برزخ کیا ہے

User Rating: 3 / 5

Star ActiveStar ActiveStar ActiveStar InactiveStar Inactive
 
برزخ کیا ہے
بمقام: پیر محل، ٹوبہ ٹیک سنگھ
الحمد للہ نحمدہ ونستعینہ ونستغفرہ ونومن بہ ونتوکل علیہ ونعوذ با اللہ من شرور انفسنا ومن سیئات اعمالنا من یھدہ اللہ فلا مضل لہ ومن یضللہ فلا ہادی لہ ونشھد ان لا الہ الا اللہ وحدہ لا شریک لہ ونشھد ان سیدنا ومولانا محمدا عبدہ ورسولہ
اما بعد فاعوذ باللہ من الشیطن الرجیم بسم اللہ الرحمن الرحیم
وَلَقَدْ آتَيْنَا مُوسَى الْكِتَابَ فَلَا تَكُنْ فِي مِرْيَةٍ مِنْ لِقَائِهِ وَجَعَلْنَاهُ هُدًى لِبَنِي إِسْرَائِيلَ
سورۃ السجدہ آیت23
عن انس قال قال النبی صلی اللہ علیہ وسلم الا نبیاء احیا ء فی قبور ھم یصلون
مسند ابو یعلی موصلی658
اللھم صل علی محمد وعلی آل محمد کما صلیت علی ابراہیم وعلی آل ابراہیم انک حمید مجید اللھم بارک علی محمد وعلی آل محمد کما بارکت علی ابراہیم وعلی آل ابراہیم انک حمید مجید۔
تمہید
میرے نہایت واجب الاحترام دوستو بزرگو مسلک اہل السنت والجماعت سے تعلق رکھنے والے غیور نوجوان دوستو اور بھائیو، اس کائنات میں ایک ذات کا نام خالق ہے اور خالق کے ماسوا کا نام مخلوق ہے۔ اللہ رب العزت کی ذات کائنات کی خالق ہے اور اس کائنات میں اللہ کے ماسوا جس قدر اشیاء موجود ہیں یا موجود ہوں گی ان کا نام مخلوق ہے۔
مخلوقات میں سے نوری مخلوق بھی ہے جنہیں ملائکہ کہتے ہیں۔ مخلوقات میں سے ناری مخلوق بھی ہے جسے جنات کہتے ہیں۔ مخلوق میں سے ارضی مخلوق بھی ہے جنہیں بشر کہتے ہیں۔ مخلوقات میں سے نباتات، جمادات اور حیوانات بھی موجود ہیں۔
وجود انسانی کی برکت
لیکن مخلوقات میں اللہ نے جس قدر اس کائنات میں مخلوقات کو وجود بخشا ہے ان میں اصل ایک حضرت انسان کی ذاتِ گرامی ہے اور باقی جس قدر مخلوقات کو اللہ نے وجود بخشا ہے، اللہ رب العزت قرآن کریم میں اعلان فرما رہے ہیں
هُوَ الَّذِي خَلَقَ لَكُمْ مَا فِي الْأَرْضِ جَمِيعًا
میں نے زمین میں جس قدر چیزِیں پیدا کیں ان کو وجود میں نے تمہارے لیے دیا ہے۔
سورۃ البقرہ آیت29
وجود انسانی کا مقصد
وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنْسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونِ
سورۃ الذاریات آیت56
اور انسان تجھے میں نے اپنے لیے پیدا کیا ہے۔ اللہ نے انسان کو وجود دیا ہے تاکہ انسان سجدہ اللہ کو کرے۔ وجود انسان کو دیا تاکہ گھٹنے اللہ کے سامنے ٹیک لے، انسان کو اللہ نے وجود دیا ہے کہ انسان اس دنیا میں اللہ کی مان کر زندگی گزارے۔ لیکن اللہ نے اس کائنات میں جس قدر مخلوقات پیدا کی ہیں ان کو اللہ نے انسان کا خادم بنایا، انسان کے لیے پیدا کیا۔ اسی لیے اللہ قرآن کریم میں اعلان فرماتے ہیں
لو یوا خذاللہ الناس بما کسبوا
اگر اللہ بد اعمالیوں کی وجہ سے انسان پر عذاب بھیج دے۔
اللہ پھر اس زمین پر جانوروں کو باقی نہیں رہنے دیتے۔ لوگ کہتے ہیں گناہ انسان نے کیا تھا رب نے جانوروں کو فنا کیوں کیاہے؟ اللہ کے بندے جانور تو انسان کے لیے تھے جب اس بستی پر انسان نہیں تو جانور کا فائدہ کیا ہے؟
اللہ رب العزت نے سورج کو وجود دیا ہے، اللہ نے چاند کو وجود دیا ہے، اللہ نے آسمانوں کو وجود دیا ہے، اللہ نے کائنات میں پہاڑ اور دریا کو وجود دیا ہے، مگر ان کا وجود اس وقت تک ہے جب تک اس کائنات میں انسان رہے گا اور انسان بھی اللہ اللہ کرنے والا رہے گا۔ جب اللہ کا نام لینے والا انسان نہیں ہوگا تواللہ انسان کے وجود کومٹانے کا فیصلہ کر لیں گے۔ پھر سورج مشرق کی بجائے مغرب سے، پھر سورج کا چکر بدل جائے گا۔ اللہ سورج کو فنا کردیں گے، اللہ اس چاند کو فنا کر دیں گے اللہ پوری کائنات کے نظام کو ختم کر دیں گے۔ کیوں؟ یہ نظام تھا جو انسان کےلیے۔ کبھی اللہ اگر کسی علاقے میں ( اللہ ہم سب کو محفوظ رکھے)اگر انسان ابتلاء کا شکار ہو یا انسان پر واقعۃً عذاب آجائےاور اللہ جانور کے وجود مٹا دیں تو کم عقل لوگ اعتراض یہ کرتے ہیں:
اعتراض
گناہ انسان نے کیا، جانور کا کیا قصور تھا کہ اس کو مٹا دیا گیا؟
جواب
میں کہتا ہوں جب قیامت آئے گی اللہ انسان کو فنا کرنے کا ارادہ کریں گے پھر تو چاند نہیں بچے گا چاند کا قصور کیا ہے؟ سورج نہیں بچے گا سورج کا قصور کیا ہے؟ بات قصور کی نہیں ہے جب سورج کے وجود کا مقصد ختم ہوگیا اب سورج کو کائنات میں رہنے کی ضرورت نہیں ہے۔
سبب اصلی اور سبب ظاہری
اللہ رب العزت نے انسان کو وجود دیا ہے اس کے دو سبب ہیں ایک سبب اصلی ہے اور ایک سبب ظاہری ہے۔ علماء کی زبان میں کہتے ہیں اللہ نے کائنات کووجود دیا ہے ایک اس کی علت ہے ایک اس کا سبب ہے۔ مگر علت اور سبب کو چونکہ عوام علمی زبان میں نہیں سمجھتے میں نے اس لیے کہا اللہ نے وجود دیا ہے۔ ایک سبب اصلی ہے اور ایک سبب ظاہری ہے۔ اگر کوئی پوچھےسبب اصلی کیا ہے؟ ہم کہیں گے
وما خلقت الجن والانس الا لیعبدون
تاکہ انسان عابد بن کر اس دنیا میں رہے۔
اگر کوئی پوچھے سبب ظاہری کیا ہے؟ اللہ نے کائنات کو وجود کیوں بخشا ہے؟ ہم کہیں گے اللہ نے اپنے پیغمبر کی ذات کی خاطر بخشاہے۔ اگر اللہ کائنات میں خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کو وجود دینے کا ارادہ نہ کرتے اللہ کائنات میں جنت کو وجود نہ دیتے۔ اللہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو وجود دینے کا ارادہ نہ کرتے اللہ کائنات میں جنات کو وجود نہ دیتے۔ اگر اللہ پیغمبر کو وجود دینے کا ارادہ نہ فرماتے اللہ ملائکہ حورغلمان کو وجود نہ دیتے۔ ایک سبب اصلی وہ انسان کا عبادت کرنا ہے، ایک سبب ظاہری وہ پیغمبر کامبارک وجود ہے۔
سبب اور مقصد میں فرق
مجھے ایک شخص نے کہا کہ تم نے کہا کہ اللہ نے کائنات کو اس لیے پیدا کیا کہ نبی کو پیدا کرنا تھا۔ اللہ قرآن میں کہتا ہے ہم نے انسان کو عبادت کے لیے پیدا کیاہے تم کہتے ہو نبی کی وجہ سے پیدا کیا۔ میں نے کہا آپ کے شہر میں میں آیا اگر تم مجھ سے پوچھو کہ مولانا ہمارے شہر مثلاً پیر محل میں کیوں آئے؟ تو میں کہوں گا بیان کرنے کے لیے، اگر پوچھو کیوں آئے تو میں کہوں گا تقریر کرنے کےلیے، اگر کوئی اور مجھے فون کر کے پو چھے کہ مولانا پیر محل میں کیوں آئے تو میں کہوں مجھے پیر محل میں مثلاً مفتی عابد سلیم نے دعوت دی ہے۔ تم کہو گے عجیب بات ہے کبھی کہتا ہے بیان کرنے کےلیے کبھی کہتا ہے جی فلاں نے دعوت دی ہے۔ میں کہتا ہوں اس پیر محل میں آنے کی وجہ وہ تو میرا بیان کرنا ہے۔ اور آنے کا سبب وہ اس شخص کا وجود ہے جس نے مجھےدعوت دی ہے۔ آیاتو میں بیان کےلیے تھا لیکن آنے کا سبب اس داعی کاوجود بنا ہے۔ ہم آئےتو کائنات میں عبادت کےلیے تھے مگر آنے کا سبب محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا وجود مبارک بناہے۔
مثال
میں نے کہا اگر پھر بھی تمہیں بات سمجھ میں نہ آئے تو میں یوں کہتا ہوں۔کیونکہ لوگوں نے کہا نہیں نہیں ہم اس بات کو نہیں مانتے رب نے پیدا کرنا ہی تھا، اگر محمد صلی اللہ علیہ وسلم نہ ہوتے تب بھی کرنا تھا۔ میں نے کہا پھر میں ایک مثال اور دے کر بات سمجھانا چاہتا ہوں، اگر تمہاری کوئی شخص دعوت کرے اور دعوت پر ہرنی کا گوشت پیش کردے، اگر دعوت کرے اور اس میں دیسی مرغ دیسی گھی میں پکا کر پیش کردے اور تم مرغ اڑاؤ اور وہاں سے چل دو اور اس کا شکریہ بھی ادا نہ کروایسا تو نہیں کر سکتے ناں! لیکن کم عقل مہمان اور کم علم مہمان بلکہ دوسرے لفظوں میں یوں کہو بد دماغ مہمان کہے گا ارے شکریہ کس بات کا۔ اللہ نے اس کے گھرمیں ہمارا رزق لکھا تھا ہم نے کھا لیا اللہ نہ لکھتے ہم کھانے کےلیے نہ آتے۔ اس میں اس کا کون سا کمال ہے! میں نے کہا اچھا اگر تم دس دن بعد پھر اس کے گھر جاؤ اور تمہیں کھڑے ہو کر سلام بھی نہ کرے تم اس کے گھر جاؤ اور تمہیں مشروبات بھی پیش نہ کرے، تم اس کے گھرجاؤ اور تمہیں چائے کی پیالی بھی پیش نہ کرے اسی طرح بھوکے تم واپس آؤ پھر دس دن بعد پھر تمہیں بلائے تو تم جانے کے لیے تیار نہیں ہو گے۔
لوگ پوچھیں گے کیوں نہیں جاتے؟ آپ کہو گے ناں اس لیے نہیں جاتا یار کیسا میزبان ہے ایک کپ چائے بھی نہیں پلا سکتا تھا، یہ کیسا میزبان ہے ارے ایک بوتل بھی 15 روپے کی نہیں پلا سکتا، یہ کیسا میزبان تھا ہمیں بیٹھنے کےلیے کرسی نہیں دے سکتا تھا اس میزبان کے پاس جانے کا فائدہ کیا؟ تو پھر میں پوچھ سکتا ہوں ناں کہ اسی میزبان نے اگر دس دن پہلے تمہیں دیسی گھی میں دیسی مرغ بھون کر کھلایا تو تم نے کہا کہ اس کا کیا کمال ہے رب نے رزق لکھا تھا ہم آگئے رب نہ لکھتا تو نہ آتے۔ تو رب نے لکھاتھا اس نے کھلایا تمہیں خوشی نہیں ہوئی، آج رب نے نہیں لکھا تو اس نے نہیں کھلایا تو پھر جناب کا موڈ کیوں بدل گیا ہے۔ تمہارے چہرے پر بارہ کیوں بج گئے ہیں۔ اللہ کے پیغمبر نے اعلان کیا
قال رسول الله صلى الله عليه و سلم من لم يشكر الناس لم يشكر الله
جو انسان کا شکریہ ادار نہیں کرتا وہ اللہ کا شکریہ بھی ادا نہیں کرتا۔
ترمذی باب الشکر لمن احسن الیک ص339
ارے تجھے کہنا تو یہ چاہیے تھا کہ اس شہر میں رزق میرے رب نے لکھا تھا لیکن ذریعہ تجھے بنا دیا، رب اورکسی کو بھی بنا سکتا تھا لیکن رب نے تجھے بنا دیا میں تیرا شکریہ ادا کرتا ہوں۔ تو جس طرح رب نے اگر میرا اور آپ کا رزق لکھ دیا لیکن جس میزبان کو اللہ سبب بنائے اس میزبان کا شکریہ ادا نہیں کرتے؟ اللہ نے وجود ہمیں دیا یہ ہمارے مقدر میں لکھا تھا لیکن سبب پیغمبر کو بنا دیا۔ ہم اللہ کو بھی محسن مانتے ہیں کہ اللہ تو نے وجود دیا، ہم پیغمبر کو بھی محسن مانتے ہیں جو ہمارے دنیا میں آنے کا سبب بنا ارے وہ بھی ٹھیک ہے اور یہ بھی ٹھیک ہے۔
ہرحال میں معبود توہی
میں اس کی ایک اور مثال دیتا ہوں اللہ نے قرآن میں حکم دیا
وَقَضَى رَبُّكَ أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا
ارے تم نے عبادت اللہ کے علاوہ کسی اور کی نہیں کرنی اور تم نے والدین کے ساتھ حسن سلوک کرنا ہے۔
اسراء آیت 23
تو میں آپ سے پوچھتا ہوں اگر اللہ صحت دے تو اللہ کی عبادت کریں گے اگر اللہ صحت چھین لے عبادت تب بھی کریں گے۔ اللہ اولاد دے تب بھی عبادت کریں گے اللہ اولاد واپس لے لے تب بھی عبادت کریں گے۔ اللہ دولت عطا کرے عبادت تب بھی کریں گے اللہ دولت واپس لے لے عبادت تب بھی کریں گے کیوں؟
ہر حال میں مقام ادب ہے
ہم عبادت اس لیے نہیں کرتے کہ رب نے صحت دی ہے اگر صحت دے دے تب بھی سجدہ اس کو، اگر مرض دے تب بھی سجدہ اسی کو۔ اللہ دولت دے دے تب بھی سجدہ اسی کو،اللہ فقیر بنا دے تب بھی سجدہ اسی کو۔ اللہ اولاد دے دے تب بھی سجدہ اسی کو، اللہ اولاد لےلے تب بھی سجدہ اسی کو۔ کیوں کہ وہ خالق ہے۔ اور جو ماں باپ تیرے وجود کا ذریعہ بنے ہیں اگر تیرا باپ نماز پڑھے تب بھی والد کا ادب ہے اگر نماز چھوڑ دے تب بھی والد کا ادب ہے۔ تیرا باپ چہرے پر داڑھی رکھ لے تب بھی باپ کا ادب ہے۔ تیرا باپ خدا نہ کرے ڈاڑھی منڈا دے تب بھی ادب ہے۔ اگرماں رات کو تہجد پڑھے تب بھی ماں کے قدموں تلے جنت ہے۔ اگر ماں خدا نہ کرے بدکار ہو تب بھی تیری جنت تیری ماں کے قدموں تلے ہے۔ ارے والدین کا ادب یہ ایمان کی وجہ سے نہیں ہے والدین کافر ہوں ادب تب بھی تیرے ذمے ہے۔ والدین بدکردار ہوں تب بھی ادب تیرے ذمے ہے۔ کیوں؟ اللہ صحت دے عبادت تب بھی اس کی اللہ صحت نہ دے عبادت تب بھی اسی کی ہے۔ اگر والدین نیک ہوں تب بھی ادب ہے والدین بدکردار ہوں تب بھی ادب ہے۔ وجہ یہ ہے مجھے اور تجھے وجود ملا ہے۔ ایک اس کا سبب اصلی ہے وہ میرے اللہ کا فیصلہ ہے۔
اور ایک سبب ظاہری ہمارے والدین کا وجود ہے۔ اللہ کا فیصلہ نہ ہوتا مجھے تجھے وجود نہ ملتا اگر والدین ذریعہ نہ ہوتے وجود تب بھی نہ ملتا۔ اللہ میرے اور تیرے وجود کا سبب اصلی ہے اور تیرے اور میرے والدین ہمارے دنیا میں آنے کا سبب ظاہری ہیں۔ بالکل اسی طرح عبادت تیرے اور میرے آنے کا سبب اصلی ہے اور محمد صلی اللہ علیہ و سلم کا وجود تیرے اور میرے آنے کا سبب ظاہری ہے۔ نعرے
تیرے لیے ہے وجود ملائک
میں بات سمجھا رہا ہوں اللہ نے وجود دیا اصل مقصد عبادت تھا اور جو وجود کا سبب بنے ہیں خاتم الانبیاء محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات ہے، میں کہتاہوں اللہ خالق ہے اور باقی ماسوا اللہ کے ساری مخلوق ہے۔
توجہ کریں۔۔۔ اور مخلوق میں ملائکہ بھی ہیں اور مخلوق میں جنات بھی ہیں مگر کبھی تم نے غور کیا اللہ نے ملائکہ کو کیوں بنایا، اللہ نے ملائکہ کو اسی لیے بنایا ہے اللہ قرآن میں کہتا ہےکراماً کاتبین تیرے کندھے پر موجود ہیں تیری نیکی لکھنے کےلیے، تیرے کندھے پر موجود ہیں تیرا گناہ لکھنے کےلیے۔ ملائکہ خدا نے کیوں بنائے؟ فرمایا
لَهُ مُعَقِّبَاتٌ مِنْ بَيْنِ يَدَيْهِ وَمِنْ خَلْفِهِ يَحْفَظُونَهُ مِنْ أَمْرِ اللَّهِ
میں نے ملائکہ بنائے ہیں ارے تیری حفاظت کےلیے۔
سورۃ الرعد آیت11
اللہ تونے ملائکہ کیوں بنائے ہیں؟ ارے تیرے لیے آسمان سے بادل برسانے کےلیے۔ اللہ ملائکہ تونے کیوں بنائے ہیں؟ ارے بندے تیرے لیے ہواؤں اور ان دریاؤں کا نظام چلانے کےلیے۔ تو رب نے نوری مخلوق کو وجود بخشاہے تیری خدمت کےلیے۔
مخلوق کی دو قسمیں
پھر میں یہ بات کہہ سکتا ہوں ناں ایک تو کائنات میں ذاتِ خالق ہے اور خالق کے ماسوا یہ پوری کائنات مخلوق ہے اور مخلوق کی دو قسمیں ہیں ایک کا نام مخدوم ہے اور ایک کانام خادم ہے۔ اگر بشر کو دیکھے گا یہ مخدوم ہے اگر جبرائیل کی قسم کو دیکھے گا تو یہ خادم ہے اگر نباتات کو دیکھے گا تو یہ خادم ہے۔ اگر ابلیس کی قسم کو دیکھے گا تو یہ خادم ہے۔ رب کہتا ہے انسانو! تم نے کبھی غور کیا؟ جبرائیل نہیں کہہ سکتا محمد ہم میں سے ہیں ارے جبرائیل نہیں کہہ سکتا کہ محمد ہم میں سے ہیں۔ حور وغلمان نہیں کہہ سکتے محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہم میں سے ہیں، ارے جنات نہیں کہہ سکتے محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہم میں سے ہیں۔
لیکن انسان کہتا ہے ر ب نے قرآن میں اعلان کیا ہے لَقَدْ جَاءَكُمْ رَسُولٌ مِنْ أَنْفُسِكُمْ انسانو! تمہیں مبارک ہو محمد صلی اللہ علیہ وسلم تم میں سے ہیں۔
سورۃ التوبہ آیت28
لَقَدْ مَنَّ اللَّهُ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ إِذْ بَعَثَ فِيهِمْ رَسُولًا مِنْ أَنْفُسِهِمْ
اے ایمان والو تم شکر میرا ادا کرو کہ میں نے جس جنس سے تمہیں بنایا میں نے اسی جنس میں اس کائنات کی سب سے بڑی شخصیت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بنایا۔
سورۃ آل عمران آیت 164
ارے نوری نہیں کہہ سکتا محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہم میں سے ہیں، ناری نہیں کہہ سکتا محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہم میں سے ہیں، نباتات نہیں کہہ سکتے محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہم میں سے ہیں، اگر کہہ سکتا ہے تو انسان کہہ سکتا ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہم میں سے ہیں۔
اعلی ٰمقام بشریت میں ہے
انسان مخدوم ہے اور ملائکہ خادم ہیں، ارے میں کہتا ہوں کہ نبی نعوذ باللہ ناری مخلوق نہیں وہ توخادم ہے نبی نباتات میں سے نہیں وہ تو خادم ہے۔ نبی جمادات میں سے نہیں وہ توخادم ہے نبی نوری مخلوق نہیں وہ توخادم ہے۔ نبی بشر مخلوق ہے کیونکہ بشر مخدوم ہے۔ نبی کو بشر مان یہ مخدوم ہے، نبی کو نور نہ مان وہ خادم ہے۔ اگر تونے نور مانا مقام گھٹتا ہے اگر بشر مانا مقام بڑھایا ہے۔ (نعرے) تم نے پیغمبر کا مقام سمجھا نہیں ہے۔
اب میں اگلی بات کہتاہوں ایک بات تو ذہن میں رہنی چاہیے ناں۔ میں کہتا ہوں ایک طرف جبرائیل ہے وہ نوریوں کا سردار ہے اور ایک طرف حضرت سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم ہیں یہ صرف بشر کے سردار نہیں یہ صرف نور کے سردار نہیں یہ پوری کائنات کے سردار ہیں۔
برکت اور کثرت
توجہ رکھنا اللہ نے اس کائنات میں ایک پیغمبر کو سیر کروانے کے لیے جو سب سے بلند مقام تھا اس کا اہتمام کیا ہے۔ نبی گئے ہیں سیر کرنے ا للہ نے حکم دیا ہے سیر کرنے کا۔ اب اللہ نے ایک براق بھیجی وہ بھی جنت سے آئی ہے پیغمبر کی خادم بن کر۔ جبرائیل جنت کے اوپر سے آیا وہ بھی نبی کا خادم بن کر۔ نبی مخدوم تھے جبرائیل خادم ہے نبی مخدوم ہے، براق خادم ہے۔ ارے جنت نبی کے قدموں پر سوبار قربان کردوں۔ اللہ کی قسم پیغمبر تو مخدوم ہے، جنت بھی خادم ہے پیغمبر مخدوم ہے جبرائیل بھی خادم ہے۔
جبرائیل پیغمبر کے پاس آیا ادھر محمد صلی اللہ علیہ وسلم جا رہے ہیں جبرائیل آیا پوچھا کہ جبرائیل کے پر کتنے ہیں جواب آیا 600(چھ سو) ارے پر کتنے بڑے ہیں؟تمہیں جواب ملے گا، مشرق مغرب کو ڈھانپ لے گا۔ پوچھو پیغمبر کے بازو کتنے ہیں؟ تمیں جواب ملے گا دو۔ اگر پوچھا جائے پیغمبر کے بازو کتنے بڑے ہیں؟ تو جواب ملے گا جبرائیل سے چھوٹے ہیں، جبرائیل کے بازو زیادہ بھی ہیں جبرائیل کے بازو بڑےبھی ہیں۔ ہمارے پیغمبر کے بازو دو ہیں اور بازو چھوٹے بھی ہیں۔
مگر دونوں میں فرق یہ ہے ارے وہ بازو خادم کے ہیں اور یہ بازو مخدوم کے ہیں۔ پھر مجھے کہنے دیں جبرائیل چھ سو لے کر آیا محمد صلی اللہ علیہ وسلم دو بازؤوں کو لے کر گیا ہے۔ ادھر چھ سو ہیں ادھر دو ہیں اور ان میں فرق یہ ہے کہ جبرائیل چھ سورکھتا ہے مگر وہ کثرت والے ہاتھ ہیں پیغمبر دو رکھتے ہیں مگر وہ برکت والے بازو ہیں۔
برکت اور کثرت میں فرق
ارے کثرت اور برکت میں فرق یہ ہے۔ کہ اگر تیرے پاس دو روٹیاں موجود ہوں اگر دس روٹیاں موجود ہوں اور ایک آدمی کھائے اور پیٹ نہ بھرے ہم کہہ دیں گے کثرت والی روٹیاں ہیں اور اگر ایک روٹی موجود ہو دس آدمی کھائیں اور پیٹ بھرجائے ہم کہہ دیں گے برکت والی روٹیاں موجود ہیں۔ برکت اور کثرت میں فرق یہ ہے اگر چیز زیادہ ہو اور فائدہ تھوڑا ہو اسے کثرت کہتے ہیں۔ اگر چیز تھوڑی ہو اور فوائد زیاہ ہوں اسے برکت کہتے ہیں وہ چھ سو کثرت والے لے کر آیا یہ دو برکت والے لے کر گیا۔ ارے نوری کے چھ سو پروں نے رب کعبہ کی قسم کائنات میں وہ کام نہیں کیا جو اس بشری مخلوق کے سرتاج کے دو بازؤوں نے کام کیا۔
ہمیں فخر ہے تیری اقتدا پر
اسی بات پر امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ نے فرمایا تم سمجھتے نہیں ہو ہم نے کہاناں بشر غلط فہمی ہوئی کیوں ہم نے سمجھا کہ بشر تو ہم جیسے ہیں۔ پھر اعتراض پیدا ہوا اشکالات پیدا ہونے لگے۔ حضرت امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ جن کے ہم مقلد ہیں اللہ ہمیں ان کی تقلید پر رہنے کی توفیق عطا فرمائے (آمین) اور جو نہیں سمجھتے اللہ ان کو امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کامقلد بننے کی توفیق عطا ء فرمائے  آمین 
حضرت امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کائنات کے بہت بڑے آدمی تھے ( پھر کھسر پھسر نہیں کرنی میری بات کو سمجھو) میں آپ سے کئی بار عرض کرچکا ہوں کہ میں وہ پیشہ ور خطیب نہیں ہوں کہ جس نے دوچار ہزار روپے پر بیان کرنا ہوتا ہے، میں نے اپنا مسلک عقیدہ بیان کرنا ہے۔ میں دلائل بھی دوں گا اور جرأت کے ساتھ بیان کرو ں گا ان شاء اللہ ثم ان شاء اللہ اللہ کا شکر ہے ہم اپنے موقف پر دلائل بھی رکھتے ہیں اور جرأت بھی رکھتے ہیں اس لیے میں کئی بار یہ کہتا ہوں اگر کسی کا بیان سننے کو دل نہ کرے آرام کے ساتھ اٹھے اور اپنے گھر چلا جائے اپنا وقت ضائع نہ کرے۔
اگر امام سے چڑ ہے تو تمہیں مبارک ہو ہمیں امام سے محبت ہے ہمیں مبارک ہو۔ ہم امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے خادم ہیں انہوں نے کام کیااور دنیا میں مقام پیدا کیا۔ امام بخاری رحمہ اللہ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے شاگردوں کا شاگردہے۔ حضرت امام شافعی رحمہ اللہ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے شاگردوں کا شاگرد ہے۔ ارے اگر سورج نکلے اور سورج کو دیکھ کر تم سورج پر بھونکنا شروع کردو تو سورج کی شان میں فرق پیدا نہیں ہوتا۔ اگر امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے تذکرے ہوں کسی کے پیٹ میں مروڑ اٹھے تو قصور ہمارا نہیں ہے تمہیں اپنے پیٹ کاعلاج کرانا چاہیے۔ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ اللہ انکی قبر پر کروڑوں رحمتیں نازل فرمائے۔ اللہ ہمیں ان کی تقلید پر جمارہنے کی توفیق عطا فرمائے۔
عقیدہ بشریت اور امام اعظم
حضرت امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ نے بڑی عجیب بات کی ہے ابو حنیفہ ر حمہ اللہ نے فرمایا:
محمد بشر لیس کالبشر

الیاقوت حجر لیس کالحجر

 
فرمایا ایک پتھر وہ بھی ہے جس سے تم نے سڑک بنائی ہے ارے ایک پتھر وہ بھی ہے جسے تم نے اپنی بیٹھک میں لگایا ہے۔ ایک پتھر وہ بھی ہے جو کہیں مسجد کے محراب میں لگا ہے اورایک پتھر وہ بھی ہے جو بیت اللہ میں لگا ہے اور ایک پتھر وہ بھی ہے جو حجر اسود کہلاتا ہے جسے تم بوسہ دیتے ہو۔ ارےہیں تو سارے پتھر ناں! لیکن پتھر اور پتھر میں فرق ہے۔ بشر اور بشر میں فرق ہے جس طرح پتھر اور پتھر میں فرق ہے بشر اور بشر میں فرق ہے۔
ہمارے نبی بڑی شان والے
توجہ رکھنا میں یہ کہہ رہاتھا کہ کائنات میں ایک خالق ہے اور باقی ساری ماسوا مخلوق ہے۔ مخلوق میں سے ایک خادم ہے اور ایک مخدوم ہے۔ انسان کو رب نے مخدوم بنایا۔ اللہ ہم تیرا شکر ادا کرتے ہیں تونے پیغمبر کو اس جنس سے بنایا اورپیدا کیا جو تونے ہمیں عطا کر دی ہے۔ اللہ ہم تیرا شکرادا کرتے ہیں تو نے ہمیں اپنے پیغمبر کے کلمے کی توفیق عطافرمائی ہے۔ اللہ ہم تیرا شکر ادا کرتے ہیں اس مخلوق میں سے انسان مخدوم تھا اس مخدوم میں انسان کافر بھی ہے مومن بھی ہے اس میں پیغمبر اور نبی بھی ہیں۔ لیکن نبی سارے ہم مانتے ہیں کہ سارے برحق نبی اور مخدوم نبی ہیں اور مقامات والے نبی ہیں۔ لیکن ہمارے پیغمبر اور بقیہ انبیاء میں فرق یہ ہے باقی صرف نبی تھے اور ہمارے نبی نبی الانبیاء نبی ہیں۔
حیات کسے کہتے ہیں؟
اللہ نے کائنات میں انسان کو وجود دیاہے ارے پہلے وجود نہیں تھا۔ انسان عدم میں تھا، رب عدم سے وجود میں لایا تو یہ انسان جو پوری کائنات میں بکھرا پڑا تھا۔ اللہ نے جہاں سےا عضاء جمع کرکے انسان کے کچھ حصے کو ماں کی چھاتی میں جمع کر دیا کچھ حصے کو اللہ نے باپ کی پشت میں جمع کردیا یہ ماں اورباپ ملے ہیں اللہ نے انسان کو وجود دیا ہے۔ انسان اس دھرتی میں آیا اب یہ ماں کے پیٹ میں ہے۔ انسان کو وجود ملا اس کے اندر روح آئی ہے رب نے زندگی عطا کر دی ہے اگر کوئی تم سے پوچھے تمہاری عمر کتنی ہے تم کہو گے چالیس سال میرے بیٹے کی عمر دس سال ہے لیکن جب یہ ماں کے پیٹ میں تھا یہ زندہ تب بھی تھا چار ماہ بعد رب نے زندگی دی ہے لیکن ماں کے پیٹ کی عمر کوئی شمار نہیں کرتا۔ اگرچہ تھا تب بھی وہ زندہ۔
انسان ماں کے پیٹ میں آگیا رب نے زندگی عطا کردی ہے۔ یہ روح اورجسم ملے ہیں رب نے زندگی دے دی ہے۔ پہلے جسم نہیں تھا روح عالم ارواح میں موجود تھی کبھی کسی نے انسان کو زندہ نہیں کہا۔ بلکہ خالق قرآن میں کہتا ہے:
كَيْفَ تَكْفُرُونَ بِاللَّهِ وَكُنْتُمْ أَمْوَاتًا فَأَحْيَاكُمْ ثُمَّ يُمِيتُكُمْ ثُمَّ يُحْيِيكُمْ ثُمَّ إِلَيْهِ تُرْجَعُونَ
ارے تم ر ب کاانکار کیسے کر سکتے ہو، کیونکہ تم مرد ے تھے، رب نے تمہیں وجود دیا ہے۔
سورۃ بقرۃ آیت28
ارے کس وقت؟ رب نے کہا تم عدم میں تھے تمہاروجود نہیں تھا ارے روح تو موجود تھی لیکن رب نے زندہ نہیں کہا معلوم ہوا تنہا روح کا نام زندگی نہیں ہے۔ اللہ بشر کو وجود دے پھر اللہ روح عطا کردے اور یہ روح جسم میں دے اسے حیات کہتے ہیں۔
ظاہراً زندہ حقیقت میں مردہ
اللہ نے بدن کو ماں کے پیٹ میں لاکر ساتھ ہی روح عطا کردی رب نے روح کا تعلق جوڑا۔ انسان کو ہم نے حیات کہہ دیا انسان دنیا میں آ گیا یہ آنے والا انسان کافر بھی تھا دنیا میں آنے والا مومن بھی تھا دنیا میں آنے والا نبی بھی تھا۔ لیکن اگر آنے والا مومن نہیں تو زندہ ہونے کے باوجود اللہ کہتا ہے۔
اومن کان میتاً فاحییناہ
اگر دنیا میں آ گیا روح موجود ہے جسم موجود ہے لیکن تب بھی رب کہتے ہیں یہ مردہ ہے کیا کہتے ہیں یہ کون ہے (سامعین:مردہ) حالانکہ مردہ نہیں زندہ ہے ، یہ چلتا پھرتا وجود ہے دنیا میں چل پھر رہا ہے کھاتا بھی ہے پیتا بھی ہے۔ فرمایا نہیں نہیں یہ مردہ ہے کیا فرمایا؟ (سامعین:یہ مردہ ہے ) کیوں وجہ؟
دلیل
اس پر میں بطور دلیل کے حضرت خالد بن ولید رضی اللہ کی بات نقل کرتا ہوں جب حضرت خالد رضی اللہ عنہ گئے ایرانیوں سے لڑنے کےلیے تو ایرانی جرنیل نے کہا کہ تم اپنا ایک آدمی بھیجو۔ حضرت خالد نے سعد بن ابی وقاص سے کہا میں جاتا ہوں کہا خالد تم دشمن کی چال سمجھو تنہا نہ جاؤ ادھر سات ہزار عیسائی عرب ہیں اور باقی ایرانی ہیں۔ حضرت خالد رضی اللہ عنہ نے عجیب بات کی انہوں نے کہا امیر اگر امیر محترم سات ہزار بھی ہوں تو جانے سے کیا فرق پڑتا ہے؟ فرمایا وہ سات ہزار ہیں تم اکیلے۔ کہا میں اکیلا ہوں تو زندہ ہوں وہ سات ہزار ہیں تو مردہ ہیں، پوچھا وہ کیسے؟ حضرت خالد رضی اللہ عنہ نے فرمایا اللہ کے نبی نے اعلان نہیں کیا
قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَثَلُ الَّذِي يَذْكُرُ رَبَّهُ وَالَّذِي لَا يَذْكُرُ رَبَّهُ مَثَلُ الْحَيِّ وَالْمَيِّتِ
اللہ کا نام لینے والا زندہ اللہ کا نام نہ لینے والا مردہ۔
صحیح بخاری باب من انتظر حتی تدفن
تو امیر محترم میں اللہ کا نام لیتا ہوں زندہ ہوں اور وہ سات ہزار مردے ہیں۔ فرمائیں سات ہزار مردے کیا ایک زندہ سے لڑ سکتے ہیں؟
مومن ہے تو بے تیغ بھی لڑتا ہے سپاہی
امیر محترم نے کہا کہ خالد درجہ اسباب میں تم پھر بھی کچھ آدمی ساتھ لے کر چلے جاؤ۔ حضرت خالد رضی اللہ عنہ نے سعد کو لیا سعد کو لے کر چلے گئے۔ ادھر جب ایرانی دربار میں پہنچے تو ایران کے جرنیل نے کہا ارے خالد کہاں سے آئے؟ فرمایا مدینہ سے۔ اس نے پوچھا اسلحہ؟ خالد نے کہا یہ ہمارے پاس تلواریں موجود ہیں اس نے کہا تم ان تلواروں سے لڑو گے؟ فرمایا تلواروں سے نہیں ان بازؤں سے لڑیں گے۔جرنیل نے خالد سے پوچھا مدینہ سے لوگ آئیں گے؟ فرمایا نہیں، انہوں نے کہا مدینہ سے اسلحہ آئے گا فرمایا نہیں آئے گا ، اس نے کہا تمارے مرکز سے جب کمک نہیں آئے گی خالد پھر ہم سے کیسے لڑو گے؟ آگے خالد کے جملہ نے اس کو تاریخ کے سینے میں محفوظ کر لیا۔
خالد بن ولید فرمانے لگے فرمایا مدینہ سے افراد نہیں آئیں گے مدینہ سے لوگ نہیں آئیں گے مدینہ سے اسلحہ نہیں آئے گا مدینہ سے کمک نہیں آئے گی، ادھر آسمان سے اترتی کمک کو میں اپنی آنکھوں سے دیکھ رہا ہوں۔ حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے جو جملہ کہا تاریخ نے رقم کر لیا۔ تو خالد نے کہا اللہ کا نام لینے والا زندہ جو اللہ کا نام نہ لے وہ مردہ ہے ارے جسم موجود ہے روح موجود ہے مگر شریعت کہتی ہے
أَوَمَنْ كَانَ مَيْتًا فَأَحْيَيْنَاهُ وَجَعَلْنَا لَهُ نُورًا يَمْشِي بِهِ فِي النَّاسِ
اور جومردے تھے ایمان کی دولت نہیں تھی ہم نے ایمان کی دولت عطا کرکے تمہیں حیات ایمانی عطا کردی ہے۔
سورۃ الانعام آیت122
عذاب وانعام میں برابر
آدمی دنیا میں آگیا آدمی کوزندگی مل گئی ہے آدمی کو رب نے جسم دیا ہے۔ آدمی کو رب نے روح دی ہے ارے روح اورجسم دونوں ملتے ہیں، رب نے کہا تم نےنیکی کرنی ہے دونوں مل کر نیکیاں کرتے رہے رب نے کہا تم نے گناہ نہیں کرنا، دونوں مل کر گناہ سے بچتے رہے۔ میرے اللہ نے فرمایا ہاں پھر تمہیں موت دوں گا اگر تم نے دنیا میں میری بات کو مانا اور تم نے نیک اعمال کیے تمہاری روح کا بھی حصہ ہے تمہارے بدن کا بھی حصہ ہے۔ مرنے کے بعد تمہاری روح کو بھی انعام دوں گا میں تمہارے بدن کو بھی دوں گا دونوں مل کر جو مجھے سجدے کرتے رہے۔ لیکن اگر کسی نے میری بات کو نہ مانا اور چوری کر گیا۔تو روح کا بھی قصور تھا، بدن کا بھی قصور تھا پھر میں مرنے کےبعد تم دونوں کو عذاب دوں گا۔ کیوں؟ اس لیے کہ پھر تم دونوں نے اکٹھے جرم جو کیا ہے۔
روح اور جسم کی مثال
علامہ انور شاہ کشمیری رحمہ اللہ ، اللہ ان کی قبر پر کروڑوں رحمتیں نازل فرمائے علامہ انور شاہ کشمیری دیوبند کے شیخ الحدیث تھے۔ بڑی عجیب مثال دی ہے فرمایا روح اور جسم کی مثال تو ایسے ہے جیسے ایک آدمی لنگڑا جو چل نہیں سکتا ایک آدمی آنکھوں سے اندھا جو دیکھ نہیں سکتا۔ یہ دونوں مل کر چوری کرنے کےلیے گئے ہیں اندھا چل رہا ہے اور لنگڑا اس کے کندھے پر سوار ہے۔ اس لنگڑے نے چوری کی اور چوری کر کے واپس آگئے۔ پھر عدالت میں جائیں گے وہ صرف ایک کو سزا نہیں دے گی کہ چوری صرف اس نے کی ہے وہ صرف اندھے کو سزا نہیں دے گی یہ چل کر گیا تھا۔ ارے دونوں کو سزا دے گی، اندھے کو چلنے کی وجہ سے اور لنگڑے کو چوری کرنے کی وجہ سے۔ فرمایا بالکل اسی طرح ایک انسان کا بدن ہے ایک انسان کی روح ہے۔ ارے بدن کی مثال مثال ایسے ہے جیسے نابیناہو اور روح کی مثال ایسے ہے جیسے لنگڑا ہو۔
اگر بدن میں روح نہ ڈالی جائے تو بدن چلتا نہیں اور اگر روح کو جسم کی سواری نہ دو تو روح نہیں پہنچ سکتی۔ اب انسان چل رہا ہے اس میں بدن جیسی سواری بھی ہے اور اس میں روح جیسا سوار بھی ہے۔ اب یہ دونو ں مل گئے ہیں اگر جرم کیا ہے تو دونوں نے اکٹھا کیا ہے۔ بدن خود تو جا نہیں سکتا تھا اگر روح کی آنکھ نہ ہوتی اور روح تنہا پہنچ نہیں سکتی تھی اگر روح کی سواری نہ ہوتی۔ آدمی قبر میں گیا تو عقل بھی کہہ رہی ہے کہ عذاب وجزا ہو تو جسم اور روح دونوں کو ہونا چاہیے۔ اگر جزا دی جائے تب بھی دونوں کو اگر سزا دی جائے تب بھی دونوں کو۔
جنت کا باغ
آدمی مرگیا ہے اور مرنے کےبعد قبر میں چلا گیا ہے، اللہ نے روح کو لوٹا دیا ہے، اللہ کی طرف سے فرشتے نے پوچھا:

من ربک بتا تیرا رب کون ہے؟

من نبیک بتا تیرا نبی کون ہے؟

ما دینک بتا تیرا دین کیا ہے؟
بندہ کہے گا میرا رب اللہ ہے اور میرے نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہیں اور میرا دین اسلام ہے۔ جب جواب دے دیا پھر اللہ کی طرف سے فرشتہ اعلان کرتا ہے افرشولہ من الجنۃ اس کو جنت کا لباس دے دو، جنت کا بچھونا دے دو
وَأَلْبِسُوهُ مِنَ الْجَنَّةِ اس کوجنت کا لباس دے دو۔ ارے اس کو جنت کا لباس دےدو۔ وَافْتَحُوا لَهُ بَابًا إِلَى الْجَنَّةِ جنت کی کھڑکی کھول دو۔ فَيَأْتِيهِ مِنْ رَوْحِهَا وَطِيبِهَا جنت کی خوشبو اس تک پہنچتی ہے پھر فرشتہ کہہ دیتا ہے نم کنومۃ العروس
ارے آرام کی نیند کی سو جا یہ سو جاتا ہے۔
سنن ابی داود باب فی المسئلۃ عذاب القبر
ارے جنت کا لباس بھی ملا پھر اس کو جنت کا بچھونا بھی ملا اور جنت کی ہوائیں بھی ملی ہیں یہ حالت تو عام مومن کی ہے۔ عام مسلمان کی ہے۔ یہ قبر میں چلا گیا یہ قبر میں مردہ نہیں ہے قبر میں زندہ ہے مگر سویا ہوا زندہ ہے۔ مگر؟ (سامعین: سویا ہوا) کون؟ سامعین: عام مومن 
روح پر تکلیف کی مثال
توجہ رکھنا! اگر کافر قبر میں ہے وہ بھی زندہ ہے مگر سویا ہوا وہ بھی زندہ مگر سویا ہوا۔ آپ نے کبھی سوتے وقت ڈراؤنا خواب دیکھا ہو ( کدی ویکھیا اے؟) اللہ بچائے میں نے یہ تو نہیں کہا کہ آپ ضرور دیکھیں۔ اللہ بچائےکبھی آپ نے دیکھا کہ آدمی دس بیٹھے ہیں اور ایک آدمی سویا ہوا ہے اچانک گھبرا کر اٹھتا ہے۔ پوچھا کیا ہوا؟ کہتا ہے میرے پیچھے کتا لگ گیا ہے۔ خواب میں ہوتا ہے۔ کیا ہوا؟ کہتا ہے جی مجھے سانپ نے ڈس لیا ہے میں ڈر گیا ہوں۔ اب دیکھیں اس کو سانپ ڈس رہا ہے مگر ہمیں نظر نہیں آ رہا۔ اس کے پیچھے کتا بھونک رہا ہے ہمیں نظر نہیں آرہا بالکل اسی طرح قبر میں ہے،کیوں؟ اس کی وجہ یہ ڈسا جسم کو نہیں ہے ڈسا روح کو ہے یہ کتے نے ڈرایا جسم کو نہیں ہے بلکہ روح کو ہے۔ لیکن روح کا جسم سے چونکہ تعلق ہے ڈر روح کو لگا ہے ہے کانپا جسم ہے، ڈر روح کو لگا ہے تکلیف جسم کو ہوئی ہے۔
جمائی کا علاج
ہمارے پیارے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
ما احتلم النبی قط انما الاحتلام من الشیطان
نبی کو کبھی خواب میں احتلام نہیں ہوا۔
الخصائص الکبری ج1 ص 120
اور نبی کو کبھی جمائی اور انگڑائی بھی نہیں آئی۔ جمائی جسے ہم اباسی کہتے ہیں۔ اس لیے ہمارے مشائخ نے یہ علاج تجویز کیا ہے اگر کسی آدمی کو جمائیوں کی بیماری ہو، آپ آج تجربہ کر کے دیکھیں اگر کسی کو جمائی آئی ہو منہ کھلنے لگے آپ صرف دل میں تصور کر لیں کہ نبی کو کبھی جمائی نہیں آئی۔ اس تصور کی وجہ سے جمائی فوراً ختم ہوجائے گی۔ آزمائش شرط ہے آپ خود تجربہ کر کے دیکھیں۔
یہ کوئی علاج ہے یا کیا ہے؟ یہ علاج ہے۔ غیر مقلد پوچھے یہ کونسی آیت میں ہے؟ کونسی حدیث میں ہے؟ یہ کیا ہے؟ علاج ہے۔ امرا ض کے علاج ہوتے ہیں تو علاج تو احادیث میں ضروری نہیں ہوتا کہ حدیث میں دوائیاں موجود ہوں وہ تو مشائخ بتائیں گے۔ ذرا توجہ رکھنا میں جو بات سمجھانا چاہتا ہوں۔
روح کے معاملہ کا بدن پہ اثر
یہ مسئلہ ہے شریعت کی بات ہے اس میں کوئی جھجکنے کی بات تو نہیں ہے۔ میں نے کہا نبی کو کبھی بھی خواب میں احتلام نہیں ہوا۔ لیکن غیر نبی کو ہوتا ہے ناں،توجہ ذرا غیرنبی کو؟ ( سامعین: ہوتا ہے ) اب اگر غیر نبی کو احتلام ہوا آپ بیٹھے ہیں آدمی سویا پڑا ہے اب وہ تنہا لیٹا ہوا ہے اٹھ کر کہتا ہے جی میں نے غسل کرناہے، پوچھو کیوں؟ کہتا ہے یا ر مجھے احتلام ہو اہے۔ اب دیکھو یہ کام روح کے ساتھ ہے یا بدن کے ساتھ؟ بولیے ناں! لیکن غسل بدن نے کیا یا روح نے؟ کس نے کیا؟ تو تعلق روح کے ساتھ تھا لیکن اثر بدن پر ہوا یا نہیں؟
مثال اول
کبھی آدمی خواب میں ڈر جاتا ہے اور آدمی کے بدن سے پسینے چھوٹ جاتے ہیں۔ معاملہ روح کے ساتھ تھا لیکن اثر بدن پر ہے یا نہیں؟ جس طرح آدمی سویا ہوا ہو تو روح ڈر جاتی ہے لیکن اثر بدن پر رہتا ہے اگر روح نے عمل کیا ہے اور اس کااثر بدن پر آیا ہے اگر روح نے اچھی چیز دیکھی ہے آدمی کے جسم کو راحت محسوس ہوئی ہے۔ کسی نے خواب میں دیکھا کہ سیر کر رہا تھا اپنے دوستوں کے ساتھ گیا پکنک منا رہا تھا انہوں وہاں پر مرغی کو ذبح کیا پکانے لگے تو امی نے اٹھا دیا کہ بیٹا نماز کا وقت ہوگیا ہے بیٹا کہنے لگا امی تھوڑی دیر اور سونے دیتیں امی نے پوچھا بیٹا کیا ہوا؟ ابھی تو مرغی پکنے لگی تھی آپ نے مجھے اٹھا دیا۔
مثال دوم
اب دیکھو یہ بدن کو راحت محسوس ہورہی تھی ناں۔ تو میں نے کہا آدمی سویا ہوا ہو تو حالا ت آدمی کی روح پر آتے ہیں، آدمی کا جسم محسوس کرتا ہے۔ اور اگر آد می جاگ رہا ہو تو حالات آدمی کے جسم پر آتے ہیں مگر روح محسوس کرتی ہے۔ میں سمجھانے کےلیے مثال دیتا ہوں گرمی کے موسم میں آپ بازار جائیں گے بازار سے آپ مشروب خرید کر لائیں گے تو پوچھیں گے یا ر مشروب کون سالائے؟ آپ کو جواب ملے گا جی میں روح افزا لے کر آیا ہوں۔ بیٹھے پوچھیں گے ابا جی یہ روح افزاء جو شربت ہے یہ روح نے پینا ہے یا جسم نے؟ ابو جی کہتے ہیں جسم نے۔ تو پھر آپ کہتے ہیں ابو جی آپ روح افزا نہ لے کر آؤ آپ جسم افزا لے کر آؤ ناں آپ روح افزاء کیوں لے کر آئے؟ ا رے پینا تو جسم نے ہے لیکن مزے روح بھی لیتی ہے۔
کیا موسیقی روح کی غذا ہے؟
کبھی تم نے سنا، آج کے دور میں یہ گندہ جملہ دنیا میں پھیل گیا اللہ ہمیں محفوظ رکھے لوگ کہتے ہیں جی موسیقی روح کی غذا ہے ارے بد بختو ہاں ہاں میں مانتا ہوں موسیقی روح کی غذا ہے مگر مومن کی روح کی نہیں کافر کی روح کی مگر مسلمان کی روح کی نہیں بلکہ بد کردار کی روح کی ہے۔ مومن کی روح کی غذا اللہ کا قرآن ہے مومن کی روح کی غذا پیغمبر پر پڑھا جانے والا درود پاک ہے۔ ارے مومن کی روح کی غذا پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کا مبارک تذکرہ ہے۔
مثال سوم
توجہ رکھنا: اگر کوئی تمہیں اللہ نہ کرے گالی دے گالی دینے والا شاگرد ہو تو استاد کہہ دے ارے تو بڑا بے حیا ہے۔ پوچھا کیا ہوا؟ تیری اس گالی کی وجہ سے میری روح تک بڑی تکلیف ہوئی ہے! اب دیکھو گالی کان نے سنی ہے لیکن دکھ روح کو ہوا ہے ارے اسی طرح اگر قرآن آدمی کے کان نے سنا اور مزہ روح کو آیا ہے۔ تم نے شربت منہ سے پیا ہے اور مزہ روح نے لیا ہے۔
تو میں بات سمجھانا چاہتا ہوں اگر آدمی جاگ رہا ہوتو حالات بدن پر آتے ہیں لیکن اثر روح محسوس کرتی ہے اگر آدمی سو جائے تو حالات روح پر آتے ہیں اور اثر بدن محسوس کرتا ہے۔ آدمی قبر میں چلا گیا یہ قبر میں جاگ نہیں رہا یہ قبر میں سویا پڑا ہے وہ جب قبر میں سویا ہوگا فرشتے کہیں گے نم کنومۃ العروس ارے آج سو جا پہلی رات کی دلہن کی طرح، جب آدمی سو جائے تو آدمی کے حالات آدمی کی روح پر آتے ہیں لیکن بدن محسوس کرتا ہے نا ں؟ ارے آدمی سویا ہوا تھا تم نے کہا کیا ہوا؟ یہ ڈر بھی رہا ہے تم نہیں دیکھتے ، جو حالات روح پر آرہے ہیں اسی طرح قبر میں پڑا مردہ اگر اسی کو عذاب ہورہا ہے تم نہیں دیکھتے، عذاب روح کو ہے مگر بدن محسوس کرتا ہے۔
اگر یہ جنت کا باغ بناہے ہم نہیں دیکھتے کیونکہ مزہ روح لے رہی ہے دونوں نے مل کر نماز پڑھی ہے تو مزے دونوں لوٹیں گے اگر جرم دونوں نے کیا ہے تو سزا دونوں کو ہوگی۔
یہ تیرے پر اسرار بندے
ارے یہ معاملہ تو دنیا میں رہنے والے عام مومن کا تھا۔ لیکن اگر اللہ کے راستے میں جان دینے والا مومن ہے اللہ قرآن میں کہتا ہے
وَلَا تَقُولُوا لِمَنْ يُقْتَلُ فِي سَبِيلِ اللَّهِ أَمْوَاتٌ بَلْ أَحْيَاءٌ وَلَكِنْ لَا تَشْعُرُونَ
سورۃ بقرۃ آیت نمبر 145
ارے مومنو ! تم بھی قبر میں زندہ ہو لیکن اگر تم اللہ کی راہ میں چلے گئے تمہارا بدن گٹ گیا، پوچھا اللہ! پھر کیا ہوا؟ فرمایا بدن کٹ گیا یہ قبر میں ہے اس کو تم مردہ نہیں کہنا بل احیاء ارے یہ تو زندہ ہے۔ اللہ! ہمیں تو پتہ نہیں چلتا۔ فرمایا لا تشعرون تمہیں شعور نہیں، تمہیں نہیں پتہ۔ عجیب بات ہے! تمہارے والد مسجد میں گئے ہیں، کپڑے سفید پہنے ہیں، غسل کرکے گئے ہیں، خوشبو لگا کر گئے ہیں، سجدہ کررہے تھے روح نکل گئی ہے، کیا کہیں گے مردہ یا زندہ؟ ( سامعین مردہ ) کیا کہیں گے؟ مردہ ! یہ مجاہد گیا ہے جس کو گولہ ٹینک کا لگا ہے اور وجود کے ذرے بکھر گئے ہیں اللہ نے کہا مردہ نہیں بلکہ زندہ ہے باپ سالم ہے جان سجدے میں نکل گئی ہے فرمایا مردہ، یہ جسم کٹ گیا فرمایا زندہ۔ اللہ ہمیں سمجھ نہیں آتی فرمایا لا تشعرون تم اس کو سمجھ سکتے بھی نہیں، تم اس کو سمجھ سکتے بھی نہیں ہو۔ توجہ ذرا! تم اس کو سمجھ سکتے بھی نہیں ہو۔
حیات دنیوی اور حیات برزخی میں فرق
میں دو باتیں کہتا ہوں ایک بات سمجھانے کےلیے۔ میں کہتا ہوں اللہ نے یہ جو فرمایا لا تشعرون تم سمجھ نہیں سکتے۔ معلوم ہوا ایک دنیا کی حیات ہے اور ایک قبر کی حیات ہے۔ دونوں میں فرق کیا ہے؟ توجہ رکھنا ارے دنیا کی حیات ظاہری ہے اور قبر کی حیات مخفی ہے۔ دنیا کی حیات نظر آنے والی اور قبر کی حیات نظر نہ آنے والی۔ جو حیات ظاہری ہو یہ شعور سے پتہ چل جاتا ہے اور جو حیات مخفی ہو یہ شعور سے پتہ نہیں چلتا یہ ایمان سے پتہ چلتا ہے۔
مثال
میں مثال دے کر بات سمجھاتا ہوں آپ توجہ رکھنا، اگر یہاں پر بالفرض میں مثال دے کر بات کہتا ہوں۔ اگر آدمی چل رہا تھا اور اس کے سامنے ایک شیشے کا گلاس موجود تھا، گلاس میں دودھ تھا، اس کو ٹھوکر لگی اور گلاس ٹوٹ گیا تو تم یہ تو نہیں کہتے یار تو بڑا بے ایمان ہے۔ کیوں؟ تجھے نظر نہیں آتا یہ سامنے شیشے کا گلاس پڑاتھا۔ اس کو کوئی بے ایمان نہیں کہتا اس کو لوگ کہتے ہیں ارے تو اندھا ہے؟ تجھے گلاس نظر نہیں آتا؟ معلوم ہوا آدمی دنیا میں جو چیز یں دیکھتاہے اس کا تعلق ایمان کے ساتھ نہیں ہے۔ دنیا کی حیات کو مانتا ہے آدمی آنکھوں سے دیکھ کر او رقبر کی حیات کو مانتا ہے ایمان کی وجہ سے۔ تو دنیا کی حیات کو اگر کوئی آدمی نہ مانے اسے بے ایمان نہیں کہہ سکتے اسے اندھا کہتے ہیں لیکن قبر کی حیات نہ مانے اسے اندھا نہیں کہتے اسے بے ایمان کہتے ہیں۔
معلوم ہوا کہ دنیا کی حیات کو دیکھنا آنکھ کے ساتھ ہے اور قبر کی حیات کو ماننا ایمان کے ساتھ ہے۔ اس حیات کو دیکھنے کے لیے آنکھ چاہیے اگر آنکھ نہ ہو گی تو نظر نہیں آئے گا۔ قبر کی حیات کا تعلق آنکھ کے ساتھ نہیں ہے قبر کی حیات کا تعلق شعور کے ساتھ ہے۔ اس لیے اگر دنیا میں کوتاہی کرے گا تو لوگ کہیں گے اندھا ہے؟ تجھے نظر نہیں آتا؟ لیکن اگر قبر میں میت پڑی ہے کوئی آدمی کہے کہ مجھے نظر نہیں آتا تو یہ کہیں گے اندھا ہے؟اور اگر وہ عذاب کو نہیں مانتا تو کہیں گے مان لے اگر وہ نہیں مانتا کہیں گے بے ایمان ہے! تو کیوں نہیں مانتا؟ اگر قبر کے عذاب کو نہ مانے اندھا نہیں کہیں گے بے ایمان کہیں گے۔ کوئی قبر کے ثوا ب کو نہ مانے اندھا نہیں کہیں گے بے ایمان کہیں گے۔ کیوں؟ میرے اللہ نے کہا تمہیں شعور نہیں ہے تمہیں سمجھ نہیں آ سکتا میرے رب نے کہا تم مان لو۔ میں جملہ کہتا ہوں ارے سوال یہ ہے اللہ قبر کی زندگی کے بارے میں لا تشعرون کہ تمہیں شعور نہیں ہے۔ کیوں کہتا ہے؟
توجہ رکھنا! ارے ایک ہے دنیا کی زندگی جسے کہتے ہیں فانی زندگی ایک ہے موت کےبعد کی زندگی جسے کہتے ہیں باقی زندگی، لازوال زندگی۔ ارے دنیا کی زندگی میں رب نے شعور دیا یہ شعور فانی ہے رب نے دنیا کی زندگی دی یہ زندگی بھی فانی ہے۔ ارے شعور فانی سے فانی زندگی سمجھ آتی ہے لیکن شعور فانی سے لازوال زندگی سمجھ نہیں آسکتی۔ آپ نے سنا ہوگا صحابی نے اللہ کے نبی کی حدیث بیان کی ہے۔
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ اللَّهُ أَعْدَدْتُ لِعِبَادِي الصَّالِحِينَ مَا لَا عَيْنٌ رَأَتْ وَلَا أُذُنٌ سَمِعَتْ وَلَا خَطَرَ عَلَى قَلْبِ بَشَرٍ
اللہ تمہیں جنت میں وہ نعمتیں دے گا فرمایا
مَا لَا عَيْنٌ رَأَتْ کسی آنکھ نے دیکھا نہیں ہوگا وَلَا أُذُنٌ سَمِعَتْ
کسی کان نے سنا نہیں ہوگا وَلَا خَطَرَ عَلَى قَلْبِ بَشَرٍ اور کسی بشر کے دل پر کھٹکی بھی نہیں۔
بخاری باب من انتظر حتی تدفن
توجہ رکھنا کھٹکی بھی نہیں، تمہیں وہ نعمتیں دیں گے کہ تم سوچ بھی نہیں سکتے۔ کیوں؟ اس لیے کہ وہ نعمت لازوال ہے جنت کی ہے۔ دنیا میں جو دل ملا ہے یہ فانی ہے، دنیا میں جو کان ملا ہے وہ فانی۔ ارے دنیا میں جو رب نے تمہیں آنکھ دی ہے وہ فانی ہے تو بھلا فانی آنکھ سے تم باقی جنت کی نعمت کیسے دیکھو گے؟ ارے فانی کان سے تم جنت کے نغمے کیسے سنو گے؟ فانی دل سے تم جنت کے مزے کیسے سمجھو گے؟ یہ دنیا کی حیات بھی فانی ہے اور دنیا کا شعور بھی فانی ہے اور قبر کی حیات بھی ابدی ہے اور قبر میں جانے والا شعور بھی ابدی ہے۔ فرمایا تم شعور فانی سے ابدی حیات کو نہیں سمجھ سکتے۔ ولٰکن لا تشعرون تم شعور فانی سے ابدی حیات کو نہیں سمجھ سکتے۔ یہ تمہارے بس میں نہیں ہے بس تم مان لو۔
عام مومن اور شہید میں فرق
توجہ رکھنا! ایک معاملہ ہے عام مردے کا اور ایک معاملہ ہے شہید کا۔ مومن اور شہید میں کیا فرق ہے؟ مومن بھی قبر میں زندہ ہے اور شہید بھی قبر میں زندہ ہے لیکن مومن کی حیات ضعیف ہے شہید کی حیات مضبوط ہے۔ اسے کہتے ہیں مومن کی حیات ضعیف ہے شہید کی حیات مضبوط ہے شہید کے بعد آئے اللہ کے نبی۔ اللہ کے نبی دنیا چھوڑ کر جنت میں چلے گئے ہیں، دنیا چھوڑ کر مبارک قبر میں گئے ہیں۔
اللہ کے پیغمبر دنیا چھوڑ کر قبر میں گئے اللہ نے عام آدمی کو شہادت دی عام آدمی کو حیات دی۔ فرمایا یہ حیات کم درجے کی جو اللہ نے شہید کو دی ہے اوراس سے بڑے درجے کی؟ جواللہ نے پیغمبر کو دی ہے فرمایا اس سے بھی بڑے درجے کی۔ مگر تینوں میں فرق یہ ہے کہ تم چند دن بعد قبرستان میں جاؤ گے اگر تم نے کسی قبر کو دیکھا وہاں تمہیں کسی مومن کا وجود نظر نہیں آئے گا۔ وجود ختم ہو گیا ارے مٹی موجود ہے تمہیں کچھ بھی نظر نہیں آتا لیکن ہم کہیں گے اگرچہ وجود ہمیں بھی نظر نہیں آتا مگر یہ مٹی کے ذرے زندہ ہیں۔ ان ذروں سے رب نے روح کا تعلق جوڑا ہے ہم نے ذروں کو زندہ مان لیا ہے۔
لیکن اگر تم شہید کی قبر پر جاؤ گے حکیم الامت مولانا تھانوی نور اللہ مرقدہ نے انہی آیات کے ساتھ لکھا ہے فرمایا شہید کے بدن کو اللہ محفوظ رکھ دیتے ہیں کیوں کہ شہید کی حیات یہ تھوڑی سی قوی ہے۔ اگر تم مومن کی قبر پر جاؤ گے تو مومن کا وجود تمہیں نظر نہیں آئے گا وجود ختم ہو گیا لیکن یہ ہے زندہ، تمہیں پتہ نہیں وہ کیسے زندہ ہےمگر تم شہید کی قبر پر جاؤ گے شہید زندہ ہے ، جسم بھی محفوظ ہوگا لیکن شہید کے جانے بعد اگر تم شہید کی بیوی سے نکاح کرنا چاہو شریعت کہتی ہے تم نکاح کر سکتے ہو، شہید کا نکاح ختم ہو گیا اپنی بیوی سے نکاح منقطع ہوگیا، نکاح ہو سکتا ہے۔
شہید اور نبی کی حیات میں فرق
لیکن اللہ کا نبی قبر میں زندہ ہے اور نبی کی زندگی اس سے بھی قوی ہے۔ اگر تم نبی کے بدن کو دیکھو گے محفوظ بھی ہے، نبی کے بدن کو دیکھو گے معطر بھی ہے اور نبی کا بدن دیکھو گے وہ زندہ بھی ہے اور ا گر نبی کی بیوی کو دیکھو گے تو اس سے نکاح بھی نہیں کر سکتے۔ عام مومن زندہ مگر کم درجے کا، شہید زندہ مگر اس سے اوپر کے درجے کا اس کا نتیجہ یہ نکلا بدن محفوظ ہوگیا۔ نبی زندہ اس سے بھی اوپر درجے کا نبی کا بدن بھی محفوظ ہے نبی کا نکاح بھی محفوظ ہے۔
حضرت نانوتوی اور عقیدہ حیات النبی
مولانا قاسم ناناتوی نے آبِ حیات میں بڑی عجیب دلیل دی ہے اللہ کی قسم آدمی دیوبند کے علوم کو پڑھے تو تڑپ اٹھتا ہے۔ مولانا قاسم نانوتوی عجیب بات کہتے ہیں کیا کہتے ہیں فاطمۃ الزہرا رضی اللہ عنہا سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے پاس گئیں فاطمۃ الزاہرا نے کہا: خلیفۃ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے باپ کی جاگیر فدک ہے یہ ہمارے باپ کی وراثت ہے ہمیں دے دو۔ ابو بکر صدیق نے کہا فاطمہ تم عام باپ کی بیٹی نہیں ہو تم نبی کی بیٹی ہو نبی صرف اپنی اولاد کا باپ نہیں پوری کائنات کا باپ ہوتا ہے نبی کی تم بیٹی ہو عام باپ کی بیٹی نہیں ہو، فرمایا فاطمہ تجھے معلوم نہیں ہے مجھے حدیث معلوم ہے تمہیں سنا دوں؟ حضرت فاطمۃ الزہرا رضی اللہ عنہا کو صدیق اکبر نے حدیث سنائی۔ فرمایا اللہ کے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
نحن معشر الأنبياء لا نورث ما تركناه فهو صدقة
ہم نبی ہیں لا نورث ہم کسی کو وارث اپنا نہیں بناتے ماترکنا ہ صدقۃ ہم جو چھوڑیں وہ صدقہ ہوتا ہے۔
مسند ربیع، باب فی الموارث
حیات انبیاء پر مثال
توجہ رکھنا توجہ! مولانا قاسم نانوتوی نے عجیب د لیل دی ہے فرمایا لا نورث ہم نبی کسی کو وارث نہیں بناتے۔ توجہ رکھنا مولانا نانوتوی فرماتے ہیں وراثت تو تب ہوتی ہے جب موت آئے نبی کو موت نہیں آئی تو وراثت کا کیا معنیٰ؟ فرمایا لا نورث وراثت تو تب آئے گی جب موت آئے گی فرمایا نبی پر موت آئی ہے مگر نبی کے ظاہر پر موت آئی ہے دل پر موت نہیں آئی۔ مولانا قاسم نانوتوی فرماتے ہیں ارے نبی کی موت ایسے ہے جیسے تم نے ایک چراغ کو جلا دیا اوپر پیالہ رکھ دیا یہ پیالہ چراغ کی روشنی کو بجھاتا نہیں ہے بلکہ چراغ کو روشنی کو چھپا لیتا ہے۔ فرمایا نبی پر جو موت آئی ہے یہ موت کے پیالے نے آکر نبی کی حیات کو چھپایا ہے نبی کی حیات کو زائل نہیں کیا امت پر موت آئی ہے ارے حیات ختم ہوگئی تو پیچھے والا وارث بن گیا۔ نبی کی حیات نظر آ رہی تھی بس اب چھپ گئی ہے لہٰذا وارث کوئی نہیں بنتا۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا لا نورث ارے لوگو ہم نبی کسی کو وارث نہیں بناتے ہمارے اوپر ظاہری موت آئی ہے ہمارے دل پر موت نہیں آئی۔
انبیاء کی میراث کیوں نہیں ہوتی
مولانا قاسم نانوتوی رحمہ اللہ فرمایا ماترکناہ صدقہ فرمایا نبی جو چھوڑتا ہے یہ صدقہ ہے۔ توجہ رکھنا قاسم نانوتوی رحمہ اللہ نے عجیب دلیل دی ہے میں کہتا ہوں اے کاش علماء قاسم نانوتوی کے علوم پر غور کریں۔ قاسم نانوتوی رحمہ اللہ نے فرمایا ماترکناہ صدقۃ جو ہم نے چھوڑا وہ نبی کا صدقہ ہے۔ فرمایا جب نبی دنیا چھوڑے تب صدقہ اور صدقے کا اصول یہ ہے کہ جب آدمی صدقہ کرے تو حالت حیات میں صدقہ ہوتا ہے حالت موت میں صدقہ نہیں ہوتا۔ جب نبی دنیا چھوڑتے ہوئے اپنے مال کو صدقہ کر رہا ہے تو یہ دلیل ہے اس بات کی کہ نبی زندہ ہے۔
خدا کی قسم کیا علوم ہیں قاسم نانوتوی کے! اب اس کو سمجھنے کے لیے بھی عقل چاہیے ناں! میں سمجھانے کی بات نہیں کرتا بھئی سمجھنے کےلیے تو علم چاہیے۔ حضرت مولانا محمد طیب دیوبند کے چالیس سالہ مہتمم کہتے ہیں میں نے سبقاً پڑھا تو مجھے سمجھ آئی ہے۔ میں بات کر رہاتھا مولانا قاسم نانوتوی کا فلسفہ، بڑی عجیب بات کی ہے مولانا قاسم نانوتوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں۔ فرمایا ( توجہ رکھو)۔
خمیر پیغمبر اور عقیدہ حیات النبی
ارے نبی کو رب نے بنایا مٹی سے مگر تو اس کو توہین نہ کہنا ارے ایک مٹی تمہاری اور میری ہے اور ایک مٹی آدم علیہ السلام سے لے کر عیسیٰ علیہ السلام نبی کی ہے اور ایک مٹی حضرت خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کی ہے۔ فرمایا تمہاری اور میری مٹی یہ زمین والی ہے۔ آدم سے لے کر عیسیٰ علیہم السلام نبی کی مٹی جنت والی ہے۔ فرمایا دنیا کی مٹی میں اصل موت ہے پانی ملتاہے تو تازہ ہوجاتی ہے پانی نہیں ملتا تو زمین بنجر بن جاتی ہے اور جنت کی مٹی ہمیشہ تازہ رہتی ہے نبی کی مٹی جنت والی ہے، جنت کی مٹی میں موت نہیں حیات ہی حیات ہے۔ نعرے
بلند آواز سے کہو عقیدہ حیات النبی  سامعین زند ہ باد پھر مولانا نے خود نعرے لگوائے)ہم پیغمبر کے عاشق ہیں عاشق عقیدہ چھپائے یہ کوئی بات ہے؟ اس لیے کہہ رہا تھا توجہ رکھنا فرمایا میری اور تمہاری مٹی زمین والی ہے، آدم علیہ السلام سے لے کر عیسیٰ علیہ السلام کی مٹی جنت والی ہے، خاتم الانبیاء کی مٹی جنت الفردوس والی ہے۔ فرمایا جنت کی مٹی میں حیات ہوتی ہے موت نہیں ہوتی۔ جنت میں آدمی سوئے گا نہیں، سوئے گا بھی نہیں ہمیشہ جاگتا رہے گا ہمیشہ زندہ رہے گا لیکن اس دنیا میں عارضی سونا چاہے گا توسو سکتا ہے ناں اگر تھوڑی دیر کے لیے سوئے گا تو وہ عارضی ہوگا حقیقت میں جاگنا ہی ہے۔ فرمایا پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کی مٹی تو جنت والی ہے اگر موت آئی ہے تو عارضی ہے اصل پیغمبر کی مٹی میں حیات ہی حیات ہے۔ اس لیے اہل السنت والجماعت کا عقیدہ ہے کہ نبی جب حجرے میں تھے تب بھی زندہ نبی آج روضہ میں ہیں اب بھی زندہ۔
ایک عاشق صادق دربار نبوت میں
اللہ کے پیغمبر کے حجرے بنے مقامات بنے۔ تو شاعر نے نبی کے حجرے کو دیکھا تو کہا بڑا عجیب جملہ کہا:
يا بَديعَ الدّلّ وَالغُنُجِ
لكَ سُلطانٌ عَلى المُهَجِ
إنّ بَيْتاً أنْتَ سَاكِنُهُ
غَيرُ مُحتَاجِ إلى السُّرُجِ [
وَجهُكَ المَعشوقُ حُجّتُنا

يَوْمَ يأتي النّاسُ بالحُجَجِ

مشارع العشاق ج1ص188
اے حسن وجمال والے پیغمبر! دنیا والے جسم پر حکومت کرتے ہیں آپ کی ہمارے دل پر حکومت ہے۔ یہ جملہ یاد کر لو ان بیتا انت ساکنہ حضور جس گھر میں آپ رہائش پذیر ہیں وہ گھر سورج کا محتاج نہیں ہے۔
وجهُكَ المَعشوقُ حُجّتُنا يَوْمَ يأتي النّاسُ بالحُجَجِق
یامت کے دن لوگ آئیں گے اور اعمال بطور دلیل کے لائیں گے حضور ہم آپ کا چہرہ دلیل بنائیں گے۔ اللہ پوچھیں گے کیا لائے؟ کہیں گے اللہ! پیغمبر کا چہرہ اور کچھ نہیں لائے اللہ ہم اس چہرے کے ماننے والے ہیں تو جس نے پیغمبر کے حجرے کو دیکھا کہتا ہے ان بیتا انت ساکنہ جس نے پیغمبر کےروضے کو دیکھا۔
شفاعت پیغمبر آج بھی
امام نووی رحمہ اللہ نے مناسک میں لکھا ہے، ابن عساکر نے تاریخ میں لکھا ہے میں کہتا ہوں بڑا عجیب واقعہ ہے۔ محمد بن عبید اللہ بن عمر و کہتے ہیں، ایک پیغمبر کا عاشق تھا، پیغمبر کے روضے پر آیا، کہا: یا خیر الرسل اللہ کے بہترین پیغمبر میں آیا ہوں آپ کے پاس میں نے گناہ کیا میں آپ سے درخواست کرتا ہوں اللہ سے دعامانگیں کہ مجھے معاف کردے اس نے قرآن کی آیت پڑھی اللہ قرآن میں فرماتے ہیں
وَمَا أَرْسَلْنَا مِنْ رَسُولٍ إِلَّا لِيُطَاعَ بِإِذْنِ اللَّهِ وَلَوْ أَنَّهُمْ إِذْ ظَلَمُوا أَنْفُسَهُمْ جَاءُوكَ فَاسْتَغْفَرُوا اللَّهَ وَاسْتَغْفَرَ لَهُمُ الرَّسُولُ لَوَجَدُوا اللَّهَ تَوَّابًا رَحِيمًا
سورۃ النساء آیت 64
ترجمہ: اگر کوئی آدمی ظلم کرے پھر پیغمبر کی خدمت میں آئے نبی اس کے لیے گناہ کی معافی مانگے رب اسے معاف کردےگا۔
کہتا ہے حضور میں آپ کی خدمت میں آیا ہوں میں نے ظلم کیا میں خود بھی معافی مانگتا ہوں میری طرف سے آپ بھی معافی مانگیں۔ ارے پیر محل کے مسلمانو! ٹوبہ کے رہنے والو! اللہ تمہیں پیغمبر کے روضے پر جانے کی توفیق عطا فرمائے اپنے ذہن بنا لو پیغمبر روضے میں زندہ ہیں۔ پیغمبر کے روضے پر جا کر صلوٰۃ وسلام بھی پڑھو پھر اس نظریے کے ساتھ کہ نبی روضے میں زندہ ہیں پیغمبر کے روضے پر جاکر تُو کہہ دے حضور! غلام آیا زندگی بھر ظلم کیے اللہ سے معافی مانگتا ہوں آپ بھی میرے لیے معافی کی دعا مانگیں۔ نبی دعا مانگیں رب آپ کو معاف کردے گا۔ نعرے)
آرام گاہ صاحب جود وکرم
محمد بن عبید اللہ بن عمرو کہتے ہیں اس عاشق رسول نے پیغمبر کے روضے پر آیت پڑھی حضور میں نے گناہ کیا معافی مانگتا ہوں آپ دعا کریں اللہ مجھے معاف کر دے پھر اس نے حضور صلی اللہ علیہ وسل کے روضے پر کھڑے ہو کر کلام کیا، کہتے ہیں:
يا خير من دفنت بالقاع أعظمه
فطاب من طيبهن القاع والأكم
نفسي الفداء لقبر أنت ساكنه

فيه العفاف وفيه الجود والكرم

 
المغنی باب یستحب زیارۃ قبر النبی صلی اللہ علیہ وسلم ج 3ص599
یہ جملہ
نفسي الفداء لقبر أنت ساكنه
اس نے کہا حضرت آپ اس مبارک مٹی میں آرام فرما ہیں جو کائنات کی ساری چیزوں سے اعلیٰ ہے۔
عقیدہ اہل السنت والجماعت
ہمارا اہل السنت والجماعت کا عقیدہ ہے کہ پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کے وجود کے ساتھ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے روضے کی مٹی جو ملی ہوئی ہے اللہ کی قسم یہ کرسی سے اعلیٰ یہ کعبہ سے اعلیٰ یہ اللہ کے عرش سے بھی اعلیٰ ہے۔
المہندص ۱۱
عقیدہ حیات پر اشعار سے استدلال
یا خیر من دفنت بالقاع اعظمہ
فطاب من طیبھن القاع والاکم
نفسی الفداء لقبر انت ساکنہ

فیہ العفاف وفیہ الجود والکرم

 
حضور آپ کے روضے کی عطر کی برکت سے آپ نے پورے جہاں کو معطر کردیاہے۔
میری جان قربان اس قبر پر جس میں آپ ساکن ہیں۔
ایک نے پیغمبر کا حجرہ دیکھا کہتا ہے
ان بیتا انت ساکنہ
ایک نے پیغمبر کی قبر کو دیکھا کہتا ہے
نفسی الفداء لقبر انت ساکنہ
حضور آپ اس قبر میں ساکن ہیں معلوم ہوا کہ اس نے پیغمبر کو حجرے میں دیکھا وہ سمجھ گیا پیغمبر حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم زندہ ہیں تبھی تو ساکن کہا، پیغمبر روضے میں زندہ اس نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو کہا آپ قبر میں ساکن ہیں۔ اس کا عقیدہ یہ تھا نبی قبر میں زندہ ہیں ارے ساکن زندہ کو کہتے ہیں۔ ساکن مردہ کو نہیں کہتے ناں؟
تو جس نے حجرے کو دیکھا کہتا ہے ان بیتا انت ساکنہ اور جس نے پیغمبر کے روضے کو دیکھا کہتاہے
نفسی الفداء لقبر انت ساکنہ
حضور اس قبر پر میری جان فدا ہو جائے جس قبر میں آپ ساکن ہیں
فیہ العفاف وفیہ الجود والکرم
اس میں عفت بھی ہے پیغمبر اس میں سخاوت بھی ہے۔
بے آسروں کا آسرا
اگلے دو شعر امام نووی رحمہ اللہ نے مناسک میں ذکر کیے ہیں، ابن عساکر نے یہ شعر نقل نہیں کیے۔ امام نووی رحمہ اللہ کہتے ہیں اس عاشق نے دو شعراور بھی پڑھے تھے:
انت الشفیع الذی ترجی شفاعتہ
 
عند الصراط اذا ما زلت القدم
وصاحباک فلا انساھما ابدا
منی السلام علیکم ما جری القلم
اس نے کہا حضور اے اللہ کے پیغمبر انت الشفیع الذی ترجیٰ شفاعتہ اللہ آپ کی شفاعت اس وقت قبول کرےگا
عند الصراط اذا مازلت القدم
جب پل صراط پر قدم پھسلنے لگیں گے
و صاحباک فلا انساھماابداً
یہ آپ کے ساتھی ابو بکر وعمر تو کبھی نہیں بھولتے
منی السلام علیکم ما جری القلم
اللہ کے پیغمبر آپ پر بھی سلام ہو ابو بکر وعمر پر بھی سلام ہو۔
مولانا امین صفدر اوکاڑوی اور بریلوی ماسٹر
مولانا امین صفدر اوکاڑوی رحمہ اللہ عالم بھی تھے، سکول ماسٹر بھی تھے، علماء کے استاد بھی تھے، بچوں کے استاد بھی تھے۔ حضرت اوکاڑوی رحمہ اللہ سکول میں تھے ایک بدعتی ماسٹر نے ہیڈ ماسٹر کو شکایت لگائی اس نے کہا یہ مولانا امین اوکاڑوی تو سُنّی نہیں ہیں۔ ہیڈ ماسٹر نے مولانا امین اوکاڑوی کو بلا کر پوچھا کہ بھئی لوگ کہتے ہیں تم سُنّی نہیں؟ فرمایا جو یہ کہتا ہے سُنّی نہیں ہے اس کو بلاؤ اس کو بلایا تو ماسٹر نے کہا تو کہتا سُنّی نہیں ہے وجہ اس نے کہا جی مولوی امین اوکاڑوی درود نہیں پڑھتا آپ نے فرمایا:
اللٰھم صلی علی محمد وعلی اٰل محمد کما صلیت علی ابراھیم وعلی اٰل ابراھیم انک حمید مجید اللٰھم بارک علی محمد وعلیٰ اٰل محمد کما بارکت علی ابراھیم وعلیٰ اٰل ابراھیم انک حمید مجید
ہیڈ ماسٹر نے کہا تُو تو کہتا ہے دورد نہیں پڑھتا یہ تو پڑھتا ہے۔ اس نے کہا سر جی پڑھتا تو ہے مگر یہ کھڑے ہوکر نہیں پڑھتا۔ فرمایا جب ہم جنازہ پڑھتے ہیں تو میں درود کھڑے ہو کر پڑھتا ہوں۔ اس نے کہا تُوتو کہتا ہے کھڑے ہو کر نہیں پڑھتا اس نے کہا نہیں سر جی یہ
اللٰھم صلی علیٰ محمد تو کہتاہے مگر الصلوٰۃ والسلام علیک یا رسول اللہ
نہیں کہتا۔ فرمایا بالکل جھوٹ بولتا ہے جب میں پیغمبر کے روضے پر جاتا ہوں الصلوٰۃ والسلام علیک یا رسول اللہ بھی کہتا ہوں۔ ہیڈ ماسٹر نے کہا تُو کیسے کہتا ہے یہ سنی نہیں؟
مولانا امین صفدر اوکاڑوی نے فرمایا وجہ یہ ہے کہ سرجی میں کہتا ہوں یہ درود وہاں پڑھو جہاں نبی چاہتا ہے بس فرق یہ ہے نبی چاہتے ہیں درود ابراہیمی پڑھو میں نے وہ پڑھا۔ فرمایا جنازہ ہو تو کھڑے ہو کر پڑھو میں نے جنازے میں کھڑے ہو کر پڑھا۔ پیغمبر کے روضے پر جائیں تو یا رسول اللہ کہہ کر پڑھیں۔ میں نے وہ پڑھا۔ تو نبی کی بات ماننے والے کو سنی کہتے ہیں اور جو نبی کی بات نہ مانے اس کو بدعتی کہتے ہیں۔
دعا بعد از جنازہ
مجھے ایک شخص نے کہا مولانا! تم جنازے کے بعد دعا نہیں مانگتے تم کیسے سنی ہو؟ میں نے کہا ہم جنازے کے بعد دعا مانگتے ہیں اور پکے سنی ہیں۔ کہتا ہے جی تم نہیں مانگتے میں نے کہا ہم تو مانگتے ہیں۔ کہتا ہے جنازے کےبعد دعا سنت ہے میں نے کہا بالکل سنت ہے۔ کہتا ہے پھر تمہارے دیوبندی نہیں مانگتے میں نے کہا مانگتے ہیں تجھے نظر نہیں آتا۔ کہتا ہے جی کیسے؟ میں نے کہا ہم علمائے دیوبند کہتے ہیں کہ آدمی فوت ہوجائے تو غسل دو پھر غسل کے بعد کفن دو کفن کے بعد جنازہ پڑھو اور جنازے کے بعد قبرستان میں دفن کرو اور دفن کے بعد دعا مانگو۔ یہ دعا جنازے سے پہلے ہے یا جناز ے کے بعد؟
کہتا ہے جنازے کے بعد ہے۔ میں نے کہا پھر جنازے کے بعد ہم نے دعا مانگی ہے۔ کہتا ہے جنازے کے فوراً بعد تو نہیں مانگتے میں نے کہا مانگتے تو بعد میں ہیں ناں! فرق یہ ہے کہ فوراً چودھری کہتے ہیں مانگو، دفن کے بعد نبی کہتا ہے مانگو! جو چودھری کی مان کر فوراً بعد دعا مانگے وہ بدعتی ہے جو نبی کی مان کر دفن کے بعد مانگے وہ سنی ہے۔ میں نے کہا ہم نے انکار تو نہیں کیا ناں ہم نے تو نبی کی بات مانی ہے ہم نے چودھری کی بات نہیں مانی ، تُو نے ہمیں وہابی کہہ دیا ہم نے نبی کی بات مانی ہے تجھے سُنّی ہمیں کہنا چاہیے تھا ناں! میں نے کہا بابا ہم تو وفا والے لوگ ہیں۔
مثال
اگر تمہارا بیٹا امریکہ جائے، پیر محل کے لوگ باہر رہتے ہیں اگر تمہارا بیٹا لندن جائے تم یہاں سے بیٹے کو اپنے گھر سے رخصت نہیں کرتے اس کو تم بٹھاتے ہو کار میں ائیر پورٹ تک جاتے ہو، ائیر پورٹ پر جاکر کہتے ہو، بیٹا یہاں تک ہم آسکتے تھے، آئے، آگے نہیں جا سکتے تھے چل اب اللہ کے حوالے۔ میں نے کہا وہاں جا کر دعا مانگتے ہو یا گھر سے دعا مانگ کر رخصت کر دیتے ہو؟
کہنے لگا وہاں جا کر۔ میں نے کہا ہم بھی یہی بات کہتے ہیں تمہارا زندگی کا ساتھ تھا بے وفائی نہ کرو۔ یہ فوت ہوگیا اس کو غسل بھی دو اس کو کفن بھی دو قبر میں دفن بھی کرو اور دفن کر کے کہہ دو
بِسْمِ اللَّهِ وَفِى سَبِيلِ اللَّهِ وَعَلَى مِلَّةِ رَسُولِ اللَّهِ
سنن الکبری للبہیقی ج 4ص55
آگے ہم نہیں جاسکتے اباجی! اللہ کے حوالے آگے، ہم نہیں جا سکتے اللہ کے حوالے، اگر گھر سے جانے والے بیٹے کو اللہ کے حوالے کردو لوگ کہتے ہیں تجھے اپنے پیٹے سے پیار نہیں ہے اس کو ائیر پورٹ تک کیوں نہیں چھوڑکر آئے؟ اگر تم اپنے باپ کو جناز ے کے فوراً بعد نکال دو اس کو فارغ کردو تو ہم بھی یہ کہتے ہیں تمہیں اپنے باپ سے پیار نہیں ہے۔ ارے جہاں تک جا سکتے ہو وہاں تک جاؤناں! قبر تک جاؤ وہاں دعا مانگ کر کہو اللہ ! اب تیرے حوالے ہم جہاں تک آسکتے تھے، آئے، اس سے آگے ہم جا نہیں سکتے۔
مماتیوں کے ایک ڈھکوسلے کا جواب
تو میں نے عرض یہ کیا اللہ نے ہمیں زندگی دی ہے اللہ زندگی کو بابرکت بنانے کی توفیق عطا فرمائے۔ میں آخری بات کہہ دوں جب ہم نے کہا نبی پاک قبر میں زندہ تو لوگوں نے فوراً کہا ارے نبی کی عمر کتنی ہے؟ ہم نے کہا تریسٹھ 63سال کہتے ہیں جب قبر میں زندہ ہے پھر تریسٹھ 63سال تو نہ کہو پھر تو پندرہ سو سال کہو۔
میں نے کہا اچھا اگر نبی کی زندگی تم نے عمر میں شمار کرنی ہے تو میں جناب سے پوچھتا ہوں کہ عمر کتنی ہے؟ کہتا ہے جی میری عمر پینتیس 35سال ہے۔ میں نے کہا یار پینتیس سال نہیں جب تم ماں کے پیٹ میں تھے تو زندہ تھے یا مردہ کہتا ہے جی چھ ماہ میں ماں کے پیٹ میں زندہ رہا،اگر کوئی عمر پوچھے توماں کے پیٹ کی عمر شامل نہیں کرتے تو قبر کے پیٹ میں زندہ اگرکوئی پوچھے تو قبر کے پیٹ کی عمر بھی شامل نہیں کرتے۔ تو اگر کوئی عمر پوچھے ماں کے پیٹ کی عمر کو تو کوئی شامل نہیں کرتا اگر ہم سے زندگی پوچھو گے تو قبر کے پیٹ کی عمر کو بھی شامل نہیں کرتے۔ ماں کے پیٹ میں بھی زندہ او ر قبر کے پیٹ میں بھی زندہ لیکن اگر کوئی پوچھے تمہاری عمر تو پھر لوگ یہ بات نہیں پوچھتے کہ تیری قبر والی زندگی پوچھتے ہیں جی تیری دنیا والی زندگی کتنی ہے؟ تو دنیا والی ہی بتائیں گے پھر نبی پاک قبر میں زندہ؟ ہم نے کہا جی زندہ۔
ایک شبہ کا ازالہ
اچھا نبی پاک قبر میں زندہ تھے جب صحابہ کو مسئلہ پیش آتا صحابہ آپس میں اجتہاد کرتے تھےاگر اختلاف ہوا بھی تو نبی سے جاکر پوچھ لیتے ناں! کبھی نبی سے جا کر صحابہ نے تو نہیں پوچھا! یہ اس کی دلیل ہے کہ نبی پاک زندہ نہیں ہیں؟
حیات پیغمبر اور اصحاب پیغمبر
اگر صحابہ زندہ مانتے تونبی سے مسئلہ نہ پوچھ لیتے؟ میں نے کہا اللہ کے نبی کو زندہ تو مانتے تھے اگر تجھے حوالہ نہ ملے تو تفسیر کبیر سورۃ کہف اٹھا کر دیکھ لے۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ دنیا سے جانے لگے صدیق اکبر نے کہا ارے جب میں مرجاؤں تو مجھے دفن روضے میں کرنا مگر یوں دفن نہ کرنا پہلے میری میت کو پیغمبر کے روضے پر لےجانا، حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو سلام کہہ دینا اگر اجازت ملے تو دفن کرنا اجازت نہ ملے مجھے دفن نہ کرنا۔ اگر ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کا عقیدہ یہ تھا پیغمبر قبر میں زندہ نہیں ہیں صدیق نے وصیت کیوں کی ہے؟
اگر عمر بن خطاب کا عقیدہ یہ ہوتا کہ پیغمبر قبر میں زندہ نہیں ہیں عمر بن خطاب وصیت بدل دیتے ناں۔ اگر عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ، اگر علی بن ابی طالب رضی اللہ دیگر اصحاب پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کا عقیدہ یہ تھا کہ نبی قبر میں زندہ نہیں ہیں تو وصیت بدل دینی چاہیے ناں! اگر میت غلط وصیت کر کے جائے تو اہل میت کےذمے ہے وصیت بدل دیں۔
صدیق اکبر نے وصیت کی ہے اگر میں مرجاؤں تو مجھے پیغمبر کے روضے میں دفن کرنا لیکن پیغمبر کی قبر مبارک کے پاس میری میت کو رکھ دینا۔ پہلے سلام کہنا اجازت ملے گی تو دفن کرنا تو معلوم ہوا صدیق اکبر کا عقیدہ پیغمبر قبر میں زندہ، اصحاب کا عقیدہ پیغمبر قبر میں زندہ، پھر صحابہ رضی اللہ عنہم صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کی میت کو لے کر گئے ہیں، السلام علیکم! پیغمبر سے کہا پھر عرض کیا حضرت آپ کا غلام آپ کے روضے پر آیا ہے۔ اما م رازی رحمہ اللہ کہتے ہیں عالم غیبی سے آواز آئی:
ونودي السلام عليك يا رسول الله هذا أبو بكر بالباب فإذا الباب قد انفتح وإذا بهاتف يهتف من القبر ادخلوا الحبيب إلى الحبيب
تفسیر رازی سورۃ کہف
ارے اس محبوب کو اپنے حبیب تک پہنچادو (نعرے)۔تو صحابہ کا عقیدہ یہ تھا کہ نبی قبر میں زندہ ہیں۔
مثال
پھر صحابہ جا کر اختلافی مسائل پوچھتے کیوں نہیں؟ میں نے کہا اچھا آپ گھر میں تھے آپ کے ابو جان بھی گھر میں تھے اور جب گھر سے نکلے تو چشمہ بھول گئے۔ واپس اپنے گھر آئے بیگم سے پوچھا چشمہ کدھر ہے؟ بیگم کہتی ہے مجھ سے کیوں پوچھتے ہو تم خود تلاش کر لوناں! کہتا ہے میری نظر کمزور ہے مجھے تو نظر نہیں آتا تو بیگم کہتی ہے تجھے نظر نہیں آتا تیرے کندھے پر کراماً کاتبین موجود ہیں ان سے پوچھ لو ناں! نہیں سمجھے؟ تیرے کندھے پر کراماً کاتبین موجود ہیں ان سے پوچھ لو ناں! کہتا ہے نہیں کراماً کاتبین سے نہیں پوچھتا تو بیگم پوچھتی ہےکراماً کاتبین زندہ ہیں؟ کہتا ہے زندہ ہیں۔ وہ تجھے دیکھ رہے ہیں؟ کہتاہے دیکھ رہے ہیں۔ تیری بات کو سنتے ہیں؟ کہے گا سن رہے ہیں۔ پھرکراماً کاتبین سے پوچھ لےناں! کہے گا وہ میری سنتے ہیں میں نہیں سنتا ان کی، نہیں سمجھے؟ کہے گا وہ میری سنتے ہیں میں ان کی نہیں سنتا۔ صحابہ کا عقیدہ یہ تھا نبی کی قبر پر جائیں صلوٰۃ وسلام پڑھیں نبی سنتے ہیں نبی جواب دیں تو ہم نہیں سنتے اس لیے نہیں پوچھتے تھے۔
مثال ثانی
اس لیے میں آپ سے کہتا ہوں سب حضرات کہو اللہ بلند آواز سے کہو اللہ، اللہ نے سنا؟ بولیے ناں! جواب بھی دیا؟ اللہ خود فرماتے ہیں جواب دیا آپ نے سنا؟ (سامعین: نہیں) انکار کرد وکیونکہ ہم نے جواب نہیں سنا۔ ہم اللہ کہتے ہیں تو رب سنتا ہے اللہ جواب دیتا ہے ہم نہیں سنتے۔ تو ہم مانتے ہیں رب سنتا ہے۔ کراما کاتبین سنتے ہیں لیکن ہم ان سے بات نہیں کر سکتے۔ ہماری وہ سنتے ہے ہم کیوں ان کی نہیں سنتے؟ تو صحابہ اس لیے نبی سے نہیں پوچھتے تھےکہ صحابہ کا عقیدہ تھا کہ نبی زندہ نہیں ہیں، نہیں بلکہ اس لیے نہیں پوچھتے تھے کہ صحابہ بولیں اورروضے میں نبی سن لیں یہ تو ہو گا لیکن نبی گفتگو فرمائیں یہ تو نہیں سنیں گے۔ اور ایک وقت آئے گا۔
امام اہل السنت اور عقیدہ حیات النبی
ایک مرتبہ جلسہ تھا چنیوٹ میں، خدمات امام اہل السنت کے نام سے سے عنوان تھا۔ امام اہل السنت کی تصنیفی خدمات کا ذکر میرے ذمہ تھا شیخ محمد سرفراز خا ن صفدر دامت برکاتہم کی تصنیفات کا تذکرہ ہوا تو وہاں کچھ مماتی بھی تھے ،اپنے بھی تھے۔ تو میں نے پوچھا کہ ساری تصنیفات کا ذکر کروں یا آدھی کا؟ ساری تصنیفات کا ذکر کروں گا تو بعض سٹیج والے اٹھ جائیں گے اور آدھی کروں گا تو خدمات کا تعارف پورا نہیں ہوگا بد دیانتی ہوگی۔
انہوں نے کہا جی ساری بتاؤ۔ میں نے ساری خدمات کا تذکرہ کیا تو میں نے ان دو کتب کا تذکرہ بھی کیا جو شیخ نے حیات النبی صلی اللہ علیہ وسلم پر لکھی ہیں۔ خیر تذکرہ ہو رہا تھا، مولانا منظور احمد چنیوٹی رحمہ اللہ کے صاحبزادے مولانا الیاس چنیوٹی دامت برکاتہم سٹیج پر تھے انہوں نے مجھ سے پہلے حدیث بیان کی فرمایا کہ مرزا قادیانی نے کہا تھا کہ میں مسیح ہوں تم کہنا وہ جھوٹ بولتاہے اور کہا میں دلیل کے طور پر تمہیں حدیث دیتا ہوں۔
مسیح ہدایت اور قادیانیت
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ حدیث کے راوی ہیں اور مسند ابی یعلی موصلی میں روایت موجود ہے۔ اللہ کے پیغمبر نے ارشاد فرمایا کہ عیسیٰ ابن مریم آئیں گے
لینزلن عیسیٰ ابن مریم اماما عدلا
فرمایا امام عادل بن کر آئیں گے لیکسرن الصلیب صلیب کو توڑیں گے لیقتلن الخنزیر فرمایا خنزیر کو قتل کر دیں گے، عیسائیت اور یہودیت کا وجود مٹا دیں گے۔
فلیوثرن المال فلا یقبلن
مال بہت زیاہو گا عیسیٰ علیہ السلام مال کو قبول نہیں کریں گے۔ بلکہ روایات میں آتا ہے کہ سونا چاندی یوں نکلے گا جیسے آج دریاؤں ونہروں میں پانی چلتا ہے لیکن اس کو قبول کرنے والا کوئی نہیں ہوگا۔
تو مولانانے فرمایا تم یہ چار دلیلیں یاد رکھ لو اور مرزائیوں سے کہنا جب عیسیٰ ابن مریم آئیں گے تو حاکم ہوں گے تمہارا غلام احمد قادیانی تو حاکم نہیں تھا۔ حضرت عیسیٰ آئیں گے عیسائیت کو ختم کر دیں گے یہ عیسائیت کو ختم نہیں کر سکا بلکہ ان کا ٹاؤٹ رہا۔ وہ آئیں گے یہودیت کو مٹا دیں گے یہ یہودیت کو ختم نہیں کر سکا۔ عیسیٰ ابن مریم آئیں گے دولت عام ہوگی اس کے دور میں دولت عا م نہیں ہوئی میں نے فوراً سٹیج پر کہا میں نے کہا حضرت پانچویں نشانی بھی بیان کرووناں! جو اسی حدیث میں موجود ہے۔
سلام کا جواب
فرمایا وہ کون سی؟ میں نے کہا اسی حدیث میں ہے اللہ کے پیغمبر نے فرمایا چار نشانیاں یہ ہوں گی
ثم لئن قام على قبري فقال: يا محمد لأجيبنه
اس کے بعد عیسیٰ میری قبر پر آئیں گے کہیں گے یا محمد لا جیبنہ وہ یا محمد کہیں گے میں جواب دوں گا۔ میں نے کہا یہ کہو عیسیٰ ابن مریم آئیں گے حاکم ہوں گے، مرزا حاکم نہیں تھا، عیسیٰ ابن مریم عیسائیت کو ختم کریں گے اس نے عیسائیت کو ختم؟ سامعین:نہیں کیا
توجہ رکھنا! عیسیٰ ابن مریم یہودیت کو ختم کریں گے اس نے یہودیت کو ختم نہیں کیا۔ عیسیٰ ابن مریم آئیں گے تو مال کی فروانی ہوگی اس کے دور میں مال کی فراوانی نہیں ہوئی تھی۔ عیسیٰ ابن مریم پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کے روضے پر یا محمد کہیں گے تو جواب ملے گا یہ پیغمبر کے روضے پر گیا بھی نہیں جواب بھی نہیں ملا۔ اس کی نشانی بتاؤ ناں! اگر کہے گا حدیث ضعیف ہے تو پھر چاروں کےلیے اگرقوی ہوگی تو چاروں کےلیے میں نے اس لیے کہا اگر کوئی اعتراض ہوگا تو جواب میرے ذمے یہ سند بھی قوی اور حدیث بھی ٹھیک ہے۔ عیسیٰ ابن مریم جب کہیں گے یا محمد! اللہ کے پیغمبر جواب دیں گے۔
مسند ابی یعلی ص462
آج توبہ کر لو
میں آخری بات کہتا ہوں عیسیٰ ابن مریم کیوں آئیں گے؟ دنیا میں فتنوں کو مٹانے کے لیے۔ تو عیسائیت کا فتنہ عیسیٰ ابن مریم تنہا مٹائیں گے، یہودیت کا فتنہ عیسیٰ ابن مریم تنہا مٹا دیں گے۔ حضرت کفر کے فتنے کو تنہا مٹا دیں گے لیکن مماتیت کا فتنہ عیسیٰ ابن مریم تنہا نہیں، عیسیٰ ابن مریم اور اللہ کے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم دونوں مٹائیں گے۔
عیسیٰ ابن مریم یا محمد کہیں گے حضور صلی اللہ علیہ وسلم جواب دیں گے تو دونوں سلام وجواب کریں گے مماتیب کا فتنہ بھی مٹ جائے گا۔ ہم کہتے ہیں عیسائیو تم نے مٹنا ہے آج توبہ کرلو، یہودیو تم نے مٹنا ہے آج توبہ کرلو، مماتیو تم نے مٹنا ہے آج توبہ کرلو، آج کر لو آج کر لو توبہ تم نے مٹنا تو ہے ہی۔
دعا
اللہ مجھے اور آپ سب کو اللہ کے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کا سچا عاشق بنائے۔
اللہ کے پیغمبر صلی اللہ عیہ وسلم کی قبر اوربرزخ والی اعلیٰ حیات کو ماننے کی توفیق عطا فرمائے۔
اللہ کے پیغمبر کے اتباع کی توفیق دے۔
اللہ قیامت کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت نصیب فرمائے۔
آمین
واٰخر دعوانا ان الحمد للہ رب العٰلمین
سوالوں کے جوابات
اس کے بعد متکلم اسلام حفظہ اللہ سے سوالات کی نشست ہوئی افادہ عام کے لیے پیش خدمت ہے۔
سوال:
کیا قادیانیوں کے ساتھ دوستی یا ان کا مکان کرائے پر لینا یا کاروبار میں شرکت کرنا جائز ہے؟
جواب:
یہ حرام اور گناہ کبیرہ ہے نہ ان کو کاروبار میں شریک کرو نہ ان کا مکان کرائے پر لو اور جو قادیانیوں کی مصنوعات ہیں ختم نبوت والے اس کا اکثر اعلان کرتے رہتے ہیں ان مصنوعات کا بائیکاٹ کرو۔ یہ میرے اور آپ کے ایمان کا حصہ ہے۔
سوال:
بعض حضرات کہتے ہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم 12 ربیع الاول کو پیدا ہوئے؟ مکمل واقعہ بتائیں یہاں پر کسی نے بارہ ربیع الاول کو عید پڑھائی۔اس کا کیا حکم ہے؟
جواب:
دیکھیں اگر کسی نے عید کی نماز 12 ربیع الاول کوشروع کی ہے تو بہت بڑا جرم کیا ہے۔ اچھا عجیب بات یہ ہے کہ 12 ربیع الاول کو عید وہ مناتے ہیں جو خود کو امام احمد رضا خان کا ماننے والا کہتے ہیں اور احمد رضا خان نے اپنی کتاب نطق الحلال میں لکھا ہے حضور 8 ربیع الاول کو پیدا ہوئے اور 12 ربیع الاول کو وفات پائی۔ بھئی اپنی نطق الہلال فتاویٰ رضویہ میں یہ کتاب موجود ہے احمد رضا خان کی کتابیں ساری اکھٹی فتاویٰ رضویہ کی شکل میں آئی ہیں تو اس میں فتویٰ موجود ہے احمد رضا خان نے فتویٰ دیا کہ نبی پیدا ہوئے 8 کو اور وفات پائی 12 کو۔
فتاوی رضویہ جلد26 ص412
اگر 12 کا دن وفات کا ہے تو پھر سوگ مناؤ اگر تم نے منانا بھی ہے تو لیکن اہل السنت والجماعت کا عقیدہ یہ ہے کہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم آئے ہیں ہمیں آنے کی خوشی ہے لیکن خوشی بچوں والی نہ کرو بڑوں والی کرو ، کیوں؟ اگر گھر میں مہمان آئے ہیں تو بچے دیکھیں گے کیا لے کر آئے ہیں فروٹ، مٹھائی، پکوڑے، سموسے مہمان کی آمد پر بچوں کو خوشی نہیں ہوتی۔ اگرمہمان کچھ لےکر آئے مٹھائی وٹھائی تو بچے خوش ہوتے ہیں اور مہمان کے ساتھ مٹھائی نہ ہوتو بچے خوش نہیں ہوتے۔
میری خالہ کا بیٹا ہے میرا بھائی ہے میں ان کے گھر گیا، تو ان کاچھوٹا بچہ تھا ابوبکر نام تھا، اس کی بیوی کہتی ہے تایا ابو آئے ملو تایا ابو آئے ملو وہ مجھے مل نہیں رہا۔ میں نے اس کی بیوی سے کہا بھئی قصور اس کا نہیں قصور تایا ابو کا ہے میں تایا ابو بن کر آیا نہیں تو ملے گا کیسے؟ میرے ہاتھ میں کچھ کھلونے ہوتے، کچھ سیب ہوتے، ٹافیاں ہوتیں تب یہ سمجھتا تایا ابو آئے ہیں۔ اب اسے میرے آنے کی کوئی خوشی نہیں قصور میرا تھا میں کچھ لے کر جو نہیں آیا تھا۔ مہمان کو میزبان کے گھر کچھ لے کر آنا چاہیے میں جب دوبارہ گیا تو تایا ابو بن کر گیا وہ میری گود میں بیٹھا، پیار سے آیا۔ خیر میں کہتا ہوں اب اگرمہمان آئیں تو ان کی نگاہ مٹھائی پر، ان کی نگاہ تھیلے پر۔چھوٹے آئیں تو ان کی نگاہ ڈبے پر، اور بڑے وہ یہ نہیں پوچھتے کہ مٹھائی وہ فوراً پوچھیں گے پہلے کہیں گے آرام کرو، کھا نا کھاؤ گے چائے پیو گے، آرام کرو گے؟ پھر جب وہ آرام کر لے گا بڑے پوچھیں گے آپ کیوں آئے؟ چھوٹے دیکھیں گے کہ آیا تو کھانے کےلیے کیا لایا اور بڑے پوچھتے ہیں کہ آئے ہیں تو کیوں آئے ہیں۔
نبی کے آنے کا مقصد یہ پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کے آنے کی خوشی ہے آپ یہ دیکھیں کہ حضور دنیامیں آئے تو کیوں آئے۔ اگر چاہو تو ساری خوشی منا لونبی ڈاڑھی لے کر آئے، چہر ے پر رکھ لو، نبی پگڑی لے کر آئے اپنے سر پر سجا لو، نبی نماز لے کر آئے پانچ وقت کے نمازی بن جاؤ، نبی روزہ، حج، زکوٰۃ لےکے کر آئے یہ سارے کا م کر لو۔ یہ خوشی ہے.
12 ربیع الاول کو حضو ر صلی اللہ علیہ وسلم آئیں تو مٹھائی کھائیں یہ بچوں والی خوشی ہے بڑوں والی خوشی نہیں ہے۔ تو وہ خوشی اختیار کرو جو سمجھ داروں کی ہوتی ہے وہ خوشی اختیار نہ کرو جو بچوں کو ہوتی ہے۔ اللہ ہمیں حضور صلی ا للہ علیہ وسلم کی آمد پر خوش ہونے کی توفیق عطا فرمائے، اللہ مجھے اور آپ کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کی توفیق عطا فرمائے۔
سوال:
کیا آتش بازی جرم ہے؟
جواب:
کچھ حیا کرو نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ مذاق نہ اڑاؤ آتش بازی جرم ہے۔
سوال:
مولانا صاحب گانے کی طرز پر نعتیں پڑھنا جائزہے؟
جواب
ارے گانا ناجائزہے گانے کے طرز پر نعت نہیں پڑھنی چا ہیے۔
سوال:
غیر مقلدین کہتے ہیں کو ئی ترک رفع یدین والی حدیث بتا دیں کوئی کہتا ہے عربی تو رفع یدین کرتے ہیں۔
جواب:
ہم نے کلمہ عربیوں کا نہیں اللہ کے نبی کا پڑھا ہے ہم حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو پیش کریں جو عربی ہیں اور صحابی بھی ہیں تو غیر مقلد کہتے ہیں کہ نہیں نبی کی بات کرو۔ ہم حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی جمعہ کی دو اذان پیش کریں وہ عربی ہیں کہتا ہے نبی کی بات کرو۔ ہم بیس رکعت تروایح صحابہ کی پیش کریں کہتا ہے نبی کی بات کرو۔ ہم رفع یدین نبی کی بات کریں کہتاہے عربی کیوں کرتے ہیں؟ گرگٹ کی طرح رنگ بدلنا غیر مقلدیت کا کام ہے۔ میں ان سے کہتا ہوں اگر یہاں غیر مقلد بھی بیٹھا ہو وہ مجھے لکھ کر بھیج دے کہ امام کعبہ ہمارے دین کی بنیاد ہے جو امام کعبہ کریں گے ہم کریں گے جو نہیں کریں گے ہم نہیں کریں گے لکھ دو لیکن لکھ کر نہیں دیں گے۔
کیوں؟ امام کعبہ کو مانیں گے تو سب سے پہلے تقلید کریں گے جو انہوں نے کرنی نہیں۔ امام کعبہ کو مانیں گے تو ننگے سر تھوڑا پھریں گے اپنے سر پر ٹوپی اور رومال لیں گے۔ امام کعبہ کی تو نہیں ماننی گدھے کی طرح ننگے سر پھرتے رہیں گے۔ کوئی ایک باب کسی محدث نے قائم نہیں کیا کہ جس میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ننگے سر پھرنے کا ذکر ہو یہاں غیر مقلد بیٹھا ہو تو مجھے یہ بھی لکھ دے اگر تمہارے پاس موبائل ہے تو باہر نکل کر اپنے کسی مولوی کو فون کرو کہ یار یہ چٹ ہم نے لکھ کر دینی ہے حوالہ بتا دے۔ کوئی ہے تو ہمت کرے!
کسی محدث نے باب قائم کیا ہو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ننگے سر بیت الخلاء میں جانے کا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ننگے سر بازار جانا۔ وہ نبی ننگے سر بیت الخلاء بھی نہیں جاتا تجھے شرم نہیں آتی ننگے سر نماز پڑھنے کےلیے مسجد میں آتا ہے۔ یہ مسجد ادب کا مقام ہے بے ادبی کا مقام نہیں ہے۔ ٹوپی ہوگی لیکن نماز کے وقت اتاردیں گے اور پھر سمجھتے ہیں ہم نےبہت بڑا کام کیا ہے۔ پگڑی اتار کے ننگے سر گھوم رہے ہیں ہم نے بہت بڑا کام کیا ہے۔ احمق! اس کو کام نہیں کہتے بے وقوفی کہتے ہیں۔ میری بات سمجھو اس لیے ہم کہتے ہیں ایک اصول بناؤ ایک اصول پر چلو، اصول پر نہیں چلیں گے۔
مجھے غیر مقلد نے فون کیا مولانا صاحب اللہ کے نبی سے رفع یدین منع کرنے کی حدیث دکھا سکتے ہو؟ میں نے کہا، تو کرنے کا حکم دینے کی حدیث دکھا سکتا ہے؟ کہتے ہیں جی حکم نہیں دیا تو کیا تو ہے ناں، میں نے کہا کیا ہے تو کچھ چھوڑا بھی تو ہے۔ ہم سےاور دلیل مانگ رہے ہو، تم دلیل اور دیتے ہو۔ اللہ کے نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم رفع یدین نہیں کرتے تھے۔
راوی عبد اللہ بن عمر ،نبی کے صحابی، کتاب مسند حمیدی ، امام بخاری رحمہ اللہ کے استاد کی۔ امام بخاری روایت پیش کرتے ہیں کہ رفع یدین کرتے تھے۔ میں کہتاہوں نہیں کرتے۔ دلیل؟ راوی وہی عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ، کتاب امام بخاری رحمہ اللہ کے استاد کی، استاد کہتے ہیں کہ نہیں کرتے تھے، اگر بخاری کی روایت ٹھیک ہے تو استاد کی کیوں غلط ہے؟ نہیں سمجھے؟ امام بخاری کی بات کریں گے بخاری کے استاد کی بات نہیں کریں گے۔ اللہ کے نبی رفع الیدین نہیں کرتے تھے۔
راوی براء بن عازب کتاب سنن النسائی جو صحاح ستہ کی کتاب ہے اللہ کے نبی صلی ا للہ علیہ وسلم رفع الیدین نہیں کرتے تھے۔
أَلَا أُصَلِّي بِكُمْ صَلَاةَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَصَلَّى فَلَمْ يَرْفَعْ يَدَيْهِ إِلَّا مَرَّةً وَاحِدَةً
سنن ابی داود جلداول ص272
کتاب کا نام جامع ترمذی جو صحاح ستہ کی کتا ب ہے۔ راوی کا نام عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ ہے اور عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے بڑے دعوے کے ساتھ کہا ہے۔ فرمایا:
الا اصلی بکم صلوٰۃ رسول اللہ الا اخبر کم بصلوٰۃ رسول اللہ
جامع ترمذی ج2 ص40
کیامیں تمہیں نبی کی نماز نہ دکھاؤں؟ کہا دکھاؤ۔ حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے شروع کارفع الیدین کیا پھر پوری نماز میں رفع الیدین نہیں کیا۔
کہا یہ میرے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز ہے اور عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ جو صحابی ہیں جن کا نام لے کر پیغمبر صلی ا للہ علیہ وسلم نے فرمایا
ما حدثکم ابن مسعود فصد قوہ
عبد اللہ بن مسعود جو حدیث بتائیں اس کو سچا سمجھنا۔ ہم کہتے ہیں غیر مقلدو ! سچاسمجھو کہیں گے ہم سچا نہیں سمجھیں گے۔نبی کہتا ہے سچا سمجھو تسی کیوں نئیں سمجھدے؟ اسے کہتے ہیں ضد اسے کیا کہتے ہیں؟ (سامعین: ضد) کہتے ہیں نبی چھوڑ دے رفع الیدین اساں نیں چھڈنا۔ نبی چھوڑ دے ہم نہیں چھوڑیں گے اسے ضد کہتے ہیں۔ لوگ کہتے ہیں مولویوں کی بات نہیں مانتے میں کہتا ہوں نبی کی بات نہیں مانتے۔ اور جی بڑا ہی بے ادب ہے میں نے کہا خدا کے سامنے اکڑ کرکھڑا ہوتا ہے اگر مولوی کے سامنے اکڑ کر کھڑا ہوجائے تو پھر کیا ہوگا! ایک آدمی خدانال متکاّ لا کے مسیتے کھلوتا اے وہ تمہارے ساتھ متکاّ لگائے تو کون سی حرج کی بات ہے؟ یہ دعا کرو اللہ ان کو کچھ عقل عطا فرمائے۔ (آمین
سوال:
ذاکر نائیک کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے؟
جواب:
ذاکر نائیک بے علم بھی ہے بے عقل بھی ہے۔ مجھے دیکھ کر افسوس ہوتا ہے ہر آدمی کی اپنی رائے ہے۔ ذاکر نائیک کہتاہے صحابہ سمیت چودہ سوسال کے فقہاء اگر تحقیق کر کےگئے ہیں تو میں اس کو دوبارہ چیک کروں گا، انہوں نے غلطیاں کی ہیں۔ وہ چودہ سوسال کے فقہاء صحابہ سمیت کوغلط کہہ دے کوئی اس کا مذاق نہیں اڑاتا۔ میں کہتا ہوں یہ اکیلا غلط ہے، لوگ کہتے ہیں مولوی صاحب کیسی بات کی ہے؟ ذاکر نائیک ہو،اور غلط؟ میں نے کہاعمر بن خطاب ہو اور غلط؟ حضرت عثمان بن عفان اور غلط؟ جو ان کو غلط کہے اس پر تعجب نہیں ہوتا جو اس کو کہے اس پر تعجب ہوتا ہے۔
میں نے حجرہ شاہ مقیم میں بیان کیا وہاں ایک آدمی ملا کہنے لگا مولانا صاحب بیان تہاڈا بڑا زبردست سی۔ میں سمجھ گیا اس نے کوئی بات بعد میں کہنی ہوگی تمہید باندھ رہا ہے، کہتا جی بیان آپ کا زبردست تھا۔ میں نے کہا زبردست نہیں تھا تم وہ بات کہو جو تم نے پانچ منٹ بعد کہنی ہے وہ پہلے بتا دو۔ کہتا ہے یہ جو آ پ کہتے ہیں غیر مقلد ٹھیک نہیں، اہلحدیث ٹھیک نہیں، یہ بات ٹھیک نہیں ہے یہ فرقہ واریت ہے ، میں نے کہا پھر؟ کہتا ہے میں نے ارادہ کیا ہے میں حجرہ شاہ مقیم میں ایک سکول بناؤں گا دینی مدرسہ بھی ہوگا سکول بھی ہوگا اس میں بریلویت کے خلاف بھی بات نہیں ہو گی، غیر مقلدوں کے خلاف بھی بات نہیں ہوگی، دیوبندیوں کے خلاف بھی نہیں ہوگی۔ میں نےکہا کیوں؟ کہتا ہے یہ تینوں غلط ہیں ان تینوں کے خلاف بات نہیں ہوگی۔
میں نے کہا میں کہتا ہوں غیر مقلد غلط ہیں تو میں فرقہ باز، تُو نے تینوں کو غلط کہا، تو تُو فرقہ باز نہیں ہے؟ میں ایک کو غلط کہہ رہا ہوں تو فرقہ واریت ، تو سب کو غلط کہہ رہا ہے پھر بھی فرقہ واریت نہیں۔
ذاکر نائیک چودہ سو سال کے فقہاء کا مذاق اڑائے تو ٹھیک ہے اور ہم ایک ذاکر نائیک کامذاق اڑائیں تو غلط۔ ڈاکٹر ذاکر نائیک سے کہو، ڈاکٹر کا کام ہے پیشاب آئے تو چیک کرو، خون چیک کرو، پاخانہ چیک کرو، شوگر چیک کرو۔ ڈاکٹر کا کام تو مسئلے بتانا نہیں ہے جو اس کا کام تھا وہ اپنا کام کرے جو علماء کا کام ہے وہ علماء اپنا کام کریں۔
سوال:
حضرت عمر رضی اللہ فرماتے ہیں یا ساریۃالجبل پہاڑ کے پیچھے دشمن ہے۔ یہ تو علم غیب نہیں؟
جواب:
دیکھیے یہ کرامت ہے۔ یہ کیا ہے؟ کرامت۔ اللہ دکھانے پر آئے تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ مدینہ منور ہ میں، صحابہ کا لشکر سینکڑوں کلو میٹر دور ہے یہاں سے آواز لگائی یاساریۃالجبل اے ساریہ پہاڑ کو دیکھو پیچھے دشمن موجود ہے۔ اللہ دکھانے پر آئے تو عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کی صف میں یہودی کھڑا ہے خیرات مانگنے کےلیے، حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو اللہ نے نہیں دکھایا۔ اللہ دکھانے پر آئے تو نبی کوکعبہ میں، اللہ بیت المقدس کی کھڑکیاں تک دکھا دے، اللہ نہ دکھانے پر آئے تو نبی حدیبیہ میں ہے عثمان چند کلومیٹر دور مکہ میں ہے اللہ نہ دکھائے۔ اللہ دکھانے پر آئے تو نبی کو کعبہ سے بیت المقدس دکھا دے، نہ دکھائے تو حدیبیہ سے عثمان نہ دکھائے۔
اللہ دکھانے پر آئے تو عمر کو مدینہ سے ساریہ دکھا دے اللہ نہ دکھانے پر آئے تو اپنی مسجد میں بھی یہودی نہ دکھائے۔ یہ تو کرامت ہے۔ یہ کیا ہے؟ کرامت۔ رب چاہے دکھائے رب چاہے تو نہ دکھائے اس میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے اختیار کی تو کوئی بات نہیں ہے۔
سوال:
لوگ کہتے ہیں معاذ اللہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم مرکر مٹی میں مل گئے ہیں۔ یہ عقیدہ رکھنا کیسا ہے؟
جواب:
اللہ پاک لعنت بھیجے ایسے عقیدے رکھنے والوں پر۔ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کا وجود محفوظ بھی ہے۔ معطر بھی ہے اور زندہ بھی ہے۔
سوال:
الصلوٰ ۃ والسلام علیک یا رسول اللہ کہنا صحیح ہے؟
جواب:
حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے روضے پر جا کر کہنا بالکل صحیح ہے۔ اللہ روضے پر لے جائے تو یارسول اللہ بڑے شوق سےکہیں۔
سوال:
ویڈیو بنانا جائز ہے یا نہیں؟
جواب:
اگر شادی ہو تو حرام ہے، گانے ہوں تو حرام ہے دعوتوں پر ناجائز ہے اور حرام ہے۔ اگر دینی پروگرام ہو کہ اپنے عقائد دنیا کو دکھانے ہیں تو پھر گنجائش موجود ہے۔ اور دینی پروگرام ہوں کہ اپنے عقائد ونظریات لوگوں کو دکھائے جائیں تو پھر اس کی گنجا ئش موجود ہے۔وجہ؟ آج ذاکر نائیک کے تم گیت کیوں گاتے ہو؟ وہ میڈیا پر ہے۔ میڈیا پر آیا تو تم نے غلط کو بھی قبول کر لیا ہے اور اگر حق میڈیا پر جائے گا تو لوگ حق کوبھی قبول کریں گے۔
ایک ہوتا ہے شوقیہ بنانا اپنی خوشی اور خواہش کےلیے بنانا، شادیوں پر بنانا، عورتوں کی ویڈیو بنانا، دعوتوں پر بنانا، بلا وجہ ویڈیو بنانا ناجائزہے۔ لیکن اگر دینی نظریات کا پرچار مقصود ہو تو بالکل ایسے ہی جائز ہے جیسے تصویر بنانا حرام ہے لیکن حج پر جانا ہو توتصویر بنانے کی گنجائش موجود ہے۔ ایسے ہی تصویر بناناحرام ہے لیکن عمرے پر جانا ہو تو پھر تصویر کی گنجائش ہے۔ تو بلاوجہ اور بلا ضرورت تو ناجائز ہے اور اگر ضرورت ہو تو پھر اس کی گنجائش ہے۔ گنجائش ہونا اور بات ہے اور اس کو جائز اور بہتر کہنا اور بات ہے۔
سوال:
جرابوں پر مسح کرنا جائزہے؟
جواب:
جرابوں پر مسح کرنے کی کوئی ایک بھی صحیح حدیث موجود نہیں ہے اور یہ صرف میں نہیں کہتا غیر مقلدین کے سب سے بڑے امام شیخ الکل فی الکل مولوی نذیر حسین دہلوی نے فتاویٰ نذیریہ میں لکھا ہے کہ جراب پر مسح کرنے کی کوئی ایک بھی صحیح حدیث موجود نہیں ہے۔
فتوی نذیریہ جلد اول ص327
چلو امام ابو حنیفہ کی نہ مانو اپنے امام کی مان لو۔ لیکن ضد ہے نا ں! میں نے کہا ضد کا بھی کوئی علاج نہیں ہے۔
واٰخر دعوانا ان الحمد للہ رب العٰلمین