تربیتی نشست

User Rating: 5 / 5

Star ActiveStar ActiveStar ActiveStar ActiveStar Active
 
تربیتی نشست
بمقام: جامعہ عربیہ دارالعلوم، ینگون
بتاریخ: 16-02-2013
الحمد للہ نحمدہ ونستعینہ ونستغفرہ ونومن بہ ونتوکل علیہ، ونعوذ با للہ من شرور انفسنا ومن سیئات اعمالنا من یھدہ اللہ فلا مضل لہ ومن یضللہ فلا ہادی لہ ونشھد ان لا الہ الا اللہ وحدہ لا شریک لہ ونشھد ان سیدنا ومولٰنا محمدا عبدہ ورسولہ اما بعد!
فاعوذ باللہ من الشیطن الرجیم بسم اللہ الرحمن الرحیم
قَالَ رَبِّ اشْرَحْ لِي صَدْرِي - وَيَسِّرْ لِي أَمْرِي - وَاحْلُلْ عُقْدَةً مِنْ لِسَانِي- يَفْقَهُوا قَوْلِي
سورۃ طہ: آیت نمبر:25-28
حضرت موسیٰ علیہ السلام کی تین دعائیں
میں نے آپ حضرات کی خدمت میں قرآن کریم کی چار آیات تلاوت کیں۔ ان آیات میں حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ سے تین دعائیں مانگی ہیں۔حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ سے تین چیزیں مانگی ہیں
نمبر1: اشْرَحْ لِي صَدْرِي
نمبر2: وَيَسِّرْ لِي أَمْرِي
نمبر 3: وَاحْلُلْ عُقْدَةً مِنْ لِسَانِي
یہ تین دعائیں مانگی ہیں۔ يَفْقَهُوا قَوْلِي یہ ان تین دعاؤں کا نتیجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ جب تین چیزیں عطا فرمائیں گے، اس کا نتیجہ یہ نکلے گا کہ یہ میری بات سمجھیں گے اور مان لیں گے۔ تو اصل دعا میں یہ تین چیزیں ہیں۔ تینوں دعاؤں کا پہلے ترجمہ سنیں ،اور پھر بات کو سمجھیں۔
میں طلبا سے یہ گزارش کرتا ہوں کہ ہم عموماً آیت کریمہ کا ترجمہ عوامی انداز میں نہیں کرپاتے، جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ عوام ہماری بات سے جیسے مستفید ہونا چاہیےنہیں ہوپاتے۔ جو درسگاہ میں ترجمہ کا سٹائل ہے، ہمارا وہی ترجمہ کا سٹائل عوام میں ہوتاہے، جب کہ درسگاہ کی زبان الگ ہوتی ہے اور عوامی زبان بالکل الگ ہوتی ہے۔ درسگاہ کی زبان اصطلاحی اور علمی ہوتی ہے اور عوام کی زبان علمی اور اصطلاحی نہیں ہوتی، بلکہ آسان اور عوامی زبان ہوتی ہے۔ اصطلاحی الفاظ کا عوامی زبان میں ترجمہ کرنا سیکھیں۔
میرے پاس وہاں ہمارے مدرسہ مرکز اہل السنت والجماعت میں علماءآتے ہیں پڑھنے کے لیے۔ ہمارے ادارے میں درجہ کتب نہیں ہیں۔ اولیٰ سے لےکر دورہ حدیث تک کوئی کتب نہیں، بلکہ ایک ہی درجہ ہے تخصص۔ علماء تشریف لاتے ہیں اور ایک سال پڑھتے ہیں، پڑھ کر واپس جاتے ہیں۔ تو میں ان کو جہاں اور چیزیں سکھاتا ہوں، وہیں آیات اور احادیث کا ترجمہ کرنا بھی بطور خاص سکھاتا ہوں۔
آپ نے اس آیت کا ترجمہ کیسے کرناہے اور اصطلاحی کو عوامی زبان میں آپ نے کیسے بیان کرنا ہے؟ تو پھر بات سمجھانی بہت آسان ہوتی ہے، ورنہ بات سمجھانی بہت مشکل ہوتی ہے۔ اس لیے آیا ت کا ترجمہ کرنا سیکھیں، اور اصطلاحی الفاظ کو عوامی زبان میں لانا سیکھیں۔
میں دونوں باتوں پر ایک ایک مثال دیتا ہوں، ترجمے پر بھی اور اصطلاحی بات کو عوامی زبان میں لانے پر بھی۔ ایک مثال تو ترجمہ پر سنیں، یہ جو میں نے آیات پڑھی میں ان کا ترجمہ تو کروں گا لیکن سمجھانے کےلیے مزید پیش کرنے لگا ہوں۔ مزید سمجھتے ہوں ناں؟ صَرْف میں کئی چیزیں ہوتی ہیں پہلے یہ کہ اس کا وزن کیا ہے؟پھر وزن کے بعد نظیر ہوتی ہے کہ ضَرَبَ ہے تو ضَرَبَ کی نظیر پیش کرو، سَمِعَ ہے تو اس کی نظیر پیش کرو۔
ہم قرآن کریم کی ایک مختصر سی سورۃ تلاوت کرتے ہیں
وَالْعَصْرِ - إِنَّ الْإِنْسَانَ لَفِي خُسْرٍ
سورۃ العصر، آیت نمبر:1،2
عام طورپر ہم اس کاترجمہ کرتے ہیں: بے شک انسان البتہ خسارے میں ہے
إِلَّا الَّذِينَ آمَنُوا مگر وہ لوگ جو ایمان لائے وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ اور نیک اعمال کیے وَتَوَاصَوْا ب
ِالْحَقِّ حق کی تلقین کرتے رہے وَتَوَاصَوْا بِالصَّبْر اور باہم صبر کی تلقین کرتے رہے۔
ہم عموماً ترجمہ یہی کرتے ہیں۔ اس ترجمہ میں ثقل بہت ہے اور عوام کو سمجھانا بہت مشکل ہے۔ میں اس کوعوامی ترجمہ میں کرتاہوں، ذرا وہ سمجھیں۔
وَالْعَصْرِ - إِنَّ الْإِنْسَانَ لَفِي خُسْرٍ - إِلَّا الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ
قسم ہے زمانے کی وہی انسان کامیاب ہوگا جس کا عقیدہ ٹھیک ہو اور عمل سنت کے مطابق کرے۔صحیح عقیدہ اور مسنون عمل کی دعوت دے۔
وَتَوَاصَوْا بِالْحَقِّ وَتَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ
دعوت پر مشکلات کو خندہ پیشانی سے برداشت کرے۔ حصر کے ساتھ میں نے ترجمہ کیا ہے۔ میں نے حصر کا پورا خیال کیا ہے۔ ”وہی انسان“ میں ”وہی“ کلمہ حصرہے۔ آمَنُوا کا ترجمہ جس کا عقیدہ ٹھیک ہو۔ یہ ہم نے ترجمہ اپنے ماحول کو دیکھ کر کیا ہے۔ اس دور میں فتنے ہیں اس لیے عقیدے پر بات ہوتی ہے۔
غیر مقلد کہتے ہیں دیوبند کا عقیدہ ٹھیک نہیں ہے، کفریہ ہے، شرکیہ ہے، تمہارے عقائد غلط ہیں، تو آپ اس ایمان کے ترجمہ میں عقیدہ کا لفظ لے آؤ۔
عمل صالح کیا ہے؟
وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ
عمل صالح کی سب سے آسان تعریف یہ ہے کہ عمل سنت کے مطابق ہو۔ اور حق کی سب سے آسان تفسیر یہ ہے کہ صحیح عقیدہ اور عمل صالح دونوں کو ملائیں تو حق بنتا ہے۔ دونوں میں سے ایک کو چھوڑ دو تو باطل ہو جاتا ہے، دونوں کو چھوڑدو تو پھر اس سے بڑا باطل ہے۔ وَتَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ اور صبر کا اصل مطلب کیا ہے؟ کہ اگر۔ اگر کا لفظ کیوں کہا؟ اللہ تعا لیٰ سے دعا مانگیں کہ اللہ تعالیٰ دین کا کام عافیت کے ساتھ لے اور مشکل آجائےتو پھر برداشت کریں۔ پہلا معاملہ کہ خدا سے مشکل میں مدد مانگنی چاہیے۔ اللہ تعا لیٰ سے آسانیاں مانگیں، آسانی کے ساتھ دین کا کام لے اور مشکل ہو جائے، پھر دین کا کام نہ چھوڑے، مشکلات کو برداشت کرے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کی حفاظت فرمائے۔
عافیت یا استقامت
میں اکثر اپنے ہاں پاکستان میں یہ بات سمجھاتاہوں حضرات کو،کہ ہمارا جو بیان گھن گرج والا ہو، جوشیلا بیان ہو، تو اس بیان کے بعد لوگ بہت خوش ہو کے دعادیتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ آپ کو استقامت عطافرمائے، تو میں کہتاہوں کہ اتنی سخت دعا نہ دوجس کا میں متحمل نہیں ہوں۔ ہمیں تو کوئی آسان سی دعا دو، ہمیں استقامت کی دعا نہ دوکیونکہ استقامت کا معنیٰ یہ ہے کہ جو بیان کیا ہے اس پر پر چہ کٹےپھر تھانے میں جاؤپھر پولیس کی مار کھاؤپھر جیل میں جاؤ اور پھر واپس آکر پھر یہی بیان کرو۔استقامت کا مطلب یہی ہے ناں کہ مار بھی پڑے اور کام نہ چھوڑے۔
اور عافیت کامعنیٰ کیا ہے؟ کہ آپ بیان کریں اس کے بعد پلاؤ کھائیں اور پیسے بھی آپ کو ملیں، خوشبو ملے، ہدیے ملیں، پھر یہی بیان کریں۔ مقصد تو دین کا کام ہے، یا مار کھاکر دین کا کام کرنا اصل ہے؟ تو اسی لیے استقامت کی دعا مت کرو،اپنے لیے عافیت کی دعا کیا کرو۔
فَاسْتَقِمْ كَمَا أُمِرْتَ
سورۃ آیت، نمبر: 112
اس آیت نے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بوڑھا کردیا تھا، تو میں اور آپ استقامت کیسے کریں گے؟ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ڈاڑھی مبارک میں بال سفید آئے، صحابہ رضی اللہ عنہ نے پوچھا یا رسول اللہ آپ کی تو ڈاڑھی میں بال سفید ہوگئے کس چیز نے بوڑھا کردیا ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
شَيَّبَتْنِي هُودٌ
إتحاف الخيرة المهرة، رقم الحدیث:5728
سورۃ ھود نے مجھے بوڑھا کردیا۔ سورۃ ھود کی کون سی آیت ہے؟ فرمایا فَاسْتَقِمْ كَمَا أُمِرْتَ استقامت مجھ سے کیسے ہوگی! اس غم نے مجھے بوڑھا کردیا۔یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا عالم ہے اور ہم کتنی جرات سے کہتے ہیں، استقامت کی باتیں کرتے ہیں۔ استقامت کے ساتھ کام کرنا کم ازکم برما میں بہت مشکل ہے، اس لیے عافیت کے ساتھ ہی کام کی دعا کریں، ورنہ آج پگڑی کا شوق ہے کل ٹوپی بھی چھوڑدیں! آج زلفوں کا شوق ہے، کل ڈاڑھی بھی منڈا لیں۔ اتنا کریں، جتنا آپ سنبھال سکیں اور جس کو نہیں سنبھال سکتے ، اس کو آہستہ آہستہ کریں۔
ایک تو میں نے آیت پیش کی ہے۔ دوسرا ایک اصطلاح دیکھیں، یہ ہمارا فن بھی ہے اور اصطلاح بھی ہے۔ میں مثالیں اپنے فن کی دیتاہوں، تاکہ اللہ کرے، ہمارا فن آپ میں منتقل ہو۔ کبھی فن وہبی ملتا ہے، کبھی کسبی ملتا ہے۔ ہمیں اللہ نے وہباً دیا ہے میں نے فن مناظرہ کی کوئی کتاب نہیں پڑھی۔ بغیر پڑھے خدا نے دی ہے اور میں مناظرے کے اسباق پڑھا تاہوں۔ یہ ہمارے اکابر کی جوتیوں کا صدقہ ہے۔ سلسلہ مدنیہ میں بغیر بیعت کے خدا نے خلافت بھی دی ہے۔
میں مثال دینے لگاہوں اس کو آپ سمجھیں میں سمجھا نے کے لیے طلباء کو ایک بات کہتا ہوں اگر آپ کا کسی مخالف فریق سےواسطہ اس طرح پڑے اور آپ کو اپنے مسائل پہ دلائل نہ آتے ہوں تو آپ ان سے بات کیسے کریں۔ یہ پتا ہے کہ میرا عقیدہ ٹھیک ہے، لیکن عقیدہ پر دلیل نہیں آتی۔ مسئلہ سنت کے مطابق ہے لیکن دلیل معلوم نہ ہو تو بات کیسے کریں۔ اگر آپ کے پاس دس آدمی بیٹھے ہوئے ہیں اور ایک آکر مسئلہ چھیڑ دیتا ہے تو آپ بحث چھوڑ تو نہیں سکتے، ورنہ اپنے لوگوں کا ایمان خراب ہوجائے گا۔
بحث کے اصول
اس کے لیے میں ایک اصول پیش کرتا ہوں کہ اس کو میں اپنے نکتوں میں سمجھاتاہوں کبھی سوال کا جواب سوال کا جواب ہوتا ہے۔ کبھی سوال پر سوال سوا ل کا جواب ہوتاہے یہ ایک علمی اصطلاح ہے جس کا میں نے ترجمہ کیا ہے۔ علمی اصطلاح یہ ہے۔ سول کے دو جواب ہوتے ہیں ایک جواب تحقیقی، ایک جواب الزامی، اب جواب تحقیقی اور جواب الزامی عوام کو کیسے سمجھا ئیں گے۔ یہ اس اصطلاح کا ترجمہ ہے، کبھی سوال کا جواب سوال کا جواب ہوتا ہے یہ جواب تحقیقی ہے۔ سوال کے جواب میں اصل دلیل کو پیش کریں۔
آپ سے ایک بندہ پوچھتا ہے کہ آپ سرپر ٹوپی کیوں پہنتے ہیں؟ اس نے دلیل مانگی ہے۔ وہ دلیل آپ دیں، یہ ہے تحقیقی جواب۔ آپ کہیں کہ صحیح بخاری میں روایت موجود ہے
بَاب السُّجُودِ عَلَى الثَّوْبِ فِي شِدَّةِ الْحَرِّ
وَقَالَ الْحَسَنُ كَانَ الْقَوْمُ يَسْجُدُونَ عَلَى الْعِمَامَةِ وَالْقَلَنْسُوَةِ
بخاری شریف، رقم الحدیث: 385
پگڑی کیوں باندھتے ہیں؟شمائل میں روایت موجود ہے۔
باب ماجاء فی عمامۃ النبی صلی اللہ علیہ وسلم
شمائل ترمذی،جلد نمبر:2 ،صفحہ نمبر:8
ہمارے پاس باب موجودہے۔ یہ پگڑی اور ٹوپی پہننے کے سوال کا تحقیقی جواب ہے، لیکن آپ کے پاس دلیل نہیں ہے ٹوپی پہننے کی، تو آپ اس سے فوراً پوچھیں کہ آپ یہ سرخ رومال کیوں پہنتے ہیں؟ اس پر رسہ کیوں کسا ہوا ہے؟ اس کی دلیل کیا ہے؟ اب آپ نے اس کو بھی کام میں لگادیا۔ اب وہ آپ سے سوال نہیں کرےگا۔
باباجی اور شکست خوردہ غیر مقلد
ہمارے ہاں دیہات میں ایک باباجی فوت ہوگئے۔ اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائے۔ اللہ تعالیٰ ان کی قبر کو منور فرمائے۔ وہ باباجی میرے بیانات سنتے رہتے تھے۔ ان کے پاس ایک غیر مقلد آتاتھا اور ہر سال ان سے عشر لیتا تھا۔ قربانی کے موقع پر گائے لیتا تھا اور دوڑ جاتا تھا۔ میرے بیانات سے کچھ قریب ہوئے تو ان غیر مقلدین سلفیوں کو عشر دینا بھی چھوڑ دیا، قربانی کی گائے دینا بھی چھوڑدی۔ اب وہ پریشان تو بہت تھے تو انہوں نے باباجی سے مسئلہ پوچھا کہ آپ نماز میں رفع الیدین کیوں نہیں کرتے ہیں، دلیل دیں؟ باباجی میرے بیان سنتے رہتے تھے تو باباجی نے فرمایا کہ میں نماز میں رفع الیدین نہیں کرتا، آپ کرتے ہیں۔ جو نہ کرے اس کے ذمہ دلیل نہیں، جو کرے اس کے ذمے دلیل ہے۔ آپ بتاؤ کیوں کرتے ہو؟ تو باباجی نکل گئے اور اس کے گلے میں پھندہ ڈال دیا۔ اس لڑکے نے باباجی کو دلیل دی اس نے کہا کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ستر صحابہ سے رفع الیدین کرنا ثابت ہے میں اس لیے کرتا ہوں۔ کتنی مضبوط دلیل اس نے دی ہے۔ باباجی نے فرمایا کہ صحابہ کی تعداد کتنی ہے؟ کہتاہے ایک لاکھ چوبیس ہزار۔ باباجی نے کہا ستر تمہاری طرف، باقی میری طرف۔ باباجی پھر نکل گئے۔ ان پڑھ آدمی تھا لیکن پھنسا نہیں۔
میں نے ایک آیت پیش کی ہے اور ایک میں نے اصطلاح پیش کی ہے۔
اشْرَحْ لِي صَدْرِي پہلے اس کا ترجمہ سنیں اشْرَحْ لِي صَدْرِي اے اللہ مجھ پر میرا عقیدہ کھول دے، مجھے میرا عقیدہ سمجھادے، مجھے دین کی سمجھ عطا فرما۔ اگر آپ جمعہ کے خطاب میں شرح صدر کا لفظ استعمال کریں تو لوگ اس کو کیا سمجھیں گے۔ ترجمہ ایسا کریں کہ آپ کو شرح صدر کا ترجمہ نہ کرنا پڑے۔
وَيَسِّرْ لِي أَمْرِي
اے اللہ اس دین کی اشاعت کے لیے جو مجھے اسباب چاہیےوہ عطا فرمادے۔
وَاحْلُلْ عُقْدَةً مِنْ لِسَانِي
اے اللہ مجھے فصیح زبان عطا فرما۔ جب یہ تینوں چیزیں ملیں کہ بندے کو عقیدہ بھی سمجھ آئے، بیان کرنے کے اسباب بھی ملیں اور طاقت والی زبان مل جائے۔ يَفْقَهُوا قَوْلِي مخالف آپ کی بات قبول بھی کرےگا۔ اور جب یہ بات نہیں ہوگی، تو لوگ قبول کیسے کریں گے؟ اب اگر بیان ہورہا ہے پنکھے نہیں چل رہے ہیں۔ سپیکر نہیں ہے تو زیادہ لوگ کیسے سنیں گے تو اسباب بھی چاہییں۔
تو میں نے آپ کی خدمت میں اشْرَحْ لِي صَدْرِي پر تھوڑی سی بات کرنی ہے۔ اشْرَحْ لِي صَدْرِي اے اللہ ہمیں ہمارا عقیدہ سمجھا دے۔ اے اللہ ہمیں ہمارا مسئلہ سمجھادے۔ ہمیں ہمارے مسائل کو سمجھادیں۔
ہمارا عقیدہ کیا ہے؟
تو پہلے اپنا عقیدہ، اپنا مسئلہ سمجھیں۔ پھر اپنا عقیدہ، اپنا مسئلہ دوسروں کو سمجھائیں۔ جب تک بندہ اپنا عقیدہ اور اپنا مسئلہ نہ سمجھے اس وقت تک وہ اپنا عقیدہ اپنا مسئلہ دوسروں کو سمجھا نہیں سکتا۔ پہلے سمجھنا ہے پھر سمجھانا ہے۔ اور جب سمجھا نہیں ہوگا تو پھر سمجھائے گا کیسے؟ اور جب آدمی اپنا عقیدہ سمجھ جاتا ہے تو پھر بندے کو دلیل دینے کا لطف آتاہے اور جب نہیں سمجھتا تو کسی وقت بھی مخالف کا حملہ ہوتا ہے اس بندے کی دلیل ٹوٹ جاتی ہے اور مزید دلیل پیش نہیں کرسکتا چونکہ اپنے عقیدے کو سمجھا نہیں ہوتا۔
آپ حضرت خطبات حکیم الامت کو پڑھا کریں، خطبات حکیم الاسلام کو آپ پڑھیں، حضرت نانوتوی اور حضرت مدنی کے علوم کو پڑھیں۔ پھر اندازہ کریں کہ ان اکابر کا قلم اور زبان کیسےچلتی ہے، کیوں؟ مسئلہ سمجھے ہوتے ہیں اس پر مثال، مثال پر مثال چلتی جاتی ہے اور جب اصل بات سمجھ نہ آئے تو پھر بندہ مثالوں سے بات سمجھا سکتا نہیں۔
اس پر اب میں دو تین مثالیں دوں گا۔

ایک معاملہ ہے اللہ تعالیٰ کی ذات کے بارے میں

ایک معاملہ ہے پیغمبر کی ذات کی بارے میں

ایک معاملہ ہے صحابہ کرام کے بارے میں

پھر ہے مجتہدین کے بارے میں

پھر عام اولیاء کے بارے میں
اب تدریجاً چلیں اور ہر ایک کے بارے میں نظریا ت کو ذہن میں رکھیں۔ پھر دیکھیں کہ ہمارا عقیدہ کیا ہے اور اس سے بندہ سمجھتا کیسے ہے اور سمجھاتا کیسے ہے؟
نمبر ایک
اللہ تعالیٰ کی ذات کے بارے میں آج بحث چلتی ہے اور غیرمقلد یہ بحث بڑے زور و شور سے کرتا ہے وہ بحث یہ چلتی ہے کہ
أَيْنَ اللَّهُ
صحیح مسلم:رقم الحدیث: 537
کہ اللہ تعالیٰ کہاں پر ہے ؟ میں نے حضرت حکیم صاحب کے مواعظ سے اس موضوع پر مواد جمع کیا ہے۔ غیرمقلدین حضرات کہتے ہیں کہ اللہ عرش پر ہے اللہ خود ہر جگہ پر نہیں ہیں اللہ کا علم اور قدرت ہرجگہ پرہے۔ ہمارا مؤقف یہ ہے
الله موجود بلا مكان
اس سے نیچے آئیں اللہ حاضروناظر ہے اس سے نیچے آئیں اللہ ہرجگہ موجودہے میں نے ایک عقیدے کے لیے تین لفظ استعمال کیے۔ ایک علماء کےلیے، اور ایک طلباء کے لیے، اورایک عوام کےلیے۔ پہلا جملہ ا
للہ تعالیٰ موجود بلا مکان
ہے علماء کے لیےاور علماء بھی وہ جو اچھے خاصے تگڑے مولوی ہوں، یہ چھوٹے چھوٹے مولوی موجود بلامکان کو سمجھتے ہیں اور نہ سمجھا سکتے ہیں۔ ہم کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ موجود بلامکان ہے۔ اللہ تعالیٰ ہر جگہ پر ہے۔ اگر یہ عقیدہ سمجھ آگیا تو پھر دلائل دینے آسان ہیں اور غیرمقلدین کے عقلی اور نقلی دلائل کا جواب دینا بہت آسان ہے۔ ہمارے پاس خدا کے ہر جگہ موجود ہونے پر دلائل بہت موجود ہیں۔ قرآن کریم میں ہے۔
وَإِذَا سَأَلَكَ عِبَادِي عَنِّي فَإِنِّي قَرِيبٌ
سورۃ البقرۃ: آیت نمبر:186
اگر سوال کریں میرے بندے میرے بارے میں۔ نہ کہ مرے علم کے بارے میں۔ عَنِّي میں ”یاء“ متکلم ہے جو ذات کےلیے ہے۔ عرش تو بہت دور ہے اگر صرف عرش پر ہے تو قریب کیسے ہوئے۔ ؟ اس سے پتا چلا کہ ذات باری بہت قریب ہے۔ کتنی قریب ہے؟
وَنَحْنُ أَقْرَبُ إِلَيْهِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِيدِ
سورۃ ق: آیت نمبر:16
”شہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہے“ اس بات کو حضرت حکیم الامت تھانوی رحمہ اللہ نے اپنی خطبات میں حل کیا ہے۔ میں نے حضرت کی خطبات کو پڑھا، میں بھی سمجھ گیا۔ ویسے تو زبان سے کہتے تھے کہ ہمارا عقیدہ یہ ہے لیکن سمجھتے نہیں تھے۔ حضرت تھانوی رحمہ اللہ نے بہت پیاری مثال دی ہے۔ فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی ذات بے عیب ہے، اللہ تعالیٰ کی ذات لامثال ہے، خدا کی ذات کی مثال ہم دےنہیں سکتے لیکن کیا کریں جب تک مثال نہ دیں تو بات سمجھ نہیں آتی۔
عقیدے کے موافق مثال
ایک کاغذ کو دوسرے کاغذ سے جوڑا تو درمیان میں گوند لگائی ہے۔ یہ کاغذ کاغذ سے جڑا ہوا ہے بواسطہ گوند اور گوند کاغذ سے جڑی ہے بلاواسطہ گوند۔
فرمایا ایک انسان ہے ایک انسان کی شہ رگ ہے۔ انسان سے مراد نفسِ انسانی، یہ نفس انسانی اور شہ رگ ملے کب ہیں؟ جب اللہ تعالی کی ذات ہے اور اور اگر جوڑنے والی ذات نہ ہوتی تو جڑ سکتے ہی نہیں۔ تو انسان اور انسان کی رگ بواسطہ خدا جڑے ہیں۔ اور خدا شہ رگ سے جڑا ہے بلاوسطہ۔ یہ معنی
وَنَحْنُ أَقْرَبُ إِلَيْهِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِيدِ ک
ا ہے۔
دلائل
مَا يَكُونُ مِنْ نَجْوَى ثَلَاثَةٍ إِلَّا هُوَ رَابِعُهُمْ وَلَا خَمْسَةٍ إِلَّا هُوَ سَادِسُهُمْ وَلَا أَدْنَى مِنْ ذَلِكَ وَلَا أَكْثَرَ إِلَّا هُوَ مَعَهُمْ
سورۃ المجادلۃ: آیت نمبر:7
اگر تم تین ہو تو چوتھا ”اللہ“ اگر پانچ ہو تو چھٹا ”اللہ“اگر اس سے کم یا زیادہ ہو تو تمہارا خدا تمہارے ساتھ ہے۔
قطب الارشاد حضرت رشید احمد گنگوہی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ”ھو“ ضمیر ذات کے لیے ہے ماہیت کے لیے ہے۔ ماہیت تو ذات کو کہتے ہیں تو جب ”ھو“ ضمیر وضع ذات کے لیے ہے، تو جب ذات کا ترجمہ موجود ہو تو ہم ذات کو چھوڑکروصف یعنی عِلم جو مجاز ہے، کی طرف کیوں جائیں، ”بیان القرآن“ حکیم الامت حضرت تھانوی رحمہ اللہ نے عوام کے لیے لکھا ہے اور سمجھ مولویوں کو نہیں آتی۔ حضرت تھانوی نے جب ”بیان القرآن“ لکھا تو ان کے خلیفہ حضرت خواجہ عزیزالحسن مجذوب رحمہ اللہ نے اس پر یہ شعر پڑھا تھا۔
ہم نے کاغذ پہ کلیجہ رکھ دیا نکال کے

افسوس کہ قدردان نہیں ہیں کمال کے

 
وَلِلَّهِ الْمَشْرِقُ وَالْمَغْرِبُ فَأَيْنَمَا تُوَلُّوا فَثَمَّ وَجْهُ اللَّهِ
سورۃ البقرۃ: آیت نمبر:115
مشرق بھی اللہ تعالیٰ کا، مغرب بھی اللہ تعالیٰ کا، اور تم جدھر رخ کروگے وہاں اللہ تعالیٰ کی ذات موجود ہوگی۔ تو اللہ تعالیٰ ہرجگہ موجود ہے۔ ہمارے عقیدےپر قرآن موجودہے اور ہمارے عقیدے پر احادیث بھی موجودہیں۔
میں صرف یہ کہ رہاتھا کہ پہلے یہ سمجھ لیں کہ ہمارا عقیدہ کیا ہے، جب یہ سمجھ آئے گا تو اس پر دلائل دینے بہت آسان ہوں گے۔
غیر مقلدین کہتے ہیں کہ اللہ کی ذات عرش پر ہے۔ ہرجگہ نہیں ہے۔
غیر مقلدین کی دلیل اور اس کاجواب
قرآن کریم میں چھ مرتبہ آیاہے
ثُمَّ اسْتَوَى عَلَى الْعَرْشِ
سورۃ الاعراف، آیت نمبر:54
الرَّحْمَنُ عَلَى الْعَرْشِ اسْتَوَى
سورۃ طہ ،آیت نمبر:5
اللہ مستوی علی العرش ہے تو ہرجگہ کیسےہوئے؟ ہم نے کہا کہ بھئی مستوی علی العرش کا معنی یہ کہ ”اللہ تعالیٰ عرش پر رہتے ہیں“ یہ معنی کس نے کیے ہیں؟ بات اچھی طرح سمجھیں۔
یہ آیت ہمارے خلاف نہیں ہے اگر استویٰ علی العرش کا معنیٰ عرش پہ ہونا ہو تو پھر عرش پہ ہوئے ہیں نا ں! ہمارے خلاف کیسے ہے؟ ہمارے خلاف تب ہوگی جب ہرجگہ کی نفی بھی ہوگی۔ کسی بھی جگہ ”آیت “ اللہ تعالیٰ کے موجود ہونے کا اثبات کروگے ہمارے خلاف نہیں ہے۔
عام فہم مثال
ایک بندہ دومسجدوں میں جمعہ پڑھا تاہے۔ ایک جمعہ ایک جگہ، دوسرا جمعہ دوسری جگہ، ایک ہی جمعہ دو تقریریں کرتاہے۔ ایک ساڑھے بارہ سے لے کر ایک بجے تک ایک مسجد میں، اور ایک بجے سے لے کر دو بجے تک دوسری مسجد میں، تو ایک بندہ کہتا ہے کہ یہ ہماری مسجد میں خطیب ہے، دوسرا بندہ کہتا ہے کہ یہ ہماری مسجد میں خطیب ہے، تو دونوں جگہ ہوئے اس میں اشکال کی کیا بات ہے اگر ان کا معنی مانیں تب بھی یہ آیت ہمارے خلاف نہیں ہوگی۔
غیر مقلدین کی ایک اوردلیل اور اس کا جواب
غیرمقلدین کی سب سے معروف دلیل جو وہ ہمارے خلاف پیش کرتے ہیں وہ ہے حدیث جاریہ ”صحیح مسلم“ میں روایت موجود ہے۔ ایک صحابی تھے انہوں نے اپنی باندی کو تھپڑ ماردیاتھا۔ اور بہت دکھ ہوا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ میں نے اپنی باندی کو مارا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ باندی کو بلاؤ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے باندھی سے پوچھا مَنْ أَنَا؟ اس نے کہا أَنْتَ رَسُولُ اللَّهِ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا أَيْنَ اللَّهُ؟ اس نے کہا فِى السَّمَاءِ تو فرمایا یہ مؤمنہ ہے اس کو آزاد کردو۔ تو انہوں نے آزاد کردیا۔
صحیح مسلم، رقم الحدیث: 537
غیر مقلد کہتا ہے کہ اللہ ہر جگہ ہے؟ باندی سے پوچھا اللہ کہاں پر ہے؟ تو اس نے کہا فِى السَّمَاءِ یہ تو تمہارے عقیدے کے خلاف ہے۔ اچھی طرح بات سمجھنا اگر ہمارے عقیدے کے خلاف ہو تو تمہارے عقیدے کے مطابق بھی نہیں ہے کیونکہ آپ کا عقیدہ ہے اللہ عرش پر ہے اور باندی کہتی ہے کہ اللہ تعالیٰ آسمان میں ہے۔ تو آسمان نیچے ہے اور عرش اوپر ہے، تو عرش پر تو نہ ہوا ناں! ہمارے خلاف پھر بھی نہیں ہے۔ ہم کہتے ہیں کہ اللہ رب العزت ہرجگہ پرہے، تو ٹھیک ہے، آسمان پر بھی ہے۔ حدیث ان کے خلاف ہوتی ہے، ہمارے ساتھی پریشان ہوتے ہیں کہ ہمارے خلاف آگئی، حالانکہ حدیث ہمارے خلاف ہوتی نہیں،غیر مقلدین ہی کے خلاف جارہی ہوتی ہے۔
ایک اشکال اور اس کا جواب
آپ کے ذہن میں یہ ضرور ہوگا کہ اللہ ہرجگہ ہے، تو اس نے فی السماء کیوں کہہ دیا؟ اس کے دو جواب سمجھو۔
ایک جواب تو یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ جہات سے پاک ہے، جہات چھ ہیں: اوپر، نیچے، دائیں، بائیں، آگے، پیچھے، اللہ تعالیٰ جہات ستہ سے پاک ہے لیکن فرق یہ ہے کہ جہات ستہ کو محیط بھی ہے۔ اللہ تعالیٰ جہات ستہ سے پاک ہے اور جہات ستہ کو محیط بھی ہے اور جہات ستہ میں سے جہت علو کوفوقیت حاصل ہے لیکن اگر کوئی جہت بتانی ہو تو جہت علو بتاتے ہیں کہ اس کو باقی جہات پر فوقیت حاصل ہے۔
میں مثال دوں گا تو بات سمجھ آئے گی، سپیکر کی آواز سب سنتے ہیں، لیکن اگر کوئی بڑا آدمی آتاہے تو کہاجاتاہے،اس کو راستہ دو، آپ سٹیج کے پاس تشریف لے آئیں۔ توجب آواز پیچھے بھی آتی ہے تو بڑے آدمی کو ادھر کیوں لارہے ہو، معلوم ہوا کہ مسجد میں آواز سب جگہوں پر جاتی ہے، لیکن سٹیج والی جگہ کو باقی تمام جگہوں پر فوقیت حاصل ہے۔
طالب علم آگے بیٹھا ہو یا پیچھے بیٹھا ہو آواز سب جگہ جاتی ہے، لیکن استاد کہتا ہے کہ ادھر آؤ، آگے بیٹھو۔ تو طالب علم یہ نہیں کہتا استاد جی! آواز آرہی ہے، کیوں کہ وہ سمجھتا ہے کہ آواز آگے اور پیچھے سب جگہ آتی ہے لیکن ادب کا تقاضا یہ ہے کہ آگے بیٹھے پیچھے نہ بیٹھے۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ جہات ستہ سے پاک ہے اور محیط بھی ہے لیکن اگر جہت کی نسبت کرنے کی ضروت پڑبھی جائے تو جہت علو کی کرتے ہیں کہ اس کو باقی جہات پر فوقیت حاصل ہے۔
حضرت تھانوی رحمہ اللہ کا جواب
ایک جواب حضرت حکیم الامت تھانوی رحمہ اللہ نے دیا ہے ، فرماتے ہیں: آدمی مکلف بقدر عقل ہوتاہے، جتنی عقل ہو اتنا ہی مکلف ہوتا ہے۔ عقل سے بڑھ کر بندہ مکلف ہوتا ہی نہیں ہے۔ اس پر دو مثالیں سمجھیں۔ ایک مثال صحیح بخاری میں ہے۔ اور ایک مثال ہماری صَرفْ میں ہے۔ اب بتاؤ کون سی مثال دوں؟ مجھے بتاؤ کہ میرا بیان آپ کو ابھی سمجھ نہیں آتا۔ لیکن میں پھر بھی بیان کروں گا۔ اگر آپ کو ابھی سمجھ نہ آئے تو آئندہ جب بڑے ہوگے توسمجھ میں آجائے گا۔
میں پنجاب میں ایک جگہ گیا تو مجھے قاری صاحب نے کہا کہ آپ بچوں میں بیان کریں، میں نے آدھا گھنٹہ بیان کیا اور عقیدے پر بات کی۔ بیان کے بعد مجھ سے مہتمم صاحب نے کہا آپ نے عقیدے پر بچوں کے سامنے بیان کیا۔ اور یہ ان کو سمجھ نہیں آنا۔ آپ کے بیان کا فائدہ کیا ہوا؟ میں نے قاری صاحب سے کہا بچوں کو بلاؤ۔ مہتمم صاحب سمجھے میرے نصیحت کا اثر ان پر ہوا۔ میں نے ایک بچے سے پوچھا آپ نے کتنے پارے حفظ کیے ہیں؟ اس نے کہا اتنے۔ میں نے کہا فلاں جگہ سے پڑھو۔ اس نے پڑھا۔ میں نے کہا اب اس کا ترجمہ کرو۔ اس نے کہا ترجمہ نہیں آتا۔ میں نے کہا اس کی تفسیر کرو، اس نے کہا کہ تفسیر نہیں آتی۔
میں نے قاری صاحب سے کہا کہ جب یہ بچے قرآن کو سمجھتے نہیں تو آپ کیوں یاد کراتے ہو؟ انہوں نے فرمایا ابھی یاد کریں گے بڑے ہوں گے تو ان کو سمجھ بھی آئے گا۔ میں نے کہا میں نے ابھی عقیدے پر بیان کیا ابھی یہ یاد کریں گے بعد میں ان کو سمجھ بھی آجائے گا۔
تومجھے معلوم ہے کہ میرا بیان سب کو سمجھ نہیں آتا لیکن آپ اچھی طرح سب باتیں یاد کرلیں، جب آپ بڑے ہوں گے اور پھر یہ بیان آپ کے سامنے آجائے گا، تو اس وقت اس بیان کی قدر کریں گے، جب ان سے ٹکراؤگے تو اس وقت آپ کو سمجھ آجائے گا۔
قدرت باری تعالی سے متعلق ایک دلچسپ واقعہ
پہلے صحیح بخاری کی روایت سمجھیں۔ بخاری میں ہے، بنی اسرائیل میں ایک شخص تھا اس کی موت کا وقت آیا تو اس نے اپنی اولاد کو وصیت کی کہ جب میں مرجاؤں، تو میری لاش کو جلا دینا اور جلا کر میری لاش کو ہوا میں یا پانی میں ڈال کر بکھیر دینا۔ جب وہ مرگیا تو اس کے گھر والوں نے اس کی لاش کو جلادیا اور جلاکر اس کو پانی میں بہادیا۔ اللہ تعالی نے اس بندے کی لاش کے ذرات کو جمع کیا اور جمع کر کے پوچھا لِمَ فَعَلْتَ؟ یہ تونے کیوں کیا۔ اس نے کہا مِنْ خَشْيَتِكَ؟ اللہ تعالیٰ آپ کے ڈر سے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا! فَغَفَرَ اللَّهُ لَهُ۔ میں نے تجھے معاف کردیا“۔
صحیح بخاری، رقم الحدیث: 3452
اب یہ کہنا کہ مجھے جلاکر پانی میں ڈال کے بہادو تاکہ مجھے عذاب نہ ہو یہ بظاہر کفریہ نظریہ ہے ناں! نہ جسم ہوگا نہ عذاب ہوگا۔ خدا کی قدرت کا انکارہے۔ لیکن خدانے اس کو معاف کیا۔ حکیم الامت تھانوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ سب سے آسان جواب یہ ہے کہ اس بندے کی عقل اتنی ہی تھی کہ جسم اکٹھا ہو تو خدا عذاب دیتا ہے جب جسم اکٹھا نہ ہو تو خدا عذاب نہیں دیتا۔ اس کی عقل اتنی تھی ہی نہیں ورنہ اس کا نظریہ یہ ہی ہوتا تو پھر کبھی بھی نہ بخشا جاتا۔ چونکہ اس کی عقل اتنی تھی، منشا ٹھیک تھی، کبھی جرم چھوٹا ہوتا ہے، اس کی منشا بہت بڑی ہوتی ہے تو جرم بڑا ہوجاتا ہے، کبھی جرم بڑا ہوتا ہے اس کی منشاء چھوٹی ہوتی ہے توبڑا جرم بھی چھوٹا ہوجاتا ہے۔
اس پر بھی ایک مثال دیتا ہوں۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
الغيبة أشد من الزنا
كنز العمال في سنن الأقوال والأفعال، رقم الحدیث: 8043
غیبت زنا سے بڑا جرم ہے۔ اب بتاؤ ہمارے ہاں غیبت بڑاجرم ہے یا زنا؟ غیبت تو ہمارے ہاں جرم ہی نہیں سمجھا جاتا۔ سید الطائفہ حضرت حاجی امداداللہ مہاجر مکی رحمہ اللہ نے اس کی بڑی پیاری توجیہ بیان فرمائی ہے۔ غیبت کا منشاء جاہ ہے، زنا کی منشاء باہ ہے۔ اور جاہ چونکہ باہ سے بڑا گناہ ہے، جاہ کامرض جلدی ختم نہیں ہوتا اور باہ کامرض جلدی ختم ہوجاتا ہے۔ بازار میں جاکر ایک لڑکی کو دیکھے اور پولیس اگر ایک تھپڑ مارے تو باہ ختم ہوجاتی ہے، لیکن جاہ کا مرض جلدی ختم نہیں ہوتا۔ جاہ بہت مشکل مرض ہے تو منشاء سمجھنا چاہیے۔
ہمارے معاشرے کی مثال
حضرت حکیم الامت تھانوی رحمہ اللہ نے ہمارے معاشرے کی مثال دی ہے کہ ایک مولوی صاحب نے تقریر کی کہ اللہ تعالیٰ ناک سے بھی پاک ہے، اللہ تعالیٰ آنکھ سے بھی پاک ہے، اللہ تعالیٰ کان سے بھی پاک ہے، اللہ تعالیٰ زبان سے بھی پاک ہے، تو ایک دیہاتی نے کہا کہ یہ خدا ہے یا تربوز ہے۔ (العیاذ باللہ) حضرت تھانوی رحمہ اللہ نے فرمایا: یہ مسلمان ہے، کافر نہیں ہے۔ کیوں کہ اس کی دماغ میں یہ بات آہی نہیں سکتی وہ کیسا خدا ہے جس کی آنکھ نہ ہو جس کی زبان نہ ہو اس پر کفر کا فتوی مت لگاؤ کیوں کہ آدمی بقدر عقل مکلف ہوتا ہے۔
جیسی عقل ویسی بات
تو اس باندی سے پوچھا أَيْنَ اللَّهُ اس نے کہا فِى السَّمَاءِ وہ موجود بلامکان کو سمجھا ہی نہیں سکتی، اس نے فِى السَّمَاءِ کہہ دیا۔ اس لیے کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ہر جگہ پرہے۔ چھوٹے بچوں سے پوچھو اللہ تعالیٰ کہاں ہے۔ بچے کہتے ہیں کہ اوپر ہے۔ تو چھوٹے بچے کی جتنی عقل ہے، اتنی ہی بات کرے گا، تو چھوٹے بچوں والی باتیں اگر بڑے بھی شروع کردیں کہ اللہ تعالیٰ اوپر ہے تو چھوٹے بڑے میں فرق کیا ہوا؟ غیر مقلد کو یہ بات سمجھ نہیں آتی چونکہ وہ بے عقل ہے، عقل ہے ہی نہیں یا بالکل کم ہے تو وہ ایسی باتیں کرتاہے۔ جتنا بڑا بےقوف ہوتا ہے اتنا بڑا غیرمقلد ہوتا ہے۔
کبھی مجھے ساتھی کہتے ہیں کہ ہمارے ہاں غیر مقلد ہیں وہ سر پر ٹوپی نہیں لیتے، سرپر پگڑی نہیں باندھتے تو آپ دعا فرمائیں کہ وہ سر پر ٹوپی لیں تو میں دعا کرتا ہوں، اللہ ان کو عقل عطافرمائے۔ وہ کہتے ہیں ہم نے ٹوپی کی دعا کروائی اور آپ عقل کی دعا کرتے ہیں؟ میں نے کہا جس کی جیب میں پیسے ہوتے ہیں اس کی حفاظت کے لیےبٹوہ بھی چاہیے۔ تو ہم کہتے ہیں کہ عقل نہیں تو ٹوپی کی کیا ضرورت ہے۔ تو خدا سے ان کے لیے عقل کی دعا کرتے ہیں۔ کبھی آپ نے جانور کو دیکھا ہے جو ٹوپی لیتا ہو؟ کیوں کہ اس میں عقل نہیں ہوتی اور ٹوپی تو عقل والوں کےلیے ہوتی ہے، تو جب انسانی عقل ان میں آئے گی تو انسانی ٹوپی بھی پہن لیں گے۔
تو میں کہہ رہا تھا رَبِّ اشْرَحْ لِي صَدْرِي اللہ تعالیٰ ہمیں ہمارا عقیدہ سمجھادے۔ سمجھ آئے گا تو دلیل بہت آسان ہے۔
غیر مقلدین کی ایک اور دلیل
إِلَيْهِ يَصْعَدُ الْكَلِمُ الطَّيِّبُ
سورۃ فاطر ،آیت نمبر:10
کلمات طیبہ اوپر جاتے ہیں۔ توکہتے ہیں کہ الیہ سے مراد کیا ہے؟ مراد اللہ تعالیٰ نہیں ہے۔ الیہ سے مراد محل امرہے۔ محل امر اوپر ہے توپھر امور اوپر جائیں گے اس کامعنی یہ نہیں کہ خدا اوپر رہتاہے۔
ایک اور دلیل کا جواب
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم معراج کے لیے اوپر عرش پر گئے تھے اگر خدا ہر جگہ ہے تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم عرش پر کیوں گئے تھے ؟ عرش پر جاکر اللہ تعالیٰ سے باتیں کرنا اس بات کی دلیل ہے کہ اللہ عرش پر رہتا ہے، ہر جگہ پر نہیں ہے۔ میں نے کہا کوئی بندہ کہہ دے کہ اللہ تعالیٰ کوہ طورپر رہتا ہے، دلیل کیا ہے؟ کہ موسیٰ علیہ السلام بات کرنے کے لیے کوہ طور پر گئے تھے اگر خدا ہر جگہ پر ہے تو موسیٰ علیہ السلام بات کرنے کے لیے کوہ طوہ پر کیوں گئے؟
دلیل کیا کہ موسیٰ علیہ السلام بات کرنے کے لیے کو ہ طور پر گئے تھے اگر خدا ہر جگہ پرہے تو موسیٰ علیہ السلام بات کرنے کے لیے کوہ طورپر کیوں گئے تھے ؟ کوئی کہہ دے کہ اللہ تعالیٰ رنگون (برما ایک شہر) کے دارالعلوم کی مسجد میں رہتا ہے۔ نماز پڑھنی ہو تو یہ اس مسجد میں آتے ہیں، اگر اللہ تعالیٰ ہرجگہ پر ہے تو نماز پڑھنے کے لیے یہاں مسجد میں کیوں آتے ہیں؟ تو پھر کیا جواب دوگے؟ ان کے پاس کوئی جواب نہیں ہے۔
ہمارا نظریہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر جگہ پر ہے، باقی کس بندے سے کہاں بات کرنی ہے، اللہ تعالیٰ بندے کی حیثیت کے مطابق جگہ کا انتخاب کرتے ہیں۔ اگر بندہ مجھ اور آپ جیسا ہے تو انتخاب مسجد کاہے، اگر بندہ موسیٰ کلیم جیسا ہے تو انتخاب طور سینا کا ہے، اگر بندہ حضور حبیب جیسا ہو تو انتخاب عرش معلیٰ کا ہے۔ میں اللہ تعالیٰ کا جتنا شکر ادا کروں کم ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے درسگاہ کی زبان بھی دی ہے، خانقاہ کی بھی دی ہے، سٹیج کی بھی دی ہے۔ خانقاہ میں بٹھاؤ تو کوئی نہیں کہتا کہ یہ مناظر ہے۔ کہتے ہیں یہ صوفی ہے، اس کو دنیا کا کوئی پتا نہیں ہے۔ لوگ صوفی کو دنیا سے بے خبر سمجھتے ہیں حالانکہ صوفی کی نظر وہاں جاتی ہے جہاں کسی کی نظر نہیں جاتی۔
غیر مقلدین کاا شکال اور جواب
غیر مقلد آپ سے پوچھے گا اللہ ہر جگہ پر ہے؟ آپ کہو گے جی ہاں۔ پھر آپ سے پوچھے گا کیا خدا بیت الخلا میں بھی ہے؟ کیا جواب دوگے؟ اب تمہیں میری قدر آتی ہے ویسے تو آپ کہیں گے کہ مولانا الیاس گھمن کو برما نہیں آنا چاہیے لیکن جب پھنسوگے تو کہوگے کہ نہیں مولانا کو بلاؤ، ان کے لیے ٹکٹ کا انتظام کرو۔ ہماری قوم کا مزاج ہے جب خود آؤ تو سمجھتے ہیں کہ یہ فارغ ہے حالانکہ میری ڈائری دیکھو تمہیں ایک دن بھی فارغ نہیں نظر آئےگا۔ چار چار مہینے ایسے گزرتے ہیں۔ وقت کو کھینچنا پڑتا ہے۔
دیکھیں! مسلمان کے لیے تو پوری دنیا مساوی ہے۔ برما ہو، پاکستان ہو یا امریکہ، داعی کے لیے کیا ہے۔ میں آپ کے شہر آیاہوں۔ میں نے سیر نہ کی ہے نہ کرنی ہے۔ نہ میں نے آپ سے کہنا ہے کہ سیر کراؤ۔ تو میں برما کیا کروں گا۔ ایک بندے کا سیر کاذوق ہی نہیں ہے تو وہ برما کیا کرےگا۔ اور گاڑیاں جو میرے پاس ہیں وہ الحمد للہ آپ کی گاڑیوں سے بہت بڑی ہیں۔ میرا وہاں کا مجمع یہاں سے بہت بڑا ہے، اب میں یہ کہوں کہ آپ مجھے برما کیوں نہیں بلاتے؟ ہمیں کون سا لالچ ہے آپ سے؟ ہماری خواہش ہے کہ اس عقیدے کو پھیلاؤ، مشن کو پھیلاؤ، امت کو یہ بات سمجھاؤ تاکہ ان کو یہ بات سمجھ آئے۔
تو اعتراض یہ تھا کہ اگر اللہ تعالیٰ ہرجگہ ہے تو بتاؤ کیا بیت الخلا میں بھی ہے؟ تو ہماری زبان نہیں گوارا کرتی، اگر کہو کہ بیت الخلا میں نہیں، تو عقیدہ ختم۔
میں نے غیر مقلد سے پوچھا تمہیں کچھ قرآن آتاہے؟ جی ہاں! میں نے کہا کتنا؟ اس نے کہا الحمد للہ میں حافظ ہوں، میں نے کہا تیرے سینے میں قرآن کریم موجود ہے؟ کہتا ہے نہیں۔ میں نے کہا تو پکا غیر مقلد ہے سوفیصد۔ کہتا ہے وہ کیسے؟ میں نے کہا، جتنا بڑا بےقوف ہوتا ہے اتنا بڑا غیر مقلد ہوتاہے۔ کہتا ہے وہ کیسے؟ میں نے کہا تو قرآن کریم کا حافظ ہے؟ کہتا ہے، جی ہاں۔ میں نے کہا تیرے سینے میں قرآن محفوظ ہے؟ کہتا ہے جی ہاں میں نے پوچھا کہ موجود ہے؟ تونے کہا کہ نہیں۔ میں نے پوچھا محفوظ ہے؟ تونے کہا جی ہاں۔ بھائی کوئی چیز موجود نہ ہو تو محفوظ ہوتی کیسے ہے؟ میری جیب میں پیسے موجود نہیں ہیں لیکن محفوظ ہیں، کبھی ایسے بھی ہوتاہے پاسپورٹ بنوایا ؟ نہیں۔ محفوظ ہے؟ جی ہاں! کہا جی مجھے بات سمجھ آگئی۔
میں نے کہا قرآن کریم سینے میں موجود ہے؟ کہا جی موجود ہے۔ میں نے پوچھا اگلی بات بتاؤ بیت الخلا میں قرآن کریم لے کر جانا جائز ہے؟ کہتا ہے نہیں میں نے کہا اس سے اگلی بات بتاؤ جب تم بیت الخلا میں جاتے ہو تو سینہ پھاڑ کر قرآن باہر رکھ کر پھر جاتے ہو؟ کہا قرآن سینے میں محفوظ ہے مگر جسم سے پاک۔ میں نے کہا اللہ تعا لیٰ بھی ہر جگہ موجود ہے، مگر جسم سے پاک ہے۔ موجود بالجسم ہو تو پھر بیت الخلا والا اشکال ہوتاہے۔ موجود بلا جسم ہو تو پھر کوئی اشکال ہی نہیں۔
اللہ کا وجود اتحاد یا حلول کے ساتھ
میں جدہ میں تھا مجھ سے ایک آدمی نے پوچھا اللہ تعالیٰ ہر جگہ موجود ہے؟ اتحاد کے ساتھ یا حلول کے ساتھ؟ اتحاد کا معنی ہے دوچیزیں ایک ہو جائیں ہر ایک کا وجود بھی رہے اس کا نام اتحادہے۔ اور حلول کا معنی؛ دوچیزیں ایک ہوجائیں ایک فنا ہوجائے اس کا نام حلول ہے۔ دو جماعتیں ایک ہوجائیں ایسا نام رکھیں جس میں دونوں جماعتیں شریک ہوں اس کا نام اتحاد ہے۔ اورجب آدمی اپنا وجود ختم کرکے دوسرے میں جائے۔ تو کہتا ہے کہ میں نے اپنی جماعت ختم کردی ہے تمہاری جماعت میں۔
عام فہم مثال
میں مثال دوں گا تو آپ کو بات جلدی سمجھ آئے گی صبح ناشتے میں آملیٹ کھاتے ہیں، آملیٹ میں انڈا، پیاز، ٹماٹر، ہری مرچ ہے ہر چیز اپنا وجود رکھتی ہے اور اکھٹی ہوجاتی ہے تو انڈے، ٹماٹر، پیاز، اور ہری مرچ کے اتحاد سے جو چیز تیار ہو اس کا نام آملیٹ ہے یہ اتحاد ہے۔ اور گرمیوں میں شربت بھی پیتے ہیں، چینی پانی میں ڈالو شربت بناؤ تو یہ چینی کا پانی کے ساتھ اتحاد ہوا یا حلول؟ حلول۔
تو اللہ تعالیٰ ہرجگہ موجود ہے اتحاد کے ساتھ یا حلول کے ساتھ؟ میں نے کہا: نہ اتحاد ہے نہ حلول ہے۔ اللہ تعالیٰ ہرجگہ پر موجود بھی ہے اور اتحاد اور حلول بھی نہیں ہے۔ کہا جی کیوں؟ میں نے کہا اتحاد اور حلول یہ صفتیں جسم کی ہیں، اللہ تعالیٰ موجود بلاجسم ہے۔ نہ اتحاد ہے اور نہ حلول ہےاور موجود بھی ہے۔ تو اللہ تعالیٰ ہمیں ہمارا عقیدہ سمجھادے۔
اس پر مجھے حضرت حکیم الامت تھانوی کا ایک ملفوظ یاد آیا حضرت نے بیان فرمایا، بیان ذرا مشکل تھا بیان کے بعد ایک مولوی نے کہا کہ حضرت آپ نے اتنا مشکل بیان کیا کہ عوام کو سمجھ نہیں آیا۔ اس بیان کا کیا فائدہ؟ حضرت تو حکیم الامت تھےناں! فرمانے لگےاگر ان کو بیان سمجھ آیا تو اچھا اور نہیں سمجھ آیا تو بہت اچھا!
ان مولوی صاحب نے کہا کہ حضرت ہمیں آپ کا یہ جملہ بھی سمجھ نہیں آیا۔ اللہ اکبر! حضرت تھانوی رحمہ اللہ فرمانے لگے میں نے ان کو جو مسئلہ سمجھانا تھا اگر یہ سمجھ گئے تو اچھا۔ اچھا کا مطلب یہ ہے کہ میں ان کو سمجھانا چاہتا تھا ان کو سمجھ آگیا۔ نہیں سمجھ آیا تو بہت اچھا کہ اب کبھی یہ لوگ گمراہ نہیں ہوں گے، کیونکہ یہ لوگ گمراہ کب ہوتے ہیں جب یہ سمجھتے ہیں کہ ہمارے مولوی کے پاس علم کم ہے اور مخالف کے پاس زیادہ ہے۔ آج ان کو پتا چلا کہ جو اشرف علی کے پاس علم ہے وہ بہت اوپر ہے، یہ اس کے قریب بھی نہیں جا سکتے۔ اب یہ کبھی بھی گمراہ نہیں ہوں گے۔
تو آدمی گمراہ کب ہوتا ہے کہ ہمارے بڑوں کے پاس علم نہیں۔ مخالف کے پاس زیادہ ہے، تب ہی تو ان کے پاس جاتےہیں۔ ان کو مسئلہ تو سمجھ نہیں آیا لیکن یہ تو پتا چلاکہ علماء دیوبند کے پاس علم کتنا زیادہ ہے۔ تو اب میں بھی کہتا ہوں کہ آپ کو سمجھ آیا تو اچھا نہیں سمجھا تو بہت اچھا!
اللہ تعا لیٰ ہم سب کو علوم بھی عطا فرمائے۔ اللہ تعا لیٰ اعما ل بھی عطا فرمائے اور اللہ تعالیٰ علوم اور اعمال میں برکتیں بھی عطا فرمائے۔
وماعلینا الا لبلا

غ