تقلید کی ضرورت و اہمیت

User Rating: 1 / 5

Star ActiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
تقلید کی ضرورت و اہمیت
بمقام: دفتر جمعیت العلماء، ینگون
بتاریخ:16-02-2013
الحمد للہ نحمدہ ونستعینہ و نستغفرہ ونؤمن بہ ونتوکل علیہ و نعوذ باللہ من شرور انفسنا ومن سیّئات اعمالنا من یھد ہ اللہ فلا مضل لہ ومن یضللہ فلا ھادی لہ ونشھد ان لا الہ الا اللہ وحدہ لا شریک لہ ونشھد انّ سیدنا ومولٰنا محمد اً عبدہ ورسولہ اما بعد
فاعوذ باللہ من الشیطٰن الرجیم، بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَأُوْلِي الأَمْرِ مِنْكُمْ فَإِنْ تَنَازَعْتُمْ فِي شَيْءٍ فَرُدُّوهُ إِلَى اللَّهِ وَالرَّسُولِ إِنْ كُنتُمْ تُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الآخِرِ ذَلِكَ خَيْرٌ وَأَحْسَنُ تَأْوِيلاً
اللہ رب العزت کا بہت بڑا فضل ہے،اللہ رب العزت نے ہمیں قرآن کریم جیسی مقدس کتاب عطا فرمائی ہے اور ختم نبوت کی برکت سے ہمیں فقہ کی بڑی نعمت عطافرمائی ہے۔ ہمارے خیال میں چونکہ بہت سارے ایسے مسائل ہیں جن کا سمجھانا اور سمجھنا بہت ضروری ہے لیکن جس قدر بھی مسائل سمجھنا اور سمجھانا ضروری ہیں ان میں ہمارے خیال میں سب سے بنیادی مسئلہ تقلید کا ہے۔ یہ مسئلہ بنیادی کیوں ہے؟
مسئلہ تقلید اساسی مسئلہ ہے
اس لیے کہ اگر تقلید کا مسئلہ حل ہو جائے تو لاکھوں مسائل حل ہوجاتے ہیں۔اور اگر ایک تقلید کا مسئلہ حل نہ ہو تو لاکھوں مسائل پیدا ہوتے ہیں۔ آپ کس کس مسئلہ پر لوگوں کو مطمئن کریں گے؟ اور جب آپ ایک پر اعتماد کریں گے تو سارے مسئلہ حل ہو جائیں گے۔ اگر آپ اپنے ملک کے کسی آدمی کو حاکم تسلیم نہیں کریں گے تو ہر شہر، ہر گلی اور ہر گھر میں لڑائی ہو گی اوراگر کسی کو حاکم مان لیں گے، تو ہر لڑائی ختم۔اس لیے کہ حاکم جو قانون دے گا اس پہ عمل کریں گے، تو مسئلہ آسان ہوگا اور اگر ملک ہو اور ملک کا حاکم نہ ہو، تو پھر اس ملک میں خانہ جنگی ہے، لڑائی ہے، فساد ہے، اس کو سنبھالنا بہت مشکل ہے۔
ملکی خانہ جنگی کیسے ختم ہو
کسی ملک میں خانہ جنگی ختم کرنے کے لیے وہاں کا کوئی غیر متنازعہ حاکم ہونا چاہیے۔ اگر اس کو کسی سےاختلاف بھی ہو تو یہ اختلاف قانون کی حدودمیں ہو، تا کہ اس ملک کے نظام کو چلایا جاسکے۔ بالکل اسی طرح ہمیں دس، پندرہ، سونہیں بلکہ لاکھوں مسائل پیش آتے ہیں اور قیامت تک یہ مسائل پیش آتےر ہیں گے۔ اور ان تمام مسائل کا حل ختم نبوت کی برکت سے فقہاء، مجتہدین اور ان کی تخریج ہے۔ ان کو مان لیں گے تو سارے مسائل ٹھیک،اور اگر ان کو ہم نہیں مانیں گے، تو ہر مسئلہ پر اختلاف ہوگا۔
کمسن بچے کا مناظرہ
ہمارے ہاں پنجاب میں ایک شہر ہے شیخوپورہ، ضلع شیخوپورہ میں۔ مجھے ایک بیان میں وہاں جانا ہوا۔ میرے میزبان نے ایک آٹھ یا نو سال کا بچہ تھا، ان سے ملاقات کروائی اورخصوصیت سے کہاکہ آپ اس بچہ سے ملاقات کریں، میں نے بلایا اور پو چھا کہ اس کی خصوصیت کیا ہے؟ انہوں نے بڑے اہتمام سے ملاقات کروائی اور بتایا کہ یہ بچہ آپ کے بیانات سنتا رہتا ہے اور ہمارے گھر میں ایک چھوٹا سا مناظرہ ہوا، جو اس بچے نے کیا۔ہم چاہتے ہیں کہ آپ یہ مناظرہ سنیں۔ میں نے ان سے پوچھا کہ مناظرہ کس سے ہوا؟ تو انہوں نے کہا اپنی ممانی سے۔
میں نے کہا کہ مناظرہ کی وجہ توکوئی ہوگی؟ اس نے کہا چونکہ ہم مقلد ہیں اور ہمارے گھر میں جو عورت آئی ہے، اس کی ممانی، وہ غیر مقلدن ہے۔ تو اس نے آکر ہمارے گھر کافی مسائل پید ا کیے ہیں، کبھی رفع یدین، کبھی مسئلہ آمین، اور کبھی کسی او ر مسئلے میں، اس بچے نے اپنی ممانی سے کہا کہ ہم مناظرہ کر لیتے ہیں، ممانی نے کہا کہ کرلو مناظرہ، کس بات پہ کریں گے؟
ایک بات یاد رکھیں۔ جب بھی کوئی غیر مقلد آپ سے بات کرے گا، تو سب سے پہلے مسئلہ رفع الیدین کا چھیڑے گا، ہمیشہ یاد رکھنا! دوسرے مسائل نہیں چھیڑے گا، اس لیے کہ غیر مقلدین کے نزدیک سب سے مضبوط مسئلہ رفع الیدین کا مسئلہ ہے۔ وہ سمجھتے ہیں بہت مضبوط مسئلہ ہے، ہمارے پاس بخاری کی پانچ حدیثیں ہیں، صحیح مسلم میں اتنے ہی دلائل موجود ہیں، اس لیے ہم سے کوئی بات نہیں کرسکتاہے۔ اگر اس مسئلے کی تیاری کی جائے تو غیر مقلدین کا سب سے کمزور مسئلہ رفع الیدین کا ہے، میں دو تین باتیں ان شاء اللہ پیش کروں گا تاکہ آپ کو کبھی بات کرنی پڑے تو آپ کے لیے الجھن نہ ہو۔
گفتگو کس موضوع پہ ہونی چاہیے
تو اس بچے نے کہا کس موضوع پہ؟ تو غیر مقلدن (مقلد کی مونث)عورت نے کہا کہ رفع الیدین پہ۔ بچے نے کہا رفع الیدین پہ بات نہیں کرتے بلکہ تقلید پہ بحث کرتے ہیں، اس نے کہا کیوں؟ بچے نے کہا جب ہم ایک امام کے مقلد ہو جائیں گے تو باقی مسائل پہ مناظرہ ختم ہو جائے گا۔اور جب تک ایک امام کے مقلد نہیں ہوں گے تو ہر روز نیا مناظرہ ہوگا۔ اس لیے بہتر ہے کہ ایک بات پہ مسئلہ صاف کریں تاکہ روزانہ کے مناظرے ختم ہوجائیں۔
بچے نے مناظرہ شروع کرنے سے پہلے ممانی پر سوال کیا کہ تقلید ایمان ہے یا شرک؟ کبھی کسی غیر مقلد سے بات کریں تو پہلے مسئلے کا حکم لکھوائیں۔ وہ مسئلہ لکھے گا، حکم نہیں لکھے گا۔ یہ بالکل 100فیصد آزمودہ ہے۔اگر کوئی آپ سے رفع الیدین پہ بات کرتا ہے تو آپ اسے یہ کہیں کہ تو رفع الیدین کی حیثیت لکھ۔ فرض ہے، واجب ہے، سنت ہے، مستحب ہے؟ وہ نہیں لکھے گا۔ وہ کہے گا چھوڑیں۔
آپ پوچھیں کہ جن مقامات پر تم رفع یدین کرتے ہو، اگر کوئی وہاں نہیں کرتا تو اس کی نماز ہوگی یا نہیں ہو گی۔اگر ایک مسئلے کا حکم نہیں، تو اس پر بحث کرنا فضول ہے۔ وہ کہے گا ہمارے ہاں فرض،واجب،سنت نہیں ہے۔اسے کہیں ہم قرآن وحدیث سے دکھا دیتے ہیں۔بہت سے مسائل کو حضور نے فرض فرمایا، بعض کو واجب فرمایا ہے، بعض کو مستحب اور بعض کو مکروہ فرمایا ہے۔ احادیث میں ایسی باتیں موجود ہیں، مثلاً:
الْوِتْرُ حَقٌّ عَلَى كُلِّ مُسْلِمٍ
سنن أبي داود، رقم الحدیث 1424
وتر کو واجب فرمایا۔
إن الله فَرَضَ صيامَ رمضانَ وسَنَنْتُ لكم قِيامَه
جامع الأصول في أحاديث الرسول، رقم الحدیث 7122
اللہ نے روز ہ فرض کیا، میں نے قیام کو سنت کہا ہے۔
ان اصطلاحات کا حدیث میں استعمال ہے۔ کسی کو واجب کہا،کسی کو سنت کہا، کسی کو مستحب کہا۔ آپ اس سے دوڑ نہیں سکتے۔ بلکہ آپ ان سے کہیں کہ ہم احادیث سے ثابت کردیں گے کہ آپ کے مصنفین بہت سے مسائل پہ احکام لکھتے ہیں کہ یہ واجب ہے، یہ سنت ہے۔تو وہ حکم کبھی نہیں لکھے گا۔ آپ کا واسطہ پڑے گا تو پتا چلےگا۔مسئلہ بیان کرے گا مسئلے پر حکم نہیں لگائے گا کہ فرض ہے، واجب ہے یا سنت ہے۔آپ کے سامنےنہیں لگائے گا، عوام کے سامنے لگائے گا، یہ فرض ہے۔ لیکن جب آپ کی باری ہوگی تو پھر نہیں بتائے گا کیوں؟ اس کو پتا ہے کہ عوام کے ساتھ معاملہ اور ہوتاہے اور علماء کے ساتھ معاملہ اور ہوتا ہے۔
ان کی باقاعدہ تربیت کی جاتی ہے اور اپنے لڑکوں کو تیار کرتے ہیں۔ہم اپنے بچوں کو تیار نہیں کرتے اور اگر کوئی تیار ہو نا بھی چاہے، تو اسکی حوصلہ شکنی کرکے روک دیتے ہیں۔ حالانکہ تیاری کرانی چاہیے۔ تیاری کرنے سے نہ حالات خراب ہو تے ہیں، نہ جماعتیں خراب ہوتی ہیں، نہ نظم تباہ ہوتا ہے۔ تیاری کرانے سے کیا فرق پڑتا ہے۔
تبلیغی اکابر کی بات کا مطلب
میرا پاکستان رائیونڈ کی شاخ میں بیان تھا۔ میرے وہاں چونکہ مدارس میں الحمد للہ کثرت سے بیانات ہوتے رہتے ہیں، تو میں نے ان حضرات سے کہا کہ ہمارے رائیونڈ کے بزرگ ایک بات فرماتے ہیں، جو آپ سمجھتے نہیں ہیں۔آپ کے رائیونڈ کے بزرگ حضرات فرماتے ہیں ہم بحث نہیں کرتے، منع کرتے ہیں۔ اس کا آپ مطلب نہیں سمجھتے، آپ مطلب سمجھیں تو پھر مناظرے سے نہ دوڑیں، اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ جب آپ کی ایک جماعت گشت میں گئی ہے اور گشت کررہی ہے اور وہاں اگر مخالفِ مذہب جماعت سے بات کرے تو ہم بحث نہیں کرتے،یہ مطلب ہے۔یہ مطلب نہیں کہ اپنے بچوں کو گھر بیٹھ کر سمجھاتے بھی نہیں۔
اچھی طرح بات سمجھیں۔ جماعت گشت کر رہی ہے، وہاں غیر مقلد آتا ہے، سلفی آتا ہے، بحث کرتا ہے، تو ہم بحث نہیں کریں گے کیونکہ ہمارے بزرگوں نے منع کیا ہے۔ لیکن اس نے جو شکوک وشبہات پیدا کیے ہیں، اگر آپ واپس مسجد آکر شکوک و شبہات دور نہیں کریں گے تو آپ کا لڑکا تو بگڑجائے گا اس سے بھی بحث نہیں کرتے اور بند کمرے میں بھی نہیں سمجھاتے تو وہ کہے گا کہ پھر میں کیا کروں؟
میں نے کہا اس لیے بزرگوں کا جملہ سمجھا کریں جابجا اپنے گناہ بزرگوں کے کھاتے میں نہ ڈالاکریں۔ انہوں نے یہ تو منع کیا ہے کہ گشت میں جاکر مخالفوں سے بحث نہ کرو لیکن یہ تو منع نہیں کیا کہ واپس مسجد میں آکر بچے کو سمجھائیں بھی نہ۔ایک ہمارے ہاں فضائل اعمال پر اعتراض ہے، تو اس کا جواب نہ دیں، لیکن جب آپ واپس آئیں، پھر اپنے بچوں کو سمجھا ئیں ناں کہ بیٹے اس اعتراض کا جواب یہ ہے اور وہاں پر ہم نے اس اعتراض کا جواب اس لیے نہیں دیا کہ بحث کی ہماری پالیسی نہیں ہے۔
اپنوں کو کیسے جڑا رکھیں؟
اب آپ کا لڑکا آ پ سےکبھی نہیں کٹے گا، آپ وہاں بھی بحث نہ کریں اور مسجد میں بھی نہ سمجھائیں، تو لڑکا غیر مقلد ہو جائے گا ناں! اس لیے بات کو سمجھنا بہت ضروری ہوتا ہے۔تو بچے نے کہا کہ چلو بات کریں۔ اب جو بھی سفر طے ہو ا، اللہ ان حضرات کو جزائے خیر دے۔ حضرات آئے میں نے ان کو کہا کہ کہہ دو۔تین دن وقت نکالو جو ذوق والے علماء ہیں، وہ تشریف لائیں، روزانہ گھنٹہ،ڈیڑ ھ گھنٹہ سبق کے انداز میں پڑھیں، آپ اس کو بیان نہ سمجھیں، سبق سمجھیں اور سبق پڑھنے میں تو کوئی عیب وعار نہیں ہوتا۔
امام ابوحنیفہ کا انوکھا خواب اور تعبیر
یہ ٹھیک ہے کہ آپ علم میں مجھ سے بڑے ہیں۔ لیکن میرے والا فن آپ کا تو نہیں ہے۔ایک آدمی علم میں بڑا ہوتا ہے، لیکن اس کا فن نہیں ہوتا، تو فن میں فن والے پراعتماد کرتے ہیں۔ حضرت امام اعظم ابوحنیفہ رحمہ اللہ نے خواب دیکھا کہ میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر مبارک پر گیاہوں، رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر مبارک میں ہڈیاں مبارک بکھری پڑی ہیں اور میں نے ان کو جمع کیا ہے۔ تو ایک شاگرد سے کہا کہ جاؤامام ابن سیرین رحمہ اللہ سے خواب کی تعبیر پوچھ کر آؤکیونکہ ہمارا تو عقیدہ ہے:
إن الله حرم على الأرض أن تأكل أجساد الأنبياء
سنن الدارمي رقم الحدیث 1572
یعنی نبی کا جسم محفوظ ہے اس کو مٹی کھا ہی نہیں سکتی۔ اور دوسری حدیث مبارکہ میں ہے
الأَنْبِيَاءُ أَحْيَاءٌ فِي قُبُورِهِمْ يُصَلُّونَ
إتحاف الخيرة المهرة رقم الحدیث 6531
انبیاء اپنی قبروں میں زندہ ہیں، نبی کا جسم محفوظ بھی ہے اور زندہ بھی ہے، یہ ہمارا نظریہ ہے۔ جب ہمارا نظریہ ہے تو ہڈیاں مبارک بکھری ہوئی کیوں ہیں؟ تو آپ جاؤاور ابن سیرین رحمہ اللہ سے خواب کی تعبیر پو چھو۔ ابن سیرین رحمہ اللہ کے پاس جانے سے پہلے کہا کہ یہ نہ بتا نا کہ خواب کس نے دیکھا ہے۔
امام ابن سیرین رحمہ اللہ نے پہلا سوال یہ کیا کہ یہ خواب دیکھنے والا کون ہے؟ تو شاگر د نے کہا کہ جس نے خواب دیکھا ہے، اس نے مجھے منع کیا تھا کہ یہ نہ بتانا کہ خواب دیکھنے والا کون ہے۔ امام ابن سیرین فرمانے لگے۔ یہ خواب حضرت امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے علاوہ کوئی اور نہیں دیکھ سکتا۔ ابن سیرین رحمہ اللہ کو اس نے کہا کہ اب تو آپ نے خود ہی بتادیا کہ خواب کس نے دیکھا ہے، ابن سیرین رحمہ اللہ فرمانے لگے کہ جاؤپھر امام صاحب رحمہ اللہ کو مبارک باد دو کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا دین جو دنیا میں پھیلا ہوا ہے، منتشر ہے، اس کو ایک جگہ جمع کرنے کا کام اللہ تعالی تم سے لیں گے۔
تعبیر کی حکمت
اس خواب کی تعبیر یہ کیوں ہے؟ یہ وہاں لکھا ہوا نہیں ہے، مگر میں بتاتا ہوں کہ اس خواب کی یہ تعبیر کیوں ہے، وجہ یہ ہے کہ ہمارے اعمال کا نام دین ہے اور رسول اللہ کی ذات کا نام دین ہے۔ ہماری ذات دین نہیں بلکہ ہماری نماز، روزہ اعمال دین ہیں۔امتی کے اعمال دین ہوتے ہیں، نبی کی ذات دین ہوتی ہے۔ اس لیے امتی کے اعمال سے بھی وہ نفع نہیں ہونا جو نبی کی ذات سے ہوتاہے اور امتی کو اعمال سے وہ کچھ نہیں ملتا جو رسول اللہ کی ذات کی صحبت سے ملتا ہے۔نبی پاک کی ذات دین ہے۔ یہ جو فرمایا کہ ہڈیاں بکھری پڑی ہیں اس کا مطلب یہ ہے کہ نبی کا دین اس دنیا میں منتشر ہے پھیلا ہوا ہےلیکن یکجا نہیں ہے۔امام صاحب کو خوشخبری دی ہے کہ ایک جگہ جمع کرنے کا کام اللہ تعالی تم سے لیں گے۔
امام حاکم رحمہ اللہ اور امام سیوطی رحمہ اللہ نے اتفاق کیا ہے کہ
فَإِنَّهُ أَوَّلُ مَنْ دَوَّنَ الْفِقْهَ وَرَتَّبَهُ أَبْوَابًا وَكُتُبًا عَلَى نَحْوِ مَا عَلَيْهِ الْيَوْمَ
رد المحتار،مقدمہ، جلد نمبر1، صفحہ نمبر121
سب سے پہلا وہ شخص جس نے حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے دین کو جمع کیا، اس کا نام امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ ہے۔
فن صاحب فن سے
میں نے یہ واقعہ اس لیے سنایا کہ امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ بڑے عالم تھے یا ابن سیرین؟ (امام صاحب رحمہ اللہ تھے ) لیکن خواب کی تعبیر کے لیے ابن سیرین کے پاس بھیجا، اس لیے کہ فن ان کے پاس تھا، تو آپ مت شرمائیں کہ یہ ہم سے چھوٹا ہے میں آپ سے بہت چھوٹا ہوں، علم میں بھی، عمر میں بھی، لیکن یہ فن میرا ہے، آپ کا فن نہیں ہے۔
شعبان میں جامعۃ الرشید کراچی میں علماء کا اجتماع ہوتاہے، اس میں بڑےبڑے علماء مدعو تھے۔ میر انام بھی تھا،اور کئی مفتی بھی تھے، مفتی ابو لبابہ شاہ صاحب بھی تھے۔ وہاں میں نے عرض کیا اگر ہمیں فلکیات کا مسئلہ ہو، تو ہم جامعۃ الرشید سے پوچھیں گے۔ غیر مقلدیت کا پو چھنا ہو،تو آپ ہم سے رابطہ کریں، یہ فن آپ کا ہے، وہ فن میراہے،آپ کو فتویٰ پوچھنا پڑے تو دارالعلوم کراچی میں مفتی تقی عثمانی صاحب سے پوچھیں اور چھیڑ چھاڑ پوچھنی ہو تو ہم سے پو چھیں۔ یہ ہمارا فن ہے، ان کا نہیں ہے۔
یہ بات ہمیشہ یاد رکھنا۔ مفتی تقی عثمانی صاحب شیخ الاسلام ہیں، اور ہمارے بہت بڑے آدمی ہیں، بہت بڑا ہونا اور بات ہے اور ایک فن میں ماہر ہونا اور بات ہوتی ہے۔ اب بتائیں کہ آپ کے شیخ الحدیث کو بخار ہوجائے، تو آپ کہاں لے کر جاتے ہیں؟ [ڈسپنسر کے پاس،سامعین] اس کا یہ مطلب نہیں کہ ڈسپنسر شیخ صاحب سے بڑا ہے۔ یہ فن اس کا ہے۔ اس میں کوئی شیخ صاحب کی تو ہین نہیں ہے۔ کہ بندہ کہے کہ شیخ صاحب کو انجکشن لگانا ہے۔ ڈسپنسر کی کیا حیثیت ہے شیخ صاحب کے سامنے۔بلکہ شیخ الحدیث کو ہی لاؤ تو یہ صحیح نہیں ہے کیونکہ انجکشن اس کا فن ہی نہیں ہے۔
فن اور چیز ہے جب اللہ نے کسی فتنے کے خلاف کام لینا ہو تو اللہ اس کے لیے افراد پیدا کرتے ہیں یہ اللہ کا نظام ہے اور یہ تکوینی نظام ہے اور اس میں بندے کا کوئی دخل نہیں ہوتا۔ خیر! میں نے ان سے گزارش کی کہ ایک چھوٹی سی مجلس رکھ لیں۔اللہ مولانا کو جزائے خیر عطافرمائے۔ فرمایا کہ جمعیت علماء اسلام کا دفتر موجو د ہے، اس میں حضرات تشریف لائیں گے اس میں دو دن تھوڑا تھوڑا سبق چلا لیتے ہیں۔ تو میں بنیادی باتیں عرض کر رہا ہوں۔
مناظرے کا بقیہ حصہ
اس بچے نے اس عورت سے سوال کیا کہ تقلید ایمان ہے یا شرک؟ وہ خاتون بولنے لگی تو بچے نے کہا جواب سے پہلے پوری وضاحت سن لیں۔ پھر بولنا اس نے کہا کہ وضاحت کیا ہے؟ کہا کہ ہمارا مذہب ہے کہ تقلید ایمان ہے اور تمہارا مذہب ہے کہ تقلید شرک ہے لیکن نتیجہ سوچ لینا اگر تو نے تقلید کو ایمان کہہ دیا توتیرامذہب نہیں رہتا۔تو نے غیر مقلدن سے مقلدن بن جاناہے۔
اگر تو نے تقلیدکو شرک کہہ دیا تو پھر ماموں کی تو نے منکوحہ نہیں رہنا، اس لیے کہ مشرک اور مومن کا نکاح نہیں ہوتا۔اب بتاؤتقلید ایمان ہے یا شرک؟ اب اگر وہ ایمان کہتی ہے، تو مذہب جاتا ہے اورشرک کہتی ہےتو نکاح جاتا ہے۔کمزور آدمی مذہب کی قربانی دیتا ہے نکاح کی قربانی نہیں دیتا۔تین طلاق دے دی ہے، اب خاوند کے پاس تو رہ نہیں سکتی، بیوی کہتی ہےمذہب بدل دو تاکہ خاوند نہ چھوٹے، خاوند کہتا ہے مذہب چھوڑ دو تاکہ بیوی نہ چھوٹے۔
تو لوگ مذہب قربان کرلیتے ہیں مگر نکاح قربان نہیں کرتے، اللہ ہم سب کی حفاطت فرمائے،اللہ مذہب اور نکاح دونوں کو محفوظ رکھے، آمین۔ ہم یہ دعا نہیں کرتے کہ اللہ دونوں کو نکاح قربان کرنے کی توفیق دے بلکہ دونوں کے نکاح کو باقی رکھے،نکاح بھی باقی رہے، مذہب بھی باقی رہے کسی ایک کی بھی قربانی دینا بڑا مشکل کام ہے۔
تقلید کا معنی و مفہوم
تومیں عرض کررہاتھاکہ تقلید ایک بنیادی چیز ہے۔ تقلید ملی ہے تو سب کچھ ٹھیک ہے اور اگر تقلیدملی نہیں ہے،تو سارے ہی مسائل ہیں۔ تو سب سے پہلے تقلید کامعنیٰ ذہن میں رکھیں میں تقلید کامعنیٰ وہ کرنے لگا ہوں جو آپ تلاش کریں گے تو کتابوں میں نہیں ملے گا یعنی یکجا کہیں نہیں ملے گا، آپ کئی کتابیں اکھٹی کریں گے تقلید پر ہونے والے سوالات کے جوابات جمع کریں گے تقلید کے دلائل جمع کریں گے پھر یہ تعریف بنے گی ایسے آپ کو تعریف ملے گی نہیں، ہماری کتب میں تقلید کی تعریف ہے مگر مختصر سی ہے۔
تقلید کی جامع اور مانع تعریف ایسی کریں جس سے سارے اشکالات دفع ہو جائیں اور سارے سوالات کے دروازے بند ہوجائیں۔ تقلید کہتے ہیں مسائل اجتہادیہ میں غیر مجتہد کا ایسے مجتہد کے مفتیٰ بہ مسائل کو بلامطالبہ دلیل مان لینا، جس کا مجتہد ہونا دلیل شرعی سے ثابت ہو اور اس کا مذہب مقلد کے پاس اصولاً و فروعًا مدوّن ہو کر تواتر کے ساتھ پہنچا ہو۔اس تعریف پر سارے اشکالات کے دروازے بند ہیں، اس تعریف سے فقہ اور تقلید پر سوال ہو ہی نہیں سکتا، تقلید کے عنوان پر جتنی کتابیں دیکھیں گے،آپ کو یہ تعریف نہیں ملے گی۔ اس کی وجہ یہ ہےکہ یہ ہمارا فن ہے۔ ڈاکٹر، حکیم کو پتا ہے، کون سی جڑی بوٹی ڈالنی ہے اور اس سے کون کون سے مرض ٹھیک ہوتے ہیں۔اس لیے میں تقلید کی یہ تعریف کرتاہوںمسائل اجتہادیہ میں غیر مجتہد کا ایسے مجتہد کے مفتیٰ بہ قول کو بلا مطالبہ دلیل مان لیناکہ اس کا مجتہد ہونا دلیل شرعی سے ثابت ہو اوراس کا مذہب اصولاً و فروعاًمقلد کے پاس تواتر کے ساتھ پہنچا ہو یہ تقلید کی تعریف ہے۔ ٹھیک ہے؟ اب اس کے تھوڑے سے فوائد سنو۔
آج تقلید کی تعریف پر بات کرتے ہیں، تقلید کی تعریف پر بات کرنےمیں تین چار گھنٹے لگتے ہیں۔ میں اس کو سمیٹ کے مختصر کر لیتا ہوں تاکہ تقلید کی تعریف صاف ہو جائے۔ اصل بات یہ ہے کہ مسئلہ سمجھ آجائےتو پھراشکال ختم ہو جاتے ہیں۔ آج وہاں دارلعلوم میں بیان تھا میں وہاں طلباء کو یہ بات کہہ رہا تھاکہ اصل عقیدہ سمجھ آجائے تو پھر اشکال ختم ہوتے ہیں۔ جب تک اصل مسئلہ سمجھ نہ آئے تو الجھنیں ختم نہیں ہوتیں۔الجھنیں یہ ہیں کہ ہمارے بہت سے احباب پوچھتے ہیں،ان کاشکوہ ہوتا ہے، جن کا فن نہیں ہوتا ان کو گلے ہوتے ہیں۔
شکوہ، جوابِ شکوہ
شکوہ یہ ہے کہ مکہ مکرمہ جاؤ تو وہ رفع یدین کرتے ہیں غیر مقلد نے کر لیا تو پھر کیاہوا؟ رفع یدین نہ کرنا اولیٰ ہے اور رفع یدین کرنا خلاف اولیٰ ہے۔گناہ تو نہیں ہے ناں! خلاف اولیٰ ہی ہے۔ہمیں یہ جملہ سن کر اتنا افسوس ہوتا ہے کہ فقہاء کے اولیٰ اور خلاف اولیٰ کو بھی نہیں سمجھے اور ہمارا رگڑا نکال رہے ہیں۔ اولیٰ اور خلاف اولیٰ کامعنیٰ ہمارے ذہن میں نہیں ہے۔ راجح مرجوح کا مطلب معلوم نہیں ہے۔ راجح مرجوح کا صرف یہی معنیٰ سمجھتے ہیں کہ کرنا بہتر ہے اور نہ کرنا خلاف اولیٰ ہے، یہ اولیٰ اور خلاف اولیٰ فقہاء کی اصطلاح ہے۔ اس کا مطلب سمجھیں گے تو پھر معاملے حل ہوتے ہیں۔
بعض چیزیں اصطلاحات میں شامل ہوتی ہیں، اور اس کا وہ معنیٰ نہیں ہوتا کہ جو عام حالات میں معنیٰ ہوتا ہے بسا اوقات کوئی لفظ محاورے میں بولتے ہیں اس کامعنیٰ وہ نہیں ہوتا جو عام زبان میں ہوتا ہے محاورات کے معنیٰ لگ ہوتے ہیں، اصطلاحات کےمعنیٰ الگ ہوتے ہیں۔ بالکل الگ تھلگ چلتے ہیں۔ ایک ہی لفظ ہوتا ہے فن بدلنے سےمعنیٰ بدل جاتے ہیں۔
مثلاًاگر آپ کسی ممتحن کو بلائیں کہ ہماری کلاس کا امتحان لیں اور کلاس میں حفظ کے بچے ہیں اور ممتحن آکر پوچھتا ہے کہ بیٹا کلمہ سناؤ۔کلمہ کسے کہتے ہیں؟ وہ لڑکا کہتا ہےبسم اللہ الرحمٰن الرحیم تو وہ لڑکا فیل ہوجائے گا۔ اوراگر آپ نے ممتحن کو بلایانحوکی کلاس میں اور کہا بیٹا کلمہ سناؤوہ کہتا ہےیہ گدھا ہےتو وہ پاس ہوجائےگا۔ کیونکہ حفظ کی درس گاہ میں بسم اللہ بھی کلمہ نہیں ہے اور نحو کی درسگاہ میں ”یہ گدھا ہے“بھی کلمہ ہے۔ کلمہ نہیں بلکہ کلام ہے۔
فن مختلف،اصطلاحات مختلف
اب کلمہ لفظ کا حفظ کی کلاس میں معنیٰ اور ہوتا ہے۔ اور نحو کی کلاس میں معنیٰ اور ہوتا ہے۔ لفظ ایک ہی ہوتا ہے، فن کے بدلنے سےمعنیٰ بدل جاتا ہے۔ لفظ ایک ہی ہوتاہے، علاقے کے بدلنے سےمعنیٰ بدل جاتاہے۔ علاقہ بدلے گامعنیٰ بدل جائے گا۔اب آپ سرحدجائیں ڈیرہ اسماعیل خان میں اور کہیں ہمیں صحبت[ثوبت] چاہیےتواس کا مطلب ہے ثرید۔ وہاں صحبت کسے کہتے ہیں؟ ثرید کو۔ تازی روٹی ہو تی ہے، اندر مرغی ڈالتے ہیں اور دیسی گھی ڈالتے ہیں اور ثرید بناکر کھاتے ہیں۔ اور یہاں کی صحبت کسے کہتے ہیں؟
اگر شیخ آئے توصحبت کامعنیٰ اور ہوتا ہے اور اگر شیخ نہ ہو تو صحبت کامعنیٰ اور ہے۔ ایسا ہے کہ نہیں؟ اب ڈیرہ اسماعیل خان میں کھانے والی صحبت اور ہے۔ پیر اور مرید والی صحبت اور ہے۔ خاوند بیوی ہو تو صحبت اورہے۔ہرجگہ معنیٰ اورہے اورلفظ صحبت ایک ہی ہے۔ اب دیکھیں افراد کے بدلنے سےمعنیٰ بدل جاتا ہے۔خیر اس لیے کہتا ہوں کہ مسئلہ کی سمجھ آجائےتو بہت ساری الجھنیں ختم ہوجاتی ہیں خیرپہلےتقلید کےمعنیٰ ذہن میں رکھیں۔ یہ میں اصطلاحی معنیٰ پہ بات کرتا ہوں۔
اس سے تھوڑا ساپہلے تقلید کا لغوی معنیٰ بھی ذہن میں رکھیں ایک معنیٰ لغوی ہےاور ایک اصطلاحی ہے۔ لغوی معنیٰ کیا ہوتا ہے؟ تقلیدقلادہ سے ہے (سامعین سے تقلید کس سے ہے؟ قلادہ سے )اورقلادہ کامعنیٰ ہار ہوتا ہے۔ مقلد کامعنیٰ ہے ہارڈالنے والا۔ دیکھو کتنا اچھامعنیٰ ہے۔ غیر مقلدین کہتے ہیں تقلید قلادہ سے ہے۔ قلادہ کامعنیٰ پٹہ ہے۔ ہم کوئی کتّےہیں کہ اپنے گلے میں پٹہ ڈالیں؟ ہم کیا گدھے ہیں کہ پٹہ ڈالیں؟ یہ تو جانوروں کا کام ہے۔ تو ہم نےقلادہ کامعنیٰ ہار کیا، اس نے قلادہ کامعنیٰ پٹہ کیا کیوں؟ اس لیے کہ ہم انسان ہیں، وہ جانور ہیں۔ انسان انسانوں والامعنیٰ کرتا ہے۔ جانور جانوروں والامعنیٰ کرتا ہے، اس لیے ہم اپنامعنیٰ کرتے ہیں اور وہ اپنامعنیٰ کرتے ہیں۔
امام بخاری نے قلادہ کا کیا معنی کیا ہے؟
امام بخاری رحمہ اللہ نے صحیح بخاری میں قلادہ کالفظ چار بار استعمال کیا ہے، جس کامعنیٰ ہار ہے، امی عائشہ رضی اللہ عنہا کے بارے میں لکھاہے استعارت من اسماء قلادۃً امی عائشہ رضی اللہ عنہا نے حضرت اسماء رضی اللہ عنہا سے ہار لیا تھا، جب حضورصلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جنگ میں گئی ہیں۔ خاوند کے ساتھ جار ہی ہیں ناں، تو گلے میں ہار ڈال کے گئی ہیں۔ خاوندکے ساتھ سفر میں گئی ہیں،اس میں حرج نہیں ہے، بلکہ مستحب ہے۔ دیکھو قلادہ کامعنیٰ ہار کیا پٹہ تو نہیں کیا ناں۔
تعجب ہے کہ بخاری کا نام لینے والاقلادہ کا بھی معنیٰ ہار نہیں کرتا، ہار کرتے ڈرتا ہے۔ اس لیے ہم انسان ہیں انسانوں والامعنیٰ کیا ہے، وہ جانور ہیں، جانوروں والامعنیٰ کرتے ہیں۔ میں جب کہتا ہوں ناں کہ وہ جانور ہیں ایسے نہیں کہتا، میرے پاس دلائل ہیں، اس وجہ سے میں ان کو جانور کہتا ہوں۔ یہ ذہن میں رکھیں ہم ان کو جانور کہتے ہیں تو ایسے نہیں کہتے بلکہ ہمارے پاس دلائل ہیں اور جانوروں کی کئی اقسام ہیں۔ آپ کے برما میں بھی ایسا ہے اور ہمارے ہاں بھی ایسا ہے، دنیا کے ہر علاقے میں ایسے ہے، وہاں صرف معنیٰ بیان کرنے کے لیے جانوروں کا نام استعمال کرتے ہیں۔
اگر کہنا ہو یہ بندہ بہت دلیر ہے تو کیا کہتے ہیں؟ یہ بندہ شیر ہے۔ اس کامعنیٰ کیا ہے، بہت بہادر ہے۔ کہتے ہیں ناں۔اگر کہنا ہو یہ بندہ بہت تیز ہے توکیا کہتے ہیں؟ [سامعین چیتا ] اور یہ بہت چالاک ہےتو کیا کہتے ہیں؟ [ لومڑ،سامعین ] کہتے ہیں ناں۔کہ فلاں بندہ لومڑ ہےمعنیٰ کیا ہوتا ہے، بندہ بہت چالاک ہے، کسی کو کہتے ہیں یہ بھینس ہے،مطلب یہ ہوتاہے کہ یہ بہت سست ہے، جو کسی کو ڈسے، کہتے ہیں سانپ ہے، کہتے ہیں ناں آستین کا سانپ ہے، آستین کے سانپ کامعنیٰ کیا ہوتا ہے، جب بھی ڈستا ہے تو پتا نہیں چلتا ہے یہ سانپ کامعنیٰ ادا کرنے کےلیے ہوتا ہے، سانپ تھوڑی بنتا ہے اور اگر کہے بہت بڑا بیوقوف ہے کیا کہتے ہیں؟ (گدھا) استاذ کلاس میں کہتا ہے او گدھے! تجھے بات سمجھ نہیں آرہی، کیا وہ گدھا بن گیا؟ اب اگر اس کا باپ آئے اور کہے کہ میں نے بیٹے کو انسان بننے کے لیے مدرسے میں داخل کروایا تھا، تو تم لوگوں نے انسان کو گدھا بنالیا اس کو واپس لےکر جاتے ہیں؟
میں صرف یہ کہہ رہا تھا اگر یہ بتانا ہوکہ یہ بندہ بہت دلیر ہےتوکہتے ہیں یہ شیر ہے ،اگر بتانا ہو چالاک ہے تو کہیں گے لومڑ ہے، اگر کہنا ہو تیز ہےتو کہتے ہیں چیتا ہے، اگر کہنا ہو سست ہے توکہتے ہیں بھینس ہے، اگر بتانا ہو ڈستا ہے تو کہتے ہیں سانپ ہے، اگر کہنا ہو بیوقوف ہے تو کیا کہتے ہیں؟ گدھایہ غیر مقلد گدھے ہیں، سب سے زیادہ دنیا میں بے وقوف لوگ غیر مقلدین ہیں۔ اس میں بہت ساری وجہیں ہیں، میں صرف ایک وجہ پیش کرتا ہوں۔
وجہ تشبیہ
آپ دیکھیں گے، گدھے کے اوپر جتنا بھی بوجھ لادیں وہ اٹھا لیتا ہے اور سر پہ ایک چھٹانک رکھو نہیں اٹھاتا ہے، گدھے کی کمر پر پانچ من گندم لادو اٹھا لے گا، پھر اس کے سر پہ ایک چھٹانک رکھ دو تو نہیں اٹھاتا ہے۔ ایسے سر مارے گا ادھر پھینک دے گا۔
غیر مقلد کے جسم پر جتنے چاہو کپڑے پہنادواٹھالے گا اور سر پر ایک جالی کی ٹو پی رکھ دیں تو بھی اتار دیتا ہے۔ اور نیچے جسم پر بنیان ہوگی، اوپر قمیص ہوگی اس کے اوپر سویٹرہوگا اور چادر ہوگی۔
اگر جہاد کے نام پر جھوٹ بولے گا تو پھر اوپر کلاشن ہوگی اوریہ سب کچھ اٹھایا ہوگا مگرسر پہ جالی کی ٹوپی رکھو، یہ خانقاہی ٹوپی رکھو، پھینک دے گا یہ کام کس کا ہے؟ گدھے کا کام ہے کمرپہ بوجھ اٹھائے گا، سر پہ نہ اٹھانا یہ گدھے کا کام ہے، انسان کا کام نہیں ہوتا۔ ایسے ہے کہ نہیں؟ یہ انسان نہیں گدھے ہیں۔ چلیں میں ایک اور وجہ بتاتا ہوں، ہم ان کو گدھے کیوں کہتے ہیں؟ قرآن مجید میں ہے
قَدْ أَفْلَحَ الْمُؤْمِنُونَ۔ الَّذِينَ هُمْ فِي صَلَاتِهِمْ خَاشِعُونَ
سورۃ المومنون آیت نمبر 1،2
وہ نماز والے کا میاب ہوں گے جو نمازمیں خشوع کرتے ہیں اور خاشعون کامعنیٰ کیا ہے؟
ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں
مخبتون متواضعون لا یلتفتون یمیناولاشمالاًولایرفعون ایدھم فی الصلوۃ
تفسیر ابن عباس،ص221
خاشعونکامعنیٰ کیا ہے؟ لا یرفعون ایدیھمنماز میں رفع یدین نہ کرنا، یہ خشوع ہے۔ ابن عباس رضی اللہ عنہ صحابی ہیں۔ اور یہ صحابی کی تفسیر ہے، اور جو صحابی کی تفسیر ہو،وہ مسندحدیث کے درجے میں ہوتی ہے۔ امام حاکم لکھتے ہیں
أن تفسير الصحابي الذي شهد الوحي و التنزيل عند الشيخين حديث مسند
المستدرك على الصحيحين رقم الحدیث 3021
تفسیر صحابی کا درجہ حدیث مسند کا ہے،تو حدیث شریف سے ثابت ہوا کہ ترک رفع یدین خشوع ہے۔ یہ بات ثابت ہوگئی۔ اچھا دوسری آیت دیکھو وَإِنَّهَا لَكَبِيرَةٌ إِلَّا عَلَى الْخَاشِعِينَ نماز اس شخص پر بھاری ہے، جو خشوع نہیں کرتا اور جس کی نماز میں خشوع ہو اس پر نماز ہلکی ہے۔ ٹھیک ہے؟ ترک رفع یدین یہ خشوع ہے اور خشوع والی نماز یہ ہلکی ہے۔تو تر ک رفع یدین والی نماز ہلکی ہو گی، یہ صغریٰ ہے۔ کبری ٰبناؤاور حداوسط نکالو تونتیجہ آگیا، یہ منطق کی شکل رابع ہے۔ ایسے ہے کہ نہیں؟ یہ بات میں اس لیے کہتاہوں، مولوی کہتے ہیں اس کو کتابیں نہیں آتیں۔ یہ خطیب ہے، یہ تقریر یں کرتا ہے اور پیسے کماتا ہے۔ میں کسی علاقے میں نہ گیا ہوں میرے جانے سے پہلے تاثر عجیب ہوتا ہے، کہتے ہیں بس خطیب آدمی ہے، تقریریں کرتا ہے اور پیسے کماتا ہے۔ شکل رابع تو سمجھتے ہو نا ں۔؟
قَدْ أَفْلَحَ الْمُؤْمِنُونَ الخ
المومنون آیت نمبر1
خشوع کہتے ہیں ترک رفع یدین کو۔ رفع یدین اگر کریں تو نماز بھاری اور رفع یدین نہ کریں تو نماز ہلکی، یہ بات سمجھ میں آگئی؟
وَإِنَّهَا لَكَبِيرَةٌ إِلَّا عَلَى الْخَاشِعِينَ
سورۃ البقرۃ آیت نمبر4،5
ترک رفع یدین ہو تو خشوع اور رفع یدین نہ ہو تو خشوع نہیں ہے۔ خشوع والی نماز ہلکی ہوتی ہے، بغیر خشوع والی نماز بھاری ہوتی ہے۔اب بتائیں ترک رفع یدین والی نماز ہلکی ہوگی یا رفع یدین والی؟ سمجھ آگئی؟ ترک رفع الیدین والی نماز ہلکی ہے اور رفع یدین والی نماز بھاری ہے۔ اچھا آپ نے گدھا دیکھا ہوگا، جب گدھے کے اوپر بوجھ نہ ہوتو اس کی ٹانگیں بالکل ٹھیک ہوتی ہیں اور جوں ہی بوجھ اسکے اوپر ڈالو تو اس کی ٹانگیں کھل جاتی ہیں۔
غیر مقلد بالکل ٹھیک ہو گا، جیسے ہی نماز کے لیے کھڑا ہوگا تو ٹانگیں کھل جاتی ہیں، بوجھ آئے ٹانگیں گدھے کی کھل جاتی ہیں۔ انسانوں کی نہیں۔ میں نے اس لیے کہا کہ یہ گدھے ہیں، بیوقوف ہیں۔ میں یہ سخت باتیں نہیں کہہ رہا یہ باتیں وہ خود کہہ رہے ہیں۔ کیوں کہ وہ کہتے ہیں یہ تقلیدقلادہ سے ہے اور قلادہ کامعنیٰ پٹہ ہے ہم گدھے ہیں، اپنے گلے میں پٹہ ڈالیں؟ ایسی بات وہ نہ کہتے تو ہم کبھی بھی نہ کہتے۔ وہ کہتے ہیں کیا ہم گدھے ہیں؟ ہم کہتے ہیں جی ہاں تم گدھے ہو۔ بات سمجھ آگئی؟
غیر مقلدین کی چال اور مقلد کی وضاحت
میں اگلی بات کہتا ہوں مقلد یہ باب تفعیل سے ہے
قَلَّدَ یُقَلِّدُ تَقْلِیْداً
اور تفعیل متعدی ہے۔ کیا ہے؟ متعدی ہے۔ تو مقلد کامعنیٰ پٹہ ڈالنے والا ہے، پٹہ پہننے والا نہیں ہے۔ مقلد کامعنیٰ پٹہ ڈالنے والے۔ وہ ہیں ڈلوانے والے۔ ہم کہتے ہیں ڈالنے والے کےلیے انسان ہونا ضروری ہے اور جس کو ڈالنا ہے، اس کی مرضی ہے چاہے گدھا پہنے چاہےتو کتّا پہنے۔ہم انسان ہیں، ہم ڈالنے والے ہیں۔
اگر قلادہ کامعنیٰ پٹہ ہو پھر بھی ہمارے حق میں مفید ہے کیوں کہ ہم ڈالنے والے ہیں۔ اگر قلادہ کامعنیٰ ہار ہو تو پھر بھی ہمارے حق میں مفید ہے۔ الجھن تو نہیں ہے ناں۔میں بات اس لیے کہتا ہوں یہ وہ شبہات ہیں جوغیر مقلد ین پیدا کر کے نوجوانوں کو خراب کرتے ہیں۔ قلادہ کامعنیٰ پٹہ ہے ہم کیوں پٹہ ڈالیں، کیا ہم جانور ہیں؟ اس سے لڑکا پریشان ہوتا ہے اور ہمارے پاس آتا ہے۔ ہم کہیں گے حضرت نے منع کیا ہے، آپ بتائیں، وہ جائے گا کہاں؟ جو مرید ہے، وہ پیر کا نام دیتا ہے۔ جو تبلیغی ہے، وہ رائیونڈ کا نام دیتا ہے، جو طالب علم ہے، وہ شیخ الحدیث کا نام لیتا ہےاب بتاؤوہ جائے گا کہاں؟
کوئی پیر کا نام لیتاہے، کوئی رائیونڈ کا نام لیتا ہے۔ جو طالب علم ہے وہ شیخ الحدیث کا نام لیتا ہے اچھا بتاؤوہ شخص کہاں جائے گا؟ نہ کسی پیر نے منع کیا ہے نہ کسی اور نے۔ میں پوری دنیا میں پھرتا ہوں مجھے منع نہیں کرتے کہ تو دنیا میں شرارتیں کرتاہے تو باز کیوں نہیں آتا؟ اس لیے پیر منع نہیں کرتے، پیر یہ دیکھتا ہے یہ بات کیا کرتا ہے، اس کا منشا کیا ہے، اس کے اندر شرارت ہے، اس کے منشا میں فساد ہے، یہ کیوں اس طرح بات کرتا ہے؟ ہم نے تقلید کےمعنیٰ میں پہلا لفظ استعمال کیامسائل اجتہادیہ۔ مسئلہ اجتہادی ہو تو تقلید ہوتی ہے، مسئلہ اجتہادی نہ ہو تو تقلید نہیں ہوتی۔
مسائل اجتہادی کی اقسام
اور مسائل اجتہادی کی چار قسمیں ہیں

مسئلہ غیر منصوص ہو، قرآن اور حدیث میں مسئلہ موجود ہی نہ ہو۔

مسئلہ منصوص ہو، لیکن منصوص میں تعارض ہو۔ یہ رفع تعارض مجتہد کرے گا۔

مسئلہ منصوص ہو اور نص مجمل ہو۔ اس اجمال کی وضاحت مجتہد کرے گا۔

مسئلہ نص میں موجود ہواور نص محتمل ہواور اس کے کئی معنیٰ ہوں۔ کئی معنیٰ میں سے ایک معنیٰ کا تعین مجتہد کرےگا۔
اب سمجھ گئے؟ تو تقلید کس میں ہوتی ہے؟ مسائل اجتہادیہ میں۔ اور مسائل اجتہادیہ کا دائرہ چار ہے۔
1: مسائل غیر منصوصہ
2: منصوصہ متعارضہ
3: منصوصہ مجملہ
4: منصوصہ محتملہ
علاوہ تقلید کے کوئی چارہ نہیں
یہ دائرہ ہےتقلید کا۔ کوئی دنیا میں مائی کا لال ایسانہیں جو بغیر تقلید کے ان مسائل تک پہنچے، ممکن ہی نہیں ہےکہ کوئی بغیر تقلید کے ان چار مسائل تک پہنچے۔ بات سمجھ آگئی؟
نمبر1:
مسئلہ غیر منصوص ہو، بغیر تقلید کے اس تک پہنچے۔ آپ بغیر تقلید کے اس پر کیسے عمل کر یں گے؟ مثلاًلڑکا ہے رنگون کا، جس لڑکی سے شادی کرنی ہو، وہ کراچی رہتی ہو۔ یہ کراچی نہیں جاسکتا، کراچی والی یہاں نہیں آسکتی۔ اب شادی کیسے کریں؟ کہتے ہیں پہلے شادی کرے، پیپر بنائے، پھر آجائے ایساہوتا ہے ناں۔ ایسا یہ کیسے کریں گے؟
کہتے ہیں ٹیلیفونک نکاح، یہ نہ قرآن میں ہے نہ حدیث میں ہے۔ہوگا کیسے؟ مقلد ہے تو کام چل جائے گا، ایمان بھی بچ جائے گا اور لڑکی بھی مل جائے گی۔ اور اگر غیر مقلد ہے، تو یا اس کو تقلید والا شرک کرنا پڑے گا یا اس کو لڑکی کی قربانی دینی پڑے گی، ہمیں لڑکی بھی مل جائے گی اور ایمان بھی بچ جائے گا۔اگر ٹیلیفونک نکاح کے لیے غیر مقلد مفتی کے پاس جائے اور وہ کہے قرآن وحدیث میں نہیں اور لڑکا کہے کہ میں تو اس کے بغیر نہیں رہ سکتا۔وہ کہتا ہے بیٹا قرآن وحدیث میں تو ہے ہی نہیں، جو قرآن حدیث میں نہ ہو، ایسا مسئلہ تو شرک ہے۔ یا تو اس کو مشرک بننا پڑے گا یا اس کو لڑکی قربان کرنی پڑے گی۔ ہم لڑکی بھی قربان نہیں کریں گے اور مشرک بھی نہیں بنیں گے۔ دارالافتاءجائیں گے،ٹیلیفونک نکاح کی تفصیل پوچھیں گے، نکاح کریں گے، پیپر بنیں گے، لڑکی پاس آ جائے گی، دنیا بھی ٹھیک ہو جائے گی، آخرت بھی ٹھیک ہوجائے گی۔ اگر تقلید نہیں کریں گے تو ایک نقصان ضرور ہے، یہ یاوہ۔
دوسری مثال بات سمجھانےکے لیے دیتا ہو ں۔ باپ ہسپتال میں ہے اور ڈاکٹر کہہ دے کہ اس کو دو بوتلیں خون کی چاہییں۔ اب یہ غیر مقلد لڑکا ہے اور اپنے دارالافتاءجائے، تو وہ کہیں گے ہم نے حدیث کا بہت مطالعہ کیا ہے، کل آنا۔جب کل آئے گا،تو کہیں گے ہم نے حدیث کا بہت مطالعہ کیا ہے، اس میں یہ تو ہے کہ اگر کوئی بندہ بیمار ہو تو اس کا خون نکال لو، یہ نہیں ہے کہ خون دے دو۔حجامہ کا ذکر ہے، اس میں خون نکالتے ہیں، دیتے نہیں ہیں۔ لہذا تم اپنے باپ کا ایک بوتل خون نکالو، تو بیٹا کہےگا وہ تو مر رہا ہے اس کو تو دو بوتل خون دینا ہے۔ انہوں نے کہنا ہے قرآن و حدیث میں مریض کو خون دینے کا ذکر نہیں ہے، خون نکالنے کا ہے، باپ کا خون نکالو۔ اب وہ کیا کرے گا؟
اگر وہ حنفی کے پاس آتا ہے، تقلید کرتا ہے، تو مشرک ہوتا ہےاور اگر توحید لیتا ہے، تو باپ جاتا ہے۔یا توحید گئی یا باپ گیا۔ اور اگر تقلید کرے گا، تو توحید بھی رہ جائے گی اور باپ بھی رہ جائے گا۔میں مثالیں دے رہا ہوں تاکہ آپ ان چیزوں کو سمجھیں اور آگے سمجھائیں۔تقلید ہوتی ہے مسائل اجتہادیہ میں اور مسائل اجتہادیہ میں پہلا مسئلہ غیر منصوص ہے۔ مسئلہ منصوص ہے، تو پھر تو ہم بغیر تقلید کے عمل کریں گے۔
ہم مثال دیتے ہیں مکھی گرنے کی، کب تک مکھی گرنے والی مثال دیتے رہیں گے۔کوئی جدید مثالیں بھی پیش کریں ناں۔ایک ہی مثال ہمارے پاس ہے کہ مکھی کھانے میں گرگئی ہے، اس کو نکال لیا ہے توکھانا ناپاک نہیں ہوگا۔ اس کے بارے میں تو حدیث آئی ہے، اب مچھر کا کیا کرنا ہے؟ ہم کہتے ہیں کہ مچھر کھانے میں گرجائے اور غیر مقلد کہے کہ باہر نکالو تو وہ کہے گا کہ میں تو نہیں نکالتا، تم پہلے حدیث سناؤ، حدیث تو ہے ہی نہیں، مچھر کو کیسے باہر نکالے گا۔
نمبر2:
مسئلہ منصوص تو ہے لیکن نصوص میں تعارض ہے، ایک نص میں ہے کہ رفع الیدین رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اور ایک نص میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے رفع الیدین نہیں فرمایا، چھوڑ دیا۔ اب دونوں نصوص ہیں، کرنے کی بھی ہیں اور نہ کرنے کی بھی ہیں۔ اب کس پر عمل کریں؟ ایک بندہ کہتاہے صحیح پر عمل کر و، ضعیف چھو ڑدو۔ پو چھو صحیح کو نسی ہے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بتایا ہے کہ یہ ضعیف ہے؟ کسی حدیث پہ صحت یا ضعف کا حکم لگانا یہ امرِ اجتہادی ہے۔قواعد فی علوم الحدیث میں علامہ عثمانی رحمہ اللہ نے بڑی وضاحت سے یہ بات کی ہے، آپ اس کو ذرا پڑھیں۔
ایک بندہ کہتا ہے کہ صحیح کو لے لو اور ضعیف کو چھوڑ دو۔ بو لو صحت وضعف کا پتا کیسے چلے گا؟ جو بتائے گاوہ اجتہاد سے بتائے گا۔یا کہتے ہیں پہلے والی کو چھوڑ دو بعد والی کو لے لو اور یہ بھی کوئی حدیث تو نہیں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہوکہ یہ حدیث پہلے کی ہے اور یہ حدیث بعد کی ہے ،پہلے اور بعد والازمانہ کیسے پتا چلےگا؟ قرائن جمع کریں گے، مسئلہ نص میں موجود ہے لیکن نصوص میں تعارض ہے،تو تعارض بغیر مجتہد کے رفع ہو ہی نہیں سکتا۔ دنیا میں کوئی مائی کا لال ایسا نہیں جو کہے کہ میں تعارض رفع کرتا ہوں بغیر اجتہاد کے۔
نمبر 3:
مسئلہ نص میں موجود ہے، مگر نص میں کئی احتمال ہیں۔ یہ بھی احتمال ہے، اور وہ بھی احتمال ہے۔ اب اگر کوئی آپ سے پوچھے کہ اس کی مثال کیا ہے تو آپ نے ایک مثال دینی ہے
وَالْمُطَلَّقَاتُ يَتَرَبَّصْنَ بِأَنْفُسِهِنَّ ثَلَاثَةَ قُرُوءٍ
سورۃ البقرۃ آیت نمبر228
قروء کامعنیٰ حیض بھی ہے،طہر بھی ہے۔ یہی ہے ناں؟ ہمارے پاس ایک مثال پکی پکائی ہے، جو ہر سال ہم نے سنانی ہے۔ ایسی بہت سی نصوص ملتی ہیں کہ جن میں دو احتمال ہیں۔ میں آپ کو ایسی مثال دیتا ہوں جو آپ کے لیے بالکل نئی ہوگی اور اس سے ایک اور مسئلہ بھی حل ہو جائےگا۔
تین طلاق ،اور غیر مقلدین
آج ایک فتنہ چلا ہے کہ تین طلاق اکٹھی دو، تو ایک ہوتی ہے اہل السنت و الجماعت کا اتفاق ہے کہ تین طلاق دو توتین ہی ہو تی ہیں، چاہے ایک مجلس میں دو، یا کئی مجالس میں۔ غیر مقلد، روافض اور مرزائی یہ تین طبقے کہتے ہیں کہ تین طلاقیں دو تو ایک ہوتی ہے، اس مسئلے پر غیر مقلدین حضرات کے ہا ں جو سب سے بڑی اور قوی دلیل ہے، وہ حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے
كان الطلاق على عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم وأبي بكر وسنتين من خلافة عمر طلاق الثلاث واحدة
صحیح مسلم رقم الحدیث 1472
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں، صدیق اکبر کی خلافت کے دور میں اور حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہم کی خلافت کے ابتدائی دوسالوں میں 3طلاق ایک شمار ہوتی تھیں۔ اور بعد میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فیصلہ فرمایا کہ تین طلاق دو تو تین ہونگی۔ کہتے ہیں کہ حضور کے دور میں تین ایک ہے، تو اب کیوں نہیں؟ ابوبکر رضی اللہ عنہ کے دور میں تین ایک ہے، تو اب ایک کیوں نہیں؟ اور جب یہ دلیل آتی ہے تو ہم سے جواب نہیں بنتا۔ اور دلیل بھی صحیح مسلم کی ہے کوئی عام کتاب تو نہیں ہے ناں۔
صحیح مسلم کی طلاق والی روایت کا جواب
اس کے جوابات بہت ہیں، میں ایک جواب آپ حضرات کےسامنے عرض کرتا ہوں کہ ابن عباس رضی اللہ عنہما کے بعد جو مرکزی راوی ہے، وہ طاؤس ہے اور یہ طاؤس شیعہ تھا اور اصول حدیث میں ہے کہ اگر بدعتی راوی اپنے مسلک کی تائید میں روایت پیش کرے تو وہ قبول نہیں ہوتی۔ اگر اپنے مسلک کے خلاف پیش کرے تو قبول ہو تی ہے۔تین کو ایک کہنا روافض کا مذہب ہے، یہ چونکہ رافضی ہے اس لیے اس کی حدیث اس کے حق میں قابل قبول نہیں، اس کے خلاف ہوگی تو قابل قبول ہوگی۔
دوسرا جواب یہ ہے کہ ابن عباس رضی اللہ عنہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد حدیث کے پہلے راوی ہیں اور اصول حدیث میں سے ہے کہ راوی کوئی روایت نقل کرے اور فتویٰ اس کے خلاف نقل کرے۔ تو اس کے فتوے کا اعتبار ہوتاہے روایت یاقول کا اعتبار نہیں ہوتا۔ ابن عباس رضی اللہ عنہ کے سارے فتوے تین طلاق کے تین ہونے کے ہیں، تین کے ایک ہونے کاایک فتویٰ بھی نہیں ہے۔ اگر اس روایت کا وہی معنیٰ ہوتا، جو غیر مقلد کرتے ہیں تو ابن عباس رضی اللہ عنہ خود تین کو ایک کیوں نہیں کہتے؟ تین کوتین کیوں کہتے ہیں؟
تکرار اور استیناف
جواب کئی ہیں، میں صرف احتمال ہی بتا رہا ہوں۔ اس کااصل معنیٰ کیاہے؟ امام نووی رحمہ اللہ نے اسی حدیث کے حاشیے میں لکھا ہے کہ عربی میں دو لفظ ہیں ایک ہےتاکیداور ایک ہےاستیناف، ایک ہی لفظ کو بار بار ذکر کرلیا اورمعنیٰ ایک ہو اس کا نام تاکیدہے ایک ہی لفظ کوباربار ذکر کریں اور ہر بار ذکر کرنے سےمعنیٰ الگ ہو اس کا نام استیناف ہے۔
میں آج دارالعلوم میں بھی کہہ رہا تھا کہ اصطلاحی الفاظ کا عوامی زبان میں معنیٰ کریں۔ تاکید کی مثال کہ ایک لفظ کو بار بار ذکر کرے اورمعنیٰ ایک ہو۔ گھر میں عورت آواز دیتی ہے، عبدالرحمٰن! ابو کو بلاؤ، سانپ آگیا ہے، سانپ آگیا ہے، سانپ آگیا ہے، حالانکہ سانپ تین نہیں آئے، ایک ہی آیا ہے۔ اسی کو تاکید کہتے ہیں۔ شور مچارہی ہے، سانپ سانپ کہہ رہی ہے، کئی سانپ نہیں، ایک ہی سانپ ہے۔اسی کو تاکید کہتے ہیں۔
اور اگر لفظ ایک ہو، بار بار ذکر کرنے سےمعنیٰ الگ الگ ہو جائے، اس کو استیناف کہتے ہیں۔ تجھے طلاق ہے، تجھے طلاق ہے، تجھے طلاق ہے۔ ہر بارمعنیٰ بدل رہاہے،تین طلاقیں ہو جائیں گی۔اب یہ تاکیدہے یااستیناف؟ امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا زمانہ بہت خیر کا زمانہ تھا جب کوئی بندہ بیوی سے کہتاانتِ طالق طالق طالقتو اس سے پوچھتے کہ دوسراطالق طالقتاکید ہے یا استیناف ہے؟ اگر کہتا کہ تاکید ہے تو طلاق ایک ہوتی اور اگر کہتا استیناف، تو طلاقیں تین ہوتیں۔ لیکن اگرانت طالق ثلاثاکہے تو پھر ثلاثاً نص ہے کہ تین تین ہی ہوتی ہیں اور غیر مقلد کے ہاں تین ہو ں، تو بھی ایک ہوتی ہے۔
یہ دلیل ان کی نہیں بنتی، اگر کہےانت طالق ثلاثاًتو وہ پھر بھی کہتے ہیں ایک ہوگی۔حالانکہ اس حدیث کا تعلق
انت طالق طالق طالق
سے تھا ،اس میں ارادہ پوچھتے کہ ایک کا ارادہ ہے یا تین کا، اگر تین کہتا تو تین ہوتی، اگر ایک کہتا تو ایک ہوتی تھی۔ اس لیے کہ طالق صریح لفظ ہے، طلاق ہو جائے گی باقی اگلا طالق طالقتین میں صریح نہیں ہے۔ تاکید ہو گا، تو ایک ہوگی اور استیناف ہو گا تو پھر تین ہوں گی۔تو اس زمانے میں پوچھ لیا جاتاتھا۔
سیدناعمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: چونکہ اس میں دونوں احتمال ہیں۔تین کابھی، ایک کابھی۔اب جبکہ شرپھیل گیا، عجم عرب سے مل گئے ہیں، شروع میں تین کی نیت کریں گے، جب غصہ اترےگا، توکہے گا میری نیت تو ایک کی تھی، یوں فساد پیدا ہو گا۔ اس لیے میں فیصلہ کرتا ہوں، اگر چہ اس میں احتمال دونوں موجود ہیں، مگر ہم نے تاکید کے احتمال کو ختم کردیا، استیناف کے احتمال کو متعین کردیاہے۔ مجتہد کی بات ماننا ضروری ہے۔ اب یہ اس کا صحیح محمل ہے۔ میں عرض کررہا تھا کہ مسئلہ منصوص ہوگا، لیکن اس نص میں کئی معنیٰ کا احتمال ہوگا، ایک احتمال کا تعین مجتہد کرے گاقروءکامعنیٰ حیض ہے یا طہر؟ اس کی تعیین مجتہد کرے گا۔
ایک اور اجتہادی مسئلہ
ایک اور مثال عہد صحابہ رضی اللہ عنہ سے (صحیح بخاری میں اس کی بڑی بہترین مثال ہے)رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب غزوہ خندق سے فارغ ہوگئے تو ادھر سے جبرائیل امین آگئے وحی لے کر، کہا: آپ ذرا بنو قریظہ چلیں، تو صحیح بخاری میں ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
لَا يُصَلِّيَنَّ أَحَدٌ الْعَصْرَ إِلَّا فِي بَنِي قُرَيْظَةَ
صحیح بخاری، رقم الحدیث 4119
تم میں سے کوئی بندہ محلہ بنو قریظہ کے علاوہ میں عصر نہ پڑھے۔ بنو قریظہ کےمحلے میں عصر جاکر پڑھو۔ صحابہ رضی اللہ عنہم چل پڑے، ابھی بنو قریظہ کے محلے میں نہیں پہنچے کہ سورج غروب ہو نے کے قریب ہو گیا۔
صحابہ رضی اللہ عنہم میں اختلاف ہو گیا۔ بعض نے کہا عصر کی نماز پڑھ لیں اور قضا نہ کریں۔ بعض نے کہا قضابھی ہوجائے گی، تو عصر کی نمازوہاں جاکے پڑھیں گے۔ حالانکہ لفظ بالکل واضح ہے، لیکن اختلاف معنیٰ کے تعین میں ہواہے۔ بعض صحابہ رضی اللہ عنہم ؓنے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی منشا یہ تھی، اتنا تیز چلو کہ عصر تک وہاں پہنچ جاؤ۔بعض نے کہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی منشا یہ تھی کہ تم نے عصر ہی وہاں جاکر پڑھنی ہے۔
بعض نے ظاہر کو لیا اور بعض نے تاویل کر کے دوسرامعنیٰ لیا۔احتمال دونوں کا مو جو د ہے۔بعض نے ایک احتمال کو لیا اور بعض نے دوسرے احتمال کو لیا، بعض نے پہلے احتمال کو لیا اور نماز ادا کرلی اور مغرب میں بنو قریظہ کے محلے میں پہنچے اور بعضوں نے عصر قضا کرلی مگر پڑھی بنوقریظہ میں جاکر۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی ایک کو بھی غلط نہیں کہا، دونوں کو فرمایا: ٹھیک ہے،کسی پر تنقید نہیں فرمائی، دونوں کی تصویب فرمائی۔ دیکھو! یہاں پر نص ایک ہے، لیکن دونوں احتمال ہیں، اب ایک احتمال کا تعین مجتہد کرےگا۔
نمبر 4:
مسئلہ نص میں موجو د ہو، نص مجمل ہو، اس اجمال کو دور مجتہد کرےگا۔ اس کی مثال قرآن مجید میں سب سے آسان یہ ہے۔
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا قُمْتُمْ إِلَى الصَّلَاةِ فَاغْسِلُوا وُجُوهَكُمْ الخ
سورۃ المائدۃ آیت نمبر 6
اے ایمان والو! تم نماز پڑھنے کا ارادہ کرو تو فَاغْسِلُوا وُجُوهَكُمْ اپنے چہرے کو دھولیا کرو، قرآن نے یہ تو کہا چہرہ کو دھو لیا کرو،مگر چہرہ کہتے کسے ہیں؟ یہ قرآن میں نہیں ہے۔ غسلِ وجوہ کا حکم مجمل ہے۔ وجوہ کہتے کسےہیں؟ یہ قرآن میں نہیں ہے۔ اب بتاؤکہ چہرہ کیا ہے یہ تو قرآن میں نہیں ہے ناں! تو چہرے کی حد بندی کون بتائے گا؟ اب اس اجمال کی تفسیر کون کرے گا؟ کوئی نہیں کر سکتا۔
ڈاڑھی کی تعریف و تحدید
لوگ مسئلہ پوچھتے ہیں ناں کہ رخسار کے اوپر والے بال کاٹ سکتے ہیں کہ نہیں؟ پو چھتے ہیں ناں، یہ نیچے گردن کا خط کرسکتے ہیں کہ نہیں، پوچھتے ہیں کہ نہیں؟ پوچھتے ہیں۔ بات سمجھ آرہی ہے؟ جس بندے کو ڈاڑھی کامعنیٰ آتا ہے، اس کو کوئی الجھن نہیں ہے ناں۔ جس کو ڈاڑھی ر کھنے کاشرعی حکم نہیں آتا ہے،وہ تو پوچھے گا، رخسار کے بال کاٹنے ہیں کہ نہیں؟ حکم تو ڈاڑھی رکھنے کا ہے ناں۔جو ڈاڑھی ہے اس کو رکھنا ضروری ہے، جو ڈاڑھی نہیں، اس کو رکھنا ضروری نہیں ہے۔ تو ڈاڑھی ڈاڑ ھ سے ہے۔ جو بال ڈاڑھ پر ہے وہ ڈاڑھی ہے، نہ یہ ڈاڑھی ہے، چاہے تو رکھ لو چاہے تو کاٹ دو۔اب کیا مشکل ہے۔ پوچھنے والا کیوں پوچھتا ہے؟ کیوں کہ اس کو ڈاڑھی کےمعنیٰ کاپتا نہیں ہے ناں۔
حضرت اوکاڑوی رحمہ اللہ کا علمی لطیفہ
بسااوقات لوگ اعتراض بھی کرتے ہیں اور ڈاڑھی کامعنیٰ بھی نہیں آتا اس سے پوچھو، ڈارھی کامعنیٰ ہے کیا؟ وہ کہے گا کہ مجھے نہیں پتا، اعتراض کرنے کا پتا ہےمعنیٰ کا نہیں پتا۔ اعتراض کرنا بہت آسان ہے، حضر ت مولانا امین صفدر اکاڑوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ میں ٹرین میں سفر کررہا تھا، میں اوپر برتھ پر لیٹاتھا،پتا ہے ناں، نیچے سیٹ ہوتی ہے اور اوپر برتھ ہوتی ہے۔ تو دو آدمی نیچے بحث کر رہے تھے۔ ایک کہتا ہے ڈاڑھی اتنی ہونی چاہیے۔ دوسرا کہتا ہے کہ ڈاڑھی اتنی ہونی چاہیے۔ ایک کہتا ہے کہ ڈاڑھی ایک مٹھی ہونی چاہیےدوسرا کہتا ہے کہ ڈاڑھی ناف تک ہونی چاہیے۔ جب میں نیچے آیا تھا تو ایک بندے نے کہا کہ مولوی صاحب آپ بتائیں، ڈاڑھی کتنی ہونی چاہیے؟ حضرت فرماتے ہیں کہ تمہارا اختلاف کیا ہے؟ ایک کہتا ہے کہ ڈاڑھی ایک مٹھی ہے، دوسرا کہتا ہے کہ ناف تک ہونی چاہیے۔
تو مولانا فرماتے ہیں کہ میں نے مزاق میں کہا کہ اختلاف ڈاڑھی میں ہےیا ڈاڑھ میں ہے؟ ایک ہوتی ہے ڈاڑھی، ایک ہوتی ہے ڈاڑھ، مسئلہ تو ڈاڑھی کا ہے، ڈاڑھی اور ڈاڑھ کا مسئلہ نہیں ہے۔ یہ جو یہاں تک ہے اس کو ڈاڑھی کہتے ہیں۔ اس کو ڈاڑھ تھوڑی کہتے ہیں۔ نہیں سمجھے!ڈاڑھ کہتے ہیں بہت بڑی چیز کو مبالغہ پیداکرنے کے لیے۔ اس طرح کرتے ہیں ناں۔ فرماتے ہیں کہ مسئلہ ڈاڑھی کا ہے اگر ڈاڑھی نہ ہو تو بہت بڑا ڈاڑھ ہو گا اب بات سمجھ میں آگئی؟
ڈاڑھی کی تحدید پر غیر مقلد کا اعتراض
ایک غیر مقلد کہتا ہے کہ ڈاڑھی بڑی رکھنی چاہیے کیوں کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے پیچھے ایک بندہ نماز پڑھتا تھا، سلام پھیرتے تو اسکی ڈاڑھی نظر آتی تھی۔ میں نے کہا مسئلہ چوڑائی کا نہیں ہے مسئلہ لمبائی کا ہے، تم کہتے ہو چوڑائی کا ہے چوڑائی کا تو مسئلہ ہی نہیں ہے۔
دوسری بات یہ ہے کہ مسائل اجتہادیہ میں مجتہد پر تقلید واجب نہیں ہوتی،حضرت علی رضی اللہ عنہ خود مجتہد تھے، تقلید غیر مجتہد کرتے ہیں، مجتہد نہیں کرتے۔
حضرت تھانوی کی عبارت پر اعتراض اور جواب
غیر مقلد آپ کوحضرت حکیم الامت مولانا تھانوی رحمہ اللہ کی عبارت پیش کرے گا اور آپ پھنس جائیں گے۔ عبارت کیا ہے؟ تھانوی رحمہ اللہ لکھتے ہیں ”یہ بات تو قطعیت سے ثابت ہے، امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ غیر مقلد تھے“ کہیں گے امام صاحب غیر مقلد ہیں، میں غیر مقلد بن گیا تو کیا حرج ہے۔امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ غیر مقلدہے، میں بناتو کیا حرج ہے؟ بات سمجھ گئے؟
حکیم الامت حضرت تھانوی رحمہ اللہ کی عبارت کا مطلب کیا ہے امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ غیر مقلد تھے یعنی مقلد نہیں تھے بلکہ مجتہد تھے۔ مجتہد کے مقابلے میں ایک ہوتا ہےمقلد، تو مجتہد کون ہوتاہے؟ غیر مقلد، اور اس کا مقابل مقلد۔اس لیے مجتہد کسی کا مقلدنہیں ہوتا۔ ایک ہوتا ہے غیر مقلد بمقابلہ مقلد، یعنی مجتہد بھی نہیں ہے اور مقلد بھی نہیں ہے،بلکہ غیر مقلد ہے۔ تو دونوں کا مطلب الگ ہے ناں؟ یہ مقلد بھی نہیں اور مجتہد بھی نہیں بلکہ غیر مقلد ہے۔اور حضرت امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ مجتہد تھے۔
ایک غیر مقلد سےمکالمہ
مجھ سےایک غیر مقلد کامکالمہ ہوا۔ میرا سندھ میں خیر پور میں جلسہ تھا مرکزی مسجد میں جمعہ کے بعد ایک غیر مقلد مجھے کہنے لگا کہ تقلید کرنا واجب ہے؟ اور اگر تقلید نہ کریں تو؟ میں نے کہا گناہ ہوتا ہے، وہ کہنے لگا کہ پھر امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کس کے مقلد تھے؟ میں نے کہا کسی کے بھی نہیں۔کہا ان کو گناہ ہوتا تھا؟ میں نے کہا نہیں، کہنے لگا کہ جب تقلید واجب ہے، نہ کرو تو گناہ ہے، تو پھر گناہ تو سب کے لیے ہوتا ہے، امام صاحب نہ کریں تو ان کو گناہ کیوں نہیں ہوتا؟ میں نے کہا میں آپ سے دو مسئلے پوچھتا ہوں پھر یہ مسئلہ آپ کو سمجھ آئے گا۔یہ بتائیں کہ ہر انسان کے لیے کسی نبی کا کلمہ پڑھنا فرض ہے؟ کہا جی ہاں میں نے کہا کلمہ نہ پڑھےتو پھر مؤمن ہوتا ہے؟ کہتا ہے کافر ہوتا ہے۔ میں نے کہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم انسان تھے؟ کہتا ہے جی ہاں! انسان کا مل تھے۔ میں نے کہا کلمہ کس کا پڑھا تھا؟ کہتا ہے کسی کا نہیں۔ میں نے کہا کیوں؟ کہتا ہےوہ تو خود نبی تھے، وہ کسی کا کلمہ کیوں پڑھتے، میں نے کہا یہ ایک مسئلہ ہوگیا۔
دوسرا مسئلہ
دوسرا مسئلہ یہ کہ باجماعت نماز پڑھنا ضروری ہے؟ کہا جی ہاں میں نے کہا نہ پڑھیں تو؟ کہا گناہ ہوتا ہے میں نے پوچھا باجماعت نماز کسے کہتے ہیں؟ کہا کہ کچھ لوگ ایک امام کے پیچھے کھڑے ہو کر نمازپڑھیں، یہ نماز باجماعت ہے۔ میں نے کہا تمہاری عوام باجماعت پڑھتی ہے، تمہارے مولوی بےجماعت پڑھتے ہیں، وہ سب گناہ گار ہیں۔ وہ کہتاہے کیوں؟ میں نے کہا وہ کس کے پیچھے کھڑے ہوتے ہیں، تو نے خود کہا باجماعت کامعنیٰ ہے کہ کچھ لوگ ایک امام کے پیچھے کھڑے ہو کر نماز پڑھیں، تم تو امام کے پیچھے ہو، تمہارا امام کس کے پیچھے ہے، وہ تو بغیر جماعت کے پڑھ کر گناہ گار ہورہا ہے، مجھے کہتاہے نہیں۔وہ تو خود امام ہے۔حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی کا کلمہ اس لیے نہیں پڑھا کہ خود نبی ہیں۔ اور امام کسی کا مقتدی کیوں نہیں اس لیے کہ خود امام ہے۔ میں نے کہا امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ اس لیے تقلید نہیں کرتے کہ خود امام ہیں، مجتہد ہیں، کیوں تقلید کریں گے؟
تقلید امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ ہی کی کیوں
پھر کہنے لگا کہ مجتہد تو اور بھی ہیں، امام شافعی رحمہ اللہ تعالی،امام مالک رحمہ اللہ، امام احمد رحمہ اللہ، امام اوزاعی رحمہ اللہ اور امام زفر رحمہ اللہ، آپ نے سب کو چھوڑ کر امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کی تقلید کیوں کی؟ میں نے کہا اس شہر میں ایک ہی مسجد ہے یا اور بھی مسجدیں ہیں؟ کہتا ہے بہت مسجدیں ہیں، میں نے کہا تم نے اور مسجدیں چھوڑ کر یہاں جمعہ کیوں پڑھا؟ کہنے لگا کہ اور مسجدیں چھوٹی ہیں، یہ بڑی ہے۔ میں نے کہا باقی امام چھوٹے ہیں اور یہ بڑے ہیں۔ وہ سند ھی تھا، اس لیے مجھے کہتا تھا سائیں آپ دلیل نہیں دیتے، مثال دیتے ہیں؟ میں نے کہا مولوی لائے گا تو دلیل دوں گا، تجھ جیسا جاہل ہو گا، تو مثال دوں گا،مولوی کو قائل کرنے کا اصول اور ہوتا ہے، غیر عالم کو قائل کرنے کا اصول اور ہوتا ہے۔ عالم کو دلیل دیتے ہیں اور غیر عالم کو مثال دیتے ہیں۔ آپ میرے جتنے بیانات سنیں گے تو اس میں دلائل بھی ہو ں گے اور مثالیں بھی ہو ں گی، دلیل اور ساتھ مثال۔ مثال کے بغیر مسئلہ کھلتا نہیں ہے، مثال کے بغیر وضاحت نہیں ہو تی، مثال کے بغیربندہ قائل نہیں ہوتا۔
تقلید غیر مجتہد کرتا ہے۔ مسائل اجتہادیہ میں غیر مجتہد کا ایسے مجتہد کے مفتی ٰبہ مسائل کو بغیر مطالبۂ دلیل مان لینا، جس کا مجتہد ہونا دلیل شرعی سے ثابت ہو، ایسا مجتہد کہ اس کا مجتہد ہونا دلیل شرعی سے ثابت ہو۔ یہ اس لیے کہا کہ ہر کوئی کہے گا کہ میں تو مجتہد ہوں، میری تقلید کرلو، قرآن تو اب نہیں اتر سکتا، حدیث تو نہیں آسکتی اجتہاد کا دروازہ تو کھلا ہوا ہے، کوئی کہہ سکتا ہے کہ میں مجتہد ہو ں، میری تقلید کرو۔ امام کی تقلید تم نے ضرور کرنی ہے؟ اب آپ کیا جواب دیں گے؟ مولویانہ بحث ہر بندہ نہیں سمجھتا، سیدھی سادی بات بتاؤ کہ ہم اسے مجتہد مانیں گے، جس کا مجتہد ہونا دلیل شرعی سے ثابت ہو۔
اب پوچھیں گے کہ تو مجتہد ہے تو اس پر دلیل شرعی کیا ہے؟ شرعی دلیل یا تو قرآن ہے، یا شرعی دلیل حدیث ہے،یا شرعی دلیل اجماع امت ہے۔ قیاس سے مجتہد ہونا ثابت نہیں ہو سکتا قیامت تک۔ کیونکہ جس پر قیاس کرے گا اس جیسا بھی ہونا چاہیے وہ تو ہو ہی نہیں سکتا۔اب بندہ یوں اصول بھی نکالے پھر اصول سے فروع کااستدلال بھی کرے، یوں تو درجہ اسباب میں ناممکن ہے۔ ان کو کہو کہ قرآن پیش کرو،نہیں پیش کرسکتے۔ احادیث پیش کرو،نہیں پیش کر سکتے۔ اجماع امت پیش کرو، نہیں کر سکتے۔
امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ پہ بندہ ہزار اعتراض کرے گا، لیکن مجتہد مان کر اعتراض کرے گا۔ اس لیے کہ امام صاحب کا اجتہاد دلیل شرعی اجماع امت سے ثابت ہے اور جس بندے کا مجتہد ہو نا دلیل شرعی سے ثابت ہو ،اس کی ہم تقلید کرتے ہیں ورنہ ہر بندہ کہے گاکہ میں مجتہد ہوں، میری بات مان لو۔ ہم کہیں گے کہ ہم ماننے کے لیے تیار ہیں لیکن تم اپنے مجتہد ہونے پر دلیل شرعی تو پیش کرو۔ کیا اعتراض ہے ہم مان لیتے ہیں۔ ہم نے ضروری 1200سال پہلے جانا ہے۔ لیکن تم کوئی دلیل شرعی تو پیش کرو۔ تو کل تک ڈاڑھی منڈارہا تھا آج تو نے رکھی ہے، پہلے فلمیں دیکھتا تھا آج تو نے تو بہ کی ہے۔ مجتہد اس کو کہتے ہیں؟ جو 50سا ل تک بدکرداریاں کرے اور پھر امت کا امام بنے۔ اس کو مجتہد نہیں کہتے، اس کو صوفی مان لیں گے، اس کو پیر مان لیں گے،لیکن مجتہد نہیں مانتے۔
مجتہد کی صورتیں کچھ اور ہوتی ہیں، خانقاہ کے پیر کی کچھ اور ہوتی ہیں، بندہ گناہ کرتا رہے، تو بہ کرے تو ولی بن جائے اور اللہ اس سے کام لے لے، تو صحیح ہے اس میں کیا حرج ہے، ایسا ہو سکتا ہے بلکہ ہوتابھی ہے کہ دوسروں سے بھی اصلاح زیادہ کرے کیونکہ وہ گناہوں سے گزرکر آیا ہے تو وہ اونچ نیچ زیادہ جانتا ہے۔ ہاں یہ ہوسکتا ہے کہ دوسروں سے بھی آگے نکل جائے۔اللہ ہمیں یہ بات سمجھنے کی تو فیق عطا فرمائے۔آمین۔
تقلیدکی تعریف میں یہ کہا تھا کہ ایسے مجتہد کے مفتیٰ بہ مسائل میں تقلید کی جائےگی۔ اس سے پتا چلا کہ تقلید ان مسائل میں ہے جو مفتیٰ بہ ہیں، ان مسائل میں نہیں جو مفتیٰ بہ نہیں ہیں۔ یہ اس لیے کہا کہ غیر مقلد آپ کے سامنے ایسے مسائل پیش کرے گا کہ جس پر ہمارے فقہاء کا فتویٰ نہیں ہے مثلاً غیر مقلد آپ سے کہے گا کہ قرآن کریم میں ہے کہ ماں اپنے بچے کو دو سال تک دودھ پلائےمگرامام ابوحنیفہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اڑھائی سال تک پلا سکتی ہے، تو تمہارے امام کا مسئلہ تو قرآن کے خلاف ہے، ایسے امام کی تقلید کیسے کرو گے؟ ہم اسے کہیں گے کہ امام صاحب رحمہ اللہ کے دو قول ہیں۔ دو سال کا بھی ہے اور اڑھائی سال کا بھی ہے، فتوی ٰ دو سال پر ہے، اس لیےدوسال والا جو فتویٰ ہے اس میں تقلید کرتے ہیں اڑھائی سال والے پر فتویٰ نہیں اس لیے تقلید بھی نہیں کرتے۔
مسئلہ رضاعت سے متعلق ایک اشکال
پھر کو ئی بندہ آپ سے کہہ دے گا کہ آپ دو سال والے پر تقلید کیوں کرتے ہیں؟ دو سال کا مسئلہ تو منصوص ہے، منصوص پر تو تقلید نہیں ہوتی۔ قرآن کریم میں ہے۔
وَالْوَالِدَاتُ يُرْضِعْنَ أَوْلَادَهُنَّ حَوْلَيْنِ كَامِلَيْنِ
سورۃ البقرۃ، آیت نمبر 233
دوسال پر تو نص موجو د ہے، پھر اس میں تقلید کیسی ہے؟ ہم کہتے ہیں کہ نہیں، تمہیں غلط فہمی ہوئی ہے، امام صاحب چھوٹے آدمی نہیں۔ امام صاحب رحمہ اللہ نےحَوْلَيْنِ كَامِلَيْنِکے باوجود اڑھائی سال کا قول کیا ہےتو اس کی وجہیں ہیں، آپ امام صاحب کے علوم کو دیکھ کر دنگ رہ جائیں گے، اسی کو فقہ کہتے ہیں۔ امام صاحب فرماتے ہیں:
قرآن کریم میں ہے
وَالْوَالِدَاتُ يُرْضِعْنَ أَوْلَادَهُنَّ حَوْلَيْنِ كَامِلَيْنِ لِمَنْ أَرَادَ أَنْ يُتِمَّ الرَّضَاعَةَ وَعَلَى الْمَوْلُودِ لَهُ رِزْقُهُنَّ وَكِسْوَتُهُنَّ بِالْمَعْرُوفِ لَا تُكَلَّفُ نَفْسٌ إِلَّا وُسْعَهَا لَا تُضَآرَّ وَالِدَةٌ بِوَلَدِهَا وَلَا مَوْلُودٌ لَهُ بِوَلَدِهِ وَعَلَى الْوَارِثِ مِثْلُ ذَلِكَ فَإِنْ أَرَادَا فِصَالًا عَنْ تَرَاضٍ مِنْهُمَا وَتَشَاوُرٍ فَلَا جُنَاحَ عَلَيْهِمَا وَإِنْ أَرَدْتُمْ أَنْ تَسْتَرْضِعُوا أَوْلَادَكُمْ فَلَا جُنَاحَ عَلَيْكُمْ إِذَا سَلَّمْتُمْ مَا آتَيْتُمْ بِالْمَعْرُوفِ وَاتَّقُوا اللَّهَ وَاعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِيرٌ
سورۃ البقرۃ، آیت نمبر233
فَإِنْ کامطلب کیا ہے؟”فا“ عربی زبان میں تعقیب مع الوصل کے لیے آتی ہے یعنی بعد میں بھی ہو اور فوراًبھی ہو۔ اب ”فا“ کا مطلب یہ ہے کہ دوسال تک ماں اپنے بچے کو دودھ پلائے، پھردوسال کے بعد چھڑا نا چاہیں مرضی اور مشورے سے تو کوئی حرج نہیں۔ کیوں جی! جب ہے ہی دو سال تو پھر اس کا کیا مطلب کہ مشورے سے چھڑانا چاہیں تو پھر کوئی حرج نہیں ہے۔”فا“ کا لفظ بتاتا ہے کہ دو سال کے بعد بھی پلانے کی گنجائش ہے ورنہ فَلَا جُنَاحَ کامعنیٰ ہی نہیں بنتا۔ ہم کہتے ہیں کہ آپ کے سبق کا وقت اڑھائی سے لے کر چار تک ہے لیکن اگر چار بجے کے بعد بھی10منٹ لینا چاہیں تو لے سکتے ہیں۔
دوسری بات یہ کہ بھائی! ہے اڑھائی سے چار تک اور وہاں کا قانون ہے کہ بلڈنگ 4بجے بند ہو جاتی ہے۔ 4بجے کے بعد ایک منٹ آپ یہاں ٹھہرہی نہیں سکتے۔ اگر ٹھہریں گے تو جرمانہ ہوگا، لیکن پھر بھی کہتے ہیں آپ ٹھہریں تو 10منٹ ٹھہرسکتے ہیں۔ بھئی جب چارکے بعد گنجائش نہیں تو پھر آپ گنجائش کیسے دےرہے ہیں؟
نماز یں پانچ فرض ہیں چھٹی پڑھنا چاہیں، تو گنجائش ہے؟ جب چھٹی ہےہی نہیں، تو پڑھنےکا کیا مطلب ہے؟ ہم کہہ سکتے ہیں کہ فرض توپانچ ہیں لیکن اگر آپ تہجد پڑھنا چاہیں، تو پڑھ سکتے ہیں۔ میں فقہ حنفی کے مطابق کہتا ہوں کہ ظہرکے فرض چارہیں مسافر ہو تو دو ہیں۔ چارپڑھنا چاہو تو پڑھ سکتے ہو؟ مشورے سے پڑھ لو، تو پڑھ سکتے ہیں؟ [نہیں پڑھ سکتے، سامعین ]
فرض دو ہی ہیں، سنتیں پڑھنا چاہیں تو پڑھ سکتے ہیں۔ یہ صحیح ہے توپھر دو رکعت فرض کے علاوہ سنت کی گنجائش کیسے نکالیں گے؟ اچھی طرح بات سمجھو! ہم گاڑی میں جارہے ہیں 5منٹ 10منٹ ہمارے پاس ہیں اب فرض کتنے پڑھنے ہیں؟ [دو،سامعین ]میں کہتاہوں حضرت آپ فرمائیں دو کی بجائے چار پڑھ لو، تو پانچ منٹ ہیں اگلے فرض کے ساتھ پڑھنا ہو تو پڑھ لیں؟ اجازت دےسکتے ہیں؟ (نہیں، سامعین ) اچھا میں کہتا ہوں کہ فرض کتنے ہیں؟ دو، اگر پانچ منٹ میں ساتھ چارسنتیں بھی پڑھ لو تو؟ مجھے کہتے ہیں ہاں ہاں پڑھنا ہے تو پڑھ لو، تو چار سنتوں کی اجازت مانگو، اجازت دو ،تو بات بنتی ہے۔ ہاں اگر دو فرضوں کے بعد مزید دو فرضوں کی اجازت مانگو توبات نہیں بنتی۔
قرآن کریم کیا کہہ رہا ہے کہ مدت ہے دو سال اب اگر اس کے بعد مشورہ سے چھوڑنا چاہے تو کوئی حرج نہیں، اس کا مطلب ہے اس کے بعد پلا سکتے ہیں اور چھڑا بھی سکتے ہیں تو ”فا “ بتارہا ہے دو سال کے بعد گنجائش موجود ہے اب سمجھ آئی امام صاحب کی فقاہت؟ امام صاحب کا دماغ دیکھیں ”فا“ بتاتا ہے کہ کچھ گنجائش موجود ہے اچھا گنجائش کتنی ہے؟ قرآن مجید میں چھبیسویں سپارے میں ہے۔
وَحَمْلُهُ وَفِصَالُهُ ثَلَاثُونَ شَهْرًا
سورۃ الاحقاف آیت نمبر 15
اس سے پیچھے آیت کہاں سے شروع ہوتی ہے؟
وَوَصَّيْنَا الْإِنْسَانَ بِوَالِدَيْهِ إِحْسَانًا
آگے حَمَلَتْهُ أُمُّهُ كُرْهًا وَوَضَعَتْهُ كُرْهًا آگے وَحَمْلُهُ وَفِصَالُهُ ثَلَاثُونَ شَهْرًا قرآن کریم نے کہا وَحَمْلُهُ وَفِصَالُهُ ثَلَاثُونَ شَهْرًا حمل کے دومعنیٰ ہیں؛ حمل کا ایک معنیٰ ہے اگر بچہ پیٹ کے اندر ہے اسے بھی حمل کہتے ہیں اور اگر بچہ گود میں ہو اسے بھی حمل کہتے ہیں۔ قرآن کریم میں آیاہے
مَثَلُ الَّذِينَ حُمِّلُوا التَّوْرَاةَ ثُمَّ لَمْ يَحْمِلُوهَا كَمَثَلِ الْحِمَارِ يَحْمِلُ أَسْفَارًا
سورۃ الجمعۃ، آیت نمبر 5
یہاں بھی لفظ حمل آتا ہے کہ نہیں؟ یعنی بچہ اگر چہ اس کےپیٹ کے اندر نہ ہو، باہر اٹھایا ہو، اس کا نام بھی حمل ہے ٹھیک ہے؟
حَمُولَةً وَفَرْشًا
\سورۃ الانعام، آیت نمبر142
قرآن نے جانوروں کو حمول کہا ہے اچھا اور اگر بچہ پیٹ کے اندر ہو اس کو بھی حمل کہتے ہیں۔ حملۃ سے کیا مراد ہے اب حملۃ کے دونوںمعنیٰ ہیں، ایک بچے کا عورت کے پیٹ میں رہنا اور عورت کا اس کو اٹھا نا وَفِصَالُهُ ثَلَاثُونَ شَهْرًا تو جہ رکھنا! عورت کا بچے کو پیٹ میں رکھنا اور پیٹ سے نکلنے کے بعد اس کو دودھ پلانا یہ پوری مدت بنتی ہے ثَلَاثُونَ شَهْرًا اب اس کا مطلب کیا ہوگا پیٹ کے اندر حمل اور دو سال کا دودھ۔ 30مہینے یعنی اڑھائی سال بن گئے، سمجھ آگئی بات؟ اچھا اگر اس سے مراد پیٹ کے اندر نہ ہو بلکہ بچہ گود میں رکھنا ہوتو اس کا مطلب یہ ہےکہ بچہ جننے کے بعد عورت کا بچے کو گود میں رکھنا اور اس کا دودھ چھڑانا اس کی مدت ہے اڑھائی سال۔
اس پہ قرینہ موجود ہے کہ اس سے مراد پیٹ والا حمل نہیں ہے، گود والا حمل ہے۔ اس پہ قرینہ موجود ہے۔قرینہ کیا ہے
حَمَلَتْهُ أُمُّهُ كُرْهًا وَوَضَعَتْهُ كُرْهًا
اسی نے پیٹ میں رکھا ہے، بڑی مشقت اٹھائی ہے۔ پھر جنا ہے بڑی مشقت اٹھائی ہے۔ اب اس کے بعد مشقت کون سی ہے گود میں رکھ کے تربیت کرنے والی، قرینہ موجود ہے، اس حمل سے مراد پیٹ کے اندر والا حمل نہیں ہے گود میں رکھ کے پالنے والا حمل ہے۔ یقین سے بتادیا مدت رضاعت کتنی بنتی ہے؟ اڑھائی سال ! امام صاحب ایسے تو قول نہیں کرتےنا ں!
امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کی عظمت
میں صرف ایک مثال دیتا ہوں، آپ کو خود اندازہ ہوگا، ہمارا امام کتنا بڑا ہے، ورنہ طلباء کو نہیں سمجھ آتی ہے، ہمارے امام کتنے بڑے ہیں۔ آپ کہیں گے یار جب نص موجود ہے کہ مدت دو سال ہے، امام صاحب نے اڑھا ئی سال کا قول کیا کیسے؟ اب امام صاحب فرماتے ہیں ان دلائل کا تقاضا یہ ہے کہ مدت رضاعت دو سال ہو اور ان دلائل کا تقاضا یہ ہے کہ مدت رضاعت اڑھائی سال ہو، دو سال کا بھی قول بنتا ہے اڑھائی سال کا بھی قول بنتا ہے لیکن فتویٰ اڑھائی کے بجائے دو سال پر ہے۔ اب امام صاحب نے نئی جہت نکالی، فرمایا: دیکھو چونکہ یہ بھی احتمال ہے اڑھائی سال والا۔ نص میں احتمال تو ہے ناں! لہذا اگر کوئی اڑھائی سال کے اندر اندر دودھ پلا لے تو رضاعت کا حکم جاری کردو۔
مدت رضاعت تو ہے دو سال، لیکن حرمت مصاہرۃ با لرضاعۃ کےلیے اڑھائی سال رکھواحتیاطاً، کوئی پوچھے مدت رضاعت کتنی ہے؟ تو کیا کہو گے؟ دو سال۔پھر کوئی پوچھے حرمت مصاہرۃ بالرضاعۃ اس کی مدت کتنی ہے؟ پھر کیا کہو گے؟ اڑھائی سال۔ کیونکہ احتیاط اس میں ہے۔ اب بتاؤ امام صاحب کی فقہ تک کوئی بندہ پہنچ سکتا ہے؟ میں ایک بات معذرت کے ساتھ کہتا ہوں، یہ امام صاحب کا وہ تفقہ ہے، جس کو ہمارا مفتی بھی نہیں سمجھتا۔ اس لیے امام صاحب کی جلالت شان ہم جیسوں کے دماغ میں نہیں ہوتی۔
فقہ کے مخالفین کے لیے چیلنج
ایک ہے مفتیٰ بہ اور ایک ہے غیر مفتیٰ بہ۔ ہم کہتے ہیں کہ ہمارا چیلنج ہے پوری دنیا سے، ایسا فقہ حنفی کا مسئلہ پیش کرو جس پر فتویٰ ہو اور عمل ہو اور وہ قرآن وحدیث کے خلاف ہو۔ شاذ قول نہ ہو، مفتیٰ بہ قول لاؤ۔ غیر مقلد اعتراض کرے گا مفتیٰ بہ قول پیش نہیں کرے گا، بلکہ غیر مفتیٰ بہ قول پیش کرے گا۔ ایک مفتیٰ بہ قول ہے اور ایک کیا ہے؟ غیر مفتیٰ بہ قول۔ تو ایسے مسائل اجتہادیہ میں غیر مجتہد کا ایسے مجتہد کے مفتیٰ بہ قول کو بلا مطالبہ دلیل مانناکیا؟ بلا دلیل نہیں بلکہ بلا مطالبہ دلیل۔
غیر مقلد کہتا ہے کہ تقلید کامعنیٰ ہوتا ہے
اتباع الانسان غیرہ بلادلیل
یہ معنیٰ اس نے غلط کیا ہے وہ کہتا ہے کہ تقلید کامعنیٰ ہوتاہے بلادلیل بات ماننا یہ تقلید ہے۔ ہم نے کہا کہ تقلید کامعنیٰ ہوتا ہے کسی کی بات کو بلامطالبہ دلیل ماننا۔ اورکسی کی بات کو بلامطالبہ دلیل ماننا یہ صحابہ رضی اللہ تعالی عنہم میں چلتا تھا۔ وہ مسئلہ پوچھتے تھے،لیکن دلیل نہیں پو چھتے تھے مصنف عبدالرزاق میں دیکھیں، مصنف ابن ابی شیبہ میں دیکھیں، ہزاروں فتاویٰ ایسے ملیں گے کہ جس میں صحابی فتویٰ دیتا ہے، اس پر دلیل پیش نہیں کرتا بغیر دلیل کے مسئلہ بتاتا ہے، اس کا مطلب یہ نہیں کہ اس کے پاس دلیل ہوتی نہیں، دلیل ہو تی تھی مگر اس سے دلیل مانگتے نہیں تھے۔
صحابہ کی تقلید کیوں نہیں؟
تو بلا مطالبہ دلیل ایسے مجتہد کی بات ماننا جس کا مجتہد ہو نا دلیل شرعی سے ثابت ہو۔ آگے یہ ہے کہ اس کامذہب مدوّن ہو کر اصولاً وفروعاً مقلد کےپاس تواتر کے ساتھ پہنچا ہو۔ یہ بات اس لیے ہم کہتے ہیں کہ لوگ یہ کہتے ہیں کہ تقلید کرنی ہے تو امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ کی بجائے صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کی کر لو، عمر رضی اللہ عنہ کی کر لو، حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی کر لو، حضرت علی رضی اللہ عنہ کی کر لو، حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کی کر لو، حضر ت حسن رضی اللہ عنہ کی کر لو یا آپ تقلید عبد اللہ بن مسعود کی کر لو،اتنےبڑےبڑے فقہاء صحابہ موجود تھے، آپ ان کی بجائے امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کی تقلید کیوں کرتے ہو؟
ہم نے کہا کہ تقلید اس کی کرتے ہیں جس کے مذ ہب کے اصول اور فروع مدوّن ہوں۔ حضرت ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ کے اصول وفروع کہاں لکھے ہیں؟ ہمیں بتاؤ کوئی کتاب ہی نہیں ہے، صحابہ میں سے کسی ایک صحابی کی کتاب بتاؤکہ جس نےاصول بھی نکالے ہوں اور اس کے بعد فروع نکالے ہوں اور لکھوا کر امت کے حوالے کر دیے ہوں،کسی کا نام بتائیں۔ اس امت میں سب سے پہلا شخص کہ جس نے اصول نکالے اور ان اصولوں سے مسائل نکا لےاور پھر ان سب کو تحریر بھی کروایا وہ امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ ہیں۔اس لیے ہم کہتے ہیں کہ اس کا مذہب اصولاً وفروعاً مدوّن ہو کر مقلد کے پاس پہنچا ہو۔
غیر مقلدین کا ایک اور حربہ
ایک جملہ ذہن میں رکھیں ہم نےمذہب کہا۔لفظ سمجھنا بہت ضروری ہے۔ آپ ہدایہ پڑھیں، اس میں لکھا ہو تا ہے
ھذا مذہب ابی حنیفہ رحمۃاللہ علیہ
یہ مذہب کا لفظ فقہاء کیوں استعمال کرتے ہیں؟ غیر مقلد اس لفظ سے بہت بڑا دھوکہ دیتے ہیں، کہ ایک غیر مقلد کھڑا ہوگا اور ایک ہمارا نوجوان کھڑا ہوگا، دونوں کھڑے ہوں گے اور غیر مقلد اس نوجوان کو لے کر کسی ان پڑھ دوکاندار کے پاس جائے گا، تاجر کے پاس جائے گا۔تاجر پڑھا لکھا تو ہے لیکن اس کے پاس دین کے علوم نہیں ہیں، وہ کہے گا میں کہتاہوں، میر امذہب محمدی ہے۔ یہ لڑکا کہتا ہے میرا مذہب حنفی ہے تو چاچاجی، ماماجی آپ بتائیں،دادا ابو آپ بتائیں کس کی بات زیادہ ٹھیک ہے؟ تو باباجی محمدی کہیں گے۔ میں کہتاہوں میرامذہب محمدی ہے اور یہ کہتا ہے میرامذہب حنفی ہے تو بزرگو آپ بتائیں، کس کا مذہب بہتر ہے؟
وہ کہے گا کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے بڑھ کر تو کوئی نہیں ہو سکتا۔ میں کہتا ہوں کلمہ جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا پڑھا ہے تومذہب محمد ی ہونا چاہیے۔ یہ کہتا ہے کہ نہیں کلمہ حضور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا پڑھا ہے اورمذہب حنفی ہونا چاہیے۔ میں کہتا ہوں جس کا کلمہ ہے اس کا مذہب ہو، اور یہ کلمہ نبی کا پڑھتا ہے اور مذہب ابو حنیفہ رحمہ اللہ کا لیتا ہے، اب اس کا جواب بنتا نہیں ہے تو کہیں گے کہ بزرگوں نے منع کیاہے۔ یہ نہیں کہےگا کہ مجھے آتا نہیں۔
میں جدہ گیا توایک مولوی صاحب ہیں، عُمر میں مجھ سے کافی چھوٹے تھے، مجھے کہنے لگے۔ ہمارا بہت دل کرتا ہے کہ کام کریں مگر بڑے ہمارے سر پہ ہاتھ نہیں رکھتے۔ میں نے کہا میں آپ سے بڑا ہوں کہ چھوٹا ہوں؟ کہتا جی بڑے ہیں، میں نےسر پہ ہاتھ رکھا اور کہا کہ کام کرو۔ اب شرمندہ ہوگیا، میں نے کہا تو مجھے بڑا بھی سمجھتا ہے میں تیرے سر پر ہاتھ بھی رکھتا ہوں تو کر و کام۔ کام چونکہ کرنا نہیں ہے، تو بہانہ یہ ہے کہ بڑے شفقت نہیں فرماتے میں نے کہا جوشفقت فرماتے ہیں۔ ان کی شفقت لیتے نہیں ہیں۔ جو نہیں فرماتے ان کو بدنام کرتے ہیں۔ یہ عجیب تمہارا ذہن بنا ہوا ہے۔ کام کرنا نہیں ہے، کام نہ کرنے کے لیے بہانے کئی ہیں۔
دیکھو میں نے کام شروع کیا ہے، جمعیت علماء اسلام کا یہ دفتر ہے پاکستان میں جمعیت علماء اسلام سے پوچھو۔آپ نیٹ پر دیکھو مولانا فضل الرحمٰن قائد جمعیت ہیں، میرا ماتھا چوم رہے ہیں، تو میں کیسے مانوں کام نہیں کرتے۔مولانا سمیع الحق جمعیت علماء اسلام کے ہیں، اب دیکھو میں اکوڑہ خٹک جاتا ہوں اور مولانا سمیع الحق سے بغیر پو چھے ان کے مدرسے میں بیان کرتا ہوں، کوئی مہتمم ایسے بیان کرنے دیتا ہے؟ میں آپ کے برما میں آؤں اور ان سے پوچھوں بھی ناں اور درس و بیان شروع کردوں، آپ کہیں گےمولانا ہم نے کون سا منع کرنا تھا، ہم سے پوچھ لیتے۔
میری تو جمعیت سر پر ستی کرتی ہے۔ میری تو کبھی مخالفت نہیں ہوتی، میں تو خانقاہی لوگوں کے پاس یہاں بھی پھر رہا ہوں، تو میں کیسے کہوں کہ بزرگ نہیں چاہتے ہیں۔ لیکن جب ہم شرارتیں کرتے ہیں تو پھر بزرگ منع کرتے ہیں۔بزرگ کہتے ہیں کام کریں مگر تھوڑا کنٹرول میں رہ کر کام کریں۔
اعتدال کو ہاتھ سے نہ جانے دیں
ہمارے ہاں بندہ کام کرتا ہی نہیں ہے، جب کرے تو پھر آؤٹ آف کنٹرول ہوتا ہے۔ وہ غیروں کو نہیں اپنوں کو بھی رگڑتا ہے۔ اس کے لیے میں ایک لفظ استعمال کرتا ہوں کہ ہمارے ہاں جو نرم ہیں وہ غیروں کےلیے بھی نرم ہیں اور جو گرم ہیں وہ اپنوں کے لیے بھی گرم ہیں۔ امت میں اعتدال نہیں ہے کہ غیروں کے لیے گرم ہوں اور اپنوں کے لیے نرم ہوں۔ اس طرح چلیں تو بزرگ بھی منع نہیں کرتے۔ میں بات سمجھانے لگا تھا، تو بتائیں کہ میرامذہب محمدی ہے اور اس کامذہب حنفی ہے۔ میں کہتاہوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا کلمہ پڑھا ہے تو محمدی کہو۔ یہ کہتا ہے کہ کلمہ نبی کا پڑھا ہے۔ مذہب میں نے حنفی رکھنا ہے۔ تو باباجی بتائیں فیصلہ کس کے حق میں دیں گے؟ تو وہ محمدی والے کے حق میں فیصلہ دیں گے۔ کیوں کہ اس نے دلیل بڑی پیاری دی ہے۔ حالانکہ دلیل نہیں ہے۔ ڈھکو سلہ مارا ہے۔ جس کا جواب نہیں بن سکتا ہےاس پر میں مثال دے کر سمجھاتاہوں۔ دلیل اور ہوتی ہے اور ڈھکوسلہ اور ہوتا ہے۔ ڈھکو سلہ کسے کہتے ہیں؟
دلیل اور ڈھکوسلہ
ہمارے ہاں ایک شہر ہے گوجرانوالہ، وہاں تانگے گھوڑے بہت ہوتے ہیں۔ ایک بوڑھا کو چوان تانگے پر جارہا تھا، سواریاں بٹھائی ہوتی ہیں، تو اچانک پیچھے سے ایک لڑکا جوبائیک پر بیٹھا ہے۔ ایف،ایس، سی کاسٹوڈنٹ ہے۔ اچانک باباجی نے دائیں طرف تانگہ موڑا، اس لڑکے نے بڑی مشکل سے بریک مار کر موٹر سائیکل کو روکا، ایکسیڈنٹ ہونے لگا تو لڑکے نے غصے میں آکر باباجی سے کہا، باباجی! تساں سجے پاسے مڑنا سی، تے ہتھ دا اشارہ تے دیندے ہر آدمی کی اپنی مرضی ہوتی ہے، ہماری اپنی مرضی ہے اور آپ کی اپنی مرضی ہے۔ اس نے پنجابی میں یہ کہا،معنیٰ یہ کہ اگر آپ نے دائیں طرف مڑنا تھا تو دائیں طرف ہاتھ کا اشارہ دے دیتے۔ اتنی مشکل سے میں نے موٹر سائیکل روکا ہے۔ باباجی نے فوراً کہا: او پتر! تینوں تیرہ گزد المبا بانس نہیں دِسیا، تینو ں دو فٹ لمبا ہاتھ دس پیناسی؟ کہ تجھے تیرہ گز لمبابانس نظر نہیں آیا تو دو فٹ کا ہاتھ نظر آجانا تھا؟ تو مجھے کالج سے اٹھ کر سمجھانے کےلیے آیا ہے،اب لڑکے کے پاس کوئی جواب نہیں۔
یہ باباجی نے کوئی دلیل دی ہے؟ نہیں بلکہ ڈھکو سلہ مارا ہے۔ اب بتاؤ کہ ڈھکو سلے کا جواب شیخ الحدیث کیسے دے؟ ڈھکو سلے کا جواب بزرگ کیسے دے؟ ڈھکوسلے کے جواب کے لیے تو فن والا بندہ چاہیے۔ وہ سمجھتا ہے کہ یہ ڈھکو سلہ کہاں سے اٹھا ہے؟ وہ کالج کا لڑکا تھا، ہم جیسا دیوبندی مدرسے کا کوئی درویش ہوتا، تو ہم اس کے ڈھکو سلے کو بھی صاف کرتے۔ ہم جیسا بندہ ہوتا تو ہم نے فوراً کہناتھا کہ بابا اصل میں تو تیرہ گز لمبے بانس نے مڑنا تھا، یہ دو فٹ کا ہاتھ لگاتے ہیں، یہ بتانے کےلیے کہ موٹر سائیکل سنبھال لو، میرا یہ تیرہ گز کا بانس مڑ نے والا ہے تھوڑی دیر بعد۔
مذہب اور منزل
اب جواب سمجھو! ایک ہوتا ہے”مذہب“اور ایک ہوتی ہے”منزل“۔ پہنچنے کی جگہ کو منزل کہتے ہیں اور پہنچنے کی جگہ کے راستے کومذہب کہتے ہیں۔ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہماری منزل ہیں امام اعظم ابوحنیفہ رحمہ اللہ ہمارا راستہ ہیں۔ منزل ہماری مدینہ ہے اور راستہ ہمارا کوفہ ہے مذہب ہمارا حنفی ہے، منزل ہماری محمدی ہے، اب بتاؤ! باباجی کو بات سمجھ آئے گی یا نہیں؟ اب بتاؤ ہمارا مذہب کیا ہے؟ حنفی یا محمدی؟ حنفی ہے اس میں شرم کی بات تھوڑی ہے؟ کیوں جھجکتے ہیں؟ جھجکتے اس لیے ہیں کہ پورا مسئلہ کھلا نہیں ہوتا۔
کون با ادب، کون بے ادب؟
ہمارا مذہب حنفی ہے، ہماری منز ل محمدی ہے، ہم اس سے پوچھتے ہیں کہ تیرا مذہب محمدی ہے تو بتا کہ تیری منزل کو نسی ہے؟ تو بالائی منزل ہے، تیری منزل ہی نہیں ہے، ہمارے پاس راستہ بھی ہے، ہمارے پاس منزل بھی ہے، دونوں چیزیں ہمارے پاس موجود ہیں۔ میں نے کہا اس لیے کہ ہم با ادب ہیں، تم بے ادب ہو۔ کہتا ہے جی کیا مطلب؟ جو ڈائریکٹ مدینہ جائے، وہ بے ادب ہوتا ہے؟ میں نے کہا ہاں جو ڈائریکٹ مدینہ جائےتوبے ادب ہوتاہے اورجو بائی کوفہ جائے تو باادب ہوتا ہے۔ کہتا ہے جی کیسے؟ میں نے کہا میں حدیث سے ثابت کروں گا۔ کامل ابن عدی میں لکھا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
انا مدينة العلم وعليّ بابها
الکامل لابن عدی، جلد نمبر1 صفحہ نمبر190
میں محمدعلم کا شہر ہوں اورعلی شہر ِعلم کا دروازہ ہے۔ اگر کوئی بندہ مسجد میں صف اول میں نماز پڑھے اور دروازہ کراس کر کے جائے، وہ باادب نمازی ہے، دروازہ کراس کیے بغیر جائے تو وہ بے ادب نمازی ہے۔ حضرت علی شہرِعلم کا دروازہ ہیں اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم شہر علم ہیں۔ شہر ِعلم مدینہ میں ہے، اور دروازہ کوفہ میں ہے، دروازے سے گزر کر جائیں گے تو باادب ہیں۔ دروازے کے بغیر جائیں گے تو بےادب ہیں۔ میں نے کہا ہم باادب ہیں، تم بے ادب ہو۔ تم ڈائریکٹ جاتے ہو۔ ہم کوفہ سے ہوکر جاتے ہیں۔ اور یہ میری دلیلیں نہیں ہیں۔ وہ دلیلیں ہیں جو شیخ الحدیث صاحب بخاری کے مقدمے میں پیش کرتے ہیں، لیکن فن نہیں ہے ناں اس لیےاس کی طرف ہماری تو جہ نہیں جاتی۔
امام بخا ری کہاں کے فیض یافتہ ہیں؟
فتح الباری علامہ ابن حجر عسقلانی کی کتاب ہے۔ اس کا مقدمہ ھدیۃ الساری ہے۔ اس میں امام بخاری کا قول پیش کیا ہے کہ میں پڑھنے کے لیے کہاں کہاں گیا تھا۔ آپ نے سنا ہے۔ جو دورہ حدیث کے طلبا ہیں، ان کو بھی پتا ہے، شاید بھول گئے ہوں گے، لیکن لکھا ہوتا ہے۔ امام بخاری رحمہ اللہ کہاں کہاں گئے ہیں۔ اپنا سفر بیان کیا ہے کہ میں کہاں کہا ں گیا؟
قال البخاري دخلت إلى الشام ومصر والجزيرة مرتين وإلى البصرة أربع مرات وأقمت بالحجاز ستة أعوام
اپنا سفر بتاتےہوئے امام بخاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ میں جزیرہ دو بار گیا ہوں، بصرہ اربعۃ مرات چار بار گیا ہوں حجاز میں ستة أعوام چھ سال رہا ہوں اور جب کوفہ کی باری آئی تو فرمایا۔ لا أحصي كم دخلت إلى الكوفة لیکن میں کوفہ کتنی بار گیا مجھے یاد ہی نہیں۔
فتح الباري شرح صحيح البخاري، جلد نمبر1 صفحہ نمبر478
یہ کیوں کہا کہ یاد نہیں؟ وجہ یہ ہے کہ آپ کا مدرسہ ہے، مجھے سارے مدرسوں کا نام نہیں آتا، ایک دو کا ہی آئے گا سب کا نہیں آئے گا۔ مثلاًدارالعلوم ہے طالب علم سے پوچھو کہ آپ نے دارالعلوم میں کتنے سال پڑھا؟ کہتا ہے 10سال پوچھو کہ دارالعلوم کے دروازے سے کتنی بار اندر گیا؟ کہتا ہے مجھے یاد ہی نہیں کیوں؟ منزل اس کو یاد ہے کہ کتنا عرصہ ٹھہرا مگر دروازے سے گزرنا یاد نہیں، اس کا مطلب کہ امام بخاری رحمہ اللہ حجاز کو منزل کہتے ہیں، کوفے کو دروازہ کہتے ہیں، منزل کا رہنایاد ہے، کوفہ سے گزرنا یادنہیں ہے۔ یہ اس لیے کہ منزل میں تو رہنا یاد ہوتا ہے اور دروازے سے گزرنا بندے کو یاد ہوتا ہی نہیں۔
جو ہماراذوق ہے وہی امام بخاری رحمہ اللہ کا ذوق ہے۔ میرامستقل اس پر بیان ہے آپ کا ختم بخاری ہو تو اس پر مجھے بلائیں، ٹکٹ میں خود خرچ کرلوں گا،اس کی آپ فکر نہ کریں، مذاق نہیں ہے، اللہ کا شکر ہے، کرم ہے ایسے ساتھی ہیں جو ٹکٹ کا بندوبست کرلیتے ہیں، میں نے کو ن سا کما کر کرنا ہوتا ہے۔ یہ نہیں تو اور کوئی دے گا۔ کبھی ختم بخاری کا جلسہ ہو پھر مجھے بلائیں۔ صحیح بخاری پر میرا بیان سنیں، آپ دیکھنا وجد میں نہ آئیں تو پھر کہنا، اللہ گواہ ہے، پھر بخاری پر تقریر سنیں، پھر بخاری کو ہم حنفی کیسے بناتے ہیں، یہ فن ہے، آپ دیکھیں تو سہی۔
ہمارے ہاں المیہ ہے جب تک آدمی کسی بہت بڑے مدرسے کا شیخ الحدیث نہ ہو تو پھر آپ اس کو مانتے نہیں ہیں۔ حکیم الامت حضرت تھانوی رحمہ اللہ کس بڑے مدرسے کے شیخ الحدیث تھے؟ چھوٹے سے دیہات میں تھے۔میں وہ نہیں ہوں میں تو مثالیں دے رہاہوں، ہم اپنے اکابر کی جوتیاں سیدھی کرتے ہیں، خدا گواہ ہے آپ ختم بخاری پر مجھے بلائیں، پھر آپ مزے دیکھیں۔ آپ برما کے علماء جمع کریں اور مجھے بخاری پر بولنے دیں۔ انشاء اللہ آپ کو لطف آئے گا کہ صحیح بخاری اور حنفیت کہتے کسے ہیں؟ بخاری احناف کے خلاف نہیں ہے۔
بندے کا اپنے مسائل پر تو شرح صدر ہونا چاہیے ناں! پھر بندہ کھل کر بات کرتا ہے۔ میں بتا یہ رہا تھا کہ مجتہد کا مذہب اصولاًوفروعاًمدوّن ہو کر مقلد کے پاس تو اتر کے ساتھ پہنچا ہو۔ غیر مقلد سوال کرتے ہیں اور آپ کے ماحول میں تو ابھی پیدا نہیں ہوئے پیدا ہونے سے پہلے محنت کرو، تو پیدا نہیں ہوں گے یہ میری بات یاد رکھنا، پیدا ہونے سے پہلے محنت کرو، پیدا ہی نہیں ہوگا۔ ہمارے حضرات اس لیے نہیں کرتے کہ فتنہ دبا ہوا ہے تم شروع کر و گے تو اٹھ جائے گا۔ یہ ایک ذوق ہے حالانکہ ایسی بات نہیں ہے۔
فتنہ اٹھنے سے پہلے اس کا سد باب کریں
میرا ایک مرتبہ پشاور حیات آباد میں بیان تھا۔ بیس تراویح پر، میں نےبیان کردیا، جب میں نے بیس تراویح کے دلائل دیے تو بعد میں خان صاحب آئے، ماشاءاللہ پڑھے لکھے آدمی تھے۔ مجھے کہتاہے مولانا صاحب! ایک سوال ہے، میں نے کہا فرمائیں۔ کہنے لگا ہمارے حیات آباد میں کوئی بھی بندہ ایسا نہیں جو آٹھ رکعات تراویح پڑھتا ہو، سب بیس پڑھتے ہیں آپ کو آٹھ کی تردید کی کیا ضرورت پڑی ہے؟ آپ نے یہ مسئلہ یہاں کیوں بیان کیا؟ سوال بڑا معقول تھا، میری عادت ہے کہ معقول سوال پر شاباش دیتا ہوں، ڈانٹتا نہیں ہوں، کیونکہ سوال معقول ہے۔
میں نے ان سے پوچھا کہ آپ کے یہاں یہ جو حیات آباد میں کچھ ایسے مریض بھی ہیں جو پولیو کے ہوں۔ کہتا ہےنہیں۔ میں نے کہا اگر حکومت بھیجے کہ انجکشن میں یہ قطرہ ہے اور پلاؤ تو آپ پلادیتے ہیں۔ کہتاہےجی ہاں۔ میں نے کہا جب مریض ہی نہیں تو کیوں پلایا، کہتا ہے وہ حفاظتی انجکشن ہے۔ میں نے کہا یہ بھی حفاظتی بیان ہے، یہ دو چاربیان کراؤ گے تو آٹھ والے پیدا نہیں ہوں گے، اور جب پیدا ہوجائیں گے پھر آپ نے کہنا ہے کہ مولانا صاحب کو بلاؤ۔ پھر میں نے کہنا ہے کہ وقت نہیں ہے، ٹائم نہیں ہے، پھر تم نے کہنا ہے نخرے کرتا ہے۔ میں آتا ہوں، آپ کہتے ہیں فتنہ نہیں ہے، جب آپ بلائیں گے تو میں نے کہنا ہے ٹائم نہیں ہے، پھر لڑائی شروع ہو جائے گی۔ قبل از وقت فتنے کا تدارک ہونا چاہے۔
حفاظتی بیان
ہمارے ہاں، آپ کو پتا ہی ہے پنجاب میں ڈینگی بخار بہت زیادہ چلا ہے، مچھر آتا ہے اور بندے کو مار کے رکھ دیتا ہے۔ اب وہ لاہورمیں تھا مگر ہمارے شہر سرگودھا میں بھی انہوں نے چھڑکاؤ شروع کردیا، چھڑکاؤصبح شام ہو رہا ہے، مجھے موقع مل گیا، میرا درس قرآن تھا، سرگودھا میں تو میں نے پوچھا کہ بھئی یہاں ڈینگی بخار ہے؟ کہا نہیں، میں نے کہا پھر چھڑکاؤ کس لیے ہے؟ کہتاہے تاکہ مچھر ادھر نہ آ جائے، میں نے کہا، جب میں بیان کرتا ہوں کہ مچھر آنہ جائے، پھرکہتے ہو، مچھر تھا نہیں تو نے بیان کیو ں کیا؟ حفاطتی ٹیکے لگانا عقلمند آدمی کا کام ہے۔ حفاظتی بیانات کرانا اپنے بچوں کو فتنوں سے بچانے کے لیے ہے۔ اب دیکھو ہماری تقریر کوئی جذباتی نہیں ہے، کوئی فتوے والی نہیں ہے ملکی حالات خراب نہیں ہوتے۔ جو لوگ یہ بات سنتے رہیں گے تو ان کے پتے کبھی نہیں جھڑیں گے۔
فقہ حنفی پر اعتراض اور جواب
غیر مقلد یہ کہتے ہیں کہ ہم فقہ حنفی قبول کرنے کے لیے تیار ہیں، ہماری ایک شرط ہے۔ وہ شرط یہ ہے کہ تم اپنے مسائل فقہ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ سے سند کے ساتھ ثابت کرو ہم فقہ حنفی قبول کرکے مقلد ہوجائیں گے۔ یہ ہمارا چیلنج ہے۔ اب اس چیلنج کو کسی عالم نے قبول نہیں کرنا اس لیےکہ ایک ایک مسئلہ تو سند سے ثابت نہیں ہے، ھدایہ کے شروع میں توسند نہیں ہے ناں!
قدوری کے شروع میں سند نہیں ہے، کنز کے شروع میں سند نہیں ہے۔ تو سند سے ہم کیسے ثابت کریں گے؟ میرا ایک بیان تھا۔ اس میں غیر مقلد کی چٹ آئی یہی سوال کیا، کہ فقہ حنفی کے مسائل کو امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ سے سند کے ساتھ ثابت کردو، ہم حنفی ہونے کے لیےتیا ر ہیں، میں نے کہا اگر کوئی عیسائی آپ کو اس طرح چٹ لکھے کہ تم قرآن مجیدکی تمام آیات الحمد سے لے کر والناس تک سند کے ساتھ رسول اللہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت کردو، میں کلمہ پڑھ کر مسلمان ہونے کے لیے تیار ہوں کیا جواب دو گے؟
مجھے کہتا ہے کہ ہم سند کیوں پیش کریں گے؟ میں نے کہا: وجہ؟ کہتا ہے قرآن تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے تواتر کے ساتھ ثابت ہے اور جو بات تواتر سے ثابت ہووہاں سندکی ضرورت نہیں ہوتی۔ میں نے کہا جس طرح وہاں سند کی ضرورت نہیں ہے، یہاں بھی سند کی ضرورت نہیں ہے۔اب آپ تقلید کامعنیٰ سمجھ گئے؟ مسائل اجتہادیہ میں غیر مجتہد کا ایسے مجتہد کے مفتیٰ بہ مسائل کو بلا مطالبۂ دلیل مان لینا جس کا مجتہد ہو نا دلیل شرعی سے ثابت ہو اور اس کا مذہب اصولاً وفروعاً مدوّن ہوکر مقلد کے پاس تو اتر کے ساتھ پہنچا ہو۔ یہ تقلید ہے۔ اگر تقلید شرک ہے تو پھر اس پر کوئی دلیل پیش کردو۔ تو جس بندے کو تقلید کامعنیٰ ہی نہیں آتا وہ تقلید پہ ہم سے بات کیسے کرے گا؟
ستمبر میں میرا بحرین کا سفر تھا، ایک ساتھی مجھے کہنے لگاکہ ان کا لڑکا غیر مقلد ہو گیاہے۔ میری عادت ہے کہ میں کسی غیر مقلد سے بحث نہیں کرتا، شروع میں کرتا تھا اب نہیں کرتا، ہمارا جماعتی فیصلہ ہے۔میں یہاں آیا ہوں، آپ غیر مقلد لائیں گے تو میں بات نہیں کروں گا، آپ کہیں گے کیو ں نہیں کرتے؟ تو میں کہوں گا کہ اس کو دس دن کے لیے میرے پاس بھیج دویہ واپس آکر بتائےگاکہ میں کیوں بات نہیں کرتا۔ اس کی بہت سی وجہیں ہیں، اب بات کرناچھوڑدی اس لیے کہ اس پر بہت سے مسائل پیدا ہوتے ہیں۔ مثلاً یہاں آپ کے پاس آیا ہوں، میں کہتا ہوں کوئی سوال ہے تو چٹ لکھیں، میں جواب دوں گا،دل کرے تو مان لو، اگر دل نہیں کرتا تو نہ مانو۔ کوئی منع تو نہیں کرتا۔
اب ایک بندہ چِٹ نہیں لکھتا، کھڑے ہو کر سوال کرتا ہے میں جواب دیتا ہوں، پھر کھڑا ہوتا ہے پھر جواب دیتا ہوں، پھر کھڑا ہوتا ہے پھر جواب دیتا ہوں۔پھر بدتمیزی کرتا ہے ادھر سے میراعقیدت مند اس کو روکے گا کہ لڑائی ہوجائے گی، اب بعد میں لوگ کہیں گے مولانا الیاس گھمن کو نہ بلاؤ کیونکہ اس کے آنے سے لڑائی ہوتی ہے۔ حالانکہ لڑائی میرے آنے سے نہیں بلکہ لڑائی کھڑے ہو کر سوال کرنے سےہوتی ہے۔ کھڑے ہو کر سوال کرنےسے روک دو، تو لڑائی بالکل نہیں ہوگی اور جب کھڑے ہو کر سوال ہوں گے تو لڑائی ہوجائے گی اس لیے غیر مقلد سے بات بند کردی۔
ایک غیر مقلد کا سوال
خیر میں بحرین میں گیا تو غیر مقلد لڑکا تھا فوراً سوال کیا کہ مولا نا صاحب تقلید کرنی چاہیے؟ آپ سے پوچھے تو فوراً نہ کہنا، ہاں کرنی چاہیے، فوراً نہ کہنا بلکہ اس کا علم دیکھ لیں کہ وہ کیا کہنا چاہتا ہے، خیر میں نے کہا آپ کا کیا خیال ہے کہتاہے میرا خیال ہےکہ نہیں کرنی چاہیے۔ ہماری جان چھوٹ گئی، میں نے وجہ پوچھی کہ تقلید میں کیا خامی ہے؟ اب مجھے کہتا ہے کہ تقلید کا مطلب ہوتا ہے کہ کسی بندے کی بات کو بلا دلیل ماننا، ہم کیوں تقلید کریں؟
میں نے کہا ایک بات بتاؤ، جو آپ نے تقلید کامعنیٰ کیا ہے، اس پر کیا دلیل ہے؟ ان کے شہر میں غیر مقلد تھے، ان کا نام لے کر کہا ہے، فلاں شیخ نے کہا، میں نے کہاان سے دلیل پوچھی ہے؟ کہنے لگا نہیں، میں نے کہا اسی کا نام تقلیدہے، تو نے خود تقلید کامعنیٰ بلا دلیل مانا ہے، خود تقلید کرتے بھی ہو، کم ازکم تو ہمیں مشورہ نہ دیتا، سوچ کر جواب دینا کل تک مہلت ہے، پھر وہ اس موضوع پر بات کرنے کے لیے تیار نہیں ہوا۔ اللہ تعالی ہمیں بات سمجھنے کی توفیق عطا فرمائیں آمین۔
واٰخر وعوانا ان الحمد اللہ رب العالمین