قرآن وسنت کانفرنس

User Rating: 4 / 5

Star ActiveStar ActiveStar ActiveStar ActiveStar Inactive
 
قرآن وسنت کانفرنس
جامع مسجد اسامہ ، سلطان پور حویلیاں
خطبہ مسنونہ
الحمد للہ نحمدہ ونستعینہ ونستغفرہ ونؤمن بہ ونتوکل علیہ ونعوذ باللہ من شرور انفسنا ومن سیئات اعمالنا من یھدہ اللہ فلا مضللہ ومن یضلل فلا ھادی لہ ونشھد ان لا الہ الا اللہ وحدہ لا شریک لہ ونشھد ان سیدنا ومولٰنا محمدا عبدہ ورسولہ فاعوذ باللہ من الشیطٰن الرجیم بسم اللہ الرحمن الرحیم وَمَا آتَاكُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوهُ وَمَا نَهَاكُمْ عَنْهُ فَانْتَهُوا
پ28 سورةالحشرآیت نمبر7
عن علی رضی اللہ عنہ قال إني قد سمعت رسول الله صلى الله عليه و سلم يقول ألا إنها ستكون فتنة فقلت ما المخرج منها يا رسول الله ؟ قال كتاب الله فيه نبأ ما كان قبلكم وخبر ما بعدكم وحكم ما بينكم وهو الفصل ليس بالهزل من تركه من جبار قصمه الله ومن ابتغى الهدى في غيره أضله الله وهو حبل الله المتين وهو الذكر الحكيم وهو الصراط المستقيم هو الذي لا تزيغ به الأهواء ولا تلتبس به الألسنة ولا يشبع منه العلماء ولا يخلق على كثرة الرد ولا تنقضي عجائبه هو الذي لم تنته الجن إذا سمعته حتى قالوا { إنا سمعنا قرآنا عجبا يهدي إلى الرشد من قال به صدق ومن عمل به أجر ومن حكم به عدل ومن دعا إليه هدى إلى صراط مسقيم۔
ترمذی ج2 ص118 رقم الحدیث 2906
عَنْ مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، يَقُولُ: مَنْ أَحْيَا سُنَّةً مِنْ سُنَّتِي قَدْ أُمِيتَتْ بَعْدِي ، فَإِنَّ لَهُ مِنَ الأَجْرِ مِثْلَ مَنْ عَمِلَ بِهَا مِنَ النَّاسِ لا يَنْقُصُ ذَلِكَ مِنْ أُجُورِهِمْ۔
شرح السنۃ جز 1 ص 36
عن علي قال قلت: يا رسول الله إن نزل بنا أمر ليس فيه بيان أمر ولا نهي فما تأمرنا قال تشاورون الفقهاء والعابدين۔
المجم الاوسط ج1 ص172
یارب صل وسلم دائما ابدا
علی حبیبک خیر الخلق کلھم
ھو الحبیب الذی ترجی شفاعتہ

لکل ھول من الا ھوال مقتحم

درود شریف:
اللھم صل علیٰ محمد وعلیٰ آل محمد کما صلیت علیٰ ابراھیم وعلیٰ آل ابراھیم انک حمید مجید اللھم بارک علیٰ محمد وعلیٰ آل محمد کما بارکت علیٰ ابراھیم وعلیٰ آل ابراھیم انک حمید مجید۔

سلام اس پرکہ جس نے بے کسوں کی دستگیری

کی
سلام اس پرکہ جس نے بادشاہی میں فقیری کی
سلام اس پر کہ اسرار محبت جس نے سمجھائے

سلام اس پرکہ جس نے زخم کھاکے پھول

برسائے
سلام اس پر جو خوں کے پیاسوں کو قبائیں دیتا تھا
سلام اس پر کہ جو گالیاں سن کر دعائیں دیتا تھا

سلام اس پر کہ جس کے گھر نہ چاندی تھی نہ سونا

تھا
سلام اس پر کہ ٹوٹا بوریا جس کا بچھونا تھا
سلام اس پر جو سچائی کی خاطر دکھ اٹھاتا تھا
سلام اس پر جو بھوکا رہ کر اوروں کو کھلاتا تھا
سلام اس پر جس کھول دیں مشکیں اسیروں کی

سلام اس پر کہ جس نے بھر دی جھولیاں فقیروں

کی

کب یاروں کو تسلیم نہیں کب کوئی عدو انکاری

ہے

اس کوئے طلب میں ہم نے بھی دل نذرکیا جاں واری

ہے
کچھ اہل ستم کچھ اہل حشم میخانہ گرانے آئے تھے

دہلیز کو چوم کے چھوڑدیا دیکھا کہ یہ پتھر بھاری

ہے
زخموں سے بدن گلزار سہی تم اپنے شکستہ تیر گنو

خود ترکش والے کہہ دیں گے یہ بازی کس نے ہاری ہے

تمہید:
میرے نہایت معزز واجب الاحترام علماءکرام اور میرے نہایت قابل صد احترام بزرگومسلک اہل السنت والجماعت سے تعلق رکھنے والے غیور نوجوانو اور دوستو، بزرگو! ہماری آج کی کانفرنس کا عنوان ہے ”قرآن وسنت کانفرنس“آپ حضرات کے سامنے ممکن ہے کہ اس کانفرنس کا عنوان اس طرز پر پہلی بار آیا ہو عموماً ہمارے ہاں جو جملے استعمال کیے جاتے ہیں وہ ہوتے ہیں قرآن وحدیث لیکن ہم نے قرآن وحدیث کا عنوان بدل کر قرآن وسنت کی بات کی ہے اس لیے کہ اللہ رب العزت نے ہمیں قرآن مقدس بھی عطافرمایا اور اس قرآن کریم کو سمجھانے کے لیے اللہ جل مجدہ نے اپنا پیغمبر حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم بھی عطافرمایا۔ اللہ رب العزت نے قرآن دیا قرآن کے ساتھ اللہ رب العزت نے پیغمبر عطاکیا۔ اگر اللہ پیغمبر کو درمیان میں واسطہ نہ بناتے براہ ِ راست اللہ یہ قرآن عطافرماتے اس قرآن کو اٹھانے کی ہمت اس انسان کے اندر نہ تھی۔ اللہ رب العزت نے قرآن کریم میں اعلان فرمایا۔
لَوْ أَنْزَلْنَا هَذَا الْقُرْآنَ عَلَى جَبَلٍ لَرَأَيْتَهُ خَاشِعًا مُتَصَدِّعًا مِنْ خَشْيَةِ اللَّهِ
پ28 سورة الحشر آیت21
اگر اس قرآن کو میں پہاڑ پہ اتاردیتا تو یہ پہاڑ قرآن کے اس بوجھ کی وجہ سے ٹکڑے ٹکڑے اور ریزہ ریزہ ہوجاتا۔ اس قرآن کو اٹھانا پہاڑ کے بس میں نہیں تھا۔
جلال اور جمال:
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یااللہ! جس قرآن کو اٹھاaنے کی پہاڑمیں ہمت نہ تھی ہم دیکھتے ہیں کہ امت محمدیہ علی صاحبھا الصلوة والسلام کا ایک نو سال کا بچہ قرآن کو اٹھالیتاہے جس قرآن کو اٹھانے کی ہمت پہاڑ میں نہ تھی پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کی امت کی ایک معصوم سات سال کی بچی اپنے سینے میں قرآن کو اٹھا لیتی ہے آخر کوئی وجہ تو ہوگی ؟
جلالی کلام براستہ جمالی لسان:
دارالعلوم دیوبند کے 40 سالہ مہتمم حضرت مولانا قاری محمد طیب نور اللہ مرقدہ اس سوال کا جواب دیتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں فرماتے ہیں پہلے مثال سمجھو ایک سورج ہے ایک چاند ہے سورج کی روشنی اپنی ہے مگر چاند کی روشنی اپنی نہیں ہے آدمی جون اور جولائی کی گرمی میں کپڑے اپنے بدن سے اتار کے سورج کے سامنے بیٹھے انسان کا وجود سورج کی تپش کو برداشت نہیں کرسکتا اور اگر دوپہر کو انسان سورج کو دیکھنا چاہے تو انسان کی آنکھیں سورج کی روشنی کو برداشت نہیں کرسکتی لیکن اگر چودھویں رات کو چاند نکل آئے اور آپ اپنے جسم سے قمیض اتار دیں اور چاند کے سامنے بیٹھیں تو جسم اس چاند کی میٹھی میٹھی حرارت کی وجہ سے یہ جسم راحت محسوس کرتا ہے اور اگر چاند چودھویں کاہو اور آپ اوپر نگاہ اٹھا کر دیکھیں تو چاند کو دیکھنے میں لذت محسوس ہوتی ہے۔ وجہ کیا ہے؟ ایک طرف سورج کا جلال ہے دوسری طرف چاند کاجمال ہے جب سورج اپنے جلال پہ آیا اس کو دیکھنے کی آنکھ میں ہمت نہیں ہے سورج اپنے جلال پہ ہے اس کو برداشت کرنےکی وجود میں سکت نہیں۔
لیکن سورج کی جلالی روشنی جب چاند کے جمال سے ہوکر آئی ہے پھر اس کے دیکھنے میں انسان کو مزہ آتاہے جب سورج کی حرارت چاند کے جمال گزری ہے پھر انسان کو لذت آتی ہے۔ تو رب کا کلام جلالی تھا لیکن پیغمبر کے جب جمالی سینہ پہ اترا ہے تووہ قرآن جس کو پہاڑ میں اٹھانے کی ہمت نہ تھی یہ پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کے جمال کی برکت ہے کہ سات سال کا بچہ بھی قرآن اٹھا لیتا ہے۔
تو قرآن کریم کو ہم تک پہنچانے میں واسطہ اللہ رب العزت نے ایک پیغمبر کی ذات کو بنایا۔ میں کہتا ہوں یہ بنیادی گفتگو آپ ذہن نشین فرمالیں تو پھر اگلی بات سمجھنا بہت آسان ہوگی۔
جلالی اور جمالی کلام کے اثرات:
اللہ نے برائے راست قرآن نہیں دیا بلکہ درمیان میں پیغمبر کو واسطہ بنایا ہے اس لیے کہ اللہ کا جلالی کلام انسان کے بس میں نہیں تھا کہ اس کو سہ سکتا تو رب نے اپنے جلال اور امت کے درمیان اپنے پیغمبر کو واسطہ بنا دیاہے۔ یہی بات میں کہتا ہوں کبھی کبھی آپ دیکھیں ناں ایک مولوی ہے اور ایک قاری ہے عموماً قاریوں میں اکڑ بنسبت مولویوں کے زیادہ ہوتی ہے۔ اس کی وجہ قاری ہر وقت جلالی کلام کو دوہرا رہا ہوتا ہے۔ تو جلال کا اثر تو پڑے گا ناں۔ اس لیےہم کہتے ہیں کہ قاری صاحب اپنے جلال کو کم کرنے کے لیے کبھی شیخ کی صحبت میں کچھ وقت گزاریں۔ اگر شیخ کی صحبت میسر نہ ہو تو بستر اٹھاکے چند دن تبلیغی جماعت میں لگائے۔ ان شاءاللہ کچھ جلال میں کمی واقع ہوجائے گی۔ جلال اور جمال میں بڑا فرق ہے ناں۔ اللہ ہمیں اپنے جمال کے پر تو عطاءفرمائے۔ جلال کو سہنا انسان کے بس میں نہیں ہے جمال انسان سہہ سکتا ہے جلال اور جمال پہ میں ایک بات کہتا ہوں۔ آپ حضرات نے دیکھا کہ پانچ نمازیں فرض ہیں لیکن فجر، مغرب اور عشاءمیں قرات جہراً ہوتی ہے۔ ظہر اور عصر میں قراة سراً ہوتی ہے آخر اس میں کوئی حکمت تو ہوگی ناں۔
سری اور جہری قرات کے رموز:
اس میں حکمتیں کئی ہیں کہ فجر، مغرب اور عشاءمیں قرات بلند آواز سے ہے جسے جہری کہتے ہیں ظہر ،عصر میں قرات آہستہ آواز سے ہے جسے سِرّی کہتے ہیں دن کی نماز میں سراً اور رات کی نماز میں جہرا ً۔ وجہ یہ ہے کہ اللہ کی دو صفتیں ہیں:

ایک جلال ہے۔

دوسری جمال ہے۔
دن کو صفتِ جلال کا ظہور ہے رات کو صفتِ جمال کا ظہور ہے اور جب بڑا جلال کے اندر آجائے اس کے سامنے بولنے کی ہمت کوئی نہیں کرتا۔ لیکن جب بڑا جمال کے اندر ہوتو پھر چھوٹے بڑوں کے سامنے بول پڑتے ہیں۔ اس لیے آدمی دن کو بولنے کی ہمت نہیں کرتا دن کو آہستہ آہستہ پڑھتاہے لیکن جوں ہی سورج غروب ہوتاہے ناں۔ پھر
الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ ق
اری وجد میں آکر تلاوت کرتا ہے اللہ کی صفت جمال جوآگئی جلال اور جمال میں بڑا فرق ہے۔
خیر!میں نے پہلی بات عرض کی ہے اللہ کے کلام اور ہمارے درمیان پیغمبر کا واسطہ ضروری تھا۔ جلالی کلام کو ہم براداشت نہ کرسکتے اگر درمیان میں پیغمبر کا جمالی سینہ اور پیغمبر کی جمالی زبان مبارک نہ ہوتی۔
متن قرآن اور شرح قرآن:
پھر پیغمبر اور ہمارے درمیان ایک واسطہ ہے اس واسطے کا نام ہے اصحاب پیغمبر۔ پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد صحابہ کرام کے واسطے سے یہ قرآن ہمیں ملاہے اب اس پر بھی لوگ اعتراض کرسکتے تھے۔ یہ عجیب بات ہے اللہ نے قرآن کریم جو پیغمبر کودیا ہے وہ بغیر لکھے ہوئے دیا ہے اور پیغمبر نے جو قرآن کریم صحابہ کو دیا ہے وہ بغیر لکھے ہوئے دیا ہے لیکن جوصحابہ نے ہمیں قرآن دیا ہے وہ لکھ کردیا ہے۔ کہیں صحابہ نے قرآن بدل نہ دیا ہو کہیں اس میں تحریفات نہ کردی ہوں العیاذ باللہ مرضی کے ساتھ قرآن میں مداخلت نہ کی ہو۔ یہ اعتراض ہوسکتاتھا ناں ؟
یہ اعتراض اہل تشیع نے کیا ہے روافض نے کیا ہے خالق نے اس اعتراض کا جواب بھی قرآن میں عطافرمایا ہے قرآن کریم کا ایک متن ہے ایک قرآن کریم کی شرح ہےسورة فاتحہ
الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ
یہ قرآن کا متن ہے الم سے لے کر والناس تک یہ پوری قرآن کی شرح ہے قرآن کا متن ختم ہوا شرح شروع ہوتی ہے اللہ نے شرح کو شروع کرتے وقت اس سوال کا جواب دیتے ہیں تمہارے ذہن میں سوال آسکتا تھا کہ رب نے قرآن پیغمبر کو بن لکھے دیا پیغمبر نے صحابہ کو قرآن بن لکھے دیا۔ تو صحابہ نے لکھ کر جو دیا ممکن ہے بدل دیا ہو۔
صحابہ دین متین کے امین ہیں:
صحابی نے لکھ کر جو دیا ممکن ہے درمیان میں اضافہ کردیا ہو اللہ نے فرمایا نہیں
ذَلِكَ الْكِتَابُ لَا رَيْبَ فِيهِ۔
علماءتو بڑی آسانی کے ساتھ سمجھتے ہیں عوام کےلیے ایک بات کہتا ہوں۔ عربی زبان کیا ، پنجابی ، اردو، پشتو، ہر زبان میں اشارے ہوتے ہیں قریب یا بعید کے لیے اگر کوئی چیز موجود ہویاسامنے ہو تو اسم اشارہ قریب کااستعمال ہوگا جسے ہم ”یہ“کہتے ہیں۔ اگر کوئی چیز غائب ہویا چیز دور ہو وہاں اسم اشارہ بعید کا آتا ہے جسے ہم”وہ“کہتے ہیں۔ اب اگر چیز موجود اور سامنے ہو اسے کہتے ہیں ”یہ“عربی میں کہتے ہیں ”ھٰذا“اگر کوئی چیز دور اورغائب ہو عربی میں کہتے ہیں ”ذالک“سوال یہ پیداہوتا ہے کہ اللہ نے جو قرآن ہمیں دیا ہے یہ قرآن غائب تونہیں ہے قرآن تو موجود ہے یہ قرآن بعید تو نہیں ہے۔ یہ قرآن قریب ہے اللہ فرماتے الم ھٰذا الکتاب لا ریب فیہ۔ یہ جو قرآن ہے اس قرآن میں کوئی شک نہیں ہےاللہ نے ”ذٰلک“ ”وہ“ کیوں فرمایا؟ اُس قرآن میں کوئی شک نہیں ہے۔ مفسرین کے حوالے سے یہ جواب بڑا ہی لاجواب ہے۔ اس کا جواب کیاتھا کہ رب کے علم میں تھاآئندہ یہ اعتراض ہوناتھا ممکن ہے صحابہ نے بدل دیا ہو۔ تو رب نے فرمایا الم ذالک ارے:

وہ قرآن جو ابوبکر رضی اللہ عنہ لکھوا کردے گا۔

ذالک وہ قرآن جو عمر بن خطاب لکھواکر دے گا۔

ذالک وہ قرآن جو عثمان لکھ کر تمہیں دے گا۔

ذالک وہ قرآن جو علی لکھ کر تمہیں دے گا۔

ذالک وہ قرآن جو امیر معاویہ لکھ کرتمہیں دیں گے۔

ذالک وہ قرآن جو حضرت زید لکھ کردیں گے۔
جو میں نے قرآن پیغمبر کو دیا ہے اس میں بھی کوئی شک نہیں ہے جو پیغمبر نے صحابہ کودیا ہے اس میں بھی کوئی شک نہیں ہے۔ میں نے بن لکھے دیا وہ بھی لاریب ہے میرے پیغمبر نے بن لکھے دیا وہ بھی لاریب ہے لیکن جو صحابہ تمہیں دیں گے الکتاب وہ لکھا ہواہوگا۔ لاریب فیہ جو صحابی لکھ کردے تم نے اس میں بھی شک نہیں کرنا۔
اس کے اندر بھی شک کی کوئی گنجائش نہیں ہے اس لیے ہم کہتے ہیں قرآن ہو ناں تو کوئی کہتا ہے قرآن پاک کوئی کہتا ہے کلام پاک کوئی کہتاہے کتاب پاک یہ تین الفاظ استعمال کیوں کرتے ہیں ؟

جب اس کا تکلم رب کرتاہے اسے ”کلام پاک “کہتے ہیں۔

جب اس کا تکلم پیغمبر ادا کرتاہے اسے ”قرآن“کہتے ہیں۔

جب صحابی لکھتاہے تو پھر اس کو ”کتاب“کہتے ہیں۔

اللہ کے تکلم سے” کلام اللہ“بنتاہے۔

پیغمبر کے پڑھنے سے ”قرآن“بنتا ہے۔

صحابی کی تحریر سے ”کتاب اللہ“بنتا ہے۔
اگر صحابی کو چھوڑدیں تو پھر کتاب اللہ ثابت ہی نہیں ہوتی۔
قرآن تک پہنچے کے واسطے:
اس لیے میں کہتا ہوں لوح محفوظ میں تھا وہ کیسے لکھا تھا۔ تیرے علم میں نہیں ہے میرے پاس آیا ہے مجھے معلوم ہے قرآن کیوں آیا ہے تو اللہ نے سب اشکالات کو صاف کردیا۔ اس لیے ہم کہتے ہیں قرآن اللہ کا ہے۔ اصل دین اللہ کا قرآن ہے لیکن قرآن تک پہنچنے کےلیے نمبر ایک پیغمبر چاہیے قرآن تک پہنچنے کے لیے نمبر دو پیغمبر کے صحابہ چاہییں یہ واسطے چاہییں اگر یہ دو واسطے درمیان سے نکال دیے جائیں پھر قرآن سمجھ میں نہیں آتا۔ اب معلوم ہوا کہ الفاظ قرآن کے لیے ہمیں پیغمبر کی ضرورت ہے الفاظ قرآن کے لیے ہمیں پیغمبر کے صحابی کی بھی ضرورت ہے۔ اگر صحابہ کو چھوڑدیا جائے تو الفاظ قرآن سمجھ میں نہیں آتے۔ اچھا اگر صحابہ کو چھوڑ دیا جائے تو پھر معانی قرآن سمجھ میں نہیں آتے۔ جب الفاظ قرآن سمجھ نہیں آتے پھر معانی قرآن کیسے سمجھ آئیں گے؟
پیغمبر نے تو صحابہ کوسمجھا دیاصحابہ نے پیغمبر سے سیکھا، صحابہ دنیا سے رخصت ہوگئے ہمیں قرآن کون سمجھائے گا؟ کوئی ہمیں بھی سمجھانے والا ہونا چاہیے۔ بنیادی طور پہ قرآن کے تین حق بنتے ہیں۔ حقوق علماءنے کسی نے پانچ کسی نے سات بیان کیے خلاصہ طور پہ تین حق بنتے ہیں۔
حقوق قرآن:

قرآن کی تلاوت کرنا۔

قرآن کریم کو سمجھنا۔

قرآن کریم پر عمل کرنا۔
یہ تین حق بنتے تھے۔ ایک ہے قرآن کو پڑھنا کوئی دنیا کا شخص یہ نہیں کہتا۔ کہ آدمی قرآن پڑھ سکتا ہے بغیر استاد کے۔ کوئی نہیں کہتا کہ آدمی قرآن پڑھ سکتاہے بغیر قاری کے۔

دیوبندی ہو اس کا نظریہ بھی یہی ہے کہ قرآن کے لیے قاری چاہیے۔

بریلوی ہو اس کا بھی یہی نظریہ ہے قرآن کےلیے تمہیں قاری چاہیے۔

اگر غیر مقلد ہو یہی نظریہ ہے قرآن پڑھنے کے لیے تمہیں قاری چاہیے۔
معلوم ہوا کہ جب تک قاری نہ ہو الفاظ قرآن ثابت نہیں ہوتے۔ لیکن قاری سے دلیل نہیں مانگی جاتی بغیر دلیل کے قاری سے قرآن پڑھا جاتاہے۔
تعلیم قرآن اور تقلید:
کوئی ایک غیر مقلد اس دھرتی پر ثابت نہیں کیا جاسکتا جو قاری کے پاس جائے قاری نورانی قاعدہ کھول کر بیٹھ جائے یہ پوچھے دلیل دو وہ کہے یا یہ کہے جی دلیل دو وہ کہے یا یہ کہے دلیل دو اگر حفظ میں قاری کہہ دے ہمزہ لام زبر ”ال“ح م زبر ”حم“دال پیش دُ الحمد کوئی غیر مقلد نہیں کہتا قاری صاحب آپ نے ہمزہ پر زبر کیوں پڑھی ہے آپ نے لام پہ سکون کیوں پڑھا ہے آپ نے دال کے آخر میں ضمہ کیوں دیا ہے کوئی نہیں پوچھتا اگر چہ صرف و نحو کے بعد گرائمر کے بعد توسمجھ لے گا ہمزہ وصلی تھا۔ یہ مفتوح ہوتا ہے لام تعریف کا تھایہ ساکن ہوتا ہے دال مبتدا کی ہے یہ مرفوع ہوتی ہے۔ یہ دلائل بعد میں آئیں ہیں لیکن یہ دلائل بھی وہی دے گا جو گرائمر کو جانتا ہے۔ غیر مقلد تو گرائمر کا دشمن ہے۔ گرائمر کا تعلق عقل سے ہے یہ عقل کا دشمن ہے اس کو تو گرائمر آنہیں سکتی۔ اس کے پاس دلیل کوئی نہیں تھی۔
میں کہتا ہوں بغیر دلیل کےاس سے پوچھو آپ نے الحمد پہ ہمزہ کے اوپر زبرکیوں پڑھی ؟ کوئی دلیل نہیں تھی اگر بغیر دلیل کے شریعت پر عمل کرلینا یہ شرک ہے تو کیا بغیر دلیل کے قرآن لینا یہ شرک نہیں تھا۔ گیا تھا مدرسہ میں قرآن پڑھنے کے لیے اور مشرک بن کے واپس آگیا۔ میں کہتا ہوں نمبر ایک حق تو یہ تھا نا کہ قرآن کو پڑھنا۔ پڑھوگے کیسے؟ جیسے پیغمبر پڑھ کے سنائے۔ پیغمبر کیسے پڑھے گا ؟ جیسے صحابی پڑھ کے سنارہاہے صحابی نے کیسے پڑھا؟ جیسے تابعی پڑھ کے سنارہاہے۔ تابعی نے کیسے پڑھا ؟ جیسے تبع تابعی نے پڑھ کے سنایا ہے۔ الحمد کے شروع میں ہمزہ کی زبر ہے۔

یہ تب تک ثابت نہیں ہوتی جب تک تو اعتماد نہ کرے۔

یہ ثابت نہیں ہوتی جب تک تو اجماع امت کو نہ مانے۔

یہ ثابت نہیں ہوتی جب تک تو قاری پر اعتماد نہ کرے۔
لوٹ کے بدھو گھر کو آئے:
یہ جو تونے بھونک ماری ہے کہ نہیں جی اگر مسئلہ پوچھو اور دلیل نہ دو توشرک ہے بغیر دلیل کے بات ماننا یہ شرک تھا۔ کیوں اتباع کا معنیٰ یہ تھا کہ بغیر دلیل کے بات مانو یہ پیغمبر کے ساتھ خاص ہے۔ تو توں نے جب اپنے بیٹے کو پڑھنے کے لیے مدرسے میں بھیجاتیرے بیٹے نے دلیل پوچھی ہے ؟قاری سے کہہ تونے الحمد کے ہمزہ کے اوپر زبر کیوں پڑھی ہے ؟ بغیر دلیل کے پڑھا پھر وہ مشرک بن گیا ناں۔ گیا تھا مدرسہ میں قاری بننے کے لیے اور گھر آیا تو مشرک بن کے آگیا۔
اعتماد شرطِ اوَّل ہے:
میں کہتا ہوں قرآن کریم کا لفظ بھی تب تک ثابت نہیں ہوتا جب تک قاری پہ اعتماد نہ کرو معنیٰ ثابت نہیں ہوتا فقیہ پر اعتماد نہ کرو عمل ثابت نہیں ہوتا جب تک شیخ وقت پر اعتماد نہ کرو۔ اعتماد کروگے تینوں چیزیں آجائیں گی اعتماد نہیں کروگے تو کوئی بھی چیز نہیں آئے گی صرف الفاظ قرآن کےلیے ہم پیغمبر کے بھی محتاج ہیں پیغمبر کے صحابہ کے بھی بولیں (سامعین ….محتاج ہیں ) اگر صحابہ درمیان سے نکال دو الفاظ قرآن ثابت (سامعین …نہیں ہوتے)
اطاعت رسول یا بغض صحابہ:
توجہ رکھنا !میں نے ایک بات کرنی ہے اگر پیغمبر کے صحابہ کو درمیان سے نکال دو پھر الفاظ قرآن ثابت نہیں ہوتے۔ ضرور تجھے پیغمبر کے صحابی کو حجت ماننا پڑے گا اگر حجت نہیں مانتا الفاظِ قرآن بھی ثابت نہیں ہوتے۔ بدبخت جوتو نے امت کو درس دیا اطیعوا اللہ کے نام پہ فقہاءسے دور کیا اطیعوا الرسول کے نام پہ فقہاءسے دور کیا۔اطیعوا اللہ اطیعوا الرسول کے نام پہ عمر بن خطاب سے دور کیا عثمان و علی سے دور کیا اصحاب پیغمبر سے دور کیا۔ کیوں رب نے حکم دیا تھا اللہ کی اطاعت کا ہم صحابی کی بات کیوں مانیں ؟
صحابہ معیار حجت اور غیر مقلدین کا نظریہ:
میرا سوال اگر تونے صحابی کی بات نہیں ماننی تو پھر قرآن ہی ثابت نہ ہوا ناں پھر نظریہ غلط ہوگیا جو نواب صدیق حسن خان دیتا ہے کہ صحابہ حجت نہیں ہیں۔ اس کا بیٹا نور الحسن بیان کرتا ہے اصحاب پیغمبر حجت نہیں ہیں۔
عرف الجادی ص101
یہ جو غیر مقلدین نے نظریہ بیان کیا ”اصحاب پیغمبر حجت نہیں ہیں“ہم آج تک سمجھے ہی نہیں ہیں۔ لوگ یہ سمجھتے رہے کہ غیرمقلد امام ابوحنیفہ کا دشمن ہے لوگ یہ سمجھتے رہے کہ یہ امام شافعی کا دشمن ہے۔ رب کعبہ کی قسم! نہیں یہ دھوکا لگا غیر مقلد امام ابو حنیفہ کا دشمن بعد میں ہے پیغمبر کے صحابہ کا دشمن پہلے ہے ، صحابہ کا دشمن بعد میں ہے خود پیغمبر کی ذات کا دشمن پہلے ہے اگر نہیں یقین آتا ”طریق محمدی “اٹھا کےدیکھ لیجئے۔ طریق محمدی اٹھاکر دیکھ لیجئے محمد جونا گڑھی نے لکھا ہے کہتا ہے تم امام کی بات کرتے ہو تم صحا بی کی بات کرتے ہو کہتا ہے اگر نبی بغیر وحی کے بات کہہ دے ہم پیغمبر کی بات کو حجت نہیں مانتے تم صحابہ کی بات کرتے ہو۔
طریق محمدی
یہ کیا کہتے ہیں ہم پیغمبر کی بات کو بھی ( سامعین ….نہیں مانتے ) یہ ہے اطیعوا الرسول لیکن پیغمبر کی بات کو بھی (سامعین …. حجت نہیں مانتے) صحابہ کی بات کو بھی نہیں مانتے۔ میں کہتا ہوں تمہیں غلط فہمی ہوئی ہے تم نے سمجھا ہی نہیں غیر مقلد کتنا بڑا دشمن تھا دین کا۔ ہم نے سمجھا ہی نہیں کتنا بڑا بد عقیدہ تھا ہمارے علم میں نہیں اس کے نظریات کیا تھے؟ ہم اس کو توحیدی بھائی سمجھے۔
میں سندھ میں گیا ہوں بلوچستان میں گیا ہوں کشمیر میں گیا ہوں پنجاب کے چپہ چپہ پر گھوما ہوں غیر مقلدین کے اداروں کے سامنے کھڑے ہوکر میں نے اس بدعقیدہ کو للکارا ہے لیکن آج تک بحمد اللہ آج تک ہمارا جواب کوئی نہیں دےسکا نہیں غلط فہمی تھی کوئی کہتا ہے امین اللہ پشاوری کوئی کہتا ہے عبدالسلام رستمی میں پشاور کی سرزمین پہ علماءکی موجودگی میں کہتا ہوں اگر عبدالسلام رستمی نے غیرت کا دودھ پیا ہے وہ چیلنج کرے میں قبول کرتاہوں نورستانی چیلنج کرے میں قبول کرتا ہوں تم تیار کرلو امین اللہ پشاوری کو۔ تمہیں غلط فہمی ہے تم نے شیخ شیخ کہہ کے اس کو سر پہ بیٹھا لیا ہے یہ شیخ نہیں ہے اگر شیخ ہوتا جہالت کی باتیں نہ کرتا۔
استقامت اور علماءدیوبند:
آپ یقین کریں جب اس کی باری آئے گی میں تذکرہ کروں گا عبدالسلام نے کون سی جہالت کی باتیں کی ہیں تمہارے ہاں شیخ ہوگا میرے ہاں اس کی کوئی قیمت نہیں ہے جو میرے امام پہ بھونکتا ہے میرے ہاں اس کی جوتی کی نوک کے برابر بھی قیم ت نہیں ہے۔ جو میرے امام پہ تبرا کرتا ہے رب کعبہ کی قسم! میں اس کی دستار کو قیمتی نہیں سمجھتا۔

o

میرے ہاں قیمت ہے حاجی امداد اللہ مہاجر مکی کی۔

o

میرے ہاں قیمت ہے حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی کی۔

o

میرے ہاں قیمت ہے شیخ العرب والعجم مولانا حسین احمد مدنی کی۔

o

میرے ہاں قیمت ہے حضرت حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانوی کی۔

o

میرے ہاں قیمت ہے حضرت شیخ الہند مولانا محمود حسن دیوبندی کی۔
تم اپنا عقیدہ بیان کرو تم سو بار بیان کرو تمہیں کوئی نہیں روکتا۔ لیکن میرے اکابر پر بھونکے کی تم نے کوشش کی تو میرے رب نے چاہا میں تمہاری زبان کو لگام دوں گا ان شاءاللہ۔ تمہاری جرات نہیں ہے کہ تم ہمارے اکابر کے خلاف زبان درازی کرو۔ بحمد اللہ ہمارا علماءدیوبند سے تعلق ہے بزدلی ہمارے قریب بھی نہیں گزری تم تو جیل سے اتنے ڈرتے ہو عبد السلام رستمی ڈرتاہے ایک مقدمہ 302کا آگیا مذہب بدل دیا رہائی کے لیے۔ بحمد اللہ تمہارے اس خادم نے تین مرتبہ 302کی بنیاد پہ جیل کاٹی ہے آج تک میں نے مؤقف نہیں بدلا تجھ سے دو سال برداشت نہیں ہوئے میں نے سات سال جیل کاٹی ہے۔ ہم نے آج تک مؤقف نہیں بدلا۔ آپ یقین کیجئے تین تین سال کا عرصہ مسلسل میں نے پاؤں میں بیڑیاں باندھ کر جیل کاٹی ہے۔ ہم نے آج تک مؤقف نہیں بدلا ہمارا تعلق اکابر علماءدیوبند سے ہے۔ یاد رکھو ! ہمارا تعلق:

حضرت امام اعظم ابوحنیفہ سے ہے جیل سے جنازہ اٹھاہے مؤقف نہیں بدلا۔

امام احمد بن حنبل سے ہے کوڑوں نےجان لی ہے مؤقف نہیں بدلا۔

حسین احمد مدنی ہمارے اکابر کی زندگیاں گزرگئیں لیکن مؤقف نہیں بدلا۔
جو مؤقف بدل جائے تم توحیدی کہہ دو میں اس کو توحیدی نہیں مانتا۔
تم سارے کیوں نہیں بولتے ڈرتے ہوکیا۔ اللہ کے بندوں اگر مناظرہ ہوگیا تم نے کرناہے یا میں نے کرنا ہے؟ تمہیں کیا ڈر ہے اگر جیل آنی ہے تو مجھ پر آنی ہے تمہیں کیا ڈر ہے اگر پشاور کی حکومت گرفتار کرے گی تو مجھے کرے گی۔
یہی گھوڑا یہی میدان:
میں چیلنچ کے ساتھ کہتا ہوں میں نے تمہیں للکارا ہے تم میرے خلاف F.I.Rدرج کراؤ۔ تم عدالت میں مناظرہ کرلو۔ میں اس کےلیے بھی تیار ہوں تم میدان لگا کرتو دیکھوناں۔ بند کمرے میں بیٹھ کے بھونک لینا بہت آسان ہے کتاب لکھ کے سعودیہ بھیج کے ریال کمالینا بہت آسان ہے۔ لیکن سٹیج سجاکر بات کرنی بہت مشکل ہے اگر عبدالسلام رستمی کا کوئی ایجنٹ یہاں پر موجود ہو امین اللہ پشاوری کا کوئی چہیتا یہاں موجود ہو اگرنورستانی کا کوئی ٹاؤٹ یہاں پہ موجود ہو آؤ میں تمہیں جرات کےساتھ کہتا ہوں اسٹیج تم لگاؤ جلسہ تم کرو اپنے ادارے میں کرو اشتہار تم شائع کرو اس کے پیسے میں اداکروں گا۔ ایک طرف نام میرا لکھ دو ایک طرف نورستانی کا لکھ دو ایک طرف میرا لکھ دو ایک طرف امین اللہ پشاوری کا لکھ دو۔ اسٹیج تمہارا ہوگا اشتہار تم لگاؤاس کے پیسے میں اداکردوں گا۔ مجمع عام میں بات کرو میں اپنے مؤقف پہ دلائل دوں گا میرے دلائل کو تم توڑو تم اپنے مؤقف پہ دلائل دو تمہارے دلائل کو میں توڑتا ہوں عوام میرے حق میں فیصلہ دے مجھے مان لو تمہارے حق میں فیصلہ دے تمہیں مان لوں گا۔ بات ٹھیک ہے یا غلط ؟ سامعین …ٹھیک ہے
ہم تو کہتے ہیں تم میدان لگاکرتو دکھاؤناں۔ تم میدان لگاؤمیں دیکھتاہوں کہ تمہاری علم کی سطح کتنی ہے؟ بند کمروں میں بیٹھ ے شوشے چھوڑنا بڑا آسان ہے ڈھکوسلے مارنا بڑا آسان ہے۔ وسوسے ڈالنا بڑا آسان ہے سامنے آکر دلائل دینا بڑا مشکل ہے تمہارے پاس وسوسے موجود ہیں۔ میرے علم میں ہیں ان شاءاللہ یہ بحث جب چلی گی تو ابھی حضرات نے جامعہ رحمانیہ میں رکھا ہے کورس جس میں مختلف علماءآئیں گے۔ عبد السلام کے علاقہ میں بھی ہوا میں وہاں جاکر بھی کہتارہا۔ میں نے عرض کیا وسوسے ڈالنا بڑے آسان ہیں۔ شوشے ڈالنا بڑے آسان ہیں لیکن دلائل دینے (بڑے مشکل ہیں ) بند کمرے میں باتیں کرنا بڑی آسان ہیں ابھی طالب الرحمٰن نے کتاب لکھی ہے میں نے کل خیابان سرسید اس کے علاقہ میں جاکے بات کی ہے میں نے کہا میں تیرے علاقہ میں تجھے چیلنج دے کر جارہاہوں میرے چیلنج کو قبول کر!
انٹر نیٹ پہ مناظرے کا طریقہ:
ایک غیر مقلد مجھے فون کرتاہے کہتاہے جی طالب الرحمٰن سے تمہارا مناظرہ کرانا ہے۔ میں نے کہا کراؤ کہتا ہے جی انٹر نیٹ پہ ہوگا میں نے کہا کراؤ انٹرنیٹ پہ میں نے کہا انٹر نیٹ میں مناظرے کی صورت یہ ہوگی مسجد طالب الرحمٰن کی ہوگی ہم آمنے سامنے بیٹھیں گے اور انٹرنیٹ براہِ راست اس کو نشر کرےگا۔ کہتاہے یوں نہیں تم سرگودھے ہوگے طالب الرحمٰن اسلام آباد میں ہوگا وہاں بیٹھ کے مناظرہ نشر ہوگا میں نے کہایہ مناظرہ ہے یا ذاکر نائیک کی بڑھک ہے یہ مناظرہ نہیں ذاکر نائیک کی (سامعین ..بڑھک ہے) ذاکر نائیک بھی ایک مستقل فتنہ ہے یہ بدبخت مستقل فتنہ ہے لیکن ہمیں سمجھ نہیں آتی علماءپتہ نہیں کیوں سکوت اختیار کرجاتے ہیں۔ ذاکر نائیک غیر مقلد ہے یہ مستقل فتنہ ہے اس نے امت کو وہ گمراہ کن اصول دیے ہیں پتہ نہیں آپ اس کو پڑھتے نہیں یا آپ اس کو سنتے نہیں ہو۔ اس کی کتب میں غور نہیں کرتے جس کو چند لوگوں نے سن لیا ہم بات نہیں کرتے۔ لوگ کیا کہیں گے عوام کیا کہیں گے؟ارے تم سپاہی ہو!!! سپاہی عوام سے نہیں ڈرتے سپاہی لوگوں سے نہیں ڈرتا وہ جس کا نوکر ہو اس کی کھل کے بات کرتا ہے۔ یہ تو ذاکر نائیک نے امت میں گمراہی پھیلائی ہے۔

میں نے ذاکر نائیک پہ بحمد اللہ مستقل بیان کیے ہیں۔

جاوید غامدی فتنہ ہے میں نے مستقل بیان کیے ہیں۔

غیر مقلدیت فتنہ ہے ہم نے مستقل گفتگو کی ہے۔

مماتیت فتنہ ہے ہم نے مستقل گفتگو کی ہے۔
ہم نے اپنے اکابر علماءدیوبند کے نظریات کو بیان کیا ہے اور رب نے چاہا توجرات کےساتھ بیان کریں گے اور جومؤقف بیان کریں گے اس مؤقف پہ پہرا بھی دیں گے ان شاءاللہ۔ دینا چاہیے کہ نہیں بھائی سامعین …دینا چاہیے
تم کیوں ڈرتےاور گھبراتے ہو؟ تم تھوڑی سی ہمت تو کرو دلائل تمہارے پاس ہیں تقویٰ تمہارے پاس ہے طاقت تمہارے پاس ہے یہ سب کچھ تمہارے پاس ہے لیکن پریشان بھی تم ہو، کیوں؟ اس لیے میں معذرت کے ساتھ کہتاہوں دلائل موجود ہیں اکثریت موجود ہے لیکن جب غیرت ختم ہوجائے پھر لوگ پریشان ہوا کرتے ہیں جب شیر گرجنا چھوڑ دے پھر گیدڑ کی بھبکیوں سے لوگ ڈرجایا کرتے ہیں لیکن جب شیر گرجتے ہیں تو پھر گیدڑ کو چیخیں مارنے کی جرات نہیں ہوتی۔ یہ گیدڑ اس لئے باہر نکلے ہیں کہ تم شیروں نے گرجنا چھوڑ دیا ہے تم میدان لگا کر تو دیکھو ان کے لئے پاکستان کیا اس پشاور کی سر زمین پر جینا بھی مشکل ہو جائے ، لیکن ہماری کمزوری ہمارے بیانات نہ کرنے کی وجہ سے نتیجہ نکلا آئے دن ایک غیر مقلد دوسرا غیر مقلد تیسرا غیر مقلد خیر اللہ ہمیں بات سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے۔
یہ تو میں نے مختصر سی بات درمیان میں عرض کردی ہے یہ تم ذہن نشین کرلو ہم بھاگنے اور دوڑنے والے (سامعین …نہیں ) تم جب چاہو میدان لگا لو میں تمہیں چیلنج کرکے جا رہا ہوں یہ ریکارڈ پر موجود ہے ان شاءاللہ ثم ان شاءاللہ جب جنگ ہوئی تمہیں پتہ چلے گا کہ دیوبندیت جنگ لڑتی کیسے ہے ؟
دیوبند ایک نظریہ کا نام ہے:
تمہیں تو دیوبند دیو بند کہتے شرم آتی ہےعلم شیخ الہند سے لیا اس کے نام پہ سیاست بھی کی ہے اس کے نام پر جہاد بھی کیا اس کے نام پہ خانقاہ بھی بنائی ہے اس کے نام پہ تبلیغی جماعت بھی چلائی ہے لیکن کہتے ہیں مولانا! نہیں! دیوبند کی بات نہ کرو۔ کیوں بات نہ کریں ؟

دیوبند ایک نظریے کا نام ہے جس نے انگریز کے پاؤں اکھیڑے ہیں۔

دیوبند ایک نطریے کا نام ہے جس نے باطل کو للکار اہے۔

دیوبند ایک نظریے کا نام ہے جس نے پوری دنیا میں دین کا علم بلند کیا ہے۔
پھر ہم دیوبند کا نام کیوں نہ لیں؟ہم لیں گے اور جرات کے ساتھ لیں گے ان شاءاللہ۔ خیر میں عرض کر رہا تھا قرآن و سنت کے نام پہ۔ قرآن؛ پیغمبر کو دیا ہے رب نے ایک واسطہ درمیان میں پیغمبر ہے اور پیغمبر کے بعد کون ہیں؟(سامعین …اصحاب پیغمبر) اصحاب پیغمبر اور غیر مقلد اصحاب پیغمبر کو حجت ؟( سامعین …نہیں مانتے) یہ اصحاب پیغمبر کو حجت نہیں مانتا تم اس سےبات کرکے تو دیکھو۔
مسئلہ بیس تراویح اور غیر مقلدین:
غیر مقلد سے پوچھو بھائی تم بیس رکعات تراویح کیوں نہیں پڑھتے ؟ کہتا ہے عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے شروع کی ہیں ہم نے کلمہ عمر کا تو نہیں پڑھا۔ ہم نے تو نبی کا پڑھا ہے ہمارے ہاں عمر رضی اللہ عنہ تو حجت نہیں ہیں اگرچہ جھوٹ بولتا ہے بیس رکعات تراویح تو پیغمبر نے بھی پڑھی ہے۔ بیس رکعات تراویح تو مرفوع حدیث میں موجود ہے لیکن یہ تو دلائل کی باتیں ہیں یہ تو مناظرہ اور جنگ کی باتیں ہیں۔ بات غلط ہے جو بات ہمارے ہاں شہرت اختیار کر گئی ہے کہ پیغمبر سے ثابت نہیں نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم سے احادیث مرفوعہ کی روشنی میں بیس رکعات پڑھنا بھی ثابت ہے۔ ہم جو عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کی سنت کہتے ہیں بیس رکعت کو عمر بن خطاب کی سنت نہیں کہتے بیس رکعات کو باجماعت پورا مہینہ ادا کرنا عمر بن خطاب کی سنت کہتے ہیں اور یہ سنت غیر مقلد بھی اختیار کرتا ہے پورا مہینہ پڑھتا ہے کہ نہیں (سامعین…پڑھتا ہے) تو یہ نبی کی سنت ہے ؟ سامعین …نہیں تو یہ کس کی ہے؟ ( سامعین ….عمر بن خطاب کی )
ہم عرض کریں گے تو شکایت ہوگی:
ایک غیر مقلد تھا میں نے لاہور میں بیان کیا تراویح کے موضوع پر پہلا بیان تھا جب پہلا بیان ہو تو بڑی تکلیف ہوتی ہے کیوں جس نے کبھی مار کھائی نہ ہو اس کو ایک بھی مارو درد تو ہوتی ہے لیکن جب بار بار ماروگے مار کھانے کی عادت پڑ جائے گی ان شاءاللہ یہ رونا چھوڑدے گا۔ جب ایک بار جلسہ رکھوگے تو بڑا شور کریں گے پانی کی جھاگ نہیں میں کہتا ہوں پیشاب کی جھاگ کی طرح ابھریں گے نجاست کی جھاگ کی طرح آئیں گے لیکن جب تم ایک دو مرتبہ ٹکور کردوگے پھر دوبارہ تمہارے سامنے آئیں گے(سامعین ….نہیں ) میری زبان بڑی سخت ہے لیکن یہ سخت نہیں میں نے بہت نرم استعمال کی ہے جو ہم نے گالیاں سنی ہیں وہ تمہارے علم میں نہیں اگر تم اس بدبخت کو پڑھ لو جو گالیاں تمہارے اکابر کو یہ دیتا ہے اگر تم سن لو تمہاری زبان مجھ سے بھی تلخ ہوجائے۔
دودھ اور علم:
میں نے ایک جگہ پر بیان کیا دوسری مرتبہ گیا وہ ساتھی تبلیغی تھا مجھے کہتا ہے مولانا یہ حجرہ شاہ مقیم اوکاڑے کی بات ہے اس کے ساتھ ہے حویلی لکھا۔ مجھے کہتا ہے آپ آئے تھے فلاں مولوی غیر مقلد اس پر آپ نے بات کی تھی میں نے کہا جی ہاں کہتا ہے پہلے اس کے پیچھے میں نماز پڑھتا تھا آپ کی زبان بڑی سخت ہے مجھے دکھ ہوا آپ دلائل تو دیتے ہیں لیکن لہجہ بڑا سخت ہے میں نے کہا پھر؟ کہتا ہے اب میں اس کے پیچھے نماز نہیں پڑھتا میں نے کہا توں نے نماز کیوں چھوڑی ہے ؟
]مولانا کو اٹھاؤبھائی سونے والی بات بڑی غلط ہے فرنٹ سیٹ پہ سونا منع ہے۔ ہمارے شیخ حکیم محمد اختر دامت برکاتہم اللہ ان کو صحت عطاء فرمائے میرے پیر ہیں میں اس پر بات سناتا ہوں کہ مجمع میں کوئی سوجائے تو خطیبوں کو غصہ چڑھ جاتا ہے ہمیں غصہ نہیں چڑھتا یہ مجمع ہوتا ہواورخطیب غصہ کرجائے یہ خطیب کی کم علمی ہے اگر خطیب میں جہالت نہ ہو تو پھر غصہ نہیں چڑھتا۔ ہمارے شیخ دامت بر کاتہم فرماتے ہیں کہ جب مجلس میں کوئی سوجائے تو لعنت اور ملامت مت کرو اس لیے کہ علمی مجلس کی مثال تو ماں کی گود کی ہے۔ بچہ گراؤنڈ میں کرکٹ کھیلتا ہے تو نہیں سوتا ماں کی گود میں آتا ہے تو سوجاتا ہے بچہ گلیوں میں گلی ڈنڈا کھیلتا ہے نہیں سوتا ماں کی گود میں (سامعین…سوجاتاہے) کبھی ماں نے کہا کرکٹ کھیلتے تو نہیں سوتا میری گود میں کیوں سویا ہے۔؟ ماں جانتی ہے کرکٹ میں سکون نہیں ہے میری گود میں سکون ہےتو مولوی اسٹیج پر کیا کہتے ہیں؟ دکان میں تو نہیں سوتا بیان میں توں سوتا ہے۔ بھائی دکان میں سکون نہیں ہے بیان میں سکون ہے۔ لوگ اسے کہتے ہیں بھائی مزدوری کرتے تو نہیں سوتا تجھے پیسے نظر آتے ہیں ہمارے بیان میں سوجاتے ہو بابا پیسے میں سکون نہیں ہے بیان میں (سامعین …سکون ہے ) تو سونا اس بات کی دلیل ہے کہ تمہارا بیان ٹھیک ہے یہ تو سوکر مہر لگا رہا ہے کہ آپ کا بیان ٹھیک ہے حق ہے سکون ہمیں آرہا ہے توتم اپنے بیان کی تردید کیوں کرتے ہو۔ تو ہمارے شیخ فرماتے علمی مجلس کی مثال تو ماں کی گود کی طرح ہے بچہ گراؤنڈ میں کرکٹ کھیلتے ہوئے نہیں سوتا مگر ماں کی گود میں آکر (سامعین …سو جاتا ہے) یہ میرے شیخ کا متن ہے میں اس پر حاشیہ چڑھا کے اگلی بات کہتا ہوں لیکن ماں کی گود میں جب سو جاتا ہے ماں ڈانٹی تو نہیں ہے ، ماں ملامت تو نہیں کرتی۔ مگر ماں ایک جملہ کہتی ہے کہ میں بھی کہتا ہوں اب دودھ پی لو پھر سوجانا ایک گلاس دودھ کا پی لو اور پھر سوجانا۔ علم کی مثال تو دودھ سے ہے ناں رب زدنی علما فرمایا یا بارک لنافیہ وزدنا منہ فرمایا۔ خواب میں دودھ آجائے تو تعبیر اس کی علم سے ہے تو اس لئے ہم یہ تو نہیں کہتے کیوں سوئے ہو؟ ہم کہتے ہیں بھائی تھوڑی دیر کے لئے اٹھ جاؤ ایک گلاس دودھ پی لو پھر سوجانا۔ اور دودھ بھی ان شاءاللہ خالص ہوگا یہ ملاوٹ والا دودھ نہیں ہوگا ان شاءاللہ۔ میں نے یہ کیوں کہا جو آدمی کبھی خالص دودھ نہ پیے اچانک خالص دودھ پی لے اس کو پیچش لگ جاتے ہیں تو میری بات کیونکہ خالص ہوتی ہے بعضوں کو ہضم نہیں ہوتی ان کو پیچش لگ جاتے ہیں یہ دلیل ہے ہمارا دودھ خالص ہونے کی نہیں سمجھے یہ دلیل ہے ہمارا دودھ) سامعین …. خالص ہونے کی( اس لئے کبھی کبھی پیچش لگ جاتے ہیں لیکن جو خالص دودھ پینے کا عادی ہو اس کو پیچش نہیں لگتے جو اہل حق ہو خالص مسئلہ سنتا رہتا ہو اس کا ہاضمہ خراب نہیں ہوتا۔ جب اہل باطل کے سامنے ہمارا علم آتا ہے۔ پھر پیچش لگتے ہیں پھر وہ زور سے سب کچھ کرتا ہے پھر اس نے گند تو مارنا ہوتا ہے ہمارے ساتھی اُس کے گند کی بدبو کو دیکھ کر کہتے ہیں نہیں نہیں مولانا تمہارا مسئلہ ٹھیک نہیں تھا۔ کیوں بھائی اس لئے دیکھ کر اس کو پیچش لگے ہیں۔ میں کہتا ہوں نہیں نہیں ہمارا دودھ خالص تھا اس کا معدہ خراب تھا اس کو تم ملامت کرو ہمیں ملامت مت کرو۔ اللہ ہمیں بات سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے۔ ]
ہماری عقیدتوں کے محور:
اب بات سمجھو ہر ایک ہمارے اور قرآن کریم کے درمیان واسطہ کون تھا۔ پیغمبر میں جو بات کر رہا تھا مجھے کہتا ہے حضرت میں نے ان کے پیچھے نماز چھوڑ دی ہے کہتا ہے اب دلیل سن! کہتا ہے اس نے ایک جمعہ میں مولانا طارق جمیل صاحب کو برا کہا۔میں نے کہا دیکھ جب اس نے مولانا طارق جمیل کو برا کہا تو نے نماز چھوڑ دی ہے کیوں تجھے طارق جمیل صاحب سے پیار تھا اور:

مجھے ابو بکر سے پیار ہے۔

مجھے عمر بن خطاب سے پیار ہے۔

مجھے عثمان و علی معاویہ رضی اللہ عنہم سے پیار ہے۔ میں نہ نماز پڑھوں گانہ پڑھنے دوں گا۔

مجھے امام ابو حنیفہ سے پیار ہے۔

مجھے امام مالک ، شافعی سے پیار ہے۔

مجھے احمد بن حنبل سے پیار ہے۔

مجھے حاجی امداد اللہ مہاجر مکی سے پیار ہے۔

مجھے اپنے اکابر سے پیار ہے۔
جس سے تجھے پیار تھا تیرے بس میں تھا تو نے نماز چھوڑ دی اور تو کچھ نہیں کر سکتا میرے بس میں تھا میں نماز بھی چھوڑتا ہوں دوسروں کو پڑھنے بھی نہیں دیتا۔ جتنی مخالفت توں کرسکتا تھاتو نے کی ہے جتنی میں کر سکتا ہوں میں کروں گا۔ بات ٹھیک ہے (سامعین …ٹھیک ہے) تمہیں معلوم ہی نہیں اس کے نظریات کون سے ہیں ؟ جس کو جس سے عقیدت ہو آدمی کبھی بھی گالی نہیں سنتا مجھے گالیاں ملتی ہیں آپ یقین کیجیئے اتنی سخت گالیاں ملتی ہیں آپ میں سے کوئی شاید برداشت نہ کرسکے۔ ایک غیر مقلد نے مجھے فون کیا ایک مس کال دوسری مس کال اٹھارہ مس کالیں کی میں نے رات بارہ بجے فون کیا۔ میں نے کہا ممکن ہے اس آدمی کے پاس پیسے نہیں ہونگے مجبوری ہے مس کالیں کر رہا ہوگا۔ چلو میں اس کو کال کردیتا ہوں۔ میں ساتھیوں سے مذاق میں کہتا ہوں میں رات کو سوجاتا ہوں میرا فون نہیں سوتا پھر جب میں صبح اٹھتا ہوں جتنی مس کالیں آتی ہیں میں سب کو واپسی پر فون کرتا ہوں۔ یہ بتانے کے لئے کہ اب میں اٹھ گیا ہوں اب آپ دوبارہ فون شروع کردو بے شک آپ آزما کر دیکھیں آپ جب فون کریں گے میں درمیان میں فون آن کرتا جا رہاہوں یہ سمجھتے ہیں کہ مولانا بیان میں لگے ہیں۔ پھر فون شروع ہو جائیں گے آپ فون کرکے دیکھو کبھی آپ کا فون مس نہیں ہو گا اگر میں نے سن لیا آپ کو جواب ملے گا اگر میں سویا ہوا واپس پھر فون کرکے آپ کو بتاؤں گا کہ اب جاگ گیاہوں۔
کم عقلوں کا طبقہ:
اب بات کرنا چاہو تو کرلو۔ خیر میں عرض یہ کر رہا تھا کہ مجھے ایک مرتبہ اٹھارہ مس کالیں کیں میں نے واپسی فون کیا۔ یقین کریں میں زبان پہ وہ گالیاں لا نہیں سکتا فون آن کرتے ہی ماں کی گالی، بہن کی گالی مسلسل گالیاں میں نے کہا بھائی تم گالیاں دیتے ہو کوئی بات بھی کرنی ہے کہتا ہے ہاں میں نے کہا کون سی کرنی ہے ؟کہتا ہے ہم نے تیری بیٹی کا رشتہ لیناہے میں نے کہا بھائی ٹھیک ہے اس پر گالیاں دینے کی کیا ضرورت ہے رشتہ لینا تمہارا حق ہے صبح اپنے والد کو بھیجو ہمارے گھر آجاؤ اگر ہمیں پسند آگیا رشتہ دے دیں گے نہ پسند آیا تو نہیں دیں گے میں نے کہا بیٹا آپ ناراض نہ ہوں میں آپ سے ایک بات پوچھتا ہوں تو غیر مقلد تو نہیں ہے؟ اب وہ پانی پانی ہوگیا میں نے جواب تو نہیں دیا وہ گالیاں دے رہا ہے پھر رشتہ مانگ رہا ہے۔ میں نے کہا تو غیر مقلد تو نہیں ہے ؟کہتا ہے کیوں مولانا؟ میں نے کہا تیری گفتگو بتاتی ہے تو غیر مقلد ہے کہتا ہے وہ کیسے ؟ میں نے کہا جس سے بیٹی کا رشتہ مانگیں اس کو ماں کی گالی نہیں دیتے یہ بے عقل ہونے کی دلیل ہے کہ آدمی گالیاں دے کر پھر رشتہ مانگتا ہے معلوم ہوا وہ اس طبقہ سے تعلق رکھتا ہے جو بے وقوفوں کم عقلوں کا طبقہ ہے۔
میں نے کہا میرا بیٹا یوں نہیں کرتے آپ یقین کریں فوراً کہتا ہے شیخ مجھ سے غلطی ہوگئی میں نے کہا غلطی کی بات نہیں ہے جو تجھے درس دیا گیا تو نے وہی سنانا ہے جو تجھے سبق دیا گیا ہے تو نے وہی سنانا ہے۔ میں کہتا ہوں میں اپنی ذات پہ کبھی بحث نہیں کرتا لیکن اگر اکابر پر بات آئے تو کبھی برداشت نہیں کرتا۔
دین کامل اورنسبت صحابہ کی وجہ:
تودوسرا واسطہ کون سا پیغمبر کے ؟ (سامعین …صحابہ کا) میں نے مسئلہ سمجھانا ہے لیکن بہت سی باتیں جان بوجھ کر میں درمیان میں لاتا ہوں تاکہ ان کی خباثتیں تمہارے ذہن میں آئیں تمہیں پتہ چلے ہماری زبان سخت کیوں ہے۔ ؟ دوسرا واسطہ پیغمبر کے صحابہ کا تھا اب صحابہ کو چھوڑ دو کوئی دین کا مسئلہ ثابت نہیں ہوتا اس لئے میں کہتا ہوں اب بات ذہن نشین کرنا ہم نے پیغمبر کے صحابہ کو درمیان میں واسطہ کیوں مانا تم جاؤ اکابر علماءدیوبند کے پاس جب فتویٰ دیں گے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا نام ہوگا صحابی کا نام ہوگا آثار ہوں گے موقوف حدیثیں ہوں گی فوراً کہتے ہیں جی مرفوع حدیثیں پیش کرو ہم نے پیغمبر کا کلمہ پڑھا ہے ہم سے پیغمبرکی بات کرو میں کہتا ہوں ایک آیت جب اتری تو لفظ دین کا استعمال کیا اب کہتا ہے لکم دینکم ولی دین مکہ مکرمہ میں تو رب نے دین کی نسبت پیغمبر کی طرف کی ہے لیکن مدینہ منورہ میں رب کہتا ہے الیوم اکملت لکم دینکم اب دین کی نسبت رب نے پیغمبر کے صحابہ رضی اللہ عنہم کی طرف کی ہے مکہ میں دین کامل نہیں تھا ابھی قرآن مکمل نہیں تھا۔ مسائل مکمل نہیں تھے اصول شریعت مکمل نہیں تھے تو رب نے دین کی نسبت پیغمبر کی طرف کی ہے۔ لیکن جب دین کامل ہوگیا نسبت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف نہیں کی نسبت صحابہ کی طرف کی ہے۔ یہ مسئلہ بتانے کے لئے کہ دین کامل ہوگا توصحابہ کے ساتھ ہو گا (سبحان اللہ) پھر اس کا کیا معنیٰ کہ صحابہ کو درمیان سے نکال دو۔
مفتی تقی عثمانی اور …..البانی:
ایک غیر مقلد آیا دو کتابیں اٹھائی ہوئی ہیں ایک کتاب شیخ الاسلام مولانا محمد تقی عثمانی دامت برکاتہم کی کہتا ہے یہ دیکھو کتاب ہے مولانا تقی عثمانی صاحب کی اور لکھا ہے” آئیے نماز سنت کے مطابق پڑھیئے“۔ کہتا ہے یہ دیکھو کتاب”صفۃ الصلوة“ناصر الدین البانی کی۔ دونوں میں فرق کیا ہے کہ مولانا تقی عثمانی کتاب لکھتاہے ساتھ حدیثیں نہیں لکھتا ساتھ دلائل نہیں لکھتا اب دیکھو ناصر الدین البانی کو۔ کتاب لکھتا ہے ساتھ حدیثیں لکھتاہے اب اگر عام آدمی کے پاس جاؤگے وہ کہے گا بات تو بڑی معقول ہے البانی تو حدیث لکھتا ہے لیکن مولانا تقی عثمانی تو حدیث نہیں لکھتا تو معلوم ہواالبانی کی کتاب ٹھیک ہے۔ میں نے کہا نہیں نہیں! بے وقوف تو بات کو سمجھا ہی نہیں ہے مولانا تقی عثمانی کا طرز یہ پیغمبر کے صحابہ والا ہے اور ناصر الدین البانی کا طرز یہ پیغمبر کے صحابہ سے ہٹاہوا ہے۔ کہتاہے جی وہ کیسے۔
میں نے کہا مصنف ابن ابی شیبہ اٹھالو ، مصنف عبد الرزاق اٹھالو دیگر آثار کی کتب اٹھالو صحابی فتویٰ دیتا ہے ساتھ حدیث نہیں پڑھتا۔ صحابی فتویٰ دیتاہے ساتھ حدیث پیغمبر نہیں بتاتا۔ معلوم ہوا اپنوں کو فتویٰ دینے کا طریقہ اور ہے اور غیروں سے گفتگو کرنے کا طریقہ اور ہے۔ حضرت علی المرتضیٰ نے حضرت ابن عباس کو جب مناظرے کےلیے بھیجا فرمایا اب دلیل کے ساتھ بات کرنا پیغمبر کی سنت اس کو ضرور پیش کرنا ورنہ یہ تمہارے قابو میں نہیں آئیں گے۔ معلوم ہوا اپنوں کو مسئلہ بتاتے ہوئے ساتھ دلیل نہ دینا یہ پیغمبر کے صحابہ کا طریقہ ہے تو مولانا تقی عثمانی کا طریقہ پیغمبر کے صحابہ والاتھا البانی کا طریقہ صحابہ میں نہیں تھا وہ صحابہ کو مانتا تھا طریقہ ان کا لے گیا یہ نہیں مانتاتھا طریقہ نہیں لیا۔
میں کہتا ہوں ان عنوانات کو ہمیں سمجھتے ہیں۔ ہم پھر پریشان ہوتے ہیں یار بات تو بڑی معقول ہے ان کی زبیر علی زئی کی کتاب دیکھو بڑی حدیثیں لکھی ہیں بہشتی زیور دیکھو ایک حدیث نہیں ہے ارے تعلیم الا سلام دیکھو ایک حدیث نہیں ہے فلاں کتاب دیکھو ایک حدیث نہیں ہے۔ ایک ہوتاہے طریقہ مسئلہ عوام کو بتانے کا۔ ایک ہوتاہے طریقہ مخالف سے بحث کرنے کا جب مخالف سے ہوگی دلائل ساتھ چلیں گے لیکن جب مسئلہ عوام کو دوگے وہاں دلیل پیش نہیں کی جاتی۔ میں ایک بات کہتا ہوں میں نے کہا تم نے بد دیانتی کا مظاہرہ کیا مولانا تقی عثمانی کتابیں دو لکھتا ہے ایک کتاب لکھتاہے عوام کے لیے ساتھ دلیل نقل نہیں کرتا ایک کتاب لکھتا علماءکے لیے پھر ”تکملہ فتح الملہم“ میں ساتھ دلیل نقل کرتاہے۔
حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانوی بہشتی زیور دیتا ہے عوام کو ساتھ دلائل نقل نہیں کرتا لیکن یہی حضرت تھانوی جب اعلاءالسنن 21 جلدوں میں لکھواتا ہے پھرساتھ دلائل نقل کرتاہے۔ وہی تھانوی احکام القرآن لکھواتا ہے ساتھ دلائل دیتا ہے تونے عوام کو گمراہ کرنے کے لیے بہشتی زیور کا حوالہ دیا۔ دیا نت کا تقاضا یہ تھا تو کہتا حکیم الامت اشرف علی تھانوی کا کمال یہ ہے علماءکی کتاب لکھی ہے ساتھ دلائل درج کیے ہیں عوام کی کتاب لکھی ہے بغیر دلائل کے۔ اگر وقت ہے دلائل دیکھ لے اگر وقت نہیں بغیر دلائل کے مسئلہ سیکھ لے۔ مسئلہ بڑا آسان تھا لیکن دیکھو اس نے مسئلہ الجھانے کی کوشش کی ہے فطرت ہے غلط بیان کرنا ، اس کی عادت ہے غلط بات بیان کرنا۔ میں عرض کررہاتھاہمارےاورپیغمبرکےدرمیان واسطہ کون ہیں؟ (سامعین…. صحابہ) ایک کام تو پیغمبر نے کر دیا ،ایک کام پیغمبر کے صحابہ نے کردیا۔ ہم نے پیغمبر کو بھی مانا۔ کیوں ؟ نبی نے قرآن امت کو دے دیا احادیث امت کو دے دی ہیں ہم نے مان لیا پیغمبر کے صحابہ نے دوسرا کام کردیا قرآن پیغمبر سے لیا امت کے حوالے کردیا احادیث پیغمبر سے لی ہیں امت کےحوالے کردی ہیں۔
اصحاب محمد کی زندگیاں:
لیکن ایک کام صحابہ نے ابھی نہیں کیا تھا ایک کام اصحاب پیغمبر کا باقی تھا وہ کون سا ؟ اللہ کے پیغمبر لائے ہیں قرآن کو اللہ کے پیغمبر لائے ہیں احادیث کو امت کے سامنے پیش کردیا اصحاب پیغمبر نے قرآن کو لیا تو دنیا میں پھیل گئے۔ پیغمبر کے دین کو لیا کوئی افغانستان، خراسان میں پہنچے کوئی پیغمبر کے دین کولے کر الجزائر میں پہنچے کوئی پیغمبر کے دین کولے کر دور دراز علاقوں میں پہنچے یہ کام صحابہ کرگئے۔ ابھی ایک کام باقی تھا کہ جو دین پیغمبر نے دیا اس کو لکھنا باقی تھا اصحاب پیغمبر میدان جہاد کے اندر لگے رہے اصحاب پیغمبر جنگوں کے اندر لگے رہے اصحاب پیغمبردعوت کے میدان میں دنیا میں پھیلے ہیں یہ کام امام ابوحنیفہ نے کیا ہے۔
میدان لگنے کو ہے:
آپ بات کو سمجھیں میں نے کچھ مسئلے بھی زیر بحث لانے ہیں میں تو آج کی مجلس میں آپ کی ذہن سازی کر رہا ہوں آپ یقین کریں میں آج عقائد کو مسائل کو زیر بحث نہیں لارہا ابھی تو میں ذہن سازی کر رہاہوں اللہ کرے آج کی نشست میں آپ تیار ہو جائیں تاکہ کورس ہوآپ تشریف لے آئیں اگر جلسہ ہو آپ تشریف لے آئیں اگر مناظرہ ہو آپ میدان میں اتریں۔
خالد اور رستم:
میں کہتا ہوں اللہ کرے آپ کام کے لیے تیار تو ہوجائیں آج کی نشست میں؛ میں محض آپ کو تیار کرنے کےلیے اپنی گفتگو کر رہا ہوں۔ اس لیے کہ مجھے کئی بار ساتھیوں نے کہا اس لیے میں جب جامعہ نعمانیہ میں آیا حضرت کے پاس شروع میں تو مجھے کئی ساتھیوں نے کہا حضرت ذرا خیال سے بات کرنا میں نے کہا کیوں؟ کہتا ہے عبد السلام رستمی رہتاہے۔ میں نے کہا کیا بات ہے ؟میں نے کہا رستمی رہتا ہے خالدی تو نہیں رہتا ارے رستم اور تھا خالد اور تھا میدان جنگ میں دوآئیں ہیں ایک طرف خالد بن ولید آیاہے ایک طرف رستم آیا ہے خالد فاتح کا نام ہے اور رستم شکست خوردہ کا نام ہے۔ خالد کس کا نام ہے ؟ (سامعین …فاتح کا ) اس کا معنیٰ یہ کہ مجھے نہ چھیڑو میں نے ہار مان لی ہے میں نے مذہب بدل دیا ہے ڈرکے میں تمہارے ساتھ بات کیسے کروں گا اس کے نام کا حصہ ہی شکست ہے۔ نام کا حصہ؟ (سامعین ….شکست ہے) آپ حضرات میں سے بعض محسوس کریں گے میرے علم میں ہے میں بخوبی جانتا ہوں کہ میری گفتگو پہ سب نے آمین نہیں کہنا مجمع میں کچھ لوگ ہوتے ہیں۔ جب پیغمبر بات کرتا ہے تو نبی کے علم میں تھا سب نے ماننا نہیں ہے تو میرے بھی علم میں ہے کہ میری بات سے بعض حضرات کو تھوڑی سی تکلیف تو ہوگی۔
لیکن کوئی بات نہیں کوئی فرق نہیں پڑتا اگر کچھ پریشان ہوگئے تو کچھ خوش تو ہوں گے اس لیے میں کبھی دعا کرتاہوں اپنے بیانات میں اللہ جو ہمارے آنے پہ خوش ہیں اللہ ان کو مزید خوش کردے۔ اے اللہ! میرے آنے پہ جو پریشان ہیں اللہ ان کی پریشانی دور فرمادے ہم تو بدعائیں نہیں کرتے۔ اے میرے اللہ! جوخوش ہے ان کی خوشیوں میں اضافہ فرمادے ،اللہ !جو پریشان ہیں ان کی پریشانی کو دور فرمادے۔
افغانی بھگوڑے:
یہ رستم تھا پشاور میں آکر آباد ہوا۔ امین اللہ یہ افغانستان کا تھا یہاں آکر آباد ہوااس کو پتہ ہے افغانستان میں جگہ میرے لیے کوئی نہیں ہے بہتر ہے میں جگہ چھوڑ دوں وہاں طالبان موجود ہیں ملا عمر موجود ہے یہ خلافتیں وغیرہ وہاں نہیں چلتیں ملک بدر کردیا گیا وہاں سےدوڑ کے پہنچا ہے۔ ہم نے پناہ دی ہے جس کو دنیا میں پناہ نہ ملتی ہو ہمارے پاکستان میں اس خبیث کو پناہ مل جاتی ہے۔ میرے دوستو! میں کہتا ہوں تم پناہ دو بات ٹھیک ہے لیکن علمی دنیا میں دلائل کی دنیا میں ہم تو اس کو پناہ نہیں دیں گے ان شاءاللہ ہم تعاقب کریں گے اللہ نے چاہا تو جرات کے ساتھ تعاقب کریں گے۔ اللہ نے چاہا تو ہم اپنی تاریخ مرتب کر جائیں گے۔ وہ دور گزر گیا جب تم نے پیغمبر کے صحابہ، ہمارے ائمہ پہ بھونک ماری ہے ہم ان شاءاللہ اب تمہارا جواب دیں گے اور اینٹ کا جواب اگر رب نے چاہا تو پتھر سے دیں گے ،ان شاءاللہ۔
اہل السنت والجماعت دلائل سے مسلح ہیں:
میں کہتا ہوں بات سمجھو ایک نبی کا مسئلہ تھا ایک نبی کے بعد پیغمبر کے صحابہ کا مسئلہ تھا، ایک ائمہ کا مسئلہ تھا ائمہ کے بعد علماءدیوبند کا مسئلہ تھا۔ میں تھوڑی سی بات کرتاہوں اس کےبعد میں بات ختم کردوں گا۔ تھوڑی کا معنیٰ وہ نہیں جو آپ سمجھیں ہیں تھوڑی کا معنیٰ میں اپنی نسبت سے بات کر رہا ہوں تھوڑی اور زیادتی یہ نسبتیں ہیں جس کو آپ تحدیدی طور پر بھی کہہ سکتے ہیں یہ تقریباً چیزیں ہوتی ہیں میں کبھی ساتھیوں سے یہ کہتا ہوں تھوڑی کا معنیٰ آپ یہ نہ سمجھیں کہ دس منٹ ہوگا تھوڑی کا وقت وہ میرے اعتبار سے ہوگا ان شاءاللہ اب بات سمجھنا میں نے کہا:

ہمارا تعلق پیغمبر کی ذات کے سا تھ ہمارے پاس قرآن موجود ہے۔

پیغمبر کے صحابہ کے ساتھ ہمارے پاس قرآن موجود ہے۔

ائمہ کے ساتھ ہمارے پاس قرآن موجود ہے۔

ہمارا تعلق علماءدیوبند سے ہے ہمارے پاس سارے دلائل موجود ہیں۔
لیکن ہم پہ حملہ کرنےوالو ں نے کئی ایک حملے کیے جو غیر مقلدین اس ملک میں آئے ہیں جو بر صغیر میں آئے ہیں ان کے آنے کی وجہ ممکن ہے آپ کے علم میں نہ ہو پاکستان برصغیر میں انگریز آیا ہے اس نے محنت کی ہے اس نے سب سے پہلے مسلمانوں کے دلوں سے جہاد کےمحبت کو ختم کرنے کے لیے کوشش کی ہے۔

1.

مسلمانوں کے دلوں سے جہاد کو ختم کردو۔

2.

مسلمانوں میں انتشارو اختلاف پیدا کردو ان کی طاقت کو ٹکڑے ٹکڑے کردو۔
انگریز کے ایجنٹ:
اس کے لیے انگریز نے تین ایجنٹ تلاش کیے:

1)

ایک کا نام مرزا غلام احمد قادیانی تھا۔

2)

دوسرے ایجنٹ کا نام احمد رضاخان بریلوی تھا۔

3)

تیسرے ایجنٹ کا نام محمد حسین بٹالوی تھا۔
ان تینو ں نے کام کیا کیے:

1.

مرزا غلام احمد قادیانی تریاق القلوب ص15پہ کہتا ہے: میں نے جہاد کی منسوخیت پہ اس قدر کتابیں لکھ دی ہیں اگر الماریاں بھر دی جائیں تو وہ کتابیں ان کے اندر سماجائیں گی اگر چہ یہ بھی اس نے جھوٹ بولاتھا اتنی کتب اس نے نہیں لکھیں۔ مرزا غلام احمد قادیانی کو نبی بنایا گیا جہاد کو ختم کرنے کے لیے۔

2.

ایجنٹ احمد رضا خان تھا اس نے کتاب لکھی
اعلام الاعلام بان ھندوستان دارالاسلام
کہتا ہے یہاں جہاد کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ ارے جہاد تو تب ہوگا جب خلیفہ موجود ہو اور خلیفہ کے لیے ضروری ہے وہ قریش میں سے ہو حدیث پیش کی ہے الا ئمة من قریشاور کہتا ہے ترکی خلیفہ یہ قریشی نہیں ہے اس کی خلافت نہیں ہے ا ور اس کے تحت جہاد نہیں ہوگا ایک یہ ایجنٹ پیدا ہوا۔

3.

محمد حسین بٹالوی اس نے کتاب لکھی ہے
الاقتصاد فی مسائل الجہاد
جس میں جہاد کی منسوخیت کا فتویٰ دیا کہ جہاد ختم ہوگیا محمد حسین بٹالوی کا تعلق غیر مقلد ین کے ساتھ تھا اور احمد رضا خان کا تعلق بریلویت کے ساتھ تھا۔ مرزا غلام احمد قادیانی کا تعلق مرزائیت کے ساتھ تھا۔
جہاد کی آڑ میں:
یہ تین ایجنٹ انگریز نے تلاش کیے جہاد کو ختم کرنے کے لیے آج ہم دیکھتے ہیں کہ غیر مقلد تو جہاد کر رہے ہیں یہ کیسے جہاد کو ختم کرنے کے لیے میدان میں آئے ہیں میرے پشاور کے دوستو تمہیں غلط فہمی ہوئی ہے انگریز ملک میں جہاد کو ختم کرنے کے لیے آیا تھا۔ تم یہ سمجھے لشکر طیبہ نے جہاد کیا ہے لشکر طیبہ جہاد نہیں کرتی یہ جہاد کو بطور چال استعمال کرتے ہیں وہ سمجھتاہے اگر میں امام پر براہِ راست تبراء کروں گا یہ دیوبندی جواب دے گا اگر براہِ راست اصحاب پیغمبر پہ تبراء کروں گا یہ میری زبان کاٹ دے گا۔ اس نے یہ حیلہ استعمال کیا ہے کہ اس نے جہاد کے نام پہ نوجوان کو لیاہے معسکر میں لے کر گیا ہے وہاں پہ جاکہ اس کا ذہن بدل ڈالا ہے۔ جہاد کو اس نے بطور چال کے استعمال کیا ہے اس کا مقصد یہ تھاکہ نظریات بدل دو اگر وہ جہاد کرنا چاہتا تھا تو مجھے بات سمجھ میں نہیں آتی کہ جب افغانستان میں سات مجاہدین کے گروپ موجود تھے لشکر طیبہ بھی موجود تھی پھر یہ سات گروپ ختم ہوگئے خلا فت کا نظام قائم ہوا اسلام کے نفاذ کا دور آیا یہ وہاں سے دوڑا ہے۔
نظام خلافت کا مخالف گروپ:
افغانستان میں جب خلافت کا نظام قائم ہوا تو دو طبقوں نے مخالفت کی ہے ایران سے رافضی مخالفت کرتاہے اور پاکستان سے جماعۃ الدعوة مخالفت کرتی ہے پھر مجھے کہنے دیجیے تمہارا تعلق افغانستان یا عرب عجم سے نہیں ہے تمہارا تعلق ایران کے ساتھ تھا ا گر جہاد مقصود تھا تو خلافت کے بعد تمہیں وہاں سے دوڑنا نہیں چاہیے تھا تمہیں واپس نہیں آنا چاہیے تھا۔ آج امریکہ افغانستان میں آیا ہے تمہیں لشکر طیبہ وہاں نظر نہیں آئے گی، آج برطانیہ افغانستان میں آیا تمہیں لشکر طیبہ وہاں نظر نہیں آئے گی یہ کشمیر سے دوڑا ہے جہاد کے نام پہ کشمیر کے مسلمان کا نظریہ بدلنے کےلیے یہ کشمیر گیا ہے جہاد کے نام پہ امت کا ذہن بدلنے کے لیے یہ جہاد نہیں کرتا جہاد کی آڑ میں حنفیت کی تردید کرتا ہے یہ جہاد نہیں کرتا جہاد کی آڑ میں الحاد اور بدعت کی تبلیغ کرتاہے یہ جہاد نہیں ہے یہ پیغمبر کے دین سے دشمنی کا نام ہے۔
کون سا اہل حدیث ؟؟:
میں بات سمجھانے لگاہوں انگریز نے کتنے ایجنٹ تلاش کیے؟(سامعین ….تین) پہلے ایجنٹ کا نام مرزا غلام احمد قادیانی دوسر ے ایجنٹ کانام؟(سامعین ….احمد رضا خان بریلوی ) تیسرے ایجنٹ کا نام؟)سامعین …محمد حسین بٹالوی) محمد حسین بٹالوی وہی تھا اگر تمہارے علم میں نہیں ہے تو میں تمہارے علم میں لانا چاہتا ہوں لوگ کہتے ہیں یہ اہل حدیث ہے اہل حدیث بطور جماعت کے پوری دنیا میں انگریز کی آمد سے پہلے یہ قطعا ًموجود نہیں تھے۔

محدثین کو اہل حدیث کہنا اور بات ہے اور پکوڑے بیچنے والے کو اہل حدیث کہنا اور بات ہے۔

محدث کو اہل حدیث کہنا اور بات ہے اور نائی اور موچی جوتیاں گانٹھنے والے کو اہل حدیث کہنا اور بات ہے۔

محدث کو اہل حدیث کہنا اور مسئلہ ہے اور جاہل کو اہل حدیث کہنا اور مسئلہ ہے۔
اوربطور جماعت اہل حدیث دنیا میں پھیل گئی ہو برصغیر میں انگریز کی آمد سے پہلے تمہیں ان کا وجود نہیں ملے گا۔ یہ آئے کہاں سے محمد حسین بٹالوی نے ”الاقتصاد فی مسائل الجہاد“کتاب لکھی ہے اور انگریز نے مجاہدین کو بدنام کرنے کےلیے ایک لفظ ایجاد کیا اس لفظ کا نام ہے ”وہابی“ یہ لفظ انگریز نے دیا اپنے دشمنوں کو وہ لفظ ”وہابی“ سے پکارا کرتا۔
دور انگریز اور وہابیت:
میں سمجھانے کے لیے کہتاہوں کہ انگریز نے لفظ ”وہابی“ کو اتنا بدنام کیا اتنا بدنام کیا اتنا بدنام کیا کہ دو عورتیں آپس میں لڑپڑیں ایک عورت نے کہا تیرے منہ میں سور تُناں پنجا بی سمجھتے ہو اس نے کہاتیرے منہ میں؛ میں خنز یر دوں۔ دوسری بولی تیرے منہ میں وہابی تُناں۔ ایک کہتی ہیں تیرے منہ میں خنزیر دوں اور دوسری کہتی ہے تیرے منہ میں وہابی دو ں، اب دوسری چپ ہوگئی جواب نہیں آیا لیکن اندر بھڑاس تو تھی ناں، واپس آئی ماں سے کہتی ہے اماں آج ہماری لڑائی ہوئی اس نے کہا تیرے منہ میں وہابی دوں۔ اماں یہ وہابی کیا ہوتا ہے؟ ا س نے کہا بیٹی سو خنزیر ملاؤتو ایک وہابی بنتا ہے۔
صدیق حسن کے ” نواب “بننے کی روداد:
توجہ رکھنا! اب یہ کس نے بدنام کیا؟ انگریز نے ، انگریز نے وہابی کا لفظ مجاہدین کودیا انگریز نے وہابی کا لفظ انگریز سے بغاوت کرنے والے نوجوان کو دیا، محمد حسین بٹالوی نے باقاعدہ انگریز کو درخواست دی اس نے کہا ہم تمہارے خلاف نہیں لڑتے ہمیں وہابی نہ کہا جائے ہمیں کوئی اورنام دیاجائے۔ ترجمان وہابیہ میں صدیق حسن خان لکھتاہے غیر مقلدین کے چار ستونوں میں سے ایک ستون ہے اول درجہ کا غیر مقلد نواب صدیق حسن خان اور میں آپ کی معلومات کے لیے کہتاہوں۔ یہ نواب نہیں تھا نوابنی ملکہ بھوپال جس نے نکاح کیا اس کی وجہ سے نواب بنا۔
ترجمان وہابیہ ص28
اسے عروج بالفروج کہتے ہیں صدیق حسن خان؛ نواب نہیں تھا ، نوابنی کے نکاح کی وجہ سے اسے ” نواب“ کہہ دیا گیا۔غیر مقلد کر دیں میری بات کی تردید کر دیں نواب صدیق حسن خان؛ نواب؟ (سامعین …نہیں تھا) نکاح ہوا کس سے ؟ ملکہ بھوپال سے تو یہ کیا بنا؟(سامعین …نواب) میں نے اس لئے عروج بالفروج کا ترجمہ نہیں کیا علماءسمجھ گئے ہیں۔
ملکہ بھوپال کا چلہ…انگریز گورنر کے محل میں:
کبھی غیر مقلد اعتراض کرتے ہیں کہ جی وہ صد سالہ جلسہ ہوا تھا دیوبند کا وہاں پہ گاندھی آئی تھی دیو بندیوں نے بلایا، میں نے کہا اندرا گاندھی تو علماءدیوبند کے اسٹیج پر آئی تھی ناں وزیر اعظم تھی۔ لیکن جب ہندوستان کا گورنر ناراض ہوا تو نواب صدیق کی بیوی ملکہ بھوپال چالیس دن اس کے محل میں لینے کیا گئی تھی؟ یہ تو صدیق کے بیتے نور الحسن نے اپنے باپ کی تاریخ میں لکھا ہے کہ جب گورنر ناراض ہوا تو میری ماں ملکہ بھوپال نے چالیس دن قیام انگریز کے محل میں کیا ہے ہمارے اسٹیج پر تو گاندھی علی الاعلان آئی ہے وہ دن دہاڑے آئی ہے اپنے مفاد کے لئے آئی ہے تمہاری ماں کیوں گئی تھی اس کے پاس؟ تم جواب دو ناں !
میں کہتا ہوں یہ ابھی میں تمہیں صرف اشارے دے رہا ہوں اگر تم نے پھر زبان درازی کی ناں تو پھر میں اس قسم کے انکشافات تمہارے سامنے لاؤں گا جس سے تمہارے لئے جینا مشکل ہو جائے گا۔ نہیں سمجھے تمہارے لئے جینا مشکل ہو جائے گا۔ تم نے اکابر علماءدیوبند پہ بھونک ماری نا ں پھر میں تمہاری تاریخ بتاؤں گا کہ تمہارے بڑے اور بڑیوں نے کیا کرتوت ادا کیے ہیں کس کی وجہ سے تم دنیا میں پھیل گئے تھے ؟
تمہارے گھر کی گواہی:
خیر !میں کہتا ہوں نواب صدیق کیا لکھتا ہے ترجمان وہابیہ میں کہتا ہے اس برصغیر میں دین کو لانے والے سارے حنفی تھے:

علماءبھی حنفی تھے۔

حاکم بھی حنفی تھے۔

قاضی بھی حنفی تھے۔

اور جج بھی حنفی تھے۔
ترجمان وہابیت ص10
اور ہم تو نہیں تھے ناں اعتراف کیا ہے۔ کہتا ہے انگریز کے خلاف لڑنے والے سارے حنفی اور مقلدین تھے ایک موحد؛ ان میں شامل نہیں تھا خود کو موحد کہہ دیا مانا ناں کہ ہم نے انگریز کے خلاف جہاد نہیں کیا۔
سنتا جا شرماتا جا:
الحیات بعد الممات میں میاں نذیر حسین دہلوی غیر مقلد جوان کا شیخ الکل فی الکل ہے اس کے حالات میں لکھا ہے کہتا ہے: ایک میم تھی وہ زخمی ہوگئی شیخ الکل فی الکل نے اس میم کو اٹھایا اپنے گھر میں چار ماہ رکھا اور اس کا علاج کیا نذیر حسین کہتا ہے میں نے اس دور میں مفسدین کو پتہ نہیں لگنے دیا ورنہ پتہ نہیں اس پہ کیا کیا حشر ہوتا۔ اپنے گھر میں رکھا گھر میں رکھنے کے بعد چار ماہ علاج کروایا پھر انگریز کی خدمت میں پیش کیا انگریز نے پلاٹ اس کو الاٹ کیا خدمت کے صلے میں۔
الحیات بعد الممات ص127
تحریک پاکستان اور اہلحدیث:
ادھر محمد حسین بٹالوی نے لکھا ہمیں وہابی مت کہا جائے ہمیں کوئی اور نام دے دیا جائے اگر تمہیں میری بات پہ یقین نہیں ہے تو یہ کتاب لکھنے والا دیوبندی یا کوئی بریلوی مصنف نہیں ہے پنجاب کے B.Aکے نصاب میں یہ کتاب شامل ہے کتاب کا نام ہے ”تحریکِ پاکستان“تم اٹھاؤص 194پہ باب قائم کیا ہے ”اہلحدیث اور مسلک وفاداری“ کہتا ہے محمد حسین بٹالوی نے جہاد کی منسوخیت پہ کتاب لکھی جہاد کی منسوخیت پہ فتویٰ دیا اور انگریز کو درخواست دی ہے ہمیں نام اہلحدیث الاٹ کر دیا جائے ہم بدنام نہ ہوں انگریز نے پھر اہلحدیث نام الاٹ کیا۔
تحریکِ پاکستان ص194
الاٹیے پلاٹیے طلاقیے:
میں اس لئے کہتا ہوں انگریز کی خدمت کے صلہ میں انگریز نے تمہیں اہلحدیث نام الاٹ کیا ہے۔
اشاعت السنة ج19شمارہ 9ص1
میاں نذیر حسین دہلوی کی خدمات کے سلسلہ میں انگریز نے تمہیں پلاٹ دیے میں اس لئے کہتا ہوں کہ تمہارا نام ”اہلحدیث“نہیں ہے تمہارا نام” الاٹیے اور پلاٹیے “ہے۔
اشاعت السنة ج19 شمارہ9 ص227
کیا نام ہے بولیں ناں؟ (سامعین …الاٹیے پلاٹیے) جب کبھی آئے ناں پشاوری کا ایجنٹ تم کہنا بھئی الاٹیہ پلاٹیہ آگیا الاٹیہ کا معنیٰ سمجھ گئے ؟ نام الاٹ کیا ناں انگریز نے نام الاٹ کیا انگریز نے نام دیا ناں تو تم جو بھونک مارتے تھے کہ ہم ”اہلحدیث“قدیم دور سے چلے آرہے ہیں پھر انگریز سے منظوری لینے کی ضرورت کیا تھی۔ ؟ ہم اہل السنت والجماعت حنفی ہیں ہم نے تو کبھی درخواست نہیں دی کہ ہمیں ”حنفی “کہہ دیا جائے ہمیں اہل السنت والجماعت کہا جائے تمہارا نام پہلے نہیں تھا تبھی تو تم نے انگریز سے نام الاٹ کروایا اس لئے تم الاٹیے ہو خدمات کے صلہ میں تمہیں پلاٹ ملے اس لئے تم پلاٹیے ہو۔
حرامہ کی چھری:
میں اگلا جملہ بھی کہتا ہوں کہ پوری دنیا میں غیر مقلدین کی جو تحریک بڑھ رہی اس کی ایک وجہ مال بھی ہے اور اس کی ایک وجہ کوئی آدمی اپنی بیوی کو تین طلاق دے دے یہ دوڑتے ہوئے جائیں گے نہیں نہیں تین طلاق نہیں ہوتی ایک طلاق ہوتی ہے تو غیر مقلد ہو جا ! ہم حرام کو حلال کرکے تمہیں دے دیں گے تو فکر نہ کر! اگر ہمارے اکابر کہہ دیں ”حلالہ“کرو! کہتے ہیں تم نے حلالے کی بات کی ہے تم نے کیا بات کی ہے نکاح کی بات کی ہے میں کہتا ہوں ہم نے ”حلالہ “دیا تم نے ”حرامہ“دیا حلالی حلالہ دیتا ہے حرامی حرامہ دیتا ہے ہمارے حلالے پر تمہیں اعتراض تھا تو تمہیں اپنے حرامے پر اعتراض کیوں نہیں ہے؟ ساری بات چھوڑ دو یہ تو دلائل کی بات ہے۔
لوگ ملتے گئے کارواں بڑھتا گیا:
میں تو موٹی سی بات کہتا ہوں کہ جب پیغمبر کے سامنے کوئی تین طلاق دیتا ہے فَقَامَ غَضْبَانَ پیغمبر غصے ہوکر کھڑے ہوجاتے
أَيُلْعَبُ بِكِتَابِ اَللَّهِ تَعَالَى وَأَنَا بَيْنَ أَظْهُرِكُمْ
میری موجودگی میں کتاب اللہ سے کھیلا جا رہا ہے۔
بلوغ المرام من ادلۃ الاحکام جز 1 ص 422
حضو رناراض ہوتے غیر مقلد خوش ہوتا ہے ہاں ہاں کوئی تین طلاق دے تو اہلحدیث خوش ہوتا ہے خوش کیوں ہوتا ہے اہلحدیثوں کا ایک رکن بڑھ گیا میں اس لئے کہتا ہوں اگر خدانخوا ستہ کوئی آدمی تین طلاق دے دے تو ہمارے علماءپریشان ہوتے ہیں اور سر پکڑ کے بیٹھ جائیں گے ظالم تو نے ظلم کیا بہت بڑا گناہ کیا تجھے یہ نہیں کرنا چاہیے تھا۔غیر مقلد کہتے ہیں نہیں نہیں کچھ بھی نہیں ہوا اللہ حلال نہ کہے؛ ہم نہیں ہیں؟ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حلال نہ کریں؛ ہم نہیں ہیں ؟ صحابہ حلال نہ کریں؛ ہم انگریز کے ایجنٹ ہیں ادھر امت کو انگریز نے زنا دیا اس نے تین طلاق کو ایک کہہ کرامت کو زنا کی دوسری صورت دی ہے کام دونوں نے کیا ہے
مسلک اہلحدیث کا عروج ….بالفروج:
اس لئے میں کہتا ہوں ایک جملہ کا اور اضافہ کردو ان کا نام الاٹیے پلاٹیے اور طلاقیے۔ طلاقیے ہیں کہ نہیں ؟ ان کا مذہب طلاق کی روشنی میں پھیلتا جا رہا ہے ایسا ہے کہ نہیں؟ (سامعین …ایسا ہے) میں کہتا ہوں اسے” عروج بالفروج “کہتے ہیں۔ میں کہتا ہوں ان کا مذہب طلاق کی وجہ سے پھیلا جا رہا ہے تو نام کیا ہے؟ بولیں ناں الاٹیے پلاٹیے اور طلاقیے دنیا ناراض ہوتی ہے ہو جائے لیکن یہ ظالم ایک طرف کھڑا ہوا ہے میں طلباءسے کہتا ہوں اگر تمہیں تین طلاق پہ مناظرہ کرنا پڑ جائے ناں تحریر تم میری لکھ دو اگر غیر مقلد مناظرے کے لئے آجائے ناں جو سزا چورکی وہ میری۔
مرزائی،شیعہ اور اہلحدیث:
تم تحریر پہ لکھ کر دینا کہ تین طلاق کو ایک کہنا یہ مرزائیوں اور شیعوں کا مذہب ہے اس کو کہو یہ ہمارا دعویٰ ہے غیر مقلد کو کہو کہ ہمارے دعوے کو توڑ دے کوئی غیر مقلد امین اللہ پشاوری توڑ دے عبد السلام شکست خوردہ توڑ دے اس کی رستمی کی بجائے شکستی کہنا چاہیے۔ عبد السلام شکستی توڑ دے ہم مان جائیں گے ہمارا دعویٰ کیا ہے کہ تین طلاق کو ایک کہنا مرزائیوں اور؟ (سامعین …شیعوں کا مذہب ہے) تم ہمارے دعوے کو توڑ دو ہم تمہارا مسلک قبول کر لیں گے تم حوالہ پیش کر دو مرزائیوں کا مذہب نہیں ہے تم حوالہ پیش کردو رافضی کا مذہب نہیں ہے بات کو ذہن نشین کر لو مشکل تو نہیں۔
ہیڈ کوراٹر اور بو سٹر:
لیکن میں عوامی زبان میں کہتا ہوں ایک ہوتا ہے ہیڈ کوارٹر اور ایک ہوتا ہے بوسٹر۔ ہیڈ کوارٹر اور بوسٹر میں کیا فرق ہوتا ہے ؟ ہیڈ کوارٹر اپنی نشریات کو نشر کرتا ہے لیکن ایک جگہ آتی ہے کہ وہاں سے اس کی نشریات آگے نشر نہیں ہوتیں مزید نشریات آگے پہنچانے کے لئے بوسٹر لگایا جاتا ہے۔ تو بر طانیہ ہیڈ کوارٹر ہے اور یہ تمہارا جامعہ عصریہ بوسٹر ہے۔ ہاں ہاں میں سمجھاتا ہوں ایک ہیڈ کوارٹر اور ایک بوسٹر ہے۔ ہیڈ کوارٹر کہتا ہے نمازنہیں پڑھنی بوسٹر کہتا ہے اگر پڑھتے ہوئے دیکھ لی ناں تو نے پڑھی ہے نہیں ہوئی۔ نہیں پیچھے ہیڈ کوارٹر کیا کہتا ہے تو نے پڑھنی؟ (سامعین …نہیں ) بوسٹر کہتا ہے تو نے پڑھی ہے، ہوئی؟ (سامعین …نہیں ) ہیڈ کوارٹر کی نشریات نے وہاں تک آنا تھا کیوں کہ شیطان وہاں تک آتا ہے جہاں تک اذان کی آواز نہیں آئی اذان کی آواز آئی اور شیطان دوڑا معلوم ہوا ہیڈ کوارٹر کی نشریات وہاں تک ہیں جہاں پر اذان کا سپیکر نہیں ہے۔ ادھر موذن اللہ اکبر کہتا ہے نشریات جام ہوگئیں اب ہیڈ کوارٹر نہیں بولتا بوسٹر بولتا ہے اور مسجد میں ہیڈ کوارٹر کی نشریات نہیں آتی۔
آگے مسجد میں اذان کی صورت میں جامر جو لگا ہوا ہے اس نے جام کر دیا لیکن بوسٹر آگیا ناں آگے وہ کہہ رہا تھا زنا وہ کرنا چاہیے انسانی حق ہے کوئی حرج نہیں ہے بوسٹر یہ تو نہیں کہتا کہ زنا کرنا چاہئے یہ کہتا ہے تین کو ایک کہہ دو یہ زنا نہیں نکاح ہے تو ایک پیغام دیا تھا ہیڈ کوارٹر نے اگلا پیغام دیا تھا بوسٹر نے۔ مسلمانوں کے گھر میں عیسائیت زنا کو گھسیڑ نہیں سکتی تھی مسلمان کے گھرمیں یہودیت زنا کو منتقل نہیں کر سکتی تھی اس نے کہا زنا حلال ہے مسلمانوں نے قبول نہ کیا اس نے زنا کی دوسری شکل امت کو دے دی ہے ایک کام ہیڈ کوارٹر کرتا ہے ایک کام بوسٹر کرتاہے۔ میں اس لئے کہتا ہوں اگر رب نے توفیق دی ہم ہیڈ کوارٹر کو بھی توڑیں گے ہم بوسٹر کو بھی توڑیں گے۔
جنوں کا نام خرد رکھ دیا:
تو اہلحدیث کہاں سے آئے؟ (سامعین …انگریز سے) انگریز کی پیداوار انگریز کے ایجنٹ۔ میں اس پر مستقل کبھی بحث کرتا ہوں اگر رب نے توفیق عطا فرمائی تو اس پر بات ہوگی اس پر مستقل دلائل ہیں۔ میں نے بات کی اہلحدیث کی لفظ پہ کہ یہ کہاں سے آیا اہلحدیث کی تاریخ یہ ہے کہ یہ انگریز سے پہلے دنیا میں ؟(سامعین …نہیں تھا)انگریز کے وجود سے پہلے نہیں تھا۔ پورے برصغیر میں اہلحدیث نام کی مسجد اہلحدیث نام کا مدرسہ پوری دنیا میں نہیں تھا۔ ہم نے جس طرح انگریز کی مخالفت کی ہے ہم نے اسی طرح انگریز کے ایجنٹ کی بھی مخالفت کی ہے۔ دوسری بات جب یہ دنیا میں پھیلنا شروع ہوئے تو سب سے پہلے اس نے تقلید کے نام پہ حملہ کیا اور خود کو اہلحدیث کر گیا حالانکہ اس کا نام تھا غیر مقلد اس کو پتہ تھا غیر مقلد کہوں گا تو لوگ بدنام کرتے ہیں اس لئے اس نے نام وہ رکھا تاکہ لوگوں کو دھوکا دیا جاسکے۔ کہتا ہے جی ہم اہلحدیث ہیں اوریہ حنفی ہیں ہم اہلحدیث ہیں اور یہ دیوبندی ہیں تو جھوٹ بولتا ہے ہمارا نام تجھے پورا بیان کرنا چاہیے تھا اپنا نام تجھے پورا بیان کرنا چاہیے تھا۔
کیا حال ہے آپ کا ؟:
ہمارا نام اہل السنت والجماعت حنفی ہے اہل السنت والجماعت کا تقابل تمہیں کرنا چاہیے تھا اہلحدیث کے ساتھ ایک معنیٰ اہلسنت والجماعت کا تھا ایک معنی اہلحدیث کا تھا ہم اپنے معنیٰ پر غور کرتے تم اپنے معنیٰ پر غور کرتے چاہیے تو یہ تھا اس لئے میں بات سمیٹتا ہوں نمبر ایک اگر تمہارے سامنے غیر مقلد آئے تو آج کی مجلس کے دو لفظ یاد کر لو اگر یہ دو لفظ تمہیں یاد ہوگئے تو جس گلی سے تم گزرے اس گلی سے یہ شیطان نہیں گزرے گا یہ تمہارے سائے سے بھی دور جائےگا۔ نمبر ایک پہلا لفظ یہ ہے اگر تمہارے سامنے غیر مقلد آئے تم نے کہنا ہے الاٹیہ پلاٹیہ طلاقیہ کیا حال ہے ؟ توجہ کرنا ایک سوال تو اس سے یہ کرو وہ فوراً کہے گا کیا معنیٰ؟ اس کو پھر تاریخ سناؤ کےتمہارے محمد حسین بٹالوی غیر مقلد نے درخواست دی تھی تمہیں انگریز نے نام اہلحدیث الاٹ کیا اس لئے ہم تمہیں الاٹیہ کہتے ہیں۔
حیات بعد الممات میاں نذیر حسین دہلوی کی، اس میں درج ہے کہ انگریز نے ان کی خدمت کے صلے میں ان کو پلاٹ دیےاس لیے ہم تمہیں پلاٹیہ کہتے ہیں۔ تم طلاق کی وجہ سے مذہب کی اشاعت کرتے ہو ہم تمہیں طلاقیہ کہتے ہیں اب بتا الاٹیے پلاٹیے طلاقیے کیا حال ہے۔ ؟ یہ تین چار مرتبہ سوال کرو اور اپنے بچوں کو یاد کراؤ اور آئندہ کوئی کہہ دے ناں اس کو اہلحدیث۔ تم کہو جی ہمارے مسجد میں الاٹیے پلاٹیے آتے ہیں۔ ہمارے محلہ میں الاٹیے پلاٹیے طلاقیے رہتے ہیں یہ نام عام کرنا شروع کردو پھر دیکھو یہ دوڑتا کیسے ہے۔ ؟
غیر مقلدین سے طریقہ گفتگو:
اگر کوئی اہلحدیث تمہارے سامنے آجائے اور اس سے تمہاری گفتگو شروع ہونے لگے مسائل پہ گفتگو نہیں کرنی عقائد پہ گفتگو کرنی ہے۔ اس کو کہنا ہے مسئلے اور عقائد پر گفتگو بعد میں ہوگی پہلے اپنی حیثیت کا تعین کرے میرا نام اہل السنت والجماعت میں ہے مجھے لوگ ”سنی “کہتے ہیں۔تیرا نام اہلحدیث ہے میں تجھ سے پوچھتا ہوں تو سچا اہلحدیث ہے یا جھوٹا؟ کیا پوچھو گے؟ (سامعین ..تو سچا اہلحدیث ہے یا جھوٹا) کیا معنیٰ؟ کہنا کہ پہلے تو سچا اہلحدیث ثابت ہو تو پھر تجھ سے بات ہوگی۔ پہلے ہمارے سوال کا جواب دے تو اہلحدیث سچا یا جھوٹا وہ فورا پوچھے گا اس کا کیا مطلب یہ سچا اور جھوٹا کیا ہوتاہے؟ کیا سچے اور جھوٹے بھی ہوتے ہیں ؟آپ نے کہنا ہے بالکل ہم تجھے سمجھاتے ہیں سچے اور جھوٹے ہونے کا معنیٰ کیا ہے ؟ اہلحدیث کا معنیٰ ہوتا ہے محدث اہلحدیث کا معنیٰ کیا ہے؟ (سامعین …محدث ) یاد رکھنا ایک ہے محدث کو کہو اہلحدیث کیا معنیٰ؟ حدیث کے ماہر کو ”اہلحدیث“کہتے ہیں تاریخ کے ماہر کو ”اہل تاریخ “کہتے ہیں تفسیر کے ماہر کو ”اہل تفسیر“کہتے ہیں تفسیر کا ماہر ہوگا اہل تفسیر کہلائے گا حدیث کا ماہر ہوگا ”اہلحدیث“کہلائے گا۔ تاریخ کا ماہر ہوگا اہل تاریخ کہلائے گا۔
سچا یا جھوٹا اہل حدیث ؟:
تو جو خود کو اہلحدیث کہلاتا ہے اگر تو حدیث کا ماہر ہے خود کو اہلحدیث کہتا ہے تو پھر تو سچا ہے اگر حدیث کا ماہر نہیں ہے اور خود کو اہلحدیث کہتا ہے تو تو جھوٹا ہے۔ اب بتا کہ تو کون سا اہلحدیث ہے سچا یا جھوٹا؟ پوچھنا چاہیے کہ نہیں؟ (سامعین …پوچھنا چاہیے ) ایک مرتبہ پوچھو جب یہ کہے گا میں حدیث کا ماہر ہوں تو کہنا حدیث کی تعریف سنا؟حدیث کی تعریف نہیں کرسکتا یقین کرلو اس نے تعریف کرنی ہی نہیں ہے ا س کو تعریف آتی ہی نہیں ہے تعریف تو فن حدیث کی روشنی میں کریں گے وہ کہے گا نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی بات کو حدیث کہتے ہیں آپ نے کہنا ہے کس نے لکھا ہے ؟ حدیث کی تعریف میں تو نوجزبنتے ہیں تونے صرف پیغمبر کی بات کو حدیث کہہ کے آٹھ جزوکا انکار کردیا ہے یہ تعریف بنتی ہی نہیں ہے ،اب بتاحدیث کسے کہتے ہیں؟
اہلحدیث کی کیٹا گری:
دوسرا سوال یہ کرو بتاؤحدیث کی کتنی قسمیں ہیں؟ سولہ قسموں میں سے یا قواعد فی علوم الحدیث میں حضرت نے جو بیالیس لکھیں ہیں۔ اب اس سے پوچھنا تو قسم کون سی ہے ؟وہ بتائے گا۔ اب جو قسم ہوگا وہ نام رکھ دو کہ

ضعیف اہلحدیث

موضوع اہلحدیث

منکر اہلحدیث

معلل اہلحدیث

مضطرب اہلحدیث

مدرج اہلحدیث
تو کون سی قسم ہے؟ تعیین کر و ناں۔ پہلا سوال یہ کریں گے تو سچا یا ؟سامعین … جھوٹاسچے اور جھوٹے پر آپ نے سمجھانا ہے حدیث کا ماہر ہے خود کو اہلحدیث کہتا ہے تو تو ں؟(سامعین …سچا) حدیث کا ماہر نہیں ہے خود کو اہلحدیث کہتا ہے تو توں؟ سامعین … جھوٹا 
سچا اہل السنت والجماعت:
وہ فوراً پلٹ کر تمہارے اوپر بھی سوال کرے گا اب جواب ذہن نشین کرلو وہ پوچھے گا تو اہل السنت والجماعت سچا یا جھوٹا ؟آپ نے کیا کہنا ہے؟ (سامعین …سچا ) وہ کہے گا اگر اہلحدیث کا معنیٰ ہے حدیث کا ماہر اہل تاریخ کا معنی ہے تاریخ کا؟ (سامعین … ماہر)اہل تغیر تغیر کا؟ (سامعین …ماہر) اور اہلحدیث؛ حدیث کا ماہر اہل السنت سنت کا ماہر یہ قیاس تھا ناں ہم نے قیاس چھوڑا۔ کیوں؟ (حدیث کی وجہ سے) پیغمبر نے غیر ماہر کو بھی اہل السنت کردیا ناں۔ تو حدیث جب آگئی تو ہم نے قیاس کو چھوڑ دیا پھر قیاسی توں ہے ہم تو نہ ہوئے ناں تو قیاسی توں نکلا ہم تو نہ نکلے۔ اگرقیاس غلط ہے تو توں غلط ہے اگر قیاس کے مقابلے میں حدیث آجائے تو قیاس کو چھوڑ کر حدیث کو لے لینا پھر ہم صحیح نکلے یہ تو میرا جواب تھا الزامی جواب بھی یاد رکھ لو۔
جادو وہ جو سر چڑھ کے بولے:
ایک کتاب ہے ”الفرقۃ الجدیدۃ“جابر دامانی نے کتاب لکھی ہے کراچی سے اس کتاب کا مقدمہ لکھا ہے زبیر علی زئی نے۔ علی زئی اس کے مقدمہ میں لکھتا ہے:

تغیر کے ماہر کو اہل تغیر کہتے ہیں۔

حدیث کے ماہر کو اہلحدیث کہتے ہیں۔

تاریخ کے ماہر کو اہل تاریخ کہتے ہیں۔

اور سنت پر عمل کرنے والے کو اہل السنت کہتے ہیں۔
تیرے گھر کی گواہی، گواہی آگئی ناں کہ سنت پر عمل کرنے والے کو؟ (سامعین …اہل السنت) معلوم ہوا اہل السنت کا معنیٰ اور ہے اہلحدیث کا معنی اور ہے اب پوچھو سچایا جھوٹا یاد رکھ لو گے ناں۔
خلاصہ یہ ہے کہ:
آج کی مجلس میں دو باتیں ذہن نشین کرلو غیر مقلد آئے تو نمبر ایک پوچھو

الاٹیہ، پلاٹیہ،طلاقیہ

عبد السلام ہوتو الاٹیہ، پلاٹیہ، طلاقیہ

نورستانی ہو تو الاٹیہ، پلاٹیہ، طلاقیہ
چھوٹا بھی بڑا بھی جو ذہن چھوٹے کا وہی ذہن بڑے کا کسی ایک کی گنجائش نہیں ہے نمبر دو میں نے کہا تم اہلحدیث سچے یا جھوٹے ؟یہ دو سوال اگر تم نے یاد کر لئے دلائل کے ساتھ ان شاءاللہ یہ باطل تمہارے سامنے نہیں ٹھہر سکتا۔ اللہ ہم سب کو احقاقِ حق کی تو فیق عطا فرمائے۔ میں نے گزارش کی تھی کہ آج کی مجلس میں عقائد اور مسائل زیر بحث نہیں آئیں گے آج تو میں نے آپ کو تیار کیا ہے اللہ کرے آپ تیار ہو جائیں آپ تھوڑی سی ہمت کریں اس فتنہ کے خلاف میدان میں آجائیں آئندہ جب نشستیں چلیں گی پھر عقائد اور مسائل پہ بات ہوگی ان شاءاللہ اور جب آئندہ نشستیں ہوں گی آپ تشریف لائیں گے اللہ مجھے اور آپ کو بھی توفیق عطا فرمائے ان جامعات میں کورس ہوں گے آپ ان کورسوں میں شرکت کرو۔
سرمایہ ملت سے ایک گزارش:
میں طلباءسے کہتا ہوں دورۂ تفسیر ہوتا ہے چالیس دن کا سرگودھا میں سب کو ہمارا پتہ معلوم ہے مرکز اہل السنت والجماعت 87 جنوبی لاہور روڈ سرگودھا جو علماءدورہ حدیث کے اندر ہیں دورہ حدیث کے بعد ایک سال کا ہم نے مناظرے کا کورس رکھا ہے۔ جس میں اصولِ حدیث، اصولِ تفسیر، اصولِ فقہ ،اصولِ مناظرہ اور اصولِ جرح وتعدیل ان موضوعات پر ہم نے تفصیلی ایک سال کا دورہ تخصص رکھا ہے علماءسے گزارش کروں گا فراغت کے بعد اگر آپ حضرات مناظرے کے میدان میں نکلنا چاہتے ہیں یا باطل سے علمی زبان میں گفتگو کرنا چاہتے ہیں ایک سال ہمیں بھی دے دو ارادہ کرلو تبلیغی جماعت میں ارادہ کرنے سے شیطان کی کمر ٹوٹتی ہے ہمارے پاس ارادہ کرنے سے خناس کی کمر ٹوٹتی ہے۔ میرا مستقل اس پر ایک بیان ہے شیطان اور خناس شیطان کا کام کیا ؟ خناس کا کام کیا؟
تبلیغی جماعت میں سال کا ارادہ کرنے سے شیطان کی کمر ٹوٹتی ہے اور اتحاد اہل السنت والجماعت میں سال کا ارادہ کرنے سے خناس کی کمر ٹوٹتی ہے۔ میں کہتا ہوں کچھ تبلیغی جماعت میں چلے جائیں اور کچھ ہمارے پاس آجائیں تاکہ شیطان کی کمر بھی ٹوٹ جائے خناس کی کمر بھی ٹوٹ جائے دونوں کی کمر توڑنی ہے۔
وماعلینا الا البلاغ
اس کے بعد حضرت متکلم اسلام نے سامعین کے درج ذیل سوالات کے علمی اور تحقیقی جوابات ارشاد فرمائے افادہ عام کی غرض سے ان کو یہاں نقل کیا جا تا ہے۔
سوال:
غیر مقلدین اپنے آپ کو اہلحدیث کی بجائے محمدی کہتے ہیں۔
جواب:
سبحان اللہ شکار پھر پھنس گیا۔ پھر پھنسا محمدی کہتے ہیں پیغمبر کے افعال دو قسم کے ہیں بعض افعال محمدی ہیں بعض افعال مسنون ہیں سنت عمل کسے کہتے ہیں ؟ اس کے لئے تین شرطیں ہیں:

1)

پیغمبر نے عادتاً فرمایا ہو ضرورتاً نہ فرمایا ہو۔

2)

اللہ کے پیغمبر نے دائماً فرمایا ہو اس کو چھوڑ نہ دیا ہو۔

3)

اللہ کے پیغمبر نے عمل امت کے لئے کیا ہو اپنی ذات کے لئے نہ کیا ہو۔
عمل پیغمبر کے ساتھ خاص ہو جیسے نو بیویاں بیک وقت نکاح میں رکھنا یہ سنت نہیں ہے اور پیغمبر نے عمل ضرورتاً فرمایا جیسے کھڑے ہوکر پیشاب کرنا مگر وہ سنت نہیں ہے اگر پیغمبر نے عمل کیا مگر وہ چھوڑ دیا جیسے رفع الیدین کا مسئلہ یہ سنت نہیں بنتا ایک ہوتا ہے عمل مسنون جو پیغمبر ہمیشہ کرے عمل مسنون وہ ہوگا ، جو پیغمبر عادتاً فرمائے ہمیشہ ہوگا جو پیغمبر عمل امت کے لئے کرے۔ لیکن جو پیغمبرکے ساتھ خاص ہو عمل تو ہے لیکن عمل مسنون نہیں ہے عمل محمدی ہے عمل کیوں چھوڑ دیا عمل مسنون نہیں ہے عمل محمدی ہے عمل کیا امت کے لئے نہیں تھا اپنے لئے کیا عمل مسنون نہیں تھا۔
حنفیت کا ذوق:
یہ ہےکہ ہم نے

o

عمل وہ دینا ہے جو پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم نے دائما ً کیا ہو۔

o

عمل وہ دینا ہے جو پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم نے عادتاً فرمایا ہو۔

o

عمل وہ دینا ہے جو پیغمبرصلی اللہ علیہ وسلم نے امت کے لیے کیا ہو۔
ہم نے اس لیے عمل کا نام ”مسنون “رکھا ہے تو نے عمل دینا تھا جو متروک یا منسوخ ہو تو ں نے عمل کا نام ”محمدی“رکھا تجھے محمدی مبارک ہمیں مسنون مبارک نہیں سمجھے سامعین …سمجھ گئے
میں پشاور میں تو بڑی ٹھہر ٹھہر کے بات کرتاہوں اس لیے کہ ہمارے مفتی صاحب تشریف فرماہیں جامع نعمانیہ والے مجھے بار بار فرماتے ہیں پشاور میں آؤ تو ذرا بات آہستہ آہستہ کیا کرو بات ان کی بھی ٹھیک ہے کہ رفتار کے ساتھ چلنا مشکل ہوتاہے مسنون اور محمدی میں فرق سمجھ گئے؟ بولیں ناں سامعین ..سمجھ گئے

غیر مقلد عمل کون سادیتا ہے؟ جو منسوخ ہو۔

یہودی شریعت کون سی دیتاہے ؟جو منسوخ ہو۔

عیسائی شریعت کون سی دیتا ہے؟ جو منسوخ ہو۔

غیر مقلد حدیث وہ دیتا ہے جو منسوخ ہو۔
ہم منسوخ شریعت پر بھی عمل؟ سامعین … نہیں کرتے منسوخ حدیث پر بھی عمل ؟سامعین … نہیں کرتے ان شاءاللہ ناسخ منسوخ پہ کبھی تفصیلی بات کروں گا اور میں بتاؤں گا کہ یہ منسوخ حدیثوں پر کیسے بات کرتاہے۔
سوال:
ڈاکٹر ذاکر نائیک پہ روشنی ڈالیں ؟
جواب:
ذاکر نائیک تاریک ہے اس پہ روشنی ڈالنی چاہیے ذاکر نائیک غیر مقلد ہے جب یہ تقابل ادیان پر گفتگو کرے ہمیں اعتراض نہیں ہے لیکن مفتی بن کے مسئلے بیان کرے گا پھر ہمیں اعتراض ہے اب ذاکر نائیک نے کئی ایک مسئلے غلط بیان کیے اس سے مسئلہ پوچھا گیا مچھلی تو حلال ہے یہ کچھوے اور کیکڑے بھی حلال ہیں ذاکر نائیک کہتا ہے قرآن کہتا لَحْمًا طَرِيًّا یہ گوشت فریش ہونا چاہیے۔مچھلی کا ہو خواہ کچھوے کا ہو لوگ کہتے ہیں انگلش بولتا ہے انگلش بولتا ہے تو ساتھ کچھوا بھی دیاہے ناں انگریزی بولتاہے ساتھ فولاد بھی دیتا ہے کہتا ہے کلیر کٹ ہے گوشت فریش ہونا چاہیے خواہ مچھلی کا ہو خواہ کچھوے کا ہو کیا بات ہے ذاکر نائیک سے مسئلہ پوچھا گیا یہ اس کی کتاب موجود ہے مسئلہ پوچھا ڈاکٹر صاحب اگر کوئی مرد فوت ہوجائے اس کو جنت میں جنت کی بنی عورت ملے گی اس کو ”حور“ کہتے ہیں عورت فوت ہوگئی اس کو جنت میں کیا ملے گا؟ ذاکر نائیک کا علم سنو کہتا مرد جنت میں جائے اس کو جنت کی عورت ملے گی جس کو ”حور“کہتے ہیں اگر جنت میں عورت جائے اس کو جنت کا بنا مرد ملے گا اس کو بھی ”حور “کہتے ہیں پھر اس کے دلائل پڑھو تمہیں دلائل سن کر بھی شرم آئے کہتا دیکھو قرآن کہتا ہے زَوَّجْنَاهُمْ بِحُورٍ عِينٍ دیکھو حور عام ہے مرد کو بھی ہے مونث کو بھی ہے میں نے کہا عقل کے اندھے جن کا نکاح ہم سے ہوگا وہ مونث ہوگی یا برابر ہوں گے؟ یاکوئی سیاق و سباق بھی قرآن میں ہوتاہے؟ کہتا ہے حُورٌ مَقْصُورَاتٌ فِي الْخِيَامِ کہتا ہے یہاں بھی مطلقاً کہا میں نے کہا ”حور“ کی صفت مقصورات ہے اگر یہ مونث صفت ہو گی تو یہ موصوف مذکر ہوگا یا مونث ؟ وہ حُورٌ مَقْصُورَاتٌ فِي الْخِيَامِ ہوگی تو خیام میں عورت کو کیا جاتا ہے مرد کو کیا جاتا ہے۔ کم عقل تو نے کیسی بات کی ہے ایسے بے ہودہ دلائل دےگا کہ آدمی کو سن کر شرم آتی ہے۔
مسئلہ پوچھا کہ ڈاکٹر صاحب یہ بتائیں عورت کے لیے ووٹ دینا جائز ہے؟ کہتا ہے قرآن سے ثابت ہے۔ اچھا بھائی قرآن کی آیت پڑھو! کہتاہے سورة ممتحنہ آیت نمبر 8 تو لوگ کہتے ہیں بہت بڑامذہبی اسکالر ہے یاد کرکے گنتی کرکے آتاہے۔ کہتا ہے قرآن کہتاہے: يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ إِذَا جَاءَكَ الْمُؤْمِنَاتُ يُبَايِعْنَكَ دیکھو عورتیں پیغمبر کے ہاتھ پر بیعت کرتی بطور حاکم مانتی اس سے ثابت ہوا کہ عورت کے لیے ووٹ دینا جائز ہے دلیل تو ہوئی ناں۔ اب آفتاب شیر پاؤکو جو ووٹ دیتی ہے اس کے ہاتھ پر بیعت کرتی ہے؟ نا؛ ناراض نہیں ہونا اگر کوئی آفتاب شیر پاؤ کا یہاں موجود ہو میں نے تو ایک مثال دی ہے کہ جو اس کو ووٹ دے گی وہ بے حیائی پھیلانے کے لیے یابے حیائی ختم کر نے کے لیے ووٹ دے گی؟ کہتاہے اب دیکھو ووٹ کی اجازت مل گئی ہے عورت نبی کے ہاتھ پر بیعت کرتی تھی حکمران سمجھ کہ حکمران سمجھ کے بیعت کی یہ ووٹ ہے۔ جہالت کی انتہاءہے اس پر مستقل ان شاءاللہ آپ کے سامنے وڈیو بیان آجائے گا کچھ میں نے گفتگو کی ہے ہلکی سی۔ ہم نے مواد اکٹھا کرلیا ہے اب ان شاءاللہ اس پر تھوڑی سی دیر لگنی ہے کیونکہ ذاکر نائیک کی کتب موجود نہیں ہیں اور قرآن و سائنس اس کی کتاب موجو د ہے اس میں کیا علمی گُل کِھلاتا ہے قرآن کہتا ہے مِنْ كُلٍّ زَوْجَيْنِ جب حضرت نوح علیہ السلام کی قوم پر عذاب آیا پھر ہم نے کہا ہر جانور کا جوڑا کشتی میں سوار کر!ذاکر نائیک کہتاہے سائنس کی رو سے بات سمجھ میں نہیں آتی کہ اتنی بڑی کشتی ہو عقل میں نہیں آتی لہٰذا ہم قبول نہیں کرتے ”قرآن اور سائنس “نامی کتاب میں میں مسئلہ درج ہے۔ آپ دیکھ لو اور آپ ایک بات پہ حیران ہوں گے کبھی لوگوں کو بات سمجھ نہیں آتی کہ ذاکر نائیک کئی ایک چینلوں کے سامنے بیٹھ کے اتنی لمبی گفتگو کرتاہے کفر کو اعتراض کیوں نہیں ہے ؟ میں کہتاہوں کفر کو اعتراض اس لیے نہیں کہ وہ کفر کی زبان بولتا ہے آپ کہوگے وہ کیسے؟ ذاکر نائیک سے مسئلہ پوچھا گیا جہاد کی شرعی حیثیت کیاہے ؟ ذاکر نائیک کہتا ہے جہاد تب ہوگا جب خلیفہ وقت ہو اور خلیفہ وقت سے مراد ایک ملک کا خلیفہ نہیں ہے کہ پوری دنیا کے مسلمانوں کا جب تک ایک خلیفہ نہیں ہوتا تب تک جہاد نہیں ہے۔ اب مثلا ً

بیت المقدس پہ حملہ ہوجائے خلیفہ ایک نہیں ہے ہم نے دفاع نہیں کرنا۔

بیت اللہ پہ حملہ ہوجائے خلیفہ ایک نہیں ہے تم نے دفاع نہیں کرنا۔

افغانستان میں طاغوتی طاقت آجائے تم نے دفاع نہیں کرنا۔
امیر ایک جو نہیں ہے بتاؤامریکہ کی آواز ہے یا نہیں ؟ (سامعین …ہے) پھر چینل پہ پابند ی کیسے لگے گی؟ یہ نظریات جو ذاکر نائیک نے دیے یہ لوگوں کے علم میں نہیں ہیں تو لوگ بہت جلدی اس کو مان لیتے ہیں۔ ہر کسی کو اتنی جلدی قبول نہ کیا کرو اس وقت تک قبول نہ کرو جب تک علماءاس پہ بات نہ کریں۔
سوال:
غیر مقلدین اپنے آپ کو سلفی اور اثری کہتے ہیں ؟
جواب:
میں کہتاہوں یہ تو ہماری فتح ہے تم ہمیں کہتے تھے کہ ہم محمدی ہیں اور تم حنفی ہو اب تم سلفی اور اثری بننا شروع ہوگئے ہمارا مقام تم سے پہلے کا ہے تم پھر بعدکے ثابت ہوئے ناں نہیں سمجھے ؟ ہمیں کہتے ہیں تم ہو حنفی اور اپنے کو سلفی تو سلف کا معنی کیا ہوتا ہے پیچھے چلنے والا اثری کا معنی نشانات پہ چلنے والا تو تم نے مان لیا تم بعدکے ہو ہم پہلے ہیں اس میں بھی ہماری فتح ہے تمہارا کوئی کمال نہیں ہے۔
سوال:
ڈاکٹر اسرار کے بارے میں کیا کہتے ہیں ؟
جواب:
ڈاکٹر اسرار مودودی نظریات کا حامل ہے جماعتی اختلاف کی وجہ سے الگ ہوا تھا جو نظریات مودودی کے وہی ڈاکٹر اسرار کے ہیں۔
سوال:
یہ لوگ اللہ کی جگہ خدا کے نام کو برا کہتے ہیں ؟
جواب:
یہ جھوٹ بولتے ہیں اس میں ان کو پتہ نہیں کہ خدا یہ ترجمہ کس کا ہے ان کی دلیل صرف یہ ہے کہ خدا پہ اللہ کا ذاتی نام ہے اور ذاتی نام کا ترجمہ نہیں ہوتا ہم کہتے ہیں کہ خدا کس ذاتی نام کا ہم نے ترجمہ کیا ہے ذاتی نام کا ترجمہ کرنا اور بات ہے اوروصفی نام کا ترجمہ کرنا اور بات ہےتم نے ایک غلط اصول قائم کیا اس غلط اصول پہ ایک غلط عمارت قائم کی ہے تم اپنے غلط اصول کو لے کر علمائے دیوبند پر اعتراض نہ کرو۔
سوال:
امام اعظم ابوحنیفہ نے چالیس سال عشاءکے وضوسے صبح کی نماز پڑھی ہے تو امام صاحب نے اپنے گھر والوں کا بھی حق ادا کیا ؟
جواب:
حق دن کو ادا نہیں ہوسکتا ؟ بخاری کی حدیث ہے اللہ کے پیغمبر صحابی کے گھر گئے ہیں دروازے پہ دستک دی ہے تو صحابی مشغول تھے وہ دن تھا رات تو نہیں تھی ، کوئی ضروری ہے کہ آدمی رات کو بیوی کے پاس جائے۔ غلط باتیں مت کہا کرو دوسرا چالیس سال کا معنیٰ تسلسل نہیں ہوتا۔ اگر درمیان میں آدمی گھر جائے اور واپس آجائے یہ تسلسل کے خلاف نہیں ہوتا یہ ایسے ہے جسے آپ کا شیخ ہےہر روز فجرکی نماز پڑھتاہے اشراق تک مسجد میں بیٹھتا ہے لیکن درمیان میں فوتگی ہوگئی کراچی چلاگیا ایک دن کے لیے پھر تین سال بعد کوئی مسئلہ بن گیا کسی اور جگہ چلاگیا اب وہ شیخ دنیا سے رخصت ہوا آپ کہتے ہیں کہ پچاس سال تک شیخ کا معمول یہ تھا کہ فجر کے بعد اشراق تک مصلے پر بیٹھے رہتے تھے۔ عذر کی وجہ سے درمیان میں چلاجائے تو معمول کے خلاف نہیں ہے۔
سوال:
عقائد میں حنفی ہیں ما تریدی نہیں ہیں ؟
جواب:
یہ بھی اس نے تمہیں دھوکا دیا اصل بات یہ نہیں ہے بات یہ ہے جو عقائد امام اعظم ابوحنیفہ کے ہیں وہی عقائد ابومنصور ماتریدی کے ہیں فرق صرف اتنا تھا کہ تنقیح ابومنصور ماتریدی نے کی ہے جب مقابلہ شروع ہواتھاورنہ اصل عقائد امام صاحب والے ہیں ابومنصور ماتریدی کے عقائد کوئی مستقل الگ نہیں ہیں۔
سوال:
غیر مقلدین، ذاکر نائیک اور مرزائیوں کے چینل ہیں ؟
جواب:
جب ہمارے پاس وسائل ہوں گے تو ہم بھی ان شاءاللہ چینل کھولیں گے۔