ولی اللہ بننے کا نسخہ

User Rating: 5 / 5

Star ActiveStar ActiveStar ActiveStar ActiveStar Active
 
ولی اللہ بننے کا نسخہ
خانقاہِ اشرفیہ اختریہ
مرکز اہل السنۃ و الجماعۃ سرگودھا
4 - اپریل2013ء
ولی اللہ بننے کا نسخہ
الحمدللہ نحمدہ ونستعینہ ونستغفرہ ونؤمن بہ ونتوکل علیہ ونعوذ باللہ من شرور انفسنا ومن سئیات اعمالنا من یہدہ اللہ فلا مضل لہ ومن یضلل فلاہادی لہ ونشہد ان لا الہ الااللہ وحدہ لاشریک لہ ونشہد ان سیدنا ومولانا محمدا عبدہ ورسولہ،امابعد فَاَعُوْذُ بِاللّهِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِ بِسْمِ اللّهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ: قُلْ يَآ عِبَادِيَ الَّذِيْنَ أَسْرَفُوْا عَلٰى أَنْفُسِهِمْ لَا تَقْنَطُوْا مِنْ رَّحْمَةِ اللّهِ إِنَّ اللّهَ يَغْفِرُ الذُّنُوْبَ جَمِيْعًا إِنَّهُ هُوَ الْغَفُوْرُ الرَّحِيْمُ
الزمر:53 
اَللّٰهُمَّ صَلِّ عَلٰى مُحَمَّدٍ وَعَلٰى آلِ مُحَمَّدٍ كَمَا صَلَّيْتَ عَلٰى إِبْرَاهِيْمَ وَعَلٰى آلِ إِبْرَاهِيْمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ۔ اَللّٰهُمَّ بَارِكْ عَلٰى مُحَمَّدٍ وَعَلٰى آلِ مُحَمَّدٍ كَمَا بَارَكْتَ عَلٰى إِبْرَاهِيْمَ وَعَلٰى آلِ إِبْرَاهِيْمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ۔
مقصدِ تخلیق:
اللہ رب العزت نے ہمیں دنیا میں بھیجا ہے امتحان کے لیے کہ کون اللہ کا بندہ بن کر رہتاہے اور کون اللہ کا بندہ بن کے نہیں رہتا۔ اللہ رب العزت دنیا کے بھی خالق ہیں،اللہ رب العزت جنت اور جہنم کے بھی خالق ہیں، دنیا میں اگر کوئی انسان اپنے ہاتھ سے کوئی چیز بنائے تو اس چیز کو برباد اور ضائع کرنے سے خوش نہیں ہوتا۔ اللہ رب العزت جس انسان کو اپنے دست قدرت سے بناتے ہیں اس کو مٹا کر اللہ بھی خوش نہیں ہوتے۔ لیکن بسا اوقات ایک مکان کو بنایا جاتاہے پھر اس مکان کو گرایا جاتاہے، اس مکان کو گرانے کا مقصد اس کو ختم کرنا نہیں بلکہ اس سے بہتر بنانا ہوتاہے۔ اللہ رب العزت انسان کو بناتے ہیں پھر انسان کو فنا کرتے ہیں، اس کا مقصد انسان کو ختم کرنا نہیں بلکہ بہتر انسان بنانا ہے۔
جسمِ انسانی؛ قدرت کا شاہکار
اللہ رب العزت نےجو انسان کو وجود دیا ہے اپنی قدرت کاملہ سے دیا ہے، کچھ چیزیں خالق نے انسان کے وجود میں ایسی رکھی ہیں کہ ان جیسی چیزیں دنیا پیش کرنے سے عاجز ہے۔ اللہ رب العزت کی قدرت کا شاہکار انسان کا وجود ہے۔ اسے حکیم الاسلام حضرت مولانا قاری محمد طیب صاحب رحمہ اللہ یوں فرماتے ہیں کہ ایک عالم اصغر ہے اور ایک عالم اکبر ہے، ایک چھوٹا جہاں ہے اور ایک بڑا جہاں۔ بڑا جہاں جو سامنے نظر آتاہے اس میں زمین ہے، زمین میں نہریں ہیں، باغات ہیں اور مختلف چیزیں ہیں اور ایک جہاں اصغر ہے یعنی چھوٹا جہاں، وہ خود انسان کا وجود ہے۔ دنیا میں جتنی چیزیں آپ دیکھتے ہیں ان سب کا اشارہ انسان کے وجود کے اندر موجود ہے۔
آپ کو تعجب ہوگا کہ ایک ہی وقت میں زمین پر کسی علاقے کا موسم گرم ہے اور کسی علاقے کا موسم ٹھنڈا ہے، کہیں موسم گرما ہے اور کہیں موسم سرما ہے۔ ایک ہی وقت میں ایک ملک میں اگر ٹھنڈ ہے تو دوسرے ملک میں گرمی ہے۔ آپ انسان کے وجود کو دیکھ لیں کہ ایک حصہ گرم ہوتاہے اور ایک حصہ ٹھنڈا ہوتاہے۔ یہ سارے نقشے اللہ نے انسان کے وجود کے اندر رکھے ہیں۔ زمین میں کتنے دریا ہیں، پھر دریاؤں سے نہریں،نہروں سے نالیاں نکلتی ہوئی نظر آتی ہیں۔
آپ انسان کے جسم کے اندر گیس دیکھیں، رگوں میں دوڑنے والا خون دیکھیں، یہ سارا نظام خود انسان کے وجود میں آپ کو نظر آئے گا۔ اسی طرح زمین کے اندر کئی قسم کی جگہیں ہیں، بعض جگہوں کو آپ دیکھیں گے وہاں سبزہ اُگ ہی نہیں سکتا اور بعض جگہیں ایسی ہیں کہ وہاں سبزہ اگتاہے بڑھتا نہیں اور بعض جگہیں ایسی ہیں کہ سبزہ اگتا ہے تو کاٹنا پڑتا ہے۔
آپ انسان کے جسم کو دیکھیں بعض جگہیں ایسی ہیں جہاں بال نہیں اور بعض جگہیں ایسی ہیں جہاں بال ہیں لیکن بڑھتے نہیں اور بعض جگہیں ایسی ہیں جہاں بالوں کو کاٹنا پڑتاہے۔ تو جو جو نقشے زمین کے اندر ہیں وہ سارے نقشے اللہ نے انسان کے وجود کے اندر رکھے ہیں۔ کوئی کمی اللہ نے انسان کے وجود میں چھوڑی نہیں ہے۔
انسان سب سے خوبصورت مخلوق:
بعض احادیث مبارکہ میں ہے لیکن وہ احادیث چونکہ متشابہات میں سے ہیں اس کو بندہ سمجھ نہیں سکتا، اس لیے عوام کے مجمع میں ان احادیث کو بیان بھی نہیں کیا جاسکتا کہ اللہ رب العزت نے انسان کو جو شکل عطا فرمائی ہے وہ شکل اللہ نے کیسے عطا فرمائی ہے۔ بس خلاصہ یہ ذہن میں رکھ لیں کہ اللہ رب العزت فرماتے ہیں
لَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنْسَانَ فِي أَحْسَنِ تَقْوِيمٍ
سورۃ التین:4 
دنیا میں جتنی شکلیں موجود ہیں، ان میں سب سے خوب صورت شکل اللہ نے انسان کو عطا فرمائی ہے،سب سے احسن شکل اللہ نے انسان کو عطا فرمائی ہے۔
وزیر اور اس کی بیگم کا واقعہ:
اس پر مفتی اعظم پاکستان مفتی محمد شفیع عثمانی رحمہ اللہ نے معارف القرآن میں ایک واقعہ نقل کیا ہے جو بڑا معروف ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ چاندنی رات تھی اور بادشاہ کا وزیر اپنی بیگم کے ساتھ بیٹھا ہوا تھا، وزیر نے اپنی بیگم کو کہا: انت طالق ثلاثا ان لم تکونی احسن من القمر، اگر تم چاند سے زیادہ خوبصورت نہیں تو تمہیں تین طلاقیں ہیں۔ یہ لفظ کہہ دیا۔
تین طلاقیں تین شمار ہوتی ہیں:
آدمی جب یہ لفظ کہتاہے تو پریشان نہیں ہوتالیکن تھوڑی دیر کے بعد پریشانی شروع ہوجاتی ہے۔ جب پریشانی ہوتی ہے تو اس کے ایسے حیلے اختیار کرتاہے جو حیلے بنتے بھی نہیں۔ ہمارے ہاں عام طور پر لفظ کہاجاتاہے کہ غصہ میں آکر طلاق دی تھی۔ غصہ میں آدمی اگر کسی کو گولی ماردے اور عدالت میں جج کو کہہ دے کہ اس کو معاف کردو، اس نے غصہ میں آکر گولی ماری تھی!اگر ایسا ہوتا تو دنیا میں کسی کو سزاء موت نہ ہو،نہ دیت ہو، نہ قصاص ہو۔
آپ کسی پر غصہ میں آکر گاڑی چڑھا دیں اور جب پرچہ کٹے پھر کہیں: جی میں نے غصہ میں آکر گاڑی چلا دی تھی،طیش میں آگیا تھا اور میں قابو میں نہیں رہا، تو جج معاف تھوڑی ہی کرتاہے! لیکن طلاق کا معاملہ اتنا خطرناک ہے کہ الامان و الحفیظ!! لوگ تین طلاق دے دیں گے، جو اختیار شریعت نے دیا تھا وہ ختم کردیں گے، بعد میں کہیں گے کہ” میں غصے میں آگیا تھا، غصہ میں تین طلاقیں دی تھیں اس لیے ایک ہے“
اگر یہی بات ہے توغصے میں اگر تین طلاقیں دی ہیں تو ایسی طلاق شمار ہی نہ کرو، یہ تو نہیں کہ ان تین کو ایک سمجھ لو اور دو کو ختم کر لو،کتنی حماقت اور بیوقوفی کی بات ہے،اور پھر ہمارے ہاں تماشہ یہ ہے کہ بیوی کو نکاح سے نکالنے کے لیے تیار نہیں ہوتے اور خود کو ایمان سے نکال لیتے ہیں۔ مذہب اپنا بدل دیں گے نکاح ختم کرنے کے لیے تیار نہیں ہوں گے۔
غیر مقلدیت کا بائیکاٹ کریں:
بھائی! ایمان سب سے قیمتی چیز ہے۔ اگر کسی نے یہ جرم کرلیا، اگر ایسا کوئی کیس پیش آجائے کہ خاندان میں اگر شوہر بیوی کو تین طلاقیں دے دے تو بیوی شوہر پر حرام ہوجاتی ہے، اب شوہر اور بیوی کا تعلق ختم کرنا واجب ہے۔ اگر کوئی تین طلاقیں دے اور ان تین طلاقوں کو ایک کہے تو ان سے بائیکاٹ کریں، کیونکہ اگر کوئی مرد کسی نامحرم عورت کو گھر میں لاکر زنا کرے اتنا سخت گناہ نہیں ہے جتنا تین طلاق کے بعد بیوی کو اپنے پاس رکھنے میں ہے۔ اس لیے کہ زانی تو یہ کہتاہے کہ میں زنا کرتا ہوں۔
لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ یہ زنا کرتاہے، لیکن یہ تین طلاقوں کو ایک کہنے والا تو زنا کو نکاح کا نام دے کر بالآخر کفر تک پہنچتاہے۔ اس لیے ایسے معاملات سے بہت زیادہ بچیں۔ ہمارے پاکستان میں غیرمقلدین نے یہ چور دروازہ کھولا ہوا ہے کہ اگر کوئی اپنی بیوی کو تین طلاق دے دے اب اللہ اس کو کہے حرام،نبی کہے حرام،پوری امت کہے حرام،لیکن ہم [غیرمقلدین] اس کو حرام نہیں کہتے، بس پھر ہمارا مذہب اختیار کر لو۔ اللہ ہم سب کی حفاظت فرمائے، اللہ ہمیں ایسے فتنوں سے محفوظ رکھے۔ [آمین]
بقیہ واقعہ:
خیر بادشاہ کے وزیر نے اپنی بیوی سے کہا: اگر تو چاند سے خوبصورت نہیں تو تجھے تین طلاقیں۔ اب وزیر پریشان ہوگیا۔ کیوں؟کیونکہ بادشاہ بھی یہ بات سمجھتا تھا کہ تین طلاق دو تو تین ہوتی ہیں،وزیر بھی سمجھتا تھا کہ تین طلاق دو تو تین ہوتی ہیں،مرد، عورتیں بھی سمجھتی تھیں کہ تین طلاق دو تو تین ہی ہوتی ہیں۔ یہ جملہ کہہ تو دیا لیکن بعد میں بہت پریشان ہوا۔
لیکن زمانہ خیر کا تھا، بیوی اٹھ کر پردے میں چلی گئی کہ اب میں تمہاری بیوی نہیں ہوں۔ اب مجھے طلاق ہوگئی بعد میں جب مسائل پوچھنا شروع کیےکہ اس مسئلے کا کیا حل ہے؟ تو ایک فقیہ نے کہا جو امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے شاگرد تھے کہ انسان کے سامنے چاند کی کیا حیثیت ہے؟! اللہ قرآن کریم میں فرماتاہے:
لَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنْسَانَ فِي أَحْسَنِ تَقْوِيمٍ،
اللہ نے انسان کو کائنات کی ساری چیزوں سے خوبصورت بنایا ہے۔ اس لیے تمہاری بیوی چاند سے زیادہ خوبصورت ہے،اس لیے طلاق بھی نہیں ہوئی۔
نیک سیرت مطلوب ہے:
میں بتا صرف یہ رہا تھا کہ اللہ نے انسان کو بہترین صورت، بہترین شکل عطا فرمائی ہے۔ جس طرح شکل وصورت بہترین دی ہے اسی طرح بندہ کی سیرت بھی خوبصورت ہونی چاہیے۔ کیونکہ اگر اس کی صورت خوبصورت ہو اور کردار اچھا نہ اور اس نے گناہ کیے، اللہ کی نافرمانی کی تو موت کے بعد اس نے قبر میں جانا ہےاور اسے عذاب ملے گا۔ یہ خوبصورت شکل جہنم کا ایندھن بن کے رہے گا اور اگر اس کی صورت بھی اچھی تھی اور اس نے کردار بھی اچھا کیا تو جنت میں جاکر اللہ ایسی صورت عطا فرمائیں گے کہ دنیا کی صورتیں اس صورت کا مقابلہ نہیں کرسکتیں۔
اطاعت و فرمانبرداری کا نتیجہ:
میں بتا یہ رہا تھا کہ مکان بنا کر گرایا جاتاہے، ختم کرنے کے لیے نہیں مزید اچھا بنانے کے لیے۔ اللہ اس بندہ کو موت دیتے ہیں مٹانے اور فنا کرنے کے لیے نہیں بلکہ جنت میں اچھی شکل وصورت دینے کے لیے۔ اب یہ ہماری مرضی ہے کہ اللہ کی مان کے چلیں تو جنت والی شکل حاصل کریں اور اللہ کی مان کر نہ چلیں تو جہنم کا ایندھن بننے کے لیے تیار رہیں۔
اب انسان اگر اللہ کے احکام کو مان کے چلے گا تو یہ ملائکہ کی جگہ میں جائے گا جو کہ جنت ہے اور اگر اللہ کے احکام کو مان کر نہیں جائے گا تو یہ زمین میں جائے گا جو جانوروں کی جگہ ہے۔ جہنم اللہ نے نیچے بنائی اور جنت اللہ نے اوپر بنائی ہےجو ملائکہ کی جگہ ہے، ملائکہ اوپر رہتے ہیں اور مٹی جانوروں کی جگہ ہے۔ قرآن کریم میں آتاہے
وَيَقُولُ الْكَافِرُ يَا لَيْتَنِيْ كُنْتُ تُرَابًا۔
قیامت کے دن کافر کہے گا کہ کاش میں مٹی ہوتا
سورۃ النباء:40 
قیامت کے دن اللہ ایسی بکری پیدا فرمائیں گے جس کے دنیا میں سینگ نہیں تھے اور وہ بکری پیدا فرمائیں گے جس دنیا میں سینگ تھے،سینگ والی بکری نے بغیر سینگ والی بکری کو مارا ہوگا، تو بغیر سینگ والی بکری اس سینگ والی بکری سے بدلا لے گی قیامت کےد ن اور پھر دونوں اللہ کے حکم سے مٹی ہوجائیں گی۔ یہ دیکھ کر کافر کہے گا :
يَا لَيْتَنِي كُنْتُ تُرَابًا،
اے کاش! میں مٹی ہوتا۔
خیر خواہی ہو تو ایسی:
میں بتا رہا تھا کہ یہ جانور مٹی سے بنے ہیں اور جہنم بھی یہیں ہے۔ اللہ رب العزت نہیں چاہتے کہ بندہ جہنم کا ایندھن بنے، اللہ رب العزت چاہتے ہیں کہ بندہ جنت میں جائے۔
یہ جو میں بات کہتاہوں کہ ”اللہ رب العزت چاہتے ہیں“ اس لفظ کو ذرا سمجھیں۔ قرآن مجید میں ہے
إِنَّمَا أَمْرُهُ إِذَا أَرَادَ شَيْئًا أَنْ يَقُولَ لَهُ كُنْ فَيَكُونُ،
سورۃ یٰسین:82 
اللہ کے چاہنے کا نام وجود ہے، جب اللہ چاہتے ہیں کہ بندہ جنت میں جائے تو بندہ جہنم میں جا ہی نہیں سکتا۔
اللہ کی چاہت کا معنی:
اللہ کی چاہت کا معنی سمجھیں۔ اللہ کی چاہت کا معنی یہ ہے کہ اللہ دو چیزوں کا اختیار عطا فرمائے اور اختیار میں سے بندہ اگر یہ کام کرے تو جنت میں جائے، یہ کام کرے تو جہنم میں جائے۔ اللہ رب العزت بندے کے سامنے دو راستے رکھتے ہیں، گناہ کرو گے تو جہنم میں جاؤ گے،نیکی کرو گے تو جنت میں جاؤ گے، مجھے گناہ پسند نہیں ہے، مجھے نیکی پسند ہے لیکن میں نے اختیار دونوں کا دیا ہے۔ جیسے اعمال کرو گے میں اس کے مطابق تمھیں بدلہ عطا کروں گا۔ تو جو راستے اللہ نے دکھائے ہیں ایک ان میں سے شرعاً اللہ کا پسندیدہ ہے اور دوسرا شرعاً اللہ کا نا پسندیدہ ہے۔
اگر پسندیدہ راستے پر چلو گے تو پسندیدہ مقام جنت میں جاؤ گے، اور اگر ناپسندیدہ راستے پر چلو گے تو ناپسندیدہ مقام جہنم میں جاؤ گے۔ تو یہ معنی ہے اللہ کے چاہنے کا۔ اوریہ پسند ناپسند تکوینی باتیں نہیں ہیں بلکہ تشریعی باتیں ہیں۔ اللہ رب العزت ہم سب کو نیک اعمال کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
ولایت کا مدار؛ ایمان و تقویٰ
اللہ جنت میں اس کو بھیجے گا جو اللہ کا دوست ہو، اسے جنت میں نہیں بھیجتے جو اللہ کا دوست نہ ہو۔ اس کو آپ اس طرح سمجھیں کہ آپ نے ایک اچھا مکان بنایا، آپ اس کو بلائیں گے جو آپ کا دوست ہو، اسے نہیں بلائیں گے جو آپ کا دوست نہ ہو۔ اللہ ”ولی“ کو جنت میں جگہ دیتے ہیں اور جو ”ولی“ نہ ہو اسے جنت میں جگہ نہیں دیتے اور ولایت کے لیے دو چیزیں بنیادی ہیں جسے کو ہم کہتے ہیں: ”ولایت کا میٹریل“ ولی کیسے بنتاہے؟: (1)ایمان ہو، (2)تقویٰ ہو۔
قرآن کے الفاظ پر غور کریں، اللہ خود فرماتے ہیں
أَلَا إِنَّ أَوْلِيَاءَ اللّهِ لَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ
سورۃ یونس:62 
کہ ولی پر نہ خوف ہے آئندہ آنے والے حالات کا، اور نہ اس کوغم ہے گزشتہ کسی نقصان کا۔ لیکن ولی ہوتا کون ہے؟
الَّذِينَ آمَنُوْا وَكَانُوْا يَتَّقُوْنَ
سورۃ یونس:63 
جوایمان لائیں اور ڈرتےبھی رہیں۔ تو ولایت کا مدار دو چیزوں پر ہے۔ 1:ایمان،2:تقویٰ
یقیں محکم، عمل پیہم:
قرآن کریم کے الفاظ پر غور کریں۔ اللہ نے لفظ ”آمَنُوْا“ فعل ماضی کا صیغہ استعمال فرمایا ہے اور ”كَانُوْا يَتَّقُوْنَ “ ماضی کا صیغہ استعمال نہیں فرمایا بلکہ”يَتَّقُوْنَ“ فعل مضارع ہے اور مضارع پر ”كَانُوْا“ داخل ہے۔ علماء جانتے ہیں عربیت اور گرائمر کا قاعدہ یہ ہے کہ مضارع پر جب ”کَانَ“ آتا ہے تو اس میں استمرار آجاتاہے۔
یہ قاعدہ عموماً ہے۔ اب”آمَنُوْا“ میں استمرار نہیں ہے، ”كَانُوْا يَتَّقُوْنَ“ میں استمرار ہے۔ یعنی ایمان آدمی باربار نہیں لاتا،ایک بار لاتاہے اور عمل باربار کیا جاتاہے، ایک بار کر کے چھوڑا نہیں جاتا۔ گویا اللہ فرماتے ہیں: ولی بننا چاہتے ہو تو تم ایک بار ایمان لے آؤ، پھر تم نے نماز مسلسل پڑھنی ہے۔ ایمان لے آؤ پھر روزہ مسلسل رکھنا ہے، ایمان لے آؤ پھر تمہارے ذمہ اعمال مسلسل ہیں۔
ایک سوال اور حکیم الامت کا جواب:
حکیم الامت رحمہ اللہ نے ایک سوال کا بڑا پیارا جواب دیا ہے۔ اگر کوئی آدمی دنیا میں ستر سال رہتاہے اور وہ کفر کرتاہے تو وہ ابدی جہنم میں جائے گا اور ایک آدمی ستر سال اچھے اعمال کرتاہے وہ جنت میں جائے گا۔ سوال یہ ہے کہ کفر ستر سال کا اور سزا اس کی ابدی جہنم اور اچھے اعمال ستر سال کے اور جزاء اس کی ابدی جنت، تو یہ عقل کے خلاف ہے۔
حکیم الامت حضرت تھانوی رحمہ اللہ بہت پیارا جواب ارشاد فرماتے ہیں، فرمایا کہ اس کافر کو ابدی جہنم اس کے ستر سال کفر کی وجہ سے نہیں ملی بلکہ یہ کافر جب تک دنیا میں رہتا وہ کفر کرتا اور یہ مسلمان جب تک دنیا میں رہتا یہ اچھے اعمال کرتا، اُس کی نیت ہمیشہ کفر کی تھی اور اِس کی نیت ہمیشہ ایمان کی تھی۔
اس سے سے زیادہ ایمان اس کو نہیں مل سکتا اور اس سے زیادہ کفر اسے نہیں مل سکتا۔ تو جو جس کےبس میں تھا اس نےاسے اختیار کرلیا، نیت دائمی تھی اس لیے دائمی جنت ملی، دائمی جہنم ملی ہے۔
مسلسل عمل کیجیے:
میں بتا رہا تھا کہ آدمی ایمان ایک بار لاتاہے، باربار نہیں لاتا، لیکن اعمال باربار کرتاہے۔ اگر ہم نے فجر آج پڑھی ہے کل پھر پڑھنی ہے، پرسوں پھر پڑھنی ہے، جب تک زندہ رہیں گے فجر پڑھتے رہیں گے، جب تک زندہ رہیں گے عشاء کی نماز پڑھتے رہیں گے۔ آج بھی گناہ سے بچے ہیں، کل بھی بچیں گے اور جب تک زندہ رہیں گے، گناہوں سے بچیں گے۔ یہ نہیں کہ آج گناہ سے بچے کل نہیں بچنا، بلکہ موت تک بچنا ہے۔
”تقوی“ کا معنیٰ ہے بندہ مسلسل گناہ سے بچے،بازار میں جارہا تھا عورت سے اپنی نگاہ بچائے،وی سی آر چل رہاتھا یہ اس سے اپنے آپ کو بچائے، ازار ٹخنوں سے نیچے ہوجائے تو اسے اوپر کرے۔ حرام سے اپنے آپ کو بچاؤ اور حلال کام کرو۔ تقویٰ کا معنیٰ ایک مرتبہ نیک عمل کرنا اور ایک مرتبہ گناہ سے بچنا نہیں ہے بلکہ مسلسل نیک کام کرنے اور گناہ سے بچنےکو تقویٰ کہتے ہیں۔
حضور علیہ السلام کی نصیحت؛ تقویٰ
حضرت عرباض بن ساریہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ :
صَلّٰى بِنَا رَسُولُ اللّهِ صَلَّى الله عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذَاتَ يَوْمٍ ثُمَّ أَقْبَلَ عَلَيْنَا،
ایک مرتبہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں نماز پڑھائی، نماز پڑھانے کے بعد ہماری طرف متوجہ ہوئے،
فَوَعَظَنَا مَوْعِظَةً بَلِيْغَةً ذَرَفَتْ مِنْهَا الْعُيُوْنُ وَوَجِلَتْ مِنْهَا الْقُلُوْبُ،
اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسی نصیحت فرمائی جس سے آنسو بہنے لگے اور دل دھڑکنے لگے،
فَقَالَ قَائِلٌ: يَا رَسُولَ اللّهِ كَأنَّ هَذِهِ مَوْعِظَةُ مُوَدِّعٍ فَمَاذَا تَعْهَدُ إِلَيْنَا؟
ایک صحابی رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے اور کہنے لگے: یا رسول اللہ ! ایسے لگتاہے جیسے آپ ہمیں چھوڑ کر جارہے ہیں، ایسی نصیحتیں تو وہی کرتا ہے جو چھوڑ کر جا رہا ہوتاہے، اللہ کے پیغمبر ! ہمیں کوئی نصیحت فرما دیں۔ تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے نصیحت فرمائی
أُوصِيْكُمْ بِتَقْوَى اللّهِ وَالسَّمْعِ وَالطَّاعَةِ وَإِنْ عَبْدًا حَبَشِيًّا،
فرمایا: دیکھو! میں وصیت کرتاہوں کہ تقویٰ اختیار کرنا اور امیر کی بات کو سننا اور ماننا اگرچہ وہ حبشی غلام ہی کیوں نہ ہو۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے پہلی چیز یہاں تقویٰ بیان فرمائی۔ تو ولایت کا دار ومدار دو چیزوں پر ہے؛ ایک ایمان لائیں دوسرا تقویٰ اختیارکریں۔
تقویٰ کا معنی:
نبی وہ ہوتاہے جو کبھی گناہ نہ کرے اور امتی وہ ہوتاہے جس سے گناہ ہوتا ہو۔ پھر تو آپ کے ذہن میں سوال آئے گا کہ امتی تو کبھی متقی بن ہی نہیں سکتا!!۔ نا نا! ! تقویٰ کا معنیٰ سمجھو! اگر آدمی گناہ سے بچے تو یہ بھی تقویٰ ہے اور اگر گناہ کرے پھر توبہ کرلے یہ بھی تقویٰ ہےاور ایک بار نہیں سو بار گناہ کرے اور سو بار معافی مانگے،سو بار گناہ کرے سو بار معافی مانگے یہ بھی تقویٰ ہے۔ یہ بات آدمی کی سمجھ میں نہیں آتی کہ یہ کیسے ہوسکتاہے کہ آدمی گناہ کرے،پھر توبہ کرے، پھر گناہ کرے، پھر توبہ کرے،پھر گناہ کرے، پھر توبہ کرے۔
میں یہ بات سمجھاتا ہوں،بتاؤ! اگر آدمی اے سی کوچ میں جارہا ہو اور فلم چل رہی ہو تو یہ گناہ ہے کہ نہیں؟ [گناہ ہے۔ سامعین]اور اگر ایکسیڈنٹ ہوجائے تو سب توبہ کرتے ہیں کہ نہیں؟[کرتے ہیں۔ سامعین] کہتے ہیں:لاالہ الااللہ، ارے فلم بند کرو،گانا بند کرو، اللہ آج بچالے آئندہ نہ کریں گے۔ اب دیکھو عین وقت میں ایسی توبہ کی ہے کہ اللہ پچھلے سارے گناہ معاف فرماتاہے۔
یہ ان کا کرم ہے:
میں بتا یہ رہا تھا، اس طرح سو مرتبہ گناہ ہو اور سو مرتبہ توبہ ہو تو اللہ اس بندے کے گناہوں کو معاف فرماتے ہیں۔ صرف یہی نہیں کہ اللہ معاف فرماتے ہیں بلکہ جو بندہ توبہ کر لے اور ایمان و عمل صالح والی زندگی اپنا لے تو اس کے مطابق ارشاد فرماتے ہیں:
فَأُولٰئِكَ يُبَدِّلُ اللّهُ سَيِّئَاتِهِمْ حَسَنَاتٍ
.تمہارے گناہوں کی جگہ پر بھی اللہ نیکیاں لکھ دیتے ہیں۔
اللہ جنت کسے دیتے ہیں؟اپنے اولیاء کو اور اللہ کے ولی کون ہیں؟جو دو کام کریں۔ ایمان لائیں اور تقویٰ اختیار کریں۔ گناہ نہ کریں اگر ہو جائے تو توبہ کریں، اللہ کو راضی کریں۔ آدمی اپنے باپ کو ناراض کرے، پھر جاکر اس کے پاؤں پکڑتاہے، ابا جی! مجھے معاف کردیں،ابا معاف کردیتاہے اسی طرح امی کو ناراض کرتاہے پھر معافی مانگتاہے ماں معاف کردیتی ہے۔ بتاؤ! استاد معاف کرتاہے،باپ معاف کرتاہے،ماں معاف کرتی ہے، کیااللہ معاف نہیں کرتا؟
ماں کے پاس تو اس محبت کا ذرہ بھی نہیں جو اللہ کے پاس ہے، اللہ نے ننانوے فیصد محبت آخرت کے لیے رکھی ہے،ایک فیصد دنیا والوں میں تقسیم کی ہے جس سے دنیا کا نظام چل رہاہے۔ بتاؤ! ایک آدمی اپنی ماں سے معافی مانگے ماں معاف کردیتی ہے اللہ سے معافی مانگے تو کیا اللہ معاف نہیں فرمائیں گے؟میں اور آپ یہ طے کرلیں کہ اے اللہ! ہمیں آج معاف فرما ہم آئندہ آپ کی نافرمانی نہیں کریں گے۔ اللہ آپ کا دربار بہت وسیع ہے،آپ کی قدرت بہت وسیع ہے، اللہ مانگنے والوں پر بہت خوش ہوتے ہیں۔
دنیا کا نظام یہ ہے کہ کسی سے ایک بار مانگو، دو بار مانگو، پھر مانگو تو وہ کہے گا: ”یار ! اگر میں نے کہہ بھی دیا ہےکہ مجھ سے لے لو تو تو میرے پیچھے ہی پڑگیا ہے، اب جان چھوڑو“۔ اللہ کا نظام اس طرح نہیں، اللہ سے نہ مانگو تو اللہ ناراض ہوتے ہیں اور اگر مانگو تو بہت خوش ہوتے ہیں کہ اس نے میری نافرمانی کی ہے، اس کے باوجود میرے پاس آیا ہے، مجھ سے معافی مانگ رہا ہے۔ اس پر اللہ بہت خوش ہوتے ہیں۔
فرشتوں کا سوال اور باری تعالیٰ کا جواب:
جب اللہ نے حضرت آدم علیہ السلام کو پیدا کیا تھا تو فرشتوں سے کہا تھا:
إِنِّي جَاعِلٌ فِي الْأَرْضِ خَلِيفَةً،میں زمین میں اپنا خلیفہ بناتا ہو جو احکام نافذ کرے گا۔ فرشتوں نے کہا: أَتَجْعَلُ فِيهَا مَنْ يُفْسِدُ فِيهَا وَيَسْفِكُ الدِّمَاء
َ،اللہ کس کو آپ اپنا نائب بناتے ہیں جو زمین میں فساد پھیلائے گا، جو زمین پر ناحق خون بہائے گا۔ اللہ آپ ایسی مخلوق کو نائب بناتے ہیں؟اللہ فرماتے ہیں:
إِنِّي أَعْلَمُ مَا لَا تَعْلَمُونَ،د
یکھو جو میں جانتا ہوں وہ تم نہیں جانتے۔
سوال ہوتا ہے کہ فرشتوں کو کیسے پتہ چلا کہ انسان زمین پر فساد پھیلائے گا؟ اصل بات یہ ہے کہ انسان کا جو میٹریل ہے وہ چار چیزوں سے بنا ہے؛آگ،پانی،مٹی،ہوا۔ یہ چار چیزیں ہیں اور چاروں چیزوں کے مزاج الگ الگ ہیں۔ آگ کا مزاج دیکھو تو اوپر لے جانا ہے، پانی کا مزاج دیکھو تو بہانا ہے،ہوا کا مزاج دیکھو تو اڑانا ہے،مٹی کا مزاج دیکھو تو نیچے رکھنا ہے۔
چاروں کے مزاج کے تقاضے الگ الگ ہیں۔ آگ کا مزاج ہے اکڑ کر چلو،مٹی کا تقاضا ہے عاجزی کرو،پانی کا مزاج ہےکہ کوئی چیز جارہی ہو اس کو روک دو اور ایک جگہ پر ٹھہراؤ اور ہوا کا مزاج ہے کہ اڑاؤ،فرشتوں کے کہنے کا مطلب یہ تھا کہ انسان جب مختلف مزاج کا مرکب ہوگا تو امن کیسے ہوگا؟ زمین پر تو فساد ہوگا۔ تو اللہ نے فرمایا
: إِنِّي أَعْلَمُ مَا لَا تَعْلَمُوْنَ،جو میں جانتا ہوں وہ تم نہیں جانتے۔ اللہ تعالیٰ ایک جگہ فرماتے ہیں: فَأَلْهَمَهَا فُجُورَهَا وَ تَقْوَاهَا،
کہ انسان کے مزاج میں فجور بھی رکھا ہے اور تقویٰ بھی رکھا ہے۔ جب یہ گناہوں کے دروازے چھوڑ کر نیکی کرے گا تب میں اس کے لیے جنت کے دروازے کھول دوں گا۔
تو میں بتا یہ رہا تھا کہ ولایت کے لیے بنیادی دو چیزیں ہیں:
1:ایمان
2:تقویٰ۔
متقی کیسے بنیں؟
تقویٰ کا معنی کیا ہے؟انسان گناہ سے بچے اور اگر گناہ ہوجائے تو فوراً توبہ کرلے۔ باربار توبہ کرے باربار توبہ کرے۔ آدمی دل چھوٹا نہ کرے۔ لیکن یہ نعمت ملتی کیسے ہے؟حکیم الامت رحمہ اللہ فرماتے ہیں: دیکھو! جو چیز جہاں ہو وہاں سے ملتی ہے، سونا چاہتے ہو تو سونے کی دکان میں ملے گا، کپڑا بازار سے ملے گا۔ توجہاں جو چیز ملتی ہے وہاں جاؤ اور اگر تقویٰ چاہتے ہو تو تم اس جگہ جاو جہاں متقین ہوتے ہیں۔ اس لیے اللہ رب العزت فرماتے ہیں
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللّهَ وَكُونُوْا مَعَ الصَّادِقِينَ
سورۃ التوبہ:119 
اے ایمان والو! تقویٰ اختیار کرو اور سچے لوگوں کے ساتھ رہو۔
ولایت کا مقام تو دو چیزوں پر ہے، ایک ایمان اور دوسرا تقویٰ پر۔ اب ایک شخص کہتاہے میں نے ایمان تو قبول کرلیا ہے اب میں تقویٰ کے لیے کہا جاؤں؟ تو فرمایا: اولیاء کی مجلس میں بیٹھو، وہاں آپ کو تقویٰ ملے گا۔ مجلس میں بیان سننا شرط نہیں ہے بلکہ صرف جاکر بیٹھ جاؤ۔ ہمارے شیخ حکیم اختر صاحب دامت برکاتہم فرماتے ہیں: دیکھو !جب آپ خانقاہ آؤ، آپ کچھ بھی نہ کرو اپنے معمولات چھوڑ دو اور اپنے شیخ کے تجاویز کردہ معمولات کو اختیار کرو، دیکھنا خدا تمہاری کیفیت بدلتاکیسے ہے؟
ڃ ڃ ڃ حق ادا نہ ہوا:
ہمارے ہاں المیہ یہ ہے کہ اولاً تو شیخ کی مجلس میں بیٹھتے نہیں اور اگر کبھی بیٹھ بھی جائیں تو بیٹھنے کا حق ادا نہیں کرتے۔ ایک عالم ہیں مولانا محمد نواز صاحب،ملتان میں ہوتے ہیں، جامعہ قادریہ کے مہتمم بھی ہیں۔ بڑے عالم ہیں اور بڑے شیخ بھی ہیں۔ ہم بیٹھے ہوئے تھے ملتان میں، تو مجھے بہت عجیب بات فرمانے لگے کہ بعض لوگ بہت عجیب ہوتے ہیں۔ میں نے کہا: کیا مطلب؟فرمانے لگے: میرے پاس چار آدمی آئے اور کہنے لگے کہ ہمیں آپ سے کام ہے ہمیں کچھ وقت دو۔ میں نے وقت دیا اور ان کے ساتھ بیٹھ گیا۔ اب ایک کا فون آیا وہ فون سننے کے لیے باہر چلاگیا، دوسرے کا فون آیا وہ فون سننے کے لیے باہر چلاگیا، تیسرے کا فون آیا وہ فون سننے کے لیے باہر چلاگیا، اسی طرح چوتھا بھی چلا گیا۔ تو آئے وہ میرے لیے ہیں اور باہر فون سن رہے ہیں۔ انہوں نے فون کے لیے مجھے قربان کر دیا، لیکن فون کو میرے لیے قربان نہیں کیا۔ اب آپ بتائیں نفع کیسے ہوگا؟
یہی بات میں کہتاہوں کہ اس طرح نفع نہیں ہوتا، ہم وہاں جاکر اپنی خواہشات ترک نہیں کرتے۔ حضرت حکیم صاحب دامت برکاتہم نے بہت عجیب واقعہ لکھا ہے کہ ایک مرید اپنے پیر کے پاس آیا اور اچانک وہاں نواب بھی آیا،مرید نے پیر صاحب کو چھوڑ کر نواب صاحب سے گپیں ہانکنا شروع کردیں۔ اب اس کو کیا نفع ہوگا۔
حکیم الامت رحمہ اللہ کا ذوق:
حکیم الامت رحمۃ اللہ علیہ کا ذوق سماعت فرمائیں،اور ان کے مزاج کو ملاحظہ فرمائیں، فرماتے ہیں: اگر میں اپنے شیخ کی مجلس میں بیٹھا ہوں- حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کے شیخ حضرت حاجی امداد اللہ مہاجر مکی رحمہ اللہ تھے- اور اس مجلس میں جنید بغدادی رحمہ اللہ آجائیں،حسن بصری رحمہ اللہ آجائیں،پیر عبدالقادر جیلانی رحمہ اللہ آجائیں میں ان کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی نہ دیکھوں گا کیوں کہ مجھے جو کچھ ملا ہے اپنے شیخ سے ملا ہے۔ یہ تھا حکیم الامت رحمہ اللہ کا مزاج۔ اس طرح آدمی کو اپنے شیخ کا فیض بھی ملتاہے۔
فیض اپنے شیخ ہی سے ملے گا:
ہمارے شیخ حکیم محمد اختر دامت برکاتہم عجیب مثال دیتے ہیں کہ نکاح سے قبل عورت کو اختیار ہوتاہے کہ وہ اپنے شوہر کو دیکھے لیکن نکاح جب ہوگیا تو اب وہ کہے: میں بہت خوبصورت ہوں اور میرا شوہر بدصورت ہے اور میں کسی اور سے نکاح کرنا چاہتی ہوں تو کیا اس کو اختیار ہے؟! فرمایا: نہیں،اب جو اس کو اولاد ملنی ہے، اسی شوہر سے ملنی ہے جو رنگ کا کالا ہے۔ اسے اگر فیض ملنا ہے تو اسی سے ملنا ہے، جو رنگ کا بدصورت ہے۔
حکیم صاحب فرماتے ہیں کہ پہلے بیعت نہ کرو، پہلے اپنا شیخ تلاش کرواور جب شیخ بنا لو تو پھر یہ ذہن بنا لو کہ مجھے فیض اسی شیخ سے ملے گا۔ اگر یہ ذہن بنا لو گے تو تمھیں فیض ملنا شروع ہو جائے گا، اور اس فیض کو ”تقویٰ“ کہتے ہیں اور یہ فیض کب ملتاہے جب آدمی اپنے آپ کو شیخ کے وجود میں فنا کرتاہے، اور یہ فیض رکتا کب ہے جب آدمی شیخ میں فنا ہونے کی بجائے اپنے آپ کو گناہوں میں لت پت کر لیتا ہے۔
گناہ فیض شیخ میں رکاوٹ ہیں:
میں جب حکیم صاحب کی خدمت میں 1999ء میں کراچی تھا، حضرت خانقاہ میں تھے۔ اب تو اشرف المدارس نیا بنا ہے اس وقت اوپر کی منزل اور برآمدے نہیں بنے تھے، ہم بیٹھے تھے مسجد کے صحن میں، حضرت نے کہا: چلو اوپر چلتے ہیں جامعہ کی چھت پر،وہاں گئےتو فوراًہمیں ہوالگنے لگی۔ حضرت فرمانے لگے: دیکھو ہوا نیچے بھی تھی لیکن دیوار کی آڑ میں ہوا ہمیں نہیں لگ رہی تھی اور یہاں لگ رہی ہے، اسی طرح شیخ کا فیض جاری ہوتاہے لیکن کبیرہ گناہ شیخ کے فیض کو روک دیتا ہےاور گناہ نہ ہو تو شیخ کا فیض جاری رہتاہے۔
مرید اپنے کرتوت جاری رکھتا ہے اور شیخ سے تذکرہ نہیں کرتا،بتاتا نہیں کہ میں یہ گناہ کر رہا ہوں اور پھر کہتا ہے کہ مزاج میں تبدیلی نہیں آئی،نفع نہیں ہوا، اب اس کی خواہش ہوتی ہے کہ میں خانقاہ بدل لوں،پیر بدل لوں،شیخ بدل لوں،ان کو نہ بدل اپنے مزاج کو بدل،اپنی خلوت کو بدل،اللہ تعالی پاک ہمیں نیک کام کر نے کی توفیق عطا فرمائے۔
مجلس شیخ؛ اکتساب فیض کا ذریعہ
میں بتا یہ رہا تھا کہ ولایت نام ہے ایمان اور تقویٰ کا، اور تقویٰ یہ ہے کہ گناہ نہ کرو اور اگر گناہ ہو جائے تو توبہ کرو اور تقویٰ ملے گا کیسے؟شیخ کی مجلس سے،شیخ کی صحبت سے،اس سے اللہ تعالیٰ تقویٰ عطا فرماتے ہیں اور یہ شیخ کی مجلس صرف مردوں کے لیے ہی نہیں بلکہ خواتین کے لیے بھی ہیں۔
لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ خواتین مردوں کے ساتھ آ کربیٹھیں، اور یہ بھی نہیں کہ خواتین شیخ کو دیکھیں، شیخ خواتین کو دیکھے۔ دیکھو! رسول اکرمﷺ کے صحابہ مرد اور صحابیات عورتیں تھیں۔ اب وہ جو صحابیات تھیں وہ حالت ایمان میں آئی ہیں، پیغمبر صلی اللہ علیہ و سلم کی صحبت میں بیٹھی ہیں اسی وجہ سے صحابیات بنی ہیں۔
تو جس طرح صحابیات بننے کے لیے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کا ان کو دیکھنا یا ان کا پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھنا شرط نہیں بلکہ حالت ایمان میں پیغمبر کی مجلس میں آ جانا صحابیہ بننے کے لیے کافی ہے، بالکل اسی طرح شیخ کی مجلس میں عورت کا آ جانا اور بیانات کو سننا کافی ہے اکتساب فیض کے لیے۔ میں یہ اس لیے کہہ رہاہوں کہ جب ہم یہ ماحول ومزاج نہیں بنائیں گے تو معاشرے کا ماحول نہیں بدلے گا۔
فیضِ شیخ کی برکت:
حضرت حکیم صاحب نے دو عورتوں کا واقعہ لکھا ہے، شاہ اسماعیل شہید رحمہ اللہ کے دور میں بیعت ہوگئیں۔ مالدار عورتیں تھیں، ان کی زندگی بدل گئی۔ ان دنوں حضرت رحمۃ اللہ علیہ نےجہاد کا فیصلہ کیا۔ جب وہاں سے نکلنےلگے توان عورتوں نے بھی پیغام بھیجا کہ ہمیں بھی ساتھلے چلیں،آپ نے پوچھا: تمہیں ساتھ لے کر کیاکروں گا؟انہوں نے کہا: ہم مجاہدین کے لیے چنے پیسا کریں گی،مجاہدین کے لیے چکی میں آٹا پیسا کریں گیں۔ چنانچہ وہ ساتھ چلی گئیں،پہاڑی علاقوں میں سفر کیا،مالدار خاندان کی عورتیں تھیں،پہلے نوکرانیاں کام کرتیں تھی۔
اب اپنے ہاتھوں سے مجاہدین کے دانے پیستی تھیں جن کی وجہ سے ہاتھوں میں چھالے پڑ گئے۔ ان سے پوچھا گیا: تمہیں کون سی زندگی پسند ہے؟ کہنے لگیں: حضرت شاہ اسماعیل کی برکت سے اللہ نے جو ایمان کی دولت نصیب کی ہے، ہمارے قلب سے اگر ان پہاڑوں کو دھو دو شاید یہ بھی برداشت نہیں کرسکیں،اس لیے ہم اُس زندگی پر اِس زندگی کو ترجیح دیتی ہیں۔
تعلق مع الشیخ کا فائدہ:
بس دعا یہ کریں اللہ دنیا بھر کی خانقاہوں کو آباد رکھے [آمین] ہمارے شیوخ کی عمروں میں اللہ تعالٰی برکت عطا فرمائےاور ان کی حفاظت فرمائے [آمین] ہماری یہ چھوٹی سی خانقاہ ہے، ہم تو کچھ نہیں ہیں لیکن شیوخ کے فیض کو اللہ تعالیٰ باقی رکھے،اللہ اکابرین کے صدقے ہمیں دنیا و آخرت میں کامیابی عطا فرمائے، اللہ ہم سب کو ایمان کامل عطا فرمائے،قرب قیامت کا زمانہ ہے فتنوں کا دور ہے بے حیائی،فحاشی سے اپنے آپ کو بچانا یہ واقعۃًبڑا مشکل کام ہے۔
لیکن اگر آدمی اپنے آپ کو بچانا چاہے تو کوئی مشکل کام نہیں۔ اگر چھوٹا بچہ اکیلے سڑک پر جائے گا تو گاڑی کے ایکسیڈنٹ کا خطرہ ہے لیکن اگر اپنا ہاتھ اپنے ابو کے ہاتھ میں دے تو ایکسیڈنٹ کا خطرہ نہیں ہوتا۔ جب آدمی کسی کے ہاتھ میں ہاتھ دے دے اور پھر دیکھے اللہ اس کو ایکسیڈنٹ سے کیسے بچاتا ہے؟ ہماری آپ سے گزارش ہے کہ جس شیخ سے بھی تعلق ہو اس کے اذکار کی پابندی کریں، ان سے تعلق رکھیں اور اپنے احوال ان کے سامنے رکھیں۔ اللہ مجھے بھی اور آپ کو بھی ولایت کاملہ عطا فرمائے،ولایت کا اعلیٰ درجہ ایمان اور تقویٰ ہے اور ولایت کا ادنیٰ درجہ ایمان اور اعمال میں کمی ہے۔
اللہ ہمیں ایمان اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت عطا فرمائے، معمولی یہ بھی نہیں ہے اس کی بڑی قیمت ہے لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ آدمی اعمال کی کوشش نہ کرے۔ بندہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے پیار بھی کرے اور محبت کے ساتھ ساتھ اعمال کی بھی پابندی کرتا رہے۔ اللہ مجھے بھی توفیق عطا فرمائے اور آپ کو بھی توفیق عطا فرمائے۔ [آمین]
وَآخِرُ دَعْوَانا أَنِ الْحَمْدُ لِلهِ رَبِّ الْعَالَمِيْنَ