عقیدہ نمبر 1 تا 25

User Rating: 4 / 5

Star ActiveStar ActiveStar ActiveStar ActiveStar Inactive
 
عقیدہ نمبر1:
ہمارے نزدیک اور ہمارے مشائخ کے نزدیک حضور اکرم ﷺ کے روضۂ پاک کی زیارت کرنا بہت بڑا ثواب ہے بلکہ واجب کے قریب ہے اگرچہ سفر کرنے اور جان و مال خرچ کرنے سے نصیب ہو۔
خلاصہ عقائد علماء دیوبند صفحہ216
اعتراض:
نبی اکرم ﷺ کاروضہ مقدس جگہ ہے لیکن اس کی نیت سے سفر شریعت میں ممنوع ہے۔
قال النبیﷺ لاتشد الرحال الا الی ثلاثۃ مساجد، المسجد الحرام والمسجد الاقصٰی ومسجدی ھٰذا
اس حدیث میں آپﷺ نے بیت اﷲ، بیت المقدس اور مسجد نبوی ﷺ کے علاوہ کسی مقام، قبر اور علاقہ کی طرف بنیتِ ثواب سفر کرنے سے منع فرمایا ہے۔
بخاری، مسلم، ابن ماجہ، نسائی، مسند احمد
نوٹ: اس بارے میں جواز کی روایات ساری موضوع ہیں۔
کل حدیث یروی فی زیارۃ قبر النبی فانہ ضعیف بل موضوع
فتاوٰی ابن تیمیہ جلد14صفحہ نمبر14، الکامل فی الضعفاء لابن عدی جلد6 صفحہ351
(موازنہ کیجئے صفحہ 2۔3،از مولوی نصیب شاہ سلفی)
جواب:
شاہ صاحب نے اس اعتراض میں دو دعوے کیے ہیں :
1: نبی کریم ﷺ کے روضۂ مقدس کی نیت سے سفر کرنا شریعت اسلامی میں ممنوع ہے۔
2: اس بارے میں جواز کی ساری روایات موضوع ہیں۔
پہلے دعویٰ کا جواب:
نبی کریمﷺ کے روضہ مقدس کی نیت سے سفر کرنا شریعت میں ممنوع نہیں بلکہ جائز و مستحب اور بہت اجر وثواب والی چیز ہے، ائمہ دین نے اس موضوع پر کافی و شافی بحث فرمائی ہے۔
قاضی عیاض مالکی رحمہ اللہ تعالی نے اپنی کتاب ’’الشفاء بتعریف حقوق المصطفٰی‘‘ جلد 2 صفحہ 53 پر ایک مستقل فصل فی حکم زیارۃ قبرہٖﷺ کے عنوان سے تحریر فرمائی ہے۔ باذوق افراد کے لیے حوالہ کافی ہے۔
زیارت قبر النبیﷺ میں غیر مقلدین کے مقتداؤں کی رائے
شاہ صاحب کی تسکین قلب اور آنکھوں کی ٹھنڈک کے لیے اس جگہ صرف اور صرف شاہ صاحب کے مقتداؤں کے اقوال نقل کیے جاتے ہیں۔
عقیدہ زیارت قبر النبیﷺ نواب وحید الزمان کی نظر میں :
غیر مقلدین کے مشہور و معروف عالم نواب وحید الزمان حیدر آبادی نے اس مسئلے پر بحث کرتے ہوئے لکھاہے
قلت ھٰذا الکلام عجیب فان مسئلۃ شد الرحال الی غیر المساجد الثلٰثۃ مختلف فیہ من زمن الصحابۃ والتابعین حتی سافر ابوھریرۃ لزیارۃ الطور وکثیر من علماء السلف والخلف جوزوا السفر لزیارۃ قبور الانبیاء والصلحاء مثل امام الحرمین والغزالی والسیوطی وابن حجر المکی وابن الھمام والحافظ ابن حجر والنووی وغیرھم فھل کانوا ھؤلاء کافرین مشرکین بل یلزم ان یکون کفرھم اشد علی مذھب ھٰذا القائل لانھم والعیاذ باللہ ما اقتصروا علی ارتکاب الشرک والکفر بل جوزوا الشرک والکفر
ہدیۃ المہدی صفحہ 31
ترجمہ: میں اس عجیب کلام میں کہتاہوں مساجد ثلاثہ کے علاوہ کسی اور طرف بغرض زیارت سفر کرنا صحابہ رضی اللہ عنہم کے زمانے سے مختلف فیہ ہے، یہاں تک کہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے طور کی زیارت کے لیے سفر کیا۔ اور سلف و خلف کے بہت سے علماء نے انبیاء وصلحاء کی قبروں کی زیارت کے سفر کو جائز قرار دیاہے۔مثلاً امام الحرمین، غزالی، سیوطی، ابن حجر مکی، ابن الہمام، حافظ ابن حجر، نووی رحمہم اللہ اور ان کے علاوہ دوسرے علماء۔ تو کیا یہ لوگ کافر و مشرک تھے؟ بلکہ اس قائل کے مذہب پر ان کا کفر اوربھی شدید ہوگاکیونکہ وہ العیاذ باﷲ نہ صرف کفر و شرک کے مرتکب ہوئے بلکہ انہوں نے کفر و شرک کو جائز بھی کہا۔
نواب سید نور الحسن کی رائے:
نواب سید نور الحسن خان اپنی مایہ ناز کتاب ’’عرف الجادی ‘‘ کے صفحہ 102 پر لکھتاہے
مگر دو سہ حدیث کہ سندش لابأس بہ ست ودلالتش برفضل زیارت است
عرف الجادی صفحہ 102
ان دو حوالوں سے یہ بات واضح ہوگئی کہ یہ عقیدہ سلف صالحین اور غیر مقلدین کے پیشواؤں کابھی ہے۔ شاہ صاحب کی تسلی کے لیے ان کے پیشواؤں کے اقوال بھی پیش کیے ہیں حالانکہ اس عقیدے کے بارے میں صحیح اور حسن احادیث بھی موجود ہیں۔
حدیث لاتشد الرحال ائمہ حدیث اور غیر مقلدین کی نظر میں :
اس روایت کو امام بخاری رحمہ اللہ تعالی نے باب
فضل الصلوٰۃ فی مسجد المکۃ والمدینۃ
میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کے طریق سے نقل کیاہے اور مسجد بیت المقدس کی فضیلت کے باب میں حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت کیاہے۔
اور امام مسلم نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے اس حدیث کو نقل کیاہے۔ ان احادیث میں صرف مساجد ثلاثہ میں نماز کی فضیلت کا بیان ہے کہ یہ مساجد اپنے فضائل کی وجہ سے تمام مساجد سے برتر ہیں۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ تعالی کی رائے:
صحیح بخاری شریف کے شارح حضرت علامہ حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں
ان المراد حکم المساجد فقط وانہ لاتشد الرحال الی مسجد من المساجد للصلوٰۃ فیہ غیر ھٰذہ الثلٰثۃ واما القصد غیر المساجد لزیارۃ صالح او قریب او صاحب او طلب علم او تجارۃ او نزھۃ فلا یدخل فی النھی ویؤید ما رواہ احمد من طریق شھر بن حوشب
فتح الباری جلد 3 صفحہ65
ترجمہ: اس سے محض مساجد کا حکم مراد ہے اور یہ کہ ان تین مساجد کے علاوہ نماز کی نیت سے کسی مسجد کا سفر نہ کیا جائے۔ البتہ کسی نیک آدمی، عزیز یا ساتھی سے ملنے یا علم حاصل کرنے یا تجارت وغیرہ کےلیے کیا جائے تو وہ منع نہیں ہے۔ امام احمد نے شہربن حوشب کے طریق سے جو روایات نقل کی ہے اس سے بھی اس بات کی تائید ہوتی ہے۔
اور آگے چل کر لکھتے ہیں:
فیبطل بذلک قول من منع شد الرحال الی زیارۃ القبر شریف وغیرہ من قبور الصالحین
فتح الباری جلد3 صفحہ 66
یعنی یہ حدیث ان حضرات کے قول کی تردید کرتی ہے جو رسولِ اکرمﷺ اور صلحاء کی قبور وغیرہ کی زیارت کے لیے شد الرحال سے منع کرتے ہیں۔
مشہور غیر مقلد علامہ وحید الزمان کی رائے:
غیر مقلدین کے مشہور و معروف عالم وحید الزمان لکھتے ہیں کہ امام الحرمین اور نووی اور سبکی اورحافظ ابن حجر اور امام غزالی اوربہت سے علماء دین کا قدیماً وحدیثاً مذہب یہ ہے کہ اولیاء، صلحاء رحمہم اللہ اور انبیاء علیہم السلام کی قبور کی زیارت کے لیے سفر کرنا درست ہے۔
حدیث لاتشد الرحال کے متعلق لکھتے ہیں:
اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ سوائے ان تین مساجد کے اور کسی مسجد میں نماز پڑھنے کے لیے سفر کرنا درست نہیں۔ مسجدیں سب برابر ہیں فضیلت میں۔ پس سفر کرنا کسی اورمسجد کے لیے بے فائدہ تعب ہے۔ اور اس کی مؤید وہ روایت ہے جو امام احمد کی مسند میں ہے کہ فرمایا آنحضرت ﷺ نے کہ نمازی کو نہیں چاہیے کہ کسی مسجد کی طرف کجاوے باندھے سوائے مسجد حرام، مسجد اقصیٰ اور میری مسجد کے۔
امام نووی رحمہ اللہ تعالی نے کہاکہ ابو محمد الجوینی نے جو سوائے ان تین مساجد کے اور کہیں سفر کو حرام کہا تو یہ ان کی غلطی ہے۔ امام غزالی رحمہ اللہ تعالی نے احیاء میں کہاکہ بعض علماء نے اس حدیث کی رو سے (یعنی لاتشد الرحال) منع کیا ہے علماء اور صالحین کی قبروں کی زیارت کے لیے سفر کرنے سے اورہم کہتے ہیں کہ یہ سفر جائز ہے اس حدیث کے اطلاق سے کہ کنت نھیتکم عن زیارۃ القبور فزوروھا اورآیا یہ لوگ منع کرتے ہیں انبیاء کی زیارت کے لیے سفر کرنے سے بھی؟ جیسے حضرت ابراہیم علیہ السلام ، حضرت موسیٰ علیہ السلام یاحضرت یحيٰ علیہ السلام کی قبر کی زیارت کے لیے اگر اس کو منع کرتے ہیں تومحال ہے اور جو جائز رکھتے ہیں تو پھر انبیاء اور دوسرے صلحاء اور علماء کا بھی قیاس ممکن ہے اور حدیث سے اور کسی مسجد کی طرف سوائے ان تین مسجدوں کے سفر کرنے کی ممانعت مقصود ہے کیونکہ اور سب مسجدیں فضیلت میں برابر ہیں۔ بر خلاف اولیاء، انبیاء اور صلحاء کے مزارات کہ ہر ایک مزارمیں جدا جدا فیوض اور برکات ہیں اور ایک دوسرے سے فائق اورافضل ہیں ، انتہیٰ مختصراً۔
سنن ابن ماجہ مترجم علامہ وحید الزمان جلد 1 صفحہ 701
ان حوالہ جات سے جہاں یہ بات ثابت ہوگئی کہ اس حدیث کا زیارت قبر النبیﷺ سے کوئی تعلق نہیں وہاں یہ بات بھی ثابت ہوگئی کہ سلف صالحین اورخود غیر مقلدین کے اکابر کے نزدیک روضہ اقدس کے لیے سفر کرنا جائز ہے اور جو حضرات منع کرتے ہیں وہ غلطی پر ہیں۔
دوسرے دعوے کا جواب:
شاہ صاحب نے علامہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ تعالی کے حوالے سے دوسرا دعویٰ یہ کیا ہے کہ اس بارے میں جواز کی تمام روایتیں موضوع ہیں۔
بحوالہ فتاویٰ ابن تیمیہ
اس میں کوئی شک نہیں کہ شیخ الاسلام علامہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ تعالی علم و کمالات میں بے نظیر تھے، جبال العلم تھے اور کتاب و سنت کے بڑے عالم تھے۔ ان کا علم و فضل اور کتاب وسنت پر وسعت نظری اپنی جگہ مسلم ہے، لیکن جس طرح ہر عالم کی بات کو جوں کا توں قبول نہیں کیا جا تا بلکہ کتاب و سنت اور متقدمین اکابر کے عقائد واعمال کے میزان پر پرکھا جاتاہے اسی طرح علامہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ تعالی کی بات کو بھی کتاب و سنت اورمتقدمین اکابر کے عقائد و اعمال کے میزان پر پرکھاجائے گا۔ اکابرین امت نے علامہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ تعالی کے اس قول کی تردید کی ہے کہ نبی اکرمﷺ کے روضۂ اقدس کی زیارت کرنا جائز نہیں۔
علامہ حافظ ابن حجر اور علامہ قسطلانی رحمہا اللہ تعالی کی رائے:
علامہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ تعالی اور علامہ قسطلانی رحمہ اللہ تعالی نے اس قول کو من اقبح الاقوال لکھا ہے۔
فتح الباری جلد 3 صفحہ53، ارشاد الساری جلد 2 صفحہ 344
علامہ صفی الدین بخاری رحمہ اللہ تعالی کی رائے:
علامہ صفی الدین بخاری رحمہ اللہ تعالی نے علامہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ تعالی کی حمایت میں ایک رسالہ ’’القول الجلی‘‘ لکھا ہے انہوں نے ابن تیمیہ رحمہ اللہ تعالی کے اس قول کے متعلق لکھاہے کہ
ھو مخطی فی ذٰلک اشد الخطا
یعنی اس مسئلہ میں وہ زیادہ شدید خطا کر گئے۔
تسعہ رسائل صفحہ 119
علامہ سبکی رحمہ اللہ تعالی کی رائے:
علامہ سبکی رحمہ اللہ تعالی علامہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ تعالی کے اس قول کی تردید کرتے ہوئے رقمطراز ہیں
وقولہ ان ما ذکرہ من الاحادیث فی زیارۃ قبرالنبیﷺ فکلما ضعیفۃ باتفاق اھل العلم بالحدیث بل ھی موضوعۃ لم یرو احد من اھل السنن المعتمدہ شیئًا منھا بینا بطلان ھٰذہ الدعوی فی اول ھٰذا الکتاب
یعنی علامہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ تعالی کا یہ کہنا کہ زیارت قبر النبیﷺ کے سلسلے کی جس قدر احادیث ہیں وہ سب کی سب اہل علم کے نزدیک ضعیف بلکہ موضوع ہیں اورکسی معتبر صاحب سنن نے اس کو روایت نہیں کیا اور اس کتاب کے شروع میں، میں نے اس بات کا بطلان ظاہر کردیاہے۔
غیر مقلد سید نورالحسن کی رائے:
غیر مقلدین کے پیشوا علامہ سید نور الحسن بن نواب صدیق حسن خان اپنی مشہور کتاب عرف الجادی میں علامہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ تعالی کے مذکورہ قول کو صارم منکی کے حوالے سے نقل کرکے آخر میں اپنا فیصلہ یوں بیان کرتے ہیں۔
مگر دو سہ حدیث سند لابأس بہ ست ودلالتش بر فضل زیارت ست
عرف الجادی صفحہ102
ان حوالہ جات سے یہ بات واضح ہوگئی کہ زیارت قبر کے متعلق ساری روایات ضعیف اورموضوع نہیں بلکہ صحیح اور حسن احادیث بھی موجود ہیں۔ نیز امت کے تعامل متواتر سے ان احادیث کے مفہوم کی تائید ہوتی ہے اور تعامل متواتر مستقل دلیل ہے۔
الزامی جواب:
شاہ صاحب کا یہ رسالہ شیخ الاسلام علامہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ تعالی کے اقوال سے بھرا پڑاہے ہرجگہ علامہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ تعالی کے ہر عقیدے اور قول کو آنکھیں بند کرکے قبول کیاہے گویا اندھی تقلید کی ہے۔جب تقلیدآپ کے نزدیک گمراہی ہے تو علامہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ تعالی کی ہر بات کو حق باطل کا میزان کیوں بنایا ہواہے؟دوسروں کے عقائد و نظریات کے خلاف اگر علامہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ تعالی آپ کے لیے حجت ہیں تو اپنے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے؟
علامہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ تعالی مسئلہ قرأت خلف الامام کے متعلق لکھتے ہیں
امام کے جہر کرنے کا مقصد یہ ہے کہ امام پڑھے اور مقتدی سنیں۔ یہی وجہ ہے کہ امام جہری نمازوں میں جب ولاالضالین پڑھتاہے تو مقتدی اٰمین کہتے ہیں اور دوسری نمازوں میں چونکہ مقتدی سنتے نہیں اس لیے وہ اٰمین نہیں کہتے۔اگر امام بھی قرأت کر رہاہواور مقتدی بھی پڑھتے ہوں تو اس کامطلب یہ ہوگاکہ امام کو یہ حکم دیا جارہاہے کہ تم ایسے لوگوں کو سناؤ جو اس کے لیے آمادہ نہیں۔ اور اس قوم کو خطبہ اوروعظ کہو جو توجہ نہیں کرتی۔ اور یہ ایسی کھلی حماقت ہے جس سے شریعت مطہرہ کادامن بالکل پاک ہے۔
ایک حدیث میں آیاہے کہ جو شخص خطبہ امام کے وقت باتیں کر رہاہو تو اس کی مثال ایسی ہے جیسے گدھے پرکتابوں کا بوجھ لادھا گیاہو ایسے ہی وہ شخص ہے جو جہری نمازوں میں امام کے پیچھے قرأت کرتاہو۔
فتاویٰ ابن تیمیہ رحمہ اللہ تعالی جلد 2 صفحہ 147
عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ کی حدیث لاتفعلوا الا بام القرآن کے متعلق فرماتے ہیں
وھٰذا الحدیث معلل عند ائمۃ الحدیث بامور کثیرۃ ضعفہ احمد وغیرہ من الائمۃ
جلد 23 ص286
کہ یہ حدیث معلل ہے ائمہ حدیث کے نزدیک بامور کثیرہ کے حتی کہ امام بخاری کے استاد امام احمد رحمہ اللہ تعالی اوردوسرے ائمہ نے اس کو ضعیف قرار دیاہے۔
ہر وقت ہر گھڑی قال شیخ الاسلام قال شیخ الاسلام کی رٹ لگانے والے شاہ صاحب اور ان کی پوری جماعت زہر کا کڑوا گھونٹ پی کرمرنے کے لیے تو تیار ہے لیکن شیخ الاسلام کے اس قول کو ماننے کے لیے تیار نہیں ، اس کی اصل وجہ بقول شخصے
میٹھا میٹھا ہپ ہپ
کڑوا کڑوا، تھو تھو
غیر مقلدین کے گمراہ کن عقائد
عقیدہ نمبر1:
غیر مقلدین کے نزدیک روضۂ اقدس کو گرانا واجب ہے۔
مشہور غیرمقلد نواب نور الحسن خان عرف الجادی صفحہ 60 پر لکھتا ہے: ’’روضۂ اطہر کو گرانا واجب ہے۔‘‘
عرف الجادی صفحہ 60، الروضۃ الندیہ صفحہ 178
عقیدہ نمبر 2:
مرزائیوں کی تعزیت اور شادی کی دعوت وغیرہ میں جانا جائز ہے۔ ملاحظہ فرمائیں۔
مشہور غیر مقلد مناظر مولانا امرتسری لکھتے ہیں
مرزائیوں سے تعزیت کرنا، دعوتِ شادی قبول کرنا، رسمی سلام کرنا اور مسجد میں چندہ لینا جائز ہے۔
فتاوی ثنائیہ جلد 1 ص433
عقیدہ نمبر2:
سفر مدینہ منورہ کے وقت آنحضرت ﷺ کی زیارت کی نیت کرے اور ساتھ ہی مسجد نبویﷺ اور دوسری جگہوں کی نیت کرلے۔ بلکہ بہتر یہ ہے کہ جیساکہ علامہ ابن ہمام نے فرمایا کہ خالص قبر مبارک کی نیت کرے کیونکہ اس میں حضورﷺ کی تعظیم زیادہ ہے۔
خلاصہ عقائد علماء دیوبند ص216
اعتراض:
لعن اللہ الیھود والنصٰرٰی اتخذوا قبور انبیائھم مساجد وفی لفظ الا فلا تتخذوا القبور مساجد فانی انھاکم عن ذٰلک وفی روایۃ اللھم لاتجعل قبری وثنا یُعبد
بخاری و مسلم
مذکورہ احادیث کا خلاصہ یہ ہے کہ وہ لوگ جو انبیاء کی قبروں کو عبادت خانہ بناتے اور وہاں عبادت کی نیت سے سفر اور دیگر کام کرتے ہیں وہ یہودو نصاریٰ جیسے ملعون ہیں نیز جو روایتیں اس عقیدہ کے خلاف ہیں وہ سب جھوٹ وبناوٹ پر مبنی ہیں۔
وقال شیخ الاسلام ابن تیمیۃ رحمہ اللہ تعالی فکل ھٰذہ الاحادیث مکذوبۃ موضوعۃ۔
فتاویٰ 14 ص9
موازنہ کیجئے صفحہ نمبر3۔4
جواب:
اس اعتراض میں شاہ صاحب نے حدیث لعن اﷲ الیھود والنصٰرٰی ذکر کی ہے۔اس حدیث سے شاہ صاحب کا مدعا ثابت نہیں ہوتا کیونکہ اس حدیث میں قبر یا صاحب قبر کی تعظیم کی خاطر قبر کے اوپر یا قبر کی طرف نماز پڑھنے، قبر پر سجدہ کرنے اور ان پر مساجد تعمیر کرنے سے منع کیاگیا ہے نہ کہ زیارت قبر النبیﷺ کی نیت سے سفر کرنے سے۔
کیونکہ یہی عمل سابقہ امم میں شرک یعنی قبر اور اہل قبور کی عبادت کا ذریعہ بنا۔ شارع علیہ الصلوٰۃ والسلام ان اعمال پر نہی وارد کرکے امت پر اس راستے کوہی بند کردیا تاکہ یہ امت سابقہ امتوں کی طرح گمراہی میں مبتلا نہ ہو۔
نبی کریمﷺ نے اﷲ تعالیٰ سے دعا کی تھی کہ اے اﷲ میری قبر کو سجدہ گاہ نہ بنائیو۔ یہی وجہ ہے کہ آج مسلمانوں میں کوئی بھی ایسا شخص نہیں جو نبی کریمﷺ کی قبر کی تعظیم کرتے ہوئے اس کی طرف سجدہ کرتاہو یا نماز ادا کرتاہو۔
مذکورہ حدیث علامہ ناصر الدین البانی کی نظر میں :
غیر مقلدین کے مشہور و معروف عالم علامہ ناصر الدین البانی نے اس حدیث کے وہی معنی مراد لیے ہیں جو اوپر مذکور ہیں۔ یعنی قبر کی طرف رخ کرکے نماز ادا کرنا، قبر پر سجدہ کرنا اور اس پر مسجدیں تعمیر کرنا، چنانچہ علامہ البانی اس حدیث کے مختلف طرق ذکر کرنے کے بعد اخیر میں لکھتے ہیں ’’قبروں کو مسجدیں بنانے کے سلسلے میں جو احادیث وارد ہوئی ہیں وہ متعدد امور کو شامل ہیں ‘‘۔
1 ان کی طرف رخ کرکے نماز ادا کرنا۔
2 قبروں پر سجدہ کرنا۔
3 ان پر مسجدیں تعمیر کرنا۔
احکام الجنائز، ص254 تا ص258 علامہ البانی مترجم ابو عبدالرحمن بشیر نور
علامہ نووی رحمہ اللہ تعالی کی رائے:
علامہ نووی رحمہ اللہ تعالی نے اس حدیث پر یوں باب باندھا ہے
باب النھی عن بناء المسجد علی القبور…الخ
ان حوالہ جات سے ثابت ہوگیاکہ اس حدیث کا جو معنی و مطلب شاہ صاحب نے لیاہے وہ صحیح نہیں۔ باقی رہاشاہ صاحب کایہ کہنا کہ جو روایتیں اس عقیدے کے خلاف ہیں وہ جھوٹ اور بناوٹ پر مبنی ہیں۔ اس کا جواب موازنہ نمبر1 کے تحت گزر چکاہے۔
الزامی جواب:
غیر مقلدین کے نزدیک نبی کریم ﷺ کے روضۂ اقدس کی زیارت کی نیت سے سفرکرنا تو ناجائز ہے لیکن قبروں کے پاس سجدہ کرنا، رکوع و طواف کرنا شرک نہیں بلکہ جائز ہے، ملاحظہ فرمائیں۔
علامہ وحیدالزماں لکھتے ہیں
قبروں کے پاس سجدہ کرنا یا رکوع اور طواف کرنا جبکہ مقصود ان افعال سے صرف علماء اور شعائر کی تعظیم ہو ان کی عبادت کا ارادہ نہ ہو تو ایسا کرنے والا دیانتاً مشرک نہ ہوگا۔
ہدیۃ المہدی صفحہ 13،14
انہی علامہ صاحب نے دوسرے مقام پر لکھاہے:
کسی نبی یا ولی کی قبر کے پاس سجدہ کرنا یا رکوع کرنا یا اس کو بوسہ دینا اور مقصد صرف قبر والے کو سلام کرنا ہو اس کی عبادت کرنا مقصود نہ ہو تو ایسا شخص گنہگار تو ضرور ہے البتہ اس کو مشرک نہیں کہہ سکتے۔
صفحہ15
قارئین کرام ! ہدیۃ المہدی اہل حدیث مذہب کی معتبر کتاب ہے اس کتاب کے ٹائٹل پرلکھاہوا ہے۔’’مشتمل برعقائد اہل حدیث‘‘ نیز اس کتاب کے دیباچہ سے صاف پتہ چلتاہے کہ اس کا مؤلف اہل حدیث عالم ہے. چنانچہ صفحہ 3 پر لکھتاہے
ثم رأیت انہ بحمداللہ شاع العمل بالحدیث وسعی الناس الیہ سیما اھل الھند سعیا حیث قد کشفت عن وجوہ الدین ظلمات المبتدعین المقلدین ونورت الارض بانوار الھدایۃ والیقین تزید عدد العاملین بالحدیث یوما فیوما وتجلب علی المقلدین نقصًا ولومًا حتی انہ ما بقیت قریۃ صغیرۃ ولاکبیرۃ الا وقد جمعت من اھل الحدیث طائفۃ کثیرۃ او یسیرۃ ولاتزال التقلید نقص اطواقھا وتنکس اعلامھا
صفحہ 3
ترجمہ:
پھر میں نے دیکھاکہ بحمداﷲ حدیث کے ساتھ اشاعت عمل اور اس پر بطور خاص ہندوستان کے لوگ کوشش کرتے ہیں اور بیشک ان پر دین کی وجوہ اور بدعتی مقلدین کی ذلت کھل گئی اور زمین انوارِ ہدایت و یقین کے ساتھ منور ہوگئی اور عاملین بالحدیث کی تعداد میں دن بدن اضافہ ہورہا ہے اور مقلدین پر طعن و ملامت کررہے ہیں یہاں تک کہ کوئی چھوٹی اور بڑی بستی ایسی نہیں جہاں زیادہ یاکم اہل حدیث جماعت نہ ہو تقلید کے طوق اتر رہے ہیں اور اس کے جھنڈے سرنگوں ہو رہے ہیں۔ اور صفحہ 5 پر لکھتے ہیں
وقد قسمت ھٰذا الکتاب علی جزئین الجزء الاول فی اصول الایمان ویکتب فیھا العقائد الصحیحۃ لاھل الحدیث والجماعۃ
یعنی میں نے اس کتاب کو دو جزؤں میں تقسیم کیاہے پہلا جزء اصول ایمان میں ہے اور اس میں میں نے اہل حدیث اور جماعت کے عقائد صحیحہ کو بیان کیاہے۔اور صفحہ 90 پر لکھاہے
ولایزال طائفۃ من ھٰذہ الامۃ قائمۃ بامر اﷲ لایضرھا من خذلھا حتی یأتی امر اﷲ وھی طائفۃ اصحاب الحدیث کثرھااللہ تعالیٰ واقامھا وھی الفرقۃ الناجیۃ المنصورۃ کما فسرھا النبیﷺ حیث قال ما انا علیہ واصحابی وفی روایۃ اخری الذین یصلحون ما افسد الناس من سنتی ولم یکنﷺ ولا اصحابہ احناف ولا شوافع بل کانوا عاملین بالکتاب والسنۃ
ترجمہ:
اور اس امت سے ایک گروہ ہمیشہ اﷲ تعالیٰ کے امر کے ساتھ قائم رہے گا اس کی رسوائی سے اس کا نقصان نہیں ہوگا۔ یہاں تک کہ اﷲ تبارک و تعالیٰ کا امر آجائے اور یہی گروہ اصحاب حدیث کا ہے۔اﷲ تعالیٰ ان کو زیادہ کرے اور قائم رکھے اور یہی نصرت دیا گیاناجی فرقہ ہے جیساکہ اس کی تفسیر فرماتے ہوئے رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا جس پر میں اور میرے صحابہ رضی اللہ عنہم ہیں اور دوسری روایت میں ہے کہ وہ میری سنت سے لوگوں کے فساد کی اصلاح کرتے ہیں اور حضورﷺ اور آپ کے صحابہ نہ حنفی تھے نہ شافعی بلکہ کتاب و سنت کے عامل تھے۔
یہ چند حوالے آپ کے سامنے بطور نمونہ کے ذکر کیے ہیں ورنہ اس کتاب میں اوربہت سے حوالے موجود ہیں جو اس بات پر دلالت کرتے ہیں کہ یہ اہل حدیث حضرات کی بڑی معتبر اور مضبوط کتاب ہے۔
عقیدہ نمبر3:
زمین کا وہ حصہ جو جناب رسول اﷲ ﷺ کے جسد اطہر کوچھوئے ہوئے ہے سب سے افضل ہے۔ یہاں تک کہ کعبہ شریف اور عرش و کرسی سے بھی افضل ہے۔
عقائد علمائے دیوبند صفحہ 217
اعتراض:
یہ عقیدہ بدعت پر مبنی ہے۔اور اصولِ دین کے خلاف ہے، فرمانِ ربانی ہے
رب العرش الکریم
سورۃ مومنون 114، توبہ 141
ذو العرش المجید
(بروج 15)
قال القاسمی و تخصیصہ لکونہ اعظم المخلوقات
ان آیتوں میں عرش کی عظمت و کرامت و بزرگی کا ہونا اس لیے مذکور ہے کہ یہ اﷲ تعالیٰ کی مخلوق میں سب سے عظمت والا ہے کرسی کے بارے میں ہے
عن ابن عباس الکرسی موضع القدمین قال الحاکم صحیح علی شرط الشیخین
کرسی اﷲ کے قدموں کی جگہ ہے۔
ابن کثیر، قرطبی، اسماء الصفات بیہقی صفحہ 44 تفسیر احسن الکلام
اﷲ کے قدموں کی جگہ افضل ہے یا نبی کی قبر کی مٹی؟ نبی ﷺ نے فرمایا واللہ انک لخیرارض ﷲ واحب ارض ﷲ الی ﷲ یعنی اے مکہ اﷲ کی قسم تو اﷲ کو تمام زمینوں سے محبوب اور بہتر ہے۔
رواہ احمد، ابن ماجہ، ترمذی وصححہ نیل الاوطار جلد 5 صفحہ 48
بیت اﷲ کی ایک نماز ایک لاکھ کے برابر جبکہ مسجد نبویﷺ جس میں نبی مدفون ہوئے صحیح حدیث کے مطابق ایک ہزار کے برابر ہے۔دیوبندیوں نے قاضی عیاض کی تقلید کی ہے اس سے قبل یہ دعویٰ کسی نے نہیں کیاتھا۔ شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں
فلا اعلم احدا من الناس قال…… الا قاضی عیاض ولاحجۃ علیہ وقال ھٰذا اقول مبتدع فی الدین مخالفۃ الاصول الاسلام
فتاویٰ ابن تیمیہ رحمہ اللہ تعالی جلد 14 صفحہ 45 وھٰکذا شوکانی فی نیل الاوطار جلد 5 صفحہ 48
شیخ الاسلام نے فرمایاکہ یہ قول اصول اسلام کے خلاف ہے اور بدعت پر مبنی اور ہم نہیں جانتے کہ قاضی عیاض رحمہ اللہ تعالی سے قبل یہ دعویٰ کسی نے بھی کیاہو۔
موازنہ کیجئے صفحہ 4۔5
جواب:
اس اعتراض میں شاہ صاحب نے سب سے پہلے قرآن کریم کی دو آیتیں اور اس کی تفسیر میں مولانا جمال الدین قاسمی صاحب رحمہ اللہ تعالی کا قول اس کے دوسرے نمبر پر حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے کرسی کے معنی اور تیسرے نمبر پر ایک حدیث نقل کی ہے اور آخر میں علامہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ تعالی کا قول نقل کیاہے ہر ایک دلیل کا تفصیلی جواب ملاحظہ فرمائیں۔
جمال الدین قاسمی کی عبارت میں شاہ صاحب کی خیانت:
غیر مقلدین کا ہمیشہ سے یہی طریقہ کار رہاہے کہ وہ اپنے مدعا کو ثابت کرنے کے لیے ائمہ دین اور علماء کرام کی عبارتوں میں خیانت کرکے عوام الناس کو دھوکادیتے رہے ہیں۔ شاہ صاحب نے بھی اپنے ان اکابر کی سنت پر عمل کرتے ہوئے جمال الدین قاسمی صاحب کی عبارت میں خیانت کرتے ہوئے اسے ادھورا نقل کیاہے۔ عوام الناس کو دھوکے سے بچانے کے لیے مکمل عبارت نقل کی جارہی ہے۔
(وھو رب العرش العظیم ای المحیط بکل شیٔ یاتی منہ حکمہ وامرہ الی الکل وتخصیصہ لکونہ اعظم المخلوقات فیدخل مادونہ و قریٔ (العظیم) بالرفع علی انہ صفۃ الرب جل وعز
تفسیر قاسمی جلد 4 صفحہ 231
ترجمہ: اور وہ رب ہے عرش عظیم کا یعنی ہر چیز کو اپنے احاطہ میں لیاہوا ہے اور اس سے تمام مخلوقات کی طرف اﷲ کا حکم اور فیصلے آتے ہیں اور اس کے لیے عرش کی تخصیص اس لیے کی ہے کہ وہ تمام مخلوق سے بڑا ہے اور اس کے علاوہ جوکچھ ہے وہ سب اس کے اندر سما سکتے ہیں اور العظیم کو ایک قرأت میں بالرفع پڑھاگیاہے تو اس صورت میں یہ رب کی صفت ہوگی۔ قاسمی صاحب کی اس عبارت سے شاہ صاحب کا استدلال بچند وجوہ باطل ہے۔
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کے قول سے استدلال کاجواب:
شاہ صاحب نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کے قول الکرسی موضع القدمین سے استدلال کرتے ہوئے کرسی کو روضہ اقدس سے افضل قرار دیا ہے۔ حالانکہ یہ استدلال صحیح نہیں کیونکہ کرسی کے معنی میں اہلِ علم کا اختلاف ہے۔
مولانا محمد جوناگڑھی کی رائے:
مولانامحمد جوناگڑھی نے ترجمہ قرآن جوکہ سعودیہ سے چھپا ہے اس میں لکھا ہے کہ کرسی سے مراد بعض نے موضع قدمین، بعض نے قدرت و عظمت بعض نے بادشاہی اور بعض نے عرش مراد لیاہے۔
ترجمۂ قرآن جوناگڑھی تفسیر صلاح الدین یوسف پارہ3 صفحہ111
مولاناجوناگڑھی صاحب کے قول کے مطابق اس قول میں کئی احتمال ہیں اور قاعدہ ہے کہ
اذا جاء الاحتمال بطل الاستدلال
یعنی جب کئی احتمال ہوں تو استدلال باطل ہوجاتاہے، لہٰذا آپ کا یہ استدلال باطل ہے۔
شاہ صاحب کا قیاس ہمارے خلاف حجت نہیں :
قرآن و حدیث کا نام لے کر قیاس کی مخالفت کرنے والے اب خود قیاس کررہے ہیں چنانچہ شاہ صاحب لکھتے ہیں کہ اﷲ کے قدموں کی جگہ افضل ہے یا نبی ﷺ کی قبر کی مٹی؟ راقم الحروف کہتاہے کہ حضرت یہ آپ کا قیاس ہے جو ہمارے خلاف حجت نہیں۔
اﷲ کی ذات زمان و مکان کی قیود سے منزہ ہے:
درحقیقت کوئی مقام ایسا نہیں جسے اﷲ کامکان کہاجاسکے کیونکہ اﷲ تعالیٰ تو لامکان ہے اور وہ زمان و مکان کی قیودات سے منزہ وبرتر ہے عرش الٰہی کا یہ مطلب نہیں کہ اﷲ تعالیٰ ہماری طرح کرسی پر بیٹھتاہے اور بیت اﷲ کا یہ مطلب نہیں کہ اﷲ تعالیٰ اس میں رہتاہے۔ بلکہ استویٰ علی العرش وغیرہ آیات متشابہات میں سے ہیں ان کے حقیقی معنی اﷲ خود بہتر جانتاہے۔ یوں کہنا زیادہ مناسب ہے کہ استویٰ علی العرش سے وہ معنی مراد ہیں جو اس کی شان کے لائق اور مناسب ہیں۔
نوٹ: اس قسم کی آیات اور احادیث کو ظاہری وحسی معنی پر محمول کرنا فرقہ جسمیہ، مشبہہ اور کرامیہ کا مذہب ہے نہ کہ اہل السنت کا۔
شاہ صاحب کا اس حدیث سے استدلال صحیح نہیں :
شاہ صاحب نے ابن عباس رضی اللہ عنہ کے قول سے استدلال کے بعد اپنے مدعاکو ثابت کرنے کے لیے
حدیث واﷲ انک لخیر ارض اﷲ واحب ارض ﷲ الی اﷲ
پیش کی ہے۔
شاہ صاحب کا اس حدیث سے استدلال کرنا درست نہیں۔ کیونکہ ہجرت کے موقع پر جب آپﷺ مدینہ کی طرف جار ہے تھے تو فرمایا تھا
اللھم انک اخرجتنی من احب البقاع الی فاسکنی فی احب البقاع الیک
رواہ الحاکم فی مستدرکہ عن الصحیحین
یعنی اے اﷲ بے شک تو نے ہجرت کرائی مجھے محبوب ترجگہ سے تو ساکن کر مجھے اس بقعہ میں جو تجھے سب سے زیادہ پسندیدہ ہو۔ اس حدیث سے معلوم ہواکہ مدینہ بھی تمام شہروں میں سے اﷲ کے یہاں پسندیدہ ہے۔
نوٹ: اس قسم کی احادیث کے پیش نظر بعض علماء مکہ کو افضل کہتے ہیں اور بعض علماء مدینہ کو۔
ابن تیمیہ رحمہ اللہ تعالی کی تقلید:
مذکورہ حدیث سے استدلال کے بعد شاہ صاحب نے اس عقیدے میں علماء دیوبند کو قاضی عیاض رحمہ اللہ تعالی کا مقلد لکھاہے مزید یہ بھی لکھاہے کہ اس سے قبل (یعنی قاضی عیاض رحمہ اللہ تعالی سے) کسی نے یہ دعویٰ نہیں کیاتھا۔ حالانکہ ایسی کوئی بات نہیں کیونکہ اس مسئلہ پر امت کا اجماع ہے۔ البتہ شاہ صاحب نے خود علامہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ تعالی کی اندھی تقلید کی ہے۔
مسئلہ مذکورہ پر اجماع امت:
نبی کریم ﷺ کے جسد اطہر سے لگی ہوئی جگہ عرش سے افضل ہے یہ امت کا اجماعی مسئلہ ہے نہ کہ صرف قاضی عیاض رحمہ اللہ تعالی کا۔
ابن عساکر رحمہ اللہ تعالی کی رائے:
امام ابوالحسین ابن عساکر رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں
کہ وقع الاجماع علی تفضیل ماضم الاعضاء الشریفۃ حتی علی الکعبۃ
یعنی اس بات پر اجماع ہے کہ جو حصہ جسم کے ساتھ ملا ہوا ہے وہ ہر چیز سے افضل ہے حتی کہ کعبہ سے بھی افضل ہے.
جواہر البحار 2 صفحہ 1249 للبنھائی وسبل الھدی والرشاد 3 صفحہ 315
علامہ سیوطی رحمہ اللہ تعالی کی رائے:
علامہ جلال الدین سیوطی رحمہ اللہ تعالی اس مسئلہ کے بارے میں لکھتے ہیں:
قال العلماء محل الخلاف فی تفضیل بین المکۃ والمدینۃ فی غیر قبرہﷺ ام ھو فاضل ابقاع بالاجماع بل ھو افضل من الکعبۃ بل ذکر ابن عقیل الحنبلی انہ افضل من العرش
الخصائص الکبری 3 صفحہ 203، مرقاۃ شرح مشکوٰۃ 2
یعنی علماء میں جو اختلاف ہے وہ شہر مکہ و مدینہ میں افضلیت کے بار ے میں ہے لیکن جہاں تک قبر رسولﷺ کا تعلق ہے پس وہ بالاجماع افضل ہے حتی کہ کعبہ سے بھی افضل ہے بلکہ ابن عقیل حنبلی رحمہ اللہ تعالی نے لکھاہے کہ بے شک وہ عرش سے بھی افضل ہے۔
علامہ نور الدین بن برہان الدین حلبی کی رائے:
علامہ نور الدین بن برہان الدین حلبی فرماتے ہیں:
قام الاجماع ان ھٰذا الموضع الذی ضم اعضاء الشریفۃﷺ افضل بقاع الارض حتی موضع الکعبۃ الشریفۃ قال بعضھم وافضل من بقاع السمٰوٰت حتی من العرش۔
یعنی اس پر اجماع قائم ہوچکاہے کہ وہ جگہ جو نبی کریم ﷺ کے جسداطہر سے مَس ہے وہ تمام زمین سے افضل ہے حتی کہ کعبہ معظمہ سے بھی افضل ہے، بلکہ بعض نے کہاہے کہ یہ مبارک جگہ آسمانوں بلکہ عرش معلی سے بھی افضل ہے۔
سیرتِ حلبیہ 3 صفحہ366
امام نووی رحمہ اللہ تعالی کی رائے:
امام نووی رحمہ اللہ تعالی لکھتے ہیں:
قال القاضی عیاض اجمعوا علی ان موضع قبرہﷺ افضل بقاع الارض وان مکۃ والمدینۃ افضل بقاع الارض واختلفوا فی افضلھا ماعدا موضع قبرہﷺ فقال عمررضی ﷲ عنہ وبعض الصحابۃ رضی ﷲ عنہم ومالک واکثر المدینین المدینۃ افضل وقال اھل المکۃ والکوفۃ والشافعی وابن وھب وابن حبیب المالکیان مکۃ افضل
شرح مسلم 1 صفحہ 446
یعنی نبی کریمﷺ کے جسد اطہر سے لگی ہوئی جگہ بالاجماع افضل ہے اس میں کوئی اختلاف نہیں۔ باقی مدینہ اور مکہ میں کون سا افضل ہے تو اس میں علماء کا اختلاف ہے حضرت عمر رضی اللہ عنہ اور دیگر بعض صحابہ رضی اللہ عنہم اور امام مالک رحمہ اللہ تعالی اور اکثر مدینہ والوں کے نزدیک مدینہ افضل ہے اور مکہ والوں اورامام شافعی رحمہ اللہ تعالی اورمالکیوں میں سے ابن وہب اور ابن حبیب کے نزدیک مکہ افضل ہے۔
علامہ زین الدین کی رائے:
علامہ زین الدین ابوبکر بن حسین المراغی م 816ھ فرماتے ہیں:
واجمعوا علی ان الموضع الذی ضم اعضاء الرسول المصطفیٰﷺ المشرفۃ افضل بقاع الارض حتی موضع الکعبۃ کما قالہ القاضی عیاض وابن عساکر۔
یعنی اس پر اجماع ہے کہ وہ جگہ جو نبی کریم ﷺ کے اعضاء کے ساتھ مس ہے وہ تمام زمین سے افضل ہے حتی کہ کعبہ سے بھی افضل ہے جیساکہ قاضی عیاض رحمہ اللہ تعالی اور ابن عساکر رحمہ اللہ تعالی نے کہاہے۔ تحقیق النصرۃ بتلخیص معالم ذراۃ الحجرۃ صفحہ104
امام مالک رحمہ اللہ تعالی کی رائے:
امام مالک رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں:
ان البقعۃ التی فیھا جسد النبیﷺ افضل من کل شیٔ حتی الکرسی والعرش ثم المسجد النبوی ثم المسجد الحرام ثم المکۃ
یعنی جس ٹکڑا زمین میں نبی کریمﷺ کا جسد اطہر ہے وہ ہر شئے سے حتی کہ کرسی و عرش سے بھی افضل ہے اس کے بعد مسجد نبوی پھر مسجد حرام پھر مکۃ المکرمہ۔
بدائع الفوائد لابن قیم 1 صفحہ135
علامہ وحید الزمان کی رائے:
مشہور غیر مقلد عالم مترجم صحاح ستہ علامہ وحید الزمان لکھتے ہیں: سلف نے اختلاف کیاہے کہ دونوں شہروں میں کون سا افضل ہے، جمہور علماء اس طرف گئے ہیں کہ مکہ افضل ہے اور یہی قول ہے شافعی، ابن وہب، مطرف اور ابن حبیب رحمہم اللہ کا اور یہی مذہب ہے ابو حنیفہ رحمہ اللہ تعالی اور اصحابِ ابو حنیفہ رحمہ اللہ تعالی کا اور اسی کو اختیار کیاہے ابن عبد البراور ابن رشداورابن عرفہ رحمہم اللہ اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ اور ایک جماعت صحابہ رضی اللہ عنہم نے اوراکثر اہل مدینہ اور امام مالک رحمہ اللہ تعالی اور ان کے اصحاب کا قول یہ ہے کہ مدینہ افضل ہے بعض شوافع نے بھی اسی کو اختیار کیا ہے اور جانبین کی طرف دلائل بہت ہیں یہاں تک کہ ابن ابی حمزہ رحمہ اللہ تعالی نے کہاکہ دونوں شہر برابر ہیں اور سیوطی رحمہ اللہ تعالی نے کہاکہ صحیح یہ ہے کہ اس مسئلے میں توقف کرے کیونکہ دلائل ایک دوسرے کے معارض ہیں اور نفس مائل ہوتاہے مدینہ منورہ کی تفضیل کی طرف۔ پھر کیاہے جب صاحب عقل اور صاحب علم تامل کرے تو معلوم ہوتاہے کہ مکہ کو جو فضیلت ملی ہے اس قدر یا اس سے بہتر مدینہ کو بھی ملی ہے۔بلکہ سیوطی رحمہ اللہ تعالی نے خصائص میں جزم کیاہے مدینہ کے افضل ہونے کا اورمحل خلاف اس مقام کے سوا ہے جہاں پر آنحضرت ﷺ کا جسد مبارک مدفون ہے اتنا ٹکڑا توزمین اور آسمان سے بھی افضل ہے، اسی طرح جس مقام پر کعبہ ہے وہ مدینہ سے افضل ہے۔زرقانی۔
موطا امام مالک مترجم صفحہ 623،624 از علامہ وحید الزمان
اس کے علاوہ مندرجہ ذیل کتب میں بھی علماء نے اس عقیدہ کو اجماعی قرار دیا ہے۔ شفاء، شرح الشفاء، نووی شرح مسلم، رد المحتار علی در المختار 2 صفحہ278، مواھب لدنیہ، شرح مواھب، فضائل مدینہ از علامہ سمہودی، ملفوظات محدث کشمیری صفحہ268، انوار الباری 6 صفحہ 221،225حصہ 17صفحہ 380، فتح الملھم، معاف السنن 3 صفحہ 323، آپ کے مسائل اور ان کا حل 1، صفحہ 62،61
غیر مقلدین کا گمراہ کن عقیدہ:
غیر مقلدین اگرچہ نام قرآن و حدیث کا لیتے ہیں لیکن ان کے دِل میں نہ کتاب والے کی عظمت ہے یعنی اﷲ کی اور نہ حدیث والے کی یعنی رسول اﷲﷺ کی۔ یہ موضوع تفصیلی ہے صرف ایک حوالہ ملاحظہ فرمائیں۔
علامہ وحید الزمان نے لکھاہے :
انما التشبیہ ان یقال یدہ کید ناو بسمعہ کسمعنا وھٰکذا
یعنی بے شک تشبیہ یہ ہے کہ اگر کہاجائے کہ اس کا ہاتھ ہمارے ہاتھ کی طرح اور اس کی سماعت ہماری سماعت کی طرح ہے اور ایسے ہی دوسرے اعضاء۔
ہدیۃ المہدی صفحہ 15
عقیدہ نمبر4:
ہمارے نزدیک اور ہمارے مشائخ کے نزدیک دعا میں انبیاء علیہم السلام اوراولیاء اﷲ کاوسیلہ جائز ہے، ان کی زندگی میں بھی اور ان کی وفات کے بعد بھی مثلاً یوں کہے کہ اے اﷲ میں فلاں بزرگ کے وسیلہ کے ساتھ دعا کی قبولیت چاہتاہوں۔
خلاصہ عقائد علماء دیوبندصفحہ 217
اعتراض:
فوت شدہ انبیاء کرام و اولیاء کے نام سے وسیلہ پکڑنا اور دعا مانگنا اقسام بدعت میں سے ہے دورِ فاروقی میں قحط کی وجہ سے عباس رضی اللہ عنہ سے صحابہ رضی اللہ عنہم نے دعا کرائی جبکہ قبر نبی ﷺ مسجد نبوی ﷺ میں ہی واقع ہے مگر ا س مسجد سے نکل کر استسقاء کے لیے گئے اور فوت شدہ نبی کو چھوڑ کر زندہ عباس رضی اللہ عنہ کی دعا کو وسیلہ بنایا۔
بخاری فی الاستسقاء
اسی طرح خلافت معاویہ رضی اللہ عنہ میں انہوں نے یزید بن الاسود الجرسی رضی اللہ عنہ سے دعاکرائی
یا یزید ارفع یدیک الی اﷲ فرفع یدیہ ودعا ودعوا فسقوا قال شیخ الاسلام ولم یذکر احد من العلماء انہ یشرع التوسل والاستسقاء بالنبی والصالح بعد موتہ ولامغیبہ فھٰذا من الشرک وھو من دین النصاری
فتاویٰ 14 صفحہ 52 میں امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ تعالی نے فرمایا کہ علما میں کسی سے یہ ثابت نہیں کہ نبی یاصالح ولی کے مرنے یا غیب ہونے کے بعد اس کا وسیلہ پکڑنا مشروع ہو۔ چند سطور کے بعد فرماتے ہیں کہ اگر کسی شخص نے خوف یا مصیبت کے وقت اطمینان قلب کے لیے اپنے شیخ کو پکارا تو یہ شرک اور نصاریٰ کے دین کی ایک قسم ہے۔
(موازنہ کیجئے صفحہ 5)
جواب:
اس اعتراض میں شاہ صاحب نے دو حدیثیں اور علامہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ تعالی کا قول پیش کیاہے۔
شاہ صاحب کی اپنی کتب اور عقائد سے ناواقفی:
شاہ صاحب اگر اپنے اکابر کی کتب کا مطالعہ کرلیتے تو وہ علماء دیوبند پر اعتراض نہ کرتے کیونکہ ان احادیث کے بارے میں ان کے اکابر کی آراء موجود ہیں ، جو ہمارے عقیدے کی تائید کرتی ہیں۔ ملاحظہ فرمائیں۔
علامہ وحید الزمان کی رائے:
غیر مقلدین کے پیشوا حضرت علامہ وحید الزمان شاہ صاحب کی پیش کردہ حدیث وانا نتوسل الیک بعم نبیا کی تشریح کرتے ہوئے تیسیر الباری ترجمہ صحیح بخاری پارہ 4 صفحہ 77 کے حاشیہ پر لکھتے ہیں
اس حدیث سے نیک بندوں کا وسیلہ لینا ثابت ہوا۔ بنی اسرائیل بھی قحط میں اپنے پیغمبر کے اہل بیت کا توسل کرتے۔ اﷲ تعالیٰ پانی برساتا ہے اس سے یہ نہیں نکلتا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے نزدیک آنحضرت ﷺ کا توسل آپ کی وفات کے بعد منع تھا۔ کیونکہ آپ تو اپنی قبر میں زندہ ہیں۔ اور آنحضرتﷺ نے ایک صحابی کو دعا سکھائی اس میں یوں ہے یا محمد انی اتوسل بک الی ربی اوراس صحابی رضی اللہ عنہ نے آنحضرتﷺ کی وفات کے بعد یہ دعا دوسروں کو سکھائی مگر ہمارے اصحاب میں امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ تعالی اور ابن قیم رحمہ اللہ تعالی اس طرف گئے ہیں کہ اموات وقبور کاتوسل جائز نہیں نہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ اور نہ کسی صحابی رضی اللہ عنہ نے آپ کی قبر کا توسل کیا اورخلاف کیا ان کا بہت سے اکابر محدثین اور علماء نے اور یہ کہا کہ ایک امرکامنقول نہ ہونا اس کے عدم جواز پر دلالت نہیں کرتا جبکہ اصل وسیلہ کا جواز شرع سے ثابت ہے……الخ
تیسیر الباری پارہ 4 صفحہ 77کا حاشیہ
اور 2 صفحہ 385 کے حاشیہ میں لکھتے ہیں :
مسلم 2 صفحہ 282 کی روایت میں یوں ہے یا اﷲمیں اس (یعنی امام حسن رضی اللہ عنہ ) سے محبت رکھتاہوں تو بھی اس سے محبت رکھ، ہم گنہگاروں کے پاس کوئی نیکی نہیں ہے بجز اس کے کہ امام حسن رضی اللہ عنہ سے محبت رکھتے ہیں یا اﷲ اپنے حبیب کی دعا پوری کر اور ہم کوآخرت کے عذاب سے امام حسن رضی اللہ عنہ کے طفیل بچادے، یا رب العالمین
تیسیر الباری 2 صفحہ 385
نذیر حسین دہلوی کی رائے:
غیر مقلدین کے شیخ الکل فی الکل مولانا نذیر حسین دہلوی اپنی مشہور کتاب معیار الحق کے آخر میں لکھتے ہیں
ھٰذا آخرما الھم ﷲ خالق الثقلین عبدہ العاجز محمد نذیر حسین عافاہ اﷲ فی الدارین بجاہ سید الثقلین
معیار الحق صفحہ 419
اس عبارت میں بجاہ سید الثقلین سے توسل صراحۃً مذکورہے۔
عقیدہ نمبر5:
آنحضرت ﷺ کی قبر مبارک کے پاس حاضر ہوکر شفاعت کی درخواست کرنا اور یہ کہنا بھی جائز ہے کہ حضرت میری مغفرت کی شفاعت فرمائیں۔
خلاصہ عقائد علمائے دیوبند صفحہ 217
اعتراض:
نبی کریم ﷺ کی روح مبارک جنت میں اور جسم قبر میں ہے جیساکہ صحیح بخاری میں حدیث ہے اور قرآن میں آپ کو میت قرار دیاہے اﷲ تعالیٰ نے فرمایا
انک میت وانھم میتون
سورۂ زمر آیت نمبر30
ابوبکر رضی اللہ عنہ کا تاریخی خطبہ بخاری اور سنن میں موجود ہے جس میں یہ الفاظ قابل غور ہیں۔
من کان یعبد محمدًا فان محمدًا قد مات
جو شخص نبی ﷺ کی عبادت کرتاتھا تو یقینا محمد ﷺ فوت ہوگئے ہیں ابوبکر رضی اللہ عنہ کے خطبہ میں صحابہ رضی اللہ عنہم کی کثیر تعداد تھی مگر کسی نے اعتراض نہیں کیاتھا اسی کو اجماع امت کہتے ہیں۔ شیخ الاسلام فرماتے ہیں کہ نبی ﷺ کی قبر کی وجہ سے کسی جگہ پر دعا مانگنا ائمہ دین اور سلف صالحین سے ثابت نہیں وہ سن نہیں سکتے ہیں جیساکہ قرآنِ کریم کی کئی آیات اس پر شاہد ہیں۔ سورۃ فاطر نمبر13، انعام نمبر36، نمل نمبر80، نحل نمبر21، روم نمبر52۔ بلکہ یہ مشرکین کا طریقہ ہے جن پر رسول اﷲ ﷺ نے لعنت کی ہے یعنی یہود و نصاریٰ۔
واما الدعاء لاجل کون المکان فیہ قبر نبی او ولی فلم یقل احد من سلف الامۃ وائمتھا فاصلہ من دین المشرکین لامن دین عباداﷲ المخلصین کاتخاذالقبور مساجد لمن لعنھم رسول اﷲ من الیھود والنصٰری۔
فتاویٰ 14صفحہ75
موازنہ کیجئے صفحہ 5۔6
جواب:
شاہ صاحب نے بخاری کی جس حدیث کا حوالہ دیاہے اس میں نہ روح کے جسم کے ساتھ تعلق کی نفی ہے نہ شفاعت کی۔ آیت انک میت وانھم میتون میں آئندہ وفات پانے کی اطلاع دی گئی ہے نہ کہ وفات کے بعد حیات کی نفی ہے۔ اور ہم حضورﷺ کی وفات کے منکر نہیں۔ صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کے خطبے میں بھی وقوعِ وفات کی خبر ہے نہ کہ حیات بعد الوفات کی۔
غرض حضرات انبیاء علیہم السلام کی اموات کا عقیدہ ایک حتمی اور قطعی النص عقیدہ ہے اس پر امت کا اجماع بھی ہے۔ لیکن اس سے حیات بعد الوفات کے عقیدے کے ساتھ کوئی تصادم نہیں۔ کیونکہ یہ حیات وعدہ الٰہی کے پورا ہونے یعنی ورودِ موت کے بعد قبر اور عالم برزخ میں حاصل ہے، مزید تفصیل کے لیے عقیدہ نمبر8 کی بحث ملاحظہ فرمائیں جو آگے آرہی ہے۔
غیر مقلدین کی دعائیں مزارات پر جلد قبول ہوتی ہیں :
شاہ صاحب علامہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ تعالی کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ نبی کے قبر کی وجہ سے کسی جگہ پر دعا مانگنا ائمہ دین اور سلف سے ثابت نہیں کیونکہ وہ سن نہیں سکتے جبکہ شاہ صاحب کے مقتداؤں کا عقیدہ ہے کہ عام قبروں کے پاس بھی دعا جلد قبول ہوتی ہے اور قبر پر مطلق دعا کو شرک اور کفر قرار دینے والوں کے قول کو فاسد کہاہے۔
علامہ وحید الزمان ہدیۃ المہدی میں لکھتے ہیں:
واما الدعا من ﷲ فلا شک فی جوازہ فی کل محل واختلفوا فی جوازہ عند القبر قال بعض ترجی بسرعۃ الاجابۃ عند قبر النبی او غیرہ من المواضع المتبرکۃ قال الشافعی رحمہ اللہ تعالی قبر موسیٰ الکاظم رحمہ اللہ تعالی تریاق مجرب۔وروی الشیخ ابن حجر المکی فی القلائد عن الشافعی رحمہ اللہ تعالی قال انی استبرک بقبر ابی حنیفۃ رحمہ اللہ تعالی واذا عرضت لی حاجۃ اجیٔ عند قبرہ واصلی رکعتین وادعواﷲ عندہ فتقضی حاجتی وروی الواقدی ان فاطمۃ بنت رسول اﷲﷺ کانت تاتی قبور شھداء احد وتدعوا۔
ولو قال ھٰذا القائل کما قال الشیخان ان الدعا ء عند القبر بدعۃ او انہ شیٔ مستحدث لم یعھد عن الصحابۃ رضی اللہ عنہم والتابعین رحمہم اللہ لکان کلامہ وجھان قال الجزری ان لم یجب الدعاء عند قبر النبیﷺ ففی ای موضع یستجاب ونقل عن مالک انہ امر المنصور بالدعاء عند قبر النبیﷺ ونقل عن مالک خلافہ ایضًا۔
ہدیۃ المہدی صفحہ32،33
ترجمہ: رہا اﷲ تعالیٰ سے دعا کرنا توکسی مقام پر اس کے جواز میں شک نہیں اورجواز عندالقبر میں اختلاف ہے۔ بعض علماء نبی اکرمﷺ کی قبر کے پاس یا اس کے علاوہ مقامات مقدسہ پر دعا کی جلدی قبول ہونے کی امید رکھتے ہیں۔
امام شافعی رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں حضرت امام موسیٰ کاظم رحمہ اللہ تعالی کی قبر تریاقِ مجرب ہے۔ ابن حجر مکی رحمہ اللہ تعالی کی ’’قلائد‘‘ میں امام شافعی رحمہ اللہ تعالی سے نقل کیا کہ میں امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ تعالی کی قبر سے برکت حاصل کرتاہوں اور جب مجھے کوئی ضرورت پیش آتی ہے تو امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ تعالی کی قبر پر دو رکعت نماز ادا کرکے اﷲ سے دعا کرتاہوں تومیری حاجب پوری ہوجاتی ہے۔
واقدی رحمہ اللہ تعالی نے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا بنت رسول اﷲ ﷺ سے روایت کیاہے کہ میں شہداء احد کی قبروں پر جاکر دعاکرتی ہوں ، اگر قائل یہ کہتے ہیں کہ شیخان نے دعا عند القبر کو ایسی بدعت یا محدثہ چیز کہا ہے جو صحابہ رضی اللہ عنہم اور تابعین رحمہم اللہ کے زمانہ میں نہ تھی اس کلام کی دو وجہیں ہیں۔ نوٹ:اس عبارت میں شیخان سے مراد ابن تیمیہ اور ابن قیم ہیں ، ہدایۃ المہدی صفحہ4 علامہ جزری رحمہ اللہ تعالی کہتے ہیں کہ اگر حضورﷺ کی قبر پر دعا قبول نہیں ہوتی تو وہ کون سی جگہ ہے جہاں دعا قبول ہوتی ہے؟امام مالک رحمہ اللہ تعالی سے روایت ہے کہ میں حضورِ اکرمﷺ کی قبر پر دعا کے ساتھ نصرت حاصل کرتاہوں اور امام مالک رحمہ اللہ تعالی سے اس کے خلاف بھی منقول ہے۔
علامہ وحید الزمان اس عقیدہ پر طویل بحث کرکے ابن قیم رحمہ اللہ تعالی سے اس کی چار قسمیں بیان کرنے کے بعد اپنا عقیدہ اور فیصلہ یوں نقل کرتے ہیں
قلت قد ظھر من کلام الشیخ فساد قول ھٰذا القائل فانہ جعل مطلق الدعا عند القبر شرکا وکفرا والقسم الرابع لی فیہ نزاع وعندی انہ لابأس بھٰذا الظن ان الدعا من ﷲ تعالیٰ فی المواضع المتبرکۃ سیما عند قبر النبی ﷺ ترجی اجابتہ بالسرعۃ اما ظنہ ان الدعا عند القبر افضل من الدعا فی المسجد فلا دلیل علیہ فھو ظن فاسد والشیخ فیہ مصیب۔
ہدیۃ المہدی صفحہ 33،34
ترجمہ: میں کہتاہوں شیخ ابن قیم کے کلام میں اس شخص کے قول کا فساد ظاہر ہے جو قبر پر دعا کو مطلقاً شرک اور کفر قرار دیتاہے اور میرے نزدیک قسم چہارم میں نزاع ہے اور میرے نزدیک اس میں کچھ حرج نہیں کہ مقامات مقدسہ اور نبی کریمﷺ کے روضہ اقدس پر دعا کے جلد قبول ہونے کی امید رکھنا چاہیے۔ رہا اس کایہ گمان کہ عند القبر دعاء مسجد میں دعاء سے افضل ہے تویہ گمان فاسد ہے اور شیخ (ابن قیم) اس میں صواب پر ہیں۔
عقیدہ نمبر6:
اگر کوئی شخص آنحضرتﷺ کی قبر مبارک کے پاس صلوٰۃ و سلام پڑھے تو اس کو آپﷺ بنفس نفیس سنتے ہیں اور دور سے پڑھے ہوئے صلوٰۃ و سلام کو فرشتے آپﷺ تک پہنچاتے ہیں حضرت خلیل احمد صاحب سہارنپوری رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ مسجد نبوی کی حد میں کتنی ہی آہستہ آواز سے سلام عرض کیا جائے۔ اس کو حضرت محمد ﷺ خود سنتے ہیں لہٰذا آہستہ آواز سے سلام کرنا چاہیے۔
خلاصہ عقائد علمائے دیوبند صفحہ 218
اعتراض:
ہمیشہ ہر وقت دور و قریب سے ایک جیسا سننا یہ صفت کاملہ صرف اور صرف اﷲ کے لیے خاص ہے، دلیل
وان تجھر بالقول فانہ یعلم السروا خفی
طہ نمبر8
اگر آپ کو ئی بات پکار کرکہیں پس یقینا وہ جانتاہے چھپے بھید کو بلکہ اس سے بھی کیوں چھپا ہوا ہو اسے بھی جانتاہے۔
انہ یعلم الجھر من القول ویعلم ماتکتمون
انبیاء نمبر109
ترجمہ: وہ بے شک جانتاہے ایسی بات کو جسے پکار کر کہی جائے اور اسے بھی جانتاہے جس تم لوگ چھپا کر اپنے دِلوں میں رکھتے ہو۔ ایک موضوع من گھڑت روایت میں ہے کہ نزدیک سے نبیﷺ سنتے ہیں دور سے نہیں تو جواب میں شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں
ومن یھتج بمثل ھٰذا الحدیث الموضوع فھو من ابعد الناس عن اھل العلم والعرفان
ترجمہ: جولوگ اس قسم کی موضوع روایات سے دلیل لیتے ہیں تو وہ لوگ اہل علم و معرفت سے کوسوں دور رہتے ہیں۔
فتاویٰ ابن تیمیہ جلد نمبر14 صفحہ نمبر134
نبی کریم ﷺ سے دو عورتیں صدقہ کے بارے میں معلوم کرنے آئی تھیں جن میں سے ایک عبداﷲ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی بیوی (زینب) تھی انہوں نے دروازے پر سوال بلال رضی اللہ عنہ کو بتایا پھر بلال رضی اللہ عنہ نے نبی کریمﷺ کو بتایا(بخاری ) توثابت ہواکہ نبی ﷺ نے پہلے سوال نہیں سنا تھا اسی لیے تو بلال رضی اللہ عنہ نے دہرایا تو جو نبی ﷺ اتنی جہری آواز اپنی زندگی میں اپنے ہی گھر میں نہیں سن پاتا تو وہ فوت ہوکر دِلوں کے راز کیسے جانے؟۔
آمدِ بنو تمیم کے موقع پر ابوبکر صدیق و عمر فاروق رضی اللہ عنہما کی آوازیں بلند ہوئیں جس پر سورۃ حجرات آیت نمبر2 نازل ہوئی، ابن زبیر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اس کے بعد جب عمر فاروق رضی اللہ عنہ رسول اﷲ ﷺ سے بات کرتے تو اتنا آہستہ کرتے کہ آپﷺ کو ان سے پوچھنے کی ضرورت ہوتی۔
اذا حدث النبیﷺ بحدیث حدثہ کاخی السرار لم یسمعہ حتی یستفھمہ۔
صحیح بخاری، جامع ترمذی، کتاب التفسیر آیت بالا
موازنہ کیجئے صفحہ 7۔8
جواب:
شاہ صاحب کے اس اعتراض میں تین باتیں قابل غور ہیں
1 ہر وقت دور اور قریب سے سننا اﷲ تعالیٰ کی صفت خاصہ ہے۔
2نبی قریب سے سنتے ہیں دور سے نہیں ، دور سے سننے والی روایت کو من گھڑت کہاہے۔
3دوقصے نقل کرکے لکھاہے کہ جب نبی اپنی زندگی میں گھر ہی میں نہیں سن سکتا تو فوت ہوکر دِلوں کے راز کیسے جانے؟۔ قارئین کرام! ان تینوں باتوں کاتفصیلی جواب ملاحظہ فرمائیں۔
شاہ صاحب کی کذب بیانی اور فریب:
شاہ صاحب نے یہاں پر کذب بیانی سے کام لیا اور عوام الناس کو یہ باور کرانے کی کوشش کی ہے کہ علماء دیوبند کا عقیدہ یہ ہے کہ نبی کریمﷺ ہر وقت دور اور نزدیک سے ایک جیسا سنتے ہیں۔ شاہ صاحب نے اپنی عادت کے مطابق یہاں بھی دھوکہ دہی اورفریب دہی سے کام لیاہے۔ علماء دیوبند کا قطعا یہ عقیدہ نہیں ہے بلکہ ان کا عقیدہ یہ ہے کہ اگر کوئی شخص آنحضرتﷺ کی قبر مبارک کے پاس صلوٰۃ و سلام پڑھے تو اس کو آپﷺ بنفس نفیس سنتے ہیں اور دورسے پڑھے ہوئے صلوٰۃ و سلام کو فرشتے آپﷺ تک پہنچاتے ہیں۔ عقیدہ نمبر6 کی عبارت کو دوبارہ ملاحظہ فرمائیں ، اور بعینہٖ یہی عقیدہ شاہ صاحب کے بزرگوں کابھی ہے۔
چنانچہ مشہور غیر مقلد عالم علامہ وحید الزمان صاحب لکھتے ہیں:
اسی دنیاوی جسم کے ساتھ اپنی قبرمیں زندہ ہیں اور جب زندہ ہوئے تو ہر ایک بات کو سمجھ سکتے ہیں اور سن سکتے ہیں۔ دوسری روایت میں ہے کہ جب کوئی میری قبر کے پاس مجھ پر درود بھیجے گاتو میں خود سن لوں گااورجو دور سے بھیجے گا توفرشتے مجھ کو پہنچادیں گے۔ ان حدیثوں سے صاف یہ نکلتاہے کہ آنحضرتﷺ اپنی قبر شریف میں زندہ ہیں اور قبر کے پاس درود وسلام پڑھنے سے بنفس نفیس سنتے ہیں اور اسی پر تمام اہلحدیث کااتفاق ہے اور وہ کہتے ہیں کہ آنحضرتﷺ کاجو ادب اور لحاظ حالت دنیاوی میں تھا وہی اب بھی مسجد نبوی میں لازم ہے کیونکہ آپﷺ کی حالت نہیں بدلی صرف اہل دنیا کی نظر سے چھپ گئے ہیں۔
سنن ابن ماجہ مترجم،ج1صفحہ812، علامہ وحید الزمان غیر مقلد
غیر مقلدین کے امام اورمحدث اعظم شیخ الکل فی الکل حضرت میاں نذیر حسین دہلوی فرماتے ہیں
حضرات انبیاء کرام علیہم السلام اپنی قبروں میں زندہ ہیں خصوصا آنحضرتﷺ کہ فرماتے ہیں جوکوئی عند القبر درود بھیجتاہے میں سنتاہوں اور دور سے پہنچایاجاتاہے۔ چنانچہ مشکوٰۃ وغیرہ کتب حدیث سے واضح ہوتاہے۔ لیکن کیفیت حیات ان کی اﷲ تعالیٰ جانتا ہے اوروں کو اس کی کیفیت بخوبی معلوم نہیں۔
ضمیمہ فتاویٰ نذیریہ ج2صفحہ55
مذکورہ بالاحوالہ جات سے ثابت ہواکہ اکابر غیر مقلدین کابھی وہی عقیدہ ہے جو علماء دیوبند کا ہے کہ نبی کریمﷺ قبر کے قریب سے پڑھے ہوئے درود کو بنفس نفیس سنتے ہیں اور دور سے پڑھے ہوئے درود کو فرشتے آپﷺ تک پہنچاتے ہیں اورغیر مقلدین کا دعویٰ ہے کہ وہ احادیث صحیحہ پر اپنے مسلک کی بنیاد رکھتے ہیں تو گویا کہ اکابر غیر مقلدین کے نزدیک سماع النبی ﷺ عند قبرہ اور مسئلہ حیات النبیﷺ احادیث صحیحہ سے ثابت ہے تبھی تو انہوں نے اس کو اپنا عقیدہ بنایا ہے یا شاہ صاحب کو اعلان کرنا پڑے گا کہ ان کے اکابر نے اپنے مسلک کی بنیاد موضوعی احادیث پر رکھی ہے اور وہ جھوٹے اہلحدیث ہیں۔
قریب سے سننے کی تمام روایات موضوع نہیں :
دوسری بات شاہ صاحب نے یہ لکھی ہے کہ نزدیک سے نبی ﷺ سنتے ہیں دور سے نہیں یہ ایک موضوع اور من گھڑت روایت ہے اور دلیل میں علامہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ تعالی کے قول ومن یحتج بمثل ھٰذا الحدیث موضوع…… الخ کو پیش کیاہے۔ اس کا جواب تو مشق نمبر ایک میں ضمناً ہوچکاہے لیکن قارئین کرام کے تسلی کے لیے اس دوسری شق کا جواب بھی صراحتاً اکابر غیر مقلدین سے پیش کردیتاہوں ، ملاحظہ فرمائیں۔
ضمیمہ جدیدہ فتاویٰ ستاریہ میں محمد ادریس سلفی نائب مفتی جماعت غرباء اہلحدیث اس باب کی ایک روایت کے متعلق لکھتے ہیں
یہ روایت مشکوٰۃ باب الصلوٰۃ علی النبیﷺ وفضلھا میں موجود ہے جس کی سند کے بارے میں کلام ہے۔ بہرصورت یہ حدیث اس بات کی دلیل ہے کہ دور اور قریب سے نبی ﷺ پر درود پڑھنے میں فرق ہے۔ جو شخص آپ ﷺ کی قبر کے پاس درود پڑھتاہے اسے نبی ﷺ سنتے ہیں اور جو دور سے پڑھتاہے تو وہ آپﷺ تک بذریعہ فرشتے پہنچایاجاتاہے۔ شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ اس حدیث کا معنی صحیح ہے لیکن اسناد قابل حجت نہیں ہے بلکہ اس کا معنی دوسری احادیث سے ثابت ہے اوراگریہ حدیث صحیح نہ بھی ہو تو ا سے معلوم ہوتاہے کہ دور سے درود پڑھنے والے کا درود آپﷺ تک پہنچادیا جاتاہے دور والا درود آپ نہیں سنتے پس دور سے پڑھا گیا درود وسلام آپﷺ تک فرشتے پہنچادیتے ہیں۔
ضمیمہ جدیدہ فتاویٰ ستاریہ ج1 صفحہ 185
اور فتاویٰ ستاریہ میں ہے کہ صرف اتنا کہنا کہ اگر آپﷺ کی قبر پر جاکر درود وسلام پڑھاجائے تو آپ سنتے ہیں بے شک ٹھیک ہے۔
فتاویٰ ستاریہ ج1 صفحہ 181
ایک سوال کے جواب میں لکھتے ہیں کہ جوشخص آپﷺ کی قبر پر جاکر سلام کہتاہے اس کا سلام آپﷺ خود سنتے ہیں یہاں سے نہیں سنتے کیونکہ فرشتے پہنچانے کے لیے اﷲ نے مقرر فرمائے ہیں۔ فقط عبدالقہار غفرلہ
ایک اور سوال کے جواب میں لکھاہے
سوال: کیانبی علیہ السلام اپنی قبر مبارک میں سن سکتے ہیں یانہیں ؟۔
جواب: قبر والے کسی کی بھی آہ و پکار نہیں سنتے قرآن مجید میں ہے وما انت بسمع من فی القبور۔ ہاں نبی علیہ السلام کی قبر پر جاکردرود وسلام پڑھا جائے تو آپ سنتے ہیں جیساکہ احادیث سے ثابت ہے۔
فتاویٰ ستاریہ4 صفحہ117
غیر مقلدین کے مشہور و معروف عالم علامہ وحیدالزمان حیدر آبادی لکھتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ اپنی قبر شریف میں زندہ ہیں اور قبر کے پاس درود وسلام پڑھنے سے بنفس نفیس سنتے ہیں اور اس پر تمام ائمہ حدیث کا اتفاق ہے۔
سنن ابن ماجہ مترجم 1 صفحہ814
شاہ صاحب سے دو سوال:
سوال نمبر1: کیا ابن تیمیہ رحمہ اللہ تعالی کے ایک حدیث کو ضعیف اور موضوع کہنے سے اس باب کی تمام احادیث ضعیف اورموضوع ہوگئیں جبکہ خود ابن تیمیہ رحمہ اللہ تعالی کے نزدیک بھی انبیاء علیہم السلام اپنی قبروں میں زندہ ہیں اور ان کی قبروں پرصلوٰۃ وسلام کے لیے جانا مستحب ہے۔
علامہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں:
وھم احیاء فی قبورھم و یستحب اتیان قبورھم لسلام علیھم
حضرات انبیاء علیہم السلام اپنی قبروں میں زندہ ہیں اور ان کی قبر پر سلام کے لیے آنا مستحب ہے۔
رسائل ابن تیمیہ رحمہ اللہ تعالی قاعدہ فی المعجزات والکرامات صفحہ97
ایک اور جگہ لکھتے ہیں :
فاخبر انہ یسمع صلوٰۃ والسلام من القریب وانہ یبلغ ذٰلک من البعید
رسائل ابن تیمیہ، صفحہ 191
ترجمہ: آپﷺ نے خبردی ہے کہ آپﷺ قریب سے صلوٰۃ و سلام سنتے ہیں اور دور سے آپ کو پہنچایا جاتاہے۔
سوال نمبر2: اگر اس باب کی سب احادیث ضعیف اورموضوع ہیں توکیا ائمہ اہل حدیث نے ضعیف اور موضوع احادیث پر اتفاق کیاہے؟
شاہ صاحب کا قیاس فاسد اور اس کا جواب:
اس اعتراض کے آخر میں شاہ صاحب نے احادیث کے حوالے سے دو قصے نقل کرکے لکھاہے کہ جو نبی اتنی جہری آواز میں اپنی زندگی میں اپنے ہی گھر میں نہیں سن پاتے وہ فوت ہوکر دِلوں کے راز کیسے جانے؟
اس عبارت میں شاہ صاحب نے قیاس فاسد اور قیاس مع الفارق کیاہے کیونکہ شاہ صاحب نے نبی کریمﷺ کی عالم برزخ والی زندگی کو دنیاوی زندگی پر قیاس کیاہے جبکہ آپﷺ کی آخرت اور عالم برزخ والی زندگی اس دنیا والی زندگی سے اعلیٰ و ارفع ہے۔تعجب کی بات ہے کہ وہ مولوی جس کی ساری زندگی قیاس کے بطلان پرگزری ہو آج وہ مجتہد مطلق بن کر قیاس کر رہاہے اور وہ بھی قیاس فاسد۔
نوٹ: اس اعتراض میں شاہ صاحب نے آنحضرتﷺ کی شان مبارکہ میں گستاخی کی ہے عبارت کو غور سے پڑھیے۔
آنحضرت ﷺ کاجو ادب دنیا میں تھا وہ ادب اب بھی مسجد نبوی میں لازم ہے اور اس پر تمام ائمہ اہلِ حدیث کااتفاق ہے۔
علامہ وحید الزمان سنن ابن ماجہ کے ترجمہ میں لکھتے ہیں :
ان حدیثوں سے یہ مسئلہ صاف نکلتاہے کہ آنحضرتﷺ اپنی قبر شریف میں زندہ ہیں اور قبر کے پاس درود وسلام پڑھنے پر بنفس نفیس سنتے ہیں اور اس پر تمام ائمہ اہلحدیث کااتفاق ہے وہ کہتے ہیں کہ آنحضرتﷺ کا جو ادب اور لحاظ حالت حیات دنیاوی میں تھا وہی اب بھی مسجد نبویﷺ میں لازم ہے کیونکہ آپﷺ کی حالت نہیں بدلی۔ صرف اہل دنیا کی نظر سے آپ ﷺ چھپ گئے ہیں۔ایک بزرگ سے منقول ہے کہ دو نعمتیں بہت بڑی اب بھی دنیا میں موجود ہیں۔ لیکن لوگوں کی ادھر توجہ نہیں ہے ایک تو ذات بابرکت جناب رسول ﷺ اور دوسری قرآنِ مجید۔
سنن ابن ماجہ مترجم 1 صفحہ 814
علامہ وحید الزمان نے جس بزرگ کا قول نقل کیاہے ان کے قول سے ثابت ہوتاہے کہ حضورﷺ اب بھی دنیا میں موجود ہیں ، وحید الزمان بھی اس کا قائل ہے جبھی یہ قول نقل کیاہے۔ شاہ صاحب کا کہنا ہے کہ آپﷺ قبر میں نہیں سنتے جبکہ ان کے مقتداؤں کا کہنا ہے کہ آپﷺ کی حیات برزخی حیات دنیاوی سے زیادہ قوی اوربہترہے، ملاحظہ فرمائیں۔
علامہ وحید الزمان صاحب لکھتے ہیں:
آنحضرتﷺ اپنی قبر شریف کے پاس درود وسلام سنتے ہیں اسی طرح آپﷺ کا ادب اور لحاظ اسی طرح قائم ہے جیسے دنیاوی حالت میں تھا بلکہ یہ برزخی حیات بہت ساری باتوں میں دنیاوی حیات سے زیادہ قوی اورزیادہ بہتر ہے۔
سنن ابن ماجہ مترجم1 صفحہ815
نوٹ: مذکورہ بالا عقیدہ کے متعلق اکابر غیر مقلدین کے مزید حوالے عقیدہ نمبر7 کے جواب میں آرہے ہیں۔
عقیدہ نمبر7:
ہمارے نزدیک اورہمارے مشائخ کے نزدیک حضرت محمد ﷺ اپنی قبر میں زندہ ہیں اور آپ کی حیات دنیا کی سی ہے بلامکلف ہونے کے اوریہ صرف روحِ مبارک کی زندگی نہیں ہے جو سب آدمیوں کو حاصل ہے بلکہ روحِ مبارک کے تعلق سے جسدِ اطہر کو بھی حیات حاصل ہے۔
خلاصہ عقائد علمائے دیوبند صفحہ 220
اعتراض:
نمبر5 میں اس کا جواب ہوچکاہے مزید تفصیل یہ ہے، صحیح بخاری میں ہے کہ ارواح شہداء جنت میں ہیں اورسبز پرندوں کی طرح ان کو اجسام دیے گئے ہیں ، صبح و شام ان کا سیر بھی جنت ہی میں ہوتاہے جبکہ امت مسلمہ کا عقیدہ ہے کہ انبیاء کا درجہ شہدا سے افضل ہے اور انبیاء کی ارواح کو قبر میں ماننا تو ان کو شہدا سے بھی کم درجہ پر ماننا ہے اور انبیاء کو نعوذ باﷲ حقیر ماننا ہے لہٰذا صحیح بات یہی ہے کہ انبیاء شہدا سے جنت میں اعلیٰ مقام پر ہیں۔
واقعہ معراج میں ہے کہ آپﷺ کو جنت میں اپنا گھر دکھایا گیاتوآپﷺ نے فرمایا مجھے اس میں جانے دو تو جبریل امین علیہ السلام نے فرمایا کہ ابھی آپ کی دنیاوی ایام باقی ہیں معلوم ہوا کہ فوت ہوتے ہی آپ کا روح جنت میں منتقل ہوگیا، فقط جسم اطہر قبر میں محفوظ ہےبخاری جس طرح حدیث میں وارد ہے کہ انبیاء علیہم السلام کے اجساد زمین پر حرام ہیں وہ اسے نہیں کھاتی(ابوداود/ ابن ماجہ) قبر میں حیات دنیوی کا عقیدہ اشاعرہ دیوبندیہ کی خرافات میں سے ہے۔
موازنہ کیجئے صفحہ 8
جواب:
شاہ صاحب نے عقیدہ حیات النبیﷺ کے رد میں سب سے پہلے سبز پرندوں والی روایت کا سہارا لیاہے اس کے بعد واقعہ معراج سے استدلال کیاہے۔
سبز پرندوں والی روایت اور واقعہ معراج سے استدلال کاجواب:
شاہ صاحب کے دونوں استدلال باطل ہیں کیونکہ علماء دیوبند کے نزدیک نبی کریمﷺ کا روضۂ مبارک بھی جنت کا ٹکڑا ہے۔ اور جنت میں زندہ لوگ رہتے ہیں نہ کہ مردہ لوگ۔ حضورﷺ اب بھی جنت کے اعلیٰ و ارفع مقام میں زندہ ہیں۔
حدیث شریف میں ہے کہ
القبر روضۃ من ریاض الجنۃ او حفرۃ من حفر النار۔
یعنی قبر جنت کے باغوں میں سے ایک باغ یا جہنم کے گڑھوں میں سے ایک گڑھا ہے۔ یہ عام مسلمانوں کے لیے ہے۔ جب مسلمانوں کی قبر جنت بن سکتی ہے تو حضورﷺ کی قبر بطریقِ اولیٰ جنت ہے۔
معراج کی شب جو مقام آپﷺ کو دکھایا گیا ہے اس سے آپﷺ کے قرب میں حیات کی نفی نہیں ہوتی کیونکہ روح کا تعلق جسم کے ساتھ قائم رہتاہے یہی رائے علامہ ابن قیم رحمہ اللہ تعالی کی بھی ہے۔
علامہ ابن قیم رحمہ اللہ تعالی لکھتے ہیں:
آنحضرتﷺ کی وفات کے بعد آپ کی روح مبارک دیگر انبیاء کرام علیہم السلام کی ارواح کے ساتھ رفیق اعلیٰ میں قرار پذیر ہے اور اس کا بدن مبارک سے تعلق ہے جس کی وجہ سے آپﷺ سلام کہنے والوں کے سلام کا جواب دیتے ہیں اور اسی تعلق کی وجہ سے آپﷺ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو قبر کے اندر نماز پڑھتے ہوئے دیکھا تھا۔
کتاب الروح صفحہ 54، زاد المعاد 2 صفحہ 49
شاہ صاحب کے نزدیک شہداء کی ارواح کو سبز پرندوں کی طرح اجسام دیے گئے ہیں جبکہ اہل السنت والجماعت کا عقیدہ ہے کہ شہداء کی ارواح پرندوں کی شکلیں اختیار نہیں کرتی بلکہ سبز پرندوں کے پیٹوں میں اس طرح سواری کرتی ہیں جیسے انسان ہوائی جہاز میں سفر کرتے ہیں ”ارواحھم فی جوف طیر“ مسلم2صفحہ135اس کی واضح دلیل ہے۔
اب فیصلہ قارئین کے ہاتھوں میں ہے کہ انبیاء علیہم السلام کادرجہ کن کے نزدیک شہداء سے کم ہے۔ علماء دیوبند کے نزدیک یا شاہ صاحب کے نزدیک؟
اکابر علماء اہلِ حدیث کے نزدیک نبی کریم ﷺ قبر میں زندہ ہیں:
اہلحدیث کے مشہور عالم علامہ وحید الزمان ابن ماجہ کی شرح میں لکھتے ہیں: کل پیغمبروں کے جسم زمین کے اندر صحیح و سالم ہیں اور روح تو سب کی سلامت رہی ہے پس آنحضرتﷺ مع جسم صحیح سالم ہیں اور قبر شریف میں زندہ ہیں اورجو کوئی قبر کے پاس درود بھیجے یا سلام کرے تو آپ ﷺ خود سنتے ہیں اگر دور سے درود بھیجا جائے تو فرشتے آپﷺ تک پہنچادیتے ہیں اور اس کا یہی اعتقاد ہے۔
سنن ابن ماجہ مترجم1صفحہ456
وقد ثبت فی الحدیث ان الانبیاء احیاء فی قبورھم رواہ المنذری وصححہ البیھقی
نیل الاوطار 3 صفحہ 282
ترجمہ: یہ بات حدیث سے ثابت ہے کہ انبیاء علیہم السلام اپنی قبروں میں زندہ ہیں ، اس حدیث کو امام منذری نے روایت کیا ہے اور امام بیہقی نے اس کوصحیح قرار دیا ہے۔
نواب صدیق حسن خان بھوپالی لکھتے ہیں:
انہ ﷺ حی فی قبرہ بعد موتہ کما فی الحدیث الانبیاء احیاء فی قبورھم و قد صححہ البیھقی والف فی ذٰلک جزء۔
السراج الوھاج شرح صحیح مسلم 1 صفحہ 504
ترجمہ: بے شک نبی کریمﷺ وصال مقدس کے بعد اپنی قبر میں زندہ ہیں جیساکہ ایک حدیث میں ہے کہ انبیاء اپنی قبروں میں زندہ ہیں۔ اس حدیث کی تصحیح امام بیہقی نے فرمائی اور انہوں نے خاص اس مسئلہ میں ایک جزء بھی تحریر فرمایا ہے۔
مولانا عطاء اﷲ حنیف لکھتے ہیں:
انھم احیاء فی قبورھم یصلون وقد قال النبی من صلی علی عند قبری سمعتہ ومن صلی علی نائیا بلغتہ۔
التعلیقات السلفیہ علی سنن النسائی 1 صفحہ 237
ترجمہ: حضرات انبیاء علیہم السلام اپنی قبروں میں زندہ ہیں ، اور نماز پڑھتے ہیں اور آنحضرتﷺ نے فرمایا کہ جو شخص میری قبر کے پاس مجھ پر درود پڑھتاہے تو میں خود اس کو سنتاہوں اور جو دور سے پڑھتاہے تو مجھے پہنچایا جاتاہے۔
شارح ابو داود علامہ شمس الحق عظیم آبادی لکھتے ہیں:
فان الانبیاء فی قبورھم احیاء قال ابن حجر المکی وما افادہ من ثبوت حیاۃ الانبیاء حیاۃ بھا یتعبدون ویصلون فی قبورھم مع استغنائھم عن الطعام والشراب کالملائکۃ
عون المعبود شرح ابو داؤد 3 صفحہ 261
ترجمہ: حضرات انبیاء کرام علیہم السلام اپنی قبروں میں زندہ ہیں امام ابن حجر مکی رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ انبیاء کی حیات ایسی ہے کہ وہ عبادت کرتے ہیں اور اپنی قبروں میں نمازیں ادا کرتے ہیں اور ملائکہ کی طرح کھانے پینے سے مستغنی ہیں۔
مولوی اسماعیل سلفی لکھتے ہیں:
اہل السنت والجماعت کے دونوں مکاتب فکر اصحاب الرائے اور اہل حدیث کا اس امر پر اتفاق ہے کہ شہدا اور انبیاء زندہ ہیں۔ برزخ میں وہ عبادات تسبیح و تہلیل فرماتے ہیں ان کو رزق بھی ان کے حسب حال اورحسب ضرورت دیاجاتاہے انبیاء کی زندگی کے متعلق سنت میں شواہد ملتے ہیں ، صحیح احادیث میں انبیاء علیہم السلام کے متعلق عبادات و غیرہ کا ذکر آتاہے۔
تحریک آزادی فکر، صفحہ 385
تمام ائمہ اہل حدیث کامتفقہ فیصلہ:
علامہ وحید الزمان لکھتے ہیں:
’’اورپیغمبر اسی دنیاوی جسم کے ساتھ اپنی قبروں میں زندہ ہیں ‘‘ ان حدیثوں سے صاف نکلتاہے کہ آنحضرتﷺ اپنی قبر شریف میں زندہ ہیں اور قبر کے پاس درو دوسلام پڑھنے سے بنفس نفیس سنتے ہیں اور اس پر تمام ائمہ اہلحدیث کا اتفاق ہے۔
سنن ابن ماجہ ج1صفحہ814
عقیدہ نمبر8:
بہتر یہ ہے کہ قبر شریف کی زیارت کے وقت قبر مبارک کی طرف منہ کر کے کھڑاہونا چاہیے۔ اسی پر ہمارا اور ہمارے مشائخ کا عمل ہے اور یہی حکم دعا مانگنے کا ہے۔
خلاصہ عقائد علمائے دیوبندصفحہ 226
اعتراض:

1

استسقاء اورقبرستان کے علاوہ خود آنحضرت ﷺ قبلہ رُو ہوکر دعامانگتے تھے۔
بخاری کتاب الدعوات، ترمذی مع تحفۃ الاحوذی، ج 9 صفحہ 13، مسند احمد
اسی لیے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے نزدیک سنت طریقہ یہ تھا کہ جب دعا کرتے تو منہ قبلے کی طرف کرتے تھے نہ کہ قبروں کی طرف کرتے۔

2امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ جب آپﷺ پر سلام کیا جائے تو منہ قبلہ رخ اورپیٹھ قبر کی جانب ہو۔

فتاویٰ ابن تیمیہ14صفحہ95

3

وقال الشیخ الاسلام ان قصد الدعاء عند قبور لیس من دین المسلمین
فتاویٰ ابن تیمیہ 14 صفحہ95
دعا کے وقت قبر کا قصد کرنا مسلمانوں کے دین میں سے نہیں ہے۔
موازنہ کیجئے صفحہ 9
جواب:
شاہ صاحب قبر انور کی طرف منہ کرکے کھڑے ہونے کی تردید کرنا چاہتے تھے لیکن مزید تائید ہی کر دی۔ چنانچہ لکھتے ہیں کہ استسقاء اور قبرستان کے علاوہ خود آنحضرتﷺ قبلہ رُخ ہوکر دعامانگتے تھے، یعنی قبرستان میں قبلہ رُخ ہوکر دعا نہیں مانگتے تھے، بلکہ قبروں کی طرف منہ کرکے دعا مانگتے تھے۔
شاہ صاحب کا امام بخاری رحمہ اللہ تعالی پر الزام:
شاہ صاحب کے یہ الفاظ کہ استسقاء اورقبرستان کے علاوہ خود آنحضرت ﷺ قبلہ رُخ ہوکر دعا مانگتے تھے بخاری کتاب الدعوات باب الاستسقاء میں یہ الفاط مذکور نہیں ہیں۔
شاہ صاحب کے کلام میں تضاد:
شاہ صاحب پہلے لکھتے ہیں کہ استسقاء اور قبرستان کے علاوہ خود آنحضرت ﷺ قبلہ رُخ ہوکر دعا مانگتے تھے۔اس کے بعد اگلی سطر میں لکھتے ہیں کہ اسی لیے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے نزدیک سنت طریقہ یہی تھاکہ جب دعا کرتے تو قبلہ کی طرف رخ کرتے تھے نہ کہ قبروں کی طرف۔
قبلہ سے رُخ پھیر کر دعا مانگنا آپ ﷺ سے ثابت ہے:
فرض نمازوں کے بعد آنحضرتﷺ سے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کی طرف چہرۂ انور کرکے دعا مانگنا صحیح احادیث سے ثابت ہے۔ چنانچہ ملاحظہ فرمائیں۔
عن سمرۃ بن جندب رضی اللہ عنہ قال کان رسول اﷲ ﷺ اذا صلی صلوٰۃ اقبل علینا بوجھہ
رواہ البخاری 1 صفحہ 118
ترجمہ: سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ ﷺ جس وقت نماز پڑھ چکتے تو ہم پر متوجہ ہوتے اپنے چہرۂ انور کے ساتھ مقتدیوں کی طرف یہ استقبال عبث اور بے فائدہ نہیں ہوتا تھا بلکہ دعا کے لیے ہوتاتھا۔
عن البراء قال کنا اذا صلینا خلف رسول ﷲﷺ احبنا ان نکون عن یمینہ یقبل علینا بوجھہٖ قال فسمعتہ یقول رب قنی عذابک یوم تبعث او تجمع عبادک
مسلم 1 صفحہ 247
ترجمہ: سیدنا براء بن عازب بن حارث، ابو عمارہ انصاری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم رسول اﷲ ﷺ کے پیچھے جب نماز پڑھتے تھے تو دائیں طرف کھڑا ہونا پسند کرتے تھے، کیونکہ جب حضرت رسول اﷲ ﷺ سلام پھیریں گے تو چہرۂ انور ہماری طرف کرکے بیٹھیں گے پھر (نماز پڑھنے کے بعد) میں نے آپﷺ کو یوں کہتے ہوئے سنا۔
رب قنی عذابک یوم تبعث او تجمع عبادک
عن انس رضی اللہ عنہ قال ما صلی بنا رسول اﷲ ﷺ صلوٰۃ مکتوبۃ الا اقبل علینا بوجھہٖ فقال اللھم انی اعوذ بک من کل عمل یخزینی……الخ
شاہ صاحب کے گھر کا حوالہ
مشہور غیر مقلد مولوی محی الدین صاحب ’’بعد سلام کے مقتدیوں کی طرف منہ کرکے بیٹھنے اور ذکر اور دعاؤں کے پڑھنے کے بیان میں کا عنوان قائم کرکے لکھتے ہیں کہ جب نماز پڑھ کر امام سلام پھیرے تو مقتدیوں کی طرف منہ کرکے بیٹھے۔ حاشیہ نمبر6،یہ حدیث سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ کی روایت سے بخاری چھاپہ احمدی میرٹھ کے صفحہ 117 میں ہے۔)اورمنہ سے (کبھی) دا ہنی طرف کے مقتدیوں کی طرف اور (کبھی) بائیں طرف کی مقتدیوں کی طرف منہ کرکے اوریہ دعا پڑھے… استغفرﷲ، استغفرﷲ ، استغفرﷲ … اللّٰھم انت السلام ومنک السلام تبارکت یا ذا الجلال والاکرام۔ (تقریباً 14 دعائیں ذکر کی ہیں)(حاشیہ نمبر7 یہ حدیث (یعنی کبھی دا ہنی طرف اور کبھی بائیں طرف منہ کرنے کی حدیث) بخاری اور مسلم کی عبداﷲ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی روایت سے مشکوٰۃ باب الذکربعد الصلوٰۃ کی پہلی فصل میں ہے۔
فقہ محمدیہ وطریقہ نبویہ صفحہ29 مرتبہ مولانا محی الدین صاحب
ناشر: جمعیۃ اہلحدیث کراچی (رجسٹرڈ) آسن ہل اوجھا روڈ کراچی، پاکستان
مشہور غیر مقلد علامہ عبدالجبار سلفی صاحب لکھتے ہیں:
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ تعالی نے فتح الباری میں حافظ ابن قیم رحمہ اللہ تعالی کے موقف سے پیدا ہونے والی غلطی کا جواب دے کر ان کا اصل مدعا بھی بیان کیاہے، فرماتے ہیں
فان حاصل کلامہ انہ نفاہ بقید استمرار استقبال المصلی وایراد بعد السلام واما اذ انتقل بوجھہ او قدم الاذکار المشروعۃ فلا یمتنع عندہ الاتیان بالدعاء حینئذ۔
فتح الباری 11 صفحہ 113
کہ حافظ ابن قیم رحمہ اللہ تعالی کی عبارت کا خلاصہ یہ ہے کہ انہوں نے جس چیز کی نفی کی ہے وہ یہ ہے کہ نماز کے بعد پابندی سے قبلہ رُخ بیٹھ کر دعا مانگنا اور جب رخ پھیرے یا مشروعی اذکار پڑھ لے تو پھر دعاکرنا ان کے نزدیک بھی منع نہیں۔
اجتماعی دعا بعد از نماز اور اہلحدیث کا مسلک اعتدال، صفحہ 32، 33
ان احادیث اورمولانا محی الدین وعبدالجبار سلفی کے بیان سے معلوم ہواکہ نمازوں کے بعد حضورﷺصحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی طرف چہرہ انور کرکے دعا مانگتے تھے۔ لہٰذا شاہ صاحب کا یہ نظریہ غلط ہے کہ استسقاء اور قبرستان کے علاوہ حضورﷺ قبلہ رُخ دعا مانگتے تھے۔
صلوٰۃ و سلام کے وقت قبر انور کی طرف منہ کرنا سنت صحابہ ہے:
ابو حنیفۃ عن نافع عن ابن عمر رضی اللہ عنہما قال من السنۃ ان تأتی قبر النبیﷺ من قبل القبلۃ ویجعل ظھرک الی القبلۃ وتستقبل القبلۃ بوجھک ثم تقول السلام علیک ایھا النبی ورحمۃ اﷲ وبرکاتہٗ۔
مسند امام اعظم صفحہ 136
حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ انہوں نے فرمایا کہ مسنون طریقہ یہ ہے کہ تو نبی ﷺ کی قبر شریف پر قبلہ کی جانب سے آئے اور قبلہ کی طر ف پیٹھ کرلے اور قبر کی طرف اپنا چہرہ، اور پھر کہے
السلام علیک ایھا النبی ورحمۃ اﷲ وبرکاتہ۔
اس روایت سے یہ بات معلوم ہوئی کہ صحابہ رضی اللہ عنہم کے نزدیک سنت طریقہ یہ تھا کہ وہ صلوٰۃ و سلام کے وقت قبر انور کی طرف چہرہ کرتے تھے۔
ابن تیمیہ رحمہ اللہ تعالی کی عبارت کا صحیح ترجمہ و مطلب:
شاہ صاحب نے اپنے مدعاکو ثابت کرنے کے لیے اس اعتراض میں علامہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ تعالی کی عبارت نقل کی ہے جس کا ترجمہ غلط کیا اس عبارت کا صحیح ترجمہ یہ ہے بے شک قبروں کے پاس دعا کا قصد کرنا مسلمانوں کے دین میں سے نہیں ہے۔
اس عبارت کا صحیح مطلب ابن تیمیہ رحمہ اللہ تعالی کی کتاب ’’اقتضاء الصراط المستقیم‘‘ سے ملاحظہ فرمائیں۔ علامہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ تعالی لکھتے ہیں
فان الدعا عند القبور وغیرھا من الاماکن ینقسم الی نوعین احدھما ان یحصل الدعاء فی البضعۃ بحکم الاتفاق لا لقصد الدعاء فیھا کمن یدعوﷲ فی طریقہ ویتفق ان یمر بالقبور او من یزورھا فیسلم علیھا، ویسأل ﷲ العافیۃ لہ وللموتی کما جاء ت بہ السنۃ فھٰذا ونحو ہ لابأس بہ۔
الثانی: ان یتحری الدعاء عندھا بحیث یستشعر ان الدعاء ھناک اجوب منہ فی غیرہ فھذہ النوع منھی عنہ اما نھی تحریم او تنزیہ وھو الی التحریم اقرب والفرق بین البابین ظاھر فان الرجل لو کان یدعواﷲ واجتاز فی ممرہ بصنم او صلیب او کنیسۃ لکان یدعو فی بقعۃ وکان ھناک بقعہ فیھا صلیب وھو عنہ ذاھل۔ او دخل الی کنیسۃ لیست فیھا بیتا جائزا و دعاﷲ فی اللیل او بات فی بیت بعض اصدقائہ ودعا اﷲ لم یکن بھذا بأس۔
ولو تحری الدعاء عند صنم او صلیب او کنیسۃ یرجوا الاجابۃ بالدعاء فی تلک البقعۃ لکان ھذا من العظائم، بل لو قصد بیتا او خانوتا فی السوق او بعض عوامید الطرقات یدعو عندھا، یرجوا الایجابۃ بالدعاء عندھا: لکان ھٰذا من المنکرات المحرمۃ اذ لیس للدعاء عند ھا فضل۔
فقصد القبور للدعاء عندھا من ھٰذا الباب بل ھو اشد من بعضہ لان النبی ﷺ نھی عن اتخاذھا مساجد وعن اتخاذھا عیدا وعن الصلوٰۃ عندھا بخلاف کثیر من ھٰذہ المواضع۔
وما یرویہ بعض الناس من انہ قال اذا تحیرتم فی الامور فاستعینوا باھل القبور او نحو ھذا فھو کلام موضوع مکذوب باتفاق العلمائ…… ان قصد القبور للدعاء عندھا ورجاء الاجابۃ بالدعاء ھناک رجاء کثیر من رجائھا بالدعا ء فی غیر ذٰلک الموطن امر لم یشرعہ ﷲ ولا رسولہ ولافعلہ احد من الصحابۃ ولا التابعین ولا ائمۃ المسلمین ولاذکرہ احد من العلماء والصالحین المتقدمین … ومن تأمل کتب الاثار وعرف حال تیقن قطعا ان القوم ماکانوا یستغیثون عند القبور ولایتحرون الدعاء عندھا اصلاً، بل کانوا ینھون عن ذٰلک من یفعلہ من جھالھم کما ذکرنا بعضہ۔
اقتضاء الصراط المستقیم مخالفۃ اصحاب الجحیم صفحہ 352 تا 355
ترجمہ: قبروں پر یا دوسرے مقامات پر دعا کرنے کی دوصورتیں ہیں۔
1 یہ کہ کسی جگہ اتفاقا دعاکرلی جائے حالانکہ وہاں دعا کرنے کا ارادہ نہیں تھا۔ مثلاً آدمی راستے میں جا رہاتھا اور اﷲ سے دعا مانگی یا یہ کہ قبروں کی طرف سے گزر ہوا یا بالارادہ ان کی زیارت کے لیے گیا اور وہاں اﷲ تعالیٰ کی بارگاہ میں اس کے لیے اوردیگر اموات کے لیے دعا کردی جیساکہ احادیث میں آیا ہے تویہ اور اس کی مثل دیگر صورتوں میں کوئی حرج نہیں۔
2 یہ کہ قبروں کے پاس دعا کرنے کا جان بوجھ کر ارادہ کرلے اور سمجھے کہ وہاں دعا دوسری جگہوں سے زیادہ قبول ہوتی ہے تویہ صورت ممنوع ہے مکروہ تحریمی یامکروہ تنزیہی، ہاں تحریم کے زیادہ قریب ہے، اور دونوں صورتوں میں واضح فرق ہے۔ (اس کی مثال یوں سمجھیے) کہ آدمی راستے میں چلتے ہوئے دعا کر ررہا ہے اور راستے میں بت یا صلیب یاگرجا گھر واقع ہے مگر چونکہ یہ چیزیں اس کے ذہن میں مقصود بالدعاء نہیں ہیں اس لیے وہ گنہگار نہیں۔ اور اس کی دعا جائز ہے یا یہ کہ وہ کسی ایسی جگہ میں دعا مانگ رہاہے جہاں صلیب بھی ایک جگہ موجود ہے مگر وہ اس کے وجود سے غافل ہے۔ یایہ کہ وہ داخل ہوا کسی گرجا گھر میں تاکہ اس میں رات گزارے اور رات میں اﷲ سے دعا کرتا ہے توجائز ہے یا اپنے بعض دوستوں کے ہاں رات گزارے اور اﷲ سے دعا کرے تو اس میں کوئی حرج نہیں۔ کیونکہ وہ خاص دعا کے لیے گرجا گھر نہیں آیا۔
لیکن اگر جان بوجھ کر کسی بت خانے یا گرجے میں اس لیے دعا کرتا ہے کہ اس جگہ قبولیت دعا ہوتی ہے تو یہ کبائر میں سے ہے بلکہ اگر کسی نے کسی گھر یا بازارمیں کسی خاص دوکان (یاستون کے پاس) یا راستے کے نشانات کے پاس قبولیت کی خاطر دعا کی تویہ منکرات محرمہ میں سے ہے کیونکہ یہ دعا کی کوئی فضیلت نہیں۔
پس قبور کے پاس دعا کا قصد اسی قبیل سے ہے یعنی منکرات محرمہ میں سے ہے بلکہ اس سے بھی شدید تر ہے کیونکہ نبی کریم ﷺ نے قبروں کو سجدہ گاہ، میلہ یعنی مزار بنانے اور ان کے پاس نماز پڑھنے سے منع فرمایا ہے بخلاف ان میں سے بہت سے مقامات کے۔اوریہ جو مشہور ہے کہ نبی کریمﷺ نے فرمایا جب کوئی معاملہ کسی طرح تمہاری سمجھ میں نہ آئے تو اہلِ قبور سے مدد حاصل کرو تو باتفاق تمام علماء یہ بالکل جھوٹی حدیث ہے پھر آگے لکھا ہے کہ قبور کے پاس اس امید پر دعا کرنا کہ وہاں دیگر مقامات کے لحاظ سے زیادہ دعا قبول ہوتی ہے یہ ایک ایسا امر ہے جسے اﷲ اور اس کے رسول ﷺ نے مشروع نہیں فرمایا نہ صحابہ رضی اللہ عنہم میں سے کسی نے یہ عمل کیا نہ تابعین نے نہ ائمہ مسلمین نے اور نہ ہی متقدمین صالحین میں سے کسی نے اس کا ذکر کیاہے پھر آگے لکھاہے کہ جس نے کتب آثار کا مطالعہ کیاہے اسلاف کے احوال سے آگاہ ہے وہ اس بات پر یقین رکھے گا کہ کسی قوم نے قبور سے مدد نہیں مانگی نہ وہاں دعا کے لیے کوششیں کی مگر جو جہال یہ کام کرتے انہیں منع کرتے۔
علامہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ تعالی کی اس عبارت سے معلوم ہوتاہے کہ ان کے نزدیک چند چیزیں مطلقاً حرام ہیں:

قبور کے پاس دعا کوافضل تصور کرنا۔

قبور کے پاس دعا کے لیے سفر کرنا۔

وہاں دعا کی قبولیت کی امید رکھنا۔

یہ سمجھنا کہ وہاں دوسرے مقامات سے جلدی دعا قبول ہوتی ہے۔
لیکن اگر اتفاقاً قبر پر گزرنا ہوا اور وہاں دعا مانگ لی یا کسی قبر کی زیارت کی یا صاحب قبر کو سلام کیا اور وہاں دعا کردی تو یہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ تعالی کے نزدیک حرام نہیں ہے اور یہ شخص نہ مشرک ہوگا اورنہ بدعتی۔
غیر مقلدین کا عقیدہ ابن تیمیہ کے عقیدہ کے خلاف ہے:
علامہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ تعالی کی عبارت سامنے رکھیں اور علامہ وحید الزمان کی عبارت سے موازنہ کریں۔ علامہ وحید الزمان اپنی کتاب ہدیۃ المہدی کے صفحہ 32 پر لکھتے ہیں:
قال بعض ترجی سرعۃ الاجابۃ عند قبر النبیﷺ او غیرہ من المواضع المتبرکۃ۔
یعنی بعض علماء نبی کریمﷺ کی قبر کے پاس یا اس کے علاوہ مقامات مقدسہ پر دعا جلدی قبول ہونے کی امید رکھتے ہیں۔
قبر اطہر کی طرف منہ کرنے میں ابن تیمیہ کی رائے:
اس موضوع پر علماء کرام کے اقوال نقل کرنے کے بعد شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں
فاتفقوا فی استقبال القبلۃ وتنازعوا فی تولیۃ القبر ظھرہ وقت الدعاء۔
اقتضاء الصراط المستقیم صفحہ 406
یعنی قبلہ کی طرف منہ کرنے کے جواز میں اتفاق ہے اور اس بارے میں علماء کا اختلاف ہے دعاء کے وقت قبر انور کی طرف پشت کی جا سکتی ہے یانہیں۔
علامہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ تعالی کی اس عبارت سے واضح ہوگیا کہ آپﷺ کی قبر شریف کے سامنے کھڑا ہونے والا شخص اﷲ کے حضور دعا کر سکتا ہے اور یہ بھی واضح ہوگیا کہ جو لوگ آپﷺ پر سلام عرض کرنے کے بعد کھڑے ہوکر دعا کرتے ہیں وہ اہلِ ایمان اور اہلِ توحید ہیں۔
امام مالک رحمہ اللہ تعالی کی رائے:
علامہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ تعالی لکھتے ہیں کہ ابن وہب رحمہ اللہ تعالی نے امام مالک رحمہ اللہ تعالی سے نقل کیاہے
اذا سلم علی النبی ﷺ یقف ووجہہ الی القبر لا الی القبلۃ ویدنو وسلم ویدعو ولایمس القبر بیدہ۔
اقتضاء الصراط المستقیم صفحہ 406
یعنی جب کوئی آپﷺ کی خدمت میں سلام عرض کرلے تو اس طرح کھڑا ہوکہ منہ آپﷺ کی طرف ہو نہ کہ قبلہ کی طرف اور قریب ہوجائے اور سلام عرض کرلے اور دعا کرے لیکن قبر انور کو اپنے ہاتھ سے نہ چھوئے۔
شارح الشفاء امام خفاجی رحمہ اللہ تعالی کی رائے:
شارح الشفا امام خفاجی رحمہ اللہ تعالی اس بات کی تصریح یوں کرتے ہیں
صرح اصحابنا بانہ یستحب ان یأتی القبر ویستقبلہ ویستدبر القبلۃ ثم یسلم علی النبیﷺ ثم علی الشیخین رضی اللہ عنہما ثم یرجع الی موقفہ الاول ویقف ویدعو۔
یعنی ہمارے علماء نے تصریح کی ہے کہ مستحب یہ ہے کہ حاضری دیتے وقت قبر انور کی طرف منہ کیاجائے اور قبلہ کی طرف پشت پھر سلام عرض کیا جائے پھر شیخین کی خدمت میں پھر پہلی جگہ لوٹ کر دعا کی جائے۔
عقیدہ نمبر 9:
ہمارے نزدیک آنحضرتﷺ اور اسی طرح تمام انبیاء علیہم السلام اپنی قبروں میں زندہ ہیں، نماز پڑھتے ہیں اور آپﷺ پر امت کے اعمال پیش کیے جاتے ہیں اور آپ ﷺ کو صلوٰۃ و سلام پہنچایا جاتاہے۔ صلوٰۃ و سلام پہنچانے کا مطلب یہ ہے کہ فرشتے آپﷺ کو اطلاع دیتے ہیں۔
خلاصہ عقائد علمائے دیوبند صفحہ 227
اعتراض:
عیسیٰ علیہ السلام کے علاوہ تمام انبیاء کرام فوت ہوچکے ہیں۔
وماجعلنا لبشر من قبلک الخلد افائن مت فھم الخٰلدون
انبیاء: 34
اور ہم نے آپ سے پہلے بھی کسی کو ہمیشہ کی زندگی نہیں دی ہے کیا اگر آپ فوت ہوجائیں تو وہ (مشرکین) ہمیشہ رہیں گے۔
واوصانی بالصلوٰۃ والزکوٰۃ ما دمت حیا
مریم: 31
عیسیٰ علیہ السلام نے فرمایا مجھے نماز و زکوٰۃ کا حکم ہے جب تک میں زندہ ہوں۔
واعبد ربک حتی یأتیک الیقین
حجر: 99 
اورآپ ﷺ اپنے رب کی عبادت کریں یہاں تک کہ آپ کو موت آجائے۔
خلق الموت والحیوۃ لیبلوکم ایکم احسن عملا
الملک: 2
موت اور زندگی کا مقصد اچھے اور برے اعمال کرنے والوں میں فرق دیکھنا ہے یعنی دنیوی زندگی میں یہ فرق ہوگا کیونکہ موت کے بعد اعمال کے دروازے بند ہوجائیں گے۔ حدیث شریف میں ہے
اذا مات الانسان انقطع عنہ عملہ الا من ثلاثۃ۔
مسلم، مشکوٰۃ1 صفحہ32
انسان کو موت پہنچ جانے پر سارے دروازے اس انسان کے لیے بند ہوجاتے ہیں مگر تین طریقے ہیں اس کی فلاح کے لیے

صدقہ جاریہ کا اجر ملتاہے۔

علم نافع کا اجر ملتاہے۔

نیک اولاد جو اپنے والدین کے لیے دعا مانگتے ہیں۔
اعمال پیر اور جمعرات کے دِنوں میں اﷲ کے پاس جاتے ہیں۔
بخاری
قیامت کے دِن بدعتیوں کو حوضِ کوثر سے پانی پلانے سے فرشتے محمدﷺ کو روک دیں گے۔ اور کہیں گے کہ آپ کو علم نہیں یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے آپ کے بعد بدعات ایجاد کی تھیں تو نبیﷺ فرماتے ہیں کہ میں وہی کہوں گاجوصالح بندے نے کہی تھی
وکنتُ علیھم شھیدا ما دمتُ فیھم
مائدہ: 114
میں تو بس اسی وقت کی خبر رکھتاہوں جس وقت میں ان میں زندہ تھا یعنی وفات کے بعد امت کے اعمال کی مجھے کوئی خبر نہیں۔
بخاری کتاب التفسیر وکتاب الانبیاء، مسلم، باب فناء الدنیا وبیان الحشر
موازنہ کیجئے صفحہ 9۔10
جواب:
سب سے پہلے تو یہ جاننا ضروری ہے کہ شاہ صاحب کی پیش کردہ آیتوں کا اس مسئلہ اور عقیدہ سے تعلق ہے یا نہیں۔
پہلی آیت
غیر مقلدین کی مشہور تفسیر’’تفسیر ستاری‘‘ میں مفتی عبدالستار دہلوی اس آیت کی تفسیر کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
حضرت شاہ صاحب رحمہ اللہ تعالی لکھتے ہیں کہ کافر حضورﷺ کی باتیں سن کر کہتے تھے کہ یہ ساری دھوم محض اس شخص کے دم تک ہے یہ دنیا سے رخصت ہوئے پھر کچھ نہیں اس سے اگر ان کی غرض یہ تھی کہ موت آنا نبوت کے منافی ہے تو اس کا جواب وما جعلنا لشبر من قبلک الخلد ہے۔ یعنی انبیاء ومرسلین میں سے کون ایسا ہے جس پر کبھی موت طاری نہ ہو ہمیشہ زندہ رہے۔ اوراگر محض آپﷺ کی موت کے تصور سے اپنا دِل ٹھنڈا کرنا ہی مقصود تھا تو اس کاجواب افان مت فھم الخٰلدون سے دے دیا۔ یعنی خوشی کا ہے کی ہے کیا اگر آپ کا انتقال ہوجائے تو تم کبھی نہیں مرو گے قیامت کے بوریے سمیٹو گے؟ جب تم کو بھی پیچھے مرنا ہے تو پیغمبر کی وفات پر خوش ہونے کا کیا موقع ہے اس راستے سے تو سب کو گزرنا ہے کون ہے جس کو موت کا مزہ نہیں چکھنا پڑے گا گویا توحید اور دلائل قدرت بیان کرنے کے بعد اس آیت میں مسئلہ نبوت کی طرف روئے سخن پھیر دیا گیا۔
تفسیر ستاری2 صفحہ 459
دوسری آیت
واوصانی بالصلوٰۃ والزکوٰۃ ما دمت حیا
مریم: 31
یعنی اس آیت میں یہ ہے کہ کوئی بڑے سے بڑا بھی احکام شرعیہ سے بری الذمہ نہیں ہے مادمت حیا سے یہ بات ثابت ہوئی کہ آدمی جب تک دنیا میں رہتاہے تو اس پر احکام شرعیہ کی پابندی لازم ہے وہ اگرچہ کتنے ہی اعلیٰ مقام پر پہنچ جائے مگر وہ ان سے بری الذمہ نہیں ہوسکتا۔
تفسیر ستاری 2 صفحہ435
تیسری آیت:
واعبد ربک حتی یأتیک الیقین
حجر: 99
اور اپنے رب کی عبادت کرتے رہنا حتی کہ آپ کو امر یقینی (یعنی موت) پیش آئے۔
تفسیر ستاری1 صفحہ378
اس آیت میں ہے کہ جب تک انسان زندہ ہے اس پر عبادت فرض ہے اور کوئی بڑا یا چھوٹا اس سے بری الذمہ نہیں ہے۔
چنانچہ مفتی عبدالستار دہلوی نے اس آیت سے استدلال کیا ہے:
نماز وغیرہ عبادت ہر انسان پر فرض ہے جب تک اس کی عقل باقی ہے اور ہوش و حواس ثابت ہو جیسی اس کی حالت ہو اس کے مطابق نماز ادا کرے۔ بدمذہبوں نے اس سے اپنے مطلب کی بات گھڑ لی ہے کہ جب تک انسان درجہ کمال تک نہ پہنچے اس پر عبادت فرض رہتی ہے لیکن جب معرفت کی منزل طے کر چکے تو عبادت کی تکلیف ساقط ہوجاتی ہے۔ یہ سراسر کفر وضلالت اورجہالت ہے یہ لوگ اتنا نہیں سمجھتے کہ انبیاء علیہم السلام اور خصوصا سید الرسل حضرت محمد ﷺ اور آپ کے اصحاب رضی اللہ عنہم معرفت کے تمام درجے طے کرچکے تھے اور خدائی علم و عرفان میں سب دنیا سے کامل تھے۔ اﷲ تعالیٰ کی ذات و صفات کا سب سے زیادہ علم رکھتے تھے باوجود اس کے کہ سب سے زیادہ اﷲ کی عبادت کرتے تھے اور اطاعت میں تمام دنیا سے زیادہ مشغول تھے آخری دم تک اس میں لگے رہے۔ پس ثابت ہوا کہ یہاں مراد یقین سے موت ہے عام مفسرین اور صحابہ رضی اللہ عنہم اور تابعین رحمہم اللہ کا یہی مذہب ہے۔
تفسیر ستاری 1 صفحہ 378
چوتھی آیت:
الذی خلق الموت والحیات لیبلوکم ایکم احسن عملا
الملک: 2
اس آیت کی تفسیر میں مولوی عبدالستار دہلوی لکھتے ہیں کہ اگر مرنا نہ ہوتا تو بھلے اور برے کام کا بدلہ کہاں ملتا۔
تفسیر ستاری 2 صفحہ 791
ان حوالہ جات سے یہ بات روزِ روشن کی طرح واضح ہوگئی کہ مولوی صاحب کی پیش کردہ آیتوں کا مذکوہ بالا عقیدے سے دور کا بھی تعلق نہیں کیونکہ ان آیتوں میں سے کسی ایک آیت میں بھی انبیاء علیہم السلام کے بعد الوفات اپنی قبروں میں زندہ ہونے اور نماز پڑھنے اور آپﷺ پر امت کے اعمال پیش ہونے کی نفی نہیں ہے۔ غیر مقلدین کے پیشوا صاحب تفسیر ستاری نے بھی اس کا وہ مطلب بیان نہیں کیا جو مولوی نصیب شاہ نے بیان کیاہے۔
نصیب شاہ سے صرف ایک آیت کا مطالبہ:
مولوی نصیب شاہ سے مطالبہ ہے کہ قرآن کی کوئی ایک آیت ایسی پیش کریں جس میں انبیاء علیہم السلام کے بعد الوفات قبر میں زندہ ہونے کی نفی ہو؟۔
انبیاء علیہم السلام بعد الوفات اپنی قبروں میں زندہ ہیں اور عبادت کرتے ہیں اور آپﷺ پر اپنی امت کے اعمال پیش کیے جاتے ہیں اس کی تفصیل عقیدہ نمبر7 کے تحت گزر چکی ہے۔ مزید حوالہ جات ملاحظہ فرمائیں۔
مشہور و معروف غیر مقلد علامہ شوکانی رحمہ اللہ تعالی لکھتے ہیں:
(والاحادیث) فیھا مشروعیۃ الاکثار من الصلوٰۃ علی النبیﷺ یوم الجمعۃ وانھا تعرض علیہ ﷺ وانہ حی فی قبرہ وقد ذھب جماعۃ من المحققین الی ان رسول اﷲﷺ حی بعد وفاتہ وانہ یسربطاعات امتہ وان الانبیاء لایبلون مع ان مطلق الادراک کالعلم والسماع ثابت لسائر الموتی وورد النص فی کتابﷲ فی حق الشھداء انھم احیاء یرزقون وان الحیاۃ فیھم متعلقۃ بالجسد فکیف الانبیاء والمرسلین۔
نیل الاوطار 3 صفحہ 248
ترجمہ: اوران احادیث میں نبی اکرمﷺ پر جمعہ کے دِن کثرت کے ساتھ درود شریف پڑھنے کی مشروعیت ہے اور بے شک درود آپﷺ پر پیش کیا جاتاہے اور بلاشبہ آپﷺ اپنی قبر میں زندہ ہیں … اور بے شک محققین کی ایک جماعت اس طرف گئی ہے کہ نبی اکرمﷺ اپنی وفات کے بعد زندہ ہیں اور اپنی امت کے نیک کاموں سے خوش ہوتے ہیں۔ اور بے شک انبیاء کرام علیہم السلام کے اجساد بوسیدہ نہیں ہوتے جبکہ مطلق ادراک جیسے علم اور سماع تو سب قبر والوں کے لیے ثابت ہے۔ اور شہداء کے بارے میں تو اﷲ تعالیٰ کی کتاب میں نص وارد ہوئی ہے کہ وہ زندہ ہیں اور ان کو رزق ملتاہے۔ اور ان کی یہ حیات جسم کے ساتھ ہے پس حضرات انبیاء ومرسلین علیہم السلام کی حیات جسم سے متعلق کیوں نہ ہوگی؟۔
علامہ شوکانی کی عبارت کا خلاصہ:
علامہ شوکانی کی عبارت سے مندرجہ ذیل باتیں معلوم ہوتی ہیں:
1) انبیاء کرام علیہم السلام بعد الوفات اپنی قبروں میں زندہ ہیں۔
2) آپﷺ پر امت کے اعمال پیش کیے جاتے ہیں اور آپﷺ اپنی امت کے نیک کاموں سے خوش ہوتے ہیں۔
3) علماء محققین کی بھی یہی رائے ہے۔
4) علم اور سماع ہر صاحب قبر کے لیے ثابت ہے۔
5) جب شہداء کو اپنی قبروں میں جسم کے ساتھ حیات حاصل ہے اور ان کو رزق دیاجاتاہے تو انبیاء علیہم السلام کو بطریقِ اولیٰ جسمانی حیات حاصل ہوگی۔
علامہ شوکانی ایک اور جگہ لکھتے ہیں
وفی صحیح المسلم عن النبیﷺ قال قال مررت بموسی لیلۃ اسری بی عند الکثیب الاحمر وھو قائم یصلی فی قبرہ انتھٰی۔
نیل الاوطار 2 صفحہ 264 طبع مصر 2 صفحہ 282
نواب صدیق حسن صاحب لکھتے ہیں:
آپﷺ اپنی قبر میں زندہ ہیں اور اس کے اندر اذان و اقامت کے ساتھ نماز پڑھتے ہیں۔
وکذٰلک الانبیاء
الشمامۃ العنبریۃ من مولد خیر البریۃ صفحہ 52
شارح ابو داود علامہ شمس الحق عظیم آبادی لکھتے ہیں:
وقد ذھب جماعۃ من المحققین الی ان رسول اﷲ ﷺ حی بعد وفاتہ وانہ یسر بطاعات امتہ
عون المعبود 3 صفحہ261
ترجمہ: اور محققین کی ایک جماعت کا یہی دعویٰ ہے کہ رسولِ اکرمﷺ اپنی قبر میں زندہ ہیں اور اپنی امت کے اعمال پر خوش ہوتے ہیں۔
مولوی محمد اسماعیل سلفی لکھتے ہیں:
اہل السنت کے دونوں مکاتب فکر کے اصحاب الرائے اور اہلحدیث کا اس امر پر اتفاق ہے کہ شہداء اورانبیاء زندہ ہیں برزخ میں وہ عبادت، تسبیح وتہلیل فرماتے ہیں ان کو رزق بھی ان کے حسب حال اور حسب ضرورت دیاجاتاہے۔ انبیاء کی زندگی کے متعلق سنت میں شواہد ملتے ہیں۔ صحیح احادیث میں انبیاء علیہم السلام کے متعلق عبادت وغیرہ کا ذکر آیا ہے۔
تحریک آزادیٔ فکر صفحہ 385
حدیث اذامات الانسان……الخ سے استدلال کا جواب:
شاہ صاحب نے حدیث اذامات الانسان……الخ پیش کرکے یہ تاثر دینے کی کوشش کی ہے کہ انسان کے مرنے کے بعد جب سارے اعمال منقطع ہوجاتے ہیں تو پھر انبیاء علیہم السلام اپنی قبروں میں نماز کس طرح پڑھتے ہیں ؟ مذکورہ بالا حوالہ جات کی روشنی میں اس کا جواب یہ ہے کہ اس حدیث میں دار العمل (یعنی دنیا) کے بعد وجوبِ عمل کے انقطاع کا ذکر ہے نہ کہ نفس عمل کے انقطاع کا۔
احادیث صحیحہ سے انبیاء علیہم السلام کا قبروں میں نماز پڑھنے کا ثبوت:
انبیاء علیہم السلام کا اپنی قبروں میں نماز پڑھنا احادیث صحیحہ سے ثابت ہے۔ نیز غیر مقلدین کے اکابرین کا بھی یہی عقیدہ ہے کہ انبیاء علیہم السلام اپنی قبروں میں زندہ ہیں اور قبر میں اذا ن و اقامت کے ساتھ نماز پڑھتے ہیں۔ جیساکہ اسی بحث میں گزرا ہے۔اورانبیاء علیہم السلام اپنی قبروں میں تلذذاً نماز پڑھتے ہیں نہ کہ وجوباً جیسا کہ علامہ قرطبی رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں
قال القرطبی حبت الیھم العبادۃ فھم یتعبدون بما یجدونہ من دواعی انفسھم لابما یلزمون بہ۔
راجع لہ الفتح 1 صفحہ 330
پیر اور جمعرات کو بندوں کے اعمال کی پیشی:
شاہ صاحب نے بخاری کے حوالے سے حدیث پیش کی ہے کہ اعمال پیر اور جمعرات کے دِن اﷲ کے پاس جاتے ہیں اس حدیث کو ہمارے خلاف پیش کرنا حماقت ہے کیونکہ اس حدیث میں جس چیز کا ثبوت ہے ہم اس کے منکر نہیں ہیں۔ دوسری بات یہ ہے کہ اس حدیث میں اس بات کی نفی نہیں کہ امت کے اعمال حضورﷺ پر پیش کیے جاتے ہیں۔
شاہ صاحب کا حوضِ کوثر والی حدیث سے استدلال اور اس کا جواب:
شاہ صاحب کی پیش کردہ حدیث حوضِ کوثر مرتدین کے متعلق ہے نہ کہ صحیح العقیدہ مسلمانوں کے بارے میں ، چنانچہ علامہ نووی رحمہ اللہ تعالی اس حدیث کے متعلق لکھتے ہیں
قولہﷺ سیجاء برجال من امتی الی اخرہ المراد بہ الذین ارتدوا عن الاسلام۔
شرح مسلم للنووی 2 صفحہ384
یعنی اس سے وہ لوگ مراد ہیں جو اسلام سے مرتد ہوگئے ہیں۔
اس حدیث کی تشریح کرتے ہوئے علامہ وحید الزمان لکھتے ہیں
اس سے) مراد وہ لوگ ہیں جو آنحضرتﷺ کی وفات کے بعد حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے دورِ خلافت میں مرتد ہوگئے۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے ان سے جہاد کیا اس حدیث کایہ خلاصہ نکلا کہ آنحضرتﷺ کو امت کے اعمال کی جو خبر پیر اور جمعرات کو دی جاتی ہے وہ اجمالی خبر ہے نام بنام ہر ایک کی خبر نہیں دی جاتی۔
تیسیر الباری 3 صفحہ 364، حدیث نمبر 574 باب نمبر 310 طبع نعمانی کتب خانہ
جب کوئی آدمی مرتد ہوجاتاہے تو دین سے نکل جاتاہے اور اس کے تمام اعمال برباد ہوجاتے ہیں اور وہ واجب القتل ہوتاہے، اسلام اورپیغمبر علیہ السلام سے اس کا کوئی تعلق نہیں رہتا بلکہ اسلام میں تو اہلِ بدعت کے تمام اعمال برباد ہیں ، چنانچہ حدیث میں ہے
لایقبل ﷲ لصاحب بدعۃ صوما ولا صلوٰۃ ولاصدقۃ ولاحجا ولا عمرۃ ولا جھادا ویخرج من الدین کما یخرج الشعرۃ من العجین۔
ابن ماجہ شریف
اﷲ تعالیٰ بدعتی آدمی کا نہ روزہ قبول کرتاہے نہ نماز، نہ زکوٰۃ، نہ خیرات نہ حج، نہ عمرہ اورنہ جہاد اور بدعتی (آدمی دائرہ) اسلام سے ایسا نکل جاتاہے جیسے بال گوندھے ہوئے آٹے سے نکل جاتا ہے۔
آنحضرتﷺ پر امت اجابت کے اعمال اجمالی طور پر پیش ہوتے ہیں
علماء دیوبند کے عقائد میں ہے کہ آنحضرتﷺ پر امت اجابت کے اعمال فرشتوں کے ذریعے اجمالی طورپر پیش کیے جاتے ہیں۔ یہ بات مسند بزاز کی صحیح حدیث سے ثابت ہے۔علامہ عثمانی رحمہ اللہ تعالی اس حدیث کے متعلق فرماتے ہیں
اس حدیث کی سند عمدہ ہے۔
فتح الملہم 1 صفحہ 413
مذکورہ بالا حوالہ جات سے معلوم ہوگیا کہ شاہ صاحب کی نقل کردہ حدیث کا تعلق مرتدین سے ہے اور مرتدین دین سے نکل جاتے ہیں۔ اسلام اورپیغمبر ﷺ سے ان کا کوئی تعلق نہیں رہتا اگر اس کے اعمال حضورﷺ پر پیش نہ ہو تو اس میں کیا اشکال۔
دوسری بات یہ کہ اعمال اجمالی طور پر پیش کیے جاتے ہیں نام بنام اور شکل و صورت کے ساتھ نہیں لہٰذا اب ہمارے عقیدے پر کوئی اشکال باقی نہیں رہا۔
عقیدہ نمبر10:
ہمارے نزدیک آنحضرتﷺ اسی طرح تمام (انبیاء علیہم السلام ) وفات کے بعد اپنی قبور مبارکہ میں اسی طرح حقیقتاً نبی اور رسول ہیں جس طرح وفات سے پہلے ظاہری حیات مبارکہ میں تھے۔
خلاصہ عقائد علمائے دیوبند، صفحہ 228
موازنہ کیجئے صفحہ 10
شاہ صاحب کا تذبذب:
شاہ صاحب نے عقیدہ نمبر10 پر کوئی اعتراض نہیں کیا۔ عقیدہ نمبر 10 کے متعلق شاہ صاحب شک اور تردد میں ہیں کیونکہ جو عقیدہ شاہ صاحب کے زعم و گمان کے مطابق صحیح تھا تو وہاں صاف لکھا کہ یہ عقیدہ بالکل ٹھیک ہے۔ اور جو ان کے گمان کے مطابق صحیح نہیں تھا اس کو غلط ثابت کرنے کے لیے ناکام کوشش کی اگرچہ وہ کوشش رائیگاں گئی لیکن عقیدہ نمبر 10 پر کوئی تبصرہ نہیں کیا جس سے صاف معلوم ہوتاہے کہ شاہ صاحب اس عقیدے کے متعلق شک و تردد میں ہیں۔ العیاذباﷲ
غیر مقلدین کو مخلصانہ مشورہ:
بہر حال ہمارا یہ عقیدہ ہے اور الحمد للہ یہ عقیدہ بھی دوسرے عقائد کی طرح قرآن و حدیث اور اجماع امت کے عین مطابق ہے۔ ہمارا مخلصانہ اور ہمدردانہ مشورہ ہے کہ تمام غیر مقلدین تعصب اور ضد کی عینک اتار کر ہمارے اکابر کی کتب کا مطالعہ فرمائیں۔ ان شاء اللہ ہدایت ان کا مقدر بنے گی۔
عقیدہ نمبر11:
ہمارا اور ہمارے مشائخ کا عقیدہ یہ ہے کہ سیدنا ومولانا وحبیبنا وشفیعنا حضرت محمدﷺ تمام مخلوق سے افضل ہیں۔ اﷲ کے نزدیک سب سے بہتر ہیں اﷲ تعالیٰ سے قرب میں کوئی شخص آپﷺ کے برابر تو کیا قریب بھی نہیں ہوسکتا۔ آپﷺ تمام انبیاء اور رسل علیہم السلام کے سردار اور خاتم ہیں۔
خلاصہ عقائد علمائے دیوبند صفحہ نمبر 229
اعتراض:
بالکل ٹھیک ہے آپﷺ تمام مخلوق سے افضل ہیں۔ مگر یہ تمہاری صرف زبانی جمع خرچ ہے۔ ورنہ اپنے ائمہ اور علماء کو معصوم عن الخطاء اور واجب الاتباع کیوں گردانتے ہیں اور انکار کرنے والوں کو موردِ الزام ومجرم کیوں سمجھتے ہیں نمونہ کے لیے چند حوالے:تنویر الابصار متن دُرّالمختار 1 صفحہ 25 میں ہے کہ ابو حنیفہ رحمہ اللہ تعالی کو اﷲ تعالیٰ نے آواز دی کہ میں نے تجھے تا قیامت آنے والے تیرے مقلدین کو معاف کیا جبکہ محمد ﷺ کو امت کی سزائیں دکھائی گئیں۔ متفق علیہ
ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا پر منافقین نے تہمت لگائی اﷲ تعالیٰ نے اس کی پاکی کا نزول سورۃ نور میں نازل فرمایا جبکہ آپﷺ مسلسل پریشان تھے کیونکہ آپ ﷺ کو وضو میں گناہ نظر نہیں آئے ورنہ عائشہ رضی اللہ عنہا پر لگایا گیا تہمت کا گناہ عبداﷲ بن ابی کے وضو میں دیکھ لیتے۔ جبکہ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ تعالی کے بارے میں انہوں نے لکھا ہے کہ ان کو وضو میں لوگوں کے گناہ نظر آتے تھے۔
فضائلِ اعمال صفحہ نمبر14 بیان نماز
موازنہ کیجئے صفحہ 11
شاہ صاحب کی طرف سے عقیدہ نمبر11 کی تصدیق:
شاہ صاحب نے علماء دیوبند کے عقیدہ نمبر11 کو صحیح تسلیم کیاہے۔ چنانچہ لکھتے ہیں کہ بالکل ٹھیک ہے آپﷺ تمام مخلوق سے افضل ہیں۔
ہوا ہے مدعی کا فیصلہ اچھا میرے حق میں

زلیخا نے کیا خود پاک دامن ماہ کنعان کا

 
شاہ صاحب کی کذب بیانی:
اگرچہ شاہ صاحب نے علماء دیوبند کے عقیدہ نمبر11 کو صحیح تسلیم کیاہے لیکن شاہ صاحب کو علماء دیوبند کے ساتھ دشمنی اور تعصب نے چین سے نہیں بیٹھنے دیا اور اسی دشمنی و تعصب نے ان کو جھوٹا الزام لگانے پر مجبور کیا، چنانچہ شاہ صاحب لکھتے ہیں کہ یہ تمہارا زبانی جمع خرچ ہے ورنہ تم اپنے ائمہ اور علماء کو معصوم عن الخطاء اور واجب الاتباع کیوں گردانتے ہو؟۔
احناف اور بالخصوص علماء دیوبند کے نزدیک ان کے ائمہ و علماء معصوم عن الخطاء نہیں۔ یہ شاہ صاحب کا سفید جھوٹ اوربہتان عظیم ہے کہ احناف اپنے ائمہ کو معصوم عن الخطاء سمجھتے ہیں۔ کیونکہ آپ کے اکابر بھی اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ احناف اپنے ائمہ کو معصوم عن الخطاء نہیں سمجھتے۔
غیر مقلدین کے معروف اور متعصب عالم مولوی محمد جوناگڑھی لکھتے ہیں:
اہلحدیث کا تو ایمان ہے کہ شرعی مسائل میں غلطی سے پاک صرف نبی آخر الزمان کی ذات و صفات ہیں ﷺ۔ گو حنفی مذہب کی اصولی کتابیں بھی اس میں اہلحدیث کے ساتھ متفق ہیں کہ
المجتھد یخطی و یصیب یعن
ی مجتہد سے کبھی غلطی ہو جاتی ہے کبھی وہ صحیح بات کہہ گزرتا ہے۔
طریقِ محمدی صفحہ54
شیخ عبد الغفار رضامری (غیر مقلد) لکھتے ہیں:
اول الذکر گروہ میں سے ایک طبقہ (یعنی شیعوں ) کا دعویٰ ہے کہ ہمارے امام ہر قسم کی غلطیوں سے پاک اور معصوم ہیں اور اس گروہ کے دوسرے (طبقوں یعنی ذکری و قادیانی) کا کہنا ہے کہ جب شیعوں کا امام معصوم عن الخطاء ہے تو ہمارے پیشوا بھی شیطان کی وحی سے پیغمبر ہے اس لیے وہ بدرجہ اولیٰ معصوم ہے۔ باقی جہاں تک سنی مسلمان مقلدین کا تعلق ہے تو وہ یہ نہیں کہتے کہ ہمارے ائمہ کرام غلطی اور خطاء سے معصوم ہیں۔
کشف الکسوف فی مسائل الصفوف
پس ثابت ہواکہ شاہ صاحب کایہ جھوٹ ہے کہ احناف اپنے ائمہ کو معصوم عن الخطاء سمجھتے ہیں۔
اکابر غیر مقلدین اپنے ائمہ کو ’’واجب الاتباع و التقلید‘‘سمجھتے ہیں :
شاہ صاحب کا یہ کہنا کہ احناف اپنے ائمہ کو واجب الاتباع گردانتے ہیں تو اس کا جواب یہ ہے کہ آپ کے اکابر بھی یہی کہتے ہیں کہ ائمہ کی اتباع (تقلید) واجب اور ضروری ہے بطور نمونہ چند حوالے ملاحظہ فرمائیں۔
غیر مقلدین کے عالم و مناظر مولانا ثناء اﷲ امرتسری لکھتے ہیں کہ یہ بات طے ہوچکی ہے کہ بے علم کو عالم کی تقلید ضروری ہے۔
تقلید شخصی صفحہ نمبر20
حافظ محمد صاحب لکھتے ہیں:
جب مکلف خود مسئلہ کی تحقیق نہ کرسکے اور اس کو تفصیل معلوم نہ ہو تو اس صورت میں بعض وقت تقلید جائز ہوتی ہے اور بعض اوقات واجب……الخ۔
الاصلاح صفحہ 24
دوسری جگہ لکھتے ہیں:
اس تقلید جس کو حنفیہ واجب کہتے ہیں کہ ادلہ کو دیکھا جائے تو ایسی تقلید اہلحدیث کو بھی مضر نہیں۔
الاصلاح صفحہ23
غیر مقلدین کے پیشوا نواب صدیق حسن خان لکھتے ہیں:
بہرحال جو شخص اپنی استطاعت کے مطابق اﷲ تعالیٰ کے اتارے ہوئے احکام کی اطاعت کرتاہے اور اس میں اگر بعض چیزیں اس پر مخفی رہ جائیں اور ان میں وہ اپنے سے زیادہ علم اور سمجھ والے کی تقلید کرے تو اس کا ایسا کرنا پسندیدہ عمل ہے، مذموم نہیں۔ اور اس میں اس کو ثواب ملے گا اس پر گناہ کچھ نہ ہوگا جیساکہ تقلید واجب ہے۔
الدین الخالص صفحہ 515
دوسری جگہ لکھتے ہیں :
وہ تھوڑے سے مسائل میں یوں ہے کہ ان میں انہیں اﷲ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ سے کوئی صراحت نہیں ملی اور ان میں انہوں نے اپنے سے زیادہ علم رکھنے والوں کے قول کے علاوہ کچھ نہیں پایا سو انہوں نے اس میں تقلید کی اور اہل علم کا یہی کام ہے اور یہی واجب ہے۔
الدین الخالص صفحہ 516
معجزات و کرامات کا تعلق عقائد سے نہیں ہوتا:
کشف و کرامات سے عقائد ثابت نہیں ہوتے۔ یہاں عقائد کی بحث ہورہی ہے۔ شاہ صاحب اپنا مدعیٰ ثابت کرنے کے لیے امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ تعالی کے کشف کو بطور دلیل پیش کررہے ہیں جوکہ قیاس کے قبیل سے ہے۔ دوسرا قیاس کرلے تو ان کے نزدیک مشرک ٹھہرے خود لاکھ قیاس کریں کوئی پوچھنے والا نہیں۔ جبکہ شاہ صاحب نے خود اپنی اسی کتاب کے صفحہ 17 پرلکھاہے کہ معجزہ و کرامت مسائل کے دلائل کے طور پر پیش نہیں کیے جا سکتے۔
جواب عقیدہ نمبر21،موازنہ کیجئے صفحہ 17
غیر مقلدین کے اکابر معصوم عن الخطاء بلکہ خدا بن گئے:
شاہ صاحب نے ائمہ اور علماء کے کشف کو دلیل بناکر انہیں معصوم عن الخطاء ہونے کا الزام ہمارے اوپر لگایا ہے کہ ہم اپنے ائمہ اور علماء کو معصوم عن الخطاء سمجھتے ہیں اگر کشف کرامات سے ائمہ معصوم عن الخطاء ہو جاتے ہیں تو پھر شاہ صاحب کا اپنے مقتداؤں کے بارے میں کیا خیال ہے جو صرف معصوم عن الخطاء نہیں بلکہ خدائی کا دعویٰ کر رہے ہیں۔ حوالے ملاحظہ فرمائیں۔
غیر مقلدین کے ائمہ بھی دِلوں کاحال جانتے ہیں :
مولانا عبدالمجید صاحب لکھتے ہیں:
مولوی حسین احمد تاجر کتب پٹیالہ کابیان ہے کہ مجھے دردِ کمر کی شدید شکایت رہتی تھی اور اسی وجہ سے میں نماز باجماعت ادا کرنے سے معذور تھا کیونکہ اکثر اہلحدیث صبح کی نماز میں لمبی قرأت کرتے ہیں اورمیں کھڑا نہیں ہوسکتا تھا۔ ایک دِن میں قاضی صاحب کی مسجد میں نماز صبح کے لیے چلاگیا، قاضی صاحب سورۃ اٰلِ عمران پڑھ رہے تھے دو رکوع پڑھے ہوں گے کہ مجھے درد شروع ہوگیا اورمیں نے ارادہ کیا کہ اب نماز چھوڑ دوں معاً قاضی جی نے اﷲ اکبر کہا اور رکوع میں چلے گئے پھر دوسری رکعت میں مختصر قیام کیا اور سلام پھیر دیا لوگ حیران ہوئے کہ آج اتنی مختصر قرأت کیوں کی کسی نے پوچھا تو آپ نے فرمایا کہ بھئی حضورﷺ کاحکم ہے کہ مقتدیوں کا لحاظ رکھا جائے۔ مولوی حسین احمد کہتے ہیں کہ تین چار یوم کے بعد پھر ایک دفعہ میں نماز میں شامل ہوا تو ایسا ہی اتفاق ہوا۔ جب مجھے درد شروع ہوا اور میں جی میں یہ سوچنے لگاکہ نماز چھوڑ دوں یا نہیں تو قاضی جی نے قرأت ختم کردی اور اختصار سے کام لیا تقریباً آٹھ مرتبہ میں نے آزمایا۔ حالانکہ میں جماعت کے ساتھ بعد میں شریک ہوتاتھا اور قاضی جی کو میری آمد کا کوئی علم نہ ہوتا تھا اس سے میں نے یقین کر لیاکہ آپ صاحب کشف ہیں۔
کرامات اہلحدیث صفحہ 20
اس واقعہ سے دو باتیں معلوم ہوتی ہیں ، ایک تو یہ کہ قاضی صاحب دِلوں کے راز جانتے تھے۔ اور دوسرے یہ کہ کشف وکرامات ان کے اختیار میں تھا اسی لیے حسین احمد فرماتے ہیں تقریباً آٹھ مرتبہ میں نے آزمایا۔
اکابر غیر مقلدین بھی ماں کے پیٹ کا حال جانتے ہیں :
علامہ عبد المجید صاحب سوہدرہوی قاضی محمد سلمان کی کرامت کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں
جب آپ حج کو جارہے تھے تو فرمایا کہ عبدالعزیز کے ہاں لڑکا پیدا ہوگا (یعنی اپنا پوتا) اس کا نام معز الدین حسن رکھنا، چنانچہ ایسا ہی ہوا۔
کراماتِ اہلحدیث صفحہ23
شاہ صاحب آپ کے بقول اگر کوئی شخص کشف و کرامات سے معصوم عن الخطاء بن جاتا ہے تو آپ کا ان حوالوں کے بعد اپنے اکابر کے بارے میں کیا خیال ہے؟ کہیں وہ خدا تو نہیں بن رہے۔ العیاذ باﷲ
باقی رہی امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کی وضو میں گناہ دھلتے ہوئے نظر آنے کی کرامت تو جناب! جزوی فضیلت سے کلی فضیلت لازم نہیں آتی۔
عقیدہ نمبر12
ہمارا اور ہمارے مشائخ کا عقیدہ ہے کہ ہمارے سردار رسول اﷲﷺ خاتم النبیین ہیں آپﷺ کے بعد کوئی نبی نہیں ہے جو اس کا منکر ہے وہ ہمارے نزدیک کافر ہے۔
خلاصہ عقائد علمائے دیوبند، صفحہ 229
اعتراض:
ہم کہتے ہیں کہ علماء دیوبندکی کتابیں اس عقیدے کے خلاف ہیں مولانا گنگوہی نے شامی کے حوالے سے مسئلہ بیان کیا تو محمد یحيٰ صاحب نے فرمایا کہ اس میں نہیں ہے تو شامی لائی گئی تو حضرت نے نابینا ہونے کے باوجود شامی کے دو حصہ ایک طرف اور ایک دوسری طرف کرکے فرمایا کہ بائیں طرف کے صفحہ پر نیچے دیکھو دیکھا گیا تو وہی مسئلہ سب حیران ہوئے تو حضرت نے فرمایا کہ اﷲ تعالیٰ نے مجھ سے وعدہ کیاہے کہ میری زبان سے جھوٹ نہیں نکالے گا۔
ارواحِ ثلاثہ صفحہ 486، حکایت نمبر 308
دوسرا واقعہ ملاحظہ ہو آپ نے کئی مرتبہ بحیثیت تبلیغ یہ الفاظ فیض ترجمان سے فرمائے سن لو حق وہی ہے جو رشید احمد کی زبان سے نکلتاہے اور بقسم کہتاہوں کہ میں کچھ نہیں ہوں مگر اس زمانہ میں ہدایت و نجات موقوف ہے میری اتباع پر۔
تذکرۃ الرشید صفحہ 18 جلد 2، ادارہ اسلامیات لاہور
قاسم نانوتوی دیوبندی فرماتے ہیں:
بلکہ اگر بالفرض بعد زمانہ نبی ﷺ بھی کوئی نبی پیدا ہو تو پھر بھی خاتمیت محمدی میں فرق نہیں آئے گا۔
تحذیر الناس صفحہ 37 دار الاشاعت کراچی
اب قادیانی کے الفاظ پڑھ کر موازنہ کرلو! اور اس وجہ سے وہ شخص یعنی حضرت محمد ﷺ کا فرزند جلیل (مرزا غلام احمد قادیانی) حضرت ابراہیم علیہ السلام کے ساتھ ساتویں آسمان تک پہنچ جائے تو کوئی جاہل ہی یہ کہے گا کہ اس سے خاتم النبیین کے اندر رخنہ (خلل) پڑ گیا۔ نہ پہلے والوں کے نتیجے مین رخنہ پڑا اورنہ بعد میں آنے والے امتی اور ظلی نبی کے آنے پر خلل واقع ہوسکتاہے۔
مقام ختم نبوت از حضرت امام جماعت احمدیہ صدر انجمن احمدیہ ربوہ صفحہ 8
موازنہ کیجئے صفحہ 11۔12
شاہ صاحب کا اس عقیدہ کو بزبانِ حال تسلیم کرنا:
شاہ صاحب نے ہمارے اس عقیدے کو بزبانِ حال تسلیم کیا ہے اسی وجہ سے اس عقیدے کا جواب نہیں دیا۔لیکن تعصب و عناد نے شاہ صاحب کو علماء دیوبند پر الزام تراشی پر مجبور کیا اسی لیے شاہ صاحب نے اس اعتراض میں علماء دیوبند پر الزام تراشی کے لیے قلم اٹھایا ہے۔
احمد رضا خان بریلوی کی تقلید:
شاہ صاحب نے اپنے اس مختصر سے رسالے میں جس طرح امانت و دیانت کا خون کیاہے وہ واقعی قابل دید ہے جس طرح احمد رضا خان بریلوی نے علماء دیوبند کی عبارتوں میں تغیر و تبدل کرکے ان پر کفر کا فتویٰ لگایا اسی طرح شاہ صاحب نے بھی انہی کی تقلید کرکے علماء دیوبند پر یہ الزام لگایاہے۔
کشف و کرامات سے عقیدہ ثابت نہیں ہوتا:
علماء دیوبند کا عقیدہ ہے کہ عقائد کے معاملہ میں کشف و کرامات حجت نہیں۔ شاہ صاحب حضرت گنگوہی کی کرامت کو ذکر کرکے یہ ثابت کرنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ علماء دیوبند ختم نبوت کے منکر ہیں۔ حالانکہ یہ احناف اور علماء دیوبند پر کھلم کھلا بہتانِ عظیم ہے جس کی کوئی اصل نہیں۔ شاہ صاحب کو چاہیے کہ علماء دیوبند پر تہمت لگانے سے پہلے اپنے مذہب کی کتابیں پڑھیں تاکہ شاہ صاحب کے سامنے عقیدہ ختم نبوت کے بارے میں ان کے اکابرین کی رائے شاہ صاحب کے سامنے آجائے۔
مولوی عبدالجبار اپنے استاد مولوی عبدالوہاب دہلوی کے بارے میں لکھتے ہیں:
مولوی صاحب کے جنونِ امامت نے رفتہ رفتہ یہاں تک ترقی کی کہ وہ اپنے آپ کو سب سے زیادہ حق گو اور ذی علم سمجھنے لگے اور امامت وقت یعنی خلیفہ کادعویٰ کر بیٹھے اور اپنی نسبت یہاں تک کہاکہ جو امام وقت کی بیعت کیے بغیر مرے گا وہ جاہلیت کی موت مرے گا۔ اورجو امام وقت کی اجازت کے بغیر زکوٰۃ دے گا اس کی زکوٰۃ قبول نہ ہوگی اور ایسے ہی امام وقت کی اجازت کے بغیر طلاق نکاح بھی درست نہیں اور جو اس وقت مدعی نبوت ہوگا وہ واجب القتل ہے کیونکہ میں امام وقت ہوں۔
مقاصد الامامۃ ومناقب الخلافۃ صفحہ 2
اسی کتاب (مقاصد الامامۃ) کے صفحہ نمبر14 پر لکھاہے کہ جو حالت نبی کی ہوتی ہے وہی امام کی ہوتی ہے۔ گویا کہ نبوت کا دعویٰ کردیا۔العیاذ باﷲ
غیر مقلدین کی مسائل میں مولوی عبدالوہاب کی اندھی تقلید
مولوی عبدالجبار صاحب کنڈیلوی لکھتے ہیں:
چنانچہ رفتہ رفتہ جماعت اہلحدیث کنڈیلہ میں یہ خیالات پیدا ہونے لگے اور مولوی صاحب کے دعووں کی تصدیق کرنے لگے اور غیر مبایعیین کو جاہلیت کی موت مارنے لگے اور اس امامت نے ایک طرح تقلید و ضلالت کی شکل اختیار کرلی اور مولوی صاحب کے اجتہادی مسائل کو یہ لوگ بے چوں و چرا جو خلاف قرآن و حدیث تھے تسلیم کرنے لگے مثلاً مرغ کی قربانی، اور دہلی کے بازار سے گوشت خرید کر بانٹ دینے کا نام قربانی رکھنا وغیرہ، وغیرہ۔
مقاصد الامامۃصفحہ 3
غیر مقلدین کے نزدیک امام اور نبی میں تفریق ٹھیک نہیں :
شاگرد: مولوی صاحب میں پہلے عرض کر چکا ہوں کہ نبی اور امام میں فرق ہے۔
مولوی عبدالوہاب: امام جو ہوتاہے وہ نبی کا نائب ہوتاہے اور جو فرق بتلایا گیا کہ نبی کافروں میں ہوتاہے یہ ٹھیک نہیں کیونکہ ہمارے نبی ﷺ ہی کو دیکھو کہ وہ مسلمانوں میں آئے مکہ کے لوگ مسلمان تھے۔ دیکھو تفسیر جامع البیان تحت آیت ربنا وابعث فیہم…… الخ۔ لہٰذا اس کا نائب بھی مسلمان ہوگا۔
مقاصد الامامۃ صفحہ 15
مولوی عبدالوہاب کے نزدیک اہلحدیث نام کے مسلمان ہیں :
شاگرد: مولوی صاحب آپ لوگوں کو کیوں مغالطہ دیتے ہیں کہ مکہ کے کفارمسلمان تھے ایک ادنیٰ شخص بھی جانتاہے کہ رسول اﷲ ﷺ کفارِمکہ میں مبعوث ہوئے۔
مولوی عبدالوہاب: میں بھی مانتا ہوں کہ وہ کافر مشرک تھے مگر وہ نام کے تو مسلمان کہلاتے تھے تو جیسے رسول اﷲ نام کے مسلمانوں میں آئے ایسے ہی میں بھی یعنی اہلحدیث نام کے مسلمان ہیں۔
مقاصد الامامۃ صفحہ 15، 16
جب تک مسلمان امام کو نہ مانے اس کا اسلام معتبر نہیں :
شاگرد: مولوی صاحب آپ نے پہلے تو کفار مکہ کو مسلمان کہا اورآپ کا فرمانا کہ میں بھی ایسے ہی لوگوں میں آیا ہوں اس سے معلوم ہوتاہے کہ جن لوگوں نے آپ سے بیعت کی ہے وہ پہلے مثل قبر پرستوں کے تھے۔ یعنی اہلحدیث پہلے مثل قبر پرستوں کے تھے.
عبدالوہاب: جب تک مسلمان امام کو نہیں مانتا اس کا اسلام معتبر نہیں۔
مقاصد الامامہ صفحہ 15،16
ہو سکتا ہے کہ شاہ صاحب کا ایمان اس سے تازہ نہ ہو اس لیے مزید دیکھیے:
غیر مقلدین کے ہاں نجات کے لیے محمدﷺ کاقائل ہونا ضروری نہیں
اہل حدیث کے امتیازی مسائل میں ہے کہ اگر کوئی لا الٰہ الااﷲ پڑھے اور محمد رسول اﷲ کا قائل نہ ہو تو وہ امیدوارِ نجات ہے۔
اہلحدیث کے امتیازی مسائل صفحہ 70
نواب صدیق حسن کا عقیدہ انکارِ ختم نبوت:
نواب صدیق حسن خان لکھتاہے:
لاوحی بعد موتی بے اصل ہے ہاں لانبی بعدی آیاہے جس کے معنی نزدیک اس علم کے یہ ہے کہ میرے بعد کوئی نبی شرع ناسخ لے کر نہیں آئے گا۔
اقتراب الساعۃ: صفحہ 163
اگر نواب صاحب کی اس بات پر غور کریں تو آپ کو معلوم ہوگا کہ:
یہ کہنا کہ حضورﷺ کے بعد وحی کادروازہ بند ہونا بے اصل ہے بلکہ وحی کے دروازے کھلے ہوئے ہیں اورحضورﷺ کے بعد ایسی نبوت کے دروازے بندنہیں جو شرع غیر ناسخ کے ساتھ آئے۔
نواب صاحب کا قادیانیت اور رافضیت کو تقویت پہنچانا:
1) نواب صاحب کے اس فرمان سے قادیانیت اور رافضیت کو تقویت ملتی ہے کیونکہ وہ بھی شرع ناسخ کے حامل نبوت کے قائل نہیں بلکہ ظلی اوربروزی نبوت کے قائل ہیں اور غیر تشریعی نبوت کے دعویدار ہیں۔
2) نواب صاحب کے اس فرمان سے رافضیت کو تقویت ملتی ہے کیونکہ روافض نظریہ امامت کے قائل ہیں ان کا کہنا ہے کہ حضورﷺ کے بعد نبوت ختم ہوچکی ہے لیکن ائمہ کرام پر وحی نازل ہوتی ہے اور اس نزول وحی کی بنا پر ائمہ انبیاء علیہم السلام کی طرح معصوم عن الخطا ء ہوتے ہیں۔
مرزائی الہام کی ابتداء غیر مقلدین کی طرف سے ہوئی:
عبداﷲ غزنوی فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں اپنے دادامحمد شریف کی قبر کے پاس جو اس دیار میں مرجع اور مقبول انام ہے گیا تو القاء ہوا لا الٰہ غیرک (یعنی تیرے سواکوئی معبود نہیں ) لیکن اس وقت میں نے غلطی کی اور میں نے خیال کیا کہ یہ درود مجھ کو وظیفہ کرنے کے لیے سکھایاگیاہے اب میں جان گیا کہ وہ اﷲ کی طرف سے الہام تھا کہ میرے سوا (یعنی عبداﷲ غزنوی کے سوا) دوسروں کی طرف رجوع کرنا عبادت اور استعانت شرک ہے۔
سوانح عمری عبداﷲ غزنوی صفحہ 3 مولفہ مولوی عبدالجبار غزنوی
فما ھو جوابکم فھو جوابنا
مولانا قاسم نانوتوی پر انکار ختم نبوت کا بہتان اور اس کا جواب:
شاہ صاحب نے اپنے اس رسالے میں علماء دیوبند کی جتنی بھی عبارتیں پیش کی ہیں ان میں سے اکثر عبارتیں احمد رضا خان بریلوی اور ان کی جماعت کی کتابوں سے چوری کی ہیں جس کا جواب ہمارے اکابر نے بار ہا دیا ہے۔ تفصیلات کے لیے ہمارے استاذِ محترم مولانا محمد سرفراز خان صفدرؒ کی کتاب ’’عباراتِ اکابر‘‘ وغیرہ کتب کا مطالعہ کریں۔ یہاں صرف اور صرف حضرت مولانا قاسم نانوتوی رحمہ اللہ تعالی پر لگائے گئے بہتان ’’انکارِ ختم نبوت‘‘ کاجواب مختصر حاضر خدمت ہے۔
شاہ صاحب کی تحذیر الناس کی عبارت سمجھنے میں غلط فہمی:
شاہ صاحب کو مولانا قاسم نانوتوی رحمہ اللہ تعالی کی کتاب ’’تحذیر الناس‘‘ کی عبارت سمجھنے میں غلط فہمی ہوئی ہے۔ اسی غلط فہمی کی وجہ سے یا ضد و عناد کی وجہ سے شاہ صاحب نے مولانا قاسم نانوتوی رحمہ اللہ تعالی پر انکار ختم کا الزام لگایا ہے۔مولانا قاسم نانوتوی رحمہ اللہ تعالی کی عبارت کی مختصر وضاحت ملاحظہ فرمائیں:
تحذیر الناس کی عبارت کی وضاحت:
تحذیر الناس کی عبارت یہ ہے ’’بلکہ بالفرض بعد زمانہ نبویﷺ کوئی نبی پیدا ہو توپھر بھی خاتمیت محمدیﷺ میں کچھ فرق نہیں آئے گا۔
صفحہ 85
عبارت کی وضاحت قرآنی آیت و حدیث کی روشنی میں :
اﷲ تبارک وتعالیٰ کا ارشادِ گرامی ہے :
لوکان فیھما اٰلھۃ الا ﷲ لفسدتا
پارہ17 سورۃ الانبیاء آیت 22
ترجمہ: اگر ہوتے دونوں (یعنی زمین وآسمان) میں اور معبود سوائے اﷲ کے تو دونوں خراب ہوجاتے۔
حضور نبی کریمﷺ نے بھی اﷲ رب العزت کی طرح نہ ہونے والی بات کو فرض کرکے بیان فرمایا ہے۔
آپﷺ نے فرمایا:
لو کان بعدی نبی لکان عمر
ترمذی 2 صفحہ 209
ترجمہ:یعنی اگر میرے بعد کوئی نبی ہوتا تو وہ عمر ہوتا۔
قرآن وحدیث سے ثابت ہوگیاکہ نہ ہونے والی بات کو فرض کرکے بیان کرنے میں کوئی حرج نہیں۔ شاہ صاحب رحمہ اللہ تعالی اور احمد رضا بریلوی وغیرہ نے یا تو نا سمجھی کی وجہ سے مولانا محمد قاسم نانوتوی رحمہ اللہ تعالی کو ختم نبوت کا منکر کہاہے یا پھر تعصب و عناد کی وجہ سے مولانا محمد قاسم نانوتوی رحمہ اللہ تعالی پر انکار ختم نبوت کاالزام لگایاہے۔
تحذیر الناس پر اعتراضات کے جوابات بریلوی علماء کی کتب سے:
قرآن و حدیث کی طرف سے جواب دینے کے بعد اب دیکھنا یہ ہے کہ بریلویوں کے علماء کی تحذیر الناس کی اس عبارت کے بارے میں کیارائے ہے؟
جناب خواجہ قمر الدین سیالوی صاحب لکھتے ہیں:
میں نے تحذیر الناس کو دیکھا میں محمد قاسم کو اعلیٰ درجہ کا مسلمان سمجھتاہوں مجھے فخر ہے کہ میری حدیث کی سند میں ان کا نام موجود ہے۔ خاتم النبیین کے معنی بیان کرتے ہوئے جہاں مولانا کا دماغ پہنچا ہے وہاں تک معترضین کی سمجھ نہیں گئی۔ قضیہ فرضیہ کو قضیہ واقعیہ حقیقیہ سمجھ لیاگیاہے۔
ڈھول کی آواز صفحہ 13
پیر محمد کرم شاہ صاحب نے بھی اپنا فیصلہ احمد رضا خان کے خلاف دیا ہے چنانچہ وہ لکھتے ہیں
میں یہ کہنا درست نہیں سمجھتاکہ مولانا نانوتوی رحمہ اللہ تعالی عقیدہ ختم نبوت کے منکر تھے کیونکہ اقتباس بطور عبارت النص اور اشارت النص اس امر پر بلاشبہ دلالت کرتے ہیں کہ مولانا نانوتوی رحمہ اللہ تعالی ختم نبوت زمانی کو ضروریاتِ دین سے یقین کرتے تھے اور اس کے دلائل کو قطعی اور متواتر سمجھتے تھے انہوں نے اس بات کو صراحت سے ذکر کیاہے کہ جو حضورﷺ کی ختم نبوت زمانی کا منکر ہے وہ کافر ہے اور دائرہ اسلام سے خارج ہے۔
تحذیر الناس میری نظر میں ، صفحہ 58
حضرت نانوتوی کے نزدیک منکر ختم نبوت کافر ہے:
احمد رضا خان بریلوی اور ان کی تقلید میں شاہ صاحب نے حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی رحمہ اللہ تعالی پر تہمت لگائی کہ مولانا نانوتوی رحمہ اللہ تعالی ختم نبوت کے منکر تھے حالانکہ مولانا نانوتوی رحمہ اللہ تعالی نبی کریمﷺ کے بعد کسی اورنبی کے ہونے میں صرف تامل کرنے والے کو بھی کافر سمجھتے ہیں۔
چنانچہ آپ لکھتے ہیں:
اپنا دین و ایمان ہے کہ بعد رسول اﷲ ﷺ کسی اور نبی کے ہونے کا احتمال نہیں جو اس میں تامل کرے اسے کافر سمجھتاہوں۔
جوابات محذورات، صفحہ 5
عقیدہ نمبر13:
ہمارا اور ہمارے مشائخ کا مدعی نبوت و مسیحیت قادیانی کے بارے میں یہ قول ہے کہ جب ا سنے نبوت و مسیحیت کادعویٰ کیا اورحضرت عیسیٰ علیہ السلام کے اٹھائے جانے کا منکر ہوااور اس کا خبیث عقیدہ اورزندیق ہونا ہم پر ظاہر ہوا تو ہمارے مشائخ نے اس کے کافر ہونے کا فتویٰ دیا۔
خلاصہ عقائد علمائے دیوبند
اعتراض:
مرزا صاحب پر سب سے اول کفر کا فتویٰ لگانے والا اہلحدیث عالم تھا جس کا مرزا نے خود اپنی کتاب کشتی نوح صفحہ 69، 70،71 پر اعتراف کیاہے کیونکہ مقولہ ہے (الفضل ما شھدت بہ الاعداء) کہ فضیلت تو اسی میں ہے کہ دشمن خود اقرار کریں تمہاری حقانیت کی۔ اس کے الفاظ ملاحظہ ہوں اورجیساکہ مسیح کے مقدمہ میں یہودی مولوی نے گواہی دی ضروری تھا کہ اس مقدمہ میں بھی کوئی مولوی گواہی دیتا اس کام کے لیے اﷲ نے مولوی محمد حسین بٹالوی کا انتخاب کیا اور وہ لمبا جبہ پہن کر (میری نبوت کے خلاف) گواہی دینے کے لیے آئے۔
موازنہ کیجئے صفحہ 12۔13
جواب:
شاہ صاحب نے بزبانِ حال مرزا قادیانی پر علماء دیوبند کی طرف سے کفر کے فتوے کو تو تسلیم کر لیا مگر ساتھ ہی ایک جھوٹا دعویٰ بھی کردیا کہ مرزا پر سب سے پہلے کفر کا فتویٰ اہلحدیث عالم (محمد حسین بٹالوی) نے لگایا ہے حالانکہ اس کی کوئی اصل نہیں البتہ یہ حقیقت ہے کہ مرزا کی سب سے پہلے حمایت محمد حسین بٹالوی نے کی ہے۔
مرزا کے حق میں سب سے اول گواہی اہلحدیث عالم نے دی:
ہمارا دعویٰ ہے کہ مرزا کے حق میں سب سے پہلے گواہی دینے والا اہلحدیث عالم تھا نہ کہ مرزا کے خلاف کفر کا فتویٰ دینے والا۔ شاہ صاحب کی پیش کردہ عبارت جوکہ مرزا کی کتاب سے نقل شدہ ہے اس پر دال ہے کیونکہ مرزا کی عبارت میں شاہ صاحب کی طرف سے بین القوسین عبارت (میری نبوت کے خلاف) موجود نہیں اس عبارت کا اضافہ شاہ صاحب نے خود کیاہے، مرزا کی عبارت میں اس کانام و نشان تک نہیں۔
مرزا غلام احمد قادیانی کی اصل عبارت ملاحظہ فرمائیں:
اورجیساکہ مسیح کے مقدمہ میں یہودی عالم نے گواہی دی ضروری تھا کہ اس مقدمے میں کوئی اور مولوی گواہی دیتا اس کام کے لیے اﷲ نے مولوی محمد حسین بٹالوی کا انتخاب کیا اور وہ لمبا جبہ پہن کر گواہی دینے کے لیے آئے۔
کشتی نوح صفحہ 54
یہ کتاب مطبوعہ ہے جس کا دِل چاہے خود دیکھ سکتاہے۔ مرزا کی اس عبارت میں دو قرینے ایسے موجود ہیں جو اس بات پر دلالت کررہے ہیں کہ محمد حسین بٹالوی نے مرزا کے حق میں گواہی دی ہے۔
پہلا قرینہ یہ ہے کہ مسیح کے مقدمے میں یہودی عالم نے گواہی دی تمام مسلمانوں کو یہ بات بخوبی معلوم ہے کہ یہود ہمیشہ سے اسلام اور ختم نبوت کے خلاف سازش کر رہے ہیں وہ کیونکر ختم نبوت کا دفاع کرسکتے ہیں ؟ اور دوسرا قرینہ یہ کے کہ محمد حسین بٹالوی کے متعلق مرزا نے لکھاہے کہ اس کام کے لیے اﷲ نے محمد حسین بٹالوی کو منتخب کیا۔ آج ہر مسلمان جانتاہے کہ جس نے بھی مرزا کے خلاف زبان کھولی یا قلم اٹھایا تو مرزا کی زبان اس کے خلاف کبھی بھی خاموش نہیں رہی بلکہ مرزا نے اس کے خلاف گندی زبان استعمال کی ہے چند حوالے ملاحظہ فرمائیں۔
مولانا سعد اﷲ لدھیانوی حنفی اور لدھیانہ کے دیگر علماء نے جب مرزا پر کفر کا فتویٰ لگایا تو مرزا نے ان کے بارے میں کیا کہا، ملاحظہ فرمائیں عربی اشعار کا ترجمہ
1) اور لٹیموں میں سے ایک فاسق آدمی کو دیکھتاہوں کہ ایک شیطان ملعون بے سفیہوں کا نطفہ۔
2) بدگو ہے اور خبیث اورمفسد اورجھوٹ کو ملمع کرکے دکھلانے والا منحوس ہے جس کا نام جاہلوں نے سعد اﷲ رکھاہے۔
3) تیرا نفس ایک خبیث گھوڑا ہے اس کی پیٹھ کی بلندی سے تو خوف کر۔
4) جوکچھ دنیا میں ہے ان سب سے بد تر زہریں ہے اور زہروں سے بد تر صلحاء کی دشمنی ہے۔
بحوالہ: انجام آتھم صفحہ 281، تتمہ حقیقۃ الوحی صفحہ15
مرزا نے دوسری جگہ لکھاہے:
ایک نہایت کمینہ اور گندہ زبان شخص سعد اﷲ نام لدھیانہ کارہنے والا میری ایذا کے لیے کمر بستہ ہوا اور کئی کتابیں نثر اور نظم سے بھری ہوئی تالیف کرکے اورچھپوا کر میری توہین اورتکذیب کی غرض سے شائع کیے اورپھر اسی پر اکتفاء نہ کرکے آخر کار مباہلہ کیا۔
بحوالہ: چشمہ معرفت 2 صفحہ 321
مرزا نے مولانا رشید احمد گنگوہی رحمہ اللہ تعالی کے بارے میں لکھا ہے :
اٰخرھم الشیطان الاعمی والغول الاغوٰی یقال لہ رشید احمد جنجوہی وھو شقی کالامروھی وین الملعونین
انجام آتھم صفحہ 252
ان میں سے آخری شخص وہ ہے جو شیطان، اندھا اوربہت گمراہ ہے اس کو رشید احمد گنگوہی کہا جاتاہے۔ اور وہ امروہی کی طرح شقی اور ملعونین میں سے ہے۔
ان حوالہ جات سے معلوم ہوتاہے کہ جس نے بھی مرزا کے خلاف کچھ لکھا یا کہا تو مرزا نے غلیظ ترین گالیوں سے اس کا استقبال کیا۔ اگر غیر مقلد مولوی محمد حسین بٹالوی نے سب سے پہلے مرزا کے میں کفر کا فتویٰ ہوتا تو مرزا کبھی بھی یہ نہ کہتا کہ ’’اﷲ نے اس کا انتخاب کیاہے‘‘۔
علماء لدھیانہ پر مولوی بٹالوی کی تنقید:
لدھیانہ کے علماء نے جب مرزا پر کفر کا فتویٰ لگایا تو مولوی بٹالوی نے علماء لدھیانہ پر سخت تنقید کی۔
اشاعۃ السنۃ 7،8 شمارہ نمبر6صفحہ نمبر 170 تا 172، برحاشیہ
مرزا غلام احمد قادیانی کو الہامی مان کر سب سے پہلے مولوی بٹالوی نے مرزا کی موافقت کی۔ ملاحظہ فرمائیں
مشہور اہلحدیث عالم ابراہیم میر سیالکوٹی لکھتے ہیں :
اس سے پیشتر اسی طرح کے اختلاط سے جماعت اہلحدیث کے کثیر التعداد لوگ قادیانی ہوگئے تھے جس کی مختصر کیفیت یہ ہے کہ ابتداء میں مولوی محمد حسین بٹالوی نے مرزا کو الہامی مان کر ان کی موافقت کی اور ان کی تائید میں اپنے رسالے ’’اشاعۃ السنۃ‘‘ میں زور دار مضامین بھی لکھتے رہے جس سے جماعت اہلحدیث کے معزز افراد مرزا کی بیعت میں داخل ہوگئے۔
احتفال الجمہور صفحہ 23
تاریخ احمدیت کے مصنف لکھتے ہیں:
جون 1887ءمیں قادیان سے انبالہ جاتے ہوئے حضور (مرزا قادیانی) اہل و عیال سمیت مولوی محمد حسین بٹالوی کے مکان پر ایک رات ٹھہرے تھے اور مولوی صاحب نے حضرت اقدس اور ان کے اہل بیت کی پر تکلف دعوت بھی کی تھی۔
تاریخ احمدیت صفحہ 1372
مولوی محمد حسین بٹالوی نے کافی عرصے مرزا کی حمایت کے بعد محسوس کیاکہ میں جو اب تک مرزا کی حمایت کرتا رہا یہ بڑی غلطی ہے او رمرزا کے خلاف فتویٰ طلب کرنے سے پہلے مرزا کو راہِ راست پر لانے کی کوشش کی۔ اس کی تفصیل رئیس قادیان ابو القاسم دلاوری میں یوں ہے
دعویٰ مسیحیت کے بعد جب مرزا کی لن ترانیاں حد سے تجاوز کرنے لگیں تو مولوی محمد حسین بٹالوی نے کچھ تو پرانی دوستی کا لحاظ کرکے اور کچھ یہ سوچ کرکے کہ کسی گم کردہ راہ کو راستے پر لگانا بہت بڑا کارِ ثواب ہے ارادہ کیا مرزا کو راہِ راست پر لانے کی از سر نو کوشش کی جائے۔ ان ایام میں مولوی صاحب لاہور میں اقامت فرما اورمسجد چینیاں کے خطیب تھے ایک دن کسی کام سے امرتسر گئے تو کسی نے بیان کیاکہ مرزا غلام احمد نے اپنے دعووں کے متعلق ایک نیا رسالہ لکھاہے جس کا نام فتح الاسلام ہے اور وہ رسالہ امرتسر کے مطبع ’’ریاضِ ہند‘‘ میں چھپ رہاہے۔ مولوی صاحب نے اس کے پروف منگوا کر پڑھے تو معلوم ہواکہ یہ کشتی شکستہ ایمان اب اسلام کے شارع عام سے اور بھی دور چلاگیاہے اور عزم مصمم کرلیاکہ اس شخص پر اس کی غلط روی کو واضح کریں۔
چنانچہ لاہور آکر 31 جنوری 1891 کو مرزا صاحب کے نام ان کے دعووں کے متعلق ایک چٹھی لکھی۔ الہامی صاحب نے اس کے جواب میں کچھ باتیں بنائیں۔ مولوی صاحب نے پھر جواب الجواب لکھ بھیجا۔ غرض اس طرح دو ڈھائی مہینے تک خط و کتابت ہوتی رہی لیکن بھلا پتھر میں بھی کبھی جونک لگی ہے۔ قادیانی صاحب پر اس افہام و تفہیم کا کچھ اثر نہ ہوا اور یہ دلچسپ خط و کتابت اشاعۃ السنۃ جلد 12 شمارہ نمبر12 کے صفحہ 354 سے شروع ہوکر صفحہ 388 تک چلی گئی۔
رئیس قادیان صفحہ 409 تا صفحہ 410 بحوالہ سب سے پہلا فتویٰ تکفیر صفحہ 123
بالآخر جب مولوی بٹالوی صاحب مرزا قادیانی کو راہِ راست پر لانے میں ناکام رہے تو انہوں نے ایک استفتاء علماء ہندکے سامنے پیش کیا۔
دیکھیے رئیس قادیان صفحہ 446 تا صفحہ 447 بحوالہ سب سے پہلا فتویٰ تکفیر صفحہ 124
رئیس قادیان کی اس تحریر سے معلوم ہواکہ بٹالوی نے 1891کے بعد مرزا کے خلاف فتویٰ طلب کیا۔ تھوڑی دیر کے لیے یہ بات تسلیم بھی کرلی جائے کہ بٹالوی نے مرزا کے خلاف فتویٰ دیا تھا تو اس سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ سب سے پہلا فتویٰ بٹالوی نے دیاتھا۔
حقیقت یہی ہے کہ بٹالوی نے سب سے پہلے قادیانی کے خلاف فتویٰ نہیں دیا اور جو فتویٰ مرزا کے خلاف دیا تھا اس سے رجوع ثابت ہے، چنانچہ ملاحظہ فرمائیں۔
قادیانی لاہوری جماعت کے پیشوا محمد علی لاہوری لکھتے ہیں
مولوی محمد حسین بٹالوی نے اپنے فتویٰ کفر سے رجوع کیا اور 1899 میں ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ گورداسپورکی عدالت میں اس اقرار نامے پر دستخط کیے ہیں کہ میں آئندہ مرزا غلام احمد قادیانی کو کافر، کاذب اور دجال نہیں کہوں گا۔
مغرب میں تبلیغ اسلام صفحہ 21 ، ضرورت مجدد صفحہ 33
قادیانی کے پیشوا محمد علی لاہوری لکھتے ہیں:
(بٹالوی نے) سیالکوٹ کے منصف کی عدالت میں یہ حلفیہ بیان بطور گواہ دیاکہ نہ صرف ان کے نزدیک بلکہ ان کے فرقے اہلحدیث کے نزدیک غلام احمد قادیانی کافر نہیں۔
مغرب میں تبلیغ اسلام صفحہ 21
مرزا غلام احمد قادیانی لکھتاہے:
محمد حسین (بٹالوی) ہمارے مقابل پر بیٹھا اور اس وقت مجھے اس کا سیاہ رنگ معلوم ہوتا اور بالکل برہنہ ہے، پس مجھے شرم آئی کہ میں اس کی طرف نظر کروں پس اس حال میں (یعنی برہنہ حالت میں ) وہ میرے پاس آیا میں نے اس سے کہا کہ کیا وقت نہیں آیا کہ تو صلح کرلے اور کیا توچاہتا ہے کہ تجھ سے صلح کی جائے۔ اس نے کہا ہاں پس وہ میرے نزدیک آیا اوربغل گیر ہوا۔
سراجِ منیر صفحہ 78، روحانی خزائن صفحہ 80
مرزا غلام احمد قادیانی کے خواب کی مرزا بشیر کے زمانے میں تکمیل:
قادیانیوں کی مشہور کتاب تذکرہ کے حاشیہ میں ہے:
یہ رؤیا (خواب) حضرت امیر المؤمنین خلیفۃ المسیح الثانی ایدہ اﷲ بنصرہ العزیز کے زمانے میں پوری ہوئی۔ چنانچہ حضور (یعنی مرزا بشیر الدین) فرماتے ہیں کہ جب میرا زمانہ آیا اﷲ نے ان کے دِل میں ندامت پیداکی۔ چنانچہ میں ایک دفعہ بٹالیا گیاوہ مجھ سے ملنے کے لیے آئے اور میں نے دیکھا کہ ان پر سخت ندامت طاری تھی پھر اﷲ تعالیٰ نے اس رؤیا کو اس رنگ میں پورا کردیا کہ ان کے دو لڑکے تعلیم حاصل کرنے کے لیے قادیان آئے اورانہوں نے میرے ہاتھ پر بیعت کی۔
تذکرہ صفحہ 272 برحاشیہ مطبوعہ 29 اکتوبر 1956
اس تحریر سے معلوم ہواکہ بٹالوی صاحب اپنے فتویٰ پر نادم تھے اور مرزا کی وفات کے بعد بھی ان کے مرزائیوں سے روابط تھے اور ان کے دو لڑکے مرزا بشیر الدین قادیانی سے بیعت ہوکر ان سے قادیان میں تعلیم حاصل کرتے رہے۔
عقیدہ نمبر14
جو شخص اس کا قائل ہوکہ نبی کریمﷺ کو ہم پر بس اتنی فضیلت ثابت ہے جتنی بڑے بھائی کو چھوٹے پر ہوتی ہے تو وہ ہمارے نزدیک دائرہ ایمان سے خارج ہے۔
خلاصہ عقائد علمائے دیوبند صفحہ230
شاہ صاحب نے ہمارے اس عقیدہ کی تائید فرمائی ہے،شاہ صاحب لکھتے ہیں:
امت مسلمہ میں کوئی اس بات کا قائل نہیں کہ نبی ﷺ صرف بڑے بھائی جتنے افضل ہیں۔ البتہ آپﷺ نے خودامتیوں کو بھائی فرمایا:
انت اخونا
بخاری صفحہ 610 جلد 2
ساری آنے والی امت کو بھائی فرمایا:
واخواننا الذین لم یأتوا بعد
مؤطا صفحہ 81 جلد 1
ابو بکر رضی اللہ عنہ نے فرمایا میں آپ کا بھائی ہوں۔ انما انا اخوک جواب میں آپﷺ نے فرمایا
انت أخی فی دین اﷲ
بخاری 1 صفحہ 516، 2 صفحہ76
آپ میرے دینی بھائی ہیں۔ سابقہ نبیوں کوبھی امتیوں کا بھائی کہاگیا:
والی مدین اخاھم شعیبًا
ھود 84
والی ثمود اخاھم صالحا
ھود 71
والی عاد اخاھم
ھود 50
موازنہ کیجئے صفحہ
13عقیدہ نمبر 14 کا پس منظر:
عقیدہ نمبر 14 کا پس منظر یہ ہے کہ مولانااحمد رضا خان بریلوی نے اپنی کتاب حسام الحرمین میں علمائے دیوبند کی عبارتوں کو توڑ موڑ کریہ تہمت لگائی ہے کہ معاذ اﷲ علمائے دیوبند نے اپنی کتابوں میں سرکارِ دو عالم ﷺ کو گالی دی ہے اور رسول اکرم ﷺ کو صرف بڑے بھائی جتنی فضیلت دی ہے۔ اور پھر یہ کتاب یعنی حسام الحرمین علمائے حرمین شریفین کے سامنے پیش کی۔ علماء حرمین نے حسام الحرمین کا مطالعہ کرنے کے بعد علماء دیوبند پر لگائے گئے الزامات کے متعلق علماء دیوبند سے چھبیس 26 سوالات کیے۔ جس کے جواب میں حضرت مولانا علامہ خلیل احمد سہارنپوری رحمہ اللہ تعالی نے ’’المھند علی المفند‘‘ کے نام سے کتاب مرتب کرکے علماء حرمین شریفین کے سامنے پیش کی۔ان سوالات میں سے ایک سوال یہ بھی تھا
ھل تقولون ان النبی ﷺ لا یفضل علینا الا کفضل الاخ الاکبر علی الاخ الاصغر لاغیر وھل کتب احدکم ھٰذا المضمون فی کتاب
یعنی کیا تم اس کے قائل ہوکہ جناب رسول اﷲ ﷺ کو ہم پر پس اتنی فضیلت ہے جیسے بڑے بھائی کو چھوٹے بھائی پر ہوتی ہے اورکیا تم میں سے کسی نے یہ مضمون اپنی کتاب میں لکھا ہے؟ تو اس کا جواب علامہ خلیل احمد سہارنپوری رحمہ اللہ تعالی نے ’’المھند علی المفند ‘‘میں بڑی تفصیل سے دیا جس کا خلاصہ عقیدہ نمبر 14 میں ذکر ہےکہ جو شخص اس کا قائل ہوکہ نبی کریمﷺ کوہم پر بس اتنی فضیلت ہے جتنی بڑے بھائی کو چھوٹے بھائی پر ہوتی ہے وہ ہمارے نزدیک دائرہ ایمان سے خارج ہے۔
شاہ صاحب کی طرف سے علماء دیوبند کی وکالت:
شاہ صاحب نے علماء دیوبند کی طرف سے وکالت کرتے ہوئے خان صاحب بریلوی کی طرف سے علمائے دیوبند پر لگائے ہوئے الزام کا جواب خود دے دیا کہ امت مسلمہ میں کوئی بھی اس کا قائل نہیں کہ نبی کریمﷺ صرف بڑے بھائی جتنے افضل ہیں۔ جس طرح شاہ صاحب نے اس عقیدہ کے بارے میں حق بات کہی اﷲ تعالیٰ شاہ صاحب کو مزید حق کہنے اور لکھنے کی توفیق نصیب فرمائے۔
عقیدہ نمبر15
ہمارا یہ عقیدہ ہے کہ سیدنا محمد رسول اﷲ کو تمام مخلوق سے زیادہ علوم عطا ہوئے ہیں۔ مخلوق میں سے کوئی بھی آپﷺ کے علمی مرتبے تک نہیں پہنچ سکتا نہ مقرب فرشتہ اور نہ نبی و رسول۔ اور بے شک آپﷺ کو اولین و آخرین کا علم عطا ہوا۔ لیکن اس سے یہ لازم نہیں آتاکہ آپﷺ کو ہر وقت ہر چیز کا علم ہو۔
خلاصہ عقائد علمائے دیوبند صفحہ 230
اعتراض:
آپﷺ کو نہ اولین کا علم کلی اورنہ ہی آخرین کا علم کلی دیا گیا، فرمانِ ربانی ہے
ومنھم من لم نقصص علیک
سورۃ المؤمن 78
’’یعنی آپﷺ کو سابقہ نبیوں میں سے بعض کے واقعات بتلائے گئے اور بعض کے نہیں ‘‘۔ عقیدہ نمبر9 میں حدیث گزر گئی ہے کہ فرشتے آپ ﷺ کو کہیں گے
انک لا تدری ما احدثوا بعدک فاقول کما قال العبد الصالح
بخاری کتاب التفسیر
’’یقینا آپ ﷺ کو معلوم نہیں کہ ان لوگوں نے آپﷺ کے بعد (دین میں ) کیا کچھ ایجاد کیاتھا پس میں وہی کہوں گا جو صالح بندے عیسیٰ علیہ السلام نے فرمایا۔
نوٹ:
اس علمی مرتبہ پر توآپ لوگوں نے امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ تعالی کو بٹھایا ہے کہ انہوں نے تمام جزئیات دین تا قیامت حل کیے ہیں۔ نعوذ باﷲ
موازنہ کیجئے صفحہ 13۔14
جواب:
شاہ صاحب کی خیانت:
شاہ صاحب نے عوام الناس کو دھوکہ دینے کے لیے علم اولین و آخرین کے ساتھ لفظ کلی کا اضافہ کیاہے۔تاکہ عوام الناس یہ سمجھیں کہ علماء دیوبند حضورﷺ کے لیے علم کلی کے قائل ہیں جیسا کہ بریلوی حضرات کا عقیدہ ہے۔علمائے دیوبند آپﷺ کے لیے اولین وآخرین کے علم کے تو قائل ہیں لیکن اولین و آخرین کے ساتھ کلی علم کے قائل نہیں جیساکہ عقیدہ نمبر 15 میں مذکور ہے۔
ہمارے عقیدے سے یہ لازم نہیں آتا کہ آپﷺ کو زمانے کی ہر آن میں واقع ہونے والے حادثات و واقعات کی ہر جزئی کی اطلاع ہوکہ اگر کوئی واقعہ آپﷺ کے مشاہدے سے غائب رہے توآپﷺ کے علم و معارف میں ساری مخلوق سے افضل ہونے اور آپﷺ کے وسعت علمی میں نقص آجائے۔ اگرچہ آپﷺ کے علاوہ کوئی دوسرا شخص اس جزئی سے آگاہ ہو۔
جیساکہ حضرت سلیمان علیہ السلام پر واقعہ عجیبہ مخفی رہا جس سے ہدہد کو آگاہی ہوئی اس سے سلیمان علیہ السلام کے اعلم ہونے میں نقص نہیں آیا۔ چنانچہ ہدہد کہتی ہے کہ میں نے ایسی چیز پائی جس کی آپ کو اطلاع نہیں اورمیں شہر سبا میں سے ایک سچی خبر لے کرآئی ہوں۔
چنانچہ المہند علی المفند صفحہ 62پر سوال نمبر19 کے جواب میں ہے کہ
ومبتدعۃ دیارنا یثبتون للذات الشریفۃ النبویۃ علیھا الف الف تحیۃ والسلام جمیع علوم الاسافل الاراذل والافاضل الاکابر قائلین انہ علیہ السلام لماکان افضل الخلق کافۃ فلا بد ان یحتوی علی علومھم جمیعًا کلی جزئی جزئی وکلی کلی ونحن انکرنا اثبات ھٰذا الامر بھٰذا القیاس الفاسد بغیر نص من النصوص المعتدۃ بھا۔
ترجمہ: اورہمارے ملک کے مبتدعین (بریلوی) سرور کائناتﷺ کے لیے تمام شریف و ادنیٰ واعلیٰ واسفل علوم ثابت کرتے ہیں اور یوں کہتے ہیں کہ جب آنحضرتﷺ ساری مخلوق سے افضل ہیں تو ضرور سب ہی علوم جزئی ہو یا کلی آپﷺ کو معلوم ہوں گے اور ہم (یعنی علماء دیوبند) نے بغیر کسی معتبر نص کے محض اس قیاس فاسد کی بناء پر اس علم کلی و جزئی کے ثبوت کا انکار کیا۔
اولین وآخرین کے علم سے مراد:
ہمارے نزدیک علم اولین و آخرین سے مراد قرآن و حدیث کا علم ہے، یہی قول غیر مقلدین کے ائمہ کا بھی ہے، چنانچہ ملاحظہ فرمائیں
مشہور غیر مقلد مناظر علامہ ثناء اﷲ امرتسری لکھتے ہیں :
خدا کی ذات اور صفات کی معرفت آنحضرتﷺ کو سب سے زیادہ تھی یہی معنی ہے اس حدیث کے اوتیت علم الاولین والاخرین جو خبریں قرآن و حدیث میں آئی ہیں وہی معلوم ہے ان کے سوا سب غیر معلوم۔
(ولایحیطون بشیٍٔ من علمہٖ الا بما شائ) واﷲ اعلم
فتاویٰ ثنائیہ 1 صفحہ 303
نوٹ: (انک لا تدری ما احدثوا بعدک فاقول کما قال العبد الصالح) کا جواب عقیدہ نمبر9 میں ہوچکا ہے، وہاں ملاحظہ فرمائیں۔
شاہ صاحب کی کذب بیانی:
شاہ صاحب نے اس اعتراض کے آخر میں نوٹ لکھنے کے بعد لکھاہے کہ اس علمی مرتبہ پر تو آپ نے امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ تعالی کو بٹھایا ہے۔ یہ شاہ صاحب کی کذب بیانی ہے کیونکہ علماء دیوبند کے عقیدہ نمبر 15 میں واضح مذکور ہے کہ سیدنا محمد رسول اﷲﷺ کو تمام مخلوق سے زیادہ علوم عطا ہوئے ہیں ، مخلوق میں سے کوئی بھی آپﷺ کے علمی مرتبے تک نہیں پہنچ سکتا، نہ مقرب فرشتہ اور نہ نبی و رسول۔
جب ہمارے عقیدے سے واضح ہوگیا کہ نبی کریمﷺ کے علمی مرتبے تک کوئی نہیں پہنچ سکتا اس کے بعد شاہ صاحب کا یہ لکھناکہ ’’اس علمی مرتبہ پر تو آپ لوگوں نے امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ تعالی کو بٹھایا ہے یہ شاہ صاحب کی کذب بیانی ہے، لعنۃ اﷲ علی الکاذبین۔
غیر مقلدین کے نزدیک نبی کریمﷺ کا قول حجت نہیں :
شاہ صاحب اور ان کے اکابرین کا دعویٰ ہے کہ ہم قرآن و حدیث کے علاوہ کسی کی بات کو نہیں مانتے لیکن ان کا یہ دعویٰ کذب بیانی پر مبنی ہے کیونکہ یہ حضرات اکثر مسائل میں امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ تعالی اورامام ابن قیم رحمہ اللہ تعالی کی رائے کو ترجیح دیتے ہیں نہ کہ قرآن وحدیث کو اس معاملے میں ان حضرات نے ان دونوں اماموں کو نبی کریمﷺ کے علمی مرتبہ پر بٹھایاہوا ہے۔ اس کی واضح دلیل شاہ صاحب کا یہ مختصر سا کتابچہ ہے، نیز ان کے نزدیک حضورﷺ کا قول بھی حجت نہیں اورآپ ﷺ کی رائے بھی حجت نہیں اس سلسلے میں چند حوالے ملاحظہ فرمائیں
غیر مقلد عالم محمد جوناگڑھی صاحب لکھتے ہیں
’’شریعت اسلام میں توخود پیغمبر خدا ﷺ بھی اپنی طرف سے بغیر وحی کے کچھ فرمائیں تو وہ بھی حجت نہیں ‘‘۔
طریقِ محمدی صفحہ 40
آگے لکھتے ہیں : تعجب ہے کہ جس دین میں نبی کی رائے حجت نہ ہو اس دین والے آج ایک امتی کی رائے کو دلیل اور حجت سمجھنے لگے۔
طریقِ محمدی صفحہ 40
عقیدہ نمبر 16:
ہمارا پختہ عقیدہ ہے کہ جو شخص اس کا قائل ہوکہ فلاں (مثلاً شیطان) کا علم آپ علیہ الصلوٰۃ والسلام سے زیادہ ہے وہ کافر ہے۔
خلاصہ عقائد علمائے دیوبند صفحہ؟؟؟؟
شاہ صاحب کی طرف سے عقیدہ نمبر16 کی تائید:
امت مسلمہ میں اس قسم کا عقیدہ کسی کابھی نہیں۔البتہ دنیاوی امور میں آپﷺ نے امت کو زیادہ جاننے والا فرمایا۔ نبی کریمﷺ مدینہ میں جس سال تشریف لائے تو صحابہ رضی اللہ عنہم کو کھجور میں پیوند لگانے کے بجائے اپنے حال پر چھوڑنے کا مشورہ دیا لیکن کھجور کی فصل ناقص دیکھ کر فرمایا
انتم اعلم بامور دنیاکم
صحیح مسلم، کتاب الفضائل
کہ تم لوگ دنیاوی امور زیادہ جانتے ہو،پیوند لگایا کرو۔
موازنہ کیجئے صفحہ 14
عقیدہ نمبر16 کا پس منظر:
ناظرین آپ کے سامنے پہلے عقیدہ نمبر 16 کا پس منظر بیان کرنا ضروری ہے تاکہ بات سمجھنے میں آسانی ہو۔ اس عقیدے کا پس منظر یہ ہے کہ احمد رضاخان بریلوی نے حسام الحرمین میں علماء دیوبند پر الزام لگایا ہے کہ علماء دیوبند شیطان کے علم کو نبی اکرم ﷺ کے علم سے زیادہ مانتے ہیں جب یہ کتاب احمد رضا خان نے علماء حرمین شریفین کے سامنے پیش کی تو علماء حرمین نے علماء دیوبند سے اس بارے میں سوال کیا……
اترون ان ابلیس اللعین اعلم من سید الکائنات علیہ الصلوٰۃ والسلام واوسع علما منہ مطلقاً وھل کتبتم فی تصنیف ما تحکمون علی من اعتقد ذٰلک۔
ترجمہ: کیاتمہاری یہ رائے ہے کہ ملعون شیطان کا علم سید الکائنات ﷺ سے زیادہ اور مطلقا وسیع تر ہے اورکیا یہ مضمون تم نے اپنی کسی تصنیف میں لکھا ہے اور جس کا یہ عقیدہ ہو اس کا کیا حکم ہے؟
اس کے جواب میں مولانا علامہ خلیل احمد سہارنپوری رحمہ اللہ تعالی نے لکھا:
قد سبق منا تحریر ھٰذہ المسئلۃ ان النبی علیہ الصلوٰۃ والسلام اعلم الخلق علی الاطلاق بالعلوم والحکم والاسرار وغیرھا من ملکوت الافاق ونتیقن ان من قال ان فلانا اعلم من النبی علیہ السلام فقد کفر و قد افتی مشائخنا بتکفیر من قال ان ابلیس اللعین اعلم من النبی علیہ السلام فکیف یمکن ان توجد ھٰذہ المسئلۃ فی تالیف ما من کتبنا غیرانہ غیبوبۃ بعض الحوادث الجزئیۃ الحقیرۃ علی النبی صلی اﷲ علیہ وسلم لعدم التفاتہ الیہ لاتورث نقصا ما فی اعلمیۃ علیہ السلام بعد ما ثبت انہ اعلم الخلق بالعلوم الشریفۃ اللائقۃ بمنصبہ الاعلیٰ……الخ۔
ترجمہ: اس مسئلہ کو ہم پہلے لکھ چکے ہیں کہ نبی ﷺ کا علم، حکم و اسرار وغیرہ کے متعلق مطلقاً تمام مخلوقات سے زیادہ ہے اور ہمارا یقین ہے کہ جو شخص یہ کہے کہ فلاں شخص نبی کریم ﷺ سے اعلم ہے وہ کافر ہے اور ہمارے حضرات اس شخص کے کافر ہونے کا فتویٰ دے چکے ہیں ، جویہ کہے کہ شیطان ملعون کا علم نبی ﷺ سے زیادہ ہے۔ پھر بھلا ہماری کسی تصنیف میں یہ مسئلہ کہاں پایا جا سکتاہے۔ ہاں کسی جزئی حادثہ حقیر کا حضرت کو اس لیے معلوم نہ ہونا کہ آپﷺ نے اس کی جانب توجہ نہیں فرمائی۔ آپ کے اعلم ہونے میں کسی قسم کا نقصان نہیں پیدا کرسکتا ہے جبکہ ثابت ہوچکا ہے کہ آپ ان شریف علوم میں جو آپﷺ کے منصب اعلیٰ کے مناسب ہیں ساری مخلوق سے بڑھے ہوئے ہیں۔
المھند علی المفند، صفحہ 59،60
عقیدہ نمبر16 میں شاہ صاحب کی طرف سے ہماری وکالت:
عقیدہ نمبر14 کی طرح اس عقیدے میں بھی شاہ صاحب نے علماء دیوبند کی وکالت کی ہے اور لکھا ہے کہ امت مسلمہ میں سے اس قسم کا عقیدہ کسی کا بھی نہیں کہ شیطان کا علم نبی پاک ﷺ کے علم سے زیادہ ہے۔
ہماری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ شاہ صاحب کو اور ان کے فرقہ کے دیگر لوگوں کو آنکھوں سے تعصب کی عینک اتار کر ہمارے عقائد کی کتب پڑھنے کی توفیق عطا فرمائیں تاکہ ان کو ہدایت نصیب ہو سکے۔
عقیدہ نمبر17:
ہمارے نزدیک حضورِ اکرمﷺ پر درود شریف کی کثرت مستحب اور نہایت موجب ثواب ہے، خواہ دلائل الخیرات سے پڑھ کر ہو یا درود شریف کے دیگر معتبر رسائل مؤلفہ کی تلاوت ہو لیکن افضل ہمارے نزدیک وہ درود شریف ہے جس کے لفظ بھی آپ ﷺ سے منقول ہیں۔
خلاصہ علماء دیوبند صفحہ 231
اعتراض:
درود وہی موجب ثواب ہے جو زبانِ نبویﷺ سے منقول ہیں ، بناوٹی درود ہزاروی، تنجی اورلکھی وغیرہ سب موجب عذاب ہیں۔ ’’فبدل الذین ظلموا قولا غیر الذی قیل لھم‘‘ ظالموں نے وہ بات بدل دی جو انہیں کہی گئی تھی۔ اس آیت کے تحت امام قرطبی رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ (ان الزیادۃ فی الدین والابتداع فی الشریعۃ عظیمۃ الخطر شدیدۃ الضرر)یقینا دین میں زیادت شریعت میں اضافہ کرنا بڑے خطرے اورضرر کا سبب ہے۔ آپﷺ نے صحابی کو دعا میں نبی کی جگہ رسول پڑھنے سے منع فرمایا۔
(بخاری )
جبکہ آپﷺ رسول بھی تھے اورنبی بھی تو پھر کسی اور کویہ اختیار کیسے ہواکہ وہ درود بناتا پھرے۔ دلائل الخیرات میں اذکار بدعیہ موجود ہیں اس لیے ان کا پڑھنا بدعت ہے۔
نوٹ: دیوبندیوں نے جنازے میں جو درود عوام کو سکھایا ہے وہ نقلی بناوٹی ہے لہٰذا افضل کو اختیار کرنے کا دعویٰ بے بنیاد ہے۔
(موازنہ کیجئے صفحہ 14۔15
جواب:
شاہ صاحب کی کذب بیانی:
شاہ صاحب نے اس اعتراض میں کذب بیانی سے کام لیتے ہوئے لکھاہے کہ علماء دیوبند بناوٹی درود (درودِ ہزارہ، تنجی اور لکھی وغیرہ) کے قائل ہیں جبکہ ہمارے اس عقیدے میں اس قسم کے درود کا کوئی نام و نشان تک نہیں۔
غیر مقلدین کے نزدیک ادعیہ ماثورہ میں زیادتی جائز ہے:
شاہ صاحب نے اس اعتراض میں لکھاہے کہ درود میں اور ادعیہ ماثورہ میں زیادتی بدعت ہے اپنے مدعا کو ثابت کرنے کے لیے بخاری کی حدیث اورامام قرطبیؒ کے قول کو حجت کے طور پر پیش کیا ہے۔ شاہ صاحب کے مقتداؤں کا کیا نظریہ ہے ملاحظہ فرمائیں
شاہ صاحب کے مقتداؤں میں سے مشہور مقتداء مولوی عبدالجبار غزنوی لکھتے ہیں
میرے فہم میں یہ سب تشددات (یعنی بے جا سختی) ہے، الفاظِ ماثورہ (جو حدیث میں آئے) پر اگر کچھ الفاظ حسنہ زیادہ ہوجائیں توکچھ مضائقہ نہیں ، جیساکہ حضرت عبداﷲ بن عمر رضی اللہ عنہما نے تلبیہ رسول میں لبیک وسعدیک والخیر بیدیک لبیک والمر بناء الیک والعمل کے الفاظ زیادہ کر لیے۔
اسی طرح بہت سے مواضع میں ثابت ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور علماء اسلام الفاظِ ماثورہ پر درود شریف اوردعوات (دعاؤں ) میں بعض الفاظ زیادہ کرتے ہیں اور یہ تعامل بلانکیر جاری رہا۔ نماز میں بھی اگر ادعیہ ماثورہ (حدیث کی دعاؤں ) پر زائد دعا پڑھی جائے تو کوئی مضائقہ نہیں۔ خود حضورﷺ نے فرمایا کہ تیس30 سے کچھ زائد فرشتے اس کے لکھنے کو آئے تھے۔ اس سے صاف معلوم ہواکہ الفاظ ماثورہ پر زیادت جائز ہے کیونکہ یہ دعا اس (صحابی رضی اللہ عنہ ) نے اپنی طرف سے زیادہ کی تھی۔ اور رسول اﷲﷺ نے اس کی تحسین فرمائی اس کے نظائر بکثرت ہیں۔ اگر کل کا استیعاب کیا جاوے تو ایک مستقل کتاب بنے گی۔ غرضیکہ اس قسم کی زیادت بدعت نہیں بلکہ
فمن تطوع خیرا فھو خیر لہ
یعنی جو خوشی سے زیادہ نیکی کرے وہ اس کے لیے بہتری میں داخل ہےفقط (1) عبدالجبار عفی عنہ۔ (2) سید محمد نذیر حسین۔ (3) عبدالرحمن مبارکپوری۔ (4) شمس الحق عظیم آبادی۔
فتاویٰ نذیریہ 3 صفحہ 302، عون المعبود4 صفحہ 409، 5 صفحہ 177
بحوالہ مجموعہ رسائل مناظر اسلام حضرت مولانا محمد امین صفدر اوکاڑوی رحمہ اللہ تعالی
علامہ وحید الزمان لکھتے ہیں:
اگر کہاجائے کہ ابن عمر رضی اللہ عنہما نے تلبیہ میں زیادت کس طرح کی؟یہ تو احداث فی الدین ہوا حالانکہ ابن عمر رضی اللہ عنہما میں بہت اتباع سنت تھا تو اس کا جواب یہ ہے کہ ابن عمر رضی اللہ عنہما شاید یہ سمجھے کہ تلبیہ کلمات ماثورہ پر مقصور نہیں بلکہ اس جنس کے جو کلمات ہوں ان کے ساتھ تلبیہ جائز ہے جیساکہ اکثر ادعیہ و اذکار کا یہی حال ہے گو اقتصار کلمات ماثورہ پر افضل ہے۔
مؤطا امام مالک مترجم صفحہ 266
غیر مقلدین کے عبدالجبار غزنوی اور علامہ وحید الزمان نے فیصلہ کردیا کہ درود اور دعاء ماثورہ میں الفاظ کی زیادتی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے لے کر آج تک بلا نکیر جاری ہے۔
اب شاہ صاحب کو سوچنا چاہیے کہ جن باتوں پر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے لے کر آج چودہ سال بعد تک کسی نے انکار نہیں کیا اس بات کو بنیاد بناکر مسلمانوں کے درمیان کیوں فتنہ و فساد پھیلا رہے ہو۔
احناف کے نزدیک نماز جنازہ میں درودِ ابراہیمی پڑھنا افضل و بہتر ہے
اس اعتراض کے آخر میں شاہ صاحب نوٹ کا عنوان لگا کر لکھا ہے کہ دیوبندیوں نے جنازے میں جو درود عوام کو سکھایا ہے وہ نقلی بناوٹی ہے لہٰذا افضل کو اختیار کرنے کا دعویٰ بے بنیاد ہے۔
شاہ صاحب ہمارا یہ دعویٰ بے بنیاد نہیں بلکہ آپ کا دعویٰ بے بنیاد ہے کیونکہ ہمارے نزدیک نمازِ جنازہ میں وہی درود پڑھنا افضل و بہتر ہے جو عام نمازوں میں پڑھا جاتاہے۔ اگرچہ دوسرے درود کے الفاظ بھی احادیث سے ثابت ہیں۔ علماء دیوبند کی کتابوں کے چند حوالے ملاحظہ فرمائیں۔
مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ تعالی نے اپنی کتاب ’’بہشتی گوہر‘‘ جوکہ ابتدائی درجات کے طلباء کو پڑھائی جاتی ہے اس کتاب میں نمازِ جنازہ کا مسنون طریقہ بیان کرتے ہوئے لکھاہے کہ تکبیرتحریمہ کے بعد سبحٰنک اللّٰھم اخیر تک پڑھیں اس کے بعد اﷲ اکبر کہیں مگر ہاتھ نہ اٹھائیں ، بعد اس کے درود شریف پڑھیں اور بہتر یہ ہے کہ وہی درود پڑھا جائے جو نماز میں پڑھا جاتاہے۔
بہشتی گوہر صفحہ 88
تبلیغی جماعت کے مولانا عبدالرحمن خان میواتی نے عام مسلمانوں کے لیے ’’کتاب نماز‘‘ کے عنوان سے ایک کتاب مرتب فرمائی ہے اس میں نمازِ جنازہ کا طریقہ بیان کرتے ہوئے لکھاہے کہ دوسری تکبیر کے بعد درود شریف پڑھو۔
کتاب نماز ص41
اس پوری کتاب میں صرف ایک دورد ابرہیمی ص30 پر ہے اس کے کوئی درود نہیں لہٰذا درور سے درور ابراہیمی مراد ہے۔
فقہ حنفی کی مشہور ترین کتاب مختصر القدوری کے حاشیہ میں ہے:
ثم یکبر تکبیرۃ ویصلی علی النبیﷺلان الثناء علی اﷲ تعالیٰ یلیہ الصلوۃ علی النبیﷺ کمافی الخطب والتشہد فیقول اللھم صلی علی محمد وعلی ال محمد کماصلیت علی ابراہیم وعلی ال ابراہیم انک حمید مجید اللھم بارک علی محمد وعلی ال محمد کمابارکت علی ابراہیم وعلی ال ابراہیم انک حمید مجید۔
مختصر القدوی ص27 حاشیہ نمبر 11، ناشر ایچ،ایم سعید کمپنی ادب منز ل، کراچی
اللباب فی شرح الکتاب میں ہے
ثم (یکبر تکبیرۃ) ثانیۃ (ویصلی علی النبی ﷺ) کمافی التشھد
اللباب 1ص131
ان حوالہ جات سے ثابت ہوگیا کہ نماز جنازہ میں احناف کے نزدیک دورد ابراہیمی ہی بہتر و افضل ہے اور یہی درود ہم بچوں اور عوام الناس کوسکھلاتے ہیں۔ شاہ صاحب نے جس درود کاحوالہ دیا ہے اس درود کاافضل وبہتر ہونا فقہ حنفی کی کسی معتبر کتاب سے ثابت نہیں۔
نمازہ جنازہ میں درود ابراہیمی کے علاوہ دیگر درود بھی جائز ہیں :
علامہ ابن قدامہ حنبلی لکھتے ہیں:
دوسر ی تکبیر کے بعد تشہد والادورد شریف پڑھے اگر اس کے علاوہ کوئی اور درور شریف پڑھا پھر بھی کوئی حرج نہیں کیونکہ مطلق دورد شریف پڑھنا مقصود ہے۔
المغنی 2 ص 487
شاہ صاحب سے ایک سوال:
شاہ صاحب سے گذارش ہے کہ کوئی ایک صریح حدیث ایسی دکھائیں جس میں نمازہ جنازہ میں درود ابراہیمی پڑھنے کاثبوت ہو۔ اگر تم کسی حدیث سے ثابت نہیں کر سکتے تو پھر تم کون ہونمازجنازہ کے لیے درود ابراہیمی کو مقرر کرنے والے؟ اگرچہ نماز جنازہ میں درود ابر اہیمی ہی افضل ہے لیکن حدیث شریف میں اس کی کوئی تخصیص نہیں۔ جیسا کہ ابن ماجہ اور مسند احمد کی روایت میں ہے
عن جابر رضی اللہ عنہ قال مااباح لنا رسول اللہ ﷺ ولا ابوبکر ولاعمر فی شیء مااباحو ا فی الصلوۃ علی المیت یعنی لم یوقت
ابن ماجہ ص109مسند احمد 3ص357
ترجمہ: حضرت جابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں رسول کریم ﷺ، حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے نماز جنازہ میں کوئی چیز مقرر نہیں فرمائی۔
غیر مقلدین کی طرف سے اللہ کے دین میں رد وبدل:
شاہ صاحب نے اس اعتراض میں قرآن کریم کی آیت
فبدل اللذین ظلموا قولاغیر الذی قیل لہم
اور بخاری کی ایک حدیث ذکر کے عوام الناس کو دھوکہ دینے کی کوشش کی ہے کہ احناف نے اللہ کادین بدل ڈالا حالانکہ معاملہ اس کے بر عکس ہے چند حوالے ملاحظہ فرمائیں
غیر مقلدین کے نزدیک پیغمبر کی رائے حجت نہیں :
اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآن مجید میں نبی کریم ﷺ کی اتباع کا حکم دیا ہے اور فرمایا ہے
یا ایھاالذین امنو ااطیعو اللہ واطیعو الرسول واولی الامر منکم
سورۃ النساء آیت 59
اس آیت شریفہ میں ہمیں اللہ، اس کے رسول اور اولی الامر کی اطاعت کا حکم دیا گیا ہے جب کہ غیر مقلدین پیغمبر کی رائے کو حجت نہیں مانتے چنانچہ ملاحظہ فرمائیں
غیر مقلدین کے خطیب الہند مولوی محمد جونا گڑھی لکھتے ہیں
تعجب ہے جس دین میں نبی کی رائے حجت نہ ہو ا س دین والے آج ایک امتی کی رائے کو دلیل اور حجت سمجھنے لگے۔
طریق محمدی ص40
یعنی ان کے نزدیک پیغمبر کی رائے حجت او ردلیل نہیں۔نعوذ بااللہ من ذلک
غیر مقلدین کی حضو ر ﷺ کی شان میں گستاخی:
مشہور غیر مقلد عالم عنایت اللہ اثر ی نے اکتوبر 1959 میں تفسیر العنبس عن تفسیر سورۃ العبس شائع کرائی تو سورۃالعبس میں عابس کے لفظ کے متعلق لکھا کہ عابس رسول اللہ ﷺ ہرگز نہیں عابس سے مراد کوئی کافر ہے جس پر اللہ نے خفی ظاہر فرمائی۔
العطر البلیغ 78
غیر مقلدین کے نز دیک عیسی بن باپ پیدا نہیں ہوئے
چنانچہ اثر ی صاحب لکھتے ہیں :
دوسرے (رسالہ) میں کہ عیسی کی بے پدری پیدائش پر پوری بحث وتمحیص اور دلائل و براہین سے ثابت کیاہے کہ موصوف عیسی کاباپ تھا اور وہ معلوم النسب اور شریف النسب تھے بے پدری کاخیال خطر ناک خیال ہے۔
العطر البلیغ ص175
جب کہ قرآ ن کریم میں ہے :
ان مثل عیسی عنداللہ کمثل آدم خلقہ من تراب
العمران آیت نمبر 59
یہی اثر ی صاحب عیون زم زم میں لکھتے ہیں:
کہ مسجد نبوی میں عیسائیوں سے مناظرہ کے دوران جوابی تقریر میں رسول کریمﷺ نے حضرت عیسی کاباپ تسلیم فرمایا ہے بلکہ عیسائیت کے خلاف اسے بطور دلیل پیش فرمایا ہے۔
عیون زم زمص21
عیسی اپنے باپ یوسف سے مشابہہ تھا اور وہ (عیسی) اس( یوسف )کا بیٹا ہے۔
عیون زم زم ص22
غیر مقلدین کاحضرت یونس علیہ السلام کی نبوت سے انکار:
یہی اثر ی صاحب لکھتے ہیں:
الحاصل یہ کہ امام صاحب (ابن تیمیہ رحمہ اللہ تعالی ) کافتویٰ تو ٹھیک ہے کہ مسلمانوں کی تکفیر جائز نہیں کہ یہ خوارج اورمعتزلہ کا طریقہ ہے اور یہ استدلال ٹھیک نہیں کہ یونس علیہ السلام نبی ہیں۔
عیونِ زمزم صفحہ 161
یعنی غیر مقلدین کے نزدیک صحیح بات یہ ہے کہ یونس علیہ السلام (نعوذ باﷲ) اﷲ کے نبی نہیں ہیں۔
اثری صاحب کا پکا اہلحدیث ہونا:
اثری صاحب لکھتے ہیں:
ہماری قوم (جغتہ) اورپیشہ درزی اور کپڑوں پر تلہ چڑھانا ہے اور سکونت وزیر آباد ہے۔ میرا مسلک شروع ہی سے اہلحدیث ہے۔
الجسر البلیغ صفحہ1
غیر مقلدین کا قرآن و حدیث کے خلاف اپنے علماء کی تقلید کرنا:
مولوی عبدالجبار کنڈیلوی غیرمقلد لکھتے ہیں
چنانچہ رفتہ رفتہ جماعت اہلحدیث کنڈیلہ میں بھی یہ خیالات پیدا ہونے لگے اورمولوی صاحب کے دعووں کی تصدیق کرنے لگے اورغیر متابعین کو جہالت کی موت مارنے لگے اور اس امامت نے ایک طرح کی تقلید وضلالت کی شکل اختیار کرلی اور مولوی صاحب کے اجتہادی مسائل کو یہ لوگ بے چوں و چرا جو خلاف قرآن و حدیث تھے تسلیم کرنے لگے، مثل مرغ کی قربانی وغیرہ
مقاصد الامامۃ صفحہ3
غیر مقلدین کا اپنی نماز کے بناوٹی ہونے کا اقرار:
غیر مقلدین کے اکابر نے خود اپنی نماز کے بناوٹی ہونے کاا قرار کیاہے چند حوالے ملاحظہ فرمائیں۔
مشہور و معروف اہلحدیث عالم عبدالجبار سلفی لکھتے ہیں:
آپ حضرات نے اس ثابت شدہ درجہ فضیلت والے عمل (یعنی دعا بعد المکتوبہ)کے خلاف اشتہار بازی شروع کر رکھی ہے لیکن آپ نے کبھی غور کیاکہ درج ذیل امور میں آپ کے پاس کتنی صحیح الاسناد اورٹھوس احادیث ہیں۔
1) قنوت وتر میں ہاتھ اٹھانا:
قنوت وتر میں آپ حضرات بھی ہاتھ اٹھاکر دعا کرتے ہیں اور ہم بھی سمجھتے ہیں کہ اس میں توسیع ہے اور حرمین شریفین میں اسی پر عمل بھی ہے لیکن کیا یہ عمل رسول اکرمﷺ سے صحیح یاحسن یاضعیف حدیث سے ثابت ہے؟۔
2) قنوت وتر میں آپ حضرات بھی ہاتھ اٹھا کر دعا مانگ لیتے ہیں اور ہم بھی سمجھتے ہیں کہ یہ عمل جائز ہے لیکن حضرت ابو مالک سعد رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے اپنے باپ حضرت طارق بن اشیم رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ آپ رضی اللہ عنہ نے رسول اﷲﷺ، حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ ، حضرت عمر رضی اللہ عنہ ، حضرت عثمان رضی اللہ عنہ اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کے پیچھے نمازیں پڑھی ہیں کیاوہ فجر میں قنوت کرتے تھے؟۔ انہوں نے فرمایامیں نے ان سب کے پیچھے نمازیں پڑھی ہیں ان میں سے کوئی بھی قنوت نہیں کرتاتھا پھر کہا اے بیٹے یہ بدعت ہےنسائی
ہم اسے بدعت نہیں کہتے بلکہ ضرورت کے مواقع پر جائز سمجھتے ہیں کیا اسی طرح کسی صحابی رضی اللہ عنہ سے نماز کے بعد دعا کو بدعت یاحرام کہنا ثابت ہے؟
فرض نمازوں کے بعد دعائے اجتماعی کے فضائل و دلائل صفحہ 35
غیر مقلدین کے محقق زمانہ حافظ زبیر علی زئی لکھتے ہیں:
قنوت نازلہ پر قیاس کرتے ہوئے قنوت وتر میں بھی ہاتھ اٹھانا جائز ہے اس بارے میں بعض ضعیف احادیث بھی مروی ہیں لیکن ہاتھ نہ اٹھانا راجح ہے۔واﷲ اعلم
وتر یا قنوت نازلہ میں صراحت کے ساتھ منہ پر ہاتھ پھیرنا ثابت نہیں مگر مطلق میں جائز ہے۔
ہدیۃ المسلمین صفحہ 71
قنوت رکوع سے پہلے پڑھنی چاہیے:
حکیم بن عتیبہ، حماد بن ابی سلیمان، ابو اسحاق السبیعی(تابعین) سے ثابت ہے کہ وہ نماز میں جب دعائے قنوت پڑھنے کا ارادہ کرتے تو قرأت سے فارغ ہونے کے بعد تکبیر کہتے پھر قنوت پڑھتے تھے۔
مصنف ابن ابی شیبہ2 صفحہ307، صفحہ695 وسندہ صحیح
بحوالہ:ہدیۃ المسلمین نماز کے مسائل مع مکمل نماز نبویﷺ صفحہ71 تالیف زبیر علی زئی
ان مذکورہ حوالہ جات سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ غیر مقلدین نے اﷲ تعالیٰ کے نازل کردہ دین کو بدل کر اپنے لیے نیادین اختیار کیاہے۔
عقیدہ نمبر18
وہ تمام حالات جن کا حضورِ اکرمﷺ سے ذرا سا بھی تعلق ہے ان کا ذکر ہمارے نزدیک نہایت پسندیدہ اوراعلیٰ درجہ کا مستحب ہے۔خواہ آپ کی ولادتِ مبارکہ کاذکر ہو یا کسی اور حالت کا تذکرہ ہو۔
خلاصہ عقائد علماء دیوبندصفحہ231
اعتراض:
آپﷺ کی زندگی کا ہر پہلو باعث ثواب ہے مگر شرط یہ ہے کہ
1) وہ قرآن و حدیث، آثار صحابہ رضی اللہ عنہم سے صحیح سند کے ساتھ ثابت ہو۔
2) بیان کرنے والا بدعتی و مشرک نہ ہو جس سے وہ بدعت و شرک ثابت کر رہاہو۔
3) تاریخ پیدائش یاوفات کی تخصیص نہ ہو جیساکہ جشن ولادت، جلوس عید میلاد النبیﷺ وغیرہ ورنہ پھر شرک یابدعت ہوگا کیونکہ ا س عمل کی مثال آپﷺ کی زندگی میں یا آپﷺ کی وفات کے بعد صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے عمل سے ثابت نہیں ہے اور اس قسم کے عمل کا بدعت ہونے پر امت متفق ہے۔
واما اھل السنۃ والجماعۃ فیقولون فی کل فعل و قول لم یثبت عن الصحابۃ رضی اﷲ عنہم فھو بدعۃ۔
ابن کثیر سورہ احقاف آیت نمبر14
موازنہ کیجئے صفحہ 15۔16
جواب:
شاہ صاحب عوام الناس کو یہ تاثر دینا چاہتے ہیں کہ علماء دیوبند مروجہ عید میلاد النبیﷺ کے قائل ہیں حالانکہ علماء دیوبند کے نزدیک مروجہ عید میلاد النبی بدعت ہے۔
فقیہ العصر، قطب الارشاد امام ربانی حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی قدس سرہ ایک سوال کے جواب میں لکھتے ہیں:
سوال: محفل میلاد شریف و قیام میلاد شریف و لوبان سلگانے، فرش و چوکی بچھانے وتاریخ متعین کرنا وغیرہ بہ ہیئت مشہورہ و مروجہ اس زمانے میں آیا اس طریقے سے محفل میلاد جائز ہے یا نہیں ؟۔ اگر جائز ہے تو کس دلیل سے؟ دلیل ادلہ اربعہ سے ہو، بینو و توجروا۔
جواب: یہ محفل چونکہ زمانہ فخر عالم ﷺ اورزمانہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور زمانہ تابعین و تبع تابعین اور زمانہ مجتہدین علیہ الرحمۃ میں نہیں ہوئی اس کا ایجاد بعد چھ سو سال کے ایک بادشاہ نے کیا۔ اس کو اکثر اہل تاریخ فاسق لکھتے ہیں لہٰذا یہ مجلس بدعت ضلالہ ہے اس کے عدم جواز میں صاحب مدخل وغیرہ علماء پہلے لکھ چکے ہیں اور اب بھی بہت رسائل و فتاویٰ طبع ہوچکے ہیں زیادہ دلیل کی حاجت نہیں عدم جواز کے واسطے یہ دلیل کافی ہے کہ کسی نے قرونِ خیر میں اس کو نہیں کیا، زیادہ مفاسد اس کے دیکھنے ہوں تو مطولات فتاویٰ کو دیکھ لیں ، واﷲ اعلم۔
فتاویٰ رشیدیہ صفحہ 64
غیر مقلدین کے نزدیک اقوالِ صحابہ رضی اللہ عنہم حجت نہیں :
شاہ صاحب نے تیسری شرط یہ لکھی ہے کہ جس عمل کی مثال آپﷺ کی زندگی میں یا آپﷺ کی وفات کے بعد صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے عمل سے ثابت نہیں تو اس کے بدعت ہونے پر امت متفق ہے۔ یہ شاہ صاحب کی اور ان کی جماعت کا صرف زبانی جمع خرچ ہے کیونکہ ان کے نزدیک اقوال و افعال صحابہ رضی اللہ عنہم حجت نہیں ہیں۔
بطورِ نمونہ چند حوالے ملاحظہ فرمائیں:
پس جو قرآن و حدیث میں ہے دین ہے اور جو ان دونوں میں نہیں وہ دین کی بات نہیں دین کی باتیں وحی خدا یعنی قرآن و حدیث میں کامل و مکمل موجود ہیں۔
طریقِ محمدی صفحہ 42
دوسری جگہ لکھتے ہیں:
قرآنِ پاک خدا تعالیٰ کی وحی قرآن و حدیث کے ماننے اور اس کے سوا کسی اور کی نہ ماننے کی کھلے الفاظ میں منادی کرتاہے۔
طریقِ محمدی صفحہ 60
حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی شان میں گستاخی:
محمدجوناگڑھی ایک اور مقام پر گستاخی کرتے ہوئے لکھتا ہے:
بس آؤ سنو! بہت صاف صاف موٹے موٹے مسائل ایسے ہیں کہ حضرت فاروقِ اعظم رضی اللہ عنہ نے ان میں غلطی کی۔ اور ہمارااورآپ کا اتفاق ہے کہ فی الواقع ان مسائل کے دلائل سے حضرت عمرفاروق رضی اللہ عنہ بے خبر تھے۔
طریقِ محمدی صفحہ 54
بڑے تعجب کی بات ہے کہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ جیسے جلیل القدر صحابی رضی اللہ عنہ توموٹے موٹے مسائل میں غلطی کرتے تھے (نعوذ باﷲ) اورمسائل کے دلائل سے بے خبر تھے لیکن غیر مقلدین غلطیوں سے پاک ہیں اور تمام مسائل کے دلائل ان کو معلوم ہیں۔
غیر مقلدین کے نزدیک صحیح کردار والا صحابی بھی حجت نہیں :
نوب صدیق حسن خان لکھتے ہیں:
ابن عمر رضی اللہ عنہما کے فعل سے دلیل پکڑنا درست نہیں کیونکہ صحابی رضی اللہ عنہ کا کردار اگرچہ صحیح طور پر ثابت ہوپھربھی حجت کے لائق نہیں ہوتا۔
بدور الاھلۃ صفحہ 28
یہی نواب صاحب عورت کے برہنہ بدن نماز کے جواز کو ثابت کرنے کے جوش میں حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا کے ایک اثر کو رد کرتے ہوئے فرماتے ہیں ، ’’قول اوست پس بحجت میرزد‘‘ یہ اس کا قول ہے جوحجت کے لائق نہیں۔
بدورالاھلہ صفحہ 39
ایک اور مقام پر لکھتے ہیں: ’’موافقاتِ صحابہ حجت نہیں ‘‘۔
بدورالاھلۃ صفحہ 129
غیر مقلدین کے نزدیک خنزیر یا کتا پھولا پھٹا ہواپڑاہے لیکن پانی کا رنگ، بو یا ذائقہ تبدیل نہیں ہوا تو وہ پاک ہے اس کے خلاف حضرت عبداﷲ بن عباس اورحضرت عبداﷲ بن زبیر رضی اللہ عنہما کے ایک فتویٰ کو رد کرتے ہوئے میاں نذیر حسین فرماتے ہیں
’’اگر اس فتویٰ کو سند کے اعتبار سے صحیح تسلیم کرلیاجائے تو پھر بھی اس کو دلیل بنانا صحیح نہیں کیونکہ صحابی رضی اللہ عنہ کا قول حجت نہیں ہوتا‘‘۔
فتاویٰ نذیریہ 1 صفحہ 340
غیر مقلدین کے مناظر اسلام مولوی ثناء اللہ امر تسری حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے ایک مجلس میں تین طلاق والے فیصلے کاجواب دیتے ہوئے لکھتے ہیں
پھر آپ اور ہم اسے کیوں مانیں ہم فاروقی تو نہیں محمدی ہیں ہم نے ان کاکلمہ تو نہیں پڑھا آنحضرت محمد ﷺ کا کلمہ پڑھا ہے۔
فتاوی ثنائیہ 2ص252
شاہ صاحب کا یہی عقیدہ ہے کہ دین صرف دوچیزوں کانام ہے۔قرآن وحدیث باقی دین نہیں چنانچہ شاہ صاحب نے امین اللہ پشاوری کی کتاب ’’تقلیدکی حقیقت ‘‘ کے مقدمہ میں لکھا ہے
اہل اسلام کااس بات پر اتفاق ہے کہ دین دوہی چیزوں کانام ہے قرآن عزیز اور سنت نبوی ﷺ اور اسی کامظاہرہ اہل اسلام اپنی زندگی میں کرتے ہیں۔ مثلاًدنیا میں آتے ہی اللہ تعالیٰ کی توحید اور محمدﷺ کی اتباع کی خبر اذان کی صورت میں پکاری جاتی ہے اور زندگی کے آخری لمحات میں بھی کلمہ شہادت کا تکرار کیا جاتا ہے۔ لقنوا موتاکم لاالہ الاﷲ دوہی شہادتیں پڑھی جاتی ہیں معلوم ہوا کہ جواقرار مسلمان پرلازم تھا وہ اس موقع پر دوہرایا گیا۔
دوسر ی مثال خیرا لقرون میں بھی اللہ تعالیٰ اور رسول ﷺ کی اطاعت کو کامل دین سمجھتے ہیں۔
تقلیدکی حقیقت صفحہ 7
شاہ صاحب اور ان کے اکابر ین کی تصریحات سے یہ بات روزِروشن کی طرح واضح ہوگئی کہ غیر مقلدین کے نزدیک دین صرف قرآن و حدیث کانام ہے اور وہ بھی اپنی مرضی کا۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے اقوال و افعال ان کے یہاں حجت نہیں یہ حضرات شیعوں کی طرح عوام الناس کو دھوکہ دیتے ہیں کہ ہم صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو مانتے ہیں۔
عقیدہ نمبر 19:
آنحضرت ﷺاور اسی طرح تمام انبیاء علیہم السلام کانیند سے وضو نہیں ٹوٹتا تھا کیونکہ نیندمیں آپ ﷺ کی صرف آنکھیں مبارک سوتی تھیں دل مبارک نہیں سوتا تھا۔
خلاصہ عقائد علماء دیوبندص 232
اعتراض:
بیٹھی ہوئی حالت میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہ سوجاتے مگر وضو دوبارہ نہیں کرتے۔
صحیح بخاری
لہٰذا اس مسئلہ کوعقیدہ میں لانے کی کیاضرورت تھی۔ تمام امت کے لیے حکم شرعی یہی ہے کہ جب تک ٹیک لگا کرنہ سوجائے تو وضو برقرار رہے گا۔
نوٹ: انبیاء کرام کی بعض خصوصیات سے یہ لازم نہیں ہوتا کہ وہ بشریت سے نکل کر الہٰ ومعبود بن گئے۔
موازنہ کیجئے صفحہ 16
جواب:
علماء دیوبند کا یہ عقیدہ کہ نیند سے انبیاء علیہم السلام کا وضو نہیں ٹوٹتا صحیح حدیث سے ثابت ہے۔بخاری شریف میں ہے کہ حضورﷺ نے فرمایا
ان عینی تنامان ولاینا م قلبی
بخاری 1 ص154
یعنی میر ی آنکھیں سوتی ہیں میرا دل نہیں سوتا۔ نیزبخاری 1ص504 میں ہے کہ
وکذلک الانبیاء تنام اعینھم ولاینام قلوبھم
یعنی اسی طرح انبیاء کی آنکھیں سوتی ہیں ان کے دل نہیں سوتے۔
ایک شبہ کاازالہ:
شبہ: سفر میں نیند کی وجہ سے آنحضرت ﷺ کی نماز فوت ہوگئی تھی اگر دل نہیں سوتا تھا تو آپ ﷺ کو فجر کے طلوع ہونے کاعلم کیوں نہیں ہوا۔
جواب: آپ ﷺکوطلوع فجر کاعلم اس لیے نہیں ہواکہ طلوع وغیرہ کا تعلق آنکھ سے ہے دل سے اس کاتعلق نہیں اور چونکہ آنکھ پر نیند کااثر ہوتاتھا اس لیے طلوع فجر کاادراک نہ ہوسکا۔ مزید تفصیل کے لیے امام نووی رحمہ اللہ تعالی کی شرح مسلم 1ص254 فتح الملہم 1ص241اور امدادالفتاوی کامطالعہ کیجیے۔
شاہ صاحب کا اصل عقیدہ پر کوئی اعتراض نہیں :
شاہ صاحب ہمارے عقیدے پر کوئی اعتراض نہ کر سکےتو اصل موضوع سے ہٹ کرتین اعتراض کیے ہیں۔
1) بیٹھنے کی حالت میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سو جاتے تھے مگر دوبارہ وضو نہیں کرتے تھے (بخاری) اور تمام امت کے لیے حکم یہی ہے جب ٹیک لگا کر نہ سوجائے تو وضوبر قرار رہے گا۔
2) اس مسئلہ کو عقیدہ میں لانے کی کیاضرورت تھی؟
3) انبیاء علیہم السلام کی بعض خصوصیات سے یہ لازم نہیں آتا کہ وہ بشریت سے نکل کر الہٰ ومعبود بن جائیں۔
شاہ صاحب کے اعتراضات کے جوابات:
شاہ صاحب نے اس اعتراض میں تین اعتراضات کیے ہیں جو کہ پہلے گذر چکے ہیں۔ ان اعتراضات کے بالترتیب جواب ملاحظہ فرمائیں۔
اعتراض نمبر 1 کا جواب:
عقیدہ نمبر 19 نوم انبیاء علیہم السلام کے متعلق ہے۔ اس عقید ے کا تعلق صحابہ کرام رضی اللہ عنہ اور دیگر امتیوں کے متعلق نہیں لہٰذا صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور دیگر امتیوں کی نیند کے متعلق مسائل اٹھا کر اس مسئلہ پراعتراض کرناحماقت ہے کیونکہ غیر مقلدین کے اکابر کے نزدیک نوم امت مطلقا ناقض وضو ہے۔
محققین علماء اہل حدیث کے نزدیک نیند مطلقاًناقض وضو ہے۔ مشہور غیر مقلد علامہ عبدالرؤف بن عبد الحنان بن حکیم محمد اشرف سندھو لکھتے ہیں
مسند ابو یعلی ص199،مسند بزارص282،اوسط بن المنذر، ص154، اور محلی ابن حزم 1ص224 میں حضرت انس رضی اللہ عنہ کی دوسری روایت میں ہے۔
انہم کانوا یضعون جنوبہم فینامون منہم یتوضاومنہم لایتوضأ
یعنی وہ لیٹ کر سوجایا کرتے تھے بعض ان میں وضو کرتے تھے اور بعض نہیں۔
حافظ ذہبی رحمہ اللہ تعالی نے مسند ابو یعلی ومسند بزار کے رواۃ کو صحیح کے رواۃ کہا ہے۔ مجمع الزوائد 1ص253ابن قطان نے اس حدیث کو صحیح کہا ہے اور اسی روایت کی بناء پر انہوں نے اس قول کی تردید کی ہے کہ بیٹھے بیٹھے سو جانے سے وضو نہیں ٹوٹتا۔ الجوہر النقی، النصب الرایہ 471 وسط ابن المنذر میں حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جو بیٹھ کر یاکسی دوسری حالت میں سوجائے تو اس پر وضو ضروری ہوگا۔
حضر ت انس رضی اللہ عنہ کایہ اثر اگر بسندصحیح ثابت ہے تو ابوداود والی روایت سے استدلال مردود ہوجاتا ہے۔ حضرت صفوان والی جو نمبر 106 میں آرہی ہے کے عموم سے بھی یہی ظاہر ہوتا ہے کہ نیند ہر حالت میں ناقض وضو ہے۔
حضرت ابو ہریرہ،ابو رافع، عروہ بن زبیر رضی اللہ عنہم عطاء، حسن بصری، سعید بن المسیب، عکرمہ، زہری، مزنی اور دیگر علماء رحمہم اللہ کا یہی مذہب ہے ابن المنذر اور ابن حزم نے بھی اسی کواختیار کیا ہے۔
شیخ البانی نے ارواء الغلل 1ص141 میں ذکر کیا ہے کہ علماء کی ایک جماعت کایہ مذہب ہے جن میں حنابلہ بھی ہیں۔
صلوۃ الرسول تخریج وتعلیق عبدالرؤف بن عبد الحنان ص135
مولوی عبدالرؤ ف کی اس تحقیق سے معلوم ہواکہ ان کامسلک اس مسئلہ میں وہ نہیں جو شاہ صاحب کاہے۔ شاہ صاحب اس مسئلہ میں آپ نے اپنے اکابرین کی رائے سے انحراف کیوں کیا ؟
دوسرے اورتیسرے اعتراض کاجواب:
ان دونوں اعتراضات پر اگر غور کیاجائے توآپ کو معلوم ہوگا کہ شاہ صاحب کے نزدیک انبیاء علیہم السلام اور خصوصاًآنحضرت ﷺ کے خصائص ومعجزات کوبیان کرنااور ان کاعقیدہ رکھنا انبیاء علیہم السلام کوالہٰ معبود بنانے کے مترادف ہے، نعوذ باللہ۔
انبیا ء علیہم السلام کے متعلق علماء دیوبند کاعقیدہ:
اس مقام پر ہم حضرت مولاناقاری محمد طیب صاحب رحمہ اللہ تعالی مہتمم دار العلوم دیوبند کی ایک عبارت پیش کرتے ہیں جس میں شاہ صاحب کے تمام اعتراض کے جواب موجو د ہیں۔ مضمون اگرچہ طویل ہے لیکن ہم فائدے کوملحوظ خاطر رکھتے ہوئے پورے مضمون کو ذکر رہے ہیں۔
قاری محمدطیب رحمہ اللہ تعالی لکھتے ہیں:
پھر اس مقدس طبقہ کی آخری اور سب سے زیادہ پرگزیدہ ہستی نبی کرم ﷺ کی ذات بابرکات ہے جن کی عظمت وسر بلندی وہر بلندی وبرتر ہستی سے بمراتب بے شمار زیادہ اور بڑھ کرہے اس لیے ان کی تعظیم وتوقیر کے درجات اورحقوق بھی اوروں سے زیادہ ہیں۔ لیکن حضورﷺ کے بارے میں بھی علماء دیوبند کامسلک وہی نقطۂ اعتدال اورمیانہ روی کاہے جو خود حضورﷺ کی تعلیمات کی پیداکردہ ہے۔
چنانچہ علماء دیوبند بصدق قلب سیدالکونین حضرت محمدﷺ کوافضل الکائنات، افضل البشر اور افضل الانبیاء یقین کرتے ہیں مگر ساتھ ہی آپ ﷺ کی بشریت کابھی اقرار کرتے ہیں غلوئے عقیدت ومحبت میں نفی بشریت یا ادعا اوتادیت یا پردہ مجاز وغیرہ کہنے کی جرأت نہیں کرتے۔
لیکن پھر بھی آپ ﷺ کاسب سے بڑاکمال عبدیت یقین کرتے ہیں وہ کمالات نبویﷺاورعلودرجات کوانتہائی ثابت کرنے کے لیے آپﷺ کی حدودِعبدیت کوتوڑ کر حدودِ معبودیت میں پہنچادینے سے مددنہیں لیتے اور نہ ہی اسے جائز سمجھتے ہیں۔ وہ آپ ﷺ کی ذات بابرکات کوتمام انبیاء علیہم السلام کی تمام کمالائی خصوصیت خلت، اصطفائیت، کلمیت، روحیت، صادقیت، صدیقیت وغیرہ کاجامع بلکہ مبداء نبوت انبیاء اورمنشاء ولایت اولیاء سمجھتے ہیں اور آپ ﷺ پر ہی تمام مختارات خداوندی کی ریاست انتہاء مانتے ہیں۔
وہ آپ ﷺ کی اطاعتِ مطلقہ کوفرضِ عین سمجھتے ہیں۔ لیکن آپ ﷺ کی عبادت کوجائز نہیں سمجھتے وہ آپ ﷺ کو ساری کائنات میں فردِ اکمل اور بے نظیر جانتے ہیں۔ لیکن آپ ﷺ میں خصوصیات الوہیت تسلیم نہیں کرتے اور اس میں ذاتی اور عرضی کافرق بھی معتبر نہیں سمجھتے۔ وہ آپ ﷺ کے ذکر مبارک اورمدح وثناء کو عین عبادت سمھتے ہیں لیکن اس میں عیسائیوں کے سے مبالغے جائز نہیں سمجھتے کہ حدودِبشریت کوحدود الوہیت سے جاملائیں۔
وہ برزخ میں آپ ﷺ کی جسمانی حیات کے قائل ہیں لیکن وہاں معاشرت دنیوی کے قائل نہیں۔ وہ اس کے اقراری ہیں کہ آج بھی امت کے ایمان کاتحفظ گنبدخضراء ہی منبع ایمانی سے ہورہا ہے۔ لیکن پھر بھی وہ آپ کوحاضر وناظر نہیں جانتے جو کہ خصوصیت الوہیت میں سے ہے۔ وہ آپ ﷺ کے علم عظیم کوساری کائنات کے علم سے خواہ ملائکہ ہوں یاانبیاء واولیاء بمراتب بے شمار زیادہ اور بڑھ کرمانتے ہیں۔ لیکن پھر بھی ان کے ذاتی اورمحیط ہونے کے قائل نہیں غرض تمام ظاہری وباطنی کمالات میں آپ ﷺ کوساری مخلوق بلحاظ کمال وجمال یکتا، بے نظیر اور بے مثال یقین کرتے ہیں لیکن خالق کے کمالات سے ان کمالات کی وہی نسبت مانتے ہیں جومخلوق کوخالق سے ہوسکتی ہے کہ خالق کی ذات وصفات اور کمالات سب لامحدود ہیں اور مخلوق کی ذات و صفات اورکمالات سب محدود ہیں وہ ذاتی ہیں یہ عرضی ہوکر بھی محدود و خانہ زار ہیں اور یہ عطاء کاثمرہ۔ پس یہ حدود کی رعایت وہی نطقۂ اعتدال ہے جو اس مسلک کی اساس ہے۔
مسلک اعتدال علماء دیوبند ص23تا 25
عقیدہ نمبر 20:
انبیاء علیہم السلام کاخواب بھی وحی کے حکم میں ہوتا ہے بخاری شریف میں ہے کہ ’’رؤیا الانبیاء وحی‘‘کہ نبیوں کا خواب وحی ہوتا ہے۔
بخاری شریف 1ص25
نوٹ:
شاہ صاحب نے اس عقیدے پر کوئی بحث نہیں کی ہے۔ معلوم ہوتا ہے کہ عقیدہ نمبر 10 کی طرح اس عقیدے کے بارے میں بھی شاہ صاحب تردد کاشکار ہیں ورنہ تائید ضرور کرتے۔
شاہ صاحب کی خدمت میں دست بستہ گزارش ہے کہ خود پر اور اپنی جماعت پر ترس کھائیں۔ ضد،تعصب اور عناد کی پٹی آنکھوں سے اُتاریں اور ہمارے عقائد کی کتب کو استفادہ کی نیت سے پڑھیں۔ ان شاء اللہ شاہ صاحب کا تردد اور تذبذب دور ہو جائے گا۔ اگر ایسا نہیں کر سکتے تو کم از کم اپنی زبان اور قلم کو قابو میں رکھیں۔
عقیدہ نمبر 21:
آنحضرت ﷺ نماز میں پشت کی جانب سے ویساہی دیکھتے تھے جیسا کہ آگے کی جانب سے دیکھتے تھے۔ آپ ﷺ کاارشاد ہے کہ صفوں کوسیدھا کیا کرو۔کیونکہ میں تمہیں اپنے پیچھے سے دیکھتا ہوں۔
بخاری 1ص100
خلاصہ عقائد علمائے دیوبند صفحہ 233
اعتراض:
احناف اس حدیث کی مخالفت کرتے ہیں قدم ملاتے نہیں اور نہ کندھے۔ جب کہ اس حدیث میں ہے
(کان احد یلزق منکبیہ بمنک صاحبہ وقدمہ بقدومہ)
یعنی ہم صحابہ میں سے ہرفر د ساتھی کے قدم سے قدم اور کندھے سے کندھے ملاتے تھے۔
2) پشت کی جانب سے دیکھنا معجزہ تھا جب کہ ہر معجزہ اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہوتا ہے نبی کریم ﷺ کونماز میں جنت وجہنم دکھائے گئے۔ مگر صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کوصفوں میں کھڑے ہوکر نہ دیکھ سکے۔ لہذامعجزہ نبی کریم کے اختیار میں نہیں اورکرامت ولی کے اختیار میں نہیں معجزہ وکرامت کومسائل کے دلائل کے طور پر پیش نہیں کیے جاسکتے۔
3) نوٹ: اس حدیث کوعقائد میں لانے سے دیوبند کے پس پردہ عقائد کی عکاسی ہوتی ہے۔
موازنہ کیجئے صفحہ 16۔17
جواب:
شاہ صاحب نے اس اعتراض میں تین باتیں ذکر کی ہیں:
1) احناف اس حدیث کی مخالفت کرتے ہیں۔
2) معجزہ اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہوتا ہے۔
3) اس حدیث کو عقائد میں لانے سے علماء دیوبند کے پس پردہ عقائد کی عکاسی ہوتی ہے۔
احناف اس حدیث کے مخالف نہیں :
شاہ صاحب نے احناف پر بہتان باندھا ہے کہ احناف اس حدیث کے مخالف ہیں شاہ صاحب کے گھر کا حوالہ ملاحظہ فرمائیں
غیرمقلدین کے مناظر اعظم مولانا ثناء اللہ امرتسری لکھتے ہیں:
اور یہ بدیہی امر ہے آدمیوں کاصفوں میں ایک دوسرے سے مل کر کھڑا ہونا یہ ایک ایسامسئلہ ہے کہ میرے علم میں کسی ایک آدھ حنفی متقدم سے بھی اس کاخلاف ثابت نہیں سب کے سب اس امر پرمتفق ہیں کہ یہ کتب متداولہ فقہ وشروحات فقہ شب وروزمزاولت کی جاتی ہیں کسی ایک میں اس کے برعکس دیکھا نہ کسی کو جرأت ہے۔
فتاوی ثنائیہ 1ص470
آگے چل کرلکھتے ہیں کہ امام محمد رحمہ اللہ تعالی کتاب الآثار ص31باب اقامۃ الصفوف میں لکھتے ہیں
عن ابراہیم انہ کان یقول سووا صفوفکم وسووامناکبکم وتراصواولیتخنکم الشیطان الخ وقال محمد وبہ نأخذ ولاینبغی انہ یترک الصف وفیہ الخلل حتیٰ یسووا وھوقول ابی حنیفہ رحمہ اللہ تعالی۔
ترجمہ: ابراہیم نخعی رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ صفیں اور شانہ برابر کرو اور خوب مل جاؤایسانہ ہوکہ شیطان بکری کے بچے کی طرح تمہارے درمیان داخل ہوجائے اور امام محمد کہتے ہیں کہ ہم بھی اس کولیتے ہیں کہ صف میں خلل چھوڑ دینا مناسب نہیں حتیٰ کہ ان کودرست نہ کیا جائے اور یہی امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ تعالی کا مذہب ہے۔
فتاوی ثنائیہ 1ص470
ایک اور جگہ لکھتے ہیں :
شرح نقایہ میں نیز بحراالرائق 1ص262،عالمگیرمطبوعہ کلکتہ ص122 درمختارمع الشامی ص 593میں ہے
ینبغی للمأ مومین ان یتراصوا وان یسدوالخلل ان یسووامناکبہم وینبغی للامام ان یامرھم۔
یعنی مقتدی کوچاہیے کہ خوب مل کر کھڑے ہوں۔ صفوں کے درمیان خالی جگہوں کوبند کریں اور شانوں کوہموار رکھیں۔
بحوالہ فتاوی ثنائیہ 1ص 271
ایک اور مقام پر لکھتے ہیں:
مولانااشرف تھانوی رحمہ اللہ تعالی بہشتی گوہر 2ص59میں تحریر فرماتے ہیں کہ صف میں ایک دوسرے سے مل کر کھڑے ہونا چاہیے درمیان میں خالی جگہ نہ رہناچاہیے۔
فتاوی ثنائیہ 1 ص 473، تین اہم مسئلے الشیخ کریم الدین السلفی ص15دار التقوی کراچی
ان تمام حوالہ جات جو کہ غیر مقلدین کے پیشوا کی کتاب سے پیش کیے گئے ہیں معلوم ہوگیا کہ احناف اس حدیث کی مخالفت نہیں کرتے۔ جھوٹ بولنا شاہ صاحب کی عادت ہے اسی لیے جھوٹ بولا ہے۔
شاہ صاحب اور ان کی جماعت کی غلط فہمی:
شاہ صاحب کایہ کہنا کہ احناف اس حدیث کے مخالف ہیں اس کاایک جواب غیر مقلدین کے ائمہ کی رائے سے سامنے آچکا ہے۔ دوسر اجواب یہ ہے کہ شاہ صاحب اور ان کی جماعت کو اس حدیث کے سمجھنے میں غلط فہمی ہوئی ہے کیونکہ اس سلسلے میں وقتاًفوقتاًآپ ﷺ سے جوہدایات یافرامین صادرہوئے ہیں ان میں الزاق کالفظ موجود نہیں ہے بلکہ صرف محاذات کاآیا ہے۔ چند احادیث ملاحظہ فرمائیں۔
حدیث1) وصلواصفوفکم وقاربوا بینہا وحاذوا بالاعناق
رواہ ابوداوٗدعن انس بن مالک رضی اللہ عنہ
ترجمہ: ملاؤ اپنی صفوں کو اور ایک دوسرے کے قریب کھڑے ہوجاؤ اور گردنوں کو ایک دوسرے مقابل رکھو۔
حدیث 2) اقیموا الصفوف وحاذوا بین المناکب وسد وا الخلل
رواہ ابو داود عن ابی عمرؓ
ترجمہ: صفوں کو سیدھا کرو اور مونڈھوں کو مونڈھوں کے برابر رکھو اور شگاف کوبند کرو۔
نبی کریمﷺ کے ان ارشادات سے صرف یہ معلوم ہوتاہے کہ صف میں شامل ہونے والے اس طرح باہم متقارب ومتوازی کھڑے ہوکہ ہر دو کے درمیان فصل یاشگا ف نہ رہے۔ اگر ایک جانب سے کھڑے ہوکر صف پر نگائی ڈالی جائے تو وہ استواء واعتدال میں ’’ بنیان مرصوص‘‘ طرح دکھائی دے اور کہیں تقدم اور تأخر نظر نہ آئے بلکہ تیر کی طرح سیدھی دکھائی دے۔
لفظ الزاق کااستعمال اقوال صحابہؓ میں اور اس کامعنی ومطلب:
شاہ صاحب نے جو حدیث پیش کی ہے اس میں لفظ ’’الزاق ‘‘ موجود ہے لفظ الزاق کے اصل معنی کیاہے اس بارے میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے اقوال ملاحظہ فرمائیں۔
قال انس وکان احد نا یلزق منکبہ بمنکب صاحبہ وقدمہ بقدمہ
رواہ البخاری 1001
قال نعمان بن بشیر فرأیت الرجل یلزق کعبہ بکعب صاحبہ ورکبتہ برکبتہ ومنکبہ بمنکبہ
رواہ احمد
ترجمہ: نعمان بن بشیر کہتے ہیں کہ(جب آپﷺ نے صفوں کوسیدھا کرنے کی بار بار تاکیدفرمائی تو میں نے دیکھا کہ ہر آدمی اپنے ٹخنو ں کواپنے ساتھی کے ٹخنوں کے ساتھ اور اپنے گھٹنوں کو اس کے گھنٹوں کے ساتھ اور اپنے مونڈھوں کو اس کے مونڈھوں کے ساتھ ملادیتا تھا۔
آنحضرت ﷺ کے دونون ارشادات جوپیچھے گذرچکے ہیں ان میں الزاق کالفظ موجود نہیں ہے بلکہ محاذات کالفظ ہے اور صحابہ کرام کے اقوال میں الزاق کومحاذات کے معنی میں استعمال کیا گیا ہے اس صور ت میں الزاق کے حقیقی معنی یعنی اعضاء کواعضاء سے ملانامتروک ہوگا۔ اگر الزاق ہی مراد لیا جائے تو نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ والی روایت پر عمل کرنا ممکن نہیں کیونکہ اس روایت میں گھٹنوں کوگھٹنوں سے ملانے کاذکر ہے اور ٹخنوں کوٹخنوں سے ملانے کااور یہ محال ہے اگر گھٹنوں اور ٹخنوں کاملانا محال نہیں تو ذراآزما کر دکھاؤ۔
محاذات کوالزاق سے تعبیر کرنے کی وجہ:
حافط ابن حجر رحمہ اللہ تعالی فتح الباری میں قدمہ بقدمہ کے معنی لکھتے ہیں:
والمراد بذلک فی تعدیل الصف وسد خللہ
فتح الباری 2ص353
یعنی اس سے مراد صف کوبرابر کرنا اور شگاف کوبند کرنا۔ حقیقتاًقدم کو قدم سے ملانامراد نہیں۔
مشہور غیر مقلد عالم خالد گرجاکھی اپنی کتاب صلوۃالنبی ﷺ ص150 میں لکھتے ہیں:
بعض لوگ ٹخنے سے ٹخنہ ملانے میں تکلف کرتے ہیں حتیٰ کہ پاؤں کاحلیہ بگڑجاتا ہے اور پاؤں سیدھارہنے کے بجائے آگے سے تنگ اور پیچھے سے کھل جاتے ہیں (اس کا مشاہدہ اب بھی غیر مقلدین کی مساجد میں بخوبی کیاجاسکتا ہے، راقم الحروف( یہ بھی غلط ہے۔ حدیث کے الفاظ یہ ہیں الکعب بالکعب والمنکب بالمنکب تو اس کامطلب صرف یہ ہے کہ صف سیدھی کرنے کے لیے ٹخنوں او رکندوں کوبرابر کرو۔یہاں پر باتسویہ کے لیے ہے الصاق کے لیے نہیں ہے۔ورنہ لازم آئے گا کہ جس طرح ہم تکلف کے ساتھ ٹخنے ملاتے ہیں اسی طرح تکلف کے ساتھ کندھا بھی ملائیں حالانکہ کندھامل ہی نہیں سکتا۔ یہاں صرف یہ مراد ہے کہ صف سیدھی کروکندھے کے برابر کندھا اور ٹخنے کے برابر ٹخنہ ہواور فتاوی علماء اہل حدیث 3ص20،21میں بھی اسی طرح کی تفصیل موجود ہے۔
معروف غیر مقلد خواجہ محمد قاسم لکھتے ہیں:
کچھ لوگ ضرورت سے زیادہ ٹانگیں چوڑی کرلیتے ہیں جس کانتیجہ یہ ہوتا ہے کہ پاؤں تو مل جائے ہیں کندھے نہیں ملتے۔
قد قامت الصلاۃ ص137
اور ص136 پرلکھتے ہیں:
ٹخنہ ملانے والی روایات میں زکریابن ابی زائدہ ہے جومدلس ہے اور عن سے روایت کرتا ہے۔
خلاصہ:
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ تعالی اور اکابر غیر مقلدین کے اقوال کا خلاصہ یہ ہے کہ احادیث میں سنت کے مطابق صفیں سیدھی کرنے اورشگاف کوبند کرنے کاحکم دیا گیا ہے اورٹخنے سے ٹخنہ ملانے والی روایت ضعیف ہے اور اس پر عمل کرنا بھی ممکن نہیں اور ساتھ ساتھ یہ بھی ثابت ہوگیا کہ شاہ صاحب نے اس حدیث کے سمجھنے میں غلطی کی ہے۔
شاہ صاحب کے کلام میں تضاد اور صحیح حدیث کاانکار:
شاہ صاحب کایہ مختصر سارسالہ تضادات کا مجموعہ ہے اس میں جگہ جگہ تضادپایاجاتا ہے چنانچہ یہاں بھی تضاد ہے۔ شاہ صاحب اس اعتراض میں لکھتے ہیں کہ پشت سے دیکھنامعجزہ تھا جب کہ ہرنبی کا معجزہ اللہ تعالیٰ کے اختیار میں ہوتا ہے نبی کریم ﷺ کونماز میں جنت وجہنم دکھائی گئی مگر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کوصفوں میں کھڑے ہوکر نہ دیکھ سکے۔
معلوم ہوتا ہے کہ شاہ صاحب کے کلام میں تضاد ہے پہلے تو یہ لکھا پشت سے دیکھنا معجزہ تھا اس سے تھوڑاآگے لکھا کہ مگرصحابہ کرام رضی اللہ عنہم کوصفوں میں کھڑے ہوکر نہ دیکھ سکے۔ سوال یہ پیداہوتا ہے کہ اگر پشت سے دیکھنامعجزہ تھا توپھر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کوصفوں میں کھڑے ہوکر کیوں نہ دیکھ سکے۔ یہ جملہ جہاں ایک طرف تضاد ہے وہاں صحیح حدیث کاانکار بھی ہے۔
صحیح بخاری شریف میں ہے:
عن انس رضی اللہ عنہ ان النبی ﷺ قال اقیموا فانی اراکم خلف ظہری
روا ہ البخاری ص100
ترجمہ: حضرت انس رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ ٓانحضرت ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ نماز میں صفوں کوسیدھا کرو کیونکہ میں تمہیں اپنے پیچھے سے دیکھتاہوں۔
جب کہ شاہ صاحب لکھتے ہیں مگر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کوصفوں میں کھڑے ہوکر نہ دیکھ سکے۔ پس معلوم ہواکہ شاہ صاحب بخاری شریف کی اس حدیث کے مخالف او رمنکر ہیں۔
شاہ صاحب کے نزدیک معجزہ اورکرامت حجت نہیں :
شاہ صاحب اس اعتراض میں لکھتے ہیں کہ معجزہ وکرامت کومسائل کے دلائل کے طور پرپیش نہیں کیاجاسکتا۔ اس کی اصل حقیقت کیاہے آیا معجزہ وکرامت کودلیل کے طور پر پیش کیاجاسکتا ہے یا نہیں ؟
معجزہ وکرامت کے دلیل ہونے میں تضاد:
یہاں توشاہ صاحب نے یہ لکھا ہے کہ معجزہ وکرامت کودلیل کے طور پر پیش نہیں کیاجاسکتا جب کہ شاہ صاحب نے خود جواب عقیدہ نمبر71 کی بحث میں واقعہ معراج جو کہ آپ ﷺ کامعجزہ تھا اس کوبطور دلیل پیش کیا ہے اور اسی طرح اپنے اس رسالے میں جگہ جگہ کرامات علماء دیوبند کوبطور دلیل پیش کیا ہے۔
دروغ گو را حافظہ نہ باشد
الٹا چور کوتوال کوڈانٹے:
شاہ صاحب نے اس اعتراض کے آخر میں نوٹ لگا کرلکھاہے کہ اس حدیث کوعقائد میں لانے سے علماء دیوبندکے پس پردہ عقائد کی عکاسی ہوتی ہے۔
جب کہ حقیقت یہ ہے کہ اس اعتراض سے شاہ صاحب اور ان کی جماعت کے پس پردہ عقائدکی عکاسی ہوتی ہے وہ اس طرح کہ اس اعتراض میں شاہ صاحب نے نبی کریم ﷺ کے معجزات اور صحیح حدیث کا انکار کیا ہے۔
عقیدہ نمبر 22
اس زمانے میں چاروں اماموں میں سے کسی ایک کی تقلید واجب ہے۔ ہمارے مشائخ تمام اصول وفروع میں امام المسلمین حضرت امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ تعالی کے مقلد ہیں۔
خلاصہ عقائد علماء دیوبند ص233
اعتراض:
ہرزمانے میں صرف محمدﷺ کی اتباع واجب یعنی فرض ہے کسی بھی شخص کی تقلید کرنا قرآن وسنت سے کھلی بغاوت ہے۔ فرمان باری تعالیٰ ہے
اتبعواماانزل الیکم من ربکم ولاتتبعوا من دونہ اولیاء
سورۃ الاعراف آیت نمبر 30
ترجمہ: پیروی کرو اس چیز کی جوتمہارے رب کی جانب سے تمہاری طرف اتاردی گئی ہے اور مت پیروی کر وسوائے اس کے دوستوں کی۔
آپ ﷺ نے تقلید سے منع فرمایا:
فامازلۃ عالم فان اھتدی فلاتقلدوہ دینکم
معجم الاسط 9ص327
اگر عالم ہدایت پرہوتب بھی اس کے دین میں تقلید مت کرو۔
لایقلدن احدکم دینہ رجلافان اٰمن اٰمن وان کفر کفر
یعنی کسی شخص کی کبھی بھی تم میں سے تقلید نہ کرے پس اگروہ مؤمن ہوا تو یہ مؤمن اگر وہ کافر ہواتویہ کافر اس قسم کی روایت عمر فاروق، سلمان فارسی، معاذ بن جبل رضی اللہ عنہم سے منقول ہے۔
الاعتصام، اعلام الموقعین، ارشاد الفحول، کتاب العلم، الاحکام، دارمی وغیرہ
نوٹ: اسی کتاب المہندمیں ص213پرلکھا ہے ہم اصول واعتقادیات میں اشعریہ ماتریدیہ ہیں جب کہ ص225پر عبارت مذکور ہ ہے کہ جودیوبندیوں کے عقائد کے تعارض اور غلط بیانی کاٹھوس ثبوت ہے۔
موازنہ کیجئے صفحہ 17۔18
جواب:
شاہ صاحب نے اس اعتراض میں لکھا ہے کہ ہرزمانے میں اتباع صر ف محمد ﷺ کی واجب یعنی فرض ہے کسی بھی شخص کی تقلیدقرآن وسنت سے کھلی بغاوت ہے یہ شاہ صاحب کاصرف زبانی جمع خرچ ہے ورنہ تقلید یہ حضرات بھی کرتے ہیں۔ شاہ صاحب کایہ مختصر سارسالہ اس پر شاہد ہے ص4پر لکھاہے قال القاسمی، اسی طرح ص4،5پرلکھاہے کہ شیخ الاسلام فرماتے ہیں وہکذ اقال الشوکانی او ر کہیں لکھا ہے قال القرطبی یہ سب لکھنے کے بعد شاہ صاحب کایہ کہنا کہ اتباع صرف محمدﷺ کی فرض ہے۔ یہ کہاں کاانصاف ہے؟ نعوذ باللہ کیایہ حضرات بھی پیغمبر ہیں جوان کے اقوال کو بطور دلیل پیش کیا ہے؟ کیا ان حضرات کی اندھی تقلید قرآن وحدیث سے کھلی بغاوت نہیں ؟
کاش شاہ صاحب مقلدین کونشانہ بنانے سے پہلے اپنے گریبان میں جھانک لیتے کہ تقلید سے وہ خود کتنا بچے ہوئے ہیں اور ان کے اکابرین کی تقلیدکے بارے میں کیارائے ہے۔
اکابرین غیرمقلدین کے نز دیک تقلیدواجب ہے:
ابراہیم سیالکوٹی لکھتے ہیں:
کیا ہمارے حنفی بھائی اہم اہل حدیثوں کے بارے میں یہ خیال رکھتے ہیں کہ ہم اہل حدیث تر ک تقلید میں حضر ت شاہ صاحب (شاہ ولی اللہ )کی اس تحریر سے منحرف ہیں اور عوام کواجازت دیتے ہیں کہ وہ باوجود رسو ل اللہ ﷺ کی حدیث یاقول صحابی نہ ملنے کے اور خود بھی علمی قابلیت نہ رکھنے کہ اقوال ائمہ کو معاذاللہ حقارت سے ٹھکر ادیا کریں اور مادر پدر آزاد ہو کر جو چاہیں سو کیا کریں۔ اگر ان کایہ خیال ہے تو ہم صاف صاف کہتے ہیں کہ بردران احناف نے ہمارے مذہب کو سمجھنے میں غلطی کھائی ہے۔ ہمارے بے نزاع اور بے نظیر پیشوا شیخنا وشیخ الکل شمس العلماء حضرت سید محمد نذیر حسین محدث دہلوی رحمہ اللہ تعالی نے جن کے علم وعمل اور تقوی ودیانت میں کسی کوبھی کلام نہیں۔ اپنی مایہ ناز کتاب معیار الحق میں اس مسئلے کو نہایت تفصیل اور صفائی سے بیان فر مادیا ہے۔ جس کاخلاصہ یہ ہے۔ باقی رہی تقلید وقت لاعلمی سو یہ چا رقسم پر ہے قسم اول واجب ہے اور وہ مطلق تقلید ہے۔ کسی مجتہد کی مجتہد اہل السنت میں سے لاعلی التعین جس کومولاناشاہ ولی اللہ نے عقد الجید میں کہا ہے کہ یہ تقلید واجب ہے صحیح ہے باتفاق امت۔
القول السدید فی حکم الاجتہاد والتقلید ص12،13مع فرقہ ناجیہ ص40،41
ثناءا للہ امر تسری ایک سوال کے جواب میں لکھتے ہیں:
سوال: کیا فرماتے ہیں جماعت اہل حدیث کے علماء اس مسئلہ میں کہ جو مسلمان آیات ِقرآنی اور احادیثِ نبویہ پر ایمان رکھتے ہیں مگر چاروں اماموں میں سے کسی ایک امام کی تقلید ان کے ایمان میں کوئی فتور پید اکرتی ہے یا نہیں ؟
جواب: اس سوال کاجواب شمس العلماء مولانا سید نذیر حسین صاحب دہلوی المعروف میاں صاحب نے اپنی کتاب معیار الحق میں دیا ہوا ہے۔ مرحوم نے اس مسئلہ تقلید شخصی کو چند قسموں میں تقسیم کیا ہے ان میں سے ایک قسم مباح بتائی ہے یعنی اس پر کوئی گنا ہ نہیں ہوسکتا وہ یہ کہ مقلد کسی ایک امام کومحقق سمجھ کر اس کی بات مانتا رہے مگراس تعین کو شرعی حکم نہ سمجھے۔
فتاوی ثنائیہ 1ص252
غیر مقلدین کے شیخ الکل فی الکل میاں نذیر حسین لکھتے ہیں:
فاسئلوا اہل الذکر ان کنتم لاتعلمون الآیۃ یعنی پس سوال کر و اہل ذکر سے اگر نہ جانتے ہوتم اور یہی آیت دلیل ہے وجوب تقلید پر کمااشارالیہ المحقق ابن الھمام فی التحریر وغیرہ۔
معیار الحق ص74
اکابر غیر مقلدین کے نزدیک مقلد اول درجے کامتقی ہے:
اگرچہ شاہ صاحب نے تقلید کر نے والے کو قر آن وسنت سے کھلی بغاوت کرنے والا لکھاہے لیکن ان کے اکابر اس بارے میں کیا فرماتے ہیں ملاحظہ فرمائیں:
شیخ الا سلام رستمی جن کاذکر شاہ صاحب نے اسی رسالے کے آخر میں تصدیقات کرنے والے علماء میں کیاہے وہ لکھتے ہیں
کلہ چہ بود انسان توحید اوایمان پہ دلیل عقلی سرہ حاصل کری یا پہ تقلید سرہ نود ے متقی دے پہ اولہ مرتبہ کتن۔
بحوالہ تفسیر احسن الکلام 1ص52
یعنی جوشخص ایمان حاصل کرے دلیل عقلی یاتقلید کے ساتھ تو یہ اول مرتبہ کا متقی ہے۔ نہ کہ قرآن وسنت کاباغی
ان مذکور ہ بالاحوالہ جات سے یہ بات روز روشن کی طرح واضح ہوگئی کہ تقلید کرناقرآن وسنت سے بغاوت نہیں بلکہ تقلید کرنا واجب ہے اور تقلید قرآن وسنت سے ثابت ہے۔
اگرچہ اکابر غیر مقلدین کی ان عبارات کے بعد شاہ صاحب کے پیش کردہ دلائل کے جوابات کی ضرورت باقی نہیں رہی لیکن قارئین کے فائد ے کے لیے پیش کردہ ان دلائل کے جوابات ذکر کیے جارہے ہیں۔
شاہ صاحب کے پیش کردہ دلائل کے جوابات
پہلی دلیل کا جواب:
شاہ صاحب نے اپنے مدعا کوثابت کرنے کے لیے سب سے پہلے قرآ ن کریم کی آیت
اتبعوا ماانزل الیکم من ربکم ولاتتبعوا من دونہ اولیاء
سے استدلال کیا ہے۔
سب سے پہلی بات تو یہ ہے کہ اس آیت میں تقلید کالفظ موجود نہیں بلکہ اتباع کا لفظ ہے اور آپ کے نزدیک اتباع اور تقلید میں فرق ہے آپ حضرات اتباع کو جائز اور تقلید کوناجائز وحرام سمجھتے ہیں سو قرآن کریم میں جس چیز کی ممانعت صراحتاًہے (یعنی اتباع )وہ آپ کے نزدیک جائز ہے اور جس کی حرمت مصرح نہیں (یعنی تقلید )وہ حرام ہے۔
شا ہ صاحب ذرااس بات کی تو وضاحت کریں کہ قرآن کریم کی اس آیت میں جس کوصراحتاً حرام بتلایا گیا آپ اسے حلال سمجھتے ہیں یہ کس قسم کااجتہاد ہے؟
جس طرح اتباع اور تقلید آپ کے یہاں متضاد ہیں اسی طرح حلت اور حرمت بھی دو متضاد چیزیں ہیں۔ اگر آپ کی طرح دوسرا مجتہد مطلق حرمت علیکم المیتۃ سے مردہ کی حلت پر استدلال کرے تو آپ اس کو کیا جواب دیں گے جو جواب آپ اس مجتہد کودیں گے وہی ہماراجو اب ہوگا۔خلاصہ کلام یہ ہے کہ اس آیت سے ائمہ مجتہدین کی تقلید کی حرمت ثابت کرنا پرلے درجے کی حماقت ہے۔
دوسری دلیل کاجواب:
شاہ صاحب نے اپنے مدعا کوثابت کرنے کے لیے دوسری دلیل کے طور پر یہ حدیث
فاما زلۃ عالم فان اھتدی فلا تقلدوہ دینکم
پیش کی ہے۔ شاہ صاحب کی پیش کردہ یہ حدیث سخت ضعیف ہے۔ احمد بن علی بن المثنی القفیلی اس حدیث کے متعلق لکھتے ہیں
ھذا حدیث ضعیف جداً اخرجہ طبرانی فی الکبیر 9 ص 282 عن معاذبن جبل رضی اللہ عنہ قال الہیثمی فی المجمع 1 ص 186رواہ الطبرانی فی الثلاثۃ وفیہ الحکیم بن منصور وھو متروک۔ وقال محقق المعجم الکبیر ومع ھذا فھو منقطع
حاشیہ اقتضا ء الصراط المستقیم ص291
تیسری دلیل کاجواب:
شاہ صاحب کی تیسر ی دلیل حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کا قول ہ
ے لایقلدن احدکم دینہ ان اٰمن اٰمن وان کفر کفر
شاہ صاحب کی اس دلیل کے دو جواب ہیں
جواب نمبر 1:
یہ صحابی کاقول ہے اور اقوال صحابہ رضی اللہ عنہم آپ حضرات کے نزدیک حجت نہیں ہیں اس کی تفصیل پہلے گذرچکی ہے۔ عقیدہ نمبر18 میں ملاحظہ فرمائیں۔
شاہ صاحب نے خو د لکھا ہے کہ ہرزمانے میں صرف محمدرسول اللہ ﷺ کی اتباع واجب یعنی فرض ہے اور کسی بھی شخص کی تقلید کرناقرآن وسنت سے کھلی بغاوت ے۔توپھر شاہ صاحب آپ نے دوسطر لکھنے کی بعد قرآن وسنت سے کھلی بغاوت کیوں شروع کردی۔ شاہ صاحب !اتنی جلدی بھول جانے کی آخر کیا ضرورت تھی ؟
جواب نمبر 2:
عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے اپنے اس قول میں مطلقاًتقلید کی نفی نہیں کی بلکہ اس سے آگے اس کی صراحت مذکور ہے کہ برائی میں کسی کی تقلید جائز نہیں۔ شاہ صاحب نے کذب بیانی سے کام لیتے ہوئے حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے قول کو پورا ذکر نہیں کیاآپ رضی اللہ عنہ کا پورا قول یہ ہے الا لایقلدن احدکم دینہ ان اٰمن اٰمن وان کفر کفر فانہ لا اسوۃ فی الشر یعنی خبردار تم میں سے کوئی بھی اپنے دین میں کسی کی تقلید اس طرح نہ کرے کہ اگر وہ ایمان لائے تو یہ بھی ایمان لے آئے اور اگر وہ کافر ہوجائے تو یہ بھی کافر ہوجائے اور بلاشبہ برائی میں کوئی اقتداء اور پیروی نہیں۔
اس قول سے واضح ہوگیا کہ برائی میں تقلید جائز نہیں اور ہم بھی برائی میں تقلید کو نہیں مانتے کیونکہ آپ ﷺ کافرمان ہے
لا طاعۃ لمخلوق فی معصیۃ الخالق
یعنی معصیات میں مخلوق کی اطاعت جائز نہیں۔ لہٰذا اس قول کوائمہ مجتہدین کی تقلید کے رد میں پیش کرنا حماقت اور بے وقوفی ہے۔
علامہ ابن قیم رحمہ اللہ تعالی اور مسئلہ تقلید:
شاہ صاحب نے قرآن، حدیث اور قول عبد اللہ بن مسعو د رضی اللہ عنہ ذکر کرنے کے بعد چند کتب کاحوالہ دیا ہے جس میں سے ایک کتاب ’’اعلام الموقعین‘‘ جو کہ علامہ ابن قیم رحمہ اللہ تعالی کی کتاب ہے اس میں علامہ ابن قیم رحمہ اللہ تعالی نے ان آیات اور روایات سے تقلید مذموم کا رد کیاہے نہ کہ تقلید محمود کاکیونکہ تقلید محمود ان کے نزدیک بھی واجب ہے۔
چنانچہ علامہ ابن قیم رحمہ اللہ تعالی ایک سوال کے جواب میں لکھتے ہیں:
فالجواب انہ سبحانہ من اعرض عماانزلہ الی تقلید الاباء ھذا لقدر من التقلید ھو مما اتفق السلف الائمۃ الاربعۃ علی ذمہ وتحریمہ واماتقلید من بذل جہدہ فی اتباع ماانزل اللہ وخفی علیہ بعضہ فقلد فیہ من ھو اعلم منہ فہذا محمود غیر مذموم وماجور غیر مأزورکماسیأتی بیانہ عند ذکر التقلید الواجب والسائغ ان شااﷲ
اعلام الموقعین 2ص130
ترجمہ: اس میں کوئی دورائے نہیں کہ خداوند قدوس نے اس شخص کی مذمت کی ہے جس نے اپنے آباء واجداد کی تقلید کی اور اس کے نازل کردہ احکامات سے روگردانی کی ایسی تقلید کی حرمت ومذمت پر ائمہ اربعہ اور سلف صالحین رحمہم اللہ متفق ہیں۔ البتہ جس نے احکام خداوندی کی تحقیق وتلاش میں پوری کوشش صرف کردی (اور صحیح نتیجہ نہ پہنچ سکا ) اور اس نے اپنے سے اعلم وافضل کی تقلید کی تو یہ محمود ہے مذموم نہیں۔ اس پر اجر وثواب کا مستحق ہوگا نہ کہ گنا ہ کا اور اس کامکمل بیان انشااللہ تقلید واجب اور تقلید جائز کے بیان میں آئے گا۔
علامہ ابن قیم رحمہ اللہ تعالی کے اس قول سے چندامور ثابت ہوتے ہیں:
1) ائمہ اربعہ اور سلف صالحین نے جہاں بھی تقلید کارد کیاہے اس سے مراد تقلید مذموم ہے نہ کہ تقلید محمود۔
2) قرآن وحدیث میں تقلید مذموم کارد ہے نہ کہ تقلید محمود کا۔
3) صحیح نتیجے پر پہنچنے کے لیے تقلید ضروری ہے۔
4) تقلید محمود پر اجر ثواب ہے نہ کہ گنا ہ۔
5) علامہ ابن قیم رحمہ اللہ تعالی کے نزدیک تقلید محمود واجب ہے نہ کہ قرآن وحدیث سے بغاوت۔
مشہور ومعروف اہل حدیث عالم جناب محمد حسین بٹالوی لکھتے ہیں:
پچیس (25)برس کے تجربے سے ہم کویہ بات معلوم ہوئی ہے کہ جولوگ بے علمی کے ساتھ مجتہد مطلق اور مطلق تقلید کے تارک بن جاتے ہیں وہ بالآخر اسلام کو سلام کربیٹھتے ہیں۔ کفر وارتداد اور فسق کے اسباب دنیا میں اوربھی بکثرت موجود ہیں مگر دیندار کے بے دین ہوجانے کے لیے بے علمی کے ساتھ ترکِ تقلید بڑابھاری سبب ہے۔
اشاعۃ السنہ 11ص 2 مطبوعہ 1888ء
بٹالوی صاحب کے اس بیان سے معلوم ہواکہ ترک ِتقلید بہت بڑافتنہ ہے اور اس سے بچنا ضروری ہے۔
شاہ صاحب کی غلط بیانی اور تضاد:
شاہ صاحب نے اعتراض کے آخر میں نوٹ لگا کر لکھا ہے کہ یہ دیوبند یوں کے عقائد کے تعارض اور غلط بیانی کاٹھوس ثبوت ہے۔ مگر حقیقت یہی ہے کہ دیوبندیوں کے عقائد میں کوئی تعارض اور غلط بیانی نہیں بلکہ غیرمقلدین کے عقائد میں تعارض اور غلط بیانی ہے جس کاثبوت شاہ صاحب کایہ مختصر سارسالہ ہے جس میں ایک سطر میں کچھ اور دو تین سطر کے بعد اسی کی مخالفت میں کچھ اور ہے۔
عقیدہ نمبر23:
ہمارے نزدیک مستحب ہے کہ انسان جب عقائد کی درستگی اور شرع کے مسائل ضروریہ کی تحصیل سے فارغ ہوجائے تو ایسے شیخ سے بیعت ہوجوشریعت میں راسخ العقید ہ ہو۔ دنیا سے بے رغبت ہواور آخرت کاطالب ہو۔خود بھی کامل ہو او دوسروں کو بھی کامل بنا سکتا ہو۔
خلاصہ عقائد علمائے دیوبند
اعتراض:
شریعت مطہرہ میں پیرو شیخ کی بیعت کا کوئی تصور نہیں بلکہ اس قسم کی بیعت شرک وبدعت کی گہرائیوں میں مخلوق کولے جاتی ہے۔قوم نوح علیہ السلام پانچ بزرگوں کے تصور سے عبادت کرتے تھے جیساکہ بخاری میں واقعہ موجود ہے۔ اور دیوبندی بھی بیعت کے بعد تصور ِشیخ سے عبادت کرتے ہیں جیساکہ امدادالسلوک ص68مؤلف رشید احمد گنگوہی میں لکھا ہے کہ ہر وقت شیخ کو یاد رکھے گا توربط قلب پیدا ہوگا اور ہروقت استفادہ ہوتا رہے گا اور مرید کوجب کسی واقعہ کے کھولنے میں شیخ کی حاجت پیش آئے گی تو شیخ کو اپنے قلب میں حاضرمان کر بزبان حال سوال کرے گا اورشیخ کی روح باذن الہٰی اس کو القاکرے گا۔
آٹھ سا ل اسی شیخ کامل سے فقہ حنفی پڑھتے رہے کامل نہیں ہوئے اب اسی حنفی شیخ سے چند مجلسوں میں بدعی بیعت پر کیسے کامل ہوگا ؟جب کہ صدقِ دل سے قرآن وحدیث ماننے پر آج بھی انسان کامل مؤمن بن سکتاہے۔جیساکہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم بنے تھے۔
موازنہ کیجئے صفحہ 18
جوا ب:
بیعت قرآن وحدیث سے ثابت ہے اس کوشرک وبدعت کہنے والااور صوفیائے کرام کی مطلقاًبرائی کرنے والاشخص حد اعتدال سے باہر گمراہ اور بے دین ملحد ہے۔
علامہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ تعالی لکھتے ہیں:
طائفۃ ذمت الصوفیۃ والتصوف مطلقاً وقالوا انہم مبتدعون خارجون من السنۃ وطائفۃ غلت فیہم وادعوا انھم افضل الخلق واکملہم بعد الانبیاء وکلا طرفی ھذہ الامور ذمیم والصواب انہم مجتہدون فی طاعۃ اللہ کما اجتہد غیرہم من اہل طاعۃ اللہ ففیھم السابق المقرب حسب اجتہادہ وفیھم المقتصد الذی ھو من اہل الیمین۔ ومن المتبعین الیھم من ھو ظالما لنفسہ عاص لربہ۔
فتاوی ابن تیمیہ 11ص18
ترجمہ:
یعنی ایک جماعت نے مطلق صوفیہ اورتصوف کی برائی کی ہے اور ان کے بارے میں یہ کہا ہے کہ یہ بدعتیوں کاطبقہ ہے جو اہل السنت والجماعت سے خارج ہے۔ اور ایک جماعت نے صوفیا کے بارے میں غلو سے کام لیا ہے اور انبیاء علیہم السلام کے بعد ان کوسب سے افضل قرار دیا ہے اور یہ دونوں باتیں مذموم ہیں۔
درست بات یہ ہے کہ صوفیاء اللہ کی اطاعت کے مسئلے میں مجتہد ہیں جیسے دوسرے اہل طاعات اجتہاد کرنے والے ہوتے ہیں اس لیے صوفیاء میں مقربین اور سابقین کا درجہ حاصل کرنے والے بھی ہیں اور ان میں مقتصدین کابھی طبقہ ہے جو اہل یمن میں سے ہیں اور اس طبقہ صوفیہ میں سے بعض ظالم اور اپنے رب کے نافرمان بھی ہوتے ہیں۔
ابن تیمیہ رحمہ اللہ تعالی کے اس قول سے ثابت ہوتا ہے کہ صوفیاء کرام میں سے بعض وہ ہیں جن کوقرآن کی زبان میں مقربین اوراہل یمین کہا گیاہے اور جن کامقام اللہ کے یہاں انتہائی درجہ قر بت کا ہے جن پر انعام الٰہی کی بارش ہوتی ہے جیساکہ قرآن سے معلوم ہوتا ہے۔
ابن تیمیہ رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ جو اس طبقہ کی برائی کرے وہ مذموم انسان ہے لیکن شاہ صاحب مطلق تصوف اور بیعت کو حرام،بدعت اور شرک قرار دے رہے ہیں اور شاہ صاحب کے نزدیک سارے صوفیاء اور بیعت کرنے والے گمراہ ہیں۔
اب شاہ صاحب سے کوئی یہ پوچھے کہ شریعت کا علم تم کوزیادہ ہے یا قدوۃ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ تعالی کوزیادہ تھا؟ کتاب و سنت کے تم زیادہ ماہر ہویاحجۃ الاسلام حرام وحلال، شرک وبدعت کے بارے میں تمہیں زیادہ علم ہے یا عارف ِربانی ابن تیمیہ رحمہ اللہ تعالی کو تھا؟
ہرمسئلہ میں علامہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ تعالی کومعیار حق سمجھنے اور ان کی اندھی تقلید کرنے والے کواس مسئلہ میں ابن تیمیہ رحمہ اللہ تعالی کامسلک معلوم نہیں؟ فیا للعجب
بیعت کے مسئلہ میں شاہ صاحب کی لاعلمی:
اگر شاہ صاحب نے علامہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ تعالی اور اپنے اکابرین کی کتابیں پڑھی ہوتیں تو شاہ صاحب کبھی بھی بیعت کی مخالفت نہیں کرتے۔ اب شاہ صاحب کے اکابرین کی رائے ملاحظہ فرمائیں
مولانا عبد الغفار سلفی نائب مفتی محمدی مسجد برنس روڈ کراچی والے لکھتے ہیں:
بعض لوگوں نے اس مسئلہ بیعت میں دو (2)غلطیاں کی ہیں۔ اول یہ کہ بیعت مخصوص بالجہادسمجھی ہے حالانکہ بیعت کی کئی انواع ہیں۔ چنانچہ امام نسائی رحمہ اللہ تعالی نے اپنی سنن نسائی میں تفصیل اور اس کے کئی ایک باب منعقد کر کے حدیثیں لائے ہیں
1باب البیعۃ علی السمع والطاعۃ 2باب البیعۃ علی ان لاتنازع الامر اہلہ 3باب البیعۃ علی القول بالحق 4باب البیعۃ علی القول بالعدل 5 باب البیعۃ علی الاثرۃ 6باب البیعۃ علی ان لا نفر 7باب البیعۃ علی النصح لکل مسلم 8)باب البیعۃ علی الموت 9)باب البیعۃ علی الجہاد 10)باب البیعۃ علی الہجرۃ 11)باب البیعۃفیما احب وکرہ 12)باب البیعۃ علی فراق المشرک وغیر ذلک۔
علاوہ اس کے دیگر کتب حدیث میں بھی یہ مسئلہ بالتصریح بیان ہے چنانچہ اصح الکتب بعد کتاب اﷲ صحیح البخاری میں ہے
عن عبادۃ ابن الصامت رضی اللہ عنہ قال بایعنا رسول اﷲ ﷺ علی السمع والطاعۃ فی المنشط والمکرہ وان لاننازع الامر اہلہ وان تقوم او نقول بالحق حیث ماکنا لانخاف فی اللہ لومۃ لائم وفی روایۃ اخری تبایعونی علی ان لاتشرکوا با اللہ شیئاولاتسرفوا ولاتزلوا ولاتقتلوا اولادکم ولاتأتوا ببہتان تفترونہ بین ایدیکم وارجلکم ولاتعصونی فی معروف…الخ۔ ایضا قال جریر ابن عبد اﷲ بایعت النبیﷺ علی اقام الصلوۃ وایتاء الزکوۃ والنصح لکل مسلم۔
ترجمہ: عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم صحابہ رضی اللہ عنہم نے رسو ل اللہ ﷺ سے ان کاموں کی بجاآوری پر بیعت کی۔ خوشی ناخوشی میں آپ کی باتیں سنیں گے اور اطاعت کریں گے اور جو شخص جس منصب اور عہدہ کے لائق ہوگا وہ اس سے نہیں چھینیں گے اور ہرجگہ حق بات کریں گے اور اللہ کے دین میں کسی کی ملامت سے نہیں ڈریں گے۔ ایک اور روایت میں انہی عبادہ سے یوں مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ہم صحابہ سے کہاتم ان باتوں کی پابندی کرنے پر مجھ سے بیعت کرو شرک نہ کرنا ہو گا اور نہ چوری کرنی ہوگی اور نہ کسی پر بہتان باندھنا ہوگا اور نہ اولاد کوقتل کرنا ہوگا اور قرآن وحدیث میں میر ی اطاعت کرنی ہوگی وغیر ذلک نیز جریر بن عبد اللہ فرماتے ہیں کہ میں نے اقامۃالصلوۃ وایتاء الزکوۃ اور ہر ایک مسلم کی خیر خواہی کرنے پر رسول اللہ ﷺ سے بیعت کی ہے۔
حاصلہ:
علاوہ جہاد کے بھی آپ ﷺ نے ایسے ایسے امور شرعیہ پربیعت لی اور صحابہ رضی اللہ عنہ نے بیعت کی۔ اگرآپ بالفرض بیعت جہاد وقت فوقت سمجھیں تو اس سے قاصر ہے لیکن باقی امور کی بیعت سے کونسا امر مانع ہے کہ جاہلیت کی موت سے بچیں۔
الیس منکم رجل رشید
ثانی:
جہاد کا معنی غلط لیا ہے کہ جہاد کومقید بالسیف سمجھتے ہیں۔ حالانکہ رسو ل اللہ ﷺفرماتے ہیں
افضل الجہاد کلمۃ حق عند سلطان جائر
یعنی ظالم بادشاہ کے نزدیک حق با ت کہنا یہ افضل جہاد ہے۔
فتاوی ستاریہ جلد1صفحہ 37، 38
ایک اور مقام پرلکھتے ہیں:
سوال نمبر3) اہل حدیث مسلک میں بیعت وغیر ہ کرنا کیساہے؟ امید ہے جلد جواب دیں گے۔
جواب نمبر3) قرآن وحدیث کے عمل پر نماز روزہ کی پابندی پراور دیگرمسائل پرمامورکابیعت کرنااور امیر کابیعت لینا ازروئے حدیث شریف جائزہے۔ فقط عبد الغفار سلفی نائب مفتی محمدی مسجدبرنس روڈ کراچی نمبر1
فتاوی ستاریہ جلد 4 صفحہ 21
اگرچہ شاہ صاحب کے نزیک بیعت کر کے مرشد بنانا شرک وبدعت ہے لیکن ان کے اکابرین کے نزدیک مستحب ہے اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کادستور۔ ملاحظہ فرمائیں
غیرمقلدین کے مناظر اعظم مولوی ثناء اللہ امر تسری صاحب ایک سوال کے جواب میں لکھتے ہیں
سوال: مرشد بنانافرض ہے یانہیں اگر فرض ہے تو اس کے لیے شرعی حکم کیا ہے ؟
جواب: کسی نیک بخت صالح متبع سنت کو اپنا مرشد بناناجس کی صحبت میں رہ کر خداکی محبت دل میں پیدا ہوجائز بلکہ مستحب ہے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں یہ دستور تھا اپنے میں سے صالح ترکی صحبت میں بیٹھتے تھے۔
فتاوی ثنائیہ 1ص454
ایک اور سوال کے جواب میں لکھتے ہیں:
جواب: قرآن مجید میں ارشاد ہے سب نبیوں نے اپنی اپنی امت کو مااسئلکم علیہ من اجر یعنی ہم تم سے مزدوری نہیں مانگتے کہا زمانہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہ سے لے کر زمانہ شیخ عبد القادر جیلانی قدس سرہ تک پیر مریدں سے وصول نہیں کرتے تھے۔
فتاوی ثنائیہ 1ص354
شریعت وطریقت دراصل ایک ہیں :
شریعت وطریقت میں کوئی فرق نہیں بعض لوگ ان دونوں کوعلیحدہ سمجھ کرطریقت (یعنی بیعت )کا انکار کرتے ہیں اس بارے میں غیر مقلدین کے پیشوا کی رائے ملاحظہ فرمائیں:
مولوی ثناء اللہ امرتسری ایک سوال کے جواب میں لکھتے ہیں:
سوال: شریعت، طریقت، معرفت کی جامع مانع تعریف اور ان کی تفریق مجمل طور پرکریں۔ ؟ محمد قاسم السینمو
جواب: شریعت ان احکام کا نام ہے جو قرآن وحدیث میں مذکور ہیں۔ ان احکام کوبحضور قلب دل لگا کر اداکرنا طریقت اور حقیقت ہے۔ حقیقت شریعت کے مخالف نہیں ہوسکتی۔ بلکہ حقیقت شریعت کے لیے طریق کارکانام ہے اس لیے مجدد صاحب سر ہندی رحمہ اللہ تعالی قدس سرہ فرماتے ہیں کل حقیقۃ ردتہ الشریعۃ فھی زندقہ (مکتوبات )یعنی حقیقت جس مسئلہ کورد کرے وہ واقعی الحاد اور بے دینی ہے یہ تینوں در اصل طریقت، حقیقت اور معرفت در اصل احکام کے طریق کار کانام ہیں اور یہ تینوں دراصل ایک ہیں۔
فتاوی ثنائیہ 1ص3842ص70
شریعت وطریقت ہردومن جانب اللہ ہیں :
شاہ صاحب نے اس اعتراض میں طریقت کوقرآن وحدیث کے خلاف بتلایا ہے حالانکہ دونوں ایک ہیں جیسا کہ مولوی ثناء اللہ امرتسری کی رائے سے معلوم ہوگیا۔ ان دونوں یعنی شریعت وطریقت کے من جانب اللہ ہونے میں کوئی شک نہیں اس بارے میں غیر مقلدین کے کابر کی رائے ملاحظہ فرمائیں۔
مشہور ومعروف غیرمقلد عالم محمد ابراہیم سیالکوٹی لکھتے ہیں:
یہ ذرہ بے مقدار (بدنام کنندہ نکونالے چند )قبح سنت ہوکر بھی اہل طریقت سے عقیدت ومحبت رکھتا ہے ان دونوں فریقوں کی نزاع کو یوں مٹانا چاہتا ہے کہ اس میں تو کوئی شک نہیں کہ ہمارے پا س آنحضرت محمد ﷺ کی تبلیغ صرف قرآن وحدیث کی صورت میں ہے اور ان ہر دوسے باہرہم کسی چیزکو آنحضرت ﷺکی طرف منسوب نہیں کرسکتے۔
اور اسی طرح ہم شریعت و طریقت کی مخالفت کو بھی تسلیم نہیں کرسکتے کیونکہ جب دو من جانب اﷲ ہیں اور دو خدا کے پاس پہنچنے کی سبیلیں ہیں تو ان کی مخالفت کیوں ہو گی اگر کسی کو نظر آتی ہے تو ہر دو (اہل شریعت و اہل طریقت) میں کسی کی طرف غلط فہمی ہے۔ اگر ہر دو مقام کے محنت پر کھڑے ہوں تو دونوں میں مخالفت نہیں ہوسکتی۔ لیکن یہ کہنا یہ سمجھنا کہ ایک سینے سے دوسرے سینے میں بغیر حروف کی تعلیم کے کچھ نہیں آسکتا یہ خشکی اور بے ذوقی ہے۔ ع
قدر ایں بارہ ندانی بخدا تا نچستی
اہلِ ظاہر کی خدمت میں التماس ہے کہ بے شک آپ کو یہ الفاظ سخت معلوم ہوں گے اور آپ ان کو اپنی شانِ علم کے خلاف سمجھیں گے لیکن بے ادبی معاف، حقیقت یہی ہے۔
سراجاً منیرا صفحہ 34
قلبی علم مرشد سے قلبی مناسبت سے ملتاہے:
اگرچہ شاہ صاحب تصوف کے مخالف ہیں لیکن ان کے اکابر کا کہنا ہے کہ قلبی علم کے لیے مرشد کا ہونا ضروری ہے چنانچہ ان کے اکابر کی رائے ملاحظہ فرمائیں:
مشہور اہلِ حدیث عالم ابراہیم سیالکوٹی صاحب لکھتے ہیں
ابھی اس امر کو اسی علم (معقول و منقول) سے سمجھیے جس سے آپ مانوس ہیں کہ علم دو طرح کا ہوتاہے ایک علم حرف سے دوسرا علم قلب سے۔ کتابی علم حرفوں کے ذریعے اہلِ علم استاذ سے حاصل ہوتاہے اور قلبی علم اہلِ مرشد سے قلبی مناسبت پیدا کرنے اور زہدو عبادت اورمجاہدہ اور ریاضت سے ملتاہے۔ اور ان میں آدابِ شرعیہ کی رعایت اور اتباعِ سنت اس حد سے بڑھ کر کرنی پڑتی ہے اس حد تک کہ آپ نماز وغیرہ عبادت کی صحت کے لیے کافی جانتے ہیں۔ تو یہ خلاصہ مطلب ہے۔ اب معقولاً و منقولاً اس کی تشریح مطالعہ فرمائیں۔
جس طرح اس مادی عالم میں ایک شئے موثر بھی ہے کہ دیگر شئے پر اثر ڈالتی ہے اور کسی دوسری چیز کا اثر قبول بھی کرتی ہے۔اسی طرح ایک قلب و روح انسانی دوسرے دل پر اثر ڈالتی ہے اور دوسرے قلب سے اثر کو قبول کرتابھی ہے۔ اصل چیز تاثیر اور تاثر کے لیے یہی دل ہے باقی سب اعضا اس کے تابع ہیں کہ بلا تردد و تامل اور بلا وقفہ و مہلت اور بلا انکار و کراہت اس کی اطاعت کرتے ہیں۔ اس خاک دان دنیا میں ایسی اطاعت کسی اور جگہ نہیں ملے گی بس یہی سمجھ لیجئے کہ خالقِ حکیم نے لشکر اعضاء کی فطرت میں اپنے سلطان یعنی قلب کی نافرمانی رکھی ہی نہیں۔ اسی لیے کہتے ہیں القلب سلطان البدن۔ یعنی دل بدن کے باقی اعضا ء کابادشاہ ہے پس اعضاء پرجو بھی اثر ہوتا ہے وہ سب اسی کی وساطت سے ہوتا ہے اور اگر وہ بھی کسی دوسرے پر اثرڈالتے ہیں تو اسی کے فیض سے ڈالتے ہیں۔
سراجاً منیراً صفحہ 35، 36
اب شاہ صاحب کے مداحوں سے گذارش ہے کہ وہ فیصلہ کریں کہ سیالکوٹی صاحب کی کون سی بات درست ہے اور کون سی غلط؟ اور اس رسالے میں کون سی بات ایسی ہے جو علماء اہلحدیث کے موافق ہے۔
اکابر غیر مقلدین کی ان عبارات سے یہ بات روز روشن کی طرح واضح ہوگئی کہ تصوف، بیعت اور پیری مریدی قرآن وحدیث سے ثابت ہے اورصحابہ میں بھی اس کادستو ر تھا۔ یہ شرک وبدعت نہیں ہے اور یہ بات بھی ثابت ہوگئی کہ شریعت وطریقت دونوں ایک ہیں ان میں کوئی فرق نہیں۔ اور یہ بھی ثابت ہوگیا کہ مرید مرشد سے قلبی مناسبت کے ذریعے علم قلبی حاصل کرسکتا ہے۔
تصور شیخ اور علماء دیوبند:
شاہ صاحب نے اس اعتراض میں علماء دیوبند پر الزام لگایا ہے کہ یہ حضرات شیخ کے تصور سے عبادت کرتے ہیں یہ شاہ صاحب کاسفید جھوٹ اور محض الزام ہے کیونکہ علماء دیوبند اور خاص کر مولانا رشید احمد گنگوہی رحمہ اللہ تعالی (جن کاحوالہ شاہ صاحب نے دیا ہے )تصور شیخ سے منع کرتے ہیں۔ چنانچہ ملاحظہ فرمائیں
حضرت مولانارشید احمد گنگوہی رحمہ اللہ تعالی ایک سوال کے جواب میں لکھتے ہیں
سوال: تصور ِ شیخ کو جو صوفیاء چشت کامعمول ہے اور اقوال شاہ ولی اللہ صاحبؒ اور حضرت مجدد صاحبؒ اس کے مؤید ہیں اور مولانا اسماعیل صاحب رحمہ اللہ تعالی دہلوی اس کو حرام اور کفر وشرک بتاتے ہیں آپ کے نزدیک تصورِ شیخ جا ئز ہے یا حرام اور کفر اور شرک ؟۔
جواب: نفس تصور جائز ہے اگر کوئی امرممنوع اس کے ساتھ نہ ہو جیسا کہ تمام اشیاء کاآدمی خیال وتصور کرتا ہے جب اس کے ساتھ تعظیم اس شکل کی کرنا اور متصرف باطن مرید میں جاننا مفہوم ہواتو موجب شر ک ہوگیا لہٰذا قدماء اس کی تجویز کرتے تھے کہ اس میں خلط معصیت کا نہ تھا اور متأخرین نے اس کو حرام کہا تو یہ حکم کا اختلاف بسبب اختلاف اہل زمانہ کے ہوا۔
سوال: تصور کرنا پیر یا استا د یا والدین وغیرہ کا جائز ہے یا ناجائز؟۔
جواب: کسی کا تصور کرنا بطور خیال کچھ حرج نہیں مگر رابطہ جو مشائخ میں مروج ہے کہ اس کومشائخ نے کسی علاج کے واسطے تجویزکیا تھا۔ اگر اسی حد پر رہے کہ جس حد پربزرگوں نے تجویز کیاتھا تو چنداں دشواری نہیں گوترک اس کااولیٰ ہے کہ مختلف فیہ بین العلماء ہے اور ایسا بھی نہیں کہ بدوں اس کے کام نہ چل سکے اور جو اس حد سے بڑھ جاوے تو البتہ ناجائزہے۔ واللہ تعالیٰ اعلم
فتاویٰ رشیدیہ ص142،143 کتاب الاخلاق وتصوف
ایک اور سوال کے جواب میں لکھتے ہیں:
اس شغل میں متأخرین صوفیا نے غلو کیا ہے اور شرک تک نوبت پہنچی ہے لہٰذا متأخرین علماء نے اس کومنع فرمادیا اور اب علماء متأخرین کے قول پر عمل کرنا چاہیے اس شغل کی کچھ ضرورت نہیں اور نہ صحابہ میں اس شغل کا کچھ اثر تھا۔
فتاو یٰ رشیدیہ ص142
ان تصریحات کے باوجود علماء دیوبند کی طرف یہ نسبت کرنا کہ وہ تصورِشیخ سے عبادت کرتے ہیں یہ شاہ صاحب کی علماء دیوبند کے ساتھ ضد و عناد اور تعصب کی ادنیٰ مثال ہے۔
شاہ صاحب نے اس اعتراض کے اخیر میں لکھا ہے:
آٹھ سال شیخ سے فقہ حنفی پڑھتے رہے کامل نہ ہوئے اب اسی حنفی شیخ سے چند بدعی بیعت پرکیسے کامل ہوگا۔ صدق دل سے قرآن وحدیث ماننے پر آج بھی کامل مومن بن سکتا ہے جیساکہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین۔
موازنہ کیجیے، صفحہ 18
شاہ صاحب کی خدمت میں عرض ہے کہ بیشک قرآن وحدیث ماننے سے آدمی مومن بن سکتا ہے لیکن بیعت بھی قرآن وحدیث سے ثابت ہے جس کی تفصیل ماقبل میں گذر چکی ہے جس میں شاہ صاحب کے اکابرین کے حوالہ سے ثابت کیا گیا ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے لے کر اب تک پیر ی مریدی اور بیعت کاسلسلہ چلا آرہاہے باقی رہاشاہ صاحب کایہ کہنا کہ آٹھ سال اس شیخ سے فقہ حنفی پڑھتے ہوئے کامل نہ ہوئے اب اسی شیخ سے چند مجلسوں میں بدعی بیعت پر کیسے کامل ہوگا۔
اس اعتراض کاجواب اکابرین غیر مقلدین کی کتابوں سے ملاحظہ فرمائیں
ابرہیم سیا لکوٹی صاحب لکھتے ہیں
اب اس امرکو اسی علم (معقول ومنقول) سے سمجھیں جس سے آپ مانوس ہیں کہ علم دو طرح کاہوتا ہے (1)حرف سے (2)قلب سے۔ کتابی علم حرفوں کے ذریعے اہل علم استاد سے حاصل ہوتا ہے اورقلبی علم اہل مرشد سے قلبی مناسبت پیدا کرنے اور زہد وعبادت اور مجاہدوں وریاضت سے ملتا ہے اور ان میں آداب شرعیہ کی رعایت اور اتباعِ سنت اس حد سے بڑھ کر کرنی پڑتی ہے جس حدتک آپ نماز وغیرہ عبادت کی صحت کے لیے کافی جانتے ہیں۔
سراجاًمنیراً صفحہ 35
میاں نذیر حسین کااپنے شاگر عبداللہ غزنوی سے نماز سیکھنا:
ارشادالحق اثر ی صاحب لکھتے ہیں کہ حضرت میاں صاحب (یعنی غیر مقلدین کے شیخ الکل فی الکل میاں نذیر حسین دہلوی جو کہ غیر مقلدین کے مقتداء و پیشوا ء اور شیخ الحدیث ہیں ) فرمایا کرتے تھے کہ مولوی عبداللہ (غزنوی )ہم سے حدیث پڑھ گیااور نماز پڑھنی ہمیں سکھاگیا۔ حضرت میاں صاحب کایہ فرمان غور طلب ہے۔ نماز پڑھنے کاسلیقہ وطریقہ محض کتابیں پڑھنے سے نہیں حاصل ہوتا اس کے لیے بھی مربی اور راہنما کی ضرورت ہے۔ رہبر کی رہنمائی میں جہاں اور مشکل منزلیں آسان ہوجاتی ہیں وہاں نماز پڑھنے کاسلیقہ بھی حاصل ہوتا ہے اس لیے نماز کوخشو ع وخضوع کے ساتھ پڑھنے کے لیے اہل خشوع کی صحبت اختیار کرناضروری ہے اور اہل اﷲ کی یہی صحبت بہتر از صد سال طاعت بے ریا کامصداق ہے۔
امام احمد بن حرب شیخ نیساپوری المتوفی 234ھء فرماتے ہیں:
عبدت ﷲخمسین سنۃ وجدت حلاوۃ العبادۃ حتی ترکت ثلاثۃ اشیاء ترکت رضی الناس حتی قدرت ان اتکلم بالحق وترکت صحبۃ الفاسقین حتی وجدت صحبۃ الصالحین وترکت حلاوۃ الدنیا حتی وجدت حلاوۃ الاخرۃ
السیر جلد11 ص34
ترجمہ: میں نے اللہ تعالیٰ کی پچاس سال عبادت کی میں نے اس وقت تک عبادت میں حلاوۃ نہیں پائی جب تک تین چیزوں کوچھوڑ نہیں دیا۔ لوگوں کی رضا کی پرواہ نہ کی پھر حق بات کہنے پرقادر ہوا۔ فاسقین کی صحبت چھوڑ کر صحبت صالحین حاصل ہوئی۔ دنیا کی حلاوت چھوڑ کر آخرت کی حلاوت ملی۔
فلاح کی راہیں ص 48، 49
بیعت اور اکابر غیر مقلدین:
غیر مقلدین کے شیخ الکل فی الکل میا ں نذیر حسین کے شاگردخا ص مولوی فضل حسین بہاری ان کے تذکرہ میں لکھتے ہیں کہ آپ کے یہاں بیعت کی تمام قسمیں رائج تھیں۔ سوائے بیعت الخلافۃ، بیعت الجہاد، بیعت ثبات فی القتال اور بیعت ہجرت کے نیز مریدین کو ان کے حسب حال بیعت فرماتے تھے۔
الحیات بعد الممات ص 145
ایک اور جگہ لکھتے ہیں:
بنگال کے سفر میں آپ کی خدمت میں لاتعدادلوگ حاضر ہوئے اور سب آپ کے ہاتھ پر بیعت سے مشرف ہوئے۔
الحیات بعد الممات ص146
نواب صدیق حسن کے والد صوفیاء کے طریقہ پر لوگوں سے بیعت لیا کرتے تھے جن کے بارے میں نواب صاحب لکھتے ہیں
انہوں نے مولانا سید احمد شہید بریلوی رحمہ اللہ تعالی سے بیعت کی تھی۔ آگے چل کر لکھتے ہیں
آپ لوگوں کو اللہ کے دین کی ہدایت اوررہنمائی کیا کرتے تھے۔ آپ کے ہاتھ شریف پر بیعت ہونے والوں اور آپ کی رہنمائی سے ہدایت پانے والوں کی تعداد تقریباًدس ہزار ہے آپ اللہ کی نشانیوں میں سے ایک واضح نشانی تھے۔
التاج المکلل ص292
غیر مقلدین کےبیعت الجہاد، بیعت ثبات فی القتال نہ کرنے کی وجہ:
میاں نذیر حسین کے شاگر د خاص مولوی فضل حسین بہاری نے لکھا ہے کہ میاں صاحب بیعت الخلافۃ، بیعت الجہاد، بیعت ثبات فی القتال اور بیعت ِہجرت نہیں کیا کرتے تھے۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ1857ء میں جب علماء دین نے ا نگریزوں سے جہاد کے واجب ہونے کا فتویٰ دیا تواس وقت آپ ان لوگوں میں سے تھے جنہوں نے اس فتویٰ پر دستخط نہیں کیے تھے۔ مزید تفصیل کے لیے الحیات بعد الممات ص 76 کامطالعہ کریں۔ اس عبارت سے واضح ہوتا ہے کہ میاں صاحب انگریزوں کے وفادار تھے اور انگریزوں کے خلاف جہاد کوحرام سمجھتے تھے۔
مولانا اسماعیل سلفی صاحب لکھتے ہیں:
ان سب مرحلوں میں اہل حدیث نے اپنی روش نہیں بدلی بلکہ فروعِ عقائداور تصوف میں صحابہ کااتباع کرتے رہے۔
انطلاق الفکری ص97
ان حوالہ جات سے معلوم ہوگیا کہ قلبی علم کے لیے مرشد سے قلبی تعلق ضروری ہے۔
عقیدہ نمبر 24:
مشائخ کی روحانیت سے استفادہ اور ان کے سینوں اور قبروں سے باطنی فیوض کاپہنچناصحیح ہے مگراس طریقے سے جو اس کے اہل اور خواص کو معلوم ہے۔ نہ اس طر ز پر جو عوام میں رائج ہے۔
خلاصہ عقائد علماء دیوبند ص234
اعتراض:
قبر کے سوال وجواب کے علاوہ روحوں کادنیا میں آنا ثابت نہیں اگر صالح روح ہے تو علیین میں اگر غیر صالح تو سجین میں ہے۔
ومن ورائہم برزخ الی یوم یبعثون
(سورہ مومنون نمبر 100)
ترجمہ: یعنی ان زندوں ومردوں کے درمیان تا قیامت آڑ قائم رہے گا۔
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کایہ عقیدہ تھا کہ ایمان والوں کی روحیں اللہ کے پاس جاتی ہیں۔ یعنی دنیا میں نہیں رہتی ہیں۔ روحوں اور قبروں سے فیض لینے کا عقید ہ قرآن وسنت ومنہج سلف صالحین کے خلاف ہے۔ مزید معلومات کے لیے کتاب الروح لابن قیم، احوال القبورلابن حاجب۔ فتاویٰ شیخ الاسلام14ص104 ملاحظہ ہو۔
نوٹ: قبروں سے فیوض کاباطنی عقیدہ بدعت پر مبنی اور شرک کاچوردروازہ ہے۔ جبکہ شرک عوام وخواص کے لیے حرام ہے۔
(موازنہ کیجئے صفحہ 18۔19
جواب:
شاہ صاحب کایہ کہنا کہ قبر کے سوال وجواب کے علاوہ روحوں کا دنیا میں آناثابت نہیں، ہمارے اوپر فضول اعتراض ہے، کیونکہ ہمارا بھی یہی عقیدہ ہے کہ روحوں کادنیا میں آنا ثابت نہیں۔
شاہ صاحب کو دنیا اور برزخ کا فرق معلوم نہیں :
شاہ صاحب کواتنابھی معلوم نہیں کہ دنیا اور عالم برزخ میں کیا فرق ہے۔ اسی وجہ سے شاہ صاحب نے اس اعتراض میں لکھا ہے کہ قبر کے سوال وجواب کے علاوہ روحوں کادنیامیں آنا ثابت نہیں۔
شاہ صاحب سے دردر مندانہ اپیل:
شاہ صاحب جب آپ کو یہ بھی معلوم نہیں کہ قبر کے سوال وجواب کاتعلق دنیا سے ہے یا عالم برزخ سے توہماری آپ سے دردمندانہ اپیل ہے کہ پہلے دنیا اور برزخ کے درمیان فرق معلوم کریں پھر عقائد کے بارے میں بحث کریں۔
علماء دیوبندکے نزدیک روحوں کادنیا میں آنا ثابت نہیں :
اگر چہ شاہ صاحب اس اعتراض میں عوام الناس کو یہ تأثر دینے کی کوشش کی ہے کہ علماء دیوبند روحوں کے دنیا میں آنے کے قائل ہیں مگر اس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں یہ شاہ صاحب کا جھوٹ وفریب ہے۔
حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی رحمہ اللہ تعالی ایک سوال کے جواب میں لکھتے ہیں :
ارواحِ مومنین کا شبِ جمعہ وغیرہ میں اپنے گھر آنا کہیں سے بھی ثابت نہیں ہوا یہ روایا ت واہیہ ہیں اس پر عقیدہ کرنا ہر گز نہیں چاہیے۔
فتاویٰ رشیدیہ ص158
غیر مقلدین کے نزدیک فیوضات وبرکات قبور:
اگرچہ شاہ صاحب نے قبروں سے باطنی فیوض پہنچنے کارد کیا ہے لیکن یہ ان کازبانی جمع خرچ ہے کیونکہ شاہ صاحب کے اکابر قبروں سے باطنی فیوض پہنچنے کے قائل ہیں۔ غیرمقلدین کے اکابر کی رائے ملاحظہ فرمائیں
علامہ وحید الزمان لکھتے ہیں:
اولیا ء کی ارواح سے بعد موت بحکم ومرضی الٰہی تصرفات ہوتے ہیں اور طرح طرح کے فیوض برکات بھی حضرات صوفیہ کااس پر اتفاق ہے۔ اور اتفاق کے ساتھ بتواتر ان سے اس قسم کے واقعات منقول ہیں جن کاانکار نہیں ہوسکتا مگر بعض اہل ظواہر جو سخت تشدد اور غلو رکھتے ہیں انہوں نے ان امور کاانکار کیا ہے۔
لغات الحدیث 2ص 17ذال کی بحث میں
یہی وحید الزمان صاحب اپنی کتاب ہدیۃ المہدی میں لکھتے ہیں:
وقال شیخنا ابن القیم فثبت بہذا انہ لامنافاۃ بین کون الروح فی علیین اوفی الجنۃ اوفی السماء وبین اتصالہ بالبدن بحیث تدرک وتسمع وتصلی وتقرأ قلت بھذا یدفع الشبہۃ التی اوردھا القاصرون انہ کیف یمکن استحصال الفیوض والبرکات وبرد القلب والانوار من ارواح الصلحاء بزیارۃ قبورہم
ہدیۃ المہدی ص63
ترجمہ: ہمارے شیخ ابن قیم رحمہ اللہ تعالی نے کہا کہ اس کے ساتھ ثابت ہے کہ علیّن میں یا جنت میں یاآسمان میں یا اس کے بدن کے ساتھ اتصال میں ادراک وسمع اور نمازو قراءت میں روحوں کا ہونا منافی نہیں۔ میں کہتا ہوں کہ اس سے قاصرین کاوہ شبہ دور ہوجاتا ہے جو وہ وارد کرتے ہیں کہ کس طرح ممکن ہے کہ صالحین کی قبور کی زیارت کرنے سے ان کی ارواح سے فیوض وبرکات دل کی ٹھنڈک اور انوار حاصل ہوجاتے ہیں۔
علامہ ابن قیم کے نزدیک زندوں اورمردوں کی ارواح کی ملاقات:
شاہ صاحب نے مزید معلومات کے لیے چند کتابوں کے نام لکھے ہیں جن میں ایک کتاب علامہ ابن قیم رحمہ اللہ تعالی کی ’’کتاب الروح ‘‘ بھی ہے۔
شاہ صاحب ابن تیمیہ رحمہ اللہ تعالی اور ابن قیم رحمہ اللہ تعالی کے اندھے مقلد ہیں شاہ صاحب کوجب ان حضرات کا کوئی قول مل جائے تو شاہ صاحب پھر قرآن وحدیث کی پرواہ نہیں کرتے۔ شاہ صاحب کاکہنا ہے کہ زندوں اور مردوں کی روح ملاقات نہیں کرسکتی اس بارے میں علامہ ابن قیم رحمہ اللہ تعالی کی رائے ملاحظہ فرمائیں
سوال: کیازندوں اور مردوں کی روحوں میں ملاقات ہوتی ہے؟۔
جواب: اس کی دلیلیں بے شمار ہیں اور حس وواقعات سب سے بڑے مشاہد ہیں۔ زندوں اور مردوں کی روحوں میں اس طرح ملاقات ہوتی ہے جس طرح زندوں کی روحیں آپس میں ملتی جلتی ہیں اور زندوں اور مردوں کی روحوں کے ملنے کاثبوت بھی ہے کہ زندہ حضرات خواب میں مردوں کودیکھتے ہیں اور ان سے حالات معلوم کرتے ہیں اور مردے نامعلوم حالات بتاتے ہیں جن کا مستقبل میں ظہور ہوجاتاہے اور کبھی ماضی میں ہوچکا ہوتا ہے۔ کبھی مرنے والااپنا گڑا ہوا مال بتاتا ہے جس کی اس کے سواکسی کو خبر نہیں ہوتی اور کبھی اپنے قرض کی اطلاع کرتا ہےکہ مجھ پر فلاں فلاں کاقرض ہے اور اس کے قرائن بھی بیان کرتا ہے کبھی ایسے عمل کی خبر دیتا ہے جس کی اس کے سواکسی کو بھی خبر نہیں تھی۔ یہ بتاتا ہے کہ ہمارے پاس فلاں فلاں وقت آؤ گے اور اس کی خبر سچی ہوجاتی ہے۔ کبھی ایسی باتوں کی خبر دیتا ہے جن کے بارے میں زندوں کویقین ہوتا ہے کہ انہیں اس کے سوا کوئی نہیں جانتا تھا۔ اوراوپر صعب، عوف بن ثابت بن قیس، صدقہ بن سلیمان، جعفری، مصعب بن شیبہ اور فضل بن موفق کے واقعات گذر چکے۔
کتاب الروح لابن القیم ص61تا 63 مترجم
غیر مقلدین کا مجدد الف ثانی رحمہ اللہ تعالی کی قبر سے حصول فیض:
مولوی عبد المجید صاحب شاگر رشید ابراہیم سیا لکوٹی صاحب لکھتے ہیں:
صوفی حبیب الرحمان صاحب کابیان ہے کہ 1910 ء میں جب حضرت ضیاء معصوم صاحب مرشد امیر حبیب اللہ خان شاہ کابل پٹیالہ تشریف لائے تو انہوں نے سر ہند جانے کے لیے قاضی جی کو اپنے ساتھ لیا۔ حضرت ضیاء معصوم صاحب جب روضہ مجدد الف ثانی رحمہ اللہ تعالی پر مراقبہ کے لیے بیٹھے تو قاضی جی نے دل میں کہا کہ شاید ان بزرگوں نے آپس میں کوئی راز کی بات کہنی ہو۔ ان سے الگ ہوجاناچاہیے۔ ابھی اپنے جی میں یہ خیال لے کر اٹھے ہی تھے کہ حضرت مجدد الف ثانی رحمہ اللہ تعالی نے آپ کو ہاتھ سے پکڑ لیا اور فرمایا کہ سلیمان بیٹھے رہو۔ ہم کوئی بات تجھ سے راز میں نہیں رکھنا چاہتے۔ صوفی صاحب کا بیا ن ہے کہ قاضی صاحب نے بعض دوستوں سے ذکر کیا اور فرمایا کہ یہ واقعہ مراقبہ یا مکاشفہ کانہیں بلکہ بیداری کاہے۔
کراماتِ اہل حدیث ص19
نواب صدیق حسن صاحب لکھتے ہیں:
ودرمسئلہ انتفاع اولیاء از ارواح اولیاء وانبیاء بقدر مناسب حال بدون تقلید برسوم وبدعات رجال واہل ضلال خود چند ا خلاف بیان اہل علم نیست
مآثر صدیقی4ص 128
نواب صاحب کے فرزندعلی حسن صاحب اس کاترجمہ یوں کرتے ہیں: اس مسئلہ میں اور اس امر میں کہ ارباب صاحب دل و اولیاء وانبیاء علیہم الصلوۃ والسلام کی ارواح مقدسہ سے بغیر رسوم اور بدعات کی پابندی کے جو اصل ضلالت کاشیوا ہے اپنے مناسب حال فیض اٹھائے تو اس میں علماء کاکوئی اختلاف نہیں ہے۔
نواب صدیق حسن کے والد کی قبرسے فیوض کاحصول:
یہی نواب صدیق حسن صاحب اپنے والد کی قبر کے بارے میں لکھتے ہیں:
لایزال النور علی قبرہ الشریف والناس یتبرکون بہ
التاج المکلل ص298
یعنی آپ کی قبر شریف پرنور رہتا ہے اور لوگ اس سے تبر ک حاصل کرتے ہیں۔
اکابرین غیر مقلدین کے نزدیک جمعہ کی رات روحوں کی آمد:
مشہور غیر مقلد حافظ محمد لکھوی صاحب لکھتے ہیں:
رات جمعہ دی مغرب پچھے ہک روایت آئی

آون روح وچ اپنے خویشاں یا جتھے ہے آشنائی

 
احوال الآخرت صفحہ 17
ترجمہ: ایک حدیث میں ہے کہ جمعہ کی رات کو مغرب کے بعد روح اپنے رشتے داروں کے گھر وں میں یاجہاں اس کی واقفیت ہوتی ہے وہاں آتی ہے۔
علامہ ابن قیم رحمہ اللہ تعالی اور دیگر اکابرین غیر مقلدین کی ان عبارتوں سے معلوم ہوگیا کہ ان کے نزدیک مردوں کی روحیں زندوں کی روحوں سے ملاقات کرتی ہیں اور یہ بھی ثابت ہوگیا کہ قبروں سے فیوضات وبرکات حاصل کرنا جائز ہے اور ان کے اکابرین قبروں سے فیوضات حاصل کرتے رہتے ہیں۔
بہر حال شاہ صاحب سے گذارش ہے کہ دوسروں کی آنکھوں میں تنکا تلاش کرنے سے پہلے اپنی آنکھوں میں لگے ہوئے شہتیرکو دیکھیں تاکہ شرمندگی نہ اٹھانا پڑے۔
عقیدہ نمبر 25:
ہم اورہمارے مشائخ اس کا یقین رکھتے ہیں کہ جوکلام بھی حق تعالیٰ سے صادر ہوا یا آئند ہوگاوہ یقینا سچا اور واقع کے مطابق ہے۔ اور جو شخص اس کے خلاف عقیدہ رکھے یا اللہ تعالیٰ کے کلام میں جھوٹ کاوہم کرے وہ کافر ملحد وزندیق ہے کہ اس میں ایمان کاشا ئبہ بھی نہیں۔
خلاصہ عقائد دیوبند ص 234
اعتراض:
احناف نے کلام اللہ کوتقسیم کیا ہے کبھی معنی و الفاظ دونوں کوقرآن کہتے ہیں کبھی صرف معنی کو یہی وجہ ہے کہ انہوں نے عربی بولنے پر قدرت کے باوجود فارسی میں نماز پڑھنے کی اجازت دی ہے۔
حسامی مع فیض سبحانی جلد 1صفحہ 49، فواتح الرحموت جلد2ص11، اصول الشاشی مع خلاصۃ
الحواشی ص8، نور الانوار ص11، 12، تفسیر مداراک جلد1 ص 78، بحر العلوم سمرقندی وغیرہ
حالا نکہ یہ عقیدہ باطل ہے کیونکہ قرآن کلام اللہ ہے جوحروف آواز معنی پر محیط ہے۔
سور ۂ نحل 98،102، انعام، 114 زمر 10 غافر 1،2 شعراء 193،حاقۃ 40
اس عقید ہ کا موجد ابن کلاب تھا پھر ان دیوبندیوں ماتریدیوں نے اس کواپنایا صحابہ، تابعین ائمہ دین میں سے اس غلاظت سے کوئی بھی واقف نہیں تھا۔
شیخ الاسلام رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں
ولم یکن فی مسمی الکلام نزاع من الصحابۃوالتابعین لہم باحسان وتابعیھم لامن اہل السنۃ ولامن اہل البدعۃ بل اول من عرف فی الاسلام انہ جعل مسمی الکلام المعنی فقط ہوعبداللہ بن سعید بن کلاب۔
(فتاوی ابن تیمیہ رحمہ اللہ تعالی جلد4ص89)
تفصیل کے لیے فتاویٰ شیخ الاسلام والماتریدیہ للشمس الدین افغانی جلد2ص321ملاحظہ ہو۔
(موازنہ کیجئے صفحہ 19۔20
جواب:
شاہ صاحب نے اپنے اکابر کی سنت پر عمل کرتے ہوئے ایک ہی جملے میں تقریباًپانچ چھ کتابو ں پر جھوٹ بولاہے کہ ان کتابوں میں کلام اللہ کوتقسیم کیا گیا ہے یعنی کبھی الفاظ اور معنی دونوں کو قرآن کہاگیا ہے اور کبھی صرف معنی کو جبکہ ان تمام کتب میں صاف اور صراحت کے ساتھ موجود ہے کہ قرآن الفاظ اور معنی دونوں کانام ہے۔
حسامی کی شرح فیض سبحانی کی عبارت:
و ہو اسم للنظم والمعنی جمیعافی قول عامۃ العلماء وھو الصحیح من مذہب ابی حنیفہ رحمہ اللہ تعالی۔
ترجمہ: عامۃ العلماء کے قول کے مطابق قرآن نظم اور معنی دونوں کے مجموعہ کانام ہے اور یہی امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ تعالی کاصحیح مذہب ہے۔صاحب فیض سبحانی اس عبارت کی تشریح کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ قرآن کس چیزکانام ہے سو اس بارے میں تین قول ہیں
1) فقط نظم کانام قر آن ہے۔
2) فقط معنی کانام قرآن ہے۔
3) نظم اور معنی دونوں کے مجموعے کانام قرآن ہے۔
بقول صاحب حسامی عامۃ العلماء اور جمہور علماء اسی کے قائل ہیں اور امام ابوحنیفہ کاصحیح مذہب بھی یہی ہے۔
(فیض سبحانی ص29،30)
ایک اور مقام پر دوسرے قول کی دلیل کاجواب دیتے ہوئے رقمطراز ہیں اسی دلیل کی وجہ سے بعض حضرات نے کہا کہ حضرت امام صاحب رحمہ اللہ تعالی کے نزدیک بھی فقط معنی کانام قرآن ہے حالانکہ یہ غلط ہے۔ اسی وہم کودور کرنے کے لیے صاحب کتاب نے کہا کہ امام صاحب کاصحیح مذہب یہ ہے کہ قرآن نظم اور معنی کانام ہے صرف معنی کا نام قرآن نہیں ہے۔
فیض سبحانی شرح اردوحسامی ص 29،30
خلاصہ الحواشی کی عبارت:
قرآن الفاظ ومعانی کے مجموعے کانام ہے صرف الفاظ کانام قرآن نہیں جیسے تعریف قرآن میں تنزیل، کتاب،نقل،تینوں الفاظ مستعمل ہونے سے شبہ ہوسکتا ہے کہ قرآن صرف الفاظ کانام ہے کیونکہ وہ تینوں الفاظ کی صفات ہیں معنی کی صفات نہیں ہیں اور قرآن صرف معانی کانام بھی نہیں۔
خلاصۃ الحواشی ص11
نور الانوار کی عبارت:
وھواسم للنظم والمعنی جمیعاتمہید لتقسیمہ بعد بیان تعریف یعنی ان القرآن اسم للنظم والمعنی جمیعالاانہ للنظم فقط کماینبیٔ عنہ تعریفہ بالانزال والکتاب والنقل ولاانہ اسم للمعنی فقط
نور الانور ص9
قرآن نظم اورمعنی کے مجموعے کا نام ہے یہاں سے قرآن کی تعریف کے بعد اس کی تمہید شروع ہوتی ہے۔ مصنف تصریح فرماتے ہیں کہ قرآن نظم اورمعنی دونوں کے مجموعے کانام ہے فقط نظم یعنی لفظ کانام نہیں جیساکہ منزل مکتوب اور منقول کے ذریعے اس کی تعریف کرنابتلاتا ہے اور نہ صرف معنی کانام ہے۔
فواتح الرحموت کی عبارت:
(اعلم ان القرآن عندنا ) وعند سائر الائمہ (اسم لکل من النظم المعجز والمعنی المستفاد(ای لمجموعہا)
فوتح الرحموت شرح مسلم الثبوت 2 ص10
ان حوالہ جات سے معلوم ہوتا ہے کہ احناف کے نزدیک قرآن صرف معنی یا صرف الفاظ کانام نہیں بلکہ دونوں کے مجموعے کانام ہے۔
شاہ صاحب سے ایک سوال:
شاہ صاحب سے گذارش ہے کہ قرآن وحدیث سے جواب دیں کہ قرآن کسے کہتے ہیں اور اس کی کیا تعریف ہے ؟امتیوں کے اقوال نقل کر کے مشرک اور بدعتی بننے سے احتراز کریں۔
شاہ صاحب کی طرف سے تحریف معنوی:
شاہ صاحب نے اپنے مدعا کو ثابت کرنے کے لیے قرآن مجید کی چند آیتیں پیش کی ہیں اور لکھا ہے کہ قر آن حروف آواز اور معنی پر محیط ہے وہ آیتیں یہ ہیں۔
(1)نحل آیت:98۔ (2)انعام:114۔ (3)زمر:10۔ (4)غافر:1،2۔ (5)شعراء :193۔ (6) حاقہ: 40۔ ان آیتوں میں سے کسی بھی آیت کا یہ ترجمہ نہیں کہ قرآن حروف آواز اور معنی پر محیط ہے۔
شاہ صاحب کی کذب بیانی:
شاہ صاحب نے پہلاجھوٹ یہ بولاکہ احناف کے نزدیک قرآن صرف معنی کانام ہے۔ اور دوسرا جھوٹ یہ کہ احناف کے نزدیک عربی پر قدرت کے باوجود فارسی میں نماز پڑھنے کی اجازت ہے اور اپنے مدعا کوثابت کرنے کے لیے حسامی مع فیض سبحانی وغیرہ پانچ کتابوں کاحوالہ دیا ہے حالانکہ ان تمام کتابوں میں صراحت سے مذکور ہے کہ فارسی میں قراءت جائز نہیں ، چنانچہ ملاحظہ فرمائیں
فیض سبحا نی کی عبارت:
صاحب نامی شارح حسامی نے لکھا ہے کہ حضرت امام صاحب نے عامۃ العلماء کے قول کی طرف رجوع فرمایا تھا اور حضرت امام صاحب بھی عامۃ المسلمین کی طرح اس بات کے قائل ہوگئے تھے کہ نماز میں بھی فارسی میں قراءت کرنا جائز نہیں اسی پر فتویٰ ہے۔
فیض سبحانی ص32
خلاصۃ الحواشی کی عبارت:
اور قرآن صرف معانی کانام بھی نہیں چنانچہ امام اعظم کے قراءت بالفارسی کوجائز رکھنے سے بعضوں کوشبہ ہوجاتا ہے کیونکہ امام صا حب کامطلب یہ ہے کہ بلا قصد کسی سے کوئی فارسی لفظ ایسا نکل جائے جو عربی لفظ کے ہم معنی ہوتو نماز صحیح ہوجائے گی۔ مثلاًجزاء بماکسباکے بجائے سزاء بماکسبا پڑھ دے یا معیشۃضنکاکے بجائے معیشۃً تنکاپڑھ دے یہی وجہ ہے کہ فارسی میں عمداًقرآن تلاوت کرنے والے کوامام صاحب رحمہ اللہ تعالی زندیق کہاکرتے تھے اور عربی عبارت چھوڑ کر فارسی عبارت میں قرآن لکھنے کوامام صاحب رحمہ اللہ تعالی بھی حرام سمجھتے ہیں۔
خلاصۃ الحواشی ص11،12 ، نور الانوار مع حاشیہ ص9
فواتح الرحموت کی عبارت:
(وقد صح رجوع)الامام (ابی حنیفہ )رضی اﷲ عنہ (عن قول بجوازالصلوۃ بالفارسیۃ بغیر عذر فلااشکال وقدروی الرجوع نوح ابن مریم وفی (الکشف ذکرہ الامام فخر الاسلام فی (شرح المبسوط )واختارہ القاضی الامام ابوزید وعامۃ المحققین وعلیہ الفتوی
فواتح الرحموت شرح مسلم ا لثبوت 2ص10
توضیح مع تلویح کی عبارت:
لکن الاصح انہ رجع الی قولہما علی ماروی نوح بن مریم عنہ
توضیح مع التلویح ص61
ترجمہ: لیکن صحیح یہ ہے کہ امام صاحب رحمہ اللہ تعالی نے اس قول سے رجوع فرمایا تھا صاحبین کے قول کی طرف جیسا کہ امام صاحب رحمہ اللہ تعالی سے نوح بن مریم نے روایت کیا ہے
ہدایہ کی عبارت:
یروی رجوعہ فی اصل المسئلۃ الی قولھماوعلیہ الاعتماد
ہدایہ ص86
ترجمہ: امام صاحب سے اس مسئلہ میں صاحبین کے قول کی طرف رجوع مروی ہے اور اسی پر اعتماد (یعنی فتوی) ہے۔ درمختار میں بھی لکھا ہے کہ اسی پر فتوی ہے۔
شاہ صاحب کے گھر کا حوالہ:
ان تمام حوالہ جات کے بعد اگرچہ ضرورت نہیں رہی کے مزید حوالے دیے جائیں مگر شاہ صاحب کو دوسرے کی بات پر اعتماد نہ ہونے کی وجہ سے ان کے گھر کاحوالہ دیا جارہا ہے حوالہ ملاحظہ فرمائیں۔
غیر مقلد عالم نواب صدیق حسن خان لکھتے ہیں:
رجوع امام کا اس حکم سے باتفاق حنفیہ ثابت ہے۔
کشف الاباس ص268
شاہ صاحب کے اپنے گھر کے حوالے سے ثابت ہوگیا کہ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ تعالی نے اپنے اس قول سے رجوع فرمایا ہے اب مرجوع قول کو لے کر اعتراض کرنا کہا ں کی عقلمندی ہے؟
اس مرجوع قول پر غیر مقلدین کافتویٰ:
ایک طرف شاہ صاحب امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ تعالی کے قول جس سے رجوع ثابت ہے کوبنیاد بنا کر احناف کوتنقید کانشانہ بنارہے ہیں اور دوسری طرف شاہ صاحب کے اکابرین اسی پر فتوی دے رہے ہیں چنانچہ ملاحظہ فرمائیں۔
مولانا ثناء اللہ امر تسری صاحب ایک پادری کوجواب دیتے ہوئے لکھتے ہیں:
باقی رہا یہ سوال کے عبادت کہ وقت عربی الفاظ کے استعمال پر کیوں مجبور کیے جاتے ہیں آپ ہماری طرف سے ایڈیٹر’’نگار‘‘ کو اطلاع دے دیں کہ ان کوعربی الفاظ میں اگرنماز پڑھنی مشکل ہوتی ہے تو حسب فتویٰ امام ابوحنیفہ اپنی مادری زبان میں نماز پڑھ لیا کریں پس یہ وجہ بھی قبول اسلام سے مانع نہیں ہوسکتی اگر ان کوپڑھنی ہی نہیں تو نا حق حجتیں نہ تراشا کریں۔
اسلام اور مسیحیت ص55
ہمارے عقیدہ نمبر 25 میں ہے کہ جو کلام بھی حق تعالیٰ سے صادر ہوا یا آئندہ ہوگا وہ یقینا سچا اور واقع کے مطابق ہے اور شخص اس کے خلاف عقید ہ رکھے یا اللہ کے کلام میں جھوٹ کاوہم کرے وہ کافر ملحد زندیق ہے کہ اس میں ایمان کاشائبہ بھی نہیں شاہ صاب اس عقیدے پر تو کوئی اعتراض نہ کرسکے البتہ فارسی میں نماز پڑھنے پر اعتراض کیا ہے جو کہ ہمارا عقیدہ نہیں ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ اللہ کے کلام کے بارے میں غیر مقلدین کے اکابر کی کیا رائے ہے۔
علامہ وحید الزمان لکھتے ہیں :
ھو یتکلم متی ماشاء بای لسان شاء بصوت وحروف
ہدیۃ المہدی8
وہ جب چاہتا ہے اور جس زبان کی آوازوحروف سے چاہتا ہے کلام کرتا ہے۔
ایک اور جگہ لکھتے ہیں:
ومن الصفات الفعلیۃ الحادثۃ الکلام والاستواء و الضحک والنزول والصعود والاتیان والمجیء والقرب والبعد والدنو والوطاۃ والتنفس والتعجب والفرح والتبشش والنظر والحثی والحض والغیرۃ والغضب والملال علی قول والحیاء والاستھز اء والسخریۃ والمکر والخدع والکید والفراغ والترد والفضل والرحمۃ والاختیار والصبر واعادۃ الخلق والامر والنہی والاستدراج والحب والبغض والرضاء والکراہیۃ بالسخط والمقت والموات والنعاد والمشی والہرولۃ والمماخرۃ والمصافحۃ والاطلاع والاشراف والتکوین والخلق والعندیۃ وتقلیب القلوب والوعدوالوعید واسماع الکلام بعض خلقہ والتجلی العارضی علی بعض المحال دون العرش از علیہ التجلی الدائمی والظہور فی ای صور ۃ شاء۔
ترجمہ:
صفات فعلیہ حادثہ سے کلام واستواء ہنسنا، تعجب کرنا، اترنا، چڑھنا، جانا اور آنا قرب وبعد (نزدیک ہونا دور ہونا ) تنفس وفرحت، بشاشت ونظر، حثی وحضّ، غیرت وغضب، بات پر ملال، استہزا ء کرنا، مسخرہ کرنا، مکار ہونا، دھوکے باز اور فریبی ہونا، نکما ہونا، متردداور پریشان ہونا، فضل و رحمت، اختیار و صبر اعادہ مخلوق، امرونہی ،استدراج، حب و بغض،رضاوکراہت، الفت و نفرت،دوستی وعداوت، چلنا، بھاگنا، محاصرہ ومصافحہ، اطلاع واشراف، تکوین وخلق عندیہ اور قلوب کابدلنا وغیرہ اور اس کی بعض مخلوق کاکلام سننا عرش کے علاوہ بعض محا لات پر عارضی تجلی کرنا جبکہ عرش پر اس کی تجلی دائمی ہے اور جس صورت میں چاہے ظہور کرے۔
اس عبارت پر غور کریں تو ہمیں معلوم ہوگا کہ اللہ کے کلام کے متعلق علامہ وحیدا لزمان کی کیا رائے ہے کہ اللہ تعالیٰ بات کرتے ہیں جب چاہیں جس سے چاہیں اور جس طرح چاہیں اور جہاں چاہیں۔
اور اسی عبارت میں وحید الزمان صاحب نے اللہ تعالیٰ کی صفات کا تذکرہ بھی کیا ہے کہ اللہ کلام کرتا ہے، مستوی ہوتا ہے، ہنستا ہے، اترتا ہے، چڑھتا ہے، تعجب کرتا ہے، آتا ہے، جاتا ہے، قریب ہوتا ہے، دور ہوتا ہے، ٹھٹھہ بازی کر تا ہے، یعنی استہزاء کرتا ہے، مسخرہ کرتا ہے، مکار ہے، دھوکہ باز ہے، فریبی ہے، نکمہ ہے، متردد ہے، پریشان ہے، وغیرہ وغیرالعیاذ بااللہ نقل کفر کفر نباشد۔
شاہ صاحب اور ان کے حواریوں سے التماس ہے کہ کوئی کتاب،رسالہ، اشتہار وغیرہ اپنے ان اکابر کےرد میں بھی تحریر فرما دیں۔ لینے کے باٹ اور دینے کے باٹ اور والا معاملہ نہ رکھیں۔</