ذاتِ پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم

User Rating: 5 / 5

Star ActiveStar ActiveStar ActiveStar ActiveStar Active
 
ذاتِ پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم
بمقام: رونق مسجد، ینگون
بتاریخ:2013-02-17
الحمدللہ، الحمد للہ نحمدہ ونستعینہ ونستغفرہ ونؤمن بہ ونتوکل علیہ ونعوذ باللہ من شرور انفسنا ومن سیئات اعمالنا من یھدہ اللہ فلا مضل لہ ومن یضلل فلا ھادی لہ ونشھد ان لا الہ الا اللہ واشھد ان سیدنا ومولٰنا محمد ا عبدہ ورسولہ اما بعد
فاعوذ باللہ من الشیطٰن الرجیم بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللَّهِ وَالَّذِينَ مَعَهُ أَشِدَّاءُ عَلَى الْكُفَّارِ رُحَمَاءُ بَيْنَهُم
الفتح:129
عن ابی ھریرۃ رضی اللہ عنہ قال قال النبی صلی اللہ علیہ وسلم فضلت على الأنبياء بست أعطيت جوامع الكلم ونصرت بالعرب وأحلت لي الغنائم وجعلت لي الأرض مسجدا وطهورا وأرسلت إلى الخلق كافة وختم بي النبيون
جامع الترمذی رقم الحدیث:1553باب ما جاء فی الغنیمۃ
اللھم صل علی محمد وعلی اٰل محمد کما صلیت علی ابراہیم وعلی اٰل ابراہیم انک حمید مجید اللھم بارک علی محمد وعلی اٰل محمد کما بارکت علی ابراہیم وعلی اٰل ابراہیم انک حمید مجید
نام محمد سے دلوں کو سرور ملتا ہے
نگاہ فِکر کو تازہ شعور ملتا ہے
نصیب کیسا بھی ہو واسطہ احمد کا دے کر
خدا سے جو بھی مانگیں ضرور ملتا ہے
نہ مے کا ذکر نہ پینے کی بات کرتے ہیں
ہم اہل دل ہیں مدینے کی بات کرتے ہیں
وہ مردہ دل ہے جو قائل نہیں حیات النبی کا

ہم زندہ دل ہیں اور جینے کی بات کرتے ہیں

 
ختمِ نبوت کاکام ضروری کیوں؟
معزز علماء کرام، میرے نہایت واجب الاحترام بزرگو، مسلک اہل السنۃ والجماعۃ سے تعلق رکھنے والے غیور نوجوان دوستو اور بھائیو! مولانا حافظ محمد علی کے کہنے کےمطابق ہمارے ہاں رنگون میں اردو زبان میں تحفظ ختم نبوت کے عنوان پر اس سطح کا پہلا اجتماع ہے۔بقول ان کے ہماری زندگی میں اس سے قبل اردو زبان میں ایسا اجتماع نہیں ہوا۔
حضرت مولانا ہدایت اللہ صاحب دامت برکاتہم یہ بات فرمارہے تھے کہ تحفظ ختم نبوت کے عنوان پر ہر خطیب کواپنی مسجد میں کچھ نہ کچھ کہنا چاہیے۔میں کہتا ہوں کچھ کچھ نہیں، سب کچھ کہنا چاہیے۔ ختم نبوت ہماری بنیاد ہے۔اس سے ہمیں سب کچھ ملتاہے۔ ہمارا یہ اجتماع اسی عنوان پہ ہے۔
میں اس اجتماع میں قرآن کریم کی آیت کریمہ اور حدیث مبارکہ کی روشنی میں جو بات کہنا چاہتاہوں اگر وہ پوری بات کروں ایک حدیث مبارک کی شرح کروں تو آپ کے کئی گھنٹے لگنے ہیں اور حدیث مبارک کی شرح پوری نہیں ہونی لیکن میں اپنے عنوان کو سمیٹ کے بات کرتاہوں۔ اللہ رب العزت کو منظور ہوااور ہمارے اکابر کا مشورہ ہوا تو آئندہ سفر انشاءاللہ دس دن کا رکھیں گے جس میں مَیں بھی کھل کے بات کروں، آپ بھی کھل کے بات سنیں۔ آپ کی بھی پیاس بجھے اور میں بھی جام پیش کروں۔آپ کی خدمت میں تھوڑے وقت میں میں بہت ساری باتیں کہنا چاہوں تو کہہ نہیں سکتا۔ پاکستان میں تو ہماری ترتیب یہ ہے کہ جب ٹائم تھوڑا ہو اور بات زیادہ کہنی ہو تو میں سپیڈ تیز کردیتا ہوں۔
وقت تھوڑا، سپیڈ زیادہ
آپ میں سے جو حضرات مجھے سنتے ہیں ان کو اس بات کا اندازہ ہے کہ بعض اوقات ہم 120 کی بجائے 160 کی سپیڈ سے گاڑی دوڑا لیتے ہیں۔ تھوڑے وقت میں سفر زیادہ طے ہوتا ہے آپ کے ہا ں اگر میں نے گاڑی 160 کی سپیڈ سے دوڑائی تو برما کے روڈ اس کے متحمل نہیں ہیں کہ وہ 160 کو برداشت کریں، 120 کی رفتار برداشت نہیں کرسکتے 160 کی کیسے کریں گے؟
اس جملے کا مطلب کیاہے، یہ سمجھ لیں، میری اردو کو برما کا دماغ قبول کرے یہ بہت مشکل ہے،کراچی والوں کا دماغ اتنی جلدی قبول نہیں کرتا تو آپ کیسے کریں گے۔اس لیے مجھےسمجھانے کے لیے آہستہ آہستہ بات کہنی پڑتی ہے۔
قرآن اور ذات ِ نبوت
قرآن کریم کی آیت کی روشنی میں تین باتیں ذہن میں رکھیں:

1.

پیغمبر کی ذات

2.

پیغمبر کی بات

3.

پیغمبر کی جماعت
پہلی بات
میری عادت ہے کہ میں گفتگو کا عنوان دے کر بات کرتا ہوں۔جہاں سے بات شروع کروں گا وہیں بات ختم کروں گا۔ درمیان میں تفصیلات ہوں گی، خلاصہ پھر دہراؤں گا، اس لیے کہ میں نے بیان سمجھانا بھی ہے اور یاد بھی کرانا ہے۔کبھی آدمی بیان سمجھتا ہے،یاد نہیں کرتا۔کبھی یاد کرتا ہے،سمجھتا نہیں ہے۔ میں نے سمجھا نا بھی ہے اور یاد بھی کرانا ہے۔ دونوں کام کرنے ہیں۔آپ دونوں کاموں کے لیے تیار رہیں۔
دوسری بات
میں مسلک اہل السنۃ والجماعۃاحناف دیوبند کا خطیب نہیں ہوں، میں مسلک اہل السنۃ والجماعۃ کا وکیل ہوں۔ خطیب کا انداز اور ہوتا ہے،وکیل کا انداز اور ہو تا ہے۔ خطیب مؤقف پیش کرتا ہے اور وکیل وجہ پیش کرتا ہے، خطیب مسلک کو پیش کرتاہے اور وکیل مسلک کی علتیں پیش کرتاہے،خطیب پیش کرتا ہے یہ مسئلہ ہے، وکیل کہتا ہے یہ مسئلہ کیوں ہے؟ توکیوں تک جاناوکیل کا کام ہے، خطیب کا کام نہیں ہے۔خطیب کے ذمے دلیل پیش کرنانہیں،اگر پیش کرے تو اس کی مہربانی اور وکیل کے ذمے دلیل پیش کرنی ہے۔
اپنوں کو خود سے دور نہ کریں!
جیسے ہمارے ہاں تبلیغی جماعت پوری دنیا میں کام کرتی ہے، اللہ اس کو مزید قبولیت عطا فرمائے،ہماری جماعت ہے،ہماری جماعت میں کوئی سقم ہو تو بر داشت کرنا چاہیے۔کمزوری کی وجہ سے ان کو سینوں سے الگ نہیں کرنا چاہیے۔ یہ حکمت کے خلاف ہے۔علامہ سید یوسف بنوریؒ فرماتے تھے کہ جس بھینس کا دودھ آپ پیتے ہیں اس کا گوبر بھی آپ کو اٹھا نا ہے۔یہ نہیں ہوسکتا کہ دودھ آپ پییں او ر گوبر محلے والے اٹھائیں۔
تو جن دینی جماعتوں سے آپ نفع اٹھا ئیں،اگر ان میں کچھ کمزوریاں ہوں ان کو آپ نے برداشت کرنا ہے۔کچھ کمزوریاں خانقاہوں میں بھی آسکتی ہیں، کچھ مدارس میں بھی آسکتی ہیں،کچھ تبلیغ والوں میں بھی آسکتی ہیں۔ اپنے افراد کی وہ کمزوری دور کرو ،ان کو دور نہ کرو۔ اللہ ہمیں بات سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے۔ میں صرف بتارہا تھا کہ پوری دنیا میں تبلیغی جماعت کا نیٹ ورک ہے۔ان کا کام فضائل والا ہے۔میری جماعت اتحاد اہل السنۃ والجماعۃ ہے۔ ہمارا کام دلائل والا ہے۔ تو فضائل بھی ضروری ہیں اور دلائل بھی ضروری ہیں۔ اگر آپ کو نمازی بنانا ہے توفضائل نمازکھول لیں، اگر نمازی بچانا ہے تو ہماری دلائل نمازکھول لیں۔
فضائل بھی ضروری، دلائل بھی ضروری
فضائل نماز بھی ضروری ہے اور دلائل نماز بھی ضروری ہے۔بعض فضائل برسائیں تو دلائل کا انکار کرتے ہیں اور بعض دلائل برسائیں تو فضائل کا انکار کرتےہیں۔ ہم فضائل والے بھی ہیں اور دلائل والے بھی ہیں۔ بعض اتنے نرم ہوتے ہیں کہ غیروں کے لیے بھی نرم ہوتے ہیں اور بعض اتنے گرم ہوتے ہیں کہ اپنوں کے لیے بھی گرم ہوتے ہیں۔ہم نرم بھی ہیں اور گرم بھی ہیں۔ نرم اپنوں کے لیے،گرم غیروں کےلیے۔ مزاج میں اعتدال رکھیں تو شریعت پر عمل کرنا آسان ہے، مزاج میں اعتدال ختم کریں تو شریعت پر عمل کرنا بہت مشکل ہے۔
آمدم بر سرِ مطلب
تو میں نے آیت کریمہ کی روشنی میں تین باتیں پیش کرنی ہیں۔

پیغمبر کی ذات

پیغمبر کی بات

پیغمبر کی جماعت
پہلے پیغمبر کی ذات ہے،پھر پیغمبر کی بات ہے اور پھر پیغمبر کی جماعت ہے۔ ہم پہلے نبی کی ذات کو مانتے ہیں، پھر نبی کی بات کو مانتےہیں، پھر نبی کی جماعت کو مانتےہیں۔اسی ترتیب سے قرآن نے ذکر کیا ہے۔ محمد یہ پیغمبر کی ذات ہے۔ رسول اللہ یہ پیغمبر کی بات ہے۔والذین معہیہ پیغمبر کی جماعت ہے۔
اہل دیوبند اور قرآن
تو جو ترتیب قرآن نے دی ہے،ہم دیوبند والے اسی ترتیب پہ چلتے ہیں۔ کوئی سہارنپور والا ہو تو ناراض نہ ہو،کوئی ندوہ والا ہوتو ناراض نہ ہو، کوئی نظام الدین والا ہوتو ناراض نہ ہو، دیوبند ہم سب کی ماں ہے۔ اس لیے بچے سب الگ الگ ہوں تو سب کا نام نہیں لیا جاتا، ماں کا نام لیاتو گویا سب کا لیا۔ اس لیے میں گزارش کرتا ہوں کہ دل چھوٹا نہ کریں، بڑا رکھا کریں۔ ہم چھوٹی چھوٹی باتوں پہ روٹھ جاتے ہیں کہ فلاں کا نام لیا ہمیں چھوڑ دیا۔ ہم سب کو مانتے ہیں لیکن ماں ماں ہوتی ہے اولاد اولاد ہوتی ہے۔اللہ ہمیں یہ بات سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے۔
میں یہ بتارہاہوں کہ دیوبند والے قرآن کو پڑھتے بھی ہیں، سمجھتے بھی ہیں اور بحمداللہ قرآن کو پھیلاتے بھی ہیں۔جس قدر انہوں نے قرآن کو سمجھا ہے اور جس طرح قرآن مجید کو پھیلایا ہے اس کی مثال دور حاضر میں نہیں ملتی اور جیسے قرآن پہ عمل کرکے دکھایا ہے اس کی مثال بھی دور حاضر میں نہیں ملتی۔ اللہ رب العزت ان کو قبولیت عطا فرمائے۔ ہمارے اکابر علماء دیوبند ایک سے ایک بڑھ کرہیں۔ ہم ان اکابر پر ناز کرتے ہوئے کہتے ہیں:
اولئک اٰبائی فجئنی بمثلہم

اذا جمعتنا یا جریر المجامع

 
میں اس کاترجمہ نہیں کروں گااس لیے کہ میں نے پہلے اپنے میزبان سے پوچھا تو اس نے کہا کہ علماء کا اجتماع ہے۔ میں نے کہا کہ پھر مجھے علماء کی سطح کی بات کرنے دیں،پھر مجھے نیچے مت اتاریں۔
علماء کا مجمع ہو تو بات کا لطف آتا ہے۔طلباء ہوں تو پھر لطف تھوڑا کم آتا ہے۔ عوام ہوں تو پھر اور کم ہوتا ہے۔ اس لیے کہ علماء کے مجمع میں ان کی سطح کی بات کرتے ہیں۔ طلباء میں تھوڑا نیچے اترنا پڑتا ہے، عوام میں اور نیچے اترنا پڑتا ہے۔ ہم اپنے اکابر کو دیکھیں تو ہم کہتے ہیں
اولئک آبائی فجئنی بمثلہم

اذا جمعتنا یا جریر المجامع

 
ہمارے اکابر جیسا کوئی ہے،تو لاؤ! میں اگلا جملہ کہتا ہوں کہ

لیس الفتی من یقول کا ن

ابی

ان الفتی من یقول ھا انا ذا

 
پہلوان وہ نہیں ہوتا ،جو کہتا ہے کہ میرا باپ پہلوان تھا۔پہلوان وہ ہوتا ہے جو کہتا ہے کہ مجھ سے پنجہ آزمائی کرو۔ ہم کہتے ہیں قاسم نانوتوی بڑے تھے،آپ ان کےبیتے سے بات کرو۔حسین احمد مدنی بڑے تھے،ان کی اولاد سے بات کرو۔ مولانا تھانوی بڑے تھے، ہم سے بات کرو۔ ہمیں کراس کرو گے تو ہمارے اکابر تک جاؤگے۔
جتنی عقل اتنی بات
آپ نہیں سمجھے میری بات! پھر مجھے کہتے ہیں کہ پاکستان والا بیان کرو۔ میں کہتا ہوںسمجھو گےنہیں تو میں کروں گاکیسے؟ پوری بات وہ سمجھتا ہے جو بیان سنتا رہتا ہے۔ اگر میں یہ جملہ پاکستان میں کہتا تو پورا مجمع اچھلتا۔ اس لیے کہ ان کو پتا ہوتا ہے کہ یہ مولانا کیا کہنا چاہتے ہیں۔تم کو پتا ہی نہیں میں کیا کہنا چاہ رہا ہوں۔اس لیے میں کہتا تھا ان سے کہ مجھ سے برما میں، برما والے بیان کرواؤ۔ آپ تو ینگون والے ہیں، ینگون والا بیان چلنے دیں۔ آہستہ آہستہ بیان سنیں، ان بیانا ت کا تحمل آپ میں نہیں ہے، آپ کو سمجھ نہیں آنا کہ مولانا کیا کہنا چاہتے ہیں۔ اللہ ہمیں بات سمجھنےکی توفیق عطا فرمائے! جتنی عقل ہو، اتنی بات کہتے ہیں۔عربی مقولہ ہے كَلِّمُوا النَّاسَ عَلَى قَدْرِ عُقُولِهِمْتو جب عقل ہوگی تو بات کریں گے۔اللہ ہمارے اکابر کی وجہ سے ہمیں عقل سلیم عطا فرمائیں۔
موضوع ذہن میں ہے؟

پیغمبر کی ذات

پیغمبر کی بات

پیغمبر کی جماعت
توجہ رکھنا! پہلے پیغمبر کی ذات پھر پیغمبر کی بات اور پھر پیغمبر کی جماعت۔
دجال ِ قادیان کی ذات پہ تنقید کیوں؟
میں یوں بات کرتاہوں کہ جب مرزے غلام قادیانی نے نبوت کا دعوی کیا تو ہمارے اکابر علماء دیوبند نے مرزےقادیانی کی ذات پر اٹیک کیا۔ یہ شراب پیتا تھا، کذاب جھوٹ بولتا تھا، دجال تھا، دجل و فریب سے کام لیتا تھا، خائن بددیانتی کرتا تھا، رات کوخلوت میں نامحرم عورتوں سے ٹانگیں دبواتا تھا،یہ بے ایمان کئی کئی لیٹر شراب پی جاتا تھا، یہ بے ایمان انگریز کاٹاؤٹ اورایجنٹ تھا، یہ دن مین سو سو بار پیشاب کرتا،یہ گڑ سے استنجا ء کرتا تھا اور مٹی کے ڈھیلے منہ میں ڈالتا، اور جب یہ صبح اٹھ کے باہر جاتا تو پگڑی کی جگہ اس نے شلوار باندھی ہوتی۔
ایک اشکال اور اس کا جواب
جب اس بے ایمان کا کردار پیش کیا توہمارے کالج اور یونیورسٹی کے وہ لوگ جن کے پاس دین کا درد ہے لیکن دین کا علم نہیں ہے، انہوں نے علماء حق پر اعتراض کیا کہ کسی کی ذات پر اٹیک کرنا درست نہیں ہے۔ آپ مرزا قادیانی کے مسئلے پر اعتراض کریں،مرزا قادیانی کی ذات پر بات نہ کریں،کسی کی ذات پر کیچڑ اچھالنا یہ شریف لوگوں کا کام نہیں ہے، آپ اس کی ذات پر کیچڑ کیوں اچھالتے ہیں؟
عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کے جنرل سیکرٹری مولانا محمد علی جالندھری رحمہ اللہ تعالی جو جالندھر انڈیا کے رہنے والے تھے،بعد میں پاکستا ن گئے مولانا محمد علی جالندھری رحمہ اللہ تعالی نے بڑا عجیب جواب دیا۔ فرمانے لگےمرزے قادیانی نے نبوت کا دعوی کیا ہے،مولوی ہونے کا دعوی نہیں کیا۔ اگر مولوی ہونے کا دعوی کرتا تو ہم اس کی ذات پر بحث نہ کرتے،ہم اس کی بات پر بحث کرتے۔ مولوی کی ذات کا ماننا ضروری نہیں۔
مولوی کی بات حجت ہے ذات نہیں
مولوی کی بات اگرٹھیک ہو تو بات کو ماننا ضروری ہے اورنبی کی ذات پر ایمان لانا بھی ضروری ہے، مولوی کی بات ماننا ضروری ہے، ذات ماننا ضروری نہیں۔ میں آپ کے سامنے آیا ہوں۔آپ میں سے 95 فیصد وہ لوگ ہوں گے جن کو یہ تو پتا ہوگا کہ میں پاکستان سے آیا ہوں لیکن یہ نہیں پتا کہ پاکستان کا کون سا شہر ہے، میں نے کہاں پڑھا، یہ نہیں پتا میرا باپ،دادا، خاندان کون ساہے۔کیوں؟ آپ کو میری ذات سے غرض نہیں ہے، آپ کو میری بات سے غرض ہے۔
آپ جو یہا ں تشریف لائے ہیں رونق مسجد میں، میری ذات دیکھنے کے لیے نہیں، میری بات سننے کے لیے آئے ہیں۔ مولوی کی ذات نہیں دیکھتے، مولوی کی بات دیکھتے ہیں۔ مولوی کی ذات زیر بحث نہیں آتی، مولوی کی بات زیر بحث آتی ہے۔مرزے قادیانی نے نبوت کا دعوی کیا ہے، مولویت کا دعوی نہیں کیا۔اگر یہ مولوی ہونے کا دعوی کرتا تو ہم ذات پر بحث نہ کرتے۔اس کی بات کو دیکھتے۔ جو دعوی نبوت کرے وہ پہلے ذات پیش کرتا ہے پھر اپنی بات کو پیش کرتا ہے۔
عوامی ترجمہ کرنا سیکھیں
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب اعلان نبوت کرنے کے لیے پہاڑ کا رخ کیا، تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اہل مکہ کوپہاڑپر جمع کرکے ان سے سوال کیا ہے لبثت فیکم عمرا اے مکہ والو! میں تمہارے درمیان چالیس سال تک ٹھہرا ہوں۔ ترجمہ کررہا ہوں۔ عمرا کا ترجمہ کئی سال تک ٹھہرا ہوں یعنی چالیس سال تک ٹھہرا ہوں، کیا فرمایا؟
ہل وجدتمونی صادقاام کاذبا؟
میں طلباء سے کہتا ہوں ترجمہ کرنا سیکھیں۔ ہل وجدتمونی صادقا ام کاذبا؟ اس کا ترجمہ یوں کریں میں تمہارے اندر چالیس سال تک ٹھہرا، تم نے مجھ کو کیسا پایا؟ انہوں نے کہا باربار آزماکر دیکھا ما وجدنا فیک الا صدقا ہم نے آپ کو سراپا صدق پایا ہے۔ فرمایا قولوا لاالہ الا اللہ تفلحون تم کلمہ پڑھ لو،کامیاب ہوجاؤگے۔ لبثت فیکم عمرا پیغمبر نے ذات پیش کی ہے۔ قولوا لا الہ الا اللہ تفلحون پیغمبر نے بات پیش کی ہے۔ پہلے نبی ذات پیش کرتا ہے پھر نبی بات پیش کرتا ہے۔
مرزا قادیانی اگر نبوت کا دعوی کرتا ہے،پہلے ذات پیش کرے،پھر بات پیش کرے۔اس لیے ہم کہتے ہیں کہ اگر یہ دعوی مولوی ہونے کا کرتا، تو ہم اس کی ذات پر بات نہ کرتے، اس کی با ت پر بحث کرتے۔لیکن اس نے نبوت کا دعوی کیا ہے۔ جو بندہ نبی ہونے کا دعوی کرے،پہلے ا س کی ذات ہوتی ہے،پھر اس کی بات ہوتی ہے۔ پہلے اس کی ذات دیکھو، پھر اس کی بات دیکھو۔
عالم کی ذاتی کمزوریاں برداشت کرسکتےہیں،نبی میں ذاتی کمزوری ہوتی ہی نہیں، برداشت کا کیا مطلب؟ عالم کی ذاتی کمزوریاں برداشت کرسکتے ہیں اور کرنی بھی چا ہییں، عالم کی چھوٹی چھوٹی باتوں کو اچھالا نہ کریں بلکہ برداشت کرنی چاہیے۔ پیغمبر میں ذاتی کمزوریاں ہوتی ہی نہیں،کمزوری کو برداشت کرنے کا مطلب کیا ہے؟

پہلے پیغمبر کی ذات

پھر پیغمبر کی بات

اس کے بعد پیغمبر کی جماعت
تخلیق ِ پیغمبر کس چیز سے ہوئی؟
ہمارے دیوبنداہل السنۃ والجماعۃ کا نظریہ ہے کہ اللہ نبی کو بھی مٹی سے بناتے ہیں۔ اللہ امتی کو بھی مٹی سے بناتےہیں۔ لیکن امتی اور نبی کی مٹی میں فرق ہے۔ اللہ امتی کو بناتے ہیں اس مٹی سے جو زمین والی ہے۔ نبی کو بناتے ہیں اس مٹی سے جو جنت والی ہے۔ نبی الانبیاء کو بنایا اس مٹی سے جو جنت الفردوس والی ہے۔نبی اورامتی میں فرق وہ ہے جو زمین والی مٹی اور جنت والی مٹی میں فرق ہے۔ نبی الانبیاء اور نبی میں فرق یہ ہے کہ جو جنت اور جنت الفردوس میں ہے۔ میری اور آپ کی مٹی زمین والی ہے۔ حضرت آدم علیہ السلام سے حضرت عیسٰی علیہ السلام تک مٹی جنت والی ہے۔ نبی الانبیاء کی مٹی جنت الفردوس والی ہے،صلی اللہ علیہ وسلم۔
اس لیے اہل بدعت کو ہم سےاختلاف ہوا۔انہوں نے ہمارا مؤقف ہم سے نہیں سمجھا۔ اتنا کہہ دیا کہ دیوبند والے کہتے ہیں کہ نبی مٹی سے بنا ہے،نبی بشر ہے،اور گرم ہوگئے۔ یہ نہیں پوچھا کہ مٹی ہے کون سی؟ دیوبند والے مانتے ہیں کہ نبی کا وجود مٹی سے بنا۔ میں ذرا اس پہ دلیل دے دوں کہ نبی کا وجود خدانے مٹی سے بنایا اور مٹی وہ جو جنت والی ہے۔
دلیل نمبر.1:
قرآن کریم میں دیکھیں! قرآن کریم میں ہےکہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو خواب آیا، صبح اٹھ کر خواب اپنے بیٹے کو بیان کیا اور فرمایا
یا قَالَ يَا بُنَيَّ إِنِّي أَرَى فِي الْمَنَامِ أَنِّي أَذْبَحُكَ فَانظُرْ مَاذَا تَرَى
رات میں نے خواب دیکھا ہے،بیٹا! تیری گردن پر چھری چلارہا ہوں، بیٹے نے عرض کیا
يَا أَبَتِ افْعَلْ مَا تُؤْمَرُ سَتَجِدُنِي إِنْ شَاءَ اللَّهُ مِنْ الصَّابِرِينَ
آپ کو جو خدا نے حکم دیا اس پر عمل کریں، میں انشاءاللہ صبر کروں گا۔
حضرت ابراہیم نے بیٹے کو لٹایا ہے،اپنی آنکھو ں پر پٹیاں باندھ لی ہیں، بیٹے کو ذبح کرنا شروع کردیا ہے،ابراہیم علیہ السلام سمجھے کہ میرا بیٹا ذبح ہوچکا ہے۔ جب آنکھو ں سے پٹیاں کھولیں تو دیکھا بیٹا کھڑا ہوا ہے اوردنبہ ذبح ہے۔ قران کریم کہتا ہے قَدْ صَدَّقْتَ الرُّؤْيَا اے ابراہیم! ہم نے خواب میں جو آپ کو حکم دیا، آپ نے عمل کرکے دکھا دیا ہے۔آیات کا ترجمہ سمجھیں،میں بار بار یہ طلباء سے کہتا ہوں کہ میں جس آیت کا ترجمہ کروں اس ترجمہ پر غور کیا کریں۔ قَدْ صَدَّقْتَ الرُّؤْيَا ہم نے جو خواب میں آپ کو دیا تھا،اس پر آپ نے عمل کرکے دکھا یا ہے۔ قَدْ صَدَّقْتَ الرُّؤْيَا اے ابراہیم! آپ نے عمل کیا لیکن ہم نے صرف آپ کا امتحان لینا تھا، آپ کے بیٹے کو ذبح نہیں کرانا تھا۔ وَفَدَيْنَاهُ بِذِبْحٍ عَظِيمٍ امتحان میں آپ کامیاب ہو چکے ہیں، ہم نے آپ کے بیٹے کے بدلے دنبہ دے دیا۔ یہ دنبہ ذبح ہوگیا ہے۔
قرآن کریم نے بِذِبْحٍ عَظِيمٍ فرمایا۔یہ دنبہ عام نہیں، عظمت والا تھا۔ یہ دنبہ کون سا ہے؟ مفسرین کرام نے لکھا ہے یہ دنبہ زمین والا نہیں تھا یہ دنبہ جنت سے خدا نے بھیجا جوحضرت اسماعیل علیہ السلام کے بدلے میں ذبح ہوا ہے۔
ایک دلچسپ سوال اور اس کا جواب
سوال یہ ہے کہ جنت سے کیوں آیا، زمین والا کیوں نہیں تھا؟ اس کا جواب بڑا واضح ہے حضرت اسماعیل علیہ السلام کے بدلے میں تھا حضرت اسماعیل علیہ السلام نبی تھے اور نبی کا وجود اس مٹی سے بنتا ہے جو مٹی جنت والی ہے۔اگر اسماعیل علیہ السلام کا وجود زمین والا ہوتا تو بدلے میں دنبہ بھی زمین والا ہوتا۔اسماعیل علیہ السلام کا وجود جنت والا ہے، بدلے میں دنبہ بھی جنت والا ہے، خدانے وہاں سے دنبہ بھیجا اور ان کے بدلے اس کو ذبح کرادیاگیا۔
منھا خلقنا کم وفیھا نعیدکم ومنھا نخرجکم تارۃ اخری
اس آیت کے تحت مفسرین نے لکھا ہے کہ اللہ آدمی کو جس مٹی سے پیدا کرتے ہیں، اسی جگہ اس کی قبر بنتی ہے، اسی جگہ پر دفن ہوتا ہے۔ خاتم الانبیاء حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا وجود اطہر جس مٹی سے بنا،اسی مٹی میں دفن ہوا۔ وہ مٹی کون سی ہے؟ حدیث مبارک ہے
مابين بيتي إلى منبري روضة من رياض الجنة ومنبري على حوضي
المعجم الاوسط، رقم الحدیث6444
میرے پیغمبر کا وجود اطہر جس مٹی میں دفن ہے،وہ مٹی جنت والی ہے۔صرف جنت والی نہیں، دیوبند والوں کا نظریہ ہے، حضرت شیخ زکریا ؒ نے لکھا ہے کہ دیوبند کا نظریہ ہے کہ میرے پیغمبر کے روضے کی مٹی جو پیغمبر کے وجود سے ملی ہے،یہ کعبہ سے بھی اعلی ہے،عرش سے بھی اعلی ہے۔ اس کی علمی دلیل بھی سن لیں اور عوامی دلیل بھی سن لیں، دونوں ذہن میں رکھیں، آپ کو کئی مواقع پہ کام آئے گی، انشاءاللہ العزیز۔
علمی دلیل
میں پہلے علمی دلیل پیش کرتا ہوں۔عوام بھی ہیں، اس لیے آسان دلیل بھی پیش کروں گا۔علمی دلیل کیا ہے؟ عرش کی عظمت کی وجہ یہ ہے کہ یہ تجلیات الہیہ کا مرکز ہے۔اور کیا وجہ ہے؟ عرش پر خدا بیٹھے تو نہیں ہیں، عرش پر خدا رہتے نہیں ہیں، عرش کو خدا کے وجود سے لمس تو نہیں ہے،عرش کی برکت کی وجہ تجلیات الہیہ ہیں، لیکن تجلیات الہیہ کا ئنات میں سب سے زیادہ جس جگہ پر پڑیں، اس کی عظمت بھی سب سے زیادہ ہوتی ہے۔ تو جس قدر تجلیات الہیہ اللہ کے پیغمبر کی قبر میں ہیں اس قدر عرش پر نہیں ہیں، اس لیے پیغمبر کے وجود سےملنے والی جگہ تجلیات الہیہ کی وجہ سے عرش سے بھی اعلی ہے۔یہ دیوبند کا نظریہ ہے۔
عقلی دلیل
اس پہ عقلی دلیل ذہن نشین فرمالیں۔ ایک پیغمبر کا مسکن (رہائش گاہ) ہے، ایک میرے پیغمبر کی سیر گاہ ہے۔پیغمبر کامسکن ا ن کی رہائش گاہ ہے۔اور خدا کا عرش پیغمبر کی سیرگاہ ہے۔ایک سیر گاہ ہوتی ہے، ایک رہائش گاہ ہوتی ہے۔اگر دیکھنے میں سیر گا ہ خوبصورت بھی ہو لیکن عظمت سیر گاہ کو نہیں عظمت رہائش گاہ کو ملتی ہے۔ روضہ رہائش گا ہ ہے،عرش سیر گاہ ہے۔ رہائش گاہ،سیر گاہ سے اعلیٰ ہوتی ہے۔
غیر مقلدین کا اعتراض اور۱س کا جواب
ایک غیر مقلد نےشیخ زکریا رحمہ اللہ کی عبارت فضائل اعمال سے لی اور اعتراض پیش کردیا۔ ہماری عادت ہے، اکابر علماء دیوبند پر کوئی اعتراض کرے تو ہم اس کا جواب دیتے ہیں، کیوں؟ اکابر علماء دیوبند دین کی گاڑی ہیں۔ اس پہ دین چل رہا ہے اور جب اس گاڑی پر کوئی کیچڑ پھینکے گا،ہم نوکر اس گاڑی کا کیچڑ اتارکر اس کو صاف کرلیں گے، ان شاءاللہ! مجھے ایک مولانا نے پوچھا تم سے طلباء علماء پیار بہت کرتے ہیں اس کی وجہ کیا ہے؟ میں نے کہا میں نوکر ہوں اور نوکر سے پیار کیا جاتا ہے۔
دیکھیں! ہم دیوبند کو ایک گاڑی سمجھتے ہیں اور جب آپ کی گاڑی پر کیچڑ لگا ہوا ور کوئی بندہ آپ کو کہے بغیر کیچڑ صاف کردے، آپ اس سے پیار نہیں کریں گے؟ ہمیں شیخ زکریا نے فرمایا نہیں ہے، ہم نے کیچڑ صاف کیا ہے۔ حضرت تھا نوی نے فرمایا نہیں ہے، ہم نے صاف کیا ہے۔ حضرت گنگوہی نے فرمایا نہیں ہے، ہم نے صاف کیا ہے۔ وہ ہمارے آباؤ اجداد ہیں۔ باپ بیٹے کو کہتے نہیں کہ میری قمیص پر کیچڑ لگا ہے صاف کردو،حلالی بیتے کا کا م ہوتا ہے کہ کہے بغیر صاف کرے۔ جب کرتاہے باپ پیار کرتاہے۔ جب باپ پیار کرے تو باپ کی ساری اولاد پیار کرتی ہے۔
ہم نے اپنے اکابر سے کیچڑ صاف کیا ہے، حضرت گنگوہی کی ہم نے صفائیاں دی ہیں۔ اور دندان شکن صفائیاں دی ہیں بحمداللہ تعالی۔ ہمارے اکابر پر اعتراضات ہوتے ہیں،ہم نے دفاع کا حق ادا کیا ہے۔ عنوان میرا یہ نہیں ہے،میں نے کہا پھر کبھی جب دس دن کا سفر ہوگا، آپ نشستیں رکھ لیں، تا کہ ایک ایک نشست پر بات کرلیں۔ میں صرف ایک مثال دیتاہوں، بات سمجھانے کے لیے۔
اکابرِ دیوبند پر غیر مقلدین کا اعتراض اور اس کا جواب
ایک غیر مقلد اعتراض کرنے لگا کہ قاسم نانوتوی ؒ کا قصہ پڑھا ہے؟ مولانا قاسم نانوتوی فرماتے ہیں میری امیدیں تو لاکھوں ہیں،لیکن سب سے بڑی امید سب سے بڑی تمنا یہ ہے کہ اے کاش! میں مدینہ کا کتا ہوتا، مدینے کی گلیوں میں پھرتا، اور مدینے میں مرجاتا، مدینے کے کیڑے مکوڑے مجھے کھا جاتے۔
ذرا اعتراض سننا کہ قاسم نانوتوی کہتا ہے اے کاش میں مدینہ کا کتا ہوتا، اس کو انسان ہونے میں عار ہے،وہ انسان کے بجائے کتا بننا چاہتا ہے، تم نے اسے امام مان لیا ہے۔ قرآن کہتا ہے
ولقد کرمنا بنی آدم،لقد خلقنا الانسان فی احسن تقویم
خدا نے عظمت انسان کو دی ہے، قاسم نانوتوی کہتا ہے میں انسان نہیں کتا ہوتا،اس کو انسان بننے میں شرم آتی ہے، تم اس کو امام کہتے ہو؟
میں نے کہا اس اعتراض کا (جو تو نے قاسم نانوتوی پر کیا ہے( خدانے جواب ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے دلوایا ہے۔ پوچھا، وہ کیسے؟ تمہارے علم میں ہونا چاہیے کہ مولانا قاسم نانوتوی کا خاندان صدیقی ہے۔ جو کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی اولاد میں سے ہیں، تو جو اعتراض بیٹے پر ہوتا ہے اس کا جواب خدا نے باپ سے دلوایا ہے۔ کہتا ہے کہ جواب کیا ہے؟ میں نےکہا امام سیوطی ؒ نے تاریخ الخلفاء میں لکھا ہے کہ حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کھڑے ہیں۔ دیکھا سامنے ایک درخت پر ایک پرندہ ہے۔ سیدنا صدیق رضی اللہ عنہ فرمانے لگے۔ طوبی لک یا طیر اے پرندے تجھے مبارک ہو۔ انت تاکل شجرۃ تو درخت سے کھاتا ہے۔ وتظل بھا درخت کے سائے میں رہتا ہے۔ وتسیر الی غیر حساب تیر اقیامت کو حساب نہیں ہوگا۔ اے کاش! ابوبکر بھی تجھ جیسا پرندہ ہوتا۔
میں نے کہا،تو کہہ صدیق کو انسان بننے میں عار ہے۔ میں تجھ پر کفر کا فتوی نہ لگاؤں تو مجھے دیوبند کا بیٹا نہ کہنا، تُو کہہ تو سہی۔ کہتا ہےصدیق اکبر نے جو فرمایا وہ خشیت الہی کی وجہ سے تھا۔میں نے کہا نانوتوی نے جو فرمایا،یہ محبت محمدی کی وجہ سے تھا۔ ہم نے یوں دیوبند کا دفاع کیا ہے۔ میں اللہ کا شکر ادا کرتاہوں،ہم نے دفاع کو نئی لائن دی ہے۔ اس لیے کہ وکیل نئے دلائل لاتا ہے۔ہر نئی عدالت میں نئی دلیل۔اس لیے کہ پچھلی دلیل کوئی توڑے گا تو نئی دلیل توڑنے میں اس کو وقت لگےگا۔
میں بتا یہ رہاتھا ہم نے اکابر کا دفاع کیا ہے۔ آپ دل چھوٹا نہ کریں، آپ کے اکابر بہت بڑے آدمی ہیں۔ کبھی آپ پر اعترض ہوجائے تو ہم سے رجوع کریں، ہم نے مستقل آپریشن تھیٹر کھولا ہے، ہر ایک فتنے کا مستقل آپریشن ہم سے کروائیں۔ ان شاءاللہ دماغ ٹھیک ہوجائے گا۔ اللہ ہمیں بات سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے۔
شیخ زکریا پر اعتراض اور اس کا جواب
ایک غیر مقلد اعتراض کرنے لگا۔کہتا ہے دیکھو مولوی شیخ زکریا نے لکھا ہےرسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر کی مٹی جو ان کے وجود سے ملی ہوئی ہے یہ تو عرش سے بھی اعلیٰ ہے، کعبہ سے بھی اعلیٰ ہے۔تو پھر دیوبندیوں کو چاہیے کہ جب نماز پڑھنے لگیں تو منہ کعبہ کی طرف نہ کریں، منہ روضے کی جانب کریں۔ چونکہ روضے کی وہ جگہ کعبہ سے بھی اعلیٰ ہے تو منہ ادھرکریں۔تو میں نے کہا یہ سوال بنتاہے۔
ہم جناب سے پوچھتے ہیں تم کعبہ کو اعلیٰ مانتے ہو یا عرش کو؟ کہنے لگا عرش کو کعبہ سے اعلیٰ مانتے ہیں۔ تو میں نے کہا کہ جب تم نماز پڑھو تو منہ کعبہ کی طرف نہ کرو، منہ عرش کی طرف کرو تاکہ ہمیں پتا چلے کہ تم نے کعبہ کو نہیں، عرش کو اعلیٰ مانا ہے۔ اگلی بات بھی میں کہتا ہوں کہ جب ہم کعبہ کی طرف منہ کرکے نماز پڑھتے ہیں،اگر ہوا چلے اور مٹی منہ میں پڑ بھی جائے تو ہم منہ کو دائیں بائیں نہیں کرتے،کعبہ کی طرف رکھتے ہیں۔
تم اوپر کی طرف منہ کرکے نماز پڑھنا، اوپر سے جب کوئی کوا گزرے،کچھ گرادے، اور تمہارے منہ میں آگرے،تو منہ کو اِدھر اُدھر نہ کرنا تاکہ پتا چلے کہ تم نے اعلیٰ کی طرف منہ کیا ہے۔ اس کا کوئی جواب نہیں بنتا۔ میں نے کہا ہم نے اعتراض کیا تیرے پاس جواب نہیں ہے۔تو نے اعتراض کیا، ہم تمہیں جواب دے کر اٹھیں گے۔ تیرے ذہن میں یہ نہ ہو کہ ہم نے جواب نہیں دیا۔
وجودِ پیغمبر جنت والا،شواہد
دیوبند کا نظریہ ہے کہ ایک معاملہ روضے کا ہے، ایک معاملہ کعبے کا ہے۔ ہم کعبہ کو مرکز عبادت مانتے ہیں او ر روضے کو مرکز عقیدت مانتے ہیں۔ عقیدت کی طرف منہ کرکے نماز نہیں پڑھتے، ادھر توجہ قلب کی طرف ہوتی ہے۔ خیرمیں بات سمجھا رہا تھا کہ نبی کا وجود جنت والا ہے۔ پہلے پیغمبر کی ذات کو سمجھیں، پھر پیغمبر کی بات سمجھیں تاکہ پتا چلے جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد نبوت کا دعوی کرے اس کی حیثیت کیا ہے؟ احساس تو ہو کہ وہ کس ٹائپ کا آدمی ہے؟ میرے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کا وجود جنت والا ہے، اس پر چھوٹے سے دو چار نکتے پیش کرتا ہوں۔ آپ ذرا توجہ سے سننا۔
نمبر1:
جنت میں خدا نے خوشبو رکھی ہے۔ توجہ رکھنا! جنت میں خدا نے خوشبو رکھی ہے،جنت میں بو نہیں ہے، میرے پیغمبر کا وجود جنت والا ہے اس وجود میں خوشبو رکھی ہے اس وجود میں بو نہیں ہے۔ آدمی کی بو کن چیزوں سے آتی ہے؟ آدمی کے وجود کی بو کبھی پسینہ سے آتی ہے، میرے نبی کا پسینہ بو والا نہیں ہے۔ میرے نبی کا پسینہ خوشبو والا ہے۔ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں،شمائلِ ترمذی کی روایت ہے:
خدمت النبي صلى الله عليه و سلم عشر سنين۔میں نے نبوت کی دس سال خدمت کی ہے واللہ ما شممت طیبۃ من عرق محمد صلی اللہ علیہ وسلم
میں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پسینے سے زیادہ خوشبو دنیا میں کہیں نہیں دیکھی۔میرے پیغمبر کا پسینہ دیکھ لو یہ خوشبو والا ہے۔
نمبر2:
اس سے بڑھ کر عام انسان کے وجود سے بو کب آتی ہے؟ جب انسان بیت الخلاء میں جائے۔میرے پیغمبر بیت الخلاء میں جائیں تو بو وہاں بھی نہیں ہے۔ امام سیوطی رحمہ اللہ نے الخصائص الکبری میں روایت نقل کی ہے؛
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی خادمہ سے روایت ہے
عن ليلى مولاة عائشة قالت قلت يا رسول الله إنك تدخل الخلاء فاذا خرجت دخلت اثرك فما أرى شيئا إلا أني اجد رائحة المسك قال إنا معشر الانبياء تنبت اجسادنا على ارواح اهل الجنة فما خرج منها من شيء ابتلعته الأرض
الخصائص الکبری، باب الآيۃفی حفظه صلى الله عليه وسلم من الاحتلام
کہتی ہیں: یا رسول اللہ! آپ بیت الخلاء میں گئے ہیں، آپ بیت الخلاء سے نکلے ہیں میں آپ کے پیچھے بیت الخلاء میں گئی ہوں، بیت الخلاء میں کچھ بھی نہیں تھا، ہاں وہاںمشک کی خوشبو آرہی تھی۔میرے پیغمبر کا پسینہ اس میں بھی خوشبو ہے۔ میرے پیغمبر کا براز مبارک،اس میں بھی خوشبو ہے۔ کیونکہ وجود جنت والا ہے، جنت کے وجود میں بو نہیں ہوتی،خوشبو ہوتی ہے۔ جب کوئی نبوت کا دعوی کرے گا،ہم اس کے پسینے کو چیک کریں گے، ہم اس کےوجود کو چیک کریں گے تاکہ پتا چلے کہ یہ وجود جنت والا ہے یا جہنم والا؟
نمبر3:
اللہ نے جنت کو پیدا فرمایا۔ جنت میں لطافتیں رکھی ہیں۔ جنت میں کثافتیں نہیں ہیں۔ میرے پیغمبر کے وجود میں لطافتیں ہیں۔ اگر کثافت محسوس ہو تو یہ دنیا کے ماحول کی وجہ سے ہے۔ اصل وجود جنت والا، خاصیات جنت والی ہیں۔ دنیا کے ماحول میں رہتے ہیں،اثرات دنیا کے ہیں۔ میرے پیغمبر کا وجود جنت والا، پسینہ آیا دنیا کے ماحول کی وجہ سے، لیکن اندر وجود جنتی ہے اس لیے پسینہ میں خوشبو آئی، بدبو نہیں آئی۔ میرے پیغمبر کا وجود جنت والا۔ جنت میں لطافتیں ہیں، کثافتیں نہیں ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی والدہ حضرت آمنہ فرماتی ہیں نبی میرے پیٹ میں تھے اور میں امید اور حمل کے ساتھ تھی،لیکن مجھے پتا ہی نہیں چلاکہ میں حمل میں ہوں۔
کیوں؟ حمل کی وجہ سے جو عورت کو بوجھ اور ثقل محسوس ہوتا ہے، حضرت آمنہ کو بوجھ محسوس نہیں ہوا، میرے پیغمبر کا وجود جنتی ہے۔یہ جنت کی لطافت کی وجہ سے ہے۔ حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہجرت فرمائی ہے،اور جب مکہ سے مدینہ گئے ہیں تو صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے کندھے پیش کیے ہیں۔ نبی صدیق کے کندھوں پر بیٹھے ہیں۔ تم ذرا اس غار ثور کو جاکر دیکھو، چڑھنا کتنا مشکل ہے لیکن صدیق اکبر رضی اللہ عنہ،پیغمبر کے وجود کو لے کر چڑھے ہیں،جب صدیق نے اٹھا یا تو قربانی کی نیت سے اٹھایا، لیکن صلہ خدا نے دیا،نبی کے وجود میں لطافت جنت کے آثار پیدا کردیے، صدیق اکبر رضی اللہ عنہ چڑھے ہیں اور تکلیف بھی نہیں ہوئی ہے۔
نمبر4:
میرے پیغمبر معراج میں گئے ہیں، جبریل امین علیہ السلام آئے ہیں، براق پر بٹھایا، حضرت رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو لے کر چلے گئے، اور آپ نے سنا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سفر کیا تو مکہ سے چلے مدینہ منورہ، مدینہ منورہ سے چلے بیت اللحم، بیت اللحم سے چلے طور سیناء تک، وہاں سے چلے ہیں بیت المقدس تک، پھر وہاں سے سات آسمانوں تک سٹاپ کیا، وہاں سےپیغمبر گئے ہیں سدرۃ المنتہی، پھر صریف الاقلام، پھر عرش معلی تک گئے ہیں۔
ایک نکتہ ذہن میں رکھیں! جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ سے مدینہ آئے تو جبریل امین سے آپ نے پوچھا،کون سی جگہ ہے؟ انہوں نے جواب دیا،آپ نے ہجرت کرکے یہاں آنا ہے، دو رکعت پڑھ لیں،آپ نے دو رکعت نفل پڑھ لیں۔ پھر وہاں سے چلے تو یہاں اترے۔ یہ کون سی جگہ ہے؟ کہا،کہ یہ طور سیناء ہے، حضرت موسی علیہ السلام یہاں خدا سے بات کرتے تھے،رکے اور دو نفل پڑھے۔ دو رکعت نفل پڑھے،پھر آگے گئے ہیں۔
یہ کون سی جگہ ہے؟ کہا کہ بیت اللحم، حضرت عیسی علیہ السلام کی جائے پیدائش ہے۔ اترے، دو رکعت پڑھی، پھر وہاں سے چلے،کون سی جگہ ہے؟ کہا کہ مدین حضرت شعیب علیہ السلام کی بستی ہے، آپ یہاں اترے اور دو رکعت نفل پڑھے، پھر آگے چلے ہیں،یہ کون سی جگہ ہے؟ بیت المقدس ہے، ستر ہزار انبیاء کا قبلہ ہے، اترے اور دو رکعت پڑھی، ذرا نکتہ ذہن میں رکھنا! میں ایک نکتہ دینے لگا ہوں،سفر میں آدمی ہو اور سفر لمبا ہو، تو نماز مختصر پڑھتا ہے یا لمبی؟ سفر بہت لمبا ہو اور وقت بہت تھوڑا ہو تو نماز مختصر پڑھتا ہے یا لمبی؟ دو رکعت پڑھے گا تو دو رکعت میں سورہ بقرہ پڑھے گا یا سورۃ الکوثر پڑھے گا؟ کیوں سفر لمبا ہے وقت بہت تھو ڑا ہے،تھوڑی دیر گاڑی رکتی ہے پھر چلتی ہے،تو مختصر سے مختصر نماز پڑھنی ہے۔
تاریخ انسانی کا لمبا اور مختصر سفر
پوری تاریخ انسانی میں معراج کے سفر سے لمبا سفر کسی کا نہیں ہے اور اس سے تھوڑا وقت بھی کسی کے پاس نہیں ہے۔اگر کوئی بندہ آپ سے پوچھے کہ تاریخ انسانی کا سب سے لمبا سفر؟ تو آپ کہیں گے معراج والا۔ایسا سفر جو تھوڑے وقت میں طے ہوا؟ آپ کہیں گے معراج والا۔ تو پتا یہ چلا کہ معراج والا سفر بہت لمبا ہے، وقت بہت تھوڑا ہے۔
تو تھوڑے وقت میں لمبا سفر طے کرنا ہوتو مختصر سے مختصر نماز پڑھتے ہیں، میرے پیغمبر نے پانچ سٹاپ کیے ہر جگہ پر دو رکعت پڑھی ہیں، اگر ان میں ایک رکعت کا جواز ہو تا، تو ایک رکعت بھی پڑھتے۔ کسی بھی جگہ ایک رکعت نہ پڑھنا اس بات کی دلیل ہےکہ نماز میں رکعت کم از کم دو ہیں، کم از کم دو رکعت۔ایک رکعت وتر کو چھوڑ دو۔ دو سے کم کی نماز ہی نہیں ہے۔غیر مقلد کو سامنے رکھنا، امام شافعی ؒ کو سامنے نہ رکھنا۔ یہ جب کورس ہوں گے، میں تب بتاؤں گا ان میں فرق کیا ہے، ساری باتیں بندہ کہہ نہیں سکتا۔ عاقل کےلیے اشارہ کافی ہے۔سبق پڑھاؤں پھر بات حل ہوگی۔
نبی کی لطافت جبرائیل سے بھی زیادہ
میرے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم معراج پر گئے ہیں، جبریل امین ساتھ ہیں۔سدرۃ المنتہی پر گئے ہیں، تو جبر یل امین رکے ہیں، حضور صلی اللہ علیہ وسلم جبریل امین سے بھی آگے نکلے ہیں، جبریل امین نورانی وجود رکھتے ہیں لیکن آج کی رات جو لطافت حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو ملی ہے، وہ جبریل امین کو بھی نہیں ملی، جبریل امین رکے ہیں، حضور آگے جارہے ہیں۔ میں نےکہا جنت کا وجود لطیف ہوتا ہے، لطافت جنت کے وجود میں ہے، میرے پیغمبر کو دیکھ لو! لطافت وجود میں ہے،اگرکوئی دعوائے نبوت کرے، ذرا اس کے وجود کو بھی چیک کیجئے، اس میں لطافت موجود ہے یا نہیں۔
نبی پر عیب والی بیماری نہیں آتی
جنت کے وجود میں خدا نے شفا رکھی ہے، جنت کے وجود میں ہماری نہیں ہے، چاہیے تو یہ تھا کہ جب حضور کا وجود جنت والا ہے تو جنت والے وجود میں بیماری نہ آتی، لیکن بیماری آتی ہے لیکن وہ بیماری جو متعدی نہیں ہے، وہ بیماری جس کی وجہ سے بندہ عیب محسوس نہیں کرتا،ایسی بیماریاں میرے پیغمبر پر آتی ہیں جو عیب نہیں بنا کرتیں، پیغمبر کے وجود کو خدا نے سراپا شفا بنادیا ہے۔
آپ کسی دفتر میں جائیں وہاں لکھا ہوگا یہاں تھوکنا منع ہے پوچھا جی کیوں لکھا ہے؟ کہتا ہے کہ تھوک میں جراثیم ہوتے ہیں، اس سے بیماریاں پھیلتی ہیں، یہاں تھوکنا منع ہے، آپ کسی جگہ پر جائیں تو صفائی کرنے والوں نے یہ لکھا ہوتا ہے اور اپنے منہ پر کپڑا رکھا ہوتا ہے، کیوں؟ تاکہ ادھر کا سانس ادھر نہ جائے، ادھر کی تھوک ادھر نہ جائے،اس سے بیماریاں پھیلتی ہیں۔
امت کے لعاب میں بیماری ہے، میرے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کے لعاب میں شفا ہے۔حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ غار کے اندر ہیں، حضور صلی اللہ علیہ وسلم! یہ میرے پاؤں کو سانپ نے ڈسا ہے،نبوت نے اپنا برکت والا لعاب لگایا، صدیق کو شفا ملی ہے۔ غزوہ خیبر میں گئے ہیں، حضرت علی رضی اللہ عنہ کو بلاؤ! ان کے ہاتھ میں پرچم دے دو، خدا تمہیں فتح دے گا۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے کہامیری ایک آنکھ میں درد ہے، میں جنگ کیسے لڑوں گا؟ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے لعاب مبارک نکالا اور حضرت علی کی آنکھ میں لگایا، علی کو شفا ملی ہے۔ میرے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کے لعاب میں شفا ہے، امتی کے تھوک میں بیماری اور وبا ہے اور میرے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے لعابِ مبارک میں شفا ہے۔
ایک اشکال اور اس کا جواب
ایک نکتہ ذہن میں رکھنا! ایک شخص کہنے لگا کہ تم جو کہتے ہو کہ صدیق اکبر کی ایڑی میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لعاب لگا یا، ہم نہیں مانتے۔ میں نےکہا کیوں نہیں مانتے؟ کہتا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا مقام اتنا بڑا ہے،ان کے مقابلے میں صدیق کا مقام کتنا چھوٹا ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا لعاب صدیق کی ایڑی پر؟ یہ تو پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کے لعاب کی توہین ہے،پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کے لعاب کی بے ادبی ہے، حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے لعاب کی بے ادبی تو نہ کریں! لعاب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ہے، ایڑی صدیق کی ہے، یہ تم نے توہین کی ہے۔ بات سمجھ میں آرہی ہے ناں؟
میں نے کہا تم نے ایک جہت کو دیکھا ہے، دیوبند والے دونوں جہتوں کو دیکھتے ہیں۔ اگر رشتہ ایمان کا دیکھیں تو صدیق چھوٹے ہیں،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بڑے ہیں،اور اگر رشتہ ایمان کا نہیں، خون کا دیکھیں تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم داماد ہیں اور صدیق سسر ہیں، سسر باپ ہوتا ہے، داماد بیٹا ہوتا ہے۔ اگر رشتہ ایمان کا دیکھیں تو یہ آقا، وہ غلام دِکھتے ہیں، اور اگر رشتہ خون اور نکاح کا دیکھیں تو یہ داماد وہ سسر بنتا ہے۔
اللہ تعالیٰ ہمیں مقامِ نبوت سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین
واخر دعوانا ان الحمد للہ رب العٰلمین