اللہ تعالیٰ کی محبت

User Rating: 5 / 5

Star ActiveStar ActiveStar ActiveStar ActiveStar Active
 
اللہ تعالیٰ کی محبت
خانقاہِ اشرفیہ اختریہ
مرکز اہل السنۃ و الجماعۃ سرگودھا
7 مارچ2013ء
اللہ تعالیٰ کی محبت
الحمدللہ نحمدہ ونستعینہ ونستغفرہ ونؤمن بہ ونتوکل علیہ ونعوذباللہ من شرور انفسنا ومن سئیات اعمالنا من یہدہ اللہ فلا مضل لہ ومن یضلل فلاہادی لہ ونشہد ان لا الہ الااللہ وحدہ لاشریک لہ ونشہد ان سیدنا ومولانا محمدا عبدہ ورسولہ،امابعد فَاَعُوْذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيمِ بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ: وَالَّذِينَ آمَنُوا أَشَدُّ حُبًّا لِلَّهِ
البقرۃ:165
وقال النبی صلی اللہ علیہ وسلم اللهم إني أسألك حبك وحب من يحبك والعمل الذي يبلغني حبك
[سنن الترمذی باب رقم:3490]
اَللّٰهُمَّ صَلِّ عَلٰى مُحَمَّدٍ وَعَلٰى آلِ مُحَمَّدٍ كَمَا صَلَّيْتَ عَلٰى إِبْرَاهِيْمَ وَعَلٰى آلِ إِبْرَاهِيْمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ۔ اَللّٰهُمَّ بَارِكْ عَلٰى مُحَمَّدٍ وَعَلٰى آلِ مُحَمَّدٍ كَمَا بَارَكْتَ عَلٰى إِبْرَاهِيْمَ وَعَلٰى آلِ إِبْرَاهِيْمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ۔
تیری نعمتیں بے شمار:
اللہ رب العزت نے دنیا میں جس قدر چیزیں پیدا فرمائی ہیں یہ تمام چیزیں انسان کے نفع کےحاصل کرنے کے لیے پیدا فرمائی ہیں بجز چند ایک چیزوں کے،اور جن چیزوں سے انسان کے لیے نفع حاصل کرنا دنیا وآخرت میں نقصان دہ ہے اللہ تعالی نے ان کی نشاندہی کے لیے انبیاء علیہم السلام کو مبعوث فرمایا۔ نبی اللہ سے پوچھتا ہے امت کو بتاتا ہے کہ یہ یہ چیزیں تمہارے لیےنقصان دہ ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ علماء اور فقہاء نے لکھا ہے کہ جس قدر چیزیں اللہ رب العزت نے پیدا فرمائی ہیں ان تمام میں اصل قاعدہ اور ضابطہ حلت، اباحت اور جواز کا ہے۔ قرآن کریم میں ہے:
وَكُلُوا وَاشْرَبُوا وَلَا تُسْرِفُوا
الاعراف:۳۱ 
تم کھاؤ پیو۔
مفتی اعظم مفتی محمد شفیع عثمانی رحمہ اللہ معارف القرآن میں اس آیت کی تفسیر کے تحت فرماتے ہیں کہ اللہ رب العزت نے یہ تو فرمایا کہ کھاؤ اور پیو، یہ نہیں فرمایا کہ کیا کھاؤ کیا پیو؟ماکولات ومشروبات کا ذکر نہیں فرمایا یہ اس بات کی دلیل ہے کہ اللہ رب العزت کی طرف سے اجازت ہے کہ تم جو چاہو کھاؤ پیو،ہاں البتہ جو تمہارے لیے کھانا پینا حرام اور ناجائز ہیں وہ چیزیں اپنے پیغمبر کے ذریعے ہم نے بتا دی ہیں، وہ نہ کھاؤ۔ باقی تمام چیزیں کھاؤ۔
[معارف القرآن: ج۳ ص۵۴۵]
خدائی پابندیاں:
دنیا میں جو چیزیں انسان کے لیے جائز ہیں وہ تو گنی ہی نہیں جاسکتیں اور جن کا استعمال کرنا حرام ہے وہ گنی جاسکتی ہیں۔ چند ایک چیزیں ہیں، باقی تمام چیزوں میں اللہ نے اباحت اور جواز رکھا ہے۔ اللہ رب العزت نے اجازت دی ہے تمہاری والدہ ہے اس کو دیکھو، صرف دیکھنے کی اجازت ہی نہیں بلکہ اس کو عقیدت سے دیکھو گے تو اللہ عمرے سے زیادہ اجر عطا فرماتے ہیں۔ دیکھو اجر بھی ہے۔ اپنی بیٹی ہے اس کو دیکھو، بہن ہے اس کو دیکھو،اب کتنے رشتے عورت کے موجود ہیں جو اللہ نے مرد کے لیے دیکھنا حلال فرمادئیے ہیں اور تمہارے لیے حلال ہیں وہ تمہیں بتادئیے ہیں اور جو حرام ہیں وہ بھی تمہیں بتا دئیے ہیں۔
کام نہ کرو پھر بھی اجرت:
اور پھر اللہ کا نظام اور اللہ کا قانون کتنا عجیب ہے کہ دنیا میں اگر کوئی آدمی کام کرے اس کام کرنے پر اجرت ملتی ہے، اگر کام نہ کرے اس پر اجرت نہیں ملتی۔ اللہ کا نظام ایسا ہے کہ بعض کام نہ کرنے پر اجرت ملتی ہے۔ یعنی حکم ہے کہ نامحرم عورت کو نہ دیکھو! تو جس طرح والدہ کو دیکھنے پر اجر ہے اسی طرح نامحرم کو نہ دیکھنے پر اجر ہے اور کتنا اجر ہے آپ اس کا اندازہ فرمائیں۔
نظر شیطان کا زہریلا تیر:
حدیث میں ہے صرف ایک حدیث پیش کرتاہوں حدیث قدسی ہےاور حدیث قدسی کہتے ہیں:
ہوالکلام الذی یبنیہ النبی بلفظہ وینسبہ الی ربہ،
حدیث قدسی وہ حدیث ہے کہ جسے نبی اپنے لفظوں میں بیان کرتاہے اور نسبت اپنے رب کی طرف کرتاہے کہ میرے رب نے یہ فرمایا ہے۔ توحدیث قدسی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: حق جل مجدہ فرماتاہے:
إن النظر سهم من سهام إبليس مسموم
[کنز العمال فی سنن الاقوال رقم:13068]
نظر شیطان کے زہریلے تیروں میں سے ایک تیر ہے۔
جس طرح ایک تیر کو زہر میں بھگو کر مارا جائے۔ اب بتاو کتنا خطرناک ہوگا وہ تیر۔ ویسے تیر ماریں آدمی کی ٹانگ پہ لگے، بازو پہ لگے،سر پہ لگے،آدمی قتل نہ ہو تو بچ جاتاہے لیکن تیر اگر زہر میں بھگو کر مارا گیا ہو تو اگر وہ آدمی کے ساتھ ٹچ ہو کر بھی گزرجائےتو آدمی بچ نہیں سکتا کیونکہ وہ آدمی اب تیر کی وجہ سے نہیں، بلکہ زہر کی وجہ سے مرے گا۔
تو اللہ رب العزت نے فرمایا:
إن النظر سهم من سهام إبليس مسموم،
کہ نظر شیطان کے زہریلے تیروں میں سے ایک ہے۔” من تركها مخافتي“ جو اس زہریلے تیر کو روک لیتاہے۔ مثلاً سامنےنامحرم عورت آئے اور یہ بندہ نہ دیکھے تو عجیب جملہ ارشاد فرمایا کہ جو بندہ اس وجہ سے نہ دیکھے اور ڈرجائے کہ میرا اللہ مجھ سے ناراض ہو جائے گا۔ اور آدمی کے ذہن میں یہ آجائے، تو بچنا آسان ہے۔اور جب تک یہ ذہن مین نہ بیٹھے، تو نگا ہ کو بدلنا بڑا مشکل ہے۔
بدنظری سے کیسے بچیں؟
اس وجہ سے ہمارے شیخ شاہ حکیم اختر دامت برکاتہم العالیہ کا ایک شعر ہے،حضرت فر ماتے ہیں جب سامنے نامحرم عورت یا لڑکی آجائے، آپ میر ا یہ شعر پڑھ لیں، اللہ اس کی برکت سے بدنظری سے محفوظ فر ما لیں گے۔
شعر:
نہ دیکھیں گے نہ دیکھیں گے انہیں ہر گز نہ دیکھیں گے

جنہیں دیکھنے سے رب میرا ناراض ہو تا ہے

یہ مشکل تو نہیں ہے، جب نا محرم عورت سامنے آئے، آپ فو را یہ شعر پڑھیں، اللہ پاک آپ کو محفوظ فرما لیں گے۔
نیت کی وجہ سے منہیات سے بچاجاسکتاہے:
بعض چیزیں ایسی ہیں آدمی ان کا تصور کرے، اس تصور کی وجہ سے انسان گناہ سے بچ جاتا ہے، آدمی اپنی دل میں تصور کرے، اللہ پاک بعض چیزوں سے بندہ کو محفوظ فر ما تے ہیں۔ اس پر دو تین باتیں میں بطور مثال کے عرض کرتا ہوں۔
مثال نمبر 1۔ حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک شخص آیا، عرض کیا، حضور! میں کلمہ پڑھتا ہوں، لیکن میرے اندر ایک عیب ہے، جو شاید کلمہ پڑھنے کے باوجود بھی ختم نہ ہو سکے۔ وہ عیب کون سا ہے؟ انہوں نے فرمایا یارسول اللہ! عورتوں کے ساتھ بدکاری کرنے کا میرے اندر عیب ہے اوریہ بدکاری والا عیب شاید میں کلمہ پڑھ کر بھی نہ چھوڑوں۔ فرمایا کلمہ پڑھ لو، بدکاری کا مسئلہ تو بعد کاہے، انہوں نے کلمہ پڑھا اور چل دیا۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے واپس بلایاا ور بلاکر پوچھا کہ تم بتاؤا،گر کوئی آدمی تمھاری بہن کے ساتھ غلط کام کرے ،تم برداشت کرلوگے؟ اس نے کہا حضور میں تو زندہ نہیں چھوڑوں گا۔ فرمایا :تم کسی کے ساتھ برا کام کروگے تو وہ بھی تو کسی کی ماں کسی کی بہن اور کسی کی بیٹی ہو گی، وہ کیسے برداشت کرے گا؟
یہ جملہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا فرماناتھا اور یہ تصور اس کو سمجھا ناتھا۔ اس نے کہا یارسول اللہ! جس طرح زنا کی محبت میرے دل میں تھی، اس سے کہیں زیادہ اللہ رب العزت نے زناکی نفرت میرے دل میں ڈال دی ہے۔ اب دیکھو تصور ہی کیا اور تصور سے آدمی کا ذوق ہی بدل گیا ہے۔
آدمی جب تصور کرلیتاہےکہ اس سے یہ نقصان ہے یہ نقصان ہے، تو اللہ بندہ کی حفاظت فرماتے ہیں۔
مثال نمبر2۔ حدیث مبارک میں ہے:
ما تثاءب النبي صلى الله عليه وسلم قط
ما احتلم نبي قط
[الخصائص الکبری ]
نبی سے دو معاملے اللہ کی طرف سے عجیب ہیں۔
1:نبی کو کبھی جمائی نہیں آتی جیسے ہم کہتے ہیں باسی،باسیا ں،عام آدمی سستی کی وجہ سے جمائیاں لیتاہے، لیکن نبی کو جمائی نہیں آتی، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ اس سے محفوظ رکھتے ہیں۔
2: اسی طرح نبی کو حالت نیند میں کبھی احتلام نہیں ہو تا۔ میں بات سنانا چاہتاہوں کہ نبی کا خاصہ ہے کہ نبی کو جمائی نہیں آتی۔
جمائی روکنے کاانوکھا طریقہ:
اس پر ہمارے بعض مشائخ نے لکھا ہے اگر آدمی کو جمائی آجائے اور وہ اسی وقت یہ تصور کرلے کہ نبی کو جمائی نہیں آتی، فو را وہ بندہو گی، جمائی ختم ہو گی۔
اور دو چار دفعہ یہ معمول بنالے، آئندہ اللہ جمائی سے محفوظ فر مالےگا،اس کوجمائی کبھی نہیں آئیگی، تصور کرنے سے کیسے بدلتا ہے،میں صرف یہ سمجھا رہاتھا کہ رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ شیطان کے زہر آلودہ تیروں میں سے تیر ہے اور جو بندہ میرے خوف کی وجہ سے اس گناہ کو چھوڑدےگا۔
أبدلته إيمانا يجد حلاوته في قلبه
(المعجم الکبیر،رقم الحدیث:10362،عبداللہ بن مسعود)
میں اس کے بدلے میں اس کو ایسا ایمان عطا فرماؤں گا کہ جس ایمان کی حلاوت بندہ خود اپنے دل میں محسوس کرے گا۔
یہ سمجھائی نہیں جاتی:
بعض اوقات بندے کو لذت آتی ہے، تو بندہ خود محسوس کرتاہے اور لذت ایسی ہوتی ہے کہ بندہ زبان سے بتا نہیں سکتا۔ جیسےامام قرآن پڑھے، مقتدی اسے سنے اور لذت محسوس کرے،اب بتاؤ مقتدی وہ لذت کسی کو بتا سکتا ہے؟ یہ تو کہتا ہے کہ مجھے بہت مزہ آیا ہے، لیکن یہ سمجھا نا اس کے بس کی بات نہیں۔ اللہ ایسی ایمانی لذت عطافرماتے ہیں کہ بندہ اسے دل میں محسوس کرتاہے۔
ابن قیم رحمہ اللہ نے اس حوالے سے بڑا ہی عجیب نکتہ لکھاہے، کہ سامنے ایک نامحرم عورت آئی، آپ نے نظر ہٹا لی۔ تو آپ کی آنکھ لذت محسوس کرے گی یا دل محسوس کرے گا؟ [آنکھ۔سامعین]
حدیث میں ہے اللہ اس کو ایسا ایمان عطا فرمائیں گے کہ دل لذت محسوس کرے گا۔ ابن قیم فرماتے ہیں قربانی آنکھ نے دی ہے، دل کیوں لذت محسوس کرتاہے؟ اس کا بڑا زبردست جواب دیا ہے اور فرمایا ہے کہ جب نامحرم عورت سامنے آتی ہے، تو دل کرتاہے کہ دیکھوں، لیکن جب آنکھ ہٹالی جاتی ہے تو چونکہ تکلیف دل کو ہوتی ہے اس لیے ایمانی لذت بھی دل ہی کو محسوس ہوگی۔ تو چونکہ مشقت دل نے اٹھائی ہے تو اللہ اس کی لذت بھی دل کوہی عطا فرمائیں گے۔
اصل قربانی دل نے دی ہے یا آنکھ نے؟ [دل نے۔ سامعین]دل کر رہاہے کہ دیکھوں لیکن آنکھ بند ہوگئی،دکھ دل کو ہوگا۔ تواصل لذت دل کو محسوس ہوتی ہے۔ آنکھ جو چیزیں دیکھتی ہے اسے بصارت کہتے ہیں، اور جس کو دل محسوس کرتاہے اسے بصیرت کہتے ہیں۔ ایک بصیرت ہے ایک بصارت،بصیرت دل کی روشنی کا نام ہے اور بصارت آنکھ کی روشنی کا نام ہے۔ دعا فرمائیں کہ اللہ ہمیں بصارت بھی عطا فرمائے اور بصیرت بھی عطا فرمائے۔ اس پر ایک چھوٹی سی بات کہتا ہوں۔
روحانی و جسمانی معالج:
دنیا میں ایک ڈاکٹر اور ایک حکیم ہوتاہے،اور دنیا میں ایک نبی اور رسول ہوتاہے۔ نبی اور رسول کے ذمہ بصارت والا کام نہیں ہوتا اس لیے انبیاء کے جو وارث ہیں علماء، مشائخ اور پیر و مرشد، ان کے ذمہ بصیرت والا کام ہے۔ یہ آنکھ کا علاج نہیں کریں گے یہ دل کا علاج کریں گے اور یاد رکھیں! مرشد کا علاج ڈاکٹر کے علاج سے بہت مشکل ہے۔ کیوں؟کیونکہ ڈاکٹر جس آنکھ کو دیکھتا ہے وہ نظر آتی ہے اور مرشد جس دل کو دیکھتا ہے، وہ نظر نہیں آتا، تو نظر آنے والی چیز کا علاج آسان ہے اور نظر نہ آنے والی چیز کا علاج مشکل ہے۔
اس لیےپیر ومرشد کا کام مشکل ہوتاہے لیکن ڈاکٹر سے شفا جلدی ملتی ہے اور پیر سے شفاء جلدی نہیں ملتی۔ کیونکہ لوگ ڈاکٹر سے علاج کراتے ہیں اور ڈاکٹر جس چیز سےمنع کرتے ہیں، اس کی پابندی بھی کرتے ہیں تو آنکھ ٹھیک ہوجاتی ہے اور جو علاج پیر بتاتا ہے، اس کی پابندی نہیں کی جاتی۔ جب فائدہ نہیں ہوتا تو پھر کہتے ہیں کہ ہمارا پیر ناقص ہے، ہمارا پیر کمزور ہے۔
اب بتائیے کہ اپنے ابا جی کو ہسپتال میں ڈاکٹر کے پاس لے کر جائے اور اباجی کی آنکھ میں موتیا اتر آئے، ڈاکٹر آپریشن کرے اور بعد میں سبز پٹی اور آنکھ پر باندھ دے اور کالا چشمہ بھی دے دے اور کہے کہ دیکھو! تم نے سبز پٹی بھی باندھنی ہے اور کالا چشمہ بھی لگانا ہے دھوپ سے بچنے کے لیے، تو ڈاکٹر کی بات مانتے ہیں یا نہیں؟اور اگر ڈاکٹر کے پاس جائے اور سبز پٹی بھی نہ باندھے اور کالا چشمہ بھی نہ لگایا تو بتاؤ موتیا ٹھیک ہوگا یا اور اتر آئے گا۔ اب ڈاکٹر پر اعتماد کیا تو ابو جی کی آنکھ ٹھیک ہوگئی اور شیخ کے پاس گئے اور شیخ نے علاج بتایا کہ نامحرم عورت کو نہیں دیکھنا اور اس کے باوجود نامحرم عورت کو دیکھ رہے ہیں، بتاؤ دل کا علاج کیسے ہوگا؟ڈاکٹر کو ظالم کوئی نہیں کہتا۔
ڈاکٹر نے پابندیاں لگائیں کہ حلال کو بھی نہ دیکھو حرام کو بھی نہ دیکھو اور شیخ فرماتے ہیں کہ حلال کو دیکھو حرام کو نہ دیکھو،اب بتاؤ کہ پابندیاں علماء کی زیادہ ہیں یا ڈاکٹر کی؟ [ڈاکٹر کی۔ سامعین]اب اس کی بات نہیں مانتے تو یہ آنکھ ٹھیک نہیں ہوگی مرشد کی بات نہیں مانوگے تو دل ٹھیک نہیں ہوگا۔
متقی بننے کا نسخہ:
ہمارے شیخ بڑی پیاری بات فرماتےہیں کہ اللہ رب العزت نے فرمایا
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ وَكُونُوا مَعَ الصَّادِقِينَ
التوبہ:119 
اے ایمان والو!متقی بنو، گناہوں سے بچو،اور آگے فرمایا: وَكُونُوا مَعَ الصَّادِقِينَ، اگر متقی بننا ہے تو صادقین کےساتھ رہو اورکتنا رہو؟ مفتی بغداد علامہ آلوسی رحمہ اللہ اپنی تفسیر روح المعانی میں فرماتے ہیں:
خالطوهم لتكونوا مثلهم
[روح المعانی: ج۱۱ ص۵۶]
کہ اتنا ان کےساتھ رہو کہ آپ ان کی طرح بن جاؤ،آپ مریض کو ڈاکٹر کے پاس لے جاتے ہو، ڈاکٹر کہتاہے: اس کو ہسپتال میں داخل کرو،لے کے آتے ہو یا وہیں داخل کراتے ہو ؟ [داخل کراتے ہیں۔ سامعین]اور اگر شیخ مرید کو کہے کہ دو دن یہی ٹھہرجاؤ تو کہتاہے کہ بہت کام ہے،میں نے تو بازار جانا ہے،کالج جانا ہے، میں تو فارغ نہیں ہوں۔ آپ مولوی لوگ فارغ ہو اور ڈاکٹر کو کہتے ہیں: ڈاکٹر صاحب! اب فوراً علاج شروع کریں، ہم ابھی انتظام کرتے ہیں۔ اب بتاؤ! ڈاکٹر نے پابندی لگائی، روک لیا، سب کے لیے تیار ہیں اور اگر یہاں شیخ نے یہ بات کہی تو کہتے ہیں کہ شیخ سخت دل ہیں، بہت سخت ہیں، بہت سخت ہیں، ایسے پیر سے مرید نہیں ہونا چاہیے۔ اللہ ہمیں بات سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے۔
آپ کی خدمت میں یہ بات عرض کرنا چاہتا ہوں کہ دنیا میں جتنی چیزیں ہیں وہ انسان کے استعمال کے لیے ہیں اور جو چیزیں استعمال کی نہیں ہیں وہ اللہ کریم نے ہمیں بتا دی ہیں کہ ان سے بچو۔ دنیا میں آدمی کوئی چیز تب استعمال کرتا ہے کہ اس میں نفع نظر آئے، اگر نفع نہ ہو تو عقلمند آدمی کبھی اس کو استعمال نہیں کرتا۔
دنیا کی چیزیں انسان کی طبیعات مرغوبہ ہیں، تب ہی ان کو استعمال کرتاہے۔ طبیعت چاہتی ہے کہ میں لسی پی لوں،طبیعت چاہتی ہے کہ دودھ پی لوں،طبیعت چاہتی ہے کہ چائے پی لوں تب وہ پیتا ہے۔ اللہ پاک کا نظام دیکھیں! اللہ یہ نہیں فرماتا کہ تم اپنے مال سے محبت نہ کرو،تم اپنے گھر والوں سے پیار نہ کرو،تم اپنی اولاد سے محبت نہ کرو بلکہ عجیب بات ہے کہ آپ اگر قرآن کریم کی تلاوت کریں تو اللہ نے مال کو خیر فرمایا ہے:
وَإِنَّهُ لِحُبِّ الْخَيْرِ لَشَدِيدٌ
العادیات:8 
انسان اس خیر یعنی مال کے ساتھ محبت میں سخت ہے۔ دوسری جگہ فرمایا:
إِنْ تَرَكَ خَيْرًا الْوَصِيَّةُ
البقرہ:180 
اگر یہ مال چھوڑ کر گیا ہے تو پھر اس کے لیے ضروری ہے کہ وصیت کرے کہ فلاں کو اتنا دینا، فلاں کو اتنا دینا۔ تو اللہ نے مال کو خیر فرمایا ہے اگر حلال طریقے سے کمایا جائے اور حلال جگہ میں استعمال کیا جائے تو مال خیر ہی خیر ہے۔ یہ کوئی شر کی بات نہیں ہے، غلط استعمال ہوتو شر ہے، صحیح استعمال ہو تو خیر ہے۔ آپ حضرات اس مسجد میں بیٹھے ہیں یہ مسجد خوبصورت ہوتو مزہ آتا ہے کہ نہیں؟قالین عمدہ ہو تو لطف آتاہے کہ نہیں؟یہ مال سے آئے ہیں تو بتاؤ یہ مال خیر ہے یا شر؟ [خیر۔ سامعین]ہم کہتے ہیں کہ ان کے لیے دعا کرو جن کے مال کی برکت سے ہم سب نفع اٹھاتے ہیں۔
اس کھٹ کھٹ سے مدرسے چلتے ہیں:
میں فیصل آباد ایک جگہ گیا۔ وہاں مولانا محمد نواز صاحب ہمارے اتحاد کے ذمہ دار ہیں، میں ان کے محلے میں گیا تو وہاں کھڈیاں بہت لگی تھیں کپڑا بننے والی،کھٹ کھٹ کھٹ چل رہی تھیں تو میں نے ان سے مزاحاً کہا کہ مولانا اس کھٹ کھٹ نے تم کو تباہ کردیا ہے۔ فرمانے لگے: اس کھٹ کھٹ سے فیصل آباد کے مدارس چلتے ہیں۔
یہ محبت کا تقاضا ہے:
تو میں آپ حضرات کو بتارہاتھا کہ اولاد سے محبت کرنا منع نہیں ہے۔ حدیث مبارک میں ہے کہ ایک اعرابی اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے۔ نبیﷺ کی خدمت میں آپ کے نواسے تھے حضرت حسن رضی اللہ عنہ تھے یا حسین رضی اللہ عنہما،حضورﷺنے ان کا بوسہ لیا۔ اس اعرابی نے کہا: میرے تو دس بیٹے ہیں میں نے کبھی ان کو نہیں چوما،نبی علیہ السلام نے فرمایا :تمھارےدل میں اگر خدا نے سختی رکھی ہے تو میں کیا کرسکتاہوں؟!اس سے معلوم ہوا کہ اولاد کو چوم لینا محبت کا تقاضا ہے، شریعت نے منع تو نہیں کیا۔ اللہ نے اولاد کے ساتھ محبت کرنے کا حکم فرمایا ہے منع نہیں کیا۔ اولاد سے محبت کرے یہ جائز ہے، مال سے محبت کرے یہ جائز ہے، بیوی سے محبت کرے یہ جائز ہے،خاندان سے محبت کرے یہ جائز ہے لیکن اللہ کیا فرماتے ہیں:
وَالَّذِينَ آمَنُوا أَشَدُّ حُبًّا لِلَّهِ
البقرہ:165
مال سے محبت ہونی چاہیے لیکن مجھ سے کم ہونی چاہیے،بیوی سے محبت ہو،لیکن اللہ سے کم ہو،بیٹے سے محبت ہو لیکن اللہ سے کم ہو،ایک طرف بیٹے کا حکم آجائے اور دوسری طرف اللہ کا حکم ہو تو اللہ کی محبت غالب آجائے تو یہ مال و خاندان کی محبت نقصان دہ نہیں ہے،پھر اس محبت میں کوئی حرج نہیں ہے۔ مال ہے تو بہت اچھی بات ہے ایک طرف مال ہے ایک طرف حکم خداوندی آگیا تو حکم خداوندی کو غالب کردو،پھر کوئی حرج نہیں۔
قرآن میں جب مال کی باری آئی تو اللہ نے فرمایا: وَإِنَّهُ لِحُبِّ الْخَيْرِ لَشَدِيدٌ،اور جب اپنی محبت کی باری آئی تو فرمایا أَشَدُّ حُبًّا لِلَّهِ،تو مال کی محبت کے بارے میں ”شدید“ اور اپنی محبت کے بارے میں ”اشد“ فرمایا۔ ”شدید“ کا معنیٰ ہے کہ سخت اور ”اشد“ کا معنیٰ سب سے زیادہ سخت ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جن سےتمہارادل چاہے،محبت کرو، شریعت منع نہیں کرتی، لیکن سب سے زیادہ محبت اللہ سے ہو،رسول اکرمﷺ نے اللہ رب العزت سے دعا مانگی ہے اور بڑی عجیب دعا مانگی ہے فرمایا
اللهم اجعل حبك أحب إلى من نفسى وأهلى والماء البارد،
[جامع الترمذی رقم3490]
اے اللہ! جتنا میں اپنی جان سے پیار کرتاہوں میں تجھ سے دعا مانگتا ہوں اپنی ذات کی محبت میرے دل میں اس سے بھی زیادہ ڈال دےاور جتنا مجھے گھر والوں سے پیار ہے اس سے زیادہ مجھے اپنی محبت عطا فرما۔
آگے ایک عجیب ارشاد فرمایا،یہ ابھی سمجھ میں نہیں آئے گا دو مہینے بعد زیادہ سمجھ میں آئے گا جب گرمیاں زوروں پر ہوں گی،فرمایا: والماء البارد،جس طرح گرمی میں ٹھنڈے پانی سے پیار ہوتا ہے اس سے زیادہ مجھےاپنی محبت عطا فرما۔
بارد اور مبرد میں فرق:
ایک ہوتا ہے بارد اور ایک ہوتاہے مبرد۔ بارد وہ پانی جو خود بخود ٹھنڈا ہو، اسے فریج کے ذریعے یا برف ڈال کر ٹھنڈا نہ کیا گیا ہو اور مبرد وہ پانی ہے جس کو فریج میں یا برف ڈال کر ٹھنڈا کیا گیا ہو۔ نبی علیہ السلام کو ماءبارد یعنی وہ پانی جو طبعاً ٹھنڈا ہو بہت مرغوب تھا۔ فطری ٹھنڈا پانی اللہ کے نبی کو بہت پسند تھا۔ جس کو ٹھنڈا کیا گیا ہو وہ اس حدیث میں شامل نہیں۔ از خود ٹھنڈا صحت کے لیے مفید ہوتاہے اور جس ٹھنڈا کیا گیا ہو وہ بسا اوقات صحت کے لیے نقصان دہ ہوتاہے نبی علیہ السلام ایسی چیزیں پسند فرماتے جو صحت کے لیے مفید ہوں۔
خیر میں بات سمجھا رہا تھا اصل چیز اللہ کی ذات ہے،دنیا میں جتنی چیزیں ہیں وہ ختم ہونے والی ہیں
مَا عِنْدَكُمْ يَنْفَدُ وَمَا عِنْدَ اللَّهِ بَاقٍ،
النحل:96
جو تمہارے پاس اللہ نے نعمتیں دی ہیں یہ مٹ جائیں گی اور جو اللہ کے پاس ہیں وہ باقی ہیں۔ انسان کوشش کرے، اللہ کے لیے اپنا مال خرچ کرے، اللہ کی ذات کے لیے وقت لگالے اور آدمی یہ دعا کرے کہ میں نے جو پچھلے گناہ کیے ہیں اے اللہ !اپنے فضل سے معاف فرمادے اور اے اللہ ہم فیصلہ کرتے ہیں کہ آئندہ گناہ کر کے تیری ذات کو کبھی بھی ناراض نہیں کریں گے۔ نیت کرنا،ارادہ کرنا اور گناہوں سے بچنا بھی انسان کے اختیار میں ہے۔ اگر گناہوں سے بچنا انسان کے اختیار میں نہ ہوتا تو اللہ گناہوں سے بچنے کا حکم ہی نہ دیتے۔ اللہ اس کام کا کبھی بندے کو حکم نہیں دیتے جو بندے کے اختیار میں نہ ہو۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا:
میں نے جو حدیث مبارک آپ کے سامنے پڑھی ہے، اس کا ترجمہ سن لیں۔ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا مانگی ہے، غور کریں: اللهم اني أسألك حبك،اے اللہ! میں تجھ سے تیری محبت مانگتاہوں وحب من يحبك،اس کی محبت تجھ سے مانگتا ہوں جو تجھ سے محبت کرتا ہے۔ والعمل الذى يبلغنى حبكاور اس عمل کی محبت مانگتا ہوں جوتیری محبت تک پہنچا دے۔ تو نبی علیہ السلام نے تین دعائیں مانگی ہیں
1:اے اللہ !میں تیر ی محبت تجھ سے مانگتاہوں۔
2:اے اللہ میں تیرے اولیاء کی محبت تجھ سے مانگتاہوں۔
3:اے اللہ ان اعمال کی محبت مانگتاہوں جو مجھے تیری محبت تک پہنچائیں۔
حضرت شیخ حکیم محمد اختر دامت برکاتہم فرماتے ہیں کہ نبی علیہ السلام نے یہ دعائیں تو مانگی ہیں لیکن طرز بڑا عجیب اختیار کیا ہے۔ 1:اے اللہ میں تجھ سے تیری محبت مانگتاہوں۔ 2:اے اللہ تجھ سے تیری اولیاء کی محبت مانگتاہوں۔ 3:اے اللہ ان اعمال کی محبت مانگتاہوں جو مجھ کو تیری محبت تک پہنچا دیں۔
اس سے پتہ چلا کہ اصل چیز اللہ کی محبت ہے اور اللہ کی محبت تک پہنچانے والی چیز اعمال صالحہ ہیں۔ بندہ نیک عمل کرے تو اللہ کے قریب ہوجاتاہے اور برے اعمال کرے تو اللہ سے دور ہوجاتاہےاور اس کی مثال بڑی عجیب فرمائی کہ مومن کی مثال ایسی ہے کہ جیسے مچھلی پانی میں خوش ہوتی ہے تومومن اللہ کی یاد میں خوش ہوتاہے۔
جنت کی ضمانت:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو گناہوں کا بطور خاص تذکرہ فرمایا کہ جو ان سے بچ جائے میں اس کو جنت کی ضمانت دیتا ہوں۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے بڑھ کر ضامن اور کون ہوسکتاہے؟فرمایا:
مَنْ يَضْمَنْ لِي مَا بَيْنَ لَحْيَيْهِ وَمَا بَيْنَ رِجْلَيْهِ أَضْمَنْ لَهُ الْجَنَّةَ،
[بخاری بَاب حِفْظِ اللِّسَانِ]
جو شخص مجھے دو چیزوں کی ضمانت دے دے، ایک زبان کی جو دو جبڑوں کے درمیان ہے اور دوسرا شرمگاہ کی جو دو رانوں کے درمیان ہے تو میں محمد اسے جنت کی ضمانت دیتاہوں۔
اللہ ہماری زبان کی بھی حفاظت فرمائے، اللہ ہماری شرمگاہ کی بھی حفاظت فرمائے ان دو باتوں کی حفاظت مانگنا پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کا خاص طریقہ ہے اور ہمیں یہ مانگتے رہنا چاہیے۔
خلاصہ کلام:
خیر میں بتا رہا تھا کہ اصل چیز کیا ہے؟اللہ کی محبت۔ نیک اعمال سے بندہ اللہ کے قریب ہوجاتاہے اور برے اعمال سے اللہ سے دور ہوجاتاہے۔ درمیان میں جملہ ارشاد فرمایا اے اللہ مجھے اپنے بندوں کی محبت عطا فرما۔ حضرت حکیم صاحب فرماتے ہیں: یہ جملہ درمیان میں حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے کیوں فرمایا؟اصل مطلوب اللہ کی محبت ہے۔ یہ اعمال صالحہ سے ملتی ہے اور اعمال صالح ملتے ہیں شیخ کی صحبت سے۔
خانقاہوں کا مقصد:
حضرت فرما تے ہیں کہ لوگ خانقاہیں بناتے ہیں کہ لوگ اللہ سے محبت کرے،اللہ سے تو لوگ ویسے بھی محبت کرتے ہیں۔ خانقاہوں کا مقصد یہ ہے کہ لوگ اللہ سے زیادہ محبت کریں، محبت تو ہر مومن کرتاہے۔ بیعت کا مقصد ہوتاہے کہ اللہ سے زیادہ محبت ہو،اگر بیعت کرنے کے بعد اعمال صالحہ میں زیادتی ہو اور برے کاموں سے دوری ہو تو سمجھو ہمیں بیعت کا نفع ہوا ہے۔
اگر فرق نہ پڑے تو آدمی کو سوچنا چاہیے کہ شاید مجھے نفع نہیں ہوا،شیخ کو بدل لینا چاہیے۔ اللہ مجھے اور آپ سب کو اپنی محبت خاصہ اور عامہ عطا فرمائےاوراللہ ہمارے قلوب میں اولیاء اللہ کی عظمت بھی ڈال دے۔ آمین