شیطان اور خناس

User Rating: 5 / 5

Star ActiveStar ActiveStar ActiveStar ActiveStar Active
 
عنوان………شیطان اور خناس
بمقام… ………… لاہور
خطبہ مسنونہ :
الحمد للّٰہ !الحمد للہ نحمدہ ونستعینہ ونستغفرہ ونؤمن بہ ونتوکل علیہ ونعوذ باللہ من شرور انفسنا ومن سیأت اعمالنا من یھدہ اللہ فلا مضلل لہ ومن یضلل فلا ھادی لہ ونشھد ان لاالہ الا اللہ وحدہ لا شریک لہ ونشھد ان سیدنا ومولانا محمدا عبدہ و رسولہ۔امابعد:فاعوذ باللہ من الشیطٰن الرجیم بسم اللہ الرحمن الرحیم’ وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنْسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونِ
سورۃ الذاریات پ 27 آیت نمبر 56
درودشریف:
اللھم صل علیٰ محمد و علیٰ آل محمد کما صلیت علیٰ ابراھیم و علیٰ آل ابراھیم انک حمید مجید اللھم بارک علیٰ محمد و علیٰ آل محمد کما بارکت علیٰ ابراھیم و علیٰ آل ابراھیم انک حمید مجید۔
تمہید:
میرے نہایت ہی واجب الاحترام بزرگو! اور مسلک اہل السنت والجماعت سے تعلق رکھنے والے غیور نوجوانو دوستو بھائیو !اتحاد اہل السنت والجماعت کے زیر اہتمام ماہانہ تربیتی اجتماع جومنعقد ہو گا… آج کی تقریر سے اس کا آغاز کیا جارہا ہے۔ دعا فرمائیں کہ حق جل مجدہ عافیت کے ساتھ ہر ماہ اس اجتماع کو منعقد کرنے کی توفیق عطاء فرمائے… اللہ رب العزت شرور اور مسائل سے محفوظ رکھے… جو دینی کاموں کے راستے میں رکاوٹ بنتے ہیں… آپ حضرات اس بارے میں سعادت اور مبارک بادی کے مستحق ہیں۔
نیک کام کا اجر :
کہ خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا
’’ مَنْ سَنَّ سُنَّةً حَسَنَةً ، فَلَهُ أَجْرُهَا وَأَجْرُ مَنْ عَمِل بِهَا ‘‘
عمدۃ القاری شرح صحیح البخاری جز 12ص 300
کہ جو انسان نیک کام شروع کرتا ہے اس نیک کام کا اجر اللہ اس کو بھی عطاء فرماتا ہے… اور جو انسان اس نیک کام کو کرتا ہے ان سب کا اجر اللہ اس کرنے والے کو عطا فرماتے ہیں… اس ماہانہ اجتماع میں ان شاء اللہ العزیز جس طرح مولاناعبد الشکور حقانی دامت برکاتہم صاحب فرما رہے تھے ایک تو آئند ہ ہونے والے اجتماعات کا اعلان بھی کر دیا جائے گا… اور ہر اجتماع میں بیان کئے جانے والا مسئلہ اور عقیدے کا اعلان پہلے کر دیا جائے گا… مثال کے طور پر آج ہمارا پہلا اجتماع ہے…اس میں بنیادی گفتگو عقائد اور مسائل کے حوالے سے آج عرض کر دوں گا…ان شاء اللہ آئندہ جو پانچ جنوری کو اجتماع ہو گا… اس اجتماع میں آپ کے سامنے سردیوں میں پیش آنے والا ایک اہم مسئلہ کہ جرابوں پر مسح ہوتا ہے یا نہیں ہوتا… اس مسئلہ پر ان شاء اللہ تفصیلاً گفتگو ہوگی۔
اس لئے کہ یہ موسم اور سیزن کے حوالے سے ایک اہم مسئلہ ہے… پھر آئندہ جو اجتماع ہو گا اس کا اعلان پانچ جنوری میں کردیا جائے گا…تاکہ آنے والے حضرات یہ بات ذہن نشین فرمالیں… کہ آج اس مسئلہ پر گفتگو ہو گی… اور اس مسئلہ کے متعلق مذہب مخالف کی اگر آپ نے کتاب کا مطالعہ کیا ہو… کسی شخص نے آپ کو دلیل دی ہو… آپ کے ذہن میں وسوسہ یا شبہ پیدا کیا ہو… آپ اس وسوسے اور شبہ کو لیں کر آئیں گے تو اس اجتماع میں ان شاء اللہ سارے وساوس اور شبھات صاف ہو جائیں گے… پھر بھی اگر کوئی مسئلہ دوران تقریر مقرر بیان نہیں کرتا اس کے دماغ اور ذہن میں بات نہیں رہتی آپ حضرات بیان کے اختتام پر چٹ لکھ کر خطیب کے حوالے فرما دیں… اور جو چٹ آپ دیں گے اس کا جواب ان شاء اللہ اسٹیج سے آ جائے گا۔
اجتماع کا مقصد:
نتیجہ یہ نکلے گا… کہ ایک مسئلہ ہر مہینہ دلائل کے ساتھ ہمارے سامنے آتا رہے گا… تو اللہ رب العزت نے چاہا… تو اہل سنت کے وہ معروف مسائل جن پہ عموما ًاہل باطل حملہ آور ہوتے ہیں… ان مسائل پر آپ عمل کریں گے… تو صرف اس لئے نہیں کہ ہمارے اکابر نے فرمایا اس لئے بھی کہ ہمارے اکابر کے پاس وہ دلیل تھی… جوہمیں پہلے نہیں آتی تھی۔ مگر اب آگئی ہے…تو اس اجتماع کا بنیادی مقصد یہ ہے… نہ یہ کہ کسی فرقہ پر کیچڑ اچھالنا… کسی پر طنز کرنا… اور طعن کرنا… نہ کسی پر سب وشتم کرنا…یہ قطعاً اجتماع کے مقاصد میں سے نہیں ہے… ہم اپنے اہل السنت والجماعت کے عقائد اور مسائل کا تحفظ اور بقاء چاہتے ہیں… ہم یہ چاہتے ہیں کہ جس شخص نے کلمہ پڑھا اور وہ مسلمان ہے اور شرک وبدعت سے بے زار ہو کر اہل السنت والجماعت میں شامل ہوا… کم از کم اس آدمی کو اپنے مسائل اور دلائل آئیں… اگر دلائل اور مسائل یاد نہیں ہوتے تو کم از کم وہ اس نتیجے پر ضرور پہنچے گا… کہ ہمارے اکابر کے پاس دلائل موجود ہیں… اگرچہ ہمیں نہیں آتے۔
اس کا ذہن اور دماغ مطمئن ہو گا… تو پھر ظاہر ہے کہ جب انسان کام کرتا ہے تو اس کے کام کرنے کی نوعیت بڑھ جاتی ہے… ایک ہوتا ہے آدمی کو مشاہدہ کی وجہ سے چیز ملتی ہے… یا آدمی کو چیز ملتی ہے یقین اور تجربہ کی بنیاد پر… اور کبھی ایک چیز کو انسان حاصل کرتا محض اعتماد کی وجہ سے… اگر آدمی کو اعتماد بھی ہو یقین اور تجربہ بھی ہو تو آدمی مزید یقین اور قوت کے ساتھ اس پر عمل کرتا ہے… حق جل مجدہ مزید ہمیں اپنے عقائد اور مسائل کو مضبوطی کے ساتھ تھامنے کی تو فیق عطافرما ئے… میں نے آپ حضرات کے سامنے قرآن کریم کی مختصر سی آیت تلا وت کی ہے
’’ وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنْسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونِ ‘‘
سورۃ الذاریات پ 27 آیت نمبر 56
خالق نے اس آیت میں اعلان کیا ہے میں نے انسان کو اپنی عبادت کے لئے پیدا کیا۔ اللہ نے انسان کی پیدا ئش کا مقصد عبادت قرار دیا۔
عبادت کسے کہتے ہیں :
عبادت کسے کہتے ہیں ہر آدمی عبادت کی شرح اپنے ذوق کے مطابق کرے گا…اہل السنت والجماعت کے ہاں عبادت کس عمل کو کہتے ہیں… عمل وہ عبادت ہے جس میں بنیادی طور پر تین شرطیں پائی جائیں… اگر ان میں سے ایک بھی شرط مفقود اور گم ہو گئی تو عمل عبادت نہیں بنتا۔
1…جو عمل ہم کرنا چاہتے ہیں اس عمل کا حکم اللہ نے دیا ہو۔
2…جوعمل ہم کرنا چاہتے ہیں اس عمل کا طریقہ پیغمبرصلی اللہ علیہ وسلم نے بیان فرمایا ہو
3… جو طریقہ اللہ کے پیغمبرصلی اللہ علیہ وسلم نے دیا ہے اس کو نقل اصحاب پیغمبر نے فرمایا ہو۔
تو عبادت کسے کہیں گے آسان لفظوں میں عبادت کا معنی یاد رکھ لیں… حکم اللہ کا ہو طریقہ خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کا ہو… اور نقل کرنے والے اصحاب پیغمبر ہوں… اگر حکم اللہ کا نہ ہو تو بھی عبادت نہیں ہوگا… اگر طریقہ پیغمبر کا نہیں ہے تو بھی عبادت نہیں ہو گا… اگر نقل اصحاب پیغمبر نہ کریں گے تو بھی عبادت نہیں بنے گی… اب یہ بات ہمیں کیسے معلوم ہو کہ حکم اللہ کا ہے… ہمیں کیسے پتہ چلے طریقہ پیغمبر کا ہے… ہمیں کیسے معلوم ہو کہ نقل کرنے والے اصحاب پیغمبر ہیں… یہ انسان براہ راست خود مطالعہ کر کے حاصل نہیں کر سکتا… اس کے لئے آدمی کو دو چیزوں کی ضرورت پڑتی ہے۔
1… آدمی کے پاس علم ہو۔
2…آدمی کا اصحاب علم سے رابطہ ہو آدمی کا مطالعہ بھی ہو… اور صاحب مطالعہ سے تعلق بھی ہو آدمی کے پاس کتب بھی ہوں… اور کتب کے ماہرین کے ساتھ تعلق بھی ہو… یہ دو باتیں معلوم ہو ں تو انسان حکم شریعت کو سمجھتا ہے… اگر یہ دو باتیں انسان کو معلوم نہ ہو ں تو انسان حکم شریعت کو نہیں سمجھتا… میں نے ان دو باتوں کا تذکرہ اس لئے کیا یہ بات ذہن نشین کر لیں۔
دنیا دار العمل اور آخرت دارلجزاء :
خالق نے اس جہان کو پیدا کیااللہ نے اس جہاں کو دارالعمل بنایا اللہ نے آئندہ آنے والے جہان کو دارلجزاء بنایا… ہم عمل کریں گے اس دنیا میں اس کا بدلہ اور جزا دیں گے اس جہاں میں تو اس دنیا میں عمل کون سے کریں گے جس عمل پر اللہ جزا اچھی دے گا… کون سا عمل کریں گے جس پر اللہ بدلہ دے گاتو وہ عمل ہو گا عبادت کے لائق اور عبادت وہ عمل ہو گا کہ جس میں تین چیزیں ہوں تو عمل عبادت نہیں بنتا
موجد اپنی ایجاد کو تباہ نہیں کرتا:
اللہ نے اس جہان کو پیدا کیا… یہ مخلوق اللہ کی ہے اور صرف مخلوق نہیں یہ اشرف المخلوق انسان ہے… اور دنیا کا کوئی موجد اپنی ایجاد کو برباد نہیں کرتا… تو اللہ اپنی مخلوق کو برباد کیسے کرسکتا ہے… اگر معمار اور مستری ایک مکان کو تعمیر کرے تو مستری کبھی بھی نہیں چاہتا کہ میرا مکان ٹوٹ جائے… مستری کبھی نہیں چاہتا کہ میرا مکان تباہ ہو جائے۔ مستری کبھی نہیں چاہتا یہ ایک الگ بات ہے کہ مکان کی ایک مدت ہے… اس مدت کے بعد مکان نے گرنا ہی تھا… لیکن مستری نہیں چاہتا۔ …اللہ رب العزت تو خالق ہیں اللہ نے اشرف المخلوقات کو پیدا کیا… تو رب یہ نہیں چاہتا کہ میرا بندہ فنا ہو جائے… رب یہ نہیں چاہتا کہ میرا بندہ برباد ہوجائے… اللہ رب العزت بندہ کی پیدائش کے بعد بندہ کو ابدی زندگی عطاء فرماتے ہیں… ہاں یوں ہو گا کہ کبھی انسان کی ہیت بدل جائے گی۔ کبھی انسان کے وجود کا نقشہ بدل جائے گا… بند ہ بندہ ہی رہتا ہے جب رب نے اس کے اندر روح ڈال دی… یہ بچہ تھا بچپن سے جوان ہوا جوانی سے بڑھاپے سے موت تک۔
موت کا معنی:
کہ موت کا معنی یہ تھا کہ انسان اس عالم سے اس عالم میں منتقل ہو گیا… اس جہاں سے اس جہاں میں چلا گیا… انسان فنا ء نہیں ہوتا بلکہ جہان بدل جاتا ہے… اگلے جہان میں وجود موجود ہے مگر ہمیں نظر نہیں آتا… عالم حشر میں موجو د ہو گا… پھر ہمیں نظر نہیں آئے گا… ایک جہا ں یہ ہے… اور ایک جہاں وہ ہے… اللہ اس جہاں میں بندے کو اچھی حالت میں دیکھنا چاہتے ہیں… اس جہاں میں بھی اللہ بندے کو اچھی حالت میں دیکھنا چاہتے ہیں… اس لئے خالق نے قرآن کے اندر ایک دعا کا حکم دیا… یہ بندے مانگیں کیوں کہ یہ بندے مجھے بڑے پسند ہیں :
دنیا اور آخرت اچھی ہونے کی دعا:
رَبَّنَا آتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً وَفِي الْآخِرَةِ حَسَنَةً وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ
سورۃ بقرۃ پ 2 آیت نمبر 201
اللہ دنیا دے تو اچھی دے… اللہ آخرت دے تو بھی اچھی دے… یہ کمال نہیں ہے کہ آدمی کہے ہم اللہ سے جنت مانگتے ہیں… دنیا نہیں مانگتے ارے دنیا کیوں نہیں مانگتےارے دنیا کوکیوں نہیں مانگتا رب نے دنیا تیرے لیے پیدا کی… تجھے مانگنی چاہیےحرام طریقہ سے نہ مانگ حلال طریقہ سے مانگ… ذلت کے ساتھ نہ مانگ عزت کے ساتھ مانگ فقر کوئی کمال نہیں ہے… میں عرض کرتا ہوں اللہ چاہتا ہے کہ اس دنیا میں بھی بندہ دنیا پائے تو اچھی پائے اگلے جہاں میں آخرت پائے تو بھی اچھی پائے۔
دنیا کے حصول کے لئے تین چیزیں:
جو بندہ اس دنیا میں دنیا کا حصول چاہے تو اللہ رب العزت نے اس دنیا میں دنیاکے حصول کے لئے تین چیزوں کا اہتمام فرمایا:
1…ایک ہوتا ہے کسی چیز کے حصول کے لئے سیزن۔
2…ایک ہوتا ہے کسی چیز کے حصول کے لئے منڈی۔
3…اس نعمت کے حصول کے لئے ماہرین۔
مثال نمبر1:
یہ تین چیزیں ہیں اگر آپ گندم لینا چاہیں تو گندم آپ کے بازار سے بھی مل جائے گی… لیکن گندم منڈی سے بھی مل جائے گی… دونوں میں فرق کیا ہے آپ کے امر سدھو میں گندم مہنگی ہو گی… لیکن منڈی میں سستی ہو گی… گندم آپ کو آج بھی ملے گی آج گندم کو کاشت کیا جارہا ہے… جن دنوں میں گندم کی کٹوتی ہوتی ہے آپ ان دنوں میں لو تو سستی ملے گی… اگر سیزن میں خریدو تو گندم سستی ملتی ہے… اگر سیزن کے بعد خریدو تو گندم مہنگی ملتی ہے… اللہ نے دنیاکی نعمت کے لئے دو چیزیں بنائی
1… اس نعمت کے لئے سیزن
2…اس نعمت کے لئے منڈی
اگر انسان سیزن میں چیز لے تو پیسے کم لگتے ہیں اور مال زیادہ ملتا ہے… اگر منڈی میں جا کر لیں تو پیسے کم لگتے ہیں اور مال زیادہ ملتا ہے… اور اگرسیزن بھی موجود ہو منڈی بھی موجود ہو… مگرانسان کبھی خطاء کر جاتا ہے… تو اس کے لئے ہم تلا ش کرتے ہیں کسی ماہر کو… ابھی قربانی کا سیزن آرہا ہے۔
مثال نمبر 2:
قربانی کے جانور تلاش کریں گے ہم جانورکے لئے امر سدھو کے بازار میں نہیں آتے… بلکہ جانوروں کی منڈی میں جاتے ہیں… ہم کوشش کرتے ہیں کہ قصائی لے لیں ہمیں دھوکا نہ لگ جائے… ہمارے ساتھ فراڈ نہ ہو جائے… ایسا آدمی لے لیں جو جوجانور خریدنے کا ماہر ہو… تاکہ ہمیں دھوکا نہ لگے… منڈی میں گئے ہم۔ ہم نے ماہر کو تلاش کیا سیزن موجود ہے… مگر ہم نے ماہر کوتلاش کیا… اگر آپ دنیا کی نعمت لینا چاہیں تو ایک سیزن میں لیں… اور منڈی میں جا کر لیں… اور ماہر کو لے کر جائیں… تو جس طرح دنیا کے حصول کے لئے میرے رب نے سیزن بنائے… دنیا کے حصول کے لئے میرے رب نے منڈی بنائی… اور سیزن اور منڈی کو سمجھنے کے لئے رب نے ماہرین پیدا کئے۔
منڈی کو سمجھنے کیلئے ماہرین کی ضرورت:
ایک بات اور ذہن نشین فرمالیں اس بات کا بھی اہتمام کیا جاتا ہے… کبھی سیزن بھی موجود ہو گا… منڈی بھی موجود ہو گی… آپ مال کو لینا چاہیں گے لیکن دنیا کے لوگ آپ کو خراب کرنے کے لئے لوکل مارکیٹ میں چھوڑتے ہیں… وہ آپ کی منڈی میں مال کو نقصان دیتا ہے… سیزن موجود ہونے کے باوجودمال کو خراب کرتا ہے… وہ مال کو تباہ کرتا ہے… اس سے بچنے کے لئے پھر ہم ترتیب لگا تے ہیں… کہ منڈی میں جائیں… پھر بھی ہمارے ساتھ دھوکا ہو جائے… ماہر موجود ہے ہمارے ساتھ پھر بھی فراڈ ہو جائے… ہم ان دھوکا بازوں اور فراڈیوں سے بچنے کے لیے ترتیب بناتے ہیں۔ بالکل اللہ نے عبادت کیے لئے ایک سیزن بنایا ہے… عبادت کے لئے ایک منڈی رکھی ہے… میں اس منڈی کو مقام مقدس کہتا ہوں… رب نے عبادت کے لئے موسم بھی بنایا… رب نے عبادت کے لئے مقامات مقدسہ بھی بنائے… کہ اگر اس سیزن میں عبادت کرو اجر بڑھ جاتا ہے… سیزن گزرجائے عبادت کرو اجر کم ملتا ہے۔
مثال نمبر 3:
رمضان میں عبادت کریں اجر ستر گناہے… رمضان کے علاو ہ شوال میں کریں اب ستر گنا نہیں ہے ایک گنا ہی ملے گا… تو اللہ رب العز ت نے موسم بنایا… اور پانچ وقت رب نے یہ سیزن اوقات بنائے ہیں… ظہرکی نماز ظہر میں پڑھیں اجر الگ ہے… ظہر قضاء کر کے پڑھیں اجر کم ہے… عصر کی نماز عصر میں پڑھیں تو اجر زیادہ ہے… عصر کی نماز قضاء کر کے مغرب میں پڑھیں تو اجر کم ہے… وقت میں عبادت کریں محنت وہی ہو گی مشقت وہی ہو گی اجر بڑھ جائے گا… ہفتہ کے دن رب نے سیزن بنایا جمعہ… اب جمعہ کے دن رب نے جو برکا ت عطاء فرمائی ہیں… وہ عام دنوں میں نہیں ہیں اور پورے سال میں برکت کا مہینہ اللہ نے بنایا رمضان۔
رمضان برکت کا مہینہ :
جورمضان میں برکا ت ہیں وہ غیر رمضان میں نہیں… سال بھر کی راتیں موجود مگر جو ثواب لیلۃ القدر میں ملتا ہے… وہ عام رات کو نہیں ملتا… میں عرض کرنا چاہتا ہوں کہ رب نے موسم بنائے ہیں… روزانہ پانچ اوقات مقرر کردئیے… ہفتہ میں جمعہ کا دن بنایا… سال میں رمضان کا مہینہ مقرر کیا… رمضان کا مہینہ یہ تو موسم اور سیزن تھے… آگے آپ اہم مقامات کو دیکھیں… آپ وضو کریں اور وضو کر کے گھر میں نماز پڑھیں ایک نماز کا اجر ملے گا… اگر مسجد میں پڑھیں گے تو ستائیس نمازوں کا اجر ملے گا… بیت المقدس میں جا کر پڑھیں ایک ہزار کا اجر ملے گا… مسجد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں پڑھیں پچاس ہزار کا اجر ملے گا… فی سبیل اللہ پڑھیں انچاس کروڑ کا اجر ملے گا… اجر بڑھ گیا۔ جب جگہ بدلی ہے اجر بدلا ہے… موسم بدلا اجر بدلا…میں عرض یہ کرنا چاہتا ہوں کہ جس طرح دنیا کی نعمت کے لئے اللہ سیزن بھی بناتے ہیں… دنیا کی نعمت کے لئے اللہ منڈی بھی بناتے ہیں… دینی عبادات کے لئے موسم بھی بنایا ہے… اللہ نے دینی عبادات کے لئے مقدس مقامات بھی بنائے ہیں… اب میرے اور آپ کے ذمہ موسم کی عبادت موسم میں کریں… ہمارے ذمہ عبادت مقامات مقدسہ میں کریں
عبادت کا ماہر کون ہے…؟
عبادت کریں اپنی مرضی سے نہ کریں… جو عبادت کا ماہر ہے عبادت کریں تو اس سے پوچھیں… جو عبادت کو جانتا ہے عبادت کا ماہر کون ہے… ؟
1…اللہ کا پیغمبرصلی اللہ علیہ وسلم جس پہ اللہ آسمان سے وحی بھیجتا ہے۔
2…پیغمبرصلی اللہ علیہ وسلم کا صحابی رضی اللہ تعالیٰ عنہ جو وحی کو اترتے دیکھتا ہے۔
3…مجتہد اور فقیہ جو قرآن وسنت پر نظر رکھتا ہے۔
عبادت کر عبادت کے موسم میں… عبادت کر عبادت کی جگہ میں… عبادت کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھ کر… اگر نبی کا زمانہ نہیں پایا عبادت کر صحابی سے پوچھ کر۔ اگر صحابی کا زمانہ نہیں پایا عبادت کر مجتہد سے پوچھ کر… نتیجہ کیا نکلے گا جو پیغمبر کے ساتھ لگ جاتا ہے وہ شیطان سے بچ جاتا ہے… پیغمبر کے صحابی کے ساتھ لگ جاتا ہے تب بھی شیطان سے بچ گیا… اور اگر مجتہد کے ساتھ لگ گیا تو اللہ کے پیغمبرصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
’’ انما فقیہ واحد اشد علی الشیطان من الف عابد ‘‘
ترمذی ج 2 ص 554
اگر عبادت کرتا ہے مگر وہ ماہر نہیں ہے… عبادت کرتا ہے مگر وہ مجتہد نہیں ہے۔ عبادت کرتا ہے مگر وہ فقیہ نہیں ہے… شیطان اس سے بھی ڈرتا ہے… میں نے ایک جملہ عرض کیا تھا… اگر آپ کو یاد ہو کہ سیزن موجود ہو گا… منڈی موجود ہو گی… ماہر موجود ہو گا… مگر تمہیں دنیا کی نعمت میں بعض لوگ دھوکہ دیں گے… اس دھوکہ باز سے بچنا بھی ضروری ہے… بالکل اس طر ح عبادات شریعت میں تمہیں موسم بھی مل گیا… عبادت کے لیے مقامات مقدسہ بھی مل گئے… عبادات شریعت میں مجتہد اور فقیہ بھی مل گیا… لیکن ابھی دو قسم کے افراد باقی ہیں۔
شیطان اور خناس :
جنہوں نے تیری عبادت کو برباد کرنا ہے… ان میں ایک قسم کا نام شیطان ہے… دوسری قسم کا نام خناس ہے… شیطان یہ چاہے گا کہ تو نماز نہ پڑھے… تو روزے نہ رکھے… شیطان یہ چاہے گا تو حج نہ کرے… شیطان یہ چاہے گا تو عباد ت نہ کرے۔ لیکن یہ نہیں کہہ سکتا تو نماز نہ پڑھ… وہ سمجھتا ہے جوتیا ں لگیں گی… وہ یہ نہیں کہ سکتا روزہ نہ رکھ وہ سمجھتا ہے جوتیا ں پڑیں گی… وہ کہے گا نماز پڑھو مگر یوں تا کہ قبو ل نہ ہو… روزہ رکھو مگر یوں تاکہ قبول نہ ہو… نماز پڑھائے گا مگر غیر مقبول… حج کروائے گا مگر غیر مقبول۔ وہ روزہ رکھوا ئے گا مگر غیر مقبول… میں عرض کرتا ہوں صرف بات کو سمجھانے کے لئے رمضان کا ماہ تو گزر گیا… اس پر میں نے بات نہیں کرنی میں تو قربانی پر بات کروں گا
خنا س کا طریقہ واردات:
رمضان المبارک کے حوالے سے رب نے تجھے دو چیزیں دیں:
1…رمضان کا روزہ 2…رمضان کی تراویح
تم شیطان کی محنت دیکھو شیطان یہ کہے گا تم نے رمضان کا روزہ نہیں رکھنا… تم نے تراویح نہیں پڑھنی… تاکہ جہنم میں جائے… لیکن خناس کیا کہے گا وہ یہ نہیں کہے گا کہ تم نے روزہ نہیں رکھنا… لوگ جوتے ماریں گے… ارے تو مولوی ہے تو نے داڑھی رکھی ہے تو کیا انسان ہے کہ ہمیں روزے سے منع کرتا ہے… یہ کہے گا نہیں نہیں تم نے روزہ رکھنا ہے مگر ایک کام کر لو صبح صادق ہو تو روزہ رکھ لو… ابھی سورج ڈوبنے میں پانچ منٹ باقی ہوں تو روزہ کھول دو… مجھے آپ بتاؤ کہ ایک آدمی روزہ رکھ لے اور روزہ کھولنے میں ایک منٹ باقی ہو اور روزہ کھول دے اس نے کھولا نہیں ہے… اس نے روزے کو توڑا ہے۔ روزہ نہ رکھے گا گناہ ایک ہو گا… رکھ کر توڑے گا تو گناہ دو ہوں گے… ایک روزہ توڑنے کا… دوسرا کفارہ ادا نہ کر نے کا… ایک جرم روزے کی توہین کرنے کا۔ میں کہتا ہوں شیطان کا جرم کم ہے… خناس کا جرم زیا دہ ہے…شیطان نے یہی کیا کہ تجھے روزہ نہیں رکھنے دیا… مگر خناس نے کیا کام کیا تجھ سے روزہ رکھوا لیا تجھے دن کو بھوکا رکھا… دن کو پیاسا رکھا…مگر شام کو سورج ڈوبنے سے پہلے کہا جی روزہ کھول لو۔ ارے کیوں روزہ کھول لوں… ابھی حنفی نہیں کھولتے… ہم روزہ کھولیں گے حنفیت کی ضد میں… سنیت کی ضد میں… ایک منٹ پہلے روزہ کھلوا دیا… یہ روزہ کھلوایا نہیں یہ روزہ توڑوایا ہے… روزہ کی توہین الگ جرم… روزہ توڑوایا الگ جرم… کفارہ اداء نہ کیا الگ جرم… شیطان نے محنت کی روزہ نہ رکھنے دیا… خناس نے محنت کی کہ روزہ رکھنے دیا… اور برباد کر دیا۔
اب بتاؤ جرم زیادہ کس کاہے…؟ تو نے کھایا تو سہی تو نے پیا تو سہی اگر شیطان کی بات مانی ہے… تجھے پانی ملا اجر نہیں ملا… کھانا بھی ملا اجر نہیں ملا۔ خناس کی بات مانی ہے تجھے دنیا بھی نہیں ملی تجھے دین بھی نہیں ملا… شیطان کا جرم کم ہے خناس کا جرم زیادہ ہے…میری بات سمجھ آئی…؟ اب دن کو روزہ تھا شیطان نے حملہ کیا… اس کے حملے کو تو جانتا ہے… مگر خناس کے حملے کو ئی نہیں جانتا۔
تراویح میں حملہ… شیطان و خناس :
رمضان المبارک کی رات آئی تو اللہ نے حکم دیا… کہ تم تراویح پڑھو پیغمبرصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم تراویح پڑھو… یہ تراویح پیغمبرصلی اللہ علیہ وسلم کا تحفہ تھا… شیطان کہتا ہے نہیں تو گیم دیکھ… تو نے تراویح نہیں پڑھنی… تو دکان پہ بیٹھ جا… عید کا موسم قریب ہے تو مال کما… تو نے تراویح نہیں پڑھنی… یہ جرم تو شیطان نے کیا… لیکن خناس آیا اس نے کہا تو نے عشاء کی نماز باجماعت پڑھ لی ہے… اب تو تہجد کی باجماعت پڑھ لے اب تو نے وتر پڑھ لیے… اب دوبارہ تجھے تہجد پڑنے کی حاجت نہیں ہے… تو نے تہجد جو پڑھ لیے…اللہ وہ تراویح کدھر گئی… رب نے جو رمضان میں حکم دیا تھا… خناس بولا نہیں۔ نہیں… جب رات کو تم نفل پڑھتے ہو… جب رمضان کے علاوہ پڑھو اس کا نام تہجد ہے… جب تم نے رمضان میں پڑھے اس کا نام تراویح ہے۔
تو تراویح شیطان بھی چھڑا گیا تراویح خناس بھی چھڑا گیا… فرق کیا ہے شیطان نے تراویح چھوڑائی ہے لوگوں نے لعنت بھیجی ہے… خناس نے تراویح چھوڑائی ہے مگر لعنت کوئی نہیں بھیجتا… کہتا ہے میں نے حدیث پر عمل کیا… میں نے سنت پر عمل کیا۔ تو جرم شیطان کا کم ہے خناس کا زیادہ ہے… اگر انسان تراویح نہیں پڑھتا تو جرم وہ بھی کرتا ہے… اور تہجد پڑھ کر نام تراویح دیتا ہے جرم وہ بھی کرتا ہے… میں کہنا یہ چاہتا ہوں اب دیکھو رمضان میں ایک دن کا روزہ تھا… خناس نے محنت کی روزہ رکھا… مگر اجر سے محروم کردیا… شیطان نے محنت کی کہ روزہ رکھنے ہی نہیں دیا… رات کو تراویح تھی شیطان نے محنت کی کہ تراویح بھی نہ پڑھنے دیں… اور یہ تو یہ بھی نہیں کہتا کہ میں تراویح نہیں پڑھتا اب تجھے خوش بھی کر گیا۔
ہلاک ہونے والا طبقہ:
اسی کو رب قرآن میں کہتا ہے میرا پیغمبرصلی اللہ علیہ وسلم تو کہہ دے سورۃ کہف کا آخررکوع پڑھو میرا رب کہتا ہے میرا پیغمبر اعلان کرو : قُلْ هَلْ نُنَبِّئُكُمْ بِالْأَخْسَرِينَ أَعْمَالًااے لوگوں میں تمہیں بتا نہ دو دنیا میں برباد ہونے والے وہ لوگ ہیں
الَّذِينَ ضَلَّ سَعْيُهُمْ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَهُمْ يَحْسَبُونَ أَنَّهُمْ يُحْسِنُونَ صُنْعًا
سورۃ کہف پ 16 آیت نمبر 103 ، 104
رب ان کے عمل کی قیمت نہیں لگاتا… اللہ ان کے عمل کا بدلہ نہیں لگاتا… وہ سمجھتے ہیں کہ کام کرتے ہیں ان کا عمل مقبول نہیں ہے… خناس نے روزہ رکھوا کر توڑوا دیا… تو سمجھتا ہے کہ میرا روزہ موجود ہے… مگر تیرے نامہ اعمال میں نہیں ہے… میں کہنا یہ چاہتا ہوں ایک محنت شیطان کرتا ہے ایک محنت خناس کرتا ہے… شیطان عبادت کرنے نہیں دیتا اور خناس عبادت کروا کے عبادت کو خراب کر دیتا ہے… کوئی بات سجھ آئی کہ نہیں سامعین آگئی )
عبادت کا سیزن:
میں عرض کیا کر رہا تھا ایک عبادت تھی… اور ایک دنیا کے عمل تھے… دنیا کے عمل میں کیا چیزیں تھیں۔
1… سیزن 2…منڈی 3… ماہر سیزن
منڈی بھی موجود ہے… ماہر بھی موجود ہے… لیکن دیکھنا یہ ہے کہ جو مال تو لے کر آیا ہے کہیں کیڑا نہ لگ جائے… سپرے کرنا…تو بازار سے کنوں لے کر آیا… اس کو کسی ٹھنڈی جگہ پر رکھ دے… تم دنیا کے مال کو منڈی سے لیتے ہو… لیکن مال محفوظ رکھنے کا انتظام بھی تو کرتے ہو… ہم نے عبادت کی ہے… حکم اللہ کا تھا… مان لیا طریقہ پیغمبر کا تھا مان لیا… نقل کرنے والے اصحاب پیغمبر تھے مان لیا… اب توجہ رکھنا! ہم نے کہا حکم اللہ کا ہو… طریقہ پیغمبر کا ہو… نقل کرنے والے کون ہوں اصحاب پیغمبر۔ اور بتانے والا مجتہد اور فقیہہ ہونا چاہیے… ہم نے چار طبقوں کا اعلان کیا تھا… دنیا کے سارے لوگ کہتے ہیں ہم حکم وہ مانیں گے جو اللہ کا ہو۔
تین طبقے…تین چیزوں کا انکار :
ایک طبقہ وہ پیدا ہوا یہ پرویزیت کا فتنہ ہے یہ تیرے لاہور کا فتنہ ہے منکرین حدیث نے کہا…ہم حدیث پیغمبر کو نہیں مانتے… کیوں نہیں مانتے… ؟حکم اللہ کا تھا وہ پیغمبر کے طریقے کاانکار کر گیا… ایک طبقہ اور پیدا ہوا وہ کہتا ہے میںاصحاب پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کو نہیں مانتا… کیوں…؟ نقل اصحاب پیغمبر نے کرنا تھا… ایک اور طبقہ پیدا ہوا یہ کہتا ہے میں مجتہد کو نہیں مانتا… کیوں…؟ یہ مجتہد وہ ماہر تھا جس نے تجھے اصحاب پیغمبر سے نقل ہو نے والا طریقہ محفوظ کر کے اور لکھ کر تجھے دینا تھا… ایک آدمی طریقہ پیغمبر کا انکار کرتے ہوئے حدیث کا نکا ر کر گیا… ایک ناقلین پیغمبر کاانکا ر کرتے ہوئے اصحاب پیغمبر کا انکار کر گیا… تیسرا طبقہ صحابہ سے نقل کردہ طریقے کو لکھنے والے مجتہدین کا انکار کر گیا۔
اگر تو پیغمبر کو نہیں مانتا… حدیث پیغمبر کو نہیں مانتا تجھے طریقہ پیغمبر نہیں ملے گا۔ اصحاب پیغمبر کو نہیں مانتا تجھے نقل کرنے والا شخص نہیں ملے گا… اگر مجتہد کو نہیں مانتا تو تجھے لکھا ہو اپیغمبر کا طریقہ کون دے گا… پیغمبر کو ماننا پڑے گا اللہ کا حکم تجھے سمجھ آئے گا… پیغمبر کا صحابی رضی اللہ عنہ ماننا پڑے گا طریقہ نقل ہو کر آجائے گا…مجتہد اور فقیہہ کو ماننا پڑے گا تاکہ لکھا ہو طریقہ تجھے موصول ہو جائے… یہ تین باتیں تو ہم نے مان لیں… اگلی بات جس پر میں نے تھوڑی سی بات کرنی ہے… میں نے آج کی نشست میں یہ مسئلہ سمجھانا ہے کہ ایک شیطان اور ایک خناس… بات ذ ہن میں آگئی؟ ایک شیطان اور ایک؟ سامعین۔۔۔ خناس 
عبادت کسے کہتے ہیں :
میں نے آج کی نشست میں یہ بیان کرنا تھا کہ عبادت کسے کہتے ہیں اس کے لئے تین باتیں :
1…حکم اللہ کا ہو 2… طریقہ پیغمبر کا ہو
3… نقل کرنے والے اصحاب پیغمبر ہوں تو عبادت بنتی ہے۔
اگر حکم اللہ کا نہ ہو تو عبادت نہیں بنتی… طریقہ پیغمبر کا نہ ہو عبادت نہیں بنتی نقل کرنے والے اصحاب پیغمبر نہ ہوں تو عبادت نہیں بنتی… اب عبادت کو روکنے کے لئے دو طبقے پیدا ہوں گے… ایک طبقہ شیطان کا ہو گا… اور ایک طبقہ خناس کا ہو گا… شیطان یہ چاہئے گا کہ توعبادت نہ کر ے… مگر خناس یہ چاہے گا کہ تو عبادت کرے… مگر اجر نہ ملے… یہ تیرے اجر کو برباد کرے گا عمل کو تباہ کرے گا… میں نے اس کے لئے ایک مثال رمضان کے روزے کی دی ہے… اگلی مثال میں آپ کو قربانی کے حوالے سے دیتا ہوں… کہ ہم قربانی کرتے ہیں اللہ کا حکم سمجھ کر… پیغمبر کا طریقہ سمجھ کر… اصحاب پیغمبر نے دیا ہے اس کو ہم مانتے ہیں۔
قربانی واجب ہے:
اہل السنت کہتے ہیں کہ قربانی واجب ہے…مگر شیطان کہتا ہے کہ قربانی کرنی نہیں ہے… خناس آیا کہتا ہے کرنی تو ہے مگر واجب نہیں ہے…سنت ہے کر لیا تو بھی ٹھیک ہے… نہ کیا تو بھی ٹھیک ہے… حملہ کر گیا اس نے ایک درجہ پیچھے کر دیا…یہ بالکل ایسے ہی ہے۔
جیسے جاوید غامدی سے کسی نے پوچھا ارے پردہ کرنا چاہیے کہ نہیں کہتا ہے پردہ فرض تو نہیں کر لو تو بہتر ہے… ایک مسئلہ ذاکر نائیک سے پوچھا پردے کا مسئلہ وہ کہتا ہے واجب تو نہیں ہے… کر لے تو گناہ نہیں ہے… کوئی حرج نہیں…کر بھی سکتے ہیں۔ اس سے پوچھو قربانی کہتا ہے قربانی واجب نہیں…اب مقصد کیا تھا کہ قربانی کے عمل کو کم کر دو اہمیت کو گھٹا دو…تا کہ لوگ قربانی کرنے کے لئے تیار نہ ہو ں…آگے چلیے پھر ہم نے قربانی کرنی تھی تو شریعت نے پہلے یہ مسئلہ بیان کیااگر قربانی کریں جو قربانی واجب ہے۔
قربانی کے جانور:
تو قربانی کس جانور کی کرو… ہم نے کہا کہ قربانی کرو بکری کی… یا بھیڑ کی قربانی کرو بکرے کی… یا دنبہ کی… قربانی کرو قربانی کرو گائے کی یا بھینس کی… قربانی کرو اونٹ کی… یہ تین قسم کے جانور جن کا شریعت نے حکم دیا ہے… تم ان کی قربانی کرو یہ مسئلے صراحتاً روایات میں موجود ہیں… مجھے احادیث پیغمبرصلی اللہ علیہ وسلم پڑھنے کی حاجت نہیں یہ سارے جانتے ہیں۔
قربانی کس پر واجب ہے:
جو انسان صاحب نصاب ہو گا قربانی وہ کرے گا… اگر والد صاحب نصاب ہے قربانی الگ دے… اگر بیٹا صاحب نصاب ہے قربانی الگ دے… بیوی صاحب نصاب ہے قربانی الگ دے…۔ اگر صاحب استطاعت خاوندہے حج الگ فرض ہے… اگر صاحب استطاعت بیوی ہے حج الگ فرض ہے… اگر صاحب استطاعت والدین ہیں…یہ مسئلے صراحتاً روایات میں موجود ہیں… اس پر مجھے احادیث پڑھنے کی حاجت نہیں… یہ سارے جانتے ہیں۔
اب قربانی کون کرے گا…؟
جو انسان صاحب نصاب ہو گا… قربانی وہ کرے گا اگر والد صاحب نصاب ہے قربانی الگ ہے… قربانی الگ دے اگر بیٹا صاحب نصاب ہے… قربانی الگ دے بیوی صاحب نصاب ہے… قربانی الگ دے اگر صاحب استطاعت خاوند ہے… حج الگ فرض ہے اگر صاحب استطاعت بیوی ہے… حج الگ فرض ہے اورا گر صاحب استطاعت والدین ہیں… حج الگ فرض ہے اگر صاحب استطاعت اولاد ہے… حج الگ فرض ہے تو جس پر استطاعت ہو گی حج الگ فرض ہے۔ جس کے پاس نصاب ہو گا… اس پر زکوۃ ہوگی… اس لیے اصول کا یہی تقاضا ہے جس پہ نصاب ہو گا… قربانی اس پر واجب ہو گی… اب شیطان کیا کہے گا تم نے قربانی نہیں دینی۔
خناس اور قربانی:
مگر خناس کیا کہے گا تم نے قربانی تو دینی ہے… باپ الگ قربانی نہ دے۔ بیٹا الگ قربانی نہ دے… خاوند الگ قربانی نہ دے… بیوی الگ قربانی نہ دے… اگر خاندان کا سر براہ ایک بکری دے دے تو پورے خاندان کی طرف سے قربانی ہو گئی… ہر ایک کو قربانی کرنے کی اجازت نہیں…اب دیکھو اس ظالم نے حملہ کر دیا… یہ حملہ کرنے والا کون ہے خناس… جب میں خناس کا لفظ کہو ں تو مجھے کہنے کی حاجت نہیں آپ اچھی طرح سمجھتے ہو کہ میں کس کے بارے میں کہ رہا ہوں… آپ جاؤ اور جا کر ان سے مسئلہ پوچھو قربانی کون دے گا… کہتا ہے اگر خاندان کی طرف سے ایک سربراہ خاندان ایک بکری دے دے تو قربانی پورے خاندان کی طرف سے ہو گئی… کیونکہ اگر بیٹا صاحب نصاب تھا اس نے قربانی ختم کردی… بیوی صاحب نصاب تھی تو قربانی ختم کر دی۔ دیکھو اگر شیطان ہو تا تو لوگ اس کو جوتیاں مارتے… کہ تو ہمیں قربانی نہیں کرنے دیتا… لیکن یہ تو خناس تھا کہتا ہے دیکھو قربانی تو میں نے کرنے دی ہے… جوخاندان کا سربراہ تھا اس نے دی ہے… تو سب کی طرف سے ہو گئی… اب دلیل دے گا کہتا ہے دیکھو۔
خناس کی دلیل:
زبیر بن مطعم رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں… پیغمبرصلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں ایک شخص ہوتا جو گھر کا سر براہ تھا… وہ ایک بکری ذبح کرتا سارے گھر والے کھا لیتے۔ تو گھر کاالگ الگ فرد قربانی نہ کرتا… ایک فرد کرتا… باقی سارے گھر والے کھا لیتے… تو پیغمبر کے صحابہ رضی اللہ عنہم کا طریقہ یہ تھا… حالانکہ ظالم نے جھوٹ بولا خود اللہ کے پیغمبر کا طریقہ یہ نہیں تھا… پیغمبر کے صحابہ کا کیسے ہوتا… اصل مسئلہ یہ تھا کہ اصحاب پیغمبر کے دور میں دولت کی فراوانی نہیں تھی… پیغمبر کے دور میں دولت کم تھی… اب ہم بھی یہ کہتے ہیں کہ اگر صاحب نصاب صرف گھر کا سر براہ ہو قربانی وہ کرے گا… سارے کھا لیں گے مسئلہ یہ تھا نہ ان کے بیٹے صاحب نصاب تھے… نہ ان کی بیوی صاحب نصاب تھی… صرف تنہا ایک فرد نے قربانی دی۔
مسئلہ صرف حدیث پیغمبر میں اتنا تھا… کہ صحابی خود فرماتے ہیں کہ اگر گھر کا سر براہ بکری کی قربانی کر لیتا اور دوسرے کے پاس جب دولت ہی نہیں تھی وہ قربانی کرتے کیسے کرتے… وہ صاحب نصاب نہیں تھے قربانی کرتے کیسے…؟ حدیث کامعنی غلط بیان کیا اور امت کو قربانی سے دور کردیا… اب شیطان کی محنت کیا تھی کہ قربانی کرے کوئی نہ… مگر خناس اس نے تجھے بہانہ دیا…قربانی سے اس نے بھی جان چھڑائی ہے… اس نے تجھے عنوان دیا۔
انگریز کو خوش کرنے والے طبقے :
1…ایک انگریز ہے وہ کہتا ہے جہاد بالکل حرام ہے… جہاد شریعت میں ہے ہی نہیں… اس لیے جہاد کرنا ہی نہیں چاہیے… لیکن انگریز نے ایک طبقہ پیدا کیا وہ کون اس طبقہ کا نام ہے مزاغلام احمد قادیانی وہ کہتا ہے جہاد کرنا ہی نہیں چاہیے… کیوں کہتا ہے جہاد تو پیغمبر کے دور کی بات ہے… جب صحابہ جاتے رستہ میں جنگل ہوتے حفاظت کے لئے اسلحہ اٹھا تے اب وہ دور ختم ہو گیا… اب ہمیں کوئی ضرورت نہیں اسلحہ ٹھا نے کی اس نے بھی انکار کیا۔
2… ایک طبقہ وہ تھا اس نے اعلاء الاعلام کتا ب لکھی ایک اور طبقہ پیدا ہوا وہ کہتا ہے کہ جہاد نہیں کرنا چاہیے… جہاد کے لئے شرط ہے کہ خلیفہ ہو دنیا میں کوئی خلیفہ نہیں ہے ہم بھی جہاد نہیں کرتے… تو انہوں نے انکار کرنا تھا بہانے تلاش کئے… شیطان کہتا ہے جہاد کرو ہی نہ… خناس کہتا ہے ہم جہاد کے تو قائل ہیں مگر وہ شرط نہیں پائی جاتی اس لئے ہم نے جہاد نہیں کیا… انکار تو دونوں کر گئے ہیں…میں کہتا ہوں اسطرح شیطان کہتا ہے قربانی دینی ہی نہیں… اور خناس کہتا ہے جب سر براہ نے قربانی دے دی تو بیٹے کی قربانی ہو گئی… اولاد کی قربانی ہو گئی ہے… قربانی سے اس نے بھی دور کیا… مگر ظالم نے بہانہ ایسا بنایا کہ لوگ قربانی کرتے بھی نہیں ہیں پھر سمجھتے ہیں کہ ہم نے قربانی کر لی… قربانی کرتے بھی نہیں ہیں اور سمجھتے ہیں کہ ہم نے قربانی؟ سامعین۔ کر لی
جانور کی عمر میں اہل السنت کا مسلک :
ایک نیامسئلہ اب شریعت کا مسئلہ کیا ہے کہ اگر ایک بکری، یا بھیڑ ،یا دنبہ، یا بکرا اگر تم نے قربانی میں دینا ہے… تو ایک سال کا ہونا چاہیے… لیکن دنبہ اور بھیڑ کے لئے اللہ کے پیغمبرصلی اللہ علیہ وسلم نے یہ اجازت دی کہ اگر یہ سال کا نہ ہو… چھ ماہ کا ہو۔ مگر دیکھنے میں ایک سال کا لگے۔
ترمذی ج 1 ص 410
تو تم قربان کر سکتے ہو یہ گنجائش بکری اور بکرے کے اندر نہیں ہے… یہ بھیڑ اور دنبہ کے اندر موجود ہے… مگر مسئلہ پوچھو اہلسنت والجماعت سے وہ کہیں گے بکری ایسی قربانی میں دو کہ جس کی ایک سال عمر مکمل ہو جسے عربی میں مثنی کہتے ہیں۔
خناس کا مسلک :
خناس سے پو چھو کہتا ہے نہیں عمر کا کوئی اعتبا ر نہیں… اس کے لئے شرط ہے کہ دوندا ہو… بکری ہو تو دوندی… بکرا ہو تو دوندا… دوندی دوندا کو سمجھتے ہو… ؟ کہ جس کے دو دانت گرے ہو ں…ہم نے کہا حدیث موجود ہے معنی غلط کر دیا… لیکن یہ ظالم معنی خود بھی نہ سمجھا اور دوسروں کو سمجھانے میں غلطی کر گیا…اللہ کے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم نے فرما یا…حضرت جابر کی روایت موجود ہے
’’ لَا تَذْبَحُوا إِلَّا مُسِنَّةً إِلَّا أَنْ يَعْسُرَ عَلَيْكُمْ فَتَذْبَحُوا جَذَعَةً مِنْ الضَّأْنِ ‘‘
صحیح مسلم ج 2 ص 155،ابو داود ج 2 ص 30، سنن ابن ماجہ جز 9 ص 299
کہ تم قربانی میں ایک مسنیٰ دو۔
منی کہتے کسے ہیں :
مسنہ اسے کہتے ہیں جس کا ایک سال پورا ہو جائے… لغت میں مسنہ اسے کہتے ہیں جو دوندا ہو… اب ہم نے کہا مسنہ کا معنی ایک سال والا… یہ کہتا ہے مسنہ کا معنی دوندا۔ اس سے پوچھو تم نے دوندا معنی کیوں کیا… کہتا ہے جی لغت میں آیا ہے…ہم نے کہا مسئلہ لغت کا نہیں شریعت کے ماہرین سے پوچھو… کن سے پو چھو؟ (سامعین ماہرین)مسئلہ لغت کا نہیں ہے مسئلہ شریعت کا ہے… اگر کسی لفظ کا معنی بیان کریں گے مثلااذان کا معنی لغت میں کیا ہے… اذان کا معنی ماہر شریعت نے کیا بیان کیا… فقہاء اور محدثین نے کیا بیان کیا۔
اذان کا معنی لغت میں:
اب لغت کہتی ہے اذان کا معنی اعلان… اور شریعت اذان کسے کہتی ہے… اللہ اکبر سے لاالہ الااللہ تک یہ کلمات بلند آواز سے وضو کر کے قبلہ رخ ہو کر پڑھنا اس کا نام اذان ہے… لغت میں اذان کا معنی اور بیان کیا… شریعت نے اذان کا معنی اور بیان کیا… اگر تم لغت کی بات مانتے ہو تو عشاء کے اب پونے سات ہو گئے۔
مثال :
اب پونے سات بجے ایک آدمی نے مسجد میں آکر اعلان کر دیا…کہ بھائی مسجد کے باہر بازار میں صبح گوشت ہو گاجو تمہیں سو روپے کلو ملے گا… جو دوست لینا چاہے لے لیں… ادھر مولانا صاحب نے مؤذن سے کہا بھائی اذان دے دو… کہتا ہے کیوں بھائی وقت ہو گیا… اذان تو ہوگئی مؤذن کہتا ہے۔ یہ دیکھو
لغت میں لکھا ہے اذان اعلان کو کہتے ہیں… یہ دیکھو المنجد میں لکھا ہے آپ کہو گے کم عقل میں لغت کی بات نہیں کرتا… میں شریعت کی بات کرتا ہوں… مجھے یہ نہ بتا کہ اذان کا معنی لغت والا کیابیان کرتا ہے… مجھے یہ بتا کہ شریعت والا کیا بیان کرتا ہے… میں مانتا ہوںمسنہ کا معنی لغت میں دوندا بھی ہے… مسنہ کا معنی ایک سال والا بھی ہے… شریعت والا معنی اگر دوندا کرے… میں یہ مان لوں گا… شریعت والا معنی اگر ایک سال والا کر ے تو یہ مان لے۔
مسنہ کا معنی :
دیکھیں شریعت والا معنی کون سا بیان کرتا ہے… سارے فقہاء سارے محدث مسنہ کا معنی جس کی عمر ایک سال ہو… تو مسئلہ شریعت کا ہو گا… تو بات شریعت کے ماہر کی مانیں گے… اگر مسئلہ لغت کا ہو گا… تو بات لغت کے ماہر کی مانیں گے… بات سمجھ آئی چلو میں بات اور آسان کرتا ہو میں کہتا ہو ں مصیبت تو یہ ہے کہ ہم نے بیان کے دوران کبھی دلائل سنے نہیں… مزاج بنایا نہیں… ہمیں ایسے بیان میں مزہ آتا ہے سبحان اللہ ماشاء اللہ۔
میں کہتا ہوں اللہ کر ے اس ماہانہ اجتماع کی برکت سے اگر آپ حضرات نے پابندی فرمائی تو ان شاء اللہ تمہیں دلائل یاد کرنے میں بڑا لطف آئے گا… بغیر دلیل کے بیان ہوا تو تم نے کہنا ہے آج مزا نہیں آیا… آپ دیکھنا تھوڑا سا ذوق بن جانے دیں پھر دیکھنا دلیل کے ساتھ بات سننے کا مزا کتنا آتا ہے… میں کہتا ہوں مسنہ کا معنی ایک سال والا ہے اب میں دلیل کے طور پر اسی حدیث کو پیش کرتا ہوں ’’لاتذبحوا الامسنۃ‘‘ تم نے مسنہ کو ذبح کرنا ہے۔ اگرتمہارے پاس مشکل ہومسنہ نہ ملے ’’فتذبحوا جذعۃ من الضان ‘‘اگر تمہیں مسنہ نہ مل سکے تو پھر تم جذعہ کو ذبح کرنا۔
سوال:
سوال یہ ہے جذعہ کسے کہتے ہیں جذعہ من الضان اس کا معنی کیا ہے… ؟
جواب :
جذعۃمن الضان کا معنی سارے محدث… جذعۃ من الضان کا معنی سارے فقہاء … جذعۃمن الضان کا معنی سارے لغت والے بیان کرتے ہیں سال والا… اللہ کے پیغمبرصلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں اگر تمیں ایک سال والا نہ مل سکے ایک سال کا تمہیں دنبہ نہ ملے… ایک سال کی تمہیں بھیڑ نہ ملے… تو پھر تم چھ ماہ کا وہ دنبہ ذبح کرو جو دیکھنے میں ایک سال کا لگے… اگرمسنہ کا معنی دودانت والا تھا تو پیغمبر چھ ماہ والا نہ فرماتے… پیغمبر فرماتے اگر تمہیں دو دانت والا نہیں ملتا تو ایک دانت والا ذبح کر لو جو دیکھنے میں دوندے کی طرح نظر آئے… پیغمبر نے فرمایا ذبح تم مسنہ کو کرو… اگرمسنہ نہیں ملتا تو جذعہ ذبح کر لو… جذعہ کا معنی چھ ماہ والا ہے… معلوم ہو جس طرح جذعہ کا معنی چھ ماہ ہے…مسنہ کامعنی ایک سال ہے… سال والا نہیں ملتا تو چھ ماہ والا ذبح کر لو… چھ ماہ کہنا اس بات کی دلیل ہے کہ مسنہ کا معنی ایک سال ہے… مسنہ کا معنی دوندا ہو گا تو جذعہ کا معنی ایک سال والا ہو گا سمجھ آگئی۔
ڈیرہ غازی خان کا واقعہ:
میں ایک دفعہ گیا ڈیرہ غازی خان تو جس مولوی صاحب نے مجھے بلا یا تھا مجھے کہتا ہے کہ تو پچھلی بار تقریر کر کے گیا تھا… تو میں نےگھر کر جا کر اپنی بیٹی کو دی وہ مدرسہ میں دورہ حدیث میں پڑھتی ہے… ایک مرتبہ بیان سنا کہتی ہے ابو سمجھ نہیں آئی… میں نے کہا ولاسن… ولا سمجھتے ہو نا… کہ پھر سن… پھر سنا کہتی ہے ابو کچھ کچھ بات سمجھ آئی… میں نے کہا ولا سن… وہ کہتا ہے تین مرتبہ سنی تو میری بیٹی کو کچھ جا کر بات سمجھ آئی یہ تو اس کی کیفیت ہے جو عالمہ بن رہی ہے… اور جو علم کا ویسے ہی دشمن ہے… زور آدمی لگاتا ہے درس میں… جلسے میں آدمی زوربھی لگا تا ہے آگے بھی چلتا ہے… اس لئے میں گزارش کرتا ہوں اس کو آپ جب دو تین مرتبہ سنیں گے پھر یاد کریں گے پھر کوئی خناس آپ سے بات کرے گا تو… جواب آپ خود دو گے… دینے چایئے نا بھائی ہمیشہ کہاں سے مناظر تلاش کرتے پھرو گے… اب سنو !مسئلہ ایک سال والا اس نے کہا دوندا اب آگے چلیں۔
بھینس کی قربانی اور غیر مقلدین:
ہم نے کہا قربانی میں کون سا جانور ذبح کرو… ہم نے کہا گائے ذبح کر لو تو بھی ٹھیک ہے… بھینس ذبح کر لو تو بھی ٹھیک ہے… یہ کہتا ہے کہ نہیں گائے کی قربانی تو دے سکتے ہو… تم بھینس کی قربانی نہیں دے سکتے… ہم نے کہا اگر حدیث میں موجود ہو تو پھر کہتا ہے… بے شک موجود ہو بھائی کون سی حدیث… حضرت علی سے منقول ہے روایات میں موجود ہے حضرت علی المرتضی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے بھینس کا نام لے کر کہا میں نے کہا صحابی رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرما دے تو… پھر کہتا ہے فرما دے پھر کیا ہوا… ہم نے کلمہ نبی کا پڑھا ہے… میں نے کہا اے ظالم اگر تو نے کلمہ نبی کا پڑھا ہے تو علی المرتضی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے وہ کلمہ نہیں پڑھا تھا… علی المرتضی پیغمبر کی زبان کو نہیں سمجھ سکا… جب شریعت نے کہا کہ گائے کو ذبح کرو تو گائے کا معنی علی المرتضی نے پیغمبر کی زبان سے سنا یا… میں اور تو نے سنا اگر صحابی اس بقرہ کامعنی گائے بھی کرے اور اس بقرہ کا معنی بھینس بھی کرے تو۔ پھر میں نے کہا کہ بقرہ جس طرح تم گائے کو کہہ سکتے ہو اس طرح تم بھینس کو بھی کہہ سکتے ہو۔
بھینس بھی گائے ہی کی ایک قسم ہے… ہم نے اس کو الگ الگ شمار کیا لیکن جب زکوۃ کا مسئلہ ہو گا… تو جو نصاب گا ئے کا وہی نصاب بھینس کا۔
مصنف عبدالرزاق ج 4 ص 23
تو بھینس اور گا ئے جب ان دونوں میں زکوۃ لگے… فقہاء نصاب ایک شمار کرتے ہیں… میں نے پہلے عرض کیا تھا… کہ عبادت کرنے کے لئے تم ماہر کے پاس جاؤ گے… جب ماہر گائے اور بھینس کا حکم ایک شمار کرے تو تمہیں ایک شمار کرنا چاہیے… وہ ایک شمار نہ کرے تو تمہیں بھی ایک شمار نہیں کرنا چاہیے… اگر مسئلہ قربانی کا ہوگا… یا زکوۃ کا ہو گا… تو زکوۃ کے بارے میں جو مسئلہ گائے کا وہ ہی حکم بھینس کا۔
قیاس بھی دلیل شرعی ہے :
ہم اس پرقیاس کر کے کہتے ہیں کہ جو حکم گائے کا وہی حکم بھینس کا… اور قیاس دلیل شرعی ہے اللہ قرآن میں بیان کرتا ہے… یا قیاس کےدلیل شرعی ہونے کا انکار کر دے۔ یا بھینس کو گائے کی طرح قبول کر لے… تم قربانی دو گے تو نہیں مانیں گے… اگر تم نے قربانی دے دی تو کھال لینے کے لیے تمہارے دروازے پر موجود ہونگے… پھر اس کو کبھی نہیں کہتا کہ اس کی قربانی جائز نہیں… اللہ کی شان دیکھیں ملتان کا ایک خناس ہے حافظ نعیم الحق ملتانی اس نے مستقل کتاب لکھی ہے’’ بھینس کی قربانی کا تحقیقی جائز ہ‘‘ ان کے سارے دلائل کو رد کر کے احناف کے موقف کی تائید کی ہے… کہتا ہے گائے بھی ٹھیک ہے بھینس بھی ٹھیک ہے… اب تم نے ماننا شروع کر دیا ہے۔
اونٹ کی قربانی اور مسلک اہلسنت والجماعت :
اب ذبح کرنا تھا اونٹ کو اونٹ میں کتنے حصے اور گائے میں کتنے حصے… ہم کہتے ہیں اگر تم ذبح کرو گائے کو تب بھی سات حصے… اور اگرتم ذبح کرو اونٹ کو تب بھی سات حصے… ہمارے پاس دلائل موجود ہیں… اور عجیب بات ہے ہمارے پاس اللہ کے پیغمبرصلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث قولی بھی ہے… اللہ کے پیغمبرصلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث فعلی بھی ہے… اور پیغمبرصلی اللہ علیہ وسلم کا قیاس بھی ہے… مگر خناس کے پاس کچھ بھی موجود نہیں مگر ماننے کے لئے تیار تب بھی نہیں ہوگا۔
دلیل… 1:
حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں یہ روایت موجود ہے ابودؤد کے اندر اللہ کے پیغمبر نے فرمایا
’’البقرۃ عن سبعۃ والجزورعن سبعۃ
ابو داود ج 2 ص 32
اگر گائے ہو تب بھی حصے سات ہونے چاہیے اگر اونٹ ہو تب بھی حصے سات ہونے چاہیے۔
دلیل… 2:
یہی حضرت جابر فرماتے ہیں
’’ نحرنا مع رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بالحدیبیۃ‘‘
ہم نے حدیبیہ کے مقام پر قربانی دی
’’ البدنۃ عن سبعۃ والبقرۃ عن سبعۃ ‘‘
ترمذی ج 1 ص 408، ابو داود ج 2 ص 32
ہم اونٹ کے اندر بھی سات آدمی شریک تھے اور گائے کے اندر بھی سات آدمی شریک تھے… تو قول پیغمبرصلی اللہ علیہ وسلم بھی ساتھ تھا… فعل پیغمبر بھی ساتھ تھا۔ خود صحابہ رضی اللہ عنہم کا عمل بھی یہی تھا
’’ أَدْرَكْت أَصْحَابَ مُحَمَّدٍ - صلى الله عليه وسلم - وَهُمْ مُتَوَافِرُونَ كَانُوا يَذْبَحُونَ الْبَقَرَةَ وَالْبَعِيرَ عَنْ سَبْعَةٍ ‘‘
کتاب الحج من المحلی جز 2 ص 83
میں نے اصحاب محمد کو پایا… کہ وہ قربانی میں جب گائے ذبح کرتے تو سات… حصے ہوتے اگر اونٹ ہو حصے تب بھی ساتھ ہوتے۔
قیاس پر دلیل پیغمبر:
حضرت عباس فرماتے ہیں رضی اللہ تعالیٰ عنہ ایک شخص آیا اس نے کہا اللہ کے پیغمبر میرے ذمہ اونٹ کو ذبح کرناہے میں نے نذر مانی تھی… میں نے اونٹ کو ذبح کرنا ہے۔ میں کیا کروں میں اونٹ کو ذبح کر نا چاہتا ہوں مگر مجھے اونٹ ملتا نہیں… کہ میں خرید کے ذبح کروں اللہ کے پیغمبرصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا’’ سبع شاۃ ‘‘فرمایا تو سات بکریا ں خرید اگر دس بکریاں ہوتی تو پیغمبرصلی اللہ علیہ وسلم دس بکریاں فرماتے… سات کا فرمانا اس بات کی دلیل ہے اونٹ سات کی طرف سے ہوتا ہے… دس کی طرف سے نہیں ہوتا۔ لیکن یہ کہنا نہیں جی اونٹ ہو تو دس حصے… اور گائے ہوتو سات حصے… کوئی نہ کوئی دلیل خنا س بھی دے گا۔
خناس کی دلیل :
ان کی دلیل سنو !جامع ترمذی میں روایت موجود ہے صحاح ستہ کی کتاب ہے… کہتے ہیں ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ پیغمبر کے صحابی حضور کے چچا کے بیٹے ہیں… ابن عباس فرماتے ہیں ’’کنا مع رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فی سفر‘‘ ہم اللہ کے پیغمبرصلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک سفر میں تھے ’’فحضرالاضحی ‘‘کہتے ہیں کہ دس ذوالحجہ آ گیا… ہم نے قربانی کرنا چاہی تو ہم نے قربانی کیسے کی… ہم نے جانور ذبح کیا تو گائے سات کی طرف سے اور اونٹ دس کی طرف سے… کہتا ہے حضرت ابن عباس فرماتے ہیں پیغمبر کی موجودگی میں ذبح کیا جامع ترمذی میں روایت موجود ہے۔
جامع ترمذی ج 1 ص 408
ہم پیغمبرصلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث پر عمل کرتے ہیں… توجہ کرنا۔ ہم کہتے ہیں کہ ترمذی میں یہ حدیث ہے یا کوئی اور بھی حدیث موجود ہے… جب یہ تمہارے سامنے ترمذی لائے آپ نے چھوڑنا نہیں ہے کہنا کہ اگلی حدیث پڑھ آگے حدیث ہے۔
دلیل احناف:
حضرت جابر کی حضرت جابررضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں
’’ذبحنا مع رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بالحدیبیہ البقرۃ عن سبعۃ البدنۃ عن سبعۃ‘‘
جامع ترمذی ج 1 ص 408
ہم نے پیغمبرصلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مل کر قربانی کی… توگائے میں سات حصے اونٹ میں سات حصے… ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی حدیث میں گائے میں بھی سات… اونٹ میں دس حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی حدیث میں گائے میں بھی سات اونٹ میں بھی سات… اب ابن عباس کی حدیث اور ہے حضرت جابر کی حدیث اور ہے غیرمقلد کیا کہے گا ساڈی وی تے حدیث اے نا… ہماری بھی حدیث ہے ہم کہیں گے امام ترمذی سے فیصلہ کرواؤ۔
امام ترمذی کا فیصلہ :
امام ترمذی فرماتے ہیں:’’حدیث ابن عباس حدیث حسن غریب لانعرف الامن فضل ابن موسی‘‘
جامع ترمذی ج 1 ص 408
کہ جو حدیث ابن عباس ہے یہ حدیث غریب ہے اس کی سند میں ایک راوی ہے فضل کے علاوہ اور تمہیں کہیں سے روایت نہیں ملے گی… اور جب حضرت جابر کی باری آئی تو امام ترمذی فرماتے ہیں
وعلیٰ ھذا العمل عند اصحاب النبی صلی اللہ علیہ وسلم وغیرھم۔
جامع ترمذی ج 1 ص 408
کہ حدیث جابر بھی ہے حدیث ابن عباس بھی ہے مگر صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حدیث ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو چھوڑ دیا… حضرت جابر کی حدیث پہ عمل کیا تو ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی حدیث حدیث متروک ہے… حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی حدیث حدیث معمول ہے… ابن عباس کی حدیث منسوخ ہے حضرت جابر کی حدیث حدیث ناسخ ہے… تیرے پاس حدیث موجود ہے مگر منسوخ ہے… میرے پاس حدیث موجود ہے مگر ناسخ ہے… تیرے پاس موجود ہے مگر متروک ہے… میرے پاس موجود ہے مگر معمول ہے… (سامعین سبحان اللہ ) اب مانو فیصلہ کو… اب نہیں مانیں گے اب مانو امام ترمذی کی بات کو… یہ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کی بات نہیں امام ترمذی رحمہ اللہ کی بات ہے… یہ فقہ کا مسئلہ نہیں یہ جامع ترمذی حدیث کا مسئلہ ہے… اب تو مان لے… اب نہیں مانے گا اب دوڑے گا اب بات سمجھو۔
مسلمانوں اور عیسائیوں کا اختلاف :
ایک مسئلہ ہے یہودیوں کا…ایک مسئلہ ہے عیسائیوں کا… یہودیوں اور عیسائیوں سے ہمارا کیا اختلاف ہے… یہودی کہتے ہیں حضرت موسٰی علیہ السلام اللہ کے نبی ہیں اور ہم بھی کہتے ہیں اللہ کے نبی ہیں… عیسائی کہتے ہیں عیسٰی علیہ السلام اللہ کے نبی ہیں ہم بھی کہتے ہیں اللہ کے نبی ہیں… اختلاف کیا ہے یہودی کہتے ہیں حضرت موسیٰ علیہ السلام اللہ کے نبی ہیں اور آخری نبی ہیں… اس کے بعد اور کوئی نبی نہیں… عیسائی کہتے ہیں حضرت عیسٰی علیہ السلام نبی ہیں اور آخری نبی ہیں… ان کے بعد کوئی نبی نہیں…ہم نے کہا حضرت موسٰی علیہ السلام نبی مگر ان کی شریعت منسوخ ہے… حضرت عیسیٰ علیہ السلام نبی مگر ان کی شریعت منسوخ ہے… ہم نے حضرت موسی اور عیسیٰ علیھما السلام کو نبی مانا مگر ان کی شریعتوں کو منسوخ مانا… حضورصلی اللہ علیہ وسلم کی شریعت کو مانا مگر ناسخ مانا…یہودی عیسائی حضرت موسیٰ علیہ السلام کی شریعت کو مانتے ہیں مگر منسوخ نہیں مانتے… اس نے ایسے نبی کا نام لیا جس کی شریعت منسوخ ہے… ہم نے ایسے نبی کا نام لیا جن کی شریعت ناسخ ہے۔
غیر مقلد نے ایسی حدیث کو پیش کیا جو منسوخ ہے… ہم نے ایسی حدیث کو پیش کیا جو ناسخ ہے… تو یہودی اور عیسائی شریعت منسوخ مانتا ہے…تو حدیثیں منسوخ مانتا ہے… ہم منسوخ شریعت والے نبی پر ایمان تو رکھتے ہیں مگر کلمہ ناسخ شریعت والے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا پڑھتے ہیں… اس طرح ہم عمل کریں گے تو ناسخ حدیث پہ… جس طرح اس نے شریعت منسوخ مانی… ہم نے ناسخ مانی… تو نے حدیث منسوخ مانی… ہم نے ناسخ مانی… تیرا طریقہ یہودیت کا… تیرا طریقہ عیسائیت کا… ہمارا طریقہ پیغمبرصلی اللہ علیہ وسلم کا…ایک تیرا طریقہ… ایک ہماراطریقہ… تو میں عرض کر رہا ہوں امام ترمذی پہلے کون سی حدیث لائے… پہلے کون سی لائے دس والی اور پھر کون سی لائے؟ (سامعین۔۔۔۔ سات والی )
محدثین کا ناسخ منسوخ حدیث کے بارے میں عمومی اصول:
اگر ایک محدث حدیث بیان کرے گا ایک حدیث پہلے بیان کرے ایک بعد میں بیان کرے… یہ تو میری بات لوہے کی لکیر کی طرح لکھ لو… اگر مسئلہ آئے گا رفع یدین کا محدثین حدیث بیان کریں گے… مگر پہلے رفع یدین کی پھر ترک رفع یدین کی… پہلے آمین بالجہر کی پھر آمین بالسر کی… پہلے امام کے پیچھے فاتحہ پڑھنے کی پھر فاتحہ چھوڑنے کی… محدثین ایسا کیوں کرتے ہیں وجہ۔
دلیل:
حضرت امام نووی صحیح مسلم کے شارح نے باب قائم کیا ’’باب الوضوء مما مست النار ‘‘کہ اگر آدمی ایسے پانی کو استعمال کرے جس پانی کو آگ پر گرم کر لیا گیا ہو… امام مسلم نے حدیث نقل کی کون سی… امام مسلم چھ حدثیں لایا کہ تم ایسے پانی کو استعمال کر لو جو پانی آگ پر گرم کر لیا گیا ہو… تو اس سے وضوٹوٹ جائے گا۔ پھر امام مسلم لائے کہ اللہ کے پیغمبرصلی اللہ علیہ وسلم نے گوشت کھایا… اور وہ آگ پر پکایا گیا تھا… پیغمبر نے گوشت کھا یا مگر پیغمبرصلی اللہ علیہ وسلم نے دوبارہ وضونہیں کیا… پہلے امام مسلم حدیث وہ لا ئے جس پر آگ پہ پکی ہوئی چیز سے وضو ٹوٹ جاتا ہے… پھر حدیثیں وہ لایا کہ آگ پر پکی ہوئی چیزکے استعمال کرنے سے وضو نہیں ٹوٹتا…امام نووی جو صحیح مسلم کے شارح ہیں اس کے تحت لکھتے ہیں
ذکر مسلم فی ھذا الباب الحدیث الواردۃ بالوضوء مما مست النار ثم عقبھا بالحدیث الواردۃ بترک الوضوء مما مست النار
مسلم ج 1 ص 456
امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ امام مسلم پہلے حدیث وہ لائے کہ آگ سے پکی ہوئی چیزوں سے وضو ٹوٹ جاتا ہے… پھر حدیثیں وہ لائے کہ جس میں آگ سے پکی ہوئی چیزوں سے وضو نہیں ٹوٹتا… یہ امام مسلم نے طریقہ اختیار کیا کیوں فرمایا۔
امام نووی فرماتے ہیں
ھذہ عادۃ مسلم وغیرہ من ائمۃ الحدیث یذکرون الحدیث الذی یرونھا منسوخۃ ثم یعقبوھا بالناسخ
حاشیہ مسلم للنووی ج 1 ص 456
محدثین کا اصول یہ ہے کہ پہلے حدیثیں وہ لائیں گے… جو منسوخ ہوں پھر حدیث وہ لائیں گے جو ناسخ ہو… پھر مجھے کہنے دیجئے پہلے محدث حدیث رفع یدین کی لاتا ہے پھر ترک رفع یدین کی لاتا ہے:
نسائی ج 2 ص 161
مثلا معنی یہ کہ محدثین کے ہاں رفع یدین منسوخ ہے۔ محدث پہلے آمین بالجہر کی لاتا ہے پھر آمین بالسر کی لاتا ہے
ترمذی ج 1 ص 161
معنی یہ کہ ان کے ہاں آمین بالجہر منسوخ ہے… امام داؤد پہلے حدیث امام کے پیچھے فاتحہ پڑھنے کی پھر لائے فاتحہ چھوڑنے کی
ابودداود ج 1 ص 126
ان کے ہاں امام کے پیچھے فاتحہ پڑھنا منسوخ ہے… امام ترمذی پہلے حدیث لائے ،اونٹ کے دس حصے ہیں پھر لائےاونٹ کے سات حصے ہیں۔
ترمذی ج 1 ص 408
امام ترمذی کے ہاں دس والا منسوخ ہے… اور سات والا ناسخ ہے… میں نے تو پورے بیان میں امام ابوحنیفہ ر حمہ اللہ تعالیٰ کی بات ہی نہیں کی… کی امام شافعی کی تو بات ہی نہیں کی… تم جھوٹ بولتے ہو کہ ہمارے پاس احادیث پیغمبرصلی اللہ علیہ وسلم ہیں ان کے پاس امام کے قول ہیں… جھوٹ مت بولو رب کعبہ کی قسم ہمارے پاس امام کا قول بھی ہے اور وہ قول جس حدیث پر مبنی ہے وہ حدیث بھی ہے۔
خناس کا دھوکہ:
کبھی خناس کہتا ہے کہ تم تو مقلد ہو اور مقلد دلیل تلاش نہیں کرتا… مقلد دلیل پیش نہیں کر سکتا… میں کہتا ہوں خناس تو نے دھوکہ دیا مقلد دلیل نہیں پیش کر سکتا… مگر امام پیش کر سکتا ہے تجھ جیسے بدعقیدہ کو… وہ کہتا ہے کہ مقلد کی دلیل امام کا قول ہوتا ہے مقلد کی دلیل امام کا مذہب ہوتا ہے… مقلد آیت اور حدیث سے دلیل نہیں پکڑتا… میں بھی مانتا ہوں ہماری دلیل امام کا قول ہے… مگر اپنوں کے لئے… جب کوئی غیر آئے گا وہ کہے گا تمہارے امام کا قول حدیث کے خلاف ہے پھر تجھے حدیث نہیں پیش کریں گے پھر تو پیش کریں گے بھائی… ہمارے مدرسہ میں نحو پڑھائی جاتی ہے ہم استاد سے نہیں پوچھتے آپ نے نحو کیوں پڑھائی ہے… اگر کوئی اور پوچھے تو پھر دلیل نہیں دیں گے… ایک ہے مہتمم سے دلیل نہ مانگنا… ایک ہے اس بدباطن کو دلیل دینا جو مانتا ہی نہیں ہے۔
خناس کی بے وقوفی:
یہ خناس پتہ ہے کیا کہیں گے… ایک ہے ہمارا مدرسہ… ایک ہے دیوبندیوں کا مدرسہ… ہمارے مدرسہ میں آؤ تو پہلے سال حدیث… ان کے مدرسہ میں جاؤ تو آخری سال حدیث… توجہ رکھنا! خناس کہے گا ان کے مدرسہ میں آؤ تو آخری سال حدیث ہمارے مدرسہ میں جاؤ تو پہلے سال حدیث… میں نے کہا اس لئے کہ تم بے وقوف ہو اور یہ عقل مند ہیں… اب تو ہراج صاحب بیٹھے ہیں ایڈووکیٹ ہیں… سپریم کورٹ کے دعا کرو اللہ ان کو M.N.Aبنائے… تم نہ محنت کرنا بنیں گے کہو انشاء اللہ… ہمارے ایک استاد تھے بڑی عجیب بات فرمایا کرتے تھے فرمایا کرتے تھے۔
ان شاء اللہ کا معنی:
ان شاء اللہ کا معنی ہمارے ہاں اور ہے اللہ کے ہاں اور ہے… اللہ کے ہاں ان شاء اللہ کامعنی یہ کہ ہم پوری کوشش کریں گے رب چاہے گا نتیجہ نکلے گا نہیں چاہے گا تو نہیں نکلے گا… ہمارے ہاں ان شاء اللہ کا معنی حقانی صاحب اعلان کریں گے کہ آئندہ پانچ جنوری کو جلسہ ہوگا آؤ گے؟ (سامعین۔۔۔۔ ان شاء اللہ آئیں گے) مطلب کیا موٹر سائیکل بھی نہیں لینا گاڑی پر بھی نہیں بیٹھنا آرہے ہو یار انشاء اللہ… مطلب ہم پوری کوشش کریں گے نہ آئیں اور اگر اللہ لے آئے تو کون روکنے والا ہے… ہم پوری کوشش کریں گے کمپین نہ چلائیں ہم پوری کوشش کریں گے ووٹ نہ ڈالیں… ہم پوری کو شش کریں گے ان کے خلاف گفتگو کریں… اگر پھر بھی جیت جائے تو اللہ اب ان شاء اللہ نہیں بھائی
M.N.A کیسا ہو؟:
ایک بات ذہن نشین کر لو… ہم جمہوری اور مروجہ سیاست کی بات نہیں کرتے… لیکن تمہارے ووٹ سے کسی نہ کسی نے M.N.Aبننا ہے… تم نہیں دو گے تو بھی بننا ہے… تم دو گے تو بھی بننا ہے… تو پھر تم اس ریش والے کو بھجواؤ… تم اس داڑھی والے کو بھجواؤ…جو کلمہ حق بیان تو کرے نا… الحمد للہ ماشاء اللہ میں کوئی ہراج صاحب کے منہ پر تو بات نہیں کرتا… انہوں نے کلمہ حق میری عدالت میں اس وقت بیان کیا جب میں پنڈی جیل میں تھا تو لاہور کے وکیلوں نے کہا ہراج صاحب بچو تم نے مر جانا ہے… اس نے کہا… مرنا تو ویسے ہی ہے ایک عالم کی خاطر مر جاؤ ں تو میری سعادت ہے…مجھے ان سے محبت اس لئے نہیں کہ وکیل ہیں… بلکہ میں پنڈی جیل میں تھا… تو ہراج صاحب آئے… تو میں نے مزاحا کہا کہ آپ کے دو لباس ہیں ایک یہ (یعنی داڑھی) اور ایک لباس یہ کالا…کالے کوٹ نے تمہیں حکومت سے چھڑانا ہے… اور اس داڑھی نے تجھے آخرت میں اللہ کے عذاب سے چھڑا لینا ہے… ان شاء اللہ۔
الحمد للہ ہم نے آزما کردیکھا ہے… آج تک آپ نے میرا ووٹوں پر بیان سیاست پر بیان نہیں سنا ہوگا… لیکن اس عنوان پر جب اچھا آدمی آئے گا ہم اس کے ووٹر نہیں بلکہ سپورٹر ہیں… بولتے نہیں ہو ؟(ان شاء اللہ ) تواڈی ان شاء اللہ وی مٹھی پے گئی اے…تمہیں عداوت کس سے ہے مجلس سے مجھے پتہ ہے… جوجوبیماری ہے میں بھی اسی ملک کا باشندہ ہوں… میں نے عرض کی ہے کہ دعا کرو کہ ہمارے بندے اسمبلی میں جائیں اور ہماری آواز بلند ہو… ہم کہتے ہیں کہ آواز بلند ہو تو ایسا آدمی اسمبلی میں بھیجو جو حق گو ہو لال مسجد کے مسئلہ میں آپ کے علم میں نہیں ہراج صاحب گئے ہیں… سپریم کورٹ نے جو وفد تجویز کیا تھا اس میں ہراج صاحب بھی موجود تھے… تو ایسے تو کوئی نہیں نامزد کرتا مطلب یہ ہے کہ بہت سارے لوگ ایسے ہیں کہ جن کا ایک کردار ہوتاہے… مگر وہ منظر پر نہیں ہوتا… اور افراد ان سے واقف نہیں ہوتے… دعا کریں اللہ ان کو اسمبلی میں لے جائے۔
وکیل اچھے بھی ہوتے ہیں:
تو میں عر ض کر رہا تھا کہتے ہیں ان کے مدرسہ میں جاؤ تو آخری سال حدیث ہمارے مدرسہ میں آؤ تو پہلے سال حدیث… میں نے کہا اس لئے کہ تم بے وقوف ہو اور یہ عقل مند… میں مثال دینے لگا تھا کہ ہراج صاحب وکیل ہیں آپ نے فیصلہ کیا کہ وکیل اچھے بھی ہوتے ہیں… آپ جو شعر سنا کرتے ہیں وکیلوں کے بارے میں میں وہ شعر نہیں سناتا… اس وکیل نے وہ توڑ دیا ہے… آپ یقین کریں ہمارے وہ ساتھی جو بند کمروں میں ہوتے ہیں کئی کئی سال تک وہ تہہ خانوں میں رکھے ہوتے ہیں… کوئی ان کا پتہ نہیں چل رہاتھا ان کو ان تہہ خانوں سے نکالنے والے چند وکیل اور یہ جج تھے… آپ کے ہاں کوئی قیمت نہیں یہ اس ماں سے پوچھو جس کے بیٹے کو دوبارہ زندگی ملی ہے اور آپ حیران ہونگے کہ اس کیس میں لڑنے والا کوئی مرد نہیں تھا… ایک عورت تھی آمنہ مسعود افتخار چوہدری ایسے نہیں ہلا… پہلے دن رٹ اس نے خارج کر دی آمنہ مسعود نے باہر سے سپریم کورٹ کو لگائی کنڈی… چیف جسٹس افتخار نے اس کو کہا یہ کیا اس نے کہا میں باہر بیٹھی ہوں… تو اندر میں صبح تجھ سے پوچھو ں گی کہ بیوی بچوں سے الگ ہو تو کیا گزرتی ہے… بھائی وکیل جب عدالت کو تالا لگائے تب ہی پکڑے جب کوئی جج کہے۔ توہین عدالت ہے… صرف تالے پر پولیس نہیں آتی… میری اور آپ کی بات اور ہے۔ اس کے اس احتجاج پہ چیف جسٹس افتخار کو بھی غیرت آئی خیر یہ میرا عنوان نہیں ہے… میں نے عرض کیا کہ اس عنوان پر کن کن لوگوں نے قربانی دی ہے اور بہت سارے لوگ جن کے والدین… ان کے بارے میں مایوس ہو چکے تھے… ان کو دوبارہ زندگیاں ملی ہیں۔
عقل مند اور بے وقوف کون:
تو خیر میں یہ عرض کررہا تھا کہ آپ کا جی چاہا کہ ہم بھی اپنا بیٹا وکیل بنائیں اب آپ کے محلے میں دو اسکول ہیں… ایک سکول والا کہتا ہے کہ بھائی اپنابیٹا ہمارے پاس بھجواؤ ہم ان شاء اللہ اس کو پہلے سال وہ کتاب دیں گے… جو آخری سال وکیلوں کو پڑھائی جاتی ہے… پہلے سال چار سال کے بچے کو… دوسرا کہنے لگا کہ نہیں ہم آپ کے بچے کو پہلے سال پریپ میں داخل کر کے اے بی سی پڑھائیں گے… اب تم کہاں داخل کراؤ گے سامعین۔۔۔۔ پرپ والے میں اب یہ جو پہلے سال اے۔ بی۔ سی پڑھا کے دس سال بعد وہ کتاب دیتا ہے وہ عقل مند ہے… اور جو پہلے سال پڑھاتا ہے وہ بے وقوف ہے۔
ہم بخاری آخری سال دیتے ہیں ہم سمجھتے ہیں… کہ دس سال کا بچہ بخاری نہیں سمجھ سکتا… پہلے نحو دو… پہلے صرف دو پہلے گرائمر دو… پہلے منطق دو… مگر یوں نہیں ہم نے پہلے سال اس کو چہل حدیث پڑھائی… ہم نے دوسرے سال زادالطالبین پڑھائی… ہم نے تیسرے سال ریاض الصالحین پڑھائی… ہم نے چوتھے سال آثار السنن پڑھائی… ہم نے پانچویں سال ان کو مشکوۃ پڑھائی ہے… ہم نے چھٹے سال اس کو بخاری دی ہے… یہ نہیں ہے کہ آخر میں بخاری دی درمیان میں حدیثیں نہیں دیں…بلکہ ہم درجہ بدرجہ اس کو لے کر گئے ہیں… جس لڑکے کو ہم نے قرآن حفظ کرانا تھا ہم نے پہلے نورانی قاعدہ دیا… پھر تیسواں پارہ دیا… پھر پورا قر آن دیا… اب یہ ترتیب بہتر تھی یا وہ ترتیب بہتر تھی… اب کم عقل کا علاج اللہ ہی کرے… تو میں عرض یہ کر رہا تھا کہ ایک خناس ہے اور ایک شیطان ہے… بات ذہن میں ہے اب شیطان کہے گا قربانی نہ دو… خناس کہے گا قربانی دو… لیکن اجر میں تمہیں نہیں لینے دو ںگا… میں بھی تو اس کا بھائی ہوں۔
اجماع کا پہلا منکر :
ہمارے پاکستان کے پیر ہیں پیر ذوالفقار احمد نقشبندی دامت برکاتہم انہوں نے بھی ایک بات ماشاء اللہ بڑے کام کی لکھی ہے خطبات فقیر جلد9 میں… یہ بات لکھی ہے فرماتے ہیں کہ جب رب نے شیطان سے کہاکہ سجدہ کرو…کہتے ہیں شیطان نے نہیں کیا اور سارے ملائکہ نے کیا… وہ کہتے ہیں کہ سب سے پہلے اجماع کا منکر شیطان ہوا…اجماع ملائکہ کا انکار کس نے کیا؟ سامعین۔۔۔ شیطان نے 
اجماع کے منکر کی سزائیں:
اور اجماع کے منکر کو رب دو سزائیں دیتا ہے… یہ انہوں نے نہیں لکھا یہ اگلی بات میں کہہ رہا ہوں… انہوں نے تو یہ لکھا ہے کہ اس دنیا میں اجماع کا منکر شیطان ہے میں کہتا ہوں وہ شیطان ہے… یہ خناس ہے خناس شیطان کا بھائی ہے… اور رب اجماع کے منکر کو دو سزائیں دیتا ہے۔
1…نولہ ماتولیٰ دنیا میں رب ہدایت نہیں دیتا
2…ونصلہ جھنم … آخرت میں رب جنت نہیں دیتا۔
سورۃ النساء پ 5 آ یت 115
تو یہ اجماع کے منکر کی دو سزائیں ہیں… رب نے قرآن میں بیان کی ہیں… تو ایک محنت شیطان کی اور ایک محنت اس خناس کی۔
قربانی کے ایام اور مسلک اہل سنت:
اب اگلی بات کہتا ہوں کہ قربانی کتنے دن… ؟ پوری دنیا کہے گی کہ قربانی تین دن دو… دس ذوالحجہ کو…گیارہ ذوالحجہ کو… بارہ ذوالحجہ کو… شیطان کہےگا نہیں قربانی دینی ہی نہیں ہے۔
خناس کا مسلک اور دلیل:
اورخناس کہے گا دینی تو ہے مگر چوتھے دن… کیوں تاکہ قربانی بھی ہو جائے اور اجر بھی نہ ملے… دلیل سنو! اور عقل پہ ماتم کرو دلیل کیا دیتا ہے…جبیر بن مطعم رضی اللہ تعالیٰ عنہ پیغمبرصلی اللہ علیہ وسلم کے صحابی ہیں… اور وہ دلیل یہ دیتے ہیں کہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ’’ ایام التشریق کلھا ایام ذبح‘‘کہ جتنے ایام تشریق ہیں وہ سارے قربانی کے دن ہیں…تشریق کسے کہتے ہیں جو نمازوں کے بعد اللہ اکبر اللہ اکبر لا الہ الااللہ واللہ اکبر اللہ اکبر وللہ الحمد ہم تکبیرات جو پڑھتے ہیں اس کو کہتے ہیں جن دنوں میں تکبیرات پڑھی جاتی ہیں… ان کا نام ایام تشریق اللہ کے پیغمبرصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :ایام تشریق کلھا ایام ذبح کہ جتنے تشریق کے ایام ہیں وہ سارے قربانی کے دن ہیں… اور ایام تشریق 13 ذو الحجہ تک ہیں… لہذا قربانی بھی 13ذوالحجۃ تک… دلیل سنو 13ذوالحجہ تک کی۔
خناس کی دلیل کا جواب :
اچھا اس سے پوچھو کہ شروع کہاں سے ہیں… ہے نہ دھوکہ اس سے پوچھو شروع کہا ں سے ہیں… اگر ایام تشریق تیرہ ذوالحجہ تک ہیں تو شروع؟ (سامعین نو سے ) تو پھر قربانی!ایام تشریق9کو ہے مگر قربانی نہیں 13کو ہے قربانی نہیں … پھر مان لے کہ یہ حدیث اور ہے اور باقی حدیثیں اور ہیں… بارہ راوی بارہ صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم جو روایت نقل کرتے ہیں ان میں ذبح کا لفظ نہیں ہے… اگر ایک روایت کرتا ہے اس میں ذبح کا لفظ ہے… اگر جمہور اور ثقہ راوی ایک طرف ہو جائیں اور ایک ثقہ ایک طرف ہو جائے ثقہ ثقات کی مخالفت کر ے اس حدیث کو شاذ کہتے ہیں… میں نے حدیث صحیح پیش کی تو نے حدیث شاذ پیش کی… اللہ کے پیغمبرصلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں
من شذشذ فی النار
مشکوٰۃ ص 31
جو کٹ جائے وہ جہنم میں جاتا ہے تمہیں شاذ مبارک ہمیں ثقات مبارک… ہمیں جمہور مبارک تو بات سمجھو کیسے دھوکہ دیتے ہیں… ہم بھی سوچتے ہیں یا اللہ ان کو مصیبت کیا پڑی ہے نیا مسئلہ نکال لیتے ہیں۔
غیر مقلدین اورچوتھے دن قربانی:
ملتان میں گیا ہمارے ایک دوست ہیں ان کا بیٹا غیر مقلد ہو گیا… مجھے کہتا ہے مولانابڑا دکھ ہوتا ہے میں نے کہا کس بات پر…کہتا ہے تین دن ہمارے دیوبندیوں کی کھالیں جمع کرتے رہیں گے… اور جب چوتھا دن آئے گا اب ہماری قربانی تو ختم ہوگئی اور یہ چوتھے دن جانور کو ذبح کرکے گوشت کھائیں گے… اور بیٹھ کر گپیں ہانکیں گے… یہ تین دن ہم قربانی کرتے رہیں گے یہ کھالیں اکھٹی کرتے رہیں گے… اور چوتھے دن قربانی کی اور مزے اڑا رہے ہیں… اب مقصد قربانی نہیں تھا مقصد فتح تھی… کہ ہم نے ان کی قربانی کی کھالیں چھین لیں…ہم نے مال غنیمت جمع کرلیا تو اس کا نام جشن رکھتا اس کا نام قربانی تو نہ رکھتا… یہ مجھے ملتان میں کہا کہ ظالم اسطرح کرتے ہیں۔
خوب گزرے گی جو مل بیٹھیں گے…
خیر ایک بات سمجھو! کہ اگر گائے ہوتو سات آدمی اگر اونٹ ہو تو سات آدمی لیکن شرکت کرنے والا کون ہو…ایک سکھ آجائے تو قربانی نہیں ہوگی… ایک ہندو آجائے تو قربانی نہیں ہو گی… ایک مرزائی آجائے تو قربانی نہیں ہو گی… ایک رافضی آجا ئے تو قربانی نہیں ہو گی… حتی کہ اگر ایک بھی کافر آجائے تو قربانی نہیں ہوگی… مگر فتاوی علماء حدیث کے اندر لکھا ہوا ہے کہتا ہے کہ سات حصے داروں میں اگر ایک مرزائی آجائے قربانی ہو جائے گی۔
فتاویٰ علمائے حدیث ج 13 ص 89
محنت دیکھو محنت تو شیطان کی محنت تھی کہ قربانی کرے ہی نہ… اور خناس کی کیا تھی کہ کرے مگر برباد ہو جائے… آگے چلیے ہم نے کہا قربانی میں دو تو بکری… قربانی میں دو تو گائیں… قربانی میں دو تو اونٹ… اور یہ خناس ایسا انسان ہے کہ اگر نہ ماننے پر آیا تو بھینس کا انکا ر کر گیا۔
خناس اور مرغی کی قربانی:
اور اگر ماننے پر آیا تو فتاوٰی ستاریہ کے اندر مسئلہ موجود ہے مفتی عبد الستار خناس سے مسئلہ پوچھا گیا… حضرت اب تو بکرا بہت مہنگا ہو گیا ہے ہم قربانی کر نا چاہتے ہیں تو کیا کریں کہتا ہے اگر بکرا مہنگا ہو گیا تو مرغ تو مل سکتا ہے… تم مرغ کی قربانی دے دو رب قبول کرے گا۔
فتاویٰ ستاریہ ج 2 ص 72
سبحان اللہ اب اس کو مفتی کہتے انسان کو شرم آتی ہے… ایسا بے شرم اور ایسا بے ضمیر انسان کہ اگر ہم اما م ابوحنیفہ رحمہ اللہ کی بات کریں گے جو اصحاب پیغمبرصلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت کرنے والا… اصحاب پیغمبرصلی اللہ علیہ وسلم کا شاگرد ہے کہتا ہے ابو حنیفہ… انکار کرنے پر آئے تو اصحاب پیغمبر کے شاگرد کا انکار کردے… اور ماننے پر آئے تو مفتی عبد الستار کومان لے مسئلہ سنو۔
خناس اور انڈے کی قربانی:
اس نے کہا اگر مرغی بھی موجود نہ ہو… کہتا ہے اللہ کے پیغمبرصلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث موجود ہے کہ… جو انسان جمعہ پڑھنے کے لئے مسجد میں سب سے پہلے آئے۔ اس کو اونٹ صدقہ کر نے کا… جو اس کے بعد آئے تو گائے صدقہ کر نے کا… اس کے بعد تو بکری صدقہ کر نے کا… سب سے آخر میں آئے تو انڈہ صدقہ کر نے کا… کہتا ہے انڈہ کے صدقہ کرنے پر جو اجر مل جاتا ہے تو انڈے کی قربانی پر اجر نہیں ملے گا
فتاویٰ ستاریہ ج 4 ص 40
یہ ہے قیاس کا دشمن اور کر رہا ہے قیاس… او ظالم تجھے تو قیاس نہیں کرنا چاہیے تھا… اس لئے ہم کہتے ہیں قیاس ملائکہ نے بھی کیا تھا… شیطان نے بھی کیا تھا۔ قیاس شیطان نے بھی کیا تھا… شیطاں نے قیاس کیا تھا نا جب اللہ نے کہا’’اسجدوا لآدم‘‘شیطان کہتا ہے اے اللہ یہ مٹی سے میں آگ سے… آگ نہیں جھکتی مٹی جھکتی ہے… میں نہیں جھکتا… آدم جھکے… تو ایک قیاس شیطان نے کیا اور ایک قیاس خناس نے کیا ہے د و نوں قیاس اور دشمن امام اعظم ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے… خیر اب دیکھو !میں بات کو سمیٹ کر کہتا ہوں… اب دیکھو مولانا عبد الشکور حقا نی صاحب دامت برکاتہم اعلان فرما رہے تھے… آپ کوشش کرو کے پانچ جنوری کو عشاء کی نماز یہاں پڑھو… یا عشاء کے متصل بعد تشریف لائیں… تاکہ بات انسان کو پوری سمجھ آئے… ورنہ پوری بات سمجھ نہیں آتی۔
پیدائش انسانی کا مقصد:
میں نے ایک آیت پڑھی تھی ’’وماخلقت الجن والانس الا لیعبدون‘‘ اللہ نے انسان کو عبادت کے لئے پیدا کیا… تو میں عرض یہ کر رہا تھا دنیا کے حصول کے لئے ایک سیزن ہے… دنیا کے حصول کیلئے ایک منڈی ہے… عبادت کے لئے مقامات مقدسہ جو منڈی کا درجہ رکھتے ہیں… اور عبادات کو حاصل کرنے کے لئے ماہرین شریعت ہیں… جس طرح دنیا کی نعمت آدمی حاصل کر کے اس کو کیڑے سے بچانا ضروری ہے… جو فصل کو تباہ کر دے… تمہاری اس دنیا کی نعمت کو تباہ کر دے… جو عبادت آپ نے کی ہے سیزن میں کی ہے… منڈی میں کی ہے… ماہرین سے پوچھ کر کی ہے… اس عبادت کو بچا نا بھی ضروری ہے… تا کو سنڈی نہ لگ جائے… اس کو کیڑا نہ لگ جائے… اس کو ایسی بیماری نہ لگ جائے… کہ جس سے عبادت برباد ہو جائے اگلی بات میں نے عرض کی تھی۔
عبادت کے لئے تین شرائط:
کہ عبادت کی لئے تین شرطیں ہیں:
1… اللہ کا حکم ہو۔ 2…عمل پیغمبرصلی اللہ علیہ وسلم کا ہو۔
3… نقل کرنے والے پیغمبر کے صحابہ ہوں۔
پھر میں نے عرض کیا تھا کہ سمجھانے والا مجتہد اور فقیہ ہو اللہ ہمیں بات سمجھنے کی توفیق عطاء فرمائے۔
کچھ توغور کیجئے! :
اب ایک محنت شیطان کرے گا ایک محنت خناس کرے گا… شیطان یہ محنت کرے گا کہ بندہ عبادت نہ کرے… اور خناس محنت اس انداز میں کرے گا کہ عبادت اس انداز میں کرے کہ اس کی عبادت برباد ہو جائے… میں نے مثال آپ کے سامنے رمضان کی رکھی… اب میں نے مثال آپ کے سامنے قربانی کی دی… کہ شیطان کہے گا قربانی نہ دو اور خناس کہے گا کہ قربانی تو دو لیکن خاندان کی طرف سے ایک دے… تاکہ باقی سب کی چھٹی ہوجائے… میں نے کہا ظالم پھر گائے کا کیا قصور ہے… اگر اس بات کو مان لیا جائے پھر اونٹ کا کیا قصور ہے…میں نے کہا اگر ایک بکری پورے گھر والوں کی طرف سے کافی ہے… تو ایک گائے پورے محلے والوں کی طرف سے کافی ہو… اور ایک اونٹ پوری بستی والوں کی طرف سے کافی ہوتا… اگر قیامت کو اللہ کی عدالت میں اونٹ نے کیس دائر کرد یا…کہ اے اللہ بکری پورے خاندان کی طرف سے اور میں اونٹ صرف دس آدمیوں کی طرف سے تو بتاؤ اس اونٹ کو اللہ کی عدالت میں کیا جواب دو گے… تم نے جو اتنابڑا جھوٹ بولا پھر کہتا ہے جی نہیں ایک بکری سب کی طرف سے نمبردو کہتا ہے بھینس کی قربانی نہیں یہاں سے برباد کر گیا۔
کہتا ہے اونٹ میں دس حصے ہیں… اونٹ کو برباد کر گیاکہتا ہے اس میں قادیانی شریک ہو جائے تب بھی قربانی ہو جائے گی اس کو ذبح کر گیا… اگر تمہارے پاس نہ ہوتو مرغ ذبح کر دو… اگر مرغ نہ ہو تو انڈہ دے دو… توقربانی ہو گی… تواس نے اس انداز میں قربانی کو پیش کیا… کہ شیطان کہے گا قربانی نہ دو خناس کہے گا قربانی دو مگر اس انداز میں دو کہ قربانی بھی دو مگر اجر نہ ملے… تو وہی محنت شیطان کی وہی محنت خناس کی
اس کے بعد سوالات وجوابات کی نشست ہوئی جس میں عوام الناس نے درج ذیل سوالات کیے اور حضرت متکلم اسلام نے ان کے علمی وتحقیقی جوابات ارشاد فرمائے افادہ عام کی غرض سے ان کو یہاں لکھا جاتا ہے۔
سوالات کے جوابات :
سوال :
کیا خناس انڈے کی کھال لے لیتے ہیں اس کے بارے میں کوئی مشاہدہ ہے تو بیان فرمائیں… ؟
جواب :
مشاہدہ تو میرا نہیں آپ کا تجربہ ہے اور آپ نے تو کھالیں دی ہونگی کتنے لوگ ہیں جنہوں نے اس خناس کو کھال دی ہو گی… تومیرا مشاہدہ آپ کا تجربہ اور تجربے کا درجہ مشاہدہ سے بلند ہوتا ہے۔
سوال:
غیر مقلد حنفیوں کی مسجد میں دوسری جماعت کرواتے ہیں کیا کیا جائے ؟
جواب :
ان کو روک دیا جائے۔
سوال :
غیر مقلد کو اونٹ کی قربانی میں شامل کرنا کیسا ہے…؟
جواب:
ہم کہتے ہیں اونٹ کجا اس کو کسی بڑے جانور مثلا گائے بھینس میں بھی شامل نہیں کرنا چاہیے۔
سوال:
ڈاڑھی منڈانے والے کی اذان یا اقامت کا کیا حکم ہے…؟
جواب :
مکروہ ہے… کہ داڑھی منڈااذان بھی نہ دے اور اقامت بھی نہ کہے۔ بلکہ اصل مسئلہ تو یہ ہے کہ جو داڑھی منڈاتا ہے یاکترواتا ہے پہلی صف میں کھڑاہی نہ ہو… وہ تھوڑا سا پیچھے کھڑا ہو دیکھیں اس میں ناراض ہونے والی کیا بات ہے… یہ مسجد کا معاملہ شریعت کا معاملہ ہے… اگر شوق ہے تو پھر بسم اللہ پڑھ کے رکھ لو۔
سوال :
مغرب کے بعد والی سنتوں کو نماز سے پہلے پڑھنے کا کیا حکم ہے…؟
جواب :
کوئی بھی نماز کی سنت جو بعد والی ہے اس کو پہلے پڑھو گے تو اداء نہیں ہو گی… اور یہ مغرب سے پہلے سنت امام بخاری رحمہ اللہ نے لکھا ہے حضرت عبد اللہ المزنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ صحابی رسول کے حوالے سے کہ اس کو سنت سمجھنا مکروہ ہے… صحابی کہہ رہا ہے کہ سنت سمجھنا مکروہ ہے… اور یہ کہہ رہا ہے سنت ہے۔
سوال:
غیر مقلد کو جہاد کے لئے قربانی کی کھالیں دینا کیسا ہے…؟
جواب:
ارے قربانی کی کھالیں اس کو دو جو جہاد کرتا تو ہو… اس نے جہاد کے نام پر پورے ملک میں اڈے بنا کے تمہارے خلاف فتویٰ کی مشین چلا دی ہے… غیر مقلدیت کا بانی تھا عبد الحق بنارسی پہلا غیر مقلد اور عبد الحق وہ تھا جو سید احمد شہیدرحمہ اللہ کی فوج میں تھا اور وہاں سے دوڑ گیا… تو یہ جہاد کے بھگوڑے ہیں… ان سے جا کر پوچھو کہ کشمیر کے نام پر تمہیں ماہانہ کتنا فنڈ ملتاہے… یہ ایک مستقل بحث ہے تو یہ جہاد نہیں کرتے… جہاد کے نام پر چندہ بٹو ر کر ہمارے عقیدے برباد کرتے ہیں۔
سوال :
نماز سے قبل زور سے سلام کرنا کیسا ہے جب کہ اکثر نمازی سنن اور اذکار میں مصروف ہوتے ہیں… ؟
جواب :
جب مسجد میں تشریف لائیں تو سلام نہ کہیں… اپنی عبادت میں مصروف ہو جائیں… آدمی کھانا کھا رہا ہو تو اس کو سلام نہیں کرنا چاہیے… توجوعبادت میں ہو اس کو سلام کرنے کا معنی کیا… مسجد میں لوگ اپنی اپنی عبادت کے اندر مصروف ہوتے ہیں اس لئے ان کو سلام کر کے اپنی طرف متوجہ کرنا ٹھیک نہیں… اگر اذان ہو رہی ہو تو اس کا جواب دینا سنت ہے… لیکن اس آدمی کے لئے جو مسجد سے باہر ہو… جو آدمی مسجد میں موجود ہو تلاوت میں مشغول ہو… اس کے لئے اذان کا جواب نہیں ہے… اذان کے جواب کا معنی تھا لبیک وہ تو پہلے آچکا… تو اذان کا جواب دینا ٹھیک نہیں ہے تو اس کو سلام کرنا کیسے جائز ہے… بلکہ مسئلہ تو یہاں تک ہے کہ نماز کی انتظار کرنا نماز ہے تو جس طرح نمازی کوسلام کرنا ٹھیک نہیں اس طرح منتظر صلوٰۃ کو بھی سلام کرنا ٹھیک نہیں… ایک آدمی تلاوت کر رہا ہے نماز پڑھ رہا ہے عبادت میں لگا ہے اس کو لگا رہنے دو۔
سوال :
عقیدہ حیات النبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دشمن مماتی کوشامل کرنا کیسا ہے…؟
جواب:
ان کو دور ہی رکھو بد عقیدہ آدمی کو اپنی قربانی میں شامل نہ کرو اپنی قربانیاں بھی خالص رکھو… اللہ ہم سب کو خالص عبادت کرنے کی توفیق عطاء فرمائے آمین