فقہ کی حقیقت کیا ہے

User Rating: 5 / 5

Star ActiveStar ActiveStar ActiveStar ActiveStar Active
 
عنوان…………فقہ کی حقیقت کیا ہے
مقام… ………………لاہور
خطبہ مسنونہ :
الحمد للہ وحدہ لاشریک لہ والصلوۃ والسلام علیٰ نبی بعد ہ امابعد : فاعوذ باللہ من الشیطان الرجیم بسم اللہ الرحمن الرحیم الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلَامَ دِينًا
سورۃ المائدہ پ6 آیت نمبر 3
درود شریف:
اللھم صل علیٰ محمد وعلیٰ آل محمد کما صلیت علیٰ ابراھیم وعلیٰ آل ابراھیم انک حمید مجید اللھم بارک علیٰ محمد وعلیٰ آل محمد کما بارکت علیٰ ابراھیم وعلیٰ آل ابراھیم انک حمید مجید
تمہید :
میرے محترم بزرگو اہل السنت والجماعت سے تعلق رکھنے والے بھائیو اور دوستو! ہماری آج کی اس نشست کا عنوان ہے” فقہ کی حقیقت کیا ہے؟فقہ کہتے کسے ہیں؟“ یہ اگر آپ ذہن میں بات بٹھا لیں گے کہ فقہ کی تعریف کیا ہے…؟ فقہ کسے کہتے ہیں؟ تو سارے اشکالات شبہات خود بخود ختم ہو جائیں گے… آپ حضرات سن رہے ہیں کہ بہت سے لوگ یہ اعتراض کرتے ہیں ہمارے اوپر… کہ آپ لوگ اللہ کے قرآن کی بات نہیں مانتے بلکہ اپنے امام کی بات مانتے ہیں… اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی بات نہیں مانتے۔ بلکہ اماموں کی بات مانتے ہیں… قرآن وحدیث چھوڑ کر فقہ حنفی کی بات کرتے ہیں۔ یہ سارے سوالات جتنے کیے جاتے ہیں… یہ سارے سوال جتنے کیے جا رہے ہیں… اگر ہم نے یہ سمجھ لیا کہ فقہ کسے کہتے ہیں؟یہ سارے سوال خود بخود ختم ہو جائیں گے… اس کے لیے میں نے قرآن کریم چھٹا پارہ سورہ مائدہ کی آیت نمبر 3 تلاوت کی ہے یہ میں آیت کے نمبر اور سورۃ اس لئے عرض کرتا ہوں… کہ اگر آپ میں سے کوئی گھر جاکر ترجمہ والا قرآن کریم پڑھ لیں یا اردو قرآن کریم کی تفسیر دیکھ لیں… تو اس کو اگر حوالہ ذہن میں ہو گا تو گھر جاکر بھی دیکھ سکتا ہے۔
آیت کا شان نزول :
قرآن کریم چھٹا پارہ آیت نمبر3 میں اللہ رب العزت نے اعلان فرمایا
الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلَامَ دِينًا
خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم جب حجۃ الوداع کے موقع پر عرفات کے میدان میں تشریف فرماتھے… تو اللہ رب العزت نے قرآن کریم کی یہ آیت کریمہ نازل فرمائی۔
معارف القرآن مفتی محمد شفیع عثمانی رحمہ اللہ ج 3 ص 32
اور اس کے بیاسی یا تریاسی دن حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اس دنیا میں رہے تو اس کے بعد اللہ کے نبی اس دنیا کو چھوڑ کر عالم آخرت کی طرف منتقل ہو گئے۔
موت کامعنیٰ :
کیونکہ میں یہ الفاظ اس لئے عرض کر رہا ہوں کہ مسلمانوں کے ہاں موت کا معنی اور ہے… اور کفار کے ہاں موت کا معنی ٰاور ہے… کفار کے ہاں موت کا معنی ہے فنا ہو جا نا… اور مسلمان کے ہاں موت کا معنی فنا ہو جا نا نہیں بلکہ ایک جہاں کو چھوڑ کر دوسرے جہاں میں منتقل ہو جا نا… آپ نے سنا ہو گا کہ ہمارے بعض صوفیا اور اکابر اہل اللہ فرماتے ہیں
’’الموت جسر یوصل الحبیب الی الحبیب ‘‘
تفسیر مظہری جز 1 ص 97
کہ موت ایک پل کا نام ہے جو ایک دوست کو دوسرے دوست سے ملا دیتا ہے…ہم چاہتے ہیں اپنے نبی کو دیکھ لیں اب ان آنکھوں سے اس دنیا میں دیکھ نہیں سکتے… ہم چاہتے ہیں کہ اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھ لیں جنہوں نے ہم تک دین پہنچایا… ان کو دیکھ لیں لیکن اس دنیا میں چلتا پھرتا ہو ا دیکھ نہیں سکتے… ہم چاہتے ہیں اپنے رب کی اور خالق کی اور مالک کی زیارت کریں۔
قرآن کا فیصلہ:
لیکن یہ قرآن کریم کا اٹل فیصلہ ہے۔
لَا تُدْرِكُهُ الْأَبْصَارُ وَهُوَ يُدْرِكُ الْأَبْصَارَ وَهُوَ اللَّطِيفُ الْخَبِيرُ۔
سورۃ الانعام پ 7 آیت نمبر 104
کہ تم ان آنکھوں سے اللہ کو نہیں دیکھ سکتے… خواہش کے باوجود نہیں دیکھ سکتے فرمایا ’’الموت جسر یوصل الحبیب الی الحبیب ‘‘یہ تمہاری خواہش وہ ہے کہ جس کو موت والا پل گزارنے کے بعد اللہ پوری فرمادے گا… تو موت کا معنی فنائیت نہیں بلکہ موت کا معنی ہے ایک جہاں کو چھوڑ کر دوسرے جہاںمیں منتقل ہو جانا… اللہ کے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر یہ آیت اتری… اور یہ اتنے واضح اور عمدہ آیت تھی… اور اس قدر عظمت والی تھی… کہ حضرت عبداللہ بن سلام رضی اللہ تعالیٰ عنہ وغیرہ جو حضرات پہلے یہودی تھے اور کلمہ پڑھ کر مسلمان ہوئے… انہوں نے کہا کہ اگر یہ آیت جوتمہارے نبی پر اتری ہے… اور اس وقت کے علماء یہود نے بھی یہ بات کی اگر یہ موسی علیہ السلام پر اترتی توجس دن آیت اترتی ہم اس دن کو عید منایا کرتے… اتنی اہم آیت ہے کہ اللہ رب العزت نے اعلان فرمایا :
الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلَامَ دِينًا
کہ میں نے تمہارے دین کو مکمل کردیا اپنی نعمت کو تمہارے اوپر پورا کر دیا اور تمہارے لئے اسلام اور دین کو میں نے پسند کر لیا…
اعلان نبوت کے وقت دیگر مذاہب وکتب:
جس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ رب العزت کی توحید اور اپنی نبوت کا اعلان فرمایا… تو اس وقت اس عالم دنیا میں تین کتابیں موجود تھی… اور دومذہب موجود تھے… یہ الگ بات ہے کہ وہ کتا بیں اپنی اصلی شکل وصورت میں موجود نہیں تھی۔ یہ الگ بات ہے کہ مذہب اپنی اصلی صورت میں موجود نہیں تھا… لیکن جیسا کیسا بھی تھا آسمانی دو مذہب اور آسمانی تین کتا بوں کا چرچا تھا…حضرت داؤد علیہ السلام پر اتر نے والی زبور… حضرت موسی علیہ السلام پر اترنے والی تورات… اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر آسمان سے اتر نے والی کتاب انجیل… یہ کتابیں موجود تھیں… اگرچہ اصلی شکل میں نہیں تھیں… مذہب یہودیت بھی موجود تھا… اور مذہب عیسائیت بھی موجود تھا… اگرچہ اس میں ترمیم کر دی گئی تھی۔
نبوت دائمی ہوتی ہے :
جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دین مطہر کا اعلان فرمایا… تو اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔
أَنَا خَاتَمُ النَّبَيِّينَ، لا نَبِيَّ بَعْدِي
ترمذی ج 2 ص 45 معجم کبیر طبرانی جز 19 ص 6
میں آخری نبی ہوں اب میرے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا… پہلے نبی بر حق تھے قرآن کریم نے ہمیں تعلیم دی۔
لَا نُفَرِّقُ بَيْنَ أَحَدٍ مِنْهُمْ
سورۃ بقرۃ پ 1 آیت نمبر 136
ہم سارے انبیاء کو نبی مانتے ہیں اور نبی ہونے کی وجہ سے ان میں فرق نہیں کرتے… حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر حضرت عیسیٰ علیہ السام تک سارے انبیاء کو نبی مانتے ہیں… لیکن اپنے زمانے کا نبی مانتے ہیں… آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے آنے کے بعد ان کی نبوت تو باقی ہے… ہم یہ نہیں کہتے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی نبوت ختم ہوگئی… حضرت آدم کی نبوت ختم ہو گئی… اللہ رب العزت کا اصول یہ ہے کہ وہ جب بھی کسی کو نبوت کا منصب عطاء فرماتے ہیں تو واپس نہیں لیتے… لیکن ان کی شریعت پر عمل کرنا منسوخ ہو گیا… ایک ہے نبی کی نبوت کا ختم ہونا… اور ایک ہے نبی جو شریعت لے کر آیا تھا اس شریعت پر عمل کا منسوخ ہوجانا… ان انبیاء کی نبوت کو تو دوام حاصل ہے۔
اور حضرت آدم اسوقت بھی نبی تھے آج بھی نبی ہیں… قیامت والے دن بھی بطور نبی کھڑے ہوں گے… حضرت عیسیٰ علیہ السلام اس وقت بھی نبی تھے… آج بھی نبی ہیں… اور قیامت کے دن بھی بطور نبی اللہ کے سامنے پیش ہونگے… لیکن اب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد کے بعد گزشتہ انبیاء کی شریعت کو تو اللہ نے منسوخ کر دیا… اس کا مطلب یہ ہے کہ حضورصلی اللہ علیہ وسلم کی آمد کے بعد اب اگر کوئی انسان نجات اور کامیابی چاہتا ہے… توحضرت آدم علیہ السلام حضرت نوح علیہ السلام حضرت ابراھیم علیہ السلام حضرت موسیٰ علیہ السلام حضرت عیسٰی علیہ السلام کی شریعت پر عمل کرنے سے کامیاب نہیں ہوگا بلکہ کامیاب ہو گا… تو خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کی شریعت پر عمل کرنے کی وجہ سے…یہ تو اسلام کا دعویٰ تھا۔
اور اہل اسلام جب یہودیوں اور عیسائیوں سے بات کرتے ہیں… اعتراض کرتے ہیں… کہ ہم نے یہودیت سے کہا تمہارا دین منسوخ ہو گیا… عیسائیوں سے کہا کہ تمہارا دین منسوخ ہو گیا… اب قیامت تک کے لئے نہ عیسائیت کا دین چلے گا۔ نہ یہودیت کی شریعت چلے گی… بلکہ محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم کی شریعت چلے گی… اس پر ظاہر ہے کہ انہوں نے یہ بات کہنی تھی کہ ہماری شریعت کیوں منسوخ ہو گئی… تمہاری شریعت پر عمل کیا جا سکتا ہے تو ہماری شریعت پر عمل کیوں نہیں ہوتا…؟ اگر تمہارا قرآن آسمانی ہے تو ہماری کتابیں بھی آسمانی ہیں… ہم نے ان پر ایک بنیادی سوال کیا… یہ ساری تمہید ذہن میں ہو گی تو پھر فقہ کی تعریف کو سننے میں اور یاد کرنے میں آپ کو لطف محسوس ہو گا… ہمارا بنیادی اشکال یہ تھا۔
عبادت کس چیزکا نام ہے :
اللہ رب العزت نے انسانوں کو پیدا فرمایا اور یہ انسان قیامت تک کے لئے پیدا ہوتے رہیں گے… جب قیامت آئے گی تو اس کے بعد انسانوں کی پیدائش کا سلسلہ ختم ہو جائے گا… جب تک انسان نے آنا ہے تو انسان نے اللہ کی عبادت بھی کرنی ہے۔ اور اللہ کی عبادت نام ہے احکام شریعت پر عمل کرنے کا… اب ظاہر ہے انسان کی زندگی میں مختلف حالات اور اعمال پیش آتے ہیں… تو ہر حالت کے اعتبا ر سے اس کو حکم شریعت چاہیے تھا۔
یہودیت اورعیسائیت پر اعتراض:
ہم نے یہودیوں سے کہا کہ تمہاری تورا ت میں قیامت تک آنے والے مسائل کاحل موجود نہیں… ہم نے عیسائیوں سے کہا کہ تمہاری انجیل میں قیامت تک پیش آنے والے مسائل کا حل موجود نہیں… تو ہمیں ایسی کتاب چاہیے جوقیامت تک آنے والے مسائل کا حل پیش کر دے… اس سوال کا جواب یہودیوں کے پاس موجود نہیں تھا… اور اس سوال کا جواب عیسائیوں کے پاس بھی موجود نہیں تھا… یہودی اور عیسائی اس سوال کا جواب تو نہ دے سکے۔
یہودیت اور عیسائیت کا اعتراض :
البتہ یہودیوں اور عیسا ئیوں نے یہی سوال ہمارے اوپر بھی کر دیا… یہودی کہنے لگے اگر ہماری تورات میں قیامت تک آنیوالے مسائل کا حل موجود نہیں تو تمہارے قرآن میں بھی تو قیامت تک آنے والے سارے مسائل کا حل موجود نہیں… عیسائیوں نے کہا اگر ہماری انجیل میں سارے مسائل کا حل موجو د نہیں تو… تمہارے قرآن میں قیامت تک آنے والے سارے مسائل کا حل موجود نہیں… مثلا دیکھیں بہت سارے مسائل پیش آئیں گے… کہ مسئلہ موجود ہے لیکن قرآن کھول کر دیکھیں تو قرآن میں اس کا حل نظر نہیں آتا مثلا
مسئلہ… 1 :
اگر کسی آدمی نے روزہ رکھا ہو تو حالت صوم یعنی روزے کی حالت میں بیمار پڑجائے… ایسے آدمی کو انجیکشن اور ٹیکہ لگوانا پڑ جائے کیا ٹیکہ لگوانے سے روزہ ٹوٹ جائے گا یا نہیں ٹوٹے گا… اس مسئلہ کا حل قرآن کریم کے اندر موجود نہیں۔
مسئلہ…2:
اب اگر کوئی انسان بیمار ہو اورا س کے جسم کا خون خشک ہو جائے نچڑ جائے یا زخمی ہوا اور ایکسیڈنٹ کی وجہ سے کوئی عضو کٹ گیا… اور اس کے جسم سے خون نکل گیا… اب ڈاکٹر حضرات کہتے ہیں کہ کسی اور آدمی کا اس کو خون دو گے تو جان بچے گی ورنہ جان نہیں بچے گی… اسے کہتے ہیں انتقال خون کا مسئلہ… قرآن کریم سے پوچھیں کہ ایک انسان کا خون دوسرے انسان کو دینا جائز ہے یا نہیں… تو قرآن کریم میں یہ مسئلہ موجود نہیں۔
مسئلہ… 3
اگر ایک آدمی کا گردہ فیل ہو جائے… اور اس کو ڈاکٹر نکال دیں اور ساتھ دوسرا گردہ بھی فیل ہو جائے اب گردہ نکال دیں تو موت واقعہ ہو گی… اب اس کے بچنے کی ایک ہی صوت ہے کہ کسی اور آدمی کا گردہ نکال کر اس آدمی کو لگا دیں… اب ایک آدمی کا گردہ دوسرے آدمی کو لگا نا جائز ہے یا نہیں… اب یہ مسئلہ قرآن کریم کے اندر موجود نہیں۔
مسئلہ… 4:
ایک آدمی سر سے گنجا ہے اور وہ یہ چاہتا ہے کہ میں اپنے سر پہ بال لگوا لوں۔ ڈاکٹر کہتے ہیں ہمارے پاس نسخہ موجود ہے ہم کسی اور کے بال اس کے سر پہ لگا دیں گے… تو سر اصلی حالت میں محسوس ہوگا… تو آیا یہ نقلی بال لگوا کر سر کو اصلی بنانا جائز ہے یا نہیں… تو یہ مسئلہ قرآن کے اندر موجود نہیں۔
مسئلہ… 5:
ہمارے ہاں ایک اور بڑا مسئلہ پیش آتا ہے لڑکا لاہور میں رہتا ہے… اور لڑکی سعودیہ میں رہتی ہے یا لڑکی انگلینڈ یا امریکہ میں رہتی ہے… یا لڑکی یہاں ہے اور لڑکا ملک سے باہر ہے… ان دونوں کی شادی کرنا چاہیں… تو آنے جانے میں دقت پیش آتی ہے تو آج کل لوگ ٹیلی فون پر نکاح کرتے ہیں… کیا وہ ٹیلی فونک نکا ح کرنے سے نکاح ہو جاتا ہے یا نکاح نہیں ہوتا… انٹرنیٹ پہ نکاح کریں نکاح ہو جا تا ہے یا نہیں ہو تا…یہ مسئلہ قرآن کریم کے اندر موجود نہیں۔
مسئلہ… 6:
جب امام قرآن کریم کی تلاوت کرے یا دوسرا کوئی آدمی قرآن کریم کی تلاوت کرے تو سجدہ تلاوت والی آیت کو پڑھے تو سننے والے پر سجدہ تلاوت واجب ہے… لیکن اگر قاری صاحب قرآن پڑھے اور قرآن ٹیپ ریکارڈ کے اندر موجود ہو… آپ ٹیپ ریکارڈ پر قرآن پڑ ھیں اور قرآن کریم کو سنیں… اور اس میں سجدہ تلا وت والی آیت کو سنیں اب ٹیپ ریکارڈ سے سننے والے قرآن کریم کی وجہ سے سجدہ تلاوت واجب ہو گا یا واجب نہیں ہوگا… تو یہ مسئلہ قرآن کریم کے اندر موجود نہیں… اب آپ بتلائیں یہودیوں کا اعتراض ٹھیک ہوا کہ نہیں… بتاؤ بھائی بتاؤ نا ؟ ( سامعین۔ ٹھیک ہے ) اب یہودی کہہ رہیں ہیں کہ جو سوال تمہا را تھا وہ سوال ہما را ہے… جو اعتراض تمہارا تھا وہی اعتراض ہمارا ہے۔
دین کامل کس طرح ہے :
ہم نے یہودیوں سے کہا دیکھئے جب ہم دعوی کرتے ہیں کہ ہمارے کتاب کامل اور مکمل ہے تو کامل اور مکمل ہونے کی تشریح بھی ہم کریں گے… جب ہم نے یہ دعوی کیا کہ ہمارا قرآن کامل ہے… قرآن میں سارے مسائل کا حل موجود ہے… اس قرآن کی تشریح کون کرے گا… یہ ہم کریں گے… ہم یہودیوں اور عیسائیوں سے دو باتیں عرض کرتے ہیں ہم کہتے ہیں کہ قرآن کریم میں ایک چیز موجود ہے جو تورات اور انجیل میں موجود نہیں… وہ کیا ہے ؟ ایک ہوتا ہے متن… ایک ہوتی ہے شرح۔
حدیث قرآن کی شرح ہے :
قرآن کریم متن ہے… اور اللہ کے پیغمبر کی احادیث مبارکہ اس متن کی شرح ہیں… تورات کا متن موجود ہے مگر شرح موجود نہیں… انجیل کا متن موجود ہے اور انجیل کی شرح موجود نہیں… قرآن کریم کا متن بھی موجود ہے اور قرآن کریم کی شرح احادیث مبارکہ بھی موجود ہیں… اگر ایک مسئلہ متن سے حل نہیں ہو گا تو وہ قرآن کی تفسیر احادیث مبارکہ جو شرح ہے اس سے حل ہو گا… تو ہم کہتے ہیں تورات انجیل کی شرح موجود نہیں جب کہ قرآن کی شرح موجود ہے… اور شرح سے مراد یہ ہے کہ ایسی شرح جو نبی خود فرمائیں… تورات کی ایسی تفسیر جوحضرت موسیٰ علیہ السلام خودکریں… انجیل کی ایسی تفسیر جوحضرت عیسی علیہ السلام خود کریں… یہ تفسیر تمہارے پاس موجود نہیں اور ایسی تفسیر جو خاتم الابنیاء صلی اللہ علیہ وسلم خود کریں وہ ہمارے پاس اصلی حالت میں موجود ہے… تو تورات انجیل اور قرآن میں فرق ہوا کہ نہیں… دوسری بات اس سے بھی زیادہ اہم سمجھیں۔
قرآن کریم ایک قانون ہے:
ہم کہتے ہیں قرآن کریم ایک قانون ہے اور قانون پر عمل کرنے کے لئے قانون کی ساری کتا بوں کو دیکھا جاتا ہے… ایک یا دو کو دیکھ کر پورے قانون کو سمجھا نہیں جاتا۔ ہم نے قرآن کریم پر غور کیا… ہم نے کیا کرنا تھا آئمہ مجتھدین نے کیا…ہم نے تو ان کو دیکھ کر آگے نقل کردیا… آئمہ مجتہدین نے قرآن کریم میں غور کیاکہ قرآن کریم میں رب نے کامل اور مکمل ہونے کااعلان بھی فرمایا ہے… قیامت تک آنے والے سارے مسئلے قرآن کریم کے اندر موجود ہیں… تو سارے مسئلے قرآن میں کیسے موجود ہیں… اب آپ یہ سنیں کہ سارے مسئلے قرآن میں کیسے موجود ہیں۔
چار قرآنی اصول :
قرآن کریم نے یہ بیان کیا کہ اگر کوئی بھی مسئلہ پیش آجائے تو اس مسئلہ کے حل کرنے کے چار اصول ہیں…کتنے اصول ہیں؟ (سامعین چار ) میں نے آپ سے کہا تھا کہ میں فقہ کی تعریف بالکل آخر میں کرو ں گا…یہ ساری باتیں ذہن میں ہوئیں توپھر فقہ کی تعریف آسانی سے سمجھ آجائے گی… قرآن کریم نے ارشادفرمایا کہ اگر کوئی بھی مسئلہ پیش آجائے تو مسئلے کے حل کے لئے چار طریقے ہیں۔
پہلا اصول ……اتباع قرآن :
اللہ رب العزت اعلان فرماتے ہیں
اتَّبِعُوا مَا أُنْزِلَ إِلَيْكُمْ مِنْ رَبِّكُمْ
سورۃ اعراف پ 8 آیت نمبر 3
کہ تم اس قرآن کی بات مان لو… جو اللہ نے قرآن تمہارے لئے تمہاری طرف ناز ل کیا… اگر تمہیں کوئی مسئلہ پیش آجائے تو وہ مسئلہ تم قرآن کریم سے کھول کر دیکھ لینا اور قرآن تمہیں وہ مسئلہ بیان کر دے گا۔
دوسرا اصول ….. اطاعت رسول :
قُلْ إِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّونَ اللَّهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ اللَّهُ
سورۃ آل عمران پ 3 آیت نمبر 31
اگر تم اللہ سے محبت کرنا چاہتے ہو… اور اللہ کی محبت کو لینا چاہتے ہو… اللہ سے محبت کرنا اور اللہ سے محبت لینا یہ اعمال شریعت پر عمل کرنے سے ہوتی ہے… آدمی شریعت پر عمل کرے تو اللہ کا محبوب بنتا ہے اور شریعت پر عمل نہ کرے تو اللہ کا محبوب نہیں بنتا۔ اگر اللہ سے محبت لینا چاہتے ہو تو اس کا طریقہ کیا ہے’’ فاتبعونی‘‘ کہ اللہ کے رسول خاتم الابنیاء صلی اللہ علیہ وسلم کی باتیں مان لو… تو تم سے اللہ محبت کرے گا… اب اگر کوئی مسئلہ پیش آجائے تو ہم مسئلہ قرآن کریم کے اندر دیکھیں گے… اگر کوئی مسئلہ پیش آجائے تو اس مسئلہ کا حل ہم اللہ کے نبی کی سنت سے دیکھیں گے… دو اصول بیان ہو گئے۔
تیسرا اصول …..اجماع امت :
اللہ رب العزت اعلان فرماتے ہیں۔
وَمَنْ يُشَاقِقِ الرَّسُولَ مِنْ بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُ الْهُدَى وَيَتَّبِعْ غَيْرَ سَبِيلِ الْمُؤْمِنِينَ نُوَلِّهِ مَا تَوَلَّى وَنُصْلِهِ جَهَنَّمَ وَسَاءَتْ مَصِيرًا
سورۃ النساء پ 5 آیت نمبر 115
جو آدمی اللہ کے رسول کی بات نہ مانے… اور مومنین جس مسئلہ پر اتفاق کر لیں…مومنین جس مسئلہ پر چلنے پر اتفاق کر لیں… مسلمانو ں اور مومنین کے اجماعی اور اتفاقی راستہ کو نہ مانے… تو اللہ فرماتے ہیں میں اس کو دو سزائیں دیتا ہو ں۔
منکرین اجماع کی سزاء:
ایک سزا دنیا میں اور ایک سزاآخرت میں دنیا کی سزا کیا ہے’’ نولہ ما تولیٰ‘‘ میں اس کو ہدایت کی تو فیق نہیں دیتا… وہ جہاں جاتا ہے میں اس کو جانے دیتا ہوں۔ اور آخرت کی سزاء کیا ہے ’’ونصلہ جھنم‘‘ میں آخرت میں اس کو جہنم دوں گا… تو جو آدمی اجماع امت کا انکار کر دے اللہ کتنی سزائیں دیتے ہیں ؟(سامعین… دو) یہی وجہ ہے آپ پورے معاشرے میں گھوم لیں… جو اجماع امت کا انکار کرتا ہے اس کا عموماً ضابطہ یہ ہے کہ ھدایت کی توفیق نہیں ملتی… کیونکہ اللہ نے اعلان کیا ہے کہ جو آدمی اجماع امت کا انکار کرے’’ نولہ ماتولیٰ ونصلہ جھنم‘‘ دنیا میں میں اس کو ہدایت نہیں دیتا۔ اور قیامت میں میں اسکو جنت نہیں دیتا… کیونکہ جنت نے تو ملنا ہے ہدایت کے اوپر… جب ہدایت ہی سلب ہو گئی تو اللہ رب العزت اس کو جنت کیسے عطاء فرمائیں گے… اب دیکھیں قرآن کریم کی آیت میں اللہ نے ارشاد فرمایا اگر کسی مسئلہ پر ایمان والے اتفاق کر لیں تو اس مسئلہ کو ماننا چاہئے کہ نہیں…؟ بولو بھائی (سامعین۔ ماننا چاہئے )
چوتھا اصول ……اجتہاد :
اللہ فرماتے ہیں۔
وَاتَّبِعْ سَبِيلَ مَنْ أَنَابَ إِلَيَّ
سورۃ لقمان پ 21 آیت نمبر 15
اے لوگو ں تم اس آدمی کی بات بھی مان لیا کرو جو آدمی تمہیں اللہ کے دین کی طرف لے کر آئے… اس آدمی کی بات مان لینا چاہئے جو خود بھی اللہ کی طرف آتا ہو اور تمہیں بھی اللہ کی طرف لے کر جاتا ہو…اب دیکھیں واتبع سبیل من اناب الی میں اللہ کا رسول مراد نہیں بلکہ ہر وہ شخص مراد ہے جو آدمی کو دین پر چلائے… اور آدمی کو اللہ تک لے جائے… اب ہم کہتے ہیں اس آیت میں وہ شخص مراد ہے کہ جو آدمی اجتہاد کرے اور اجتہاد کے ساتھ جو مسئلہ قرآن میں صراحتاً موجود نہ ہو…اللہ کے نبی کی حدیث میں صراحتاً موجود نہ ہو… اور اجتہاد کر کے مسئلہ بیان کرے… مسئلہ قرآن وسنت کے خلاف بھی نہ ہو… اور اس کا اجتہاد ایسا ہو جو آدمی کو دین پر چلنے کی طرف لے جائے… ایسے آدمی کی بات کو بھی ماننا ضروری ہے… اب قرآن نے کتنے اصول بیان کئے؟ (سامعین۔۔ چار) قرآن کہتا ہے اگر کوئی مسئلہ پیش آجائے تو مسئلے کا پہلا حل کیا ہے قرآن… دوسرا حل سنت… اور تیسرا حل اجماع… اور چوتھا قیاس… یہ قرآن کریم نے بھی بیان کیا ہے۔
احادیث مبارکہ اور چار اصول:
اور یہ حدیث میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی بیان کیا ہے… حدیث معاذ رضی اللہ تعالیٰ عنہ آپ نے سنی ہو گی… حدیث معاذ اس حدیث کا نام ہے یہ ترمذی کے اندر بھی موجود ہے۔
ترمذی ج 1 ص 247
ابو داؤد کے اندر بھی موجود ہے۔
ابو داود ج 2 ص 149
مسند امام احمد بن حنبل میں بھی موجود ہے۔
مسند امام احمد بن حنبل ج 5 ص 272 ، 286
حضرت معاذ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جب یمن کا عامل اور گورنر بنا کے بھیجا… تو حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا’’ بم تقضی یا معاذ‘‘ اے معاذرضی اللہ تعالیٰ عنہ اگر لوگ تم سے مسئلہ پوچھیں… تو مسئلہ کا حل کہاں سے نکا لے گا حضرت معاذ نے فرمایا:
نمبر…:1
بکتاب اللہ۔ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم میں مسئلہ کا حل قرآن سے نکالوں گا۔ حضورصلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا ’’ان لم تجد‘‘ اگر تجھے کوئی مسئلہ کتا ب اللہ میں نہ ملے؟ حضرت معاذ نے کہا
نمبر…2:
’’ بسنۃ رسول اللہ‘‘ میں یہ مسئلہ اللہ کے نبی کی سنت سے نکالوں گا… فرمایا’’ فان لم تجد ‘‘ اگر مسئلہ قرآن میں نہ ملے… اور مسئلہ نبی کی سنت میں بھی نہ ملے تو ؟حضرت معاذ نے کہا:
نمبر…3:
اجتھد برأی۔ اللہ کے نبی پھر میں اجتہاد کروں گا نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے’’ فضرب یدہ علیٰ صدرہ‘‘ اللہ کے نبی نے اپنا مبارک ہاتھ حضرت معاذ کے سینے پر پھیرا… کیوں کہ سینے میں علوم ہو ں تو اجتہاد کی توفیق ملتی ہے… اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت معاذ کے سینے کوکھولنے کے لئے اپنا ہاتھ مبارک حضرت معاذ کے سینے پر پھیرا… تاکہ اللہ اس کا سینہ اجتھاد کے لئے کھول دے… پھر اللہ کے نبی نے فرمایا: الحمد للہ الذی وفق رسول رسول اللہ بما یرضی بہ رسولہ۔ اے اللہ میں تیرا شکر ادا کرتا ہوں کہ تو نے میرے نمائندہ کو اس بات کی توفیق عطاء فرمائی جس سے میں اللہ کا رسول راضی ہوں… تو حضرت معاذ نے مسائل کے کتنے حل بیان کئے۔
1… کتاب اللہ 2…سنت رسول 3…اجتہاد
حدیث نمبر 2:
حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما فرماتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اعلان فرمایا۔
’’ان اللہ لا یجمع امت محمد علی الضلالۃ‘‘
ترمذی ج 2 ص 39
اللہ کبھی بھی میری امت کو گمراہی پر جمع نہیں فرمائیں گے… امت سے مراد وہ ہے جو نبی کا دین قبول کرنے والی امت ہو… ایسی امت گمراہی پر کبھی بھی جمع نہیں ہو سکتی۔ یہ جو میں کہ رہا ہوں امت سے مراد وہ امت جو دین قبول کر لے اس پر حدیث کے الفاظ دلیل ہیں… کہ میری امت کو اللہ گمراہی پر جمع نہیں فرمائیں گے… جس نے نبی کا کلمہ نہیں پڑھا وہ تو پہلے ہی گمراہ ہے… اس کا دین پر آنے کا مطلب ہی کوئی نہیں بنتا…
امت کی دو قسمیں ہیں:
1… امت اجابت 2…امت دعوت
امت دعوت سے مراد :
امت دعوت کہتے ہیں کہ جن کی طرف حضورصلی اللہ علیہ وسلم نبی بن کر آئے مگر انہوں نے حضور کے دین کو قبول نہیں کیا۔
امت اجابت سے مراد:
امت اجابت کہتے ہیں جنہوں نے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دین کو قبول کیا ہے… تو امت اجا بت کہتے ہیں مسلمانوں کو…تو اس حدیث میں امت اجابت مراد ہے… امت دعوت مراد نہیں کیوں میں نے کہا اس حدیث کے الفاظ ہی دلیل ہیں اس بات پر کہ امت اجابت ہی مراد ہے… کیونکہ امت دعوت وہ ہے جو گمراہ ہے اوراللہ کے نبی فرماتے ہیں کہ اللہ میری امت کو گمراہی پر جمع نہیں کرے گا… جو پہلے ہدایت پر آچکی ہے اور ھدایت پہ آنے والی کو امت اجابت کہتے ہیں… امت دعوت نہیں کہتے اب آپ لوگ سمجھنا کہ اللہ رب العزت نے مسائل کے حل کے لیے اصول بیان کئے ہیں چار۔
1… قرآن کریم 2…سنت رسول صل اللہ علیہ وسلم
3… اجماع امت 4… اجتہاد جسے قیاس شرعی کہتے ہیں
نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی یہ چار اصول بیان فرمائے۔
عیسائیوں اور یہودیوں کو چیلنج :
اب بات سمجھیں کہ فقہ کسے کہتے ہیں اب فقہ کی تعریف آپ ذہن میں رکھیں جب عیسایوں اور یہودیوں نے ہم سے سوال کیا… تمہارا قرآن بھی کامل اور مکمل نہیں۔ تمہارے قرآن میں بھی بہت سارے مسائل ہم نے دیکھے جو قرآن میں نہیں… ہم کہتے ہیں کہ سارے مسائل قرآن وحدیث میں موجود ہیں… لیکن موجود ہیں ان اصولوں کی روشنی میں… جواصول ہمیں قرآن نے دئیے کتنے دیے؟سامعین۔۔ چار… اب جو مسئلہ قرآن سے ثابت ہو وہ بھی دین… جو سنت سے ثابت ہو وہ بھی دین… جو اجماع سے ثابت ہو وہ بھی دین… جو اجتہاد سے ثابت ہو وہ بھی دین…ہم کہتے ہیں عیسائیوں اور یہودیوں تم دنیا میں ایک بھی ایسا مسئلہ لے آؤ جو مسئلہ قرآن سے بھی حل نہ ہو…سنت سے بھی حل نہ ہو…اجماع امت سے بھی حل نہ ہو…اور اجتہاد سے بھی حل نہ ہو…ایسا کوئی مسئلہ نہیں لا یا جا سکتا… جو ان چاروں اصولوں میں سے کسی سے بھی حل نہ ہو…اب مسئلہ تو حل ہو گا لیکن حل کس سے ہو گا؟ سامعین۔۔ چار اصولوں سے 
اور یہ اللہ نے چار اصول کہاں دیے؟ (سامعین۔ قرآن میں ) اللہ نے قیامت تک آنے والے سارے مسائل کے چار اصول دیے اور چاروں اصول قرآن کریم کے اندر موجود ہیں… اب ہم یہ دعوی کر سکتے ہیں کہ قیامت تک آنے والے سارے مسائل کا حل قرآن کریم کے اندر موجود ہے… لیکن قرآن کے بتائے ہوئے اصولوں کے مطابق۔ اصول چھوڑو گے پھر قرآن میں مسائل کا حل موجو د نہیں… اصول کے مطابق آؤ گے پھر قرآن کریم کے اندر مسائل موجود ہیں۔
سارے مسائل کا حل کس میں؟
اب اگلی بات سمجھیں !اگر کوئی یہودی یا کوئی عیسائی چلو وہ تو سوال بعد میں کرے گا… جو مسئلے قرآن سے نکلتے ہیں یہ مسئلے بھی لکھے جا چکے ہیں…جو مسئلے اللہ کے نبی سے ثابت وہ مسئلے بھی لکھے جا چکے ہیں… جو اجماع امت سے ثابت ہیں وہ بھی جو اجتہاد سے ثابت ہیں وہ بھی لکھے جاچکے ہیں… یہ مسئلے لکھے ہوئے کہا ں پر ہیں؟ (سامعین۔ فقہ میں ) اب دیکھو جو مسئلے قرآن سے ثابت ہوتے ہیں وہ سارے قرآن میں لکھے ہیں… ؟ بولیں کہاں لکھے ہوئے ہیں… ؟(سامعین فقہ میں ) اور جو مسئلے اللہ کے نبی سے ثابت ہوتے ہیں جو مسئلے اجماع سے ثابت ہوتے ہیں کہا ں لکھے ہیں…؟ (سامعین فقہ میں ) اور جو مسئلے اجتہاد سے ثابت ہوتے ہیں کہاں لکھے ہیں فقہ میں۔
فقہ کے مسئلوں کی تعداد :
علامہ عینی نے فرمایا ہمارے اصحاب نے کہا ’’قال اصحابنا‘‘ ہمارے آئمہ احناف فرماتے ہیں… کہ صرف فقہاء احناف نے علامہ عینیؒ کے زمانہ تک… آج سے بھی سات سو سال پہلے… جو مسائل قرآن کریم… احادیث مبارکہ… اور اجماع امت اور اجتہاد سے نکالے ہیں ان کی تعداد گیارہ لاکھ نوے ہزار ہے… کتنے مسئلے… ؟ (سامعین۔ گیارہ لاکھ نوے ہزار) اب یہ سارے مسئلے کہاں پر ہیں؟قرآن کریم میں ؟ اب یہ گیارہ لاکھ نوے ہزار مسئلے صاف طور پر حدیث میں ہیں…؟ میں یہ کہ رہا ہوں سارے مسائل کا حل موجود ہے لیکن کہا ں پر فقہ میں… اب اگر کوئی یہودی یا عیسائی آپ سے کہے ہمیں ایسی کتاب دو جس میں موجودہ زمانے کے سارے مسئلے لکھیں ہوئے ہوں تو آپ قرآن دیں گے؟ آپ حدیث دیں گے ؟ سامعین۔ نہیں
فقہ دینے کی وجہ:
کیوں اس لئے کہ انتقال خون کا مسئلہ قرآن میں لکھا ہوا نہیں اور فقہ میں لکھا ہوا ہے… اعضاء کی پیوند کاری کا مسئلہ احادیث میں نہیں فقہ میں لکھا ہوا ہے… ٹیلی فونک نکاح کا مسئلہ قرآن میں نہیں فقہ میں لکھا ہوا ہے… حالت روزہ میں انجکشن لگوانے کا مسئلہ قرآن وحدیث میں موجود نہیں فقہ میں لکھے ہوئے ہیں… اگر کوئی یہودی کوئی عیسائی میں کہتا ہوں اس بات کو عام کردیں اگر دنیا کا کوئی کافر مسلمان ہو… اور مسلمان ہونے کے بعد آپ سے پوچھے حضرت صاحب… مولوی صاحب… یہ میرے مسلمان بھائی ہیں مجھے ایسی کتاب دو… جس کتاب میں موجودہ زمانے میں پیش آنے والے سارے مسائل کا حل موجود ہو… آپ کون سی کتاب دیں گے ؟ (سامعین۔ فقہ ) بتائیں قرآن دیں گے قرآن میں تو نہیں ہے احادیث دیں گے اب آپ کیا دیں گے؟
تو یہودیوں اور عیسائیوں نے جو اعتراض کیا تھا…تمہارا دین ناقص ہے۔ تمہارا قرآن ناقص ہے… ہم نے کہا ہمارا قرآن ناقص نہیں… بلکہ کامل اور مکمل ہے… اس نے کہا اگر تمہارا دین کامل ہے تو بتاؤ یہ تمہارا کامل دین کہا ں لکھا ہوا ہے… ہم نے کیا جواب دیا بولیں… ؟سامعین …فقہ
فقہ کی تعریف:
اب سنیں فقہ کی تعریف ذہن میں رکھ لیں… اب آخری بات میں کہتا ہوں جس کے لئے میں نے تمہید باندھی ہے… قرآن کریم…سنت رسول… اجماع امت… اجتہاد مجتہد یعنی قیاس شرعی… ان چاروں اصولوں سے ثابت شدہ مسائل کا نام فقہ ہے… اب بولیں کیا تعریف کریں گے…؟ سامعین۔ قرآن کریم۔ سنت رسول۔ اجماع امت۔ اور قیاس شرعی کا نام فقہ ہے 
اب بتاؤ فقہ قرآن حدیث کے خلاف ہے… ؟فقہ تو کہتے ہی اسے ہیں جو قرآن سے نکلا ہو… فقہ تو کہتے ہی اسے ہیں جو احادیث سے نکلا ہو… فقہ کہتے ہی اسے ہیں جو اجماع امت سے نکلا ہو… پھر تم نے امت کو دھوکا دینے کے لئے کیسے کہ دیا کہ فقہ قرآن وحدیث کے خلاف ہے… فقہ قرآن کے خلاف نہیں… فقہ قرآن سے نکلے ہوئے مسائل کا نام ہے… اب میری بات سنیں میں نے آپ سے کہا تھا کہ میں آپ کے سامنے دو باتیں عرض کرو ں گا۔
فقہ کا انکار کیوں؟
دوسری بات یہ کہ فقہ کا انکار کیوں ہے… ؟فقہ کسے کہتے ہیں جواب آگیا (سامعین۔۔۔ آگیا ) فقہ کسے کہتے ہیں قرآن کریم سنت رسول اجماع امت اور قیاس شرعی سے ثابت شدہ مسائل کا نام فقہ ہے…اور فقہ کا انکار کیوں ہے؟اصل میں یہودیوں اور عیسائیوں نے اعتراض کیا تھا کہ مسلمانو تمہارا دین ناقص ہے… ہم نے کہا ہمارا دین کامل ہے… اور ہم نے دین کے کامل ہونے کے لئے بطور جواب فقہ کو پیش کیا تھا۔ اورعیسائیوں نے فقہ کا انکار کر دیا… تاکہ ہمارا اعتراض مسلمانوں پر باقی رہے… میری بات آپ سمجھ گئے! ہم نے ان کے اعتراض کا جواب کیا دیا تھا… فقہ اب لوگ فقہ کا انکار کرتے ہیں… یہ انکار اس لئے نہیں کرتے کہ فقہ کا انکار کرنا قرآن وحدیث کی خدمت ہے… فقہ کا انکار کرنا یہودیوں اور عیسائیوں کی خد مت ہے… فقہ کا انکار اس لئے کیا جاتا ہے تا کہ اسلام پر یہودیوں اور عیسائیوں کا اعتراض باقی رہ جائے… اس لئے تو ان کو پیدا کس نے کیا عیسائیوں نے کیا تھا۔
مثال :
آخر جب بھی آپ علاقہ میں اپناامید وار کھڑا کرتے ہیں آپ کا کوئی مقصد نہیں ہوتا… بتاؤ بھائی جب آپ اپنا ناظم یا کونسلر کھڑا کرتے ہیں… تو آپ کو مفادات وابستہ نہیں ہوتے… ؟ان کو کیوں کہ عیسائیوں نے کھڑا کیا تھا… نیا نام دے کر کھڑا کیا تھا… اور انگریز کے خلاف نفرت کی فضاء کوختم کرنے کے لئے کھڑا کیا تھا…عیسائیوں کا مقصد کیا تھا کہ جو ہم نے اعتراض دین پر کئے تھے…ہم تمہیں کچھ نہیں کہتے تم ہمارے اعتراضات ثابت کر دو… اعتراضات کو پکا کر دو…تو فقہ کا انکار کرنا اسلام کی خدمت نہیں…فقہ کا انکار کرنا قرآن وحدیث کی خدمت نہیں… بلکہ فقہ کا انکار کرنا یہودیوں اور عیسائیوں کی خدمت ہے… تو میری بات سمجھ آگئی…آپ کو میں نے دو باتیں عرض کی تھی میں خلاصہ پھر کہتا ہوں تاکہ آپ بات کو یاد فرمالیں
خلاصہ بیان :
میں نے آپ کو کہاتھا قرآن کریم نے اعلان کیا:
الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلَامَ دِينًا
کہ دین کامل ہے… اور یہودیوں اور عیسائیوں کو ہم نے کہا تھا کہ تمہاری تورات اور انجیل کامل نہیں ہے… اس کے اندر قیامت تک پیش آنے والے سارے مسائل کا حل موجود نہیں ہے… یہودی عیسائی ہمیں کہتے تھے کہ تمہارے قرآن میں بھی قیامت تک پیش آنے والے سارے مسائل کاحل موجود نہیں ہے… ہم نے کہا کہ قرآن نے چار اصول دیے ہیں۔
1… اتَّبِعُوا مَا أُنْزِلَ إِلَيْكُمْ مِنْ رَبِّكُمْ میں قرآن کو بیان فرمایا۔
2… قُلْ إِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّونَ اللَّهَ فَاتَّبِعُونِي یہ اتباع سنت ہو گیا۔
3… وَمَنْ يُشَاقِقِ الرَّسُولَ مِنْ بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُ الْهُدَى وَيَتَّبِعْ غَيْرَ سَبِيلِ الْمُؤْمِنِينَ نُوَلِّهِ مَا تَوَلَّى وَنُصْلِهِ جَهَنَّمَ وَسَاءَتْ مَصِيرًا میں اجما ع امت۔
4… وَاتَّبِعْ سَبِيلَ مَنْ أَنَابَ إِلَيَّ
میں قیاس شرعی اور اجتہاد کو اللہ رب العز ت نے بیان فرمایا۔
قیامت تک آنے والے سارے مسائل کا حل قرآن میں موجود ہے۔ مگر چار اصولوں کی روشنی میں ان چار اصولوں سے جو مسائل ثابت ہوں اسکانام فقہ ہے… یہ فقہ یہودیوں اور عیسائیوں کے سوالوں کا جواب تھا… تو تم ہمارے نہیں ان کے تھے… بعض لوگ نسبت ہماری طرف کرتے ہیں…انہوں نے یہودیوں اور عیسائیو ں کے اعتراض کو پکا کرنے کے لئے کہہ دیا کہ ہم فقہ کا انکار کرتے ہیں… تاکہ یہودیوں کا سوال باقی رہ جائے… کہ دین مسلمانوں کا ناقص ہے… حالانکہ ناقص نہیں الحمد للہ کامل اور مکمل ہے بات سمجھ آگئی اللہ تعالیٰ ہم سب کو یہ ساری باتیں سمجھنے کی تو فیق عطا ء فرمائے۔
اصولوں میں اسلوب قرآنی:
میں ایک بات ضمناً عرض کر دیتا ہوں قرآن کریم کے اصول کتنے ہیں؟ (سامعین۔ چار ) اللہ نے پہلے دو اصولوں کے لئے الفاظ الگ استعمال کئے… اور دوسرے دو اصولوں کے لئے الفاظ الگ استعمال کئے… یہ عجیب بات ہے۔ قرآن کریم نے کہا ’’اتبعوا ماانزل‘‘ قرآن کے لئے کہا… اور اللہ کے نبی کی سنت کے لئے کہا’’فاتبعونی‘‘ اور اجماع کی باری آئی تو ’’ویتبع غیر سبیل‘‘ سبیل کہا… یہ نہیں کہا ’’ویتبع غیر المومنین نہیں کہا سبیل کا لفظ ذکر کیا… اور جب اجتہاد کی باری آئی تو یہ نہیں کہا’’ اتبع سبیل من اناب ‘‘۔ سبیل کہتے ہیں مذہب کو… اور مذہب کا معنی کیا ہوتا ہے راستہ… ہم سارے حنفی دنیا میں کہہ رہے ہیں… کہ ہم امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ کا مذہب مانتے ہیں… غیر مقلد کہتا ہے کہ مذہب کا معنی قرآن سے دو… ہم نے کہا قرآن نے کہا ’’واتبع سبیل من اناب‘‘ ’’ای مذہب ‘‘من اناب الی‘‘ یعنی مجتہد کے مذہب کی پیروی کیا کرو… جب قرآن کی باری آئی تو مذہب نہیں کہا… جب نبی کی باری آئی تو مذہب (سامعین نہیں کہا ) اور مجتہد کی بات آئی تو پھر مذہب کہا۔
مناظرہ سیالکوٹ:
ہمارا رات مناظرہ تھا سیالکوٹ میں…ایسے ہی خواہ مخواہ جاتے جاتے طے ہو گیا تین چار گھنٹے مناظرہ رہا… میرے سامنے غیر مقلد نے ایضاح الادلہ شیخ الہند کی عبارت پیش کی وہ عبارت واقعی غلط تھی… کاتب نے غلط لکھ دیا… حضرت نے غلط لکھا میں نہیں کہتا… قرآن کریم کی آیت پیش کی کہتا ہے قرآن کریم کہتا ہے ’’فان تنازعتم فی شیء فردوہ الی اللہ والرسول‘‘ حضرت نے وہاں اولی الامر بھی لکھا ہے… کہتا ہے دیکھیں حضرت نے تحریف کی ہے… جو لفظ قرآن نہیں تھا قرآن میں داخل کردیا… اور اللہ کی شان یہ کہ وہ جب کسی کے موت کے فیصلے فرمائے یا شکست کے فیصلے فرمائے… اسباب کیسے عطاء فرماتے ہیں… میں نے آیت پڑھی ’’واتبع سبیل من اناب الی‘‘ اور جب غیر مقلد نے پڑھی کہتا ہے’’ واتبع من اناب الی‘‘ میں نے کہا… اگر شیخ الہند سے غلطی ہوگئی تو غلطی تو تو نے بھی کی ہے… تو قرآن غلط نہیں پڑھ رہا… اگر ان سے غلط لکھا گیا تو تو نے غلط پڑھا…کہتا ہے میں اللہ سے معافی مانگتا ہوں… میں نے کہا ان سے غلطی میں لکھا گیا اور تم سے غلطی میں پڑھا گیا بات برابر ہوگئی… بھائی آدمی غلطی سے لکھ بھی سکتا ہے… اگر غلطی سے بیان کر سکتا ہے تو لکھ نہیں سکتا… اب دیکھیں جو اعتراض ہم پر تھا وہ اعتراض اس پر پلٹ گیا نا۔
لو آپ اپنے دام میں صیاد آگیا:
یہ اعتراض آپ نے سنا ہوگا کہتے ہیں جب نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم فوت ہوگئے تو صحابہ نے تین دن بعددفن کیا… اور جب ان کا خمینی مرا… تو خلافت کا مسئلہ پہلے اٹھا یا… اور دفن تین دن بعد کیا… اللہ کبھی کبھی اعتراض دشمن کے گھر سے صاف کیا کرتا ہے… تو جو اعترا ض اس نے شیخ الہند پر کیا… اللہ نے زبان روک کر اعتراض کا جواب فورا دلوایا…میں نے کہا بابا یہ ہمارے شیخ الہند کی کرامت ہے… اس کا جواب غیر مقلد کے پاس نہیں تھا… بس یہ کہتا رہا کہ مجھ سے غلطی ہو گئی… میں نے کہا یہ تو تو کہتا ہے مجھ سے غلطی ہو گئی میں کہتا ہوں حضرت سے غلطی ہو گئی… تو بات برابر ہوگئی۔
تو میں آپ سے گزارش کر رہا تھا… کہ اللہ نے مذہب کا لفظ استعمال کیا ہے یا نہیں… مذہب کا لفظ استعمال کیا اس سے ہم مجتہد کے مذہب کی بات کرتے ہیں… اور نبی کے مذہب کی نہیں نبی کے دین کی بات کہتے ہیں… اللہ کے نبی کی طرف نسبت آئے تو نبی کا دین کہتے ہیں… اور ابوحنیفہ کی طرف نسبت آئے تو دین نہیں کہتے بلکہ مذہب کہتے ہیں… اور مذہب کا معنی ہے راستہ۔
غیر مقلدین کے شوشے:
اس لئے جب کوئی غیر مقلد آپ سے پوچھے کہ آپ کا مذہب حنفی ہے اور ہمارا محمدی… جب بھی کوئی سوال ہو گا تو شوشہ چھوڑتے ہیں میرا دعوی ہے کہ غیر مقلد دلیل نہیں دیتا شوشے چھوڑتا ہے… وسوسے ڈالتا ہے… ڈھکوسلے مارتا ہے… غیر مقلدین کا مزاج ہے ڈھکوسلے پر ڈھکوسلے چلائیں گے… غیر مقلد ایک عام آدمی کو پکڑیں گے کہیں گے کہ آپ کا مذہب کیا ہے حنفی… اچھا… آپ کا مذہب کیا ہے محمدی… تیسرے آدمی سے کہیں گے کہ چاچا جی آپ بتاؤ ایک آدمی کہتا ہے میرا مذہب حنفی ہے… اور ایک کہتا ہے میرا مذہب محمدی تو سچا کون ہے… چاچے نے فورا کہنا ہے محمدی… کیوں کہہ رہا ہے اس لئے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے عشق ہے… آدمی کیسے کہے کہ میں نبی کی بات چھوڑ کر ابوحنیفہ کی بات مانتا ہوں… یہ اس کا ایمان ہی گوارا نہیں کرتا…لیکن انہوں نے دھوکا دینے کے لئے کہنا ہے… چاچے نے فورا کہنا ہے مذہب محمدی ٹھیک ہے…میں مذہب محمدی مانتا ہوں…مذہب حنفی نہیں مانتا۔
میں کہتا ہوں سوال اٹھا نے والا وہ ہے جس جاہل کو مذہب کا معنی ہی نہیں آتا۔ مذہب عربی زبان کا لفظ ہے اور مذہب کا معنی ہوتا ہے راستہ… جب ہم سے کوئی سوال کرتا ہے تمہارا مذہب کیا ہے… وہ ہم سے پوچھتا ہے کہ تمہار راستہ کیا ہے… ہم کہتے ہیں کہ ہمارا راستہ ابو حنیفہ رحمہ اللہ تعالیٰ ہے اور ہماری منزل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں… ہم پوچھتے ہیں کہ تمہاری منزل کیا ہے… اس لئے ہم نے کہا اس کی کوئی منز ل نہیں یہ بدلتا رہے گا… قرآن نے کہا ’’نولہ ماتولی‘‘ اس کی کوئی منزل نہیں… اس کو جدہر جاتا ہے جانے دو… دنیا میں کوئی منزل نہیں… ہاں آخرت میں جہنم کی منزل متعین ہے’’ونصلہ جھنم ‘‘اللہ نے قرآن میں اعلان کیا ہے… خیر یہ میرا عنوان نہیں… میں اس پر پھر کبھی ان شاء اللہ تفصیل سے عرض کروں گا… کہ اجتہاد نہ ماننے کے نقصانات کتنے ہوتے ہیں تو میں نے دو باتیں عرض کی نمبر ایک فقہ کسے کہتے ہیں… نمبر دو فقہ کا انکار کیوں ہے… یہ دو باتیں سمجھ آگئی ہیں نا کیوں بھائی ؟سامعین…سمجھ آگئی ) نہیں آئی تو میں پھر دوبارہ بیان شروع کر دیتا ہوں… آپ بڑے شوق سے چٹیں لکھیں میں آپ کا شکریہ ادا کرو ں گا… آپ چٹیں لکھتے لکھتے تھک جائیں گے ان شاء اللہ میں جواب دیتے نہیں تھکوں گا… نہیں یقین آتا تو آزما کردیکھ لو… لوگ کہتے ہیں کہ دعوی کرتا ہے میں نے کہا دعوی کو توڑ دو۔
وآخر دعوانا ان الحمد للہ رب العالمین
اس کے بعد سوالات وجوابات کی نشست ہوئی جس میں عوام الناس نے درج ذیل سوالات کیے اور حضرت متکلم اسلام نے ان کے علمی وتحقیقی جوابات ارشاد فرمائے افادہ عام کی غرض سے ان کو یہاں لکھا جاتا ہے۔
سوالوں کے جواب:
سوال :
عتیق الرحمن شاہ غیر مقلد کی حقیقت بیان فرمائیں…؟
جواب :
میں کراچی میں تھا یہ فروری کے مہینے کی بات ہے… عبد اللہ شاہ مظہر جو مجاہدین کے ذمہ دار ہیں… یہ انکا رشتہ دار ہے عتیق الرحمٰن شاہ… مجھے عبد اللہ شاہ مظہر نے فون کیا اور میں اپنے حضرت حکیم اختر صاحب دامت برکا تہم کے ہاں سہ روزہ لگا رہا تھا… میرے مناظرے تھے وہ ختم ہوگئے… تو سہ روزہ لگا نے چلا گیا… ایک دن مکمل ہوا تو شاہ صاحب کا رات فون آگیا… انہوں نے فرمایا عتیق الرحمٰن شاہ پنجاب سے آگیا ہے اور وہ کہتا ہے میں شاہ صاحب کا پوتا ہوں اور وہ چیلنج دے رہا ہے اس سے گفتگو کریں… میں نے کہا یہ جواب آپ دیں گے کیونکہ آپ کا رشتہ دار ہے… ہاں علمی بات اس سے میں کروں گا… اس کو پکڑو عتیق الرحمٰن شاہ سے بات طے ہو گئی… اور اس کے حقیقی بھائی کے گھر ہوئی… اور دن کے دو بجے کا وقت طے ہوا… عبداللہ شاہ مظہر گاڑی کی ڈرائیونگ فرما رہے تھے… ان کی گاڑی میں بیٹھ کر شیخ الحدیث جامعہ اشرف المدارس مولانا عبد الرشید ان کے کتب خانے سے ہم نے کتب اٹھا ئیں… عتیق الرحمٰن کے بھائی کے گھر گئے… مگر عتیق الرحمٰن وہاں گفتگو کرنے نہیں آیا۔
پھر فون آگیا عتیق الرحمٰن کے بھائی کو… عتیق الرحمٰن کے بھائی نے کہا بھائی تو کدھر ہے عتیق الرحمٰن کہتا ہے میں ضیا ء الدین پیرزادہ کے گھر میں ہوں… یہ انہی کے متعلقین میں سے ہے… ہم نے وہاں سے گاڑی دوڑائی اور ضیاء الدین پیرزادہ کے گھر گئے…عتیق الرحمٰن وہاں سے بھی دوڑ گیا… میرے سامنے حقیقت یہ ہے اگر آپ کے سامنے حقیقت کوئی اور ہے تو آپ بتا دیں…ہمیں تو اتنا پتہ ہے کہ پہلے حنفی تھا اس کو ایک لڑکی ملی تو یہ غیر مقلد بن گیا…تو لڑکی کی وجہ سے مذہب بدلنا یہ مسلمانوں کی شان نہیں ہے…آپ جا کر اس کا پتہ کرائیں اس کے گھر میں پہلے بیوی موجود تھی… دوسری اس کو غیر مقلدوں نے دی ہے…اس طرح ایک غیرمقلد صادق کوہاٹی تھا… پہلے مماتی تھا پھر غیر مقلد ہوا… آپ میری بات کو محسوس نہ فرمائیں… فرما بھی لیا تو کوئی فرق نہیں پڑتا۔ اتنے لوگ پہلے محسوس کرتے ہیں… ایک اور کر لے گا تو کیا فرق پڑے گا۔
لیکن ایک بات میں معذرت کے ساتھ کہتا ہوں اور میں نے ا شاعت التوحید والوں سے بھی یہ کی کہ ا شاعت التوحید والوں نے غیر مقلدوں کے لئے دروازے کھولے ہیں… آپ گنتے جائیں احمد سعید کا بیٹا پہلے مماتی پھر غیر مقلد ہوا… صادق کوہاٹی پہلے مماتی پھر غیر مقلد ہوا… قاضی عبد الرشید پہلے مماتی پھر غیر مقلد ہوا… یہ دروازے کھولے ہیں… کیوں کہ غیر مقلدیت نام ہے اکابر پہ عدم اعتمادی کا… یہاں عدم اعتماد سکھایا جاتا ہے… اور یہ پہلی سیڑھی ہے اور وہ آخری سیڑھی ہے… اور اس سے اگلی سیڑھی مرزائیت ہے… کیونکہ مرزا غلام احمد قادیانی پہلے غیر مقلد تھا…پھر مرزائی ہوا…خیر عتیق الرحمٰن کی حقیقت جو میرے سامنے ہے میں نے بتا دی… جو آپ کے سامنے ہے آپ بتا دیں۔
سوال:
قرآن سے مسائل کا حل ہر آدمی کر سکتا ہے یا نہیں؟
جواب :
یہ وہی کر سکتا ہے جو قرآن کریم کو جانتا ہو… اور علوم عالیہ کو جانتا ہو۔ جوقرآن سمجھنے کے لئے بہت مفید ہیں… ہر آدمی کے بس میں نہیں مسائل کا حل کرنا… ہر آدمی سب مسائل پر عمل کرے تو بڑی غنیمت کی بات ہے… ہر آدمی عمل کرنے کے لئے تیا ر نہیں تو مسئلے حل کہا ں سے کرے گا۔
سوال:
مجتہد کون ہوتا ہے اور اجتہاد کی اجازت کس کو ہے ؟
جواب :
مجتہد تو وہی ہوتا ہے جو اجتہاد کرے… مجتہد کسے کہتے ہیں دو باتیں یاد کرلیں ایک ہوتا ہے مجتہد… ایک ہوتا ہے مقلد… اور ایک ہوتا ہے غیر مقلد… قرآن وحدیث قانون شریعت ہے… جو آدمی قانون شریعت کا ماہر ہو اسے مجتہد کہتے ہیں… جو ماہر کی بات پر اعتماد کرکے اسے مان لے اسے مقلد کہتے ہیں… جو قانون شریعت کا ماہر بھی نہ ہو۔ اور ماہر کی بات بھی نہ مانے اسے غیر مقلد کہتے ہیں… تو مجتہد کسے کہتے ہیں جوقانون شریعت کا ماہر ہو…میں وہ تعریف کر رہا ہوں جسے عام آدمی بھی سمجھے… علماء کے لئے نہیں عوام کے لئے ورنہ تقلید کی تعریف تو بہت لمبی ہے… جو قانون شریعت کا ماہر ہو اسے مجتہد کہتے ہیں… اور جو ماہر کی بات مانے اسے مقلد کہتے ہیں… جو قانون شریعت کے ماہر کی بات نہ مانے اسے غیر مقلد کہتے ہیں… اور ان کا وجود پہلے نہیں تھا یہ برصغیر میں انگریز کے آنے کے بعد شروع ہوا… ترجمان وھابیہ ص10 پہ نواب صدیق حسن خود فرماتے ہیں کہ جب سے یہاں اسلام آیا ہے لوگ مذہب حنفی پر قائم ہیں… جب سے اسلام آیا تو اسلام لانے والے کون تھے…؟ یہ میں نہیں کہتا خود غیر مقلد کہتا ہے۔
سوال :
کہتے ہیں طلاق ثلاثہ دینے کے بعد غیر مقلد ہو جا نا کیسا ہے ایسے آدمی کے بارے میں کیا فیصلہ ہے…؟
جواب :
دیکھیں بھائی طلاق ثلاثہ اگر کوئی اپنی بیوی کو دے دے تو نئی عورت سے شادی کرے… غیر مقلد ہونے کی کیا ضرورت ہے… بھائی اگر آپ نے بیوی کو طلاق دے دی ہے اللہ اس سے محفوظ رکھے… ہر ایک کے گھر کو محفوظ رکھے… اللہ ہر ایک کے گھر کو آباد فرمائے… اگر بیوی کو کسی وجہ سے طلا ق دینی پڑجائے تو کسی اور سے شادی کرے۔ اللہ رب العزت نے یہ تھوڑا حکم دیا ہے کہ تم نے جس سے نکا ح کیا دوبارہ اسی کے ساتھ کرو۔ چھوڑ دو… اس کو جتنے دن آپ کا ملاپ مقدر میں تھا ہوگیا… اب جدائی مقدر میں تھی اللہ کی تقدیر پر راضی ہو جاؤ… کسی اور سے نکا ح کر لو… اس لئے طلاق ثلاثہ دینے کے بعد غیر مقلد ہونا یہ پرلے درجے کی حماقت ہے… اوربیوقوفی ہے… اللہ سب کو محفوظ رکھے اس کی کوئی گنجائش نہیں…طلاق کا مسئلہ تو اتنا ہی ہے بس دیکھیں بھائی کوئی سوال کرنا ہے تو کر لو… بعد میں یہ نہ کہنا کہ ٹائم تھوڑا تھا… ٹائم آپ کے پاس تھوڑا ہے میرے پاس نہیں اپنا اعتراض میرے کھاتے میں نہ ڈالنا…
سوال:
کہتے ہیں مجتہد پر اجتہاد واجب ہے مقلد پر تقلید واجب ہے اور غیر مقلد پر تعزیر واجب ہے مولانا اوکاڑوی رحمہ اللہ تعالی…؟
جواب:
بالکل ٹھیک ہے کہ مجتہد پر اجتہاد واجب… مقلد پر تقلید واجب… اور غیرمقلد پر تعزیر واجب یہ فتوی ہمارا نہیں ہے علماء حرمین کا ہےاور یہ فتوی چھپ کر مارکیٹ میں آچکا ہےکہ جو آدمی غیر مقلد ہے ائمہ کی تقلید نہیں کرتا اس پر تعزیر واجب ہےاس کو کوڑے مارنے چاہیےیہ فتوی ہمارا نہیں علماء حرمین کا فتوی ہے حضرت مولانا منیر احمد صاحب کی کتاب ہے شرعی فیصلے اس کے اندر یہ فتوی درج ہے۔
سوال:
کہتے ہیں پیوند کاری انتقال خون کا مسئلہ فقہ کی کس کتاب میں ہے؟
جواب:
حضرت مفتی رفیع عثمانی صاحب دامت برکاتہم نے کتاب لکھی اس کے اندر بھی موجود ہے… ہماری کتب احناف کے اندر بھی موجود ہے… ہماری جو اس دور کی فتوی کی کتب آئی ہیں آپ کوئی ایک کتاب اٹھا لیں انتقال خون کا مسئلہ آپ کو مل جائے گا۔ایک کتاب نہیں بہت سی کتب میں لکھا ہوا ہے۔
سوال:
کیا امام ابوحنیفہ کی شوری میں چالیس علماء تھے… ؟
جواب:
مناقب موفق لابی حنیفہ آپ اس کو پڑھ لیں آپ کو مل جائے گا۔