ روتی ہے: پتر تو امریکہ چلا ایں[بیٹا تو امریکہ جارہاہے]بیٹا کہتا ہے:اماں!چار سال کی بات ہے،گرین کارڈ مل جانا ہے اور میں نے تجھے بھی بلا لینا ہے۔ ماں خوش ہوجاتی ہے۔ یہ بیٹا تسلی دیتا ہے کہ میں نے بلا لینا ہے۔ تو جب جانے والے پر دکھ تھا، تو اللہ نے بتا دیا کہ وہ گیا، تو تم بھی جانے والے ہو۔ تو اس سے انسان کے دونوں صدمے ختم ہوجاتے ہیں بشرطیکہ انسان میں انسانیت موجود ہو۔
طبعی صدے کا آنا اور بات ہے اور اس صدمے کا بتکلف اظہار کرنا اور بات ہے۔ تو پہلی بات میں نے یہ عرض کی کہ ہم چونکہ انسان ہیں اور بحیثیت انسان ہمیں اللہ کے احسانات کا تذکرہ کرنا چاہیے تو پھر اللہ کی طرف سے آنے والی چھوٹی تکالیف بھول جاتی ہیں۔
حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ دنیوی معاملات میں اپنے سے چھوٹوں کو دیکھا کرو اور دینی معاملات میں اپنے سے بڑے کو دیکھا کرو۔
دنیاوی معاملات میں چھوٹوں کو دیکھنے کا مطلب یہ ہے کہ مثلاً آپ کے پاس گاڑی ہے تو اس کو دیکھیں جس کے پاس موٹر سائیکل ہے،آپ کے پاس دو گاڑیاں ہیں اس کے پاس ایک ہے اور دینی معاملات میں بڑے کو دیکھو،وہ تہجد پڑھتاہے میں صرف فرض پڑھتاہوں۔ تو دینی معاملات میں اوپر والے کو دیکھو تو دین پر عمل کی توفیق ہوگی اور اپنا فسق وفجور بندے کے دماغ میں آئے گااور دنیوی معاملات میں چھوٹے کو دیکھو تو اس سے اللہ پاک شکر کی توفیق عطافرمائیں گے۔
خیر میں ایک بات عرض کررہاتھا کہ بحیثیت انسان انسانیت کے تقاضے یہ ہیں کہ اللہ کے احسانات کو ذہن میں رکھیں اور چھوٹی موٹی تکالیف کو نظر انداز کریں، اس پر اللہ بہت چیزیں عطا فرماتے ہیں۔اپنی رحمتوں اور برکتوں سے انسان کو بہت نوازتے ہیں۔
بحیثیت مسلمان ہماری ذمہ داری:
بحیثیت مسلمان اس موقع پر ہمارے ذمہ کیا ہے؟دیکھیں انسان کو صدمہ پہنچتاہے لیکن اس صدمے پر ایسے صبر کرے جیسے اللہ اور اللہ کے رسول ﷺچاہتے ہیں۔ پھر اس صدمے پر اجر ملتاہے۔ اگر دکھ کا سارا اظہار اس نے کردیا پھر اس صدمے پر اجر کیا ملنا ہے؟!رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔
ليس منا من ضرب الخدود أو شق الجيوب أو دعا بدعوى الجاهلية
(صحیح مسلم: رقم الحدیث103 )
فرمایا وہ شخص ہم میں سے نہیں جو گریبان کو پھاڑے،اپنے منہ کو نوچے اور جاہلوں کی طرح اونچی آواز سے بین کرے۔ اس کا ہم سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
بندے نےاپنے رخسار کو بھی نوچ لیا،اپنے گریبان کو بھی پھاڑ لیا،اونچی آواز سے بین بھی کرلیے تو جو پابندی تھی وہ سارے کام کرلیے، اب بتاؤ! خدا سے اجر کس بات کا لینا ہے؟!بحیثیت مسلمان بندے کو چاہیے کہ کسی موقع پر تکلیف آجائے تو اسے ایسے ہینڈل کرے جیسے اللہ چاہتے ہیں تو پھر اللہ اس پر انعامات عطا فرماتے ہیں۔ بیٹے یا کسی عزیز کے جانے کا انسان کو دکھ اور صدمہ بہت ہوتاہے لیکن اس صدمے کو ایسے سنبھالے جیسے اللہ پاک چاہتے ہیں۔ اللہ مجھے اور آپ کو بحیثیت مسلمان اسلامی احکامات پر عمل کی توفیق عطافرمائے۔ آمین
ہم چونکہ مسلمان ہیں ہمارے ذمے یہ بات ہے کہ جب کوئی انسان بیمار ہوتو اس کی بیمار پرسی کریں اور اس کا علاج معالجہ کریں، لیکن جائز حدود میں رہ کر کریں۔ اگر اللہ صحت عطا فرمائے تو شکر ادا کریں۔ اگر اللہ بیماری بڑھا دیں اور اللہ اس بیماری کو موت کا سبب بنادیں تو اس پر صبر کریں۔ اگر موت آجائے تو ہمارے ذمے ہے اس کو غسل دینا،کفن دینا،اس کا جنازہ پڑھنا اور اس کو قبر میں لے جا کر دفن کے بعد دعا مانگنا، پھر اس کے بعد اس کے لیے ایصال ثواب کرنا اور اس کے گھر والوں کے ساتھ تعزیت کرنا، یہ کام ہمارے ذمے بحیثیت مسلمان ہیں۔ ایصال ثواب میت کے لیے ہے، تعزیت اہل میت کے لیے۔
ہم اس بات کو سمجھتے نہیں ہیں تو الٹا کام کرتے ہیں۔ پوچھو: بھائی کہاں چلے ہو؟تو کہتے ہیں: فلاں کے گھر چلے ہیں،وجہ پوچھیں تو کہتے ہیں: فاتحہ پڑھنے۔ فاتحہ تو آپ گھر بھی پڑھ سکتے تھے، وہاں جانے کی کیا ضرورت تھی؟ لہذا جب کوئی پوچھے کہ کہاں جاتے ہو؟تو کہا کرو، تعزیت کرنے کے لیے،تعزیت کا مطلب ہے تسلی دینا۔
ایک ہوتاہے ثواب اور ایک ہوتا ہے ایصال ثواب،”ثواب“ کا معنی ہوتاہے، بندہ عمل کرے اور اجر خود لے،”ایصال ثواب“ کا معنی ہے کہ عمل کرے اور اجر کسی اور کو دے۔ ہم اہل السنۃ والجماعۃ ثواب کے بھی قائل ہیں اور ایصال ثواب کے بھی قائل ہیں۔ ایصال ثواب میت کے لیے ضرورت ہے اور تعزیت میت کے گھروالوں کی ضرورت ہے۔
آپ حضرات آئے ہیں تو آپ کے آنے پر ہمارا دکھ یا تو ختم ہوجائے گا یا کم ہوجائے گا۔ تو تعزیت ہوتی ہے رشتہ داروں سے اور لواحقین سے،یہ گھر بیٹھے نہیں ہوتی، ان کے پاس جانا پڑتاہے، نہ جاسکیں تو ٹیلی فون کردیں،میسج کر دیں،خط لکھ دیں،ای میل کردیں،جو ذریعہ میسر ہو استعمال کریں اگر عذر ہو۔
چند مسائل:
آخری بات کہ ہم صرف مسلمان نہیں بلکہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے امتی ہیں۔ ان مسائل کو خود سمجھنا اور دوسروں کو یہ مسائل سمجھانا،مسائل زندگی میں لانا اور امت کو یہ مسائل بتانا، یہ ہماری ذمہ داری میں شامل ہے۔ اس لیے میں دو یاتین مسئلے عرض کرتا ہوں ان کو ذہن نشین فرمالیں:
[1]: جب انسان وفات پاگیا،تو ہمارے ذمے اس کو غسل دینا اور کفن دینا ہے۔ غسل دینے میں بھی خیال کریں کہ خلاف شریعت نہ ہو،اور کفن دینے میں خیال کریں کہ خلاف شریعت نہ ہو۔ میں یہ بات اس لیے کہہ رہاہوں کہ مجھے اپنے گاؤں کا پتہ چلا، لوگوں نے بتایا اور تعجب ہوا کہ یہاں پر عورتوں کو سبز کپڑوں کا لباس پہنا کر دفن کیا جاتاہے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں کہ تم سفید لباس پہنا کرو اور
وَكَفِّنُوا فِيهَا مَوْتَاكُمْ
(سنن ابی داود، رقم الحدیث 3880باب فی الامر بالکحل )
اور اپنے مردوں کو بھی تم سفید لباس میں کفن دیا کرو۔
یہ سفید کفن مرد کا بھی ہے اور عورت کا بھی ہے،بچے کا بھی اور بوڑھے کا بھی ہے۔ لہذاسفید کفن ہی میں دفنانا چاہیے۔
( احکام میت: ص45)
[2]: ہمارے ہاں یہ رواج ہے کہ ایک مصلیٰ لیں گے اور وہ بھی ساتھ دفن کردیں گے،یہ خلاف شریعت ہے۔
( آپ کے مسائل اور ان کا حل: ج4 ص305)
[3]: ہمارے بعض علاقوں میں رواج یہ ہے کہ درود ماہی، درود تاج میت کے ساتھ دفن کرتے ہیں۔ میت کے ساتھ دفن کرنے کا گناہ ہوگا، جہاں اللہ کا نام لکھا ہے جب خدا کے نام کو کیڑے کاٹیں گے اور مٹی کھائے گی تو یہ مسلمان کے لیے ذلت کا مسئلہ ہے۔
(احکام میت: ص203)
[4]: بعض لوگ کفن پر کلمہ لکھتے ہیں، کفن پر کچھ نہ لکھیں۔
[ احکام میت: ص203]
[5]: بعض لوگ دفن کرتے وقت میت کو سیدھا لٹاتے ہیں اور میت کا چہرہ قبلے کی طرف کرتے ہیں۔ اس بات کا خیال رکھیں کہ پوری میت کو قبلے کی طرف کریں، میت کو دائیں کروٹ لٹا کر اور اس کے پیچھے کچی اینٹیں رکھ کر اس کی پوری کروٹ قبلے کی طرف کریں۔ یہ میت کو دفنانے کا سنت طریقہ ہے۔
[بہشتی زیور: ص494]
[6]: غسل اور کفن دے دیا تو زیادہ دیر تک میت کو گھر میں نہ رکھیں، اس کو جتنا جلد ہوسکے تو دفنانے کی کوشش کریں۔
(سنن ابی داؤد: رقم الحدیث3161 )
ایک غلط فہمی کا ازالہ:
اگر کسی کے ذہن میں یہ خیال آئے کہ مولانا صاحب مسئلہ بتارہے ہیں کہ جلدی دفن کرو،اور اپنا بیٹا مغرب کو فوت ہوا اور دوسرے دن گیارہ بجےجنازہ ہورہاہے،شاید شریعت کے خلاف کررہے ہیں۔ اس کی وجہ یہ نہیں ہے بلکہ وجہ یہ ہے کہ مغرب سے تھوڑی دیر پہلے فوت ہوا جب ہم لاہور سے چلے تو لاہور سے آتے آتے دو،اڑھائی گھنٹے لگ جاتے ہیں۔ رات کو دفن کرنا بہت مشکل ہے اور سردی میں لوگوں کو جنازے میں لانا بڑا مشکل ہے۔
ہم ایسی کوشش کرتے ہیں کہ آپ حضرات کو تکلیف نہ ہو۔ میں نے کہا صبح آٹھ بجے کرلیں،ہم آٹھ بجے اس لیے چاہتے تھے کہ لوگ دفاتر میں اور اپنے کاموں پر پہنچ جائیں،مجھے حضرات نے کہا کہ چھٹی کا دن ہے آپ گیارہ بجے رکھیں تاکہ لوگ آرام سے آئیں اور آرام سے چلے جائیں۔ انتظامی امور کی وجہ سے ہم نے تاخیر کی ہے۔ خدا گواہ ہے، اپنی کسی ضرورت کی وجہ سے تاخیر نہیں کی۔ آپ حضرات کی سہولت وآسانی کے لیے ہم نے ایسا کیا۔
[7]: میت کو جلدی دفن کریں اور جنازے کے بعد دعا مانگنا دفن سے پہلے، یہ سنت کے خلاف ہے اوربدعت ہے۔
( راہ سنت: ص206)
سنت کے خلاف کرنے پر گناہ ملتاہے اور سنت کے مطابق کرنے پر اجروثواب ملتاہے۔ اگر آپ میں سے کسی بندے نے میت کے لیے دعا کی ہے جنازے کے بعداوردفن سے پہلے تو میں آپ کو وصیت کرتاہوں کہ آپ اس گناہ سے توبہ کریں کہ اے اللہ! اس سے قبل جو ہم کرچکے ہیں اسے معاف فرما دےاور آئندہ اس بدعت کا ارتکاب نہیں کریں گے۔
بہت سارے لوگ سمجھتے ہیں کہ ہم نے دعا ہی کی ہے کوئی غلط کام تو نہیں کیا۔ دعا وہاں کریں جہاں پیغمبر نے فرمائی ہے جس موقع پر نبی سے ثابت نہ اس موقع پر دعا نہ کریں۔ اس موقع پر دعائیں مانگنا شریعت کے خلاف ہے اور جہاں دعا نہیں مانگی اس پر التزام کریں اور اس کو اہل السنۃ والجماعۃ سے خارج کہیں، یہ جائز نہیں ہے۔ دعا میت کے دفن کرنے کے بعد کرنی ہے۔ میت کے دفن کرنے کے بعد اس کے سر کی جانب سورۃ بقرہ کا پہلا رکوع اور اس کے پاؤں کی جانب بقرہ کا آخری رکوع پڑھیں
(کنز العمال: ج15، ص255 )
اس کے بعد دعا مانگیں اور اس کے بعد واپس آئیں۔
[8]: اس کے بعد قل کرنا،ساتواں کرنا،چالیسواں کرنا،یہ سب بدعات میں شامل ہیں اور خلافت شریعت ہیں۔
(راہ سنت: ص270)
اپنی زندگی سنت کے مطابق گزاریں، کل قیامت کے دن حضور اکرم ﷺکو منہ دکھانا ہے، لہذا سنت کے مطابق کام کریں۔
میں اس لیے گزارش کررہاہوں کہ جیسےآپ کے علم میں ہیں ہمارے اس ادارے کا نام مرکز اہل السنۃوالجماعۃ ہے۔ اگر ہم ہی اہل السنۃ والجماعۃ کی بات نہیں کریں گے، تو اہل السنۃ الجماعۃ کے مسئلے آپ کو کون بتائے گا؟ہم اس کا خیال نہیں کرتے کہ لوگ کیا کہیں گے؟ہماری سب سے بڑی پریشانی یہ ہے کہ قیامت کے دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیا فرمائیں گے؟اللہ کے نبی فرمادیں کہ یہ ہمارے ہیں تو اس پر ہم خوش ہیں۔ شادی کا موقع ہو یا غم کا موقع ہو، ہمیں رسول اکرم ﷺ کی سنت کو تھامنا چاہیے۔ اس لیے جنازے کے متصل بعد دفن سے پہلے دعا خلاف سنت ہے اور بدعت ہے۔ رسمِ قل، ساتواں،چالیسواں، سالانہ، ختم، یہ سب بدعات ہیں۔ اللہ تعالی ہمیں ان سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے۔
لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ یہ وہابی ہیں اور ایصال ثواب کے قائل نہیں ہیں۔ ہم کہتے ہیں کہ ہم ایصال ثواب کے قائل ہیں لیکن پورے گاؤں کو دکھلا کر ایصال ثواب کے قائل نہیں ہیں،اللہ توفیق عطا فرمائے ایک لاکھ روپیہ مسجد میں دے دو اور کہہ دو کہ اےاللہ! اس کا ثواب میری ماں یا باپ کو دے دے۔ تو کون انکار کرتاہے؟لیکن ہمارا ایصال ثواب اس وقت تک نہیں ہوتا جب تک گھر میں پڑھنے کے لیے کوئی نہ آئیں، جیسے کرائے کے قاتل ہوتے ہیں کہ پیسے دو اور بندہ مروا لو۔ اسی طرح یہ ختمی ہیں، پیسے دو اور قرآن پڑھوا لو۔
ایک مرتبہ چائے نہ پلاؤ تو وہ دوبارہ تمہارے گھر آکر قرآن پڑھنے کا نام بھی نہیں لیں گے۔ جب چائے پکتی ہے تو 15پارے ختم ہوتے ہیں اور جب کھانا تیار ہوتاہے تو پورا قرآن ختم ہوجاتاہے۔ تو جس قدر دکھ اس کو ہے جس کا باپ یا ماں فوت ہوئے ہیں، اتنا دکھ کسی اور کو نہیں ہے، خود پڑھے اور خود بخشے۔ میں یہ مسائل اس لیے عرض کیے ہیں کہ بحیثیت حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا امتی ہمارے ذمہ ہے کہ ہم ان مسائل کو سمجھیں اور ان مسائل کی آگے اشاعت کریں۔
اہل السنۃ والجماعۃ کا نظریہ:
ہمارا اہل السنۃ والجماعۃ کا نظریہ یہ ہے کہ جس جگہ اور گڑھے میں میت کو دفن کرتے ہیں اسی کانام ”قبر“ ہے،کوئی تمہیں دھوکہ نہ دے کہ ”علیین“ اور ”سجین“ کا نام قبر ہےبلکہ اسی جگہ کا نام قبر ہے۔ تمہیں لوگ کہیں گے کہ فلاں بندہ تھا اس کو آگ نے جلا دیا،راکھ ہوگیا،اس کی قبر کدھر ہے؟فلاں بندہ تھا وہ سمندر میں گرا اس کی قبر کدھر ہے؟فلاں کو جانور نے کھالیا اس کی قبر کدھر ہے؟آپ قبر کا معنی یاد رکھیں کہ میت اور میت کے اجزاء کے مقر کو قبر کہتے ہیں جہاں میت ہو یا میت کے اجزاء ہوں اسی کا نام ”قبر“ ہے۔ جس جگہ دفن ہے وہی قبر یا جلا کر راکھ کو اڑا دیا تو جہاں جہاں اس کے ذرے ہیں یہ ساری اس کی قبر ہے۔
عذاب اورثواب آپ نے نہیں دینا اللہ نے دینا ہے، اللہ اجزاء کو جمع کرکے بھی دے سکتے ہیں اور پھیلے ہوئے اجزاء کو بھی عذاب دے سکتے ہیں۔ قبر میں عذاب وثواب روح اور جسم دونوں کو ہوتاہے۔ اگر نیک ہے تو روح اورجسم دونوں کو ثواب ہوتاہے اگر بد ہے تو روح اور جسم دونوں کو عذاب ہوتاہے۔ نہ صرف جسم کو اور نہ صرف روح کو بلکہ دونوں کو ہوتاہے۔
میت سے سوال و جواب:
جب میت کو دفن کرکے واپس آئیں تو حدیث میں آتاہے کہ جب دفن کرکے واپس آتے ہیں تو چلنے کی وجہ سے جوتوں کی جو آواز پیدا ہوتی ہے اس آواز کو بھی میت سنتی ہے۔ یہ روایت صحیح بخاری میں موجود ہے۔
[صحیح البخاری: ج1 ص183]
میت کی روح کو لوٹا دیاجاتاہے اس سے تین سوال ہوتے ہیں۔ 1:من ربک؟،2:من نبیک؟،3:مادینک؟،تیرا رب کون ہے؟تیرا نبی کون؟تیرا دین کیا ہے؟اگر میت جواب دے کہ میرا رب اللہ اور میرے نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور میرا دین اسلام ہے تو فرشتہ آسمان سے آواز دیتاہے کہ :۔
فَيُنَادِي مُنَادٍ مِنَ السَّمَاءِ أَنْ صَدَقَ عَبْدِي فَأَفْرِشُوهُ مِنَ الْجَنَّةِ،اس کو جنت کا بچھونا دو، وَأَلْبِسُوهُ مِنْ الْجَنَّةِ اس کو جنت کا لباس دو،وَافْتَحُوا لَهُ بَابًا إِلَى الْجَنَّةِ میت یہاں اور جنت وہاں رہتی ہے جنت کادروازہ اس کے لیے کھول دو، فَيَأْتِيهِ مِنْ طِيبِهَا وَرَوْحِهَا،
جنت کی خوشبو اس قبر میں پہنچ جاتی ہے۔
(مُصنف ابن أبي شيبة،رقم12185)
اور فرشتہ کہتا ہے :
نم كنومة العروس
(ترمذی: باب عذاب القبر)
ایسے سو جا جیسے پہلی رات کی دلہن سوتی ہے۔
دلہن کی طرح سو جا:
میں ایک نکتہ عرض کرتاہوں کہ فرشتہ یہ بھی کہہ سکتاہے:” نم“ سو جا،یہ کیوں کہا کہ دلہن کی طرح سو جا؟اس کی حکمت کیا ہے؟ایک وجہ یہ ہے کہ عورت جتنی بھی بڑی ہو،خاندان جتنا بھی بڑا ہو،دولت اور حسن وجمال والی ہو،عورت کو دنیا میں کسی چیز میں راحت نہیں ہوتی، اگر راحت ملتی ہے تو شوہر کے پہلو میں ملتی ہے۔ آدمی جتنا بھی نیک ہو،جتنا بھی بڑا ہو،اس کو راحت قبر کے پہلو میں ملتی ہے۔
دوسری حکمت یہ ہے کہ اگر کسی عورت کو آپ کا دل کرتاہے دیکھ نہیں سکتے،میسج نہیں کرسکتے،خط نہیں لکھ سکتے،لیکن وہی عورت کلمہ نکاح کے ساتھ آجائے تو پورا خاندان باہر کھڑا ہواہے اب اس کو ہاتھ لگانے میں کوئی ڈر نہیں، بالکل اسی طرح قبر ظلمت کا گھر ہے،،خلوت کا گھر ہے، وہاں جاتے ڈر لگتاہے جیسے عورت کو چھوتے،دیکھتے ڈر لگتاتھا، کلمہ نکاح کے ساتھ آجائے تو ڈر نہیں۔ قبر میں جانے سے ڈر لگتا ہے کلمہ ایمان کے ساتھ آجائے تو کوئی ڈر نہیں، اس لیے فرمایا: نم كنومة العروس،تجھے بھی کوئی ڈر نہیں۔سوال وجواب ہوجاتے ہیں میت کی روح نکال دیتے ہیں میت سو جاتی ہے یہ مسئلہ عام امتی کا ہے انبیاء کا نہیں ہے۔ جب نبی کی روح لوٹا دی جائے تو نہ اللہ کے نبی سے سوال وجواب ہوتاہے اور نہ پھر نبی کی روح نکالی جاتی ہے۔اہل السنۃ والجماعۃ کا عقیدہ ہے کہ انبیاء قبروں میں زندہ ہیں۔ یہاں سے درود پڑھو تو قبر تک پہنچایا جاتاہے اور قبر پر پڑھو تو نبی کو سنا دیا جاتاہے۔ اللہ ہم سب کو اہل السنۃ والجماعۃ کے مسلک پر کاربند رہنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین