فقہ کسے کہتے ہیں

User Rating: 5 / 5

Star ActiveStar ActiveStar ActiveStar ActiveStar Active
 
فقہ کسے کہتے ہیں
بمقام: مدرسہ عمر بن خطاب ،ینگون
بتاریخ: 2013-02-16
الحمد للہ وحدہ لا شریک لہ والصلوۃ والسلام علی من لا نبی بعدہ اما بعد فاعوذ باللہ من الشیطٰن الرجیم بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
ومَا آتَاكُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوهُ وَمَا نَهَاكُمْ عَنْهُ فَانْتَهُوا
الحشر:7
اللھم صل علی محمد وعلی اٰل محمد کما صلیت علی ابراہیم وعلی اٰل ابراہیم انک حمید مجید اللھم بارک علی محمد وعلی اٰل محمد کما بارکت علی ابراہیم وعلی اٰل ابراہیم انک حمید مجید
میں نے جو قرآن کریم کا ایک حصہ تلاوت کیا ہے، اس آیت میں اللہ تعالی نے ایک اصول ارشاد فرمایا ہے
مَا آتَاكُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوهُ وَمَا نَهَاكُمْ عَنْهُ فَانْتَهُوا
جس بات کا میرا پیغمبر حکم دے،اس کو لے لو اور جس سے نبی منع کرے،اس سے باز آجاؤ، اس میں کامیابی ہے دنیا اور آخرت کی۔
تمام شریعت کا خلاصہ
اس کا مطلب یہ ہے کہ شریعت میں دو چیزیں ہیں
ایک کا نام امر ہے،اور ایک کا نام نہی ہے۔ کچھ کام کرنے کے ہیں، کچھ کام بچنے کے ہیں۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اس امت کے طبیب ہیں، اور طبیب روحانی ہیں، طبیب جسمانی نہیں ہیں۔ دنیا کا سب سے اچھا طبیب وہی ہوتا ہے جو خوراک بھی بتائے اور پرہیز بھی بتائے۔ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم امراض روحانیہ کے طبیب ہیں، اس لیے خوراک بھی بتاتے ہیں، پرہیز بھی بتاتے ہیں۔ خوراک کا نام امر ہے اور پرہیز کا نام نہی ہے۔ یہ کا م کرلو اور ان کاموں سے بچو۔
شریعت کا تقاضا اور ہماری کوتاہی
ہماری امت میں جو امراض پیدا ہورہے ہیں، ان میں سے ایک مرض یہ بھی ہےکہ ہم اعمال کی ترغیب تو دیتے ہیں لیکن وہ کام جن سے بچنا چاہیے، ان سے بچنے کی بات نہیں کرتے۔ اس کا نقصان پھر بہت زیادہ ہوتا ہے۔ شریعت میں امر بھی ضروری ہے اور نہی بھی ضروری ہے۔ دونوں کا اہتمام کرنا چاہیے۔ اس وقت جو میرے سامنے ریاض الصالحین کا باب آپ کے اساتذہ نے منتخب کرکے رکھا ہے باب فی النھی عن البدع ومحدثات الامور اس کی وجہ جو میں سمجھا ہوں، ان حضرات کی ذہن میں یہی ہے کہ میر ا کام ہے، بدعات سے روکو۔ میری مناسبت سے موضوع کا انتخاب کیا ہے، حالانکہ میرے موضوع میں دونوں چیزیں ہیں۔ ہم حکم بھی دیتے ہیں اور منع بھی کرتےہیں۔
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنْ جَاءَكُمْ فَاسِقٌ بِنَبَإٍ فَتَبَيَّنُوا
الحجرات:06
بسا اوقات ایک بندہ کام کرتا ہے اور اس کے کام کی شہر ت غلط ہوجاتی ہے۔ اس غلط شہرت کے بعض نقصانات بھی ہوتے ہیں۔ مجھے برما کے حالات کا نہیں پتا لیکن میں کسی ملک میں جب تک نہ جاؤں، تو میرےجانے سے پہلے حالات کچھ اور ہوتے ہیں، لوگ سمجھتے ہیں یہ بہت شرارتی ہے، بہت فسادی ہے، جھگڑالو ہے، اس کی وجہ سے ہمارا مدرسہ خراب ہوگا۔
حالانکہ ایسا نہیں ہے۔ ہماری وجہ سے مدارس برباد نہیں ہوتے،آباد ہوتے ہیں۔ حالات خراب نہیں ہوتے، ٹھیک ہوتے ہیں۔ اس وجہ سے کہ ہمارا صرف مدارس کا تعلق نہیں ہے، ساتھ خانقاہ کا بھی تعلق ہے۔ صرف مدرسوں کا تعلق ہو تو مزاج اور ہوتا ہے اور پشت پر خانقاہ ہو تو مزاج اور ہوتا ہے۔ صرف علم کا فی نہیں ہے، خانقاہوں کے ساتھ علوم کی اشاعت ہو اس میں برکتیں بہت ہوتی ہیں اور آدمی کے مزاج کے اندر اعتدال بھی رہتاہے۔
یہ جو باب فی النھی عن البدع ومحدثات الاموراس کے تحت انہوں نے غالباً 5 یا 6 آیات ذکر کی ہیں اور 2 احادیث ذکر فرمائی ہیں۔ ان میں سے جس جس آیت پر گفتگو کریں، وہ لا جواب ہے۔ میں ان میں ایک آیت پر بات کرتا ہوں صرف سمجھانے کے لیے،اور اپنے کام کی اہمیت بتانے کے لیے۔ آیات تو انہوں نے 6 نقل کی ہیں۔ان میں ایک آیت ہے:
فَإِنْ تَنَازَعْتُمْ فِي شَيْءٍ فَرُدُّوهُ إِلَى اللَّهِ وَالرَّسُولِ
النساء:59
یہ آیت جو میں ذکر کررہاہوں، اس لیے کہ ہمارے ہاں ایک مرض یہ ہے کہ قرآن کریم کی آیت لوگ ٹھیک پڑھتے ہیں، ترجمہ بھی ٹھیک کرتے ہیں، لیکن اس کا مطلب غلط بیان کرتے ہیں۔
ہمارا اور غیر مقلدین کا اختلاف کیوں ہے؟
ہمارا اختلاف قرآن کریم کے الفاظ سے بھی نہیں ہے اور معانی سے بھی نہیں ہے۔ اختلاف مطلب سے ہے۔پھر جب ان کی نہیں مانیں گے تو وہ کہتے ہیں کہ تم قرآن نہیں مانتے۔ ہم کہتے ہیں کہ ہم قرآن تو مانتے ہیں لیکن قرآن کا جو آپ نے مطلب بیان کیا، اس مطلب کو نہیں مانتے۔ قرآن کا نہ ماننا الگ اور قرآن کے بیان کردہ مطلب کا نہ ماننا الگ ہے۔ ہمارے ہاں سلفیت کا مسئلہ ہے، وہ ہمیں یہ بات کہتے ہیں تم اللہ کے نبی کی بات نہیں مانتے۔حالانکہ یہ بات نہیں ہے۔ ہم اللہ کے نبی کی بات تو مانتے ہیں لیکن اللہ کے نبی کی بات کا جو مطلب یہ بیان کرتے ہیں، ہم اس مطلب کو نہیں مانتے۔
یہ عنوان تو بڑا دلچسپ ہے، بڑا پیارا ہے، بڑا علمی عنوان ہے۔ یہ بات سمجھ آئے، تو فتنے سمجھ آتے ہیں۔ یہ بات اچھی طرح سمجھیں۔ مثلا ًجو شوافع ہیں یا جو حنابلہ، مالکیہ، ہمارے مد مقابل ہیں، ان میں سے کوئی بندہ بھی ہمیں یہ نہیں کہتا کہ تم احادیث کو نہیں مانتے، وہ کہتے ہیں کہ حدیث کا جو ہمارے امام نے معنی بیان کیا، آپ وہ نہیں مانتے۔ بات سمجھ آرہی ہے؟ وہی حدیث جب غیر مقلد بیان کرتا ہے، تو ہمیں کہتا ہے تم حدیث نہیں مانتے۔ دراصل وہ کہتے ہیں اس حدیث کا جو ہمارے امام نے معنی بیان کیا ہے، آپ وہ نہیں مانتے اور یہ کہتے ہیں کہ تم حدیث نہیں مانتے۔ فرق سمجھ آگیا؟ حدیث تو ہم مانتے ہیں، حدیث کا بیان کیا ہوا مطلب نہیں مانتے۔ میں اس پر مثالیں دیتا ہوں تو بات سمجھ آجائے گی، آہستہ آہستہ بات چلتی رہے گی، انشاء اللہ۔
تو ایک ہو تا ہے حدیث کا انکار کرنا اور ایک ہوتا ہے حدیث کے بیان کردہ مطلب کا انکار کرنا۔
شوافع کا رفع الیدین درست،غیر مقلدین کا غلط کیوں
شوافع رفع الیدین کرتے ہیں، ہم نہیں کرتے، لیکن اُن سے[شوافع سے] ہمارا مناظرہ نہیں ہوتا، اِن سے [غیر مقلدین سے]ہوتا ہے۔ شوافع رفع الیدین کرتے ہیں، ہم ان کی نماز کو سنت کے مطابق کہتے ہیں، اِن کی[غیر مقلدین کی] نماز کو سنت کے خلاف کہتے ہیں۔ بات سمجھ آرہی ہے؟ اس کی وجہ آپ سمجھیں!
قرآن،حدیث اور فقہ کیا ہیں؟
ایک ہے آیت کا انکار اور ایک ہے آیت کے بیان کردہ مطلب کا انکار۔ دونوں میں فرق ہے۔ یہ جو قرآن کریم کی آیت میں نے تلاوت کی ہے، اس سے پہلے یہ الفاظ ہیں
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَأُولِي الْأَمْرِ مِنْكُمْ
النساء:59
اے ایمان والو! اللہ کی بات مانو، پیغمبر کی بات مانو اور فقہا ء کی بات مانو۔ اولی الامر کا معنی فقہاء فی الدین۔
(1) اللہ کی بات مانو
(2) پیغمبر کی بات مانو
(3) فقہاء کی بات مانو
اتنی بات تو سمجھ آتی ہے نا؟
اللہ کی بات مانو ،پیغمبر کی بات مانو،فقہاء کی بات مانو
بات سمجھنا! اللہ کی بات کانام قرآن ہے، پیغمبر کی بات کا نام حدیث ہے،فقہاء کی بات کا نام فقہ ہے۔ تو فقہ کو ماننے کا حکم قرآن میں ہے۔ جو شخص فقہ کو نہیں مانتا، منکر قرآن ہے۔ اور منکر قرآن بھلا مومن ہوسکتا ہے؟ [سامعین: نہیں]اگر یہ حضرات امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ تعالی کی فقہ کو نہیں مانتے، ٹھیک ہے، نہ مانیں۔ امام شافعی رحمہ اللہ تعالی کی مان لی۔ اور ایک بندہ مطلقاً فقہ ہی کا انکار کرتا ہے۔ایسا بندہ مسلمان نہیں ہوسکتا۔
یہ بات اچھی طرح سمجھ لیں! ہم ترک رفع الیدین والی حدیث کو مانتے ہیں، رفع یدین کا انکار کرتے ہیں، حدیث کا انکار نہیں کرتے بلکہ ہم کہتے ہیں یہ احادیث پہلے کی ہیں، یہ منسوخ ہیں،یعنی مؤوّل ہیں۔ ایک بندہ دونوں حدیثوں کو چھوڑتا ہے، مانتاہی نہیں۔ دونوں میں فرق ہے۔ تو جس طرح حدیث کی بات ماننا قرآن کریم میں ہے، فقہ ماننا بھی قرآن میں ہے، تو فقہ کا انکار کرنا قرآن کا انکار کرنا ہے۔
غیر مقلدین کا آیت سے غلط استدلال اور اس کا جواب
غیر مقلد کیا کہتے ہیں؟ سلفی کیا کہتے ہیں؟ کہتے ہیں جی آپ آگے پڑھیں
فَإِنْ تَنَازَعْتُمْ فِي شَيْءٍ فَرُدُّوهُ إِلَى اللَّهِ وَالرَّسُولِ إِنْ كُنْتُمْ تُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ ذَلِكَ خَيْرٌ وَأَحْسَنُ تَأْوِيلًا
النساء:59
اگر تمہارا کسی مسئلے میں جھگڑا ہوجائے، فیصلہ اللہ تعالی اور اللہ تعالی کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے کروائیں۔ اور تم فیصلہ ائمہ اور فقہاء سے کراتے ہو اس لیے تم قرآن کو نہیں مانتے۔ بات سمجھ آگئی ہے؟ فَإِنْ تَنَازَعْتُمْ فِي شَيْءٍ فَرُدُّوهُ إِلَى اللَّهِ وَالرَّسُولِ اور تم اللہ اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی بجائے اپنے اختلافات کا فیصلہ اپنے امام سے کراتے ہو، تو تم قرآن نہیں مانتے۔ اب اس کا مطلب اچھی طرح سمجھیں۔ ہم کہتے ہیں اس آیت میں خطاب دو ہیں

ایک خطاب خواص کو ہے

ایک عوام کو ہے
یہ جو پہلا خطاب ہے يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواأَطِيعُوااللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ یہ عوام کو ہے۔ فَإِنْ تَنَازَعْتُمْ فِي شَيْءٍ یہ خواص کو ہے۔ پہلا خطاب کس کو ہے؟ عوام کو۔
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَأُولِي الْأَمْرِ مِنْكُمْ تینوں کی بات مانو۔
فَإِنْ تَنَازَعْتُمْ فِي شَيْءٍ فَرُدُّوهُ إِلَى اللَّهِ وَالرَّسُولِ إِنْ كُنْتُمْ تُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ ذَلِكَ خَيْرٌ وَأَحْسَنُ تَأْوِيلًا
یہ خطاب اولی الامر کو ہے،خواص کو ہے۔ اگر تمہارا کسی مسئلے میں اختلاف ہوجائے تو تم اللہ اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے بات پوچھو۔ اس پہ قرینہ لفظ رد ہے۔فَرُدُّوهُ إِلَى اللَّهِ وَالرَّسُولِاسی کا نام قیاس ہوتا ہے۔ رد کیا ہوتا ہے؟ کہ آپ کے پاس نص موجود ہے، دوسرا مسئلہ پیش آگیا، اس مسئلے کے لیے کیا کریں گے؟ اس مسئلے کے لیےاس کی کوئی نظیر تلاش کریں گے اور جب وہ نظیر ملے گی، اس نظیر والا حکم اس جگہ پر بھی لے آئیں گے۔اس کا نام قیاس ہوتا ہے۔ اب نظیر کون تلاش کرےگا؟ عام آدمی کے بس میں تو نہیں ہے، میری بات سمجھ آرہی ہے؟ عام آدمی کے بس میں نہیں ہے۔
مثال عام مشاہداتی زندگی سے
میں اس پرمثال دیتا ہوں، آپ بات جلدی سمجھ جائیں گے
مثلا چیونٹی ہے، وہ کھانے میں گرگئی ہے۔ اب یہ کھا نا پاک ہے یا ناپاک؟ چیونٹی گری اور مرگئی، دودھ میں گرگئی، گھی میں گرگئی، مٹھائی میں گرگئی اور مر گئی۔ اب یہ پاک ہے یا ناپاک ہے؟
نہ قرآن میں مسئلہ ہے نہ حدیث میں اب اس کو کہاں سے تلاش کریں
فَرُدُّوهُ إِلَى اللَّهِ وَالرَّسُولِ
اب تم قران کریم دیکھو اور احادیث دیکھو کہ کیا اس چیونٹی سے ملتا جلتا اس جیسا کوئی جانور کسی جگہ گرا ہو اور اللہ تعالی اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا ہو، اُس پر اِس کو قیاس کیا جائے، تو یہ عام بندے کا کام نہیں ہے، عام بندے کو ساری احادیث آتی ہی نہیں ہیں، اب یہ تلاش کرے گافقیہ اولی الامر۔مجتہدین نے تلاش کیا ان کو حدیث مل گئی
إِذَا وَقَعَ الذُّبَابُ فِى إِنَاءِ أَحَدِكُمْ فَامْقُلُوهُ فَإِنَّ فِى أَحَدِ جَنَاحَيْهِ دَاءً وَفِى الآخَرِ شِفَاءً وَإِنَّهُ يَتَّقِى بِجَنَاحِهِ الَّذِى فِيهِ الدَّاءُ فَلْيَغْمِسْهُ كُلَّهُ
سنن ابی داود،رقم الحدیث:3846،با ب فی الذباب یقع فی الطعام
اگر مکھی تم میں سے کسی کے کھانے میں گر جائے؟ مکھی کھانے میں گر جائے تو مکھی کو ڈبو کر نکال دو اور کھانا استعمال کرنا چاہو، تو کرلو لیکن حکم یہ دیا کہ مکھی کو ڈبو کر نکالو، اب اس حدیث میں دو حکم ہیں
نمبر 1: مکھی کو ڈبو کر نکالو
نمبر 2: اس کھانےکا کھانا جائز ہے
احادیث کی علت وحکمت فقیہ کے ذمے
اب مکھی کو ڈبونا ہے اس کی علت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود بیان فرمائی ہے اور کھانا جائز ہے اس کی علت اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان نہیں فرمائی۔ایک علت بتائی، ایک علت چھوڑ دی۔ جس کی ضرورت تھی بتادی اور جس میں نہ بتانا ضروری تھا،وہ نہیں بتائی۔ یہ مجتہد پر چھوڑدیا۔فرمایا کہ مکھی کے دو پر ہیں:

ایک پر میں بیماری ہوتی ہے۔

ایک میں شفا ہوتی ہے۔
تم دونوں ڈبو دو، کیوں؟ تاکہ بیلنس برابر ہوجائے، جیسا کھانا پہلے تھا، ایسے ہی مکھی گرنے کے بعد ہے، کیونکہ مکھی گری ہے، اب کیا پتا شفا والا پر ہے یا وبا والا؟ جب دونوں ڈوب جائیں گے بیماری اور شفا دونوں ڈوبے ناں! جیسے کھا نا پہلے تھا مکھی کے گرنے کے بعد بھی ایسا ہی ہوگا۔ اب چیونٹی میں تو دو پر نہیں ہیں کہ آپ اس کو ڈبو کر نکالیں۔ بات سمجھ آرہی ہے؟ اس لیے چیونٹی کو ڈبونے کی ضرورت نہیں۔
اگلا مسئلہ کیا تھا؟ کہ اگر تم کھانا استعما ل کرنا چاہو، تو کرو۔ یہ کھانا ناپاک نہیں ہے۔ یہ کھانا حرام نہیں ہے کیونکہ علت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان نہیں فرمائی، یہ مجتہدین کی رائے پہ چھوڑدی ہے۔ امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ نے علت تلاش کی ہے۔
امام صاحب فرماتے ہیں علت یہ ہے کہ مکھی اتنا چھوٹا جانور ہے جس کی رگوں میں گردش کرنے والا خون نہیں ہوتا۔علت سمجھیں! یہ علت آپ تلاش کریں گے، کتابوں میں یوں لکھی ہوئی نہیں ملے گی، جیسے میں بتارہا ہوں آپ کو۔ مکھی اتنا چھوٹا جانور ہے کہ ان میں گردش کرنے والا خون موجود نہیں ہے، لہذا یہ ہر اُس جانور کا حکم ہے جو چھوٹا ہو اور اس کی رگوں میں گردش کرنے والا خون موجود نہ ہو۔ اب ہم نے چیونٹی کو دیکھا، تو چیونٹی بھی ایسی ہے اس کی رگوں میں گردش کرنے والا خون نہیں ہے۔ جو حکم مکھی کا تھا ہم نے چیونٹی کو دے دیا۔
اب پہلے ایسی نص تلاش کرنا، جس میں اِس جیسے جانور کا حکم ہو، پھر ان دونوں میں قدرِ مشترک علت کو تلاش کرنا، اسے ”رد“ کہتے ہیں۔ یہ رد عوام کا کام نہیں ہے، خواص کا ہے۔ اس سے پتا چلا۔فَإِنْ تَنَازَعْتُمْکا خطاب عوام کو نہیں بلکہ خواص کو ہے۔ اب غیر مقلد چونکہ سمجھا نہیں تو غلط فہمی کے اندر مبتلا ہوگیا۔ اس لیے آیت میں دو حکم ہیں: ایک عوام کو،ایک خواص کو۔
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَأُولِي الْأَمْرِ مِنْكُمْ
یہ خطاب کس کو ہے؟ [سامعین:عوام کو] فَإِنْ تَنَازَعْتُمْ یہ خطاب کس کو ہے؟ سامعین:خواص کو
آپ یوں سمجھیں
دیکھیں! میں اس کی ایک مثال دیتا ہوں۔ دو دکاندار وں کا جھگڑا ہوا کسی مسئلے پر، دونوں کس کے پاس جائیں گے؟ مفتی کے پاس۔ دومفتیوں کا جھگڑا ہوا، یہ کس کے پاس جائیں گے؟ یہ اب قرآن و حدیث دیکھیں گے
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَأُولِي الْأَمْرِ مِنْكُمْ یہ تاجر ہے۔ فَإِنْ تَنَازَعْتُمْ
یہ مفتی ہے۔ جب تاجرو ں میں اختلاف ہوتو علماء سے پوچھیں۔ جب علماء میں اختلاف ہے تو قرآن و حدیث کھولیں۔
فَإِنْ تَنَازَعْتُمْ فِي شَيْءٍ فَرُدُّوهُ إِلَى اللَّهِ وَالرَّسُولِ
وہ اپنا کام کریں، یہ اپنا کام کریں۔ اب آیت اگرسمجھ آئی تو جھگڑ انہیں،اگر سمجھ نہیں آئی تو پھر جھگڑا ہوگا۔
بات سمجھ آگئی ناں! میں نے صرف ایک بات عرض کی ہے، اللہ ہمیں بات سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے۔ تو اس لیے اللہ پا ک نے فرمایا ف
َإِنْ تَنَازَعْتُمْ فِي شَيْءٍ فَرُدُّوهُ إِلَى اللَّهِ وَالرَّسُولِ
آگے کیا فرمایا؟
إِنْ كُنْتُمْ تُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ ذَلِكَ خَيْرٌ وَأَحْسَنُ تَأْوِيلًا
یہ کام وہ کرے گا جس کو اللہ سے ملنا ہے،جس کو خدا کا ڈر ہے، قیامت کو مانتا ہے۔ کیا مطلب؟ جو اللہ اور قیامت کو مانتا ہے، وہ شریعت کے احکام میں گڑ بڑ نہیں کرے گا،وہ غلط ثابت نہیں کرے گا، وہ شریعت میں فساد نہیں ڈالے گا۔ اسے پتا ہےکہ کل میں خدا کو جواب دوں گا، تو جو کام اس کا ہے وہ کرے گا، جو نہیں وہ نہیں کرے گا۔ تو عوام عوام والا کام کریں، خواص خواص والا کام کریں۔
إِنْ كُنْتُمْ تُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ ذَلِكَ خَيْرٌ وَأَحْسَنُ تَأْوِيلًا
اللہ فرماتے ہیں دیکھو یہی بہتر ہے، یہ تمہارے کام بھی بہتر، انجام بھی بہتر ہے۔
جس کا کام اسی کو ساجھے
اس لیے عوام عوام والا کام کریں اور خواص خواص والا کام کریں۔ میں خواص سے گزارش کرتا ہوں آپ اپنے منصب پر رہیں، نیچے مت آئیں۔ اور عوام سے کہتا ہوں، اوپر مت آئیں،اپنی جگہ پر رہیں۔ ہمارے ہاں دونوں طبقے گڑ بڑ کرتے ہیں، خواص اپنا کام نہیں کرتے پھر عوام اُن والا کام کرتی ہے۔ پھر فساد تو ہونا ہے۔ اس لیے ہر آدمی کو اپنے اپنے کام کے اندر رہنا چاہیے۔ اس میں اللہ برکتیں عطا فرماتے ہیں۔ میں ساتھ اس سے متعلقہ ایک حدیث بھی پڑھتا ہوں۔
فَإِنْ تَنَازَعْتُمْ فِي شَيْءٍ فَرُدُّوهُ إِلَى اللَّهِ وَالرَّسُولِ میں نے آپ سے کہا فَإِنْ تَنَازَعْتُمْ اس کو کہتے ہیں نزاعی امرمیں اختلاف کرنا۔ یہ ہر بندے کا کام نہیں ہے۔ اس کی دلیل صحیح بخاری میں موجود ہے
عَنْ عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ قَالَ بَايَعْنَا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى السَّمْعِ وَالطَّاعَةِ فِي الْمَنْشَطِ وَالْمَكْرَهِ وَأَنْ لَا نُنَازِعَ الْأَمْرَ أَهْلَهُ وَأَنْ نَقُومَ أَوْ نَقُولَ بِالْحَقِّ حَيْثُمَا كُنَّا لَا نَخَافُ فِي اللَّهِ لَوْمَةَ لَائِمٍ
صحیح البخاری،رقم الحدیث:7199، باب كيف يبايِع الامام الناس
حضرت عبادہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ پر بیعت کی، یہ جو اہل نزاع اہل امر ہیں ان کے معاملے میں ہم ان کا رد نہیں کریں گے، ان کی بات قبول کریں گے۔ اللہ تعالی کے نبی صلی اللہ تعالی علیہ وسلم اس پر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے بیعت لے رہے ہیں کہ اپنا کام کریں اور آپ اہل امر کے کام میں مداخلت مت کریں۔ اللہ ہمیں یہ بات سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے! اللہ مجھے بھی اور آپ کو بھی قرآن فہمی عطا فرمائے۔
عقیدہ پر بات کرنے کی اہمیت
آدمی جب بات سمجھتا ہے تو پھر بات سمجھاتا ہے۔ اور جب سمجھے ہی نہیں تو پھر سمجھانا کیا ہے۔ ہمارے ہاں کبھی ساتھی کہتے ہیں کہ ہمارے امام صاحب عقیدے پر بات نہیں کرتے۔ یہ ہمارے لوگ کہتے ہیں، مجھے آپ کا نہیں پتا، ہمارے ہاں کہ امام مسجد عقیدے پر بات نہیں کرتے، میں نے کہا کہ ہمیں دکھ یہ نہیں ہے کہ عقیدے پر بات نہیں کرتے، ہمیں دکھ یہ ہے کہ ہمارے امام صاحب کو عقیدہ آتا ہی نہیں ہے۔ عقیدہ آئے گا تو بیان کرے گا۔ آئےگا ہی نہیں تو بیان کیسے کرے گا۔
ادھر مدرسے میں جب آئیں بیان کرنے کے لیے تو بعض طالب علم ہوتے ہیں، بیان سے پہلے چند منٹ ہوتے ہیں۔ کہتے ہیں استاد جی! تلاوت کرلیں؟ ایسے ہوتا ہے کہ نہیں؟ کوئی بیان ہو تو بعض طالب علم خود سٹیج کے قریب کھسک جاتے ہیں، کہتے ہیں میں نے نعت پڑھنی ہے،میں نے تلاوت کرنی ہےایسے ہوتا ہے کہ نہیں؟ جن کو تلاوت آتی ہے وہ خود آتے ہیں اور جن کو نہیں آتی، ان کواستاد بلاتا ہے ادھر آؤ تلاوت کرو۔کہتا ہے میرا ذوق نہیں ہے۔ ذوق نہیں،آتی ہی نہیں۔ جس کو آتی ہو وہ سپیکر کے قریب آتا ہے اور جس کو نہ آتی ہو، پہلے ہی دور بھاگتا ہے کہ استاد مجھے نعت کے لیے نہ کہیں! ایسے ہی جس عالم کو عقیدہ آئے گا،اس نے عقیدہ چھیڑنا ہے اور جس کو نہیں آئے گا،وہ کبھی بیان نہیں کرے گا۔
خود سمجھیں پھر اوروں کو سمجھائیں
دعا کریں اللہ ہمیں اپنا عقیدہ، مسلک اور اپنا مذہب سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اصل مسئلہ تو سمجھنا ہے۔سمجھانا اگلا مسئلہ ہے۔ ہم تو یہ کہتے ہیں کہ ہمارے حضرات کو اپنی بات سمجھ آجائے۔ اللہ مجھے بھی اور آپ کو بھی عمل کی توفیق عطا فرمائے!
میں نے جو ایک بات بیان کی ہے یہ ایک بات ہزار باتوں سے افضل ہے، اگر آپ حضرات کو سمجھ آجائے۔ میں دس پندرہ منٹ میں کئی اصول دیتا ہوں، جو سمجھ جاتا ہے اس کو مزا دیتے ہیں۔ عام بندے کو ہمارے بیان میں پورا مزا نہیں آتا۔ یہ تو کہتا ہے کہ زبر دست بیان ہے۔ زبر دست کے اندر کیا ہے اس کا پتا نہیں چلتا۔ مطلب یہ ہے کہ جو بندہ باذوق ہوتا ہے، وہ سمجھتا ہے۔
اللہ ہم سب کو باذوق بنائے اور علمی باتوں کو سمجھنے اور صحیح معنوں میں ان سے لطف اندوز ہونے کی توفیق مرحمت فرمائیں۔ آمین
وما علینا الا البلاغ