قرآن اور نعمان

User Rating: 5 / 5

Star ActiveStar ActiveStar ActiveStar ActiveStar Active
 
عنوان………….قرآن اور نعمان
مقام………….لاہور
خطبہ مسنونہ :
الحمد للّٰہ !الحمد للہ نحمدہ ونستعینہ ونستغفرہ ونؤمن بہ ونتوکل علیہ و نعوذ باللہ من شرور انفسنا ومن سیأت اعمالنا من یھدہ اللہ فلا مضلل لہ ومن یضلل فلا ھادی لہ ونشھد ان لاالہ الا اللہ وحدہ لا شریک لہ ونشھد ان سیدنا ومولانا محمدا عبدہ و رسولہ۔امابعد:فاعوذ باللہ من الشیطٰن الرجیم بسم اللہ الرحمٰن الرحیم الیوم اکملت لکم دینکم واتممت علیکم نعمتی ورضیت لکم الاسلام دینا۔
سورۃ المائدہ پ 6 آیت نمبر 3
عن علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ قال… سمعت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یقول الا انھا ستکون فتنۃ۔قلت ما المخرج منھا یارسول اللہ ؟ قال کتاب اللہ فیہ نبﺄ ماقبلکم وخبر مابعد کم وحکم ما بینکم وھو الفصل لیس بالھزل من ترکہ من جبار قصمہ اللہ ومن ابتغی الھدی فی غیرہ اضلہ اللہ۔ھو حبل اللہ المتین وھو الذکر الحکیم وھو الصراط المستقیم ھوالذی لایزیغ بہ الاھواء ولا تلتبس بہ الالسنۃ ولاتشبع منہ العلماء ولا یخلق عن کثرۃ الرد ولاتنقضی عجائبہ وھو الذی لم تنتہ الجن اذ سمعتہ حتٰی قالواانا سمعنا قراٰناً عجباً یھدی الی الرشد فاٰمنا بہ من قال بہ صدق ومن عمل بہ اجر ومن حکم بہ عدل ومن دعا الیہ ھدی الی صراط مستقیم۔
ترمذی ج 2 ص 118
عن عمر بن الخطاب قال أما إن نبيكم ( صلى الله عليه وسلم ) قال إن الله تعالى يرفع بهذا الكتاب أقواما ويضع به آخرين
تفسیر خازن الفصل الاول فی فضل القرآن وتلاوتہ جز 1 ص 4
عن علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ قال يا رسول الله إن نزل بنا أمر ليس فيه بيان أمر ولا نهي فما تأمرنا قال تشاورون الفقهاء والعابدين ‘‘
معجم اوسط جز 2 ص 172
وفی روایۃ شاوروا فیہ الفقہائ
مجمع الزوائد باب فی الاجماع جز 1 ص 428
درود شریف:
اللهم صل عليٰ محمد و عليٰ آل محمد كما صليت عليٰ إبراهيم و عليٰ آل إبراهيم إنك حميد مجيد ، اللهم بارك عليٰ محمد و عليٰ آل محمد كما باركت عليٰ إبراهيم و عليٰ آل إبراهيم إنك حميد مجيد۔
تمہید:
میرے نہایت واجب الاحترام بزرگو !مسلک اہل السنت والجماعت سے تعلق رکھنے والے غیور نوجوان دوستواور بھائیو… ! ہماری آج کی کانفرنس کا عنوان ہے ’’تقریب تکمیل درسِ قرآن‘‘ میں ان شاء اللہ العزیز… اپنے عنوان کی مناسبت سے آپ حضرات کے سامنے گفتگو کروں گا… میں نے عنوان کی مناسبت سے ایک آیت کریمہ کا حصہ… اور ذخیرہ احادیث میں سے خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کی تین احادیث تلاوت کی ہیں…قرآن کریم کی جو آیت کریمہ میں نے تلا وت کی ہے حق جل مجدہ نے اس میں اعلان فرمایا:’’الیوم اکملت لکم دینکم ‘‘کہ میں نے آج تمہارے لئے تمہارا دین کامل کر دیا۔
فتنوں سے حفاظت کا نبوی نسخہ:
حضرت علی المرتضی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی جو خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث میں نے تلاوت کی ہے۔ اس میں حضرت علی المرتضی رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں…میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا… اللہ کے پیغمبرصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا انھا ستکون فتنۃ علی !ایک وقت آئے گا کہ یہ دنیا سراپا فتنہ بن جائے گی…ہرطرف فتنے ہی فتنے ہوں گے… تو میں نے حضرت سے عرض کیاماالمخرج منھایارسول اللہ؟اللہ کے پیغمبرصلی اللہ علیہ وسلم ! ان فتنوں سے بچنے کا راستہ کیا ہو گا ؟ ان فتنوں سے نجات کی صورت کیا ہوگی؟… ان فتنوں سے بچنے کے لئے کوئی آپ آسان ترکیب ارشاد فرمائیں… اللہ کے پیغمبرصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاھو کتاب اللہاے علی! اگر فتنوں سے بچنا چاہتے ہو… توکلام اللہ کو اپنا دستور بنا لو فیہ نبﺄ ماقبلکم اس قرآن میں اللہ نے پہلے حالات و واقعات بتلائے ہیں وخبر ما بعدکم اور آئندہ آنے والے واقعات کی اطلاع دی ہے وحکم ما بینکم اور تمہارے درمیان ہونے والے نزاعات کے فیصلے کئے ہیں وھو الفصل لیس بالھزل قرآن کریم پکی بات کرتا ہے کچی بات نہیں کرتا ’’من ترکہ من جبار قصمہ اللہ ‘‘جو قرآن کو اس لئے چھوڑ دے گا اس کے مزاج میں اکڑ پن ہے اللہ اس کو برباد کر دے گا ومن ابتغ الھدی فی غیرہ اضلہ اللہ جو قرآن کو چھوڑ کر کسی اور کتاب سے ہدایت تلاش کرے گا اللہ گمراہی اس کا مقدر فرمادیں گے ھو حبل اللہ المتین یہ اللہ تک پہنچے کے لئے مظبوط رسی ہے وھو الذکر الحکیم یہ بہترین نصیحت اور حکمت والاذکر ہے۔ھو الصراط المستقیم اور جنت اور رب تک پہنچے کا یہ معتدل رستہ ہے… یہ قرآن کریم وہ کلام ہے وھو الذی لا تلتبس بہ الالسنۃ زبان اس قرآن کو بدل نہیں سکتی ولاتزیغ بہ الاھواء خواہشات کی بنیاد پر قرآن میں تحریف نہیں ہو سکتی ولاتشبع منہ العلمائ قرآن کریم کی تلاوت اور معانی کو بیان کرنے سے علماء سیر نہیں ہوتے ولایخلق عن کثرۃ الرد قرآن کی تلاوت کرتے جائیں قرآن پرانا محسوس نہیں ہوتا ولا تنقضی عجائبہ اگر قرآن سے نقطے نکالتے چلے جائیں اس کی حکمتیں عجائبات ختم نہیں ہوتے۔
و الذی لم تنتہ الجن اذ سمعتہ حتیٰ قالوا
جب قرآن کوپہلی مرتبہ جنات نے خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک سے سنا… تو جنات پکار اٹھے
اناسمعنا قراٰنا عجبا یھدی الی الرشد فاٰمنا بہٖ
ہم نے ایک عجیب کلام اور قرآن سنا ہے… ہم اس قرآن کی برکت سے اللہ پر ایمان لاتے ہیں… پھر پیغمبرصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا… اے علی ! من قال بہ صدق جو قرآن کی بات کرتا ہے سچا ہے ومن حکم بہ عدل جو قرآن کے مطابق فیصلے کرے عادل ہے ومن عمل بہ اجر جو قرآن پر عمل کرے اللہ اجر دیتا ہے
ومن دعا الیہ ھدی الی صراط مستقیم
اور جو انسان قرآن کی طرف دعوت دے وہ صراط مستقیم کی طرف اللہ کی جانب سے ھدایت یافتہ ہوتا ہے… حضرت علی المرتضی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی اس مبارک اور طویل حدیث کی روشنی میں؛ میں نے آپ حضرات کے سامنے گفتگو کرنی ہے… میری گفتگو کا عنوان ہو گا… ’’قرآن اور نعمان‘‘
کون نعمان؟:
نعمان سے مراد کون ہے… ؟ قرآن سے مراد کیا ہے… ؟یہ مجھے بتانے کی حاجت نہیں ہے اس کو مسلمان بھی جانتا ہے اور کافر بھی جانتا ہے۔ اور نعمان سے میری مراد پیغمبرصلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم کے بعد امتیوں میں سب سے بڑا انسان… حضرت امام اعظم ا بو حنیفہ رحمہ اللہ تعالی… اللہ ان کی قبر پر کروڑوں رحمتیں نازل فرمائے… نعمان سے میری مراد یہ عظیم شخصیت ہے… کہ جس کی تقلید کرنے والوں کی تعداد…اس وقت دنیا میں لاکھوں نہیں… کروڑوں سے متجاوز ہے… اور جس کے نام لینے والے پوری دنیا میں عام ہیں…یہ وہ شخص ہے کہ جس نے قرآن کے الفاظ کو عام کیا… جس نے قرآن کے معانی کوعام کیا… پیغمبرصلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث کی شرح کی… اور امت کے سامنے حضورصلی اللہ علیہ وسلم کے دیے ہوئے مسائل کو لکھ کر… ترتیب کے ساتھ امت کے سامنے پیش کیا… چاہیے تو یہ تھا اس آدمی کا شکریہ ادا کیا جاتا… چاہیے تو یہ تھا اس انسان کی قدر کی جاتی… چاہیے تو یہ تھا جتنا بڑا کارنامہ اس نے سر انجام دیا… اتنے بڑے اس کو تمغے دیے جاتے… لیکن افسوس ! اس شخص نے جتنا بڑا کردار اداکیا… امت کے ایک بدبخت طبقے نے… اس طرح ان کے خلاف اپنی زبان کو دراز کیا۔
دشمنان نعمان کا تعاقب ضروری ہے :
اس کائنات میں تین طبقے پیدا ہوئے…ایک طبقہ نے ختم نبوت پر حملہ کیا۔ بحمد اللہ تعالیٰ اکابر علماء دیوبند نے اس فتنہ کا تعاقب کیا… پیغمبرصلی اللہ علیہ وسلم کی ختم نبوت کے لئے اپنی جانیں نچھاور کیں…ختم نبوت کے لئے جیلیں کاٹیں… ختم نبوت کا مسئلہ پاکستان کی اسمبلیوں سے حل ہوا…ایک اور طبقہ پیدا ہوا… جو پیغمبرصلی اللہ علیہ وسلم کی ختم نبوت پر حملہ آور ہونے کے بعد…پیغمبرصلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج… پیغمبرصلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب رضی اللہ تعالیٰ عنہم پر حملہ آور ہوا… اکابر علماء دیوبند نے اپنے خون اور اپنی جانوں کو پیش کر کے… ہتھکڑیاں اوربیڑیاں پہن کے… ناموس صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم کو عام کیا… ناموس صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم کا پرچم اس کائنات میں لہرایا… ایک اورطبقہ پیدا ہوا… کہ جس نے پیغمبرصلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کے بعد کائنات کے عظیم انسان حضرت امام اعظم ابوحنیفہ ر حمہ اللہ کی ذات گرامی کو نشانہ بنایا… اس عظیم انسان کی ذات پر حملہ کیا…آج یہ اس وقت کی ضرورت ہے کہ ان بدبختوں کا تعاقب کیا جائے… اور امام صاحب کے مناقب کو بیان کیا جائے… امام صاحب کا تذکرہ قرآن کی روشنی میں کیا جائے۔
اکابر سے لے کر اصاغر تک :
تو میں نے آپ کے سامنے عرض کیا ایک طبقے نے ختم نبوت پرحملہ کیا…تو دفاع بحمداللہ تعالیٰ ہم نے کیا…ایک طبقے نے اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات پر حملہ کیا…تو دفاع بحمد اللہ تعالیٰ ہم نے کیا…اور ایک طبقہ نے امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کی ذات پرحملہ کیا… تو دفاع ہم نے کیا…میں اکابر کی ترجمانی کرتے ہوئے اس بات کو فخر کے انداز میں کہتا ہوں… میرے اللہ کا احسان یہ ہے کہ اکابر علماء دیوبند سے لے کر اصاغرعلماء دیوبندتک…اور عام آدمی سے لے کر خاص دیوبندی تک… تمام حضرات اس بات پر متفق ہیں…ہم اپنے عقیدے کو بیان بھی کرتے ہیں… ہم اپنے مسائل کو بھی بیان کرتے ہیں… لیکن اگر کوئی ہمارے عقیدے پر حملہ کرے…ہم دلائل کی قوت سے اس کا جواب بھی دیتے ہیں… تو تین طبقوں کارستہ ہم نے روکااور ہم نے دفاع کیا۔
علماء دیوبند اور خدائی انتخاب:
یہ میرے اللہ کا احسان ہے… اس کائنات کی عظیم شخصیت پیغمبرصلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت کا مسئلہ آیا… کام اللہ نے ہم سے لیا… پیغمبرصلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کائنات کی عظیم شخصیات کا مسئلہ آیا کام اللہ نے ہم سے لیا…اصحاب پیغمبرکے بعد کائنات کی عظیم شخصیت حضرت امام ابوحنیفہ نعمان بن ثابت رحمہ اللہ تعالیٰ کا مسئلہ آیا… اللہ نے کا م ہم سے لیا… تومیں نے آج قرآن اور نعمان کے حوالے سے گفتگو اس بات پہ کرنی ہے۔
1…امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ تعالیٰ کی ذات کا تذکرہ اللہ نے قرآن میں کیا ہے یا نہیں ؟
2…امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے عقیدہ کا تذکرہ اللہ نے قرآن میں کیا ہے یا نہیں ؟
3…امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے مسائل کا تذکرہ اللہ نے قرآن میں کیا یا نہیں ؟
نعمان اور قرآنی بشارت:
میں کہتا ہوں حضرت امام اعظم ابوحنیفہ رحمہ اللہ کی ذات مبارکہ وہ شخصیت ہے کہ جس کی بشارت میرے اللہ نے قرآن میں دی ہے… میں نے علی المرتضی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے حدیث تلاوت کی ہے… حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں… کہ میرے پیغمبرصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا… کہ یہ کلام اللہ کی عظمت ہے فیہ نباء ماقبلکم وخبرما بعدکماگر اس میں گزشتہ انسانوں کے واقعات ہیں… تو آئندہ آنے والے حالات کی خبریں بھی ہیں…تو اللہ رب العزت نے امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کی ذات کی بشارت قرآن کریم میں بھی دی ہے… میں جو بات کرجاؤں گا…میرے اللہ نے چاہا تو ان شاء اللہ چیلنج کی حیثیت رکھے گی… اور میں آپ حضرات کو دعوت فکر دوں گا… کوئی چاہے تو چٹ (پرچی )لکھ کے میرے چیلنج کا آج جواب دے دے… اگر آج تم سے نہ ہو سکے تو اسٹیج لگا کر میرے چیلنج کا جواب دے دو۔
تو تیر آزما ! ہم جگر آزمائیں:
جو امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کی ذات پہ تبرا کرتا ہے… امام صاحب کی ذات پہ زبان طعن دراز کرتا ہے میں کھلے لفظوں میں کہتا ہوں…میں اپنے ادارے کی بات نہیں کرتا… تم جلسہ اپنے ادارے میں رکھو… میں اپنی مسجد کی بات نہیں کرتا… تم پروگرام اپنی مسجد میں رکھو… امام کے مناقب میں بیان کروں گا امام پر جرح تم کرنا… امام کی عدالت میں بیان کروں گا امام پہ تنقید تم کرنا… امام کی ثقاہت میں بیان کروں گا… ثقاہت میرے ذمہ جرح تیرے ذمہ… امام پہ تو دل کھول کر تبرا کر لے میں امام پہ دل کھول کے مناقب بیان کر لوں گا… لیکن سٹیج تیرا ہو گا بیان ہم دونوں کریں گے… مسجد تیری ہو گی گفتگو ہم دونوں کریں گے… تو اپنا ذوق پورا کر لے میں اپنا ذوق پورا کر لوں گا… فیصلہ عوام پہ چھوڑ دیں گے اگر تیرے حق میں فیصلہ آجائے میں تیرا موقف مان جاؤں گا… اگر میرے حق میں فیصلہ آجائے تو تجھے میرا موقف مان لینا چاہیے… لیکن میں اللہ کی ذات پہ بھروسہ کرکے کہتا ہوں… آج تمہیں میری باتیں انوکھی لگتی ہیں… لیکن میں نے پشاور تا کراچی بحمد اللہ سفر کیا ہے… میں نے اس فتنے کو للکارا ہے… اور بڑی جرأت اور طاقت کے ساتھ للکارا ہے… وہ دن گزر گئے کہ جب تم نے اپنے آپ کو میدان مناظرہ میں پیش کیا۔
پچاس ہزارروپے انعام :
تمہیں آج میری بات پہ یقین نہیں آئے گا…آج سے چند ماہ قبل میں نے اسی لاہور میں مماتیت کے فرزندوں کو چیلنج کیا تھا… لیکن آج تک میرے چیلنج کو کسی نے قبول نہیں کیا… میں اس کے لیے شیخوپورہ میں گیا… میں نے وہاں یہ چیلنج کیا…مگر تم نے قبول نہیں کیا… تم نے تھا نے میں میرا عقیدہ لکھ کر تو دیا مگر تم نے میرا چیلنج قبول نہیں کیا… میں صوابی کے علاقے میں گیا… جہاں پنج پیر تمہارا گڑھ اور مرکز ہے… میں نے پچاس ہزار انعام کا اعلان کیا… میں نے اپناعقیدہ لکھ کر دیا لیٹر پیڈ پر تحریر لکھ کر دی… اگر تم میدان مناظرہ میں آنے کی ہمت کرو… مناظرہ بعد میں ہو گا حسب اعلان پچاس ہزار پہلے دوں گا… کیا میں نے لکھ کر نہیں دیا ؟
عقیدہ حیات النبی صلی اللہ علیہ وسلم کا اقرار :
دوران گفتگو اگر بات آ ئی تو میں عرض کروں کہ تم نے ہمارے عقیدہ کو مان لیا… اللہ کی قسم اٹھا کر کہتا ہوں… صوابی کے مماتی اشاعۃ التوحید کے مولوی نے عقیدہ لکھ کر دیا…کہتا ہے انبیاء علیہم السلام اجساد عنصریہ کے ساتھ باتعلق روح زندہ ہیں…اور یہ مذہب جمہور اہل السنت والجماعت کا ہے… اور انبیا ء علیہم السلام اجساد مثالیہ کے ساتھ باتعلق روح زندہ ہیں اور یہ مذہب محققین کا… میں نے کہا میں یہی کہتا تھا جو پیغمبرصلی اللہ علیہ وسلم کو قبر میں زندہ نہیں مانتا وہ اہل السنت والجماعت میں سے نہیں ہے… جو پیغمبرصلی اللہ علیہ وسلم کو زندہ نہیں مانتا تو اس کو محقق کہتا ہے…میں اس کو معتزلی کہتا ہوں…نام کوئی بھی رکھو … لیکن اس کا اہل السنت والجماعت کے ساتھ کوئی تعلق نہیں۔
خیر! میں عرض یہ کر رہا تھا میں نے واضح لفظوں میں بات کی ہے… کبھی لوگوں کو میری بات سمجھ نہیں آتی… لیکن جو میرے ذمہ دیوبندیت کا دفاع ہے میرے اللہ نے چاہا تو میں کروں گا…اگر تم نے مجھے احناف کی وکالت کے لیے کہہ دیا تو وکالت کرنا میرے ذمہ ہے پھر وکالت کا وکیل حق ادا کرتا ہے… پھر وہ یہ نہیں دیکھتا یہ میرے مد مقابل پر جرح کیسے ہوتی ہے… پھر وہ یہ نہیں دیکھتا کہ میرے مد مقابل کی ذات زیر بحث آتی ہے کہ نہیں…اگر تم امام صاحب کی ذات کو زیر بحث لا ؤ گے میں تیرے اکابر کو زیر بحث لاؤں گا… اگر تو شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ کو زیر بحث لائے گا… میں تجھے زیر بحث لاؤں گا… اگر قاسم نانوتوی رحمہ اللہ کے عقیدے پر بحث ہو گی تو میں تیرے عقیدے کو زیر بحث لا ؤں گا…اگر شیخ الہند رحمہ اللہ پر تبرا کرے گا… تو میں تیرے اکابر پہ بات کروں گا…اگر مسئلہ پر بات کرے گا میں مسئلہ عرض کردوں گا۔ میں نے عرض کیا :
1…امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کی ذات
2…امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے عقائد
3…امام صاحب رحمہ اللہ کے مسائل
میں قرآن کریم کی آیت پڑھوں گا امام صاحب کے مناقب بیان کروں گا… پھر میں آیت پڑھوں گا امام صاحب کا عقیدہ پیش کروں گا…پھر میں آیت پیش کروں گا امام صاحب کے مسائل قرآن سے لاؤں گا…تاکہ تیرے اس دھوکہ کو واضح کیا جائے تو نے زبان درازی کی امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ پہ… تو نے جھوٹ بولاحنفیت پہ…کہ ان کے پاس قیاس ہے… ان کے پاس فقہ ہے … ان کے پاس کتب ہیں…ان کے پاس امام کے اقوال ہیں… ان کے پاس قرآن وحدیث نہیں ہے۔
غیر مقلد قرآن پیش نہیں کر سکتا :
میں کہتا ہوں آؤ! قرآن سے مسئلہ میں بیان کرتا ہوں…قرآن سے مسئلہ تو بیان کر دے… ایک مناظرہ اسی پر ہو جائے… جو مسائل تم نے زیر بحث لا ئے… تم نے تین طلاق کا مسئلہ چھیڑا رب کا قرآن کیا کہتا ہے… تم نے آمین بالجہر کا مسئلہ چھیڑا رب کا قرآن کیا کہتا ہے… تم نے رفع الیدین کا مسئلہ چھیڑ ارب کا قرآن کیا کہتا ہے… تم نے موت کا مسئلہ چھیڑا رب کا قرآن کیا بیان کرتا ہے… تم نے قبر کے عذاب کا مسئلہ چھیڑا اللہ کا قرآن کیا بیان کرتا ہے… تم نے پیغمبرصلی اللہ علیہ وسلم کی حیات کا مسئلہ چھیڑا رب کا قرآن کیا کہتا ہے… تم نے مسئلہ توسل بیان کیا اللہ کا قرآن کیا کہتا ہے…تم نے استشفاع عند قبر النبی صلی اللہ علیہ وسلم کا مسئلہ بیان کیا رب کا قرآن کیاکہتا ہے…تو نے استویٰ علی العرش کا مسئلہ چھیڑ ا رب کا قرآن کیا کہتا ہے…تونے صفات باری کو چھیڑا رب کا قرآن کیا کہتا ہے… جسمیت باری کو چھیڑا رب کا قرآن کیا کہتا ہے… رب کے قرآن پہ فیصلہ کرلے… عقیدہ تو بھی بیان کر دے…آیت تو بھی پڑھ دے… آیت میں بھی پڑھتا ہو ں… مسائل کو چھیڑ دے قرآن تو بھی پڑھ… قرآن میں بھی پڑھتا ہوں… لیکن میرے اللہ نے چاہا فاتحہ خلف الامام پہ غیر مقلد قرآن پیش نہیں کر سکتا… آمین بالجہر پہ قرآن پیش نہیں کر سکتا… رفع یدین پہ قرآن پیش نہیں کر سکتا…

1.

میں رفع یدین کے ترک پر قرآن کی آیت لاؤں گا…

2.

آمین بالسر پر قرآن کی آیت لاؤں گا…

3.

امام کے پیچھے فاتحہ نہ پڑھنے پہ میں قرآن کی آیت لاؤں گا…

4.

پیغمبرصلی اللہ علیہ وسلم کی حیات پہ میں قرآن کی آیت لاؤں گا…

5.

مسئلہ توسل پہ قرآنی آیات لاؤں گا…

6.

عرض اعمال پہ قرآنی آیات لاؤں گا۔

7.

استشفاع عند قبر النبی صلی اللہ علیہ وسلم پہ قرآنی آیات لاؤں گا…

8.

استوی علی العرش پہ قرآنی آیت لا ؤں گا…
مسئلہ پڑھ کے آیت کو تو بیان کر دے…مسئلہ میں مان لوں گا…آیت پڑھ کے مسئلہ میں بیان کروں میرے موقف کو تو مان لے۔ میں رب کعبہ کی قسم اٹھا کے کہتا ہوں ان مسئلوں پر تیرے پاس قرآن کی آیت نہیں ہے… اگر تو کہتاہے کہ آیت ہے تو پھر پڑھ دے… اور میں ا سٹیج پر بھی چیلنج کرکے جاتا ہوں یہ بات ریکارڈ پر موجود ہے…مسئلہ غیر مقلد کا ہو گا…مسجد غیر مقلد کی ہو گی… سٹیج غیرمقلد کا ہو گا…مسائل بیان ہو ں گے…آیات میں بھی پڑھوں گا…آیات تو بھی پڑھ دے…قرآن میرے حق میں فیصلہ کرے تو مان لے… تیر ے حق میں فیصلہ کرے میں مان لوں گا۔
قرآن اور نعمان:
حضرت پیغمبرصلی اللہ علیہ وسلم کو رب نے قرآن میں بیان کیا۔ اصحاب پیغمبررضی اللہ عنہم کو رب نے قرآن میں بیان کیا… امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کو رب نے قرآن میں بیان کیا… اٹھائیسواں پارہ سورۃ الجمعہ رب قرآن میں کہتا ہے :
هُوَ الَّذِي بَعَثَ فِي الْأُمِّيِّينَ رَسُولًا مِنْهُمْ يَتْلُو عَلَيْهِمْ آيَاتِهِ وَيُزَكِّيهِمْ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَإِنْ كَانُوا مِنْ قَبْلُ لَفِي ضَلَالٍ مُبِينٍ۔ وَآخَرِينَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوا بِهِمْ وَهُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ
سورۃ الجمعۃ پ 28 آیت نمبر 2 ، 3
اللہ نے اعلان فرمایا میں نے پیغمبرصلی اللہ علیہ وسلم کو بھیجا امیین میں… امیین عرب تھے… امیین قریش مکہ تھے… امیین ہاشمی تھے… امیین عرب کے رہنے والے امیین اصحاب پیغمبررضی اللہ عنہم کو رب نے قرآن میں کہا… رب نے کہا میں نے پیغمبرصلی اللہ علیہ وسلم کو بھیجا امیین میں بھیجا آخرین میں۔
’’امیین‘‘سے مراد کون ؟:
سوال یہ ہے امیین سے مراد پیغمبرصلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ ہیں… امیین سے مراد قریش مکہ ہیں… امیین سے مراد عرب کے باشندے ہیں…’’آخرین‘‘ سے مراد کون ہیں ؟ اٹھا روایات کو! مفسرین نے لکھا ہے: پیغمبرصلی اللہ علیہ وسلم سے صحابہ نے پوچھا اللہ کے پیغمبرصلی اللہ علیہ وسلم! امیین کا معنی ہمیں سمجھ آگیا… کہ اس سے مراد اصحاب رضی اللہ تعالیٰ عنہم ہیں… آخرین سے مراد کون ہیں؟ جن میں رب نے آپ کو نبی بنا کر بھیجا۔
’’آخرین ‘‘سے مراد کون؟:
آخرین سے مراد کون ہیں… پیغمبرصلی اللہ علیہ وسلم نے سلمان فارسی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے کندھے پر ہاتھ رکھ کے فرمایا یہ وہ نوجوان ہے ’’ لوکان العلم عند الثریا
مسند احمد ج 2 ص 422
وفی روایۃ لوکان الایمان عند الثریا
بخاری ج 2 ص 727
وفی روایۃ لوکان الاسلام عند الثریا لتناولہ رجال من اھل فارس
تاریخ ابو نعیم ص
اس نوجوان کی نسل میں سے وہ لوگ پیدا ہوں گے جو اسلام کو لائیں گے پیغمبرصلی اللہ علیہ وسلم نے سلمان فارسی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے کندھے پرہاتھ رکھ کے فرمایا…حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے اعلان کیا… سلمان فارسی تیری نسل سے ہوں گے آخرین کا مصداق وہ ہیں… پیغمبرصلی اللہ علیہ وسلم نے جو بشارت دی ہے حضرت سلمان فارسی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بارے میں…سارے مفسر اس بات پر متفق ہیں…کہ اس میں اشارہ امام صاحب کی ذات کی طرف ہے… مفسر کہتے ہیں اس میں اشارہ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کی ذات کی طرف ہے… رب نے قرآن میں بشارت دی ہے اے پیغمبرصلی اللہ علیہ وسلم میں نے تمہیں نبی بنا کے اصحاب میں بھیجا… میں نے تمہیں نبی بنا کر آخرین میں بھیجا۔ اس سے مراد امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کی ذات ہے۔
تو پھر مجھے کہنے دیجئے!اصحاب پیغمبرصلی اللہ علیہ وسلم کی بشارت رب قرآن میں بیان کرے ان کو ماننا ایمان ہے… ابوحنیفہ رحمہ اللہ کی بشارت اللہ قرآن میں بیان کرے اس کو ماننا ایمان ہے… اصحاب پیغمبرصلی اللہ علیہ وسلم کا دفاع کرنا ایمان ہے… ابوحنیفہ رحمہ اللہ کا دفاع کاکرنا ایمان ہے… صحابی کا تذکرہ قرآن میں ہو تب بھی مان لے…اصحاب پیغمبرصلی اللہ علیہ وسلم کا تذکرہ رب قرآن میں بیان کرتا ہے…ابوحنیفہ رحمہ اللہ کا تذکرہ بھی رب قرآن میں بیان کرتاہے۔
اپنے اکابر پر مجھے فخر ہے :
مجھے نہیں سمجھ آتی تمہیں کیوں جھجک آتی ہے حنفی دیوبندی کہتے ہوئے… ایک M.N.Aایک ناظم اپنے علاقے کا ایک گٹر بنواتا ہے تو تعریف کرتا ہے یہ گٹر میں نے بنوایا ہے… وہ نالہ بناتا ہے تعریف کرتا ہے نالی میں نے بنائی ہے… اگر M.N.Aاور ناظم گٹر بنانے پر فخر کرتا ہے…تو اکابر علماء دیوبند نے اللہ کی قسم ختم نبوت کو عام کیا ہے اپنی جان دے کے مجھے فخر ہے… ناموس صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم کو بیان کیا ہے بیڑیاں پہن کے… انگریز کو للکار ا بیڑی پہن کے۔ مجھے فخر ہے… انگریز کے ایجنٹ کو للکارا۔ مجھے فخر ہے… اپنے اکابر پہ مجھے فخر ہے… تجھے نہیں فخر دیوبندیت کا تذکرہ چھوڑ دے… مجھے فخر ہے میں نام لوں گا جرأت کے ساتھ لوں گا…اکابر علمائے دیوبند کا دفاع کرنا میں اپنے ایمان کاحصہ مانتا ہوں۔
سر بکف سر بلند۔ دیوبند دیوبند :
جس نے قرآن کی تفسیر جیل میں بیٹھ کر لکھی… میں اس کو چھوڑ دوں… تحریک چلائی جیل میں بیٹھ کے…میں اس کو چھوڑ دوں…جان دی ہے ناموس صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم کے لیے… تذکرہ چھوڑ دوں… ایسا نہیں ہوگا… میں جرأت سے کہتا ہوں سر بکف سر بلند۔ دیوبند دیوبند۔ (پھر مولانا نے نعرے لگوائے )تجھ سے نعرہ نہیں لگتا میں تجھ سے نعرہ بھی لگوا لوں گا… میری زبان نعرے پر بھی چلتی ہے… میں نے تمہیں کئی بار کہا میں نے مسئلہ کو بیان کیا ہے میں مسئلہ بیان کروں گا۔
میرے اکابر پر تبرا ء چھوڑ دو :
تم میرے اکابر کو بھونکنا چھوڑ دو… اگر تم نے میرے اکابر کو بھونکا…تو میں تمہاری کلاس لوں گا… مماتیو! تم بھی سنو… اگر تم نے قاسم نانوتوی رحمہ اللہ کو للکارا میں تیرے اکابر کی پگڑیا ں اچھال دوں گا پھر مجھے مت کہنا کہ تم نے اکابر کو برا کہا ہے۔
میدان لگا کر تو دیکھ :
عقیدہ تم بیان کرو تمہیں ناز ہے میں لاہور میں پھر کہتا ہوں…عقیدہ حیات النبی صلی اللہ علیہ وسلم اہل السنت والجماعت کا اجماعی عقیدہ ہے… جو پیغمبرصلی اللہ علیہ وسلم کو قبر میں زندہ نہیں مانتا وہ سنی نہیں ہے… جو پیغمبرصلی اللہ علیہ وسلم کو قبر میں زندہ نہیں مانتا وہ دیوبندی بھی نہیں ہے… اگر تو اس پر مناظرہ کرنا چاہے میرا چیلنج ہے تو قبول کر لے… شہداء مسجد میں آ…میں قبول کرتا ہوں… تو حقانیہ ، عثمانیہ میں آ… میں قبول کرتا ہوں… مدرسہ تیرا ہو گا… میرا چیلنج قبول کر…اگر تو نے ماں کا دودھ پیا ہے…بیسیوں سال گزر گئے… تو نے میرے اکابرکو گالی دی ہے… میں نے تجھے جواب دیا ہے اور طاقت کے ساتھ دیا ہے… میرا چیلنج ہے قبول کر لے… ادارہ تیرا ہو گا… مناظرتیرا ہوگا… جواب میں دوں گا… میدان لگا کر تو دیکھ۔
آخری مناظرہ ہو گا:
میرے دوستو!تم بتاؤ میدان لگنا چاہیے کہ نہیں؟(سامعین… لگنا چاہیے) تمہاری زبان گُنگ کیوں ہوگئی؟… عرصہ گزر گیا مجھے تمہارے تبرے سنتے ہوئے… میں کہتا ہوں زبان تم نے کھولی ہے میدان تم لگاؤ… میں اللہ کی ذات پر بھروسہ کرکے کہتا ہوں… اگر مسئلہ حیات النبی صلی اللہ علیہ وسلم پر مناظرہ ہوا… تو یہ زندگی کا آخری مناظرہ ہو گا… اس کے بعد مناظرہ تمہارے ملک میں اس موضوع پر نہیں ہو گا… میں دیکھتا ہوں تو کون سی آیت پڑھتا ہے؟ ہمیں بھی سنا دے… تو کون سی حدیث پڑھتا ہے ہمیں بھی سنادے… کون سے اقوال لاتا ہے ہمیں بھی سنا دے… تیری زبان گُنگ میں نے کی ہے۔
اگر تم میں جرأت ہے اسٹیج کی زبان چھوڑ دے مناظرے پر آ…عدالت میں آتا ہے تو آ… مدرسہ میں آتا ہے پھر آ…کیا میں نے تمہیں فائلیں بنا کر نہیں دیں…؟تم نے فائلیں کیوں گم کر دیں؟… میں نے تحریر لکھ کر دی ہے… تم نے تحریریں کیوں ضائع کر دیں… میرے دوستو! میں کہتا ہوں کہ میرے اکابر کا عقیدہ قرآن کے مطابق ہے… میرے اکابر کے مسئلے قرآن کے مطابق ہیں… اللہ ہمیں توفیق دے ہم جرأت کے ساتھ عقیدہ ضرور بیان کریں گے… ان شاء اللہ… بیان کرنا چاہیے کہ نہیں…؟ سامعین… جی ضرور 
تم سابق دیوبندی مت لکھو ؟
ایک عرصہ گزر گیا کہ جو بدبخت اٹھتا اہلحدیث سابق دیوبندی تم سابق دیوبندی نہیں ہوتم جھوٹ مت بولو… جو اکابر علماء دیوبند کے نظریا ت کو نہیں مانتا وہ دیوبندی نہیں ہے۔
تم سابق مماتی لکھو
تم سابق معتزلی لکھو
تم سابق نیم غیر مقلد لکھو
سابق دیوبندی مت لکھو… جس کا عقیدہ پیغمبرصلی اللہ علیہ وسلم کی حیات کا نہیں ہے وہ سنی بھی نہیں… وہ دیوبندی بھی نہیں… بات ٹھیک ہے یا غلط ؟ اب سنو! میں نے عرض کیا اللہ نے امام صاحب کی ذات کی بشارت قرآن میں دی ہے… یہ نعمان کی ذات کا مسئلہ تھا۔
عقائد ابو حنیفہ پر قرآنی دلائل:
عقیدہ (اللہ ہر جگہ ہے :
میں نعمان کے عقیدہ پر بات کرتا ہوں امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ نے عقیدہ بیان کیا رب کی ذات کے بارے میں نعمان کا احناف کا عقیدہ یہ ہے ’’اللہ ہر جگہ پر ہے‘‘ صرف اللہ عرش پر نہیں ہےہم نے عقیدہ بیان کیا میں کہتا ہوں اللہ ہر جگہ پر ہے
دلیل :
وَلِلَّهِ الْمَشْرِقُ وَالْمَغْرِبُ فَأَيْنَمَا تُوَلُّوا فَثَمَّ وَجْهُ اللَّهِ
(1) سورۃ البقرۃ پ 1 آیت نمبر 115
مشرق بھی اللہ کا مغرب بھی اللہ کا تم جس طرف بھی چہرہ پھیرو وہاں پہ اللہ موجود ہو گا۔
عقیدہ (اللہ ہر کسی کے ساتھ ہے :
امام ابو حنفیہ رحمہ اللہ کا عقیدہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر کسی کے ساتھ ہے۔
دلیل اول :
رب نے قرآن میں بیان کیا
مَا يَكُونُ مِنْ نَجْوَى ثَلَاثَةٍ إِلَّا هُوَ رَابِعُهُمْ وَلَا خَمْسَةٍ إِلَّا هُوَ سَادِسُهُمْ وَلَا أَدْنَى مِنْ ذَلِكَ وَلَا أَكْثَرَ إِلَّا هُوَ مَعَهُمْ أَيْنَ مَا كَانُوا
سورۃ المجادلہ پ 28 آیت نمبر 7
عقیدہ (اللہ شہ رگ کے قریب ہے  :
امام ابو حنیفہ نعمان بن ثابت رحمہ اللہ کا عقیدہ ہے اللہ تعالیٰ شہ رگ کے قریب ہے
دلیل ثانی:
رب قرآن میں بیان کرتا ہے۔
نَحْنُ أَقْرَبُ إِلَيْهِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِيدِ
سورۃ ق پ 26 آیت نمبر16
رب قرآن میں بیان کرتا ہے میں حبل الوریدسے قریب ہوں… تمہاری شہ رگ سے قریب ہو ں… اللہ ہر جگہ پہ فَثَمَّ وَجْهُ اللَّهِ اللہ ہر کسی کے ساتھ ہے ’’ إِلَّا هُوَ مَعَهُمْ ‘‘اللہ ہر کسی کے ساتھ ہے… اللہ قرآن میں کہتا ہے… میں نے رب کا قرآن بیان کیا… ایک طبقہ کہتا ہے نہیں !جی اللہ عرش پر ہے… میں کہتا ہوں تیرے پاس آیت کون سی ہے؟ کہتا ہے
’’ الرَّحْمَنُ عَلَى الْعَرْشِ اسْتَوَى… ثُمَّ اسْتَوَى عَلَى الْعَرْشِ ‘‘
میں نے کہا اسْتَوَى عَلَى الْعَرْشِ کا معنی قطعا ً یہ نہیں… تو نے جھوٹ بولا رب عرش پر ہے یہ قرآن میں نہیں ہے… رب کہتا ہے ’’ ثُمَّ اسْتَوَى عَلَى الْعَرْشِ ‘‘تو نے ایک آیت پڑھی ہے… میں چھ آیات پڑھتا ہوں۔
1… وَلِلَّهِ الْمَشْرِقُ وَالْمَغْرِبُ فَأَيْنَمَا تُوَلُّوا فَثَمَّ وَجْهُ اللَّهِ
(1) سورۃ البقرۃ پ 1 آیت نمبر 115
2…حضرت موسی علیہ السلام نے فرمایا ’’ إِنَّ مَعِيَ رَبِّي ‘‘رب میرے ساتھ ہے۔
سورۃ الشعراء پ 19 آیت نمبر 62
3…پیغمبرصلی اللہ علیہ وسلم نے غار میں فرمایا’
’ لَا تَحْزَنْ إِنَّ اللَّهَ مَعَنَا ‘‘
اللہ ہمارے ساتھ ہے۔
سورۃ التوبۃ پ 10 آیت نمبر 40
4…رب قرآن میں کہتا ہے
مَا يَكُونُ مِنْ نَجْوَى ثَلَاثَةٍ إِلَّا هُوَ رَابِعُهُمْ وَلَا خَمْسَةٍ إِلَّا هُوَ سَادِسُهُمْ وَلَا أَدْنَى مِنْ ذَلِكَ وَلَا أَكْثَرَ إِلَّا هُوَ مَعَهُمْ أَيْنَ مَا كَانُوا
سورۃ المجادلہ پ 28 آیت نمبر 7
5…اللہ قرآن میں اعلان کرتا ہے
نَحْنُ أَقْرَبُ إِلَيْهِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِيدِ
سورۃ ق پ 26 آیت نمبر16
6…رب قرآن میں اعلان کرتا ہے
وَإِذَا سَأَلَكَ عِبَادِي عَنِّي فَإِنِّي قَرِيبٌ
کہ میں تمہارے قریب ہوں۔
سورۃ البقرۃ پ 2 آیت نمبر 186
اگر میں چھ آیات پڑھوں عقیدہ ثابت نہیں ہوتا تو تیری ایک آیت سے عقیدہ ثابت کیسے ہو ا؟
استویٰ علی العرش کا مطلب:
تیری آیت کامعنی یہ تھا رب قرآن میں کہتا ہے:’’ تبار ک الذی بیدیہ الملک‘‘حکومت اللہ کے ہاتھ میں ہے معنی یہ نہیں… کہ اللہ نے حکومت کو ہاتھ میں پکڑا ہے یہ بالکل ایسے ہی ہے کہ مجھے آپ کہہ دو کہ مولانافلاں شخص سے مجھے کا م ہے… میں کہہ دوں میری مٹھی میں ہے… اس سے کا م لینا کوئی مسئلہ نہیں یہ تو میرے قبضہ میں ہے… جب کہتا ہوں کہ فلاں آدمی میری مٹھی میں ہے… معنی یہ کہ میرے قبضہ میں ہے… میرا تسلط ہے… رب کہتا ہے آسمان زمین کی حکومت میرے ہاتھ میں ہے… معنی یہ کہ قبضہ اللہ کا ہے… رب کہتا ہے کہ آسمان زمین پر میرا قبضہ ہے ’’ ثم استویٰ علی العرش‘‘عرش پہ قبضہ میرا ہے… اس کا معنی قبضہ تھا اس کا معنی یہ نہیں تھا کہ اللہ عرش پر رہتا ہے۔
قیامت کی صبح تک :
تم میرے تین سوالوں کو نوٹ کر لو… میں قیامت کی صبح تک تمہیں وقت دے کر جارہا ہوں…میرے ان سوالات کا جواب دے…میں ایک دن دو دن کی بات نہیں کرتا… قیامت تک کے لئے کہتاہوں…عرب وعجم سے کالے اور سفید دنیا بھر کے غیر مقلد جمع ہو ں اور میرے سوالات کا جواب دیں…اگر تو کہتا ہے اللہ عرش پر ہے میرا پہلا سوال یہ ہے:
1…اللہ خالق ہے اور عرش مخلوق ہے… اگر تو کہتا ہے رب عرش پر ہے تو رب خالق ہے عرش مخلوق ہے… اگر رب عرش پر ہے جب عرش نہیں تھا تو رب کہاں تھا ؟
2… اللہ خالق ہے اور عرش مخلوق ہے… خالق غیر محدود ہے اور عرش محدود ہے… اگر اللہ عرش پر ہے کیا غیر محدود؛ محدود میں سماسکتا ہے ؟
3… اگر اللہ عرش پر ہے… پھر اللہ مکین ہوا عرش مکان ہو ا…اور دنیا کا اصول یہ ہے کہ مکان ہمیشہ مکین سے بڑا ہوتا ہے… تو اللہ اکبر کا کیا معنی ہو گا؟
ایک عام فہم مثال :
تم گلی میں بیٹھے ہو گلی مکان ہے یہ تم سے بڑی ہے… تم گھر میں رہتے ہو گھر مکان ہے تم مکین ہو گھر تم سے بڑا ہے… اگر تم مسجد میں رہتے ہو… مسجد مکان ہے تم مکین ہو… مکان مکین سے بڑا ہوتا ہے… اگر رب عرش پہ مانو پھر ماننا پڑے گا عرش اللہ سے بڑا ہے… پھر اللہ اکبر کا معنی کیا ہو گا؟… میں نے تین سوال کیے دنیا بھر کے غیر مقلدو!ایک اللہ خالق ہے اور خالق ازل سے ہے… عرش مخلوق ہے مخلوق ازل سے نہیں… جب عرش نہیں تھا رب کہاں تھا… ؟دوسرا یہ کہ رب خالق ہے… جو غیر محدود ہے… عرش مخلوق ہے جو محدود ہے… کیا غیر محدود؛ محدود میں سما سکتا ہے… ؟تیسرا یہ کہ اللہ مکین ہے… عرش کو تونے مکان مانا… مکین سے مکان بڑا ہوتا ہے… اللہ عرش پر ہے تو عرش کو رب سے بڑا ماننا پڑے گا… اللہ اکبر کا معنی کیا ہو گا…؟ میں نے عقیدہ قرآن سے بیان کیا… تجھ پر تین سوالات کیے… ان تین سوالات کا جواب تیرے ذمہ قرض ہے۔میں نے عقیدہ بیان کیا نا… میرے عقیدہ پر تو اعتراض کر… میں جواب دیتا ہوں… میں نے سوال عقلی کے عقلی جواب دے۔
غیر مقلد ین کا بھونڈا اعتراض :
ایک غیر مقلد نے عقلی سوال کیا… سوال سنو !سوال کرنے لگا ایسا بدبخت آدمی ہے عقل سے سوال کیا… مجھے کہتا ہے مولانا اللہ ہر جگہ ہے… میں نے کہا بالکل… میرا اللہ ہر جگہ پر موجود ہے… سوال سنو! کہتا ہے ہر جگہ پر ہے؟ میں نے کہا ہاں! ہر جگہ پر ہے… کہتا ہے مولانا ہوش سے بات کرو… میں نے کہا میں نے ہوش سے بات کی ہے… اللہ ہر جگہ پر ہے… کہتا ہے پھر لیٹرین میں بھی اللہ ہے؟العیاذ باللہ۔
الزامی جواب :
میں نے کہا میں تجھ سے سوال کرتا ہوں نوجوان… تو قرآن کا حافظ ہے… ؟ کہتا ہے جی میں قرآن کا حافظ ہوں… میں نے کہا کیاقرآن تیرے سینے میں موجود ہے… ؟کہتا ہے موجود نہیں… میں نے کہاں تیرے سینے میں محفوظ ہے… کہتا ہے جی محفوظ ہے… میں نے کہا محفوظ وہی ہوتا ہے جو موجود ہو… اب بتا !تیرے سینے میں قرآن موجود ہے… کہتا ہے جی میرے سینہ میں قرآن موجود ہے… میں نے کہاپھر مجھے مسئلہ بتا! بیت الخلاء میں قرآن کو لے کر جانا جائز ہے…؟ کہتا ہے جائز نہیں ہے… میں نے کہا بیت الخلاء میں قرآن لے کر جانا… ؟کہتا ہے گناہ کبیرہ ہے… میں نے کہا تیرے سینے میں قرآن موجود ہے جب تو بیت الخلاء میں جاتا ہے… تو سینہ پھاڑ کے قرآن کو باہر رکھ کہ پھر بیت الخلاء میں جاتا ہے…؟ کہتا ہے نہیں نہیں مولانا!… میں نے کہا جواب تو دے نا!… فوراً کہنے لگا قرآن میرے سینے میں موجود ہے… مگر وجود سے پاک ہے… میں نے کہا قرآن جس طرح تیرے سینے میں موجود ہے… مگروجود سے پاک ہے… میرا اللہ ہر جگہ پہ موجود ہے… مگر وجود سے پاک ہے… تو نے عقلی سوال کیا میں نے جواب دیا میں نے عقلی سوال کیا… تو اپنے مولویوں کو اکٹھا کر کے تو بھی جواب دے دے نا… میرے سوالات کا جواب تو کیوں نہیں دیتا… میں نے عرض کیا میرے امام کا عقیدہ ہے اللہ ہر جگہ پر ہے…آگے سنیے میرے امام کا عقیدہ میں بیان کرتا چلا جاؤ ں۔
فقاہت اور قرآن :
میرا امام فقیہ تھا اللہ فقہ کا تذکرہ قرآن میں کرتا ہے۔
فَلَوْلَا نَفَرَ مِنْ كُلِّ فِرْقَةٍ مِنْهُمْ طَائِفَةٌ لِيَتَفَقَّهُوا فِي الدِّينِ
سورۃ توبہ پ 11 آیت 122
تمہیں فقاہت حاصل کرنی چاہیے… امام فقیہ تھا… اللہ فقہ کا تذکرہ قرآن میں کرتا ہے… میرا امام مجتہد تھا اللہ اجتہاد کا تذکرہ قرآن میں کرتا ہے۔
وَلَوْ رَدُّوهُ إِلَى الرَّسُولِ وَإِلَى أُولِي الْأَمْرِ مِنْهُمْ لَعَلِمَهُ الَّذِينَ يَسْتَنْبِطُونَهُ مِنْهُمْ
سورۃ النساء پ 5 آیت نمبر 83
میرے امام کا اجتہاد، رب قرآن میں بیان کرتا ہے… آگے سنئے میرے امام کے اصول چار تھے۔
نعمان کے چار اصول اور قرآن:
1…قرآن 2…سنت 3…اجماع 4…قیاس
1…رب قرآن میں کہتا ہے
اتَّبِعُوا مَا أُنْزِلَ إِلَيْكُمْ مِنْ رَبِّكُمْ
سورۃ اعراف پ 8 آیت نمبر 3
2…رب نے قرآن میں بیان کیا۔
قُلْ إِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّونَ اللَّهَ فَاتَّبِعُونِي
سورۃ ال عمران پ 3 آیت 31
سنت کو رب نے قرآن میں بیان کیا۔
3…اجماع کو رب نے قرآن میں بیان کیا
وَمَنْ يُشَاقِقِ الرَّسُولَ مِنْ بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُ الْهُدَى وَيَتَّبِعْ غَيْرَ سَبِيلِ الْمُؤْمِنِينَ
سورۃ النساء پ 5 آیت 115
4…اللہ نے اجتہاد کو قرآن میں بیان کیا۔
فَاعْتَبِرُوا يَا أُولِي الْأَبْصَارِ
سورۃ حشر پ 28آیت نمبر 2
اللہ نے قرآن میں بیان کیا۔میں کہنا یہ چاہتا ہوں…میرے امام کے چار اصول ہیں رب قرآن میں بیان کرتا ہے۔
1…قرآن 2… سنت 3…اجماع 4…قیاس
تیرے دو اصول ہیں… کہتا ہے اہل حدیثوں کے دو اصول… فرمان خدا فرمان رسول… تو یہ دو اصول قرآن سے بیان کر دے… میں نے چار اصول بیان کر دیے… اگر میرے اصول قرآن میں ہو میں سچا… اگر تیر ے اصول قرآن میں ہوں تو سچا… اس پر بحث کر لے۔
وہ وقت بھی قریب ہے جب :
میرے دیوبندی نوجوان! میں تمہیں بشارت دے کر کہتا ہوں میرے آج بھی موبائل میں میسج موجود ہے…غیر مقلدین کے مناظر کا مجھے کہتا ہے مولانا ہم اجماع بھی مانتے ہیں…ہم اجتہاد بھی مانتے ہیں… رفع یدین کا مناظرہ گوجرنوالہ کا دیکھ لے عمر صدیق مناظر کہنے لگا کہ ہم اجماع بھی مانتے ہیں… دیوبندیو !تم یاد رکھو پہلے غیر مقلد کہتا تھا ہم قرآن وحدیث کے علاوہ کچھ نہیں مانتے… اب اجماع بھی مانتا ہے… اجتہاد بھی مانتا ہے… تھوڑی سی ہمت اور کر لے اس نے اجماع کو بھی مان لیا… اجتہاد کو بھی مان لیا… وہ وقت آئے گا اس نے کہنا ہے میں تمہارے امام کو بھی مانتا ہوں۔
ماموں کانجن کا واقعہ:
تمہیں نہیں یقین آتا باہر شاید کیسٹ موجود ہو گی غیر مقلدین کا مولوی رانا شمشاد سلفی نے زبان درازی کی ہے… ماموں کانجن میں جاکر لشکر طیبہ نے جلسہ کرایا… شمشاد سلفی نے بیان کیا امام صاحب کی ذات پر ایک گھنٹہ بیان کیا… میں نے پورے اڑھائی گھنٹے جا کر اس کا جواب دیا… میں نے کہا غیر مقلدو تم پہ قرض ہے… شمشاد سلفی نے میرے امام پر جرح کی ہے… میں نے جوابات دیے… تو نے ہم پر دس اعتراضات کئے… میں نے جوابات دیے۔ پھر دس اعتراض میں نے کئے آج تک تم سے جواب نہیں بنا… اور ماموں کانجن کی زمین شمشاد سلفی کے لئے میں نے تنگ کر دی ہے… میں نے لشکر طیبہ سے کہا… میں تمہیں کہتا ہوں۔ تم اس لڑائی میں مت آؤ… اگر تم اس لڑئی میں آئے… تمہارے لئے عشر کی زمین تنگ ہو جائے گی… زکوۃ کی زمین تنگ ہو جائے گی… میرے امام پہ زبان درازی کرو گے… دیوبندی تمہیں عشر نہیں دے گا… امام پہ تبرا کرے گا تجھے زکوۃ نہیں ملے گی… امام پہ بھونک مارے گا جہاد کے نام پہ تیری ہونے والی بدمعاشی بند کر دی جائے گی… وہ دن گیا آج تک شمشاد سلفی کو دوبارہ بھونکنے کی جرأت نہیں ہوئی… میں نے کہا تم سنو! کیسٹ موجود ہے میں نے کہا تم نے اعتراض کیا جواب میں نے دیا… میں نے اعتراض کیا جواب تم بھی دو۔
جادو وہ جو سر چڑھ کے بولے:
یہی شمشاد سلفی میرے شہر سرگودھا میں آیا… تو کہتا ہے امام ابوحنیفہ رحمۃاللہ علیہ۔ فیصل آباد آیا رحمۃاللہ علیہ… میں نے کہا اڑھائی گھنٹے کے آپریشن کے بعد تو نے ’’رحمۃاللہ علیہ‘‘ کہنا شروع کر دیا… دیوبندیو! میں اللہ کی ذات پہ بھروسہ کر کے خدا کی قسم اٹھا کر کہتا ہوں تم اپنے موقف کو جرأت کے ساتھ… تم اپنے موقف کو دلائل کے ساتھ…تم اپنے موقف کو ہمت کے ساتھ بیان کرو…اس غیر مقلدنے امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کو بھی ماننا ہے میں تجربہ کی بنیاد پہ کہتا ہو ں۔
مظفر گڑھ کاواقعہ:
میں مظفر گڑھ گیا غیر مقلد کی مسجد تھی…کسی نے تراویح آٹھ رکعات پڑھائی۔ میں نے بیان کیا لوگوں نے کہا ہم تراویح آٹھ رکعات نہیں پڑھتے… مظفر گڑھ اسلام نگر اس کے ساتھ بستی موجود ہے تم جا کر پوچھو… اسی رمضان المبارک میں یکم رمضان کو تراویح آٹھ پڑھائی لوگوں نے احتجاج کیا… آٹھ ر کعات ثابت نہیں ہیں… تراویح بیس رکعات پڑھاؤ… غیر مقلد نے دو رمضان کو تراویح بیس رکعات پڑھائی… بیس رکعات تراویح شروع کردی… میں کہتا ہو ں تم ہمت سے کام لو یہ موقف کو بدلے گا… یہ انگریز کا ایجنٹ طبقہ موقف کو بدل جائے گا… انگریز نے ملک چھوڑا یہ مذہب چھوڑ جائے گا… تم اپنے موقف کو بیان توکرو۔
باہمی اختلاف اور تقلید کا معمہ:
میں عرض یہ کر رہا تھا میرے امام کا عقیدہ رب نے قرآن میں بیان کیا… یہ فقیہ تھا… اللہ فقاہت کا تذکرہ قرآن میں بیان کرتا ہے… امام مجتہد تھا اجتہاد کا تذکرہ اللہ قرآن میں بیان کرتا ہے… لوگ اعتراض کرتے ہیں… کہ امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ تم اس کو مانتے ہو… امام ابویوسف رحمہ اللہ تعالیٰ ،امام محمد رحمہ اللہ تعالیٰ یہ ان کے شاگرد ہیں… اور کئی مسئلے ایسے ہیں کہ امام ابویوسف رحمہ اللہ ،امام محمدرحمہ اللہ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کی نہیں مانتے… تم نے امام کی تقلید کیسے کی ہے… ؟وہ امام جس کی شاگرد نہیں مانتے… تو پھر ہم امام کی بات کیسے مان لیں؟
میں کہتا ہوں اللہ تیرا کرم ہے… کہ جس دور میں سلیمان علیہ السلام اور داؤد علیہ السلام تھے اس دور میں غیر مقلد موجود نہیں تھے… ورنہ یہ ظالم اللہ کے نبی کی بات بھی نہ مانتے… حضرت داؤد علیہ ا لسلام اللہ کے نبی تھے… حضرت سلیمان علیہ السلام اللہ کے نبی تھے… داؤد بڑے نبی تھے سلیمان چھوٹے نبی تھے… حضرت داؤد علیہ السلام باپ تھے… حضرت سلیمان بیٹے تھے۔ رب قرآن میں مسئلہ بیان کرتا ہے۔
داؤد اورسلیمان علیہما السلام کا اجتہاد ی اختلاف:
ایک چرواہا اپنی بکریا ں لے کر جارہا تھا… ایک کسان کی کھیت میں گئی… ان بکریوں نے کسان کے کھیت سے چر لیا… حضرت داؤد علیہ السلام کے پاس دونوں فیصلہ لے کر آئے… حضرت داؤد علیہ السلام نے فرمایا تیرا نقصان ہو ااتنے پیسے طے ہو گئے… اتنا کھیت طے ہو گیا… اس کی بکریاں کھیت والے کو دے دو… اس کے کھیت کے بدلے میں دے دو… یہ دونوں پھر گئے حضرت سلیمان علیہ ا لسلام کے پاس… حضرت سلیمان اللہ کے نبی تھے… حضرت سلیمان علیہ السلام نے فرمایا نہیں نہیں … !!فیصلہ یوں کرو کہ کھیت والے تیرا نقصان ہو ا… بکری والے تو نے نقصان کیا… تجھے چائیے اس کو بکریاں دے دے… اور کھیت والے کو چاہیے اپنا کھیت دے دے… یہ اس کے کھیت پر محنت کرے گا وہ اس کی بکریوں کا دودھ پئے گا… جب کھیت بڑا ہو جائے گا کھیت تیرے حوالے بکریاں اس کے حوالے… اب فیصلہ داؤد علیہ السلام نے کیا تھا… اجتہاد کی وجہ سے وہ بڑا تھا فیصلہ سلیمان علیہ السلام نے کیا تھا اجتہاد کی وجہ سے یہ چھوٹا تھا… اللہ سے قرآن میں پوچھو اللہ تو کیا فرماتا ہے رب کہتا ہے۔
إِذْ يَحْكُمَانِ فِي الْحَرْثِ إِذْ نَفَشَتْ فِيهِ غَنَمُ الْقَوْمِ
سورۃ الانبیاء پ 17 آیت نمبر 78
ایک فیصلہ داؤد نے کیا… ایک فیصلہ سلیمان نے کیا علیہم السلام
فَفَهَّمْنَاهَا سُلَيْمَانَ
فیصلہ سلیمان کا زیادہ بہتر تھا… رب حضرت داؤد علیہ السلام کو بھی ٹھیک کہتا ہے رب سلیمان علیہم السلام کو بھی ٹھیک کہتا ہے… امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ فیصلہ کرے وہ بھی ٹھیک ہے شاگرد خلاف کرے وہ بھی ٹھیک ہے… میں کہتا ہوں غیر مقلدو !اگر آج تم نے یہ کہا کہ ابوحنیفہ رحمہ اللہ تعالیٰ تیرا فیصلہ شاگرد نہیں مانتا ہم کیسے لے لیں… اگر اس دور میں غیر مقلد ہوتا یہ بدبخت بھونک مارتا… حضرت داؤد علیہ السلام سے کہتے … تیرا فیصلہ تیرا بیٹا نہیں مانتا ہم کیسے مان لیں… رب کہتا ہے حضرت داؤد علیہ السلام باپ تھے اور بڑے تھے وہ بھی ٹھیک ہے… حضرت سلیمان علیہ السلام بیٹے تھے چھوٹے تھے یہ بھی ٹھیک ہے۔
میں قرآنی آیات سے استدلال کرکے کہتا ہوں… حضرت امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ تعالیٰ بڑے تھے وہ بھی ٹھیک کہتے ہیں… امام مالک رحمہ اللہ چھوٹے ہیں وہ بھی ٹھیک کہتے ہیں… امام شافعی رحمہ اللہ چھوٹے ہیں یہ بھی ٹھیک کہتے ہیں…امام احمدبن حنبل رحمہ اللہ چھوٹے ہیں یہ بھی ٹھیک کہتے ہیں…اگر دو نبی مجتہد ہو جائیں اختلاف کریں وہ بھی سچے…تو مجتہد اختلاف کرے دونوں سچے۔
مشاجرات صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم:
آگے چلئے !میں کہتا ہوں میں امام صاحب کی فقاہت پر قرآن لایا ہوں… امام کے اجتہادی اختلاف پر قرآن لا یا ہوں… بعض لوگوں نے کہا اصحاب پیغمبرصلی اللہ علیہ وسلم میں اختلاف نہیں ہوا؟ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ اورحضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ میں اختلاف ہوا…مشاجرات صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم کی بحث چھیڑی… کہتا ہے دونوں صحابی آپس میں لڑ پڑے ہیں…حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ؛ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنھا یہ سارے آپس میں لڑ پڑے… کہتا ہے ان میں حق پہ کون تھا…؟ میں کہتا ہوں حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی حق پر تھے… امی عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بھی ٹھیک تھیں حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی حق پر تھے … حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی ٹھیک تھے… میں کسی ایک کو باطل نہیں کہتا میں دونوں کو ٹھیک کہتا ہوں… دونوں جنتی کہتا ہوں… میں کہتا ہوں امام صاحب کا موقف یہ ہے… نعمان بن ثابت کا موقف یہ ہے… کہ جب صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم میں اختلاف ہوا وہ دونوں مجتہد تھے… وہ دونوں سچے تھے… دونوں جنتی تھے… دونوں پیغمبرصلی اللہ علیہ وسلم کے عاشق تھے… لوگ فوراً کہتے ہیں جب دو لڑ پڑیں… تو ایک حق پر ہوگا… ایک باطل پر ہوگا… میں نے کہا قرآن سے فیصلہ کریں اللہ کا قرآن کیا کہتا ہے ؟
یہ معرکہ حق وباطل نہیں:
حضرت موسیٰ علیہ السلام اللہ کے نبی تھے… حضرت ہارون علیہ السلام اللہ کے نبی تھے حضرت موسیٰ علیہ السلام تورات لینے گئے ہیں… حضرت موسیٰ علیہ السلام کی قوم نے پیچھے پوجنا شروع کر دیاایک گائے کے بچھڑے کو… حضرت ہارون علیہ السلام نے روکا بھی ہے… قوم نے پوجا شروع کردی… موسیٰ علیہ السلام واپس آئے حضرت ہارون علیہ السلام کی داڑھی کو پکڑا… حضرت ہارون علیہ السلام کے سر کے بالوں کو پکڑا…حضرت ہارون علیہ السلام نے کہا۔
قَالَ يَبْنَؤُمَّ لَا تَأْخُذْ بِلِحْيَتِي وَلَا بِرَأْسِي
سورۃ طہ پ 16 آیت نمبر 95
میرے ماں کے بیٹے… اے موسی مجھے مارتا کیوں ہے…؟ مجھ سے لڑتا کیوں ہے… ؟ میں کہنا یہ چاہتا ہوں…موسی علیہ السلام اللہ کے نبی ہیں… ہارون علیہ السلام اللہ کے نبی ہیں دونوں آپس میں لڑ یں ہیں ان میں حق پر کون تھا…؟ان میں باطل پر کون تھا… ؟ اگر دونبی آپس میں لڑیں دونوں حق پر ہوسکتے ہیں… صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم دونوں لڑیں حق پر ہوسکتے ہیں… تو رب بیان کرتا ہے نا… اگر دونوں نبی لڑیں دونوں حق پر ہیں… مجھے ایک رافضی نے کہا مولانا وہ دونوں نبی تھے… وہ دونوں لڑ پڑے… میں نے کہا بالکل لڑ پڑے… قرآن کہتا ہے ان میں اختلاف ہوا… میں نے کہا مانتے ہو؟ کہتا ہے مولانا وہ اختلاف تو ان کی رائے کا تھا… میں نے کہا حضرت موسیٰ علیہ السلام اور حضرت ہارون علیہ السلام میں رائے کا اختلاف تھا… حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ میں بھی رائے کا اختلاف تھا… حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور امی عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا میں بھی رائے کا اختلاف تھا… ان میں رائے کا اختلاف تھا تو ان میں بھی رائے کا اختلاف تھا۔ آگے کہنے لگا ان میں تو بعد میں وحی آگئی تھی… اللہ نے بتا دیا تھا کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کو کہ مسئلہ یوں ہے… جب وحی آگئی تو بحث ختم ہو گئی… میں کہتا ہوں تو نے میرے موقف کو مان لیا۔
اہل السنت والجماعت کا موقف یہ ہے… حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ پر وحی نہیں آتی… اہل السنت والجماعت کا موقف یہ ہے حضرت امیر معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ پر وحی نہیں آتی… وحی کے دروازے اللہ نے حضرت پیغمبرصلی اللہ علیہ وسلم پر بند کر دیے… پھر مرزاقادیانی پر وحی آئے جو اس کا قائل ہوگا وہ مسلمان نہیں…جو حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ پر وحی کا قائل ہو وہ بھی مسلمان نہیں… حضرت حسن رضی اللہ تعالیٰ پہ وحی کا قائل ہو مسلمان نہیں… پھر مجھے کہنے دیجئے… حضرت موسی علیہ السلام پر وحی آئی تو غلط فہمی ختم ہو گئی… حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ پہ وحی نہیں آتی غلط فہمی ختم نہیں ہوئی… اگر وحی آتی تو ختم ہو جاتی نا… توتو نے میرا موقف مان لیا ان پر وحی آئی تھی تو اختلاف ختم ہو گیا… یہاں وحی نہیں ختم نہیں ہوا۔
قول صحابی ،فعل صحابی اور فہم صحابی :
سنو !اہل السنت والجماعت کا موقف کیا ہے؟ امام صاحب فرماتے ہیں
’’واذا جاء عن الصحابۃ اخترنا ولم نخرج من قولھم واذاجاء عن التابعین ونحن رجال وھم رجال اجتہدواونجتہد‘‘
اخبار ابی حنیفہ لامام صمیری ص 10
امام صاحب کا موقف سنو !فرمایا دلیل آجائے حدیث پیغمبرصلی اللہ علیہ وسلم سے سر بچشم قبول ہے… اگر حدیث آجائے پیغمبرصلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ سے… مسئلہ آجائے پیغمبرصلی اللہ علیہ وسلم کے صحابی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے قول آجائے… پیغمبرصلی اللہ علیہ وسلم کے صحابی کا… امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کہتے ہے ’’لم نخرج من قولھم ‘‘ میں ان میں سے ایک کے قول کو مان لوں گا۔ میں صحابی کے قول سے نکلتا نہیں ہوں… کیوں نہیں نکلتا ؟ توجہ رکھنا! امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ صحابی کے قول کو حجت مانتا ہے… صحابی کے فعل کو حجت مانتا ہے۔ صحابی کے فہم کو حجت مانتا ہے… امام صاحب کا موقف قول صحابہ حجت ہے… امام صاحب کا موقف فعل صحابی حجت ہے… امام صاحب کا قول فہم صحابی حجت ہے… رب قرآن میں کہتا ہے
فَإِنْ آمَنُوا بِمِثْلِ مَا آمَنْتُمْ بِهِ فَقَدِ اهْتَدَوْا
سورۃ بقرہ پ 1 آیت نمبر 137
ایمان ایسا لا جیسا صحابی لا یا، رب قرآن میں کہتا ہے
وَالسَّابِقُونَ الْأَوَّلُونَ مِنَ الْمُهَاجِرِينَ وَالْأَنْصَارِ وَالَّذِينَ اتَّبَعُوهُمْ بِإِحْسَانٍ
سورۃ توبہ پ 11 آیت نمبر 100
عمل ایسے کر جیسے صحابی کرتا ہے… امام صاحب صحابی کے ایمان کو حجت مانتا ہے… امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ صحابی کے فعل کو حجت کہتا ہے۔
قرآن وحدیث کو کب مانا:
ایک بات ذہن نشین کرلیں! میں صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے حجت ہونے پہ ایک بات کہتا ہوں… اللہ نے قرآن اتارا تو پیغمبرصلی اللہ علیہ وسلم کے سینے پر اتارا نا… اللہ نے قرآن نازل کیا پیغمبرصلی اللہ علیہ وسلم کے سینے پر… پیغمبرصلی اللہ علیہ وسلم کی مبارک زبان سے باہر نکلا… تو قرآ ن بنا… میں کہتا ہوں یہی قرآن آسمان پر موجود تھا… یہی قرآن لوح محفوظ میں موجود تھا… یہی قرآن عرش پر موجود تھا… ہم نے قرآن تب مانا جب پیغمبرصلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں… پیغمبرصلی اللہ علیہ وسلم مکہ کی زمین پر ارشاد فرمائیں گے… پیغمبرصلی اللہ علیہ وسلم مدینہ کی سر زمین پر ارشاد فرمائیں گے… خیبر کی زمین پر ارشاد فرمائیں گے… مگر ہم نے اس ارشاد کو حدیث تب مانا۔
٭… جب ابو بکر فرماتے ہیں
قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم
٭…جب حضرت عمر فرماتے ہیں
قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم
٭… جب حضرت عثمان فرماتے ہیں
قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم
٭… جب حضرت علی فرماتے ہیں
قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم
٭…جب امیر معاویہ فرماتے ہیں
قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم
مجھے کہنے دیجئے !قرآن موجود تھا ہم نے قرآن تب مانا جب پیغمبرصلی اللہ علیہ وسلم قال اللہ کہہ دے… حدیث موجود تھی ہم نے تب مانا جب صحابی قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کہہ دے… قرآن ہم تک پہنچنے میں زبان پیغمبرصلی اللہ علیہ وسلم کا محتاج ہے… حدیث پیغمبر ہم تک پہنچنے میں زبان صحابی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی محتاج ہے… زبان صحابی نہ چلے حدیث نہیں بنتی… زبان پیغمبر نہ چلے قرآن نہیں بنتا… امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ تعالیٰ کا موقف یہ ہے ہم صحابی کو حجت مانتے ہیں۔
میں عرض یہ کر رہا تھا قرآن اور نعمان کے حوالے سے میں نے عقیدہ بیان کیا میں کہتا ہوں امام صاحب کا موقف… اہل السنت والجماعت کا موقف یہ ہے… یہ تو میں نے دنیا میں ہونے والے عقائد پہ بات کی… اگر آپ کہہ دیںتو میں کچھ عقیدے موت کے بعد کے بھی بیان کرتا ہوں۔
موت… اختتام زندگی یا انتقال زندگی:
انسان پہ موت آتی ہے کون نہیں مانتا… لیکن ایک عقیدہ مسلمان کا ایک عقیدہ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کا…ایک عقیدہ دنیا کے کافر کا…مسلما ن اور کافر کے عقیدہ میں کیا فرق ہے۔ کافر کہتا ہے جب انسان مرتا ہے توختم جاتا ہے مسلمان کہتا ہے نہیں نہیں بالکل ختم نہیں ہوتا… بلکہ موت آتی ہے تھوڑی دیر کے لئے پھر حیات ملتی ہے… کافر کہتا ہے نہیں نہیں یہ ہمیشہ کے لئے فنا ہو گیا… وجود ختم ہو گیا… اب یہ دوبار ہ زندہ نہیں ہو گا… اب یہ دوبارہ پیدا نہیں ہو گا… میں کہنا یہ چاہتا ہوں کہ کافر کا نظریہ یہ ہے کہ موت دائمی ہے… مسلمان کا نظریہ یہ ہے کہ موت ذائقہ اورعامی سی چیز ہے… معمولی سی چیز ہے… اس میں دوام نہیں ہوتا… ایک اور بات کہتا ہوں کافر کہتا ہے اختتام زندگی ہے… مسلمان کہتا ہے انتقال زندگی ہے…اللہ سے پوچھو رب قرآن میں کہتا ہے۔
كُلُّ نَفْسٍ ذَائِقَةُ الْمَوْتِ
سورۃ ال عمران پ 4 آیت نمبر 185
رب نہیں کہتا کہ جب موت آتی ہے ہمیشہ آتی ہے… رب کہتا ہے موت آتی ہے تو چکھی جاتی ہے… چکھنے میں دوام نہیں ہوتا چکھنے میں آن ہوتا ہے… چکھنے میں ہمیشگی نہیں لگتی چکھنے میں سیکنڈ لگتے ہیں… موت آئی چند سیکنڈ کے لیے موقف میرا تھا رب قرآن میں بیان کرتا ہے… موت آگئی اب موت کے بعد آدمی کو حیات ملتی ہے یا نہیں ملتی۔اہل السنت والجماعت کا موقف… قرآن کہتا ہے حیات ملتی ہے۔
امام ابو حنیفہ کا پیروکار کون؟ :
نعمان کا عقیدہ حیات ملتی ہے… تم کہو گے کہاں موجود ہے امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ نے فقہ الاکبر میں لکھا ہے… امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے عقیدہ کی کتاب الفقہ الاکبر موجود ہے۔ امام صاحب نے لکھا ہے۔
’’واعادۃ الروح الی العبد فی قبرہ حق ‘‘
الفقہ الاکبر ص 100
کہ روح کا قبر میں جسم کی طرف لوٹ کے آنا یہ حق ہے… امام صاحب کی کتاب موجود ہے… کبھی مماتی کہتا ہے یہ امام صاحب کی کتاب تو نہیں ہے… میں کہتا ہوںاگر نہیں ہے تو پھر سوانح شیخ غلام اللہ خان اٹھالے کہ مولانا غلام اللہ خان کا جب بریلویوں سے مناظرہ ہو ا تو مولانا نے بریلوی سے کہا تو فقہ حنفی کو مانتا ہے… کہتا ہے جی مانتا ہوں۔ امام صاحب کا مقلد ہے… کہتا ہے جی مقلد ہو ں… تو پھر مولانا نے بطور دلیل کے پیش کی… اگر فقہ اکبر امام صاحب کی نہیں ہے تو مولانا غلام اللہ انہوں نے کیوں پیش کی… پھر مجھے کہنے دیجئے…! امام صاحب کی کتاب تھی تو مولانا غلام اللہ خان نے پیش کی ہے…
روح کا قبر میں لوٹنا:
میں کہنا یہ چاہتا ہوں اب روح لوٹتی ہے تو قبر میں حیات ملتی ہے۔ رب قرآن میں فرماتا ہے۔
كَيْفَ تَكْفُرُونَ بِاللَّهِ وَكُنْتُمْ أَمْوَاتًا فَأَحْيَاكُمْ ثُمَّ يُمِيتُكُمْ ثُمَّ يُحْيِيكُمْ ثُمَّ إِلَيْهِ تُرْجَعُونَ
سورہ بقرہ پ 1 آیت نمبر 28
ارے تم رب کا انکار کرتے ہو تم مردے تھے رب نے زندہ کردیا… پھر تمہیں رب موت دے گا ’’ثم یحیکم ‘‘اللہ پھر زندگی دے گا…تم مردے تھے پھر رب نے زندہ کیا اس دنیا… میں پھر اللہ موت دے گا اس دنیا میں… پھر اللہ زندہ کرے گا قبر میں ’’ثم یحیکم ‘‘قبر میں حیات موجود ہے… فورا کہیں گے کہ قبر میں لوگ زندہ ہیں… ہم نے کہا زندہ ہیں… اچھا اللہ کے پیغمبرصلی اللہ علیہ وسلم بھی زندہ ہیں ؟ہم نے کہا زندہ ہیں۔
عمر مبارک کتنے سال تھی؟:
ایک سوال آئے گا… یاد رکھنا !کہتا ہے جی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر کتنی ہے؟ ہم نے کہا جی 63سال… کہتا ہے جب زندہ ہیں تو عمر63 سال تو نہ ہوئی نا… عمر تو لمبی ہوگئی تم نے 63سال بھی مانا… نبی صلی اللہ علیہ وسلم کوزندہ بھی مانا۔
سوال پر سوال :
میراایک سوال ہو گا… ان سے پوچھو!بھائی تیری عمر کتنی ہے؟ کہتا ہے جی 25 سال… تیری عمر کتنی ہے جی22 سال… اس سے پوچھو کہ تیری 22 سال عمر ہے… تم جب ماں کے پیٹ میں تھے تو زندہ تھے یا نہیں ؟کہتا ہے جی میں زندہ تھا… تو پھر تم نے 22 سال۔ کہا تم نے ساڑھے بائیس سال کیوں نہیں…؟ کہا ماں کے پیٹ کی زندگی ہے ہم عمر میں شامل نہیں کرتے… زندگی ماں کے پیٹ میں ملتی ہے مگر عمر کا حصہ نہیں ہے… قبر میں زندگی ملتی ہے مگر عمر کا حصہ نہیں ہے… شروع اس وقت ہوتی ہے جب انسان ماں کے پیٹ سے باہر آتا ہے… ختم تب ہوتی ہے جب قبر کے پیٹ میں چلا جاتا ہے۔ماں کے پیٹ میں زندہ عمر کا حصہ نہیں… قبر کے پیٹ میں زندہ عمر کا حصہ نہیں ہے… پیغمبرصلی اللہ علیہ وسلم قبر میں اب بھی زندہ ہیں عمر کا حصہ نہیں۔
میں عرض یہ کر رہا تھا ہمارا عقیدہ سنیے !ہم نے کہا جب انسان قبر میں ہے تو زندہ ہے۔ ارے قبر میں کیسے زندہ؟ جیسے سونے والا زندہ… تم کہو گے کہاں موجود ہے؟ میں کہتا ہوں قرآن میں موجود ہے۔
اللہ قرآن میں فرماتے ہیں… جب مشرک قیامت کے دن اٹھے گا۔ سورۃ یٰس کی تلاوت کر لے مشرک قیامت کو کہے گا۔
قَالُوا يَا وَيْلَنَا مَنْ بَعَثَنَا مِنْ مَرْقَدِنَا
سورۃ یٰس پ 23 آیت نمبر 52
ارے کس نے ہم کو اٹھا دیا سونے کی جگہ سے… مشرک بھی کہتا ہے یہ مرقد سونے کی جگہ ہے… تو مسلمان ہو کے مرقد نہیں مانتا… ہم نے سونے کی جگہ مانا رب قرآن میں کہتا ہے۔
عقیدہ عذاب قبر :
ہم نے کہا قبر میں عذاب ہوتا ہے… لوگ کہتے ہیں جی کیسے ہوتا ہے؟ میں کہتا ہوں ایک جہنم میں ہو گا… ایک عذاب قبر میں ہو گا… ایک عذاب دنیا میں ہو گا… ہم نے تینوں عذابوں کو مان لیا… جب دنیا میں عذاب آتا ہے… آدمی کے پورے جسم کو گھیر لیتا ہے… جب قبر میں عذاب آتا ہے جہنم پیش کر دی جاتی ہے… جب جہنم میں داخل ہو گا تو پھر جہنم میں داخل ہو گا… اب میں کہنا چاہتا ہوں… کہ دنیا کے عذاب کو گھیر نے والا عذاب کہتے ہیں… قبر کے عذاب کو عرض نار کہتے ہیں… جہنم کے عذاب کو دخول نار کہتے ہیں…اللہ قرآن میں بیان کرتا ہے: ’’بآل فرعون سوء العذاب ‘‘کہ فرعونیوں پر عذاب آیا عذاب نے گھیر لیا ’’النار یعرضون علیھا‘‘قبر میں جہنم پیش ہوتی ہے ’’ویوم تقوم الساعۃ ادخلواآل فرعون‘‘اور جب قیامت کا دن ہو گا جہنم میں داخل ہوں گے۔
سورۃ مومن پ 24 آیت نمبر 45 ،46
عرض نار قبر میں… دخول نار جہنم میں…اور یہاں گھیرنے والا عذاب ہے جو میرا عقیدہ تھا رب قرآن میں بیان کرتا ہے:
قبر کی تنگی:
ہم نے کہا قبر تنگ ہو جاتی ہےتم نے کہا کہاں؟ قرآن میںموجود ہے… جب انسان قبر میں جاتا ہےاگر یہ نافرمان تھا اگر یہ کافر تھا… قبر تنگ ہوتی ہے… اللہ قرآن میں کہتا ہے۔
وَمَنْ أَعْرَضَ عَنْ ذِكْرِي فَإِنَّ لَهُ مَعِيشَةً ضَنْكًا وَنَحْشُرُهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ أَعْمَى
سورۃ طٰہٰ پ 16 آیت نمبر 124
جو انسان رب کے ذکر کو چھوڑتا ہے… ایمان سے منہ موڑتا لیتا ہے… کافر ہو جاتا ہے… اللہ فرماتے ہیں فَإِنَّ لَهُ مَعِيشَةً ضَنْكًا میں اس پہ قبر کی زندگی تنگ کر دیتا ہوں… حوالے میرے ذمہ… مفسرین کے اقوال میرے ذمہ… اس سے مراد قبر کی زندگی ہے۔ اللہ قبر کو اس پر تنگ کر دیتا ہے… قیامت کو اٹھے گا اندھا…میں کہنا یہ چاہتا ہوں… یہ موت آئی یہ عارضی تھی… رب قرآن میں بیان کرتا ہے… قبر میں حیات ملی رب قرآن میں بیان کرتا ہے… قبر کی زندگی تنگ ہوتی ہے اللہ قرآن میں بیان کرتا ہے… جہنم پیش ہوتی ہے اللہ قرآن میں بیان کرتا ہے۔
میری بات سنو!ایک بات کہنا چاہتا ہوں یہ عقیدہ نعمان کا ہے نا… بولیں کس کا ہے ؟( سامعین…نعمان رحمہ اللہ تعالی)میں کہہ رہا تھا قرآن اور نعمان کہ نعمان کے عقیدہ پر قرآن سنو ! تم کیسے کہتے ہو تمہارے پاس قرآن نہیں ہے… کبھی تعجب ہوتا ہے لوگ کہتے ہیں جی قرآن نہیں ہے۔
حیات شہداء کا عقیدہ :
میں کہتا ہوں پیغمبرصلی اللہ علیہ وسلم کے دین پہ جان کٹانے والے شہید کو ہم زندہ کہتے ہیں… شہید کے جسم کو زندہ کہتے ہیں… روح بھی زندہ تھی… شہید کا جسم بھی زندہ تھا… کہو گے جی کہاں پہ ؟ اللہ قرآن میں بیان کرتا ہے۔
وَلَا تَقُولُوا لِمَنْ يُقْتَلُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَمْوَاتٌ بَلْ أَحْيَاءٌ وَلَكِنْ لَا تَشْعُرُونَ
سورۃ بقرۃ پ 2 آیت نمبر 154
تم ’’من یقتل‘‘ کو مردہ مت کہو ’’من یقتل‘‘کون ہے ؟(جسم )اللہ فرماتے ہیں جو جسم قتل ہوتا ہے اس جسم کو مردہ مت کہو… رائے ونڈ اجتماع کی بات ہے۔ آدمی جہاں بھی جاتا ہے اسے اپنا شکار مل ہی جاتا ہے… رائے ونڈ کے اجتماع پہ میں اپنے سٹال پر موجود تھا کہ تین مماتی مولوی اور ایک مفتی ان کی بد قسمتی کہ اللہ ان کو گھیر کر ہمارے پاس لے آیا… وہ کہنے لگے جی ہم نے بات کرنی ہے… میں نے کہا ان کو لاؤ وہ میرے نام سے واقف نہیں تھے… عصر کی نماز کے بعد جب بیٹھے تو انہوں نے مجھ سے سوالات کیے مماتیوں کے ذہن میں ہوتا ہے کہ ہمارے سوالات بڑے علمی ہیں… ہمارے سوالات کا انہیں جواب نہیں آتا… وہ سمجھتے ہیں ہم بڑی نقطہ دانی رکھتے ہیں۔
حجت اجماع اور قرآن :
میں جامع بنوریہ کراچی میں گیا یہ کراچی کا مدرسہ ہے… مدرسہ میں سبق پڑھانے کے لئے… بنوریہ میں دورے کا طالب علم پٹھان تھا… سرحد کا رہنے والاتھا۔ وہ سبق میں آیا بعد میں مجھ سے کہتا ہے مولانا میں نے آپ سے ایک سوال کرنا ہے… سوال سنیے… !کہتا ہے جی آپ بتائیں قرآن حجت ہے… میں نے کہا بالکل دلیل شرعی ہے۔ سنت ؟میں نے کہا دلیل شرعی ہے… کہتا ہے جی اجماعِ امت؟ میں نے کہا دلیل شرعی ہے۔ وہ کیونکہ غیر مقلد سے متأثر تھا مولوی عبد السلام رستمی جو غیر مقلد ہوا اور بیس لاکھ روپیہ لے کر غیر مقلد ہوا… اپنی موت کے مقدمہ سے ڈر کے غیر مقلد ہوا… تم کہہ دو یہ بنیاد نہیں تو ثابت کرنا میرے ذمہ ہے نا۔ میں جانتا ہوں وہ کیسے غیر مقلد ہوا… کتاب لکھی گئی۔ ’’ہم اہلحدیث کیوں ہوئے ‘‘اس میں عبد السلام رستمی کا انٹرویو پڑھو… انسان کو پڑھ کے شرم آتی ہے یا اللہ! یہ لوگ بھی صاحب علم ہوں گے۔
ہم اہل حدیث کیوں ہو ئے ص 156
خیر میں کہنا یہ چاہتا ہوں! مجھے کہتا ہے جی اجماع دلیل شرعی ہے… میں نے کہا دلیل شرعی ہے… کہتا مولانا آپ بتائیں کہ اجماع کے حجت ہونے پر دلیل کیا ہے۔ میں نے کہا رب قرآن میں کہتا ہے۔
وَمَنْ يُشَاقِقِ الرَّسُولَ مِنْ بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُ الْهُدَى وَيَتَّبِعْ غَيْرَ سَبِيلِ الْمُؤْمِنِينَ نُوَلِّهِ مَا تَوَلَّى وَنُصْلِهِ جَهَنَّمَ
سورۃ النساء پ 5 آیت نمبر 115
جو مومنین کے رستہ کو چھوڑ دیتا ہے وہ جہنم میں جائے گا۔
مخالفت ِاجماع کی دو سزائیں:
میں کہتا ہوںایک بات ذہن میں رکھ لیں !جو آدمی اجماع کو نہیں مانتا اللہ اس کو دو سزائیں دیتا ہے… ایک سزا دنیا میں… ایک سزاآخرت میں… لوگ کہتے ہیں مماتی ٹھیک کیوں نہیں ہوتے ؟غیر مقلد ٹھیک کیوں نہیں ہوتا ؟یہ ضد پہ کیوں آتا ہے؟ رب قرآن میں کہتا ہے ’’من یشاقق الرسول ‘‘ جو مخالفت رسول کی کرے
وَيَتَّبِعْ غَيْرَ سَبِيلِ الْمُؤْمِنِينَ
مومنین کا اجماعی راستہ چھوڑ دےنُوَلِّهِ مَا تَوَلَّى دنیا میں سزاء یہ ہوگی اللہ ہدایت نہیں دے گا… جہاں جائے گا رب اس کو جانے دے گا ’’وَنُصْلِهِ جَهَنَّمَ ‘‘ آخرت کی سزا جہنم ہو گی… اجماع کے منکر کو اللہ دنیا میں ضلالت دیتا ہے… اجماع کے منکر کو رب آخرت میں جہنم دیتا ہے۔
اجماع دلیل شرعی ہے :
کہنے لگا اجماع دلیل شرعی ہے؟ میں نے قرآن کی آیت پڑھی… مجھے کہتا ہے مولانا یہی دلیل ہے… میں نے کہا اسی پہ بات کر لو اجماع حجت ہے… میں نے دلیل پیش کر دی فورا کہنے لگا یہ بتا ؤ یہ قرآن اصلی ہے ؟میں نے کہا جی ہاں قرآن اصلی ہے۔ دلیل کیا میں نے کہا اجماع امت… یہ عوام شاید بات نہ سمجھے یہ دینی مدرسہ کا طالب علم اور مولوی سمجھے گا… کہ کہتا ہے قرآن موقوف ہے اجماع پہ… اجماع موقوف ہے قرآن پہ… اس کو تو دَوْر کہتے ہیں اور دور تو باطل ہوتا ہے اس کو اپنی منطق پہ بڑا ناز تھا۔
میں نے کہا کم عقل آدمی تودَور کا معنی ہی نہیں جانتا… صاحب قطبی نے اپنی کتاب قطبی ص26پر دَور کی تعریف کی ہے… اے کاش تو نے دَور کی تعریف پڑھی ہوتی۔ ’’توقف شئی الی مایتوقف الیہ ذلک شی من جہۃ واحدۃ‘‘ اگر توقف ہو اور جہت ایک ہوتو دور ہوتا ہے جہت بدل جائے تو دور نہیں ہوتا… باپ موقوف ہے بیٹے پر بیٹا موقوف ہے باپ پر یہ دور نہیں… باپ بیٹے پر کیوں موقوف ہے ؟اگر بیٹا نہ ہوتا اس کو باپ کون کہتا… یہ باپ کہلوانے میں بیٹے کے وجود کا محتاج ہے… اور بیٹا موقوف ہے باپ پر باپ نہ ہوتا تو بیٹے کو وجود کیسے ملتا… ؟ بیٹا موقوف ہے باپ پہ اپنے وجود میں… باپ موقوف ہے بیٹے پہ اپنے باپ کہلوانے میں… یہ دور نہیں ہے۔
اجماع حجت ہے موقوف ہے قرآن پہ… قرآن موقوف ہے اجماع پہ اپنے ثبوت کے اعتبار سے… ہم کہیں گے قرآن ثابت کیسے ہے اجماع سے… اجماع ثابت کیسے ہے قرآن سے… توقرآن موقوف ہے اجماع پر بطور ثبوت کے… اجماع موقوف ہے قرآن پہ بطور حجت کے… اس کا توقف اور ہے اس کا توقف اور ہے… جہت بدل جائے دور نہیں ہوتا۔ اب یہ بات عوام کو سمجھ نہیں آئے گی طلباء کے لئے میں نے یہ بات کہہ دی ہے… میں نے جب اس کے علم کو پرکھا… میں نے کہا تمہیں غلط فہمی ہے ہمیں منطق نہیں آتی… ہمیں فلسفہ نہیں آتا… تمہیں غلط فہمی ہے ہمیں ہیت اور ریاضی نہیں آتی۔
مقام شکر ہے :
بحمد اللہ میں تحدیث بالنعمۃکے طور پر کہتا ہوں حضرت اقدس مولانا اسلم شیخوپوری دامت برکاتہم میں نے ان کے پاس نحو میر شرح مائۃ عامل پڑھی ہے… حضرت سے صبح جا کے پوچھ لو جس سال میں نے نحو میر پڑھی ہے اس کے بعد ایک سال نحو میر پڑھائی ہے… پھر مجھے شیخ نے فرمایا تیرے جانے کے بعد پھر مجھے نحو میر پڑھانے میں لطف نہیں آیا۔ بعد میں میں نے نحو میر پڑھانی چھوڑ دی ہے…آپ صبح شیخ سے پوچھو میں بات غلط کہتا ہوں تو… میں نے بحمد اللہ نحو میر کو فاتحہ کی طرح یاد کیا ہے… میں نے ارشاد الصرف کے ۸۵قوانین کو فاتحہ کی طرح یاد کیا ہے… میں نے منطق کے متن یاد کئے ہیں… تم میرے اساتذہ سے بنوریہ میں پوچھو… تم میرے اساتذہ سے امدادیہ میں پوچھو… میں نے جب بھی پرچے حل کیے میں پہلے کتاب کا متن لکھتا… پھر میں کتاب کی شرح لکھتا…میں نے کبھی الف اور ب میں ب کا انتخاب اپنانے کے لئے ب کا انتخاب نہیں کیا میں ہمیشہ پرچہ میں الف جز لکھتا ب جز نہیں لکھتا تھا۔
میں کہنا یہ چاہتا ہوں تحدیث بالنعمۃکے طور پر میں نے بحمد اللہ زمانہ طالب علمی میں محنت کی ہے… اچانک ابھر کر آپ کے سامنے نہیں آیا… میں عرض کر رہا تھا۔ وہ فوراً خاموش ہو گیا… وہ مماتی تھا فورا گُنگ ہو گیا… میں نے کہا میں تجھ سے ایک بات کہتا ہوں یہ اشکال جو تو نے پیدا کیا یہ اشکال تیرا نہیں یہ عبد السلام رستم کا ہے… کہتا ہے بالکل انہی کا ہے میں نے کہا اس کو اشکال کا جواب نہیں آیا اگر کسی سے رابطہ کرتا اس ظالم کو بھی جواب آجانا تھا۔
خیر! میں عرض یہ کر رہا تھا… وہ یہ اشکال پیدا کریں گے… اور غلط فہمیاں پیدا کریں گے… جیسے میں نے قرآن کی آیت پڑھی… مماتی مجھے کہتا ہے آپ بتائیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم زندہ ہیں ؟میں نے کہا جی ہاں زندہ ہیں… کہتا ہے حیات النبی صلی اللہ علیہ وسلم منصوص ہے ؟میں نے کہا جی منصوص ہے… نص کون سی ؟میں نے کہا قطعی الثبوت ظنی الدلالت ہے میں لمبی بحث نہیں کرتا عوام سمجھے تو فائدہ نہ سمجھے تو فائدہ۔
حضرت تھا نوی رحمہ اللہ کا واقعہ :
حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھا نوی رحمہ اللہ تعالیٰ نے ایک مرتبہ بیان کیا عوام کو سمجھ نہیں آئی… کسی مولوی نے کہا حضرت آپ نے علمی بیان کیا تھا عوام کو سمجھ نہیں آئی… بیان کرنے کافائدہ… ؟وہ حکیم الامت تھے… فرمایا سمجھ آگئی تو فائدہ نہ سمجھ آئی تو فائدہ…اگر سمجھ آگیا تو مسئلہ حل ہو گیااگر سمجھ نہیں آئی تو عوام کا یہ ذہن تو بن جائے گا ناکہ مولوی وہ علوم رکھتا ہے جو ہم نہیں سمجھ سکتےاگر عوام کا یہ ذہن بن جائے مولوی علوم میں ہم پر فوقیت رکھتا ہےپھر بحث ختم ہو جائے… پھر مناظرے ختم ہو جائیں ہر روز آدمی کہتا ہے مجھ سے بات کرو… مجھ سے مناظرہ کرو… میں کہتا ہوں اگر یہ ذہن بن جائے مولوی علوم میں فوقیت رکھتا ہے… تومسئلہ ہی حل ہوگیا۔
کیا عقیدہ حیات النبی صلی اللہ علیہ وسلم منصوص ہے ؟
میں عرض کر رہا ہوں… کہتا ہے جی عقیدہ حیات النبی صلی اللہ علیہ وسلم؟ میں نے کہا منصوص ہے… کہتا ہے نص کون سی ہے…؟ میں نے کہا قطعی الثبوت ظنی الدلالت ہے… مجھے کہتا ہے اس کا منکر کون ہے ؟میں نے کہا اہل السنت والجماعت سے خارج ہے… کہتا ہے کیوں ؟میں نے کہا اس لئے کہ ظن میں احتمال موجود ہوتا ہے… ظنی الدلالت تھی اور احتمال موجود تھا اگر معنی میں احتمال آجائے تو منکر کو کافر نہیں کہتے… اہل السنت سے خارج کہتے ہیں… مجھے کہتا ہے مولانا بہت اچھا… مولانا آیت پڑھیں… میں نے کہا آیت سنیںوَلَا تَقُولُوا لِمَنْ يُقْتَلُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَمْوَاتٌ رب کہتا ہے ’’لمن یقتل‘‘کو مردہ مت کہو… مجھے کہتا ہے یہاں تو رب نے شہید کی بات کی ہے نبی کی بات نہیں کی… میں نے کہا کاش حکیم الامت حضر ت تھانوی رحمہ اللہ کو تو پڑھ لیتا… حکیم الامت حضرت تھانوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: شہید مقتول فی سبیل اللہ ہے… پیغمبرصلی اللہ علیہ وسلم مقتول فی اللہ ہیں اگر مقتول فی سبیل اللہ زندہ ہے تو مقتول فی اللہ زندہ کیوں نہیں؟
مقالات حکمت ص 60
اب بتا ’’ من یقتل‘‘ کون ہے…؟ کہتا ہے جسد… میں نے کہا کون سا ؟کہتا ہے جسد عنصری… میں نے کہا رب کہتا ہے اس کو مردہ مت کہو… کہتا ہے جی نہ کہو… میں نے کہا پھر کیا کہوں؟ کہتا ہے جی میری بات سنو… میں نے کہا بتا ؤ کیا… کہتا رب کہتا ہے میت نہ کہو حیات کہو کہتا ہے حیات کے کئی معنی ہیں:
حیات اور ممات کا معنیٰ:
سنو لاہور کے نوجوانو! میرا چیلنج سنو !مماتی حیات کے معنی بیان کرے گا… میں کہتا ہوں حیات انسان کی ہو اور تعلق روح کے بغیر ہو ایک معنی بیان کر دے… نہیں سمجھے تم حیات ہو اور تعلق روح کے بغیر ہو ایک معنی ایک معنی بیان کر دے… ہماری بحث تو انسان کی حیا ت کے بارے میں ہے نا… ہماری بحث پرندوں کی حیات کے بارے میں نہیں ہے… ہمارے بحث درندوں کی حیا ت کے بارے میں نہیں ہے۔ … ہمارے بحث انسان کی حیات کے بارے میں ہے انسان زندہ ہواور زندگی کا معنی تعلق روح کے بغیر ہو۔ ایک معنی تم بیان کر دو میں تمہیں اپنی شکست لکھ کر دو ں گا… بیان تو کرو انہیں کہو بھائی تم بیان کرو… تم ثابت کرو… تم یہ کیسٹ صبح پیش کر دو… تم کہو کہ بھائی بیان کرو… تم ثابت کرو خیر میں عرض کر رہا تھا… بیٹھے رہے جب تنگ آگئے نا اٹھنے لگا… تو اللہ کی شان دیکھیں راے ونڈ پنڈال میں ہمارے سٹال پر نعرہ لگا عقیدہ حیات النبی صلی اللہ علیہ وسلم زندہ باد۔
حیات النبی صلی اللہ علیہ وسلم کا منطقی اعتراف وانکار… ؟:
میں ذرہ منطق چھیڑتا ہوں علماء کے لیے… مجھے کہتا ہے پیغمبرصلی اللہ علیہ وسلم کی حیات ابدی ہے… میں نے کہا ابدی ہے۔ کہتا ہے ابدی ہے تو پھر قدیم ہوئی… میں نے کہا جنت ابدی ہے… کہتا ہے ابدی ہے… تو پھر قدیم ہوئی… جہنم ابدی ہے ؟ابدی ہے تو پھر قدیم ہوئی… میں نے کہا جب ہم جنت میں جائیں گے ابدی ہو ں گے… کہتا ہے ابدی ہوں گے… میںنے کہا قدیم ہوئے… کہتا ہے جی نہیں… میں نے کہا جی نہیں کیا ہوتا ہے… میں نے کہا کم عقل پیغمبرصلی اللہ علیہ وسلم کی حیات ابدی ہے مگر قدیم نہیں ہے جنت ابدی ہے مگر قدیم نہیں ہے۔ جہنم ابدی ہے مگر قدیم نہیں ہے… ہم جنت میں ابدی ہوں ے مگر قدیم نہیں ہوں گے… کیونکہ قدیم کے لیے ابد بھی چاہیے ازل بھی چاہیے پیغمبرصلی اللہ علیہ وسلم کی حیات ابدی تو ہے ازلی نہیں ہے… ہم ابدی تو ہوں گے ازلی نہیں ہوں گے… قدیم ہوتا ہے جو ازل تا ابد ہو…تجھے قدیم کا معنی بھی نہیں آتا۔
میں نے کہا بابا جاؤ ! ایک سال منطق اور پڑھو… تم دس دس سال منطق پڑھتے ہو… ایک بار آدمی پڑھ لے اور کام کی پڑھ لے… تو مسئلہ حل ہوتا ہے… خیر! وہ وہاں سے اٹھا مجھے ساتھیوں نے کہا جب ہم ادھر گئے… وہ کہہ رہا تھا یار تم مجھے لے گئے تھے یہ تو مناظر لگتا ہے… میرے نام سے واقف نہیں تھا…کہتا ہے یہ تو مناظر لگتا ہے… تو اس نے کہا تجھے کس نے کہا تھا اس کو چھیڑ… تم نہ بات چھیڑتے
غیر مقلد غائبانہ جنازہ کیوں پڑھتے ہیں :
خیر میں عرض کررہا تھا کہ شہید کا جسم… زندہ بولیں شہیدکا جسم؟ (سامعین… زندہ) مجھے ایک نوجوان نے کہا یہ وسوسے ڈالتے ہیں… میں اس لئے کہتا ہوں کہتا ہے شہید زندہ۔ ہم نے کہا زندہ… کہتا ہے شہید پہ جنازہ پڑھتے ہو… ؟میں نے کہا پڑھتے ہیں… ایک مسئلہ ذہن نشین کر لیں…یہ جو غیر مقلد شہید پر غائبانہ نماز جنازہ پڑھتے ہیں یہ دجل سے کام لیتے ہیں… غیر مقلدین کا مذہب حکیم صادق سیالکوٹی نے صلوۃالرسول میں لکھا ہے… کہ شہید کا جنازہ ہے ہی نہیں… اہلحدیثوں کا مسلک کہ شہید کا جنازہ ہے ہی نہیں… میں سچ کہتا ہوں غیر مقلد کا مذہب کہ شہید کا جنازہ ہے ہی نہیں کہتا ہے شہید کو بغیر جنازے کے دفن کر دو…جب ہے ہی نہیں تو غائبانہ کیسے ہوا؟ صرف چندہ کے لئے شہید ایک ہوا… جنازے سو ہوں گے… یہ بتانے کے لیے کہ ہمارے سو اللہ کے ہاں پہنچ گئے۔
غائبانہ نماز جنازہ اورامام شافعی رحمہ اللہ تعالیٰ :
ایک بات اور ذہن نشین کر لو!کہ غائبانہ نماز جنازہ کے تو امام شافعی بھی قائل ہیں مگر شرطوں کے ساتھ قائل ہیں… تم نے شرطیں بھی سنی ہیں۔…امام شافعی رحمہ اللہ کے ہاں غائبانہ نماز جنازہ کے لئے پہلی شرط یہ ہے :
(۱)جس علاقہ میں شہید دنیا سے گیا ہے اس علاقہ میں اس کا جنازہ پڑھنے والا کوئی نہ ہو۔
(۲)… کہ جس کی تم نے نماز جنازہ پڑھنی ہے وہ جانب قبلہ ہو۔
کشمیر کی طرف نہ ہو وہ تمہارے قبلہ کی جانب ہو امام شافعی کی شرطیں تمہیں کیوں یاد نہیں… ہمارے لوگ بھی عجیب ہیں غیر مقلد خود کو نبی سمجھتے ہیں… ہم ان کو امام شافعی سمجھ لیتے ہیں… اللہ ہمیں بات سمجھنے کی توفیق عطاء فرمائے۔
ایک وسوسہ اور اس کا ازالہ:
خیر! میں عرض یہ کر رہا تھا کہتا ہے جی شہید زندہ… آپ کیا کہو گے… ؟ ہم کیا کہیں گے… زندہ۔ کہتا ہے جی پڑھو جنازہ… میں نے کہا پڑھتے ہیں… کہتا ہے جی دعا میں نے کہا ’’اللھم اغفرلحینا‘‘ کہتا ہے زندہ… دھوکہ سنو دھوکہ… دجل سنو کہتا ہے جب شہید زندہ ہے تو میتنا کیوں… پھر یوں کہنا چاہیے اب یہ بندیالوی گردان پڑھ رہا ہے ’’اللھم اغفرلحینا حینا ‘‘ لوگ کہتے ہیں غلط ہے… کہتا ہے کیوں غلط ہے؟ زندہ نہیں ہے ’’اللھم اغفرلحینا حینا کہتا ہے کیوں زندہ نہیں ہے لوگ کہتے ہیں زندہ ہے کہتا ہے پھر مجھے پڑھنے دونا… حیناجب زندہ ہے تو مجھ سے میتنا کیوں پڑھاتے ہو… جب یہ مماتی نے مجھ پہ سوال کیا نا میں نے کہا… سامنے جب تم جس کا جنازہ پڑھتے ہو وہ سامنے مذکر ہے تو پھر پڑھو’’ ذکرنا ذکرنا ‘‘ انثٰناکیوں پڑھتے ہو؟ سامنے عورت تو نہیں پڑی… نہیں سمجھے سامنے ابا جی پڑے ہیں نا… ابا جی کو انثٰنا کیوں کہتے ہو؟ نہیں بات سمجھے پھر کہو نا’’وذکرنا وذکرنا … و انثنا وانثنا‘‘ میں نے کہا پڑھو… دجل کھلا کہ نہیں ؟
میں نے کہا کم عقل سنو! اگر میت جس کا سامنے جنازہ ہے وہ شہید ہو گا یا غیر شہید ہو گا… اگر شہید ہو گا ’’حینا ‘‘ اگر غیر شہید ہو گا ’’میتنا‘‘ رب نے لفظ دو دیے ہیں … ایک شہید کے لئے ایک غیر شہید کے لئے… اگر شہید ہو گا ’’حینا اگر غیر شہید ہو گا ’’میتنا ‘‘ اگر مذکر ہو گا ’ ذکرنا ‘ اگر مونث ہوگا ’انثنا‘… رب نے دو جنازوں کے لئے دو لفظ دیے ہیں۔ مگر دونوں لفظ ایک جنازے میں آپ پڑھتے ہیں… اب دجل سے کام لیں گے۔
اِدھر ٹانکا اُدھر ادھڑا… اُدھر ٹانکا اِدھر ادھڑا:
خیر! میں عرض کر رہا تھا قرآن اور نعمان ہم نے کہا شہید زندہ ہے۔ ہم نے کیا کہا (سامعین… شہید زندہ ہے)ہم نے کیا پیش کیا قرآن وہ کہتے ہیں نہیں جی مسلم کی حدیث میں ہے… اور کیا کہتے ہیں کہ ہمارا عقیدہ قرآن سے… ارے جب عقیدہ قرآن سے ہے تو مسلم کی طرف کیوں گیا؟ قرآن پڑھ نا!… یہ بات آپ ذہن نشین فرمالیں جب آپ قرآن پڑھیں گے مماتی حدیث کی طرف آئے گا… جب آپ الانبیاء حدیث پڑھیں گے… انک میت قرآن پڑھے گا… آپ حدیث پڑھیں وہ قرآن… میں کہتا ہوں جب رب کا قرآن کہتا ہے شہید زندہ… یہ کہتا ہے مسلم کی حدیث ہے شہید کی روح سبز پرندوں کے پوٹوں میں ہوتی ہے… اور اس کے پوٹوں میں سیر کرتی ہے… تو پیغمبرصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا شہید کی روح زندہ ہوتی ہے… ہاں !میں نے کہاحضورصلی اللہ علیہ وسلم نے یہ تو نہیں فرمایا جسم زندہ نہیں ہوتا… پیغمبرصلی اللہ علیہ وسلم نے جسم کو بھی زندہ کہہ دیا روح کو بھی زندہ کہہ دیا۔
روح جسم کا قضیہ:
میں نے اس مماتی سے یہ پوچھا مجھے بتا جب آدمی سو جاتا ہے اس کی روح کہاں پر ہوتی ہے… آدمی کی روح جسم میں یا جسم سے باہر ہے… کہتا ہے جب آدمی سو گیا آدمی کی روح جسم سے نکل گئی… میں نے کہا نکل کر کہاں گئی؟ جب آدمی سو کر اٹھا آپ نے اٹھ کر کہا آج میں نے عمرہ کیا… عمرہ تیرے جسم نے نہیں کیا… جسم یہاں پر تھا عمرہ کس نے کیا؟ کہتا ہے آج میں سو گیا میں نے ابا جی سے خواب میں ملاقات کی ہے… تیرے ابا جی قبرستان میں تھے… تو گھر پر تھا تو ملاقات کس نے کی ہے ؟ تیری روح نے ملاقات تیرے باپ سے کی ہے… تو نے عمرہ کیا تیری روح مدینہ میں گئی ہے… تیری روح مدرسہ میں گئی ہے… تیری روح دوستوں سے ملاقات کرنے گئی ہے… تیری روح بازار میں شاپنگ کرنے گئی ہے جسم تو نہیں گیا… میرا سوال یہ ہے تیرا جسم یہاں پرتھا روح سیر کر رہی تھی جسم زندہ تھا یا مردہ۔ ؟ کہتا ہے زندہ تھا… میں نے کہاجسم میں روح نہیں ہے تو نے زندہ کیوں مانا؟ کہتا ہے اگر چہ میری روح مکہ میں تھی میرا جسم یہاں تھا… میں نے کہا میں بھی کہتا ہوں شہید کا جسم زندہ اس گڑھے میں… شہید کی روح جنت میں سیر کرتی ہےتیری روح مکہ میں… تیرا جسم یہاں پرتوزندہ تعلق کی وجہ سے شہید کی روح علیین میں شہید کا جسم یہاں پہ شہید زندہ تعلق کی وجہ سے۔
کہتا ہے جی ہمارا تعلق تو نظر آتا ہے… ہمارا سانس ہے… رگیں حرکت کررہی ہیں… ہمارا خون چل رہا ہے… یہ تعلق نظر آتا ہے… میں نے کہا اس تعلق کو تو نے مانا اپنی آنکھ کی وجہ سے… ہم نے اس تعلق کو مانا پیغمبرصلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کی وجہ سے… آنکھ دھوکہ کھا سکتی ہے پیغمبرصلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان نہیں دھوکہ کھا سکتا… ہم نے تو زندہ مان لیا… میں کہتا ہوں اگلی بات سمجھیں… ایک بات ذہن نشین کر لو! ہم شہید کی روح کو بھی زندہ مانتے ہیں ہم شہید کے جسم کو بھی زندہ مانتے ہیں۔ ہم کیسے زندہ مانتے ہیں۔
شیعہ سے اختلاف :
ہمارا آل تشیع سے ایک اختلاف ہے… رافضی معنی اور بیان کرتا ہے ہم معنی اور بیان کرتے ہیں اہل السنت والجماعت سے پوچھو پیغمبرصلی اللہ علیہ وسلم کی بیویاں اہل بیت میں سے… رافضی کہتا ہے نہیں امی عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا اہل بیت میں سے نہیں العیاذباللہ… کہتا ہے حضرت حفصہ رضی اللہ تعالیٰ عنھا اہل بیت میں سے نہیں… اس سے پوچھو اہل بیت میں سے کون ہے؟ کہتا ہے پیغمبرصلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو لیا… پیغمبرصلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو لیا… پیغمبرصلی اللہ علیہ وسلم نے حسنین کریمین کو لیا… پیغمبرصلی اللہ علیہ وسلم نے سب کو لیا پھر پیغمبرصلی اللہ علیہ وسلم نے اوپر چادر پھیلائی فرمایا۔
اللَّهُمَّ هَؤُلاءِ أَهْلُ بَيْتِي اللَّهُمَّ هَؤُلاءِ أَهْلُ بَيْتِي
معجم کبیر طبرانی جز 3 ص 91
اس میں حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ تھے… اس میں فاطمۃ الزھرا رضی اللہ تعالیٰ عنہا تھی… اس میں حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ تھے پیغمبرصلی اللہ علیہ وسلم نے علی کو اہل بیت فرمایا… پیغمبرصلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بیٹی کو اہل بیت فرمایا… پیغمبرصلی اللہ علیہ وسلم نے نواسوں کو اہل بیت فرمایا… تو کیوں کہ حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہم نے مانا… میں نے کہا رافضیو سنو ! ہم اہل بیت میں پیغمبرصلی اللہ علیہ وسلم کی بیویاں بھی مانتے ہیں… ہم اہل بیت میں حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو بھی مانتے ہیں… ہم اہل بیت میں فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنھا اور پیغمبر کے نواسوں کو بھی مانتے ہیں… ہم نے قرآن پڑھا… ہم نے پیغمبرصلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات کو اہل بیت میں مان لیا۔ ہم نے حدیث پڑھی علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ فاطمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا… کو اہل بیت مان لیا پیغمبر کی حدیث کی وجہ سے… نہ ہم نے قرآن چھوڑا… نہ ہم نے حدیث چھوڑی۔
ہم نے شہید کے جسم کو زندہ مانا قرآن کی وجہ سے… ہم نے شہید کی روح کو زندہ مانا پیغمبرصلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کی وجہ سے… ہم نے دونوں کو مانا دونوں کو زندہ مان لیا… ہم نے کسی ایک کو بھی نہیں چھوڑا… میں عرض کر رہا تھا یہ تو قرآن اور نعمان پہ میں نے چند عقیدے بیان کئے… اگر وقت ہو تو میں مسائل شروع کرو ں… میں کہتا ہوں امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے جو مسائل اللہ نے قرآن میں بیان کئے… مسئلے سنتا جا امام صاحب کے موقف پہ قرآن سن۔
مسئلہ طلاق ثلاثہ اور قرآن :
اللہ حفاظت فرمائے اگر کوئی آدمی اپنی بیوی کو تین طلاق دے دے… تو تین طلاق کے بعد تین ہو گی یا ایک ہو گی… ؟ قرآن کہتا ہے تین ہوںگی… تو کہتا ہے ایک ہو گی… میرا دعوی ہے اگر غیر مقلد یہ بات کہتا ہے قرآن کو مانتا ہے تو ایک آیت پڑھ دے کہ اپنی بیوی کو تین طلاق دی جائیں تو ایک طلاق ہوتی ہے… قرآن کی آیت پڑھ دے میں تیرے موقف کو مان جاؤں گا… میں آیت پڑھتا ہوں… اللہ نے مسئلہ قرآن میں بیان کیا… کہ اگر بیوی کو تین طلاق دو تو یہ تین ہوتی ہیں… توجہ رکھنا! ہمارا اور ان کا اختلاف کیا ہے… ؟اگر ایک مجلس میں تین طلا ق دی جائیں… تین دنوں میں دی جائیں وہ بھی کہتا ہے تین ہوتی ہیں… جھگڑا کس بات میں ہے…؟ اگر ایک مجلس ہو بیوی کو تین طلا ق دو… ہم کہتے ہیں تین ہوتی ہیں… وہ کہتا ہے ایک ہوتی ہے… میں کہتا ہوں اللہ قرآن میں کہتا ہے:’’الطلاق مرتان ‘‘ طلاق دو مرتبہ دے دی
فَإِنْ طَلَّقَهَا فَلَا تَحِلُّ لَهُ مِنْ بَعْدُ حَتَّى تَنْكِحَ زَوْجًا غَيْرَهُ
سورۃ بقرۃ پ 2 آیت نمبر 230
اگر تم نے دو کے بعد تیسری طلاق دے دی ہے… طلاقیں تین ہوگئی… اللہ مجلس کو بیان نہیں کرتا… مجلس ایک ہو تب بھی تین ہوں گی… مجلس بدل جائے تب بھی تین ہوں گی… رب قرآن میں مسئلہ بیان کرتا ہے علامہ آلوسی رحمہ اللہ نے روح المعانی میں امت کا اجماع نقل کیا ہے کہ اگر تین طلاق دے دو اسی آیت کی روشنی میں تین طلاقیں واقع ہوتی ہیں… میں کہتا ہوں اگر تو کہتا ہے تین طلاقیں… اگر ایک مجلس میں دی جائیں ایک ہوتی ہے… قرآن پڑھ دے… تیرے پاس قرآن نہیں ہے… میرا موقف یہ ہے کہ اگر تین طلاق ایک مجلس میں دی جائیں… تب بھی تین ہیں اگر الگ مجلس میں دی جائیں… تب بھی تین ہیں… قرآن نے مسئلہ کو عام بیان کیا…امام نے مسئلہ کو عام رکھا… تو نے مسئلہ کو خاص بیان کیا تو خاص آیت پڑھ دے… ا بو حنیفہ رحمہ اللہ کا موقف عام ہے… تم تین مجلسوں میں دے دو تب بھی تین ہوں گی… ایک مجلس میں دو… تب بھی تین ہو ں گی… اللہ نے مسئلہ کوعام بیان کیا۔
فَإِنْ طَلَّقَهَا فَلَا تَحِلُّ لَهُ مِنْ بَعْدُ حَتَّى تَنْكِحَ زَوْجًا غَيْرَهُ
مسئلہ رضاعت اور قرآن :
کہ اگر کوئی ماں… اپنے بیٹے کو دودھ پلائے… دودھ پلانے کی مدت دو سال ہے… لیکن اگر کسی نے اڑھائی سال میں… اپنی ماں کا دودھ پی لیا… رضاعی بیٹا بن جائے گا… وہ رضاعی ماں بن جائے گی… غیر مقلد قرآن پڑھتا ہے کہتا ہے جی اللہ قرآن میں کہتا ہے ’’حولین کاملین لمن اراد ‘‘ اللہ قرآن میں کہتا ہے کہ دودھ پلانے کی مدت دوسال ہے… میں کہتا ہوں غیر مقلد تو نے آدھے قرآن کو پڑھا… تو نے پورے قرآن کو نہیں پڑھا۔ اللہ قرآن میں کہتا ہے۔
وَحَمْلُهُ وَفِصَالُهُ ثَلَاثُونَ شَهْرًا
سورۃ احقاف پ 26 آیت نمبر 15
بچے کو گود میں لینا اور بچے کا دودھ چھڑانا… قرآن کہتا ہے30 مہینے ہے۔ اورتیس مہینے دوسال کو نہیں کہتے… تیس مہینے اڑھائی سال کو کہتے ہیں… ایک ہے بچے کو گود میں رکھنا اور بچے کو دودھ چھڑا نا قرآن کہتا ہے30مہینے… اور دوسری آیت کہتی ہے دوسال… امام ابوحنیفہ تیری فقاہت پہ قربان جائیں… تیری قبر پہ اللہ کروڑوں رحمتیں نازل فرمائے… (آمین) امام ابوحنیفہ نے مسئلہ بیان کیا… دونوں آیتوں کو ملا دیا… امام صاحب فرماتے ہیںعورت کے لئے بچے کو دودھ پلانے کی… اصل مدت تو دوسال ہے… دوسال تک دودھ پلانا چاہیے… لیکن اگر کسی نے دوسال کے بعد… اڑھائی سال دودھ پلا دیا… تو تب بھی حرمت رضاعت ثابت ہوجائے گی… ایک ہے مسئلہ مدت رضاعت کا… حرمت رضاعت کامسئلہ اور ہے… ہم سے پوچھو ماں بچے کو کتنے سال دودھ پلائے…؟ ہم کہیں گے دوسال پلائے… اگر اڑھائی سال کے دوران بچے نے پی لیا… تو ماں حرام ہو جائے گی… کیونکہ قرآن کہتا ہے ’’ثلا ثون شھرا‘‘ ہم نے دوسال کو بھی مانا… ہم نے اڑھائی سال کو بھی مانا… امام صاحب نے اڑھائی سال بیان کیا… اللہ نے مسئلہ قرآن میں بیان کیا… تیرے پاس قرآن نہیں ہے… امام صاحب کے مسئلہ پر اللہ کا قرآن ہے۔
ترک قرأۃ خلف الامام اور قرآن :
امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں جب امام قرآن پڑھے امام کے پیچھے چپ ہو جاؤ… فاتحہ نہ پڑھو… پوری 114سورتیں تجھے نہیں پڑھنی چاہیے۔ رب قرآن میں کہتا ہے۔
وَإِذَا قُرِئَ الْقُرْآنُ فَاسْتَمِعُوا لَهُ وَأَنْصِتُوا لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ
سورۃ اعراف پ 9 آیت نمبر 204
جب قرآن پڑھا جائے تم سنو اور چپ ہو جاؤ… تم سنو اور چپ ہو جاؤ… تم سنو اور چپ ہو جاؤ… اللہ نے دومرتبہ حکم الگ الگ دیا… کبھی لوگ کہتے ہیں امام فجر کی نماز پڑھے ہم سنیںبات سمجھ آتی ہے… مغرب کی نماز پڑھے ہم سنیں بات سمجھ آتی ہے۔ عشاء کی نماز پڑھے ہم سنیں بات سمجھ آتی ہے… لیکن ظہر میں تو امام کا قرآن ہم نہیں سن سکتے پھر سننے کا معنی…؟ عصر میں امام قرآن پڑھے… ہم نہیں سن سکتے پھر سننے کا معنی… رب نے اعلان کیا توجہ رکھنا…!
نمازیں دو قسم کی ہیں:
1… ایک نماز وہ ہے جس میں امام اونچا پڑھے اسے جہری نماز کہتے ہیں۔
2… نماز وہ جس میں قرآن آہستہ پڑھیں اس کو سری نماز کہتے ہیں۔
فجر، مغرب اور عشاء یہ جہری نمازیں ہیں… ظہر ،عصر یہ سری نمازیں ہیں۔ اللہ نے دونوں کا حکم… ایک آیت میں بیان کردیا فرمایا’’ واذا قری القرآن ‘‘جب قرآن پڑھا جائے… اور تمہیں قرآن کی آواز آتی ہے’’ فاستمعوا لہ ‘‘ قرآن کو سنا کرو جب سنیں گے… تو چپ بھی رہیں گے… جو آدمی بولتا ہے وہ سننے والا نہیں ہوتا… رب کہتا ہے… تم سنا کرو معنی چپ بھی رہا کرو… اللہ ’’استمعوا لہ ‘‘کے اندر سننا بھی آ گیا… تو نے ’’انصتوا‘‘چپ رہنے کا…
جواب سنو! اگر نماز جہری ہو گی تمہیں قرآن کی آواز آئے گی سنا کرو… اگر نماز سری ہو گی… تمہیں قرآن کی آواز نہیں آئے گی… تم نے سنا نہیں ’انصتوا‘ چپ اب بھی رہنا ہے۔ بولیں تب بھی رہنا ہے… اب بھی رہنا ہے… میں کہتا ہوں غیر مقلدو میرا چیلنج ہے… کہ تم ایک آیت پڑھ دو کہ رب قرآن میں کہتا ہے… تم امام کے پیچھے فاتحہ پڑھا کرو آگے سنو :
مسئلہ آمین بالسراور قرآن :
ہم کہتے ہیں جب امام نماز پڑھا ئے تم نماز پڑھو تو آمین آہستہ کہو… آمین اونچی آواز سے مت کہو… آمین تمہیں آہستہ کہنی چاہیے… اللہ کے قرآن سے فیصلہ پوچھو بات سنو…! یہ جو ہم کہتے ہیں آمین… تو آمین کیا ہے… ؟یا آمین قرآن ہو گا… یا آمین دعا ہوگی… یا آمین ذکر ہو گا… آمین کی حیثیت کیا ہے…؟ آمین قرآن تو نہیں ہے… اس لئے الحمد سے والناس تک پورے قرآن میں آمین نہیں ہے… یا آمین دعا ہو گی یا آمین اللہ کا ذکر ہو گا امام بخاری رحمہ اللہ تعالیٰ سے پوچھو تو… امام بخاری رحمہ اللہ کہتے ہیں۔
’’قال عطاء آمین الدعا ‘‘
بخاری ج 1 ص 107
بخاری کہتا ہے عطاء رحمہ اللہ نے فرمایا آمین دعا ہے… اچھا اگر دعا ہے تو دعا آہستہ پڑھیں یا اونچی آواز سے رب سے قرآن میں فیصلہ کراؤ۔ رب قرآن میں کہتا ہے۔
اُدْعُوا رَبَّكُمْ تَضَرُّعًا وَخُفْيَةً
سورۃ اعراف پ 8 آیت نمبر 55
تمہیں دعا آہستہ مانگنی چاہیے اگر آمین ذکر ہے اللہ قرآن میں کہتا ہے
وَاذْكُرْ رَبَّكَ فِي نَفْسِكَ تَضَرُّعًا وَخِيفَةً
سورۃ اعراف پ 9 آیت نمبر 205
رب کہتا ہے اگر آمین دعا ہےتب بھی آہستہ مانگو اگر آمین ذکر ہے تب بھی آہستہ مانگو اگر آمین قرآن ہے پھر اونچی پڑھ لے پھر معنی اور ہو گا اگر آمین دعا ہے تو پھر رب کا حکم یہ ہے کہ آہستہ مانگو اگر آمین ذکر ہے تو رب کا حکم یہ ہے کہ آہستہ مانگو۔
مسئلہ ترک رفع یدین اور قرآن:
رفع یدین کا مسئلہ آجائے گا رب سے پوچھو رب کہتا ہے
قَدْ أَفْلَحَ الْمُؤْمِنُونَ الَّذِينَ هُمْ فِي صَلَاتِهِمْ خَاشِعُونَ ۔
سورۃ مومنون پ 18 آیت نمبر 1 ، 2
وہ ایمان والے کامیاب ہو گئے…جو اپنی نمازوں میں خشوع کرتے ہیں… ارے خشوع کا معنی کیا ہے…؟ پیغمبر کے صحابی عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما کا فرمان تفسیر ابن عباس کے اندر موجود ہے… فرماتے ہیں۔’’خاشعون‘‘کا معنی
’’مخبتون متواضعون لا یلتفتون یمینا ولاشمالا ولا یرفعون ایدیھم فی الصلوۃ ‘‘
تفسیر ابن عباس ص 212
نماز میں خشوع یہ ہے نہ دائیں دیکھیں نہ بائیں نہ حرکت کر بالکل سکون سے کھڑا ہو جااور نماز میں رفع یدین نہ کرپیغمبرصلی اللہ علیہ وسلم کا صحابی قرآن کی تفسیر بیان کرتا ہےامام سیوطی نے ’’تدریب الراوی‘‘ میں لکھا حاکم نے امام بخاری کا اصول بیان کیا ہے۔
’’ان تفسیر الصحابی الذی شھد الوحی والتنزیل انہ حدیث مسند ‘‘
تدریب الراوی ج 1 ص 157، مستدرک حاکم ج 1 ص 211
جب صحابی قرآن کی تفسیر بیان کرتا ہے وہ تفسیر دیکھنے میں ہے درحقیقت حدیث مسند ہے… تو صحابی نے تفسیر کر دی ہے’’ خاشعون ‘‘کا معنی نماز میں رفع یدین نہ کر… ! میں نے آیت پڑھی نمازمیں رفع یدین نہ کرنا نماز کا خشوع ہے… میں نے آیت پڑھی دعا آہستہ مانگ… میں نے آیت پڑھی ذکر آہستہ کر… میں نے آیت پڑھی قرآن نہ پڑھ امام کے پیچھے… امام صاحب کے موقف پہ اللہ کا قرآن بولتا ہے۔
نعمان اور شوق قرآن :
میں عرض یہ کررہا تھا قرآن اور نعمان کے حوالے سے… یہ تم نے کیسے کہہ دیا ابوحنیفہ رحمہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ قرآن نہیں ہے… جس جگہ سے ابو حنیفہ رحمہ اللہ کو گرفتار کرکے جیل میں لے جایا گیا حضرت امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ نے اس جگہ پر آٹھ ہزار مرتبہ قرآن ختم کیا… آگے چلیے میں آخری بات کہتا ہوں حضرت امام صاحب کی میں نے ذات سے شروع کیا تھا میں ذات پہ ختم کرتا ہوں… میں نے کہا تھا امام صاحب کی ذات کی بشارت اللہ نے قرآن میں دی ہے… آخری بات سنو !
نعمان اور عبادت رحمان :
حضرت امام اعظم ابوحنیفہ رحمہ اللہ تعالیٰ اللہ ان کی قبر پہ کروڑوں رحمتیں نازل فرمائے (آمین) ہم کہتے ہیں امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ تعالیٰ چالیس سال تک عشاء کے وضوء سے فجر کی نماز پڑھتے رہےغیر مقلد کہتے ہیں پوری رات جاگ کر عبادت کرنا کہاں پر ہےمیں نے کہا قرآن کہتا ہے :
وَالَّذِينَ يَبِيتُونَ لِرَبِّهِمْ سُجَّدًا وَقِيَامًا۔
سورۃ فرقان پ 19 آ یت نمبر 64
تو یبیتون کا معنی پوری رات نہیں ہے ؟آدھی ہو تو بھی یبیتون…نصف ہو تو بھی یبیتون… ایک تہائی ہوتو بھی یبیتون… اور اگر پوری رات ہو تو بھی’’ یبیتون‘‘ اور جو پوری رات جاگ کر رب کی عبادت کرے… عبادت بھی کیسے سجدے اور قیام کرے سجدہ اور قیام تو نماز کو کہتے ہیں نا… اگر امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ… اللہ ان کی قبر پر کروڑوں رحمتیں نازل فرمائے (آمین) وہ پوری رات جاگ کر عبادت کرے… اللہ قرآن میں پوری رات جاگ کر عبادت کرنے والوں کی تعریف کرتے ہیں… اگر امام کی ذات کی بشارت ہے وہ بھی قرآن میں موجود ہے… امام کی پوری رات جاگنے کی عبادت ہے وہ بھی قرآن میں موجود ہے… قرآن بولتا ہے مگر تو نے پڑھا نہیں… قرآن بولتا ہے مگر تو نے سمجھا نہیں… میں کہتا ہوں ارے غیر مقلدو! ضد کو چھوڑ دو امام کے موقف کو سمجھ لے… مماتیو! ضد کو چھوڑ دو… علماء دیوبند کے موقف کو سمجھو… اللہ مجھے اور آپ کو اپنے موقف پہ ثابت قدمی کے ساتھ رہنے کی توفیق عطاء فرمائے۔
وآخردعوانا ان الحمد للہ رب العالمین۔