نماز میں آمین آہستہ کہنا

User Rating: 5 / 5

Star ActiveStar ActiveStar ActiveStar ActiveStar Active
 
نماز میں آمین آہستہ کہنا
بمقام: دارالعلوم شاہدرہ، لاہور
الحمد للہ نحمدہ ونستعینہ ونستغفرہ ونومن بہ ونتوکل علیہ ونعوذ با اللہ من شرور انفسنا ومن سیئات اعمالنا من یھدہ اللہ فلا مضل لہ ومن یضللہ فلا ہادی لہ ونشھد ان لا الہ الا اللہ وحدہ لا شریک لہ ونشھد ان سیدنا ومولانا محمدا عبدہ ورسولہ
اما بعدفاعوذ باللہ من الشیطن الرجیم بسم اللہ الرحمن الرحیم قال قد اجیبت دعوتکما فاستقیما ولاتتبعان سبیل الذین لایعلمون
اللھم صل علی محمد وعلی آل محمد کما صلیت علی ابراہیم وعلی آل ابراہیم انک حمید مجید اللھم بارک علی محمد وعلی آل محمد کما بارکت علی ابراہیم وعلی آل ابراہیم انک حمید مجید۔
تمہید
ہماری آج کی گفتگو کا عنوان ہو گا آمین بالسر۔کہ نماز میں سورۃ فاتحہ کے مکمل ہونے کے بعد آمین کو آہستہ کہنا اہل السنۃ والجماعۃ احناف کے نزدیک سنت ہے۔ امام بھی ولاالضالین کے بعد آمین کہے تو آہستہ، منفرد اور اکیلا نماز پڑھنے والا ولاالضالین کے بعد آمین کہے تو آہستہ کہے، حسب وعدہ اپنے موقف پر سب سے پہلے قرآن کریم کی آیت پیش کرتا ہوں اس کے بعد خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کا مبارک عمل پیش کروں گا۔
آمین دعا ہے قرآن کریم سےثبوت
قرآن کریم کی آیت کریمہ جو میں نے آپ کی خدمت میں تلاوت کی ہے سورۃ یونس پارہ نمبر 11 آیت نمبر89 اللہ رب العزت نےحضرت موسی علیہ السلام کا واقعہ نقل کیا ہے کہ جب حضرت موسی علیہ السلام کی قوم پر فرعون نے حد سے زیادہ ظلم اور زیادتی کی تو حضرت موسی علیہ السلام نے اللہ رب العزت سے فرعون کے لیے بددعا کی۔ حضرت موسی علیہ السلام دعا فرماتے حضرت ہارون علیہ السلام اس پر آمین کہتے اور قرآن کریم نے ان دونوں حضرت موسی علیہ السلام کی دعا اور حضرت ہارون علیہ السلام کی آمین کو جن لفظوں سے ذکر فرمایا وہ الفاظ قرآن کریم کے یہ ہیں۔
قال قد اجیبت دعوتکما
حضرت موسی کی دعا اور حضرت ہارون کی آمین دونوں کے بارے میں فرمایا کہ ہم نے تمہاری دعا کو قبول کرلیا ہے اس آیت کریمہ سے معلوم ہوا کہ آمین دعا ہے لہذا آمین کے اوپر احکام وہی ہوں گے جو دعا کے بارے میں ہیں اور اس آیت کی تفسیر امام جلال الدین سیوطی رحمہ اللہ جن کی وفات 911ھ میں ہے اپنی تفسیر در منثورمیں نقل کرتے ہیں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے۔
عن ابی ہریرہ رضی اللہ عنہ قال کان موسی علیہ السلام اذا دعا امن ہارون علی دعائہ یقول آمین۔
تفسیر الدر المنثور جلد 3صفحہ567
میں نے حسب وعدہ آیت کریمہ کی تفسیر میں صحابی رسول کا ارشاد نقل کیا ہے۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ موسی علیہ السلام جب دعا فرماتے حضرت ہارون ان کی دعا پر آمین کہتے تو اللہ نے حضرت موسی کی دعا اور حضرت ہارون کی آمین دونوں کو دعوت یعنی دعا کے ساتھ تعبیر کیا ہے۔ اگر انسان دعا مانگے تو اس کا حکم قرآن کریم میں ہی ہے۔
دوسری دلیل بخاری سے
اس آمین کے دعا ہونے پر صحیح بخاری میں محمد بن اسماعیل بخاری جن کی وفات 256 ھ میں ہے اپنی کتاب صحیح بخاری میں نقل کرتے ہیں قال عطاء آمین دعاء حضرت عطاء نے فرمایا آمین دعا ہے۔
باب جہر الامام بآمین جلد 1صفحہ107
قرآن سے بھی ثابت ہوا آمین دعا ہے حضرت عطاء کے حوالے سے امام بخاری سے بھی ثابت ہوا آمین دعا ہے۔
دعا کے متعلق قرآن کا حکم
دعا کے بارے میں قرآن کریم نے ہی حکم دیا ہمیں اس حکم کے مطابق عمل کرنا چاہیے قرآن کریم میں اللہ رب العزت نے ارشاد فرمایا۔ ادعوا ربکم تضرعا و خفیۃ حضرت امام فخر الدین رازی رحمہ اللہ جن کی وفات 606ھ میں ہے اپنی کتاب تفسیر کبیرنقل کرتے ہیں
قال ابو حنیفہ اخفاء التامین افضل
تفسیر کبیر جلد 14صفحہ131
حضرت امام رازی نے اس مقام پر بڑی بہترین بحث فرمائی ہے اور وہ بحث تفسیر کبیر میں دیکھنے کے قابل ہے۔
امام رازی اور آمین بالسر
حضرت امام رازی باوجود اس کے کہ شافعی المسلک ہیں امام شافعی کا مقلد ہونے کے باوجود حضرت امام رازی اس پر بحث کرتے ہوئے تشریح فرماتے ہیں
واحتج ابو حنیفہ علی صحتہ کقولہ قال فی قولہ آمین
امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کا جو مسلک ہے اس مسلک پر دلیل دیتے ہوئے دو طرح سے بات کی جاسکتی ہے:
ایک
انہ دعاء دوم انہ من اسماء اللہ۔
فرمایا آمین یا تو اللہ کا نام ہے اور یا آمین دعا ہے، آمین کا اللہ کا نام ہونا یہ بھی حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے تفسیر در منثور میں موجود ہے، آمین کا دعاء ہونا یہ بھی درمنثور میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے منقول ہے۔
امام رازی فرماتے ہیں
فان کا ن دعاء وجب اخفائہ اگر آمین
دعا ہے تو اس کا اخفاء اور آہستہ پڑھنا واجب ہے۔ اس میں اللہ حکم دے رہے ہیں
ادعوا ربکم تضرعاوخفیۃ
اور اللہ کا حکم وجوب کا درجہ رکھتا ہے۔
وکان اسم من اسماء اللہ تعالی
اگر یہ اللہ کے اسماء میں سے اللہ کانام ہے تو گویا ذکر کیا جارہا ہے وجب اخفائہ پھر بھی اس کا اخفاء واجب ہے۔
اس لیے کہ اللہ قرآن کریم میں فرماتے ہیں واذکر ربک فی نفسک تضرعا کہ اللہ کے ذکر کو تم آہستہ اور عاجزی کے ساتھ پڑھو۔ آگے امام رازی فرماتے ہیں
فان لم یثبت الوجوب فلا اقل من الندبیۃ
کم ازکم درجہ تووجوب کا اصل یہ ہے کہ وجوب ہو اگر وجوب نہ ہوکم ازکم درجہ ندب اور استحباب کا تو ہے ہی اور حضرت امام رازی باوجود شافعی المسلک ہونے کے فرماتے ہیں:
ونحن بھذا القول نقول
کہ میں شافعی ہونے کے باوجود حضرت امام ابو حنیفہ کے مسلک کے مطابق فتوی دیتا ہوں اس لیے کہ آمین آہستہ پڑھنے پر حضرت امام ابو حنیفہ کی تائید میں قرآن موجود ہے۔ امام شافعی کا مقلد ہونے کے باوجود جب دلیل کی باری آئی اور دلیل وزنی محسوس ہوئی تو انہوں نے فتوی امام ابو حنیفہ کے مسلک کے مطابق دیا ہے۔
عمل رسول اور آمین باالسر
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنا مبارک عمل آمین بالسر کے بارے میں کیا تھا؟ حضرت سلیمان بن داود بن جارود جن کی وفات 204ھ میں ہے مسند ابوداؤدطیالسی میں نقل کرتے ہیں:
عن وائل قد سمعت من وائل انہ صلی مع رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فلما قراء غیر المغضوب علیہم ولا الضالین قال آمین خفض بھا صوتہ
مسند ابو داود طیالسی جز نمبر 4 صفحہ138
حضرت وائل فرماتے ہیں کہ انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھی جب اللہ کے پیغمبر نے
غیر المغضوب علیہم ولاالضالین پڑھا تو اللہ کے پیغمبر نے آمین فرمایا۔خفض بھا صوتہ
آمین بلند آواز سے نہیں فرمایا بلکہ آمین کہتے وقت اللہ کے پیغمبر نے آواز کو آہستہ کیا اور اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے آمینکو بالسر ادا کیا۔گویا کہ نبوت کے عمل سے ثابت ہوا کہ آمین آہستہ کہنا سنت ہے۔
دلیل دوم
حضرت امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ جن کی وفات 241 ھ میں ہے اپنی کتاب مسند احمد میں فرماتےہیں۔
قال صلی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فلما قرا غیر المغضوب علیہم ولاالضالین قال آمین واخفی بھا صوتہ
حضرت وائل بن حجر نے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں نماز پڑھائی جب اللہ کے پیغمبر نے
غیر المغضوب علیہم ولاالضالین
پڑھا تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے آمین فرمایا اور آہستہ فرمایا۔
مسند احمد جلد4صفحہ 389
دونوں روایات میں فرق کیا ہے، پہلے میں خفض بہا صوتہ اب لفظ ہے اخفی بھا صوتہ۔ خفض کا معنی بھی آہستہ ہے اور اخفی کا معنی بھی آہستہ ہے۔
دلیل سوم
اسی طرح محمد بن عبداللہ الحاکم نیشاپوری جن کی وفات 405 ھ میں ہے مستدرک حاکم میں حضرت وائل رضی اللہ عنہ سے حدیث نقل کرتے ہیں۔
انہ صلی مع النبی صلی اللہ علیہ وسلم حین قال غیر المغضوب علیہم ولاالضالین قال آمین یخفض بھا صوتہ
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز پڑھی اور جب
غیر المغضوب علیہم ولاالضالین
پڑھا اللہ کے پیغمبر نے آمین فرمایا اور آمین کہتے وقت اللہ کے پیغمبر نے آواز کو آہستہ اور پست رکھا۔
مستدرک حاکم جلد 2صفحہ 253
ان تین احادیث سے ثابت ہوا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنا مبارک عمل آمین کو آہستہ کہنے کا تھا۔
دلیل چہارم
حضرت سلیمان بن اشعث رحمہ اللہ جن کی وفات 275ھ میں ہے اپنی کتاب ابو داؤد میں حضرت سمرہ بن جندب رضی اللہ سے حدیث مبارکہ نقل کی ہے
انہ حفظ عن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سکتتین سکتۃ اذا کبر وسکتۃ اذا فرغ من قراءۃ غیر المغضوب علیہم ولاالضالین
اس حدیث مبارکہ کو ذرا سمجھو حضرت سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے میں نے دوسکتے یاد کیے ہیں۔ ایک نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم جب نماز شروع کرتے وقت اللہ اکبر فرماتے تو اس کے بعد اللہ کے پیغمبر سکتہ کرتے پھر جب اس کے بعد
غیر المغضوب علیہم ولاالضالین
کی قراءۃ سے فارغ ہوتے پھر اللہ کے پیغمبر سکتہ فرماتے۔
سنن ابی داود باب السکتہ عند الافتتاح جلد 1صفحہ120
اب اللہ اکبر کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم الحمد للہ رب العالمین تک سکتہ جو فرماتے تو حضور پڑھتے تو تھے، دعا مانگتے تھے، نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم خاموش تو نہیں تھے لیکن صحابی اس کو سکتہ کیوں فرمارہے ہیں؟ جب نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم یوں پڑھتے کہ بلند آواز سے نہ ہوتا اس کی آواز نہ آتی۔ تو جس طرح اللہ اکبر اور
الحمد للہ رب العالمین کے درمیان پیغمبر نے پڑھا ہے مگر آہستہ پڑھا ہے صحابی نے سکتہ فرمایا غیر المغضوب علیہم ولاالضالین
کے بعد پیغمبر نے آمین فرمایامگر آہستہ فرمایا تو صحابی رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے سکتہ فرمایا۔
تو سمرہ بن جندب کی حدیث سے معلوم ہوا کہ جس طرح اللہ اکبر اور الحمد للہ کے درمیان پیغمبر دعا مانگتے ہیں اور آہستہ، اسی طرح ولا الضالین کے بعد پیغمبر آمین کے ساتھ دعا مانگتے تو یہ بھی آہستہ تو خاتم الانبیاء کا مبارک عمل تو آمین کو آہستہ کہنے کا تھا اور یہ حدیث مبارک محمد بن عیسی ترمذی نے جن کی وفات 279ھ میں ہے جامع ترمذی میں اس کو نقل کیا حضرت سمرہ بن جندب سے۔
باب ماجاء فی السکتتین جلد 1صفحہ49
حضرت محمد بن یزید ابن ماجہ جن کی وفا ت 273 ھ میں ہے انہوں نے سنن ابن ماجہ میں حضرت سمرہ بن جندب کی اسی حدیث مبارک کو ذکر کیا۔
سنن ابن ماجہ باب فی السکتتی الامام جلد 1صفحہ61
تو گویا سنن ابن ماجہ اور جامع ترمذی اور سنن ابی داود سے یہ بات ثابت ہوئی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ولاالضالین کے بعد آمین پڑھتے مگر آمین آہستہ پڑھتے تھے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا مبارک عمل آمین کو بلند آواز سے پڑھنے کا نہیں تھا۔
خلفاء راشدین اور آمین بالسر
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد خلیفہ راشد کا عمل کیا تھا؟ حضرت امام احمد بن محمد الطحاوی جن کی وفات 321ھ میں ہے اپنی کتاب معانی الآثار میں فرماتے ہیں۔
عن ابی وائل قال کان عمر رضی اللہ عنہ وعلی رضی اللہ عنہ لا یجہرون ببسم اللہ الرحمن الرحیم ولا بالتعوذ ولا بالتامین
حضرت ابو وائل فرماتے ہیں حضرت عمر رضی اللہ عنہ وعلی رضی اللہ عنہ یہ دونوں نماز میں بسم اللہ بھی آہستہ پڑھتے اور تعوذ بھی آہستہ پڑھتے اور آمین بھی آہستہ پڑھتے۔ نہ اعوذ باللہ کو جہراً پڑھتے، نہ بسم اللہ کو جہراً پڑھتے اور نہ آمین کو جہراً پڑھتے۔
شرح معانی الآثار،باب القراءۃ بسم اللہ الرحمن الرحیم فی الصلوۃ جلد 1صفحہ 150
اسی طرح حضرت امام عبد الرزاق نے مصنف عبد الرزاق میں حضرت ابرہیم سے نقل کیا ہے فرماتے ہیں پانچ مقامات وہ ہیں کہ جن کو آہستہ پڑھاجاتا ہے:
1: سبحانک اللھم وبحمدک
2: التعوذ
3: تسمیہ
4: آمین
5: اللھم ربنا ولک الحمد
تو خلفاء راشدین کا مبارک عمل بھی آمین کو آہستہ پڑھنے کا ہے۔
مصنف عبد الرازاق جلد2 صفحہ57
تابعین کرام اور آمین بالسر
ابراہیم تابعی کا فتوی بھی آمین کو آہستہ پڑھنے کا ہے خلاصہ کلام یہ ہے قرآن کریم کی آیت قال قد اجیبت دعوتکما سے ثابت ہوا کہ آمین دعا ہے۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہارون علیہ السلام حضرت موسی علیہ السلام کی دعا پر آمین کہتے۔ دوسرا حضرت امام بخاری کی قال عطاء آمین سے ثابت ہوا کہ آمین دعا ہے۔
دعا کو آہستہ مانگنے کا حکم قرآن کریم میں موجود ہے
ادعوا ربکم تضرعا وخفیۃ
نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کا عمل آمین کو آہستہ کہنے کا، خلفاء راشدین کا مبارک عمل آمین کو آہستہ کہنے کا، تابعی کا عمل اور تابعی کا فتوی آمین کو آہستہ کہنے کا۔ قرآن کریم، احادیث پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم، خلفاءراشدین اور تابعی کے فتوے کے مطابق اللہ تعالی ہمیں نماز میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کے مطابق آمین کو آہستہ کہنے کی توفیق عطا فرمائے اللہ ہم سب کو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔
یہ میں نے بڑے اختصار کے ساتھ دلائل آپ کی خدمت پیش کیے ہیں جن سے ثابت ہوا کہ آمین نماز میں انسان کو آہستہ آواز میں پڑھنی چاہیے حضرت وائل بن حجر رضی اللہ عنہ کی جو حدیث مبارک میں نے آپ کی خدمت میں پیش کی ہے حضرت وائل بن حجر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے آمین فرمایا لیکن یہ آمین آہستہ تھا آپ حضرات جامع ترمذی میں دیکھیں حضرت امام ترمذی رحمہ اللہ نے آمین بالجہر کا باب بھی قائم کیا ہے اور آمین بالسر کا باب بھی قائم کیا ہے آمین بالسر میں وائل بن حجر رضی اللہ عنہ کی روایت نقل کی ہے۔
اعتراض
بہت سارے احباب کہتے ہیں حضرت امام ترمذی رحم اللہ نے حدیث وائل جس میں آمین آہستہ پڑھنےکاذکرہے اس کوذکرکیااورایک بڑامضبوط اعتراض کیاہےاس کی سندپر۔وہ اعتراض کیاہے کہ وائل بن حجرکی روایت میں حضرت امام شعبہ نے درمیان میں راوی آتاہےحجران کی کنیت نقل کی ہےابوالعنبس۔ امام ترمذی رحمہ اللہ فرماتےہیں یہ خطاہےحجرکی کنیت ابوالعنبس نہیں ہے بلکہ حجرکی کنیت ابوالسکن ہے۔امام ترمذی رحمہ اللہ فرماتےہیں شعبہ سے خطاہوئی۔ توکہتےہیں کہ جب راوی سندبیان کرنےمیں خطاسےکام لےرہا ہےتوممکن ہےحدیث کامتن بیان کرنےمیں بھی اس نے خطاسےکام لیاہو۔
جواب
ہم کہتے ہیں امام ترمذی رحمہ اللہ کی یہ اپنی خطا ہے اس کی وجہ حضرت امام شعبہ حجر کی جو کنیت ابو العنبس ذکر کرتے ہیں اس میں شعبہ منفرد اور تنہا نہیں ہے اسی طرح سفیان ثوری رحمہ اللہ نے بھی کنیت ابو العنبس ذکر کی ہے۔ ابو داود جلد 1صفحہ 141پر روایت موجود ہے اور اگر امام شعبہ امام سفیان ثوری ابو العنبس کنیت نقل کریں تو ممکن ہے آپ کے ذہن میں وہ سوال باقی رہ جائے۔ امام ترمذی رحمہ اللہ فرماتے ہیں ان کی کنیت ابو السکن ہے ابو العنبس ہے ہی نہیں تو پھر تو دونوں نے خطا کی۔
حضرت امام ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ تلخیص الحبیر جلد 1صفحہ 237 میں امام ابن حبان کے حوالے سے نقل کرتے ہیں حجر کی کنیت ابو العنبس بھی ہے اور ابو السکن بھی ہے جب ایک شخص کی دو کنیتیں ہیں تو امام شعبہ چاہیں تو ابو العنبس نقل کردیں اور چاہیں تو ابو السکن نقل کردیں۔ یہ امام شعبہ کی خطا نہیں ہے بلکہ امام ترمذی کو امام شعبہ پر اعتراض کرنے میں خطا ہوئی ہے اس لیے اس سند پر کوئی کلام نہیں ہے۔ امام شعبہ نے جوکیا ہے درست کیا ہے۔ کنیت حجر کی ابو السکن بھی ہے ابو العنبس بھی ہے چاہے تو یہ نقل کردیں اور چاہے تو وہ نقل کردیں۔
یہ کہتے ہیں جس طرح تم نے حدیث مبارک حضرت وائل بن حجر رضی اللہ عنہ کی نقل کی ہے کہ وائل بن حجر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم ولاالضالین کے بعد آمین آہستہ پڑھتے تو یہی وائل بن حجر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ میں نے نماز پڑھی ہے اللہ کے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم نے ولاالضالین کے بعد آمین پڑھا رفع بھا صوتہ تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے آمین کہتے وقت آواز کو بلند کیا۔
اگر وائل بن حجر رضی اللہ عنہ سے آمین آہستہ پڑھنے کی حدیث موجود ہے تو اسی صحابی وائل بن حجر رضی اللہ عنہ سے بلند آواز سے آمین پڑھنے کی دلیل بھی موجود ہے تو پھر یوں کہنا چاہیے آمین آہستہ بھی سنت ہے آمین بلند بھی سنت ہے تو صحابی تو وہی ہے تم نے ان کی جہر والی روایت کو کیوں چھوڑ دیا ہے؟
حضرات وائل کی حدیث ایک نظر میں
ہم نے کہا چھوڑا نہیں۔ وائل بن حجر رضی اللہ عنہ کی روایتیں دونوں ہیں مگر ہم نے سر والی روایت کو لیا اور جہر والی روایت کو کیوں نہیں لیا اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ جو روایت جس میں رفع بھا صوتہ کا ذکر ہے اس کے معروف راوی حضرت امام سفیان ثوری رحمہ اللہ ہیں اور امام سفیان ثوری کا اپنا فتوی فقہ سفیان ثوری میں موجود ہے کہتے ہیں
آمین سرا سواء کان اماما او مأمومااو منفردا
کہ آمین آہستہ ہے خواہ امام ہو خواہ مقتدی ہو اور خواہ اکیلا ہو تو سفیان ثوری جو اس حدیث کے مرکزی راوی ہیں وہ بھی فتوی اس روایت کے خلاف دے رہےہیں۔
فقہ سفیان ثوری صفحہ 561
تو معلوم ہوا اس روایت کا معنی وہ نہیں جو غیر مقلد سمجھے ہیں، معنی وہ ہوگا جو محدثین اور امام سفیان ثوری جیسے لوگ سمجھے۔کیوں کہ راوی اگر ایک روایت کو پیش کرے اور فتوی اس روایت کے خلاف دے دے تو حضرت امام سرخسی رحمہ اللہ نے اصول سرخسی میں ایک اصول لکھا ہے
فیثبت بعملہ بخلاف الحدیث نسخ الحکم
اگر راوی روایت پیش کرے اور فتوی روایت کے خلاف دے یہ دلیل اس بات کی ہے اس راوی کے نزدیک وہ حدیث منسوخ ہے تو سفیان ثوری رحمہ اللہ بھی اس حدیث کو منسوخ سمجھتے ہیں۔
اصول سرخسی جلد 2 صفحہ 6
آمین بالجہر تعلیماً تھی
اور دوسری اہم بات یہ سمجھیں حضرت وائل بن حجر رضی اللہ عنہ روایتیں تو دونوں نقل کرتے ہیں اول اللہ کے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم سے آمین آہستہ پڑھنے کی، دوم اللہ کے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم سے آمین بلند آواز سے پڑھنے کی لیکن جہاں جہراً آمین کا تذکرہ کیا ہے اس میں حضرت وائل بن حجر رضی اللہ عنہ کا اپنا ارشاد موجود ہے۔محمد بن احمد الدولاوی جن کی وفات 310 ھ میں ہے اپنی کتاب الکنی والاسماء میں ارشاد فرماتے ہیں حضرت وائل بن حجر رضی اللہ عنہ کا قول نقل کرتے ہوئے کہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے آمین فرمایا
یمد بھا صوتہ مااراہ الا یعلمنا
اللہ کے پیغمبر نے جو آمین بلند آواز سے فرمایا یہ ہمیں تعلیم دینے کےلیےتھا۔
الکنی والاسماء جلد1صفحہ 442
معلوم ہوا اصل عمل پیغمبر کا آہستہ کا تھا دوتین مرتبہ بلند آواز سے فرمایا امت کو تعلیم دینےکےلیے۔ یہ بالکل ایسے ہی ہے جیسے حضرت امام بخاری رحمہ اللہ نے صحیح بخاری میں نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم سے نقل کیا ہے۔
اب ظہر کی نماز میں قراءۃ آہستہ ہوتی ہے جہر سے نہیں ہوتی عصر کی نماز میں قراءۃ آہستہ ہوتی ہے جہر سے نہیں ہوتی لیکن امام بخاری رحمہ اللہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک حدیث نقل فرمائی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کبھی کبھی ظہر کی نماز میں ویسمع الآیۃ احیانا صحابی فرماتے ہیں کبھی اللہ کے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں ایک دو آیتیں بلند آواز سے سنادیتے۔ اب ظہر کی نماز میں قراءۃ تو آہستہ ہوتی ہے کبھی اللہ کے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم بلند آواز سے پڑھ لیتے یہ بتانے کے لیے ان مقامات پر میں یہ تلاوت کرتا ہوں۔
صحیح بخاری جلد1صفحہ 105
حضرت وائل بن حجر رضی اللہ عنہ بھی فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم آمین کبھی آہستہ پڑھتے اورکبھی بلند آواز سے پڑھ لیتے مقصود تعلیم تھی، یہ بتانے کے لیے کہ ان مقامات پر یہ لفظ آمین میں کہتا ہوں۔ اپنے عمل سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بتادیا۔
اعتراض
اور ایک بڑی معروف حدیث جو بطور ایک اعتراض کے پیش کی جاتی ہے۔ جی امام بخاری نے باب قائم کیا ہے باب جہر الامام فی التآمین کہ نماز میں آمین بلند آواز سے پڑھنی چاہیے، اور حضرت امام بخاری رحمہ اللہ اس کتاب میں کئی ایک احادیث لائے ہیں ان میں سے ایک ہے ابن زبیر رضی اللہ عنہ کی، ایک ہے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی اور اسی طرح یہ حضرت عطاء کا قول لائے ہیں کہتے ہیں اس سے امام بخاری جہر ثابت کرنا چاہتےہیں۔
جواب
سوال یہ ہے کہ ان سے جہر ثابت ہوتا ہے یا نہیں؟ نمبر ایک حضرت امام بخاری رحمہ اللہ ترجمۃ الباب قائم فرماتے ہیں اور اس کے بعد امام بخاری رحمہ اللہ نے آگے حدیث مبارک نقل کی ہے امام بخاری فرماتے ہیں ب
اب جہر الامام بالتامین
کہ امام آمین بلند اواز سے کہے پہلی بات کہ قال عطاء آمین دعاء یہ ترجمۃ الباب کا حصہ ہے” عطاء نے کہا آمین دعا ہے" تو دعا کہنے سے کیا آمین کا جہر ثابت ہوجاتا ہے؟عطا ءیہ تو کہتے ہیں کہ آمین دعا ہے یہ تو نہیں کہ اس کے اندر جہر بھی ہے۔
دوسری بات آگے ترجمۃ الباب میں لائے ہیں۔ حضرت ابن زبیر رضی اللہ عنہ کا اثر آگے ترجمۃ الباب میں لائے ہیں، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کا اثر پھر ترجمۃ الباب میں لائے ہیں، ابن عمر رضی اللہ عنہما کا اثر، پھر اس کے بعد امام بخاری رحمہ اللہ ایک حدیث مبارک لائے ہیں
جہر الامام بالتامین
کے تحت اب ذرا توجہ سے بات سمجھنا۔
صحیح بخاری کا مسئلہ آپ کے سامنے حل ہو جس کو عموماً لوگ شد ومد کے ساتھ پیش کرتے ہیں کہ دیکھو جی امام بخاری کی صحیح بخاری میں بلند آواز سے آمین پڑھنے کی دلیل موجود ہے۔
نمبر ایک، کہتےہیں
باب جہر الامام بالتامین قال عطاء آمین دعاء
کہ عطاء نے آمین کو دعا کہا اس سے آمین کا جہرا ہونا توثابت نہ ہوا۔ جب کہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں
ینادی الامام لا تفتنی بآمین
اگر امام نے میرے آنے سے پہلے نماز شروع کردی ہے تو امام آمین مجھ سے پہلے نہیں کہے گا میں بھی آمین کہہ لوں گا تو اس سے آمین کا جہر کیسے ثابت ہوا حضرت نافع رحمہ اللہ فرماتے ہیں
قال ابن عمر لایدعہ
کہ ابن عمر رضی اللہ عنہما کبھی بھی آمین کو چھوڑا نہیں کرتے تھے اس سے آمین کا جہر کیسے ثابت ہوا؟
حدیث ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ پر ایک نظر
اب ایک اثر رہ جاتا ہے ابن زبیر رضی اللہ عنہ کا اس سے پہلے ذرا حدیث سن لیں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی ایک حدیث امام بخاری لائے ہیں ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اذا امن الامام فامنواکہ جب امام آمین کہتے تو تم بھی آمین کہو
فانہ من وافق تامینہ تامین الملائکۃ غفرلہ ماتقدم من ذنب
جس آدمی کی آمین ملائکہ کی آمین کے موافق ہوگئی اس کے گذشتہ گناہ معاف ہوجائیں گے۔
فکان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یقول آمین
نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم بھی آمین کہتے اب بتاؤاس سے جہر کیسے ثابت ہوا؟ ہم بھی کہتے ہیں امام جب آمین کہے تم بھی آمین کہو او اگر ملائکہ کے موافق تمہاری آمین ہوگئی، اب ملائکہ کی موافقت کیا ہے؟ کبھی آپ نے آج تک ملائکہ کو جہر سے آمین کہتے سنا؟ ملائکہ کی آمین بھی تو آہستہ ہے۔ تو ملائکہ کی آمین کے ساتھ تو موافقت یہی ہوگی کہ ملائکہ کی آمین آہستہ ہے تو ہماری آمین بھی آہستہ ہو اکٹھے آمین ہوگی تو گنا ہ معاف ہوجائیں گے۔
اثر ابن زبیر رضی اللہ عنہ کا جواب
اب ایک اثر ابن زبیر رضی اللہ عنہ کا ہے جس کو پیش کیا جاتا ہے۔ کہتے ہیں
امن ابن زبیر فمن وراءہ حتی ان للمسجد للجۃ
ابن زبیر رضی اللہ عنہ کے پیچھے جو مقتدی تھے انہوں نے آمین کہا یہاں تک کہ مسجد میں گونج پیدا ہوگئی یہاں بھی جہر کا لفظ نہیں تھا صرف لفظ گونج سے استدلال کیا۔ مگر دو جواب یہ ذہن نشین فرمالیں۔
جواب اول
ایک حضرت امام بخاری رحمہ اللہ نے یہاں ابن زبیر رضی اللہ عنہ کے اثر کو بغیر سند کے ذکر کیا ہے یہاں پر سند قطعاً موجود نہیں ہے۔ آپ کوئی جملہ پیش کریں اور اس کی سند ضعیف ہو غیر مقلدین شور مچادیں گے کہ تمہاری سند ضعیف ہے۔ اور وہ جملہ پیش کریں اور بغیر سند کے پیش کریں آپ کو بھی حق حاصل ہے ناں کہ پوچھیں کہ بے سند بات نہ کرو باسند بات کرو۔ عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کی بات پیش کی ہے مگر امام بخاری رحمہ اللہ نے بغیر سند کے پیش کی ہے۔ لہذا اس کو غیر مقلدین اپنے حق میں پیش نہیں کر سکتے۔
جواب دوم
اس کی سند مصنف عبدالرزاق کے اندر موجود ہے مگر اس سند کو غیر مقلدین اپنے حق میں پیش نہیں کرسکتے۔وجہ یہ ہے کہ طبقات المدلسین میں عبدالرزاق کے بارے میں لکھا ہے کہ وہ مدلس ہیں۔ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ عبدالرزاق یہ مدلس ہے اور فتح المبین صفحہ 45جو طبقات المدلسین کا حاشیہ ہے کہتے ہیں قال تشیع تغیر بقول تمہارے یہ شیعہ بھی تھا بقول تمہارے ان کا حافظہ متغیر ہوگیا تھا اور مدلس تھا۔ تمہارے مسلک کے مطابق مدلس کی روایت قابل قبول نہیں ہوتی امام بخاری رحمہ اللہ بغیر سند کے لائے ہیں اور جہاں پر سند موجود ہے تمہارے اصول کے مطابق ان کی روایت کو پیش نہیں کیا جاسکتا۔
اس لیے بہتر یہ ہے کہ آدمی قرآن کریم، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث مبارکہ، خلفائے راشدین کے عمل اور تابعین کے فتوے کے مطابق نماز میں امام کے پیچھے ہو یا امام بن کے نماز پڑھا رہا ہو یا اکیلا نماز پڑھ رہا ہو ہر حال میں آمین آہستہ کہے۔
اللہ رب العزت ہم سب کو ادب اور آداب کے ساتھ آمین آہستہ کہتے ہوئے نماز پڑھنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
وآخر دعوانا ان الحمد للہ رب العالمین