کنز الایمان کا تفصیلی جائزہ

User Rating: 4 / 5

Star ActiveStar ActiveStar ActiveStar ActiveStar Inactive
 
کنز الایمان کا تفصیلی جائزہ
بسم اللہ الرحمن الرحیم
برادران اہل السنت والجماعت ! اعلی حضرت فاضل بریلوی نے ایک ترجمہ قرآن ’’کنز الایمان‘‘ لکھا جس میں غلطیوں کی بھرمار ہے اور یہ ترجمہ تحریف کا شاہکار ہے۔ اعلی حضرت نے اس میں مختلف اعتبار سے ٹھوکریں کھائی ہیں۔ کبھی تو کسی لفظ کا بالکل ترجمہ ہی نہیں کرتے، کبھی کرتے ہیں تو ڈبل ڈبل ترجمہ کردیتے ہیں ، کبھی ایسا ترجمہ کردیتے ہیں جو بالکل غلط ہوتا ہے، اور کبھی ایسے مشکل الفاظ سے ترجمہ کرتے ہیں جو اردو لغت میں بھی ڈھونڈنے سے نہیں ملتے،اور کبھی ایسا ترجمہ کرتے ہیں جو فصاحت و بلاغت او ر قرآن کریم کے شایان شان بالکل بھی نہیں ہوتا۔
اور بھی کئی وجوہات ہیں جس کی وجہ سے ’’کنز الایمان‘‘ کو عرب و عجم میں مسترد کردیا گیا ہے۔ کہیں پابندی لگادی گئی ہے اور کہیں اسے جلادینے کا فتوی دیا گیا ہے۔جیسا کہ انواررضا،جمال کرم،ضیاء حرم کے اعلی حضرت نمبر وغیرہ میں یہ بات درج ہے۔ بہرحال کنز الایمان کو مستر دکرنے کی کئی وجوہات ہیں ان میں منجملہ یہ بھی ہے کہ اعلی حضرت نے ترجمہ کرتے ہوئے نہ سابقہ تراجم کو پیش نظر رکھا اور نہ سابقہ مفسرین کی تفاسیر کو دیکھا بلکہ برجستہ اور بغیر سوچے سمجھے ترجمہ لکھوادیتے اور یہ لکھوانا بھی قیلولہ اور آرام کے وقت ہوتا۔ جیسا کہ انوار رضا اور براہین صادق وغیرہا میں مذکور ہے۔ اب آپ سوچیں کہ جب پہلوں کے ترجمہ اور ان کی تفاسیر کو دیکھ کر ترجمہ بھی نہیں کرنا اور پھر کرنا بھی آرام کے وقت جب آدمی تھک کر چور چور ہوجاتا ہے تو ظاہر ہے پھر ایسے ہی گل کھلیں گے جیسا کہ کنز الایمان میں کھلے۔شاید بریلوی حضرات کہیں کہ چلو دنیا نے اگر اس ترجمہ کو مسترد کردیا تو کیا ہوا ہم نے تو مسترد نہیں کیا تو عرض ہے کہ بریلوی حضرات میں سے بھی کتنوں نے اسے رد کیا اور اس کی اغلاط نکالی ہیں ، بلکہ ہماری کتاب کا اصل موضوع بھی اعلی حضرت کی وہ اغلاط ہیں جن پر ان کے ادنی حضرات جابجا رد کرتے نظر آتے ہیں۔
اور یہ بھی حقیقت ہے اس وقت کی ضرورت یہ ترجمہ بالکل بھی نہیں ہے جیسا کہ خود بریلویوں نے لکھا کہ
(1) پیر کرم شام کے بیٹے حفیظ البرکات صاحب لکھتے ہیں:
’’اس کے کچھ الفاظ موجودہ دور میں عام مروج نہیں ہیں عوام کو ان کے سمجھنے میں دشواری کا سامنا کرنا پڑتا ہے ‘‘۔
کنز الایمان: ص1142:ضیاء القرآن پبلیشزر
(2) مفتی عزیزاحمد قادری بدایونی لکھتے ہیں:
’’چونکہ اعلی حضرت فاضل بریلوی مولانا احمد رضاخان کے ترجمے میں کچھ الفاظ فارسی عربی اور ایرانی اردو ترکیب پر مشتمل تھے جو پاکستان کے عام مسلمانوں کی سمجھ میں نہیں آتے اس وجہ سے لوگ پوری طرح ترجمہ سمجھ نہیں پاتے‘‘۔
مقدمہ ترجمہ قادری المعروف مقدمہ تفسیر ابن عباس اردو
(3) مولوی احمد سعید کاظمی لکھتے ہیں:
اس میں ایسے الفاظ موجود ہیں جن کا استعمال آج کل محاورات میں متروک ہے۔
اعتذارالبیان ترجمہ قرآن
خلاصۃ الکلام
کنز الایمان کئی جگہ

ظاہر نظم قرآنی سے ہٹ کر ہے۔

شان نزول سے مطابقت نہیں رکھتا۔

فہم رسول ﷺ کے خلاف ہے۔

وحی الٰہی کے خلاف ہے۔

فہم صحابہ ؓ کے خلاف ہے۔

غلط ترجمہ ہے۔

احادیث صحیحہ کے خلا ف ہے۔

عقلاً مخدوش ہے۔

صحیح نہیں۔

ہر اعتبار سے نامناسب ہے۔

قرآن مجید میں اس کی کوئی گنجائش نہیں۔

ضعیف ہے۔

سیاق و سباق کے خلاف ہے۔

ترجمہ دشوار ہے۔

برصغیر کی عوام کو سمجھ نہیں آتا۔

پرانی اردو پر مشتمل ہے۔
جیسا کہ آپ کو آگے چل کر معلوم ہوگا۔
شاید یہی وجہ تھی کہ پروفیسر مسعود صاحب کو اپنے ہم مسلک ساتھیوں کے ساتھ شکوہ کناں ہونا پڑا وہ لکھتے ہیں
’’ساٹھ سال ہوئے ہیں کہ فاضل بریلوی نے قرآن کریم کا جیتا جاگتا اردو ترجمہ پیش کیا۔ ضرورت تھی کہ اس کی زیادہ سے زیادہ اشاعت کی جاتی مگر نہ معلوم کیوں یہ اتنی سست رفتاری سے چلا کہ بعد والے آگے بڑھ گئے۔تعمیر پاکستان کے بعد تو ایسے جواہر پارے برق رفتاری کے ساتھ آگے بڑھے ہیں مگر حقوق طباعت کی ہوس نے ہمارے بہت سے شہ پاروں کو دفن کردیا،ممکن ہے اس کے ساتھ بھی یہی کچھ ہوا ہو۔ خدا خدا کرکے چند سال ہوئے ہیں یہ پوری طرح منظر عام پر آیا۔ ایک عزیز نے اس کا مطالعہ کیا تو فرمایا ایک نیا ترجمہ شائع ہوا ہے مترجم کوئی مولوی احمد رضاخان صاحب ہیں۔ راقم نے عرض کیا یہ ترجمہ 1330ھ، 1911 ء میں شائع ہوچکا تھا۔ مولانا محمود حسن کا ترجمہ 1338ھ، 1919ء میں مکمل ہوا اور 1342ھ، 1923ء میں منظر عام پر آیا۔ مولانا ابو الکلام آزاد، مودودی اور مولانا عبد الماجد دریاآبادی کے تراجم (مع تفسیر قرآن) تو بہت بعد کی چیزیں ہیں۔ لیکن یہ تراجم اس شان سے شائع کیے گئے کہ یہ کہنا بے جا نہ ہوگاکہ سابقین اولین پر شہرت میں سبقت لے گئے۔‘‘
فاضل بریلوی علماء حجاز کی نظر میں: ص 21
برادران اہل السنۃ والجماعۃ !آپ نے ملاحظہ فرمالیا کہ اعلی حضرت فاضل بریلوی کا ترجمہ موجودہ دور کے اندر مسترد اور مطعون ہوا ہے اس کی ایک وجہ ہم نے عرض کردی تھی اب دوسری وجہ ملاحظہ فرمائیں کہ اس میں اسلاف سے ہٹ کر غلط ترجمے کیے گئے ہیں۔
کنزالایمان میں غلط ترجموں کی نشاندہی بریلوی علماء کی زبانی
(1) لِیَغْفِرَ لَکَ اللّٰہُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِکَ وَمَاتَاَخَّرَ
الفتح: آیت 2
تاکہ اللہ تمہارے سبب سے گناہ بخشے تمہارے اگلوں کے اور تمہارے پچھلوں کے۔
کنزالایمان
یہ جو ترجمہ اعلی حضرت نے کیا ہے مولوی غلام رسول سعیدی بریلوی نے لکھا ہے کہ یہ ترجمہ کرنا صحیح نہیں ہے۔
شرح مسلم: ج7:ص 325
پروفیسر محمد ابو الخیر زیبر حیدر آبادی نے بھی اس کو غلط ٹھہرایا ہے۔
خلاف اولی کے رد میں: ص 311
اور سید محمد مدنی اشرفی جیلانی صاحب نے تو اعلی حضرت کے اس ترجمہ کو شان نزول، وحی الٰہی، فہم رسالت مآب ﷺ، فہم صحابہ ؓ کے خلاف قرار دیا ہے۔
التصدیقات لدفع التلبیسات:ص59
(2) اِھْبِطُوْا مِصْرا
البقرۃ: آیت 61
کے ترجمہ میں خان صاحب نے ’’مصرا‘‘ سے مراد خاص مصر کا قول بھی لکھا ہے جس کو مفتی احمد یار نعیمی صاحب نے رد کرتے ہوئے اسے ضعیف قول لکھا ہے بلکہ آیت کریمہ
اُدْخُلْوْ ا الْاَرْضَ الْمُقَدَّسَۃِ الَّتِیْ کَتَبَ اللّٰہُ عَلَیْکُمْ وَلَا تَرْتَدُّوْا عَلَی اَدْبَارِکُمْ فَتَنْقَلِبُوْا خَاسِرِیْنَ
کے خلاف قرار دیا ہے۔
تفسیر نعیمی: ج1:ص 374
(3) اعلی حضرت نے ’’رب العالمین‘‘ کا ترجمہ ’’مالک سارے جہاں والوں کا ‘‘ کیا ہے، جبکہ پیر کرم شاہ الازہری فرماتے ہیں
’’جب میں نے ترجمہ شروع کیا تو بعض مقامات پر دوسرے مترجمین سے میرا اختلاف ہوگیا اللہ تعالی نے سورہ فاتحہ میں ارشاد فرمایا رب العالمین اس کا ترجمہ اکثر حضرات نے پالنے والا اور مالک وغیرہ کے الفاظ کے ساتھ کیا ہے لیکن درحقیقت لفظ ’’رب‘‘ مصدرہے اس کا معنی تربیت اور تربیت عربی میں کہتے ہیں کسی چیز کو اس کی ازلی استعداد اور فطری صلاحیت کے مطابق آہستہ آہستہ مرتبہ کمال تک پہنچانا اس لغوی مفہوم کو مدنظر رکھتے ہوئے اب لفظ رب کا ترجمہ کریں تو پالنے والے یا مالک کے نہیں بلکہ ترجمہ ہوگا مرتبہ کمال تک پہنچانے والا‘‘۔
جمال کرم: ج2:ص 23
غور فرمائیں پیر صاحب نے اعلی حضرت کے ترجمہ کو ناقص قرار دیا۔
(4) قَالَ اِنِّیْٓ اُرِیْدُ اَنْ اُنْکِحَکَ اِحْدَی ابْنَتَیَّ ھَاتَیْنِ عَلَی اَنْ تَأْجُرَنِیْ ثَمَانِیَ حِجَج
سورہ قصص: آیت 27
ترجمہ:کہا میں چاہتا ہوں کہ اپنی دونوں بیٹیوں میں سے ایک تمہیں بیاہ دوں اس مہر پر کہ تم آٹھ برس میری ملازمت کرو۔
کنز الایمان
اس ترجمہ کے متعلق مفتی اقتدار خان نعیمی لکھتے ہیں:
’’یہ ترجمہ ہر اعتبار سے نامناسب ہے نہ تو قرآن مجید میں اس کی گنجائش ہے نہ کسی لفظ کا ترجمہ ہوسکتا ہے۔ مہر زوجہ کے جو اصول و ضوابط ہیں یا شرائط ہیں یہ ترجمہ ان کے بھی خلاف ہے۔ علاوہ ازیں فقہ حنفی کے بھی خلاف ہے ‘‘۔
تنقیدات علی مطبوعات: ص 29
آگے لکھتے ہیں:
’’بلکہ اس طرح کا مہر تو باقی ائمہ ثلاثہ کے بھی خلاف ہے ‘‘۔
تنقیدات علی مطبوعات ص:30
اور اقتدار خان صاحب کے والد مفتی احمد یار خان نعیمی صاحب لکھتے ہیں
’’موسی علیہ السلام کا شعیب علیہ السلام کی بکریاں چرانا مہر نہ تھا بلکہ شرط نکاح تھی، شرط نکاح کچھ اور ہے مہر کچھ اور ہے اس لیے انہوں فرمایا تھا۔ علیٰ شرط کے لیے آتا ہے نہ کہ معاوضہ کے لیے نیز مہرمال ہو تا ہے نہ کہ خدمت بہرحال وہ شرط نکاح تھی ‘‘۔
تفسیر نعیمی: ج4:ص556، آل عمران آیت 19
باپ بیٹے نے اپنے اعلی حضرت خان صاحب بریلوی کی جو خبر لی ہے اس پر ہمیں کسی تبصرے کی ضرورت نہیں۔
(5) وَانْظُرْ اِلَی حِمَارِکَ
البقرہ:آیت 259
ترجمہ:’’اور اپنے گدھے کو دیکھ جس کی ہڈیاں تک سلامت نہ رہیں۔
کنز الایمان
جبکہ پیر کرم شاہ صاحب لکھتے ہیں:
’’اور اس کی ہڈیاں بکھری پڑی ہیں ‘‘۔
ضیاء القرآن: ج1:ص182
ڈاکٹر غلام سرور قادری لکھتے ہیں:
”اس میں ہڈیوں کے سوا کچھ باقی نہ رہا ‘‘۔
عمدۃ البیان: ص 166
صحیح بات بھی یہی ہے کہ ہڈیاں سلامت تھیں لیکن بکھری پڑی تھیں جیسا کہ اس آیت میں آگے آتا ہے کہ دیکھو ان ہڈیوں کی طرف کہ کیسے ہم ان کو جوڑتے ہیں۔
پیر کرم شاہ اس آیت وانظر الی العظام کیف ننشزھا کا ترجمہ کرتے ہیں
’’اور دیکھ ان ہڈیوں کو کہ ہم کیسے جوڑتے ہیں ‘‘۔
ضیاء القرآن: ج1:ص182
معلوم ہوا کہ سلامت تو تھیں لیکن بکھری ہوئی تھیں۔ اب دیکھیے کہ اعلی حضرت کا یہ کہنا کہ ہڈیاں تک سلامت نہ رہیں یہ بات غلط ہوئی یا نہیں؟
(6) وَمَابِکُمْ مِّنْ نِّعْمَۃٍ فَمِنَ اللّٰہِ ثُمَّ اِذَا مَسَّکُمُ الضُّرُّ فَاِلَیْہِ تَجْئَرُوْنَ
نحل: آیت 53
ترجمہ: اور تمہارے پاس جو نعمت ہے سب اللہ کی طرف سے ہے پھر جب تمہیں تکلیف پہنچتی ہے تو اس کی طرف پناہ لے جاتے ہو‘‘۔
کنز الایمان
قارئین کرام ’’تجئرون‘‘ کی لغوی تحقیق ملاحظہ فرمائیں:
پیر کرم شاہ لکھتے ہیں:
’’تجئرون، جائر جؤار ای صاح یعنی چیخنا چلانا، جئر الرجل الی اللہ ای تضرع بالدعا ء، تجئرون کا معنی رونا گڑگڑنا‘‘۔
ضیاء القرآن: ج2:ص576
علامہ غلام رسول سعیدی لکھتے ہیں:
’’ اس آیت میں فریاد کے لیے لفظ ہے تجئرون۔ اس کا معنی ہے چلا کر فریا د کرنا ‘‘۔
تبیان القرآن: 6:ص 464
ابو الحسنات قادری صاحب لکھتے ہیں:
’’تجئرون جؤار سے ہے اور جؤار اصل میں صیاح الوحش یعنی جنگلی جانورکی چیخ کو کہتے ہیں اس کا استعمال محاورہ عرب میں رفع صوت بالدعا میں ہوگیا جس کا حاصل معنی تضرع و زاری کے ہوگئے‘‘۔
تفسیر الحسنات: ج3:516
قارئین کرام ! ان تحقیقات سے معلوم ہوا کہ کنز الایمان والا ترجمہ ’’پناہ لیتے ہو‘‘ کسی طرح بھی درست نہیں اصل میں خان صاحب کو ایک دھوکا لگا ہے اور وہ یہ کہ وہ سمجھے کہ شاید اس لفظ کا معنی بھی وہی ہے جو ’’اجار، یجیر‘‘ کا ہے اس لیے پناہ لینے کا معنی کردیا جوکہ ہر طرح سے غلط ہے کنز الایمان کے گن گانے والوں کو باہوش ملاحظہ فرمانا چاہیے کہ ان کے اپنے ہی علماء خان صاحب کی تحقیق کو رد کررہے ہیں۔
(7) وَ قَوْلِھِمْ اِنَّا قَتَلْنَا الْمَسِیْحَ عِیْسیٰ ابْنَ مَرْیَمَ رَسُوْلَ اللّٰہِ
النساء: آیت 157
ترجمہ:اور ان کے اس کہنے پر ہم نے مسیح عیسی بن مریم اللہ کے رسول کو شہید کیا۔
کنز الایمان
قارئین ذی وقار! آپ اس بات کو سوچیے کہ قرآن پاک نے تو یہودیوں کا قول نقل کیا ہے اور دشمن کبھی بھی اپنے مقابل کے لیے اس قسم کے الفاظ استعمال نہیں کرتا۔ بھلا دشمن بھی کبھی اپنے مقابل کو شہید کہتا ہے؟ یہ خان صاحب کی کم فہمی ہے وہ بے تکی عقیدت میں فہم قرآن سے خود بھی محروم ہیں اور دوسروں کو بھی محروم کرنے کی پوری کوشش کنز الایمان میں کررہے ہیں (اعاذنا اللہ منہ) اس آیت کے متعلق مزید تفصیل آگے آرہی ہے۔
(8) یٰٓاَ یُّھَا الَّذِیْنَ آمَنُوْا اِنَّ کَثِیْراً مِّنَ الْاَحْبَارِ وَالرُّھْبَانِ
توبہ آیت: 34
ترجمہ:اے ایمان والو!بے شک بہت پادری اور جوگی۔
کنز الایمان
یہاں فاضل بریلوی نے ’’رہبان‘‘ کا معنی ’’جوگی‘‘ کیا ہے جو عقلاًو نقلاًًدرست نہیں ہے۔ نقلاً تو اس وجہ سے کہ
آپ کے علامہ سعیدی لکھتے ہیں:
’’رہبان کا لفظ ان علماء نصاری کے ساتھ خاص ہے جو گرجوں میں رہتے ہیں‘‘۔
تبیان القرآن: ج5:ص122
مفتی احمد یار گجراتی صاحب لکھتے ہیں:
’’رہبان عیسائیوں کے راہب تارک الدینا گوشہ نشین‘‘۔
تفسیر نعیمی: ج10:ص278
پیر کرم شاہ الازہری لکھتے ہیں:
’’صحیح قول یہ ہے کہ اس میں اہل کتاب اور مسلمان سب داخل ہیں ‘‘۔
ضیاء القرآن: ج2:ص200
بہر کیف ان تمام اقوال کی روشنی میں ’’جوگی‘‘ جوکہ ہندو فقیر ہوتے ہیں وہ اس آیت کا مصداق کیسے ہوئے؟ اور عقلاً اس وجہ سے یہ ترجمہ غلط ہے کہ بقول بریلوی حضرات کے صحیح یہی ہے کہ اس لفظ میں اہل کتاب اور مسلمان سب شامل ہیں تو گویا خان صاحب جوگیوں کو یا تو اہل کتاب سمجھتے ہیں یا مسلمان سمجھتے ہیں اور یہ دونوں صورتیں غلط ہیں۔
(9) فَاِنْ یَّشَأِ اللّٰہُ یَخْتِمْ عَلَی قَلْبِکَ
الشوری: آیت 24
ترجمہ:اور اگر چاہے تو تمہارے اوپراپنی رحمت و حفاظت کی مہر فرمادے۔
کنز الایمان
قارئین کرام! خان صاحب بریلوی نے مہر سے مراد ’’ر حمت و حفاظت ‘‘ کی مہر مراد لی ہے جوکہ عقلاً و نقلاً مردود ہے۔ نقلاً تو اس وجہ سے کہ پہلے کے مفسرین نے اس قسم کی کوئی بات نہیں لکھی۔ بلکہ خان صاحب کی اس جدید تحقیق کو تو بریلویوں نے بھی ٹھکرادیا
پیر کرم شاہ صاحب لکھتے ہیں:
’’کفار عموماً ہرزہ سرائی کرتے کہ حضور علیہ السلام کا یہ کہنا کہ یہ اللہ تعالی کا کلام ہے محض غلط و بہتان ہے۔ اللہ تعالی ان کی اس بے باکی پر اظہار حیر ت کرتے ہیں اور اس کی تردید فرماتے ہیں کہ وہ شخص جو ہر آن اپنے رب سے ڈر رہا ہے جس کا دل اس کے خوف سے ہر وقت لبریز رہتا ہو کیا ایسی ہستی سے توقع کی جاسکتی ہے کہ وہ اپنے خداوند ذو الجلال کی طرف غلط بات منسوب کرےگا؟ ہاں اگر آپ کا دل اے محبوب! اللہ تعالی کے خوف سے معمور نہ ہوتا بلکہ اللہ تعالی نے اس پر مہر لگادی ہوتی تو پھر ایسا ممکن تھا‘‘۔
ضیاء القرآن: ج4:ص 379
بریلوی شیخ الحدیث غلام رسول سعیدی صاحب لکھتے ہیں:
’’کفار کا مطلب یہ تھا کہ آپ نے جو نبوت کا دعوی کیا ہے اور قرآن مجید کی آیات تلاوت کرکے یہ کہتے ہیں کہ اللہ کا کلام ہے سو آپ کا یہ کہنا جھوٹ ہے اور اللہ تعالی پر افتراء ہے اللہ تعالی نے ان کے اس قول کو رد کرتے ہوئے فرمایا پس اگر اللہ چاہے تو وہ آپ کے دل پر مہر لگادے گا یعنی اگر اللہ چاہتا تو آ پ کے دل پر ایسی مہر لگادیتا کہ آپ کسی چیز کا ادراک نہ کرسکتے نہ کسی حرف یا لفظ کا تلفظ کرسکتے حتی کہ آپ کوئی بات نہ کرسکتے۔۔۔الخ ‘‘۔
تبیان القرآن: ج10:ص590
معلوم ہوگیا کہ یہ مہر حفاظت و رحمت کی نہیں تھی کیونکہ وہ تو ہر دم آپ پر تھی یہ مہر تو اور ہے خان صاحب کا اس مہر کو رحمت و حفاظت کی مہر سمجھنا قرآن فہمی سے بے خبری کی دلیل ہے۔ بریلوی مسلک کے دو ذمہ دار حضرات خان صاحب کی بات کا رد کررہے ہیں، اور عقلاً یہ ترجمہ اس وجہ سے غلط ہے کہ اعلی حضرت کا ترجمہ پڑھنے سے یہ سمجھ آتا ہے کہ آپ علیہ السلام کے قلب اطہر پر رحمت و حفاظت کی مہر نہیں لگائی گئی تھی جبکہ یہ بات انتہائی غلط ہے۔ اس پر شاید کسی پڑھے لکھے کو اشکا ل ہو کہ یہ تو مفہوم مخالف ہے اور مفہوم مخالف کا اعتبار کرنا ناجائز ہے تو جواباً عرض ہے کہ یہ ترجمہ صرف اہل علم ہی نہیں پڑھتے بلکہ عوام الناس بھی پڑھتے ہیں اور وہ اس سے یہی کچھ مراد لیتے ہیں جو ہم نے عرض کیا ہے اور دوسری بات یہ ہے کہ مفہوم مخالف خان صاحب بریلوی کے ہاں معتبر ہے ملاحظہ ہو
’’مفہوم مخالف حنفیہ کے نزدیک عبارت شارع غیر متعلقہ بعقوبات میں معتبر نہیں کلام صحابہ و من بعدھم میں معتبر ہے ‘‘۔
فہارس فتاوی رضویہ: ص 105
بہرحال یہ ترجمہ عقلاً و نقلاً دونوں طرح سے سلف صالحین مفسرین کرام کے خلاف ہونے کی وجہ سے مردود ہے۔
(10) قَالَ رَبِّ اِنِّیْ وَھَنَ الْعَظْمُ مِنِّیْ
مریم: آیت 4
ترجمہ:عرض کی اے میرے رب میری ہڈی کمزور ہوگئی۔
کنز الایمان
یہاں خان صاحب نے العظم کا ترجمہ ’’ہڈی‘‘ کیا ہے جبکہ انہی کے گھر کے ذمہ دار حضرات کچھ اور کہتے ہیں۔ چنانچہ:
پیر ابو الحسنات قادری لکھتے ہیں:
’’العظم‘‘ ہڈیاں۔
تفسیر الحسنات: ج4:ص38
مفتی اقتدار خان نعیمی لکھتے ہیں:
’’واحد جنسی ہے ترجمہ ہے تمام ہڈیاں ‘‘۔
تفسیر نعیمی: ج16:ص118
خان صاحب چونکہ مستقل کسی سے پڑھے نہیں اس لیے الف لام جنسی کو پہچانانہیں۔
(11) مَا وَدَّعَکَ رَبُّکَ وَ مَا قَلٰی
الضحی:آیت 3
ترجمہ:تمہیں تمہارے رب نے نہ چھوڑا اور نہ مکروہ جانا۔
کنز الایمان
’’مکروہ‘‘ کا لفظ اگرچہ خان صاحب نے نفی کے ساتھ لکھا ہے لیکن نفی کے ساتھ بھی اس قسم کے الفاظ آپ ﷺ کے شایان شان نہیں۔ اس قسم کے الفاظ میں آپ علیہ السلام کے لیے حوصلہ افزائی تصور نہیں ہوسکتی کم از کم عشق و محبت کے ببانگ دہل دعوے کرنے والوں کو یہ زیبا نہیں۔ حضرت شیخ الہند رحمۃ اللہ علیہ نے کیسا عمدہ ترجمہ کیا
’’نہ وہ ناخوش ہوا‘‘۔
(12) اَلَّذِیْ اَنْقَضَ ظَھْرَکَ
الم شرح: آیت 3
ترجمہ:جس نے تمہاری پیٹھ توڑ دی۔
کنز الایمان
آپ دیکھیں کہ عشق و محبت کے دعویدار کیسے ہچکولے کھارہے ہیں اور آپ ﷺ کے شایان شان بہترین لفظ بھی ان کو نہیں مل رہا۔ ساری زندگی جو اللہ و رسول اور صحابہ و اسلاف کی توہین کرے اسے کیسے اچھے الفاظ نظر آسکتے ہیں۔ حضرت شیخ الہند ؒ اس کے ترجمہ میں لکھتے ہیں
’’جس نے تیری کمر کو جھکادیا تھا‘‘
کنز الایمان میں نبی ﷺ کو ’’تو‘‘ کہہ کر مخاطب کرنا
(1) جناب ابن پیر کرم شاہ حفیظ البرکات شاہ لکھتے ہیں:
’’اللہ تعالی نے قرآن مجید میں حضور ﷺ کو صیغہ واحد حاضر میں مخاطب فرمایا ہے لیکن اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ ترجمہ کرتے وقت اردو میں وہی لفظ استعمال کیے جائیں اردو زبان میں ’’تو‘‘ کہہ کراپنے بڑے کو مخاطب کرنا گستاخی ہے ‘‘۔
کنز الایمان: ص 1100:ضیاء القرآن پبلیشرز
(2) مفتی اقتدار خان نعیمی لکھتے ہیں:
’’حضور اقدس ﷺ کو صرف نام لے کر یا ”تو “، ”تا“ کرکے یا بشر، انسان، بھائی، بیٹا، چچا، تایا کہہ کر ہی پکارنا ہے تو تجھ میں اور ابو جہل اور ابو لہب دیگر کفار و خبثاء میں کیا فرق رہےگا؟
فتاوی نعیمیہ:ج5:ص158
(3) حفیظ البرکات شاہ لکھتے ہیں:
’’اردو زبان میں تو کہہ کر اپنےبڑے کو مخاطب کرنا گستاخی ہے۔ ہاں اللہ کے لیے تو، تُو استعمال کیا جاسکتا ہے کہ وہ مالک اور خالق اور بندے کا راز دار ہے لیکن حضورﷺ فداہ امی و ابی کے لیے تو استعمال کرنا اردو ادب و زبان کے خلاف ہو گا‘‘۔
کنز الایمان: ص 1100:ضیاء القرآن پبلشرز
(4) فاضل بریلوی کے والد مولوی نقی علی خان لکھتے ہیں:
’’ان دیار(برصغیر پاک و ہند) میں کسی معظم کو ’’تو‘‘کہنا گناہ اور ہمسر کو بھی اس طرح خطاب کرنا بے جا ہے ‘‘۔
اصول الرشاد: ص168،169
(5) ایک اور جگہ لکھتے ہیں:
’’عرب میں باپ اور بادشاہ سے کاف کے ساتھ (جس کا ترجمہ توہے)خطاب کرتے ہیں اور اس ملک میں یہ لفظ کسی معظم بلکہ ہمسر سے بھی کہنا گستاخی اور بے ہودگی سمجھتے ہیں۔ یہاں تک کہ اگر ہندی اپنے باپ یا بادشاہ خواہ کسی واجب التعظیم کو ’’تو‘‘ کہے گا شرعا بھی گستاخ و بے ادب اور تعزیر و تنبیہ کا مستوجب ٹھہرے گا‘‘۔
اصو ل الرشاد: ص 228
(6) مولوی محمد حنیف خان رضوی بریلوی نے اس کتاب کے مقدمہ میں اس کی تلخیص کی ہے وہ لکھتے ہیں
’’ہمارے دیار میں کسی معظم و بزرگ بلکہ ساتھی اور ہمسر کو بھی ’’تو‘‘ کہنا خلاف ادب اور گستاخی قرار پائے گا‘‘۔
مقدمہ اصول الرشاد
اب ذرا دیدہ عبرت سے ملاحظہ فرمائیں کہ یہ تمام فتوے کس طرح خان صاحب کے گلے میں فٹ ہوتے ہیں کیونکہ وہ کئی مقامات پر نبی کریم ﷺ کے لیے ’’تو ‘‘ کا لفظ اپنے ترجمہ میں استعمال کررہے ہیں صرف چند مثالیں ملاحظہ ہوں
(1) تَعْرِفُھُمْ بِسِیْمَاھُمْ
البقرۃ: آیت 273
ترجمہ:تُو انہیں ان کی صورت سے پہچان لے گا۔
کنز الایمان
(2) فَاِنْ فَعَلْتَ فَاِنَّکَ اِذاً مِّنَ الظَّالِمِیْنَ
یونس: آیت 106
ترجمہ:پھر اگر ایسا کیاتو اس وقت تُو ظالموں میں سے ہوگا۔
کنز الایمان
(3) وَ مِنْ اَہْلِ الْکِتَابِ مَنْ اِنْ تَأْمَنْہُ بِقِنْطَارٍ۔۔۔الخ
آل عمران: آیت 75
ترجمہ:اور کتابیوں میں کوئی وہ ہے کہ اگر تُو اس کے پاس ایک ڈھیر امانت رکھے تو وہ تجھے ادا کردیگا اور ان میں کوئی وہ ہے کہ اگر ایک اشرفی اس کے پاس امانت رکھے تو وہ تجھے پھیر کر نہ دے گا مگر جب تک تو اس کے سر پر کھڑارہے۔
کنز الایمان
(4) وَلَوْ تَرٰی اِذْفَزِعُوْا
السبا:آیت 51
ترجمہ:کسی طرح تو دیکھے جب وہ گھبراہٹ میں ڈالے جائیں گے۔
کنز الایمان
(5) وَ مَنْ یُّرِدِ اللّٰہُ فِتْنَتَہٗ فَلَنْ تَمْلِکَ لَہٗ مِنَ اللّٰہِ شَیْئًا
المائدہ: آیت 41
ترجمہ:اور جسے اللہ گمراہ کرنا چاہے تو ہر گز تو اللہ سے اس کا کچھ نہ بناسکے گا
کنز الایمان
(6) لَوْ تَرَی اِذْیَتَوَفَّی الَّذِیْنَ کَفَرُوْ ا الْمَلٓائِکَۃُ
انفال: آیت 50
ترجمہ:کبھی تو دیکھے جب فرشتے کافروں کی جان نکالتے ہیں۔
کنز الایمان
(7) اَللّٰہُ الَّذِیْ یُرْسِلُ الرِّیَاحَ۔۔ الخ
الروم: آیت 48)
ترجمہ:اللہ ہے کہ بھیجتا ہے ہوائیں کہ ابھارتی ہیں بادل پھر اسے پھیلادیتا ہے آسمان پر جیسا چاہے اور اسے پارہ پارہ کردیتا ہے تو تُو دیکھے کہ اس کے بیچ میں سے مینہ نکل رہا ہے۔
کنز الایمان
(8) اَلَمْ تَرَ اَنَّ اللّٰہَ اَنْزَلَ مِنَ السَّمَآئِ مآئً
الزمر:آیت 21
ترجمہ:کیا تو نے نہیں دیکھا کہ اللہ نے آسمان سے پانی اتارا۔
کنز الایمان
اس کے علاوہ القارعۃ: آیت 3، الانفطار آیت 19، المرسلات آیت 14، الدھر آیت 19، المنافقون آیت 4، الہمزہ آیت 5، القارعۃ آیت 10 میں بھی نبی کریم ﷺ کو ’’تُو‘‘ کہہ کر مخاطب کیا۔
قارئین کرام نمونے کے طور پر چند جگہوں کے ترجمے ہم نے پیش کردیے ہیں جن میں اعلی حضرت نے نبی پاک ﷺ کے لیے ’’تُو‘‘ کا لفظ استعمال کیا اور بقول حفیظ البرکات خان صاحب نے نبی کریم ﷺ کی گستاخی کا ارتکاب کیا ہے اور بقول مفتی اقتدار احمد کے، خان صاحب بریلوی اور ابو جہل و ابو لہب میں کوئی فر ق نہیں اور بقول مولوی نقی علی خان ان کے بیٹے مولوی احمد رضاخان صاحب قابل تعزیر ہیں۔ کیا اب بھی کوئی کہہ سکتا ہے کہ اس ترجمہ میں نبی کریم ﷺ کی ناموس کا مکمل تحفظ کیا گیا ہے؟
ترجمہ کنز الایمان میں ذو معنی الفاظ کا استعمال
قارئین کرام ! بریلوی علماء نے ایک اصول لکھا ہے ملاحظہ فرمائیں:
(1) پیر کرم شاہ صاحب لکھتے ہیں:
’’ہر ایسے لفظ کا استعمال بارگاہ رسالت میں ممنوع ہے جس میں تنقیص اور بے ادبی کا احتمال ہو ‘‘۔
ضیاء القرآن: ج1:ص 83
(2) مفتی احمد یار صاحب نعیمی لکھتے ہیں:
’’اللہ تعالی اور حضور ﷺ کی شان میں ایسے الفاظ بولنا حرام ہیں جن میں بے ادبی کا ادنی شائبہ بھی ہو‘‘۔
تفسیر نعیمی: ج1:ص 537
(3) پیر ابو الحسنات قادری لکھتے ہیں:
’’جس کلمہ میں ان کی شان میں ترک ادب کا وہم بھی ہو وہ زبان پر لانا ممنوع ہے ‘‘۔
تفسیر الحسنات: ج1:ص 245
(4) بریلوی صدر الافاضل مولوی نعیم الدین مراد آبادی صاحب لکھتے ہیں:
’’جس کلمہ میں ترک ادب کا شائبہ بھی ہو وہ زبان پر لانا ممنوع ہے ‘‘۔
خزائن العرفان: ص 29۔ مطبوعہ ضیاء القرآن لاہور
(5) بریلوی شیخ الحدیث مولوی غلام رسول سعیدی صاحب لکھتے ہیں:
’’جس لفظ میں توہین کا معنی نکلتا ہو اس لفظ کو نبی ﷺ کی جناب میں استعمال کرنا جائز نہیں ‘‘۔
تبیان القرآن: ج1:ص 474
(6) مولوی حسن علی رضوی میلسی لکھتا ہے:
’’جن الفاظ کاایک معنی صحیح اور ایک معنی غلط اور بے ادبی و گستاخی پر مبنی ہو ایسا ذو معنی الفاظ بھی سخت ممنوع ہے۔ للکفرین میں واضح اشارہ ہے۔ انبیاء علیہم السلام کی شان ارفع میں ادنی بے ادبی بھی کفر قطعی ہے ‘‘۔
محاسبہ دیوبندیت
قارئین کرام ! بڑا لمبا سلسلہ ہوجائےگا اگر ہم نےتمام حوالہ جات نقل کرنا شروع کیے تو،سردست یہی کافی ہے۔ اب آئیے اعلی حضرت کی طرف
(1) اعلی حضرت نے ’’سورہ الضحی‘‘ کی آیت نمبر7 ووجد ک ضالا فھدی کا ترجمہ کیا ہے
’’اور تمہیں اپنی محبت میں خود رفتہ پایا تو اپنی طرف راہ دی ‘‘۔
کنز الایمان
اور دوسری طرف اعلی حضرت ’’زلیخا‘‘ کے لیے بھی یہی الفاظ استعمال کرتے ہیں ملاحظہ ہو
اِنَّا لَنَرَاھَا فِی ضَلاَلٍ مُّبِیْنٍ
یوسف: آیت 30
ترجمہ:ہم تو اسے صریح خود رفتہ پاتے ہیں۔
کنز الایمان
قارئین کرام ! نبی پاک ﷺ کی اللہ کے لیے جو محبت اور تڑپ تھی وہ کتنی عمدہ اور اچھی تھی اس کے اچھا ہونے میں کسی کو کلام نہیں نہ اپنے اس کا انکا ر کرتے ہیں نہ بیگانے۔ خان صاحب نے اس محبت و تڑپ کو بھی خود رفتہ کہا اور جو تڑپ زلیخا کو سیدنا یوسف علیہ السلام کے لیے تھی وہ اچھی تو نہ تھی کیونکہ اس نے ا س تڑ پ و محبت میں آکر اپنی خواہش پوری کرنے کے لیے غلط طریقہ اپنایا۔ اعلی حضرت نے اس تڑپ اور اس سوچ کو جو وہ اپنے اندر چھپائے ہوئے تھی اس کو بھی خود رفتہ کہا۔
اب بتائیے کیا یہ کلمہ صرف صحیح لفظ یا صرف صحیح معنی کے لیے ہی استعمال ہوتا ہے؟ اعلی حضرت کی اپنی تصریح سے معلوم ہوا کہ یہ لفظ ’’خود رفتہ ‘‘ ایک گندی تڑپ اور سوچ اور غلط قسم کے پروگرام کے لیے بھی بولاجا تا ہے جیسا کہ اعلی حضرت نے بولا ہے تو کیا ایسا لفظ نبی پاک ﷺ کی عظمت و شان کے مناسب ہے؟ ہرگز نہیں اب وہ سارے فتوے اعلی حضرت پر لگتے ہیں یا نہیں؟ اس کا فیصلہ کرنا مشکل نہیں۔
سعیدی صاحب کے نزدیک یہ کفر ہے جبکہ حسن علی رضوی کے نزدیک تو یہ کفر قطعی ہے اور کفر کو کون احمق درست کہہ سکتا ہے؟
(15) مولوی غلام رسول سعیدی کا نقطہٴ نظر کہ جس لفظ میں توہین کا معنی نکلتا ہو اس لفظ کو نبی ﷺ کی جناب میں استعمال کرنا جائز نہیں اور نبی ﷺ کی توہین کفر ہے اور احمد یار نعیمی کے الفاظ بھی ذہن میں رکھیں کہ جس لفظ کے دو معنی ہوں اچھے اور برے تو وہ بھی اللہ تعالی اور حضور ﷺ کے لیے استعمال نہ کیے جائیں تاکہ دوسروں کو بدگوئی کا موقعہ نہ ملے۔
نور العرفان: ص 24مطبوعہ گجرات
اور حسن علی رضوی کا اصول تو بالکل مت بھولیے۔ اب اس اصول پر ذرا اعلی حضرت احمد رضاخان صاحب کا ترجمہ ہم پرکھ لیتے ہیں
(1) وَاللّٰہُ غَنِیٌّ حَلِیْمٌ
البقرۃ: آیت 263
ترجمہ:اور اللہ بے پروا حلیم والا ہے۔
کنز الایمان
قارئین کرام ! پیر محمد افضل قادری نے ’’فیر وز اللغات ‘‘ سے استدلال کیا ہے معلوم ہوتا ہے کہ ان کے ہاں معتبر ہے اس لیے آئیے اس لغت کو دیکھتے ہیں کہ اس میں ’’بے پرواہ ‘‘ کا کیا معنی کیا گیا ہے
’’بے پروا: غافل، بے فکر، مستغنی، دولت مند، سست، کاہل، توجہ نہ کرنے والا، دھیان نہ دینے والا، بے غرض، توکل ‘‘۔
جامع فیر وز اللغات: ص 244
کیا غافل اور سست و کاہل وغیرہا اللہ کی شان کے لائق ہیں؟ اگر نہیں اور ہر گز نہیں تو اعلی حضرت کے متعلق اور ان کے کنز الایمان کے متعلق کیا فتوی ہے؟
(2) وَاعْلَمُوْآ اَنَّ اللّٰہَ غَنِیّ حَمِیْد
البقرہ: آیت 267
ترجمہ:اور جان رکھو اللہ بے پرواہ سراہا گیا ہے۔
کنز الایمان
قارئین کرام !’’سراہا گیا‘‘ کا لفظ اعلی حضرت نے استعمال کیا ہے، اب آئیے اسی فیرو ز اللغات کو دیکھیے اس میں لکھا ہے کہ
’’سراہنا: تعریف کرنا، قدرکرنا،داد دینا، چاپلوسی یا خوشامد کرنا ‘‘۔
جامع فیرو ز اللغات: ص 754
کیا چاپلوسی یا خوشامد کرنا جیسے عامیانہ الفاظ ذات خدا کے لیے مناسب ہیں؟ ہر گز نہیں! بریلویوں کے اپنے اصول سے یہ درست نہیں۔
(3) فَلَمَّا اَحَسَّ عِیْسٰی مِنْھُمُ الْکُفْرَ
آل عمران: آیت 52
ترجمہ:پھر عیسی نے ان سے کفر پایا۔
کنز الایمان
یہاں اعلی حضرت نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے لیے ’’پایا‘‘ کا لفظ استعمال کیا ہے اور بریلوی ملاؤں کے نزدیک مشہور و معتبر کتاب ’’فیرو ز اللغات ‘‘ میں لکھا ہے کہ
’’پانا:،کھانا نوش کرنا،وصول کرنا،ہاتھ آنا، معلوم ہونا، جاننا، بھوگنا،بھرنا، اٹھانا،برداشت کرنا، سہنا‘‘۔
جامع فیروز اللغات: ص 267
ان میں کئی معنی ایسے ہیں جن کا حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے لیے اس آیت میں استعمال کرنا درست نہیں ہے۔ آپ خود ملاحظہ فرمالیں لہٰذا بریلوی اصول میں یہ لفظ نبی عیسیٰ علیہ السلام کے لیے استعمال کرنا درست نہیں۔
(4) لَنُغْرِیَنَّکَ بِھِمْ
الاحزاب: آیت 60
ترجمہ:تو ضرور ہم تمہیں ان پر شہہ دیں گے۔
کنز الایمان
یہاں اعلی حضرت نے آپ ﷺ کے لیے ’’شہ دیں گے‘‘ کا لفظ استعمال کیا ہے۔ بریلویوں کے ہاں مشہو ر و معروف اور معتبر لغت جامع فیر و ز اللغات میں اس کا معنی لکھا ہے
’’شہ دینا:اکسانا، بہکانا،شطرنج کے بادشاہ کو کشت دینا وغیرہ ‘‘۔
کیا ان میں بہکانا وغیرہ جو معنی ہیں ان کو نبی پاک ﷺ کی طرف منسوب کرنا درست ہے؟ اگر نہیں اور یقیناً نہیں تو بریلوی اصول کے تحت ایسے ذو معنی الفاظ نبی پاک ﷺ کی شان میں استعمال کرنے پرخان صاحب قطعی کافر ہوئے یا نہیں؟
(5) فَاَنْتَ لَہ تَصَدّٰی
عبس: آیت 6
ترجمہ:تم اس کے تو پیچھے پڑتے ہو۔
کنز الایمان
یہاں اعلی حضرت نے نبی پاک ﷺ کے لیے پیچھے پڑتے ہو لفظ استعمال کیا ہے یہ کتنا عامیانہ لفظ ہے !فیروز اللغات میں اس کا معنی لکھا ہے
’’پیچھے پڑنا:لپٹنا،سر ہونا،ستانا،دق کرنا،دشمنی کرنا،رسوائی چاہنا‘‘۔
جامع فیروز اللغات: ص 327
تو جناب ان میں ستانا،دق کرنا، دشمنی کرنا وغیرہم الفاظ کا استعمال نبی پاک ﷺ کے لیے بالکل جائز نہیں تو پھر بریلوی اصول میں یہ لفظ پیچھے پڑنا سرکار طیبہ ﷺ کے لیے استعمال کرنا درست نہیں۔ خان صاحب نے تو یہ لفظ استعمال کیا ہے کیا پھر خان صاحب کے متعلق کیا فتوی ہے؟
(6) وَوَجَدَکَ ضَآلاًّ فَھَدٰی
سورہ الضحی: آیت 8
ترجمہ:اور تمہیں اپنی محبت میں خود رفتہ پایا تو اپنی طرف راہ دی۔
کنز الایمان
اعلی حضرت نے یہاں نبی پاک ﷺ کے لیے ’’خود رفتہ ‘‘ کا لفظ استعمال کیا اور بریلویوں کی محبوب لغت میں اس کا ترجمہ ملاحظہ فرمائیں
’’خود رفتہ: بے خبر،بے خود،جسے اپنے آپ کی خبر نہ ہو ‘‘۔
جامع فیرو ز اللغات: ص 599
اور بے خبر کےمعانی اسی لغت میں:
’’غافل،بے ہوش،نا سمجھ، بے وقوف، جاہل وغیرہا‘‘۔
جامع فیروز اللغات: ص 244
لکھے ہیں۔ کیایہ لفظ آپ ﷺ کی طرف منسوب کرنا درست ہے؟ ہرگزنہیں۔ تو پھر لفظ خود رفتہ جب ایسے برے معنی کا احتمال رکھتا ہے تو تمہارے اصول کے تحت اسے نبی ﷺ کے لیے استعمال کرنا نہ صرف گستاخی بلکہ قطعی کفر ہے۔ لہٰذا مانیے کہ اعلی حضرت نے جگہ جگہ اپنے اس ترجمے میں ٹھوکریں کھائی ہیں اور عظمت نبوی ﷺ کو بالکل پیش نظر نہ رکھا۔
(7) قَالَ فَعَلْتُھَا اِذاً وَّ اَنَا مِنَ الضَّآلِّیْنَ
الشعراء: آیت 20
ترجمہ:موسی نے فرمایا میں نے وہ کام کیا جبکہ مجھے راہ کی خبر نہ تھی۔
کنز الایمان
یہاں خان صاحب بریلوی نے نبی اللہ حضرت موسی علیہ السلام کے لیے ’’راہ کی خبر نہ تھی ‘‘ کا جملہ استعمال کیا اس لفظ کا معنی کیا بنتا ہے ’’نمبر6‘‘ میں اس کی وضاحت گزرچکی ہے۔
(8) نَسُوْا اللّٰہَ فَنَسِیَھُمْ۔۔ الخ
توبہ: آیت 67
ترجمہ:وہ اللہ کو چھوڑ بیٹھے تو اللہ نے انھیں چھوڑ دیا۔
کنز الایمان
یہاں خان صاحب بریلوی نے کافروں کے لیے بھی ’’چھوڑ بیٹھے ‘‘ کا لفظ استعمال کیا ہے اور اللہ کے لیے بھی ’’چھوڑ دیا‘‘ کا لفظ استعمال کیا ہے او ریہ بات تو ظاہر ہے کہ کافروں کا چھوڑنا برا ہے اور انتہائی قبیح فعل ہے۔ اب اسی چھوڑنے کو جو قبیح فعل کا احتمال رکھتا ہے تو یہ اللہ تعالی کے لیے استعمال کرنا کیسے مناسب ہوگا؟جبکہ تمہارے اصول میں یہ بات طے شدہ ہے جیسا کہ ڈاکٹر طاہر القادری بریلوی لکھتے ہیں
’’جن کلمات کا استعمال مختلف معانی میں ہوتا ہو یعنی وہ ایسے ذو معنی لفظ ہو ں کہ ان میں اچھے مفہوم کے علاوہ برا مفہوم بھی ہو معلوم ہو اور متعارف ہو ان کا استعمال صریح گستاخی ہوگا ‘‘۔
تفسیر منھاج القرآن: ج1:ص393
کیا اعلی حضرت اس گستاخی کے زمرہ میں نہیں آتے؟کیا اعلی حضرت نے ذومعنی الفاظ اللہ تعالی کی ذات اور اس کے محبوب نبی کریمﷺ کے لیے استعمال نہیں کیے؟ ضرور کیے ہیں تو پھر ہمیں یہ کہنے میں ذرا بھی تامل نہیں کہ اعلی حضرت گستاخ خدا ور گستاخ رسول ﷺ ہیں۔
(9) اِنَّ اللّٰہَ لاَیَسْتَحْیِ اَنْ یَّضْرِبَ۔۔ الخ
البقرہ: آیت 26
ترجمہ:بے شک اللہ اس سے حیا نہیں فرماتا کہ مثال سمجھانے کو کیسی ہی چیز کا ذکر فرمائے ‘‘۔
کنز الایمان
خان صاحب بریلوی نے یہاں اللہ تعالی کے لیے ’’حیا‘‘ کا لفظ استعمال کیا ہے او ر حیا کے معانی ملاحظہ فرمائیں
’’شرم و غیرت،جب بدنامی اور برائی کے خوف سے دل میں کسی کام سے رکاوٹ پیدا ہوجاتی ہے اس رکاوٹ کا نام حیا ہے ‘‘۔
تفسیر نعیمی: ج1:ص 198:مطبوعہ مکتبہ اسلامیہ لاہور
قارئین کرام !ماقبل میں ذکر کردہ بریلوی اصولوں کی روشنی میں دیکھیں کہ حیا کے یہ معانی بالخصوص تیسرا معنی خدا تعالی کے لیے استعمال ہوسکتا ہے؟ اگر نہیں تو پھر خان صاحب جو بریلویوں کے اعلی حضرت ہیں ان کے متعلق کم از کم گستاخ رسول اور گستاخ خدا کا فتوی تو صادر ہونا چاہیے یا یہ ٹکے ٹکے کے فتوے بریلویوں نے ہم مظلوموں کے لیے چھوڑ رکھے ہیں؟
خان صاحب نے اپنے ترجمہ قرآن کنز الایمان میں بہت سے مقامات پر اللہ اور اس کے رسو لﷺ کے لیے ایسے الفاظ بطور ترجمہ استعمال کیے ہیں جو اگرچہ صحیح معنی بھی رکھتے ہوں مگر لغت میں ان کے دوسرے انتہائی قبیح معنی بھی موجود ہیں جو ہرگز اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی شایان شان نہیں۔ جیسا کہ ابھی گذرا ہے بریلوی اصول کے تحت ایسے الفاظ استعمال کرنا صریح گستاخی ہے اور خود بریلویوں نے تسلیم کیا ہے کہ صریح گستاخی کا وبال کفر ہے۔ لہذا ہم یہ اصول وضع کرنے والے رضاخانیوں اور ان کی جماعت سے مطالبہ کرتے ہیں کہ باہمی مشورہ کرکے اللہ اور اس کے رسولﷺ کی ناموس کا تحفظ کرتے ہوئے خان صاحب کی تکفیر کا کوئی ٹھوس فتوی شائع کیا جائے۔
ترجمہ کنز الایمان اور دو قومی نظریہ
وَلَقَدْ اَرْسَلْنَا نُوْحاً اِلَی قَوْمِہٖ فَقَالَ یٰقَوْمِ اعْبُدُوْ ا اللّٰہَ
المومنون: آیت 23
ترجمہ:اور بے شک ہم نے نوح کو اس کی قوم کی طرف بھیجا تو اس نے کہا اے میری قوم اللہ کو پوجو۔
کنز الایمان
قارئین کرام ! یہاں ترجمہ میں ’’اے میر ی قوم ‘‘ سے ایک شبہ ہوتا ہے جس کو بریلویوں کے غزالی زماں جناب احمد سعید کاظمی شاہ صاحب ان الفاظ میں بیان کرتے ہیں
’’لفظ قوم سے متحدہ قومیت کے نو ایجاد نظریے کی طرف ذہن بھٹک سکتا تھا اور یہ وہم پیدا ہوسکتا تھا کہ جب کفار و مشرکین انبیاء علیہم السلام کی قوم قرار پاسکتے ہیں تو ہندو اور مسلم ایک قوم کیوں نہیں ہوسکتے؟ یہ حقیقت ہے کہ متحدہ قومیت کا تصور پاکستان سے متصادم ہی نہیں بلکہ پاکستان کی اساس کو منہدم کردینے کے مترادف ہے‘‘۔
مقدمہ ترجمہ البیان
قارئین کرام ! اس سے ثابت ہوا کہ اعلی حضرت احمد رضاخان صاحب کا ترجمہ کنز الایمان پاکستان کی اساس کو منہدم کرتا ہے لہٰذا ایسے ملک دشمن ترجمہ پر فوراً پابندی لگنی چاہیے۔ بقول کاظمی صاحب اس ایہام و اشتباہ سے بچنے کے لیے لفظ قوم کا ترجمہ موقع محل کو ملحوظ رکھتے ہوئے مناسب الفاط سے کیا جائے گا۔ اور کاظمی صاحب نے ترجمہ کیا ہے
’’اے میرے (مخاطب ) لوگو‘‘۔
البیان
تو ثابت ہوا کہ کاظمی صاحب کے نزدیک ترجمہ اعلی حضرت درست نہیں۔
کنز الایمان ترجمہ کا حق ادا نہیں کرتا
وَلاَ تَقُوْلُوْ ا لِمَنْ یُّقْتَلُ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ اَمْوَات
البقرہ: آیت 154
ترجمہ:اور جو خدا کی راہ میں مارے جائیں انہیں مردہ نہ کہو۔
کنز الایمان
علامہ کاظمی صاحب لکھتے ہیں:
’’لفظ خدا سے اس کا ترجمہ کرنا ترجمہ اور تعریف کا حق ادا نہیں کرتا ‘‘۔
مقدمہ ترجمہ البیان
تو اعلی حضرت کا ترجمہ نہ ہی ترجمے کا حق ادا کرتا ہے اور نہ ہی تعریف کا۔
قارئین کرام !ہم نے اپنی طرف سے کچھ نہیں کہا بلکہ کاظمی صاحب کی تنقید نقل کی ہے وہ اس لفظ کو لفظ اللہ کا مناسب ترجمہ خیال نہیں کرتے تو ثابت ہوا کہ ترجمہ کنز الایمان جگہ جگہ کمزوریوں سے پر ہے جس کا اقرار درپردہ خود بریلویوں کو بھی ہے۔
بریلوی حکیم الامت احمد یا ر گجراتی صاحب لکھتے ہیں
’’خدا رب کا نام نہیں بلکہ اس کی صفت یعنی مالک کا ترجمہ ہے۔ خدا کی صفت کا ترجمہ ہر زبان میں کرنا جائز ہے مگر نام کے لیے ضروری ہے کہ وہ عربی یا عبرانی زبان کا ہو ‘‘۔
رسائل نعیمیہ: ص 387
قارئین کرام ! خان صاحب بریلوی لفظ اللہ جوکہ نام ہے اس کا ترجمہ خدا کیا ہے تو نعیمی صاحب کے نزدیک خان صاحب بریلوی نے ٹھوکر کھائی ہے۔ اگر لفظ اللہ کا ترجمہ کیا ہے تو بھی ٹھوکر کھائی ہے اور اگر لفظ اللہ تعالی کا نام نہیں بلکہ صفت سمجھ کر ترجمہ خدا کیا ہے تب بھی ٹھوکر کھائی ہے۔
حاظر ناظر اور کنز الایمان
وَ کُنَّا لِحُکْمِھِمْ شَاہِدِیْنَ
الانبیاء: آیت 78
ترجمہ:اور ہم ان کے حکم کے وقت حاظر تھے۔
کنز الایمان
قارئین کرام !یہاں اعلی حضرت احمد رضاخان صاحب نے اللہ تعالی کے لیے ’’حاضر ‘‘ کا لفظ استعمال کیا ہے جبکہ بریلوی اصول اور فتاوی کے مطابق اللہ تعالی کے لیے حاضر کا لفظ استعمال کرنا جائز نہیں بلکہ گستاخی ہے۔ ملاحظہ فرمائیں چند حوالے:
(1) مولوی ابو کلیم محمد صدیق فانی بریلوی لکھتے ہیں
’’اہل علم غور فرمائیں کہ معانی منقولہ کے اعتبار سے کیا اللہ تعالی پر لفظ حاضر کا اطلاق ممکن ہے نہیں اور ہر گز نہیں ‘‘۔
آئینہ اہلسنت: ص 87
(2) مولوی فیض احمد اویسی لکھتے ہیں:
’’حاضر کا مطلب یہ ہے کہ حاضر وہ ہے جو مکان میں ہو اور ناظر وہ ہے جو آنکھ کی پتلی سے دیکھے اس معنی پر اللہ تعالی کے لیے ماننا صریح کفر ہے ‘‘۔
ندائے یا رسو ل اللہ: ص 36،35
کیا اویسی صاحب مولوی احمد رضاخان صاحب پر صریح کفر کا فتوی لگائیں گے؟
کل میاں حجام جہاں مونڈتا تھا اوروں کے سر

آج اسی کوچہ میں خود اس کی حجامت ہو گئی

 
اعلی حضرت نے امت میں کسی کو معاف نہیں کیاہر ایک کو کافر کہا اللہ نے اعلی حضرت کے گھر سے ہی ان پر کفر کا فتوی لگادیا۔
(3) مفتی وقار الدین صاحب لکھتے ہیں:
’’حاضر کے معنی جو لغت میں ہیں ان معانی کے اعتبار سے اللہ تعالی کی ذات پر ان الفاظ کا اطلاق جائز نہیں ہے۔ حاضر کے معنی عربی لغت کی معروف و معتبر کتاب المنجد، مختار الصحاح وغیرہ میں یہ لکھے ہیں نز دیکی، صحن، حاضر ہونے کی جگہ۔ جو چیزکھلم کھلا بے حجاب آنکھوں کے سامنے ہو اسے حاضر کہتے ہیں ‘‘۔
وقار الفتاوی: ج1:ص 66
ان بریلوی فتاوی جات کی روشنی میں اعلی حضرت کا ترجمہ بالکل بھی درست نہیں ہوسکتا۔
کنز الایمان ترجمے کی دیگر کمزوریاں
1 قَالَ لَاَقْتُلَنَّکَ
المائدہ: آیت 27
ترجمہ:بولا قسم ہے میں تجھے قتل کروں گا۔
کنز الایمان
قارئین کرام ! شریعت میں قسم کے لیے الفاظ مقرر ہیں لیکن خان صاحب کی ٹھوکر کو ملاحظہ فرمائیں کہ لام تاکید اور نون تاکید ثقیلہ کو قسم سمجھ بیٹھے ہیں۔ کیا اگر کوئی کہے کہ ضرور بالضرور کل روزہ رکھوں گا لیکن رکھ نہ سکا تو کیا یہ قسم کہلائے گی؟پھر اس کا کفارہ ادا کیا جائے گا؟ ہرگز نہیں کیونکہ یہ قسم نہیں مگر خان صاحب کو دیکھیے کہ اس کو قسم بناکر کیسے امت مسلمہ کا دامن چھوڑ رہے ہیں۔
2 مِنْھُمْ اُمَّۃٌ مُّقْتَصِدَۃٌ وَّ کَثِیْرٌ مِنْھُمْ سَآئَ مَا یَعْمَلُوْنَ
المائدہ: آیت 66
ترجمہ:ان میں کوئی گروہ اگر اعتدال پر ہے اور ان میں اکثر بہت ہی برے کام کررہے ہیں۔
کنز الایمان
کیا اس ترجمہ سے یہ نہیں واضح ہورہا ہے کہ اگر کوئی گروہ اعتدال پر ہے تو اس میں بھی اکثر لوگ برے کام کرر ہے ہیں حالانکہ یہ بات غلط ہے کیونکہ مطلب یہ ہے کہ ان میں ایک جماعت اعتدال پسند بھی ہے۔لیکن خان صاحب نے اس کا مفہوم جمہور امت سے کٹ کر مختلف کیا ہے۔ اگر خان صاحب لفظ ’’اگر‘‘ نہ لاتے تو مفہوم درست ہوسکتا تھا لیکن خان صاحب کا باوا آدم ہی نرالا ہے۔
3 مَنْ لَّعَنَہُ اللّٰہُ وَ غَضِبَ عَلَیْہِ وَ جَعَلَ مِنْھُمُ الْقِرَدَۃَ وَالْخَنَازِیْرَ وَ عَبَدَ الطَّاغُوْتَ
المائدہ: آیت 60
ترجمہ:وہ جس پر اللہ نے لعنت کی اور ان پر غضب فرمایا اور ان میں سے کردیے بندر اور سور اور شیطان کے پجاری۔
کنز الایمان
اعلی حضرت نے یہاں یہ ٹھوکر کھائی کہ ’’عَبَدَ ‘‘ کو اسم سمجھ کر اس کا ترجمہ اسم والا کیا اور اس کو مضاف سمجھا اور پھر اس کو معمول جَعَلَ کا بنایا جس کا مطلب صاف سمجھ آرہا ہے کہ اللہ تعالی نے بعض کو بندر، سور اور شیطان کا پجاری بنادیا معاذ اللہ حالانکہ یہ بات غلط ہے۔
عَبَدَ الطَّاغُوْتَ جو جملہ ہے یہ ’’ جَعَلَ‘‘ کا معمول نہیں بلکہ اس کا ’’ جَعَلَ‘‘ پر عطف ہے اور مطلب یہ ہے
’’جن لوگوں کا اللہ کے ہاں بدترین درجہ ہے ان میں پہلا طبقہ وہ ہے جس پر اللہ نے لعنت کی دوسرا جس پر اللہ نے غضب کیا تیسرا جن کو بندر اور خنزیر بنادیا اور چوتھا طبقہ وہ ہے جنہوں نے شیطان کی عبادت کی‘‘۔
اب دیکھیے اور اعلی حضرت کی اس تحریف قرآن پر ان کو داد دیجیے اور یقین جانیے کہ تحریف قرآن کے سلسلے میں خان صاحب نے اپنے سے پہلوں کو بالکل مات دے دی ہے۔
4 وَ مَنْ قَتَلَہٗ مِنْکُمْ مُّتَعَمِّداً فَجَزَٓائٌ مِّثْلُ مَا قَتَلَ مِنَ النَّعَمِ
المائدہ: آیت 95
ترجمہ:اور تم میں جو اسے قصداً قتل کرے تو اس کا بدلہ یہ ہے کہ ویسا ہی جانور مویشی سے دے۔
کنز الایمان
قارئین کرام ! احناف کے ہاں جزاء قیمت کے لحاظ سے ہی مقرر ہوسکتی ہے لیکن خان صاحب بریلوی کو دیکھیے جن کو بریلوی امام شامی ؒ سے بلند مرتبہ ابن ہمام ؒ کا استاد کہتے ہیں کیسے حنفیت کا رد کررہے ہیں ’’ویسا ہی جانور مویشی دے‘‘ تو اب بھی کسی کو شک ہے خان صاحب کے حنفیت سے علیحدہ ہونے پر؟۔ خان صاحب حنفی ہونے کا دعوی کرنے کے باوجود بھی احناف کا رد کررہے ہیں تو یہ حنفیت کو چھوڑنا نہیں تو اور کیا ہے؟ اس آیت کے ترجمہ کی تفصیل ’’اصول فقہ ‘‘ کی ابتدائی کتاب ’’اصول الشاشی صفحہ 13‘‘ میں دیکھیے جہاں خان صاحب کا رد ہے۔ کہ اس نص سے نظیر واجب نہیں ہوتی کہ مثل صوری ہی دینی پڑے۔ یہ درست نہیں۔
5 قُلْ لَسْتُ عَلَیْکُمْ بِوَکِیْلٍ
انعام: آیت 66
ترجمہ:تم فرماؤمیں تم پر کچھ کڑوڑا نہیں۔
کنزالایمان
لَسْتَ عَلَیْھِمْ بِمُصَیْطِرٍ
غاشیہ: آیت 22
ترجمہ:تم کچھ ان پر کڑوڑا نہیں۔
کنز الایمان
بریلی کے اعلی حضر ت نے ’’وکیل‘‘ اور ’’مصیطر‘‘دونوں کا ترجمہ ’’کڑوڑا‘‘ جیسے بھاری بھرکم الفاظ سے کیا ہے گویا ان کے نزدیک یہ دونوں الفاظ مترادف ہیں حالانکہ اللہ تعالی نے دونوں جگہ علیحدہ لفظ ارشاد فرمایا۔ معلوم ہوا کہ ضرور ان دونوں کے معنی میں کچھ فرق ہے وگرنہ ایک ہی لفظ استعمال کیا جاتا۔
6 وَمَا جَعَلْنَا الْقِبْلَۃَ الَّتِیْ کُنْتَ عَلَیْھَا اِلاَّ لِنَعْلَمَ مَنْ یَّتَّبِعُ الرَّسُوْلَ
البقرہ: آیت 143
ترجمہ:اوراے محبوب تم پہلے جس قبلہ پر تھے ہم نے وہ اسی لیے مقرر کیا تھا کہ دیکھیں کون رسول کی پیروی کرتا ہے۔
کنز الایمان
جبکہ علامہ سعیدی بریلوی لکھتے ہیں:
’’اس عبارت میں دیکھنے سے متبادر جاننا ہے اس لیے یہ عبارت محل اشکال ہے کیونکہ اس قسم کی عبارت میں دیکھنے کا لفظ جاننے کے معنی میں بولاجاتا ہے ‘‘۔
تبیان القرآن: ج 1:ص 575
اگر جاننے کا معنی مراد ہو تو اس پر سعیدی صاحب لکھتے ہیں:
’’یہ لازم آتا ہے کہ تحویل قبلہ سے پہلے اللہ تعالی کو یہ علم نہیں تھا کہ رسول کی پیروی کرنے والے اور دین سے پھر جانے والے کون ہیں ‘‘۔
تبیان القرآن: ج1:ص 574
تو قارئین کرام آپ نے دیکھ لیا کہ ترجمہ رضوی کو خود رضوی ہی مطعون و مجروح ٹھہرا رہے ہیں۔ جب ترجمہ کے ساتھ خود اپنوں کا یہ رویہ ہو تو دوسرے اس کے ساتھ کیا کچھ نہ کریں گے۔حقیقت یہ ہے کہ ترجمہ کنز الایمان ہے ہی اتنا غلط کہ پرائے تو پرائے اپنے بھی اس پر جرح و اعتراض کرنے پر مجبور ہیں۔
7 اِنَّ اللّٰہَ لاَ یَسْتَحْیٖٓ
البقرۃ: آیت 26
ترجمہ:بے شک اللہ اس بات سے حیا نہیں فرماتا۔
کنز الایمان
قارئین کرام ! علامہ کاظمی لکھتے ہیں:
’’یستحی حیاء سے ماخوذ ہے حیاء کے معنی ہیں انقباض نفس کے باعث کسی کام کو ترک کردینا اللہ تعالی انقباض نفس سے پاک ہے اس لیے یہاں یستحی کے معنی ہیں لا یترک (ترک نہیں فرماتا )‘‘۔
التبیان مع البیان: ص 87
تو کاظمی صاحب کی تحقیق سے معلوم ہوا کہ یہاں حیاء کا ترجمہ کرنا درست نہیں جبکہ خان صاحب بریلوی نے حیا ء ہی ترجمہ کیا ہے جس کو کاظمی صاحب نے سے رد کردیا۔
کنز الایمان نبی پاک ﷺ کی طہار ت نسبی پرحملہ کرنے والا ترجمہ ہے
وَ اِذْ قَالَ اِبْرَاہِیْمُ لِاَبِیْہِ آزَرَ
الحج:آیت
ترجمہ:اور یاد کرو جب ابراہیم نے اپنے باپ آزر سے کہا۔
کنز الایمان
یہاں اعلی حضرت نے ’’آزر‘‘ کو سیدنا ابراہیم علیہ السلام کا باپ کہا۔ جبکہ سعیدی صاحب لکھتے ہیں
’’چونکہ اردو محاورے میں چچا پر باپ کا اطلاق نہیں ہوتا اس لیے ان آیات میں اب کا صحیح ترجمہ چچا ہے ‘‘۔
شرح مسلم: ج1:ص328
معلوم ہوا کہ صحیح ترجمہ بریلویوں کے ہاں ’’چچا‘‘ ہے تو پھر خان صاحب کاترجمہ غلط ہے۔ مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اس مسئلہ کی یہاں کچھ تحقیق عرض کردی جائے کہ بریلوی کیا ذوق رکھتے ہیں۔ سعیدی صاحب کا اصول پیش نظر رہنا چاہیے۔ کہ اردو محاورے میں چچا پر باپ کا اطلاق نہیں ہوتا یعنی اردو میں چچا کو باپ نہیں کہتے تو پھر احمد رضاخان کا ترجمہ جوکہ مرادی و تفسیری ترجمہ ہے لفظی نہیں اور اس کو اگر انہوں نے بقائمی ہوش و حواس سے لکھوایا ہے تو وہ آزر کو حضرت ابراہیم علیہ السلام کا والد ہی سمجھتے ہوں گے۔
علامہ کاظمی، پروفیسر مسعود کے والد مفتی مظہر اللہ دہلوی، سید ابو الحسنات قادری، اور مفتی محمد حسین نعیمی اور ڈاکٹر سرفراز نعیمی صاحب کا مصدقہ ترجمہ جوکہ حافظ نذر احمد نے لکھا ہے سب نے ترجمہ: ’’اپنے باپ آزر سے ‘‘ کیا ہے۔ تو جناب سعیدی صاحب کہتے ہیں کہ اردو میں چچا کو باپ نہیں کہتے بلکہ باپ والد کو کہا جاتا ہے تو پھر معلوم ہوا کہ ان سب کے نزدیک آزر حضرت ابراہیم علیہ السلام کے والد ہیں نہ کہ چچا۔
بریلوی مسعود ملت پروفیسر مسعود کے والد صاحب مفتی مظہر اللہ شاہ صاحب لکھتے ہیں:
’’ابراہیم علیہ السلام جب سات برس کے ہوئے تو آپ نے اپنی والدہ سے دریافت کیا میرا رب یعنی پالنے والا کون ہے؟ انہوں نے کہا میں ، پھر فرمایا تمہارا رب کون ہے؟انہوں نے کہا تمہارا باپ، پھر فرمایا ان کا رب کون ہے؟ اس وقت والدہ نے کہا خاموش رہو اور اپنے شوہر یعنی حضرت ابراہیم علیہ السلام کے والد آزر کو یہ واقعہ سنایا‘‘۔
تفسیر مظہر القرآن: ج1:ص391
سید ابو الحسنات قادری صاحب لکھتے ہیں:
’’م
ا کان لنبی والذین امنوا۔۔ الخ کا شان نزول حضرت علی المرتضی سے مروی ہے کہ جب آیت نازل ہوئی لاستغفرن لک
تو میں نے سنا کہ ایک شخص اپنے والدین کے لیے دعا مغفر ت کر رہا ہے اور اس کے والدین مشرک تھے تو میں نے اسے منع کیا اور بتایا کہ مشرکوں کے حق میں دعا مغفرت ممنو ع ہے۔ اس نے جواب دیا کہ ابراہیم علیہ السلام نے اپنے باپ آزرکے لیے دعا فرمائی حالانکہ آزر بت تراش اور مشرک تھا۔ میں یہ سن کر بارگاہ رسالت میں حاضر ہوا اور یہ واقعہ سنایا تو اس پر یہ آیت نازل ہوئی جس میں جواب دیا گیا کہ دعا ابراہیم بامید اسلام تھی جس کا وعدہ آپ سے آزر کرچکا تھا اور آپ آزر سے وعدہ فرماچکے تھے ساستغفر لک ربی تو جب آپ پر واضح ہوگیا کہ وہ اللہ کا دشمن ہے تو اس سے بیزاری کا اظہار فرمادیا‘‘۔
تفسیر الحسنات: ج3:ص 51
مفتی محمد خلیل خان برکاتی مترجم لکھتا ہے:
’’ابراہیم خلیل اللہ آزر بت پرست سے پیدا ہوئے ‘‘۔
سبع سنابل: ص 94
اس کتاب کی تصحیح مولوی عبد الحکیم اختر شاہ جہاں پوری نے کی ہے۔ اور سبع سنابل فارسی نسخہ کی تصدیق و تعریف عبد الحکیم شرف قادری نے بھی کی ہے بلکہ اس کو بارگاہ رسالت میں مقبول و منظور لکھا ہے۔
بریلوی کتب خانہ ’’مکتبہ زاویہ‘‘ سے چھپنے والی کتاب ’’قصص الانبیاء‘‘ میں ہے
’’یہ نص قرآنی و اذا قال لابیہ۔۔ الخ بالکل واضح کہتے ہیں کہ آزر ہی حضرت ابراہیم علیہ السلام کے والد تھے ‘‘۔
قصص الانبیاء: ص52
شیخ یحیٰ منیری ؒ کے مکتوبات کا ترجمہ بریلویوں نے شائع کیا ہے اور بریلوی حضرات کے کتب خانہ سیرت فاونڈیشن لاہور سے چھپا ہے ا س میں ہے کہ
’’کبھی تو آزر کے بت خانہ سے خلیل پیدا کرتا ہے ‘‘۔
مکتوبات: ص ؟؟؟
مولوی سید اسد اللہ فاضل جامعہ نظامیہ رضویہ لاہور لکھتے ہیں:
ابن جریر فرماتے ہیں کہ صحیح یہی ہے ‘‘۔
دو صدی: ص 281،مکتوب:16
فیض احمد اویسی صاحب لکھتے ہیں:
اس آیت سے پتہ چلتا ہے کہ حضرت ابرا ہیم علیہ السلام کے باپ کا نام آزر تھا۔ جمہور علماء نسب جن میں ابن عباس رضی اللہ عنہ کااسم گرامی بھی آتا ہے فرماتے ہیں کہ آپ کے باپ کا نام تارخ تھا۔ اہل کتاب بھی آپ کے باپ کا نام تارخ بتاتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ آزر اس کا لقب تھا، کیونکہ یہ آزر نامی بت کی پوجا کرتاتھا اسی نسبت سے اسے آزر کہا جاتا ہے۔ ابن جریر فرماتے ہیں کہ صحیح قول یہ ہے کہ اس کانام آزر تھا اور ہو سکتا ہے اس کے دو نام ہوں جو بطور علم استعمال ہو تے ہیں اور یہ بھی ممکن ہے کہ ان میں سے ایک لقب ہو اور دوسرا نام ہو، بہرحال یہ احتمال صحیح ہے اور اسے بالکل رد نہیں کیا جاسکتا۔
قصص الانبیا ء مترجم بترجمہ فیض احمد اویسی، ص186
اویسی صاحب دوسری جگہ لکھتے ہیں:
حضرت ابراہیم علیہ السلام وہ جلیل القدر نبی ہیں جنہوں نے خدا وند تعالی کی عبادت کے لیے کعبہ کی بنیا دیں رکھیں آپ اس آزر کے بیٹے ہیں اورآزر کا پیشہ بت پرستی اور بت تراشی تھا۔
شرح قصیدہ نور،ص469
بریلوی جید عالم مولوی شمس بریلوی صاحب لکھتے ہیں:
علامہ ابن خلد ون رحمہ اللہ کہتے ہیں تارخ ابن ناحور ہی کو آزر کہتے ہیں۔
نظام مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم،ص132
آگے لکھتے ہیں:
امام بخاری نے حضرت ابوھریرہ ؓسے مروی جو حدیث بطور استدلال پیش کی ہے اس میں وضاحت کے ساتھ آپ کے والد کانام آزر مذکورہے۔
نظام مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم،ص133
ان تمام حوالوں بشمول ترجمہ کنز الایمان سے یہ ثابت ہوا کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے والد کا نام ’’آزر ‘‘ تھا۔
اب اس بات پر فتوی کیا لگتا ہے تو وہ بھی راولپنڈی کے مولوی حنیف قریشی رضاخانی کی زبانی ملاحظہ فرمالیں
’’حضرت ابراہیم علیہ السلام کو کافر و مشرک شخص آزرکا بیٹا ثابت کرکے نبی پاک ﷺ کی طہارت نسبی پر حملہ کیا گیا ہے ‘‘۔
آزر کون تھا؟: ص 7
دوسری جگہ یہ رضاخانی لکھتا ہے:
’’آزر کو نسب رسول اللہ ﷺ میں داخل کرنے سے آپ ﷺ کے نسب پاک کی طہارت برقرار نہیں رہتی ‘‘۔
آزر کون تھا؟ ص: 13
اور ذرامولوی اشرف سیالوی کی بھی سن لیں وہ لکھتا ہے:
’’حضرت ابراہیم علیہ السلام کے حقیقی باپ اور والد کو کافر اور مشرک قرار دینا بہت بڑی جسارت اور بے باکی ہے اور نازیبا اور نالائق حرکت ہے ‘‘۔
گلشن توحید و رسالت: ج1:ص 154
کہیے قریشی اور سیالوی صاحب! آپ حضرات میں اتنی جراٴت ہے کہ آپ اپنے ہی ان فتووں کا ایک طوق بنا کر اپنے ان کاابرین کے گلوں میں ڈالیں او ر نبی ﷺ کی طہارت نسبی کا دفاع کرتے ہوئے یہ اعلان کریں کہ کنز الایمان اس لائق ہے کہ اسے بھرے چوک میں نذرآتش کردیا جائے۔
لیکن ہمیں یقین ہے کہ آپ ایسا کبھی نہیں کریں گے کیونکہ آپ کا عشق رسالت کا یہ دعوی محض منافقت پر مبنی ہے تاکہ اس خوشنما نعرے کی آڑ میں علمائے دیوبند کو جی بھر کر گالیاں دی جاسکیں۔
ترجمہ کنز الایمان اور شیخ جیلانی ؒ کی مخالفت
مولوی احمد رضاخان ترجمہ کرتا ہے:
وَاسْتَغْفِرْ لِذَنْبِکَ وَ لِلْمُؤْمِنِیْنَ وَ الْمُؤْمِنَات
محمد: آیت 19
ترجمہ:اے محبوب اپنے خاصوں اور عام مسلمان مردوں اور عورتوں کے گناہوں کی معافی مانگ۔
کنز الایمان
جبکہ پیران پیر روشن ضمیر شیخ عبد القادر جیلانی ؒ لکھتے ہیں:
واستغفر لذنبک۔۔ ای۔۔ لذنب وجودک
سرالاسرار: ص74:فصل الخامس العارفین
’’یعنی آپ اپنے وجود کے ذنب کی بخشش مانگیے‘‘۔
قارئین کرام !یہاں مولوی احمد رضاخان نے حضرت پیران پیر کی مخالفت کی ہے اور خود احمد رضاخان لکھتا ہے کہ جو حضرت شیخ کی مخالفت کرے اس کی دنیا و آخرت برباد ہے۔ ایک جگہ شیخ کے متعلق لکھتے ہیں
ان کی نظر لوح محفوظ پر لگی ہوئی ہے اور وہ تم سب پر حجت الٰہی ہیں‘‘۔
الامن و العلی: ص 147
اور دوسری جگہ یہ لکھتے ہیں:
’’میرے ارشاد کے خلاف بتانا تمہارے دین کے لیے زہر قاتل اور تمہاری دنیا و عقبی دونوں کی بربادی ہے ‘‘۔
فتاوی رضویہ قدیم: ج3:ص 523
قارئین کرام ! اعلی حضر ت کے اپنے اصولوں کی روشنی میں یہ ترجمہ غلط ٹھہرا کیونکہ اس میں شیخ عبد القادر جیلانی ؒ کی مخالفت ہے۔ اب بریلویوں کو اختیار ہے کہ یا ترجمہ کنز الایمان کو غلط مانیں یا پھر خان صاحب کو جہنمی تسلیم کریں کیونکہ خان صاحب نے شیخ کی مخالفت کی ہے اور خود لکھا ہے کہ شیخ کی مخالفت کرنے والے کی دنیا بھی خراب اور آخرت بھی بربا د۔ حقیقت یہ ہے کہ بریلوی حضرات صرف عوام سے گیارہویں کے نذرانے بٹورنے کے لیے شیخ کا نام لیتے ہیں ورنہ جتنی عدوات ان لوگوں کو شیخ سے ہے کسی کو نہ ہوگی۔
ہم اس موقع پر مولانا اخلاق حسین قاسمی صاحب ؒ کے الفاظ نقل کرنا بھی ضروری سمجھتےہیں، وہ فرماتے ہیں:
’’اس آیت( سورہ محمد کی آیت 19)میں اپنے خاصوں کہا گیا ہے جو مشہور اکابر کے تراجم اور تشریحات سے مختلف ہے تو پھر اس ترجمہ میں خاص عام کی تفریق بھی عجیب سی لگتی ہے اور اس سے وہ جاگیردارانہ ذہن سامنے آتا ہے جو مسلمانوں کے مزدور اور محنت کش طبقوں کے مقابلے میں اونچی ذات والی برادریوں کی طرف برتا جاتا ہے کیونکہ مولانا پٹھان تھے ایک پٹھان عالم دین ہوکر بھی امت محمدیہ کے اندر خاص اور عام کی تفریق کررہا ہے جبکہ سرور دو عالم ﷺ کو ہدایت تھی کہ آپ اپنی تمام امت کو ایک نظر سے دیکھا کیجیے۔ دیکھو سورہ انعام آیت 52 الکہف 28‘‘۔
محاسن موضح القرآن: ص 389
نبی ﷺ کے لیے حاضر ناظر کا لفظ اور خان صاحب کا فتوی
یٰٓاَیُّھَا النَّبِیُّ اِنَّااَرْسَلْنٰکَ شَاھِداً وَ مُبَشِّراًوَّ نَذِیْراً
احزاب: آیت 45
ترجمہ:اے غیب کی خبریں بتانے والے (نبی) بے شک ہم نے تمہیں بھیجا حاضر و ناظر اور خوشخبری دیتا اورڈر سناتا ‘‘۔
کنز الایمان
برادران اسلام !یہاں خان صاحب نے ’’شاہد‘‘ کا ترجمہ ’’حاضر ناظر‘‘ کیا ہے جو بقول مولوی احمد رضاخان صاحب کے بہت برے معنی کا احتمال رکھتا ہے چنانچہ وہ لکھتے ہیں
’’سوال:خدا کو حاضر ناظر کہنا کیسا ہے؟
جواب:اللہ عز و جل جگہ سے پاک ہے۔ یہ لفظ بہت برے معنی کا احتمال رکھتا ہے اس سے احتراز لازم ہے ‘‘۔
فتاوی رضویہ: ج6:ص 132۔قدیم
قارئین کرام ! جب یہ لفظ بہت برے معنی کا احتمال رکھتا ہے تو گویا گالی ہے تو اس کو نبی پاک ﷺ کی طرف منسوب کرنا کیسے روا ہوسکتا ہے؟ ہم نے ماقبل میں بریلوی علماء کی تصریحات پیش کردیں کہ ایسا لفظ جس میں گستاخی کا شائبہ بھی ہو ایسا ذومعنی لفظ انبیاء کے لیے استعمال کرنا کفر قطعی ہے۔ اب آپ خود فیصلہ کریں کہ مولوی احمد رضاخان کیا ہوئے؟ یہاں ایک اور بات بھی معلوم ہوئی کہ بریلوی مذہب میں گندے معنی کا احتمال رکھنے والا لفظ اللہ تعالی کے لیے تو بولنا جائز نہیں اور نبی کریم ﷺ کے لیے اسی گندے معنی کا احتمال رکھنے والے لفظ کو ثابت کرنے کے لیے کتابیں لکھی جاتی ہیں۔العیاذ باللہ۔
ترجمہ کنز الایمان سے پیدا ہونے والا ایک وہم
اِنَّ اللّٰہَ اصْطَفٰٓی آدَمَ و نُوْحاً وَّ آلَ اِبْرَاہِیْمَ وَ آلَ عِمْرَانَ عَلَی الْعَالَمِیْنَ
آل عمران: آیت: 33
ترجمہ:بے شک اللہ نے چن لیا آدم اور نوح اور ابراہیم کی آل اور عمران کی آل کو سارے جہاں سے۔
کنز الایمان
دوسری جگہ ترجمہ کرتے ہیں:
قَالَ اَغَیْرَ اللّٰہِ اَبْغِیْکُمْ اِلٰھاً وَّ ھُوْ فَضَّلَکُمْ عَلَی الْعَالَمِیْنَ
الاعراف: آیت 140
ترجمہ:کہا کیا اللہ کے سوا تمہارا اور کوئی خدا تلاش کروں حالانکہ اس نے تمہیں زمانے بھر پر فضیلت دی۔
کنز الایمان
اعلی حضرت کے اس ترجمہ سے بریلوی حضرات کے نزدیک ایک وہم پیدا ہوتا ہے جسے اشرف سیالوی کے شاگرد خاص مولوی عبد الرزاق بھترالوی ان الفاظ میں لکھتے ہیں:
’’اس طرح کے ترجمہ کو دیکھ کر قوی وہم ہوتا ہے کہ ان کو نبی پاک ﷺ کی امت پر بھی فضیلت حاصل ہے (حالانکہ یہ درست نہیں ) ‘‘۔
تسکین الجنان: ص 47
بھترالوی صاحب اٹھے تو تھے خان صاحب کے ترجمہ کو تمام تراجم پر فوقیت دینے کے لیے لیکن موصوف کو پتہ نہ چل سکا کہ
یہ گھر جو جل رہا ہے کہیں میرا ہی گھر نہ ہو
کیا صرف انبیاء شہید ہوئے؟
اَفَکُلَّمَا جَآئَ کُمْ رَسُوْلٌ بِمَا لاَ تَھْویٰ۔۔ الخ
البقرۃ: ؟؟؟
ترجمہ:تو کیا جب تمہارے پاس کوئی رسول وہ لے کر آئے جو تمہارے نفس کی خواہش نہیں تکبر کرتے ہو کہ ان (انبیاء)میں ایک گروہ کو تم جھٹلاتے ہو اور ایک گروہ کو شہید کرتے ہیں۔
کنز الایمان
خان صاحب نے اس ترجمہ میں ’’انبیاء‘‘ کا لفظ داخل کرکے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ شہید ہونے والے انبیاء تھے اور ملفوظات میں تو صراحتا یہ فرمادیا کہ رسول کوئی شہید نہیں ہوا۔
ملفوظات: ؟؟؟
حالانکہ کاظمی صاحب التبیان مع البیان میں رسول کے شہید ہونے کا تذکرہ کرتے ہیں۔ القصہ خان صاحب نے یہاں انبیاء کا لفظ بڑھا کر ثابت کرنے کی کوشش کی کہ کوئی رسول شہید نہیں ہوا بلکہ انبیاء شہید ہوئے جبکہ بھترالوی صاحب نے اس موقع پر وہ کاری ضرب خان صاحب پر لگائی کہ یقیناً خان جی کی روح بھی قبر میں تڑپ گئی ہوگی۔ بھترالوی لکھتا ہے
من الرسل الدال علیہ قولہ رسول
تسکین الجنان: ص 55
یعنی شہید ہونے والے او ر جن کو رسول کہا گیا وہ رسول ہیں نہ کہ انبیاء کیونکہ اسی آیت میں لفظ رسول اس بات پر دلالت کررہا ہے۔
انبیاء کی طرف ’’قتل‘‘ کی نسبت اور کنز الایمان
بھترالوی صاحب لکھتے ہیں:
’’ہر قتل شہادت کو مستلزم نہیں اگرچہ انبیاء کرام کی طرف منسوب ہونے کی وجہ سے تخصیص تو ہے لیکن بات تو یہ ہے کہ ترجمہ کے الفاظ ہی سے کسی کے مقام کا پتہ چل جائے اور تفسیر کی طر ف اشارہ ہوجائے یہی ترجمہ کی کمالیت پر دال ہے ‘‘۔
تسکین الجنان: ص 55
دوسری جگہ لکھتے ہیں:
’’توجہ طلب بات یہ ہے کہ کون سا معنی نبی کریمﷺ کے شان کے لائق ہے ادب و احترام پر دال ہے جس میں شہید ہونے کا ذکر ہے یا مارا جانا، قتل ہوجانے کا ذکر ہے تو یقیناً یہ ترجمہ بہتر ہے اہل دانش پر مخفی نہیں ‘‘۔
تسکین الجنان: ص 114
ان عبارات کا خلاصہ یہ ہے کہ انبیاء کرام کے لیے ادب و احترام کا تقاضا یہ ہے کہ ان کے لیے استعمال ہونے والے قتل و غیرہ کے الفاظ کے معنی ’’شہید‘‘ کیے جائیں یہی ترجمہ کے کمال کی دلیل ہے اور یہی ترجمہ بہتر ہوگا اور انبیاء کرام کی شان کے لائق بھی یہی ترجمہ ہوگا۔یہ بھترالوی تحقیق ہے مگر بھترالوی صاحب بھول گئے کہ اس تحقیق کی ز د میں خان صاحب کس بری طرح آتے ہیں۔ صرف چند حوالے ملاحظہ ہوں
(1) سید نا عیسیٰ علیہ السلام کے لیے ’’قتل‘‘ کا معنی ’’قتل ‘‘ کیا ہے۔
النساء: آیت 157
(2) یوسف علیہ السلام کے لیے ’’قتل‘‘ کے لفظ کا ترجمہ ’’مار ڈالو‘‘ کیا ہے۔
یوسف: آیت 9
(3) سیدنا موسیٰ علیہ السلام کے لیے ’’قتل‘‘ کا ترجمہ ’’مار ڈالتے ‘‘ کیا ہے۔
المومن: آیت 28
(4) ایک اور جگہ ’’قتل کروں ‘‘ کیا ہے۔
المومن: آیت 26
(5) ایک اور مقام پر ’’قتل کیا ‘‘ کا ترجمہ کیا۔
قصص: آیت 20
(6) سیدنا ہارون علیہ السلام کے لیے لفظ قتل کا ترجمہ ’’ مجھے مار ڈالیں ‘‘کیا ہے۔
الاعراف: آیت 150
(7) سیدنا و قائدنا حضرت محمد مصطفی ﷺ کے لیے یہ لفظ استعمال کیے ہیں
’’تم فرماؤ بھلا دیکھ لو اگر اللہ مجھے اور میرے ساتھ والوں کو ہلاک کردے یا ہم پر رحم فرمائے ‘‘۔
کنز الایمان: سورہ ملک: آیت 28
اب میں بھترالوی صاحب سے کہوں گا کہ آ پ تو اس ترجمہ کے محاسن نکال رہے تھے مگر خدا کی مار دیکھیے کہ خود آپ کی تحقیق سے ثابت ہوا کہ ترجمہ کنز الایمان میں انبیاء کرام علیہم السلام کے ادب و احترام کا خیال نہیں کیا گیا۔ اس ترجمہ میں یہ کمال نہیں، نہ یہ ترجمہ بہتر ہے۔ اس ترجمہ میں انبیاء علیہم السلام کی شان کا خیال بھی نہیں رکھا گیا۔
کنز الایمان میں اللہ کی محتاجی کا بیان ہے معاذ اللہ
وَ یَنْصُرُوْنَ اللّٰہَ وَ رَسُوْلَہ
الحشر: آیت 8
ترجمہ:اور اللہ و رسول کی مدد کرتے ہیں۔
کنز الایمان
خان صاحب نے یہاں جو ترجمہ کیا اس سے پتہ چلتا ہے کہ صحابہ کرام رضوان اللہ تعالی علیہم اجمعین اللہ و رسول پاک ﷺ کی مدد کرتے ہیں اس سے جو شبہ پیدا ہوتا ہے اسے بھترالوی صاحب کی زبانی سنیے
’’یہ بظاہر بہت بڑی غلطی کا عام آدمی کے لیے سبب بن جاتا ہے کیونکہ عام لوگ صرف ترجمہ دیکھ کر خود بخود مطالب حاصل کرنے میں کوشاں رہتے ہیں جو یقیناً اس سے یہ مطلب حاصل کریں گے کہ معاذ اللہ اللہ تعالی بھی مدد کا محتاج ہے ‘‘۔
تسکین الجنان: ص 102
بھترالوی صاحب اصل میں یہ کہنا چاہتے ہیں کہ کنز الایمان اصل میں ایمان کا ڈاکو ہے جو انسان کو ایمان سے خالی اور محروم کردیتا ہے شاباش بھترالوی صاحب شاباش جب تک آپ جیسے محققین زندہ ہیں بریلوی جماعت کو کسی دشمن کی ضرورت نہیں۔
تشریف لائے، آوے اور آئے میں فرق
بھترالوی صاحب لکھتے ہیں:
’’وجہ فرق آوے، آئے، تشریف لائے، میں ثابت ہے ہر ذی شعور کے فہم و ادراک سے بعید نہیں کہ تشریف لائے جس طرح ادب و احترام پر دال ہے اسی طرح ’’آوے‘‘ میں کیسے ادب و احترام؟‘‘
تسکین الجنان: ص 107
بھترالوی صاحب یہ کہنا چاہتے ہیں کہ انبیاء کرام علیہم السلام کے لیے ’’آئے ‘‘ یا ’’آوے‘‘ وغیرہ کے الفاظ میں ادب و احترام نہیں جیسے تشریف لائے میں ادب و احترام ہے۔ ہم کہتے ہیں بھترالوی صاحب بہت اچھا اس فتوے کو سنبھال کر رکھیں کیونکہ یہ فتوی کچھ ہی دیر میں آپ کے امام و مقتدا احمد رضاخان صاحب کے ترجمہ پر لگنے والا ہے ملاحظہ ہو
(1) اور بے شک ان کے پاس ہمارے رسول روشن دلیلوں کے ساتھ آئے۔
کنز الایمان: سورہ مائدہ: آیت 32
(2) تم فرمادو محمد سے پہلے بہت رسول تمہارے پاس کھلی نشانیاں اور یہ حکم لے کر آئے۔
کنز الایمان: سورہ آل عمران آیت 183
(3) اور ان کے پاس کوئی رسول نہیں آتا مگر اس سے ہنسی کرتے ہیں۔
کنز الایمان سورہ الحجر آیت 11
(4) جب کسی امت کے پاس اس کا رسول آیا انھو ں نے اسے جھٹلایا۔
کنز الایمان: سورہ مومنون: آیت 44
(5) جب ان کے پاس کوئی رسول آتا تو اس سے ٹھٹھا ہی کرتے ہیں۔
کنز الایمان سورہ یسین: آیت 30
(6) جب رسول ان کے آگے پیچھے پھرتے ہیں۔
کنز الایمان: حم سجدہ: آیت 14
(7) بے شک تمہارے پاس اللہ کی طرف سے ایک نور آیا۔
کنز الایمان: سورہ مائدہ آیت 15
مولوی نعیم الدین مراد آبادی صاحب اس کی تفسیر میں لکھتے ہیں
’’سید عالم ﷺ کو نور فرمایا کیونکہ آپ ؐسے تاریکی کفر دور ہوئی اور راہ حق واضح ہوئی ‘‘۔
حوالہ؟؟
اس سے چند فوائد حاصل ہوئے:
(1) آپ ﷺ کے لیے نعیم الدین صاحب نے ’’ؐ‘‘ کی علامت لگائی جو خود بریلوی تصریحات کے مطابق کفر اور حرام ہے۔
(2) نبی پاک ﷺ کے لیے آیا کا لفظ استعمال کیا۔ بھترالوی صاحب! وہ عزت، اکرام و احترام جس کا عوام میں کمائی کے لیے اظہار کیا جاتا ہے وہ سب آپ کے اکابر یہاں بھول گئے؟
القصہ لفظ آئے کے بجائے آیا استعمال کیا تو خان صاحب نے انبیاء کرام علیہم الصلوۃ والتسلیمات کے لیے ’’آیا‘‘ کا لفظ استعمال کیا۔ ہم بھترالوی صاحب سے گزارش کریں گے کہ آپ میں اتنی اخلاقی جراٴت ہے کہ اپنا ہی فتوی احمد رضاخان صاحب کی قبر پر داغیں؟ اگر نہیں اور یقیناً نہیں تو یہ منافقت کہ ہم عاشقان رسو لﷺ ہیں چھوڑ دو اور اعلان کرو کہ ہم صرف نام کے عاشق ہیں۔
کنز الایمان سے قرآن کا حقیقی مفہوم سمجھ نہیں آتا
مولوی بھترالوی صاحب لکھتے ہیں:
’’یہاں (والموتی یبعثھم اللہ)میں الموتی سے مراد کفار ہیں نہ کہ مطلقاً مرد ے کیونکہ مردہ کا اطلاق فوت شدہ پر ہوتا ہے اور وہ عام ہے، مومن کافر سب کو شامل ہے اسی وجہ سے اگر ترجمہ کیا جائے مردوں کو اللہ زندہ کرے گا تو قرآن پاک کا حقیقی مفہوم سمجھ میں نہیں آتا یہی سمجھا جائے گا کہ یہاں صرف قیامت اور تمام فوت شدہ زندہ کرنے کا ذکر ہے حالانکہ یہ مقصد ہی نہیں بلکہ مقصود کفار کو اٹھانا مراد ہے جب یہ ترجمہ کیا جائے گا کہ ان مردہ دلوں کو اللہ اٹھائے گا اب مقصد واضح ہوگا کہ مردہ دل تو کفار ہی ہیں وہی مراد ہونگے۔ جبکہ قرآن پاک نے اس مقام پر کفار کے اٹھانے کا ہی ذکر کیا ہے تو وہی ترجمہ مقبول ہوگا جو مقصد کے مطابق ہو‘‘۔
تسکین الجنان: ص 138
بھترالوی صاحب نے ایک جگہ کے ترجمہ کو اٹھاتے ہوئے کنز الایمان کے کئی جگہوں کے ترجمہ کو غیر مقبول بنا دیا کیونکہ ’’الموتی‘‘ کا لفظ تو کئی جگہ استعمال ہوا ہے اور کئی جگہ مراد مردہ دل یعنی کفار ہیں لیکن خان صاحب نے وہاں ترجمہ ’’مردے‘‘ کیا ہے۔ جوکہ بھترالوی صاحب کی تحقیق کی روشنی میں چونکہ مقصود سے دور ہے اس لیے غیر مقبول ہے اور اس سے قرآن مقدس کا حقیقی مفہوم سمجھ نہیں آتا۔ اب ملاحظہ فرمائیں کہ خان صاحب نے کہا ں کہاں ’’الموتی‘‘ سے مراد تو کفار تھے مگر ترجمہ کیا ’’مردے‘‘
(1) بے شک تمہارے سنائے نہیں سنتے مردے۔
کنزالایمان: النمل: آیت 80
مولوی نعیم الدین مراد آبادی اس آیت کے حاشیہ میں لکھتے ہیں:
’’مردوں سے مراد یہاں کفار ہیں ‘‘۔
(2) اس لیے کہ تم مردوں کو نہیں سناتے۔
کنز الایمان: الروم: آیت 52
(3) اور برابر نہیں زندے اور مردے۔
کنز الایمان: الفاطر: آیت 22
مراد آبادی صاحب لکھتے ہیں:
’’یعنی مومنین اور کفار یا علماء اور جاہل‘‘۔
(4) اور تم نہیں سناتے ہو انہیں جو قبروں میں پڑے ہیں۔
کنز الایمان: الفاطر: آیت 7
مراد آبادی صاحب لکھتے ہیں:
’’یعنی کفار کو۔ اس آیت میں کفار کو مردوں سے تشبیہ دی گئی ہے ‘‘۔
ترجمہ کنز الایمان میں ایک نحوی خرابی
قُلْ اِنْ ضَلَلْتُ فَاِنَّمَا اَضِلُّ عَلیَ نَفْسِیْ
السبا:آیت 50
ترجمہ:تم فرماؤ اگر میں بہکا تو اپنے ہی برے کو بہکا۔
کنز الایمان
اس میں خان صاحب نے ’’ماضی‘‘ والا ترجمہ کیا ہے یعنی ’’بہکا‘‘ یہ ماضی کا صیغہ ہے حالانکہ یہ جملہ شرط و جزاء بن رہا ہے اب یہاں خرابی کیا ہے وہ بھترالوی صاحب سے سنیے
’’یہاں معنی شرط و جزاء ہے زمانہ استقبال کے لحاظ سے ہی ترجمہ صحیح ہے ایسا ترجمہ جو ماضی سے متعلق ہو اس سے وہم ہوتا ہے کہ شاید ایسا واقعہ ہوا ‘‘
تسکین الجنان: ص 160
قارئین کرام ! خان صاحب کا ترجمہ بقول بھترالوی اس بات کا وہم ڈال رہا ہے کہ یہ بات واقع بھی ہوئی ہے یعنی یہ ’’بہکنا ‘‘ معاذاللہ واقعہ بھی ہوا ہے حالانکہ یہ بات سوچنا بھی حرام ہے تو ترجمہ کنز الایمان کو کنز الایمان کے بجائے بریلوی تحقیقات کی روشنی میں ’’کنز الشیطان‘‘ کہنا چاہیے۔
ترجمہ کنز الایمان نبی کریم ﷺ کی شان کے لائق نہیں
وَلاَ تَتَّبِعْ اَھْوآئَھُمْ۔۔ الخ
الشوری: آیت 15
ترجمہ:اور ان کی خواہش پر نہ چلو۔
کنز الایمان
خان صاحب بریلوی نے اس ترجمہ میں نبی پاک ﷺ کے لیے یہ الفاظ استعمال کیے ہیں یعنی آپ کافروں کی خواہش پر نہ چلو۔ بھترالوی صاحب باقی مترجمین پر گرفت کرتے ہوئے لکھتے ہیں
’’
ولئن اتبعت اھوائھم۔ البقرۃ
میں باقی مترجمین نے نسبت نبی کریم ﷺ کی طرف کی ہے نبی کریم کا کافروں کی تابعداری کرنا کیسے متصور ہے؟ جبکہ انبیاء کرام معصوم ہیں حقیقت یہی ہے کہ اس سے مراد نبی کریم ﷺ نہیں بلکہ آپ کی امت ہے۔ یا تو خطاب ہر اس شخص کو ہے کو خطاب کا اہل ہے یا خطاب تو سید الانبیاء کو ہے لیکن مراد آپکی امت ہی ہے بہرحال دونوں صورتوں میں ترجمہ میں اے سننے والے الفاظ کا لانا ضروری ہوا تاکہ یہ اشتباہ ہی نہ رہے کہ یہ خطاب نبی کریم ﷺ کو ہے اور آپ کی شان کے لائق نہیں جبکہ آپ کسی قسم کے گناہ کے مرتکب نہیں ہوسکتے تو کیسے ممکن ہے آپ کو کفار کی خواہشات کی تابعداری کرنا ‘‘۔
تسکین الجنان: ص 158
بھترالوی صاحب یہ کہنا چاہتے ہیں کہ اس قسم کی بات سےکہ نبی کوکافروں کی اتباع سے روکا جائے، یہ شک پڑتا ہے کہ شاید یہ ممکن ہے تبھی تو نبی ﷺ کوروکا جارہا ہے۔ اس لیے اے سننے والے وغیرہا الفاظ کا اضافہ ضروری ہے تاکہ یہ اشتباہ نہ رہے۔مگر بھترالوی صاحب ایک جگہ کے ترجمہ کی خوبیاں بیان کرتے ہوئے بھول گئے کہ خان صاحب نے کئی جگہ ان الفاظ کی رعایت نہیں رکھی اور وہ مقامات بقول بھترالوی تحقیق کے شان مصطفی ﷺ کے خلاف ہیں۔ سورہ شوری آیت نمبر 15 میں کوئی ”اے سننے والے“ کا اضافہ نہیں تو جب یہ الفاظ لانے ضروری تھے اور خان صاحب نہیں لائے تو خان صاحب نے بقول آپ کے ٹھوکر کھائی۔ شاباش بھترالوی صاحب! خوب ضرب لگائی خان صاحب پر۔
کنز الایمان میں انبیاء کرام علیہم السلام کی طرف شرک کی نسبت
1 وَلَوْ اَشْرَکُوْا لَحَبِطَ عَنْھُمْ مَّاکَانُوْ ا یَعْمَلُوْنَ
الانعام: آیت 88
ترجمہ:اگر وہ شرک کرتے تو ضرور ان کا کیا اکارت جاتا۔
کنز الایمان
یہاں فاضل بریلوی نے انبیاء کرام کی طرف شرک کی نسبت کی ہے جبکہ بھترالوی صاحب لکھتے ہیں
’’مولوی فتح محمد کے ترجمہ میں شرک کی نسبت جمیع انبیاء کی طرف گئی ہے حالانکہ یہ بھی درست نہیں ‘‘۔
تسکین الجنان: ص 311
قارئین ذی وقار! کیا اعلی حضرت بریلوی نے انبیاء کرام علیہم السلام کی طرف شرک کی نسبت نہیں کی؟اگر مولوی فتح محمد کا ترجمہ غلط ہے تو فاضل بریلوی کے ترجمہ کے محاسن کیوں لکھے جائیں؟ یہ فرق کیوں ہے؟ اس لیے کہ فاضل بریلوی اپنے گھر کے آدمی ہیں ؟ اسی لیے ان کے ترجمہ کے محاسن لکھے گئے اور باقی تراجم کے مفاسد حالانکہ دونوں ایک جیسے ہیں۔
مولوی بھترالوی صاحب لکھتے ہیں:
عام ذہن رکھنے والے لوگ جو علمی مقام نہیں رکھتے تفاسیر کو سمجھنے کی صلاحیت نہیں رکھتے وہ اسی قسم کے تراجم کو دیکھ کر ایسی آیات کا سہارا لے کر خود بھی بھٹک جاتے ہیں اور دوسروں کو بھی بھٹکاتے رہتے ہیں اور یہی اردو تراجم کو دیکھ کر جہل مرکب کے مصداق علمیت کے دعویدار علماء کرام کے لیے بھی درد سر بنے رہتے ہیں۔
تسکین الجنان: ص 313
میں کہتاہوں شاباش بھترالوی صاحب آپ نے احمد رضاخان کی وہ خبر لی ہے کہ ان کی روح بھی تڑپ گئی ہوگی۔ میں اس موقع پر بریلویوں سے گزارش کروں گا اب جبکہ ثابت ہوچکا ہے کہ کنز الایمان عوام کو گمراہ کرنے والا ترجمہ ہے اور یہ وہ ترجمہ ہے جو علماء کے لیے درد سر بنا ہوا ہے تو آخر اس گمراہ کن ترجمہ کو بھرے چوک میں نذر آتش کرکے کیوں عوام کو اس گمراہی کے پلندے سے نجات نہیں دی جاتی؟
2 وَلَا تُطِعْ مَنْ اَغْفَلْنَا قَلْبَہٗ عَنْ ذِکْرِنَا وَاتَّبَعَ ھَوَاہ
الکھف: آیت 28
ترجمہ:اور اس کا کہا نہ مانو جس کا دل ہم نے اپنی یاد سے غافل کردیا اور وہ اپنی خواہش کے پیچھے چلا۔
کنز الایمان
یہاں خان صاحب نے نبی پاک ﷺ کے لیے یہ ترجمہ کیا ہے اب اس پر فتوی کیا لگے گا وہ بریلوی محقق مولوی بھترالوی صاحب کی زبانی سنیے:
’’انبیاء علیہم السلام کا کافروں کی تابعداری کرنا اور دین سے بھٹک جانا ممکن ہی نہیں اس لیے ایسی آیات میں خطاب انبیاء علیہم السلام کو نہیں ہونا چاہیے بلکہ عام انسانوں کو ہی خطاب ہو ‘‘۔
تسکین الجنان: ص 156
معلوم ہواکہ فاضل بریلوی کا یہ ترجمہ بھترالوی تحقیق کے بموجب غلط ٹھہرا۔ واہ بھترالوی صاحب واہ! علماء اہل السنت والجماعت تو کب سے کہہ رہے ہیں کہ یہ ترجمہ غلط ہے بہرحال آپ نے دانستہ یا غیر دانستہ طور پر اس کو تسلیم کرہی لیا ہےاور اعلی حضرت کے ترجمہ کو غلط قرار دینے میں ہماری معاونت کی۔ اللہ پاک سے دعا ہے کہ آپ کو حق کی طرف آنے کی توفیق دے۔ آمین
کنز الایمان نبی کریم ﷺ کی گستاخی پر مشتمل ہے
خَلَقَ الْاِنْسَانَ۔۔ الخ
الرحمن: آیت 3
ترجمہ:انسانیت کی جان محمد کو پیدا کیا۔
کنز الایمان
بھترالوی صاحب لکھتے ہیں:
’’اعلی حضرت کے ترجمہ سے یہ پتہ چلتا ہے کہ اس آیت میں انسان سے مراد بھی نبی کریم ہیں ‘‘۔
تسکین الجنان: ص ؟؟
قارئین اہلسنت !خان صاحب بریلوی نے یہاں آپ علیہ السلام کا تذکرہ کیا ہے لیکن نہ ہی ادب و احترام، نہ ہی القاب و آداب اور نہ ہی ﷺ جبکہ فیض احمد اویسی صاحب لکھتے ہیں:
’’حضور تاج دار رسول اللہ کا اسم گرامی سادہ الفاظ میں لینا مکروہ ہے۔
شہد سے میٹھا نام محمد ﷺ: ص 142
دوسری جگہ لکھتے ہیں:
’’سادہ لفظو ں میں حضور علیہ الصلوۃ والسلام کا اسم گرامی لینا بے ادبی و گستاخی ہے بلکہ اس سے پہلے سیدنا و مولانا کا اضافہ ضروری ہے‘‘۔
ایضا: ص 158
تیسری وجہ لکھتے ہیں:
’’سادہ الفاظ میں آپ کا اسم گرامی لینا بے ادبوں اور گستاخوں کا کام ہے ‘‘۔
ایضا: ص 161
اویسی صاحب کے ان فتاوی جات کی زد میں ان کے اعلی حضرت بری طرح مبتلا اور پھنسے ہوئے ہیں۔ بریلوی تحقیق میں یہ ترجمہ نہ صرف غلط ٹھہرا بلکہ ان کے اعلی حضرت بے ادب و گستاخ ٹھہرے اور نعیم الدین مراد آبادی صاحب لکھتے ہیں:
’’رسول کریم ﷺ کی شان میں گستاخی کفر ہے جس طرح بھی ہو اس میں عذ ر قبول نہیں ‘‘۔
خزائن العرفان: ص 66
دیکھیے قرآن کا غلط ترجمہ کرنے کا وبال کیسے احمد رضاخان پر خود ان کے گھر کے افراد کی طرف سے پڑا۔ اللہ پاک ہر مسلمان کو ان گستاخوں اور بے دینوں سے محفوظ رکھے۔ آمین۔دوسری بات یہ ہے کہ خان صاحب نے اس آیت میں نبی پاک ﷺ کو انسان یعنی بشر کہا ،اب بریلوی فتاوی ملاحظہ فرمائیں
(1) ’’قرآن پاک میں جابجا انبیاء کو بشر کہنے والے کو کافر فرمایا گیا‘‘۔
خزائن العرفان: ص 2:سورہ بقرہ آیت 9 حاشیہ 13
(2) مفتی احمد یار گجراتی لکھتا ہے:
’’اب جو نبی کو بشر کہے وہ نہ خدا ہے نہ پیغمبر تیسرے گروہ میں داخل ہے یعنی کافر ‘‘۔
نور العرفان: ص 636
(3) یہی بات مولوی عبد الرشید رضوی سمندری والے نے اپنی کتاب ’’رشد الایمان‘‘ صفحہ 45 پر لکھی ہے۔
تو خان صاحب ان فتاوی جات کی روشنی میں کافر ٹھہرتے ہیں اور ان کا ترجمہ بھی غلط ٹھہرا ہمیں کسی کو کافر بنانے کاشوق نہیں مگر کوئی خود ہی اپنے فتوو ں اور اپنے گھر کے فتووں سے کافر بن رہا ہو تو ہم کیا کر سکتے ہیں۔ خان صاحب نے اپنے ترجمہ میں دیگر بھی کئی مقامات پر نبی ﷺ کی بشریت کو تسلیم کیا ہے
(1) قُلْ اِنَّمَا اَنَا بَشَرٌ مِّثْلُکُمْ
حم سجدہ: آیت 6
ترجمہ:تم فرماؤ آدمی ہو نے میں مَیں تمہی جیسا ہوں۔
کنز الایمان
(2) قُلْ سُبْحَانَ رَبِّیْ ھَلْ کُنْتُ اِلاَّ بَشَراً رَسُوْلاً
بنی اسرائیل: آیت 93
ترجمہ:تم فرماو ٔ پاکی ہے میرے رب کی میں کون ہوں مگر آدمی اللہ کا بھیجا ہوا۔
کنز الایمان
(3) قَالَتْ لَھُمْ رَسُلُھُمْ اِنْ نَحْنُ اِلاَّ بَشَرٌ مِّثْلُکُمْ۔
ابراہیم: آیت 11
ترجمہ:ان کے رسولوں نے ان سے کہا ہم ہیں تو تمہاری طرح انسان۔
کنزالایمان
انسان،بشر،آدمی ایک ہی شے ہے کوئی فرق نہیں، مترادف الفاظ ہیں۔ تو خان صاحب بریلوی یہاں انبیاء علیہم السلام اور نبی پاک علیہ السلام کو بشر اور آدمی کہہ رہے ہیں تو اوپر والے فتاوی کی روشنی میں یہ ترجمے غلط بھی ہوئے اور خان صاحب بھی کفر کے گھاٹ اتر گئے۔
کنز الایمان میں غیر نبی کو نبی سمجھنے کا ابہام
بھترالوی صاحب اعلی حضرت کے ترجمہ کی خوبیاں بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’غیر نبی کے لیے جب قرآن میں وحی کا لفظ استعمال ہوتو اس کا معنی حکم یا وحی وغیرہ نہیں کرناچاہیے ورنہ یہ اشکال پیدا ہوتا ہے کہ شاید یہ نبی ہے جبکہ وہ نبی نہیں ہوتا۔
تفصیل کے لیے ملاحظہ فرمائیں: تسکین الجنان: ص 245
بھترالوی صاحب اب ذرا توجہ فرمائیں کہ آپ کی تحقیق کی زد میں خود آپ کے اعلی حضرت کس طرح آرہے ہیں
(1) اِذْ یُوْ حِی رَبُّکَ اِلَی الْمَلآئِکَۃِ اَنِّیْ مَعَکُمْ
الانفال: آیت 12
ترجمہ:جب اے محبوب تمہارا رب فرشتوں کو وحی بھیجتا ہے کہ میں تمہارے ساتھ ہوں۔
بدر کے موقع پر جو فرشتوں کا نزول ہوا ان کو کہا جارہا ہے تو بھترالوی صاحب جواب دیں کہ کیا وہ فرشتے سب کے سب انبیاء تھے؟
(2) باَنَّ رَبَّکَ اَوْحٰی لَھَا
زلزال: آیت 5
ترجمہ:اس لیے کہ تمہارے رب نے اسے حکم بھیجا۔
کنز الایمان
یہاں حکم زمین کو دیا جارہا ہے کیا یہ زمین بھی نبی ہے؟ بھترالوی صاحب ! آپ کی تحقیق کے مطابق کنز الایمان کے ان دو مقامات کا ترجمہ غلط ہے کیونکہ اس سے ایک بڑا قوی اشکال پیدا ہوتا ہے۔ ہم انتظار کریں گے اس وقت کا جب آپ کی قوم اس ترجمہ کے بارے میں اعلان حق کرے گی کہ ہم اس سے اور اس کے مترجم جناب اعلی حضرت سے بری ہیں۔
ترجمہ کنز الایمان درست نہیں
بعض آیات ایسی ہیں کہ مترجمین ان کے شروع میں ’’بالفرض والمحال، اے سننے والے، اے مخاطب وغیرھا الفاظ استعمال کرتے ہیں مولوی بھترالوی کہتے ہیں کہ:
’’اس قسم کی زیادتی کے بغیر ترجمہ کرنا درست ہی نہیں ‘‘۔
تسکین الجنان: ص 154، 134، 125، 117
لیکن شاید مولوی صاحب کو معلوم نہیں کہ خان صاحب بریلوی نے کئی جگہ یہ کام نہیں کیا فلہذا بھترالوی تحقیق کے مطابق یہ ترجمہ غلط ٹھہرا۔ چند نمونے ملاحظہ فرمائیں:
(1) وَلَا تَکُوْ نَنَّ مِنَ الْمُشْرِکِیْنَ
یونس: آیت 105،انعام: آیت 14، عنکبوت: آیت 87
ترجمہ:اور ہر گز شر ک کرنے والوں میں نہ ہونا۔
کنزالایمان
ان تینوں جگہ تقریباً ایک ہی معنی کیاہے۔
(2) فَاِنْ فَعَلْتَ فَاِنَّکَ اِذاً مِّنَ الظَّالِمِیْنَ
یونس: آیت 106
ترجمہ:پھر اگر ایسا کرے تو اس وقت تو ظالموں سے ہوگا۔
کنز الایمان
(3) فَلاَ تَکُوْنَنَّ ظَھِیْراً لِّلْکَافِرِیْنَ
عنکبوت: آیت 86
ترجمہ:تو تم ہر گزکافروں کی پشتی نہ کرنا۔
کنز الایمان
(4) وَلاَ تَتَّبِعْ اَھْوآئَھُمْ
شوری: آیت 15
ترجمہ:او ر ان کی خواہشوں پر نہ چلو۔
کنزالایمان
(5) وَلاَ تَدْعُ مَعَ اللّٰہِ اِلٰھاً آخَرَ
شعراء:آیت 213
ترجمہ:تو اللہ کے سوادوسرا خدا نہ پوج۔
کنزالایمان
(6) اِذاً لَاَذَقْنَاکَ ضِعْفَ الْحَیَاۃ
بنی اسرائیل: آیت 75
ترجمہ:اور ایسا ہوتا تو ہم تم کو دونی عمر اور دو چند موت کا مزہ دیتے پھر تم ہمارے مقابل اپنا کوئی مددگار نہ پاتے۔
کنز الایمان
(7) وَلاَ تَکُنْ مِّنَ الْغَافِلِیْنَ
انفال: آیت 205
ترجمہ:اور غافلوں میں نہ ہونا۔
کنز الایمان
(8) وَلاَ تُطِعْ مَنْ اَغْفَلْنَا قَلْبَہٗ عَنْ ذِکْرِنَا
کھف: آیت28
ترجمہ:اور اس کا کہا نہ مانو جس کاد ل ہم نے اپنی یاد سے غافل کردیا۔
کنز الایمان
چونکہ ان آیات کی نسبت آنحضرت ﷺ کی طرف ہے اس لیے ان کے شروع میں بھترالوی صاحب کی تحقیق کے مطابق ’’اے مخاطب،اے سننے والے‘‘ وغیرھما الفاظ لانے ضروری تھے لیکن خان صاحب نہ لائے تو ان 10 عدد آیات کا ترجمہ خان صاحب کا غلط ہے۔اور یہ بھی یاد رہے اکیلے بھترالوی صاحب ہی کی یہ تحقیق نہیں بلکہ اس پر تین بریلوی اکابر کے دستخط اور تقریظات موجود ہیں یعنی
(1) مولوی اشر ف سیالوی
(2) مولوی عبد الحکیم شرف قادری
(یہ صاحب اب وفات پاچکے ہیں )
(3) مولوی گل احمد عتیقی
مولوی گل محمد عتیقی شیخ الحدیث دارالعلوم نعمانیہ لاہور اس کتاب کے متعلق کہتے ہیں:
’’فاضل اجل حضرت علامہ مولانا عبد الرزاق چشتی مدرس جامعہ رضویہ ضیاء العلوم سیٹلائٹ ٹاؤن راولپنڈی نے آیات کثیرہ کے تراجم کے ساتھ تفسیری مضامین کو بھی بیان فرمادیا ہے جس سے تراجم کو چار چاند لگ گئے ہیں ‘‘۔
تسکین الجنان فی محاسن کنزالایمان: ص12۔ضیاء العلوم پبلی کیشنز راولپنڈی
مولوی عبد الحکیم شرف قادری لکھتا ہے:
’’مولاناعبد الرزاق بھترالوی جامعہ رضویہ ضیاء العلوم ڈی بلاک سیٹلائٹ ٹاؤن راولپنڈی کے مدرس ہیں اور علمی ذوق سے سرشار ہیں ان کی یہ پہلی تحریری کوشش ہے جو لائق تبریک و تحسین ہے ‘‘۔
تسکین الجنان: ص 15
اور مولوی اشرف سیالوی لکھتا ہے:
’’مکتوب گرامی ملا یادآوری کا شکریہ جناب نے بہت مستحسن قدم اٹھایا ہے اور جیسے کہ چند مقامات کے دیکھنے سے اندازہ ہوتا ہے آپ نے خوب معتدل انداز اور مہذب پیرائے میں اعلی حضرت کے ترجمہ کی موزونیت اور معنوی عظمت ثابت کی۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ دوسرے حضرات کے متعلقین انصاف اور دیانت سے کام لیتے اور اس ترجمہ سے رہنمائی حاصل کرتے ہوئے اپنے بزرگوں کے تراجم درست کرلیتے اور آپ کی ذات سراپا کمال کی علمی فوقیت و برتری کا اعتراف کرتے مگر برا ہو حسد اور تعصب کا کہ وہ کمال و حسن کو بھی نقصان اور قبح بنا دکھاتا ہے اور برا ہو ضد و عنادکا کہ وہ حق کے اعتراف و تسلیم کی طرف کبھی بھی مائل نہیں ہونے دیتا ‘‘۔
تسکین الجنان: ص 16
سیالوی صاحب ہوش میں آئیں، ترجمہ کنز الایمان کو خود آپ کے علماء نے رد کردیا ہے۔ اب ہم آپ سے مطالبہ کرتے ہیں کہ آپ ضد و عناد اور تعصب کو چھوڑ کر ان غلط مقامات کو درست کریں اور حق کی طرف مائل ہوکر اعلان کریں کہ واقعی ترجمہ کنز الایمان اردو تراجم میں غلط ترین ترجمہ ہے اور ہمارے اعلی حضرت نے کئی جگہ ٹھوکریں کھائی ہیں۔
گویاان تمام بریلویوں کے نزدیک ترجمہ فاضل بریلوی غلط ہے اور شکوک و شبہات میں ڈالنے والا ہے۔
کنز الایمان اور ازواج مطہرات ؓ کی توہین
اِنْ تَتُوْبَا اِلَی اللّٰہِ فَقَدْ ضَغَتْ قُلُوْبُکُمَا
التحریم: آیت 4
ترجمہ:نبی کی دونوں بیبیو اگر اللہ کی طرف تم رجوع کرو تو ضرور تمہارے دل راہ سے کچھ ہٹ گئے ہیں۔
کنز الایمان
پیر کرم شاہ صاحب بھیروی لکھتے ہیں:
’’اللہ تعالی نے جب زاغت )جس کا معنی ٹیڑھا ہونا یا کج ہونا )کا لفظ استعمال نہیں کیا بلکہ ضغت کا لفظ استعمال کیا ہے تو اس کا ترجمہ تمہارے دل کج ہوگئے ہیں یا ٹیڑھے ہوگئے ہیں یا سیدھی راہ سے ہٹ گئے ہیں کسی طرح مناسب نہیں ‘‘۔
تفسیر ضیاء القرآن: ج 5:ص 299
اعلی حضرت نے ترجمہ کیا کہ تمہارے دل راہ سے کچھ ہٹ گئے ہیں پیر صاحب کہتے ہیں کہ ایسا ترجمہ کرنا کسی بھی طرح مناسب نہیں۔ غور فرمائیں پیر صاحب نے کس بری طرح اعلی حضرت کے ترجمہ کو رد کیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ خان صاحب اپنے شیعی نظریات؛ جن پر انہوں نے تقیہ کی چادر چڑھائی ہوئی تھی سے مجبور ہوکر وقتاً فوقتاً ازواج مطہرات خصوصا اماں عائشہ ؓ کی شان میں گستاخانہ جملے کہتے تھے کبھی کہتے
تنگ و چست ان کا لباس اور وہ جوبن کا ابھار معاذاللہ
حدائق بخشش: ج3:ص 37
اور کبھی یہ تاثر دیتے ہیں کہ اماں عائشہ ؓ نبی پاک ﷺ کی توہین کرتی تھیں معاذ اللہ۔
ملاحظہ ہو ملفوظات ملخصاً
اور کبھی یہ کہ انبیاء کی قبور میں ازواج مطہرات پیش کی جاتی ہیں تو وہ ان سے شب باشی فرماتے ہیں۔ معاذ اللہ
ملفوظات: ص 310
حالانکہ یہ عقیدہ شیعہ کا ہے۔ غالبا اماں عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا سے یہ بغض اس وجہ سے بھی خان صاحب کو تھا کہ اماں عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا نے صاف طور پر امت پر واضح کردیا تھا کہ آقا کریمﷺ بشر ہیں کوئی نوری مخلوق نہیں اور آپ ﷺ علم غیب نہیں جانتے۔ غالبا اسی وجہ سے خان صاحب نے اپنے دل کی بھڑاس اس ترجمہ کی صورت میں نکال دی جو کسی بھی طرح مناسب نہیں اور مولوی احمد سعید کاظمی نے بھی التبیان العظیم میں اس کو رد کیا ہے۔
انبیاء کے لیے راہ دکھلانے کا ترجمہ اور بھترالوی تحقیق
وَ ھَدَیْنَاھُمْ اِلیٰ صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ
الانعام: آیت 88
ترجمہ:ہم نے انہیں چن لیا اور سیدھی راہ دکھائی۔
کنز الایمان
یعنی انبیاء کرام علیہم السلام کو ہم نے چن لیا اور ان کو نبوت کا تاج پہنایا اور سیدھی راہ دکھائی۔ یہی ’’سیدھی راہ دکھانا ‘‘ترجمہ خان صاحب نے کئی جگہ کیا ہے: مثلاً:

سورہ ابراہیم: آیت 12

سورہ النحل: آیت 121

سورہ الشعرآء: آیت 78

سورہ الصافات: آیت 118
ان تمام جگہوں پرخان صاحب نے انبیاء علیہم السلام کے لیے راہ دکھانے کے الفاظ استعمال کیے ہیں، جبکہ انبیاء کرام علیہم السلام کے لیے یہ معنی کرنے پر بھترالوی صاحب کو بڑی تکلیف ہے چنانچہ وہ لکھتے ہیں
’’صرف راہ دکھانا یا بتلانا یہ کافی نہیں یہ تو کفار کے لیے بھی ثابت ہے ‘‘۔
تسکین الجنان: ص 32
معلوم ہوا کہ بریلویوں کے نزدیک ترجمہ کنز الایمان انبیاء کی شان کو اجاگر نہیں کررہا ہے بلکہ ان کی شان کے لائق بھی نہیں کیونکہ راہ دکھانا تو کافروں کے لیے بھی ثابت ہے۔ بیچارے مولوی عبد الرزاق بھترالوی صاحب اور ان کے مصدقین و مؤیدین تو اس کوشش میں تھے کہ کنز الایمان کے محاسن اور خوبیاں اکھٹی کی جائیں لیکن الٹا اس ترجمہ کے قبائح اور خرابیاں اکھٹی کرکے ہمیں فائدہ پہنچا رہے ہیں۔ بھترالوی صاحب پریشان ہونے کی ضرورت نہیں الاناء یترشح بما فیہ اس ترجمہ میں ہیں ہی قباحتیں آپ کا کوئی قصور نہیں ہے۔ اعلی حضرت بریلوی کی طبعیت ہی چلبلی تھی اور اس چلبلی طبعیت سے یہ بات بعید نہیں کہ ترجمہ قرآن میں جگہ جگہ ٹھوکریں کھائیں۔
حضو ر ﷺ کی طرف عامی الفاظ کی نسبت
وَاعْبُدْ رَبَّکَ حَتّٰی یَأْ تِیَکَ الْیَقِیْن
الحجر: آیت 99
ترجمہ:مرتے دم تک اپنے رب کی عبادت میں رہو۔
کنز الایمان
قارئین ذی وقار !ملاحظہ فرمائیں اس ہستی اور شخصیت کی طرف فاضل بریلوی یہ الفاظ منسوب کررہے ہیں جن کی خاطر زمین و زماں اللہ نے بنائے، عشاق و غلام تو یہ جسارت نہیں کر سکتے کہ’’ مرتے دم تک‘‘ جیسے الفاظ کا انتساب اس پاک ہستی کی طرف کیا جائے لیکن یہ تو خان صاحب ہیں، فاضل بریلوی ہیں، ان کے عشق و محبت کا انداز ہی نرالا ہے! عشق و محبت کے دعوے تو بڑے بلند و بالاہیں لیکن جہاں عشق کے اظہار کی باری آتی ہے تو صفر نکلتے ہیں۔
واحد کا ترجمہ جمع سے کردیا
اِنَّ فِیْ ذٰلِکَ لَآیَۃً لِّلْمُؤْمِنِیْنَ
الحجر: آیت 77
ترجمہ:بے شک اس میں نشانیاں ہیں ایمان والوں کے لیے۔
کنز الایمان
(1) پیر کرم شاہ اس کا ترجمہ کرتے ہیں:
’’یقیناً اس میں نشانی ہے اہل ایمان کے لیے ‘‘۔
ضیاء القرآن
(2) کاظمی صاحب لکھتے ہیں:
’’بے شک اس میں نشانی ہے ایمان والوں کے لیے ‘‘۔
البیان
(3) سعیدی صاحب لکھتے ہیں:
’’بے شک اس میں ایمان والوں کے لیے نشانی ہے ‘‘۔
تبیان
(4) مفتی غلام سرور قادری لکھتے ہیں:
’’بے شک اس میں صرف ایمان والوں کے لیے (اللہ کی قدرت کی )نشانی ہے ‘‘۔
عمدۃ البیان
(5) دو بریلوی اکابر کے مصدقہ ترجمہ میں ہے:
’’بے شک اس میں ایمان والوں کے لیے نشانی ہے ‘‘۔
آسان ترجمہ قرآن: ص 583
قارئین کرام ! کئی بریلوی اکابر نے ’’آیۃ‘‘ کا ترجمہ ’’نشانی‘‘ کیا ہے لیکن خان صاحب نے ’’نشانیاں ‘‘ کیا ہے جوکہ غلط ہے اس کی دو وجوہات ہیں
(1) نشانیاں جمع کا صیغہ ہے اس کے لیے لفظ بھی جمع کا ہونا چاہیے یعنی ’’آیات‘‘خان صاحب نے اسی سورہ حجر کی آیت 75 کا ترجمہ ’’نشانیاں ‘‘ کیا ہے۔
(2) آیۃ کا لفظ مفرد ہے اس کا معنی بھی مفرد والا ہونا چاہیے جیسے خان صاحب نے خود بھی اس لفظ کا ترجمہ دوسری جگہوں پر مفرد والا کیا ہے۔
ایک مثال ملاحظہ ہو
’’ بے شک اس میں نشانی دھیان کرنے والوں کے لیے ‘‘۔
النحل: آیت 11
اس آیت میں لفظ ’’آیۃ‘‘ تھا جو کہ مفرد ہے تو معنی بھی مفرد لائے مگر سورہ حجر میں یہی لفظ تھا وہاں ترجمہ جمع کا کردیا۔ ایسا کیوں؟ مگر مندرجہ بالا بریلوی مترجمین نے اس عقدہ کو کھول دیا ہے کہ یہ ترجمہ کرنا غلط ہے کیونکہ ان تمام بریلوی مترجمین نے ترجمہ خان صاحب کے خلاف کیا ہے۔
ؐ، صلعم ، ؑکے الفاظ اور بریلوی فتاوی
(1) مفتی اقتدار خان نعیمی صاحب لکھتے ہیں:
’’صلی،صلعم،علیہ یہ ایک بے کار بے معنی نشانی ہے ان کو درود پاک کی جگہ لکھنا بولنا حکم الٰہی کے خلاف ہے اور خلاف ورزی گناہ کبیرہ ‘‘۔
فتاوی نعیمیہ: ج5:ص 159
دوسری جگہ لکھتے ہیں:
لوگ ؐ، صلی، صلعم جیسے بے معنی فضول آواز و نقوش لکھ کر حکم الٰہی کا منہ چڑاتے ہیں۔
فتاوی نعیمیہ: ج5:ص160
(2) مولوی فیض احمد اویسی صاحب لکھتے ہیں:
’’آج کل یہ مرض عام ہے خواہ علماء مشائخ اونچی تعلیم والے ہوں یا عام پڑھے لکھے (الا ماشاء اللہ)کہ حضور تاج دار انبیاء ﷺ کے اسم گرامی کے اوپر ؐ ؑ صلعم لکھ دیتے ہیں فقہاء کرام لکھتے ہیں کہ ایسا لکھنا محروم القسمۃ لوگوں کا کام ہے ‘‘۔
شہد سے میٹھا نام محمد ﷺ: ص 181
(3) مولوی مصطفی رضاخان صاحب لکھتے ہیں:
’’صلی اللہ تعالی علیہ و سلم لکھا کیجیے علمائے نے صلعم یا صرف ؐ لکھنے کو تنقیص شان رسالت اور لکھنے والے پر حکم کفر فرمایا ہے ‘‘۔
فتاوی مصطفویہ: ص580
اب آئیے اعلی حضرت کی طرف جنہوں نے اپنے ترجمہ میں کئی جگہ اس حرام کاری اور کفر کاارتکاب کیا ہے:
(1) و یٰا ٓدَمُ
اعراف: آیت 19
ترجمہ:اور اے آدم ؑ
کنزالایمان
(2) مَاکَانَ مُحَمَّدٌ اَبَآ اَحَدٍ مِّنْ رِّجَالِکُمْ
احزاب: آیت 40
ترجمہ:محمد ؐ تمہارے مردوں میں کسی کے باپ نہیں۔
کنزالایمان
(3) وَاٰمَنُوَا ِبمَا نُزِّلَ عَلَی مُحَمَّدٍ
محمد: آیت 2
ترجمہ:اور اس پر ایمان لائے جو محمد ؐ پر اتارا گیا۔
کنز الایمان
(4) مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ
الفتح: آیت 29
ترجمہ:محمد ؐ اللہ کے رسول ہیں۔
کنزالایمان
(5) وَالنَّجْمِ اِذَا ھَوَی
النجم: آیت 1
ترجمہ:اس پیارے چمکتے تارے محمد ؐ کی قسم۔
کنزالایمان
اخوانِ اہل السنت ! یہ چند ایک مقامات کے تراجم ہیں جو کہ ہم نے لکھ دیے ہیں۔ ہمارے پاس کنز الایمان مطبوعہ تاج کمپنی جون 1987 کا شائع شدہ ہے۔ ان مقامات پر خان صاحب نبی پاک ﷺ کے نام مبارک پر ؐ کی علامت اور سیدنا آدم علیہ السلام کے نام مبارک پر ؑ کی علامت لگاکر بریلوی علماء کے فتووں کے مطابق محروم القسمۃ، کافر، شان رسالت ﷺ میں تنقیص کرنے والا، حکم الٰہی کا منہ چڑانے والے ہیں۔ اللہ پاک خان صاحب کے اس ترجمے کے شر سے ہر مسلمان کو محفوظ رکھے۔
مونث کی جگہ مذکر ترجمہ
وَاِذَا الْجَحِیْمُ سُعِّرَتْ
تکویر:آیت 12
ترجمہ:اور جب جہنم بھڑکایا جائے۔
کنز الایمان
خان صاحب نے یہاں جہنم کو مونث کی جگہ مذکر بنادیا ’’بھڑکائی جائی گی ‘‘ کی جگہ ’’بھڑکا یا جائے گا ‘‘ کا ترجمہ کردیا۔یاد رہے کہ کئی جگہ خان صاحب نے اس کو مونث بھی ذکر کیا ہے۔
(1) یَوْمَ نَقُوْلُ لِجَھَنَّمَ ھَلْ اِمْتَلَائْتِ
ق:آیت 29
ترجمہ:جس دن ہم جہنم سے فرمائیں گے کیا تو بھر گئی۔
کنزالایمان
(2) وَ بُرِّزَتِ الْجَھِیْمُ لِمَن یَّرٰی
النزعات:آیت 36
ترجمہ:اور جہنم ہر دیکھنے والے پر ظاہر کردی جائیگی۔
کنزالایمان
اب یاتو جہنم کو یہ مونث بنانا غلط ہے یااس کو مذکر بنانا غلط ہے فیصلہ ملت بریلویہ کے ہاتھ میں ہے کہ وہ کس کو صحیح کس کو غلط قرار دیتی ہے۔
غلط ترجمے کی ایک اور مثال
قَالَ اِنْ سَأَلْتُکَ عَنْ شَیْئٍ بَعْدَھَا فَلاَتُصَاحِبْنِیْ
کہف: آیت 76
ترجمہ:کہا اس کے بعد میں تم سے کچھ پوچھوں تو پھر میرے ساتھ نہ رہنا۔
کنزالایمان
جبکہ تقریباً سب بریلوی مترجمین نے اس کو رد کرتے ہوئے ترجمہ یوں کیا:
کاظمی، غلام سرور قادری،مفتی محمد حسین نعیمی، ڈاکٹر سرفراز نعیمی نے ترجمہ کیا:
’’تو مجھے اپنے ساتھ نہ رکھنا‘‘۔
البیان،عمدۃ البیان،آسان ترجمہ قرآن
عزیز احمد قادری،عبدالمقتدر بدایونی،سعیدی، پیر کرم شاہ نے ترجمہ یوں کیا:
’’تو آپ مجھے اپنے ساتھ نہ رکھیں ‘‘۔
ترجمہ قادری،حاشیہ ترجمہ قادری،تبیان القرآن، ضیاء القرآن
مفتی مظہر اللہ دہلوی لکھتے ہیں:
’’پھر مجھے اپنے ساتھ نہ رکھنا‘‘۔
مظہر القرآن: ج1:ص891
مفتی اقتدار خان لکھتے ہیں:
’’تو تم مجھ کو اپنے ساتھ نہ رکھنا‘‘۔
تفسیر نعیمی:ج16:ص3
غلام رسول سعیدی صاحب لکھتے ہیں:
’’حضرت خضر نے حضرت موسیٰ کو نہایت سختی اور تاکید کے ساتھ تنبیہ کی۔‘‘
پھر آگے لکھتے ہیں:
’’اور استاذ کا بہت زیادہ ادب و احترام کرنے والے تھے ‘‘۔
تبیان القرآن: ج7:ص181
اس سے معلوم ہوا کہ حضرت خضر علیہ السلام استاد ہیں ، انہوں نے سیدنا موسیٰ علیہ السلام پر سختی کی۔اب آپ سوچیے کہ بھلا شاگرد یہ کہہ سکتا ہے کہ آپ میرے ساتھ نہ رہنا بلکہ شاگر د تو اد ب و احترام سے وہ کہہ سکتا ہے جو 10 عدد بریلویوں نے لکھا۔تو اعلی حضرت کا ترجمہ عقل و نقل دونوں کے خلاف ہے۔ نقل کے اس لیے کہ یہ کوئی ثلاثی مجرد نہیں کہ اس کا معنی یہ کیا جائے جو خان صاحب نے کیا پھر یہ جمہور امت سے ہٹ کر ترجمہ ہے ا س لیے بھی قابل رد ہے۔ اعلی حضرت کے ماننے والے یہاں ایک تاویل بھی کرتے ہیں کہ ایک قراءت میں فلا تصحبنی بھی ہے تو پھر اس صورت میں معنی درست ہوگا۔
اس کا جواب یہ ہے کہ جو قراءت لکھی ہے ترجمہ بھی اس کے مطابق ہونا چاہیے جیسا کہ کئی دیگر مقامات پر دوسری قراءتیں بھی ہیں لیکن وہاں تو ان قراءتوں کا خیال نہیں کیا گیاتو یہاں کیوں؟ اور اگر کرنا ہی تھا تو پھر اس قرأ ت کا ترجمہ کرتے جو لکھی پھر دوسری کا بھی کردیتے۔ہمارا غالب گمان ہے کہ خان صاحب کو اس قراءت کا پتہ ہی نہیں تھا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ خان صاحب نے ترجمہ کیا ہی اس بنیاد پر تھا کہ پچھلے مترجمین و مفسرین کی کتابوں سے کسی قسم کا کوئی استفادہ نہیں کیا اور دوپہر کو قیلولے کے وقت فی البدیہ ترجمہ کروانے والے کا یہی حشر ہوتا ہے۔
ذوالعرش المجید کا ترجمہ
مفسرین نے دونوں قراءتوں کا لحاظ رکھا ہے کسی نے المجیدُ کو مرفوع (دال پر پیش) پڑھ کر ذو کی صفت تسلیم کیا ہے اور کسی نے المجیدِ کو مکسور (دال کے نیچے زیر) پڑھ کر العرش کی صفت مانا ہے پہلی صورت میں ترجمہ یوں ہوگا
’’عرش کا مالک، بزرگی والا ‘‘۔
اور دوسری صورت میں ترجمہ یوں ہوگا:
’’ عزت والے عر ش کا مالک‘‘۔
اعلی حضرت کا حال یہ ہے کہ قرآن کریم میں لکھی تو پہلی قراءۃ ہے مگر فاضل بریلوی کا ترجمہ یہ ہے: "عزت والے عرش کا مالک"۔ قراءۃ لکھی ہوئی اور ہے، ترجمہ کسی اور قراءۃ کا کیا جارہا ہے۔
کنزالایمان پر بریلوی فوجی فتویٰ
قُلْ لاَ اَقُوْلُ لَکُمْ عِنْدِ یْ خَزَآئِنُ اللّٰہِ وَلَا اَعْلَمُ الْغَیْبَ
انعام: آیت 50
اس آیت کے ترجمہ کے متعلق کرنل محمد انور مدنی بریلوی لکھتا ہے
’’عموماً علماء کرام اس آیت کا ترجمہ غلط کرتے ہیں ان کو جملے کی ترکیب نحوی کا بھی پتہ نہیں آیت میں لکم کی لام کو بھول جاتے ہیں اور پھر ترجمہ ایسے کرتے ہیں کہ میں تم سے نہیں کہتا کہ میرے پاس اللہ کے خزانے ہیں اور نہ میں غیب جانتا ہوں‘‘ (یہ غلط ترجمہ ہے )۔
صاحب کلی علم غیب: ص 60
جبکہ اعلی حضرت فاضل بریلوی نے تقریباً یہی ترجمہ کیا ہے:
ترجمہ:’’اور میں تم سے نہیں کہتا کہ میرے پاس اللہ کے خزانے ہیں اور نہ یہ کہ میں غیب جان لیتا ہوں ‘‘۔
کنز الایمان ھود: آیت 31
ترجمہ:’’تم فرماؤ میں تم سے نہیں کہتا میرے پاس اللہ کے خزانے ہیں اور نہ یہ کہوں کہ میں آپ غیب جان لیتا ہوں ‘‘۔
کنزالایمان انعام: آیت 50
کرنل صاحب کا خیال یہ ہے کہ لکم کامعنی ہے تمہارے لیے۔ اورجو یہ ترجمہ نہ کرے اس کا ترجمہ غلط ہے۔
تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو: صاحب کلی علم غیب: ص60
تو کرنل کی تحقیق کے بموجب فاضل بریلوی کا ترجمہ ان دو جگہوں پر غلط ٹھہرا۔
مولوی فاروق قادری رضوی اور کنزا لایمان
1 وبالآخرۃ ھم یوقنون
البقرۃ نمبر4
اور آخرت پر یقین رکھیں۔
کنزالایمان
مولوی فاروق قا دری رضوی بریلوی لکھتے ہیں:
صحیح ترجمہ یوں ہے اور آخرت پر وہی یقین رکھتے ہیں کیونکہ ھُم کے بعد یُوْقِنُوْنَ لانے سے حصر کا معنی ہو جاتا ہے۔
جسٹس کرم شاہ کا علمی محاسبہ،ص88
2 او کصیب من السماء
البقرہ نمبر19
یاجیسے آسمان سے اترتا پانی۔
کنزالایمان
مولوی فاروق صاحب رضاخانی لکھتے ہیں:
حالانکہ صیّب سےپہلے ذوی یا اصحاب کا لفظ مقدر ہے ملاحظہ ہو تفسیرنسفی وجلالین جس کا معنی بنتا ہے ان کی مثال بارش والوں کی سی ہے۔
علمی محاسبہ،ص88
3 کلما اضاءلھم
البقرہ نمبر20
جب کچھ چمک ہوئی۔
کنزالایمان
کلما کا معنی ہے جب بھی یا جب کبھی دیکھے۔
المنجد صفحہ 692
لہذا صحیح ترجمہ ہو گا جب بھی ان کے لیے روشنی ہوتی ہے۔
علمی محاسبہ ص88
4ان اللہ لایستحی
البقرہ ص26
بے شک اللہ تعالی اس سے حیا نہیں فرماتا۔
کنزالایمان
جبکہ مولوی فاروق رضوی صاحب اعلی حضرت کی درگت یوں بناتے ہیں:
شرما نا یا نہ شرمانا یہ بندوں کے اوصا ف ہیں یہاں حیا ترک کے معنی میں ہے ملا حظہ ہوقرطبی صفحہ 242ودیگر۔ لہذا صحیح معنی ہو گا وہ مثال بیان کرنے کو نہیں چھوڑتا۔
علمی محاسبہ ص89
5 لاتجزی نفس عن نفس شیئا
البقرہ نمبر 48
جس دن کوئی جان دوسرے کے بدلہ نہ ہو سکے گی۔
کنزالایمان
جبکہ قادری رضوی صاحب نے فاضل بریلوی کو خوب کو سا۔ لکھتے ہیں:
یہ ترجمہ عربی گرائمر کے خلاف ہے قاعدہ یہ ہے کہ جب کو ئی اسم نکرہ مکرّر آتاہے تو پہلا نکرہ دوسرے نکرہ کا غیر ہو تا ہے اس لیے مفسرین نے پہلے نفس سے نفس مو منہ اور دوسرے نفس سے نفس کا فرہ مراد لیا ہے ملاحظہ ہو۔ تفسیر مدارک وغیرہ۔صحیح ترجمہ یوں ہو گا
کوئی مومن جان کسی کافر جان کی طرف سے کچھ بدلہ نہ دے سکے گی۔
علمی محاسبہ ص90۔89
6 حتی اذافشلتم وتنازعتم فی الامر وعصیتم من بعد مااراکم ما تحبون
آل عمران نمبر151
یہاں تک کہ جب تم نے بزدلی کی اور حکم میں جھگڑا ڈالااور نافرمانی کی، بعد اس کے کہ اللہ تعالی تمہیں دکھا چکاہے تمہا ری خوشی کی بات۔
کنزالایمان
فاروق رضوی صا حب نے خان صاحب کی یوں گرفت کی کہ اس میں اذا ظرفیہ متضمن ہےمعنی شرط کو، ترجمہ میں اس کا جواب ذکر نہیں کیا گیا۔ ملا حظہ ہو جلالین۔لہذا اس کا پور ا معنی یوں گا یہاں تک کہ جب تم نے بزدلی کی اور حکم میں جھگڑا اور نا فرمانی کی بعد اس کے کہ اللہ تعا لی تمہیں دکھا چکا تمہا ری خوشی کی بات تو اس نے تم سے اپنی مددروک لی۔
علمی محاسبہ ص90
7: کتب علیکم الصیام البقرہ نمبر183
تم پر روزے فرض کیے گئے۔
کنزالایمان
مولوی فاروق رضوی صاحب نے فاضل بریلوی کی رہی سہی کسر نکال دی کہ الصیام جمع نہیں بلکہ قام یقوم قیام کے وزن پر صام یصوم صیا ما مصدر ہے ملاحظہ ہوتفسیر کبیر، روح المعانی ج2ص48تفسیر مدارک ج1ص26۔ صیام کا معنی روزے کرنے سے قبل اتنا غور کیا جاتا کہ اگر با لفرض یہ جمع ہو تا تو اگلا جملہ کما کتب علی الذین میں کتب کی جگہ کتبت ہوتا۔
لہذا اس کا صحیح ترجمہ ہو گا تم پر روزہ فرض کیا گیا۔
کرم شاہ کا علمی محاسبہ ص91
8 ان امرء ھلک لیس لہ ولد
النساء نمبر176
اگرکسی مرد کا انتقال ہو جو بے اولاد ہو۔
کنزالایمان
مولوی فاروق صاحب لکھتے ہیں:
یہاں اس کا معنی بیٹا کرنا چاہیے تھا کیو نکہ اولاد بیٹے اور بیٹی دونوں کے لیے استعمال ہو تا ہے جبکہ یہاں ولد سے صرف بیٹا مراد ہے بیٹی نہیں۔ملاحظہ ہو،تفسیر نسفی،ج1ص269۔
جسٹس کرم شاہ کا علمی محاسبہ ص91
9 ان اللہ فالق الحب والنوی
انعام نمبر 95
بے شک اللہ تعالی دانے اور گٹھلی کوچیرنے والا ہے۔
کنزالایمان
جبکہ رضاخانی مولوی صاحب لکھتے ہیں:
یہاں الحب حبۃ اور النوی نواۃ کی جمع ہے،ملاحظہ ہو کتاب المعجم الوجیزج1ص64،روح البیان،روح المعانی،تفسیر قرطبی وغیرہ۔ اس لیے صحیح ترجمہ یو ں ہو گا بےشک اللہ تعا لی دانوں اور گٹھلیوں کو چیرنے والاہے۔
جسٹس کرم شاہ کا علمی محاسبہ ص91
10 حتی اذا اقلت سحابا ثقالا سقناہ لبلد میت
اعراف نمبر57
یہاں تک کہ جب اٹھا لائیں بھاری بادل الخ
کنز الایمان
قادری رضوی صاحب اس پہ یوں جرح کرتے ہیں:
یہاں یہ غلطی کی ہے کہ سحاب وثقال کو واحد بنادیا جبکہ السحاب سحابۃ کی جمع اور ثقال ثقیل کی جمع ہے لہذا درست ترجمہ یہ ہو گا یہاں تک کہ جب وہ ہوائیں بھاری بادلوں کو اٹھالا تی ہیں۔الخ
علمی محاسبہ ص92
11 واذکروا اذجعلکم خلفاء
اعراف نمبر 69
اور یا د کرو جب اس نے تمہیں قوم نوح کا جا نشین کیا۔
کنز الایمان
مولوی فاروق رضا خانی اس پر یوں جرح کرتے ہیں:
اس ترجمہ میں لفظ اذ کو ظرفیہ بناکر مفعول فیہ بنا یا گیا اس لیے اس کا معنی جب، ،کیا گیا ہے حالانکہ یہاں اذ نہ ظرفیہ ہے نہ مفعول فیہ بلکہ یہ واذکروا کا مفعول بہ ہے ملاحظہ ہو تفسیر مدارک ص370،جلالین جمل ج2ص156 اس کا صحیح معنی یوں ہو گا
تم اپنے جانشین بنائے جا نے کے وقت کو یا د کرو۔
جسٹس کرم شاہ کا علمی محاسبہ ص92
کنز الایمان کی کچھ اور غلطیاں
من یضلل اللہ
اعراف نمبر 186
جسے اللہ تعالی گمراہ کرے۔
کنزالایمان
جبکہ جید بریلوی کرنل انور مدنی لکھتا ہے:
ومن یضلل کا ترجمہ جسے اللہ گمراہ کرے کرتے ہیں جوکہ غلط ہے کیونکہ اللہ تعالی کسی کو گمراہ نہیں کرتا انسان شیطان کےبہکاوےمیں آکرخودہی گمراہ ہوتاہے۔
شہنشاہ کل ص11
الاانھم ھم السفھاء
البقرہ نمبر13
سنتا ہے وہی احمق ہیں۔
کنز الایمان
ڈاکٹر غلام قادری لا ہوری، طاہر القادری کی گت بنا تے ہوئے طاہر القادری کے تر جمہ کایو ں رد کرتے ہیں
اس میں مو صو ف نے الا اور ان کا معنی چھوڑ کر اس کا ترجمہ منشا ء الہی کے خلاف کر ڈا لا الا حرف تنبیہ ہے جس کے معنی خبردار اور ہو شیار کرنے کے ہیں اور ان حرف تحقیق ہے اس لیے اس کے صحیح معنی یہ ہو ں گے خبردار بے شک وہ خود بے وقوف ہیں۔
طاہر القادری کا علمی وتحقیقی جائزہ، ص108
ڈاکٹر صاحب فاضل بریلوی نے بھی ان حرف تحقیق کا ترجمہ نہ کرکےمنشاء خدا کے خلاف ترجمہ کیا اور تحریف کی۔اور جو آپ کہناچاہتے ہیں وہ ہم بحمد اللہ سمجھ گئے ہیں۔ وذکراسم ربہ فصلی۔ سورہ اعلی ص 15، میں بھی فاضل بریلوی نے ف کا ترجمہ نہیں کیا تو بقول آپ کے خداکے منشاء کے خلاف ترجمہ کیا ہے۔
وان اللہ ھو التواب الرحیم
التوبہ104
اوریہ کہ اللہ تعالی ہی تو بہ قبول کرنے والا مہربان ہے۔
کنزالایمان
ان اللہ ھوالتواب الرحیم
التوبہ نمبر118
بے شک اللہ ہی توبہ قبول کرنے والا مہربان ہے۔
کنزا لایمان
مفتی غلام سرور قادری لاہوری لکھتے ہیں:
تواب فعال کے وزن پر مبالغہ کا صیغہ ہے جس کے معنی ہیں بہت توبہ قبول کرنے والا۔ اسم مبالغہ وہ اسم ہے جس میں معنی وصفی کی کثرت اور زیادتی پا ئی جاتی ہے جیسے رازق (رزق دینے والا) یہ اسم فاعل ہے اور اسی سے رزاق مبالغہ ہے جس کے معنی ہیں بہت رزق دینے والا۔
کسی بھی لفط کے ترجمہ یا معنی کا معیا ر:
اس میں شک نہیں کہ کسی بھی لفظ کے ترجمہ یا معنی کے صحیح یا غلط ہو نے کا معیار عربی زبان کے قواعد وضوابط ہی ہو سکتے ہیں یعنی اگر یہ معلوم کرناہو کہ فلاں لفظ کا ترجمہ یا معنی کیا گیا ہے وہ صحیح ہے یا غلط تو عربی گرامر کی طرف رجوع کرنا ہوگا۔
اس سلسلے میں عربی گرائمر کی مشہور کتاب مراح الارواح جو ہم طالب علموں کو پڑھاتے ہیں اور سالہاسال درس نظامی میں پڑھائی جا تی ہے اس میں لکھتے ہیں یجئی للمبالغۃ نحو صبار، یعنی اسم فاعل مبالغہ کے لیے آتا ہے جیسے صبار (مراح الارواح صفحہ 52)بہت صبر کرنے والا تو تواب اور صبار دونوں کا ایک ہی وزن ہے مصنف نے صبار کا لفظ بول کر ایک قاعدہ بتایا کہ اس وزن پر آنے والا اسم فاعل مبالغہ کے ہی معنی دیا کرتا ہے۔
لیجئے مفسرین کرام بھی یہی فرمارہے ہیں کہ تواب کے معنی میں مبالغہ ہے اس لیے اس کامعنی ہو گا بہت توبہ قبول کرنے والا نہ کہ توبہ قبول کرنے والا۔لہذا دلائل کی روشنی میں تواب؛ کے معنی بہت تو بہ قبول کرنے والا ہو ئے اس کے بر عکس اس کا معنی توبہ قبول کرنے والا کرنا قرآن کریم کے معنوں میں کمی یا تحریف کرنا ہے۔
اس موقع پر صحابی مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم سیدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی ایک پیشن گوئی یاد آئی جسے ھدیہ ناظرین کرتا ہوں انہوں نے فرمایا
ستجدون اقواما یزعمون انہم ید عونکم الی کتاب اللہ وقد نبذہ وراء ظھورھم
سنن دارمی ج1ص50
تم آنے وا لے زمانہ میں کچھ لو گوں کو پا ؤگے جن کا دعوی ہو گا کہ وہ انہیں اللہ کی کتاب قرآن کی طرف بلاتے ہیں حالانکہ انہوں نے اسے اپنی پیٹھوں کے پیچھے پھینک دیا ہو گا۔
یعنی وہ خود قرآن کے علوم سے نا و اقف اور روح عمل سے دور ہوں گے لیکن وہ تمہا رے سا منے اپنے آپ کو قرآن کا عالم ومفسر ظاہر کریں گے۔
طاہر القادری کا علمی وتحقیقی جا ئزہ ص 42تا 45
وقالو ا لن تمسنا النار الا ایا ما معدودۃ
البقرہ نمبر 80
اور بولے ہمیں تو آگ نہ چھوئے گی مگر گنتی کے دن۔
کنزالایمان
جناب ڈاکٹر غلام سر ور قادری صاحب لکھتے ہیں:
عربی کی تھو ڑی سی سمجھ بوجھ رکھنے وا لے طالب علم سے بھی ایسی غلطی متوقع نہیں جو ایک علامہ اور ڈا کٹر کہلانے والے صاحب فرمارہےہیں۔
عربی کی تھوڑی سی واقفیت رکھنے والے حضرات بھی جانتے ہیں کہ حرف لن؛ نفی مع تاکید کے لیے آتاہے یعنی اس میں نفی ہو تی ہے اور تاکید بھی( یعنی معنی ہو نا چاہیے ہمیں ہر گز آگ نہ چھوئی گی)چنانچہ میر سید شریف جرجانی رحمہ اللہ نحو میر میں لکھتے ہیں ولن برائے تاکید نفی است (نحو میر ص 19اور بحث حروف عاملہ )یعنی لن نفی کی تاکید کے لیے ہے علامہ زمخشری تفسیر کشاف میں لکھتے ہیں:ان فی لن توکیدا وتشدیدا تفسیر کشاف ج1ص 228بے شک حرف لن میں تاکید و تشدید یعنی شدید نفی پائی جاتی ہے۔ لیکن جناب پر و فیسر صاحب ان کے نفی والے معنی تو کر گئے مگر تا کید جو اس کی روح تھی اسے چھوڑ گئے ترجمہ قرآن میں اس قدر غفلت اور بے اغتنائی ایک مسلمان کی شان کے ہر گز لائق نہیں خدا ئے قدوس کے کلام کا ایک ایک حرف اپنے مو قع اور محل کے اعتبارسے بڑی اہمیت رکھتا ہے اور ترجمہ کرتے وقت ہلکی سی غلطی بھی اس کی حکمت کلامیہ کے لیے نقصان دہ بلکہ اس کے کلام مقدس میں تحریف قرار پاتی ہے کیونکہ اس سے منشاء الہی پورا نہیں ہو تا اس کی مثال یوں ہے جیسے ایک شخص اپنے قاصد کے ذریعے کسی کو پیغام بھیجتا ہے فلاں کا م ہرگز نہ کرنا مگر قاصد جا کر یوں کہتاہے فلاں کام نہ کرناخود ہی سو چ لیجئے کیا اس سے پیغام بھیجنے والے کے پیغام میں سے لفظ ہرگز کو نکال دینا پیغام رسانی میں خیا نت اور تحریف و تبدیل قرار نہیں پائے گی؟ ضرور پا ئے گی۔
طاہر القادری کا علمی وتحقیقی جائزہ ص106۔107
ڈاکٹر صاحب! یہ سب مرمت تو فاضل بریلی پر بھی فٹ بیٹھ رہی ہے۔
کنز الایمان میں ڈبل ترجمے کی چند مثالیں
فاضل بریلوی نے کئی جگہ کنز الایمان میں ڈبل ڈبل ترجمہ کیا ہے اس کی وجہ شاید یہی ہے فاضل بریلوی کو اپنے علم پر اعتماد نہیں اور ایک وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ کسی ترجمہ، تفسیر سے استفادہ تو کیا نہیں تو پھر تشکیک کا شکار ہونا لازمی امر ہے۔ ڈبل ترجمے کی چند مثالیں ملاحظہ فرمائیں:
(1) اِھْبِطُوْا مِصْراً
البقرہ:آیت 61
میں مصر کا ڈبل ترجمہ کیا ہے ’’مصر یا کسی شہر‘‘۔
کنزالایمان
(2) وَ مِنْھُمْ اُمِّیُّیْونَ لَا یَعْلَمُوْنَ الْکِتَابَ اِلاَّ اَمَانِی
البقرۃ:آیت 78
امانی کا ترجمہ ڈبل کیا ہے
’’زبانی پڑھ لینا یا کچھ اپنی من گھڑت‘‘۔
کنزالایمان
(3) وَ یَکُوْنُ الرَّسُوْلُ عَلَیْکُمْ شَہِیْداً
البقرۃ:آیت 143
شھیدا کا معنی ڈبل کیا ’’نگہبان و گواہ‘‘۔
کنزالایمان
حالانکہ قرآن کہتا ہے کہ
فَاِنْ اَعْرَضُوْا فَمَآاَرْسَلْنٰکَ عَلَیْہِمْ حَفِیْظا
ً الشوری:آیت 48
ترجمہ:تو اگر وہ منہ پھیریں تو ہم نے تمہیں ان پر نگہبان نہیں بنا کر بھیجا‘‘۔
ادھر قرآن مطلقاً نگہبان ہونے کا انکار کررہا ہے اور اعلی حضرت قرآن کی مخالفت پر اترتے ہوئے اس کا اثبات کررہے ہیں۔
(4) اَلْحَقُّ مِنْ رَّبِّکَ
البقرۃ:آیت 147
ترجمہ:حق ہے تیرے رب کی طرف سے یا حق وہی ہے جو تیرے رب کی طرف سے ہو‘‘۔
کنزالایمان
یہاں بھی ’’یا‘‘ لگا کر دو دو ترجمے کیے۔
(5) لَاتُضَآرُّ وَالِدَۃٌ بِوَلَدِھَا
البقرۃ:آیت 233
ترجمہ:ماں کو ضرر نہ دیا جائے اس کے بچے سے اور نہ اولاد والے کو اس کی اولاد سے یا ماں ضرر نہ دے اپنے بچے کو اور نہ اولاد والد اپنی اولاد کو ‘‘۔
کنزالایمان
یہاں بھی ڈبل ڈبل ترجمہ کی روایت کو برقرار رکھا گیا۔
(6) وَلاَ یُضَآرَّ کَاتِبٌ وَلاَ شَھِیْدٌ
البقرۃ:آیت 282
ترجمہ:نہ کسی لکھنے والے کو ضرر دیا جائے نہ گواہ کو یا نہ لکھنے والا ضرر دے نہ گواہ۔
کنزالایمان
(7) القمل
اعراف؛آیت 133
ترجمہ:گھن یا کلنی یا جوئیں
کنزالایمان
یہاں ڈبل کی جگہ ترجمہ ٹرپل ہوگیا۔ واہ ے بریلی کے خان! تیرے انداز ہی نرالے ہیں۔
وہ الفاظ جن کے ترجمے فاضل بریلوی نے نہیں کیے
(1) وَاُمَّہٰتُکُمُ الّٰتِیٓ اَرْضَعْنَکُمْ
النساء: آیت نمبر23
ترجمہ:اور تمہاری مائیں جنہوں نے دودھ پلایا
کنزالایمان
ارضعنکم میں کم ضمیر کا ترجمہ نہیں کیا۔
(2) فَلَوْشَآئَ لَھَدٰکُمْ اَجْمَعِیْنَ
انعام: آیت نمبر 150
ترجمہ:تو وہ چاہتا تو سب کو ہدایت فرماتا۔
کنز الایمان
لھدکم میں کم ضمیر کا ترجمہ نہیں کیا۔
(3) اُدْخُلُوْ الْجَنَّۃَ لاَ خَوْفٌ عَلَیْکُمْ وَلاَ اَنْتُمْ تَحْزُنُوْنَ
اعراف: آیت نمبر 49
ترجمہ:ان سے کہا گیا کہ جنت میں جاؤ نہ تم کو اندیشہ نہ کچھ غم۔
کنزالایمان
انتم کا ترجمہ نہیں کیا۔
(4) قَالَ الْمَلاَئُ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا
اعراف: آیت نمبر 66
ترجمہ:اس کی قوم کے سردار بولے۔
کنزالایمان
کفروا کا ترجمہ نہیں کیا۔
(5) وَاذَکُرُوْآ اِذْجَعَلَکُمْ خلَفَاءَ مِنْ بَعْدِ عَادٍ
اعراف آیت نمبر 74
ترجمہ: اور یاد کرو جب تم کو عاد کا جانشین کیا۔
کنزالایمان
من بعد کا ترجمہ نہیں کیا۔
(6) وَیَعْبُدُوْنَ مَنْ دُوْنِ اللّٰہِ مَالاَ یَضُرُّھُمْ وَلاَ یَنْفَعُھُمْ
یونس: آیت نمبر 18
ترجمہ:اور اللہ کے سوا ایسی چیز کو پوجتے ہیں جو ان کا کچھ بھلا نہ کرے۔
کنزالایمان
لایضرھم کا ترجمہ نہیں کیا۔
(7) وَلاَیَزَالُ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا تُصِیْبُھُمْ بِمَا صَنَعُوْا قَارِعَۃً
الرعد: آیت نمبر 31
ترجمہ:اور کافروں کو ہمیشہ کے لیے یہ سخت، دھمک پہنچتی رہے گی۔
کنزالایمان
بما صنعوا کا ترجمہ نہیں کیا۔
(8) لَقَدْ اَضَلَّنِیْ عَنِ الذِّکْرُ بَعْدَ اِذْجَآ ئَ نِیْ
الفرقان:آیت نمبر 29
ترجمہ:بے شک اس نے مجھے بہکا دیا میرے پاس آئی ہوئی نصیحت سے
کنز الایمان
بعد کا ترجمہ نہیں کیا۔
(9) وَنُزِیْدُ اَنْ نَّمُنَّ عَلَی الَّذِیْنَ اسْتُضْعِفُوْا فِیْ الْاَرْضِ
القصص: آیت نمبر 5
ترجمہ:اور ہم چاہتے تھے کہ ان کمزوروں پر احسان فرمائیں
کنزالایمان )
فی الارض کاترجمہ نہیں کیا۔
(10) وَاِذْ یُرِ یْکُمُوْھُمْ اِذَ الْتَقَیْتُمْ فِیٓ اَعْیُنِکُمْ قَلِیْلاً
انفال:آیت نمبر 44
ترجمہ:اور جب لڑتے وقت تمہیں کافر تھوڑے کرکے دکھائے
کنزالایمان
فی اعینکم کاترجمہ نہیں کیا۔
(11) اَللّٰہُ نَزَّلَ اَحْسَنَ الْحَدِیْثَ کِتٰباً
الزمر:آیت نمبر 23
ترجمہ: اللہ نے اتاری سب سے اچھی کتاب۔ کنزالایمان
الحدیث کا ترجمہ نہیں کیا۔
(12) حَتّٰی اِذَا ھَلَکَ قُلْتُمْ لَنْ یَّبْعَثَ اللّٰہُ مِنْ بَعْدِہ رسولاً
المومن آیت نمبر 34
ترجمہ:جب انہوں نے (یوسف علیہ السلام ) انتقال فرمایا تم بولے ہرگز اب اللہ کوئی رسول نہ بھیجے گا۔
کنزالایمان
من بعد ہ کا ترجمہ نہیں کیا۔
(13) اِسْتَغْفِرْلَھُمْ اَوْ لاَتَسْتَغْفِرْلَھُمْ
التوبہ: آیت نمبر 80
ترجمہ:تم ان کی معافی چاہو یا نہ چاہو۔
کنز الایمان
دوسرے لھم کاترجمہ نہیں کیا۔
کنز الایمان میں مشکل الفاظ
قارئین کرام! ہم آپ کو کچھ نمونہ دکھادیتے ہیں کہ واقعۃ اس ترجمے میں مشکل الفاظ کی بھرمار ہے جو کبھی تو لغت کی مدد سے بھی حل نہیں ہوتے حالانکہ اللہ تعالی نے قرآن کو آسان بناکر نازل کیا جبکہ رضوی کوشش یہی ہے کہ جتنا ہوسکے قرآن مشکل رہے تاکہ قرآن سمجھ میں کسی کو نہ آئے اور نہ ہی جہالت جو بریلویت کا دوسرا نام ہے وہ چھوٹے۔ملاحظہ فرمائیں مشکل الفاظ کے چند نمونے۔
(1) فَجَمَعَ کَیْدَہ ثُمَّ اَتیٰ
طہ: آیت 60
کے ترجمہ میں اعلی حضرت نے ‘‘کید‘‘ کا ترجمہ ’’دانؤں ‘‘ کیا ہے جبکہ حضرت شیخ الہند ؒ نے ’’داؤ ‘‘ کیا ہے اور حضرت تھانوی ؒ نے ’’مکر‘‘(جادو)کیا ہے۔
(2) وَلَاُصَلِّبَنَّکُمْ فِیْ جُذُوْعِ النَّخْلِ
طہ آیت 71
کے ترجمہ میں ’’جذوع ‘‘ کا ترجمہ اعلی حضرت نے ’’’ڈھنڈ‘‘ کیا ہے جبکہ شیخ الہند ؒ نے ’’تنا‘‘ کیا اور حضرت تھانوی ؒ نے ’’درختوں ‘‘ کیا ہے۔
(3) فَیَذُرَھَا قَاعاً صَفْصَفاً
طہ آیت 106
میں قاعا صفصفا کا ترجمہ اعلی حضرت نے ’’کوپٹ پر ہموار‘‘ کیا ہے جبکہ شیخ الہند ؒ نے ’’صاف میدان‘‘ اور حضرت تھانوی ؒ نے ’’میدان ہموار‘‘ کیا ہے۔
(4) لَا یَسْمَعُوْنَ حَسِیسَھَا
الانبیاء آیت 102
میں حسیسھا کا ترجمہ اعلی حضرت نے ’’اس کی بھنک‘‘ کیا ہے جبکہ حضرت شیخ الہند ؒ نے اور حضرت تھانوی ؒ نے ’’اس کی آہٹ ‘‘ ترجمہ کیا ہے۔
(5) اَقَامُوْ ا الصَّلٰوۃَ
الحج: 41
میں اقاموا کا ترجمہ اعلی حضرت نے ’’برپا رکھیں‘‘ کیا ہے جبکہ شیخ الہند ؒ نے ’’وہ قائم رکھیں ‘‘ اور حضرت تھانوی ؒ نے ’’یہ لوگ پابندی رکھیں ‘‘ کا ترجمہ کیا ہے۔
(6) وَ اِنَّ الظَّالِمِیْنَ لَفِیْ شِقَاقٍ بَعِیْدٍ
الحج 53
میں ’’شقاق بعید‘‘ کا ترجمہ خان صاحب نے ’’دہر کے جھگڑالوں ‘‘ کیا ہے جبکہ حضرت شیخ الہند ؒ نے ’’مخالفت میں دور جا پڑے‘‘ اور حضرت تھانوی ؒ نے ’’بڑی مخالفت‘‘ کیا ہے۔
(7) اَوْ کَظُلُمٰتٍ فِیْ بَحْرٍ لُّجِّی
سور ہ نور: 41
کا ترجمہ فاضل بریلوی نے ’’کسی کنڈے‘‘ کیا ہے جبکہ حضرت شیخ الہند ؒ نے اور حضرت تھانوی ؒ نے ’’گہرے‘‘ کیا ہے۔
(8) قُلْ کُلٌّ یَّعْمَلُ عَلٰی شَاکِلَتِہ
بنی اسرائیل: 84
میں ’’شاکلتہ‘‘ کا ترجمہ خان صاحب نے ’’اپنے کینڈے‘‘ کیا ہے جبکہ حضرت شیخ الہند ؒ نے ’’اپنے ڈھنگ‘‘ اور حضرت تھانوی ؒ نے اپنے طریقے کیا ہے۔
(9) لَلَجُّوْا فِیْ طُغْیَانِھِمْ
مومنون: 75
خان صاحب نے اس آیت میں للجوا کا ترجمہ ’’تو ضرور بھٹ پنا کریں گے ‘‘ کیا ہے جبکہ حضرت شیخ الہند نے ’’تو برابر لگے رہیں گے ‘‘ اور حضرت تھانوی ؒ نے ’’وہ لوگ اصرار کرتے ہیں ‘‘ کیا ہے۔
(10) وَاشْتَعَلَ الرَّأسُ شَیْباً
مریم: 3
خان صاحب نے اس کا ترجمہ ’’بھبھوکا پھوٹا‘‘ کیا ہے جبکہ حضرت شیخ الہند ؒ نے ’’شعلہ نکلا‘‘حضرت تھانوی ؒ نے ’’سفیدی پھیل گئی‘‘ترجمہ کیا ہے۔
(11) وَمَا اللّٰہُ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعْمَلُوْنَ
البقرۃ: 74
میں ’’تعملون‘‘ کا ترجمہ خان صاحب نے ’’تمہارے کوتکوں ‘‘ کیا ہے جبکہ حضرت شیخ الہند ؒ نے’’تمہارے کاموں ‘‘اور حضرت تھانوی ؒ نے ’’تمہارے اعمال ‘‘ کیا ہے۔
(12) کَمَثَلِ جَنَّۃٍ بِرَبْوَۃٍ
البقرۃ: 265
میں ’’ربوۃ‘‘ کا ترجمہ فاضل بریلوی نے ’’بھور‘‘ کیا ہے جبکہ حضرت شیخ الہند ؒ نے ’’بلند زمین‘‘ اور حضرت تھانوی ؒ نے ’’ٹیلے‘‘ کیا ہے۔
(13) اِنَّ کَیْدَکُنَّ عَظِیْم
یوسف:28
کا ترجمہ خان صاحب نے کید کا ترجمہ ’’چرتر‘‘ کیا ہے جبکہ حضرت شیخ الہند ؒ نے فریب اور حضرت تھانوی ؒ نے ’’چالاکیاں ‘‘ کیا ہے۔
(14) لَھُمْ اَجْرُھُمْ عِنْدَ رَبِّھِمْ
البقرۃ 262
میں خان صاحب نے اجر کا معنی ’’نیگ‘‘ کیا ہے جبکہ شیخ الہند ؒ اور حضرت تھانوی ؒ نے ’’ثواب ‘‘ کیا ہے۔
(15) قُلْ لِلَّذِیْنَ کَفَرُوْا سَتُغْلَبُوْنَ
آل عمران12
میں س کا ترجمہ ’’کوئی دم جاتا ہے‘‘ کیا ہے اور حضرت تھانوی ؒ نے ’’عنقریب‘‘ جبکہ شیخ الہند ؒ نے ’’اب ‘‘ کیا ہے۔
(16) اُولئِکَ لَھُمْ نَصِیْب مِّمَّا کَسَبُوْا
البقرۃ: 202
میں خان صاحب نے نصیب کا معنی ’’بھاگ ‘‘ کیا ہے جبکہ ہمارے شیوخ نے ’’حصہ‘‘ کیا ہے۔
(17) اَوْ تَصْرِیْحٌ بِاِحْسَانٍ
البقرۃ: 229
میں فاضل بریلوی نے احسان کا ترجمہ ’’نکوئی‘‘ کیا ہے جبکہ شیخ الہند ؒ نے ’’بھلی ‘‘ طرح کیا ہے اور حضرت تھانوی ؒ نے ’’خوش عنوانی‘‘ کیا ہے۔
(18) اِلاَّ الَّذِیْنَ تَابُوْا مِنْ بَعْدِ ذلِکَ وَاَصْلَحُوْا
آل عمران:89
میں خان صاحب نے ’’اصلحوا‘‘ کا ترجمہ ’’آپا سنبھالا ‘‘ کیا ہے جبکہ شیخ الہند ؒ نے ’’نیک کام کیے‘‘ کیا ہے اور حضرت تھانوی ؒ نے ’’اپنے کو سنوار لیں ‘‘ کیا ہے۔
(19) یَوْمَ تَبْیَضُّ وُجُوْہ
آل عمران: 106
میں فاضل بریلوی نے ’’تبیض‘‘ کا ترجمہ ’’اونجالے ہونگے‘‘ کیا ہے اور حضرت شیخ الہند ؒ اور حضرت تھانوی ؒ نے ’’سفیدہونگے‘‘ کیا ہے۔
(20) لَا یَغُرَنَّکَ تَقَلُّبَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا
آل عمران: 196
میں خان صاحب نے ’’تقلب‘‘ کا ترجمہ ’’اہلے گہلے پھرنا‘‘ کیا ہے جبکہ ہمارے شیوخ رحمہما اللہ نے ’’چلنا پھرنا‘‘ کیا ہے۔
(21) اَشَدُّ تَنْکِیَلاً
النساء: 84
میں خان صاحب نے ’’اشد‘‘ کا ترجمہ ’’کرا‘‘ کیا ہے اور ہمارے شیوخ نے ’’عذاب ‘‘ کیا ہے۔
(22) طَوَّعَتْ لَہ نَفْسُہ قَتْلَ اَخِیْہٖ
المائدہ:30
اس آیت میں ’’طوعت‘‘ کا ترجمہ خان صاحب نے ’’چاودلایا‘‘ ترجمہ کیا ہے حضرت شیخ الہند ؒ نے ترجمہ ’’اس کو راضی کیا اس کے نفس نے ‘‘ اور حضرت تھانویؒ نے ’’آمادہ کردیا‘‘ ترجمہ کیا ہے۔
(23) مَا جَعَلَ اللّٰہُ مِنْ بَحِیْرَۃ وَلاَسَآئِبَۃ
المائدہ: 103
میں ’’سائبۃ‘‘ کا ترجمہ فاضل بریلوی نے ’’بجار‘‘ ترجمہ کیا ہے جبکہ ہمارے شیوخ ؒ نے سائبہ کا ترجمہ سائبہ ہی کیا۔
(24) فِیٓ اَذَانِھِمْ وَقَراً
انعام: 25
میں ’’وقرا‘‘ کا ترجمہ خان صاحب نے ’’ٹینٹ‘‘ کیا ہے جبکہ حضرت شیخ الہند ؒ نے ’’بوجھ کیا ‘‘ ہے۔
(25) فَاَرْسَلْنَا عَلَیْہِمُ الطُّوْفَانَ وَ الْجَرَادَ وَالْقُمَّلَ
اعراف:113
میں ’’القمل‘‘ کا معنی فاضل بریلوی نے ’’گھن یا کلنی یا جوئیں ‘‘ کیا ہے جبکہ شیخ الہند ؒ نے ’’چچڑی‘‘ اور حضرت تھانوی ؒ نے ’’ٹڈیاں ‘‘ کیا ہے۔
(26) یٰآیُّھَا الَّذِیْنَ اَمَنُوْآ اِذَا لَقِیْتُمُ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا
انفال: 141
میں ’’کفروا‘‘ کا ترجمہ خان صاحب نے ’’کافروں کے لام‘‘ کیا ہے اور شیخ الہند ؒ نے ’’کافروں سے ‘‘ اور حضرت تھانوی ؒ نے بھی یہی ترجمہ کیا ہے۔
(27) فَاَمَّا الزُّبَدُ فَیَذْھَبُ جُفَآئً
الرعد: 17
میں فیذھب جفاء کا ترجمہ خان صاحب نے ’’تو پھک کر دور ہوجاتا ہے ‘‘ کیا ہے اور حضرت شیخ الہند ؒ نے ’’جاتا رہتا ہے سوکھ کر ‘‘ کیا اور حضرت تھانوی ؒ نے ’’وہ تو پھینک دیا جاتا ہے ‘‘ ترجمہ کیا۔
(28) جِئْنَابِکُمْ لَفِیْفاً
بنی اسرائیل:104
کا ترجمہ فاضل بریلوی نے ’’ہم تم سب کو گھال میں لے آئیں گے ‘‘ کیا جبکہ حضرت شیخ الہند ؒ نے ’’ہم تم سب کو سمیٹ کرلے آئیں گے ‘‘ شستہ ترجمہ کیا ہے اور حضرت تھانوی ؒ نے ’’ ہم سب کو جمع کر کر حاضر لا کریں گے‘‘ کیا۔
(29) وَ اِنَّا لَجَاعِلُوْنَ مَا عَلَیْھَا صَعِیْداً جُزْراً
کہف: 8
میں ’’صعیدا جزرا ‘‘ کا معنی فاضل بریلوی نے ’’پٹ کر میدان کر چھوڑیں گے ‘‘ کیا ہے جبکہ حضرت شیخ الہند ؒ نے ’’میدان چھانٹ کر‘‘ کیا ہے اور حضرت تھانوی ؒ نے ’’ایک صاف میدان کردینگے ‘‘ ترجمہ کیا ہے۔
(30) رَجْماً بِالْغَیْبِ
کہف: 22
کا ترجمہ فاضل بریلوی نے ’’الاؤ تکا بات ‘‘ کیا ہے جبکہ حضرت شیخ الہند ؒ نے ’’بدون نشانہ دیکھے پتھر چلانا ‘‘ جبکہ حضرت تھانوی ؒ نے ’’بے تحقیق بات کو ہانک رہے ہیں ‘‘ ترجمہ کیا ہے۔
(31) وعرضوا علی ربک صفا
کہف 48
فاضل بریلوی نے ’’اور سب تمہارے رب کے حضور میرا باندھے پیش ہونگے ‘‘ ترجمہ کیا ہے جبکہ حضرت شیخ الہند ؒ نے ’’اور سامنے آئیں تیرے رب کے صف باندھ کر ‘‘ترجمہ کیا ہے جبکہ حضرت تھانوی ؒ نے ’’اور سب کے سب آپ کے رب کے روبرو برابر کھڑے کرکے پیش کیے جاوینگے ‘‘ کا ترجمہ کیا ہے۔
(32) اَشِحَّۃ عَلَیْکُمْ
الاحزاب 19
میں اشحۃ کا ترجمہ خان صاحب نے ’’گئی کرتے ہیں ‘‘ کیا جبکہ حضرت شیخ الہند ؒ نے ’’دریغ رکھتے ہیں ‘‘ اور حضرت تھانوی ؒ نے ’’بخیلی لیے ہوئے ہیں ‘‘ ترجمہ کیا ہے۔
(33) فَاَرْسَلْنَا عَلَیْہُمْ سَیْلَ الَعِرَمِ
السباء: 16
میں ’’سیل ‘‘ کا ترجمہ خان صاحب نے ’’اہلا‘‘ کیا جبکہ حضرت شیخ الہند ؒ نے ’’نالا‘‘ اور حضرت تھانوی ؒ نے ’’سیلاب‘‘ ترجمہ کیا ہے۔
(34) وَھُوَ الْفَتَّاحُ الْعَلِیْمُ
السبا: 26
میں ’’فتاح‘‘ کا ترجمہ فاضل بریلوی نے ’’بڑا نپاؤ چکانیوالا ‘‘ کیا ہے جبکہ حضرت شیخ الہند ؒ نے ’’قصہ چکانے والا ‘‘اور حضرت تھانوی ؒ نے ’’بڑا فیصلہ کرنے والا ‘‘ ترجمہ کیا ہے۔
(35) وَ مَنْ یَّعْشُ عَنْ ذِکْرِ الرَّحْمَانَ
الزخرف:36
میں ’’یعش‘‘ کا ترجمہ فاضل بریلوی نے ’’رتوند‘‘ آئے کیا جبکہ حضرت شیخ الہند ؒ نے ’’جو کوئی آنکھیں چرائے ‘‘ اور حضرت تھانوی ؒ نے ’’اندھا بن جاوے ‘‘ کا ترجمہ کیا ہے۔
(36) وَاُخْرٰی لَمْ تَقْدِرُوْا عَلَیْھَا
الفتح آیت 21
لَمْ تَقْدِرُوْا عَلَیْھَا کا ترجمہ مولوی احمد رضاخان صاحب نے کیا ’’جو تمہارے بل کی نہ تھی‘‘ حضرت شیخ الہند ؒ نے کیا ’’جو تمہارے بس میں نہیں آئی‘‘ حضرت تھانوی ؒ نے کیا ’’جو تمہارے قابو میں نہیں آئی۔‘‘
(37) سَیَعْلَمُوْنَ غَداً مِّنَ الْکَذَّابُ الْاَشِرُ
القمر: آیت 26
اس میں ’’اشر‘‘ کا ترجمہ خان صاحب نے ’’اترونا‘‘ کیا اور حضرت شیخ الہندؒ نے ’’بڑائی مارنیوالا‘‘ اور حضرت تھانوی ؒ نے ’’شیخی باز‘‘ کیا ہے۔
(38) لاَ یُقَاتِلُوْنَکُمْ جَمِیْعاً اِلاَّ فِیْ قُرًی مُّحَصَّنَۃٍ اَوْ مِنْ وَّرٓائِ جُدُرٍ
الحشر:آیت 16
میں ’’وراء جدر‘‘ کا معنی خان صاحب نے ’’دُھسوں کے پیچھے‘‘ جبکہ حضرت شیخ الہند ؒ نے ’’دیواروں کی اوٹ‘‘ اور حضرت تھانوی ؒ نے ’’دیوار(قلعہ و شہر کی پناہ)کی آڑمیں ‘‘ کیا ہے۔
(39) فَمَنْ یَّسْتَمِعِ الْآنَ یَجِدْ لَہ‘ شَھَاباً رَصَداً
الجن:آیت 9
میں ’’شھابا‘‘ کا ترجمہ ’’آگ کا لوکاپائے‘‘ کیا اور حضرت شیخ الہند ؒ نے ’’انگارہ‘‘ اورحضرت تھانویؒ نے ’’شعلہ‘‘ کیا۔
(40) فَذَالِکَ یَوْمَئِذٍ یَوْمٌ عَسِیْرٌ
مدثر: آیت 9
میں یوم عسیر کا ترجمہ خان صاحب نے ’’کرّا دن‘‘ کیا جبکہ حضرت شیخ الہند ؒ نے ’’مشکل دن‘‘حضرت تھانوی ؒ نے ’’سخت دن‘‘ کیا۔
(41) کَاَنَّھُمْ حُمُرٌ مُّسْتَنْفِرَۃٌ
مدثر:آیت50
میں ’’مستنفرہ‘‘ کا ترجمہ خان صاحب نے ’’بھڑکے ہوئے‘‘ کیا جبکہ حضرت شیخ الہند ؒ نے ’’بدکنے والے‘‘ اور حضرت تھانوی ؒ نے ’’وحشی‘‘ کیا ہے۔
(42) وَاَمَّا مَنْ جَائَکَ یَسْعیٰ
عبس:آیت8
میں ’’یسعیٰ‘‘ کا ترجمہ فاضل بریلوی نے ’’ملکتا‘‘کیا جبکہ حضرت شیخ الہند ؒ اور حضرت تھانوی ؒ نے ’’دوڑتا‘‘ کیا ہے۔
(43) اَباً کا ترجمہ فاضل بریلوی نے ’’دوب‘‘ حضرت شیخ الہند ؒ نے ’’گھاس‘‘ اور حضرت تھانوی ؒ نے ’’چارہ‘‘ کیا ہے۔
(44) فَجَعَلَھُمْ کَعَصْفٍ مَّاْکُوْلٍ
الفیل:آیت 5
میں ’’عصف‘‘ کا ترجمہ فاضل بریلوی نے ’’کھیتی کی پتی‘‘ کیا جبکہ حضرت شیخ الہند ؒ نے ’’بھس‘‘ اور حضرت تھانوی ؒ نے ’’بھوسہ‘‘ کیا ہے۔
(45) کُلٌّ فِیْ فَلَکٍ یَّسْبَحُوْنَ
یس: آیت 33
میں ’’یسبحون‘‘ کا ترجمہ فاضل بریلوی نے ’’پیر رہاہے ‘‘ کیا جبکہ حضرت شیخ الہند ؒ نے ’’پھرتے ہیں ‘‘ اور حضرت تھانوی ؒ نے ’’تیر رہے ہیں ‘‘ کیا ہے۔
غیر فصیح الفاظ کا استعمال
(1) اَوْ کَالَّذِیْ مَرَّ عَلَی قَرْیَۃٍ وَّھِیَ خَاوِیَۃ عَلَی عُرُوْشِھَا
البقرہ: آیت 259
ترجمہ:یا اس کی طرح جو گزرا ایک بستی پر اور وہ ڈھئی پڑی تھی اپنی چھتوں پر۔
کنزالایمان
’’ڈھئی پڑی‘‘ کے بجائے’’ گری پڑی ہوئی تھی‘‘ کیا جاتا تو اچھا تھا۔
(2) فَلاَ تَاسَ عَلَی الْقَوْمِ الْفٰسِقِیْنَ
مائدہ: آیت نمبر 26
ترجمہ:تو تم ان بے حکموں کا افسوس نہ کھاؤ۔
افسوس نہ کھاؤ کی جگہ افسوس نہ کرو فصیح ہے۔
(3) وَاِنْ یَّرَوْ سَبِیْلَ الْغَیِّ یَتَّخِذُوْہُ سَبِیْلاً
اعراف آیت نمبر 146
ترجمہ:اور گمراہی کا راستہ نظر پڑ ے تو اس میں چلنے کو موجود ہوجائیں۔
کنزالایمان
اگر اس کی جگہ یہ ہوتا کہ ’’اس پر چلنے لگ جائیں ‘‘تو فصیح ہوتا۔
(4) اِنَّھُمْ مُغْرَقُوْنَ
ھود: آیت نمبر 37
ترجمہ:وہ ضرور ڈوبائے جائیں گے۔
کنزالایمان
اگر یہ ہو تاکہ’’ ضرور غرق کیے جائیں گے‘‘ تو فصیح تھا۔
(5) یٰقَوْمِ ھَذِہِ نَاقَۃُ اللّٰہِ
ھود:آیت 64
ترجمہ:اور اے میری قوم یہ اللہ کا ناقۃ ہے۔
کنز الایمان
’’اللہ کی ناقہ ہے‘‘ درست جملہ ہے۔
(6) وَ بَنٰتِ عَمِّکَ
احزاب: آیت نمبر 50
ترجمہ:پھپیوں کی بیٹیاں
کنزالایمان
لفظ پھوپھی ہوتا ہے پھپی تو نہیں۔
بہر حال اردو کی جو ٹانگیں خان صاحب نے توڑنے کی کوشش کی ہے۔ الامان۔خان صاحب نے قرآن پاک کے ترجمے کو غیر فصیح زبان میں لانے کی مذموم کوشش کی ہے حالانکہ قرآن پاک کے شایان شان فصیح و بلیغ الفاظ لانے چاہئیں لیکن فاضل بریلوی بھدّے اور مشکل الفاظ لانے پر ہی مصر ہیں اور یہ بھی وجہ ہے کہ آج ان کا ترجمہ مسترد کیا جارہاہے۔
اللہ تعالیٰ سے انبیاء علیہم السلام کا مدد مانگنا
(1) وَنُوْحاً اِذْ نَادٰی مِنْ قَبْلُ فَاسْتَجَبْنَالَہ فَنَجَّیْنٰہ وَاَھْلَہ مِنَ الْکَرْبِ الْعَظِیْمِ
الانبیاء: آیت نمبر 76
ترجمہ:اور نوح کو جب اس سے پہلے اس نے ہمیں پکارا تو ہم نے اس کی دعا قبول کی اور اسے اور اس کے گھر والوں کو بڑی سختی سے نجات دی۔
کنز الایمان
دوسری جگہ ہے:
بڑی تکلیف سے نجات دی۔
کنز الایمان، صافات آیت نمبر 76
(2) وَاَیُّوْبَ اِذْنٰادٰی رَبَّہٗ اِنِّیْ مَسَّنِیَ الضُّرُّ وَاَنْتَ اَرْحَمُ الرّٰحِمِیْنَ فَاسْتَجَبْنَا لَہٗ وَکَشَفْنَامَا بِہٖ مِنَ ضُرٍّ وَاٰتَیْنٰہٗ اَھْلَہٗ وَمِثْلَھُمْ مَعَھُمْ رَحْمَۃً مِّنْ عِنْدِنَا وَ ذِکْرٰی لِلْعٰبدِیْنَ
الانبیاء: آیت نمبر 83، 84
ترجمہ:اور ایوب کو یاد کرو۔ جب اس نے اپنے رب کو پکارا کہ مجھے تکلیف پہنچی اور تو سب مہر والوں سے بڑھ کر مہر والا ہے تو ہم نے اس کی دعا سن لی تو ہم نے دور کردی جو تکلیف اسے تھی۔
کنزالایمان
(3) وَذَاالنُّوْنِ اِذْ ذَّھَبَ مُغَاضِباً فَظَنَّ اَنْ لَّنْ نَقْدِ رَعَلَیْہٖ فَنٰادٰی فِیْ الظُّلُمٰتِ اَنْ لاَ اِلٰہَ اِلاَّ اَنْتَ سُبْحٰنَکَ اِنِّیْ کُنْتُ مِنَ الظّٰلِمِیْنَ فَاسْتَجَبْنَا لَہٗ وَنَجَّیْنٰہُ مِنَ الْغَمِّ وَکَذٰلِکَ نُنْجِیْ الْمُؤْمِنِیْنَ
الانبیاء:آیت
ترجمہ:ہم نے اس کی پکار سن لی او ر اسے غم سے نجات بخشی
کنزالایمان
(4) وَزَکَرِیّآ اِذْ نٰادٰی رَبَّہٗ رَبِّ لاَ تَذَرْنِیْ فَرْداً وَّاَنْتَ خَیْرُ الْوٰرِثِیْنَ فَاسْتَجَبْنَا لَہٗ وَھَبْنَالُہٗ یَحْیٰ وَاَصْلَحْنَا لَہٗ زَوْجَہٗ اِنَّھُمْ کَانُوْ یُسٰرِعُوْنَ فِیْ الْخَیْرٰتِ وَیَدْعُوْنَنَارَغَباًوَّرَھْباً وَّکَانُوْا لَنَا خٰشِعِیْنَ
الانبیاء: آیت نمبر 89، 90
ترجمہ:اور زکریا کو جب اس نے اپنے رب کو پکارا اے میرے رب مجھے اکیلا نہ چھوڑ۔۔۔ الخ۔۔۔ توہم نے اس کی دعا قبول کی اور اسے یحیٰ عطا فرمایا۔
کنزالایمان
(5) فَاَنْجَیْنٰہٗ وَمَنْ مَّعَہ فِیْ الْفُلْکِ الْمَشْحُوْنِ
الشعرائ: آیت نمبر 119
ترجمہ:تو ہم نے بچالیا اسے ( نوح علیہ السلام ) اور اس کے ساتھ والوں کو بھری ہوئی کشتی میں۔
کنزالایمان
(6) فَاَنْجَیْنٰہ وَالَّذِیْنَ مَعَہ بِرَحْمَۃٍ مِّنَّا وَقَطَعْنَا دَابِرَ الَّذِیْنَ کَذَّبُوْا بِآیٰتِنَا وَمَاکَانُوْا مُوْمِنِیْنَ
الاعراف: آیت نمبر 72
ترجمہ:تو ہم نے اسے ( ہود علیہ السلام ) اور اس کے ساتھ والوں کو اپنی ایک بڑی رحمت فرماکر نجات دی۔
کنزالایمان
(7) رَبِّ ھَبْ لِیْ مِنَ الصّٰلِحِیْنَ
صافات: آیت نمبر 100
ترجمہ:الٰہی مجھے لائق اولاد دے۔
کنزالایمان
(8) وَنَجَّیْنٰھُمَا وَقَوْمَھُمَا مِنَ الْکَرْبِ الْعَظِیْمِ ونصرنٰھُمْ فَکاَنُوْا ھُمُ الغٰلبین
صافات: آیت نمبر 115،116
ترجمہ:اور انہیں اور ان کی قوم کو بڑی سختی سے نجات بخشی اور ان کی ہم نے مدد فرمائی۔
کنزالایمان
(9) وَاِنَّ لُوْطاً لَّمِنَ الْمُرْسَلِیْنَ اِذْنَجَّیْنٰہُ وَ اَھْلَہٗ اَجْمَعِیْنَ
صافات: آیت نمبر 133،134
ترجمہ:ہم نے اسے اور اس کے سب گھر والوں کو نجات بخشی۔
کنزالایمان
قارئین ذی وقار! خان صاحب کے ترجمے سے ثابت ہوا جب انبیاء علیہم السلام کو نجات خداوند ذوالجلال نے دی تو اور کون ہے جس سے مشکلات میں مصائب و پریشانیوں میں نجات مانگی جائے؟اب رضا خانیوں کی مرضی ہے کہ اپنے اعلیٰ حضرت کے ترجمے پر اعتبار کریں یا انکار کردیں۔ ان مقامات کے تراجم سے یہ تو معلوم ہوگیا کہ پریشانیوں اور مصائب میں صرف اللہ تعالی کو پکارا جائے اور اسی سے مدد مانگی جائے۔
مختار کل کون؟
(1) وَمَآ اَکْثَرُ النَّاسِ وَلَوْ حَرَصْتَ بِمُؤْمِنِیْنَ
یوسف: آیت نمبر 103
ترجمہ:اور اکثر آدمی تم کتنا ہی چاہو ایمان نہ لائیں گے۔
کنزالایمان
(2) بَلْ لِلّٰہِ الْاَمْرُ جَمِیْعا
الرعد: آیت نمبر 31
ترجمہ:بلکہ سب کام اللہ ہی کے اختیار میں ہیں۔
کنزالایمان
(3) اِنْ تَحْرِصْ عَلیٰ ھُدٰ ھُمْ فَاِنَّ اللّٰہَ لاَ یَھْدِیْ مَنْ یُّضِل
النحل: آیت نمبر 37
ترجمہ:اگر تم ان کی ہدایت کی حرص کرو تو بے شک اللہ ہدایت نہیں دیتا جسے گمراہ کرے۔
کنزالایمان
(4) ھُنَا لِکَ الْوَلاَیَۃُ لِلّٰہِ الْحَق
کہف: آیت نمبر 44
ترجمہ:یہاں کھلتا ہے کہ اختیار سچے اللہ کا ہے۔
کنزالایمان
(5) اِنَّکَ لاَ تَھْدِیْ مَنْ اَحْبَبْتَ وَلٰکِنَّ اللّٰہَ یَھْدِیْ مَنْ یَّشَآئُ وَھُوَ اَعْلَمُ بِالْمُھْتَدِیْنَ
القصص: آیت نمبر 56
ترجمہ:بے شک یہ نہیں کہ تم جسے اپنی طرف سے چاہو ہدایت کردو ہاں اللہ ہدایت فرماتا ہے جسے چاہے اور وہ خوب جانتا ہے ہدایت والوں کو۔
کنزالایمان
(6) رَبُّ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ لاَ اِلٰہَ اِلاَّ ھُوَ فَاتَّخِذْہُ وَکِیْلاً
المزمل:آیت 9
ترجمہ:تو تم اسی کو اپنا کارساز بناوٴ۔
کنزالایمان
قارئین ذی وقار!اعلیٰ حضرت کے ترجمے سے معلوم ہوگیا کہ کائنات میں اختیار تو صرف اللہ کا ہے اور کسی کا اختیار نہیں چلتا۔ بلکہ سرکار طیبہ ﷺ کے متعلق تو صاف پہلی آیت کے ترجمہ میں خان صاحب کہہ رہے ہیں۔ ’’تم کتنا ہی چاہو اکثر آدمی ایمان نہ لائیں گے‘‘ تو معلوم ہو اکہ مشیت صرف اللہ کی چلتی ہے اختیار کائنات میں صرف اسی ذات جل مجدہ کا ہی ہے مگر بُرا ہو تعصب کا جس نے خان صاحب کا عقیدہ اس کے خلاف بنا دیا۔
کنز الایمان اوراثبات عموم قدرتِ باری تعالیٰ
(1) قُلْ اَرَئَ یْتُمْ اِنْ اَھَلَکَنِیَ اللّٰہُ وَمَنْ مَّعِیَ اَوْ رَحِمَنَا فَمَنْ یُّجِیْرُ الْکٰفِرِینْ مِنَ عَذَابٍ اَلِیْمٍ
الملک: آیت نمبر28
ترجمہ:تم فرماؤ بھلا دیکھو تو اگر اللہ مجھے اور میرے ساتھ والوں کو ھلاک کردے یا ہم پر رحم فرمائے تو وہ کون ہے جو کافروں کو دکھ کے عذاب سے بچالے گا۔
کنزالایمان
(2) قُلْ فَمَنْ یَّمْلِکُ مِنَ اللّٰہِ شَیْئاً اِنْ اَرَادَ اَنْ یُّھْلِکَ الْمَسِیْحَ ابْنَ مَرْیَمَ وَ اُمَّہ وَمَنْ فِیْ الْاَرْضِ جَمِیْعاً
المائدہ 17
ترجمہ:تم فرمادو پھر اللہ کا کوئی کیا کرسکتا ہے اگر وہ چاہے کہ ہلاک کردے مسیح بن مریم اور اس کی ماں اور تمام زمین والوں کو۔
کنزالایمان
(3) فَامَّا نَذْھَبَنَّ بِکَ فَانَّا مِنْھُمْ مُّنْتَقِمُوْنَ
الزخرف: آیت نمبر41
ترجمہ:تو اگر ہم تمہیں لے جائیں تو ان سے ہم ضرور بدلہ لیں گے۔
کنزالایمان
ان آیات سے معلوم ہوا کہ خداوند کائنات اپنے کہے کے خلاف کرنے پر قادر ہے اگرچہ کرے گا نہیں۔ کیونکہ یہاں انبیاء کرام کے متعلق ارشاد ہے کہ اگر وہ ان کو ہلاک کر دے تو کون روک سکتا ہے؟ معلوم ہوا کہ وہ ایسا کرسکتا ہے اگرچہ اس نے نہ ایسا کیا اور نہ ایسا کرے گا اور نہ ہی ایسا کرنا تھا۔ بلکہ صرف اپنی قدرت کے اظہار کے لیے یہ فرمایا۔مولوی عبدالمقتدر بدایونی کی تفسیر عباسی مترجم دیکھ لی جائے (مائدہ آیت نمبر 17) تو ان شاء اللہ دماغ صاف ہوجائیگا اس میں عذاب دینے کے الفاظ لکھے ہوئے ہیں۔
”خدا دے پکڑے چھڑائے محمد ﷺ “ کا رد
(1) وَمَنْ یُّرِدِ اللّٰہُ فِتْنَتَہٗ فَلَنْ تَمْلِکَ لَہٗ مِنَ اللّٰہِ شَیْئاً
المائدہ: آیت نمبر 41
ترجمہ:اور جسے اللہ گمراہ کرنا چاہے تو ہر گز تو اللہ سے اس کا کچھ نہ بناسکے گا۔
کنزالایمان
(2) اَفَلَمْ یَایْئَسِ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْآ اَنْ لَّوْیَشَآءُ اللّٰہُ لَھَدَی النَّاسَ جَمِیْعاً
الرعد: آیت نمبر 31
ترجمہ:تو کیا مسلمان اس سے نا امید نہ ہوئے کہ اللہ چاہتا تو سب آدمیوں کو ہدایت کردیتا۔
کنزالایمان
(3) اَفَمَنْ حَقَّ عَلَیْہِ کَلِمَۃُ الْعَذَابِ اَفَاَنْتَ تُنْقِذُ مَنْ فِیْ النَّارِ
الزمر: آیت نمبر19
ترجمہ:تو کیا وہ جس پر عذاب کی بات ثابت ہوچکی نجات والوں کے برابر ہوجائے گا۔ تو کیا تم ہدایت دے کر آگ کے مستحق کو بچالو گے۔
کنزالایمان
(4) فَمَا مِنْکُمْ مِنْ اَحَدٍ عَنْہُ حَاجِزِیْنَ
الحآقۃ آیت نمبر 47
ترجمہ:پھر تم میں کوئی ان کا بچانے والا نہ ہوتا۔
کنزالایمان
(5) قُلْ اِنِّیْ لَنْ یُّجِیْرَنِیْ مِنَ اللّٰہِ اَحَدٌوَّلَنْ اَجِدَ مِنْ دُوْنِہٖ مُلْتَحِدًا
الجن: آیت نمبر 22
ترجمہ:تم فرماوٴ ہر گز مجھے اللہ سے کوئی نہ بچائے گا اور میں ہرگز اس کے سوا پناہ نہ پاوٴں گا۔
کنزالایمان
معلوم ہوگیا کہ جو بریلویوں کے عقائد میں ہے کہ خدا جس کو پکڑے چھڑائے محمد ﷺ، محمد ﷺ کا پکڑا چھڑا کوئی نہیں سکتا۔ تو اس عقیدہ کا ان آیات کے رضوی ترجمہ سے صاف اور صراحۃً رد ہوتا ہے۔اس کے بعد ہم یہ بات کہنے میں عار محسوس نہیں کرتے کہ رضا خانی حضرات قرآن پاک پر ایمان نہیں رکھتے یا ترجمہ رضوی غلط ہے۔
نبی کا ترجمہ نبی کرنا
(1) وَقَالَ لَھُمْ نَبِیُّھُمْ اِنَّ اللّٰہَ
البقرہ: آیت248
ترجمہ:اور ان سے ان کے نبی نے فرمایا۔
کنزالایمان
(2) اِنَّ اَوْلَی النَّاسِ بِاِبْرٰھِیْمَ لَلَّذِیْنَ اتَّبَعُوْہُ وَھٰذَا النَّبِیُّ وَالَّذِیْنَ اَمَنُوْا
اٰل عمران: آیت نمبر 68
ترجمہ:بے شک سب لو گوں سے ابراہیم علیہ السلام کے زیادہ حق دار وہ تھے جو ان کے پیرو ہوئے اور یہ نبی اور ایمان والے۔
کنزالایمان
(3) مَاکَانَ لِلنبی وَالّذِیْنَ اَمَنُوْآ اَنْ یَّسْتَغْفِرُوْا لِلْمُشْرِکِیْنَ
التوبہ:آیت 113
ترجمہ:نبی اور ایمان والوں کو لائق نہیں کہ مشرکوں کی بخشش چاہیں۔
کنزالایمان
(4) یٰنِسَآئَ النَّبِیِّ مَنْ یَّاْتِ مِنْکُنَّ بِفَاحِشَۃٍ مُّبَیِّنَۃٍ
الاحزاب:آیت 30
ترجمہ:اے نبی کی بی بیو جو تم میں سے صریح حیا کے خلاف کوئی جراء ت کرے۔
کنزالایمان
(5) مَا کَانَ عَلَی النَّبِیِّ مِنْ حَرَجٍ فِیْمَا فَرَضَ اللّٰہُ لَہ
الاحزاب: آیت نمبر 38
ترجمہ:نبی پر کوئی حرج کی بات نہیں جو اللہ نے اس کے لیے مقرر فرمائی ہے۔
کنزالایمان
(6) یٰٓایّھاالنَّبِیُّ قُلْ لِاَزْوَاجِکَ وَ بَنٰتِکَ وَنِسآءِ الْمُوْمِنِیْنَ
الاحزاب:آیت 59
ترجمہ:اے نبی ! اپنی بی بیوں اور صاحبزادیوں اور مسلمانوں کی عورتوں سے فرمادو۔
کنزالایمان
(7) یٰٓایّھا النَّبیّ اِذَا جَآئَ کَ الْمُوْمِنٰتُ
الممتحنہ:آیت 12
ترجمہ:اے نبی جب تمہارے حضور مسلمان عورتیں حاضر ہوں
کنزالایمان
(8) یٰٓایّھاالنَّبِیُّ اِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَآئَ
الطلاق: آیت نمبر 1
ترجمہ:اے نبی! جب تم لوگ عورتوں کو طلاق دو۔
کنزالایمان
اتنی جگہ فاضل بریلوی نے ’’ نبی‘‘ کا ترجمہ ’’نبی‘‘ ہی کیا اگر ’’نبی‘‘ کا ترجمہ ’’نبی‘‘ کرنا جرم ہے تو فاضل بریلوی نہیں بچتے۔اگر ’’نبی کا ترجمہ ’’نبی‘‘ سے نہ کرنا بلکہ ’’غیب کی خبریں دینے والا ‘‘ کرنا کمال ہے تو یہاں کمال کو کیوں ترک کیا؟
ترجمہ کنز الایمان میں علم غیب کی نفی
(1) وَاِنْ کُنْتَ مِنْ قَبْلِہٖ لَمِنَ الْغٰفِلِیْنَ
یوسف: آیت نمبر 3
ترجمہ:اگرچہ بے شک تمہیں اس سے پہلے اس کی خبر نہ تھی۔
کنزالایمان
(2) وَعِنْدَہ عِلْمُ السَّاعَۃِ وَاِلَیْہٖ تُرْجَعُوْنَ
الزخرف 85
ترجمہ:اور اسی کے پاس ہے قیامت کاعلم۔
کنزالایمان
(3) فَاْتِنَا بِمَاتَعِدُنَآاِنْ کُنْتَ مِنَ الصّٰدِقِیْنَ قَالَ اِنَّمَا الْعِلْمُ عِنْدَاللّٰہِ۔
الاحقاف: آیت نمبر 22، 23
ترجمہ:اس نے فرمایا کہ اس کی خبر تو اللہ ہی کے پاس ہے۔
کنزالایمان
(4) قُلْ اِنَّمَا عِلْمُھَا عِنْدَ رَبِّیْ لاَ یُجَلِّیْھَا لِوَقْتِھآ اِلَّاھُوَ
الاعراف: آیت187
ترجمہ:تم فرماوٴ اس کا علم تو میرے رب کے پاس ہے اسے وہی اس کے وقت پرظاہر کرے گا۔
کنزالایمان
(5) قُلْ اِنَّمَا الْعِلْمُ عِنْدَ اللّٰہِ وَاِنَّمَآ اَنَانَذِیْرٌمُّبِیْن
الملک:آیت 26
ترجمہ:تم فرماؤ یہ علم تو اللہ کے پاس ہے۔
کنزالایمان
(6) یَوْمَ یکشف عَنْ سَاقٍ
القلم:آیت 42
ترجمہ:جس دن ایک ساق کھولی جائے گی ( جس کے معنیٰ اللہ ہی جانتا ہے)۔
کنزالایمان
معلوم ہوگیا کہ قیامت کاعلم اسی کے پاس ہے اور علم غیب کا مسئلہ سیدھا سا ہے کہ ہم پوری کائنات سے زیادہ علم سرکار طیبہ ﷺ کے لیے مانتے ہیں خدا کے بعد آپ ﷺ کا ہی مقام ہے آپ ﷺ کے علوم کی وسعتیں اتنی ہیں کہ ہم احاطہ نہیں کرسکتے۔ آپ ﷺ کے علم مبارک کا نام علم غیب نہیں بلکہ غیب کی باتیں ، غیب کی خبریں ، غیب کی اطلاعات ہیں کیونکہ علم غیب خداوند قدوس کے علم کا ہے۔
اور دوسری وجہ یہ ہے جو مفتی احمد یار نعیمی نے جاء الحق میں اور پیر مہر علی شاہ صاحب نے اعلاء کلمۃ اللہ میں لکھی ہے غیب وہ ہے جو حواس ظاہری اور باطنی سے معلوم نہ ہوسکے، جبکہ آپ ﷺ کے علوم یا تو حواس ظاہری سے حاصل ہوئے یا باطنی سے تو تمہارے اصول سے بھی اس کو علم غیب نہیں کہا جاسکتا۔
ہر جگہ حاضر و ناظرہونے کی نفی
(1) وَمَا کُنْتَ لَدَیْھِمْ اِذْیُلْقُوْنَ اَقْلاَمَھُمْ
آل عمران: آیت نمبر 44
ترجمہ:اور تم ان کے پاس نہ تھے جب وہ اپنی قلموں سے قرعہ ڈالتے تھے۔
کنزالایمان
(2) وَمَا کُنْتَ مِنَ الشّٰھِدِیْنَ
القصص: آیت نمبر 44
ترجمہ:اور اس وقت تم حاضر نہ تھے۔
کنزالایمان
معلوم ہوگیا کہ ہر وقت ہر جگہ حاضر و ناظر نبی پاک علیہ السلام نہ تھے ورنہ فاضل بریلوی کا ترجمہ غلط ٹھہرتا ہے۔بریلوی حضرات بڑی بُری طرح اس مسئلہ میں پھنسے ہوئے ہیں۔
عبدالسمیع رامپوری نے تصریح کی ہے کہ اگر روح مبارک اعلی علین پر ہو کر کلی زمین کے چند مقامات پر آپ کی نظر مبارک پڑجائے تو کیا محال و بعید ہے۔
انوار ساطعہ ملخصا ص 357
دوسری جگہ ابلیس کا حاضر وناظر ہونا نبی پاک علیہ السلام سے بھی زیادہ مقامات پر تسلیم کیا ہے۔
ص 359
فیض احمد اویسی صاحب کے نزدیک آپ جسم حقیقی کے ساتھ حاضر و ناظر ہیں۔
کشکول اویسی ص 272
مولوی احمد رضا صاحب نے روح مبارکہ کے تمام اہل اسلام کے گھروں میں موجود ہونے کی تصریح بھی کی ہے۔
خالص الاعتقاد ص 107
فتاوٰی رضویہ میں لکھا ہے آپ مثل ہتھیلی پوری کائنات کو ملاحظہ فرمارہے ہیں۔
بحوالہ فھارس فتاوی رضویہ، ملخصاً ص 215
سعیدی صاحب نے لکھا ہے کہ نامہ اعمال آپ کی خدمت میں پیش کیا جاتا ہے اور آپ پر امت کے احوال معروض ہوتے ہیں اور آپ جہاں تشریف لے جانا چاہیں جاتے ہیں یہ حاضر و ناظر کا مطلب انہوں نے لکھا ہے۔
فہارس شرح مسلم ملخصاً ص 97
سعید احمد کاظمی نے روحانیت کے اعتبار سے حاضر و ناظر مانا ہے۔
تسکین الخواطر
مفتی امین فیصل آبادی نے آپ علیہ السلام کے جسد حقیقی کو پوری کائنات سے بڑا لکھا ہے اور اس اعتبار سے حاضر وناظر مانا ہے۔
حاظر ناظر رسول ص 53
اب بتائیے ایک ہی عقیدے کے متعلق اتنے متضاد دعوے فیصلہ آپ کریں کہ ان میں سچا کون ہے اور جھوٹا کون؟
تفسیرخزائن العرفان پر ایک نظر
(1) سورہ بقرہ کی آیت نمبر 8 حاشیہ نمبر 13 میں لکھتے ہیں:
’’قرآن پاک میں جابجا انبیاء کرام کے بشر کہنے والوں کو کافر فرمایا گیا ‘‘۔
اسی طرح سورہ ہود کی آیت نمبر 27 حاشیہ نمبر 54 میں لکھتے ہیں
’’اس امت میں سے بہت سے بد نصیب سید انبیاء ﷺ کو بشر کہتے اور ہمسری کا خیال فاسد رکھتے ہیں ‘‘۔
ایک اور مقام پر موصوف لکھتے ہیں:
’’جب انبیاء کا خالی نام لینا بے ادبی تو ان کو بشر اور ایلچی کہنا کس طرح گستاخی نہ ہوگا‘‘۔
البقرہ:آیت نمبر 60۔حاشیہ 102
مگر دوسری طرف خود ہی انبیاء علیہم السلام کا بشر ہونا تسلیم کرتے ہیں چنانچہ لکھتے ہیں
’’یہ ان کی کمال حماقت تھی کہ بشر کا رسول ہونا تو تسلیم نہ کیا پتھروں کو خدا مان لیا‘‘۔
سورہ مومنون: آیت 24۔ حاشیہ 33
اسی طرح ایک دوسرے مقام پر لکھتے ہیں:
اللہ یصطفی من الملائکۃ رسلا و من الناس
الحج: آیت 75۔حاشیہ 193
یہ آیت ان کفار کے رد میں نازل ہوئی جنہوں نے بشر کے رسول ہونے کا انکار کیا تھا اور کہا تھا کہ بشر کیسے رسول ہوسکتا ہے اس پر اللہ تعالی نے یہ آیت نازل فرمائی اور ارشاد فرمایا کہ اللہ مالک ہے جسے چاہے اپنا رسول بنائے وہ انسانوں میں سے بھی رسول بناتا ہے اور ملائکہ میں سے بھی جنہیں چاہے۔
قارئین کرام ! اب فیصلہ آپ کیجیے یہ دین کے ساتھ کیا مذاق ہے! کہیں لکھتے ہیں کہ انبیاء کو بشر کہنے والا کافر ہے انبیاء کو بشر ماننا بد نصیبی ہے یہ ان کی شان میں گستاخی ہے اور پھر خود ہی دوسرے مقامات پر انبیاء کو بشر اور انسان بھی تسلیم کرتے ہیں۔ کیا یہ کفر کے فتوے جو ہم مظلوموں کے لیے تیار کیے ہوئے تھے خود ان کے صاحبان کے گلوں کا پھندہ نہ بن گئے؟ اور مولوی صاحب نے تو عقائد پر اپنی کتاب میں یہاں تک لکھ دیا کہ: ’’انبیاء وہ بشر ہیں ‘‘
کتاب العقائد: ص 9
تو بتایئے اپنی ہی کفر ساز مشین گن سے مولوی صاحب خودکشی نہ کر بیٹھے؟
نبی پاک ﷺ کے لیے ؐ کی علامت کا استعمال
مولوی نعیم الدین مراد آبادی نے جگہ جگہ اپنے تفسیری حاشیہ میں نبی پاک ﷺ کے لیے ’’ ؐ ‘‘ اور سیدنا آدم علیہ السلام کے لیے ’’ ؑ ‘‘ کی علامت کا استعمال کیا۔ مثلاً

البقرہ: آیت نمبر 129،حاشیہ 234

یونس:آیت نمبر 2،حاشیہ 3

آل عمران: آیت نمبر 79، حاشیہ 150

الحج: آیت نمبر 52، حاشیہ 139
اس کے علاوہ بھی کئی مقامات ہیں۔ اب اس پر کفر وگستاخی کے جو فتوے لگتے ہیں وہ ماقبل میں بیان ہوچکے ہیں۔
نبی پاک ﷺ اور دیگر انبیاء کو غیر اللہ ، من دون اللہ ماننا
(2) ماکان لبشر ان یوتیہ اللہ الکتاب
آل عمران: آیت نمبر 79
کے تحت لکھتے ہیں:
’’نجران کے نصاری نے کہا کہ ہمیں حضرت عیسیٰ علیہ الصلوۃ و السلام نے حکم دیا ہے کہ ہم انہیں رب مانیں اس آیت میں اللہ تعالی نے ان کے اس قول کی تکذیب کی اور بتایا کہ انبیاء کی شان سے ایسا کہنا ممکن ہی نہیں اس آیت کے شان نزول میں دوسرا قول یہ ہے کہ ابو رافعی یہودی اور سید نصرانی نے سرور عالم ﷺ سے کہا یا محمد آپ چاہتے ہیں کہ ہم آپ کی عبادت کریں اور آپ کو رب مانیں حضور نے فرمایا اللہ کی پناہ کہ میں غیر اللہ کی عبادت کا حکم کروں ‘‘۔
حاشیہ: 150
پہلے شان نزول سے معلوم ہورہا ہے کہ مراد آبادی کے نزدیک عیسیٰ علیہ السلام من دون اللہ میں شامل ہیں اور دوسرے سے صاف معلوم ہورہا ہے کہ نبی پاکﷺ غیر اللہ اور من دون اللہ میں داخل ہیں۔
(2) افحسب الذین کفروا ان یتخذوا عبادی من دونی
کہف: آیت نمبر 102
اس کے حاشیہ میں لکھتے ہیں:
عبادی من دونی سے مراد حضرت عیسیٰ و عزیراور ملائکہ کو لیا گیا ہے۔
حاشیہ: 213
(3) وماکان ھذالقرآن ان یفتری من دون اللہ
یونس:آیت نمبر 37
کے حاشیہ میں لکھتے ہیں:
’’کفار مکہ نے یہ وہم کیا تھا کہ قرآن کریم سید عالم ﷺ نے خود بنالیا ہے اس آیت میں ان کا یہ وہم دفع فرمایا گیا کہ قرآن کریم ایسی کتاب ہی نہیں جس کی نسبت تردد ہوسکے اس کی مثال بنانے سے ساری مخلوق عاجز ہے یقیناً وہ اللہ کی نازل کی ہوئی کتاب ہے ‘‘۔
حاشیہ: 92
اس تفسیر سے معلوم ہوا کہ آیت میں من دون اللہ سے مراد حضور ﷺ کی ذات ہے۔
(4) و اذقال اللہ یا عیسیٰ ابن مریم اانت قلت للناس اتخذونی و امی الھین من دون اللہ
المائدہ: آیت نمبر 116
کا ترجمہ رضوی دیکھیں کہ وہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام او ر ان کی والدہ کو من دون اللہ میں داخل کررہے ہیں اور ترجمہ کرتے ہیں:
’’جب اللہ فرمائے گا اے مریم کے بیٹے عیسیٰ کیا تونے لوگوں سے کہہ دیا تھا کہ مجھے اور میری ماں کو د و خدا بنالو اللہ کے سوا‘‘۔
کنزالایمان
صاف معلوم ہورہا ہے کہ من دون اللہ کے مصداق یہاں حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور ان کی والدہ محترمہ ہیں۔
(5) مقیاس حنفیت بحث من دون اللہ میں ہے:
قل (لھم)ادعوا الذین زعمتم (انھم الھۃ)من دونہ کالملائکۃ و عیسیٰ و عزیر علیہم السلام
مقیاس حنفیت: ص 108
(6) مفتی احمد یار گجراتی حضرت ربیعہ اسلمی والی روایت کی تشریح میں لکھتے ہیں:
’’یہ غیر خدا سے مانگناہے۔‘‘
جاء الحق
اب ذرا دوسری طرف بریلوی فتوے بھی ملاحظہ فرمالیں کہ انبیاء علیہم السلام کو غیر اللہ اور من دون اللہ کہنے پر بریلوی کیا فتوی لگاتے ہیں۔
(1) مولوی عمر اچھروی صاحب لکھتے ہیں:
’’رسولوں کو غیر اللہ کہنے والوں کے واسطے فتوی کفر ارشاد فرمایا ہے ‘‘۔
مقیاس حنفیت: ص 43۔بحث من دون اللہ
(2) مولوی عنایت اللہ سانگلہ ہلوی لکھتا ہے:
’’مقدس ہستیوں پر من دون اللہ کا اطلاق جہالت کے سوا کچھ نہیں ‘‘۔
مقالات شیر اہلسنت:ص 21
(3) کرنل محمد انور مدنی رضاخانی لکھتا ہے کہ
’’نام نہاد مولوی جو جاہل اور ان پڑھ ہیں من دون اللہ یعنی اللہ تعالی کے سواکے معنوں میں انبیاء کرام اور اولیاء کرام کو لے آئے ہیں۔۔۔ اگر پھر بھی کوئی جاہل ضد کرے تو سمجھ لے کہ وہ اللہ تعالی کا باغی ہے کیونکہ وہ اللہ کے قرآن کی آیتوں میں ٹیڑھا چلتا ہے اور اللہ تعالی کے باغی کی سزا قتل ہے ‘‘۔
صاحب کلی علم غیب:ص 117
شاباش کرنل صاحب! واقعی فوجیوں والا فتوی لگایا ہے ان بریلوی فتووں کی روشنی میں بریلوی صدر الافاضل مولوی نعیم الدین مرادآبادی،بریلوی حکیم الامت احمد یار گجراتی،بریلوی جنید زماں عمر اچھروی اور بریلوی مجدد احمد رضاخان سب کافر، جہالت کا شکار، ان پڑھ مولوی، قرآن کی آیتوں میں ٹیڑھے چلنے والے، اللہ کے باغی اور اس لائق ہیں کہ انہیں کسی چوک میں الٹا لٹکا کر قتل کردیا جائے۔
میلاد شریف والی آیت کی تفسیر
قل بفضل اللہ و برحمتہ فبذلک فلیفرحوا
یونس: آیت نمبر 57
قارئین اہلسنت ! یہ وہ آیت ہے جسے بریلوی مروجہ 12 ربیع الاول کو حضور ﷺ کے میلاد کے جشن کے جواز کے استدلال میں پیش کرتے ہیں۔مگر مولوی نعیم الدین مراد آبادی اس آیت کی تفسیر کیا کرتے ہیں، وہ ملاحظہ فرمالیں
’’حضرت ابن عباس و حسن و قتادہ نے کہا کہ اللہ کے فضل سے اسلام او ر اس کی رحمت سے قرآن مراد ہے ‘‘۔ ایک قول یہ ہے کہ فضل اللہ سے قرآن اور رحمت سے احادیث مراد ہیں ‘‘۔
حاشیہ: 139
آج کے بریلوی کہتے ہیں کہ فضل اور رحمت سے حضور ﷺ کی ولادت کی خوشی مراد ہے مگر مولوی نعیم الدین مراد آبادی صاحب جلیل القدر صحابی رضی اللہ عنہ اور تابعی رحمہ اللہ کے حوالے سے کہتے ہیں کہ فضل سے مراد اسلام اور رحمت سے مراد قرآن ہے۔
غیر اللہ کو سجد ہ کرنا
بریلوی حضرات مزارات پر تعظیمی سجدہ کرتے ہیں اگر کوئی روکے تو اسے شیطان تصورکرتے ہیں۔ بریلوی پیر یار محمد فریدی کہتا ہے کہ
شیطان بود آنکس کہ منع سجودت
دیوان محمدی: 108
مگر مراد آبادی صاحب لکھتے ہیں:
’’سجدہ تحیت و تعظیم ہماری شریعت میں جائز نہیں ‘‘۔
سورہ یوسف: آیت نمبر 100 حاشیہ 221
یار محمد فریدی کے فتوے کی رو سے مراد آبادی صاحب شیطان ہوئے جو سجدہ تعظیمی سے روک رہے ہیں۔
مسئلہ علم غیب
(1) مراد آبادی صاحب لکھتے ہیں:
’’حضرت خضر علیہ السلام نے موسی علیہ السلام سے فرمایا کہ ایک علم اللہ تعالی نے مجھ کو ایسا عطا فرمایا جو آپ نہیں جانتے اور ایک علم آپ کو ایسا عطا فرمایا جو میں نہیں جانتا ‘‘۔
سورہ کہف: آیت نمبر 68، حاشیہ149
(2) (موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا)میں نہ جانتا تھا کہ گھونسہ مارنے سے وہ شخص مرجائے گا ‘‘۔
سورہ الشعرآء: آیت نمبر 20،حاشیہ 23
(3) وقت عذاب کا علم غیب ہے جسے اللہ تعالی ہی جانتے ہیں ‘‘۔
سورۃ الجن:آیت نمبر 25، حاشیہ 47
(4) قیامت کا آنا اور اس کے قائم ہونے کا وقت بھی اس کے علم میں ہے ‘‘۔
سورۃ السبا:آیت نمبر 3،حاشیہ 9
توہین سیدنا آدم علیہ السلام
قال رب فانظرنی الی یوم یبعثو ن
سورہ ص:آیت نمبر 79
کی تفسیر میں لکھتے ہیں:
’’آدم علیہ السلام اور ان کی ذریت اپنے فنا ہونے کے بعد جزاء کے لیے (اٹھائے جائیں گے )۔
خزائن العرفان
اگر نبی کا مٹی میں مل جانا بریلوی مذہب میں کفر اور گستاخی ہے تو نبی کا ’’فنا‘‘ ہوجانا کفر اور گستاخی کیوں نہیں؟ عرف میں فنا ہونا کن معنوں میں استعمال ہوتا ہے ہر اردوخواں جانتا ہے۔
معلوم نہیں اپنے لوگوں پر بریلویوں کے فتاوی کیوں نہیں چلتے!
مختارکل کی نفی
1 مولوی احمد رضاخان کا عقیدہ تھا کہ
’’حضور ہر قسم کی حاجت روا ئی فرماسکتے ہیں دنیا کی سب مرادیں حضور کے اختیار میں ہیں ‘‘۔
برکات الامداد: ص 8
مگر مولوی نعیم الدین مراد آبادی صاحب لکھتے ہیں:
’’ایک روز سید عالم ﷺ نے مسجد بنی معاویہ میں دو رکعت نماز ادا فرمائی اور اس کے بعد طویل دعا کی پھر صحابہ کی طرف متوجہ ہوکر فرمایا میں نے اپنے رب سے تین سوال کیے ان میں سے صرف دو قبول فرمائے گئے ایک سوال تو یہ تھا کہ میری امت کو قحط عام سے ہلاک نہ فرمائے یہ قبول ہوا ایک یہ تھا کہ انہیں عرق سے عذاب نہ فرمائے یہ بھی قبول ہوا تیسرا سوال یہ تھا کہ ان میں باہم جنگ و جدال نہ ہو یہ قبول نہیں ہوا ‘‘۔
خزائن العرفان: سورۃ الانعام: آیت نمبر 56۔حاشیہ۔141
معلوم ہواکہ احمد رضاخان کا یہ کہنا کہ حضور ﷺ ہر قسم کی حاجت روائی فرماسکتے ہیں اور دنیا کی سب مرادیں حضور ﷺ کے اختیار میں ہیں بالکل غلط ہے۔
(2) قل ما یکون لی ان ابدلہ من تلقاء نفسی
’’میں اس میں کوئی تغیر و تبدل کمی بیشی نہیں کرسکتا‘‘۔
یونس: آیت 15۔حاشیہ35
جب حضور ﷺ کو یہ اختیار نہیں تو مختار کل کیسے ہوگئے؟
نورانیت مصطفی ﷺ
نعیم الدین مراد آبادی صاحب لقد جاءکم من اللہ نور کی تفسیرمیں لکھتے ہیں:
سید عالم ﷺ کو نو ر فرمایا گیا کیونکہ آپ سے تاریکی کفر دور ہوئی اور راہ حق واضح ہوئی۔
سورۃ المائدہ:آیت نمبر 15۔حاشیہ۔58
اس تفسیر سے معلوم ہوا کہ آپ ﷺ کا نور ہونا من حیث الھدایۃ والنبوۃ ہے جیسا کہ مراد آبادی صاحب نے تصریح کردی یعنی آپ نور ہدایت ہیں۔
لفظ کل تخصیص کے لیے بھی آتا ہے
لفظ ’’کل‘‘ کے متعلق لکھتے ہیں:
’’و اوتیت من کل شیء۔۔
جو بادشاہوں کے شایان ہوتا ہے ‘‘۔
سورۃ النمل:آیت نمبر 23۔حاشیہ 37
یہاں مراد آبادی نے کل سے عموم مراد نہیں لیا بلکہ اس میں تخصیص کردی کہ جو بادشاہوں کے شایان شان ہو جبکہ فاضل بریلوی لکھتے ہیں:
’’لفظ کل تو ایسا عام ہے کہ کبھی خاص ہوکر مستعمل نہیں ہوتا ‘‘۔
انباء الغیب: ص 26
محمد ﷺ کے پکڑے چھڑاکوئی نہیں سکدا کی نفی
سورۃ الاحقاف: آیت نمبر 8۔حاشیہ۔ 19 میں لکھتے ہیں:
’’یعنی اگر بالفرض میں اپنی طرف سے بناتا اور اس کو اللہ تعالی کا کلام بتاتا تو وہ اللہ تعالی پر افتراء ہوتا اللہ تبارک و تعالی ایسے افتراء کرنے والے کو جلد عقوبت میں گرفتار کرتا ہے تمہیں تو یہ قدرت نہیں کہ تم اس کی عقوبت سے بچا سکو یا اس کے عذاب کو دفع کرسکو‘‘۔
جبکہ بریلوی تو یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ جس کو نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم پکڑ لیں کو ئی بھی نہیں چھڑاسکتا۔
شان حبیب الرحمان
کیا یہ عقیدہ اسلامی ہے؟بریلویوں کے گھر کے آدمیوں نے اس کی خبر لی ہے۔ دیکھیے تبیان القرآن
مسئلہ کرامت
بریلوی حضرات کہتے ہیں کہ آصف بن برخیا کے پا س اتنی قوت تھی کہ وہ اتنی دور سے تخت لے آئے تو اس دور کے اولیاء میں کتنی طاقت ہو گی! ہم ان رضا خانیوں کی خدمت میں عرض کرتے ہیں اگر اپنی تفسیر خزائن العرفان کو ہی دیکھ لیتے تو یہ جسارت نہ کرتے۔ مراد آباد ی صاحب لکھتے ہیں
آصف نے عرض کیا آپ نبی ابن نبی ہیں اور جو رتبہ بارگاہ الہی میں آپ کو حاصل ہے یہاں کس کو میسر ہے؟ آپ دعاکریں تو وہ آپ کے پا س ہی ہو گا آپ نے فرمایا تم سچ کہتے ہو اور دعا کی اسی وقت تخت زمیں کے نیچے سے چل کر حضرت سلیمان علیہ السلام کی کرسی کے قریب نمودار ہو ا۔
النمل نمبر 40 حاشیہ نمبر 63
تفسیر نور العرفان پر ایک نظر
قارئین ذی وقار ! یہ بات ہم بعد میں تفصیل سے عرض کرتے ہیں کہ یہ تفسیر صحیح ہے بھی یا نہیں لیکن اتنی بات ضرور ہے کہ اس میں جگہ جگہ شان الوہیت و شان رسالت و شان صحابہ و اہل بیت کرام کے خلاف خصوصی محاذ قائم کیا گیا ہے اور بہت سی جگہیں ایسی ہیں جہاں مفتی صاحب نے جہالت کی وجہ سے ٹھوکریں کھائیں۔
اور یہ بات بندہ عرض کرناضروری سمجھتا ہے کہ ملت بریلویہ میں کم عقل اور بے وقوف حضرات بہت سے ہیں کہ بریلویت نام ہی بے وقوفی و حماقت کا ہے مگر حماقت و بے وقوفی میں مولوی احمد رضا خان بریلوی کے بعد سب سے بڑا نمبر مفتی احمدیار خان نعیمی کا ہے۔ جس نے مفتی صاحب کی کتب کو پڑھا ہے وہ اس بات سے بخوبی واقف ہے اور ہم بھی کچھ بطور نمونہ عرض کریں گے۔ شاید اسی وجہ سے مفتی صاحب اپنے عقائد مخصوصہ کو بھی ٹھیس پہنچاتے گئے۔ اس کی وجہ صرف اور صرف حماقت و بے وقوفی ہی ہوسکتی ہے۔ایک بات یہ بھی عرض کرتا جاؤں کہ یہ فرقہ شیطان کا بہت مدح سرا ہے۔ ابلیس لعین کے فضائل و مناقب جو مفتی صاحب نے بیان کیے ہیں وہ اپنی مثال آپ ہیں ان شاء اللہ ان پر بھی اجمالی نظر ڈالیں گے۔
علم تفسیر:
مولوی عبدالحکیم شرف قادری صاحب لکھتے ہیں:
تفسیر وہ علم ہے جس میں انسانی طاقت کے مطابق قرآن پاک کے متعلق بحث کی جاتی ہے کہ وہ کس طرح اللہ تعالی کی مراد پر دلالت کرتا ہے۔
انوار کنز الایمان ص 41
قارئین گرامی قدر ! آپ نے ملاحظہ فرمایا کہ تفسیر میں یہ واضح کیا جاتا ہے کہ اس آیت یا اس لفظ سے اللہ تعالیٰ کی مراد کیا ہے اور یہ انسان اپنی طاقت کے مطابق کرتا ہے۔ مگر ہم مفتی صاحب کو دیکھتے ہیں کہ وہ قرآن پاک کے الفاظ کی مراد ِ خداوندی کی توضیح و تبیان کی بجائے قرآن مقدس کی تفسیر میں جھوٹ پہ جھوٹ بولتے جاتے ہیں اور اتنی بھی شرم نہیں کرتے ہیں کہ میں قرآن کی تفسیر لکھ رہا ہوں۔ اس کو کتابت کی غلطی وغیرہ بھی نہیں کہا جاسکتا کہ یہ کاتب کی غلطی ہے۔ یہ سب کچھ سوچی سمجھی اسکیم کے تحت امت محمدیہ کے ایمانوں پر ڈاکہ ڈالنے کی کوشش ہے۔
جھوٹ نمبر 1
مفتی صاحب لکھتے ہیں:
بعض جہلا یہ آیت مسلمانوں اور اولیاء اللہ و انبیاء پر چسپاں کرتے ہیں کہ یہ گفتگو قیامت میں پیر مرید، نبی امتی میں ہوگی مگر لطف یہ ہے کہ خود بھی اپنے پیروں کے مرید ہوتے ہیں۔ غرض کہ یہ تفسیر نہیں بلکہ تحریف ہے۔ بخاری میں ہے کہ قادیانیوں کا بد ترین کفریہ ہے کہ وہ کفار کی آیتیں مسلمانوں پر لگاتے ہیں خیال رکھو یہ آیت کفار اور ان کے پیشواؤں کے متعلق ہے۔
پارہ نمبر 22 سورۃ سبا آیت نمبر 32 مطبوعہ ادارہ کتب اسلامیہ گجرات
قارئین گرامی قدر یہ بات تو بالکل جھوٹ ہے کہ بخاری میں قادیانیوں کا ذکر ہے یہ مفتی صاحب تفسیر میں جھوٹ بول رہے ہیں۔
دوسری بات یہ ہے کہ کفار وغیرہ کے متعلق نازل شدہ آیتوں کو انبیاء اولیاء محبوبان خدا پر فٹ کرنا بدترین کفر و جہالت ہے۔ تو آئیے دیکھیے یہ کفر وجہالت کس نے کمائی بلکہ مفتی صاحب کے بقول یہ تحریف قرآن ہے نہ کہ تفسیر۔
مفتی صاحب نے اپنی تفسیر کے آخر میں قرآن مجید سے ثابت شدہ مسائل کی فہرست دی ہے اس میں ایک عنوان ہے ’’ محبوبان خدا دور سے سنتے دیکھتے اور مدد کرتے ہیں ‘‘ اور اس کے تحت چند آیات لکھی ہیں ان میں ایک یہ آیت بھی ہے
انہ یراکم ھو وقبیلہ من حیث لاترونھم
الاعراف؛ نورالعرفان ص 991 مطبوعہ ادارہ کتب اسلامیہ گجرات
جبکہ یہ آیت شیطان کے متعلق اور اس کے چیلوں کے متعلق نازل ہوئی آپ دیکھیے مفتی احمد یار نعیمی نے خود اس کی تفسیر میں لکھا ہے یعنی شیطان اور اس کی ذریت سارے جہاں کے لوگوں کو دیکھتے ہیں لوگ انہیں نہیں دیکھتے۔
پارہ نمبر 8 سورۃ اعراف آیت نمبر 27 حاشیہ نمبر 3
اتنی بات تو مفتی صاحب نے درست لکھی کہ یہ شیطان کے متعلق ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ مفتی صاحب جب خود ہی اصول لکھ رہے ہیں کہ کافروں کے متعلقہ آیتیں انبیاء اولیاء پر چسپاں کرنا بد ترین کفر ، تحریف قرآن اور جہالت ہے تو جب خود یہ کام کریں گے تو یہ فتوے ان کے گلے کا ہار کیسے نہ بنیں؟ ثابت ہوا کہ مفتی صاحب بقول خود محرف قرآن، جاہل اور کافر ہیں اور قرآن پاک پر جھوٹ بول رہے ہیں۔
جھوٹ نمبر 2
شیطان نے جو بات خدا کے سامنے کی؛ یعنی انا خیر منہ میں اس سے بہتر ہوں؛ مفتی صاحب اس کی تفسیر میں لکھتے ہیں
کیونکہ میں پرانا صوفی عابد عالم فاضل دیوبند ہوں۔
پارہ نمبر 23 آیت نمبر 76 حاشیہ نمبر 8 ادارہ کتب اسلامیہ گجرات
آپ دیکھیے کیا یہ قرآن کی تفسیر ہے یا اسے آپ تحریف کا نام دیں گے؟ اگر یہ تفسیر ہے تو تحریف پتہ نہیں کس کانام ہے۔
مفتی صاحب کے پیرؤوں سے سوال ہے اگر فاضل دیوبند ہونا شیطان کا پیرو بننا ہے یا فاضل دیوبند ہونا کوئی حیثیت نہیں رکھتا تو پھر کتنے ہی اکابر بریلویہ شیطان کے پیرو ٹھہریں گے کم از کم ان اکابر بریلویہ کو مفتی صاحب کی اس بات سے اتفاق نہیں ہوگا۔ مفتی صاحب خود بھی علماء دیوبند کے شاگرد ہیں تو خود بھی شیطان کے پیرو ایک عرصے تک رہے ہیں اور ایک عرصہ تک شیطانیت کا اثر ان پر بھی تو ہوا ہوگا، اب دیکھ لیں اپنے بارے میں مفتی صاحب کا کیا خیال ہے۔
جھوٹ نمبر 3
مفتی صاحب لکھتے ہیں:
بخاری شریف میں ہے کہ حضور نے نبوت سے پہلے بھی بتوں کے نام کا ذبیحہ کھایا۔
پارہ 15 سورۃ کہف آیت نمبر 19 نعیمی کتب خانہ گجرات
حالانکہ یہ بات ہو ہی نہیں سکتی اگر رضا خانیت یہ بات بخاری سے دکھا دے تو منہ مانگا انعام بھی دیں گے۔ یہ مفتی صاحب تفسیر قرآن کررہے ہیں یا اس کو تحریف قرآن کہاجائے؟
نور العرفان اور عظمت قرآن
مفتی صاحب ایک جگہ لکھتے ہیں:
معلوم ہوا کہ قرآن کریم کا سننا کمال نہیں بلکہ اس پر غور کرنا کمال ہے۔
پارہ نمبر17 سورۃ حج آیت نمبر 73 حاشیہ نمبر 11 نعیمی کتب خانہ
(نوٹ: اب نعیمی کتب خانہ گجرات والے ایڈیشن سے ہی حوالاجات پیش ہوں گے اگر کسی اور مطبع کا حوالہ ہوا تو لکھ دیا جائےگا)
دوسری جگہ لکھتے ہیں:
حضور ﷺ سے ہدایت ملتی ہے گمراہی دور ہوتی ہے مگر قرآن سے ہدایت بھی ملتی ہے اور گمراہی بھی۔
نورالعرفان ص 845 پارہ نمبر 25 سورۃ شورای آیت نمبر 52 حاشیہ نمبر 23
مفتی صاحب سے پوچھنا چاہیے اس تقابل کو لاکر کہیں قرآن کی فضیلت کو کم کرنا تو مقصود نہیں؟ کیونکہ اس جملے سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ خدا تعالیٰ قرآن مقدس کے ذریعے لوگوں کو گمراہ بھی کرتا ہے۔ حالانکہ اگر کسی گندی فطرت کے آدمی کو قرآن سے ہدایت نہ ملے تو قصور قرآن کا نہیں۔ قرآن تو سراسر ہدایت ہے مگر جو آدمی طبیعت کے اعتبار سے گندہ ہے تو اسے خدا تعالیٰ قرآن کے ذریعے گمراہ کرتا ہے اس کا یہ مطلب نہیں کہ قرآن گمراہ کرتا ہے۔
جیسے بارش سراسر رحمت خداوندی ہے مگر غلاظت و گندگی پر ہو تو اس سے بدبو اٹھتی ہے اس میں قصور بارش کا نہیں ہوتا بلکہ اسی غلاظت کا ہوتا ہے۔ اسی طرح قرآن سے گمراہی نہیں ملتی قرآن کی روشنی اور رحمت غلاظت والی طبیعت کو خراب لگتی ہے۔جیسے بیمار کو چینی بھی کڑوی لگتی ہے قصور بیمار کا ہے نہ کہ چینی کا۔ مفتی صاحب نے کیسے قرآن پاک کے خلاف ذہن بنانے کی کوشش کی ہے۔ اور یہی بات پارہ 1 سورۃ بقرہ آیت نمبر 26 کے حاشیہ نمبر 3 میں لکھی ہے۔
اور ہم پوری جرأت سے یہ کہتے ہیں کہ یہ مفتی صاحب نے قرآن پاک کے مقام وعظمت کے کم کرنے کی ناپاک جسارت کی ہے اس کی دلیل یہ ہے کہ مفتی صاحب اسی تفسیر میں لکھتے ہیں
پیغمبر کی تعلیم بد نصیب کے لیے زیادہ گمراہی کا باعث بن جاتی ہے۔
نورالعرفان پارہ نمبر 19 سورۃ الفرقان آیت نمبر 60 حاشیہ نمبر 1
آپ دیکھیے جب قرآن مقدس کی تعلیم سے بد نصیب کی گمراہی بڑھتی ہے اور پیغمبر کریم ﷺ کی تعلیم مبارک سے بھی بد نصیب کی گمراہی بڑھتی ہے تو پھر لوگوں کو صرف یہ بتانا کہ قرآن سے گمراہی بھی ملتی ہے جبکہ حضور علیہ السلام سے صرف ہدایت یہ دھوکہ بھی ہے حماقت بھی۔ مخالفت قرآن بھی ہے اور قرآن مقدس کے مقام کو کم کرنے کی مذموم کوشش بھی۔
نور العرفان اور عظمت باری تعالیٰ
توہین نمبر1
ہم ہی نہیں بلکہ سارے مسلمان یہی جانتے اور مانتے تھے کہ خدا کا کوئی وزیر نہیں لاوزیر لہ۔ وہ کسی کو اپنا وزیر بنائے اس سے وہ پاک ہے مگر رضا خانیت کے گھر میں عجیب بات دیکھنے میں آئی کہ خدا تعالیٰ کا وزیر بھی ہوتا ہے۔
مفتی صاحب اسی تفسیر میں لکھتے ہیں:
حضور ﷺ سلطنت الٰہیہ کے گویا وزیر اعظم ہیں۔
نورالعرفان ص 811 پارہ 18 سورۃ النور آیت نمبر 42 حاشیہ نمبر 19
یہاں تو مفتی صاحب نے ”گویا“لکھا ہے مگر اپنی کتاب ’’شان حبیب الرحمان‘‘ میں ”گویا“کے بغیر ہی آپ علیہ السلام کو وزیراعظم بنادیا ہے۔
رضا خانیت سے ہمارا سوال ہے کہ کیا یہ خداتعالیٰ کی عظمت کے خلاف نہیں ہے؟ کیا اس کو خداتعالیٰ کے مقام و شان کے خلاف نہیں کہوگے؟ لیکن رضا خانیت بے وقوفی کا نام ہے اس لیے وہ خدا کی شان کے بارے میں تو سمجھوتہ کرلیں گے مگر مفتی صاحب کی شان کو گرنے نہیں دیں گے۔
رضا خانیوں سے ایک سوال یہ ہے کہ اگر یہ اسلام کے مطابق ہے تو پھر مفتی صاحب کے اس قول کا کیا کروگے
رب تعالیٰ کسی کو وزیر بنانے سے پاک ہے اس کا وزیر کوئی نہیں۔
نورالعرفان ص 779 پارہ نمبر 11 سورۃ یونس آیت نمبر 66 حاشیہ نمبر 18
ہو سکتا ہے کوئی رضا خانی کہے کہ مفتی صاحب نے مملکت کا وزیر اعظم کہا ہے نہ کہ خدا کا، یہ تاویل بالکل بے کار ہے۔ خدا کی مملکت کا وزیر اعظم اس کا ہی وزیراعظم ہوا۔ پاکستان کا وزیر اعظم اگرچہ پاکستان کا ہے مگر وہ صدر کے اعتبار سے بھی تو وزیراعظم ہے وہ صدر کا بھی تو وزیر ہے۔ اس لیے یہ تاویل درست نہیں۔
اب میں پوچھتا ہوں جس کو تم خود ہی جائز نہیں سمجھتے اس کو اسلام بناکر پیش کرنا حددرجے دھوکہ بازی اور خیانت جو کہ رضا خانیت کا دوسرا نام ہے سے کام لینا نہیں تو اور کیا ہے؟
توہین نمبر2
مفتی صاحب لکھتے ہیں:
یعلم اللہ تاکہ اللہ جان لے یا فرمایا گیا ولمایعلم اللہ الذین جاھدوا ابھی تک اللہ نے مجاہدوں کو نہ جانا۔
نور العرفان ص 323 پارہ نمبر 14 سورۃ نحل نمبر 19 حاشیہ نمبر 8
جبکہ اس طرح ترجمہ کرنے پر ملت رضویہ کے بڑے بڑے علماء نے جو لکھا ہے وہ ملاحظہ فرمائیے
1۔ فیض احمد اویسی صاحب نے اس قسم کا ترجمہ کرنے والے کے متعلق یوں اپنا نظریہ لکھا ہے کہ یہ اعتزال کے حامی یا معتزلی ہونے کی نشانی ہے۔
سیدنا اعلیٰ حضرت ص 19
2۔ ملک شیر محمد اعوان صاحب لکھتے ہیں:
ترجمہ سے یوں ظاہر ہوتا ہے جیسے خدا کو پہلے کسی بات کا علم نہ تھا اور یہ چیز خدا کے عالم الغیب ہونے کے سراسر منافی ہے۔
انوار رضا ص 87
3۔ پیر محمد افضل قادری صاحب لکھتے ہیں:
ان تراجم میں اللہ تعالیٰ کے لیے معلوم کرلے یا معلوم ہو جائے یا وہ جان لے کے الفاظ سے واضح ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ معلوم کرتا ہے اور معلوم وہ کرتا ہے جسے پہلے معلوم نہ ہو۔
آواز اہل سنت جنوری 2010ء ص 19
علم کا معنی ”معلوم کرنا“ کرکے اللہ تعالیٰ کے علم ازلی کی نفی کی ہے۔
آواز اہل سنت جنوری 2010ء ص 19
4۔ مولوی ابوداؤد محمد صادق صاحب لکھتے ہیں:
مذکورہ تراجم میں یہ تاٴثر دینا کہ خدا تعالیٰ بھول جاتا ہے اور بھلا دیتا ہے اور واقعہ کے وقوع سے پہلے نہ اس کو معلوم ہے نہ وہ جانتا ہے نہ دیکھتا ہے کس قدر الوھیت کی تنقیص و بے ادبی ہے۔
براہین صادق ص 309
5۔ مولوی محبوب علی خان قادری برکاتی ’’نجوم شہابیہ‘‘ میں لکھتے ہیں جس پر 55 بریلوی اکابرین کی تائیدات ہیں:
جہاد کرنے والوں کو بھی خدا نے ابھی تک نہیں جانا اور ثابت قدم رہنے والوں کو بھی نہیں جانا تو وہ خدا بے علم جاہل ہوا یا نہیں اپنے کفریات کو ترجمہ کے پردے میں چھپاتے ہو۔
نجوم شہابیہ ص 9، 10
ان بریلوی فتاویٰ جات سے معلوم ہواکہ مفتی صاحب بریلویوں کی نظر میں کافر، خدا کو بے علم و جاہل کہنے والے، خدا کی توہین وبے ادبی کرنے والے، خدا کے علم ازلی کی نفی کرنے والے، خدا کے عالم الغیب ہونے کے منکر، معتزلی و اعتزال کے حامی ہیں۔ مفتی صاحب! دیکھیں یہ آپ کے بارے میں کیا کہا جارہا ہے!
توہین نمبر3
مفتی صاحب ساری کائنات میں فساد کی بنیاد خدا تعالیٰ کو قرار دے رہے ہیں حالانکہ قرآن کہتا ہے ظہر الفساد فی البروالبحر بما کسبت ایدی الناس یعنی یہ فساد سب انسان کی اپنے ہاتھ کی کمائی ہے مگر یہ مفت کے مفتی لکھتے ہیں
کفر و اسلام کے جھگڑے تیرے چھپنے سے بڑھے
نور العرفان ص 796 پارہ 15 بنی اسرائیل آیت نمبر 45 حاشیہ نمبر 12
کیا اب بھی مفتی صاحب کو بریلوی اپنا حکیم الامت مانیں گے؟ ایسے آدمیوں کو تو کوئی یونانی حکیم اپنی دکان پر صفائی کے لیے رکھنےپر بھی تیار نہ ہواور تم حکیم الامت کے القابات سے نوازتے ہو۔
مفتی صاحب لکھتے ہیں:
انبیاء کے کام در پردہ رب کے کام ہوتے ہیں ان پر اعتراض رب پر اعتراض ہے دیکھو بنیامین کو روکنے کا حیلہ یوسف علیہ السلام نے کیا مگر رب نے فرمایا کہ یہ سب کچھ انہیں ہم نے سکھایا۔
نور العرفان ص 785 پارہ 13 یوسف آیت نمبر 76 حاشیہ نمبر 17
معلوم ہوا کہ یوسف علیہ السلام نے حیلہ کیا اور سکھایا خدا ہے۔ تو حیلہ خدا نے کیا اور اس حیلہ کی تعلیم بھی خدا نے دی۔ بقول مفتی صاحب یہ سب باتیں ثابت ہوئیں۔ اب دیکھیے مولوی محبوب علی قادری برکاتی نے لفظ حیلہ کو گالی شمار کیا ہے۔
نجوم شہابیہ ص 15
اور اسی کتابچہ میں ایسے لفظ خدا ا و ر رسول کے لیے منسوب کرنے والے کو کافر لکھا ہے۔
ص 22، 69
تو مفتی صاحب کافر ہوئے۔ اس کتابچے پر 55 بریلوی علماء کے دستخط ہیں۔
مفتی صاحب اور مقام نبوت
مفتی صاحب نے اصول خود ہی لکھ دیا ہے کہ ’’ حضور کی شان میں ہلکے لفظ استعمال کرنے ہلکی مثالیں دینا کفر ہے۔ ‘‘
نورالعرفان ص 345 پارہ 15 سورۃ بنی اسرائیل آیت نمبر 48 حاشیہ نمبر 6
اب دیکھیے گھٹیا سے گھٹیا مثالیں مفتی صاحب نے خود دی ہیں:
توہین نمبر1
مفتی صاحب لکھتے ہیں:
موسیٰ علیہ السلام کی لاٹھی سانپ بن کر کھاتی تھی تلقف مایافکون (اعراف 117 ) لہٰذا حضور بھی اللہ کے نور ہیں اگر بشری لباس میں آئے تو کھاتے پیتے سوتے جاگتے تھے۔
نور العرفان ص 19 پارہ 1 سورۃ البقرہ آیت نمبر 102 حاشیہ نمبر 8
یہاں مفتی صاحب نے نبی پاک علیہ السلام کی مثال لاٹھی سے دی اور آپ علیہ السلام کی بشریت کی مثال سانپ سے دی۔  العیاذباللہ 
توہین نمبر2
دوسری جگہ لکھتے ہیں:
اے محبوب دعا ہماری بنائی ہوئی ہو اور زبان تمہاری ہو۔ کارتوس رائفل سے پوری مار کرتا ہے۔
نور العرفان ص 809 پارہ 18 سورۃ مومنون آیت نمبر 97 حاشیہ نمبر 14
یہاں رحمت کائنات ﷺ کی زبان مبارک کے لیے رائفل کی مثال دی ہے اور دعائیہ کلمات کی کارتوس سے مثال دی ہے۔
توہین نمبر3
حضور محمد ﷺ پر جو اپنی عبدیت میں ایسے مشہور ہیں کہ اس خاص لفظ سے ہر ایک کا خیال حضور کی طرف جاتا ہے خیال رہے عبد اور عبدہ میں بڑا فرق ہے عبد تو رحمت الٰہی کا منتظر ہے اور عبدہ جسکی عبدیت سے اللہ تعالیٰ کی شان الوھیت ظاہر ہو حضور بے نظیر بندے ہیں (ﷺ)۔کلب یعنی کتا ذلیل ہے مگر کلبھم اصحاب کہف کا کتا عزت والا۔
نور العرفان ص 432 پارہ 18 سورۃ الفرقان آیت نمبر 1 حاشیہ نمبر 8
زبان لرزتی ہے ہاتھ کانپتے ہیں یہ لکھتے ہوئے، یا اللہ اگر ان کی گستاخی دکھا کر انسانیت کو ان سے بچانا مقصود نہ ہوتا تو میں کبھی نقل نہ کرتا۔
نقل کفر کفر نہ باشد العیاذباللہ، نعوذباللہ، استغفر اللہ، استغفر اللہ، استغفر اللہ یہاں حضور علیہ السلام کی عبدیت سمجھانے کے لیے اصحاب کہف کے کتے کی مثال دی گئی ہے۔
توہین نمبر4
مفتی صاحب اس قسم کی مثالیں دیتے نہیں تھکتے ملاحظہ فرمائیے لکھتے ہیں:
حضرت حوّا کو حضرت آدم علیہ السلام کے جسم سے بغیر نطفہ بنایا۔ دیکھو انسان کے جسم سے بہت سے کیڑے پیدا ہوجاتے ہیں مگر وہ اس کی اولاد نہیں کہلاتے۔
نورالعرفان ص 93 پارہ 4 سورۃ نساء آیت نمبر 1 حاشیہ نمبر 3
یہاں سیدہ اماں حوا علیہا السلام کی مثال کیڑوں سے دی گئی ہے۔ جس قوم میں ماں کا یہ احترام ہو وہ کہاں تک با غیرت ہوسکتی ہے۔
توہین نمبر5
مزید دیکھیے مفتی صاحب لکھتے ہیں:
ظاہری صورت یکسانیت دیکھ کر اولیاء انبیاء کو اپنا مثل نہ سمجھو نیم اور بکائن کا درخت یکساں معلوم ہوتا مگر پھلوں میں زمین و آسمان کا فرق ہے۔
نور العرفان ص 169 پارہ نمبر 7 سورۃ انعام آیت نمبر 99 حاشیہ نمبر 9
یہاں مفتی صاحب نے نبی پاک علیہ السلام کے وجود مبارک کی بکائن سے مثال دی ہے جو نہایت کڑوا درخت ہوتا ہے۔ العیاذباللہ 
توہین نمبر6
مفتی صاحب لکھتے ہیں:
اللہ تعالیٰ ان کے شر سے پاک اس کے حبیب ان کے شر سے محفوظ بلکہ جو ان کے حبیب کی پناہ میں آجاوے وہ محفوظ ہوجاوے پٹہ والے کتے کو کوئی نہیں مارتا۔
نور العرفان 631 پارہ نمبر 27 سورۃ طور آیت نمبر 43 حاشیہ نمبر 10
یہاں جو بھی آپ علیہ السلام کے دامن سے وابستہ ہو وہ صحابہ کرام سے لے کر آج تک کی انسانیت ان سب کی مثال پٹے والے کتے سے دی ہے۔ العیاذ باللہ 
قارئین کرام یہ سلسلہ کوہ ہمالیہ کی طرح نہ ختم ہونے والا ہے اگر آپ خود اس کا مطالعہ کریں تو آپ کو معلوم ہوجائے گا کہ کس قدر خطرناک مثالیں مختلف لوگوں کی مختلف چیزوں سے دی ہیں۔
شب قدر کی توہین
مفتی صاحب لکھتے ہیں:
شب قدر کی یہ فضیلت قرآن کی نسبت سے ہے اصحاب کہف کے کتے کو ان بزرگوں سے منسوب ہوکر دائمی زندگی عزت نصیب ہوئی۔
نور العرفان ص 718 پارہ 30 سورۃ قدر آیت نمبر 3 حاشیہ نمبر 2
یہاں مفتی صاحب نے شب قدر کی کتے سے مثال دی ہے العیاذ باللہ 
القصہ مفتی صاحب نے انبیاء کرام کی شان میں گھٹیا اور ہلکی مثالیں دے کر کفر کا پھندا اپنے گلے میں خود ہی ڈال دیا ہے۔ یہ مکافات عمل ہے جس کفر و شرک کی تبلیغ کرتے وہ خود کیوں نہ اختیار کرتے!
انبیاء علیہم الصلاۃ والسلام کی بے ادبی
مفتی صاحب لکھتے ہیں:
1۔ نبی کا نبوت سے پہلے معصوم ہونا ضروری نہیں۔
نور العرفان ص 125 پارہ نمبر 6 سورۃ نساء آیت نمبر 163 حاشیہ نمبر 11
2۔ جو انبیاء کفار کے ہاتھوں شہید ہوئے وہ مجاہد نہ تھے۔
نور العرفان ص 654 پارہ 28 سورۃ مجادلہ آیت نمبر 21 حاشیہ نمبر 13
3۔ آپ (سیدنا ابراہیم ) کے ہاں پانچ ہزار کتے جانوروں کی حفاظت کے لیے تھے جن کے گلے میں سونے کے طوق تھے۔
نورالعرفان ص 338 پارہ 14 سورۃ نحل آیت نمبر 122 حاشیہ نمبر 5
4۔ موسیٰ علیہ السلام نے حضرت ہارون کی نبوت کے لیے تین وجوہ عرض کیے فرعون کی ایذاء کا ڈر ، فرعون کے جھٹلانے کے موقعہ پر دل تنگی یعنی زیادہ جوش اور بہت رنج جس سے تبلیغ میں رکاوٹ پیدا ہو، زبان شریف کی لکنت جس سے بات صاف نہ کہی جاسکے۔ تفسیر تنویر المقباس میں فرمایا کہ دل کی تنگی سے مراد جرأت کی کمی ہے۔
نور العرفان ص 441 پارہ 19 سورۃ شعراء آیت نمبر 14 حاشیہ نمبر 11
5۔ صرف ایک بار نہیں بلکہ بار بار جادو کیا گیا جس سے آپ ﷺ کے ہوش و حواس بجا نہ رہے۔
نور العرفان ص 448 سورۃ شعراء آیت نمبر 153 حاشیہ نمبر 13
6۔ آدم علیہ السلام پیدائش سے پہلے متقی نہ بنے تھے۔
نور العرفان ص 778 پارۃ نمبر 11 سورۃ یونس آیت نمبر 63 حاشیہ نمبر 12
7۔ گناہ سے نبوت کے بعد معصوم ہوتے ہیں نہ کہ پہلے۔
نور العرفان ص 284 پارہ 12 یوسف نمبر 69 حاشیہ نمبر 6
مفتی صاحب لکھتے ہیں:
الف۔ انبیاء کرام کی خطاؤں میں پیروی نہ کی جائے۔
نور العرفان ص 680 پارۃ نمبر 29 سورۃ القلم آیت نمبر 48 حاشیہ نمبر 5
ب۔ نبی کی رائے کی مخالفت کفر نہیں۔
نور العرفان ص 284 پارہ نمبر 12 یوسف نمبر 8 حاشیہ نمبر 5
ج۔ اختلاف رائے نبی کی بھی کفر نہیں اگر نبی کریم ﷺ کسی کو کچھ رائے دیں تو اس پر عمل ضروری نہیں۔
نور العرفان ص 296 پارہ نمبر 13 یوسف نمبر 91 حاشیہ نمبر 4
آج کل کے دور میں مفتی صاحب ان انسانوں کے لیے راہ ہموار کررہے ہیں جو آپ علیہ السلام کے فرامین کی حیثیت کے انکاری ہیں اور انکارِحدیث کی مذموم کوشش کرتے ہیں۔ یہ بات ان کی ذات کے لیے مناسب نہیں تھی مگر بریلویت کے اسٹیج کی یہ بہت بڑی ضرورت ہے کہ ہر وہ اقدام کیاجائے جس سے عظمت نبوت کم ہو یا اتنی بڑھائی جائے کہ شرک تک جا پہنچے اسی کانام بریلویت اور رضاخانیت ہے۔
8۔ مفتی صاحب لکھتے ہیں:
ہم میں اور نبی میں وحی الٰہی کا فرق ہے وہ صاحب وحی ہیں ہم نہیں۔
نور العرفان ص 843 پارہ 24 سورۃ حم سجدہ نمبر 6 حاشیہ نمبر 13
کیا بریلوی حضرات اس سے متفق ہیں؟ اگر نہیں تو مفتی صاحب کے لیے فتوی ارشاد فرمایا جائے۔
اگر علماء دیوبند آپ علیہ السلام کو بشر مانیں تو وہ تو گستاخ اور یہ مفتی صاحب کہیں کہ وحی الٰہی کے علاوہ ہم میں اور نبی میں کوئی فرق نہیں تو وہ عاشق کیسے ٹھہرے؟ غیرت کا تقاضا یہ ہے کہ مفتی صاحب کے متعلق صحیح فتوی ارشاد فرمایا جائے اگر تم میں غیرت ہے ورنہ۔۔۔
9۔ مفتی صاحب لکھتے ہیں:
بعض علماء نے اس آیت کی بنا پر فرمایا ہے کہ حضرت یعقوب علیہ السلام کے سارے فرزند نبی تھے۔
نور العرفان ص 125 پارہ 6 سورۃ نساء آیت نمبر 163 حاشیہ نمبر 11
ایک جگہ لکھتے ہیں:
مخالفت کا جھگڑا کفر ہے۔
نور العرفان ص 766 پارہ 9 سورۃ انفال آیت نمبر 5 حاشیہ نمبر 9
آگے لکھتے ہیں:
یوسف علیہ السلام نے اس قدر مخالفت کے باوجود انہیں بھائی فرمایا۔
نور العرفان ص 297 پارہ 13 سورۃ یوسف آیت نمبر 100 حاشیہ نمبر 5
فیصلہ آپ خود کرلیں بقول مفتی صاحب یوسف علیہ السلام سے بھائیوں کی مخالفت تھی اور مخالفت کفر ہے تو کیا یہ تمام انبیاء کو کافر کہنا ہوا یا نہ ہوا؟ یہ مفتی صاحب کی بے ہودہ گوئی ہے کہ انبیاء کرام تک کو کافر کہہ دیا۔  العیاذباللہ 
10۔ مفتی صاحب لکھتے ہیں:
جو فدیہ کفار بدر سے لیاگیا تھا وہ حلال طیب ہے لہٰذا فدیہ لینا جرم نہ تھا بلکہ انتظار وحی نہ فرمانے پر عتاب ہوا۔
نور العرفان ص 760 پارہ 10 انفال نمبر 69 حاشیہ نمبر 12
دوسری جگہ لکھتے ہیں:
عتاب محمود پر نہیں ہوا کرتا۔
نور العرفان ص 159 پارہ 7 انعام نمبر 35 حاشیہ نمبر 5
یہ بات مفتی صاحب کو زیبا نہیں تھی کہ نبی پاک علیہ السلام کی خطائے اجتہادی کو غیر محمود کہتے مگر رضاخانیت کے ہاتھوں مجبور ہو کر شان نبوت کا پاس نہیں رکھتے۔ خطائے اجتہادی تو کہا جا سکتا تھا مگر نبوت کے اعمال کو غیر محمود کہنا روا نہیں ہوسکتا۔
11۔ مفتی صاحب لکھتے ہیں:
درود ابرہیمی نماز میں کامل ہے لیکن نماز سے باہر غیر کامل کہ اس میں سلام نہیں۔
نور العرفان ص 572 پارہ 22 احزاب نمبر 56 حاشیہ نمبر5
جبکہ علماء و محدثین نے درود ابراہیمی کی بڑی شان لکھی ہے۔ شیخ عبدالحق محدث دھلویؒ نے جذب القلوب میں تمام درودوں سے افضل بلکہ یہاں تک لکھا ہے کہ اگر کوئی قسم کھا لے کہ میں نے افضل درود پڑھا تو پھر ابراہیمی درود پڑہے تو قسم سے بری ہوجائے گا جبکہ مفتی صاحب کے نزدیک غیر کامل ہے۔
مفتی صاحب کے جانشین مفتی اقتدار نعیمی نے تفسیر نعیمی ج 16 ص 110 پر اسے ناقص و ناجائز لکھا ہے۔ اور اپنی کتاب تنقیدات علی مطبوعات کے ص 210 پر اس کا پڑھنا مکروہ و گناہ لکھا ہے۔
واہ مفتی صاحب ! یہ آپ کے گھرانے کی تحقیق ہے؟ اس کو انسان حضور کی محبت کہے یا کچھ اور؟ دعویٰ محبت کرنا اور ہے ،عمل محبت اور ہے۔ آپ نے خود لکھا ہے کہ بغیر عمل دعویٰ محبت منافقوں کا طریقہ ہے۔
نور العرفان ص 39 پارہ 2 سورۃ البقرہ نمبر 204 حاشیہ نمبر 5
یہ منافقت تو آپ کے گھر سے ہی ثابت ہوگئی خدا تعالیٰ اس منافقت سے بریلویت کی جان چھڑادے۔
12۔ مفتی صاحب لکھتے ہیں:
اگر بھول کر تم کفار کے جلسوں میں چلے جاؤ تو یاد آتے ہی وہاں سے ہٹ جاؤ۔
نور العرفان ص 164 پارہ 7 سورۃ انعام آیت نمبر 68 حاشیہ نمبر 3
دوسری جگہ لکھتے ہیں:
مکہ والوں نے حضور ﷺ سے اصحاب کہف کا حال دریافت کیا تو حضور نے فرمایا پھر بتائیں گے اور ان شاء اللہ فرمانا یاد نہ رہا۔
نور العرفان ص 356 پارۃ 15 سورۃ کہف نمبر 24 حاشیہ نمبر 8
مفتی صاحب نے یہاں رحمت کائنات ﷺ کے لیے نسیان منسوب کیا جبکہ مفتی فیض احمد اویسی لکھتے ہیں
حضور سرور دو عالم ﷺ پر نسیان کا وہم و گمان کرنا پاگل پن ہے ،
انسان اور بھول ص 358
مزید دیکھیے:
نبی پاک ﷺ کو اگر مورد نسیان کوئی سمجھتا ہے تو اپنی عقل و فہم کا دشمن ہے۔
انسان اور بھول ص 363
ان فتووں کی رو سے مفتی صاحب عقل وفہم کے دشمن اور پاگل ہیں۔
13۔ مفتی صاحب لکھتے ہیں:
ابلیس پیغمبر کی شکل تو نہیں بنا سکتا مگر آواز ان کی آواز سے مشابہ کردیتا ہے۔
نور العرفان ص 406 پارہ 17 سورۃ الحج آیت نمبر 52 حاشیہ نمبر 11
جبکہ مولوی غلام رسول سعیدی کہتا ہے:
نہ یہ ممکن ہے کہ شیطان آپ ؐ کی زبان سے کلام کرے اور نہ یہ کہ اپنی آواز کو آپ ؐ کے مشابہ کرسکے اور سننے والے اس کی آواز آپ ؐ کی آواز قرار دیں اگر بالفرض یہ ممکن ہو تو تمام شریعت سے اعتماد اُٹھ جائے گا۔
تبیان القرآن ج 7 ص 778
دوسری جگہ لکھتا ہے:
اگر شیطان آپ کی آواز کی مثل پر قادر ہو تو یہ تعظیم کے خلاف ہے اگر شیطان آپ کی آواز کی نقل اتار سکے اور لوگ شیطان کی آواز کو آپ کی آواز سمجھ لیں تو ہدایت گمراہی کے ساتھ مشتبہ ہوجائے گی۔
تبیان القرآن ج 7 ص 784
مفتی صاحب کے نظریہ پر نقد ان کے گھر کے علامہ نے کردیا کہ اس طرح تو شریعت سے اعتماد اُٹھ جائے گا ، معلوم ہوتا ہے کہ مفتی صاحب لوگوں کو شریعت سے متنفر کررہے ہیں اور بقول سعیدی یہ آپ علیہ السلام کی تعظیم کے خلاف ہے چونکہ رضا خاینت کا کام ہی یہی ہے کہ بے دین بنایا جائے تو وہ اس پر اپنا تن من دھن لگارہے ہیں اور تیسرا فتویٰ یہ دیا سعیدی صاحب نےکہ اس طرح تو ہدایت گمراہی کے ساتھ مشتبہ ہوجائے گی۔ اور یہی مفتی صاحب کی منشا ہے کہ شریعت مٹ جائے اور اس کی جگہ گمراہی پھیلے۔
14۔ مفتی صاحب لکھتے ہیں:
حضور ﷺ نے بیر معونہ والے کفار کے لیے بددعا کی۔
نور العرفان ص 80 پارہ نمبر 4 سورۃ ال عمران آیت نمبر 128 حاشیہ نمبر 9
جبکہ سعیدی صاحب لکھتے ہیں:
واضح رہے کہ رسول اللہ ﷺ نے جو احزاب کی شکست اور ان کے قدم اکھڑنے کی دعاء فرمائی ہے اس کو بد دعا کہنا جائز نہیں اور ایسا کہنا رسول اللہ ﷺ کی سخت توہین ہے۔
آگے لکھتے ہیں:
یہ نہایت بے ادبی اور سخت توہین ہے۔
شرح مسلم ج 5 ص 300
بقول سعیدی، مفتی صاحب نے حضورﷺ کی دعا کو بد دعا کہہ کر سخت توہین و بے ادبی کی ہے۔ بریلوں کو شرم وحیا سے کام لینا چاہیے کہ عشق و محبت کا دعوی کرکے رہے ہیں اور کرتے سرکار طیبہ ﷺ کی سخت توہین ہیں۔ حیرت یہ ہے کہ جو سخت تو ہین و بے ادبی کرے وہ اس ملت بریلویہ کا حکیم الامت بن جاتا ہے۔ واہ واہ رضاخانیو! تمہاری قسمت۔
15۔ مفتی صاحب لکھتے ہیں:
جن پیغمبروں یا جن کتابوں کا قرآن نے ذکر نہ کیا وہ گم ہو کر رہ گئے کوئی انہیں جانتا بھی نہیں۔
نور العرفان ص 17 پارہ 1 سورۃ البقرۃ آیت نمبر 91 حاشیہ نمبر 10
جبکہ قرآن پاک نے تو ان کا اجمالی ذکر کیا ہے ان کے متعلق یہ کہنا کیا بریلوی مناسب سمجھتے ہیں ؟
16۔ مفتی صاحب لکھتے ہیں:
رب ان کو (والدین مصطفی ﷺ ) دوزخ میں ہرگز نہ بھیجے گا تاکہ محبوب کو ایذا نہ ہو۔
نور العرفان ص 892 پارۃ 30 سور ۃ ضحی آیت نمبر 5 حاشیہ نمبر 6
اس کا مطلب تو یہی ہوا کہ میرٹ اور استحقاق کی وجہ سے جنت میں نہیں جائیں بلکہ وہ اس لیے جائیں گے کہ آپ علیہ السلام کو تکلیف نہ ہو۔ اور یہ بھی معلوم ہوا کہ مستحق تو جہنم کے ہیں جنت کے نہیں۔ کیا مفتی صاحب آپ اپنے آپ کو عاشق کہلوانے کے مستحق ہیں اور یہ بھی معلوم ہوا کہ ایمان کی وجہ سے جنت جانا نہیں بلکہ حضور علیہ السلام کو تکلیف نہ ہو اس وجہ سے ہے۔
اگر ایمان نہ ہونے کے باوجود بھی جنت میں لے جایا جائے تو اس سے بریلوی حضرات وقوع کذب کے قائل ہوگئے۔ جو الزام ہم پر ہے وہ گھر سے ثابت ہوگیا یعنی خدا نے تو فرمایا مشرک پر جنت حرام ہے یہ مشرک بھی مان رہا ہے اور جنتی بھی تو خدا کو اس نے کاذب مان لیا۔ العیاذباللہ 
واضح رہے کہ ہم آپ علیہ السلام کے والدین کے ایمان کے قائل ہیں سردار طیبہ ﷺ کی وجہ سے ایمان ان کو ملا اور وہ جنت میں جائیں گے۔
عظمت صحابہ کرام اور نور العرفان
1۔ مفتی صاحب لکھتے ہیں:
جن جنتی لوگوں کے دلوں میں کینہ وغیرہ تھے یہاں (جنت ) دور کردیے جائیں گے جیسے حضرت علی و امیر معاویہ رضی اللہ عنہما۔
نور العرفان ص 318 پارہ 14 سورۃ نحل آیت نمبر 47 حاشیہ نمبر 4
مفتی صاحب نے سیدنا امیر معاویہ ؓ اور حضرت علی ؓ کے دلوں میں کینہ ثابت کیا ہے حالانکہ ہمارا ایمان ہے کہ ان میں کینہ نہ تھا۔ بلکہ بحکم قرآن رحماء بینھم تھے مگر مفتی صاحب کی کوشش یہ ہے کہ اسلام سے لوگوں کو متنفر کیا جائے اور دوسری بات یہ ہے کہ رضا خانیت رفض کی آل و اولاد ہے اس لیے صحابہ رضی اللہ عنہم کی دشمنی ان میں بھی اثر کیے ہوئے ہے۔
2۔ مفتی صاحب ان صحابہ ؓ کے متعلق جو احد میں مال غنیمت اکھٹا کرنے کے لیے چلے گئے، لکھتے ہیں
جو مرکز چھوڑ کر غنیمت لینے چلے گئے وہ طالب دنیا تھے۔
نور العرفان ص 84 پارہ 4 سورۃ ال عمران آیت نمبر 152 حاشیہ نمبر 1
آپ بخوبی جانتے ہیں حدیث میں طالب دنیا کو کیا کہا گیا ہے اور یہ مفتی صاحب کو بھی علم تھا مگر رفض کے اثر کی وجہ سے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم پر چوٹ کرنے سے باز نہیں آئے۔
جب قرآن نے طالب دنیا نہیں کہا تو مفتی صاحب کو کیا حق پہنچتا تھا کہ ان صحابہ کو طالب دنیا کہیں؟ مگر رفض کی رگ پھڑکی اور یہ عمل وجود میں آیا۔
3۔ مفتی صاحب لکھتے ہیں:
امیر معاویہ حضرت علی کے دشمن نہ تھے خون عثمانی کی وجہ سے مخالف تھے دشمنی اور مخالفت میں زمین و آسمان کا فرق ہے۔
نورالعرفان ص 296 پارہ 13، نمبر 91 حاشیہ نمبر 4
جبکہ مفتی صاحب لکھتے ہیں کہ مخالفت کا جھگڑا کفر ہے اسی طرح حضرت علی اور امیر معاویہ رضی اللہ عنہما کا اختلاف ہے۔
نور العرفان ص 766، پارہ نمبر 9 سورۃ انفال آیت نمبر 5 حاشیہ نمبر 9
کتنی دلیری سے سیدنا امیر معاویہ ؓ پر کفر کا فتوی لگا رہے ہیں اب بھی آپ کو سنی کہا جائے؟ آپ کو سنیت کی ہوا ہی نہیں لگی۔ ظاہراً باطناً شیعت کا ظہور ہے مگر ذیاب فی ثیاب۔ ہیں تو آپ شیعہ مگر لبادہ سنیت کا اوڑھ کر آئے اور اس پر ہم کافی سارا مواد رکھتے ہیں کہ مولوی احمد رضا خان بریلوی اصلاً و وصلاً ونسلاً شیعہ ہے اگر تفصیل مطلوب ہو تو ہماری کتاب فرقہ بریلویت کا تحقیقی جائزہ اور علامہ خالد محمود مدظلہ کی کتاب مطالعہ بریلویت ملاحظہ فرمائیں۔
4۔ مفتی صاحب لکھتے ہیں:
حضرت علی مرتضی ؓ اور امیر معاویہ نے صلح کے لیے ابو موسی اشعری اور عمرو بن عاص کو اپنا پنچ مقرر فرمایا۔
نور العرفان ص 132 ، سورۃ نساء آیت نمبر 35 حاشیہ 6 مطبوعہ ادارہ کتب اسلامیہ گجرات
قارئین ذی وقار ہمیں معلوم ہوگیا کہ پچھلی باتوں سے کہ اگر مفتی صاحب رافضی نہ سہی تو اثر ان کا ضرور رکھتے ہیں۔ اب ان صحابہ ؓ کے اسماء عامیوں کے ناموں کی طرح لکھے ہیں اگر حب صحابہ ؓ ہوتی تو مفتی صاحب کم از کم حضرت اور رضی اللہ عنہ تو لکھ ہی دیتے مگر اسی پرانے مرض کے مریض ہونے کی وجہ سے مفتی صاحب نے اپنا صحیح رخ دکھانے کے لیے تحریر کو اس طرح لکھا کہ لوگ میری حقیقت سمجھ سکیں۔