مالک یوم الدین

User Rating: 5 / 5

Star ActiveStar ActiveStar ActiveStar ActiveStar Active
 
مالک یوم الدین
بمقام: مدرسہ عمر بن خطاب
بتاریخ: 17-02-2013
الحمد للہ نحمدہ ونستعینہ و نستغفرہ ونؤمن بہ ونتوکل علیہ و نعوذ باللہ من شرور انفسنا ومن سیّئات اعمالنا من یھد ہ اللہ فلا مضل لہ ومن یضللہ فلا ھادی لہ ونشھد ان لا الہ الا اللہ وحدہ لا شریک لہ ونشھد انّ سیدنا ومولٰنا محمد اً عبدہ ورسولہ اما بعد
فاعوذ باللہ من الشیطٰن الرجیم بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
الحمد للہ رب العالمین الرّحمٰن الرحیم ملک یوم الدین ایاک نعبد و ایاک نستعین اھدنا الصراط المستقیم صراط الذین انعمت علیہم غیر المغضوب علیہم ولا الضا لین
سورۃالفاتحۃ
اللھم صلّ علی محمد وعلی اٰل محمد کما صلیت علی ابراہیم وعلی اٰل ابراہیم انک حمید مجید اللھم بارک علی محمّد وعلی اٰل محمد کمابارکت علی ابراہیم وعلی اٰل ابراہیم انک حمید مجید
مضامین قرآن کا خلاصہ
میں نے گزشتہ کل آپ حضرات کی خدمت میں عرض کیا تھا جو کل بیان میں تھے ان کو تو کچھ نہ کچھ معلوم ہوگا، یاد ہوگا۔جو کل بیان میں نہیں تھے ان کے علم میں نہیں کہ میں نے کل کیا باتیں عرض کی تھیں اس لیے میں بطور خلاصہ کے بات عرض کرتا ہوں کہ پورے قرآن کریم میں اللہ رب العزت نے چھ مضامین بیان فرمائے ہیں:
1: توحید
2: رسالت
3: قیامت
4: احکام
5: ماننے والے
6: نہ ماننے والے
قرآن کریم میں تفصیل سے اللہ پاک نے یہ چھ چیزیں بیان فرمائی ہیں اور ان چھ کا خلاصہ بڑے اختصار اوراجمال کے ساتھ سورۃ فاتحہ میں بیان فرمایا ہے۔ الحمد للہ رب العالمین الرحمٰن الرحیم میں توحید کو بیان فرمایا ملک یوم الدین میں قیامت کو بیان فرمایا
ایاک نعبد وایاک نستعین میں احکام کو بیان فرمایا اھدنا الصراط المستقیم، صراط الذین انعمت علیہم میں رسالت اور ماننے والوں کو بیان فرمایا غیر المغضوب علیہم ولاالضالین
میں نہ ماننے والو ں کو بیان فرما یا۔
گزشتہ کل میں نے سورۃ الفاتحہ کی پہلی آیت الحمد للہ رب العالمین کےمتعلق کچھ تھوڑی سی باتیں بیان کی تھیں،آج اگلی آیت پر بات کرتے ہیں۔ چونکہ ایک آیت پر لگے رہیں تو سارا وقت اس پہ لگ جائے گا۔ میں تو الحمد للہ اگر 10 دن بھی لگا رہوں تو ایک آیت کی تفسیر ختم نہیں ہونی، میں بالکل اختصار کے ساتھ بات کررہاہوں۔
دنیا دار العمل،آخرت دار الجزا
مالک یوم الدین اللہ رب العزت مالک ہیں قیامت کے دن کے۔ ایک دنیا ہے اور ایک آخرت ہے۔ دنیا دارالعمل ہے اور آخرت دار الجزا ہے۔ دنیا دارالعمل اور آخرت دارالجزا ء۔انسان دنیا میں عمل کرتا ہے اپنی حیثیت سے،اللہ آخرت میں جزا دیں گے اپنی شان کے مطابق۔ لفظوں پر آپ نے توجہ فرمانی ہے۔ دنیا دار العمل ہے، آخرت دار الجزا ہے۔
انسان کا عمل بقدر استطاعت، جزا اللہ کی شان کےموافق
دنیا میں انسان عمل کرتا ہے اپنی حیثیت جتنا، اللہ آخرت میں جزا دیں گے اپنی شان کے مطابق، انسان کی حیثیت چونکہ محدود ہے اس لیے اس کا عمل بھی محدود ہے۔ اللہ کی شان چونکہ غیر محدود ہے اس لیے اللہ کی طرف سے عطا کی جانے والی جزا بھی غیر محدود ہوگی،انسان خود بھی نظر آتا ہے اور انسان کا عمل بھی نظر آتا ہے، انسان نماز پڑھتا ہے، روزہ رکھتا ہے، حج کرتا ہے، عمل نظر آرہا ہوتا ہے، انسان خود بھی نظر آتا ہے، اس کا عمل بھی نظر آتا ہے۔
اللہ رب العزت خود بھی نظر نہیں آتا، اور جو جزا دیں گے وہ بھی نظر نہیں آتی۔ اللہ کو بھی مانیں بغیر دیکھے اور اللہ کی جزا کو بھی مانیں بغیر دیکھے۔ اس لیے جنت کے اوصاف میں سے ایک صفت ہےکہ جنت وہ ہے کہ جس کو کسی آنکھ نے دیکھا نہیں ہے، کسی کان نے سنا نہیں ہے، اور بندہ اس کو سمجھنا چاہے تو سمجھ نہیں سکتا۔ ولا خطر علی قلب بشر کاترجمہ ہے کہ بندہ اس کو سمجھنا چاہے تو سمجھ نہیں سکتا۔ اسی طرح اللہ کو نہ دیکھا ہے، نہ اللہ کو سنا ہے، اللہ کو سمجھنا چاہے تو بندہ سمجھ نہیں سکتا۔
ایک اشکال اور اس کا جواب
آپ کے ذہن میں ایک سوال آئے گا اور سوال آنا چاہیے آدمی کا ذہن ہو تو سوال آنا ہے، سوال نہ آئے تو اس کا معنی ہے کہ اس میں دماغ نہیں ہے، اگر آدمی کے اندر دماغ ہو تو اس کے دماغ میں سوال آجاتا ہے۔ ایک سوال آنا چاہیے اگر اب سوال نہ آئے تو کل کو کوئی اور کرے گا، پھر آپ بہت پریشان ہوں گے۔ سوال کیا ہے؟ کہ آپ کہتے ہیں کہ نہ اللہ تعالی کو دیکھا ہے، نہ اللہ تعالی کی جنت کو دیکھا ہے،تو آدم علیہ السلام نے تو اللہ کی جنت کو دیکھا ہے، رسول اللہ نے بھی جنت کو دیکھا ہے تو اس کا کیا معنی کہ نہ جنت دیکھی، نہ جنت کے خدا کو دیکھا ہے۔
بات سمجھیں! میں یہ بات کہہ رہا ہوں عام انسان کے حوالے سے، ورنہ ہمارا نظریہ یہ ہے اہل السنت والجماعت کا، کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ کی بات کو سنا ہے، اللہ کی ذات کو دیکھا ہے۔ ہم نے اللہ تعالی کی ذات کو دیکھا بھی نہیں ہے اور اللہ تعالی کی بات کو سنا بھی نہیں ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ کی بات کو سنا ہے اور اللہ کی ذات کو دیکھا ہے۔
رؤیت باری تعالی کے بارے میں ہمارا مؤقف
یہ ہمارا اہل السنۃ والجماعۃ کا عقیدہ ہےکہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ کی بات کو سنا ہے، اللہ کی ذات کو دیکھا ہے۔ غیر مقلد اہل حدیث، سلفی، ملحد، لا مذہب، سارے ان کے نام ہیں۔ ان کا عقیدہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ کی ذات کو نہیں دیکھا۔ ہمارا عقیدہ ہے کہ رسول اللہ تعالی صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ کی ذات کو دیکھا ہے۔
ان کا عقیدہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ کی ذات کو نہیں دیکھا۔ ان کے پاس قرآن کریم کی آیت ہے، جو بطور دلیل پیش کرتے ہیں۔ اب اس دلیل کو سمجھو، وگرنہ وہ پیش کریں گے اور آپ کے پاس جواب نہیں ہوگا تو پھر آپ پریشان ہوں گے۔ ان کی دلیل قرآن کریم کی آیت ہے
لَا تُدْرِكُهُ الْأَبْصَارُ وَهُوَ يُدْرِكُ الْأَبْصَارَ وَهُوَ اللَّطِيفُ الْخَبِير
الانعام: 103
کہتے ہیں، قرآن کریم نے اصول بیان کیا ہے کہ کوئی آنکھ بھی اللہ کو نہیں دیکھ سکتی، اللہ ساری آنکھوں کو دیکھتے ہیں، اللہ لطیف بھی ہیں اور خبیر بھی ہیں۔ ہم نے کہا بھائی! اللہ پاک کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دیکھا ہے۔ ہم سے پوچھتے ہیں کہ تمہاری دلیل کیا ہے؟ ہم کہتے ہیں مستدرک علی الصحیحین حدیث مبارک کی کتاب ہے اس میں ابن عباس رضی اللہ عنہماسے روایت ہے
عن ابن عباس رضي الله عنهما أنه سئل هل رأى محمد ربه قال نعم
(المستدرک،رقم الحدیث:3234 )
ابن عباس رضی اللہ عنہماسے پوچھا گیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ کو دیکھا ہے؟ انہوں نے فرمایا کہ ہاں دیکھا ہے۔
رؤیت باری تعالی پر غیر مقلدین کے اعتراض کا دندان شکن جواب
اس پر غیر مقلد اعتراض کرتے ہیں کہ آپ نے کہا حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ کو دیکھا ہے،اور قرآن میں ہے کہ کوئی آنکھ خدا کو نہیں دیکھ سکتی، تو جب حدیث قرآن کے خلاف ہوگی، ہم حدیث نہیں لیں گے، وہ حدیث لیں گے جو قرآن کے مطابق ہوگی، وہ نہیں لیں گے جو قرآن کے خلاف ہوگی، لہذا جو تم نے حدیث پیش کی ہے یہ قرآن کے خلاف ہے، ہم حدیث کو نہیں لیتے، قرآن کو لیتے ہیں کہ اللہ کی ذات کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہیں دیکھا۔
سمجھ آگئی بات؟ سوال سمجھ آگیا؟ سوال سمجھ آئے گا تو پھر جواب سمجھ آئے گا، جب سوال ہی سمجھ نہیں آئے گا تو جواب کیسے سمجھ آئے گا۔ اب جواب سمجھیں! میں نے غیر مقلد اعتراض کرنے والے اور سوال کرنے والے سے کہا، ہماری دعا ہے اللہ آپ کو ہدایت عطا فرمائے،ہم بد دعا نہیں کرتے، ہم دعا کرتے ہیں، اللہ آپ کو ہدایت عطا فرمائے اور ہدایت کے بعد اللہ آپ کو جنت میں لے جائے، جب آپ جنت میں جائیں گے تو اللہ تعالی کا دیدار کریں گے، اس نےکہا جنت میں جائیں گے تو اللہ تعالی کا دیدار کریں گے۔ میں نے پوچھا کہاں لکھا ہے؟ کہتا ہے حدیث میں ہےکہ جنت والے اللہ کا دیدار کریں گے۔
میں نے کہا یہ حدیث تو قرآن کےخلاف ہے، جب قرآن میں ہے کہ کوئی آنکھ اللہ کو نہیں دیکھ سکتی تو آپ کیسے دیکھیں گے؟ سوال سمجھ گئے؟ تو وہ غیر مقلد کہنے لگا کہ نہیں جنت میں جا کے اللہ کو دیکھیں گے تو میں نے کہا جو حدیث قرآن کے خلاف ہے اس کا کیا جواب دو گے؟ کہتا ہے آیت کا مطلب یہ ہے کہ تم زمین پر رہتے ہوئے اللہ کو نہیں دیکھ سکتے اور میں زمین پر نہیں جنت میں دیکھوں گا۔ میں نے کہا ہم بھی یہ نہیں کہتے کہ حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے زمین پر رہتے ہوئے دیکھا ہے، ہم بھی کہتے ہیں کہ عرش پر جاکر دیکھا ہے۔ تم جنت میں جاکے دیکھو قرآن کے خلاف نہیں، حضور صلی اللہ علیہ وسلم عرش پر جاکر دیکھیں قرآن کے خلاف کیسے ہے؟
بات مَیں صرف یہ سمجھا رہا تھا کہ آپ کے ذہن مین سوال نہ آئے میں نے ایک سوال کا جواب دیا ہے دنیا دارالعمل ہے اور آخرت دارالجزا ہے، ہمارا عمل ہماری حیثیت کے مطابق،اللہ کی جزا اللہ کی شان کےمطابق۔ ہم بھی نظر آتے ہیں، عمل بھی نظر آتا ہے،اللہ نظر نہیں آتے اللہ کی جزا بھی نظر نہیں آتی۔ قیامت کے بعد جائیں گے، جزا بھی دیکھ لیں گے، اللہ کو بھی دیکھ لیں گے۔ وہ قیامت کی باتیں ہیں، اچھا اگلی بات ذرا سمجھیں!
قیامت دو طرح کی ہے
قیامت یعنی دارالجزا، موت کے بعد سے لے کر حشر تک اور حشر کے بعد سے لے کر ابد الآباد تک آخرت کے دو حصے ہیں:

ایک حصہ آخرت کا موت کےبعد حشر تک

اور دوسرا حشر کے بعد ابدالآباد تک
من مات فقد قامت قيامته
جو شخص مرتا ہے اس کی قیامت شروع ہو جاتی ہے۔کیا مطلب؟ اب عمل نہیں کرسکتا، عمل کی جزا شروع ہوگئی ہے۔ یہ ہے قیامت صغریٰ۔ موت سے لے کر حشر تک یہ قیامت صغریٰ ہے
اور ایک ہے قیامت کبریٰ۔ حشر کے بعد قیامت کبریٰ ہے۔
ایک قیامت صغریٰ ہے اور اک قیامت کبریٰ ہے۔قیامت صغریٰ میں کیا ہوتا ہے؟ قیامت کبریٰ میں کیا ہوتا ہے؟ دونوں میں فرق کیا ہے؟ قیامت صغریٰ موت کے بعد سے لے کر حشر تک، نہ آدمی جنت میں جاتا ہے، نہ جہنم میں جاتا ہے، آدمی اپنی قبر میں رہتا ہے، اگر یہ نیک ہے تو جنت کا دروازہ کھلتا ہے، اگر یہ برا ہے تو جہنم کا دروازہ کھلتا ہے۔
اگر یہ نیک ہے افْتَحُوا لَهُ بَابًا إلَى الْجَنَّةِ اگر یہ برا ہے افْتَحُوا لَهُ بَابًا إلَى النَّارِ اگر نیک ہے تو فرشتہ قبر میں اعلان کرے گا فَأَفْرِشُوهُ مِنَ الْجَنَّةِ جنت کا بچھونا دو وَأَلْبِسُوهُ مِنَ الْجَنَّةِ جنت کا لباس دو وَافْتَحُوا لَهُ بَابًا إلَى الْجَنَّةِ جنت کا دروازہ کھول دو فَيَأْتِيهِ مِنْ طِيبِهَا وَرَوْحِهَا اس کی قبر میں جنت کی خوشبو اور ہوا آتی ہے، اور اگر یہ کافر ہے تو پھر اعلان ہوگا أفْرِشُوا لَهُ مِنَ النَّارِ جہنم کا بچھونا دو وَأَلْبِسُوهُ مِنَ النَّارِ جہنم کا لباس دو
وَافْتَحُوا لَهُ بَابًا إلَى النَّارِ جہنم کا دروازہ کھول دو فَيَأْتِيهِ مِنْ حَرِّهَا وَسَمُومِهَا
اور جہنم کی گرم ہوا یہاں پہنچتی ہے۔ اس کو یوں کہتے ہیں کہ قبر میں عرض نار اور عرض جنت ہوتا ہے، یعنی بندہ جنت اور جہنم میں نہیں جاتا، اپنی قبر میں رہتا ہے۔ اگر یہ مؤمن ہے تو جنت کا دروازہ کھلتا ہے، اگر یہ کافر ہے تو جہنم کا دروازہ کھلتا ہے۔
عرض جنت اور عرض نار
اگر مؤمن ہے تو اس پہ جنت پیش ہوتی ہے اور دکھا یا جاتا ہےتم نے یہاں جانا ہےاگر یہ کافر ہے تو اس پر جہنم پیش ہوتی ہے اور اس کو دکھا یا جاتا ہے، تم نے یہاں جانا ہے۔ تو موت سے لے کر حشر تک کا زمانہ، یہ دخول جنت کا نہیں ہے، عرض جنت کا ہے۔ آدمی جنت کو دیکھ دیکھ کر خوش ہوتا ہے کہ میں نے یہا ں جانا ہے اور وہاں خوشبوئیں اور ہوائیں جنت کی محسوس کرتا ہے اور اگر کافر ہو تو جہنم کو دیکھ کے ڈرتا ہے کہ میں نے یہاں جانا ہے اور اس کی اس جگہ پرجہنم پیش ہوتی ہے، جہنم کی آگ پیش ہوتی ہے۔
تو قیامت صغریٰ میں سوال اور جواب بھی اجمالی ہے اور اس کی جزا بھی اجمالی ہے، لمبا حساب نہیں ہے۔
من ربک،من نبیک، ما دینک، ربی اللہ، نبیی محمد صلی اللہ علیہ وسلم، دینی الاسلام
اور اگر جواب نہیں آتا،تو وہ کہے گا لا ادری،لا ادری،کنت اقول ما یقول الناس مجھے کچھ پتا نہیں ہے، مجھے کچھ پتا نہیں ہے، لوگ یوں کہا کرتے تھے۔
سنن ابی داود،رقم الحدیث:4755،باب فی المسئلۃ فی القبر و عذا ب القبر
تو سوال اور جواب اجمالاً، جزا بھی اجمالاً۔ نہ لمبے سوال ہیں، نہ لمبی سزا ہے۔ سزا تو بہت بڑی ہے لیکن جہنم کے مقابلے میں بہت مختصر ہے۔ تو قیامت صغریٰ کا مطلب یہ ہے کہ اس میں عرض نار اور عرض جنت ہوتا ہیں۔ جنت اور جہنم پیش ہوتی ہیں اور جب یہ قیامت کے دن اٹھے گا، وہاں اعمال بھی لمبے اور جزا بھی لمبی۔ نماز،روزہ،جیسے اعمال بھی لمبے اور اس کی جو جزا ہے، وہ بھی بہت لمبی ہے۔
لمبی جزا کا مطلب کیا ہے؟
ویوم تقوم الساعۃ اد خلوا اٰل فرعون اشدّ العذاب۔ یا ایتھا النفس المطمئنۃ ارجعی الی ربک راضیۃ مرضیۃ فادخلی فی عبادی وادخلی جنتی
تو قیامت کے دن حساب کتاب بھی چونکہ تفصیلاً ہے، تو اس میں دخول نا ر یا دخول جنت کا فیصلہ ہوگا اور قبر میں حساب کتاب بھی اجمالاً ہے، اس میں جزا بھی اجمالاً ہے۔ عرض جنت یا عرض نار ہوگا۔ تو قیامت صغریٰ میں سوال جواب بھی تفصیل میں نہیں اجمال میں ہیں اور جزا بھی اجمال میں ہے اور قیامت کبریٰ میں سوال جواب بھی تفصیل میں ہیں اور اس کی جزا بھی تفصیل میں ہے۔
قیامت صغریٰ کو بھی ماننا چاہیے اور قیامت کبریٰ کو بھی ماننا چاہیے۔ قیامت صغریٰ کو نہ مانے تو بھی مؤمن نہیں ہوتا قیامت کبریٰ کونہ مانے تو بھی مؤمن نہیں ہوتا مالک یوم الدین اللہ قیامت کے دن کا مالک ہے۔اصل تو اس سے مراد قیامت کبریٰ ہے لیکن درمیا ن میں جو قیامت کبریٰ کا مقدمہ ہے، ہم اسے بھی مانتے ہیں اور قیامت کے دن کو بھی مانتے ہیں۔
مالک یوم الدینکا فلسفہ
اللہ رب العزت نے مالک یوم الدین فرمایا ہے قاضی یوم الدین نہیں فرمایا، اللہ قیامت کے دن فیصلہ فرمائیں گے مالک بن کر نہیں، جج بن کر نہیں فرمائیں گے۔ جج کی عدالت کا ضابطہ اور ہوتا ہے اور مالک کی عدالت کا ضابطہ اور ہوتا ہے۔ جج قانون کا پابند ہوتا ہے اور مالک قانون کا پابند نہیں ہوتا، اسی لیے اللہ جو قیامت کو فیصلے فرمائیں گے اس میں اللہ قانون کا پابند نہیں ہے، جی چاہے قانون دیکھے اور سزا دے اور جی چاہے، اپنے اختیارا ت دیکھے اور بندے کو معاف فرمائے۔
اس لیے اللہ کے دربار سے آدمی کو بڑی امیدیں رکھنی چاہییں۔ اللہ جج بن کر فیصلہ نہیں فرمائیں گے،اللہ قاضی بن کر فیصلہ نہیں فرمائیں گے، بلکہ مالک بن کر فیصلہ فرمائیں گے۔ جج قانون کا پابند ہوتا ہے، مالک قانون کا پابند نہیں ہوتا۔ اگر عدالت جج کی ہو اور اس میں کیس چلا جائے اور استغاثہ شہادتوں کے ساتھ جرم کو ثابت کردے، تو جج کو معاف کرنے کا کوئی اختیار نہیں۔ جج معاف تب کرسکتا ہے، کچھ شہادت میں سقم اور کمزوری ہو پھر معاف کرتا ہے، کوئی دنیا میں ایسا جج نہیں جو یہ کہہ دے کہ جرم ثابت ہے لیکن میں معاف کرتا ہوں۔ جج ایسا کر ہی نہیں سکتا، جرم ثابت ہو تو جج قانون کے مطابق فیصلے کا پابند ہے، لیکن مالک قانون کا پابند نہیں ہے۔
مالک یوم الدینکی محسوس مبصر مثال
اگر دوکان پر چوری ہوگئی اور دکان میں جو آپ نے ملازم رکھا ہوا ہے، وہ چور کو پکڑلے اور عدالت میں لے جائے اور چوری عدالت میں ثابت کردے تو جج معاف نہیں کرسکتا، اگر معاف کرے گا تو آپ کا ملازم شور مچائے گا کہ جج صاحب! آپ نے کیسے معاف کیا، میں نے تو ثا بت کردی ہے، لیکن اگر یہی ملازم آپ کا چور کو پکڑ کر اور مالک کی عدالت میں آپ کے پاس لے آئے، آپ کیس سنیں اور کہیں جی میں نے معاف کردیا، اب اس پہ ملازم نہیں کہہ سکتا، جی آپ نے کیوں معاف کیا؟
آپ کہیں گے میں جج نہیں ہوں، میں مالک ہوں، میرا دل کرے، سزادوں اور دل کرے، میں معاف کردوں۔ تو قیامت کو اللہ کے دربار میں ملائکہ انسان کے گناہوں پر گواہ بن کر بھی آئیں گے، اللہ اس گواہی کے پابند نہیں ہیں، بعض بندے گناہ کا اعتراف کریں گے، اللہ پھر بھی معاف کردیں گے، اس لیے کہ اللہ قانون کے پابند نہیں ہیں۔ حدیث مبارک میں ہے اللہ ایک بندے کو بلا کر پوچھیں گےتم نے گناہ کیا؟ وہ ڈرتاہوا اقرار کرے گامیں نےکیااللہ فرمائیں گےیہ بھی کیا؟ وہ ڈرتا ہوا اقرار کرے گاجی میں نے کیا پھر پوچھیں گےیہ بھی کیا؟ وہ ڈرتا ہوا اقرار کرے گامیں نے کیاوہ کانپ جائے گا، پتا نہیں میرے ساتھ کیا ہوگا۔
اللہ تعالی فرمائیں گےمیں نے یہ بھی معاف کیا،یہ بھی معاف کیا، یہ بھی معاف کیااور حدیث مبارک میں آتاہے کہ اس بندے کو اتنی جرأت ہوگی جب اللہ اس کے گناہ معاف کریں گے تو پھر کہے گااللہ میں نے کچھ اور بھی کیے ہیں، میں نے کچھ اور بھی کیے ہیں حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم اتنا مسکرائے حَتَّى بَدَتْ نَوَاجِذُهُ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ڈاڑھ مبارک نظر آنے لگی، ابھی ڈر رہا تھا اور ابھی جب اللہ نے معافی شروع کی تو پھر اور گناہوں کے نام لے رہا ہے۔
سنن ترمذی،رقم الحدیث: 2596
چونکہ اللہ جج نہیں ہوں گے بلکہ اللہ مالک ہوں گے، اس لیے اپنا دل بڑا رکھیں سمندر کی جھاگ برابر بھی گناہ کرلیں،تب بھی دل چھوٹا نہ کریں، ہم نے جج کی عدالت میں نہیں جانا، مالک کی عدالت میں جانا ہے، مالک اپنے قانون شاہی کو دیکھ کے معاف فرمادیں گے،ان شاءاللہ۔
اللہ روزِ قیامت مالک کی حیثیت سے حساب فرمائیں گے، کیسے؟
میں اس کی ایک مثال دے کر بات سمجھاتا ہوں تاکہ بات جلدی سمجھ آجائے، اگر آپ ایک آدمی کو دوکان پر رکھیں، اور آپ مالک ہیں، اس نے چھ مہینے،سات مہینے، ایک سال کام کیا، اس کے بعد آپ کے پاس وہ دو ماہ اور رہا لیکن دو ماہ کی آپ نے تنخواہ نہیں دی، سال کی تنخواہ دی ابھی دو ماہ کی باقی تھی، تنخواہ اس لیے باقی تھی کہ آپ تنخواہ تین مہینے بعد اکھٹی دیتے تھے، دو ماہ کا م کیا،ابھی اس کی تنخواہ باقی تھی چونکہ تنخواہ تو تین مہینے کے بعد دینی تھی، آپ کی دوکان کا ضابطہ تین ماہ بعد، پھر تین مہینے، بعد پھر تین مہینے بعدکا ہے۔ اس نے کچھ گڑ بڑ کی اور دوڑ گیا۔
آپ اس کی تلاش کر رہے تھے، دوکان میں گڑ بڑ بھی کی ہے، نقصان بھی کیا ہے، چوری بھی کی ہے، کچھ مال لیا اور دوڑ گیا، آپ اس کی تلاش کرتے رہے، سال میں مشکل میں دوسرے شہر سے وہ پکڑا گیا، کسی آدمی نے نے نشان دہی کی آپ نے پولیس سے کہا، پولیس پکڑ کر آپ کے پاس اس کو لے آئی۔ اس بندہ نے چوری کی تھی اور پکڑا گیا اب جب وہ آیا تو گھبرا رہا تھا کہ میں نے چوری کی ہے، میں نے دو کان کو نقصان بھی دیا ہے، بہت بڑا نقصان کیا ہے، میرے ساتھ کیا بنے گا اور مجھے پولیس پکڑ کر لائی ہے، اس کو لاتے ہی اس کو پیار کے ساتھ کہیں، بیٹا! آپ نے غلطی کی ہے کوئی فرق نہیں پڑتا، ہم نے معاف کیا، چلو دکان پر کام شروع کرو، وہ سوچ رہا تھا کہ مجھے سزا دیں گے،مجھے ماریں گے، اور آپ نے سب کچھ معاف کرکے کہا، چلو بیٹا! اب دکان پہ کام کرو،ہم نے معاف کردیا ہے، چھوڑو ان باتوں کو۔
وہ تھوڑی دیر بعد، پتا ہے کیا کہے گا، ایک اور بات کہہ دوں؟ آپ نے کہنا ہے،کیا؟ وہ جو دو ماہ کی تنخوا ہ ہے، وہ دیں گے مجھے؟ [مجمع ہنستے ہوئے ]پہلے وہ ڈر رہا تھا کہ میرے ساتھ پتا نہیں کیا ہوگا۔ جب آپ نے پچھلی کوتاہی معاف کردی تو پھر وہ سمجھا، مالک جوش میں ہے، اس جوش کو دیکھ کر پھر بولتا ہے، سر میں ایک بات کہہ سکتاہوں؟ ہاں پوچھو یہ جو دو ماہ کی تنخواہ ہے،وہ بھی دیں گے ناں مجھے؟ تو قیامت کے دن جب اللہ پچھلے جرائم معاف فرمائیں گے تو پھر بندہ جری ہوگا، اللہ میں نے ایک بات اور بھی کرنی ہے مجمع مسکراتے ہوئے 
مالک یوم الدیناللہ قیامت کے دن مالک بن کر فیصلے فرمائیں گے۔
اللہ کے سامنے سفارش چلے گی، وکالت نہیں
ایک بات اور سمجھیں! جب عدالت جج کی ہوتی ہے، اس میں کیس لڑنے کے لیے وکیل آتے ہیں، جب عدالت جج کی ہوتی ہے تو کیس لڑنے کے لیے وکیل آتے ہیں۔ آپ کے ملک کا سسٹم، آپ جانتے ہیں، میں اپنے سسٹم کی بات کررہاہوں اور ہمارے پاکستان کا بھی یہی حال ہے، ہم بھی مسلمان ہیں، وکیل بھی مسلمان ہیں ملزم بھی مسلمان ہے، مدعی بھی مسلمان ہے، جج بھی مسلمان ہے،قانون کافر ہے۔ [مجمع قہقہے لگاتا ہوا ] آپ کے ہاں تو یہ معاملہ نہیں ہے نا؟
آپ کے ہاں تو جج مسلمان نہیں ہے، ہوسکتا ہے آپ کا مخالف مسلمان نہ ہو، وہاں مدعی بھی مسلمان، اور جو مخالف ہے ملزم،وہ بھی مسلمان، گواہ بھی مسلمان، جج بھی مسلمان، سب مسلمان ہیں، قانون کافر ہے، تو ہمارے اوپر ظلم تو آپ سے زیادہ ہورہا ہے، آپ اندازہ کریں! کتنی عجیب پالیسی ہے؟ اللہ ہم سب کو سمجھ عطا فرمائے۔ خیر میں بات کررہا تھا، اگر عدالت میں کیس آئے تو پھر وکیل پیش ہوتا ہے۔ خدانخواستہ، خدانخواستہ اگر کسی کے ہاتھوں قتل ہوجائے تو لوگ ایف آئی آر درج کراتے ہیں، تھانے والے ملزم کو گرفتا ر کرتے ہیں، ملزم گرفتار کرکے عدالت میں لاتے ہیں، عدالت جسے ماتحت لوئر عدالت کہتے ہیں،سیشن کورٹ ہےسپیشل کورٹ ہے، وہ سزائے موت کا فیصلہ کرتی ہے۔
وکیل آپ کا پورا کیس لڑتا ہے،لیکن جنگ ہار جاتا ہے، پھر لوگ گھر میں نہیں بیٹھتے بلکہ اس کیس کے خلاف ہائی کورٹ میں جاتے ہیں، ہائی کورٹ میں اپیل کرتے ہیں اور سیشن کورٹ سے بڑا وکیل آپ وہاں کھڑا کرتے ہیں اور پیسے دیتے ہیں، وہ وکیل جنگ لڑتا ہے، جنگ لڑتا ہے، پھر جنگ ہار جاتا ہے، تو پھر بھی گھر نہیں بیٹھتے۔ پھر اس کے خلاف سپریم کورٹ میں جاتے ہیں، اور سپریم کورٹ میں اس سے بڑا وکیل تیار کرتے ہیں۔ وہ وکیل کیس لڑتا ہے، لڑتا ہے، اور وہ بھی ہار جاتا ہے، اب سپریم کورٹ کہتی ہے کہ اس کو سزائے موت دے دو، سیشن کورٹ نے فیصلہ کیا، سپیشل کورٹ نے یا سیشن کورٹ نے، تو ہائی کورٹ اس کو بحال رکھتی ہے، اب اس کے خلاف سپریم کورٹ گئے، سپریم کورٹ نے بحال رکھا۔
اس کے بعد کہاں جاتے ہیں؟ پھر صدر کے پاس جاتے ہیں اور صدر مملکت کو درخواست دیتے ہیں کہ ہمارے بیٹے نے قتل کیا تھا، عدالت نے سزا سنادی ہے،تو اب آپ ہمارے اوپر رحم فرمائیں اور ہمارے بیٹے کو معاف کردیں تو وہاں وکیل لےکر نہیں جاتے بلکہ وہاں سفارش لے کر جاتے ہیں، صدر کے پاس ایم این اے،ایم پی اے، منسٹر جو بھی ہے اس کی سفارش لے کر جاتے ہیں کیوں؟
جب تک جج کی عدالت تھی، وکیل اپنا کام کررہا تھااور جب جج کی عدالت سے نکل کر کیس ملک کے بادشاہ کی عدالت میں چلا گیا،اب وکیل نہیں جاتا، اب سفارشی جاتے ہیں، اللہ قیامت کو مالک بادشاہ بن کر فیصلہ کریں گے، جج بن کر فیصلہ نہیں کریں گے، اس لیے پتا چلا قیامت کو خدا کی عدالت میں کو ئی وکیل کام نہیں آئے گا،اگر وہاں کام آئے گا،تو سفارشی کام آئے گا۔
دنیا میں کون سفارشی،کون وکیل
اب بات سمجھیں! آپ اپنے بچے سکول اور کالج بھیجیں، ہم منع نہیں کرتے،لیکن مدرسوں میں ضرور بھیجیں، ہم اس کی ترغیب دیتے ہیں، اس لیے کہ سکول اور کالج میں وکیل بنتے ہیں، مدارس میں سفارشی بنتے ہیں۔ مجمع سبحان اللہ سبحان اللہ کرتا ہوا ]سکو ل اور کالج میں وکیل بنتے ہیں اور مدارس میں سفارشی بنتے ہیں، یہ جہاں ہم بیٹھے ہیں،مدرسہ عمر بن الخطاب ہے۔میں تو مولانا سے کہتا ہو ں اللہ آپ کو جگہ دے۔ کھلا اور بڑاسا دارالعلوم بنائیں، اللہ سے مانگیں، اللہ نے دینا ہے،یہ لوگ تو نہیں دے سکتے،یہ برداشت کرلیں تو بڑی بات ہے۔ مجمع ہنستا ہوا 
مولوی کو چندہ دینا تو بعد کا مسئلہ ہے، مولوی کو برداشت کرلیں، تو بڑی بات ہے۔ اللہ کا شکر ہے آپ حضرات مدارس سے تعاون کرتے ہیں اور کرنا بھی چاہیے۔ میں گزارش کررہا تھا، مدرسہ والوں سے آپ نے کہناہے کہ مولانا اپنے بچوں سےکہیں! ذرا ہمارے ابا کے لیے دعا کریں۔
جہاں طب کی انتہاء،وہاں سے سفارش کی ابتداء
جہاں پر طب اور ڈاکٹر وں کی انتہاء ہوتی ہے،وہیں سے سفارشوں کی ابتداء ہوتی ہے۔ جہاں ڈاکٹر کی انتہاء ہوتی ہے وہاں سے سفارشی کی ابتداء ہوتی ہے۔بیٹا کسی کیس کے سلسلے میں جیل میں چلا گیا ہے، آپ نے بڑے بڑے وکیل، لاکھوں ڈالر فیس دے کر کھڑے کیے ہیں، کسی وجہ سے خدا نہ کرے اس بیٹے کا انتقال جیل میں ہوجائے، اور سپرٹنڈنٹ جیل سے آپ کے گھر فون کر کے کہتا ہے کہ آپ ذرا تھوڑی دیر کے لیے جیل آجائیں، آپ پریشان ہیں، رات بارہ بجے فون کیسے آگیا، وہاں گئے تو اس کی آنکھوں میں بھی آنسو ہیں۔
سپرٹنڈنٹ جیل بھی کہتا ہے، ہمیں بہت دکھ ہے کہ آپ کا جوان بیٹا تھا اور فوت ہوگیا ہے، آپ روزانہ وکیل کے چیمبر کا چکر لگاتے تھے روزانہ، اب وکیل کے چیمبر کا چکر نہیں لگائیں گے، اب مدرسے میں پہنچیں گےمولانا طلباء سے کہنا ہمارے بیٹے کے لیے دعا کریں، اللہ اس کو بخش دیں تو جہاں وکیل کی انتہاء ہوتی ہے، وہاں سے مولانا صاحب کی ابتداء ہوتی ہے۔ تو وہاں بچے بھیجیں،وکیل اور ڈاکٹر بنیں گے، یہاں بچے بھیجیں گے، ان شاء اللہ سفارشی بنیں گے۔
کہاں وکیل کہاں سفارشی
دنیا میں اگرکسی پر کیس بنے، اس کو وکیل چاہیے اور قیامت کا کیس بنے تو پھر سفارشی چاہیے، بتائیں دنیا میں اگر کیس بنے تو؟ وکیل چاہیے، قیامت میں کیس بنے تو پھر؟ سفارش چاہیے۔ دنیا میں ہر کسی پر کیس نہیں بنتا، قیامت میں ہر کسی پر کیس بننا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ دنیا میں کسی کسی کو وکیل چاہیے اور قیامت کے دن ہر بندے کو سفارشی چاہیے، تو آپ اپنے سفارشی چاہتے ہیں؟ سفارشی تو بہت ہوتے ہیں، ان میں سے جو سب سے زیادہ آسان سفارشی ہے، وہ آپ کے اپنے گھرمیں ہیں، رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
عَنْ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَنْ قَرَأَ الْقُرْآنَ فَاسْتَظْهَرَهُ شُفِّعَ فِي عَشَرَةٍ مِنْ أَهْلِ بَيْتِهِ قَدْ وَجَبَتْ لَهُمْ النَّارُ
مسند احمد،رقم الحدیث: 1268
حافظ ِقرآن کی فضیلت
جو بندہ ایک بچہ قرآن کا حافظ بنادے،تو وہ بچہ خاندان کے دس ایسے آدمی جنت میں لے جائےگا،جن پر جہنم کا فیصلہ ہوچکا ہوگا۔ تو آپ میں سے ہر بندہ ارادہ کرلے کہ میں اپنے بیٹے کو قرآن کا حافظ بناؤں گا، جن کے ارادے ہیں، وہ ہاتھ کھڑا کریں،مولوی ہاتھ کھڑا کرتےہیں، جو پہلے ہی لگے ہوئے ہیں [مسکراتے ہوئے فرمایا]کرائیں گے نا ں بھائی! ان شاءاللہ۔ ایسا نہ ہو کہ اللہ پاک ہمیں دوبارہ پھر لائے اور آپ پھربھی بچے داخل نہ کرائیں۔
لطیفہ
ہمیں ان شاءاللہ کہہ کر خوش نہیں کرنا، اپنے بیٹے داخل کراؤ،کرائیں گے ناں؟ ان شاء اللہ! ایسا نہ ہو کہ وہ ایک لطیفہ جیسا قصہ بنے،کہ ایک مولوی صاحب آئے بیان کرنے کے لیے، مدرسے والوں نے بلایا اور مدرسہ والوں نے کہا جی! آپ کے لوگ بہت معتقد ہیں تو آپ ان سے اپیل کریں، ہمیں دو ایکڑ زمین چاہیے۔ آپ کی بات پر زمین دے دیں گے۔ تو مولانا صاحب نے بیان کیا، دو ایکڑ کی اپیل کی، بھائی مدرسےوالوں کو زمین دو! ایک آدمی کھڑا ہوا،گاؤں کا چوہدری،وڈیرا۔ بڑا آدمی اس نے کہاجی میں دو ایکڑ دوں گااس نے ہاتھ کھڑا کیا لکھوایا اور چلے گئے۔
اب صبح مدرسے والوں نے کہا یہ تو بڑا آدمی ہے، ہمیں تو نہیں دے گا، حضرت آپ ہی اس سے ذرا نام لکھوادیں، صبح اس کے گھر چلے گئے تو اس نے پوچھا، حضرت قبلہ! کیسے تشریف لے آئے؟ چائے پئیں گے، مکھن کھا ئیں گے، دودھ پیئں گے؟ تو مولانا صاحب نے فرمایا، ناشتہ تو کرلیا ہے،وہ رات آپ نے دو ایکڑ زمین دی تھی مدرسے والوں کو، ذرا وہ ان کو لکھوادو۔ اس نے کہا او سادے لوگو! ہم نے سوچا کہ ایک گھنٹہ اس نے ہمیں خوش کیا ہے، ایک منٹ ہم بھی خوش کرتے ہیں مجمع ہنستا ہوا
ہم نے سوچا کہ ایک گھنٹہ مولوی صاحب نے خوش کیا ہے، ایک منٹ ہم بھی خوش کردیں، تو کہیں ایسا نہ ہو کہ آپ رنگون والے کہو، پاکستان سے مولوی صاحب آئے تھے، یہ ہمیں خوش کرتا رہا، ان شاء اللہ،ان شاء اللہ کہہ کر ہم بھی خوش کردیں گے، ایسا تو نہیں ہوگا ناں؟ آپ میں سے ہر بندہ نیت کرلے، بس ہر بندہ یہ فیصلہ کرلے کہ ہم نے اپنا بیٹا مدرسے بھیجنا ہے۔ بھیجیں گے ناں ان شاءاللہ؟
[سامعین:انشاءاللہ]
جو حافظ بنے گا وہ کاروبار بھی کرے گا، وہ تجارت بھی کرے گا، اس سے دماغ تیز ہوتا ہے، کمزور نہیں ہوتا۔ اپنا دل چھوٹا نہ کریں، تاجر بھی اولادکو بناؤ، زمیندار بھی اولادکوبننا چاہیے۔ اور ملازم بھی اپنی اولاد کو بنا سکتے ہو،ساتھ یہ فیصلہ فرمائیں کہ ہم ایک بیٹا اپنے مدرسے کو دیں گے، انشاءا للہ۔ دوگے نا انشاءاللہ؟ میں نے اس لیے کہا، دوبارہ پھر آپ کے شہر میں آئیں، اللہ لے آئے، دوبارہ پھر آئیں تو ایسا نہ ہو کہ میں مولانا سے پوچھو ں کہ بھائی کوئی آیا ہے؟ کہے کوئی بھی نہیں آیا، کسی اور سے پوچھو ں، کہے جی کوئی بھی نہیں آیا، ہمیں کچھ نہیں کرنا، یہ ہر کسی کی ضرور ت ہے، اپنے بچے دوگے آپ کی ضرورت پوری ہوگی۔
حافظ قرآن کی شفاعت کیونکر؟
اچھا یہ بتائیں وکیل کہا ں سے بنتے ہیں؟ وکیل کہاں سے بنتے ہیں؟[ کالج میں] [مجمع کا جواب ]اور سفارشی کہاں بنتے ہیں؟ [مدرسے میں] [مجمع کا جواب ]آپ رنگون میں رہتے ہیں اور آپ کا منسٹر کسی اور شہر میں ہے، یہاں سے اس منسٹر کے شہر کا پانچ سو کلو میٹر کا فاصلہ ہے اور آپ نے منسٹر سے کا م کرانا ہے اور کسی آدمی کو ساتھ لےکر جاتے ہیں، جس کا منسٹر سے تعلق ہو،سفارش کرانے کے لیے۔ تو اس منسٹر کا وہ جو سفارشی آپ لے کر جارہے ہیں، اس کی گاڑ ی میں پٹرول آپ ڈالیں گے یا سفارشی ڈالے گا؟ جی؟ نہیں بات سمجھ آئی؟
آپ کا منسٹر سے کا م ہے۔جو پانچ سو کلو میٹر دور رہتاہے، ایک آ پ کے شہر کا بڑا آدمی ہے، جس کا منسٹر سے تعلق ہے، آپ اس کو ساتھ لے کر گئے ہیں سفارش کرانے کے لیے، تو جو راستے میں گاڑی میں پیٹرول ڈلوانا ہے، وہ آپ ڈالیں گے یا سفارشی ڈالے گا؟ [خود ڈالیں گے،سامعین] راستے میں جو کھانا کھلانا پڑے گا وہ؟ خود یا سفارشی؟ خود، مجمع کا جواب ] تو یہ جو مدرسے ہیں، ان کو اگر آپ پیسہ دیتے ہیں، کوئی مدرسہ پر احسان کرتے ہیں؟ کچھ بھی احسان نہیں ہے، وہ جو آپ نے سفارشی کی گاڑی میں پیٹرول ڈلوایا ہے، اس پر آپ نے احسان کیا ہے؟ اپنی ضرورت کے لیے ہے، اس کو رستے میں آپ نے جو قورمہ کھلایا ہے، کباب کھلائے ہیں، وہ کیوں کھلائے؟ تاکہ خوش ہو کر سفار ش کرے۔
تو مدرسوں میں جو طلباء کو آپ کھلاتے ہیں، ان پر احسان نہیں کرتے، اس لیے کہ یہ آپ کی سفارش کریں گے، تو سفارشی کو کھلا کر سفارشی پر احسان نہیں ہوتا، یہ سفارشی کا احسان ہوتا ہے کہ آپ سے کھائے،اور آپ کی سفارش کرے، اس لیے جب علماء کی خدمت کریں، تو احسان نہ چڑھایا کریں، یہ آپ کے سفارشی ہیں اور سفارشی کی گاڑی میں پٹرول خودڈالتے ہیں۔
تو آپ حضرات دو کاموں کا بہت اہتمام کریں:
نمبر 1: اپنے بچوں کو حافظ بنائیں
نمبر 2: حافظوں پر پیسے خرچ کریں
میں چندہ نہیں مانگ رہا۔ اللہ کی قسم! مسجد میں بیٹھ کر کہہ رہاہوں، میں نہ چندہ لینے کے لیے آیا ہوں،نہ ہمیں آپ کے چندے کی ضرورت ہے۔ میں آپ کو یہ کہہ رہاہوں کہ اپنے بچوں کو حافظ بھی بناؤ،مدارس پر پیسے خرچ کرو، علماء پر خرچ کرو، مدارس پر خرچ کرو، آج خرچ کرو گے آئندہ نسلوں کا ایمان بچ جائے گا۔ آج پیچھے ہٹ جاؤگے آئندہ نسلیں ایمان سے دور ہو جائیں گی، دنیا میں ایمان کو بچانے کا ذریعہ یہ مدارس ہیں، خانقاہیں ہیں۔ تبلیغ کا کام مدارس سے اٹھتا ہے، مساجد کے امام،مدارس سے پیدا ہوتے ہیں۔ یہ مدار س ہیں جو دین کے سارے شعبے زندہ کرتے ہیں، دین کے سارے شعبے زندہ کرنا چا ہو، تو مدارس کو مضبوط کرو!
اپنے ایمان کو بچانا چاہو تو مدارس کو مضبوط کرو،آئندہ نسلوں کا ایمان بچانا ہے تو مدارس کو مضبوط کرو۔ دو کاموں کا بہت اہتمام کریں: اپنی اولاد کو دین پڑھائیں اور جو دین پڑھتے ہیں، ان پر اپنا پیسہ خرچ کریں، اللہ آپ کو بہت دے گا انشاءاللہ۔ اللہ اولاد بھی دے گا، اللہ مال بھی دے گا، اللہ کو دیں، اللہ بندے کو محروم نہیں کرتے، اللہ کریم ہے، اللہ کو ہماری ضرورت نہیں ہے۔
میں نے ترغیب اس لیے نہیں دی کہ مجھے کسی نے کہا ہے، میں اپنے دل کی بات کررہاہوں۔ ہم نے اپنی اولاد کو بھی مدرسہ میں پڑھا یا ہے،بھائی تم مدرسے داخل ہوجاؤ،قرآن پڑھو، باقی رزق کا معاملہ تو اللہ کے ذمہ ہے، اللہ دیں گے مالک یوم الدین اللہ قیامت کے دن کا مالک ہے، جج اور قاضی نہیں ہے،اللہ مالک ہے۔ اللہ کو مالک ہی سمجھیں، اللہ کو جج اور قاضی نہ سمجھیں۔
اللہ کی عدالت، دنیا کی عدالت
آخری بات سمجھیں! دنیا کی عدالت اور اللہ کی عدالت میں ایک بہت بڑا فرق ہے، دنیا کی عدالت میں جج اور قاضی ہو یا ہمارا بادشاہ،کوئی بھی ہو، دنیا کی عدالت میں کبھی کبھی ملزم کو معافی مل جاتی ہے۔ لیکن ملزم کا ریکارڈ ختم نہیں ہوتا۔ دنیا کا بادشاہ مجرم کو معاف کردیتا ہے، ریکارڈ ختم نہیں کرتا۔ اگر ایک آدمی نے دس چوریاں کی ہیں، عدالت میں کیس جائے،جرم ثابت نہ ہو، عدالت معاف کردے یا جرم ثابت ہو اور جیل کاٹ رہا ہو اور بادشا ہ معاف کردےبھائی ہمارا نیشنل ڈے ہے اس موقع پر سارے چوروں کو ہم معاف کرتے ہیں، معافی دے دیتے ہیں، چوروں کا ریکارڈ ختم نہیں ہوتا۔ اللہ کی عدالت ایسی ہے کہ جب اللہ کسی کو معاف کرتے ہیں تو اس کی ریکارڈ کو ختم کردیتے ہیں حدیث مبارک ہے
إذا تاب العبدُ أنسى اللهُ الحفظةَ ذنوبَه وأنسى ذلك جوارحَه ومعالِمَه من الأرض حتى يلقى اللهَ وليس عليه شاهدٌ من اللهِ بذنبٍ
جامع الاحادیث،رقم الحدیث:1601
جب بندہ گناہوں سے تو بہ کرلیتا ہے،اللہ فرشتوں کو بھلادیتے ہیں، بندے کے اعضاء کو بھلادیتے ہیں، جس زمین پر گناہ کیا، اس زمین کو بھلا دیتے ہیں، قیامت کے دن خدا کے دربار میں جائے گا، اس کا ریکارڈ بھی نہیں ہوگا، اس کے خلاف کوئی گواہ بھی نہیں ہوگا۔
وماعلینا الاالبلاغ