خیانات احمد رضا

User Rating: 5 / 5

Star ActiveStar ActiveStar ActiveStar ActiveStar Active
 
خیانات احمد رضا
فاضل بریلوی نے عبارتوں کو نقل کرنے میں خیانت سے کام لیا۔
خیانت نمبر1:
1۔ تین عبارتوں کو ایک بنا دیامثلاً عربی عبارت جو بنائی وہ یہ ہے
و لو فرض فی زمنہ صلی اللہ علیہ وسلم بل لوحدث بعدہ صلی اللہ علیہ وسلم نبی جدید لم یخل ذالک بخاتمیتہٖ و انما یتخیل العوام انہ صلی اللہ علیہ وسلم خاتم النبیین بمعنی آخر النبیین مع انہ لا فضل فیہ اصلا عند اہل الفہم
حسام الحرمین عربی اردو، ص19
ولو فرض فی زمنہ صلی اللہ علیہ وسلم (ایک ٹکڑا)، بل لوحدث بعدہ صلی اللہ علیہ وسلم نبی حدید لم یخل ذالک بخاتمیتہٖ(دوسرا ٹکڑا)، و انما یتخیل العوام سے آخر تک۔تیسرا ٹکڑا)
پہلا ٹکڑا: تحذیر الناس کے ص 14 کا ہے۔ اس کے شروع اور آخر سے عبارت کو کاٹ دیا۔
دوسرا ٹکڑا: ص28 کا اس کے ساتھ بھی یہی حشر کیا
تیسرا ٹکڑا: پھر ص3 کا ٹکڑا لے آئے اور اس کے ساتھ بھی یہی حشر کیا۔
ہمارا سوال ہے بریلوی ملاؤں سے اگر تمہارے بقول تینوں ٹکڑے کفر تھے تو یہ بتاؤ کہ سیاق و سباق کے کاٹنے کی ضرورت کیاتھی اور عبارات میں تقدیم و تاخیر کہ پہلے والی عبارت کو آخرمیں لانے اور آخر والی عبارت کو درمیان میں لانے کی اور درمیان والی عبارت کو شروع میں لانے کی ضرورت ہی کیا تھی۔اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اگروہ عبارات کفریہ ہوتی تو فاضل بریلوی کویہ کبڈی کھیلنے کی ضرورت نہ تھی۔
پھرفاضل بریلوی نے یہ بھی نہیں بتایا کہ عبارات تین ہیں بلکہ ایک ہی بنا کر دکھائی۔پھر درمیان میں کچھ فاصلہ بھی نہیں رکھااور تواور ترتیب بھی بہت ہی خاص انداز میں بنائی
پہلے ص14 پھر ص 28 پھر ص 03
یعنی ترتیب کو نہ شروع سے کیا کہ چلو ص 03 پھر ص 14 پھر ص 28 ہو یا اُلٹ کر کے ص28، ص14، ص3 ہوتے۔خدا برا کرے اس تعصب کا۔
بہرحال سیاق و سباق عبارات کو کاٹ کر ان عبارات کو پیش کیا جو کہ کبھی بھی تکفیر کے لیے مفید نہیں کیونکہ بریلوی مناظر علامہ اشرف سیالوی صاحب، پیر نصیر الدین گولڑوی صاحب کو مخاطب کر کے لکھتے ہیں:
آپ نے بندہ کے مقالہ میں سے صرف ایک عبارت سیاق و سباق سے کاٹ کر اور پورے مضمون ومفہوم اور بنیادی مطلب و مقصد کو قارئین سے پوشیدہ رکھ کر جس تحکم اور سینہ زوری اور ظلم اور تعدی اورناانصافی و بے اعتدالی کا مظاہرہ کیا اورباری تعالیٰ کی مشکلات سبکدوشی کا عنوان قائم کرکے اس کومیرا عقیدہ قرار دے دیا ہے۔ اور کفر کا فتویٰ پھر جڑ دیا۔
ازالۃ الریب ص71
یہی بات ہم کہہ رہے ہیں کہ فاضل بریلوی نے ظلم و تعدی کر کے سیاق و سباق کوکاٹ کر ناانصافی کر کے ہمارے بنیادی مقصدکو چھپا کر تحکم اور سینہ زوری سے ہماری عبارات کا مطلب گھڑا ہے ہم اس گھڑنتو مطلب سے بری ہیں۔ اگر سیالوی صاحب اس طرح کافر نہیں تو ہم کیوں ؟
خیانت نمبر2:
مرزا قادیانی کے اقوال نقل کر کے آگے لکھا ہے منہم الوہابیہ (حسام الحرمین) یعنی یہ وہابیہ مرزائیوں سے ہیں حالانکہ دنیا جانتی ہے یہ مرزائی نہ تھے اور یہ بھی معلوم ہوا کہ یہ فتویٰ ہمارے اکابر کو مرزائی بتلا کر لیا گیا ہے اس لیے اس فتوے کی کوئی حیثیت نہیں
خیانت نمبر3:
حسام الحرمین میں عبارات عربی میں بنائی گئیں حالانکہ ہماری کتب اردو میں تھیں اور حرمین شریفین کے علماء اُردو نہ جانتے تھے۔ فاضل بریلوی نے علمائے دیوبند کی اردو عبارات کو غلط انداز میں عربی میں نقل کرکے دھوکہ دہی سے کام لیا اوربقول بریلویہ کے محض مخالف کے بیان پر اعتما دکرتے ہوئے بلاتحقیق فیصلہ صادر کردینا نہ تو اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں مقبول و پسندیدہ ہے اور نہ ہی اسے اہل علم و دانش قبول کر سکتے ہیں۔
البریلویہ کا تحقیقی جائزہ ص62
جب کنز الایمان پر سعودی حکومت نے پابندی لگائی بلکہ جلانے کا فتوی دیا تو یہی بات صاحبزادہ حمید الدین سیالوی نے حکومت سعودیہ کو لکھی، ملاحظہ فرمائیں:
اس میں شک نہیں ہے کہ ترجمہ و حواشی اُردو زبان میں ہیں اورہم جانتے ہیں کہ ادارہ البحوث العلمیہ (جس نے فتویٰ دیا جلانے کا) کے اکثرارکان اردو زبان نہیں جانتے ایک خاص گروہ نے اللہ تعالیٰ ان کی مساعی کو کبھی قبول نہ کرے اس ترجمہ اورا ن کے حواشی کو جھوٹے رنگ میں رنگ کر ادارۃ البحوث العلمیہ کے اراکین کے سامنے پیش کیا اورا پنی چرب زبانی اور عیاری کے باعث ان سے یہ فتویٰ صادر کرانے میں کا میاب ہو گئے۔
ہم کہتے ہیں اور جو ہم کہتے ہیں اس کے سچائی پر اللہ تعالیٰ کو گواہ پیش کرتے ہیں۔ انہو ں نے شر، کفر اور آیات کے معانی میں تحریف کا بہتان ایسے ربانی عالموں پر لگایا ہے جنہوں نے اپنی زندگیوں کا ایک ایک لمحہ اپنا علم اپنی دانش اور اپنی قابلیت اللہ کی بات کو بلندکرنے کے لیے اور ہندوستان میں بسنے والے بت پرستوں کو دعوت توحید پہنچانے کے لیے صرف کی اور وہ بہت سے بت پرستوں کوشرک کے گھپ اندھیروں سے نکال کر اسلام کے نور کی طرف لانے میں کامیاب ہو گئے اس مخصوص گروہ نے اپنے دل سے جھوٹی تہمتیں اور ظلم و کذب بیانی سے ان پاک نفوس پر الزام لگایا۔
انوار کنزالایمان ص 846، 847
یہی کچھ ہم اپنے اکابرین کی صفائی میں کہتے ہیں۔ عبارات کا مطلب وہ گھڑا جو ان اکابرین کے ذہن و خیال میں بھی نہیں آیا۔
بریلوی جید مناظر لکھتے ہیں:
بزرگوں کے کلام کاان کی مراد کے خلاف مطلب نکال کر مراد لینا سراسر جہالت ہے۔
میٹھی میٹھی سنتیں اور دعوت اسلامی ص74
مولوی اشرف سیالوی جو بریلوی ملت کے مناظر اعظم اور قائد ہیں وہ لکھتے ہیں:
اللہ تعالیٰ صحیح سوچ اور فکر نصیب فرمائے اور مقصودِ متکلم بھی سمجھنے کی توفیق بخشے۔
تحقیقات ص62
معلوم ہوا متکلم کی مراد نہ سمجھنا الٹی سوچ و فکر ہے جو فاضل بریلوی اور دیگر بریلوی علماء میں ہے۔
عربی عبارت میں اتنی خیانتیں فاضل بریلوی نے کیں اب اردو والوں کو بھی دیکھیے
خیانت نمبر4:
مکتبہ نبویہ والوں نے اردو میں شائع کی توپہلے ٹکڑے میں فاضل بریلوی نے جتنا حصہ کتاب کا لیا تھا انہوں نے دیکھا کہ عام قاری بھی یہ غلطی اورخیانت پکڑ لے گا تو انہوں نے عبارت کوکچھ بڑھا دیا۔
پہلاٹکڑا فاضل بریلوی نے یوں لکھا تھا
ولو فرض فی زمنہٖ صلی اللہ علیہ وسلم
’’اگر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں بھی کوئی نبی فرض کر لیا جائے۔‘‘
مگر مکتبہ نبویہ والوں نے اس کے ساتھ ایک جملہ اور بڑھا دیا اور شروع میں بلکہ کا اضافہ بھی کرد یا۔
یوں لکھتے ہیں:
’’بلکہ بالفرض آپ کے زمانہ میں بھی کہیں اور کوئی نبی ہو۔ جب بھی آپ کا خاتم ہونابدستور باقی رہتا ہے۔‘‘
یہ اس لیے کیا گیا کہ فاضل بریلوی کی خیانت پکڑی نہ جائے مگر عربی خواں تو جانتے ہیں بہرحال یہ اردو خواں لوگوں کی بھی خیانت معلوم ہو گئی کہ اُردو والی حسام الحرمین میں ایک ٹکڑے کا اضافہ کر دیا۔
خیانت نمبر 5:
کچھ مکتبے اور آگے نکلےانہوں نے حسام الحرمین کی عبارت کہ عوام کے خیال میں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کاخاتم ہونا بایں معنی ہے۔ کویوں کر دیاعوام کے خیال میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کاخاتم ہونا بے ایمانی ہے۔
تمہید ایمان مع حسام الحرمین ص70، مطبوعہ اکبر بک سیلرز لاہور، تمہید ایمان مع حسام الحرمین ص 53، مطبوعہ مکتبہ غوثیہ کراچی، تمہید ایمان مع حسام الحرمین ص70، مطبوعہ مکتبہ المدینہ کراچی
ان تینوں مکتبوں نے خیانت کے ریکارڈ توڑ دیے۔اس پر
انما اشکوابثی و حزنی الی اللہ
ہی کہاجا سکتا ہے۔
خیانت نمبر6:
تحذیر الناس ص 3 کی جب عبارت نقل کی گئی تو اس میں ایک جملہ چھوڑ دیاگیا جو کہ ’’بایں معنی ہے کہ‘‘ کے بعد موجود تھا۔ ’’ آپ کا زمانہ انبیاء سابق کے زمانہ کے بعد ‘‘
تحذیر الناس ص3
پوری عبارت یہ ہے:
’’سو عوام کے خیال میں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا خاتم ہونا با معنی ہے کہ آپ کا زمانہ انبیاء سابق کے زمانہ کے بعد اور آپ سب میں آخر ی نبی ہیں مگر اہل فہم پر روشن ہو گا کہ تقدم یا تاخر زمانی میں بالذات کچھ فضیلت نہیں۔ ‘‘
تحذیر الناس ص 3
کئی خیانات:
اُردو والوں نے کہیں ، بلکہ، کالفظ چھوڑ دیا کہیں ’’سو ‘‘کالفظ نہیں لائے کہیں ’’اگر‘‘ کا لفظ بھی چھوڑ گئے اور خیر سے فاضل بریلوی نے بھی ’’بلکہ‘‘وغیرہا کئی جملوں کا عربی میں ترجمہ ہی نہیں کیا۔
اصل کتاب تحذیر الناس میں یوں تھا کہ اہل فہم پر روشن ہو گا کہ تقدیم و تاخیر زمانی میں بالذات کچھ فضیلت نہیں۔
تحذیر الناس ص3
مگر عربی میں ترجمہ کرتے وقت یوں لکھاگیا
انہ لا فضل فیہ اصلاً عند اہل الفہم
بالذات کا ترجمہ ہی نہیں کیا گیا۔
اب بریلوی کہتے ہیں بالذات کاترجمہ لفظ اصلاً میں آگیا تو پھر جوابًا عرض یہ ہے کہ اصلاً کا مطلب یہ بنتا ہے کہ بالکل کوئی فضیلت ہی نہیں نہ ذاتی نہ عرضی جو کہ متکلم کے الفاظ و معانی و مراد کے بالکل خلاف ہے کیونکہ متکلم بالعرض فضیلت کا قائل ہے۔بہر کیف یہ فاضل بریلوی کی خیانات اور دجل وفریب کامجموعہ ہے۔
بریلویوں کویہ تو ماننا پڑے گا اس نے دھوکہ دہی و خیانت سے کام لیاہے باقی بحث بعد کی بات ہےاور جب حسام الحرمین کذبات، خیانات، دھوکہ جات کا مجموعہ ہو تو پھر اس کاجواب دینے کی ضرورت بھی باقی نہ رہے گی۔مگرمنہ بند کرنے کی غرض سے ہم آگے بھی کلام کرتے ہیں۔
بریلویوں سے دو سوال:
مفتی احمدیار نعیمی گجراتی صاحب کی سنئے وہ فرماتے ہیں:
جوکوئی حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعدنبوت کاامکان بھی مانے وہ بھی کافر ہے۔
علم القرآن ص97
ایک جگہ لکھتے ہیں:
حضورعلیہ السلام کے بعد کسی نئے نبی کا آناجائز یا ممکن مانے وہ مرتد ہے۔
شان حبیب الرحمن ص107
جبکہ بریلوی فقیہہ ملت کے فتاویٰ فیض الرسول میں ہے
بے شک سرکار اقدس آخر الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کسی نبی کا پیدا ہونا شرعاً محال اورعقلاً ممکن بالذات ہے۔
فتاویٰ فیض الرسول ج1، ص9
اب بتایاجائے کہ یہ فقیہہ ملت مرتد و کافر ہوا یا نہ؟
سوال نمبر2:غلام نصیر الدین سیالوی لکھتے ہیں: وہ (ملا علی قاری) مرقاۃ شرح مشکوٰۃ میں فرماتے ہیں۔ بعدالعلم بخاتمیتہ علیہ السلام لایجوز الفرض و التقدیر ایضاًیہ جاننے کے بعد کہ حضور علیہ السلام خاتم النبیین ہیں فرض اور تقدیر کے طور پر کسی نبی کے آنے کا قول کرنا جائز نہیں۔
عبارات اکابر کا تحقیقی و تنقیدی جائزہ ج1۔ ص202
جبکہ فاضل بریلوی لکھتے ہیں کہ یہ قول کہ اگر نبوت ختم نہ ہوتی تو حضور غوث پاک ؓ نبی ہوتے اگرچہ اپنے مفہوم شرطی پر صحیح و جائز اطلاق ہے۔
عرفان شریعت۔ ص84
مفتی احمد یار نعیمی لکھتے ہیں:
اگر قادیانی نبی ہوتا تو آج کل سائنس کا دور ہے اسے ایسی ایجادات عطا ہوتی جو ان تمام ایجادوں سے اعلیٰ ہوتی۔
تفسیرنور العرفان پارہ نمبر 7، سورۃ مائدہ آیت نمبر110
آگے لکھتے ہیں:
اگرقادیانی نبی ہوتا توحضرت ابراہیم علیہ السلام کی اولاد میں ہوتا۔
تفسیر نور العرفان پارہ نمبر7، سورۃا لانعام، آیت نمبر84
آگے لکھتے ہیں:
اگر قادیانی نبی ہوتا تووہ دنیا میں کسی کاشاگرد نہ ہوتا۔
تفسیر نور العرفان، پارہ نمبر7، سورۃ الانعام، آیت نمبر83
ایک جگہ لکھتے ہیں:
اگر مرزا قادیانی نبی ہوتا تو پٹھانوں کے خوف سے حج جیسے فریضہ سے محروم نہ رہتا۔
نور العرفان ص806، کتب خانہ نعیمی لاہور
اب بتائے کہ یہ فرض نبوت کی وجہ سے مسلمان رہے یاکافر؟
ہو سکتا ہے کوئی کہے کہ یہ لفظ تو ’’اگر ‘‘ہے فرض کرنا تو نہیں۔ توہم عرض کریں گے’’ اگر ‘‘کاعربی میں ترجمہ ’’لو‘‘ سے اور ’’لو‘‘ کا معنی فرض کرنا ہے جیسا کہ فاضل بریلوی لکھتے ہیں، لو،فرض کے لیے ہے۔
اللہ جھوٹ سے پاک ہے ص139
سید تبسم بخاری اور دیگر بریلویت اپنوں کی زد میں:
مولوی عبدالحکیم شرف قادری لکھتے ہیں: علماء دیوبند کی ایک جماعت نے مل کر ایک رسالہ المہند علی المفند ترتیب دیا جس میں کمال چابکدستی سے یہ ظاہر کیا گیا ہے ہمارے عقائد وہی ہیں جو اہل سنت و جماعت کے ہیں۔
حسام الحرمین اردو ص8
یعنی المہند علی المفند میں عقائد وہی ہیں جو بریلویہ کو بھی تسلیم ہیں کہ اہل سنت کے ہیں۔
بریلوی مناظر مولوی عبدالعزیز مرادآبادی لکھتے ہیں: المہند علی المفند میں اپنے عقائد بالکل سنیوں کے مطابق ظاہر کیے۔
الدیوبندیت ص14
یعنی المہند علی المفند میں جو کچھ لکھا ہوا ہےیہ بریلوی عقائد کے موافق ہے۔
اور مولوی عبد الستار خان نیازی لکھتے ہیں: المھندعلی المفند مصنفہ مولانا خلیل احمد انبیٹھوی کی جو اعلی حضرت مولانا احمد رضا خان بریلوی کی تصنیفات حسام الحرمین اور الدولتہ المکیہ کے جواب میں شائع ہوئی جس میں انہوں نے اپنے عقائد نظریات کی وضاحت کی ہے ایک نہایت ہی مفید کتاب ہے۔
اتحاد بین المسلمین ص115
اب آئیے اس میں دیکھتے ہیں کہ کیا لکھاہے: اور آئندہ بھی ہم اس کتاب میں اسی المہند علی المفند سے دلیل لائیں گے چونکہ یہ بریلویوں کے ہاں بھی مستند ہے۔
خاتمیت ایک جنس ہے جس کے تحت دو نوع داخل ہیں ایک خاتمیت بااعتبار زمانہ وہ یہ ہے کہ آپ کی نبوت کا زمانہ تمام انبیاء کی نبوت کے زمانہ سے متاخر ہے اور بحیثیت زمانہ کے سب کی نبوت کے خاتم ہیں اور دوسری نوع خاتمیت باعتبار ذات جس کا مطلب یہ ہے کہ آپ ہی کی نبوت ہے جس پر تمام انبیاء کی نبوت ختم و منتہیٰ ہوئی اور جیسا کہ آپ خاتم النبیین ہیں باعتبار زمانہ اسی طرح آپ خاتم النبیین ہیں بالذات کیونکہ ہر وہ شے جو بالعرض ہو ختم ہو تی ہے۔ اس پر جو بالذات ہو اس سے آگے سلسلہ نہیں چلتا اور جبکہ آپ کی نبوت بالذات ہے اور تمام انبیاء کی نبوت بالعرض اس لیے کہ سارے انبیاء کی نبوت آپ کی نبوت کے واسطہ سے ہے اور آپ ہی فرد اکمل و یگانہ اور دائرہ رسالت و نبوت کے واسطہ ہیں پس آپ خاتم النبیین ہوئے ذاتاً بھی اور زماناًبھی اور آپ کی خاتمیت صرف زمانہ کے اعتبار سے نہیں اس لیے کہ یہ کوئی بڑی فضیلت نہیں کہ آپ کا زمانہ انبیاء سابقین کے زمانہ سے پیچھے ہے بلکہ کامل سرداری اور غایت رفعت اور انتہا درجہ کا شرف اسی وقت ثابت ہو گا جبکہ آپ کی خاتمیت ذات اور زمانہ دونوں اعتبار سے ہو ورنہ محض زمانہ کے اعتبار سے خاتم الانبیاء ہونے سے آپ کی سیادت و رفعت نہ مرتبہ کمال کو پہنچے گی اور نہ آپ کو جامعیت و فضل کلی کا شرف حاصل ہو گا۔
المہند علی المفند ص51، 52
اس میں مندرجہ ذیل باتیں بیان ہوئیں۔
1۔ قرآن پاک میں وارد شدہ لفظ خاتم النبیین ایک جنس ہے اس کو دونوعیں ہیں ایک خاتم زمانی اوردوسراخاتم مرتبی۔
2۔ آپ نبوت سے موصوف بالذات ہیں اور باقی انبیاء موصوف بالغرض ہے۔
3۔ صرف زمانہ کے اعتبار سے ہی خاتم ماننا اور ذات کے اعتبار سے خاتم نہ ماننا کوئی بڑی فضیلت نہیں بنتی۔
تبصرہ از مصنف
1۔ تبسم صاحب، کاظمی، غلام نصیر الدین سیالوی، غلام مہر علی صاحب کی کتابیں اور ان کے دلائل جو ان تین باتوں کے رد میں لکھے گئے وہ سب بے کار اور کالعدم ہوئے کیونکہ وہ سب اہل سنت کے عقائد جو المہند میں لکھے ہوئے ہیں اس کا رد کر رہے ہیں۔
2۔ شرف قادری اور عبدالعزیز مرا د آبادی وغیرھمابھی انہیں باتوں کو سنیوں کے عقائد کہتے ہیں جو حجۃ الاسلام نے لکھی ہیں تویہ بھی کافر و گستاخ ٹھہرے کیونکہ ان باتوں کی وجہ سے بریلوی حجۃ الاسلام کی تکفیر کرتے ہیں۔ ان دونوں کی تعظیم کرنے کی وجہ سے تبسم اینڈ کمپنی بھی پھنس گئے۔
3۔ ہم مکہ و مدینہ شریفین اور ازہر و دمشق کے اکابر علماء کے نام بھی پیش کرنا ضروری سمجھتے ہیں جو ان تین باتوں کو عقائد اہلسنت کے موافق اور درست و ٹھیک کہہ رہے ہیں۔
علماء مکہ شریف
1۔ الشیخ محمد سعید صبیّل الشافعی امام و خطیب مسجد حرام شریف
2۔ الشیخ احمد رشید حنفی
3۔ الشیخ محب الدین مہاجرمکی حنفی
4۔ الشیخ محمد صدیق افغانی مکی
5۔ الشیخ محمد عابد مفتی المالکیہ
6۔ الشیخ مولانا محمد علی بن حسین مالکی مدرس حرم شریف
علماء مدینہ شریف
1۔ الشیخ السید احمد برزنجی شافعی سابق مفتی آستانہ نبویہ
2۔ الشیخ رسوحی عمر مدرس مدرسۃ الشفاء
3۔ الشیخ ملا محمد خان المدرس فی الحرم النبوی
4۔ الشیخ راجی فیض الکریم خلیل بن ابراہیم خادم العلم بالحرم الشریف النبوی
5۔ الشیخ السید احمد الجزائری شیخ المالکیہ بالحرم النبوی الشریف
6۔ الشیخ عمر بن حمدان المحرسی خادم العلم بالمسجد النبوی الشریف
7۔ الشیخ محمد العزیز الوزیرالتونسی خادم العلم بالحرم الشریف النبوی
8۔ الشیخ محمد زکی البرزنجی خادم العلم بالمسجد النبوی
9۔ الشیخ محمد السوسی الخیاری
10۔ الشیخ احمدبن مامون البلغیش من مشاہیر العرب
11۔ الشیخ موسیٰ کاظم بن محمد خادم العلم و المدرس باب الاسلام
12۔ الشیخ احمد بن محمد خیر الحاج العباسی خادم العلم بالمسجد الشریف النبوی
13۔ الشیخ ابن نعمان محمد منصورخادم العلم بالمسجد الشریف النبوی
14۔ الشیخ معصوم احمد سیدخادم العلم بالمسجد الشریف النبوی
15۔ الشیخ عبداللہ القادر بن محمدبن سودہ العرسی ولیہ من علماء العرب
16۔ الشیخ یاسین غفرلہ
یہ دو حضرات دمشق کے علماء میں سے ہیں۔ شیخ یاسین اور شیخ توفیق
17۔ الشیخ محمد توفیق
18۔ الشیخ ملا عبدالرحمن المدرس بالحرم النبوی الشریف
19۔ الشیخ محمود عبدالجواد خادم العلم بالحرم الشریف النبوی
20۔ الشیخ احمد سباطی خادم العلم بالحرم الشریف النبوی
21۔ الشیخ محمد حسن سندی خادم العلم بالحرم الشریف النبوی
22۔ الشیخ احمد بن احمد اسعد خادم العلم بالحرم الشریف النبوی
23۔ الشیخ عبداللہ خادم العلم بالحرم الشریف النبوی
24۔ الشیخ محمد بن عمر الفارانی خادم العلم بالحرم الشریف النبوی
25۔ الشیخ احمد بن محمد الشنقیطی خادم العلم بالحرم الشریف النبوی
علماء مصر و ازہر
1۔ الشیخ سلیم البشری شیخ الازہر
2۔ الشیخ محمد ابراہیم القایانی ازہر
3۔ الشیخ سلمان العبد ازہر
4۔ مولانا السید محمد ابوالخیر الشہیربا بن عابدین بن العلامہ احمد بن عبدالغنی بن عمر عابدین الدمشقی یہ فتاویٰ شامی کے مصنف کے نواسہ ہیں۔
5۔ الشیخ المصطفیٰ بن احمد الشطی الحنبلی
6۔ الشیخ محمود رشید العطارتلمیذ رشید بدرالدین محدث شامی
7۔ الشیخ محمد البوشی الحموی دمشق
8۔ الشیخ محمد سعید الحموی دمشق
9۔ الشیخ علی بن محمد الدلال الحموی دمشق
10۔ الشیخ محمد ادیب الحورانی
11۔ الشیخ عبدالقادر
12۔ الشیخ محمد سعید دمشق
13۔ الشیخ محمد سعیدلطفی حنفی دمشق
14۔ الشیخ حضرت فارس بن محمد دمشق
15۔ الشیخ مصطفی الحداد
یہ حرمین شریفین و از ہرودمشق کے 46 جید علماء کے نام آپ نے ملاحظہ کیے۔جنہوں نے المہند کی تصدیق کی۔
تو یہ تین اقوال جو ہم نے پیچھے عرض کیے تھے جو ہم نے المہند والی عبارت سے اخذ کیے تھے وہ ان سب کے مصدقہ ہیں۔ اب اگر یہ کفر والحاد و بے دینی ہیں تو حرمین شریفین و ازہر دمشق کے سارے علماء کرام پر ہی فتویٰ لگے گا اگر یہ درست ہیں تو تبسم بخاری اور کاظمی، غلام نصیر الدین سیالوی ان کو کفر و بے دینی کہہ کر خود کافر بے دین ہوتے ہیں۔
کیونکہ تبسم صاحب نے اپنی کتاب ختم نبوت اور تحذیر الناس کے ص23 پر لکھا ہے کہ خاتم النبیین کا معنی صرف آخری نبی ہے اس میں تخصیص و تاویل کرنا کفر ہے۔ ملخصاً
اور دوسری جگہ لکھتے ہیں:بالذات اور بالعرض کی تقسیم سرے سے باطل ہے۔
ختم نبوت ص189
ایک جگہ لکھتے ہیں: حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت بالذات اور دیگر انبیاء علیہم السلام کی نبوت و رسالت کو محض بالعرض اور مجازی نبوت و رسالت قرار دینا ہے۔ قرآن مجید میں تحریف معنوی اور انبیاء کی نبوت کا انکار صریح ہے۔
ختم نبوت ص197
ایک جگہ لکھتے ہیں: نبوت میں ذاتی اور عرضی کی تفریق قرآن مجید کی متعدد آیات کے خلاف ہے۔
ختم نبوت ص 197
وغیرھاعبارات اس پر دلالت کرتی ہیں۔
بریلویوں کے نزدیک جو جرم حجۃ الاسلام نے کیے وہی ان حرمین شریفین اور مصرودمشق کے علماء نے بھی کیے۔اگر حجۃ الاسلام کی تکفیر اس بناء پر کی جاتی ہے۔ تو یہ حرمین شریفین و دیگر اکابر علماء بریلی کی تکفیری مشین گن سے کیامحفوظ رہے؟
قارئین ذی وقار! ان عبارات پر جو کلام ہماری سمجھ میں ہونا چاہیئے تھا اور جن کی ضرورت تھی وہ ہم نے سب ہی نقل کر دیا۔ ضرورت پڑی تو مزید عرض کیا جائے گا۔
الزام برقطب الارشاد حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی:
قطب الارشاد گنگوہی پر فاضل بریلوی نے یہ الزام لگایا
اس نے یہ افتراء باندھا کہ اللہ کا جھوٹا ہونا بھی ممکن ہے۔
حسام الحرمین ص14
آگے لکھتے ہیں:
ظلم و گمراہی میں یہاں تک بڑھا کہ اپنے فتوے میں جو اس کا مہری دستخطی میں نے اپنی آنکھ سے دیکھا جو بمبئی وغیرہ میں بارہا مع رد کے چھپا صاف لکھ دیا کہ جو اللہ سبحانہ کو بالفعل جھوٹا مانے اور تصریح کر ے کہ معاذ اللہ اللہ تعالیٰ نے جھوٹ بولا اور یہ بڑا عیب اس سے صادر ہو چکا تو اسے کفر بالائے طاق گمراہی درکنار فاسق بھی نہ کہو۔ …الخ
حسام الحرمین ص15
الجواب: ہم بریلویوں سے گزارش کرتے ہیں کہ ہمیں بھی وہ قلمی فتوی دکھاؤ کہ ٰ کہاں ہے؟ یہ فاضل بریلوی کااتنا بڑا جھوٹ ہے جس کی توقع کسی عام مسلمان سے بھی نہیں کی جاسکتی۔
قطب الارشاد کی اپنی تحریر ملاحظہ فرمائیں:
ذات پاک حق جل جلالہ کی پاک و منزہ ہے۔ اس سے کہ متصف بصفت کذب کیا جاوے معاذ اللہ اس کے کلام میں ہرگز ہرگز شائبہ کذب کا نہیں
قال اللہ تعالیٰ و من اصدق من اللہ قیلا
جو شخص حق تعالیٰ کی نسبت یہ عقیدہ رکھے یا زبان سے کہے وہ کذب بولتا ہے وہ قطعاً کافر ہے ملعون ہے اور مخالف قرآن و حدیث کا اور اجماع امت کا ہے وہ ہرگز مومن نہیں۔
فتاویٰ رشیدیہ ص90
اب بھی کوئی کہے کہ نہیں جی میں تو نہیں مانتا۔ تو ہم اسے اتنا کہیں گے کہ خدا تعالیٰ کی عدالت میں پیشی کے لیے تیار رہے۔بعض رضا خانی یہ کہہ دیا کرتے ہیں اجی انہو ں نے یہ تو نہیں کہا کہ میں نے یہ تحریر نہیں لکھی۔ تو جوابًا عرض ہے استفتاء میں اگر یہ پوچھا جاتا کہ آپ نے ایسی تحریر لکھی ہے تو آپ اس کا جواب دے دیتے کہ میں نے نہیں لکھی جب پوچھا نہیں گیا تو یہ جواب دینے کی کیا معنی، جیسے کوئی کہے کہ فتاویٰ مہریہ میں پیر مہر علی شاہ نے مرزا قادیانی پر کفر کا فتویٰ نہیں دیا تو یہی کہا جائے کہ بھائی اس کے کفر کا سوال ہی نہیں کیا گیا تو جواب کہا ں ہوتا۔جو سوال ہو جواب اس کے موافق ہوتا ہے۔
سوال تھا کہ کیافرماتے ہیں علماء دین اس مسئلہ میں کہ ذات باری تعالیٰ عزا اسمہ موصوف بصفت کذب ہے یا نہیں اور خدا تعالیٰ جھوٹ بولتا ہے یا نہیں اور جو شخص خدا تعالیٰ کو یہ سمجھے کہ وہ جھوٹ بولتا ہے وہ کیسا ہے۔ بینوا تو جروا۔
فتاویٰ رشیدیہ ص90
تو جواب حضرت نے وہی دیا جو نقل کیا جا چکا ہے۔
مولانا خلیل احمد خان قادری برکاتی لکھتے ہیں: فاضل بریلوی نے اپنے رسالہ از کی الہلال میں دربارہ رویت ہلال خط وغیرہ تحریرات کو ناقابل اعتماد فرما یا ہے پھر تکفیر مسلم کے بارے میں مجرد قلمی تحریر پر کیوں اعتماد کر کے احکام کفر و ارتداد جاری کیے۔
انکشاف حق ص210
یعنی چاند کے دیکھنے کے بارے میں کسی کے خط اور تحریر پر اعتبار نہیں کیا جا سکتا کیونکہ ہو سکتا ہے کسی اور نے لکھی ہو کیونکہ تحریر میں آدمیوں کی بعض دفعہ لکھائی مل بھی جاتی ہیں یعنی یہ ہو سکتا ہے لکھی کسی نے ہو اور نام کسی کے لگائی ہو۔
جب چاند دیکھنے کے معاملے میں کسی کی تحریر جو موصول ہو اس پر فیصلہ نہیں ہو سکتا تو اتنے بڑے تکفیر کے مسئلے میں کیونکر کسی کی تحریر پر تکفیر ہو ہاں اگر صاحب تحریر قبول کرے کہ یہ میری تحریر، پھر بات اور ہے جب حضرت گنگوہی خود کہہ رہے ہیں کہ ایسا عقیدہ رکھنے والا کافر ہے اور اللہ تعالیٰ کی ذات اس سے بری ہے۔ تو پھر کیونکر یہ بات ان کے ذمے لگائی جائے۔ہداہم اللہ۔
اوریہ بات فاضل بریلوی نے بھی کہی ہے کہ:خط خود کب معتبر تمام کتابوں میں تصریح ہے کہ
الخط یشبہ الخط او الخط لا یعمل بہ۔
ملفوظات ص203
یعنی خط معتبر نہیں۔ اس کو بنیاد بنا کر عمل نہیں کیا جائے گا تو فاضل بریلوی نے خود عمل کیوں کیا؟