کنز الایمان کا اجمالی جائزہ

User Rating: 5 / 5

Star ActiveStar ActiveStar ActiveStar ActiveStar Active
 
کنز الایمان کا اجمالی جائزہ
باسمہ الکریم وصلی اللہ وسلم علی رسولہ محمد وعلی آلہ واصحابہ اجمعین
قارئین گرامی قدر !
یہاں ہم تھوڑی سی گفتگو اس حوالے سے کرنا چاہتے ہیں کہ قرآن مقدس کا ترجمہ وتفسیر کرنے کا حق کس کو ہے؟ اور کوشش کریں گے کہ اس بات کو ہم رضاخانی حضرات کے گھر سے لائیں تاکہ ہمارے ان بھائیوں کو بھی انکار کی گنجائش نہ رہے۔
قرآن مقدس خدا تعالی کی وہ لازوال وبے مثال کتاب ہے جسے سرکار طیبہ صلی اللہ علیہ وسلم پر اتارا گیا اور اللہ کریم نے اس کی حفاظت کا ذمہ بھی خود ہی لیا۔ جب کتاب اتنی بڑی اور عظیم ہے تو اس کے ترجمہ وتفسیر کرنےکی ہر کس و ناکس کو اجازت نہیں دی جاسکتی۔ بریلوی مکتبہ فکر کے شیخ القرآن ڈاکٹر مفتی غلام سرور قادری صاحب لکھتے ہیں
اس میں شک نہیں کہ احکام اسلام وہدایات اسلام کا سر چشمہ قرآن کریم ہے جس کی توضیح وتشریح کی ذمہ داری بھی اللہ تعالی نے اپنے محبوب اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو سونپی اور آپ نے حسب فرمان الہی اس کی تفسیر وتوضیح بھی فرمادی پھر مسلمانوں کو حکم عام دیا گیا کہ:
فاسئلوا اہل الذکر ان کنتم لا تعلمون
اے لوگو علم والو ں سے پوچھو اگر تمہیں علم نہیں ہے۔
یعنی اس کے باوجود اگر تمہیں قرآن وسنت سے متعلق کوئی بات دریافت کرنا ہو تو ائمہ مجتہدین کی طرف رجوع کرو جو اپنی علمی واجتہادی فکر اور تحقیقی قوت وصلاحیت وبصیرت سے قرآن کریم کا صحیح ادراک وفہم رکھتے ہیں اللہ تعالی نے ائمہ دین سے سوال کرنے کا حکم صادر فرماکر قرآن کریم میں رائے زنی کا راستہ ہمیشہ کے لیے بند کردیا۔
تفسیر بالرائے کی ممانعت
اللہ تعالی کے محبوب وپیغمبر حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے محض اپنی رائے کے ساتھ اور من گھڑت طریقے سے قرآن کریم کی تفسیر کرنے سے نہ صرف منع فرمایا بلکہ ایسے شخص کو دوزخی قرار دیا ہے جو قرآن کریم کی تفسیر وتشریح یا اس کے معانی اپنی رائے سے کرے اور جو تفسیر منقول وماثور چلی آرہی ہے اس کو ترجیح نہ دے بلکہ اس کے مقابلہ میں اپنی رائے سے کی گئی تفسیر وتشریح کو ترجیح دے، اپنے من گھڑت معنوں کو ہی فروغ دے۔
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
من قال فی القرآن برایہ فلیتبوأ مقعدہ من النار
مشکوۃ از ترمذی
جس نے قرآن کریم کے معنوں میں اپنی رائے سے کوئی بات کہی اسے چاہیے کہ وہ اپنا ٹھکانہ دوزخ میں سمجھے۔
ایک اور روایت میں ہے کہ جس نے قرآن کے معنوں میں اپنی رائے سے کچھ کہا وہ اپنا ٹھکانہ دوزخ میں سمجھے۔
طاہر القادری کا علمی وتحقیقی جائزہ صفحہ 30،29
معلوم ہوا کہ قرآن مقدس کے تراجم وتفاسیر میں یہ بات مد نظر رہے کہ وہ اپنی طرف سے نہ ہوں بلکہ اسلاف کی تشریحات ہی ہوں اور بحمد اللہ یہ بات ہم نےاہل السنت والجماعت دیوبند میں پائی کہ انہوں نے اسلاف کے تراجم کو ہی عام فہم انداز میں پیش کیا ہے۔ حکیم الامت شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ کے ترجمے کو اردو زبان میں ان کی اولاد نے ہی عام کیا اور ہمارے اکابر دیوبند نے انہی کے تراجم کو امت کے سامنے سہل انداز میں پیش کیا تاکہ قرآن مقدس میں اپنی رائے اور اپنی فہم کو دخل نہ ہو۔
بریلوی کے مصدقہ مقالہ ”کنز الایمان اور معروف تراجم قرآن“ میں ہے
صفحہ 65 پرہے: یہ بات بھی یقینی ہے کہ تفسیر جتنی قدیم ہوگی اتنی ہی زیادہ معتبر و مستند ہوگی کیونکہ اس کا زمانہ نزول قرآن سے قریب تر ہوتا چلا جاتا ہے۔ اسی لیے صحابہ کرام ،تابعین، تبع تابعین کی تفاسیر یا ان کے نقل کیے ہوئے اقوال متاٴخرین علماء کی تفاسیر سے نہ صرف زیادہ مستند،بلکہ ہمارے لیے حجت ہیں۔قرون اولی اور عہد وسطی میں علماء کو جو علم حاصل تھا الا ماشاء اللہ آج وہ ناپید ہے۔ ان کو اعتقاد ویقین میں درجہ کمال حاصل تھا اور ساتھ ہی ساتھ اہم اور بنیادی اعتقادات میں اہل السنت میں کوئی ٹکراؤبھی نہ تھا اس لیے ترجمہ قرآن کرتے وقت ضروری ہوگا کہ ان تمام تفاسیر سے مدد لی جائے۔
صفحہ 70پر ہے: فارسی ترجمہ قرآن میں جو مقبولیت شاہ ولی اللہ دہلوی کے ترجمہ قرآن کو حاصل ہوئی وہ کسی اور کو نصیب نہ ہوگی۔ اور اکثر مورخین شاہ ولی اللہ دہلوی کے ترجمہ قرآن کو اول مکمل فارسی زبان کا ترجمہ قرار دیتے ہیں۔
صفحہ 85پر ہے: شاہ برادران کے ترجموں نے حقیقت میں بر صغیر میں پاک وہند کے مسلمانوں پر احسان عظیم کیا کیونکہ اس وقت مسلمان بد ترین سیاسی حالات سے دوچار تھے اور ان کا علمی میدان بھی زوال آشنا تھا لیکن یہ صوفیاء کرام اور علماء حق کی بصیرت تھی کہ انہوں نے مستقبل کو دیکھ لیا اور قرآن تعلیمات کو جاری رکھنے کی خاطر اس کو اردو کے قلب میں ڈھال کر عوام کےلیے قرآنی تعلیمات کا راستہ کھلا رکھا۔
بریلوی حضرات نے خود ہی شاہ ولی اللہ کے ترجمے اور ان کے بیٹوں کے ترجموں کو ہندوستان کے مسلمانوں پر احسان عظیم قرار دیا ہے اور بحمداللہ یہ سعادت ہمیں ملی کہ ہم نے اسی قرآن فہمی کو آگے آسان کر کے منتقل کیا ، اپنی طرف سے تحقیق اور معانی کو اختیار نہیں کیا۔ مگر فاضل بریلوی صاحب تو ایسے نکلے کہ انہوں نے ماسبق تمام تراجم فارسی اردو کو غلط ٹھہرا کر ناقابل التفات قرار دیا۔ حالانکہ بریلوی تحقیق جیسا کہ گذرچکی ہے ترجمے اور تفسیر کےلیے پہلی تفاسیر سےمدد لینا ضروری ہے،تاکہ قرآن مقدس کےمعنوں میں اپنی رائے کو دخل نہ ہو، مگر فاضل بریلوی کا ترجمہ قرآن لکھوانے کا انداز کچھ یوں تھا
مولوی امجد علی نے فاضل بریلوی سے ترجمہ قرآن کی گذارش کی اور قوم کو اس کی جس قدر ضرورت ہے اسے ظاہر کرتے ہوئے اس کےلیے اصرار کیا۔ اعلی حضرت نے وعدہ تو کرلیا لیکن کثرت مشاغل کی وجہ سے تاخیر ہوگئی تو اعلی حضرت نے کہا کہ ترجمہ کےلیے مستقل وقت نکالنا مشکل ہے اس لیے آپ رات کو سونے کے وقت یا دن میں قیلولہ کے وقت آجایا کریں تو میں املا کرادوں۔ چنانچہ مولوی امجد علی صاحب ایک دن کاغذ اور دوات لے کر اعلی حضرت کی خدمت میں حاضر ہوگئے اور عرض کیا حضرت ترجمہ شروع ہوجائے چنانچہ اسی وقت ترجمہ شروع کرادیا۔ ترجمہ کا طریقہ ابتداء میں یہ تھا کہ ایک آیت کا ترجمہ ہوتا اس کے بعد اس کی تفاسیر سے مطابقت ہوتی اور لوگ حیران رہ جاتے کہ بغیر کسی کتاب کے مطالعہ وتیاری کے ایسا برجستہ اور مناسب ترجمہ تمام تفاسیر کے مطابق یا اکثر کے مطابق کیسے ہوجاتا ہے۔
انوار کنز الایمان صفحہ 87،86 انوار رضا، براہین صادق وغیرہا
اصلیت تو بتادی گئی کہ بغیر کسی کتاب کے مطالعہ اور تیاری کے، یہ ترجمہ کیا جاتا تھا مگر مبالغہ بھی کردیا کہ وہ تفاسیر کے ساتھ ملایاجاتا تھا اور مطابق تفاسیر نکلتا تھا۔ اس کے جھوٹ ہونے کےلیے ہماری یہ کتاب آپ کی رہنمائی کرے گی،سردست ہم اتنا ہی کہہ دیتے ہیں کہ فاضل بریلوی کو اگر تحقیق و تدقیق کے ترازو میں رکھا جائے تو سوائے جہالت کے کچھ بھی نظر نہیں آتا۔
بہر حال ماسبق کے تراجم اور تفاسیر کو مد نظر رکھے بغیر ترجمہ کیا گیا اسی وجہ سے تو رضا خان صاحب نے جابجا ٹھوکر کھائی ہے۔ بریلوی حضرات نے ماسبق کے تراجم کو نہ صرف ٹھکرایا بلکہ شاہ ولی اللہ کے خاندان پر جو تبصرہ کیا ہے وہ ہم اپنی کتاب ”حسام الحرمین کا تحقیقی جائزہ “سے پیش کرتے ہیں۔
شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ پر بریلوی فتاویٰ جات
1۔ بریلوی مذہب کی ریڑھ کی ہڈی جناب غلام مہر علی آف چشتیاں لکھتے ہیں
سارے فساد کی جڑ مولوی شیخ احمد معروف بہ شاہ ولی اللہ اور وہی سارنگی بجانے والے اس کے بیتے رفیع الدین وعبدالقادر ہیں۔۔۔ وہی مولوی احمد
الضدان یجتمعان
کا حیرت انگیز ہیولیٰ تھے اول سُنی پھر نجدی۔
معرکۃ الذنب صفحہ 7،8
آگے لکھتے ہیں:
خواجہ اللہ بخش تونسوی فرمایا کرتے تھے شاہ ولی اللہ نے ہگا، شاہ عبد العزیز نے اس پر مٹی ڈالی مگر اسماعیل نے اسے ننگا کرکے سارے ملک کو متعفن کردیا۔
معرکۃ الذنب صفحہ 8
قرآن مجید کا فارسی واردو میں غلط ترجمہ کرنے والوں میں اس فساد کی جڑ مولوی شیخ احمد الملقب شاہ ولی اللہ۔
معرکۃ الذنب صفحہ 15
مولوی محمد عمر اچھروی صاحب نے مقیاس حنفیت کے صفحہ 577پر شاہ صاحب کو وہابی لکھا ہے اور وہابی بریلویوں کی زبان میں گستاخ رسول کو کہتے ہیں جیسا کہ بریلوی عالم جلال الدین امجدی لکھتے ہیں
جس طرح حنفی شافعی اور رضوی میں نسبت ملحوظ ہے اس طرح وہابی میں نسبت ملحوظ نہیں بلکہ اب وہ نام ہے گستاخ رسول کا جیسے کہ لوطی میں لوط علیہ السلام کی طرف نسبت ملحوظ نہیں بلکہ وہ نام ہے لواطت کرنے والے کا۔
فتاوی فیض الرسول جلد 3صفحہ 261
دیکھیے ! شاہ ولی اللہ کو گستاخ بنا ڈالا۔
مفتی اقتدار احمد خان نعیمی لکھتے ہیں:
لایعنی، لغو اور کذب باتو ں نے شاہ ولی اللہ محدث دہلوی،شاہ عبد العزیز محدث دہلوی اور خواجہ حسن نظامی کو معاشرہ علمیہ میں مشکوک بنا دیا ہے کہ پتہ نہیں لگتا کہ یہ لوگ سنی ہیں یا شیعہ یا وہابی؟ ان لوگوں نے اپنی کتب میں کوئی بات شیعہ نوازی میں کہہ کر شیعہ فرقہ کو خوش کردیا کوئی بات وہابیوں کی تائید میں کردی۔ اس کج روی کی بنا پر مشکوک لوگ اہل السنت کے لیے قابل سند نہیں رہے۔
تنقیدات علی مطبوعات صفحہ 148
اور تقریباً یہی بات صفحہ 72پر بھی لکھی ہے۔
بریلوی جید عالم محمود احمد قادری لکھتے ہیں:
جس طرح مرزا قادیانی دجال کو اس کی در ثمین نہیں بچاسکتی اسی طرح شاہ ولی اللہ کو بھی اس کی در ثمین نہیں بچا سکتی۔
ریحان المقربین صفحہ 52
دوسری جگہ لکھتے ہیں:
شاہ ولی اللہ کی وہابیت کی وضاحت تو ہم پیر طریقت مناظر اعظم حضرت مولانا محمد عمر صاحب کی کتاب مقیاس حنفیت سے کر چکے ہیں، اب شاہ ولی اللہ کی شیعت کے بارے میں بھی ملاحظہ فرمائیں۔
ریحان المقربین صفحہ 89،90
حسام الحرمین کا تحقیقی جائزہ صفحہ 24،25،26
اب آئیے شاہ عبد العزیز محدث دہلوی رحمہ اللہ کی طرف۔ مولوی محمد عمر اچھروی شاہ ولی اللہ پر کئی الزامات لگاتے ہیں

اپنے والد کا عطیہ کھو بیٹھے۔

بزرگوں کی شان میں ہتک آمیز کلمات کہے۔

انبیاء واولیاء کی توہین کی۔

وہابی ہوگئے تھے۔

تمام علماء نے فتوی کفر ان پر صادر کیا۔

بڑے مذہبی مجرم تھے۔

ان کے اثرات شاہ عبدالعزیز پر بھی تھے۔
ملخصاً مقیاس حنفیت صفحہ 577،578
مفتی اقتدار احمد خان نعیمی بریلوی لکھتے ہیں:
اہل علم حضرات فرماتے ہیں چار حضرات کی باتیں قابل تحقیق ہیں، اکثر غلط ثابت ہوتی ہیں۔ شاہ ولی اللہ ،شاہ عبد العزیز
تنقیدات علی مطبوعات صفحہ 72
ایک جگہ یوں لکھا ہے:
رہا شاہ عبدالعزیز کا جواز لکھ دینا تو قرآن و حدیث فقہاء عظام کے مقابل ان چاروں کی حیثیت ہی کیا ہے ان کا تو اپنا کوئی مضبوط نظریہ نہیں۔
تنقیدات علی مطبوعات صفحہ 23
ایک جگہ یوں لکھتے ہیں:
عبد العزیز خود مشکوک شخصیت ہیں۔
تنقیدات علی مطبوعات صفحہ 180
حسام الحرمین کا تحقیقی جائزہ صفحہ 28،29
ڈاکٹر مجید اللہ قادری شاہ عبدالقادر محدث دہلوی کے ترجمہ کے متعلق لکھتے ہیں
یہ ترجمہ ان کے اسلاف کے عقائد سے ہٹ کر ہے۔
کنز الایمان اور معروف تراجم قرآن صفحہ 133
فاضل بریلوی لکھتے ہیں:
ترجمہ شیخ سعدی رحمہ اللہ کے سوا آج تک اردو فارسی جتنے چھپے ہیں کوئی صحیح نہیں۔
فتاوی رضویہ جلد10حصہ دوم صفحہ 127قدیم
ہم آگے چل کر کنزالایمان کی شیخ سعدی کے ترجمہ سے مخالفت بھی ظاہر کریں گے۔ القصہ بریلوی حضرات نے ان تراجم کو جو اسلاف کے علوم کے امین ہیں یکسر ٹھکرادیا۔ وجہ یہ تھی کہ ان لوگوں کو اپنے من مانے معانی اور مضامین کےلیے قرآن کا سہارا لینا تھا ورنہ ملک رضوی کی گاڑی چل نہ سکتی تھی۔ اس لیے انہوں نے ماسبق اور قبل کی تفاسیر وتراجم کو مد نظر نہیں رکھا اور اپنے خود تراشیدہ عقائد و نظریات کو قرآن سے ثابت کرنے لگے۔ یہ صریحاً سادہ لوح مسلمانوں سے ان کی دھوکہ دہی اور خیانت تھی۔
اب زیادہ سے زیادہ بریلوی حضرات کے گھر میں دو دلائل ہیں جن کی وجہ وہ ماقبل کے تراجم اور مترجمین سے کٹنے لگے کہ تراجم اصل نہیں محرف ہیں۔ توہم ان کی خدمت میں عرض کرتے ہیں کہ اگر اصل تراجم تمہارے پاس ہیں تو لاؤ دکھاؤتاکہ دیکھا جائے۔ اگر کسی بھی کتاب کے کے متعلق یہ بات کہی جاسکتی ہے کہ یہ محرف ہے تو یہی ترجمہ شیخ سعدی جس کی فاضل بریلوی تائید وتصویب کررہے ہیں کیا وہ اصل ہے؟ کیا وہ محرف نہیں؟ کیا دلیل ہے اس کے اصل ہونے اور محرف نہ ہونے کی؟ ظاہر ہے جو بھی دعوی محرف ہونے کا کرے گا ہم اسے کہیں گے کہ اصل لاکر دکھاؤتو ہم یہ محرف چھوڑ دیں گے۔
دوسرا اعتراض یہ ہے کہ ان تراجم میں اللہ تعالیٰ کی نسبت سے مکر، ہنسی، مذاق، گناہ، بے خبر، وغیرہا الفاظ ہیں جو کہ شریعت مطہرہ کی روشنی میں جرم ہیں تو ہماری طرف سے مختصرا عرض یہ ہے کہ مکر، ہنسی، مذاق، فریب، دغا، چال وغیرہ جتنے الفاظ بھی استعمال ہوئے ہیں اس کےلیے علم بلا غت کے اصول مشاکلت کو ہی پیش نظر رکھا جاتا تواعتراض کرنے کی نوبت ہی نہ آتی۔ پیر مہر علی شاہ صاحب بھیروی یہی بات بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں
نیز اہل عرب میں یہ عام محاورہ ہے کہ جب کوئی کام کسی فعل کی سزا دینے کےلیے کیا جائے تو اس کی تعبیر بھی اسی لفظ سے کردیتے ہیں جس لفظ سے اس کی تعبیر کی گئی ہو جس پر سزا یا عتاب کیا جارہاہے مثلا ً جزاء سیئۃ سیئۃ مثلہا یعنی برے فعل کی جزا بھی اسی طرح بری ہوا کرتی ہے۔ حالانکہ سزا؛ جو عدل وانصاف کا عین تقاضا ہوتی ہے؛ بری نہیں ہوتی۔ یا
نسوا اللہ فنسیہم
انہوں نے خدا کو بھلایا اور خدا نے ان کو بھلا دیا حالانکہ خدا کی ذات بھول سے پاک ہے لیکن ان کے بھلانے پر جو سزا دی گئی اس کو بھلانے سے تعبیر کیا گیا۔ اسی طرح استہزاء پر منافقین کو جو سزا دی گئی اس کو بھی استہزاء سے بیان کردیا کیونکہ یہ استعمال محاورہ عرب کے عین مطابق تھا۔
ضیاء القرآن جلد 1صفحہ 36،37
مگر بریلوی حضرات کو یہ علمی باتیں تو سمجھ میں آنے والی نہیں اس لیے ہم کوشش کرتے ہیں ان کو ان کی زبان میں سمجھایا جائے۔
مولوی احمد رضا خان بریلوی اپنی کتاب حدائق بخشش حصہ سوم صفحہ 41 پر لکھتے ہیں
مکرِ حق تھا بڑا۔
دیکھیں! خدا کے مکر کو بڑا کہہ رہے ہیں۔
مفتی احمد یار خان نعیمی گجراتی بریلوی ومکروا ومکر اللہ کی آیت کے تحت لکھتے ہیں
رب کے مکر سے بے خوف نہ ہوؤ۔
تفسیر نعیمی جلد3
مولوی عبدالرزاق بھترالوی لکھتے ہیں:
اللہ تعالی کی طرف سے مکر کی نسبت دو وجہ سے ہے۔
تسکین الجنان فی محاسن کنز الایمان صفحہ 179
پیر مہر علی شاہ صاحب لکھتے ہیں:
الہی مکر غالب رہتا ہے۔
مہر منیر صفحہ 248سیف چشتیائی صفحہ 77
تو اب کیا ان اپنے بزرگوں سے بھی ہاتھ دھو لو گے؟
اسی طرح استہزاء کی طرف آئیے،گولڑہ شریف کی وظائف چشتیہ میں ہے
اللہ ان سے ٹھٹھا فرماتے ہیں۔
وظائف چشتیہ مترجم صفحہ 7
مفتی محمد حسین نعیمی اور ڈاکٹر سرفراز نعیمی کے مصدقہ ترجمہ میں ہے
اللہ ان سے مذاق کرتا ہے۔
آسان ترجمہ قرآن صفحہ7
مولوی ابو الحسنات قادری اللہ یستہزیٔ بہم کے تحت لکھتے ہیں
اللہ تعالی تمسخر کرےگا۔
آگے لکھتے ہیں:
اللہ تعالی کا ٹھٹھہ کرنا یہ ہے۔
التفسیر الحسنات جلد1 صفحہ 149، 150 البقرہ آیت نمبر 15
مولوی عزیز احمد اور مولوی عبدالمقتدر بد ایونی صاحب لکھتے ہیں
خدا وہاں ان سے ہنسی کرے گا۔
تفسیر ابن عباس جلد 1صفحہ 16
کیا ان بریلوی بزرگوں سے ہاتھ اٹھا لیا جائے گا؟ اسی طرح بھول کی طرف آئیے۔ بریلوی علامہ احمد سعید کاظمی الیوم ننساہم کا ترجمہ یوں کرتے ہیں
آج ہم انہیں فراموش کردیں گے۔
البیان صفحہ 202 سورۃ الاعراف آیت 51
مفتی مظہر اللہ صاحب دہلوی نسوا اللہ فنسیہم کا ترجمہ یوں کرتے ہیں
اللہ بھی ان کو بھول گیا۔
مظہر القرآن جلد1صفحہ 563
ابوالحسنات قادری لکھتے ہیں:
اللہ نے انہیں بھلادیا۔
تفسیر الحسنات جلد2صفحہ 722
مولوی عزیز احمد اور مولوی عبد المقتدر بدایونی کی مشترکہ تحقیق ہے
بروز قیامت ہم بھی ان کو بھول جائیں گے۔
تفسیر ابن عباس جلد1صفحہ 403
کیا بریلوی ان اکابر بریلویہ کے خلاف بھی بولے ؟اگر نہیں تو کیوں ؟
لیعلم اللہ، اور لنعلم کا ترجمہ
مفتی احمد یار خان نعیمی گجراتی لکھتے ہیں:
لیعلم اللہ {الحدید}تاکہ اللہ جان لے یا فرمایا گیا
ولما یعلم اللہ الذین جاھدوا
ابھی تک اللہ نے مجاہدوں کو نہ جانا۔
نور العرفان صفحہ 323سورۃ النحل آیت نمبر 19حاشیہ نمبر 8
بریلوی جنید زمان مولوی محمد عمر اچھروی لکھتے ہیں:
تاکہ معلوم کرے اللہ تعالی کہ کون ڈرتا ہے اس سے بن دیکھے۔
مقیاس حنفیت صفحہ 292 المقیاس پبلشرز لاہور
مفتی محمد حسین نعیمی اور ڈاکٹر سرفراز نعیمی کے مصدقہ ترجمہ قرآن میں ہے
تاکہ ہم معلوم کریں۔
آسان ترجمہ قرآن پارہ نمبر 2سورۃ البقرہ آیت نمبر 143صفحہ 53
اب ان بریلوی علماء وزعماء کو معاف کیوں کیا جائے؟ یہ الفاظ اگر ہمارے اکابر استعمال کریں تو وہ گستاخ، اگر بریلوی اکابر استعمال کریں تو وہ پھر بھی سکہ بند عاشق! یہ قوم شعیب علیہ السلام کا عمل کیوں ؟کیا عذاب خداوندی کو دعوت ہے ؟
مغفرت ذنب
رضا خانی حضرات کو اس مسئلہ میں بھی ہمارے متعلق کچھ کہنے سے پہلے اپنے گھر کی ضرور خبر لینی چاہیے اور فتوی بازی کرنے سے پہلے اپنے علماء کو بھی دیکھنا چاہیے۔ اگر اسلاف میں سے کسی نے ترجمہ یوں کیا ہے، تاکہ تیرے اگلے پچھلے گناہ اللہ معاف کرے، تو اعتراض نہیں کرنا چاہیے کیونکہ یہ ترجمہ قرآن ہے اور قرآن مقدس میں اللہ کریم نے اپنے محبوب سے خطاب کیا ہے اور وہ جیسے چاہے اپنے محبوب کو خطاب کرے۔ باقی امت میں سے کوئی مسلمان بھی سرکار طیبہ صلی اللہ علیہ وسلم کو گناہ گار کہنا تو درکنار، ایسا سوچنا بھی درست نہیں سمجھتا بلکہ بہت بڑا جرم سمجھتا ہے۔ اگر کسی کی سمجھ میں بات نہ آئے تو ہم رضاخانی حضرات کو پکڑ کر سامنے کیے دیتے ہیں۔
اعلی حضرت
واستغفر لذنبک
کا ترجمہ یوں کرتے ہیں
مغفرت مانگ اپنے گناہوں کی۔
فضائل دعا صفحہ 86مکتبہ المدینہ
مولوی نقی علی خان جن کو فاضل بریلوی معجزہ من معجزات سید المرسلین کہتے ہیں، وہ یوں ترجمہ کرتے ہیں
تاکہ معاف کرے اللہ تیرے اگلے پچھلے گناہ۔
الکلام الاوضح فی تفسیر سورۃ الم نشرح صفحہ 62
مولوی سردار احمد فیصل آبادی کہتے ہیں:
جب نازل ہوئی آیت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر آپ کے اگلے پچھلے تمام گناہ بخش دیے گئے تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ آیت مجھے روئے زمین سے زیادہ محبوب ہے۔
التصدیقات لدفع التلبیسات صفحہ 250
علامہ فضل حق خیر آبادی
واستغفر لذنبک
کے ترجمہ میں لکھتے ہیں
آمرزش بخواہ برائے گناہ خود
شفاعت مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم صفحہ 270
یعنی آپ اپنے گناہ کی معافی مانگیں۔
کیا بریلوی اپنے ان اکابر کو بھی کافر و گستاخ کہنے کی جسارت کرسکتے ہیں؟ کبھی بھی نہیں کہیں گے حالانکہ صراحۃً گناہ کی نسبت نبی محترم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف کی گئی ہے۔ تو جو جواب یہ لوگ اپنے اکابر کا دیں گے وہی جواب اسلاف اور اکابر امت کی طرف سے ہم عرض کردیں گے۔
اس کے بعد ضرورت تو نہیں رہتی مگر میں سورۃ الضحی کی آیت نمبر 8کے متعلق بھی کچھ عرض کردوں تو مفید رہے گا۔ قرآن مقدس نے آکر نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی راہنمائی اور رہبری کے لیے واضح راستہ دیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پیغام کو لے کر انسانیت پر محنت کی اور امت پھر اس نہج پر پہنچی کہ خدا تعالی کی طرف سے سلام آنے لگے۔
ظاہر بات ہے کہ یہ جو پہلے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو لوگوں کے احوال کو دیکھ کر بے قراری و پریشانی تھی، کسی نے اس کیفیت کی وجہ سے بھٹکتا کہا {کیونکہ لغت میں بھٹکتے پھرنا کے معنوں میں حیران وسرگردان پھرنا، جستجو کرنا، تلاش کرنا بھی لکھا گیا ہے، فیروز اللغات صفحہ 232}اور کسی نے اس بات کو مد نظر رکھا کہ چونکہ آپ کی حیرانی اور بے قراری کے بعد آپ کو لوگوں کی ہدایت کا واضح راستہ دیا گیا تو اس آیت میں یہ بات کی گئی کہ آپ اس سے پہلے شریعت کے واضح راستہ سے؛ جو امت کےلیے آپ کو دیا گیا آپ بے خبر تھے یعنی آپ کو یہ بات اس سے پہلے معلوم نہ تھی۔
اگر رضا خانی حضرات کو یہ بات سمجھ آجائے تو بہت اچھا ورنہ ہم ان کے علاج کےلیے الز امی ادویہ بھی رکھتے ہیں تاکہ علاج بالمثل ہو۔ اس سے پہلے ہم اکابرین سے یہ ترجمہ نقل کرتے ہیں۔ دیکھیے شیخ سعدی رحمہ اللہ ترجمہ کرتے ہیں
یافت ترا جائے گم کردہ پس راہ نمود
ترجمہ شیخ سعدی صفحہ 903جدید،صفحہ 1249قدیم
تفسیر حسینی میں ہے:  یاد رہے کہ اس کو بریلوی حضرات نے معتبر لکھا ہے}
یافت ترا خدائے تو راہ گم کردہ۔
التفسیر حسینی بر حاشیہ ترجمہ شیخ سعدی صفحہ 1249
شاہ ولی اللہ محدث دہلوی لکھتے ہیں:
یافت ترا راہ گم کردہ یعنی شریعت نمی دانستی پس راہ نمود
ترجمہ شاہ ولی اللہ بحوالہ انوار کنز الایمان صفحہ531
شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی لکھتے ہیں:
یافت ترا راہ گم کردہ پس راہ نمود
تفسیر عزیزی بحوالہ تحقیقات اشرف سیالوی صفحہ 181
تقریباً سب نے ایک ہی بات کی ہے۔ اب فارسی عبارت کا ترجمہ بھی بریلوی عالم مولوی اشرف سیالوی صاحب سے سنیے، وہ شاہ صاحب کی عبارت کا ترجمہ کرتے ہوئے کہتے ہیں
تمہیں راہ گم کرنے والا پایا پس تمہیں راہ دکھائی۔
تحقیقات صفحہ 183
اور آگے بھی سیالوی صاحب کی زبانی شاہ صاحب رحمہ اللہ کی بات سنیے سیالوی صاحب لکھتے ہیں
نہ آپ کو کتاب پڑھنے کی قوت واستعداد تھی تو ناچار آپ ملت ابراہیم علیہ السلام کے احکام کی تلاش وجستجو میں بے تاب اور بے قرار تھے۔ اور جو کچھ اس میں سے معلوم ہوسکا تھا یعنی تسبیحات وتہلیلات اورتکبیرات،اعتکاف،غسل جنابت، مناسک حج کی ادائیگی اور خلوت گزینی وغیرہ قسم کے اعمال وافعال میں آپ مشغول اور مصروف رہنے لگے۔ تا آنکہ اللہ تعالی نے وحی کے ذریعے ملت حنیفی کے اصول و قواعد سے آگاہ کیا اور اس ملت کے فروعات کو واضح طریقہ پر آپ کےلیے متعین فرمایا۔ اس وقت وہ پیاس اور بےتابی آپ کی زائل ہوگئی جوان اصول وفروع کے معلوم ہونے سے قبل درپیش تھی گویا آپ کو اپنی گم شدہ متاعِ عزیز دوبارہ دستیاب ہوگئی۔
اور آپ کی دلی آرزو تھی کہ راہ ابراہیمی پر چلُوں اور وہ راہ آپ کو معلوم نہیں ہورہی تھی تو اس راہ راست اور صراط مستقیم کو آپ پر آشکارا کردیا گیا الغرض اس پیاس و جستجو وتلاش اور بے چینی و بے تابی جو راہ راست کے دریافت ہونے سے قبل درپیش تھی اس کو ضلالت اور راہ راست دریافت نہ کرسکنے سے تعبیر کیا گیا ہے۔
تفسیر عزیزی بحوالہ تحقیقات صفحہ 183
امید ہے ہمارے تراجم سے الزام تو چھٹ گیا ہوگا۔ اب بھی اگر رضاخانی غصہ نہ اُترا ہو تو ان کو بھی دیکھ لیجئے:
فاضل بریلوی کے ابا حضور لکھتے ہیں:
ووجدک ضالا فھدی
اور پایا تجھے راہ بھولا پھر تجھے راہ بتائی یعنی جس راہ سے چلا چاہتے تھے وہ راہ نظر نہیں آتی تھی ہم نے اپنے فضل و کرم سے تم کو اس پر مطلع فرمایا۔ پس یہاں راہ کا نہ پانا ضلالت سے کہ بمعنی راہ گم کرنے کے ہے تعبیر کیا گیا۔ مفسرین اس بات کو اچھی طرح نہ سمجھے کہ نزول وحی سے پہلے احکام شریعت سے جہالت اور حق دین کی طلب اور تلاش منافی مرتبہ نبوت نہیں۔
الکلام الاوضح فی تفسیر سورۃ الم نشرح صفحہ67
بریلوی محقق پروفیسر عرفان قادری صاحب لکھتے ہیں:
تفسیر تاویلات اہل السنت میں ووجدک ضالا کی تشریح کرتے ہوئے
اعلم الخلق عالم ماکان ومایکون
حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کےلیے لفظ جاہل کا استعمال اور مولانا اشرف سیالوی بریلوی کا بالخصوص اس قول کو پسند کرنا بھی ایک تشویش ناک امر ہے۔
نبوت مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم ہر آن ہر لحظہ صفحہ 74
آپ کے سیالوی صاحب نے ضالا کا معنی جاہل پسند کیا ہے کیا یہ نبوت کے شایان شان ہے؟ عرفان صاحب! غصے کی ضرورت نہیں ہے وہ اس لیے کہ جہالت کا لفظ تو آپ کے اعلی حضرت کے والد نقی علی خان بھی نقل کرچکے ہیں لہذا اگر سیالوی صاحب نے کردیا ہے تو یہ اکابر بریلویہ کی تحقیق وتدقیق پر عمل ہے ویسے آپ نے
عالم ماکان وما یکون
لکھ کر کوئی اچھا کام نہیں کیا۔
اور اگر کسی کو اعلی حضرت کے ترجمہ پر ناز ہو کہ "اپنی محبت میں خود رفتہ پایا" یہ ترجمہ بڑا ہی اچھا ہے تو فاضل بریلوی کے والد نے خود اس کو رد کردیا ہے۔ دیکھیے وہ لکھتے ہیں
بعض
ضلال کو استغراق فی المحبۃ
اور ہدایۃ کو مطلوب کی راہ دکھانے اور ہر بات کی اونچ نیچ سمجھانے سے تفسیر کرتے ہیں اور آیت کریمہ
انک لفی ضلالک القدیم
سے اس معنی پر استدلال کرتے ہیں۔ اور اس استغراق اور راہ دکھانے اور اونچ نیچ سمجھانے کو مرتبہ بقا وفنا سے تعبیر کرنا بھی ممکن نہیں کہ کمال ہر عمدہ مرتبہ اور مقام کا آپ کی ذات پاک میں منحصر ہے لیکن اصل معنی وہ ہیں جو پہلے مذکور ہوئے یعنی پایا تجھے راہ بھولا پھر تجھے راہ بتائی ابن عباس وحسن بصری وضحاک وشہر بن حوشب اسی معنی کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔ آیت کریم
ہ ماکنت تدری ما الکتاب ولا الایمان
موید ان کی ہے۔
الکلام الاوضح صفحہ 67،68
خان صاحب بریلوی کے والد نے بتادیا کہ "راہ بھولا" یہ معنی موید من القرآن ہے۔اب صاف پتہ چلا کہ فاضل بریلوی نے صرف والد کی مخالفت کی بلکہ قرآن کی بھی مخالفت کی ہے۔
رضاخانی محقق اور قائد بریلویت مولوی اشرف سیالوی زد میں
مولوی اشرف سیالوی جسے قائد بریلویت سمجھا جاتا ہے؛ تفصیل کےلیے دیکھیے "مناظرہ گستاخ کون؟" جسے مولوی حنیف قریشی صاحب کی ایما پر کتابی سورت میں لایا گیا ہے؛ یہ اشرف سیالوی صاحب لکھتے ہیں
علماء دیوبند نے ووجدک ضالا کا ترجمہ یہ کیا ہے پایا تجھے گمراہ۔
حاشیہ مناظرہ جھنگ صفحہ 165
دوسری جگہ سیالوی صاحب مولانا حق نواز جھنگوی شہید کو مخاطب کر کے لکھتے ہیں
آپ کے بزرگوں نے گمراہ کے لفظ سے ترجمہ کردیا یعنی اللہ تعالی نے آپ کو گمراہ پایا پس ہدایت دی۔
مناظرہ جھنگ صفحہ 246
کیا میں رضاخانی قوم سے پوچھنے کی جسارت کرسکتا ہوں کہ کہا ں اہل السنت دیوبند نے ضالا کا ترجمہ گمراہ لکھا ہے؟ یہ جو آپ نے ہمارے سر حوالہ ڈالا ہے کیا آپ دکھا سکتے ہیں ؟اگر نہیں تو پھر بگوش ہوش سنیے۔ آپ کے مفتی مظہر اللہ دہلوی صاحب لکھتے ہیں:
کسی کی اہانت کرنے کا ایک یہ ہی طریقہ ہے اور بڑا خوبصورت کہ اپنے کو اس کا خیر خواہ اور غم خوار ظاہر کرتے ہوئے دوسرے شخص پر تہمت لگاتے ہوئے یوں کہتا ہے کہ فلاں شخص آپ کو ایسی ایسی فحش گالیاں دیتا ہے۔ اس طریقہ سے وہ گالیا ں دے کر اپنا دل ٹھنڈاکرلیتا ہے اور ظاہر میں اس کا خیر خواہ بھی بنا رہتا ہے۔
فتاوی مظہریہ صفحہ 397
میں بریلویوں رضاخانیوں سے پوچھتا ہوں جب گمراہ کا لفظ اہل السنت دیوبند نے تو ووجدک ضالا کے ترجمہ میں استعمال نہیں کیا اور تم نے ہم پر الزام لگا کر خود کو لوگوں کی نظروں میں خیر خواہِ ناموسِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم ظاہر کیا مگر در حقیقت اپنے اندر کے بغضِ رسالت کو تسکین دی کہ انہیں العیاذباللہ گمراہ کہہ دیا۔ جب قائد ہی اذا کان الغراب دلیل قوم ہو تو پھر ہلاکت کا گڑھا ہی مقدر بنتاہے۔
مفتی محمد حسین نعیمی اور ڈاکٹر سرفراز نعیمی صاحب کے مصدقہ اور مویدہ ترجمہ میں اس آیت کا ترجمہ یوں ہے
آپ کو بے خبر پایا تو ہدایت دی۔
آسان ترجمہ قرآن صفحہ1296
مولوی حشمت علی قادری رضوی لکھتے ہیں:
اور پایا تمہیں راہ سے بھٹکا ہوا پس ہدایت فرمائی راہ دکھائی۔
نصرۃ الواعظین وعظ نمبر 15صفحہ 88
اور پایا تمہیں بیابان مکہ میں راہ بھولا پس راہ دکھلائی۔
نصرۃ الواعظین صفحہ 90
پایا تمہیں کوہستان مکہ میں حیران وششدر راہ بھولا پس راہ دکھائی۔
ایضاً
ہاں جی! اب جو سزا اسلاف امت کےلیے تجویز کی گئی تھی کیا اسی پھندے پر رضاخانی اکابر کو لٹکایا جائے گا؟ مگر رضاخانی مولوی یہ نہیں کرسکیں گے۔ اگر فاضل بریلوی اور اپنے دیگر اکابر کو بے ایمان، کافر و گستاخ کہہ کر دکھائیں تو پتہ چلے۔
کنز الایمان کی بریلوی مستند تراجم سے مخالفت
بریلوی حضرات نے کئی کتابوں کے متعلق یہ تاثر دیا ہے کہ یہ کتب نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بارگاہ میں قبول ومنظور فرمائیں تو ہمارا بریلویوں سے سوال ہے کہ جب کتاب مقبول ومنظور ہوئی تو اس میں موجود تراجم بھی مقبول ومنظور ہوئے۔ اب ہم ان کتب کو سامنے لاتے ہیں جن کے متعلق زعماء بریلویہ نے یہ خبریں مشہور کی ہیں کہ ان کتب کو جناب رسالت مآب رحمت دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بارگاہ میں قبول فرمایا ہے۔
ہم ان کے تراجم کو ایک طرف اور فاضل بریلوی کے کنز الایمان کو دوسری طرف رکھیں گے تاکہ دنیا دیکھ لے جن کو بریلوی بارگاہِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم میں مقبول ومنظوروپسندیدہ کہہ رہے ہیں فاضل بریلوی کا ترجمہ ان کے خلاف ہے۔ گویا کنز الایمان مشیت و مرضی نبوت کے بھی خلاف ہے۔ القصہ، مولوی اشرف سیالوی صاحب جن کے مرنے کے بعد بریلوی مسلک کے بیسیوں علماء واکابر نے انہیں خراج عقیدت پیش کیا ہے وہ کہتے ہیں
زندگی کا سب سے خوش گوار لمحہ: جب کوثر الخیرات کتاب کی تصنیف کے بعد سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے بالواسطہ قبولیت کا مژدہ سنا۔
مجلہ حجۃ الاسلام کا اشرف سیالوی نمبر صفحہ49
مولوی ضیاء اللہ سیالوی لکھتے ہیں:
اس کتاب کوثر الخیرات کی خصوصیت یہ بھی ہے کہ یہ بارگاہ مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم میں مقبول ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے سندھ کے ایک سید صاحب کو خواب میں حضرت اشرف العلماء کو سلام کہنے کا حکم دیا اور اس کتاب کو پسند فرمانے کی نوید بھی سنائی دی۔
مجلہ حجۃ الاسلام کا اشرف سیالوی نمبر 269
بریلوی محدث اعظم کے مرید اللہ بخش صاحب نے مولوی اشرف سیالوی صاحب کو خط لکھا
آپ کی تازہ تصنیف ”تحقیقات“ میں جس طرح آپ نے تحقیق فرمائی ہے اس کا شکر یہ ادا ہی نہیں ہوسکتا۔ یہ کتاب پڑھ کر دل نے کئی مرتبہ کہا کہ سیالوی صاحب کو مبارک باد دوں لیکن میرے پاس الفاظ نہ تھے۔ اسی کشمکش میں پرسوں مَیں قرآن مجید کی تلاوت کے لیے بیٹھا، دورا ن تلاوت اونگھ آگئی۔ لاالہ الا اللہ محمد رسول اللہ میں خواب میں دیکھتا ہوں کہ سید عالم صلی اللہ علیہ وسلم جلوہ فرما ہیں اور مجھے کہہ رہے ہیں اللہ بخش! تم کیوں تذبذب میں پڑے ہو محمد اشرف سیالوی کو کتاب تحقیقات پر مبارک باد کیوں نہیں دیتے۔
تحقیقات صفحہ 52
بریلویو ں میں مسلمہ عالم مولوی عبدالحکیم شرف قادری صاحب لکھتے ہیں:
وباعث مزید احترام او این است کہ سبع سنابل تصنیف او در جناب رسالت پناہ مقبول افتادہ۔
سبع سنابل فارسی صفحہ1مکتبہ قادریہ لاہور
یعنی میر عبد الواحد بلگرامی رحمۃ اللہ علیہ کےلیے مزید احترام کا باعث یہ بات بھی ہے کہ ان کی کتاب سبع سنابل آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ میں مقبول ومنظور ہوئی۔ یہی شرف قادری صاحب اپنی کتاب میں لکھتے ہیں
مولانا الحاج عبدالحمید لدھیانوی نے خواب میں آپ کی وفات کے ایک ماہ بعد آپ کو ایک باغ میں سنہری تخت پر بیٹھے ہوئے دیکھا تو دریافت کیا کہ اس اعزاز کی وجہ کیا ہے؟ مولانا توکلی صاحب نے جواب دیا میرے اللہ کو میری کتاب سیرت رسول عربی صلی اللہ علیہ وسلم پسند آگئی اور مجھے یہ انعام ملا۔
عظمتوں کے پاسبان صفحہ 343
دوسری جگہ لکھتے ہیں:
سیرت رسول عربی صلی اللہ علیہ وسلم عوام میں بے پناہ مقبول ہوئی اور بارگاہ الہی اور دربار مصطفائی میں حضرت مصنف کےلیے ذریعہ اعزاز واکرام بنی۔
عظمتوں کے پاسبان صفحہ342
قارئین گرامی قدر!ہم ان چار عدد کتابوں پر ہی اکتفا کرتے ہیں ورنہ یہ سلسلہ بہت لمبا ہے۔ بریلوی حضرات نے اپنے اکابر و اعاظم کی شان و منقبت کو چار چاند لگانے کےلیے جو باتیں لکھیں ہیں ہم ان پر تبصرہ کا حق محفوظ رکھتے ہیں، پھر کسی وقت عرض کریں گے۔ سر دست یہی کہتے ہیں کہ بقول ان کے یہ کتب سرکار طیبہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ میں مقبول ہیں تو وہ تراجم جو ان کے اندر موجود آیات کے ہیں وہ بھی پسندیدہ اور مقبول و منظور ہوئے۔ تو فاضل بریلوی کا ترجمہ جب سراسر ان کے خلاف ہوا تو وہ بارگاہ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف ہونے کی وجہ سے مردود ہوا ! یہ تحقیق ہم نے بریلوی حضرات کے گھر سے کی ہے تا کہ وہ اسے جلدی قبول فرمائیں ورنہ ہم تو کب سے اسے مسترد قرار دے چکے ہیں۔ بہر حال اب آئیے اور دیکھیے بقول بریلویہ یہ ترجمہ کنز الایمان، مقبولِ بارگاہِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم تراجم کے خلاف ہے۔
(1) بسم اللہ الرحمن الرحیم اللہ کے نام سے شروع جو بہت مہربان رحمت والا۔
کنز الایمان صفحہ 2
جب کہ سیرت رسول عربی صلی اللہ علیہ وسلم مطبوعہ تاج کمپنی کے صفحہ 109، 214، 216، 217، 220، 221، 222، 223، 225 اور 226 پر تسمیہ کا ترجمہ یوں ہے
شروع خدا کا نام لے کر جو بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے۔
جب کہ بریلوی مسلک میں اس ترجمہ کو کمال شمار نہیں کیا گیا۔ تفصیل کےلیے دیکھیے مولوی شیر محمد جمشید کی کتاب ”آؤفیصلہ کیجیے“۔
(2) ذلک الکتاب لاریب فیہ
البقرہ آیت نمبر 2
وہ بلند رتبہ کتاب {قرآن }کوئی شک کی جگہ نہیں اس میں۔
کنز الایمان
جب کہ کوثر الخیرات میں صفحہ 52پر ترجمہ یوں ہے:
یہ قرآن ہی وہ کامل کتاب ہے جس میں ریب و شک کی گنجائش نہیں۔
فاضل بریلوی نے فیہ جو کہ ظرف ہے اس کا ترجمہ دو دفعہ کر ڈالا ہے ایک دفعہ "جگہ" کیا اور دوسری دفعہ "اس میں" کردیا شاید اسی لیے بریلویوں نے اسے مقبول بارگاہ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم نہ کہا۔
(3) اللہ یستھزیٔ بھم
البقرہ آیت نمبر 15
اللہ ان سے استہزاء فرماتا ہے جیسا کہ اس کی شان لائق ہے 
کنز الایمان
جب کہ سیرت رسول عربی صلی اللہ علیہ وسلم میں صفحہ 459 پر ترجمہ یوں ہے:
اللہ ہنسی کرتا ہے۔
بریلوی مذہب میں اس ترجمہ پر فتاوی جات کی بھر مار ہے۔ تفصیل کے لیے انوار کنز الایمان دیکھیے۔
(4) وما جعلنا القبلۃ التی کنت علیہا الا لنعلم
البقرہ آیت نمبر 33
اور اے محبوب تم پہلے جس قبلہ پر تھے وہ اسی لیے مقرر کیا تھا کہ دیکھیں کون رسول کی پیروی کرتا ہے۔
کنز الایمان
جب کہ سیرت رسول عربی میں ہے صفحہ 127پر:
اور نہیں مقرر کیا ہم نے قبلہ اس کو جس پر تو پہلے تھا {یعنی کعبہ } مگر اسی واسطے کہ معلوم کریں کون تابع رہے گا رسول کا۔
فاضل بریلوی نے "کہ معلوم کریں" کے بجائے "کہ دیکھیں" ترجمہ کیا ہے۔ اس کی وجہ بریلوی حضرات یہ بتاتے ہیں کہ اس ترجمہ سے چونکہ یہ خدشہ پیدا ہوتا ہے کہ پہلے اللہ کو معلوم نہیں اور وہ اب معلوم کرنا چاہتا ہے اس لیے فاضل بریلوی نے "دیکھیں" کا ترجمہ کیا۔
گذارش ہے کہ اس سے تو خداوند تعالی کے دیکھنے کی نفی بھی تمہارے اصول سے ہوگی، وہ بھی تو درست نہیں! سیدھی بات یہ کہو چونکہ اس قسم کی بونگیاں فاضل بریلوی نے ماری ہیں اس لیے یہ ترجمہ دربار رسالت میں مقبول ومنظور نہیں۔
(5) الحق من ربک فلا تکونن من الممترین
آل عمران آیت نمبر 60
اے سننے والے یہ تیرے رب کی طرف سے حق ہے تو شک والوں میں نہ ہونا۔
کنز الایمان
جب کہ سیرت رسول عربی صلی اللہ علیہ وسلم کے صفحہ 558پر یوں ہے
حق بات ہے تیرے رب کی طرف سے پس مت رہ شک میں۔
فاضل بریلوی نے اس آیت کو نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم سے ہی پھیر دیا ہے جب کہ بریلوی مسلک کی مقبول ومنظورِ بارگاہ رسالت کتاب کہتی ہے کہ اس کا خطاب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف ہے۔ اب بریلوی عوام کس کی مانیں؟ ظاہر ہے فاضل بریلوی کو ہی چھوڑ نا پڑے گا نہ کہ بارگارہِ رسالت میں پسندیدہ ومنظور ترجمہ کو۔
(6) فلا وربک لا یومنون حتی یحکموک فیما شجر بینہم
النساءآیت نمبر 65
تو اے محبوب تمہارے رب کی قسم وہ مسلمان نہ ہوں گے جب تک کہ آپس کے جھگڑے میں تمہیں حاکم نہ بنائیں۔
کنز الایمان
جب کہ سبع سنابل میں یوں ہے:
یعنی ایمان ایشان وقتی کامل گردد کہ ترا اے محمد حاکم خویش گردانند
سبع سنابل صفحہ 39
یعنی ان کا ایمان اس وقت کامل ہوگا جب اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم تجھے اپنا حاکم بنالیں۔
بریلوی دعوی کے مطابق بارگاہِ رسالت میں پسند یدہ و منظور شدہ کتاب میں "اے محمد" ہے جب کہ فاضل بریلوی تو "یا محمد" کہنا ناجائز اور حرام سمجھتے ہیں۔
دیکھیے الکوکبۃ الشہابیۃ اور تجلی الیقین
اب فاضل بریلوی تو حرام کہے جب کہ بریلوی مسلک کے ہاں "مقبول ومنظورِ بارگاہِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم" میں" اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم" ہے اب معلوم ہوا کہ فاضل بریلوی اور ان کا ترجمہ مطرود ومطعون ہے۔
(7) یا ایھا النبی قل لمن فی ایدیکم من الاسری
الانفال آیت 70
اے غیب کی خبریں بتانے والے جو قیدی تمہارے ہاتھ میں ہیں ان سے فرماؤ۔
کنز الایمان
جب کہ سیرت رسول عربی صلی اللہ علیہ وسلم کے صفحہ 161 پر ہے
اے نبی کہہ دے ان کو جو تمہارے ہاتھ میں قیدی ہیں۔
اب بقول تمہارے پسند و منظور ترجمہ "اے نبی" ہے اور اس کو چھوڑ کر "اے غیب کی خبریں بتانے والے" کرنا خلاف پسند و قبولیت ہے۔ اب بھی اگر کوئی فاضل بریلوی کے ترجمہ کو یہ کہے کہ یہ اردو زبان میں خدا کا قرآن ہے تو اسے مسلک بریلویہ کےمطابق سزا ہونی چاہیے۔
(8) ویمکرون ویمکر اللہ واللہ خیر الماکرین
الانفال آیت 30
اور وہ اپنا سا مکر کرتے تھے اور اللہ اپنی خفیہ تدبیر فرماتا ہے اللہ کی خفیہ تدبیر سب سے بہتر ہے۔
کنز الایمان
جب کہ سیرت رسول عربی صلی اللہ علیہ وسلم کے صفحہ 99پر ہے
اور وہ بد سگالی کرتے تھے اور اللہ بدسگالی کرتا تھا اور اللہ اچھا بدسگالی کرنے والوں کا ہے۔
اب بتاؤرضا خانیو! اب کیا کروگے؟ جسے مقبول ومنظور مانا وہ تو خدا تعالی کے لیے "بدسگالی" کا لفظ استعمال کررہاہے۔ بہرحال ہم فی الحال اس پر تبصرہ نہیں کرتے اب مقبول ومنظور لفظ تو یہ تھا فاضل بریلوی نے ”خفیہ تدبیر“ ترجمہ کیا جو یقیناً تمہارے اصول سے مقبول و منظور کے خلاف ہونے کی وجہ سے مردود ہے۔
فاضل بریلوی اپنے ہی اصول کی زد میں
فاضل بریلوی نے یہ لفظ خدا کے شایان شان سمجھ کر لکھا ہے مگر دوسری جگہ اپنے اصول سے خود ہی ٹھوکر کھاکر ہٹ گئے ہیں۔
مثلاً دیکھیے:
فالذین کفروا ہم المکیدون
سورہ طور آیت 42
تو کافروں پر ہی داؤپڑنا ہے۔
کنز الایمان
حاشیہ میں نعیم الدین مراد آبادی لکھتے ہیں:
ان کے مکر وکید کا وبال انہی پر پڑا چنانچہ ایسا ہی ہوا۔ اللہ تعالی نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کے مکر سے محفوظ رکھا اور انہیں بدر میں ہلاک کردیا۔
خزائن العرفان، حاشیہ نمبر 55
معلوم ہوا کہ خدانے جو ان کو ہلاک کیا اس کو فاضل بریلوی یوں ترجمہ میں بتارہے ہیں کہ کافروں ہی پر داؤکا پڑنا ہے۔ فاضل بریلوی خدائی عذاب جو ان پر بدر میں اترا اسے "داؤ" قرار دے رہے ہیں۔ کل تک جو لفظ شایان شان نہ سمجھتے تھے آج خود ہی پھنس رہے ہیں۔
(9) حرمت علیکم المیتۃ والدم ولحم الخنزیر وما اھل لغیر اللہ بہ
المائدہ آیت 3
تم پر حرام ہے مردار اور خون اور سور کا گوشت اور وہ جس کے ذبح میں غیر خدا کا نام پکارا گیا ہو۔
کنز الایمان
جب کہ سیرت رسول عربی صلی اللہ علیہ وسلم کے صفحہ 447پر ہے:
حرام ہوا تم پر مردہ اور لہو اور گوشت سور کا اور جس چیز پر نام لیاگیا اللہ کے سوا کا۔
معلوم ہوا کہ جو ترجمہ بریلویوں رضاخانیوں میں رائج ہے وہ بقول بریلوی مسلک پسند وقبولیت رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف ہے۔ مگر بریلوی تو پہلے سے ہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت کرنے میں کوشاں ہیں۔ العیاذباللہ
(10) ولا تدع من دون اللہ مالا ینفعک ولا یضرک
سورہ یونس آیت 106
اور اللہ کے سوا اس کی بندگی نہ کر جو نہ تیرا بھلا کرسکے نہ برا۔
کنز الایمان
جب کہ سیرت رسول عربی صلی اللہ علیہ وسلم میں ہے:
اور مت پکار اللہ کے سوا ایسے کو کہ نہ بھلا کرے تیرا اور نہ برا کرے تیرا۔
بریلوی "تدع" کا معنی بندگی کرتے ہیں تاکہ بزرگوں، پیروں، فقیروں سے مانگنا اور ان کو مشکل میں پکارنا جائز ہو جائے۔ اسی لیے فاضل بریلوی نے بھی بریلوی مسلک بنانے کے لیے یہ انداز اختیار کیا۔ مگر بقول رضاخانیت بھی رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم یہ ہے کہ اس کا معنی "پکار" کیا جائے تاکہ غیر اللہ کو پکارنے کا دروازہ بند ہوجائے اور ساری زندگی آپ صلی اللہ علیہ وسلم جس خدا سے مانگنے کی ترغیب دیتے رہے اسی سے مانگا جائے۔
(11) وما علمنا ہ الشعر
یس آیت نمبر 69
اور ہم نے ان کو شعر کہنا نہ سکھایا۔
کنز الایمان
جب کہ سیرت رسول عربی صلی اللہ علیہ وسلم کے صفحہ 670پر ہے:
اور ہم نے اس کو شعر نہیں سکھائے۔
اور کوثر الخیرات کے صفحہ 381پر ہے:
ہم نے انہیں شعر نہیں سکھائے۔
فاضل بریلوی کے ترجمہ سے شعر کہنے کی نفی ہورہی ہے علم شعر کی نفی تو نہیں ہورہی۔ جب کہ بقول مسلکِ رضا خانی، نبوت کی پسند یہ ہے کہ علم شعر ہی کی نفی ہو تو معلوم ہو ا کہ مرادِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کے یہ ترجمہ خلاف ہے۔
(12) لئن اشرکت لیحبطن عملک
سورۃ الزمر آیت 65
اے سننے والے اگر تو نے اللہ کا شریک کیا تو ضرور تیرا سب کیا دھرا اکارت جائے گا۔
کنز الایمان
جب کہ سیرت رسول عربی صلی اللہ علیہ وسلم کے صفحہ 687 پر ہے
یہ آں حضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے خطاب ہے یعنی اگر بر سبیل فرض وتقدیر تو شرک کرے گا؛ اگر چہ یہ محال ہے؛ تیرا عمل باطل ہوجائے گا۔
اب دیکھیے! فاضل بریلوی کا ترجمہ پسند رسالت کے مطابق نہیں ہے بلکہ الٹ ہے۔
(13) واستغفر لذنبک وللمؤمنین والمؤمنات
سورہ محمد آیت 19
اور اے محبوب اپنے خاصوں اور عام مسلمان مردوں اور عورتوں کے گناہوں کی معافی مانگو۔
کنز الایمان
جب کہ سیرت رسول عربی صلی اللہ علیہ وسلم کے صفحہ 801پر ہے:
اور تو اپنے گناہ کے لیے اور مومنوں اور مومنات کےلیے بخشش مانگ۔
اور سبع سنابل میں صفحہ 145پر ہے
آمرزش خواہ خود را و جمیع مومناں را
یعنی بخشش مانگیے اپنے لیے اور سارے مومنوں کےلیے۔
اور کوثر الخیرات کے صفحہ 265پر ہے
اے حبیب کریم صلی اللہ علیہ وسلم آپ اپنے منصب قرب اور جلالت شان کے مطابق جن امور کو گناہ تصور کرتے ہیں ان کے لیے اور مومن مردوں اور عورتوں کےلیے مجھ سے بخشش طلب کریں۔
اب دیکھیں کیا نبوت کی پسند کے مطابق فاضل بریلوی کا ترجمہ ہے؟ نہیں! بالکل خلاف! اگر ایسا ترجمہ کرنا گناہ، جرم، کفر، گستاخی اور توہین ہے تو ان سب کےمتعلق بریلوی مسلک کیا کہے گا؟ ذرا سوچ کر بولیے گا!
(14) لیغفرلک اللہ ماتقدم من ذنبک وماتاخر
الفتح آیت 2
تاکہ اللہ تمہارے سبب سے گناہ بخشے تمہارے اگلوں کے اور تمہارے پچھلوں کے۔
کنز الایمان
جب کہ کوثر الخیرات میں ہے:
تاکہ اللہ تعالی تمہارے خیال میں جتنے گناہ بھی تمہارے ہیں سابقہ یا آئندہ ان تمام کی مغفرت فرمادے۔
اب رضاخانی ملت کا امتحان ہے کہ وہ کیا کرتے ہیں۔
(15) ما کنت تدری ما الکتاب ولا الایمان
الشوری آیت 51
اس سے پہلے نہ تم کتاب جانتے تھے نہ احکامِ شرح کی تفصیل۔
کنز الایمان
جب کہ تحقیقات کے صفحہ 320پر ہے:
اے محبوب کریم تم نہیں جانتے تھے کہ کتاب کیا ہے اور نہ یہ جانتے تھے کہ ایمان کیا ہے۔
اب واضح فرق دیکھیں۔ کیا بریلوی حضرات فاضل بریلوی کو مراد نبوت کا دشمن قرار دیں گے ؟
اب میرا رضا خانیوں سے سوال ہے کہ ایک طرف تو رضاخان کا ترجمہ اور دوسری طرف تمام ملت بریلویہ کا فیصلہ کہ یہ کتب سرکار طیبہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں مقبول ومنظور و پسندیدہ ہیں۔ اب بتائیں یہ تراجم جو بقول تمہارے سرکار طیبہ صلی اللہ علیہ وسلم کو پسند ہیں، ان کے خلاف جو تراجم رضا خان نے کیے ہیں تم ان کا ساتھ دیتے ہو؟ کیا تم سرکار طیبہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مقابلے میں رضاخان کو پسند کروگے ؟
کنز الایمان اور ترجمہٴ شیخ سعدی
فاضل بریلوی صاحب شیخ سعدی کے ترجمہ قرآن کے فضائل ومناقب بیان کرتے ہوئے رقم طراز ہیں
ترجمہٴ شیخ سعدی رحمہ اللہ کے سوا آج تک اردو فارسی جتنے ترجمے چھپے ہیں کوئی صحیح نہیں۔
فتاوی رضویہ جلد10 حصہ دوم صفحہ 127قدیم، مکتبہ رضویہ آرام باغ کراچی
فاضل بریلوی اس ترجمہ کو درست قرار دے رہے ہیں تو ہم فاضل بریلوی کے ترجمہ کنز الایمان کو اس کے مقابل لاتے ہیں تاکہ پتہ چل جائے کہ رضا خانی ترجمہ اپنے اصول کے بھی خلاف ہے اور وں کے اصول کے خلاف ہونا تو اگلا مرحلہ ہے۔
(1) بسم اللہ الرحمن الرحیم
بنام خدائے بخشندہ مہربان
ترجمہ سعدی صفحہ 2
یعنی نام خدا سے {شروع}کرتاہوں جو بخشنے والا مہربان ہے۔
جب کہ کنز الایمان میں ہے: اللہ کے نام سے شروع جو بہت مہربان رحمت والا۔
رضا خانی حضرات کہتے ہیں تسمیہ کا وہ مترجم جھوٹا ہوتا ہے جو اللہ کے لفظ کو شروع میں نہ لائے جیسا کہ رضا خانی کتب کو دیکھنے والا جانتا ہے۔
تفصیل کےلیےانوار رضا، انوارکنز الایمان، آؤفیصلہ کیجیے ملاحظہ فرمائیں
ہماری طرف سے ان کی خدمت میں عرض ہے تسمیہ میں خود لفظ بسم پہلے ہے، اللہ کا لفظ پہلے نہیں ہے۔ اب خدا تعالی کے متعلق کیا ارشاد ہے؟ اور جس ترجمہ کو رضاخان صاحب درست کہہ رہے ہیں اس میں لفظ "خدا" سے ترجمہ شروع نہیں ہوتا بلکہ "بنام" کے لفظ سے شروع ہوتا ہے۔ اب اگر رضا خانی سچے ہیں تو فاضل بریلوی صاحب جھوٹے ہیں اور اگر وہ سچے ہیں تو یہ سب جھوٹے ہیں۔ خود فیصلہ کرلیں کہ کس کو جھوٹ پر اترنے والی لعنت کی ضرورت ہے، مقتدا کو یا اندھے پیروکاروں کو؟
(2) اھدنا الصراط المستقیم
فاتحہ 5
راہ نمائی مارا راہ راست
ترجمہ سعدی
یعنی ہمیں سیدھا راستہ دکھا۔
جب کہ کنز الایمان میں ہے:
ہم کو سیدھا راستہ چلا۔
اب بریلوی خود دیکھیں کہ فاضل بریلوی نے اپنے قول سے اپنے کنز الایمان کو خود ہی رد کردیا ہے۔ کیا اب بھی یہ ترجمہ قبول کرنے کے لائق ہے؟
(3) ولا یقبل منہا شفاعۃ
البقرہ آیت 48
وپذیرفتہ نشود از اں درخواستے
ترجمہ سعدی
یعنی اور قبول نہ کی جائے گی کسی نفس سے درخواست۔
جب کہ رضا خانی ترجمہ ہے:
اور نہ {کافر کے لیے }کوئی سفارش مانی جائے گی۔
اب فرق تو واضح ہے شیخ سعدی کے ترجمہ میں بات مطلق ہے ہر ایک کے لیے اور فاضل بریلوی نے مقید کردیا تو فاضل بریلوی نے چونکہ ترجمہ سعدی کی تصویب اور تائید کی ہے اس لیے خود ہی اپنے ترجمہ پر نقد کردیا۔
(4) وفی ذلکم بلاء من ربکم عظیم
البقرہ آیت 49
ودرین شمارا آزمودن از پروردگار شما بزرگ
ترجمہ سعدی
یعنی اس میں تمہاری آزمائش ہے تمہارے بزرگ و برتر پروردگار کی طرف سے۔
جب کہ کنز الایمان میں ہے:
اور اس میں تمہارے رب کی طرف سے بڑی بلا تھی یا بڑا انعام 
دیکھیں! ایک مرتبہ پھر فاضل بریلوی اپنے مصدقہ ترجمہ کے خلاف چلے۔ بلاء جس کا معنی آزمائش تھا اسے بچوں کو ڈرانے والی "بڑی بلا" کہہ دیا۔ حیرت ہے اس اعلی حضرت پر جس کو دنیائےبریلویت مجدد کہتی ہے۔ جسے قرآن فہمی سے مس نہیں وہ تجدید دین کیا کرے گا!
(5) ولما یعلم اللہ الذین جاھدوا منکم ویعلم الصابرین
آل عمران آیت 142
وہر گاہ کے نہ دانستہ امت خدائے آناں را کہ کا رزار کردند از شماءونادانستہ است صبر کنند گان را
ترجمہ سعدی
یعنی اور ابھی تک اللہ نے نہیں جانا ان لوگوں کو جنہوں نے تم میں سے جہاد کیا اور نہ ان کو جانا ہے جو صبر کرنے والے ہیں۔
جب کہ فاضل بریلوی لکھتے ہیں:
اور ابھی اللہ نے تمہارے غازیوں کا امتحان نہ لیا اور نہ صبر والوں کی آزمائش کی۔
فاضل بریلوی یہ ترجمہ کرکے اپنے اصول وفتوی کی زد میں خود آگئے۔ دنیا خود سمجھ لے گی کہ فاضل بریلوی کا ترجمہ تو اپنے اصول کے بھی خلاف ہے۔
(6) قل بفضل اللہ وبرحمتہ فبذلک فلیفرحوا
یونس آیت 58
بگو بفضل خدائے وبرحمت او پس بایں باید کہ شاد شوند
ترجمہ سعدی
یعنی آپ کہہ دیجیے کہ خدا کے فضل و رحمت سے پس ان کو چاہیے کہ وہ خوش ہوجائیں۔
جب کہ فاضل بریلوی نے کنز الایمان میں لکھا:
تم فرماؤ اللہ ہی کے فضل اور اسی کی رحمت اور اسی پر چاہیے کہ خوشی کریں۔
فاضل بریلوی نے "خوش ہونے" کو بدل کر "خوشی کرنا" کردیا ہے تاکہ وہ اس سے دلیل لے کر میلاد کا جشن منا سکیں۔ یہ فاضل بریلوی کی تحریفات کا ایک نمونہ ہے، ہم اس پر آگے چل کر تفصیل سے کلام کریں گے ان شاء اللہ العزیز۔
(7) فان کنت فی شک مما انزلنا الیک
سورہ یونس آیت 94
پس اگر ہستی تو در شک از آنچہ فرد فرستادیم بسوئے تو
ترجمہ سعدی
پس اگر تو شک میں ہے اس میں جو ہم نے تیری طرف بھیجی ہے۔
جب کہ رضا خانی ترجمہ یوں ہے
اور اے سننے والے اگر تجھے کچھ شبہ ہو اس میں جو ہم نے تیری طرف اتارا ہے۔
اب دیکھیے مصدقہ ترجمہ میں تو شک کا روئے سخن سرکار طیبہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف رکھا گیا ہے مگر کنز الایمان میں اس کو پھیر کر عام کردیا، جو رضا خانی اصول کے سراسر خلاف ہے۔ شاید کوئی رضاخانی یہ کہے کہ ایسا ادب و احترام کی وجہ سے کیا ہے۔ تو ہم اس کا جواب آگے چل کر "کنز الایمان کا تفصیلی جائزہ" میں دیں گے۔
(8) قل انما انا بشر
الکہف آیت110
بگو جز ایں نیست کہ من آدمی ام مانند شما
ترجمہ سعدی
آپ کہہ دیجیے کہ سوائے اس کے نہیں کہ میں آدمی ہوں جیسے کہ تم آدمی ہو۔
جب کہ رضاخان ترجمہ کرتا ہے
تم فرماؤظاہر صورت بشری میں تو میں تم جیسا ہوں۔
دیکھیں اب خود ہی اپنے خلاف جارہاہے، مزید اس آیت پر تفصیلی کلام ہم آگے عرض کرنے والے ہیں ان شاء اللہ۔
(9) فلاتدع مع اللہ الھا آخر
الشعراء آیت 213
ومخوان اے محمد با خدائے بحق خدائے دیگر را
ترجمہ سعدی
اور نہ پکار اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم خدائے بر حق کے سا تھ دیگر خدا کو۔
مگر فاضل بریلوی کی سنیے
تُو اللہ کے سوا دوسرا خدا نہ پوج
اب دیکھیے فاضل بریلوی اپنی ہی باتوں کی زد میں کیسے آگیا! باقی اس پر تفصیلی کلام ہم آگے نقل کرتے ہیں ان شاء اللہ۔
(10) ومکروا مکر ا ومکرنا مکرا وہم لا یشعرون
النمل آیت 50
ومکر کردند اینہا مکر کردن ومکر کردیم مکر کردن واینہا نمی دانند
ترجمہ سعدی
انہوں نے مکر کیا مکر کرنا اور ہم نے مکر کیا مکر کرنا اور وہ اس کو نہیں جانتے۔
اور دوسری جگہ میں اسی طرح آیت ذیل
فلا یٲ من مکر اللہ الا القوم الخاسرون
الاعراف آیت 99
پس ایمن نشود از مکر خدائے مگر گروہ زیان کاراں
ترجمہ سعدی
پس بے پرواہ نہیں ہوتے خدا کے مکر سے مگر خسارہ پانے والا گروہ۔
جب کہ فاضل بریلوی نے دونوں جگہ ترجمہ یہ کیا ہے
انہوں نے اپنا سامکر کیا اور ہم نے اپنی خفیہ تدبیر فرمائی۔
کنز الایمان
یعنی کنزالایمان میں دونوں جگہ "خفی تدبیر" اور "خفیہ تدبیر" معنی کیا ہے مگرترجمہ سعدی میں لفظ مکر کی تائید وتصویب فرمادی۔اگر رضوی کہیں کہ ادب کی وجہ سے یہ ترجمہ نہیں کیا تو ہم ادب رضاخانیوں کا عرض کر آئے ہیں وہ دیکھ لیا جائے۔ کچھ تو
فالذین کفروا ہم المکیدون
کے ترجمہ پر تبصرہ کرتے ہوئے اور کچھ مکر کے اعتراض کے جواب میں۔ القصہ، یہ تو معلوم ہوگیا کہ فاضل بریلوی کا ترجمہ اپنے ہی فتوے کے خلاف ہے۔
(11) یا ایھا النبی انا ارسلناک شاہدا
الاحزاب آیت نمبر 45
اے پیغمبر بدرستیکہ ما فرستادیم ترا گواہ
ترجمہ سعدی
یعنی اے پیغمبر بے شک ہم نے آپ کو بھیجا ہے گواہ بنا کر۔
جب کہ رضوی ترجمہ میں یوں ہے
اے غیب کی خبریں بتانے والے {نبی}بے شک ہم نے تمہیں بھیجا حاضر وناظر۔۔۔
اس میں کئی طرح سے کلام ہے ایک تو النبی کا ترجمہ غلط کیا اور دوسرے شاہد کا ترجمہ۔ تو اپنے ہی فتوی کے زد میں خان صاحب خود ہی آگئے۔ تفصیلی کلام آگےچل کر کریں گے۔
(12) لئن اشرکت لیحبطن عملک
الزمر آیت 65
اگر شرک آری بر آئینہ نا بود شود عمل تو
ترجمہ سعدی
اگر آپ نے شرک کیا تو ضرور بالضرور آپ کے عمل نابود ہوجائیں گے۔
جب کہ فاضل بریلوی کے ترجمہ میں ہے
اے سننے والے اگر تو نے اللہ کا شریک کیا تو ضرور تیرا سب کیا دھرا اکارت جائے گا۔
اب دیکھیے یہاں بھی رضاخان اپنے فتوے کی زد میں ہیں۔
(13) واستغفر لذنبک
المومن آیت نمبر 55
واستغفار گو برائے گناہان خود
ترجمہ سعدی
یعنی استغفار کیجیے اپنے گناہوں کے لیے۔
اور دوسری جگہ ہے:
واستغفر لذنبک
سورہ محمد آیت نمبر 19
وآمرزش خواہ برائے زلت خود
ترجمہ سعدی
بخشش طلب کیجیے اپنی لغزش پر۔
جب کہ رضا خانی ترجمہ کا موجود ایڈیشن دیکھیے تو معلوم ہو گا کہ دونوں جگہ اس آیت کا روئے سخن سرکار طیبہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے پھیر کر امت کی طرف کردیا گیا ہے۔ ویسے ہمارے پاس کنز الایمان کا پرانا نسخہ ہے اس میں سورہ مومن کی آیت کا ترجمہ یوں ہے
اور آپ اپنے گناہوں کی معافی چا ہو۔
کنز الایمان صفحہ 684 تاج کمپنی طبع اول
اب رضا خانی حضرات کو چاہیے کہ فاضل بریلوی کی بھی تکفیر کریں ورنہ اپنی کریں۔
(14) ماکنت تدری ما الکتا ب ولا الایمان
الشوری صفحہ 52
نمے دانستی تو کہ چہ چیز است قرآن ونہ آنکہ چیست ایمان
ترجمہ سعدی
آپ نہیں جانتے تھے کہ قرآن کیا ہے اور نہ یہ کہ ایمان کیا ہے۔
جب کہ رضاخانی ترجمہ میں یوں ہے
اس سے پہلے نہ تم کتاب جانتے تھے نہ احکام شرع کی تفصیل۔
اب رضا خانی ہی فیصلہ کریں گے کہ رضاخان دو غلا تھا یا پھر سچا انسان ؟
(15) لا اقسم بھذا البلد
البلد آیت 1
سوگند می خورم بایں شہر
ترجمہ سعدی
میں قسم کھاتا ہوں اس شہر کی۔
جب کہ ترجمہ رضوی میں ہے:
مجھے اس شہر کی قسم
رضا خان صاحب نے بقول رضاخانی حضرات اس لیے کھانے کا لفظ استعمال نہیں کیا کہ وہ ذات کھانے پینے سے پاک ہے۔ مگر رضا خانی حضرات کی بھول ہے کہ رضا خان صاحب نے ترجمہ سعدی کی تصدیق وتصویب کرکے اس "جرم" میں شریک ہونا منظور کیا ہے۔ اگر رضاخانی حضرات کو یاد ہو تو اپنے رضاخان کے حدائق بخشش کے اس مصرع کو بھی دیکھ لیں
کھائی قرآن نے خاک گذر کی قسم
تو اب کیا بنے گا رضاخان کا ؟رضاخانی حضرات کو سوچنے کی مہلت دی جاسکتی ہے جتنی وہ مانگیں مگر فیصلہ انصاف کا ہو۔
(16) ووجدک ضالا فھدی
الضحی آیت نمبر 7
ویافت ترا جائے گم کردہ پس راہ نمود
ترجمہ سعدی
اور پایا تجھے راہ گم کیا ہوا تو راہ دکھائی۔
جب کہ رضا خان صاحب؛ جن کا ترجمہ ان کا اپنا باپ بھی نہیں مانے گا اگر اس کو دکھا دیا جائے؛ یوں کرتے ہیں۔
اور تمہیں اپنی محبت میں خود رفتہ پایا تو اپنی طرف راہ دی۔
یہ ترجمہ خود رضاخانی فتوی کی زد میں ہے۔
(17) ووضعنا عنک وزرک الذی انقض ظہرک
الم نشرح آیت نمبر 2،3
ودور کردیم از تو بار ترا کہ گراں ساخت پشت ترا
ترجمہ سعدی
یعنی دور کردیا ہم نے تجھ سے تیرے بوجھ کو جس نے تیری پیٹھ کو بوجھل کردیا۔
جب کہ رضاخان صاحب سے سنیے وہ لکھتے ہیں
اور تم پر سے تمہارا وہ بوجھ اتارلیا جس نے تمہاری پیٹھ توڑدی تھی۔
واہ، واہ خان صاحب! کیا ہی عظمت واحترام کیا ہے! کیا کہنے! قرآن نے تو صرف پیٹھ مبارک پر بوجھ کی بات کی ہے مگر آپ نے تو العیاذ باللہ پیٹھ توڑنے کی بات کی ہے۔ یہ بھی تو نہیں کہا جاسکتا کہ آپ کے دور میں اردو نے ترقی نہیں کی تھی ہاں شاہ رفیع الدین وغیرہ اکابر کے متعلق تو یہ بات بنتی ہے کیونکہ وہ اردو کی ابتدا تھی اور الفاظ بہت کم وضع ہوئے تھے۔
المختصر ہم نے چند آیات پیش کی ہیں ورنہ سینکڑوں آیات پیش کی جاسکتی ہیں کہ رضا خان کا ترجمہ اپنے ہی فتوی کی زد میں ہے۔ دوسری بات یہ کہ ہم جو شروع میں کہہ آئے ہیں کہ رضاخان نے اسلاف کو ترک کیا ہے۔ اگر شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ وغیرہ حضرات سے اختلاف کیا تھا تو شیخ سعدی کے پیچھے تو چلتے مگر رضا خان نے ان کے بھی خلاف ترجمہ کیا، کیونکہ ان کو علیحدہ مسلک بنانا تھا۔
ترجمہ کنز الایمان کرنے کی وجہ
ہم اس عنوان کو شروع کرنے سے پہلے بطور لطیفہ یہ بات بھی عرض کرتے جائیں کہ فاضل بریلوی شاید دنیا کا وہ واحد آدمی ہے جو اپنے باپ کی بھی نہیں مانتا اور علامہ فضل حق خیر آبادی جن کے افکار و نظریات کا اپنے آپ کو حامل وحامی وناشر کہلاتا رہا ان کی بھی نہیں مانتا، اس نے تراجم ان دونوں حضرات کے خلاف کیے ہیں۔ بطور نمونہ چند تراجم پیش کیے جاتےہیں
(1) یا ایھا الذین آمنوا کتب علیکم الصیام کما کتب علی الذین من قبلکم لعلکم تتقون
البقرہ آیت نمبر 183
مولوی نقی علی خان صاحب لکھتے ہیں:
اے ایمان والو فرض کیا گیا تم پر روزہ جیسا کہ فرض ہوا اگلوں پر تاکہ تم تقوی اختیار کرو۔
جواہر القرآن صفحہ 72،73
جب کہ رضا خان صاحب لکھتے ہیں:
اے ایمان والو تم پر روزے فرض کیے گئے ہیں جیسے اگلوں پر فرض ہوئے تھے کہ کہیں تمہیں پر ہیز گاری ملے۔
باپ الصیام کا معنی "روزہ" کرتا ہے اور بیٹا "روزے"! بریلوی تحقیق یہ ہےکہ یہ صیام جمع نہیں بلکہ مصدر ہے قیام کی طرح، تفصیل آگے آرہی ہے۔ القصہ، رضا خان نے باپ کی بھی نہ مانی تو ٹھوکر کھائی اور دوسری بات یہ ہے کہ لعلکم تتقون "تاکہ تم تقوی اختیار کرو" لیکن فاضل بریلوی نے "کہ کہیں" کا لفظ استعمال فرمایا ہے۔ اس کی وجہ کیا ہے ؟جناب فیض احمد اویسی بریلوی لکھتے ہیں
یہ ترجمہ کسی معتزلی کا ہے اور پھر اس سے اللہ تعالی کی گستاخی کا بین ثبوت ہے کہ وہ اپنے بندوں سے عبادت کی امیدوں میں ہے {تاکہ کا معنی امید ہے }حالانکہ مسلمان مدعی ہیں کہ اللہ تعالی کو کسی کی پرواہ نہیں اور نہ ہی وہ کسی کی عبادت کا محتاج ہے۔ اور دوسری گستاخی یہ ہوگی کہ امید کی وابستگی لاعلمی ثابت کرتی ہے۔
سیدنا اعلی حضرت صفحہ 20
یعنی اس کا معنی "تاکہ" کرنے سے یہ مفہوم بنے گا کہ تم یہ روزے رکھو امید ہے کہ تمہیں تقوی ملے، اس لیے فاضل بریلوی نے یہ ترجمہ نہیں کیا۔ اویسی صاحب! ہم معذرت سے عرض کرتے ہیں کہ اگر یہ معتزلی کا ترجمہ ہے تو پھر یہ تو معلوم ہوگیا کہ رضا خان صاحب معتزلی کا نطفہ تھے اور معتز لہ کے عقائد کے حامی وناشر تھے۔ ویسے رضا خان صاحب نے جو "کہ کہیں" کا لفظ استعمال فرمایا ہے آپ لغت کی کتب دیکھیں "کہیں" کا معنی "شاید" بھی آتا ہے۔
فیروز اللغات صفحہ 1051
بات تو پھر وہیں آپہنچی! "شاید" بھی تو امید کو بیان کرنے کےلیے آتا ہے اب جو فتوی باپ پر ہے وہی بیٹے پر کیوں نہیں لگتا ؟
اویسی صاحب! اگر امید پائی جاتی ہے تو اس کا تعلق بندوں کی طرف سے ہے نہ کہ خدا کو امید ہے کیونکہ خدا تعالی تو علام الغیوب ہے۔ ہاں بندے عبادت کریں یہ امید کرکے کہ ہمیں تقوی نصیب ہوگا۔ آپ کے جید عالم مولوی غلام رسول صاحب لکھتے ہیں کہ عربی میں لعل کا لفظ امید کےلیے آتا ہے اردو میں اس کا معنی شاید کیا جاتا ہے اور یہ اس شخص کے کلام میں متصور ہے جس کو مستقبل کا علم نہ ہو اور اللہ تعالی تو علام الغیوب ہیں اس لیے یہاں اس لفظ کا معنی یہ نہیں ہے کہ اللہ کو امید ہے بلکہ اس کا معنی یہ ہے کہ تم یہ امید رکھو کہ عبادت کرنے سے تم متقی بن جاؤگے، دوسرا جواب یہ ہے کہ یہا ں لعل بہ معنی کَی ہے یعنی تمہیں عبادت کرنے کا حکم دینے کی حکمت یہ ہے کہ تم متقی بن جاؤ اور فوز وفلاح دارین حاصل کرلو۔
اویسی صاحب! یہ دوسرا جواب ہماری طرف سے قبول فرمالیں کیونکہ ہمارا ترجمہ "تاکہ" کا ہے جو کہ کَی کا معنی ہے۔ مگر اعلی حضرت نے "کہیں" کا لفظ استعمال کیا جو شاید کا معنی دیتا ہے اب اعتراض اگر ہے تو تم پر نہ کہ ہم پر۔
بات دوسری طرف نکل گئی، ہم تو یہ ثابت کررہے تھے کہ فاضل بریلوی نے ترجمہ اپنے باپ کے بھی خلاف کیا ہے۔
(2) یا ایھا النبی انا ارسلناک شاہدا
اے نبی ہم نے تجھے بھیجا گواہ۔
سرور القلوب صفحہ 109،الکلام الاوضح صفحہ116
جب کہ فاضل بریلوی کا ترجمہ پیچھے گذر چکا ہے، جو صاف اپنے والد کے خلاف ہے، فاضل بریلوی نے پوری کوشش کی کہ پہلوں سے الگ تھلگ کام کیا جائے۔
(3) ایاک نعبد وایاک نستعین
تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھی سے مدد چاہتے ہیں۔
الکلام الاوضح صفحہ350
جب کہ رضاخان صاحب کے ترجمہ میں "تجھی کو پوجیں اور تجھی سے مدد چاہیں" ہے جو کہ بالکل باپ کے خلاف ہے۔ باپ کہہ رہاہے کہ اس میں خبر ہے کہ اے اللہ ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھ ہی سے مدد مانتے ہیں مگر بیٹا کہتا ہے کہ نہیں یہ دعا ہے کہ ہمیں یہ ہمت وتوفیق دے کہ ہم تیری ہی عبادت کریں اور تجھ ہی سے مدد چاہیں۔ہم کچھ نہیں کہتے، بریلوی حضرات خود ہی باپ بیٹے میں سے سچے جھوٹے کا انتخاب کرلیں۔
(4) لا اقسم بھذا البلد
میں اس شہر کی قسم کھاتاہوں۔
سرور القلوب صفحہ 197
اور علامہ فضل حق خیر آبادی ترجمہ یوں کرتے ہیں:
یعنی قسم می خورم بایں شہر
شفاعت مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم صفحہ 289
یعنی میں اس شہر کی قسم کھاتا ہوں۔
اور فاضل بریلوی صاحب کا ترجمہ گذر چکا ہے تو یہ اپنے اکابر کے بھی خلاف ہے۔
(5) سورہ فتح کی آیت نمبر
2 لیغفر لک اللہ ما تقدم من ذنبک وما تٲخر
کا ترجمہ والد صاحب یوں کرتے ہیں
تاکہ معاف کرے اللہ تیرے اگلے اور پچھلے گناہ
الکلام الاوضح صفحہ 62
اور علامہ فضل حق خیر آبادی صاحب لکھتے ہیں:
واستغفر لذنبک، آمرزش بخواہ برائے گناہ خود
شفاعت مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم صفحہ 270
یعنی بخشش طلب کیجیے اپنے گناہ کی۔
دوسری جگہ علامہ صاحب حدیث شریف نقل کرکے
فیٲتون عیسی فیقول لست لہا ولکن علیکم بمحمد صلی اللہ علیہ وسلم عبد غفراللہ لہ ماتقدم من ذنبہ وما تٲخر ترجمہ یوں کرتے ہیں
پس بیایند بر عیسی علیہ السلام پس بگوید برائے شفاعت نیستم لیکن بر شما لازم است کہ بروید بر محمد صلی اللہ علیہ وسلم او بندہ است کہ آمر زیدہ است خدائے تعالی مرا را از گناہان پشین وپسین او۔
شفاعت مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم صفحہ 321،320
یعنی لوگ سیدنا عیسی علیہ السلام کے پاس آئیں گے پس وہ کہیں گے میں شفاعت کے لیے نہیں ہوں مگر تم پر لازم ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جاؤوہ ایسے بندے ہیں کہ خدا نے ان کے اگلے پچھلے گناہ معاف کردیے ہیں۔
جب کہ رضا خان صاحب کا ترجمہ اس کے بالکل الٹ ہے وہ امت کے افراد کو معاف کروا کے فارغ ہوچکے ہیں۔ اس لیے تو عبادت وریاضت، نماز روزہ وغیرہ کو فروعات سمجھتے ہیں جیسا کہ حدائق بخشش میں ہے۔ تبھی تو بریلویت نماز وغیرہ عبادات کی ضرورت نہیں سمجھتی کہ بخشش تو ہو چکی ہے اب عبادات کی کیا ضرورت!
(6) ووجدک ضالا فھدی
اور پایا تجھے راہ بھولا پھر تجھے راہ بتائی۔
الکلام الاوضح صفحہ 67
جب کہ رضاخان صاحب کا ترجمہ تو بالکل اور ہے۔ جس کو باپ نے مرجوح قرار دیا ہے وہ بیٹے نزدیک راجح ہے۔ معلوم ہوگیا کہ باپ کے عقائد کو بیٹا غلط قرار دے رہا ہے جیساکہ ایک رضاخانی مولف نے فاضل بریلوی کے باپ سے ہٹ کر نیا ترجمہ بنانے پر جو فوائد ومناقب لکھے ہیں وہ سنیے۔
اویسی صاحب اس آیت کا 'ادارہ اشاعت القرآن والحدیث' کا ترجمہ نقل کرکے لکھتے ہیں:
" اور پایا تجھ کو راہ بھولا ہوا پس راہ دکھائی" لہذا ان آیات سے ابراہیم علیہ السلام، یوسف علیہ السلام او ر حضور صلی اللہ علیہ وسلم سب گناہ گار وگمراہ ثابت ہوئے۔ نعوذباللہ من ذلک۔
سیدنا اعلی حضرت صفحہ 24
یعنی یہ ترجمہ کرنا نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کو گمراہ کہناہے العیاذباللہ۔ یہی ترجمہ تو اعلی حضرت کے باپ نقی علی خان کا ہے۔ فاضل بریلوی نے شاید اسی وجہ سے ترجمہ یہ نہیں کیا۔ چلو ایک بات تو پتہ چلی کہ فاضل بریلوی اس کا بیٹا ہے جو سرکار طیبہ صلی اللہ علیہ وسلم کو العیاذباللہ گمراہ کہتے تھے۔ اب فاضل بریلوی کے چاہنے والے فاضل بریلوی کے والد صاحب کو کافر کب لکھیں گے ؟ہمیں انتظار رہے گا!
(7) النبی اولی بالمومنین من انفسہم یعنی پیغمبر بہتر است بمومنان از جانہائے ایشاں۔
شفاعت مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم صفحہ 400از فضل حق خیر آبادی
یعنی پیغمبر بہتر ہیں مومنوں کےلیے ان کی جانوں سے۔مگر فاضل بریلوی لکھتے ہیں
یہ نبی مسلمانوں کا ان کی جان سے زیادہ مالک ہے۔
الاحزاب آیۃ نمبر 6
چونکہ فاضل بریلوی کو ایک نیا ملک بنانا تھا اس لیے تختہ مشق قرآن مجید کو بنایا، اور ایسے مضامین ومعانی تراشے جو کہ قرآن کریم پر جھوٹ کے مترادف ہیں۔ اسی کو دیکھ لیجیے 'مالک' کا لفظ اولی کا معنی بنادیا حالانکہ اس جگہ موزوں و مناسب معانی اور بھی تو ہو سکتے ہیں جیسے بہتر، زیادہ حق دار وغیرہ مگر 'مالک' نہیں۔
فاضل بریلوی ایسا کرنے پر مجبور تھے کیونکہ ان کو ایک علیحدہ مسلک بنانا تھا جو یہ عقیدہ رکھتا ہو کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہر شے کے مالک ہیں یعنی مالکِ کل ہیں اور فاضل بریلوی نے حدائق بخشش میں اپنے اشعار میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو مالک کل کہا ہے۔ تو یہ عقیدہ دینا تھا کہ مالک کل آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں اس لیے سب کچھ آپ سے مانگا جائے۔ جب مالک کل ہیں تو پھر ہر جگہ بھی ہونا چاہیے، جب مالک کل ہیں تو علم غیب بھی ہونا چاہیے، جب مالک کل ہیں تو مختار کل بھی ہونا چاہیے۔ تو ان جیسے کئی مقاصد کے لیے فاضل بریلوی نے ترجمہ قرآن کنز الایمان لکھوایا اور وہ اپنی اس کوشش میں کامیاب بھی ہوئے کہ کئی جاہل ان کو مل گئے جو ان کے موٴید وحامی بن بیٹھے اور ان کے حق میں کتابیں لکھنے لگے۔
یہاں ہم ایسی چند مثالیں ذکر کرنا ضروری سمجھتے ہیں۔
(1) قل بفضل اللہ وبرحمتہ فبذلک فلیفرحوا
اس کا ترجمہ فاضل بریلوی یہ کرتے ہیں:
تم فرماؤاللہ ہی کے فضل اور اسی کی رحمت اور اسی پر چاہیے کہ خوشی کریں۔
حالانکہ اس کے معنی خوش ہونے کے ہیں نہ کہ خوشی کرنے کے جیسا کہ ہم نے ترجمہ شیخ سعدی سے عرض کردیا۔ فاضل بریلوی نے یہ اس لیے کیا تاکہ میرے مسلک اور میرے ماننے والے جب ان کو میلاد شریف پر دلیل کی ضرورت ہوگی تو وہ اسی آیت کو سہارا بنائیں گے کہ خوشی کا حکم تو آیا ہے حالانکہ قرآن شریف نے خوش ہونے کی بات کی ہے نہ کہ خوشی کرنے کی۔ ورنہ لازم آئے گا کہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے معراج، اعلان نبوت، غزوات میں فتح، نزول قرآن وغیرہ دیگر واقعات پر جو مسلمان ہیں وہ ضرور خوشی کریں، جھنڈیاں لگائیں، ناچ گانا کریں، ڈھول بجائیں، کیک کاٹا جائے، رقص کیا جائے۔ اگر ان موقع پر یہ کام نہ کریں تو بھی کوئی آدمی بھی سرکار طیبہ صلی اللہ علیہ وسلم کا گستاخ ان کو نہیں کہتا تو جشن میلاد نہ کرنے پر کیوں گستاخ قرار دیا جاتا ہے؟
او ر یہ بات بھی ہم کہتے چلیں کہ رضاخانی حضرات جو فضل و رحمۃ سے سرکار طیبہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مراد لینے پر زور دیتے ہیں اگر ہم مان بھی لیں تو ہماری طرف سے تفصیلی جواب ہوچکا ہے۔ مگر ایک بات سمجھ نہیں آتی کہ یہ رضا خانی حضرات بڑے زور وشور سے کہتے ہیں کہ "سوائے ابلیس کے جہاں میں سبھی تو خوشیاں منارہے ہیں" یعنی جو کیک نہ کاٹے ،جلوس نہ نکالے، جھنڈیاں نہ لگائے، جشن نہ منائے، وہابی ہے اور گستاخ ہے۔ جب کہ یہ بات بھی اٹل ہے کہ فاضل بریلوی اور اس کے والد وغیرہ سے یہ امور قطعاً ثابت نہیں انہیں تو ابلیس کوئی نہیں کہتا۔ یہ بات ہمیں سمجھ نہیں آتی بریلویوں سے گذارش ہے کہ یہ ہمیں سمجھادیں کہ کہیں فاضل بریلوی صاحب ابلیس تو نہیں ؟
مزید عرض خدمت ہے کہ سرکار طیبہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تشریف آوری سے دنیا کو خوشیاں نصیب ہوئیں۔ کوئی انسان نہیں جو مسلمان بھی ہو اور پھر سرکار طیبہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تشریف آوری پر خوش نہ ہو۔ مگر خوشیاں منانے کا یہ طرز ہمیں اسلاف سے نہیں ملا اس لیے ہم اس پر معذرت خواہ ہیں۔
ہم بریلوی حضرات سے یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ میلاد کا معنی تو پیدائش ہے اور وہ تو بشر کی ہوتی ہے نہ کہ نور کی اور تمہارے بریلوی حضرات تو زو ر و شور سے سرکار طیبہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بشریت کے انکاری ہیں اور محض نور ماننے پر زور دیتے ہیں تو پھر میلاد کیسا؟ اور حیرت اس بات پر ہے کہ خود ہی اپنی کتب میں علامہ ابن حجر مکی رحمہ اللہ کا یہ قول بھی نقل کرتے ہیں
میلاد و اذکار جو ہمارے ہاں کیے جاتے ہیں ان میں سے اکثر نیکی پر اور برائی بلکہ برائیوں پر مشتمل ہیں۔ اگر صرف عورتوں کا اجنبی مردوں کو دیکھنا ہو تو یہی برائی کافی ہے۔ اور ان میں سے بعض میں کوئی برائی نہیں مگر ایسے میلاد قلیل ونادر ہیں۔
رسائل میلاد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم صفحہ 518
یعنی صحیح میلاد تو نادر ہے اور القلیل کا لمعدوم کے حکم میں ہے، تو اس وقت صحیح میلاد نہ تھے اب کہاں سے آئیں گے؟ بہر حال رضا خانی حضرات برائیوں پر مشتمل میلاد انجام دیتے ہیں اور امت کو تباہ کرنے پر لگے ہوئے ہیں۔
(2) ولا تدع من دون اللہ
اللہ کے سوا اس کی بندگی نہ جو نہ تیرا بھلا کر سکے نہ برا۔
حالانکہ تَدْعُ کا معنی شیخ سعدی سے ہم عرض کرچکے ہیں کہ پکارنا ہے، چونکہ فاضل بریلوی نے ایک نیا مسلک تیار کرنا تھا اور اس میں اس کی بھی ضرورت تھی کہ غیر اللہ کو ہر جگہ سے پکارا جائے تو فاضل بریلوی نے مسلک کی لاج رکھنے کےلیے قرآن پاک کے ترجمہ میں اپنا کام کر دکھایا کہ لا تدع کا معنی ہے بندگی نہ کرو۔ فاضل بریلوی ثابت یہ کرنا چاہتے ہیں کہ غیر اللہ کو پکارنے سے چونکہ روکا نہیں گیا لہذا یہ شرک نہیں۔ اب اتنی بڑی جسارت تو فاضل بریلوی ہی کرسکتے ہیں اگر غیر اللہ کو پکارنے، ندا دینے کی تفصیل سے تردید دیکھنی ہوتو استاذ محترم امام اہل السنت شیخ الحدیث حضرت مولانا سرفراز خان صفدر نور اللہ مرقدہ کی کتب کا مطالعہ مفید رہے گا۔
(3) یا ایھا النبی انا ارسلناک شاہدا
اے غیب کی خبریں بتانے والے نبی بے شک ہم نے تمہیں بھیجا حاضر وناظر۔
فاضل بریلوی نے شاہدا کا معنی حاضر ناظر کیا ہے حالانکہ یہ لفظ شاہد یوسف علیہ السلام کی گواہی دینے والے بچےکےلیے سورہ یوسف میں اور حضرت عبداللہ ابن سلام رضی اللہ عنہ کے لیے سورہ حم میں استعمال ہوا ہے مگر ان کو تو کوئی بھی حاضر وناظر کے منصب سے نہیں نوازتا حالانکہ وہی لفظ ہے جو نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے استعمال ہواہے۔ مگر حاضر وناظر کا معنی اِدھر کیاہے اُدھر نہیں کیا بریلوی حضرات کو جب ہم کہتےہیں معنی گواہ کرو تو ہمیں یہ کہتے ہیں کہ گواہی دیکھے بغیر تو نہیں ہوتی۔ جواباً جب ہم یہ کہتے ہیں کہ موذن کا اشھد ان لا الہ الا اللہ اور اشھد ان محمدا رسول اللہ کہنا گواہی ہے اور یوسف علیہ السلام کی پاکدامنی کی گواہی بھی قرآن میں موجود ہے۔ مگر یہ گواہی تو دیکھےبغیر ہے تو پھر یہ گواہی کیا معتبر نہ ہوگی؟ اگر روزانہ کئی دفعہ موذن گواہی دیتا ہے جو معتبر ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا امت کی گواہی دینا بروز قیامت بن دیکھے بھی معتبر ہے۔
اور ہمارا یہ نظریہ ہے کہ سرکار طیبہ صلی اللہ علیہ وسلم کا قیامت کے دن گواہی دینا اس بنا پر ہے کہ آپ علیہ الصلوۃ والسلام کو عرض اعمال کی بنیاد پر امت کے احوال سے آگاہ کیا جاتا رہا۔ بہر حال فاضل بریلوی نے جو نیا مسلک تراشا ہے اس کو ثابت کرنے کے لیے اپنے دوستو ں کو اور مریدوں کو قرآن پاک میں بھی نقب لگانے کی ترکیب سمجھائی ہے۔
میں ایک جگہ بیان کررہاتھا مجھے ایک آدمی نے فون کیا ، جی ہمیں لوگ کہتے ہیں تم گستاخ رسول ہو، نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کو ہر جگہ حاضر وناظر نہیں مانتے۔ میں نے اسے کہا کہ پتہ ہے کہ یہ لوگ کہاں تک حاضر وناظر منوانا چاہتے ہیں؟ اس نے کہا جی نہیں۔ میں نے کہا ان کا مقصد یہ ہے کہ تاریک راتوں میں تنہائی کے اندر جو ہم کام کرتے ہیں نگاہ مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم سے وہ بھی پوشیدہ نہیں۔
جاء الحق صفحہ 72
یہ تو یہاں تک منوانا چاہتے ہیں۔ وہ کہنے لگا استغفر اللہ اس عقیدے سے تو اللہ کی پناہ! میں بریلوی سے کہوں گا کہ لوگوں کی شرمگاہ اور لوگوں کو اس حالت میں دیکھنا تم اپنے لیے تو عار اور شرم کی بات سمجھو مگر رحمت کو نین صلی اللہ علیہ وسلم کےلیے تمہیں یہ عیب کیوں نہیں محسوس ہوتا ؟ اللہ سمجھ عطا فرمائے۔
کسی آدمی نے بریلوی عالم سے سوال کیا کہ رحمت کو نین صلی اللہ علیہ وسلم تمہارے بقول ہر جگہ موجود ہیں تو پھر نظر کیوں نہیں آتے؟ وہ کہنے لگے کہ اللہ بھی تو ہر جگہ ہے اور وہ بھی نظر نہیں آتا۔ ا س آدمی نے کہا مولانا! اللہ تو دنیا میں کبھی بھی کسی کو نظر نہیں آیا جبکہ رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم تو تریسٹھ سال دنیا میں رہے اور لوگوں کو نظر آتے رہے، اس لیے آپ کا یہ کہنا ٹھیک نہیں۔بے چارہ بریلوی عالم خاموش ہوگیا۔
اب دو باتیں ہیں، یا ان کا عقیدہ ٹھیک نہیں یا پھر یہ کفار سے بھی برے ہیں۔ یعنی حضور صلی اللہ علیہ وسلم جب تریسٹھ برس تھے دنیا میں تو لوگوں کو نظر آتے رہے اور اگر ہر جگہ اب بھی ہیں تو آپ کو نظر آنے چاہییں۔ معلوم ہوا کہ یا تو عقیدہ ٹھیک نہیں یا پھر یہ کفار سے بھی بُرے ہیں، اس لیے کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم دنیا میں تشریف فرما تھے تو کفار کو بھی نظر آتے تھے تو کیا یہ رضا خانی ان کفار سے بھی بُرے ہیں جو ان کو ہر جگہ حاضر ہونے کے باوجود نظر نہیں آتے۔ باقی رہی یہ بات کہ بریلوی حضرات نے کہاں کہاں رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کو ہر جگہ حاضر ناظر لکھا ہے تو اس پر بے شمار حوالہ جات پیش کیے جاسکتے ہیں جیسے مفتی امین کی کتاب حاضر ناظر رسول، مقیاس حنفیت وغیرہا۔
ہم یہ بات پوری جراٴت سے کہتے ہیں کہ بریلویوں سے پہلے پوری امت مسلمہ میں کوئی ایک معتبر عالم پیش نہیں کیا جاسکتا کہ جس کا یہ عقیدہ ہو کہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم ہر جگہ موجود ہیں زوجین کے جفت کے وقت بھی حاضر ناظر ہیں اور تاریک راتوں میں تنہائی کے اندر جو کام کیے جاتے ہیں اس کو بھی دیکھتے ہیں۔ جیسا کہ مقیاس حنفیت کے صفحہ 282او ر جاء الحق کے صفحہ 72پر موجود ہے۔ تو بات چل رہی تھی مولوی احمد رضا خان نے ایک نیا مسلک بنانے کے لیے قرآن پاک کو تختہ مشق بنایا اس کی ایک اور مثال دیکھیے۔
(4) قل انما انابشر مثلکم
تم فرماؤ کہ میں ظاہری صورت بشری میں تم جیسا ہوں۔
کنز الایمان
حالانکہ اس کا ترجمہ یہ تھا کہ میں بشر ہوں جیسے تم بشر ہو۔ مگر رضا خان نے ترجمہ اس لیے بدلا کہ اپنی قوم کو یہ عقیدہ دے سکے کہ نبی بشر نہیں ہوتے صرف ظاہری صورت بشری میں ہوتے ہیں۔ اسی بات کو دیکھتے ہوئے رضاخانی حضرات نے یہ عقیدہ بنایا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حقیقت نور ہے اور بشریت ایک لباس ہے۔ حالانکہ اگر ہم رضا خانیوں سے کہیں کہ رضا خانی اہل السنت کے لباس میں ہیں تو رضاخانی حضرات آپے سے باہر ہوجاتے ہیں کہ جی آپ ہمیں سُنی نہیں سمجھتے! حالانکہ ہم نے یہ تو کہا نہیں کہ آپ سنی نہیں ہیں مگر وہ یہی کہیں گے کہ یہ کہنا تم اہل السنت کے لباس میں ہو اس کا مطلب ہی یہ بنتا ہے کہ تم سنی نہیں ہو تو پھر ہم کہیں گے کہ تم انبیاء علیہم السلام کو لباس بشریت میں مان کر بشریت کے قائل کیسے ٹھہرے؟
بریلوی حضرت دھوکہ دینے کی خاطر کہہ دیتے ہیں کہ ہم بشر مانتے ہیں جب آپ تفصیل پوچھیں گے تو اوپر والی بات بتائیں گے کہ لباس بشریت میں ہمارے پاس تشریف لائے ہیں۔
ملخصاً تحفظ عقائد اہل السنت صفحہ 675
اور آج رضا خانی حضرات کا بھی یہی عقیدہ ہے کہ ہیں تو خدا کے نور کا ٹکڑ ا مگر آئے انسانی لباس میں جیسا کہ ان کی کتب سے ظاہر ہے:
نور وحدت کا ٹکڑا ہمارا نبی
حدائق بخشش حصہ اول صفحہ 62
لباسِ آدمی پہنا جہاں نے آدمی سمجھا

مزمل بن کے آئے تھے تجلی بن کے نکلیں گے

 
دیوان محمدی صفحہ 149،مواعظ نعیمیہ صفحہ 118
بجاتے تھے جو انی عبدہ کی بانسری ہر دم

خدا کے عرش پر انی انا اللہ بن کے نکلیں گے

 
دیوان محمدی صفحہ 149،شہد سے میٹھا نام محمد صلی اللہ علیہ وسلم صفحہ205
ہم اہل علم کی خدمت میں عرض کریں گے کہ بریلویوں سے پہلے گفتگو اس بات پر ہونی چاہیے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مخلوق ہیں یا نہیں؟ اگر منکر ہوں تو بات ختم اور اگر قائل ہوں تو پھر ان سب او ر دیگر ان کے اکابرین کے متعلق پوچھ لیا جائے کہ وہ تو مخلوق ماننے کے لیے تیار نہیں۔ جہاں تک ہماری تحقیق ہے بریلوی رضاخانی حضرات نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کو مخلوق تسلیم ہی نہیں کرتے۔ بلکہ خدا ورمحمد ان کے نقطہ نظر سے ایک ہی ہیں۔ اسی لیے تو کہتے ہیں کہ آپ لباس انسانی میں آئے، وگرنہ مخلوق مانتے تو افضل واعلیٰ ،احسن و اشرف مخلوق تو حضرت انسان تھی وہ کیوں نہ مانا؟ یا پھر رضا خانی اقرار کریں کہ ہم سے گستاخی ہوئی کہ ہم نے سرکار طیبہ صلی اللہ علیہ وسلم کو انسان نہ مان کر غلطی کی ہے اور بے ادبی کی ہے۔
اگر نہیں تو پھر ہم یہ سمجھیں گے کہ جان بوجھ کر مخلوق ہونے کا انکار کرکے یہ خالق مانتے ہیں اسی لیے تو صفات مختصہ بخالق یعنی خدا کی صفات کو سرکار طیبہ صلی اللہ علیہ وسلم کےلیے مانتے ہیں۔
القصہ فاضل بریلوی نے ظاہری صورت بشری میں نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کو مانا ہے۔پھر اسی سے ترقی کرکے ان کے خلاف یہ لکھ دیا
جناب رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم صورت بشری میں ظاہراً کافروں کے ہم شکل تھے۔
فیصلہ بشریت صفحہ 11
اور مفتی احمدیا رخان نعیمی صاحب اس آیت کا ترجمہ کرتے ہوئے رقم طراز ہیں
اے کافرو میں تمہاری جنس سے بشر ہوں۔ شکاری جانوروں کی آواز نکال کر شکار کرتا ہے۔
جاء الحق صفحہ 176
خیر ہم اہل بدعت کو دعوت دیں گے کہ اہل السنت والجماعت کے عقیدے کی طرف آئیں کہ مادہ خلقت تو مٹی تھا، مگر صفات کے اعتبار سے نور علی نور تھے۔ ویسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو نور حسی سے بھی حصہ عطا فرمایا گیا کہ آپ کے دندان مبارک چمکدار تھے پیشانی مبارک پر نور چمکتا تھا اور پسینہ مبارکہ بھی موتی کی طرح چمکتا تھا۔ اس بات کو مان لو! مگر رضاخانی تیار نہیں۔
ہم حیران ہیں کہ ہم مادہ خلقت مٹی ماننے کے باجود یہ بھی کہتے ہیں کہ یہ عام مٹی نہ تھی بلکہ جنت الفردوس کی مٹی تھی مگر رضاخانی ہماری تو نہیں مانتے اور یہ لکھ جاتے ہیں کہ، خاک عاجز اور کمزور مخلوق ہے کہ اس پر گندگی وغیرہ رہتی ہے، سب سے نیچی ہے، اس میں سکون ہے، اضطراب نہیں، اس پر گناہ وغیرہ ہوتے ہیں۔ تو چاہیے تو یہ تھا کہ اس ادنی چیز سے ادنی مخلوق پیدا ہوگی مگر ہماری قدرت تو دیکھو ایسی ادنی مخلوق سے اشرف المخلوق حضرت انسان، اس پر مکہ مکرمہ اور مدینہ طیبہ بسایا، اسی سے اپنے پیارے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم کو پیدا کیا۔
معلم التقریر صفحہ 93
مفتی صاحب نے پہلے زمین کے اوصاف گنے کہ عاجزو کمزور ہے، اس پر گندگی رہتی ہے، اس پر گناہ ہوتے ہیں، ادنی چیز ہے، پھر آگے نتیجہ یہ نکالا کہ ا س زمین پر جو مذکورہ اوصاف والی ہے مکہ ومدینہ طیبہ کو بسایا اور اسی زمین سے؛ جو مذکورہ اوصاف والی ہے؛ سرکار طیبہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بنایا العیاذ باللہ۔
ہم جنت الفردوس کی مٹی سے تخلیق مانیں تو غلط اور خود جناب کیا کچھ کہہ رہے ہیں! اس سب کچھ کی وجہ یہ ہے کہ یہ لوگ اسلاف کو چھوڑ کر اپنی مرضی کے عقائد تراشنے میں لگے ہوئے ہیں اور ہم یہ بات بڑی جراٴت ودلیری سے کہیں گے کہ اسلاف میں ایسا کوئی معتمد ومعتبر عالم نہیں ہے جو یہ کہے کہ سرکار طیبہ صلی اللہ علیہ وسلم کا جسد مبارک نور سے بنایا گیا اور آپ انسانی لباس میں تشریف لائے۔ یہ صرف اور صرف رضاخانیت ہے جو یہ عقیدہ تراشے بیٹھی ہے اور اس سب میں بنیادی کردار فاضل بریلوی کا ہے کہ انہوں نے قرآن مقدس کو تختہ مشق بنایا۔ الامان والحفیظ
اگر یہی ترجمہ اسلاف کے مطابق کیا جاتا تو اتنی بڑی جسارت بریلوی نہ کرتے جو آج کررہے ہیں۔ ایک اور مثال دیکھیے
(5) یا ایھا النبی انا ارسلنا ک
فاضل بریلوی نے نبی کا ترجمہ یہاں غیب کی خبریں بتانے والا کیا ہے حالانکہ تھوڑی سی بھی سوجھ بوجھ رکھنے والا سمجھتا ہے کہ نبی کا لفظ یا تو نبوت سے بنا ہے جس کا معنی بلند وبالا شان والا یا نبی کا لفظ نباٴ سے بنا ہے جس کا معنی ہے خبر دینے والا یا خبر دیا گیا۔ اب اگر نبی کا ترجمہ نبی ہی کیا جاتا یا پیغمبر کردیاجاتا تو دونوں معنوں پر اطلاق ہوتا اور دونوں معنی پائے جاتے کہ نبی بلند وبالا شان والا بھی ہوتا ہے اور خبر بھی دیا جاتا ہے اور آگے خبریں بھی دیتا ہے مگر فاضل بریلوی نے غیب کی خبریں دینے والا ترجمہ کرکے باقی معنوں کو چھوڑ دیا ہے۔
حیرت ہے کہ بریلوی اس کو عشق رسول کہتے ہیں حالانکہ جو ترجمہ اسلاف نے کیا وہی ترجمہ بہتر تھا تاکہ دونوں باتوں کا لحاظ اس لفظ نبی میں ہوسکے۔ مگر فاضل بریلوی نے تو الگ ایک مسلک بنانا تھا اسی لیے انہوں نے یہ ترجمہ کر ڈالا تاکہ ان کے چاہنے والوں کو عقیدہ بناتے اور تراشتے ہوئے آسانی سے قرآن کا سہارا مل جائے کہ نبی کہتے ہی اس کو ہیں جوغیب کی خبریں دے اور غیب کی خبریں وہ دے گا جس کے پاس علم غیب ہوگا۔ جبکہ ہم کہتے ہیں کہ علم غیب خدائے وحدہ لا شریک لہ کی صفت خاصہ ہے یعنی اس کو صرف اسی کے پاس مانا جائے۔
مزے کی بات تو یہ ہے کہ سرکار طیبہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی اسے پسند نہیں فرماتے کہ علم غیب میرے لیے مانا جائے مثلاً مشکوۃ شریف جلد 2 کتاب النکاح باب اعلان النکاح میں روایت موجود ہے کہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم ایک مجلس نکاح میں تشریف لائے وہاں چھوٹی چھوٹی بچیاں یہ شعر پڑھ رہی تھیں
وفینا نبی یعلم مافی غد
یعنی ہم میں ایک نبی تشریف فرما ہیں جو کل کی بات جانتے ہیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا دعی ھذہ اس کو چھوڑدو۔ شارحین حدیث نے اس حدیث کی شرح میں لکھا ہے
لکراہۃ نسبۃ علم الغیب الیہ لانہ لایعلم الغیب الا اللہ وانما یعلم الرسول من الغیب مااعلمہ او لکراہۃ ان یذکر فی اثناء ضرب الدف واثناء مرثیۃ القتلی لعلو مذہبہ عن ذلک
مرقاۃ شرح مشکوۃ لملا علی قاری رحمہ اللہ
ترجمہ: منع اس لیے فرمایا کہ آپ کو علم غیب کی نسبت اپنی طرف پسند نہ آئی کیونکہ علم غیب اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا اور رسول وہی غیب کی بات جانتے ہیں جو خدا انہیں بتاتا ہے یا اس وجہ سے کہ آپ کا ذکر دف بجانے کے دوران انہوں نے کیا یا مقتولین کے مرثیہ کے درمیان کیا جبکہ آپ کا درجہ اس سے بہت بلند ہے۔
یہ سب وجہیں درست ہیں معلوم ہوا کہ سرکارطیبہ صلی اللہ علیہ وسلم کو علم غیب کی نسبت اپنی طرف کرنا ناپسند ہے۔ اسی طرح شیخ عبدالحق محدث دہلوی رحمہ اللہ اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں
وگفتہ اند کہ منع آں حضرت ازیں قول بحیثیت آں است کہ در وے اسناد علم غیب است بہ آں حضرت را ناخوش آمد و بعضے گویند کہ بجہت آں است کہ ذکر شریف وے در اثناء لہو مناسب نہ باشد۔
شارحین نے کہا ہے حضور علیہ السلام کا اس کو منع فرمانا اس لیے ہے کہ اس میں علم غیب کی نسبت حضور کی طرف ہے لہذا آپ کو ناپسند آئی، اور بعض نے فرمایا کہ آپ کا ذکر شریف کھیل کود میں منا سب نہیں۔
اور یہ دونوں باتیں ہی درست ہیں، نہ سرکار طیبہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف علم غیب کی نسبت درست ہے اور نہ ہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر خیر کھیل کود کے دوران مناسب ہے۔ فاضل بریلوی نے ترجمہ کنز الایمان میں بریلویوں کو اس مسئلے پر بھی کئی طرف سے آسانیاں دیں، خواہ ترجمہ تمام اسلاف سے ہٹ کر ہی کیوں نہ ہو تاکہ ایک الگ مسلک بنایا جائے۔ قاری احمد پیلی بھیتی صاحب ، جو بریلوی محدث وصی احمد پیلی بھیت کے نبیرہ ہیں ، فرماتے ہیں
اعلی حضرت بریلوی مسلسل 50برسوں سے اسی جدو جہد میں منہمک رہے یہاں تک کہ دومستقل مکتبہٴ فکر قائم ہوگئے بریلوی اور دیوبندی یا وہابی۔
سوانح حیات اعلی حضرت بریلوی صفحہ 8
معلوم ہوا فاضل بریلوی نے آکر نیا دین و مسلک تیار کیا۔ اب اس کے عقائد و نظریات تراشنے کے لیے قرآن پاک کو تختہ مشق بنایا۔ ہمارے اس قول پر یہ بھی دلیل ہے کہ فاضل بریلوی نے مرنے سے کچھ دیر قبل وصیت میں فرمایا میرا دین ومذہب جو میری کتب سے ظاہر ہے اس پر قائم رہنا ہر فرض سے اہم فرض ہے۔
وصایا شریف صفحہ 9
شاید کوئی کہے ان کے اس قول کا مطلب یہ ہے کہ قرآن وسنت والا دین میری کتابوں میں ہے اس پر قائم رہنا مگر شاید یہ حضرات بھول گئے اس سے قبل متصل عبارت ہے کہ حتی الامکان اتباع شریعت نہ چھوڑو۔ یعنی شریعت کی اتباع کرنا مگر جہاں تک میرے دین و مذہب کی بات ہے اس پر تو قائم رہنا بہت ہی بڑا فرض ہے۔ اگر شریعت کی بات متصل پہلے نہ کرتے تو ہم مان لیتے کہ واقعی رضاخان صاحب کی کتابوں میں شریعت محمدی ہے مگر جب انہوں نے شریعت محمدیہ
صلوات اللہ علی صاحبھا الف الف تحیۃ وسلام
کا پہلے ذکر کردیا تو بعد میں ظاہر ہے وہ تو نہیں ہے۔ کیونکہ شریعت کے متعلق فرمایا حتی الامکان یعنی جہاں تک ہو سکے اس کو نہ چھوڑنا۔ مگر جب اپنی باری آئی تو فرمایا میری کتب سے ظاہر دین و مذہب پر قائم رہنا ہر فرض سے اہم فرض ہے۔
بات کا خلاصہ یہ ہوا کہ شریعت محمدیہ
صلوات اللہ وسلامہ علی صاحبہا
اگر چھوٹے تو چھوڑدینا مگر میرا دین و مذہب نہ چھوڑنا۔ معلوم یہ بھی ہوا کہ اس نئے مسلک میں چونکہ نئی باتیں نئے عقائد و نظریات بھی ہوں گے اس لیے اس پر اتنا زور دیا کہ کتاب وسنت سے بھی اس کو بڑھا کر دکھا یا۔ یہی وجہ تھی کہ فاضل بریلوی نے کنز الایمان میں نئے عقائد و نظریات سہارا دینے کےلیے تراجم کو اپنی مرضی سے کیا اور اسلاف سے الگ راستہ چلنے لگے۔
اتنی گفتگو کو پڑھ کر آپ کو یہ بات معلوم ہوگئی ہوگی کہ فاضل بریلوی ترجمہ قرآن کرنے کے اہل نہ تھے۔ ہم اسی بات کی طرف اپنی گفتگو کو مزید بڑھانا چاہتے ہیں کہ قرآن پاک کے ترجمہ و تفسیر کے لیے کئی علوم پر دسترس ہونا ضروری ہے۔ اس بات کو بریلوی علامہ عبدالحکیم شرف قادری صاحب یوں لکھتے ہیں
علماء اسلام نے مفسر کےلیے درج ذیل علوم میں مہارت لازمی قرار دی ہے۔ لغت، صرف، نحو، بلاغت، اصول فقہ، علم التوحید، قصص، ناسخ منسوخ، علم وہبی، اسباب نزول کی معرفت، قرآن کریم کے مجمل اور مبہم کو بیان کرنے والی احادیث۔وہبی علم عالم باعمل کو عطا کیا جاتا ہے۔ جس شخص کے دل میں بدعت، دنیا کی محبت یا گناہوں کی طرف میلان ہو اسے علم وہبی سے نہیں نوازا جاتا۔
انوار کنز الایمان صفحہ 42
ہم اگر ہر ایک نمبر پر گفتگو کریں تو بہت لمبی ہوجائے گی زندگی رہی تو اس پر پھر کبھی تفصیل سے کلام کریں گے۔ جس بندے کی ساری زندگی گالیاں دیتے گزر گئی اور ساری عمر بدعات کے پہاڑ کھڑے کرتے گذر گئی اور جس آدمی نے کسی بھی مدرسے میں نہ پڑھا ہو کیا وہ اس لائق ہے کہ ترجمہ کرے؟
اعلی حضرت کا قلم کیسا تھا؟ گھر کی گواہی ملاحظہ ہو:
ایک بار حضرت صدر الافاضل مولانا سید نعیم الدین مراد آبادی نے آپ کی خدمت میں عرض کی حضور آپ کی کتابوں میں وہابیوں دیوبندیوں اور غیر مقلدوں کے عقائد باطلہ کا رد ایسے سخت الفاظ میں ہوا کرتا ہے کہ آج کل جو تہذیب کے مدعی ہیں وہ چند سطریں دیکھتے ہی حضور کی کتابوں کو پھینک دیتے ہیں اور کہتے ہیں ان میں تو گالیاں بھری ہیں۔
فیضان اعلی حضرت صفحہ 275
باقاعدہ علم تو فاضل بریلوی نے کہیں سے پڑھا نہیں، فاضل بریلوی خود فرماتے ہیں:
میرا کوئی استاد نہیں۔
سیرت امام احمد رضا صفحہ 12شاہ جہان پوری
اور یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ فاضل بریلوی نے کسی مدرسہ میں علوم کے حصول کے لیے داخلہ نہیں لیا جیسا کہ مولوی سبحان رضا خان سجادہ نشین خانقاہ اعلی حضرت لکھتے ہیں
آپ نے حصولِ تعلیم کےلیے کسی مدرسہ میں داخلہ نہیں لیا۔
خیابان رضا صفحہ 18
بعض لوگ کہتے ہیں کہ انہوں نے اپنے والد گرامی سے تمام علوم و فنون حاصل کیے۔ یہ بھی جھوٹ ہے اس لیے کہ فاضل بریلوی خود فرماتے ہیں:
والد صاحب سے دو قاعدے میں نے سیکھے ہیں جمع تفریق اور ضرب تقسیم کا۔
دیکھیے سیرت امام احمد رضا صفحہ 12
تو فاضل بریلوی جو بقول مفتی مظہر اللہ شاہ دہلوی چلبلی طبیعت کے مالک تھے ان پڑھ اور بقول بعضے جاہلوں کے پیشوا تھے۔
فاضل بریلوی اور ترک موالات صفحہ 5از پروفیسر ڈاکٹر مسعود صاحب
باقی رہا یہ سوال کہ فاضل بریلوی نے جو اتنی کتب لکھی ہیں یہ کدھر سے آگئی ہیں؟بھائی! اکثر کتب ورسائل فاضل بریلوی کے خطوط کے جواب ہیں اور خطوط کا جواب کون دیتا تھا ؟ اس کی تفصیل سنیے
اعلی حضرت کی عادت کریمہ یہ تھی کہ استفسار {سوالات} ایک ایک کو تقسیم فرمادیتے اور پھر ہم لوگ دن بھر محنت کرکے جوابات مرتب کرتے پھر عصر و مغرب کے درمیانی مختصر ساعت میں ہر ایک سے پہلے استفتاء پھر فتوے سماعت فرماتے اور بیک وقت سب کی سنتے۔ اسی مختصر وقت میں مصنفین اپنی تصنیف دکھاتے۔
فیضان اعلی حضرت صفحہ223
اعلی حضرت کے خدام میں سے ایک صاحب فرماتے ہیں:
چونکہ میں نے حساب کی تعلیم سکولی طور پر پائی تھی لہذا فرائض {علم المیراث} کے حساب کی مشق بڑھی ہوئی تھی اور ایسے استفتاء میرے سپرد فرماتے تھے۔
فیضان اعلی حضرت صفحہ 224
ایک جگہ یوں ہے:
استفتاء ہوتا تو حضرت صدر الشریعہ مولانا امجد علی اعظمی، مولانا ظفر الدین یا مولانا سید شاہ غلام محمد صاحب بہاری کے حوالے فرماتے۔
فیضان اعلی حضرت صفحہ 110
فاضل بریلوی جب کسی مدرسہ میں مولوی ظفر الدین بہاری کو بطور مدرس بھیجنے لگے تو اس مدرسہ کے مہتمم کو لکھتے ہیں
فقیر آپ کے مدرسہ کو اپنے نفس پر ایثار کرکے انہیں آپ کے لیے پیش کرتا ہے اگر منظور ہو فوراً اطلاع دیجیے کہ اپنے ایک اور دوست کو میں نے روک رکھا ہے کہ ان کی جگہ مقرر کروں اگرچہ یہ دو عظیم کام یعنی افتاء وتوقیت اور ان سے اہم تصنیف میں وہ نئے صاحب ابھی ہاتھ نہیں بٹاسکتے۔
فیضان اعلی حضرت صفحہ217
اتنا تو معلوم ہوگیا کہ فاضل بریلوی فتاوی وغیرہ کی کتب اپنے رکھے ہوئے ملازمین سے لکھوایا کرتے تھے۔ ہاں یہ ضرور ہوتا ہوگا کہ سن لیتے ہوں گے۔ میں تو سمجھتا ہوں وہ صرف نام کے ہی عالم و مجدد ہیں حقیقت کچھ نہیں۔ ہمارے بریلوی بھائیوں نے جو ان کتابوں اور فتاویٰ جات کی نسبت فاضل بریلوی کی طرف کی ہے وہ صرف اس وجہ سے ہے کہ یہ کتب ان کی طرف منسوب ہیں ورنہ حقائق وہی ہیں جو ہم نے عرض کردیے ہیں۔
مزید سنیے فاضل بریلوی کی جہالت کی داستان! فاضل بریلوی فرماتے ہیں:
وہی پوریاں کباب کھائے، اسی دن مسوڑھوں میں ورم ہوگیا اور اتنا بڑھا کہ حلق اور منہ بند ہوگیا۔ مشکل سے تھوڑا سا دودھ حلق سے اترتا تھا اور اسی پر اکتفا کرتا۔ بات بالکل نہ کرسکتا تھا یہاں تک کہ قراءۃ بھی میسر نہ تھی۔ سنتوں میں بھی کسی کی اقتدا کرتا۔
فیضان اعلی حضرت صفحہ133
کیا احناف کے ہاں یہ اجازت ہے کہ سنتیں بھی کسی امام کی اقتداء میں پڑھی جائیں؟ یہ فاضل بریلوی کے جاہل ہونے پر مہر ہے۔
فاضل بریلوی کی جہالت پرایک اور مہر
اعلی حضرت کی زندگی میں احقر مسجد میں نماز پڑھنے گیا حضرت کی مسجد کے کنویں پر ایک نابالغ بہشتی پانی بھر رہا تھا۔ میں نے جب لڑکے سے وضو کے لیے پانی مانگا تو اس نے جواب دیا مجھے پانی دینے میں کوئی عذر نہیں لیکن بڑے مولوی صاحب نے مجھے کسی بھی نمازی کو پانی دینے سے منع فرمادیا ہے اور بتایا ہے کہ جو وضو کےلیے پانی مانگے اس سے صاف صاف کہہ دینا کہ میرے بھرے ہوئے پانی سے آپ کا وضو نہیں ہوگا کیونکہ میں نابالغ ہوں۔
سیرت امام احمد رضاصفحہ31
کیا نابالغ پانی بھر کے لے آئے تو اس سے وضو جائز نہیں ؟یہ ہے فاضل بریلوی کی جہالت کی داستان!
آخری کیل
رضاخانیوں نے جب یہ دیکھا کہ فاضل بریلوی صاحب تو بالکل جاہل ہیں۔ اب ان کی تعریفوں کے پل باندھے اور ان کی علمی کمی کو یوں پورا کیا
اعلی حضرت کا علم کسبی وتحصیلی نہ تھا بلکہ محض وہبی اور لدنی ماننے کے سوا چارہ نہیں۔
فیضان اعلی حضرت صفحہ 558
معلوم ہوتا ہے کہ ہم اس دعوے میں سچے ہیں کہ اعلی حضرت جاہل تھے۔ اب اس کمی کو پور کرنے کے لیے علم وہبی ولدنی کا قول اختیار کیا گیا۔
بلکہ فاضل بریلوی کو تلمیذ رحمان بنایا گیا۔
دیکھیے: حیات امام احمد رضا از پروفیسر ڈاکٹر مسعود صفحہ 153
الامن والعلی ص 21، حیات مولانا احمد رضاخان صاحب ص 30
حالانکہ یہ بھی سفید جھوٹ ہے۔ اس کی کئی وجوہ ہیں چند ایک ہم عرض کردتے ہیں
(1) فاضل بریلوی ظفرالدین بہاری کو لکھتے ہیں:
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ، عبارات تفاسیر آئیں، مابقی بھی درکار ہیں۔ تفسیر جمل و جلالین یہاں ہیں۔ یہ روح المعانی کیا ہے؟ یہ آلوسی بغدادی کون ہے؟ بظاہر کوئی نیا شخص ہے اور آزادی زمانہ کی ہوا کھائے ہوئے ہے۔
بدعات کے خلاف 100فتوے صفحہ 94 زاویہ پبلشرز
لو جی علم لدنی اور کسبی کا دعوی نرا جھوٹ ثابت ہوا کہ ایک اہم تفسیر، علوم و معارف پر مشتمل اور جاندار وشاندار تفسیر کا فاضل بریلوی کو علم ہی نہیں بلکہ آلوسی رحمہ اللہ کی درگت بھی بنادی۔ علامہ آلوسی کی شہرہ آفاق تصنیف روح المعانی جس کو اللہ کریم نے عرب وعجم میں مقبولیت نصیب کی فاضل بریلوی اس کو جانتے تک نہیں، باقی رہا علم لدنی اور علم وہبی، تو اس کے ملنے کی شرائط ہیں جن کو عبد الحکیم شرف قادری نے لکھا ہے
وہبی علم عالم باعمل کو عطا کیا جاتا ہے جس شخص کے دل میں بدعت، تکبر، دنیا کی محبت یا گناہوں کی طرف میلان ہو اسے علم وہبی سے نہیں نوازا جاتا۔
انوار کنز الایمان صفحہ 42
شرط اول تھی کہ عالم باعمل ہو تو یہ تو سرے سے ہی مفقود ہے کیونکہ آں جناب علم سے بہرہ ور نہیں تھے دوسری شرط یہ تھی کہ دل میں بدعت نہ ہو تو اس بارے میں عرض یہ ہے کہ ہمیں تو بریلوی مانتے ہی نہیں ہم بدایوں والے حضرات سے ہی حوالہ عرض کر دیتے ہیں کہ وہ فاضل بریلوی کو بدعتی سمجھتے تھے۔ تفصیل یہ ہے کہ فاضل بریلوی جمعہ کی دوسری اذان کو مسجد میں دلوانا مکروہ سمجھتے تھے۔ ان کا اختلاف بدایوں والے علماء سے چلا اس عنوان پر۔ تو ان میں سے مولانا عبد الغفار رامپوری صاحب نے انتہائی کدو کاوش سے ایک رسالہ لکھا اور سرورق پر کتاب کا نام
حبل اللہ المتین لھدم آثار المبتدعین
اللہ کی مضبوط رسی سے بدعتیوں کے آثار کا انہدام، دائرے میں لکھوادیا۔
فیضان اعلی حضرت صفحہ 208
یہ رسالہ فاضل بریلوی کے خلاف لکھا گیا جس میں ان کو بدعتی ثابت کیا گیا ویسے حقیقت تو اس سے بھی اوپر ہے کہ فاضل بریلوی، بریلوی علماء کی تحقیق سے مسلمان ہی نہیں رہتے۔ اس کی تفصیل یہ ہے کہ فاضل بریلوی نے اپنے دوست مولانا عبد الباری فرنگی محلی کو حفظ الایمان کی عبارت دکھائی تو انہوں نے اس عبارت کو بے غبار کیا۔ فاضل بریلوی نے مثال دے کر بات کی تو تب بھی انہوں نے عبارت کو بے غبار کہا مگر فاضل بریلوی نے اپنے دوست سے دوستی برقرار رکھی اور اسے کافر نہ کہا۔ تفصیل کےلیے ہماری کتاب "حسام الحرمین کا تحقیقی جائزہ" دیکھیے۔
تقریباً یہی مولوی عبدالباری فرنگی محلی جیسا واقعہ پیر کرم شاہ صاحب کا ہے انہوں نے ”تحذیر الناس میری نظر میں“ لکھ کر قاسم العلوم والخیرات کی عبارات تحذیر الناس کو کفریہ نہیں کہا۔ چنانچہ بریلوی عالم محمد فاروق صاحب لکھتے ہیں
کرم شاہ نے اکابرین اہل السنت {یعنی بریلوی} کی مخالفت کی ہے۔ اس کے متعلق ان کے سوانح نگار حافظ پروفیسر احمد بخش کی گواہی بھی ملاحظہ فرمالیں تاکہ فیصلہ کرتے وقت آسانی رہے۔ لکھا ہے: تحذیر الناس کی الجھی ہوئی متنازعہ بحث کے متعلق حضرت مولانا احمد رضا خان بریلوی رحمہ اللہ نے فیصلہ فرمایا کہ ایسی عبارات انسان کو ایمان سے محروم کردیتی ہیں۔ جبکہ حضور ضیاء الامت نے نانوتوی موصوف کی عبارت کو قضیہ فرضیہ پر محمول کرتے ہوئے اسے کفریہ کہنے میں احتیاط برتی ہے۔ جمال کرم جلد1 صفحہ 695 روز روشن کی طرح واضح ہوگیا کہ بھیروی صاحب نے اکابرین اہل السنت {بریلویہ} کی نہیں دیوبندیوں کے موقف کی تائید کی ہے۔
جسٹس کرم شاہ کا علمی محاسبہ صفحہ53
معلوم ہوا کہ فاضل بریلوی کے دجل و فریب والے فتوی تکفیر کو پیر کرم شاہ صاحب بھیروی نے قبول نہیں کیا بلکہ ٹھوکر سے اڑادیا اور ایک مرتبہ جب ان کو بریلویوں نے بہت ہی مجبور کیا تو انہوں نے کہا تم سے جو ہوتا ہے کرلو میں کسی مسلمان {مولانا نانوتوی} کو کافر نہیں کہہ سکتا۔
کرم شاہ کی کرم فرمائیاں
تو معلوم ہوا کہ مولانا عبدالباری فرنگی محلی اور کرم شاہ کا درجہ ایک ہے دونوں ہی حسام الحرمین کے منکر ہیں مگر کرم شاہ صاحب کے متعلق تو لکھا جائے کہ
من شک فی کفرہ وعذابہ فقد کفر
علمی محاسبہ صفحہ290
اور یہ بھی لکھا ہے:
لہذا یہ شخص بھی کسی طرح مسلمان نہیں ہوسکتا جو بھی اس کے کافر ہونے میں شک کرے وہ بھی کافر ہے۔
علمی محاسبہ صفحہ275
اب ہمارا سوال رضاخانیوں سے یہ ہے کہ کرم شاہ کو جو کافر نہ کہے وہ بریلوی تو کافر ہے اور جب کرم شاہ اور مولانا فرنگی محلی کا جرم ایک ہے تو دونوں کو سزا بھی تو ایک جیسی ملنی چاہیے۔ تو اب نتیجہ یہ نکلا کہ چونکہ فاضل بریلوی مولانا فرنگی محلی کی تکفیر نہیں کرتا۔
فتاوی مظہریہ حصہ سوم صفحہ499
تو وہ فاضل بریلوی بھی پیر کرم شاہ پر لگے ہوئے فتوے کی رُو سے کہ "جو اس کے کفر میں شک کرے وہ کافر ہے" وہ بھی کافر ٹھہرا۔ اب جب رضاخانی تحقیق میں فاضل بریلوی کافر ٹھہرا تو اب مسئلہ بدعتی سے بھی اوپر چلا گیا۔ ہم اس پر چند ایک نظائر اور بھی پیش کرتے ہیں کہ فاضل بریلوی کبھی اپنے فتووں کی زد میں آتےہیں اور کبھی دوسروں کے یعنی اپنے ہم مسلک لوگوں کے فتاوی کی زد میں چنانچہ دیکھیے۔
فاضل بریلوی لکھتے ہیں:
بے شک حضرت عزت عظمت نے اپنے حبیب اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو تمامی اولین وآخرین کا علم عطا فرمایا، شرق تا غرب عرش تا فرش سب انہیں دکھایا ملکوت السموات والارض کا شاہد بنایا روز اول سے آخر تک سب ماکان ومایکون انہیں بتایا۔ اشیاء مذکورہ سے کوئی ذرہ حضور کے علم سے باہر نہ رہا۔
علم غیب رسول صلی اللہ علیہ وسلم صفحہ 24
خلاصہ کلام یہ ہوا کہ زمین و آسمان کا کوئی ذرہ آپ کے علم سے خارج نہیں سب
ماکان ومایکون
کا انہیں علم ہے۔ دوسری طرف دیکھیں کہ فلاسفہ کا عقول عشرہ کے بارے میں یہ عقیدہ ہے کہ ان سے ذرات عالم میں سے کوئی ذرہ بھی مخفی نہیں۔ اس نظریہ کا رد کرتے ہوئے فاضل بریلوی لکھتے ہیں
یہ خاص صفت حضرت عالم الغیب والشہادۃ جل وعلی کی ہے۔ قال تعالی:
لا یعزب عنہ مثقال ذرۃ فی الارض ولا فی السماء
نہیں چھپی تیرے رب سے ذرہ برابر چیز زمین میں اور نہ آسمان میں۔ اس کا غیر خدا کےلیے ثابت کرنا قطعاً کفر ہے۔
فتاوی رضویہ جلد 27صفحہ144
فلاسفہ یہ نظریہ غیر خدا کے لیے مانیں تو کافر فاضل بریلوی مانیں تو مسلمان تونہیں رہیں گے! اب دیکھیے یہ فاضل بریلوی اپنے اوپر ہی فتوی کفر لگارہے ہیں کیا اب بھی علم وہبی کا دعوی کیا جاسکتا ہے؟
فاضل بریلوی لکھتے ہیں:
عطاء الہی سے بھی بعض علم ہی ملنا مانتے ہیں نہ کہ جمیع۔
خالص الاعتقاد صفحہ 23
دوسری جگہ فاضل بریلوی علم شعر پر بحث کرکے کہتے ہیں:
ملکہ شعر گوئی حضور کو عطا نہ ہوا۔
ملفوظات جلد 2صفحہ 209مشتاق بک کارنر لاہور
جب کہ بریلوی کہتے ہیں کہ اگر کسی بھی نبی علیہ السلام کے متعلق یہ عقیدہ قائم کر لیا جائے کہ اس کو فلاں چیز کا علم نہیں تو ایسا فاسد و باطل عقیدہ اس امر کو مستلزم ہوگا کہ اس نبی کا عقیدہ توحید ناقص ہے چہ جائیکہ افضل الانبیاء صلوات اللہ وسلامہ علیہ کے متعلق یہ کفریہ عقیدہ ہو کہ عالم ماکان ومایکون کو فلاں چیز کا علم نہیں۔
تحفظ عقائد اہل السنت صفحہ 849،850 از مولوی ظہیر احمد قادری برکاتی انڈیا
اب دیکھیے فاضل بریلوی کیا مومن ثابت ہوسکتے ہیں ؟
فاضل بریلوی لکھتے ہیں:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا علم اوروں سے زائد ہے ابلیس کا علم معاذاللہ علم اقدس سے ہرگز وسیع تر نہیں۔
خالص الاعتقاد صفحہ 6
یعنی باقی سب سے تو سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کا علم مبارک زیادہ ہے مگر شیطان کا علم صرف وسیع ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے علم سے وسیع تر نہیں العیاذ باللہ۔ یہ ہے فاضل بریلوی کی محبت کا راز، عبارت کا آسان مطلب ہم نے بیان کردیا ہے جیسے کوئی کہے باقی سب سے تو زید کے پیسے زیادہ ہیں مگر جو بکر ہے اس کا مال ودولت زید سے وسیع تر نہیں یعنی برابر ہے یا بس تھوڑا سا زیادہ ہے بہت زیادہ نہیں ہے۔ یہی کچھ فاضل بریلوی کہہ رہے ہیں۔
اب آئیےدیکھتے ہیں کہ فاضل بریلوی کو بریلوی کیا سناتے ہیں مفتی احمد یار گجراتی نعیمی لکھتے ہیں:
حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا علم ساری خلقت سے زیادہ ہے حضرت آدم وخلیل علیہما السلام اور ملک الموت وشیطان بھی خلقت ہیں۔ یہ تین باتیں ضروریات دین میں سے ہیں ان کا انکار کفر ہے۔
جاء الحق صفحہ 43
کیا فاضل بریلوی مسلمان رہے ؟
فاضل بریلوی کی مصدقہ کتاب انوار ساطعہ میں ہے:
تماشا یہ ہے کہ اصحاب محفل میلاد تو زمین کی تمام جگہ پاک ناپاک مجالس مذہبی وغیرہ میں حاضر ہونا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا نہیں دعوی کرتے، ملک الموت اور ابلیس کا حاضرہونا اس سے بھی زیادہ تر مقامات پاک و ناپاک کفر غیر کفر میں پایا جاتا ہے۔
انوار ساطعہ صفحہ 359مصدقہ مولوی احمد رضا خان صاحب بریلوی
جب کہ بریلوی اس حاضر و ناظر کو سرکار طیبہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کمالات و فضائل سے بھی گنتے ہیں تو فاضل بریلوی مولوی عبدالسمیع رامپوری نے شیطان کو سرکار طیبہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کمالات میں بڑھاکر توہین کی ہے۔
تفصیل کےلیے دیکھیے الحق المبین صفحہ 70
ہم ان چند مثالوں پر ہی اکتفاء کرتے ہیں۔ اب یہ بات تو روز روشن کی طرح واضح ہوگئی کہ فاضل بریلوی علم وہبی ولدنی کے لائق نہ تھے یہ بات بریلوی اصولوں سے ہی مبرہن ہوئی۔ باقی رہی بدعتی ہونے کی تو کچھ تو ہم عرض کر آئے ہیں کچھ مزید عرض کردیتے ہیں۔
سعودی عرب کے وزارۃ الحج والاوقاف کی طرف سے کنز الایمان پر جو پابندی لگائی گئی تھی اس میں یہ لکھا ہوا تھا چونکہ اس ترجمہ وتفسیر میں شرک وبدعت اور گمراہ کن افکار موجود ہیں۔
اتحاد بین المسلمین صفحہ58
لو جی سعودیہ والوں نے بھی فاضل بریلوی کو گمراہ قرار دیا ہے۔ اور متحدہ عرب امارات کی وزارت قانون، اموراسلامیہ اور اوقاف کی جانب سے بھی حکم یہ شائع ہوا تھا کہ یہ ترجمہ شرک و بدعت اور باطل افکار وخیالات جیسی بنیادی غلطیوں سے بھرا پڑا ہے۔
اتحاد بین المسلمین صفحہ 60
عرب کے علماء نے بھی فاضل بریلوی کے بدعتی ہونے پر مہر ثبت فرمادی اہل السنت دیوبند تو پہلے ہی سے اس کو بدعتی کہتے آرہے ہیں اور رہ گئے تھے بدایوں والے انہوں نے بھی فاضل بریلوی کو بدعتی کہہ دیا۔ حوالہ پیچھے گذر چکا ہے۔ تو فاضل صاحب علم وہبی ولدنی کے لائق نہ رہے۔
اعلی حضرت کا گناہوں کی طرف میلان
شرائط علم لدنی میں ایک یہ بھی تھی کہ گناہوں کی طرف میلان نہ ہو مگر فاضل بریلوی کو دیکھیے کہ ان کی بچپن سے عادت تھی کیا
آپ کی بچپن ہی سے یہ عادت رہی کہ اجنبی عورتیں اگر نظر آجائیں تو کرتے کے دامن سے اپنا منہ چھپالیتے۔
فیضان اعلی حضرت صفحہ 87
اب بچپن ہی سے عادت رہی ہے کہ جملے پر غور کیا جائے تو بات سمجھ جاتی ہے بڑی عمر تک رہی ہے۔ ویسے بھی محاورہ ہے کہ بچپن کی عادت پچپن تک جاتی ہے گویا فاضل بریلوی ساری عمر اس طرز پر زندگی گزارتے رہے اور خان صاحب نے ملفوظات حصہ سوم میں یہ واقعہ مزے لے کر بیان کیا ہے کہ گاؤں میں لڑکی تھی 18 یا 20 سال اس کی عمر تھی وہ بازار میں جاتے ہوئے ماں کو باوجود منع کرنے کے گراتی اور اس کا دودھ پینا شروع کردیتی اور محمد صدیق خان کی تحقیق یہ ہے کہ فاضل بریلوی فرماتے ہیں
میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا۔
دیکھیے آئینہ اہل السنت
قاین ذی وقار! سوچیے کہ یہ سب کچھ ہونے میں کتنا وقت لگا ہوگا؟ اس تمام وقت کو فاضل بریلوی بغور ملاحظہ فرمارہے ہیں کیا یہ بد نظری میں داخل نہیں ہوگا؟
آگے آئیے! فاضل بریلوی نے ایک عجب تحقیق کی۔ اس تحقیق کو پڑھ کر ہمیں بھی داد دینی پڑی کہ واقعۃ ایسا محقق دنیا میں نہیں گزرا۔ وہ کیا تحقیق تھی آپ بھی پڑھ لیجیے
عضو شرم گاہ پر دلائل ثبت فرماکر کر ثابت کیا کہ مرد کی شرمگاہ کے اعضاء نو ہیں۔
انوار رضا ، المیزان کااحمد رضا نمبر صفحہ 212
شرم گاہ سے جب اتنا لگاؤ تھا تو پھر یہ بھی سنیے کہ نماز کے قعدہ اخیرہ میں بیٹھے بیٹھے کیا کِیا فاضل صاحب نے ؟ فاضل بریلوی ارشاد فرماتے ہیں
قعدہ اخیرہ میں بعد تشہد حرکتِ نفس سے میرے انگر کھے کا بند ٹوٹ گیا۔
ضیائے حرم کا اعلی حضرت نمبر ص 25، انوار رضا
اب بھی کہیں کہ گناہوں کی طرف میلان نہ تھا؟ تو علم وہبی کے لائق تو نہ رہے!
فاضل بریلوی کی جہالت کا ایک اور ثبوت
ڈاکٹر پروفیسر مسعود کہتے ہیں:
فاضل بریلوی اپنے عہد کے جلیل القدر عالم تھے مگر علمی حلقوں میں اب تک صحیح تعارف نہ کرایا جاسکا۔ جدید تعلیم یافتہ طبقہ تو بڑی حد تک نا بلد ہے چنانچہ ایک مجلس میں یہ راقم بھی موجود تھا کہ ایک فاضل نے فرمایا کہ مولانا احمد رضا خان کے پیرو تو زیادہ تر جاہل ہیں۔ گویا آپ جاہلوں کے پیشوا تھے۔
فاضل بریلوی اور ترک موالات صفحہ 5
لوگوں میں یہ جو تاثر ہے کہ فاضل بریلوی جاہلوں کے پیشوا ہیں اس کی وجہ کیا ہے؟ ابو کلیم صدیق خان لکھتے ہیں
آخر عام لوگوں میں جو شہرت ہوتی ہے اس کی کوئی بنیاد ضرور ہے۔
انوار احناف صفحہ 63
دوسری جگہ لکھتے ہیں:
مشہور محاورہ ہے زبان خلق کو نقارہ خدا سمجھو۔
انوار احناف صفحہ 64
جو عام طور پر ایک تاثر پھیلا ہوا ہے بقول رضاخانی صاحب کے یہ نقارہ خدا ہے کہ واقعۃً فاضل بریلوی جاہل تھے۔ ڈاکٹر صاحب لکھتے ہیں
ظاہر ہے کہ جاہل ہی نئے فرقے نکال سکتا ہے اور وہی شرک و بدعت پھیلا سکتا ہے۔
تقدیم البریلویہ کا تحقیقی جائزہ صفحہ 23
معلوم ہوا کہ یہ سب کارستانی فاضل بریلوی نے جہالت کی بنیاد پر کی ہے۔
گھر کی گواہی
شاہد کا لفظ قرآن پاک کی سورۃ یوسف آیت نمبر 26 میں بھی استعمال ہوا ہے، فاضل بریلوی نے ترجمہ 'گواہ 'کیا ہے اور دوسری جگہ سورہ احقاف آیت نمبر 10 میں یہی لفظ استعمال ہوا ہے وہاں بھی فاضل بریلوی نے ترجمہ کیا ہے 'گواہ'۔
دیکھیےکنز الایمان ترجمہ قرآن
مگر مولوی محمد عمر اچھروی صاحب لکھتے ہیں:
باقی رہا تمہارا اعتراض کہ شاہد کا معنی گواہ کے ہیں یہ کسی ان پڑھ کا ترجمہ ہے۔
مقیاس مناظرہ صفحہ 210
لوجی یہ فاضل بریلوی کو ان پڑھ ہم نے تو نہیں کہا یہ ان کے اپنے گھر کے افراد کہہ رہے ہیں۔کیا ان پڑھ آدمی ترجمہ قرآن کر سکتا ہے؟ کیا اس کو اجازت دی جاسکتی ہے؟
ایک اور دلیل
فاضل بریلوی نے
”انما عند اللہ ہو خیر لکم“
النحل، آیت نمبر 94 کا ترجمہ کیا ہے بے شک وہ جو اللہ کے پاس ہے تمہارے لیے بہتر ہے۔
فاضل بریلوی نے انما کلمہ حصر کا ترجمہ بے شک کیا ہے جب کہ مولوی عبد المجید خان سعیدی صاحب لکھتے ہیں
انما کلمہ حصر ہے جس کا ترجمہ 'بے شک' کرنا درست نہیں، قبیح جہالت ہے۔
علم النبی صلی اللہ علیہ وسلم پر اعتراضات کا قلع قمع صفحہ 70
اب جاہل ہم ہی تو نہیں کہہ رہے یہ تو اپنے بھی کہنے لگے ہیں۔
ایک اور دلیل
فاضل بریلوی سے پوچھا گیا کہ حنفیوں کی نماز شافعی المذہب کے پیچھے جائز ہے یا نہیں؟
الجواب: نہیں جائز، اس لیے کہ غیر مقلدین اہل ہوا سے ہیں اور اہل ہوا کے پیچھے نماز جائز نہیں۔
عرفان شریعت حصہ سوم صفحہ 25
کون ہے جو اس کو فاضل بریلوی کے علم پر دلیل بنائے ؟یہ تو فاضل بریلوی کی جہالت کی ہی دلیل بنے گی!
القصہ، ہم نے قدرے تفصیل سے عرض کیا ہے کہ فاضل بریلوی کا ترجمہ کنز الایمان بہت ساری خامیوں سے بھرا ہوا ہے جو آپ آگے ملاحظہ فرمائیں گے اب تک ہم نے یہ باتیں گوش گذار کی ہیں کہ یہ ترجمہ کرنے کی اہلیت نہیں رکھتے کیونکہ یہ علم سے کورے تھے۔ جاہل و جہالت کے لفظ آپ ملاحظہ فرماچکے انہی گھر سے مل گئے۔ اس لیے کنز الایمان سے بجائے استفادہ کے بچنے ہی میں خیر ہے۔اگرچہ بریلوی حضرات تو ان کو بڑھا چڑھا کر یہاں تک لکھ رہے ہیں
ان سے نقطہ برابر خطا ناممکن تھی۔
احکام شریعت مکتبہ ضیاء القرآن مکتبہ نظامیہ صفحہ 27
سید الانس والجان، فتاوی رضویہ جلد 17 صفحہ 177
ان کو دیکھ کر صحابہ کرام کی زیارت کا شوق کم ہوگیا۔
وصایا شریف طبع اول صفحہ 24
لفظ محمد کی شکل بنا کر سوتے سر میم کہنیاں ح اور کمر دوسری میم اور پاؤں دال بن جاتے تھے اس طرح سونے کا فائدہ یہ تھا کہ ساری رات 70ہزار فرشتے اس نام پاک درود پڑھتے رہتے تھے۔
سیرت امام احمد رضا صفحہ 45
ان کے چہرہ سے حسن مصطفی کی جھلک نظر آتی تھی۔
دو عظیم رہنما ابو حنیفہ و رضاصفحہ 159
فاضل بریلوی کا بچپن میں طوائف کو کرتا اٹھا کر دکھانے والا جو واقعہ ہے اس کو بریلوی حضرات نے من جانب اللہ لکھا ہے۔
فیضان اعلی حضرت صفحہ 87
یہ سب کچھ فضائل ومناقب تراشنے کے باوجود وہ جاہلوں کے پیشوا ہی رہے، جو یہ سب جھوٹ تراش کر بھی فاضل بریلوی سے جہالت کی سیاہی نہ دھوسکے۔