خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم
خطبہ مسنونہ :
الحمد للّٰہ !الحمد للہ نحمدہ ونستعینہ ونستغفرہ ونؤمن بہ ونتوکل علیہ ونعوذ باللہ من شرور انفسنا ومن سیأت اعمالنا من یھدہ اللہ فلا مضلل لہ ومن یضلل فلا ھادی لہ ونشھد ان لاالہ الا اللہ وحدہ لا شریک لہ ونشھد ان سیدنا ومولانا محمدا عبدہ و رسولہ۔امابعد:فاعوذ باللہ من الشیطٰن الرجیم بسم اللہ الرحمن الرحیم ما کان محمد ابا احد من رجالکم ولٰکن رسول اللہ وخاتم النبیین وکان اللہ بکل شیء علیما۔
سورۃ احزاب آیت نمبر 40
عن ابی ھریرۃ رضی اللہ تعالیٰ عنہ قال قال النبی صلی اللہ علیہ وسلم فضلت علی الانبیاء بست اعطیت جوامع الکلم ونصرت بالرعب واحلت لی الغنائم وجعلت لی الارض طھورا ومسجدا وارسلت الی کآفۃ وختم بھا النبییون۔
مسلم ج 1 ص 199
یا رب صل و سلم دائما ابدا
علیٰ حبیبک خیر الخلق کلہم
ھو الحبیب الذی ترجی شفاعتہ

لکل ھول من الاھوال مقتحم

درود شریف :
اللهم صل عليٰ محمد و عليٰ آل محمد كما صليت عليٰ إبراهيم و عليٰ آل إبراهيم إنك حميد مجيد ، اللهم بارك عليٰ محمد و عليٰ آل محمد كما باركت عليٰ إبراهيم و عليٰ آل إبراهيم إنك حميد مجيد۔
اشعار:

سلام اس پر کہ جس نے بے کسوں کی دستگیری

کی

سلام اس پر کہ جس نے بادشاہی میں فقیری

کی

سلام اس پر کہ اسرار محبت جس نے

سمجھائے

سلام اس پر کہ جس نے زخم کھاکے پھول

برسائے

سلام اس پر کہ جو خون کے پیاسوں کو قبائیں دیتا

تھا

سلام اس پر جو گالیاں سن کر بھی دعائیں دیتا

تھا

سلام اس پر کہ جس کے گھر نہ چاندی تھی نہ سونا

تھا
سلام اس پر کہ ٹوٹا ہوا بوریا جس کا بچھونا تھا
سلام اس پر جو سچائی کی خاطر دکھ اٹھا تا تھا

سلام اس پر جو بھوکا رہ کر بھی اوروں کو کھلاتا

تھا

سلام اس پر کہ جس نے کھول دیں مشقیں اسیروں

کی

سلام اس پر کہ جس نے بھر دیں جھولیاں فقیروں کی

تمہید:
میرے نہایت واجب الاحترام بزرگو!مسلک اہل السنت سے تعلق رکھنے والے غیور سنی نوجوان بھائیو! اور سماعت فر مارہی ہوں تو… نہایت قابل احترام ماؤو اوربہنو… ہماری آج کی کانفرنس کا عنوان ہے… ختم نبوت کانفرنس… میں نے کانفرنس کے عنوان کی مناسبت سے ایک آیت کریمہ… اور ذخیرہ احادیث میں سے خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک حدیث مبارکہ پڑھی ہے… دعا فرمائیں کہ اللہ مجھے دلائل کے ساتھ بات کرنے کی توفیق عطافرمائے…یہ آیت کریمہ اور حدیث مبارکہ ا ٓپ حضرات خطباء واعظین… اور مبلغین سے سنتے رہتے ہیں…لیکن جس طرز کی گفتگو میں آج آپ حضرات کے سامنے عرض کروں گا…اس طرز پہ گفتگو آپ نے پہلے کبھی نہیں سنی ہو گی… قرآن کریمہ کی آیت سے استدلال ہر شخص کرتا ہے…جس کو اللہ نے علم کی دولت عطا فرمائی ہو… میں اپنے علم کی بنیا د پر نہیں…بلکہ اپنے اکابر کی جوتیاں سیدھی کرنے کی بنیاد پہ عرض کرتا ہوں…اللہ رب العزت نے قرآن وسنت میں بے شمار دلائل رکھے ہیں۔
آیت کے مضامین:
قرآن کریم کی اس آیت میں اللہ رب العزت نے تین باتیں عموما ًبیان فرمائی ہیں… تو جہ رکھنا !اس میں کتنی باتیں ہیں ؟(تین)
1…نام محمد صلی اللہ علیہ وسلم
2…کام محمدصلی اللہ علیہ وسلم
3…مقام محمد صلی اللہ علیہ وسلم
جس پیغمبرصلی اللہ علیہ وسلم کا ہم نے کلمہ پڑھا ہے اس پیغمبر کا نام کیا ہے… ؟ اس پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کا کام کیا ہے… ؟اور اس پیغمبرصلی اللہ علیہ وسلم کا مقام کیا ہے… ؟یہ تین باتیں اس آیت میں ہیں… جس نبی کا کلمہ پڑھا اس کا نام ہے محمد صلی اللہ علیہ وسلم… اس نبی کا کام ہے رسالت… اور جس پیغمبرصلی اللہ علیہ وسلم کا ہم نے کلمہ پڑھا… اس کا مقام ختم نبوت ہے… یہ ہمارے پیغمبرصلی اللہ علیہ وسلم کا مقام ہے… ہم اہل السنت والجماعت اس بات کا دعویٰ کرتے ہیں… کہ خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کو جو رب نے مقام عطا فرمایاہے… کائنات میں یہ مقام نہ کسی شخص کو ملا نہ مل سکتا ہے۔
شان مصطفیٰ بزبان حسان بن ثابت:
ہمارے پیغمبرصلی اللہ علیہ وسلم کا نام محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہے…حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں… جو دربار رسالت کے تقریبا سب سے بڑے شاعر ہیں فرماتے ہیں :
وشق لہ من اسمہ لیجلہ

فذ والعرش محمود وھذا محمد

فتح الباری ج 6 ص404باب ماجاء فی اسماء رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم
فرماتے ہیں کہ عرش والے کا نام محمود ہے…اور اس شخص کا نام محمد ہے…اللہ نے اپنے نام محمود سے نکالا اور محمد بنایا…یہ بتانے کے لئے کہ جہاں پہ چرچا محمود کا ہو گا…وہاں پہ چرچا محمدصلی اللہ علیہ وسلم کا ہو گا۔
توجہ رکھنا !اللہ نے نام محمد میں برکت رکھی ہے…محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا معنیٰ اس پہ بھی بات کروں گا… محمدصلی اللہ علیہ وسلم کے نکتے اس پہ میں عرض نہیں کرتا… یہ میرا عنوان نہیں…اصل بیان ان شاء اللہ ختم نبوت پہ کروں گا…رب نے توفیق دی تو ان شاء اللہ دلائل دوں گا…جس کے لئے آپ کے کان ترستے ہیں…ہم نے ختم نبوت کے عنوان کو پڑھا ہے مگر دلائل ہمارے سامنے نہیں ہیں… اس لئے ہم بات سمجھتے نہیں ہیں۔
نامِ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا معنی:
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا نام محمد ہے…محمدصلی اللہ علیہ وسلم کا معنی یہ ہے کہ جس کی تعریف کی جائے…اللہ نے اپنے نبی کا نام محمد کیوں رکھا…؟
نامِ محمدصلی اللہ علیہ وسلم رکھنے کی وجہ:
وجہ میرے اللہ کے علم میں تھا… کہ ایک دور آئے گا… میرے اس کائنات کے لاڈلے پہ لوگ اعتراض کریں گے… میرے اللہ کے علم میں تھا کہ میرے پیغمبرصلی اللہ علیہ وسلم کی ناموس پہ حملہ ہو گا… میرے اللہ کے علم میں تھا کہ میری اس کائنات کی سب سے عظیم ذات پہ لوگ اعتراض کریں گے… اللہ تو خالق ہے… اللہ ازل سے ہے اور ابد تک ہے… ایک دور وہ بھی آئے گا کہ جب اس دنیا میں کلمہ پڑھنے والا کوئی نہیں ہو گا… سوال یہ ہے جب پیغمبرصلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ موجود ہیں کوئی اعتراض کر تا ہے… تو جواب صحابی رسول دیتا ہے… اگر پیغمبرصلی اللہ علیہ وسلم کی ذات پر اعتراض کیا ہے… تو جواب صحابی رسول نے دیا ہے۔
میرا یہ بھی عنوان نہیں… کہ صحابہ نے جواب کیسے دیے… یہ مستقل ایک بحث ہے… جو محدثین نے بڑی تفصیل کے ساتھ ذکر کر دی ہے… اگر پیغمبرصلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف زبان اٹھی ہے تو صحابی رسول نے کا ٹی….نبوت کے خلاف ہاتھ چلا ہے تو صحابی رضی اللہ عنہ رسول نے کا ٹا… پیغمبرصلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف اگر کسی نے گردن تان کے بات کی ہے تو صحابی رسول گردن تان کے میدا ن میں آیا ہے…یہ صحابہ رضی اللہ عنہم کا مزاج تھا۔
مدح پیغمبرصلی اللہ علیہ وسلم اور گناہوں کی معافی:
غزوہ خیبر ہے نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لے کر جا رہے ہیں…پیغمبرصلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ صحابہ رضی اللہ عنہم موجود ہیں… حضرت عامر رضی اللہ تعالیٰ عنہ پیغمبرصلی اللہ علیہ وسلم کے صحابی ہیں… جو حضورصلی اللہ علیہ وسلم کی مدح میں پیغمبرصلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی میں کھڑے ہو کر فرماتے ہیں۔

اللھم لو لا انت مااھدیتنا

ولاتصدقنا ولا صلینا
فاغفر فداء لک ما اقتفینا

وثبت الاقدام ان لاقینا

والقین سکینۃ علینا

انا اذاصیح بنا ابینا

وبالصیاح عولوا علینا
شرح السنۃ ، امام بغوی رحمہ اللہ جز 14 ص20باب غزوۃ خیبر
کہا میرے پیغمبرصلی اللہ علیہ وسلم آپ نہ ہوتے ہم کلمہ نہ پڑھتے… آپ نہ ہو تے ہمیں ہدایت نہ ملتی… آپ نہ ہو تے ہمیں دین نہ ملتا… اللہ اس نبی کی محبت میں میدان جنگ میں نکلے ہیں… اللہ ہمیں ثابت قدم فرما… حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا یہ اشعار پڑھنے والا کون ہے… ؟سلمہ بن اکوع رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عرض کیا حضور یہ اشعار پڑھنے والے حضرت عامر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہیں… فرمایا رب نے اس کے گناہوں کو معاف فرمادیا… حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا یارسول اللہ یہ جملہ آپ نے فرما دیا… کچھ دیر اور زندہ رہ جاتا… راوی کہتے ہیں حضرت عمر نے یہ جملہ کیوں فرمایا جب پیغمبرصلی اللہ علیہ وسلم میدان جنگ میں کسی ایک کے لیے یہ جملہ فرما دیتے… کہ رب نے اس کے گناہوں کو معاف فرما دیا… یہ علامت تھی کہ اس میدان میں یہ شہید ہو جا ئے گا۔
خیبر میں مرحب کے اشعار:
حضرت عامر آگے بڑھےپیغمبرصلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے… سامنے مرحب جو خیبر کا بہت بڑا پہلوان تھا سامنے وہ آیا اس نے ہاتھ میں تلوار کو لیا اور فضاء میں لہرا کے کہنے لگا۔
قد علمت خیبر انی مرحب

شاکی السلاح بطل مجرب

خیبر جانتا ہے میری ماں نے میرا نام مرحب رکھا ہے… میں بڑا بہادر آدمی ہوں اور میں اسلحہ چلا نا بھی جانتا ہوں… اور میدان جنگ میں میں آگ کے شعلے بھڑکا دیتا ہوں… نبی کے سامنے بھلا کوئی بولے… اور صحابی خاموش رہ جا ئے۔
ہم بھی نہتے نہیں :
حضرت عامر نے فوراً فرمایا :
قد علمت خیبر انی عامر

شاکی السلاح بطل مغامر

اگر خیبر جانتا ہے تیرا نام مرحب ہے تو خیبر جا نتا ہے کہ میرا نام عامر ہے… اگر بہادر توہےتو بزدل میں بھی نہیں… ہتھیار تیرے ہاتھ میں ہے تو نہتا میں بھی نہیں…حضرت عامر نے و ار کیا کہ میرے پیغمبرصلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے بولے ذرہ چھوٹی تھی مرحب وار سے بچ گیا… حضرت عامر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے گھٹنے پہ تلوار لگی حضرت عامر رضی اللہ تعالیٰ عنہ شہید ہو گئے… نئے نئے لوگ کلمہ پڑھ کے مسلمان ہو ئے تھے… انہوں نے کہا عامر رضی اللہ تعالیٰ عنہ تو اپنی تلوار سے شہید ہو ئے یہ کون سی شہادت ہے… اللہ کے پیغمبرصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا… اللہ میرے عامر کو دوہرا اجر عطافرمائے گا… محدثین نے فرمایا ایک تو اس کی میدان جنگ میں شہادت کا اجر… اور دوسرا اس پر تبصرہ کا اجر… حضرت عامررضی اللہ تعالیٰ عنہ شہید ہو ئے… تو پھر مرحب کو جوش آیا…مرحب کے وار سے حضرت عامر شہید تو نہیں ہوئے تھے… لیکن مرحب کے ذہن میں تھا کہ مجھ پہ حملہ کرنے والا قتل ہو گیا۔
مرحب کے اشعار:
مرحب نے پھر ہاتھ میں تلوار کو لیا فضاء میں لہرا کر کہا۔
قد علمت خیبر انی مرحب

شاکی السلاح بطل مجرب

میں حیدر ہوں :
انا الذی سمتنی امی حیدرۃ

کلیث غابات کریہ المنظرۃ

فرمایا !سن اگر خیبر جا نتا ہے تیرا نام مرحب ہے۔

انا الذی سمتنی امی حیدرۃ

پھر میری ماں نے میرا نام شیر رکھا ہے۔

کلیث غابات کریہ المنظرۃ

میں عام شیر نہیں ہوں جنگل کا شیر ہوں مجھے دیکھ کر تو لوگ ڈر جاتے ہیں۔
شرح عقیدہ طحاویہ ،امام ابن جبرین جز 3 ص483
حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایک وار کیا مرحب کے دو ٹکڑے کر کے رکھ دیے… پیغمبرصلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے کافر بلند آواز سے بولے… اور صحابی خاموش رہ جا ئے یہ نہیں ہو سکتا…حضرت ابو سفیان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ابھی کلمہ نہیں پڑھا۔ پیغمبرصلی اللہ علیہ وسلم کی مذمت میں اشعار پڑھے… حضرت حسان بن ثابت آئے انہوں نے ایک قصیدہ پڑھا… جو حضرت حسان نے پیغمبرصلی اللہ علیہ وسلم کی مدح میں کہا تھا…خیر میں یہ عرض کر رہا ہوں میرے اللہ کے علم میں تھا میرے پیغمبرصلی اللہ علیہ وسلم کی مذمت بیان کریں گے…دفاع پیغمبرصلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم کریں گے… دفاع تابعین رحمہ اللہ کریں گے… میرے پیغمبرصلی اللہ علیہ وسلم کی مذمت ہو گی… تو ختم نبوت کے دیوانے اپنی جان دے کر دفاع کریں گے۔
لب چوم کر لیتے ہیں نام تیرا :
لیکن ایک دور وہ بھی آئے گا جب کلمہ پڑھنے والا کوئی بھی نہیں ہو گا… نہ رب کا نام لینے والا… نہ محمدصلی اللہ علیہ وسلم کا نام لینے والا… .قیامت تو تب ہی آئے گی اللہ پھر تیرے نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر حملہ ہو گا تو دفاع کون کرے گا…؟ فرمایا میں نے اس لیے نام ہی محمدصلی اللہ علیہ وسلم رکھا ہے… نہیں سمجھے! میں نے اس لیے نام ہی؟(محمدصلی اللہ علیہ وسلم رکھا ہے) کیا معنی ؟جو آدمی حضورصلی اللہ علیہ وسلم کو گالی دے گا… محمد کہہ کے گالی دے گا… حضورصلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں اگر گستاخی کرے گا… تو محمدصلی اللہ علیہ وسلم کہہ کرہی کرے گا…محمدصلی اللہ علیہ وسلم کا معنی جس کی تعریف کی جائے… جب مذمت بیان کرے گا تو زبان سے کہے گا… محمد یعنی اس کی تعریف کرنی چاہیے پھر مذمت بیان کرے گا… اس کے الفاظ اس کی تردید کریں گے… کہ نہیں یہ شخص مذمت کے لائق نہیں مدح کے قابل ہے… (سبحان اللہ) ہونٹ تردید کریں گے… فرمایا میں نے نام وہ رکھ دیا پیغمبرصلی اللہ علیہ وسلم کی تعریف نہ بھی کرے لب تب بھی تعریف کریں گے… میرے پیغمبرصلی اللہ علیہ وسلم کی ذات پہ حملہ کرے گا ہونٹ کہیں گے تو جھوٹ بولتا ہے… اس کی زبان کہہ دے گی نہیں نہیں تو جھوٹ بولتا ہے… زبان اس کی تردید کر دے گی…میرے پیغمبرصلی اللہ علیہ وسلم کا نام کیا ہے؟(محمدصلی اللہ علیہ وسلم )
رسالت کا معنی:
ہمارے پیغمبرصلی اللہ علیہ وسلم کا کام کیا ہے رسالت… تو جہ رکھنا! حضرت آدم بھی اللہ کے نبی مگر وہ صفی اللہ ہیں…حضرت نوح بھی نبی مگر وہ نجی اللہ ہیں… حضرت ابراہیم بھی نبی مگر وہ خلیل اللہ ہیں… حضرت موسٰی بھی نبی مگر وہ کلیم اللہ ہیں… حضرت عیسٰی بھی نبی مگر وہ روح اللہ ہیں… علیہم السلام ہمارے پیغمبرصلی اللہ علیہ وسلم بھی نبی مگر وہ رسول اللہ ہیں… رسالت کا معنی کیا ہے اللہ سے لینا امت کو دینا۔(سبحان اللہ) ہمیں پیغمبر وہی دے گا جو رب پیغمبرصلی اللہ علیہ وسلم کو دے گا… وہی تقسیم کرے گا۔
مختار کل صرف اللہ کی ذات ہے :
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی گیارہ شادیا ں ہیں… پیغمبرصلی اللہ علیہ وسلم کے گھر میں باندیاں ہیں… لیکن یہی پیغمبرصلی اللہ علیہ وسلم ہیں کہ ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی گود میں بچہ ہے… پیغمبرصلی اللہ علیہ وسلم گھر میں تشریف لائے حضرت امی عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی آنکھوں میں آنسو آگئے… آنسو کیوں تھے؟کون سی بیوی ہے جو یہ نہیں چاہتی کہ شادی کے بعد میرے گھر میں اولاد نہ ہو… نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بیوی ہو اس کی کیسے تمنا نہیں ہو گی؟ امی عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی حسرت یہ تھی کہ میرے گھر میں بھی پیغمبرصلی اللہ علیہ وسلم کا بیٹا ہو… امی عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا رو پڑی… حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا اس بات پہ آنسو بہانے کی حاجت نہیں ہے جس بات پہ آپ رو رہی ہیں یہ میرے اختیار میں نہیں ہے… معلوم ہوا اولاد دینا پیغمبرصلی اللہ علیہ وسلم کے اختیار میں نہیں ہے… نہ اولاد دینے کا اختیار رب نے دیا… نہ نبی اولاد دے سکتا ہے…پیغمبرصلی اللہ علیہ وسلم کی ذات پہ حملہ ہوا… پیغمبرصلی اللہ علیہ وسلم کے جسم سے خون نکلا… معلوم ہوا کہ پیغمبر جسم کی حفاظت نہیں کر سکتا…نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات پہ کفار نے جادو کیا… چھ ماہ تک اثر رہا… معلوم ہوا پیغمبرصلی اللہ علیہ وسلم کے اختیار میں نہیں ہے۔
تیرا انداز مگر سب سے جدا ہے:
توجہ رکھنا ! نبی کا کام ہے اللہ سے لینا امت کو دینا…حضرت آدم بھی اللہ سے لیتے امت کو دیتے… حضرت نوح بھی اللہ سے لیتے امت کو دیتے… حضرت ابراہیم بھی اللہ سے لیتے امت کو دیتے علیہم السلام… یہ اللہ سے لینا امت کو دینا یہ صرف ہمارے نبی کا کام نہیں ہے… یہ کام تو حضرت آدم اور نوح کابھی تھا…یہ کام تو حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور حضرت موسیٰ کا بھی تھا۔میں کہتا ہوں کام سب کا ہے لیکن حضرت آدم علیہ السلام کے لینے کا انداز اور ہے حضرت عیسیٰ علیہ السلا م کے لینے کا انداز اور ہے اور میرے پیغمبرصلی اللہ علیہ وسلم کے لینے کا انداز اور ہے۔
آدم نے رب سے لیا ہے حضرت آدم علیہ السلام کی توہین نہیں… مگر میرے رب نے کہا آدم تو جنت میں تھا تو بھول گیا ہے… اب زمین پہ چلا جا… میں تجھے وہاں دوں گا… حضرت ابراہیم نے پیغام لیا ہے فرمایا ابراہیم آگ کا چخہ ہے…آپ اس میں جائیں پیغام تجھے دوں گا… عیسی علیہ السلام پیغام تجھے بھی دوں گا دشمن کے نرغے میں بھی دوں گا…جب میرے پیغمبرصلی اللہ علیہ وسلم کی باری آئی فرمایا نہیں نہیں !لیا حضرت آدم علیہ السلام نے بھی ہے انداز اور ہے… لیا ابراہیم نے بھی ہے انداز اور ہے… حضرت موسٰی اور عیٰسی علیہم السلام نے بھی لیا ہے انداز اور ہے… لیکن جب رب نے ہمارے پیغمبرصلی اللہ علیہ وسلم کو دیا… تو دینے کا انداز بھی اور ہے… پیغمبرصلی اللہ علیہ وسلم کے لینے کا انداز بھی اور ہے۔
پیغمبرصلی اللہ علیہ وسلم نے لیا تو کبھی کعبہ میں لیا… پیغمبرصلی اللہ علیہ وسلم نے لیا تو کبھی غار میں لیا… پیغمبرصلی اللہ علیہ وسلم نے لیا تو کبھی غار ثور میں لیا… پیغمبرصلی اللہ علیہ وسلم نے لیا تو کبھی احد میں لیا… کبھی مکہ سے یثرب میں لیا… کبھی بیت اللحم تک لیا…ارے نبی رب سے لیتا ہے تو مکہ مکرمہ سے طور سینا میں…جہاں جہاں اور نبیوں نے لیا رب نے مقامات بھی دکھا ئے… رب نے کہا میرے پیغمبرصلی اللہ علیہ وسلم میں تجھے دوں گابیت اللہ میں… ابراہیم علیہ السلام گئے ہیں صفا اور مروہ میں سعی کرتے ہیں میرا پیغمبرصلی اللہ علیہ وسلم میں تجھے یہاں بھی دوں گا… عیسیٰ علیہ السلام نے لیا بیت اللحم میں میں تجھے یہاں بھی دوں گا…حضرت موسی علیہ السلام نے لیا طور سینا پہ میں تجھے یہاں بھی دوں گا… باقی ابنیاء نے لیا بیت المقدس میں میں تجھے یہاں بھی دوں گا… لیکن ایک اس مقام پہ دوں گا… جہاں پر کسی کو نہیں دیا۔
سدرۃ المنتہیٰ کیا ہے؟:
حضورصلی اللہ علیہ وسلم کو رب نے بیت اللحم بھی دکھا یا… بیت المقدس بھی دکھایا… طور سینا بھی دکھا یا… پہلا دوسرا اور تیسرا اور ساتوں آسمانوں تک لے گیا۔ سدرہ کہتے ہیں ”بیری“کو منتہی کہتے ہیں انتہا کو… سدرۃ المنتہی اس بیری کو کہتے ہیں کہ نیچے کا فرشتہ اوپر نہیں جا سکتا… اوراوپر کا فرشتہ نیچے نہیں آسکتا… صریف الاقلام پہ لے گئے ہیں… جہاں قلم چلتی ہے فرشتہ آواز سنتا ہے فرمایا یہاں تک تو کوئی پہنچا نہیں فرمایا محمدصلی اللہ علیہ وسلم تجھے یہاں تک لایاہوں اس سے آگے عرش پہ گئے ہیں… اللہ پیغمبرصلی اللہ علیہ وسلم کو عرش پہ لے کر گئے ہیں۔
حطیم کعبہ کیا ہے…؟
توجہ رکھنا!اللہ! بیت اللہ سے لے کر گئے ہیں عرش تک… کبھی تم نے غور کیا معراج کروانے کے لیے بیت اللہ سے کیوں شروع کیا… اور اختتام کے لیے اللہ پیغمبرصلی اللہ علیہ وسلم عرش تک کیوں لے کر گئے… نبی صلی اللہ علیہ وسلم آرام فرما تھے ام ہانی اپنے چچا کی بیٹی کے گھر… فرشتے آئے ہیں پیغمبرصلی اللہ علیہ وسلم کو وہاں سے اٹھا یا… اور بیت اللہ میں لے کر گئے ہیں… وہاں جا کے پیغمبرصلی اللہ علیہ وسلم پھر سو گئے… وہاں سے بیت اللہ میں… بیت اللہ کی دو جگہ ہیں ایک کو کعبہ کہتے ہیں… اور ایک کو حطیم کعبہ کہتے ہیں… یہ دونوں بیت اللہ ہیں… مشرکین مکہ نے بیت اللہ کوتعمیر کیا اور چندہ اکٹھا کیا جتنا چندہ موجود تھا اس کا بیت اللہ مکمل بنتا نہیں تھا… کچھ پہ بیت اللہ بنا دیا کچھ جگہ خالی رہ گئی…یہ کیسے پتہ چلے یہ کعبہ کا حصہ ہے انہوں نے قد آدم کے برابر دیوار کھڑی کر دی آج بھی تم بیت اللہ جاؤ… اللہ سب کو جا نے کی توفیق عطا فرمائے… ورنہ تصویر تم نے دیکھی ہو گی… ایک کعبہ ہے ایک اس کے گرد دیوار ہے…
حطیم سے معراج کی حکمت:
جس پہ فانوس لگے ہوئے ہیں لیکن کعبہ کا ایک حصہ وہ ہے۔ جس کی دیوار ہے دیوار میں دروازہ ہے دروازے کو تالا لگا ہوا ہے… کعبہ کا ایک حصہ وہ ہے جس میں دروازہ بھی نہیں… آنے کا رستہ بھی ہے جانے کا رستہ بھی ہے… میں کہتا ہوں مسلمانو ! تم نے کبھی غور نہیں کیا… پاکستان کا نہیں دنیا کاکوئی وزیر اعظم جائے کہتا ہے میں بیت اللہ میں گیا…کس بیت اللہ میں؟…کہتا ہے جہاں پہ دروازہ تھا جس پر تالا تھا کہتا ہے جی میرے لیے دروازہ کھولا گیا…میں بیت اللہ میں گیا ہوں… رب نے کہا نہیں نہیں میرا پیغمبرصلی اللہ علیہ وسلم تو امیروں کا بھی نبی ہے…تو غریبوں کا بھی نبی ہے۔ میرے پیغمبرتو حاکم کا بھی نبی ہے…تو محکوم کا بھی نبی ہے…اگر حاکم جائے وہاں لائن میں لگ جا ئے تالاکھلے گا تو اندر جا ئے گا…اور غریب وہاں پہ جائے گا جس میں نہ تالاہے نہ دروازہ نہ آنے کا مسئلہ نہ جا نے کا مسئلہ۔
حطیم کعبہ میں کوئی پابندی نہیں… ادھر سے جاؤ ادھر سے آؤ نبی صلی اللہ علیہ وسلم معراج پہ گئے…تو کعبہ کی اس جگہ سے نہیں جہاں پہ دیوار لگی ہے… اس جگہ سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم گئے ہیں جس جگہ پر دروازے نہیں تھے۔
توجہ رکھنا! جس جگہ سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم گئے اس جگہ رب نے اتنی برکت رکھی ہے آج بھی جمگھٹاہے… جس جگہ سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نہیں گئے وہاں آج بھی تالا ہے۔
کعبہ وہ بھی ہے کعبہ یہ بھی ہے… جہاں سے محمدصلی اللہ علیہ وسلم کا معراج نہیں تھا وہاں پہ تالا ہے… جہاں سے معراج ہوا وہاں پہ آج بھی نہیں ہے… توجہ رکھنا! حضورصلی اللہ علیہ وسلم معراج کو کہاں سے چلے حطیم کعبہ سے… کہاں تک…؟ (عرش تک)… حضورصلی اللہ علیہ وسلم کعبہ سے کیوں چلے عرش تک کیوں گئے؟ وجہ اللہ نے قرآن میں بیان فرمائی ہے
’’ان اول بیت وضع للناس للذی ببکۃ مبارکا‘‘
پارہ نمبر 4 آل عمران آیت 96
فرمایا کائنات میں مکانات تو بڑے ہیں لیکن کائنات کے پہلے کمرے کا نام کعبہ ہے… کعبہ پہلا گھر تھا… اور کہاں تک گئے اللہ نے مخلوقات کو بنایا سات زمینیں بنائیں سات آسمان
’’وسع کرسیہ السمٰوات والارض‘‘
پارہ 3 البقرہ آیت الکرسی
ان سات آسمانوں پہ کرسی ہے’’ وکان عرشہ علی المائ‘‘
پارہ 12 سورۃ ہود آیت نمبر 7
اس کرسی پہ سمندر اور سمندر پہ عرش ہے… عرش کائنات کی انتہاء ہے کعبہ کائنات کی ابتداء ہے… رب نے بتایا پیغمبر یہ کعبہ یہ دنیا کی ابتداء ہے اور عرش یہ میرا پیغمبرصلی اللہ علیہ وسلم یہ کائنات کی انتہاء ہے۔ میں نے تجھے معراج کروا کے بتا دیا ابتدا بھی تجھ سے ہے انتہاء بھی تجھ پہ ہے…ہمارے پیغمبرصلی اللہ علیہ وسلم ابتدا بھی ہیں…پیغمبرصلی اللہ علیہ وسلم انتہا ء بھی ہیں۔
سرخیل دیوبند حضرت نانوتوی رحمہ اللہ کا ہندو سے مناظرہ:
دیوبند کے بانی حضرت نانوتوی رحمہ اللہ،اللہ ان کی قبر پہ کروڑوں رحمتیں نازل فرمائیں…(آمین)…شاہ جہاں میں مناظرہ ہو نے لگا… مناظرہ کس سے ہندو سے مولانا قاسم نانوتوی رحمہ اللہ پہنچے… ہندوؤں نے حضرت مولانا قاسم نانوتوی رحمہ اللہ سے کہا حضرت آپ دلائل پہلے دیں… ہم دلائل بعد میں دیں گے… کہا جی یہ کیوں کہا…؟ آپ بزرگ ہیں آپ نیک ہیں ہم چاہتے ہیں کہ آپ دلائل پہلے دیں… ہم آپ کے احترام میں کہتے ہیں… مولانا قاسم نانوتوی رحمہ اللہ نے فرمایا نہیں بھائی اصول کے خلاف ہے۔
کہا جی اصول کیا ہے؟فرمایا میں نے جس نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا کلمہ پڑھا ہے وہ آخری نبی ہے… تمہاری باری پہلے میری باری آخر میں…حضرت ہم نے دلائل کی بات نہیں کی ہم تو اکرام کی بات کرتے ہیں… مولانا قاسم نانوتوی رحمہ اللہ نے فرمایا چلو میں تمہاری بات مان لیتا ہوں… کچھ بیان پہلے کروں گا کچھ بیان بعد میں کروں گا… کیونکہ میں نے اس نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا کلمہ پڑھا ہے… جو اول بھی ہے… آخر بھی ہے (سبحان اللہ)… انہوں نے کہاحضرت ہم دلائل کی بات نہیں کرتے… ہم تو ادبا کہتے ہیں…حضرت نانوتوی رحمہ اللہ نے بڑی عجیب بات کی… انہوں نے فرمایا پنڈتو!تم میری بات سمجھے بھی نہیں ہو… میں چاہتا یہ تھا کہ کچھ دلائل تم بھی دے دیتے اور بیان پہلے میرا ہو گا۔
جس طرح ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم آجائیں…نبوت موجود ہو گی مگر امام یہی ہوں گے…جب نبی کے غلام آجائیں تو پھر امام ہم ہو ں گے مقتدی تم ہو گے…میں تمہیں موقع دینا چاہتا تھا… تھوڑی سی بات کر لو۔
کعبہ کائنات میں پہلی جگہ ہے…اور عرش کائنات کی آخری جگہ ہے…عرش کے اوپر کوئی مخلوق نہیں ہے… اور کعبہ سے پہلے کوئی مخلوق نہیں… اللہ نے کعبہ سے ابتدا کروا کے… عرش تک پہنچا کے بتا دیا… میرا پیغمبرصلی اللہ علیہ وسلم ابتدا بھی تو ہے… انتہا ء بھی تو ہے۔
برکت اور عظمت :
اور اگرآپ الفاظ قرآنی پہ غور کریں
’’ ان اول بیت وضع للناس للذی ببکۃ مبارکا‘‘
یہ بیت اللہ برکت والا اور جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم عرش پہ گئے ہیں فرمایا
’’ فَإِنْ تَوَلَّوْا فَقُلْ حَسْبِيَ اللَّهُ لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ عَلَيْهِ تَوَكَّلْتُ وَهُوَ رَبُّ الْعَرْشِ الْعَظِيمِ ‘‘
سورۃ توبہ آیت 129
فرمایا میرا پیغمبر یہ مکہ برکت والا ہے… جہاں پہ تجھے لے کر گیا ہوں… میرا نبی وہ عظمت والا… میں کہتا ہوں میرا نبی برکت والا بھی تھا… عظمت والا بھی تھا…رب نے برکت سے ابتداء کی ہے… عظمت پہ انتہاء کی ہے… اب تمہیں برکت کے معنی کا ہی نہیں پتہ… کہ برکت کہتے کسے ہیں؟
برکت اور کثرت میں فرق:
برکت اور کثرت میں کیا فرق ہے ؟حضور بابرکت ہیں جبرائیل باکثرت ہیں یہ برکت والاوہ کثرت والاکیامطلب…؟ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ کتنے؟ (دو) اور جبرائیل کے؟ (چھ سو)یہاں ہاتھ کم ہیں…وہاں زیادہ اور جبرائیل کے ہاتھ کتنے بڑے ہیں… اگر وہ پھیلا دے ایک مشرق میں ایک مغرب میں۔ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ اتنے بڑے نہیں ہیں… توجہ برکت اور کثرت میں فرق کیا ہے؟
مثال:
میں مثال دے کر سمجھا تا ہوں ایک آدمی دس روٹیاں کھائے اور پیٹ نہ بھر ے یہ ہے کثرت اور دس آدمی ایک روٹی کھائیں پیٹ بھر جائے یہ ہے برکت۔
لفظ ’’رسول‘‘ فرمانے کی وجہ:
توخیر میں عرض کر رہا تھا میرے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے لینے کا انداز بھی اعلیٰ… اور دینے کا انداز بھی اعلیٰ… میرے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے لیا کبھی یثرب میں اور کبھی لیا عرش پہ جا کے… اور ان کے لینے کا اندازا اور ہے میرے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے لینے کا انداز اور ہے لیا انہوں نے بھی مگر انہوں نے دیا انسانوں کو…وہ دیتے اپنی امت کو… کوئی نبی آیا دینے کے لیے اپنی بستی کو… کوئی نبی آیا دینے کے لئے ایک قبیلہ کو…کوئی نبی آیا ایک جگہ کے رہنے والے ایک وقت کے لوگوں کو… ان کے دینے کا انداز اور تھا مگر میرے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دینے کا انداز اور ہےمیرا نبی صلی اللہ علیہ وسلم دینے پہ آیا تو مَردوں کو بھی دیا ہے… دینے پر آیا تو عورتوں کو بھی دیا ہے…میرا نبی صلی اللہ علیہ وسلم دینے پر آیا انسان بھی لے گئے… جنات بھی لے گئے۔
میرے دوستو! جانور بھی لے گئے اگلا جملہ کہتا ہوں… وہ دیتے امت کو یہ امت کو بھی دے گیا… اور بیت المقدس میں نبیوں کو بھی دے گیا… اس کے لینے کا انداز بھی اور ہے… اور دینے کا انداز بھی اور ہے… نام محمد کسی اور کو نہیں ملا… پیغام محمدصلی اللہ علیہ وسلم اوروں کو تو ملا ہے…(سبحان اللہ)…آدم علیہ السلام بھی لے کر امت کو دے گئے… آدم رسول اللہ کوئی نہیں کہتا حضرت نوح علیہ السلام بھی لے کر امت کو دے گئے… مگر رسول اللہ کوئی نہیں کہتا… حضرت موسٰی علیہ السلام بھی لے کر امت کو دے گئے مگر رسول اللہ کوئی نہیں کہتا… کیوں وہ رسول نہیں تھے… ؟ (تھے) تو رسول کیوں نہیں کہا رب نے کہا :مَا كَانَ مُحَمَّدٌ أَبَا أَحَدٍ مِنْ رِجَالِكُمْ وَلَكِنْ رَسُولَ اللَّهفرمایا میرا پیغمبرصلی اللہ علیہ وسلم رسول تو وہ بھی تھے… مگر جو رسالت تیری ہے وہ ان کی نہیں… وہ بھی تھے لیکن تیرے لینے کا انداز اور ہے… محمدصلی اللہ علیہ وسلم تیرے دینے کا انداز بھی اور ہے…میرا محمدصلی اللہ علیہ وسلم نہ تجھ جیسا کوئی دے سکا … نہ تجھ جیسا کوئی لے سکا… (سبحان اللہ)
سوال:
میں ایک بات کہتا ہوں توجہ رکھنا!
’’وَمَنْ يُطِعِ اللَّهَ وَالرَّسُولَ فَأُولَئِكَ مَعَ الَّذِينَ أَنْعَمَ اللَّهُ عَلَيْهِمْ مِنَ النَّبِيِّينَ وَالصِّدِّيقِينَ وَالشُّهَدَاءِ وَالصَّالِحِينَ ‘‘
سورۃ النساء آیت 69
جو میرے محمدصلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کرے گا وہ نبییوں کے ساتھ ہو گا… اس پر میرا ایک سوال ہے… اللہ جو محمد کی ا طاعت کرے گا تجھے یہ فرمانا چاہیے تھا جو میرے محمدصلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کرے گا… وہ میرے محمدصلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہوگا…یہ کہنا چاہیے تھا… نہیں سمجھے بھائی جو شیطان کی بات مانے وہ… ؟ (شیطان کے ساتھ)جو ولی کی بات مانے… ؟ (ولی کے ساتھ)آدم علیہ السلام کی مانے تو… ؟ (آدم کے ساتھ)موسٰی علیہ السلام کی مانے تو… ؟ (موسٰی علیہ السلام کے ساتھ) حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی مانے تو عیسٰی علیہ اسلام کے ساتھ…اور جو میرے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بات مانے تو میرے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ… یہ کیا کہ اطاعت ہم تیرے پیغمبرصلی اللہ علیہ وسلم کی کریں اور کھڑے ہوں ان کے ساتھ… نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کھڑا کر ناں:’’ ومن یطع اللہ والرسول فاولٓئک مع الذین انعم اللہ علیھم من النبیین ‘‘رب نے اعلان فرمایا جو میرے پیغمبرصلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کرے گا میں اس کو نبیوں کے ساتھ کھڑا کروں گا…میرے رب نے ایک جملہ سمجھایا ایک عقیدہ سمجھا یا اللہ کرے وہ آپ کو سمجھ آجا ئے…تو آپ کو عقیدہ ختم نبوت سمجھ آجائے۔
جواب :
فرمایا سنو ! تمہاری اوقات کیا ہے؟ تم نے کتنا پڑھا ہے جی میٹرک…کتنا پڑھا ہے جی ایم اے…جی ایم۔ بی۔ بی۔ ایس… تمہاری اوقات کیا ہے؟ تم تو یہاںچھانگی میں پیدا ہوئے… تم تو نارووال کی مخلوق ہو… میرا آدم تو جنت سےآیاہے… ارے تم تو اپنی ماں کے پیٹ سے آئے ہو… اور’’خلقت بیدی‘‘اور آدم کو میں نے اپنے دست قدرت سے بنایا ہے… تم فرق کو سمجھو فرمایا سنو!یہ مت سمجھنا ہم نے صرف نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کی ہے… آدم علیہ السلام وہ جس کو میں نے جنت سے بھیجا… اپنے دست قدرت سے پیدا کیا… وہ آدم بھی میرے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بات مانتا ہے… جس پہ جبرائیل اترتا ہے…میرے نبی کی بات مانتا ہے… جس کو نبوت کا تاج پہنایا وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بات مانتا ہے… تمہاری اوقات کیا… رب نے سمجھانے کے لیے فرما دیا:
’’ومن یطع اللہ والرسول فاولئک مع الذین انعم اللہ علیہم من النبیین والصدیقین‘‘
فرمایا اگر تم نے میرے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کی میں تمہیں نبیوں کے ساتھ کھڑا کرو ں گا… رب نے بتا یا میرے نبی محمدصلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہی تم ہوں گے یہ تنہا نہیں آدم علیہ السلام بھی ساتھ ہو ں گے۔
مسئلہ تر ک قرأ ۃ خلف الامام :
حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے صحابی رسول نے پوچھا؟یارسول اللہ متی الساعۃ حضورصلی اللہ علیہ وسلم قیامت کب آئی گی؟ حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاتو نے قیامت کی تیاری کر لی ہےاس نے عرض کی
ایا رسول اللہ ماعددت الساعۃ الاانی احب اللہ والرسول
میرے پیغمبرصلی اللہ علیہ وسلم میں نے اور تو کوئی تیاری نہیں کی لیکن میں اللہ اور اس کے رسول سے محبت کرتا ہوں… حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا’’ المرء مع من احب‘‘ جس نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ توپیار کرتا ہے قیامت کے دن اس نبی کے ساتھ تو ہو گا
الاربعین العشاریہ جز1 ص 162
اللہ فرماتے ہیں نبیوں کے ساتھ صرف تم نہیں اس صف میں آدم علیہ السلام بھی ہو گئے… صرف تم نہیں اس صف میں موسٰی اور عیسٰی علیہم السلام بھی ہو ں گے… اس میں تو سارے ہو ں گے مگر میں ایک جملہ اپنے ذوق پہ کہتا ہوں… ایک مسئلہ میں اپنے موضوع کا بیان کرتا ہوں… علامہ ادریس کاندھلوی رحمہ اللہ نے لکھا ہے فرمایا اللہ کے پیغمبرصلی اللہ علیہ وسلم جب بیت المقدس میں گئے… نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز پڑھائی اور انبیاء آپ کے پیچھے صف میں موجود تھے… نماز سب نے پڑھی فرمایا اللہ قرآن میں اعلان فرماتے ہیں۔
’’ وَلَقَدْ آتَيْنَاكَ سَبْعًا مِنَ الْمَثَانِي وَالْقُرْآنَ الْعَظِيمَ ‘‘
سورۃ حجر آیت 87
اللہ اعلان فرماتے ہیں اے میرے پیغمبرصلی اللہ علیہ وسلم میں نے تجھے فاتحہ دی ہے…ابراہیم علیہ السلام کو نہیں دی… فاتحہ تجھے دی ہے… میں نے موسیٰ اور عیسٰی علیہم السلام کو نہیں دی…میں نے تجھے دی ہے تو وہی پڑھے گا نا ں؟ جس کو دی جا ئے گی… جن کو نہیں دی وہ پڑھیں گے بھی؟ نہیں!!… میرے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بیت المقدس میں نماز پڑھا ئی… انبیاء میرے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے ہیں… نبی فاتحہ پڑھتا ہے اور نبی، نبی کے پیچھے نہیں پڑھتا… معلوم ہوا امام فاتحہ پڑھتا ہے مقتدی فاتحہ نہیں پڑھتا… یہ بات علامہ کاندھلوی رحمہ اللہ نے لکھی ہے۔
استدلال:
اگلا استدلال میرا ہے کہ اللہ فرماتے ہیں۔
’’وَمَنْ يُطِعِ اللَّهَ وَالرَّسُولَ فَأُولَئِكَ مَعَ الَّذِينَ أَنْعَمَ اللَّهُ عَلَيْهِمْ مِنَ النَّبِيِّينَ وَالصِّدِّيقِينَ وَالشُّهَدَاءِ وَالصَّالِحِينَ ‘‘
سورۃ النساء آیت 69
اگر نبی امام کے پیچھے فاتحہ نہ پڑھے جہاں وہ نبی ہو گا وہاں پہ ہم ہو ں گے… جو نبی امام کے پیچھے فاتحہ نہیں پڑھتا جس جگہ پہ نبی ہو گا اسی جگہ پہ ہم ہو ں گے۔
دعا اپنی اپنی:
میں اس لیے کہتا ہوں ایک نبی صلی اللہ علیہ وسلم پہ اعتراض کرنے والا ہے… ایک نبی کا دفاع کرنے والا ہے… کچھ لوگ صحابہ پہ اعتراض کرتے ہیں… کچھ لوگ صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم کا دفاع کرتے ہیں…کچھ اما م ابو حنیفہ رحمہ اللہ پہ تنقید کرتے ہیں… اور کچھ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کی تعریف کرتے ہیں… ہم کہتے ہیں اللہ قیامت کے دن ہمیں ان کے ساتھ کھڑ اکر جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا دفاع کرے… جو صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کا دفاع کرے…اے اللہ ہمیں ان کے ساتھ کھڑ اکر جو امام صاحب کی تعریف کرے…ہم اس پر بھی آمین کہتے ہیں… تم کہو نہیں نہیں! ہمیں ان کے ساتھ کھڑ اکر جو امام صاحب کی تنقید کرے… تم دعا اپنی کرو ہم اپنی اس آیت میں اللہ نے تین باتیں بیان فرمائیں۔ ایک نام پیغمبرصلی اللہ علیہ وسلم… دوسرا کام پیغمبرصلی اللہ علیہ وسلم… تیسرا مقام پیغمبرصلی اللہ علیہ وسلم… فرمایا رسول اور بھی تھے لیکن اس جیسا کوئی نہیں… اس کے لینے کا انداز بھی اور ہے… اس کے دینے کا انداز بھی اور ہے… بلکہ یہ امام بن کے نماز پڑھا رہے ہیں تو کس کو دے رہے ہیں… نبییوں کو… باقی نبیوں کو نہیں صرف امت کو دیتے ہیں۔
مقامِ پیغمبرصلی اللہ علیہ وسلم :
آخری بات سنو !تیسری بات اللہ نے ارشاد فرمایا کہ میرے پیغمبرصلی اللہ علیہ وسلم کا مقام سنو! وخاتم النبیین خاتم کا معنی کیا ہے ہم نے سمجھا کہ خاتم کا معنی آخری ہے… نہیں نہیں قاسم العلوم والخیرات حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی رحمہ اللہ نے فرمایا کہ خاتم کا معنی آخری بھی ہے… خاتم کا معنی اعلیٰ بھی ہے یہ بحث ذرا مشکل ہے لیکن ذہن میں رکھیں۔
اچھا؛ نہیں تو بہت اچھا :
حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھا نوی رحمہ اللہ نے بیان فرمایا بیان ذرہ مشکل تھا ایک مولوی کہتا ہے… حضرت آج کا بیان اتنا مشکل تھا عوام کو سمجھ نہیں آیا… تو بیان کا فائدہ… حضرت حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھا نوی رحمہ اللہ نے فرمایا کہ سمجھ آگئی تو اچھا نہیں آئی تو بہت اچھا… مولوی صاحب نے کہا ہمیں تو یہ بات بھی سمجھ میں نہیں آئی کہ سمجھ آ گیا تو اچھا نہیں سمجھے تو بہت اچھا… حضرت حکیم الامت تھانوی رحمہ اللہ نے فرمایا اگر میرا آج کا بیان سمجھ آ گیا تو اچھا… اس لیے کہ ان کو مسئلہ سمجھ آگیا ہے… مجھے خوشی ہے اور اگر نہیں سمجھ آیا تو بہت اچھا… فرمایامعنی یہ ہے کہ عوام کے ذہن میں آگیا کہ مولوی وہ تقریر کرتا ہے جو ہم نہیں سمجھتے… اگر یہ بات مان لے تو لڑائی ختم… عوام کیا کہتے ہیں مولوی صاحب دس سال مدرسے تو نے پڑھا ہے… تو ایم اے اسلامیات تو میں نے بھی کیا ہے… ٹھیک ہے تم نے قرآن کی تفسیر پڑھی ہے لیکن کچھ ناکچھ تو میں نے بھی پڑھا ہے…یہ لڑائی ہے مولوی اور عوام کی… اور اگر عوام یہ بات کہہ دے حضرت !جو آپ کا علم ہے وہ آپ کا علم ہے… آپ سمجھائیں تو ہم سمجھیں گے… اگر اس سطح پہ آجاؤ پھر مولوی اور عوام کی لڑائی ختم۔
عالم سے پوچھنے کا فائدہ:
اب میں ایک بات کہتا ہوں کبھی لوگ کراچی جاتے ہیں مذہب بدل کے واپس آتے ہیں… کتاب ہاتھ میں ہوتی ہے ایک دو آدمی گمراہ کرلیتے ہیں… پوچھو جی تو نے مذہب کیوں بدلا… ؟میں نے کتاب دیکھی میں نے دلیل دیکھی ہم نے کہا جو دلیل وہ لے کر آیا اگر خود سمجھنے کی بجائے تو کسی عالم سے پوچھ لیتا… اس کتاب کو خود حل کرنے کی بجائے کسی عالم سے پوچھ لیتا… تو ،تو کبھی گمراہ نہ ہوتا… اس لیے میں آپ کو مشورہ دیتا ہوں کہ کبھی کوئی تمہیں خراب کرنے کی کوشش کرے…تم صرف ایک جملہ کہہ دیا کرو کہ ہم عالم نہیں… ہم پڑھے لکھے نہیں ہیں ہمارے مولوی سے بات کرو…یہ جملہ تم کہہ دو… وہ کتاب دینے والا یوں دوڑے گا جیسے’’ لا حول ولا قوۃ‘‘ سے شیطان دوڑتا ہے…جیسے شیطان اذان سن کے دوڑتا ہے… تم آزما کے دیکھ لو… وہ مولوی کے پاس نہیں آئے گا…تمہیں خراب نہیں کرے گا۔
اور پادری لاجواب ہوگیا :
انگریز ہندوستان میں آیا… انگریز نے گمراہ کرنا شروع کیا… عیسائی بناؤ عیسائی بناؤ… ایک دیہات میں عیسائی گیا… اس نے آدمی کو کہا میں تم سے سوال پوچھتا ہوں… تم جواب دو… لوگوں نے کہا پوچھو… اس نے کہا یہ بتاؤ اللہ تمہارا خالق ہے لوگوں نے کہا جی ہاں… اس نے کہا کوئی دوسرا خالق پیدا ہو سکتا ہے…لوگوں نے کہا نہیں اس نے کہا اچھا اللہ پیدا کر سکتا ہے… لوگوں نے کہا جی ہاں… اس نے کہا جب پیدا کر سکتا ہے تو ہو بھی سکتا ہے… جب اللہ پیدا کرے گا تو ہو جا ئے گا… اس نے کہا قرآن میں ہے’’ان اللہ علیٰ کل شیء قدیر‘‘اس نے کہا مجھے یہ بتاؤ… اللہ جو تمہارا خالق ہے وہ دوسرا خالق پیدا کر سکتا ہے یا نہیں… ؟ اگر تم کہتے ہو پیدا نہیں کر سکتا تو پھر ’’ان اللہ علیٰ کل شیء قدیر‘‘نہ ہوا…اگر تم کہہ دو کہ پیدا کرسکتاہے تو پھر دو خالق پیدا ہو سکتے ہیں… لوگ بڑے سمجھ دار تھے میں کہتا ہوں دین کا علم نہیں تھا…مگر ایمان کے بڑے پکے تھے… اس نے کہا جی مجھے نہیں پتا مسجد کے مولوی صاحب کے پاس جا تے ہیں… مولوی صاحب کے پاس آئے…حضرت آپ بتائیں مولوی صاحب بھی بڑے سمجھ دار تھے۔ انہوں نے کہااگر بند کمرے میں مناظرہ ہوا یہ باہر جا کہ کہہ دے گا آج میرا دیوبند کے مولوی سے مناظرہ ہوا وہ ہار گیا… انہوں نے کہا بھائی میں بند کمرے میں بات نہیں کرتا تم دس پندرہ بندے اکھٹے کرو… گاؤں کا نمبر دار بلاؤ…میں پھر بات کروں گا… گاؤں کا نمبر دار بھی آگیا… پانچ دس آدمی بھی جمع ہو گئے… مولوی صاحب نے کہا سوال کر اب اس پادری نے سوال کیا اللہ کو ’’ان اللہ علیٰ کل شیء قدیر‘‘ تم مانتے ہو… ؟ کہا جی مانتے ہیں اللہ اور خالق پیدا کر سکتا ہے… ؟ کہا جی کرسکتا ہے کہا جی اور خالق پیدا ہو سکتا ہے…؟ کہا جی نہیں ہو سکتا… اس نے کہا جب رب پیدا کرے گا تو پیدا ہو بھی جا ئے گا۔ مولوی صاحب نے کہا نہیں جی نہیں…تم نے ہماری بات کو سمجھا ہی نہیں ہے… اللہ ان اللہ علیٰ کل شیء قدیر ہے…اللہ دوسرا خالق پیدا کر سکتا ہے…لیکن اللہ جس کو پیدا کرے گا وہ پیدا ہو نے کے بعد مخلوق بن جا ئے گا…اتنی سی بات تھی وہ شیر بنا پھر رہا تھا…کہ میرا بڑا سوال ہے… مسئلہ حل ہو گیا۔
لفظ خاتم کی قسمیں:
مولانا قاسم نانوتوی رحمہ اللہ نے فرمایا… خاتم کی تین قسمیں ہیں۔
1…خاتمیت زمانی 2…خاتمیت رتبی 3… خاتمیت مکانی
خاتمیت مکانی:
خاتمیت مکانی کیا معنی؟ ہمارے پیغمبرصلی اللہ علیہ وسلم سب سے آخری نبی ہیں کائنات کی کسی جگہ پہ کوئی اور نبی نہیں آسکتا۔
خاتمیت زمانی :
ہمارے پیغمبرصلی اللہ علیہ وسلم کی خاتمیت زمانی بھی خاص ہے کیا معنی؟ کہ ہمارے پیغمبرصلی اللہ علیہ وسلم آخری نبی ہیں کسی اور زمانے میں اب کو ئی اور نبی نہیں آسکتا۔
خاتمیت رتبی :
ہمارے پیغمبرصلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ نے وہ مقام عطا فرمایاہے… فرمایا نبی آنہیں سکتا کسی زمانے میں نبی آنہیں سکتا…کسی جگہ میں. فرمایااگر کوئی نبی آبھی جا ئے خدا نہ کرے آنہیں سکتا… آبھی جا ئے تو ہمارے پیغمبرصلی اللہ علیہ وسلم کو خاتمیت رتبی بھی حاصل ہے… ہمارے پیغمبرصلی اللہ علیہ وسلم سب سے اعلیٰ نبی ہیں… اور سب سے آخری نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہیں… زمانے کے اعتبار سے آخری نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہیں… مکان کے اعتبار سے آخری نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہیں… رتبہ کے اعتبار سے اعلیٰ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔
خاتم کا معنی:
توجہ رکھنا !میں بات سمجھانے کے لیے کہتا ہوں…اگر آپ کے شہر میں بہت بڑا سخی ہو کہتے ہیں سخاوت اس پہ ختم ہے… کوئی بہت بڑاعالم ہو کہتے ہیں علم اس پہ ختم ہے۔ بہت بڑا قاری ہو کہتے ہیں قراۃ اس پہ ختم ہے… کیا معنی؟ اس کا جو ہم نے کہا سخاوت اس پہ ختم ہے… معنی اس سے بڑا…؟(سخی کوئی نہیں)…ارے اس پہ قرأۃ ختم ہے معنی اس سے بڑا قار ی کوئی نہیں… توجہ رکھنا! ہم اپنی زبان میں بھی پنجابی میں بھی اردو میں بھی ختم کا لفظ رتبہ کے لیے استعمال کرتے ہیں… یار بہادری اس پہ ختم ہے… اس سے بڑا بہادر کوئی نہیں… جرات اس پہ ختم ہے اس سے بڑا جری کوئی نہیں… سخاوت اس پہ ختم ہے اس سے بڑا سخی کوئی نہیں۔
تو تنہا داری:
پھر مجھے کہنے دو اللہ نے اوصاف پیدا کئے… ایک وصف کانام صداقت ہے… ایک وصف کا نام عدالت ہے… اللہ نے اوصاف پیدا کئے… ایک کا نام عدالت ہے… وصف پیدا کئے نام شجاعت ہے… اللہ نے شجاعت کو پیدا کیا نبوت پہ ختم کردیا… دنیا میں دلیر بہت ہوں گے… مگر دنیا میں سب سے بڑ ا دلیر نبی ہے… دنیا میں امین بہت ہوں گے… امانت نبوت پہ ختم ہے…دنیا میں سخی بہت ہوں گے نبی سب سے بڑ اسخی ہے… دنیا میں بہادر بہت ہوں گے نبی سب سے بڑ ابہادر ہے… مجھے بات کہنے دے اللہ نے صداقت کو نبوت پہ ختم کیا… معنی نبی سے بڑا صادق کوئی نہیں… اللہ نے عدالت کو نبوت پہ ختم کیا… معنی نبی سے بڑا عادل کوئی نہیں… اللہ نے امانت کو نبی پہ ختم کیا… معنی نبی سے بڑا امین کوئی نہیں… پھر اللہ نے نبوت کو محمدصلی اللہ علیہ وسلم پہ ختم کر دیا معنی اس سے بڑا نبی کوئی نہیں… (سبحان اللہ)… ختم نبوت کامعنی سمجھیں۔
میں یہ کہہ رہا تھا…ہم معنی کرتے ہیں آخری نبی صلی اللہ علیہ وسلم… خاتم النبیین کا معنی کرو آخری نبی… اعلیٰ نبی صلی اللہ علیہ وسلم بولیں آخری نبی اور…؟(اعلیٰ نبی) ہمارے نبی آخری بھی ہیں اور اعلیٰ بھی ہیں… اللہ نے اخلاق کو نبوت پہ ختم کر دیا نبوت کو محمدصلی اللہ علیہ وسلم پہ ختم کر دیا… اس لئے ہم کہتے خالق نے ہمارے پیغمبرصلی اللہ علیہ وسلم کو خاتم النبیین بنا یا ہے… توجہ ! میں بات سمیٹ کر کہتا ہوں… آدم سے لے کر عیسٰی علیہم السلام تک نبی ہیں… اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم آخری نبی ہیں… آخری نبی کا میں ترجمہ یہ کیا کرتا ہوں… آدم علیہ السلام سے لے کر عیسٰی علیہ السلام تک یہ نبی ہیں ہمارے پیغمبرصلی اللہ علیہ وسلم نبی الانبیاء ہیں۔
نبی اور نبی الانبیاء میں فرق:
نبی اور نبی الانبیاء میں کیا فرق ہے؟ہمارے پیغمبرصلی اللہ علیہ وسلم یہ منبع ہیں اور آدم علیہ السلام سے لے کر عیسٰی علیہ السلام تک یہ مجمع ہیں منبع اورمجمع میں کیافرق ہے… اگر کسی کو پیاس لگ جائے تو پانی پینے کے لئے کبھی چشمہ پر جا ئے گا اگر کسی کو پیاس لگ جا ئے تو پانی پینے کے لیے کبھی تالاب پر جا ئے گاتالاب اور چشمہ میں فرق یہ ہےچشمہ سے پانی پھوٹتا ہےاور تالاب میں جمع ہو تا ہے حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر حضرت عیسٰی علیہ السلام ان میں بھی اوصاف موجود ہیں اوصاف ہمارے پیغمبرصلی اللہ علیہ وسلم میں بھی موجود ہیں ہمارے نبی سے اوصاف نکلتے ہیں باقی انبیاء میں اوصاف جمع ہو تے ہیں میں جو توجہ توجہ کہہ کے تمہیں بات سمجھارہا ہوں! میں رب کی ذات پہ بھروسہ کر کے کہتا ہوں تم نے وہ بات نہ مجھ سے پہلے کبھی سنی ہو گی نہ کسی کتاب میں پڑھی ہو گی ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نبی الانبیاء ہیں حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر حضرت عیسٰی علیہ السلام کی مثال تالاب کی ہے ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی مثال چشمے کی ہےیہاں سے اوصاف نکلتے ہیں باقی انبیاء میں جمع ہوتے ہیں
حضرت یوسف علیہ السلام اور زلیخا:
آپ نے شعر پڑھا ہے شعر سمجھا نہیں… آپ نے واقعہ سنا ہے حضرت یوسف علیہ السلام کنعان سے چلے اور مصر گئے… حضرت یوسف علیہ السلام بادشاہ کے محل میں تھے… اور زلیخا عزیز مصر کی بیوی تھی…حضرت یوسف نوجوان بھی ہیں حضرت یوسف علیہ السلام نبی بھی ہیں… بادشاہ کے گھر میں پلے بھی ہیں… زلیخا حضرت یوسف کے ساتھ غلط ارادہ رکھنے لگی… مگر حضرت یوسف علیہ السلام نبی تھے زلیخاکے جال میں پھنسے نہیں… زلیخا کو مصر کی عورتوں نے طعنے دیے…
انہوں نے کہا تو کم عقل عورت ہے غلام کے بارے میں ایسی باتیں کہتی ہے…زلیخا نے کہا تم نے اس کو دیکھا ہی نہیں۔زلیخا نے محل میں دعوت کی…دستر خوان بچھا دیا… دستر خوان پہ چھریاں چاقو رکھ دیے…قرآن کہتا ہے زلیخا نے کہا ’’اخرج‘‘ حضرت یوسف علیہ السلام باہر آئے مصر کی عورتوں نے یوسف علیہ السلام کو دیکھا… قرآن کہتا ہے انہوں نے کہا”
مَا هَذَا بَشَرًا إِنْ هَذَا إِلَّا مَلَكٌ كَرِيمٌ ‘‘
سورۃ یوسف آیت نمبر 31
یہ بشر نہیں لگتا… اس جملہ کی تشریح پھر کبھی سہی… (ان شاء اللہ) کبھی نارووال میں جلسہ ہوا میں علماء سے وعدہ کرتا ہوں…پھر عرض کروں گا… کہ’’ ماھذا بشرا ‘‘کا مطلب کیا ہے ؟یہ کیوں کہا… یہ جھگڑا تو کا فر اور نبیوں کے ساتھ تھا… کافر کہتا تھا ’’ إِنْ أَنْتُمْ إِلَّا بَشَرٌ مِثْلُنَا‘‘ تم بشر ہو… اور یہ کہتی ہیں کہ تم بشر ہی نہیں اس کی وجہ کیا ہے؟ اس جملہ کی شرح پھر سہی… آج کی بات سمجھو انہوں نے کہا ماھذا بشرا یوسف علیہ السلام بشر نہیں قطعن ایدیھنان مصر کی عورتوں نے یوسف علیہ السلام کو دیکھا… اپنی انگلیاں کاٹ بیٹھیں۔ حضرت امی عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں۔
لواحي زليخا لو رأين جبينه۔۔۔۔ لآثرن بالقطع القلوب على الإيدي
تفسیر روح المعانی جز 13ص 77
مصر کی عورتوں نے زلیخا کو دیکھا… اپنی انگلیاں کا ٹ ڈالیں… میرے محمدصلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھتی اپنا دل کاٹ ڈالتیں… یہ جملہ جو میں نے کہنا ہے وہ تم نے نہیں سنا وہ جملہ ابھی باقی ہے… نہ تم نے سنا… نہ تم نے پڑھا… وہ جملہ کہوں گا۔
لواحي زليخا لو رأين جبينه۔۔۔۔ لآثرن بالقطع القلوب على الإيدي
مصر کی عورتوں نے یوسف علیہ السلام کو دیکھا تو اپنی انگلیاں…؟(کاٹ دیں) میرے محمدصلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھتی تو اپنے دل…؟ (کاٹ ڈالتیں)امی عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنھا نے یہ کیوں کہا؟ میں ساتھیوں کو ازراہ بے تکلفی کہہ دیتا ہوں ایک بات خطیب کہتا ہے… ایک بات وکیل کہتا ہے…خطیب شعر سنا کے بات ختم کر دیتا ہے… وکیل کہتا ہے کیوں؟میں نے اس جملہ کو سمجھا نے کے لیے تمہید باندھی ہے ہمارے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم صفات کا منبع صفات کا سر چشمہ…حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر عیسٰی علیہ السلام تک یہ صفات کا چشمہ نہیں صفات کا تالاب ہیں…وہ منبع نہیں صفات کے جامع ہیں… یہاں سے نکلتی ہیں وہاں تک پہنچتی ہیں۔صداقت میرے پیغمبرصلی اللہ علیہ وسلم سے نکلی باقی انبیاء کو ملی…حسن میرے پیغمبرصلی اللہ علیہ وسلم سے نکلا باقی انبیاء کو ملایوسف علیہ السلام کو ملاپھر میں کہہ سکتا ہوں ہمارے پیغمبرصلی اللہ علیہ وسلم مرکز حسن ہیں حضرت یوسف علیہ السلام شاخ حسن ہیں۔
مرکز بدن اور مرکز حسن:
توجہ رکھنا ! میں اور بات کہتا ہوں ہمارے جسم میں ایک دل ہے… ہمارے جسم میں انگلیاں بھی ہیں…لیکن جسم میں دل مرکز بدن ہے…انگلیاں شاخ بدن ہیں۔ نہیں سمجھے؟ ہمارے پیغمبرصلی اللہ علیہ وسلم مرکز حسن ہیں…حضرت یوسف علیہ السلام شاخ حسن ہیں۔ امی عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں۔
لواحي زليخا لو رأين جبينه۔۔۔۔ لآثرن بالقطع القلوب على الإيدي
انہوں نے یوسف علیہ السلام کے حسن کو دیکھا انگلیاں کاٹ دیں…میرے محمدصلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھتیں دل کاٹ ڈالتیں…میں کہتا ہوں اس لیے امی عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنھا نے فرمایا… ہمارے پیغمبرصلی اللہ علیہ وسلم مرکز حسن ہیں…حضرت یوسف علیہ السلام شاخ حسن ہیں… تو جنہوں نے شاخ حسن کو دیکھا شاخ بدن کاٹی… اگر مرکز حسن کو دیکھتیں تو مرکز بدن کا ٹ ڈالتیں نہیں سمجھے شاخ حسن کو دیکھا تو شاخ بدن کاٹا…اور اگر مرکز حسن کو دیکھتیں تو پھر مرکز بدن کو کاٹتیں… میں تم سے مانگتا نہیں ہوں میں تو جلسے کی فیس نہیں مانگتا… اللہ اس سے ہمیں محفوظ رکھے۔
لیکن میں ایک جملہ کہتا ہوں ذاکر لعنت کرتا ہے وہ نوٹ کی بارش کرتا ہے… مت جیب میں ہاتھ ڈالنا تم سمجھتے ہوکہ نوٹ مانگتا ہے اللہ اس دن سے پہلے موت دے دے…جب ہم دین کو بیچنا شروع کر دیں… تو ہمارے پیغمبرصلی اللہ علیہ وسلم مرکز حسن ہیں… اور حضرت یوسف علیہ السلام شاخ حسن ہیں… میں نے جب اس جملہ کی شرح بیان کی… تو حضرت مولانا شیخ حسن دامت برکاتہم نے پانچ ہزار مجھے انعام دیا…یہ تو میں نے ایک تشبیہ بیان کی ہے اگر میں اگلی بحث اس شعر پہ شروع کر دوں… تو واللہ وہ تمہارے سمجھ سے ماورا ءہے… امی عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنھا نے یہ جملہ کیوں کہا تھا؟ اگر کیوں پہ بات کریں تب بھی بات بنتی ہے… اللہ مجھے اور آپ کو بات سمجھنے کی توفیق دے۔اس آیت میں کتنی تین باتیں بیان کی گئی ہیں1… نام؛ محمد ہے۔2…کام رسالت ہے۔ 3…جس نبی کا کلمہ پڑھا اس نبی کا مقام کیا ہے؟ ہم نے کہا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے نام پر حملہ کرو گے ہم تب بھی دفاع کریں گے… کام پر حملہ کرو گے ہم تب بھی دفاع کریں گے…اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے مقام پہ حملہ کرو گے… ہم تب بھی دفاع کریں گے… اللہ مجھے بھی توفیق عطاء فرمائے اللہ آپ کو بھی توفیق عطاء فرمائے۔
وآخردعوانا ان الحمد للہ رب العٰلمین