کامیاب انسان بننے کا طریقہ

User Rating: 5 / 5

Star ActiveStar ActiveStar ActiveStar ActiveStar Active
 
کامیاب انسان بننے کا طریقہ
خانقاہِ اشرفیہ اختریہ
مرکز اہل السنۃ و الجماعۃ سرگودھا
2 مئی 2013ء
کامیاب انسان بننے کا طریقہ
نحمدہ ونصلی علی رسولہ الکریم اما بعد!اعوذ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ، بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ،قَدْ أَفْلَحَ مَنْ زَكَّاهَا؀ وَقَدْ خَابَ مَنْ دَسَّاهَا؀
سورۃ الشمس:9،10
اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ كَمَا صَلَّيْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ وَعَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ اللَّهُمَّ بَارِكْ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ كَمَا بَارَكْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ وَعَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ؀
میرے انتہائی واجب الاحترام بزرگو،مسلک اہل السنۃ والجماعۃ سے تعلق رکھنے والے غیور نوجوان دوستو اور بھائیو !میں نے آپ حضرات کی خدمت میں قرآن کریم کی دو آیتیں تلاوت کی ہیں۔ ان دو آیتوں میں اللہ رب العزت نے ایک قانون اور ضابطہ بیان فرمایا ہے۔
قَدْ أَفْلَحَ مَنْ زَكَّاهَا وَقَدْ خَابَ مَنْ دَسَّاهَا،
پہلے اللہ رب العزت نے فرمایا:
فَأَلْهَمَهَا فُجُورَهَا وَتَقْوَاهَا،
سورۃ الشمس: 9،10،8 
انسانی مزاج دو چیزوں سے مرکب ہے:
انسان کے مزاج میں دو چیزیں رکھیں ہیں:
1: مادہ گناہ
2: مادہ نیکی،
مادہ خیر اورمادہ شر یہ دونوں مادے اللہ رب العزت نے انسان کے مزاج میں رکھے ہیں۔ لیکن انسان کو اختیار بھی دیا ہے۔ چاہے تو مادہ شر کو اختیار کرے اور چاہے تو مادہ خیر کو اختیار کرے۔ فرق کیا ہے؟ اگرمادہ خیر کو دبائے اور مادہ شر پہ عمل کرے تو یہ جہنم کے راستے پر چلتا ہے اور اللہ کی ناراضگی کو مول لیتا ہے اور اگر مادہ شر کو دبائے اور مادہ خیر پر عمل کرے تو یہ جنت کا راستہ اختیار کرتا ہے۔ اور اللہ کا محبوب بندہ بن جاتاہے۔
اللہ رب العزت نے اس آیت کریمہ میں عجیب بات ارشاد فرمائی:
فَأَلْهَمَهَا فُجُورَهَا وَتَقْوَاهَا
پہلے اللہ رب العزت نے فسق،فجور اور گناہ کی بات کی ہے اور پھر تقویٰ اور نیکی کی بات کی ہے کہ ہم نےانسان کو تقویٰ بھی سمجھایا ہے اور فجور بھی۔ لیکن پہلے بات فجور کی ہے اور تقویٰ کی بات بعد کی ہے۔ ہمارے شیخ عارف باللہ حضرت حکیم محمد اختر دامت برکاتہم فرماتے ہیں کہ اس میں اللہ رب العزت سمجھانا یہ چاہتے ہیں کہ تمہارے مزاج میں شر کا مادہ رکھا ہواہے، اس پر کنٹرول کرو گے تو تقویٰ ہوگا۔
اگرشر کا مادہ مزاج میں ہوتا ہی نہ، تو نہ کنٹرول ہوتا اور نہ تقویٰ کی نوبت پیش آتی۔ اگر مزاج میں شر ہی نہ ہو صرف خیر، ہو تو یہ توملائکہ کا کام ہے، انسانوں کا کام نہیں، ہم ملائکہ نہیں، ہم انسان ہیں۔ فرشتے نہیں، بشر ہیں۔
صفتِ بہیمیت نہ ہو،وہ انسان ہی کیا:
بشر میں اللہ نے دونوں چیزیں رکھیں ہیں۔ ہمیں اس بات کا اہتمام کرنا ہے کہ اپنے گناہوں کے تقاضوں کو دبائیں اور خیر کے تقاضوں پر عمل کریں۔ بازار میں جائیں، تو دل کرتا ہے نامحرم عورت کو دیکھیں، لیکن نہیں دیکھنا، کیوں کہ اللہ کا حکم ہے” مت دیکھو۔“ بازارمیں جاؤ، تو دل کرتا ہے کان سے گناہ سنوں، لیکن نہیں سنتے، کیوں؟اس سے اللہ ناراض ہوتاہے۔ اور اللہ کا حکم یہ ہے کہ انسان گانے نہ سنے،نماز کا وقت ہو، انسان کا دل کرتا ہے، نماز نہ پڑھے، لیکن نماز پڑھتا ہے، کیوں کہ اللہ تعالی کا فرمان عالی شان ہے۔
اپنی طبیعت پر جبر کرکے عبادت کرے، اس کا نام عبادت ہے۔ ہمارے ہاں بہت سارے احباب سادگی کی وجہ سے، ہم سے بھی کہتے ہیں اور باقی علماء سے بھی کہتے ہیں کہ دعا کریں کہ میرا گناہوں کو دل نہ کرے۔ اگر گناہوں کو دل نہیں کرے گا اور پھر نیکی کریں گے، یہ کون سی نیکی ہے؟
نیکی تب ہے کہ گناہ کو دل کرے، پھر بندہ گناہ نہ کرے۔ اگر گناہ کو دل نہ کرے اور پھر گناہ نہ کرے، یہ کون سی نیکی ہے، بتاو؟روزہ ہے رمضان المبارک اس مرتبہ جولائی کے اندر بھی ہوگا،گرمی ہے، پیاس لگتی ہے، پانی پینے کو دل کرتا ہے، اگر یہ غسل خانے میں جاکر دو گھونٹ پانی پی لے، اللہ کے علاوہ اس کو کوئی نہیں دیکھتا۔ نہ پیے تو پھر نیکی ہے۔
اگر ایک آدمی کو پیاس لگے ہی نہ تو پھر کہے، میں نے روزہ رکھا ہے، بتاو یہ کون سا کمال ہے؟کمال تب ہے، انسان کو پیسوں کی ضرورت ہو اور حرام لے سکتا ہو، پھر بھی نہ لے، یہ کمال ہے۔ اور اس کو ضرورت ہو پھر بھی چھوڑ دے، کیوں کہ یہ حرام اور گناہ کا کام ہے۔میں یہ نہیں کروں گا۔
انسان اپنی اوقات بھول جاتا ہے:
دنیا میں جب آدمی کو اللہ صحت دیتا ہے تو انسان گناہ کرتا ہے۔ بیماری آئی تو پھر روتا ہے،اللہ دولت دے تو حرام جگہوں پر لگاتا ہے۔ جب دولت ختم ہوجائے، تو پھر انسان روتاہے۔ اللہ منصب عطا فرمائے، تو انسان اس کو غلط استعمال کرتاہے۔ اور جب منصب چھن جائے، تو پھر انسان روتاہے۔ تو میں یہ گزارش کر رہا ہوں کہ اللہ رب العزت نے ہمیں یہ بات سمجھائی ہے:
قَدْ أَفْلَحَ مَنْ زَكَّاهَا ؀ وَقَدْ خَابَ مَنْ دَسَّاهَا
کامیاب وہ انسان ہوگا جو اپنے نفس کو سنوارے، اپنی طبیعت کو ٹھیک کرے اور مزاج کو شریعت کے مطابق چلائے۔ اور وہ انسان برباد ہوگا، جو اپنے مزاج کو شریعت کے مطابق نہ ڈھالے، بلکہ اپنی خواہش کے مطابق چلے۔ ہم دنیا میں کہتے ہیں کہ فلاں بندہ بہت عقلمند ہے اور فلاں بےوقوف ہے۔ ایک عقلمندی اور بیوقوفی کا معیار ہمارا ہے اور ایک معیار اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے بڑا معیار کون دے سکتاہے۔ عقلمند اور بیوقوف ہونے کا۔ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
الْكَيِّسُ مَنْ دَانَ نَفْسَهُ وَعَمِلَ لِمَا بَعْدَ الْمَوْتِ وَالْعَاجِزُ مَنْ أَتْبَعَ نَفْسَهُ هَوَاهَا وَتَمَنَّى عَلَى اللَّه
عقلمند آدمی وہ ہے جو اپنے نفس پر کنٹرول کرے اور آخرت کی تیاری کرے۔
وَالْعَاجِزُ مَنْ أَتْبَعَ نَفْسَهُ هَوَاهَا وَتَمَنَّى عَلَى اللَّه
(سنن ترمذی ،رقم الحدیث:1218)
اور بیوقوف انسان وہ ہے جو اپنے نفس کو آزاد چھوڑے اورگناہ کرتا رہے اور جب موت کے بعد کی بات آئے، تو کہتے ہیں کہ اللہ مالک ہے،اللہ بخش دے گا۔ بخشش تمہارے ہاتھ میں نہیں ہے، اللہ بخش دے گا۔ آخرت کے بارے میں لمبی آرزوئیں باندھے، اپنی خواہشات کو پورا کرتا رہے، دنیا میں خود کو گناہوں میں غرق کرے، اہنے خالق کو بحول جائے، تو یہ انسان بیوقوف ہے۔ اللہ ہم سب کو عقلمند بنائے اور بیوقوفی سے محفوظ رکھے۔
عقل مندی کیا ہے؟
عقلمندی کیا ہے؟گناہ چھوڑ دیں، نیک اعمال کریں۔ شیطان کو چھوڑ دیں، رحمان کو راضی کریں۔ طاغوت کو چھوڑیں، رحمان کی عبادت کریں۔گناہوں سے بچیں اور نیکی کا کام کریں۔ اس کا نام ہے فلاح اور کامیابی۔ ہمارے ہاں کامیابی اور ناکامی کا مدار کیا ہے؟ اگر ایک آدمی نے پڑھا ہے کالج میں، وہ چاہتا ہے کہ مجھے ایک اچھی سی ملازمت مل جائے،اگر کسی آدمی کے پاس دولت ہے، وہ سمجھتا ہے کہ میری کامیابی اس میں ہے کہ مجھے بزنس اچھا ملے، یہ کامیابی اور ناکامی کا مدار نہیں ہے، کامیابی اور ناکامی کا مدار کیا ہے،اللہ کا فیصلہ سنیں۔
فَمَنْ زُحْزِحَ عَنِ النَّارِ وَأُدْخِلَ الْجَنَّةَ فَقَدْ فَازَ،
آل عمران :185 
جس آدمی کو اللہ نے جہنم سے بچا لیا اور جنت میں داخل کردیا، بس یہ انسان کامیاب ہے۔
بس دعا فرمائیں! اللہ ہم سب کو گناہوں سے محفوظ رکھے،نیکی اور طاعات کی توفیق عطا فرمائے، اللہ ہم سے راضی ہوجائے، اللہ جہنم سے بچائے اور جنت میں جگہ عطا فرمائے۔
میں دو چار بڑی گزارشات آپ کی خدمت میں پیش کر رہا ہوں۔ گناہ دنیا میں دو قسم کے ہیں:
بعض گناہ وہ ہیں، جن کا تعلق بندے کی ذات سے ہے۔
بعض گناہ وہ ہیں، جن کا تعلق دوسرے کی ذات سے ہے۔
اگر نماز نہیں پڑھی، یہ بھی گناہ ہے،روزہ نہیں رکھا، یہ بھی گناہ ہے،زکوٰۃ نہیں دی یہ بھی گناہ ہے،ایک گناہ تو یہ ہے۔ ایک اور بھی گناہ ہے،آپ اس کو بھی سماعت فرمالیں۔
ایک دوسرا گناہ:
اور ایک دوسرا گناہ کون سا ہے؟کسی کی عزت پہ حملہ کیا،کسی کی دولت پہ حملہ کیا،کسی کو گالی دے دی ہے،اور کسی کو ناجائز تنگ کیا ہے، ایک یہ گناہ ہے۔ جس گناہ کا تعلق انسان کی ذات سے ہو، اس کو تو ممکن ہے، خدا کی ذات معاف فرمادے اور جن کا تعلق دوسرے کی ذات سے ہے، اس وقت تک اللہ معاف نہیں فرمائیں گے، جب تک دوسرا بندہ خود معاف نہ فرما دے۔
اس لیے اس بات کا بہت زیادہ اہتمام کریں کہ نہ کسی کا مال ہڑپ کریں،نہ کسی پر ظلم کریں،نہ کسی کو گالی دیں،نہ کسی کی غیبت کریں اور نہ کسی کو تنگ کریں۔ جس حد تک ممکن ہو، دوسروں کی خیرخواہی کریں، جس حد تک ممکن ہو دوسرے کے بارے میں بدخواہی کبھی نہ سوچیں۔
اس پر میں ایک چھوٹا سا واقعہ پیش کرتا ہوں، جوآپ نے بھی پڑھا ہے اور ہم نے بھی پڑھا ہے۔ اور یہ پڑھا مذہبی کتابوں میں نہیں، بلکہ سکول کی کتابوں میں۔بچپن کا واقعہ ہے:
اللہ کے ایک دوست کاواقعہ:
اللہ کاایک ولی دریا کے کنارے پر کھڑے ہیں اورآگے ایک بچھو ہے، وہ بچھو کو نکالتے ہیں، وہ ڈنگ مارتا ہے، وہ پھر نکالتے ہیں، وہ پھر ڈستا ہے،ایک آدمی نے عرض کیا کہ حضرت! آپ کو کیا ہوا، وہ بار بار ڈنگ مارتا ہے، اس کو مرنے دو پانی میں۔ کیوں باہر نکالتے ہو؟اس اللہ کے ولی نے بڑا پیارا جواب دیا۔فرمایا: یہ عادت بد سے باز نہیں آتا، میں عادت خیر کو کیسے چھوڑ دوں؟اس کا کام ڈسنا ہے، وہ ڈسے جارہا ہے، میرا کام ڈسے ہوئے کی خیرخواہی کرنا ہے، میں اپنا کام کیسے چھوڑ دوں؟یہ بچھو ہو کر اپنا کام نہیں چھوڑتا، میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا امتی ہو کر اپنا کام کیسے چھوڑ دوں؟
ہمارے ہاں معاملہ کیا ہوتا ہے؟کہ فلاں بندے نے میرا خیال کیا ہے، مجھے بھی اس کا خیال کرنا چاہیے۔ فلاں نے میری عزت کی ہے، مجھے بھی کرنی چاہیے۔فلاں نےکھلایا ہے، مجھے بھی کھلانا چاہیے۔بابا یہ کون سا کمال ہے؟یہ کوئی کمال نہیں ہے۔ کمال کیا ہے؟اللہ کے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں
اعفُ عَمَّنْ ظَلَمَكَ ، وَصِلْ مَنْ قَطعَكَ ، وأحْسِنْ إِلى من أساءَ إِليكَ، وقُلِ الحقَّ وَلَوْ عَلَى نَفْسِكَ
کوئی بندہ برائی کرے تم نیکی کرو،کوئی ظلم کرے تم معاف کرو، ،لوگ تعلقات کو توڑیں، تم جوڑو۔یہ ہے کمال۔تعلق جوڑنے والے سے جوڑنا کوئی کمال نہیں ہے۔ توڑنے والے سے جوڑنا یہ کمال ہے۔
میری آپ سے تیسری اور آخری گزارش یہ ہے کہ ایک ہے نیکی کرنا اور ایک ہے نیکی کا دعویٰ کرنا۔نیکی کریں اللہ خوش ہوتے ہیں، لیکن نیکی کے دعوے کریں تو اللہ ناراض ہوتے ہیں۔
فَلَا تُزَكُّوا أَنْفُسَكُمْ
اپنے آپ کو نیک مت کہو۔
هُوَ أَعْلَمُ بِمَنِ اتَّقَى
النجم:32 
نیکی ہو،دعوی نیکی نہ ہو:
اللہ خود جانتا ہے کہ نیک کون ہے۔ نیکی کرنی ضرور ہے لیکن نیکی کے دعوے نہیں کرنے،اللہ ہم سب کو نیک اعمال کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اللہ ہم سب کو برائیوں سے بچائے،جس حد تک ممکن ہو دین کی خدمت کے لیے ہم کو قبول فرمالیں۔ اللہ کا نام لیں،ہر بندے کو لینا چاہیے، زندگی میں ایک دفعہ اللہ کا نام لینا، زندگی کو بدل کے رکھ دیتاہے۔ آپ درود پاک پڑھیں پھر اس کے بعد ذکر کرتے ہیں۔