ہم سنی حنفی کیوں ؟

User Rating: 5 / 5

Star ActiveStar ActiveStar ActiveStar ActiveStar Active
 
ہم سنی حنفی کیوں ؟
لاہور
خطبہ مسنونہ
الحمد للہ نحمدہ ونستعینہ ونستغفرہ ونؤمن بہ ونتوکل علیہ ونعوذ باللہ من شرور انفسنا ومن سیئات اعمالنا من یھدہ اللہ فلا مضللہ ومن یضلل فلا ھادی لہ ونشھد ان لا الہ الا اللہ وحدہ لا شریک لہ ونشھد ان سیدنا ومولٰنا محمدا عبدہ ورسولہ فاعوذ باللہ من الشیطٰن الرجیم بسم اللہ الرحمن الرحیم وَمَا آتَاكُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوهُ وَمَا نَهَاكُمْ عَنْهُ فَانْتَهُوا۔
پ28 سورةالحشرآیت نمبر7
عَنْ عِرْبَاضَ بْنَ سَارِيَةَ رَضِىَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَإِنَّهُ مَنْ يَعِشْ مِنْكُمْ بَعْدِى فَسَيَرَى اخْتِلاَفًا كَثِيرًا فَعَلَيْكُمْ بِسُنَّتِى وَسُنَّةِ الْخُلَفَاءِ الْمَهْدِيِّينَ الرَّاشِدِينَ تَمَسَّكُوا بِهَا وَعَضُّوا عَلَيْهَا بِالنَّوَاجِذِ وَإِيَّاكُمْ وَمُحْدَثَاتِ الأُمُورِ فَإِنَّ كُلَّ مُحْدَثَةٍ بِدْعَةٌ وَكُلَّ بِدْعَةٍ ضَلاَلَة۔
ابوداودج2 ص287 رقم الحدیث 4609
عَنْ ابْنِ عُمَرَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ إِنَّ اللَّهَ لَا يَجْمَعُ أُمَّتِي أَوْ قَالَ أُمَّةَ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى ضَلَالَةٍ۔
ترمذی ج2 ص39
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْمُتَمَسِّكُ بِسُنَّتِي عِنْدَ فَسَادِ أُمَّتِي لَهُ أَجْرُ شَهِيدٍ۔
معجم کبیر طبرانی رقم الحدیث 1320
عن علي قال قلت: يا رسول الله إن نزل بنا أمر ليس فيه بيان أمر ولا نهي فما تأمرنا قال تشاورون الفقهاء والعابدين۔
معجم اوسط ج1 ص172
درود شریف:
اللھم صل علیٰ محمد وعلیٰ آل محمد کما صلیت علیٰ ابراھیم وعلیٰ آل ابراھیم انک حمید مجید اللھم بارک علیٰ محمد وعلیٰ آل محمد کما بارکت علیٰ ابراھیم وعلیٰ آل ابراھیم انک حمید مجید۔
تمہید:
نہایت واجب الاحترام بزرگو! مسلک اہل السنت والجماعت سے تعلق رکھنے والے غیور نوجوان دوستو اور بھائیو! ہماری آج کی کانفرنس کا عنوان ہے ”سنی حنفی نظریاتی کانفرنس “یوں سمجھیں کہ ہماری آج کی اس کانفرنس کے تین لفظ ہیں۔
1: سنی 2: حنفی 3:نظریاتی
تینوں لفظوں کا معنیٰ سمجھیں گے تو کانفرنس سمجھ آئے گی آپ حضرات ذرا توجہ فرمائیں سنی ،حنفی ، نظریاتی۔ سُنی ”سُن“سے نہیں ہے بلکہ سنی ”سنت“سے ہے۔ سُن کا معنی ہوتا ہے بے حس ہونا اور سنت کا معنی ہوتا ہے بیدار رہنا آپ میرے لفظوں کو ابھی سمجھے نہیں۔
سنت کسے کہتے ہیں؟:
سن کا معنی ہے بے حس ہونا اور سنت کا معنی ہے بیدار ہونا جس نبی کی سنت پر ہم عمل کرتے ہیں وہ سوجائے تب بھی جاگتا ہے اور جاگ جائے تب بھی جاگتا ہے کیوں ؟ نبی سوجائے تو آنکھ سوتی ہے نبی کا دل نہیں سوتا اس لیے سنت کا معنی ہے ”بیداری“ہے اور سن کا معنی ”بے حسی“ہے۔ جس پیغمبر کا ہم نے کلمہ پڑھا وہ پیغمبر سوجائے تب بھی بیدار اور وہ جاگ جائے تب بھی بیدار… دل تب بھی بیدار رہتا ہے۔
ہم سوجائیں تو وضو ٹوٹ جاتا ہے اور پیغمبر سوئے تو وضونہیں ٹوٹتا ،ہم جاگتے ہوئے کوئی بات دیکھیں تو غلطی ہوسکتی ہے اور پیغمبر سوکر بھی دیکھے تو بھی غلطی نہیں ہوتی ، ہم جاگ کر بھی دیکھیں تو آنکھ کو غلطی لگتی ہے ہم جاگ کر بھی سنیں تو کان کو غلطی لگتی ہے پیغمبر سوکر بھی سنے تو غلطی نہیں لگتی، پیغمبر سوکر بھی دیکھے تو غلطی نہیں لگتی، ہمارے جاگنے کا اعتبار نہیں اور نبی کے سونے کا بھی اعتبار ہے (سبحان اللہ )۔ ہم جاگیں تو بھی دلیل نہیں بنتی اور پیغمبر سوجائے تب بھی دلیل بنتی ہے اس لیے نبی کا خواب وحی ہوتا ہے۔
بخاری ج1 ص 52، رقم الحدیث 1147
اور نبی کا خواب حجت ہوتا ہے۔ نبی کے خواب کو رد نہیں کیا جاتا، نبی کے خواب کو ٹالا نہیں جاتا، تو میں نے اس لیے عرض کیا سنی سُن سے نہیں ہے سنی سنت سے ہے اور بیداری کا نام سنت ہے سوجانے کا نام اور بے حسی کا نام سنت نہیں ہے۔
سنیت اور حنفیت:
سنی کے لفظ میں ایک پیغام درج ہے اور حنفی کے لفظ میں ایک پیغام درج ہے یہ دو چیزیں سمجھیں: سنیت اور حنفیت پھر ختم نبوت سمجھ آتی ہے اور اگر دونوں کو نہ ملائیں تو ختم نبوت سمجھ نہیں آتی۔ اب سمجھیں اگر محض سنت پر غور کریں تو نبوت سمجھ آتی ہے ختم نبوت سمجھ نہیں آتی اور اگر سنیت کے ساتھ حنفیت کو ملائیں تو نبوت بھی سمجھ آتی ہے اور ختم نبوت بھی سمجھ آتی ہے۔ (سبحان اللہ
جہاں کے سارے کمالات تجھ میں ہیں:
میں تھوڑی سی اور بات پھیلاتا ہوں تاکہ بات سمجھ آئے حضرت آدم علیہ السلام سے حضرت عیسٰی علی نبینا علیہ الصلوة والسلام تک جس قدر انبیاءآئے ان انبیاءکو جس قدر معجزے چاہیے تھے اللہ نے اکھٹے دے دیے، کیوں ؟ اس لیے کہ

ان انبیاءکا دائرہ نبوت محدود تھا۔

ان انبیاءکے ماننے والے امتی محدود تھے۔

ان انبیاءکے مسائل محدود تھے۔
جتنے مسئلے چاہیے تھے اللہ نبی کو اتنے مسئلے دے دیتا تو ان کو نبوت کی ضرورت تھی اجتہاد کی ضرورت نہیں تھی۔
اجتہاد کی ضرورت:
اجتہاد تب ہوتا ہے جب نبی نہ ہو۔جب نبی ہو امت کو اجتہاد کی حاجت نہیں ہوتی، وہاں نبی گیا تو پھر اور نبی آیا، وہ نبی گیا تو پھراور نبی آیا نبی گیا تو پھر نبی آگیا نبوت کا دروازہ کھلاتھا اجتہاد کا دروازہ نہیں کھولا، جتنے مسئلے چاہیے تھے اللہ تعالی ٰ نے سارے دے دیے۔

ہمارے پیغمبر کی نبوت غیر محدود ہے۔

ہمارے پیغمبر کے امتی غیر محدود ہیں۔

ہمارے پیغمبر کے مسائل غیر محدود ہیں۔
توجہ !!

غیر محدود مسئلے محدود کتاب میں نہیں آتے۔

غیر محدود مسئلے محدود قلم میں نہیں آتے۔

غیر محدود مسئلے محدود پریس میں نہیں آتے۔

غیر محدود مسئلے محدود لائبریری میں نہیں آتے۔

غیر محدود علم کو محدود سینہ محفوظ نہیں کرسکتا۔
پہلے نبی کی نبوت محدود تھی دائرہ نبوت محدود تھا ،نبی کی امت محدود تھی نبی کے مسائل محدود تھے ،نبی کو رب نے نبوت دی ہے نبی نے امت کو مسئلے دیے امت نے مسئلے یاد کرلیے نبی دوسرا آیا مسئلے بدل گئے نبی تیسرا آیا مسئلے بدل گئے حاجت مسئلے کی پیش آتی رب نبی بھیج دیتا۔
لامکان و لازوال نبوت:
ہمارے نبی کی نبوت غیر محدود ہے ہمارے نبی کی نبوت لامکان ہے ہمارے نبی کی نبوت لازمان ہے ہمارے نبی کی نبوت کے مسائل غیر محدود ہیں اگر اللہ غیر محدود مسئلے لکھ کر دیتا:

o

کون سی کتاب میں آتے ؟

o

اللہ لکھ کردیتا کون سی پریس اس کو چھاپ لیتی ؟

o

اللہ لکھ کر دیتے کس لائبریری میں آتے؟

o

اس کے حافظ کون ہوتے ؟
سنت اور اجتہاد … دو عظیم نعمتیں:
اللہ نے امت کو دوچیزیں دی ہیں:

ایک پیغمبر کی نبوت کے صدقے اللہ نے سنت دی ہے۔

ختم نبوت کے صدقے اللہ نے امت کو اجتہاد دیا ہے۔
اللہ نے نبوت کے صدقے امت کو ”سنت“ دی ہے ختم نبوت کے صدقے ”اجتہاد“دیا ہے۔ (نہیں سمجھے؟) اللہ نے ہمارے نبی کو نبوت دی ہے پھر ہمارے نبی کو ختم نبوت دی ہے۔
نبوت اور ختم نبوت میں فرق:
نبوت اور ختم نبوت میں کیا فرق ہے؟ میں کہتا ہوں آدم علیہ السلام سے عیسیٰ علیہ السلام تک یہ نبی ہیں اور ہمارے پیغمبر یہ خاتم الانبیاءہیں۔ نبی اور خاتم الانبیاء میں نبی اورختم نبوت میں فرق کیا ہے ؟نبی جامع ہوتا ہے خاتم الانبیاءمنبع ہوتا ہے (سبحان اللہ) نبی جامع اور خاتم الانبیاء منبع۔ جامع اور منبع میں کیا فرق ہے ؟ اگر تمہیں پانی چاہیے یا تالاب پہ جاؤ گے یا چشمہ پر جاؤگے۔ تالاب اور چشمے میں فرق یہ ہے کہ تالاب میں پانی جمع ہوتا ہے چشمے سے پانی پھوٹتا ہے باقی انبیاءعلیہم السلام میں اوصاف جمع تھے محمد مصطفی سے اوصاف پھوٹتے تھے۔ (سبحان اللہ)پہلے انبیاء میں اوصاف جمع تھے ہمارے نبی سے اوصاف پھوٹے تھے پہلے نبی تھے یہ خاتم الانبیاءتھے۔ پہلے نبوت تھی یہ ختم نبوت تھی کیا معنی ؟نبوت اوصاف کا اعلیٰ درجہ ہے۔

صداقت آئی اعلیٰ درجہ نبوت ہے۔

عدالت آئی اعلی ٰدرجہ نبوت ہے۔

شجاعت آئی اعلیٰ درجہ نبوت ہے۔

سخاوت آئی اعلیٰ درجہ نبوت ہے۔

دیانت آئی اعلیٰ درجہ نبوت ہے۔
آپ کہوگے:

رب نے دیانت کو نبوت پہ ختم کردیا۔

رب نے صداقت کو نبوت پہ ختم کردیا۔

رب نے شجاعت کو نبوت پہ ختم کردیا۔

رب نے عدالت کو نبوت پر ختم کردیا۔

رب نے سخاوت پر نبوت کو ختم کردیا
پھر مجھےکہنے دے: رب نے شجاعت کو نبوت پہ ختم کیا نبوت کو ختم نبوت پہ ختم کیا۔ نبوت کو کس پہ ختم کیا ؟ ختم نبوت پر اور ختم نبوت کو ہمارے نبی پر ختم کردیا۔
تو پہلے نبی جامع اورہمارے نبی منبع تھے۔ اب میں بات کہتا ہوں رب نے نبی کے صدقے ہمیں سنت دی ہے اور ختم نبوت کے صدقے ہمیں اجتہاد دیا ہے پہلے نبیوں کو رب نے کیا دی؟ نبوت اور ہمارے نبی کو کیا دی؟ ختم نبوت۔
اجتہاد؛ امت محمدیہ کا خاص تحفہ:
دونوں میں فرق سمجھو: میں کہتا ہوں سنیت یہ نام ہے نبوت کا اور حنفیت نام ہے ختم نبوت کا۔ سنی کے لفظ سے نبوت سمجھ آتی ہے اور جب سنی کے ساتھ حنفی ملاؤ تو پھر ختم نبوت سمجھ آتی ہے، کیا مطلب ؟ اب پھر بات سمجھو نبی آیا تو مسئلے لے کر آیا پھر مسئلہ پیش آیا تو نبی آگیا ہمارے نبی آئے دنیا چھوڑگئے مسئلہ پیش آئے گا اب نبی نہیں آئے گا مسئلہ پیش آگیا اس کا حل چاہیے تھا مسئلہ اگر پیش آتا اور حل نہ ملتا تو لوگ کہتے نبی نے دین ناقص دیا لوگ کہتے نبی نے دین کامل نہیں دیا اعتراض پیغمبر پہ ہوتا تو رب نے فرمایا میں نے نبی کو اٹھالیا نبوت کا دروازہ بندکردیا۔ میں نے اجتہاد کا دروازہ کھول دیا اجتہاد رب نےاس لیے دیا کہ امت میں نبوت نہیں تھی نبوت کے دروازے کو بند کیا اجتہاد کے دروازے کو کھول دیا۔ یہی وجہ ہے کہ امام قرطبی الجامع لاحکام القرآن میں ”وتفصیلاً لکل شیئ“سورۃ الاعراف آیت نمبر 145کے تحت لکھتے ہیں
:”لم يكن عندهم اجتهاد “پہلی امت میں اجتہا د نہیں تھا ”وإنما خص بذلك أمة محمد صلى الله عليه “
اس امت کی خصوصیت یہ ہے رب نے اس امت کو اجتہاد دیا پہلی امت میں اجتہاد نہیں تھا۔
الجامع لاحکام القرآن ج 7 ص281
پہلی امت میں نبوت تھی تو پھر مجھے کہنے دیجیئے ! کہ جب حق آیا تو باطل آیا جب حق آئے تو باطل آتا ہے ا ب حق کے مقابلے میں باطل ہوگا۔

پہلے حق تھا نبوت تو مقابلہ میں جوباطل تھا وہ منکر نبوت تھا۔

جب حق آیا نبوت کی صورت میں تو باطل آیا منکرنبوت کی صورت میں۔

حق آیا اجتہاد کی صورت میں تو باطل آیا منکر اجتہاد کی صورت میں۔
پہلے حق کون تھا ؟ نبوت اور باطل؟ منکر نبوت۔ اب حق کیا ہے؟ اجتہاد تو باطل کون ہوگا منکر اجتہاد۔ تو بات آسان ہوگئی ناں۔ اللہ کے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بڑی معروف حدیث ہے آپ نے سنی ہوگی حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما اس حدیث کے راوی ہیں، اللہ کے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ لوگو ایک بات کو یاد رکھ لو حدیث لمبی ہے میں اس میں سے ایک مقصد کی بات عرض کرتا ہوں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
”وإن بني إسرائيل تفرقت على ثنتين وسبعين ملة وتفترق أمتي على ثلاث وسبعين ملة “
ترمذی ج2 ص93رقم الحدیث 2641
پہلی امت میں بہتر فرقے تھے میری امت میں تہتر فرقے ہوں گے۔
73واں فرقہ کون ؟
تہترواں کون ساہے ؟تہتر میں سے ایک جنت میں جائے گا باقی جہنم میں جائیں گے یہ بات تو ٹھیک ہے لیکن پہلے ہوئے 72 اب ہوئے 73 یہ73واں کیوں ہوا ؟
جواب:
اس کا جواب دیا ہے علامہ قرطبی رحمہ اللہ نے
” وَأَنَّ هَذَا صِرَاطِي مُسْتَقِيمًا فَاتَّبِعُوهُ “
پ 8 سورۃ الانعام آیت ،153
اس آیت کے تحت علامہ قرطبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ جو فرقہ بڑھا اس امت میں ایک نعمت بھی بڑھی ہے تو نعمت کا منکر فرقہ بڑھا وہ نعمت کون سی بڑھی؟ علامہ قرطبی فرماتے ہیں ”ان ھذہ الفرقة الذی زادت فی فرق امت محمد صلی اللہ علیہ وسلم“بنی اسرائیل میں جوفرقہ نہیں تھا اس امت میں بڑھا کون ساہے؟ علامہ قرطبی فرماتے ہیں”قال بعض العارفین:الذین یعادون العلماءویبغضون الفقہاء“جو عالم سے دشمنی رکھے اور فقیہ سے بغض رکھے یہ 73واں فرقہ ہے کیوں ؟ کہ پہلے نبی تھا نبی کا وارث عالم نہیں تھا کیوں حاجت جونہیں تھی نبی گیا تو ایک نبی آگیا:

اب نبی نہیں ہوگا مجتہد ہوگا۔

نبی نہیں ہوگا فقیہ ہوگا۔

نبی نہیں ہوگا عالم ہوگا۔

پہلے نبی تھے تو دشمن نبوت کے۔

اب عالم ہوگا دشمن علم کا۔

اب فقیہ ہوگا دشمن فقاہت کا۔

اب مجتہد ہوگا دشمن اجتہاد کا۔
علامہ قرطبی فرماتے ہیں پہلے نبوت تھی تو بہتر فرقے موجود، پہلے عموما نبوت تھی تو دشمن نبوت کے تھے ایک نعمت بڑھی اجتہاد کی اس دورکا تہترواں فرقہ وہ ہے جو دشمن مجتہد کا ہو اب وہ ہے جو دشمن فقہ کا ہو۔
اب تو سمجھنے میں حاجت نہیں ہے کہ 73واں کون سا ہوگا؟ لوگ پوچھتے ہیں بھائی کہ تہترواں کیہڑا اے؟اب سمجھ آئی یہ مجھے بتانے کی حاجت نہیں ہے وہ تہترواں کون سا ہے ؟

جو اجتہاد کادشمن ہو تہترواں فرقہ۔

جو فقہ کا دشمن ہو تہترواں فرقہ۔

جو فقہ کا دشمن ہو تہترواں فرقہ۔
بات سمجھو میں سمجھا رہاتھا ایک ہے سنی اور ایک ہے حنفی۔ سنت ملی ہمیں نبوت سے اور حنفیت ملی ہمیں ختم نبوت سے۔ اگر پیغمبر آخری نبی نہ ہوتے نبی کے بعد اور نبی ہوتے ہم بات صرف سنت کی کرتے ہم بات حنفیت کی نہ کرتے لیکن جب اللہ نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو آخری نبی بنادیا اورمسائل کے حل کے لیے امت کو مجتہد دے دیے تو پھر ہمیں ماننا پڑا ہم نے نبی کے مسئلے مانے سنت سمجھ کے۔ ہم نے مجتہد کے مسئلے مانے اجتہاد سمجھ کے۔
مکہ مدینہ اور برطانیہ
آج لوگوں نے دھوکا دیا لوگوں نے مجتہد کے مسئلوں کو نبی کا مسئلہ بنا لیا۔ لاہور کے مسلمانو !ذہن نشین کرلو میں ایک علمی نکتہ عرض کرنے لگاہوں اگر یہ نکتہ سمجھ آگیا یہ بحث ختم ہوجائے گی۔ جو لوگ کہتے ہیں ارے مکے والا رفع الیدین کرتا ہے مدینے والا رفع الیدین کرتا ہے۔ ارے مکے اور مدینے والا آمین بالجہر کرتا ہے یہ تمہیں دھوکا دینے کے لیے یہ غیر مقلد بھی کہتا ہے کہ جی مکے والا رفع یدین میرے پاس مدینے والا رفع یدین موجود ہے مکہ اور مدینہ والی میرے پاس اونچی آمین موجود ہے میں کہتا ہوں نہیں! نہیں! وہاں اگرچہ رفع الیدین موجود ہے لیکن تیرا مکہ اور مدینہ والا نہیں ہے تو برطانیہ والا رفع الیدین کرتا ہے جوتیرے پاس موجود ہے توبرطانیہ والا ارے مدنیےوالے کا مؤقف اور ہے برطانیہ کا مؤقف اور ہے اگر مؤقف مکہ اور مدینہ والا تو توں مکہ اور مدینہ والا ہوگا اگر نظریہ تیرا برطانیہ والا تو توں برطانیہ والا ہوگا۔
فیصلہ کون کرے گا؟:
مجھے ایک بات کہنے دیجیئے۔ اگر حدیثیں دو آجائیں فیصلہ نبی کردے تو فیصلہ نبی کا ہوگا اگر حدیثیں دوآجائیں فیصلہ نبی نہ کرے فیصلہ فقیہ کرے تو مسئلہ اجتہاد کا ہوگا میں مانتا ہو ں پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم نے آمین اونچی آواز سے کہی ہے لیکن میں یہ بھی مانتا ہوں پیغمبر نے آمین آہستہ بھی پڑھی ہے۔ تو جامع ترمذی اٹھاکے دیکھ لے تجھے دونوں روایتیں مل جائیں گی دونوں کا راوی وائل بن حجر رضی اللہ عنہ صحابی رسول ہوگا وہی صحابی کہتا ہے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم نے ولاالضآلین پڑھا آمین کہی ومد بھا صوتہ اونچی آواز سے آمین فرمائی وہی صحابی کہتا ہے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم نے ولا الضآلین پڑھا پھر آمین کہی وخفض بھا صوتہ آمین کو آہستہ کہا۔
ترمذی ج 1ص 58
نبی نے اونچی آواز سے بھی آمین پڑھی ہے نبی نے آہستہ آواز سے بھی آمین پڑھی ہے فیصلہ نبی نے نہیں کیا اگر دوحدیثیں آجائیں فیصلہ نبی کردے مسئلہ حدیث کا ہوگا مسئلہ نبوت کاہوگا اگر حدیثیں دوآجائیں ،فیصلہ پیغمبر کردے تو مسئلہ سنت کا ہوگا اگر فیصلہ نبی نہ کرے تو مسئلہ مجتہد کا ہوگا۔
اس کی میں مثال دیتا ہوں اللہ کے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا قبرستان میں نہ جاؤ قبروں کی زیارت نہ کرنا قبور پہ نہ جانا نبی نے منع کردیا۔ ایک وقت پھر آیا اللہ کے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم قبور پہ جاؤ تم زیارت کرو
” اَلسَّلَامُ عَلَيْكُمْ يَا أَهْلَ اَلْقُبُور“
کہا کرو اللہ کے پیغمبر آپ نے تو منع کیا ہے فرمایا
” كُنْتُ نَهَيْتُكُمْ عَنْ زِيَارَةِ الْقُبُورِ فَزُورُوهَا“
ترمذی ج 1 ص 203 باب مایقول الرجل اذا دخل المقابر
پہلے میں نے منع کیا تھا اب میں تمہیں اجازت دیتا ہوں تو منع کرنے کی حدیث بھی موجود ہے اجازت کی حدیث بھی موجود ہے۔ فیصلہ نبی نے کیا تھا اب ہم کہہ سکتے ہیں کہ زیارت قبور کا مسئلہ یہ نبی کا مسئلہ ہے زیارت قبور کا مسئلہ حدیث کا مسئلہ ہے اللہ کے پیغمبر مدینہ میں آئے فرمایا کتوں کو قتل کردو کتا کوئی نہیں ہونا چاہیے پھر اللہ کے نبی نے فرمایا! نہیں جو کتا رکھوالی کے لیے ہو تم رکھ سکتے ہو شکار کا کتا ہو تم رکھ سکتے ہو۔
مسلم جز1 ص235
تو ایک حدیث آگئی منع کرنے کی ایک حدیث آگئی اجازت کی فیصلہ پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا ناں۔ اگر حدیثیں دو آجائیں فیصلہ نبی کرے تو مسئلہ نبوت کا اگر حدیثیں دوآجائیں فیصلہ نبی نہ کرے تو فیصلہ مجتہد کرے مسئلہ اجتہاد کا۔ اب حدیثیں دو آگئی نبی نے آمین اونچی آواز سے بھی پڑھی، نبی نے آمین آہستہ آواز سے بھی کہی۔ ہم کیسے پڑھیں آہستہ یا اونچی آواز سے؟
اگر پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم یہ بات فرمادیتے کہ میں نے آمین آہستہ آواز میں کہا تھا اب تم اونچی آواز سے کہنا تو فیصلہ نبی کا ہوتا اگر پیغمبر فرمادیتے میں نے نماز میں آمین اونچی آواز سے پڑھی اب تم آہستہ پڑھنا تو فیصلہ نبی کا ہوتا۔ نبی نے آہستہ بھی پڑھی نبی نے اونچی بھی پڑھی مگر فیصلہ نبی نے نہیں کیا یہ فیصلہ کرتا ہے وائل بن حجر پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کا صحابی۔ فرماتے ہیں پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم نے آمین اونچی آواز سے پڑھی ہے، نبی نے آہستہ بھی پڑھی ہے۔ پوچھو کیوں پڑھی ؟ حضرت وائل بن حجر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں آہستہ پڑھنا پیغمبر کی عادت تھی اونچی آواز سے پیغمبر نے پڑھا۔
”مااراہ الا یعلمنا “
الکنیٰ والاسماء للدولابی جز 4 ص79
ہمیں سکھانے کے لیے کیو ں پیغمبر نے فاتحہ پڑھی ہے اونچی آواز سے پڑھی ہے پھر پیغمبر نے قرآن پڑھا اونچی آواز سے پڑھا درمیان میں نبی چپ تھے صحابہ کو معلوم نہیں کیا پڑھنا ہے؟ نبی نے آمین اونچی آواز ایک بار کہہ دی دوبار کہہ دی تین بار کہہ دی تاکہ صحابہ کو پتہ چل جائے اس موقع پر آمین پڑھنی ہے۔ وائل بن حجر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں پیغمبر کی عادت نہیں تھی ہمیں سکھانے کے لیے پیغمبر نے اونچی آواز سے پڑھ دیا۔ ظہر کی نماز میں قرآن پیغمبر پڑھتے اور آہستہ پڑھتے کبھی کبھی اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ظہر کی نماز میں اونچی آواز سے پڑھتے یہ بتانے کے لیے کہ اس موقع پر یہ سورة پڑھنی چاہیے۔ نبی نے دونوں قسم کا عمل کیا مگر فیصلہ صحابی نے کیا اگر صحابی مجتہد تھا تو فیصلہ نبی کا نہیں ہے۔
اب مجھے کہنے دیجئے اگر ہم آمین کہتے ہیں آہستہ آواز سے ہم نے کہا فیصلہ ابوحنیفہ مجتہد کا ہے اگر مکہ والا کہتا ہے آمین اونچی آواز سے کہنی چاہیے وہ کہتا ہے یہ فیصلہ نبی کا نہیں فیصلہ امام احمد بن حنبل کا ہے۔ تو میں نے فیصلہ امام کا مانا اس نے فیصلہ امام کا مانا۔

وہ کہتا ہے آمین اونچی آواز سے فیصلہ امام احمد بن حنبل کا۔

میں کہتا ہوں آمین آہستہ آوا ز سے فیصلہ امام ابو حنیفہ کا۔

میں کہتا ہوں رفع یدین نہیں کرنا چاہیے فیصلہ امام ابو حنیفہ کا۔

وہ کہتا ہے رفع یدین کرنا چاہیے فیصلہ امام احمد بن حنبل کا۔
اگر فیصلہ نبی کرے تو مسئلہ نبوت کا اگر فیصلہ فقیہ کرے تو مسئلہ اجتہاد کا مگر غیر مقلد کہتا ہے آمین اونچی آواز سے کہے فیصلہ نبی کا رفع یدین کرے فیصلہ نبی کا تو جو مجتہد کے فیصلے کو نبی کا فیصلہ کہے وہ مکہ والا نہیں ہے وہ مدینہ والا نہیں ہے وہ برطانیہ والا ہے۔ اگر دوحدیثوں میں فیصلہ نبوت کرے تو مسئلہ نبوت کا اور اگر دو حدیثوں میں فیصلہ فقیہ کرے تو مسئلہ اجتہاد کا تو جو اجتہاد کے فیصلے کو نبی کا فیصلہ قراردے وہ گستاخ پیغمبر ہے کہ نہیں ؟ بولیں ( سامعین…..ہے) فیصلہ ہو مجتہد کا او کردے نبی کا فیصلہ، ہو فقیہ کا اور کہہ دے نبی کا فیصلہ ہو محدثین کا کہہ دے نبی کا۔
دنیائے غیر مقلدیت کوچیلنج:
آؤمیں چیلنج دے کرجاتا ہوں آؤتم ثابت کردونبی نے فیصلہ کیا تم آمین اونچی آواز سے پڑھا کرو !مذہب تیرا میں مان جاؤں گا ،نبی نے فیصلہ کیا ہو کہ رفع یدین کیا کرو مذہب تیرا میں مان جاؤں گا۔ لیکن اگر نبی کا فیصلہ نہ ہو:

مجتہد کے فیصلے کو نبی کا فیصلہ کرکے پیغمبر پہ جھوٹ مت بول۔

اگر فیصلہ نبی کا نہ ہو پھر فقیہ کے فیصلے کو نبی کا فیصلہ کرکے جھوٹ مت بول۔

اگر فیصلہ پیغمبر کا نہ ہو محدثین کے فیصلے کو نبوت کا فیصلہ کرکے جھوٹ مت بول۔
اب میں کہتا ہوں مکہ والا رفع یدین کرتا ہے وہ فیصلہ نبی کا نہیں کہا مجتہد کا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ تو مکہ چلا جا رفع یدین نہ کر وہ تجھ سے جھگڑتا نہیں ہے آمین اونچی آواز سے نہ کہہ وہ جھگڑتا نہیں ہے کیوں کہ وہ سمجھتا ہے ایک امام میرا ایک امام اس کا ہے ایک امام کو میں نے مانا ایک امام کو اس نے مانا ہے تو مکہ میں جا؛ وہ رفع یدین نہ کرنے پر نہیں لڑتا وہ آمین اونچی آواز سے کہنے پہ نہیں لڑتا۔ معلوم ہوا اس کا مذہب اور ہے تیر ا مذہب اور ہے ( بے شک) بات سمجھ آئی ؟ اس کا مذہب اور اور تیرا مذہب اور ہے یہ وہ باریک نکتہ ہے جو ہمیں سمجھ نہیں آتا ہم کہتے ہیں کہ یہ مکہ والے بھی تو کرتے ہیں مدینہ والے بھی توکرتے ہیں مکہ اور مدینہ والا کرتا ہے تو نبی کا فیصلہ سمجھ کر نہیں بلکہ مجتہد کا فیصلہ سمجھ کے کرتا ہے۔
ابھی کل کی بات ہے مولانا عبدالشکور حقانی دامت برکاتہم میرے ساتھ تھے ہم ایک جگہ پہ جارہے تھے تو ایک نوجوان کا فون آگیا ساہیوال سے مجھے کہتا ہے تو اہلحدیث ہوجا! میں نے کہا میں کیوں اہلحدیث ہوجاؤں ؟ کہتا ہے تو نبی کی سنت تے عمل کریں گا میں نے کہا کوئی سنت دکھا تو سہی کہتا ہے اے بخاری دی حدیث اے رفع یدین کرنا نبی دی سنت اے۔ میں نے کہا بخاری سے یہ تو ثابت کردے بخاری اِچ اے لکھیا ہووے کہ رفع یدین کرنا نبی دی سنت اے مذہب تیرا میں قبول کرلوں گا۔ کہتا ہے ساڈے کول آویں گا تے وکھا واں گے۔ میں نے کہا تو مشورے دے سکداں اے تے حدیث نہیں سناں سکدا؟ میں نے کہا سنا حدیث !چپ۔ کہندا اے ابوداؤد دی میں نے کہا تینوں ابوداؤد وچوں وی نہیں لبھنی۔
امت محمدیہ کے علماءکا مقام:
میں کہہ رہا ہوں بات کو سمجھو دجل سے کام لیا فراڈ اور دھوکے سے کام لیا فورا ًکہتا ہے مکہ مدینہ والے نہیں کرتے ؟ میں نے کہا مکے والے کام کریں تو سنت بنتی ہے مدینے والے جو کام کریں سنت بنتی ہے پھر وہ احمد بن حنبل کی تقلید کرتے ہیں توکہ دے تقلید سنت ہے (نہیں سمجھے) پھر تقلید کو سنت کہہ دے۔
میں بات کررہا تھا ایک ہے سنی اور ایک ہے حنفی۔ سنی یہ درس نبوت ہے اور حنفی یہ درس اجتہاد ہے نبی کو مانے اجتہاد ماننا پڑتا ہے لوگ کہیں گے ہم اجتہاد مانیں مجتہد تو بہت سے ہیں۔ ہم نے کہاایک ہے نبی ایک ہے ختم نبوت۔ ایک ہے نبی ایک ہے خاتم النبیین۔ نبی آئے تو ایک علاقہ میں ایک دوسرے میں دوسرا تیسرے میں تیسرا علاقہ بدلا نبی بدلا وقت بدلا نبی بدلا قوم بدلی نبی بدلا۔ خاتم النبیین نہیں بدلا:

قوم بدل جائے خاتم النبیین وہی رہتا ہے۔

زمان بدل جائے خاتم النبیین ایک رہتا ہے۔
اگر علاقہ بدلاہے نبی بدلاہے قوم بدلی ہے نبی بدلاہے۔ خاتم النبیین نہیں بدلا حتی کہ پیغمبر نے فرمایا
علماءامتی کانبیاءبنی اسرائیل
مرقاۃ المفاتیح شرح مشکاۃ المصابیح جز 17 ص424
میری امت کے علماءایسے ہیں جیسے بنی اسرئیل کے انبیاء۔
کیا معنی؟ وہاں ہر قوم کا نبی الگ ہوتا یہاں ہرقوم کا عالم الگ ہوتا ہرزمانے کا نبی الگ ہوتا ہر زمانے کا عالم الگ ہوتا۔ نبی کئی ہوتے ہیں خاتم النبیین ایک ہوتا ہے نبی کئی ہوتے ہیں تو نبی کے وارث علماءبھی کئی ہوتے ہیں۔ جس عالم کی چاہے بات مان لے مجھے کوئی جھگڑا نہیں ہے جس عالم کی چاہے بات مان۔ ہاں عالم متبع سنت ہو ہمیں کوئی اختلاف نہیں ہے امام اعظم یہ بھی عالم تھے مگر اعظم تھے امام مالک یہ بھی عالم تھے مگر اعظم نہیں تھے امام احمد بن حنبل یہ بھی عالم تھے مگر اعظم نہیں تھے اعظم کا مقام اللہ نے اس امت میں دیا ہےتو ابوحنیفہ کو دیا ہے میں کہتا ہوں ابوحنیفہ یہ امام اعظم ہیں پیغمبر کے صحابہ کے بعد اس امت کا سب سے بڑا عالم حضرت امام اعظم ابوحنیفہ ہیں ہم نے نبی کو مانا پیغمبر کی سنت کو بھی مانا۔
تقلید ابو حنیفہ کی کیوں ؟:
اجتہاد کی حاجت تھی مجتہد تو کئی تھے:

حضرت ابوبکر صدیق یہ بھی مجتہد تھے۔

عمر بن خطاب یہ بھی مجتہد تھے۔

عثمان بن عفان یہ بھی مجتہد تھے۔

علی بن ابی طالب یہ بھی مجتہد تھے۔

امیر معاویہ؛ یہ بھی مجتہد تھے۔

حضرت ابوہریرہ یہ بھی مجتہد تھے۔

حضرت انس یہ بھی مجتہد تھے۔

عبداللہ بن مسعود یہ بھی مجتہد تھے۔
ابوموسیٰ اشعری یہ سارے مجتہد تھے لوگ کہتے ہیں جب یہ سارے مجتہد تھے تو تقلید صحابہ کی کرنی چاہیے تم نے حنفی نام رکھا یہ درمیان میں تم نے چھوڑا کیوں ؟ میں نے کہا سنی یہ نبوت سے ملا ہے حنفی یہ اجتہاد سے ملاہے ایک ہیں اللہ کے پیغمبر یہ تو خاتم النبیین ہیں لیکن امام اعظم ابو حنیفہ یہ تو مجتہد ہیں درمیان میں صحابہ کدھر گئے ؟ تم نے صحابہ کے اجتہاد کو کیوں چھوڑا ؟
صحابہ کدھر گئے ؟:
لاہور کے مسلمانو توجہ رکھنا! تیرے نظریے کو صاف کرنے کے لیے ایک جملہ کہتا ہوں لوگ کہتے ہیں سنی تم نے پیغمبر کو مانا تم کہتے ہو حنفی ابوحنیفہ کے اجتہاد کو مانا صحابہ کدھر گئے ؟ پیغمبر کی سنت پیغمبر کا عمل جو پیغمبر امت کے لیے کرے پیغمبر کا عمل جو منسوخ نہ ہو پیغمبر کا عمل جوپیغمبر ہمیشہ کرے وہ سنت بنتا ہے۔ رب کعبہ کی قسم میرے پیغمبر کا عمل سنت بنتا ہے پیغمبر کے خلیفہ ابوبکر صدیق کا عمل سنت بنتا ہے، عمر کا عمل سنت بنتا ہے عثمان وعلی کا عمل یہ سنت بنتا ہے جس پر سارے صحابہ جمع ہوجائیں وہ سنت بنتاہے ابوحنیفہ کے عمل کا نام سنت نہیں ہے خلیفہ راشد کے عمل کا نام سنت ہے صحابی کے عمل کا نام سنت ہے اس لیے کہ خلیفہ راشد شاگرد پیغمبر کا۔ صحابی شاگرد پیغمبر کا خلیفہ فرماتاہے نبی سے سیکھ کے صحابی کہتا ہے پیغمبر سے سیکھ کے خلیفہ اول عمل کرتاہے پیغمبر کو دیکھ کے صحابی عمل کرتا ہے پیغمبر کو دیکھ کے۔ اس لیے خلیفہ عمل کرے گا وہ سنت ہوگا صحابی عمل کرے گا وہ سنت ہوگا۔ نہیں بات سمجھے ہم نے درمیان میں فاصلہ تو پیدا ہی نہیں کیا ناں لوگ یہی کہہ رہے تھے ارے تم سنی بھی ہو ، حنفی بھی ہو صحابہ کدھر گئے؟
قرآن اورحدیث تب ہیں جب ……:
ایک جملہ سنو میں کہتا ہوں یہی قرآن آسمان پہ موجود تھا یہی قرآن عرش پہ موجود تھا یہی قرآن لوح محفوظ میں موجود تھا مگر میں نے اور آپ نے قرآن تب مانا جب زبان پیغمبر سے نکلا۔ احادیث مبارکہ موجود تھیں ہم نے حدیث تب مانی جب صحابی رسول کی زبان سے نکلی ہیں۔ ہم نے سنت تب مانا جب صحابی کے عمل سے ہوکر آیا ہے۔ میں ایک بات کہتا ہوں اگرچہ قرآن عرش پہ موجود تھا ، قرآن لوح محفوظ پہ موجود تھا مگر ہم نے قرآن تب مانا جب پیغمبر نے قال اللہ تعالیٰ کہا اور صحابی نے قال رسول اللہ کہا ہم نے حدیث مانی ہے۔ میں کہتا ہوں قرآن؛ قرآن نہیں بنتا اگر نبوت کی زبان سے نہ نکلے۔ حدیث؛ حدیث رسول نہیں بنتی زبان صحابی سے نہ نکلے۔ عمل نہیں بنتا اگر صحابی سے ہوکر نہ آئے۔ قرآن وہی ہوگا جو پیغمبر پڑھ دے حدیث وہی ہوگی جو صحابی کہہ دے سنت وہی ہوگی جو صحابی نقل کردے۔
قرآن؛ قرآن تب بنتا ہے جب کون بولے ؟(سامعین ….نبی بولے) اور حدیث؛ حدیث تب بنتی ہے جب ؟ (سامعین ….صحابی بولے) میں کہتا ہوں قرآن تب بنتاہے جب پیغمبر بولے ،حدیث تب بنتی ہے جب صحابی بولے اور سنت میرے لیے تب بنتی ہے جب صحابی سے ہوکر آئے درمیان سے واسطہ کاٹ دے قرآن نہیں بنتا صحابی کا واسطہ چھوڑدے حدیث نہیں بنتی صحابی کے عمل کو چھوڑدے سنت نہیں بنتی اس لیے اللہ کے پیغمبر نے فرمایا
من یعش منکم بعدی فیسری اختلافا کثیرا میں محمد دنیا چھوڑ جاؤں گا اگر تم دین میں اختلاف دیکھو فعلیکم بسنتی وسنۃ الخلفاء الراشدین المھدیین میری سنت پہ عمل کرنا میرے خلیفہ راشد کی سنت پہ عمل کرنا تمسکوا بھا وعضوا علیھا بالنواجذ
پیغمبر نے سنتیں دو بیان کی نا۔ ایک اپنی سنت بیان کی اورایک خلیفہ راشد کی سنت بیان کی۔ پیغمبر کو فرمانا چاہیے تھا تمسکوا بھما پیغمبر کو فرمانا چاہیے تھا عضواعلیھما ایک سنت پیغمبر کی ایک سنت صحابی کی پیغمبر علیھما نہیں کہتا نبی دونہیں کہتا نبی ایک کہتا ہے دونوں کو ایک کہنا اس بات کی دلیل ہے خلیفہ راشد کی سنت نبوت سے الگ نہیں ہے صحابی کی سنت خلیفہ راشد سے الگ نہیں ہے۔

o

ابوبکرصدیق کرے وہ سنت ہے۔

o

عمر بن خطاب کرے وہ سنت ہے۔

o

عثمان بن عفان کرے وہ سنت ہے۔

o

علی بن ابی طالب کرے وہ سنت ہے۔
جو خلیفہ راشدکی سنت کوسنت نہیں مانتا وہ پیغمبر کی سنت نہیں مانتا پیغمبر نے اعتماد خلیفہ پہ کیا جو خلیفہ پہ اعتماد کرے گا اعتماد پیغمبر پرہوگا خلیفہ پر اعتماد نہیں کرے گا وہ اعتماد نبوت پہ نہیں ہوگا۔
سنت کی تعریف:
تو سنی میں خلیفہ راشد بھی ہے بولیں سنی میں خلیفہ ؟ ( سامعین …راشد بھی ہے) اب لوگ کہتے ہیں کلمہ نبی دا پڑھیا اے عمر دانہیں پڑھیا۔ میں کہتا ہوں بدبخت

جس نبی کا کلمہ پڑھا وہی ابو بکر کو امام بناتا ہے۔

جس نبی کا کلمہ پڑھا وہی عمر کو امام بنا کر گیا۔

جس نبی کا کلمہ پڑھا وہی عثمان کو امام بنا کر گیا۔

جس نبی کا کلمہ پڑھا وہی علی کو امام بنا کر گیا۔ جوان کو نہیں مانتا وہ پیغمبر کو نہیں مانتا۔
میں نے عرض کیا پہلا لفظ کیا ہے ؟( سامعین۔سنی ) سنی کا لفظ نہیں سمجھ آیا ؟ )سامعین … آگیا ( خلیفہ راشد کی سنت؛ سنت ہے کہ نہیں ؟ بولیں ( سامعین…ہے) اور جس پر سارے صحابہ جمع ہوجائیں سنت ہے کہ نہیں ؟ ( سامعین…. ہے) اگر خلیفہ راشد کا عمل سنت ہے اور جب صحابہ تائید کردیں اور صحابہ جمع ہوجائیں وہ عمل بھی سنت والا بنتا ہے۔ کیوں سنت کا معنیٰ کیا ہے میں ایک بات کہتا ہوں عربی ادب کو اٹھا کے دیکھ لے عربی ادب سے سنت کا معنی پوچھ !سنت کہتے ہیں
الطریقة المسلوکة المرضیة فی الدین
شریعت میں سنت کہتے ہیں اس راستے کو جس پہ چلا جائے اور پسندیدہ ہو۔ توجہ رکھنا المرضیہ کا لفظ سنت کے معنیٰ میں ہے اور صحابی کے عمل میں رضی اللہ عنہ کی نص موجود ہے۔ نہیں سمجھے؟ صحابی کے عمل میں رضی اللہ موجود ہے:

صحابی نماز پڑھے تو رضی اللہ۔

روزہ رکھے رضی اللہ۔

صحابی تراویح بیس پڑھے تو رضی اللہ تعالیٰ عنہ۔

صحابی خطبے دو دے تو رضی اللہ تعالیٰ عنہ۔

صحابی اذانیں دودے تو رضی اللہ تعالیٰ عنہ۔

صحابی تین طلاق کو تین کہہ دے تو رضی اللہ تعالیٰ عنہ۔
تو پھر مجھے کہنے دیجئے سنت کہتے ہیں
”الطریقة المسلوکة المرضیة فی الدین “
جو رضی اللہ وہ المرضیة جو پیغمبر کا طریقہ وہی صحابی کا طریقہ۔
بات سنو میں ایک اور جملہ کہتا ہوں رب نے صحابی کے بارے میں کہا فرمایا رضی اللہ عنہ اب ایک آیت اور پڑھو پھر سنت کا معنیٰ سمجھو اللہ نے صحابی کے بارے میں فرمایا رضی اللہ عنہ آگے فرمایا
یاایتھا النفس المطمئنة ارجعی الی ربک راضیة مرضیۃ۔
پ 30سورة الفجر
اللہ نے جس طرح صحابی کو رضی اللہ کہا جنت میں جانے والے کو مرضیہ کہا پیغمبر کی سنت کو مرضیہ کہا پھر مجھے کہنےد یجئے نبوت کے جانے کے بعد اللہ کی قسم اس امت کا پہلا طبقہ جنت میں جانے والا صحابی کا ہے رب کہتاہے ”راضیة مرضیۃ “مرضیہ اس جان کو کہتے ہیں جو جنت میں جانے والی ہو پیغمبر جائے گا جنت میں

ابوبکر پیغمبر کے ساتھ ہوگا۔

مرضیہ عمر پیغمبر کے ساتھ ہوگا۔

مرضیہ عثمان پیغمبرکے ساتھ ہوگا۔

مرضیہ علی پیغمبر کے ساتھ ہوگا۔

مرضیہ اور ابوحنیفہ صحابہ کے ساتھ ہوگا۔
مرضیہ یہ تو سب مرضیہ ہیں سنت کہتے ہی مرضیہ کو ہیں صحابی ہے ہی رضی اللہ جب ہم نے کہا ناں سنت پھر کہا ابوحنیفہ درمیان میں صحابی نکلے ؟ ( سامعین…نہیں ) نہیں نکلے نہ کیوں نہیں نکلے ؟ ایک بات اور سن ایک دلیل اور سن میں نے سنی کے بعد حنفی کہا تو درمیان میں صحابی نکلے نہیں ہیں کیوں سنت کے لفظ میں صحابی آئے۔
توجہ !!سنت کے لفظ میں صحابی آئے ہیں پیغمبر کے بعد ایک تھا مسئلہ نبوت کا وہ لفظ سنت سے حل ہوا سنت میں پیغمبر کا مسئلہ بھی آیا سنت میں خلیفہ راشد کا مسئلہ بھی آیا سنت میں صحابہ کا مسئلہ بھی آیا۔
اجتہاد کا مسئلہ:
اب رہ گیا اجتہاد کا مسئلہ۔

اجتہاد میں امام مالک نے بھی آناتھا۔

اجتہاد میں امام شافعی نے بھی آنا تھا۔

اجتہاد میں امام احمد بن حنبل نے بھی آنا تھا۔

اجتہاد میں امام اوزاعی نے بھی آنا تھا۔

اجتہاد میں امام داود ظاہری نے بھی آناتھا۔

اجتہاد میں امام بخاری نے بھی آناتھا۔
مگر ہم نے سنی کے بعد حنفی کو رکھا حنفی اس لیے رکھا کہ

o

امام ابوحنیفہ یہ وہ مجتہد ہے جس نے دیکھا عبداللہ بن انیس، پیغمبر کے صحابی کو۔

o

امام ابو حنیفہ یہ وہ مجتہد ہے جس نے دیکھا واثلہ بن اسقع ،پیغمبر کے صحابی کو۔

o

امام ابوحنیفہ یہ وہ مجتہد ہے جس نے د یکھاجابر بن عبداللہ، پیغمبرکے صحابی کو۔

o

امام ابوحنیفہ یہ وہ مجتہد ہے جس نے دیکھا انس بن مالک، پیغمبر کے صحابی کو۔

o

امام ابوحنیفہ یہ وہ مجتہد ہے جس نےدیکھا عبداللہ بن جز بن حارث الزبیدی صحابی رسول کو۔
پھر میں کہتا ہوں سنت ”سنی“سے پیغمبر کی سنت آئی اجتہاد نے تو آنا تھا ایک مجتہد وہ تھا جس نے دیکھا پیغمبر کے صحابہ کو دیکھا ایک مجتہد وہ ہے جس نے پیغمبر کے صحابہ کو نہیں دیکھا امام ابوحنیفہ یہ وہ مجتہد ہے جس نے تین قسم کے لوگوں کو دیکھا جس کے بارے میں پیغمبر نے فرمایا .حدیث موجود ہے
خَيْرُ أُمَّتِي قَرْنِي ثُمَّ الَّذِينَ يَلُونَهُمْ ثُمَّ الَّذِينَ يَلُونَهُمْ۔
مسند الطیالسی جز 1 ص 239
خَيْرُ أُمَّتِي قَرْنِي اللہ کے پیغمبر فرماتے ہیں تین قسم کے لوگ بڑے بہتر ہیں الذین یلونھم حضور نے فرمایا میرے صحابی یہ سب سے بہت
ر ثُمَّ الَّذِينَ يَلُونَهُمْ تابعین یہ سب سے بہتر ثُمَّ الَّذِينَ يَلُونَهُمْ
اتباع تابعین سب سے بہتر۔ صحابی وہ جو پیغمبر کی صحبت میں بیٹھے تابعی وہ جو صحابی کی صحبت میں بیٹھے عمل بھی کرے۔ تابعی کسے کہتے ہیں؟جو صحابی کی صحبت میں بیٹھے اور عمل بھی کرے۔
تابعیت کے لیے اتباع ضروری ہے:
یزید تابعی نہیں تھا آپ کیوں چپ ہوگئے یزیدی ہو ؟ ( سامعین… نہیں ) بولوناں۔ یزید تابعی ؟ ( سامعین…نہیں تھا ) لوگ کہتے ہیں حضرت امیر معاویہ کا بیٹا تھا میں مانتا ہوں صحابی کے لیے صرف صحبت شرط ہے اور تابعی کےلیے صحابی کی صحبت بھی شرط ہے اور اتباع بھی شرط ہے۔ تو یزید صحابہ کو دیکھتا تو تھا مگر صحابی کا متبع نہیں تھا جوصحابی کی صحبت میں بیٹھے اتباع نہ کرے ایسے آدمی کو تابعی نہیں کہتے۔ کہاں حضرت حسین رضی اللہ عنہ اور کہاں یزید؟ دونوں میں کوئی جوڑ نہیں ہے دونوں میں کوئی تقابل نہیں ہے۔ خیر یہ میرا عنوان نہیں ہے۔
امت کے بہترین طبقے:
نبی نے فرمایا تین طبقے امت میں بہتر ہیں:

1)

پہلا طبقہ صحابہ کا جو پیغمبر کی صحبت میں بیٹھے۔

2)

دوسراطبقہ تابعین کا جو صحابہ کی زیارت بھی کرے اور اتباع بھی کرے۔

3)

تیسرا طبقہ اتباع تابعین کا جو تابعی کی صحبت میں بیٹھے اتباع بھی کرے۔
امام اعظم ابوحنیفہ وہ ہیں انہوں نے تینوں زمانوں کے لوگوں کو پایا۔ صحابہ کو دیکھا شاگرد بن گئے تابعی کو دیکھا ہم سبق بن گئے تبع تابعین کو دیکھا استاد بن گئے۔ سب سے بہتر طبقہ صحابہ کا امام ابوحنیفہ کا استاد ہے پھر بہتر طبقہ تابعی کا امام صاحب کا ہم سبق ہے اور پھر بہتر طبقہ اتباع تابعین کا امام صاحب ان کا استاد بن گیا۔ سنو اس تفصیل کے بعد میں ایک جملہ کہتا ہوں ایک ہے سنی ایک ہے حنفی، کیا مطلب ؟ ایک مسئلہ ہے سنت کا یہ حل ہوگا نبوت سے اور دوسرا مسئلہ اجتہاد سے۔
ملت اور امت میں فرق:
میں ایک جملہ اور کہنے لگاہوں حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر حضرت عیسیٰ علیہ السلام تک جتنے بھی انبیاءآئے وہ سارے نبی تھے ان میں سے بعض رسول تھے حضرت آدم علیہ السلام سے عیسیٰ علیہ السلام تک یہ سارے نبی آئے حضرت ابراہیم علیہ السلام کے بارے میں کہا کہ ہم ان کی ملت ہیں اور امت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی ہیں۔ ایک بات اور ذہن نشین کرلو ایک ہوتی ہے ملت ایک ہوتی ہے امت حضرت ابراہیم علیہ السلام کی ہم ملت ہیں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی ہم امت ہیں ملت اور امت میں کیا فرق ہے ؟ ملت وہ ہوتی ہے جن میں اصولوں میں اتفاق ہو اور امت وہ ہوتی ہے اصول و فروع دونوں میں اتفاق ہو۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے ساتھ اصولوں میں اتفاق ہے ہم ان کی ملت بنے ہیں اور حضرت پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کے اصولوں میں بھی فروع میں بھی اتفاق ہے ہم ان کی امت بنے ہیں۔
میں ایک جملہ کہنے لگا ہوں۔ حضرت آدم علیہ السلام سے لےکر عیسیٰ علیہ السلام یہ سارے نبی تھے۔

اللہ نے حضرت آدم علیہ السلام کو فرمایا صفی اللہ۔

حضرت موسیٰ کی باری آئی رب نے کلیم اللہ کہا۔

حضرت نوح کی باری آئی رب نجی اللہ کہتا ہے۔

حضرت ابراہیم کی باری آئی رب خلیل اللہ کہتا ہے۔

پیغمبر کی باری آئی تو رب رسول اللہ کہتا ہے۔
ایک معنیٰ رسالت کا ایک معنیٰ ہے نبوت کا۔ رسالت کا معنیٰ نبوت کا معنیٰ نبی رب سے لیتاہے امت کو دیتا ہے یہ کام توپیغمبر کا تھا لیکن ایک معنیٰ نبوت کا تھا ایک معنیٰ رسالت کا تھا نبی رب سے لیتاہے امت کو دیتاہے پیغمبر نے رب سے لیا مگر وہ لیتے رہے اس فرش پہ نبی لیتا رہا کبھی فرش پہ کبھی عرش پہ نبی نے دونوں طرح لیا ،لیتے دیتے وہ بھی تھے مگر ان کے دینے کا انداز اور تھا وہ نبی گیا جن کو دیا۔ وہ دنیا سے ختم ہوگئے۔ محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے دیا اور ہمیشہ باقی رہا جو چیز باقی رہ جائے اس کو” سنت“کہتے ہیں۔ ہمارے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم نے دین دیا وہ باقی رہ گیا سنت بنا ، وہ بھی دین لے کر آئے وہ چلا نہیں سنت نہیں بنا۔
میں کہتا ہوں پہلے انبیاءکے مسئلے بھی تھے مگر سنت مسئلہ خاتم الانبیاءکا، باقی ائمہ بھی ہیں ان کا اجتہاد برحق ہے مگر امام ابوحنیفہ کا اجتہاد وہ سب سے اعلیٰ، پہلے انبیاءکا عمل وہ نبوت کا مسئلہ تھا ہمارے نبی کا عمل یہ سنت کا مسئلہ تھا۔ سنت باقی عملوں سے اعلیٰ عمل ہے حنفیت کا اجتہاد باقی اجتہادوں سے اعلیٰ ہے۔
حنفی اجتہاد سب سے اعلیٰ:
میں کہہ رہا تھا کہ سنت اس عمل نبوت کا نام ہے جو سب سے اعلیٰ ،حنفیت اس اجتہاد کا نام ہے جو سب سے اعلیٰ۔ سنت کا عمل؛ عمل نبوت میں اعلیٰ اور حنفیت کا اجتہاد یہ تمام ائمہ کے اجتہاد سے اعلی ٰ۔ میں نے اس اعلیٰ ہونے پر گفتگو کی تھی کہ باقی ائمہ بھی ہیں مگر وہ صحابہ کے شاگرد نہیں ہیں ، ابوحنیفہ بھی ہے یہ صحابہ کا شاگرد ہے۔ اب سنو میں آخری بات کہتا ہوں میں نے عرض کیا تھا ایک ہے سنی ایک ہے حنفی ایک ہے نظریاتی:

o

سنی میں پیغمبر کا دین آگیا۔

o

سنی میں صحابہ کا دین آگیا۔

o

سنی میں خلیفہ راشد کادین آگیا۔

o

سنی میں پیغمبر کا طریقہ آگیا۔

o

سنی میں خلیفہ راشد کا طریقہ آگیا۔
پھر حنفی آیا اس میں مجتہد کے مسائل اجتہادی آگئے تو میں کہہ یہ رہا تھا کہ ہم نے سنی کو لیا نبوت سے اور حنفی کو لیا ختم نبوت سے۔ اگر محض نبوت ہوتی تو مسئلے اور تھے ہمارے پیغمبر خاتم الانبیاءتھے ہم نے مسئلے مانے ،پیغمبر کے بعد اجتہاد کو مانا۔
نام اور مشن:
اب سنو ایک ہے سنی اور ایک ہے حنفی ایک ہے نظریاتی۔ یہ سنت نظریے کا نام ہے حنفیت نظریے کا نام ہے میں جملہ کہنے لگاہوں: حنفیت نظریے کا نام ہے اللہ کے پیغمبر نے امت کو سنت دی ہے پیغمبر کے بعد صحابہ آئے سب سے بڑا صحابی ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ تھا۔ صحابہ کے بعد سب سے بڑا عالم امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ تھا ایک ابو بکر رضی اللہ عنہ کا نام تھا ایک ابوبکر رضی اللہ عنہ کا مشن تھا۔ ایک ابو حنیفہ رحمہ اللہ کا نام تھا ایک ابو حنیفہ کا مشن تھا حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کانام عبد اللہ ہے ننانوے فیصد مسلمان نہیں جانتے۔ ننانوے فیصد حنفی نہیں جانتے امام اعظم کا نام کیا ہے حضرت ابو بکر صدیق کا نام عبد اللہ تھاابو بکر ان کا مشن تھا حضرت امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ نام ان کا نعمان تھا۔ ابو حنیفہ ان کا مشن تھا، کیا معنی؟ ابو بکر کا معنیٰ پہلے کرنے والا۔

پیغمبر دین کا اعلان کرے ابوبکر پہل کرنے والا۔

پیغمبر ہجرت کا ارادہ کرے ابوبکر پیغمبر کو ساتھ لے جا کر پہل کرنے والا۔

پیغمبر اگر کنواری لڑکی مانگ لے پہل کرنے والا ابوبکر ہے۔

جہاد کا اعلان کرے تو پہل کرنے والا ابو بکر ہے۔

پیغمبر دنیا چھوڑ جائیں تو حجرے میں پہل کرنے والا ابو بکر ہے۔

پیغمبر حشر میں کھڑا ہوگا تو پہل کرنے والا ابو بکرہوگا۔

پیغمبر جنت میں جائےگا توپہل کرنے والا ابوبکر ہے۔ عبد اللہ نام تھا اور پہل کرنا ان کا مشن اورنظریہ تھا۔
کوفہ؛اسلام کا قلعہ اور علم کی آماجگاہ:
پہل کرنا ان کا مشن تھا ابوحنیفہ کا نام نعمان تھا۔ حنیفہ کا معنیٰ ملت حنفیہ ایسا دین جو باطل سے الگ ہوجائے۔ حضرت امام ابو حنیفہ کوفے میں رہتے تھے اور کوفہ میں کمال یہ تھا حضرت عمر بن خطاب نےکوفہ کو دو مقصد کے لئے بنایا نمبر ایک چھاؤنی بنائی اسلام کو مضبوط کردیا جائے۔ نمبردو یونیورسٹی بنائی تاکہ علم کو پھیلایا جائے حضرت عمر بن خطاب نے یونیورسٹی کوفہ میں بنائی اور اس کا انچارج عبد اللہ بن مسعود کو بنادیا۔ اس کو چھاؤنی بنایا اور اس کا امیر سعد بن ابی وقاص کو بنا دیا۔ بعد میں اللہ نے امام ابو حنیفہ کو کوفہ میں پیدا کیا اسلام کی سب سے بڑی چھاؤنی کوفہ میں تھی اسلام کا سب سے بڑا مرکز یہ بھی کوفہ میں تھا۔ لوگ غلام بنے، عورتیں باندیاں بنیں کوفہ میں آئے کوئی ایران کا غلام وہ بھی کوفہ میں ایران کی باندی وہ بھی کوفہ میں شام کی باندی وہ بھی کوفہ میں خراسان کے غلام وہ بھی کوفہ میں وہ باہر سے آئے تو دین کو لے کر آئے نظریات کو لے کر آئے وہ حملہ آور ہوتے وہ غلام بھی تھے۔ وہ مغلوب بھی تھے۔ غلامی ہونے کا دکھ ایک تھا مغلوب ہونے کا دکھ ایک تھا لوگ آئے دین کو مٹانے کی سازشیں کو فہ میں ہونے لگیں اللہ نے امام ابو حنیفہ کو کوفہ میں پیدا کیا۔ رب قرآن میں کہتا ہے
وَاتَّبَعَ مِلَّةَ إِبْرَاهِيمَ حَنِيفًا
پ5 سورة النساء آیت125
ابوبکر اور ابو حنیفہ دونوں مشن کا نام ہیں:
حنیف اس دین کا نام ہےکہ باطل الگ ہوجائے حق الگ ہو جائے۔ ا بو حنیفہ سے اللہ نے دین کا کام لیا باطل کو الگ کیا ،حق کو الگ کیا۔ کتابوں میں لکھ دیا۔ ابو بکر نے پیغمبر کے ہر معاملہ میں پہل کی ہے قرآن کہتا ہے”والذی جاء بالصدق و صدق بہ“نبی شریعت کو لے کر آیا نبی حق کو لے کر آیا ابو بکر حق کو قبول کرنے میں پہل کرنے والا۔ ابو حنیفہ حق کو لکھنے میں پہل کرنے والا ابو بکر مشن کا نام ہے ابو حنیفہ مشن کا نام ہے وہ دین کو پھیلانے میں پہل کرنے والا اور یہ دین کو لکھ کر محفوظ کرنے میں پہل کرنے والا۔ ابوبکر ایک مشن ہے بولیں ابوبکر ایک؟ (سامعین …مشن ہے) اور ابو حنیفہ ایک نظریہ اور مشن ہے۔
رافضی اور نیم رافضی:
میں اس لئے کہتا ہوں کہ جس طرح ابوبکر کے نام کو لوگ نہیں جانتے مشن کو جانتے ہیں اور مشن صدیقی کو مٹا نا روافض کے بس میں نہیں ہے ابو حنیفہ کا لوگ نام نہیں جناتے مشن جانتے ہیں اور نیم رافضی کے لئے ابو حنیفہ کے مشن کو مٹانا بس میں نہیں ہے صحابہ کا دشمن پیدا ہوا رافضی بنا۔ ابو حنیفہ کا دشمن پیدا ہوا نیم رافضی بنا۔ رافضی الٹا لٹک جائے ابو بکر کا مشن زندہ ہے نیم رافضی جلتا رہے ابوحنیفہ کا مشن زندہ ہے۔ کوئی اس مشن کو مٹا سکتا ہے؟ نہیں مٹا سکتا جو مٹانا چاہتے ہیں بڑے شوق سے لگائیں زور۔
جذباتی اور نظریاتی وابستگی میں فرق:
تو میں نے ایک معنیٰ بیان کیا سنی کا تو کچھ سمجھ آیا۔ دوسرا میں نے بیان کیا حنفی کا کچھ سمجھ آیا۔ تیسرا میں نے بیان کیا نظریاتی کا یہ نظریاتی عنوان ہے۔ حنفیت یہ نظریاتی مسئلہ ہے نظریاتی وابستگی اور ہوتی ہے جذباتی وابستگی اور ہوتی ہے۔ میں آخری بات کرکے بات ختم کرنے لگا ہوں ایک ہوتی ہے وابستگی نظریاتی ایک ہوتی ہے وابستگی جذباتی۔ مقرر اچھا آیا ہم جڑ گئے مقرر اچھا نہ آیا ہم بدل گئے ،خطیب اچھا تھا ہم اکٹھے ہوگئے خطیب صاحبِ لسان نہیں تھا ہم بدل گئے۔ نہیں ہماری سنت سے وابستگی نظریاتی ہے۔ جذباتی نہیں ہے حنفیت سے وابستگی جذباتی نہیں ہے نظریاتی ہے۔ سنت کو ہم نے مانا نظریہ سمجھ کر ابو حنیفہ کو ہم نے مانا نظریہ سمجھ کر جسم کٹتا ہے نظریات نہیں چھوڑنے، ملک بدر ہونا ہے نظریہ نہیں چھوڑنا۔ قید آتی ہے نظر یہ نہیں چھوڑنا میں اس لئے کہتا ہوں ذہن نشین کر لو جب تک خدا نے زندگی رکھی اس نظریہ سنت کو بیان کیا جائے گا سنت کے نظریہ کو بیان کیا جائےگا اور حنفیت کے نظریہ کو بیان کیا جائے گا ہماری سنت سے وابستگی جذباتی نہیں نظریاتی ہے ہم نے ابو حنیفہ سے وابستگی اختیار کی جذباتی نہیں نظریاتی ہے۔
آپ بتاؤآپ میں سے وہ آدمی جو سنت کو مانتا ہو اور نظریاتی سمجھ کر جس کی سنت سے وابستگی ہے نظریاتی؛ جذباتی نہیں ہے وہ ہاتھ کھڑے کرو اور جن کی حنفیت سے وابستگی جذباتی نہیں ہے نظریاتی ہے وہ کون سے ہیں ؟ کوئی دو چار اور بھی ہوں گے درمیان میں بابا تمہیں شک ہے قاری ہوتو ہاتھ کھڑے کرو مولوی ہوتو ہاتھ کھڑے کرو میں اسٹیج پہ بیٹھ کے دونوں ہاتھ کھڑے کرتا ہوں مجھے شرم نہیں آتی۔ تمہیں کیوں آتی ہے ؟ میں اس لئے آپ سے کہتا ہوں یہ جو پھس پھسی باتیں کرتے ہیں انہوں نے نظریہ سمجھ کر قبول نہیں کیا۔ نظریہ سمجھ کر قبول کرنے والا وہ پھس پھسی باتیں نہیں کرتا وہ بے جھجھک ہوکے بیان کرتا ہے وہ اپنے مؤقف کو جرات سےبیان کرتا ہے۔ اللہ مجھے اور آپ کو جذبات سے ہٹ کے نظریاتی وابستگی رکھنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اب بتاؤسنی سن سے ہے یا سنت سے ہے؟ (سامعین …سنت سے ہے) اور سنت بیداری کا نام ہے سونے کا نام ہے (سامعین …بیداری کا) بیدار ہو جاؤ گے ناں۔
تعویذ برائے حفاظت خناس:
میں نے مکہ اور مدینہ میں یہ جو تھوڑی سی بات کی ہے ناں میں اکثر احباب سے کہتا ہوں اس پر ہم نے مستقل تعویذ تیار کردیا ہے۔ آپ پتہ نہیں تعویذ کے قائل ہوکہ نہیں اب ایک نیا فتنہ تعویذ شرک ہے اللہ کا نام لینا دین ہے اللہ کے قرآن کو سر پر رکھنا دین ہے اور اللہ کے نام کو گلے میں باندھنا شرک ہے۔ نہیں سمجھے کہتے ہیں اللہ کا نام لینا دین ہے فاتحہ پڑھ کے پھونک دو تو دین ہے فاتحہ لکھ کے گلے میں لٹکا لو تو شرک ہے کیوں بھائی۔ شرک کیسے ہوا۔ ؟ اگر آپ کے گھر میں قرآن ہوتو آپ کہا ں رکھتے ہو (بلندی پر) اور اگر کوئی اللہ کا نام لکھ کر گلے میں لٹکاتا ہے وہ عظمت اور محبت کے لئے یا پوجنے کے لئے (سامعین …محبت کے لئے ) جس کو پوجا جائے اس کو آدمی گلے میں باندھتا ہے یہ بڑی کم عقلی کی باتیں ہیں۔
میں نے اس لئے کہا پتہ نہیں آپ تعویذ کو مانتے بھی ہو کہ نہیں ، مانتے ہو تو تمہاری مرضی نہیں مانتے تو تمہاری مرضی ایک ہوتا ہے تعویذ جنات سے بچنے کے لئے ایک ہوتاہےتعویذخناس سے بچنے کے لئے کس سے بچنے کے لئے اپنی طرف سے ترجمہ نہیں کرنا قرآن پڑھ کے کہتا ہوں”مِنْ شَرِّ الْوَسْوَاسِ الْخَنَّاسِ الَّذِي يُوَسْوِسُ فِي صُدُورِ النَّاسِ مِنَ الْجِنَّةِ وَالنَّاسِ“خناس وہ ہے جو لوگوں کے دل میں وسوسے ڈالے وہ وسوسے ڈالتے ہیں آپ قبول کرتے ہیں ہمارا زور لگتا ہے روزانہ کہ وسوسے دور کرو۔ تو ان کے ذمہ وسوسے ڈالنا اور ہمارے ذمہ وسوسے دورکرنا۔ اپنے گھر کو خناس سے محفوظ کرنا چاہو تو تعویذ باہر رکھا ہوا ہے وہ لے لو اس تعویذ کا نام کیا ہے” مکہ اور مدینہ والوں سے اہل حدیثوں کے شدید اختلافات “ اگر تمہاری دکان پہ آئے ناں کہ میں مکہ اور مدینہ والا تو آپ نے کہنا ہے اس کو دیکھ ذرا اس تعویذ کو گلے میں میں باندھنے کی ضرورت نہیں ہے ان شاءاللہ دیکھتے ہی دوڑجائے گا۔
وما علینا الا البلاغ المبین
اس کے بعد حضرت متکلم اسلام نے سامعین کے درج ذیل سوالات کے علمی اور تحقیقی جوابات ارشاد فرمائے افادہ عام کی غرض سے ان کو یہاں نقل کیا جا تا ہے۔
سوال:
ڈاکٹر ذاکر نائیک کی حقیقت کیا ہے ؟
جواب:
میں کئی مرتبہ لاہور بیان کرچکا ہوں کہ ذاکر نائیک بے دین ہے، جاہل ہے لاعلم ہے عربی پر عبور نہیں ہے۔ عربی ادب کو نہیں سمجھتا۔ ہاں انگلش زبان کو جانتاہے انگریزی زبان جاننے والے کو عالم نہیں کہتے۔ ہاں علم آتا ہو انگریزی زبان میں بیان کرسکتا ہو یہ کوئی حرج کی بات نہیں ہے ذاکر نائیک کے پاس علم شریعت نہیں ہے۔ ذاکر نائیک کو ایک ایجنڈا دیا گیا ہے اس ایجنڈے کا نام ہے وحدت ادیان عالمی سطح پہ یہودیت نے ایک محنت شروع کی ہے۔ یہ تورات ،انجیل ، زبور ، قرآن یہ سب ختم کر دو۔ یہ مسلمان یہودی سب ختم کردو اور ایک مذہب ہوکہ اللہ کو ماننے والے جو بات تورات کہتی ہے وہ لےلو جوانجیل کہتی ہے وہ لے لو وہ وہ باتیں لے لو جو کافی ہیں اس کا نام ہے وحدت ادیان اس ایجنڈے کی تمہیدات اور آغاز اس ظالم نے شروع کی ہیں۔ ابھی بات سمجھ نہیں آرہی۔ لوگ کہتے ہیں وہ تورات کے حوالے ہی دیتا ہے ناں۔ بھائی تورات کے حوالے وہ دیں جس کو قرآن میں حوالے نہ ملیں ابھی تو قرآن میں حوالے بہت سارے پڑے ہوئے ہیں۔ آپ اتنی جلدی متا ثر اللہ جانے کیوں ہوجاتے ہیں۔ ؟ میں اس لیے عرض کررہاہوں وحدت ادیان کے ایجنڈے پر کام کرتاہے لوگ جو اس کے علم کے دلدادہ ہیں وہ کہتے ہیں جی بہت بڑا عالم ہے اس سے سوالات کرو فوراً جواب دیتاہے۔ فورا ًجواب نہیں دیتا یہ آپ کو غلط فہمی ہے اگر آپ نے چٹ لکھی ہے اور فوراً جواب آئے وہ بات کرے اس ذاکر نائیک کے بارے میں جہاں تک میری معلومات ہیں اور جہاں تک میں نے معلومات کرائی ہیں۔ جو ساتھی گئے ہیں اس کے دروس میں شریک ہوتے ہیں میں ان کی بنیاد پہ کہہ رہاہوں۔ سنی سنائی نہیں جو واقعتاً اس کام کے لیے گئے کہ وہاں تحقیق کریں۔ ذاکر نائیک کا طرز یہ ہے کہ جو سوال کرنا ہو پہلے چٹ دی جاتی ہے اور وہ اس سوال کی تیاری کرتاہے جب چھ دن بعد اس کا درس ہوتا ہے بیان اور لیکچر ہوتاہے اس بیان اور لیکچرکے دوران وہی آدمی کھڑا ہوکر اپنے سوال کو دہراتاہے۔ جو چھ دن پہلے جمع کراچکا ہوتاہے اب ظاہر ہے کہ حوالے اس نےیاد کیے ہوئے ہیں اب جب بولتاہے تو لوگ کہتے ہیں بڑا نالج ہے وہ آیات اور صفحےگنتا ہے بھائی چھ دن اس نے یاد کیا ہے پھر گن نہیں سکتا۔ یہ ہے طریقہ اس کے حوالے بیان کرنے کا اب لوگ اس سے متاثر ہوتے ہیں۔ آدمی سو چیزوں کا جواب ایک ہفتہ تیاری کرکے دے دے تو جو بھی چٹیں آئیں گی وہ سوسے باہر نہیں ہوں گی سوکے اندر ہی رہناہے۔ تو حوالے تو آدمی کو یاد ہوجاتے ہیں اس لیے ذاکر نائیک کے اصول ذاکرنائیک کے مسائل یہ شریعت کے سراسر خلاف ہیں۔
اس پر آپ نے تفصیلاً گفتگو سننی ہوتو باہر آپ کو سی ڈی کے اندر میرا بیان ملے گا جس میں؛ میں نے ذاکر نائیک کی کلاس لی ہے یہ آڈیو کیسٹ میں ہوگا۔ میں نے اس کے نظریات پہ گفتگو کی ہے جاوید غامدی کے نظریات ویڈیو سی ڈی میں ریکادڈ کردیے ہیں آڈیو الگ ملے گی آپ کو۔ ہم نے ارادہ کیا ہے ان شاءاللہ یہ جو فرقے آ رہے ہیں ایک ایک کے خلاف بیان قلم بند بھی کردو اور اس کو ریکارڈ بھی کرادو تاکہ لوگ اس کو سنتے اور پڑھتے رہیں۔
سوال:
کیا خانہ کعبہ کی تعمیر جس طرح مکہ میں موجود ہے اس طرح آسمانوں پر بھی موجود ہے؟
جواب:
دیکھیں آسمانوں پر تعمیر نہیں ہوتی ایک ہوتا ہے بیت المعمور اور ایک ہے بیت اللہ یہ جوخانہ کعبہ ہے مسجد حرام کے درمیان اسے بیت اللہ کہتے ہیں اور اس کے محاذات پر جو جگہ ہے اس کےبالکل مساوی اسے بیت المعمور کہتے ہیں جو عرش پر ہے اس میں ضروری نہیں ہے کہ تعمیر اس کوٹھے کی طرح ہو اس کے اوپر جتنی جگہ چلتی ہے اس ساری جگہ کانام بیت اللہ اور کعبہ شمار ہوتا ہے یہی وجہ ہے کہ جب نماز پڑھے تو نماز کے دوران بالکل کعبۃ اللہ کی طرف انسان منہ نہیں کرسکتا اب جو کعبہ کے نیچے رہتے ہیں وہ کس طرف منہ کریں گے جو کعبہ سے اوپر رہتے ہیں وہ کس طرف منہ کریں گے ساتوں زمینوں کے نیچے ساتوں آسمانوں کے اوپر ساری کی ساری جگہ یہ بیت اللہ اور خانہ کعبہ ہی شمار ہوتاہے خاص کمرے کی طرف منہ کرلو تو بھی کعبہ کی طرف اس کے محاذات اوپر کی طرف کرلو تو بھی خانہ کعبہ کی طرف جو اوپر ہے اس کانام ہے بیت المعمور وہ عمارت ہو توبھی ٹھیک ہے عمارت نہ ہو تو بھی ٹھیک ہے۔
سوال:
مولانا کوہاٹی صاحب کیا دوبارہ غیر مقلد ہوگئے ہیں؟ غیر مقلدوں نے اشتہار پر ان کا نام دیا ہے۔
جواب:
صادق کوہاٹی سے میری گفتگو جبوآنہ جھنگ میں ہوئی تھی تو ان کی مسجد میں جاکے ہوئی تھی۔ صادق کوہاٹی نے چیلنج کیا میں اتفاقاً اس بستی میں تھا میں نے کہا چیلنج قبول کرو ان کی مسجد میں ہماری گفتگو ہوئی جس کی وڈیو بھی اورآڈیو بھی غیر مقلدوں نے بنائی ہے۔ میں تو اچانک گیا وہ تو باقاعدہ اس کا پروگرام ریکارڈ کر رہے تھے مگر وہ آڈیو بھی پی گئے اور ویڈیو بھی پی گئے اس کے بعد صادق کوہاٹی صاحب نے فون پر مجھ سے از خود رابطہ کیا میں آپ سے ملنا چاہتا ہوں۔ میں نے کہا تشریف لائیں میرے پاس سرگودھا مرکز میں آئے ہماری بند کمرے میں ملاقات ہوئی اگر صادق کوہاٹی صاحب انکار کردیں گے۔ میں اس بند کمرے کی ویڈیو بھی لے آؤں گا۔ میں نے آج تک اس کا اظہار نہیں کیا تھا اب میں چلو کرتاہوں۔ اس کی پہلی خلوت کی گفتگو کی بھی سی ڈی بنائی ہے جب انکارکریں گے تو میں اس کو بھی لاؤں گا۔
اس نے کہا میں تین طلاق کی قسم اٹھاکر کہتاہوں میں اہل حدیث نہیں میری مجبوریاں تھیں تو میں گیا تھا۔ میں تو دیوبندی ہوں۔ میں نے کہا اگر آپ دیوبندی ہیں تو مجھے تو کوئی اعتراض نہیں۔ آپ تشریف لائیں مولانا آئے اس وقت میں جیل میں تھا۔ مولانا کو ساتھی لائے انہوں نے تحریر لکھی اپنے ہاتھ سے دستخط کردیے پھر مولانا نے ویڈیو اپنا بیان ریکارڈ کرایا ڈیڑھ دو گھنٹے کا۔ اس نے بیان ریکارڈ کرایا کہ غیر مقلدوں کومیں نے کیوں چھوڑا ہے یہ غلط یہ غلط۔ میں نے وہ بھی ریکارڈ نہیں کرایا میں تو تھا ہی اندر (جیل میں ) باہر تھا ہی نہیں خیر یہ میرے ساتھ ایک عرصہ تک چلتے رہے لاہور سرگودھا کراچی تک ہم نے پروگرام اکھٹے کیے انہوں نے کہا جگہ دو میں نے اس کو راولپنڈی کرائے کا ایک مکان لے کردیا۔ کہتاہے مجھے بڑی مسجد دو میرے پاس بڑی مسجد نہیں تھی۔
میں نے لاہور مولانا عبدالشکور حقانی دامت برکاتہم سے رابطہ کیا مولانا نے اپنے احباب سے مشورہ کرکے مسجد دلوادی۔ کوہاٹی صاحب نے کہا مسجد چھوٹی ہے مجھے بڑی دو۔ میں نے کہا بڑی کہاں سے دیں میرے اپنے مدرسہ میں مسجد نہ چھوٹی ہے نہ بڑی ہے پکی ہے نہ کچی (اب الحمد للہ مسجد بن چکی ہے) میں نے کہا میرے مدرسے میں مسجد بھی نہیں ہے میں تمہیں شاہی مسجد بناکرکہاں سے دوں۔ مسجد دو۔ نہیں ہے۔ پیسے دو۔ نہیں ہیں۔ مدرسہ بناؤ بھائی گنجائش نہیں ہے کیاکریں۔ ؟ کہتاہے مولانا عبد الشکور حقانی کا مدرسہ بن سکتا ہے تو میرا نہیں بن سکتا ؟ میں نے کہا مولانا عبدالشکور حقانی نے تو بیس سال محنت کی ہے مطلب یہ ہے کہ یوں باتیں چلتی رہیں چلتی رہیں میں بالآخر صادق کوہاٹی سے رابطہ منقطع کردیا آج نہیں رمضان سے قبل کم از کم آج سے ڈیڑھ ماہ گزرا ہوگا کہ میں نے فون نہیں کیا میں نے رابطہ بالکل منقطع کردیا کہ مولانا کے باربار مطالبے میرے بس میں نہیں ہیں اور جہاں مولانا بیان کرتے اتنی غلط اور اتنی سخت زبان استعمال کرتے کہ اسٹیج پر بھی آدمی کو سنتے شرم آتی۔
میں نے بار ہا کہا کہ مولانا اس زبان کو بدلیں یہ زبان دیوبندیت کے اسٹیج پہ نہیں چلتی۔ آپ زبان بدلیں تو خرچاوغیرہ جو اللہ توفیق دے گا وہ ہوتا رہے گا اب بعد میں مجھے پتہ چلا کہ کوہاٹی صاحب پھر غیر مقلد ہوگئے ہیں، ہوگئے ہوں گے۔ اب سی ڈی آگئی ہے میں نے کہا بہت اچھا اب سی ڈی کہاں ہے؟ میں نے کہا وہ دیکھو۔ آپ کہتے رہے غیر مقلد جھوٹے ہیں کہتاہے میں اس سے توبہ کرتا ہوں میرے پاس ایک ویڈیو ریکارڈنگ پڑی ہے بند کمرے کی کہتا ہے یہ طالب الرحمٰن نہیں یہ طالب الشیطان ہے۔ عبد الرحمٰن شاہین نہیں عبد الرحمٰن گگھی ہے۔ یہ لفظ ہیں تو اصل میں یوں بدلنے کا اعتبار نہیں ہوتا۔ وہ دیوبندی ہوئے تھے ہمارے پاس آئے تھے ہم نے قبول کیا تھا۔ اب چلے گئے ہیں ہم نے تب بھی قبول کرلیا ہے۔ وہ آئے تھے ہم نے کہا ٹھیک ہے وہ چلے گئے ہم نے کہا پھر بھی ٹھیک ہے۔ ہمیں کوئی فرق نہیں پڑتا میں نے کہانہ ہم جھوٹ بولتے ہیں نہ ہم غلط بات سے کام لیتے ہیں۔ اللہ ہم سب کی حفاظت فرمائے اللہ ہمیں اغراض سے پاک صاف اپنے مسلک پہ رہنے کی توفیق عطاءفرمائے۔(آمین
وآخر دعواناان الحمد للہ رب العٰلمین