علمائے دیوبند پر الزامات اور ان کا جواب

User Rating: 4 / 5

Star ActiveStar ActiveStar ActiveStar ActiveStar Inactive
 
علمائے دیوبند پر الزامات اور ان کا جواب
یہاں تک تو رسالہ خلاصہ عقائد دیوبند پر کیے جانے والے تمام اعتراض کا جواب تھا۔ نصیب شاہ سلفی نے خلاصہ عقائد علمائے دیوبند پر 25 اعتراض کرنے کے بعد صفحہ 20 پر ایک عنوان اس طرح قائم کیا ہے۔
’’علمائے دیوبند کے مذکورہ عقائد کے علاوہ مزید گمراہ کن وخرافات پرمبنی عقائد کی چند جھلکیاں ملاحظہ ہوں ‘‘۔
(موازنہ کیجئے، ص 20)
شاہ صاحب کادجل وفریب:
شاہ صاحب نے علماء دیوبند کے 25(پچیس) مشہور عقائدپربحث کرنے کے بعد علماء دیوبند کی کتابوں سے چند عبارات کوتوڑ موڑ کر عوام الناس کو دھوکہ دینے کی کوشش کی ہے کہ علماء دیوبند اپنے اکابرین کے متعلق علم غیب وحاضرناظر وغیرہ کاعقیدہ رکھتے ہیں حالانکہ علماء دیوبند کے عقائد کسی سے ڈھکے چھپے نہیں عقائد علماء دیوبند پر بے شمار کتابیں بازار سے مل جاتی ہیں تفصیلات کے لیے ان کامطالعہ کیجیے۔
شاہ صاحب نے اپنی اس کتاب میں امانت ودیانت کاجس طرح خون کیا ہے اس کی جتنی بھی مذمت کی جائے وہ کم ہے۔ جس طرح احمد رضا خان بریلوی اور ان کی جماعت نے علماء دیوبند کی کتا بوں کی بعض عبارات میں تغیر وتبدل کر کے ان پر کفر کافتوی لگا یاہے اسی طرح شاہ صاحب نے علماء دیوبندکی کتا بوں کی عبارات کو نقل کر کے عوام الناس کو یہ تأثر دینے کی کوشش کی ہے کہ علماء دیوبند اپنے اکابر اور بزرگوں کے بارے میں علم غیب وحاضر ناظر وغیرہ کا عقیدہ رکھتے ہیں۔ شاہ صاحب کے تمام اعتراضات کا پہلے ایک اجمالی جواب ملاحظہ فرمائیں۔
کشف وکرامات سے عقائد ثابت نہیں ہوتے:
شاہ صاحب نے علماء دیوبند کی جتنی بھی عبارات نقل کی ہیں اکثر عبارتوں کا تعلق کشف وکرامات سے ہے۔ اور کشف وکرامات سے عقیدہ ثابت نہیں ہوتا۔ اگر کشف وکرامات اور تصوف والے واقعات کی بنیاد پر علماء دیوبند پر الزام تراشی کر کے ان کوگمراہ ثابت کرنے کی کوشش کی جائے تو شاہ صاحب کوچاہیے کہ پہلے اپنے کابرین کو گمراہ کہیں پھر علماء دیوبند پر گمراہی کافتوی لگائیں۔
اگر شاہ صاحب کی ذکر کردہ عبارات کاطائرانہ جائزہ لیا جائے اور ان کا موازنہ اکابر غیرمقلدین کی عبارتوں سے کیاجائے تو غیر مقلدین کے اکابر کی گمراہی روز روشن کی طرح واضح ہوجائے گی کیونکہ علماء دیوبند تو کشف وکرامات اور تصوف کے قائل ہیں اور موجودہ غیر مقلدین کشف و کرامات اور تصوف کے قائل نہیں۔
شاہ صاحب نے اکابر علماء دیوبند کی کتابوں سے چند حوالے پیش کر کے ان پر علم غیب اور حاضر وناظر ہونے کادعوی کیا ہے شاہ صاحب کے الزامات کے جوابات ترتیب وار ملاحظہ فرمائیں۔
شاہ صاحب نے سب سے پہلے
(علماء دیوبند کے مذکور ہ عقائد کے علاوہ گمراہ کن
خرافات پر مبنی عقائد کی چند جھلکیاں ملاحظہ ہوں )
کے عنوان سے باب باندھنے کے بعد چند الزامات لگائے ہیں ان الزامات کے حقائق اور تفصیلی جوابات ملاحظہ ہوں
الزام نمبر ایک:
دعویٰ علم غیب اور دیوبندی:
رشید احمد گنگوہی کومعلوم ہوجاتاتھا کہ فلاں کے مرنے میں چند دن باقی ہیں اور اس کے اس اظہار پر لوگ یقین بھی کرتے۔
تذکرۃ الرشید جلد 2 صفحہ 20
اشرف علی تھانوی اپنے ایک بزرگ فضل الرحمن کاواقعہ بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ کسی نے اس کو دعا کے لیے خط بھیجا ابھی خط لانے والے کے پاس تھا کہ اس نے جواب دے دیا اور اس کوخط دینے کی ضرورت نہ رہی۔
ارواحِ ثلا ثہ ص308حکایت نمبر 311،
موازنہ کیجئے صفحہ 20،21
جواب:
شاہ صاحب نے اپنی مذکورہ عبارت کے ذریعے علماء دیوبندپر الزام لگانے کی کوشش کی ہے کہ علماء دیوبند اپنے اکابرین کے بارے میں علم غیب کے قائل ہیں کہ ان کے اکابرین کوغیب کا علم تھا۔ اگر کسی واقعہ کوبنیاد بنا کر کسی کوعلم غیب کی صفت سے متصف کیا جاسکتا ہے تو غیر مقلدین کے اکابرین کے چند واقعات ملاحظہ فرمائیں
علم غیب اور اکابر غیرمقلدین:
غیر مقلدین کے پیشوامولوی محمدسلیمان روپڑی اور عبداللہ غزنوی کے واقعات ملاحظہ فرمائیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ سلیمان روپڑی اور عبداللہ غزنوی کوعلم غیب تھا۔ مولوی عبد المجید صاحب محمد سلیمان روپڑی کے متعلق لکھتے ہیں
ایک روز علی الصبح آپ فرمانے لگے کہ لو بھائی آج ہمارے پیر ومرشد (مولوی عبدالجبار غزنوی صاحب)بہشت میں پہنچ گئے میں نے رات ان کو بہشت میں دیکھا ہے اور شعر سنا ہے جو میری زبان پرجاری ہوگیا ہے۔
لے اوبیلی اللہ بیلی ساڈے ہوئے چلانے
یعنی اے دوست خداحافظ ہم تو جارہے ہیں۔ سب حیران تھے کہ یہ کیا ماجراہے چنانچہ بعد میں اطلاع آئی اس سے معلوم ہوا کہ ٹھیک اسی وقت اور اسی دن امام صاحب کاانتقال ہواتھا۔
کراماتِ اہل حدیث
تحصیل سرسہ میں ایک بہت بڑے رئیس اور نواب تھے ان کی صاحبزادی بیمار ہوگئی کئی علاج کیے افاقہ نہ ہواانہوں نے چاہا کہ مولوی صاحب کو بلایا جائے وہ دم کریں گے تو شفاہوجائے گئی۔چنانچہ آپ کی طرف آدمی آیا اورآپ جانے کے لیے تیار ہوئے۔ سواری منگائی گئی۔ معاً آپ نے فرمایااب جانا فضول ہے لڑکی کاتو انتقال ہوگیا ہے۔چنانچہ وہ آدمی جب واپس گیا تو معلوم ہواٹھیک اسی وقت جب مولوی صاحب نے فرمایا تھا اس کی روح قفس عنصری سے پروازکر گئی تھی۔
کراماتِ اہل حدیث صفحہ 28
مولوی غلام رسول قلعوی صاحب کابیان ہے کہ ایک بار کسی امیر نے آپ کے پاس کچھ میوہ بطور تحفہ بھیجے توآپ کودور سے بدبو آنے لگی بظاہر چونکہ تحفہ کارد کرنا جائز نہ تھا اس لیے آپ نے واپس نہ کیے اور گھر میں گڑھا کھود کر دفن کر دیےراوی کہتا ہے کہ آ پ کوحلال اور حرام میں فور اًتمیز ہوجاتی تھی آپ حرام مال سے بچ جایا کرتے تھے۔
کرامات اہلحدیث ص25،26
اگر ہم یہ کہیں کہ یہ اکابر غیر مقلدین کی کرامات ہیں تو شاید شاہ صاحب وہمنوا ناراض ہوجائیں گے کہ نہیں نہیں ، یہ کرامات نہیں بلکہ ہمارے اکابر کاعلم غیب ہے۔
الزام نمبر 2:
دعویٰ الوہیت والتصرت:
فنا فی اللہ کے مراتب بیان کرتے ہو ئے امداد اللہ صاحب فرماتے ہیں: اس مرتبہ پرخداکا خلیفہ ہوکر لوگوں کو اس تک پہنچاتا ہے اورظاہر میں بندہ اور باطن میں خدا ہوتا ہے۔ اس مرتبہ پر پہنچ کر عارف عالم پر متصرف ہو جاتا ہے ذی اختیار ہوتا ہے اللہ تعالیٰ کی جس تجلی کوچاہتا ہے اپنے اوپر کرتا ہے چونکہ اس میں اللہ تعالیٰ کی صفات پائی جاتی ہیں۔
کلیات امداد ص37، موازنہ کیجئے، صفحہ 21
جواب:
شاہ صاحب نے حضرت امداداللہ مہاجر مکی رحمہ اللہ تعالی کی عبارت کونقل کرکے قاری کو مغالطہ میں ڈالنے کی کوشش کی ہے اس عبارت کا تعلق وحدۃ الوجود سے ہے اور مسئلہ وحدۃ الوجودایک دقیق اور غامض مسئلہ ہے اور اس کے وہ معنی جو حضرت امداداللہ مہاجر مکی رحمہ اللہ تعالی کی عبارت سے شاہ صاحب نے لیے ہیں کہ خالق اور مخلوق دونوں ایک ہیں اوردونوں میں کوئی فرق نہیں یہ معنی مراد لینا ایک مغالطہ ہے۔ شاہ صاحب اگر آپ حاجی امداداللہ مہاجر مکی رحمہ اللہ تعالی کی اس عبارت کوبنیاد بنا کر ان کوگمراہ ثابت کرنے کی کوشس کی رہے ہیں تو پہلے اپنے گریبان میں جھانکیں کہ اس عقیدے کے بارے میں آپ کے اکابر کی کیا رائے ہے عبارت ملاحظہ فرمائیں۔
دعوی الوہیت وتصرف اور غیر مقلدین:
غیر مقلدین کے رئیس نواب صدیق حسن خان صاحب فرماتے ہیں:
شیخ عارف محی الدین ابن عربی صاحب فتوحات مکیہ نے ابن حزم کی تعریف کی ہے اور دوسو تینتیس باب میں ص674پر کہا ہے یہ وصال کی انتہاء ہوتی ہے کہ چیز اس چیز کاعین بن جائے جو ظاہر ہے اور معلوم نہ ہو کہ وہی چیز ہے (ایک چیز دوسری چیز میں اس طرح ظاہر ہوکہ پہلی چیز کابالکل پتہ نہ چلے )جیساکہ میں نے نبی کریم ﷺ کو دیکھا آپ ابن حزم سے معانقہ فرمارہے ہیں اس طرح ایک جسم دوسر ے میں بالکل غائب ہے، نظر ایک ہی آرہا ہے اور وہ رسول ﷺ ہیں ان کی طرف سے آپﷺ ہی اس اتحاد اور وحدت کو ظاہر کررہے ہیں یعنی دو کا ایک ہونا اور وجود میں کسی امر زائد کا نہ ہونا اسی کو اتحاد سے تعبیرکیاجاتا ہے۔
التاج المکلل ص90
توہم واشیاء بلیل
فہم یسعی بیننا بالتباعد
فعانقۃ حتیٰ اتحدنا تعانقا

فلما اتانا ما رای غیر واحد

 
یعنی رات کے وقت رقیب نے ہمارے درمیان دوری پیدا کرنے کی کوشش کی تو میں نے اپنے محبوب کے ساتھ اس طرح معانقہ کیا کہ ہم بالکل ایک ہوگئے جب رقیب آیا تو اسے ایک کے علاوہ دوسرانظر نہیں آیا۔ اسی مضمون کاایک فارسی شعر نقل کرنے کے بعدنواب صاحب موصوف فرماتے ہیں اور عجب نہیں یہی لوگ (اہل حدیث) محبت اور اتحاد والے بلکہ حق وانصاف کی بات یہ ہے کہ یہی لوگ وحدت مطلقہ کے مالک ہیں۔
علامہ وحید الزمان کی رائے:
علامہ وحید الزمان اپنی کتا ب میں لکھتے ہیں:
فرقہ صوفیہ وجودیہ جس میں شیخ ابن عربی ہیں یہ لوگ حلول اور خالص اتحاد کے قائل نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کی ذات کوعرش پر تمام مخلوق سے الگ ثابت کرتے ہیں ، یہ لوگ کہتے ہیں حق تعالیٰ من وجہ عین مخلوق ہیں یعنی وجود کی جہت سے اس لیے کہ وجود صرف ایک ہے اور وہ حق تعالیٰ کاوجود ہے۔
حاشیہ[ (آگےاس عبارت پر حاشیہ لگا کر لکھا ہے
اسی لیے شیخ نے فرمایا:
اللہ تعالیٰ تمام آسمان اور زمینوں کانور ہے۔ اللہ تعالیٰ بذات خود عرش پر ہے۔ اور اسی کانور یعنی اس سے پھیلنے والا وجود تمام آسمانوں اور زمینوں کوشامل ہے پس تمام اشیاء اسی کے وجود سے موجود ہیں اور فصوص الحکم میں جو یہ کہا گیا ہے۔ الحمدللہ الذی خلق الاشیاء وھو عینا۔
تو اس کے معنی ہیں کہ حق تعالیٰ کا وجود ہے نہ یہ کہ مخلوقات کادوسرا وجود ہے جیسا کہ متکلمین کا خیال ہے، شیخ نے ’’فتوحات‘‘ ص12 میں اس کی تصریح کی ہے۔ باقی تمام اشیاء اس ایک وجو د کی وجہ سے موجود ہیں ، ان کاکوئی مستقل وجود نہیں ہے جیسا کہ متکلمین کہتے ہیں کہ یہاں دووجود ہیں ایک وجودواجب اور دوسرا وجود ممکن۔ اور حق تعالیٰ غیر مخلوق ہے من وجہ یعنی ماہیت اور ذات کی جہت سے اس لیے کہ ممکن کی ذات اور اس کی ماہیت واجب کی ذات اور اس کی ماہیت سے متغایر ہے اور اس قول کے ذریعے سے عام لوگوں کے ذہن میں جو بات ہے کہ خالق اور مخلوق کے درمیان معمار اور عمارت کی نسبت ہے اس مفہوم سے وہ فرار اختیار کرتے ہیں۔ اس لیے کہ یہ بدیہی البطلان ہے کیونکہ حدوث عالم سے قبل حق تعالیٰ کے علاوہ کچھ بھی موجود نہیں تھا تو اب یہ اشیا کہاں سے وجود میں آئیں حضور اکرمﷺ نے ارشادفرمایا کان ﷲ ولم یکن معہ شیئ اللہ تعالیٰ (کائنات کی خلقت سے قبل) تھااور اس کے ساتھ کوئی اور چیز نہ تھی۔
علامہ ابن اتیمیہ رحمہ اللہ تعالی نے ابن عربی پر بڑا سخت رد کیا ہے، حافظ اور تفتازانی نے ان اتباع کی ہے۔ لیکن میر ے نزدیک حقیقت یہ ہے کہ یہ حضرات شیخ ابن عربی رحمہ اللہ تعالی کا مطلب نہیں سمجھے ان کی مرادسمجھنے میں انہوں نے غور نہیں کیا ’’فصوص ‘‘ میں شیخ کے ظاہری الفاظ ان کو نامانوس لگے اگر یہ حضرات ’’فتوحات ‘‘ میں غور کرتے تو جان لیتے کہ اصول اور فروع دونوں کے اعتبار سے شیخ اہل حدیث ہیں اور ارباب تقلید پر بڑا سخت رد کرنے والوں میں سے ہیں۔
ہدیۃ المہدی ص50، 51
شاہ صاحب جو جواب آ پ کانواب صدیق حسن خان اور علامہ وحید الزمان کی رائے کے بارے میں ہوگا وہی جواب ہمارا حاجی امداداللہ مہاجر مکی رحمہ اللہ تعالی کی رائے کے بارے میں ہوگا۔
وحدۃ الوجود اور وحدۃ الشہود کے بارے میں ہماری کتب کا مطالعہ کریں اور اس کا صحیح مفہوم ہمارے علماء سے سمجھیں۔
الزام نمبر3:
دیوبندی اور عقیدہ حلول:
دوسر ے مقام پرلکھتے ہیں اللہ تعالیٰ کواپنے اندر پا کر منصور جیسے کلمے کہنا لگا یعنی اناالحق میں اللہ ہوں۔
ص39
رام پور میں ایک مجذوب تھے جو اپنے آپ کورب العلمین کہتے تھے خود کشی کرنے پر مولوی ارشادحسین صاحب نے جنازہ پڑھا کر فرمایا کہ یہ مکلف ہی نہیں تھے حکم ربانی سے مبرا تھے۔)
ارواحِ ثلاثہ ص387
نو ٹ: اس کتاب کے ص9 پرلکھا ہے کہ یہ جماعت دیوبند کی حکایات ہیں۔
موازنہ کیجئے صفحہ 21
جواب:
شاہ صاحب نے الزام نمبر 3 میں یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ علماء دیوبند عقیدہ حلول کے قائل ہیں کاش کہ شاہ صاحب یہ الزام لگا نے سے پہلے اپنے اکابر کے عقائد کا صحیح سے مطالعہ کر لیتے تا کہ منہ کی نہ کھانی پڑتی۔
اگرچہ شاہ صاحب علماء دیوبند کو تنقید کانشان بنارہے ہیں لیکن میری شاہ صاحب سے گذارش ہے کہ پہلے اپنے گریبان میں جھانکیں پھر دوسروں پر تنقید کریں۔ اب شاہ صاحب کے مقتداء کا عقیدہ ملاحظہ فرمائیں
نواب صدیق حسن اور عقیدہ حلول:
نواب صدیق حسن خان اپنی کتاب ’’مسک الختام فی شرح بلوغ المرام ‘‘ میں لکھتے ہیں
نبی کریم ﷺ ہر آن اور ہر حال میں مومنین کے مرکز نگاہ اور عابدین کی آنکھوں کی ٹھنڈک ہیں خصوصیا ت کی حالت میں انکشاف اور نورانیت زیادہ قوی اور شدید ہوتی ہے بعض عارفین کا قول ہے کہ تشہد میں ایھاالنبی کا یہ خطاب ممکنات اور موجودات کی ذات میں حقیقت محمدیہ کے سرایت کرنے کے اعتبار سے ہے چنانچہ حضور اکرم ﷺ نماز پڑھنے والوں کی ذات میں موجود اور حاضر ہوتے ہیں اس لیے نماز پڑھنے والوں کو چاہیے کہ اس بات کاخصوصیت کے ساتھ خیال رکھیں اور آپ ﷺ کی اس حاضری سے غافل نہ ہوں تا کہ قر ب ومعیت کے انوارات اور معرفت کے اسرار حاصل کرنے میں کامیاب رہیں۔
مسک الختام ص244
اس کے بعدنواب صاحب نے ایک فارسی شعر لکھا جس کے معنی ہیں میں تجھے صاف اور عیاں دیکھ رہاہوں اور ہدیہ سلام آپ کی طرف بھیج رہاہوں۔ نواب صاحب کی اس عبارت سے معلوم ہوگیا کہ ان کے نزدیک نبی کریم ﷺ نماز پڑھنے والوں کی ذات میں سرایت کرتے ہیں۔
عقیدہ حلول کے بارے میں یہ ہم پر الزام ہے کہ ہم اس کےقائل ہیں۔ کشف وکرامات کے واقعات کو عقائد میں پیش کرنا حماقت اور جہالت ہے۔ عقیدہ حلول کے بارے میں تفصیل ہماری عقائد کی کتب میں موجود ہے جس سے اس الزام کی حقیقت واضح ہوجاتی ہے
الزام نمبر 4
اللہ تعالیٰ کی صفات اور دیوبندی:
٭… اللہ تعالیٰ کے لیے جگہ اورطرف ثابت نہیں۔
عقائد علماء دیوبندص231
٭… اللہ تعالیٰ اوپر ہے اورنہ ہی نیچے، دائیں ہے، نہ بائیں۔
٭… گوشت سے بنا ہے اور نہ ہڈیوں سے۔
٭… مخلوق میں داخل ہے نہ ہی الگ۔
٭… اس کاکوئی جسم ہے نہ ہی صورت شکل۔
شرح العقائد 52
امداداللہ صاحب مزید فرماتے ہیں کہ خواب میں دیدار نبوی کے لیے رات سوتے وقت دائیں ہتھیلی پر الصلاۃ والسلام علیک یارسول اﷲ پڑھ کردم کریں اور سفید شفاف لباس اور سبز پگڑی کاتصور کریں تو زیارت نصیب ہوگی۔کلیات ص71( جب کہ آپ ﷺ نے صرف کالی پگڑی پہنی ہے۔
مسلم کتاب المناسک
 موازنہ کیجئے صفحہ 21،22
جواب:
شاہ صاحب نے عنوان قائم کیا ہے ’’اللہ تعالیٰ کی صفات اور دیوبندی ‘‘ پھر چند صفا ت کاذکرکیاہے اس کے بعد زیارت النبی ﷺ کے لیے حاجی امداداللہ مہاجر مکی رحمہ اللہ تعالی کا ایک عمل ذکر کیا ہے جس کاصفات باری تعالیٰ سے دور کاتعلق بھی نہیں ہے۔ اس کے بعد مسلم شریف کے حوالے سے دعویٰ کیاہے کہ آپ ﷺ نے صرف کالی پگڑی پہنی ہے۔
شاہ صاحب کااصل موضوع اللہ تعالیٰ کی صفات ہے۔ اس بارے میں غیر مقلدین کے اکابر کی رائے ملاحظہ فر مائیں
غیرمقلدین کے پیشوا اور صحاح سۃ کے مترجم علامہ وحید الزمان لکھتے ہیں:
ومن الصفات الفعلیۃ الحادثۃ الاستہزاء والسخریۃ والمکر والخدع والکید
ہدیۃ المہدی ص7
اللہ تعالیٰ کی صفات فعلیہ حادثہ میں سے مذاق، ٹھٹہ، مکردھوکا اورداؤ لگانا ہے۔
یظہر فی ای صورۃ شاء
ہدیہ المہدی ص7
ترجمہ: اﷲتعالیٰ جس صورت میں چاہتے ہیں ظاہر ہوسکتے ہیں۔
اس عبارت پر غور کریں تو معلوم ہوگا کہ علامہ صاحب کابھی وہ ہی عقیدہ ہے جو عیسائیوں اور ہندؤوں کاہے۔ عیسائیوں کاعقیدہ ہے کہ اللہ تعالیٰ عیسیٰ کی شکل میں ظاہر ہوا اور ہندوؤں کاعقیدہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کرشن اور رام چندر کی شکل میں ظاہر ہوا اور سامری کا عقید ہ تھا کہ اللہ تعالیٰ بچھڑے کی شکل میں ظاہرہوا۔ نعوذ باﷲ
نزل الابراراور ہدیۃ المہدی میں ہے
ولہ تعالیٰ وجہ وعین وید وکف وقبضۃ واصابع ومساعد ونزاع وصدر وجنب وحفو وقدم ورجل وساق …الخ۔
ہدیۃ المہدی ا ص9 نزول الابرار 1 ص3
یعنی اللہ تعالیٰ کے لیے (یہ اعضاء ثابت ہیں )چہرہ،آنکھ، ہاتھ، ہتھیلی، مٹھی، انگلیاں ، بازو، سینہ، ایک پہلو، ایک کوکھ، ٹانگ اور پاؤں وغیرہ۔ نعوذ باﷲ
غیر مقلدین ید سے ایک ہاتھ مراد لیتے ہیں شاید اسی وجہ سے ایک ہاتھ سے سلام کرتے ہیں اگر اس بات کو سامنے رکھا جائے تومعلوم ہوگا کہ غیر مقلدین کے نزدیک اللہ تعالیٰ کی آنکھ، ہاتھ، ہتھیلی، مٹھی وغیرہ سب ایک ایک ہیں۔
کالی پگڑی کے علاوہ دیگر پگڑیوں کا ثبوت:
شاہ صاحب نے مسلم شریف کے حوالے سے لکھاہے کہ آپ ﷺ صرف کالی پگڑی پہنتے تھے حالانکہ آپﷺ سے کالے رنگ کے علاوہ سفید، سبز اور قطری رنگ جس میں سرخی ہوتی تھی ان سب رنگوں کاثبوت بھی ملتا ہے۔ مستدر ک اورطبرانی کی روایت سے سفید عمامہ کاثبوت ملتا ہے مسند احمد کی روایت سے سبز عمامے کاثبوت ملتا ہے اسی طرح ابوداوؤ د کی روایت سے قطری رنگ کے عمامہ کاثبوت ملتا ہے۔ جس طرح بریلوں نے سبزعمامہ کواپنے لیے علامت بنایا ہوا ہے اور شیعوں نے کالے عمامہ کو اسی طرح غیر مقلدین نے کالے عمامہ کو خاص کر رکھا ہے۔
مجمع الزوائد میں ہے کہ عطاء بن ابی رباح فرماتے ہیں کہ میں عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کے ساتھ تھا ایک نوجوان نے ان سے عمامہ کے شملہ کے بارے میں پوچھاتو فرمایاکہ میں اس کوجانتا ہوں تم کو صحیح بتاؤں گا فرمایا ’’میں حضور ﷺ کی مسجد میں تھا اور حضور ﷺ کے ساتھ یہ صحابہ بھی تھے حضرت ابو بکر، عمر، عثمان، علی، ابن مسعود، ابن عوف، ابوسعید خدری رضی اللہ عنہم ایک انصاری نوجوان آیا حضرت نبی کریم ﷺ کوسلام کرکے بیٹھ گیا حضور ﷺ اس کی طرف متوجہ ہوئے پھر عبدالرحمن بن عوف کو حکم فرمایا کہ ایک دستہ جانے والا ہے اس کے لیے تیارہوجاؤ صبح کوحضرت عبدالرحمن بن عوف آگئے کالے رنگ کا سوتی عمامہ باندھے ہوئے تھے حضور ﷺ, نے ان کو اپنے قریب کیا ان کاعمامہ کھولااور سفید رنگ کا عمامہ باندھا اور پیچھے چار انگل یا اس کے قریب لٹکایا۔ اور فرمایا ابن عوف اس طرح عمامہ باندھا کرو۔یہ واضح اوربہتر ہے‘‘۔
مجمع الزوائد 5 ص123
نوٹ۔پگڑی کی سنت غیر مقلدین میں بالاتفاق متروک ہے۔
الزام نمبر 5:
عقیدہ حاضر وناظراور دیوبندی:
آپ ﷺ مجلس میلاد میں حاضر ہوتے ہیں خواہ کئی مجالس بیک وقت مختلف مقامات پر ہورہی ہوں۔ رہا یہ شبہ کہ آپ کوکیسے علم ہوتا ہے یا کئی جگہ کیسے ایک وقت میں تشریف فرما تے ہیں یہ شبہ ضعیف ہے۔
کلیات امدادیہ ص79
موازنہ کیجئے صفحہ 22
جواب:
حاضر ناظر کے بارے میں پہلے گذر چکا ہے کہ غیر مقلدین نبی کر یم ﷺکو حاضر مانتے ہیں۔ جس کاخلاصہ یہ ہے
نواب صدیق حسن خان نے لکھا ہے :
بعض عارفین کاقول ہے تشہد میں ایھا النبی کا یہ خطاب ممکنات اور موجودات کی ذات میں حقیقت محمدیہ کے سرایت کرنے کے اعتبار سے ہے چنانچہ حضور اکرم ﷺ نمازپڑھنے والوں کی ذات میں موجود اورحاضر ہوتے ہیں۔
مسک الختام ص244
نوٹ علماء دیوبند کے نزدیک عقیدہ حاضر ناظر کی کوئی اصل نہیں۔
دیکھیے آپ کے مسائل اور ان کاحل 10ص220، تبرید النواظر فی تحقیق مسئلہ حاضر و ناظر
الزام نمبر 6:
اکابر دیوبند کاکھلا شرک:
یارسول کبریا فریاد ہے، یا محمد ﷺ فریاد ہے۔ آپ کی امداد ہومیر ایا نبی حال ابتر ہےفر یاد ہے سخت مشکل میں پھنسا ہوں آج کل اے میرے مشکل کشا فریاد ہے۔
کلیات ص91
موازنہ کیجئے صفحہ22
جواب:
شاہ صاحب نے اگرچہ علماء دیوبند پر مشرک ہونے کاالزام لگایا ہے حالانکہ اس معاملہ میں بریلویوں کا جتنا رد علماء دیوبند نے کیا ہے اتنا کسی نے نہیں کیا۔ ہماری کتب اس پر گواہ ہیں۔ ان اشعار میں جو الفاظ استعمال کیے گئے ہیں وہ لغوی معنوں میں ہیں۔ علمائے دیوبند کا عقیدہ درست ہے، بریلویوں والا نہیں۔ شاہ صاحب سے التماس ہے کہ علماء دیوبند پر الزام لگانے سے پہلے اپنے گریبان میں جھانکیں۔ نواب صدیق حسن خان نے اپنے ایک طویل قصیدے میں نبی کریم ﷺ کو مخاطب کر کے کہا ہے
یا سیدی یا عروتی یا وسیلتی، ویا عدتی فی شدہ ورخائی

قد جئت مابک ضارعا متفرعا ،مثاوھا بنفس

الصدار

مالی وأراک متغاث فارحمنی یا رحمۃ للعلمین بکائی

 
ترجمہ: اے میرے آقا اے میرے سہارے اور وسیلے اے خوش حالی اور بد حالی میں روتا گڑگڑاتا اور ٹھنڈی آہیں بھر تا ہوا آپ کے در پر آیا ہوں آپ کے علاوہ کوئی فریاد رس نہیں سو اے رحمۃ للعالمین میری گریہ زاری پر رحم فرمائیں۔
ہدیۃ المہدی ص24
الزام نمبر 7:
شرکیہ وسیلہ اور دیوبندی:
دور کر دل سے حجاب جہل وغفلت اے میرے رب۔ کھول دے دل میں در علم حقیقت میرے اے رب ہادی عالم علی رضی اللہ عنہ مشکل کشا کے واسطے۔
کلیات ص103
زکریا صاحب فرماتے ہیں کہ انبیا ء کرام علیہم السلام کا خون پیشاب قضائے حاجت پاک ہے اور اس کاکھانا پینا جائز ہے۔
فضائل اعمال حکایات صحابہ رضی اللہ عنہم 167
نوٹ: زکریاصاحب نے ابن زبیر رضی اللہ عنہ سے خون پینے والے قصہ میں ذکر کیا ہے کہ حضور کے فضلات پاخانہ پیشاب وغیرہ سب پاک ہیں اس لیے اس میں کوئی اشکال نہیں یعنی اس کے کھانے پینے میں اشکال نہیں۔
(موازنہ کیجئے صفحہ 22
جواب:
شاہ صاحب نے عنوان باندھا ہے ’’شرکیہ وسیلہ اور دیوبندی ‘‘ اس کے بعد کلیات کی عبارت کاحوالہ دیا ہے جس کے ذریعے اپنے مدعا کوثابت کرنے کی کوشش کی ہے ان کے اکابرین کی وسیلہ کے بارے میں کیا رائے ہے تفصیلات ملاحظہ فرمائیں
وسیلہ اور غیر مقلدین:
علامہ نواب وحید الزمان لکھتے ہیں:
رواہ ابن الجوزی من اصحابنا وقال اویس قرنی بعد وفات عمر یا عمراہ یاعمراہ یاعمراہ )رواہ ابن حبان( قال سیدی فی بعض توالیفہ: قبلہ دیں مددی کعبہ ایمان مددی ابن قیم مددی قاضی شوکانی مددی
ہدیۃالمہدی ص23
ہمارے اصحاب میں سے ابن جوزی رحمہ اللہ تعالی نے روایت بیان کی ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے انتقال پر حضرت اویس قرنی نے کہا یاعمراہ یا عمراہ یا عمراہ۔ رواہ ابن حبان میرے سید نے بعض تالیف میں کہا ہے کہ: اے میرے دین کے قبلہ مدد کر،اے میرے ایمان کے کعبہ مددکر،اے ابن قیم مددکر، اے قاضی شوکانی مددکر۔
نواب صاحب ابن قیم اور قاضی شوکانی کے فوت ہونے کے باوجود اور ان سے دوری کے باوجود ان سے مددطلب کر رہے ہیں۔
غیر مقلدین کے ایک عالم ابو المکارم محمد علی بن علامہ فیض اللہ اپنی کتا ب الجوابات الفاخرہ میں فرماتے ہیں
”یارسول اللہ ‘‘ کہہ کر اگر آپ ﷺ کووسیلہ بنانا مقصود ہے تو جائز ہے، اسی طرح کوئی کہے یارسول اللہ میں فلاں مشکل سے چھٹکاراحاصل کرنے میں آپ کو اللہ کی طرف وسیلہ بناتا ہوں تو بھی جائز ہے کیونکہ’’ یا محمد انی قد توجہت بک الی ربیوالی حدیث سے مشکل میں نبی کریم ﷺ سے توسل کاجواز ثابت ہوتا ہے۔
الجوابات الفاخرہ ص65
مزید تفصیلات کے لیے ہدیۃ المہدی ص47،49نزول الابرار ص5،منصب امامت صفحہ73وغیرہ کامطالعہ کریں۔
شاہ صاحب نے عنوان قائم کیا ہے ’’شرکیہ وسیلہ اور دیوبندی ‘‘لیکن آخر میں حضور ﷺ کاتذکرہ ہے غور طلب بات یہ ہے کہ ان دونوں کا آخر آپس میں کیا ربط ہے۔ لگتا ہے شاہ صاحب کادماغ کام نہیں کرتا اگرکر تا ہوتا تو فضلات انبیاء علیہم السلام کا تذکرہ شرکیہ وسیلہ میں نہ کرتے بہرحال اب ذکر کر ہی دیا تو جواب دینا ضروری ہے ورنہ شاہ صاحب عوام الناس کو دھوکہ دینے کی کوشش کرتے کہ علما ء دیوبند کے پاس اس کاکوئی جواب نہیں۔
ابن زبیر رضی اللہ عنہ کے خون پینے کا واقعہ:
شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد زکریا رحمہ اللہ تعالی نے ابن زبیر کاواقعہ ذکرکرنے کے بعد فائدے میں لکھا ہے کہ حضور ﷺ کے فضلات، پاخانہ پیشاب وغیرہ سب پاک ہیں اس میں کوئی اشکال نہیں۔
شاہ صاحب نے قیاس مع الفارق کرتے ہوئے علماء دیوبند پر الزام لگایا ہے کہ ان کے نزدیک حضور ﷺ کے فضلات وغیرہ کھانے میں کوئی اشکال نہیں حالانکہ فضائل اعمال میں خون پینے کاذکر ہے نہ فضلات کھانے کا۔ حضورﷺ نے ابن زبیر رضی اللہ عنہ کے خون پینے پر کوئی اعتراض نہیں کیامگر آج چودہ سو سال کے بعد جب مولانامحمد زکریا رحمہ اللہ تعالی نے اس کوذکر کیا تو اس واقعہ پر شاہ صاحب کواعتراض کرنے کا موقع مل گیا۔ اب ہم حضور ﷺکی بات مانیں یا شاہ صاحب کی؟
فضلات انبیاء کرام کے بارے میں محدثین کی رائے:
حافظ جلال الدین سیوطیؒ نے اپنی کتاب خصائص الکبریٰ میں آنحضرت ﷺ کی امتیازی خصوصیات کوذکر کیا ہے۔اور آنخضرت ﷺ کے بول وبراز کے متعلق کئی احادیث ذکر کی ہیں جن میں سے ایک حدیث مع ترجمہ ذکر کی جاتی ہے
اخرج ابو یعلی والحاکم والدار قطنی و الطبرانی وابونعیم عن ام ایمن قالت قام النبیﷺ من اللیل الی فخارۃ فبال فیہا فقمت من اللیل واناعطشانہ فشربت مافیہافلمااصبح اخبرتہ فضحک وقال اماانک لایتجعن بطنک ابدًا۔لفظ ابی یعلی انک لن تشتکی بطنک بعد یومک ہذاابدًا۔
خصائص الکبر ی 2ص252
ترجمہ:
ابو یعلیٰ، حاکم، دارقطنی طبرانی اور ابونعیم نے سند کے ساتھ حضرت ام ایمن رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے کہ آنحضرتﷺ نے رات کے وقت مٹی کے پکے ہوئے ایک برتن میں پیشاب کیا پس میں رات کواٹھی مجھے پیاس لگ رہی تھی میں نے وہ پی لیا صبح ہوئی تو میں نے آپ کو بتا یاپس آنحضرت ﷺ مسکرائے اورفرمایا تجھے پیٹ کی تکلیف کبھی نہ ہو گی اور ابو یعلی کی روایت میں ہے کہ آج کے بعد تم پیٹ کی تکلیف کی شکایت نہ کرو گی۔
فضلات نبی ﷺ کے بارے میں اکابرامت کافیصلہ:
اکابر امت اور ائمہ اسلام کاآنخضرت ﷺکے فضلات کے متعلق عقیدہ ہے کہ وہ پاک ہیں اور آنحضرت ﷺ کے خصائص میں سے ہے۔
وقد تکاثرت الادلۃ علی طہارۃ فضلاتہ وعند الائمۃ ذلک من خصائصہ فلایلتفت الی ما وقع فی کتب کثیر من الشافعیۃ مما یخالف ذلک فقد استقر الامر بین ائمتہم علی القول بالطہارۃ۔
فتح الباری باب الماء الذی یغسل بہ شعر الانسان ص272
ترجمہ: آنخصرت ﷺ کے فضلات کے پاک ہونے کے دلائل حد کثرت کو پہنچے ہوئے ہیں اور ائمہ نے اس کوآپ ﷺ کی خصوصیات میں شمار کیا ہے۔ پس بہت سے شافعیہ کی کتابوں میں جو اس کے خلاف پایا جاتا ہے وہ لائق التفات نہیں کیونکہ ان کے ائمہ کے درمیان طہارت کے قول پر معاملہ آن ٹھہرا ہے۔
حدیث شرب المرأۃ البول صحیح رواہ الدار قطنی وقال ہو صحیح وہو کان فی الاحتجاج لکل الفضلات قیاسیًا۔
ترجمہ: حدیث شر ب المرأۃ البول یعنی عورت کا(نبی پاک ﷺ کے) پیشاپ پینے والاواقعہ صحیح ہے امام دار قطنی نے اس کوروایت کرنے کے بعد صحیح کہا ہے اور یہ حدیث تمام فضلات کی طہارت کے استدلال کے لیے کافی ہے۔
محدث العصر مولانا علامہ محمد یوسف بنوری لکھتے ہیں:
وقد صرح اہل المذاہب الاربعۃ بطہارۃ فضلات الانبیاء……الخ۔
معارف السنن1 ص98
ترجمہ: مذاہب اربعہ نے فضلات کے پاک ہونے کی تصریح کی ہے۔
ایک اہم نکتہ:
اس مسئلہ کو علامہ محمد یوسف لدھیانوی شہید رحمہ اللہ تعالی نے ایک نکتہ اور چندمثالوں سے واضح کیا ہے تا کہ عام فہم لوگوں کو سمجھنے میں آسانی ہو۔ لکھتے ہیں
اب ایک نکتہ محض تبرعاً لکھتا ہوں جس سے یہ مسئلہ قریب الفہم ہوجائے گا۔ حق تعالی شانہ کے مخلوق میں عجائبات ہیں جن کاادراک بھی ہم لوگوں کے لیے مشکل ہے۔ اس نے اپنی قدرت کاملہ اور حکمت بالغہ سے بعض اجسام میں ایسی محیر العقول خصوصیات رکھی ہیں جو دوسر ے اجسام میں نہیں پائی جاتی۔
وہ ایک کیڑے کے لعاب سے ریشم پیدا کرتا ہے، شہد کی مکھی کے فضلات سے شہد جیسی نعمت ایجاد کرتا ہے اور پہاڑی بکری (ہرن)کے خون کونافہ میں جمع کر کے مشک بناتا ہے اگر اس نے اپنی قدرت سے حضرات انبیا علیہم السلام کے اجسام مقدسہ میں ایسی خصوصیات رکھی ہوں کہ غذا ان کے ابدان طیبہ سے تحلیل ہونے کے بعد نجس نہ ہوبلکہ جو فضلات ان کے ابدان میں پیدا ہوں وہ پاک ہوں تو کچھ تعجب نہیں۔
اہل جنت کے بارے میں سبھی جانتے ہیں کہ کھانے پینے کے بعد ان کوبول وبراز کی ضرورت نہ ہوگی خوشبودار ڈکار سے سب کھایا پیا ہضم ہوجائے گا اوربدن کے فضلات خوشبودار پسینے میں تحلیل ہوجائیں گے۔ جو خصوصیات کہ اہل جنت کے اجسام کو وہاں حاصل ہوں گی اگر حق تعالیٰ شانہ حضرات انبیاء علیہم السلام کے پاک اجسام کووہ خصوصیات دنیا ہی میں عطا کردے تو بجا ہے۔پھر جب کہ احادیث میں اس کے دلائل بکثرت موجود ہیں جیسا کہ اوپر حافظ ابن حجر رحمہ اللہ تعالی کے کلام میں گذر چکا تو انبیا ء علیہم السلام کے اجسام کواپنے اوپر قیا س کر کے ان کی خصوصیات کاانکار کر دینا یا ان کے تسلیم کرنے میں تأمل کرنا صحیح نہیں۔
مولانا رومی لکھتے ہیں :
ایں خورد گردد پلیدی ذو خدا
وآں خورد گردد ہمہ نور خدا
ماخوذ آپ کے مسائل اور ان کاحل 9ص126،تا 137
غیرمقلدین کانجس اور غلیظ عقیدہ:
غیر مقلدین کے نزدیک نبی پاک ﷺ کابول ناپاک اور نجس ہے بلکہ گمراہ کن خر افات پر مبنی ہے کیونکہ شاہ صا حب نے اس مسئلہ کوگمراہ کن اور خرافات پر مبنی عقائد کے عنوان کے تحت ذکر کیا ہے۔ حالانکہ مذاہب ائمہ اربعہ کے فقہاء پاک مانتے ہیں اب شاہ صاحب کے پیشواؤں کی رائے ملاحظہ فرمائیں جن کے نزدیک تمام جانوروں کاپیشاب و پاخانہ پاک ہے۔
عبداللہ روپڑی کی رائے:
سب سے پہلے عبد اللہ روپڑی کی رائے ملاحظہ فرمائیں۔ جنہوں نے آپ ﷺ کے فضلات کوناپا ک کہا ہے اس کے بعد غیر مقلدین کے دیگر پیشواؤں کی رائے ملاحظہ فرمائیں جنہوں نے تمام جانوروں یااکثر جانوروں کے فضلات کوپاک قرار دیا ہے۔
عبداﷲ روپڑی لکھتے ہیں:
اس روایت سے آپ ﷺ کے پیشاب کاپاک ہوناثابت نہیں ہوتا کیونکہ غلطی سے پیا گیا ہے۔ رہاآپ ﷺ کایہ فرمان کہ تیرے پیٹ میں درد نہیں ہوگا یہ علاج ہے بعض نجس چیز بھی علاج بن جاتی ہے اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ چونکہ اس سے یہ رسول ﷺ کی خدمت کی وجہ سے ہوئی تھی اس لیے اس نجس چیز کو اس کے لیے شفا ء بنا دیا بہر حال اس فعل کوطہارت کی دلیل بنانا غلط ہے۔
فتاویٰ اہل حدیث 1ص 251
عبداللہ روپڑی کی عبارت سے معلوم ہوا کہ ان کے نزدیک انبیا ء کرام علیہم السلام کے فضلات ناپاک اور نجس ہیں اب غیر مقلدین کے پیشواؤ ں کی وہ عبارت ملاحظہ فرمائیں جس میں تمام جانو ر اور ان کے بول وبراز کوپاک اور طاہر لکھا ہے بطور دواد ارو ان کاکھاناجائز لکھا ہے۔ ان کے نزدیک انسانی منی (جو کہ غلیظ ترین ہے جس کے خروج سے غسل فرض ہوجاتاہے)پاک ہے اور ایک قول کے مطابق کھانابھی جائز ہے۔ اب چند حوالے ملاحظہ فرمائیں۔
ماکو ل اللحم کابو ل وبراز پاک ہے:
فتاوی ستاریہ میں لکھا ہے کہ ماکول اللحم یعنی وہ جانور جن کاگوشت کھایا جاتا ہے کابول براز پاک ہے اور جس کپڑے میں لگا ہوا ہواس میں نمازپڑھنی درست ہے۔ طبعی کراہت شئے دیگر ہے اگر دھو لیا جائے تو بہتر ہے ورنہ شرعاًکوئی قباحت نہیں خودرسول اللہ ﷺ مرابض الغنم یعنی بکریوں کے باڑے میں نماز پڑھا کرتے تھے۔نیز بطور ادویات کے استعمال درست ہے چنانچہ آ پ نے چند اصحاب کو اونٹنیوں کا دودھ وپیشاب پینے کاحکم فرمایا ہے۔
فتاوی ستاریہ 1ص63
دیگر چند حوالے:
1 تمام جانوروں کاپیشاب وپاخانہ پاک ہے۔
بدور الاھلہ ص15
2کتے کاجھوٹھا نا پاک ہے لیکن خود کتا اور اس کاگوشت وغیرہ پاک ہے۔
بدورالاھلہ ص16
3 خنزیر پاک ہے اگرچہ اس کاکھاناحرام ہے۔
بدورالاھلہ ص16
4کتا،خنزیر، دم مسفوح، مردار، سب پاک ہے۔
عرف الجادی ص10،بدور الاھلہ ص 15
5) نجاست خور جانوروں کابول وبراز پاک ہے۔
بدروالاھلہ ص15
6) جانوروں اوربچوں کاپیشاب خشک ہونے سے پاک ہوجاتا ہے۔
بدور الاھلہ 19
7) حلال جانوروں کاپیشاب پاک ہے۔
کنز الحقائق ص13
8) منی اوررطوبت فرج پاک ہے۔
کنز الحقائق ص16
9) اہل حدیث کے نزدیک منی پاک ہے۔
عرف الجادی ص10،فتاوی نذیریہ 1ص335
10) کتے اورخنزیر کے علاوہ تمام جانوروں کی منی پاک ہے۔ فقہ محمدیہ ص41
11) (مرداور عورت ) دونوں کی منی پاک ہے اور جب کہ منی پاک ہے تو آیا اس کاکھانابھی جائز ہے یا نہیں اس میں دوقول ہیں یعنی ایک قول میں کھانا جائز ہے۔
فقہ محمدیہ ص41
12) خونِ حیض کے علاوہ تمام خون، منی، رطوبت فرج، خمر اورحلال جانوروں کاپیشاب یہ سب چیزیں پاک ہیں۔
نزل الابرار 1ص49
13) اہل حدیث کے نزدیک راجح بات یہ ہے کہ کتے اورخنزیر کالعاب پاک ہے۔
نزل الابرار ا ص49
اہل حدیث کاراجح مذہب یہ ہے کہ کتے کاپیشاب وپاخانہ پاک ہے کیونکہ حق بات یہ ہے کہ اس کے نجس ہونے کی کوئی دلیل نہیں۔
نزل الابرار 1ص50
15) شیر کی چربی پاک ہے۔
فتاوی ثنائیہ 2ص118
16) حلال جانوروں کے پیشاب کی حلت کا عقیدہ رکھیے۔
فتاوی ثنائیہ 2ص67
ان حوالہ جات پر غور کرنے سے معلوم ہوتاہے کہ غیر مقلدین کے نزدیک خنزیر کتا اور تمام جانوروں کا پیشاب وپاخانہ اسی طرح مرد، عورت کی منی اور خنزیر وکتے کے علاوہ تمام جانوروں کی منی پاک ہے۔
افسوس کی بات ہے کہ ان تمام نجاسات کوتو غیرمقلدین پاک سمجھتے ہیں لیکن آپ ﷺ کے فضلات کو ناپاک کہتے ہوئے شرم نہیں آتی۔
الزام نمبر 8:
توہین حدیث اور دیوبندی:
مذہب کے خلاف حدیث مل جائے تو اس کوچھوڑدینامقلد پر فرض ہے۔
تقلید کی شرعی حیثیت تقی عثمانی ص87
مقلد کے لیے قرآن وسنت اجماع وقیاس دلیل نہیں بلکہ قول امام اس کی دلیل ہوجاتی ہے۔
ارشاد القاری مفتی رشید احمد ص417ص288
ہرآیت یا حدیث نبوی جو ہمارے اماموں کے خلاف ہوگی وہ منسوخ یا قابل تاویل ہوگی۔
اصول کرخی، ص12
محمود الحسن صاحب رقمطراز ہیں کہ آپ ہم سے وجوب تقلید کی دلیل کے طالب ہیں ہم آپ سے وجوب اتباع محمدی ﷺ ووجوب اتباعِ قرآنی کی سند کے طالب ہیں۔
ادلہ کاملہ ص78
احناف کے نزدیک قرآن وسنت دلیل نہیں قابل تاویل ہے اور اقوال ائمہ ناقابل تاویل ہیں۔
مفتی رشید احمد صاحب ارشادالقاری ص288پر لکھتے ہیں:
عبار ت فقہیہ چونکہ ناقابل تاویل ہیں۔
موازنہ کیجئے صفحہ 22۔23
جواب:
شاہ صاحب نے لوگوں سے اصل حقائق چھپانے کے لیے وہ عبارات پیش کی ہیں جن کوپڑھ کر عوام الناس یہ سمجھیں کہ حنفیوں کے نزدیک قرآن وحدیث کوئی چیز نہیں اصل چیز ائمہ کی تقلید ہے حالانکہ حنفیوں کایہ نظریہ نہیں ہے بلکہ احناف کانظریہ ہے کہ متبحر عالم اگر امام ابوحنیفہ یا ان کے کسی مقلد کی کوئی بات قرآن وحدیث کے خلاف سمجھے تو وہ قرآن وحدیث کومقدم رکھے اور قرآن وحدیث کو ترجیح دے نہ کہ ائمہ کے اقوال کو۔ لیکن عوام الناس اور کم علم والوں کو اس کی قطعاًاجازت نہیں کہ وہ بغیر کسی عالم کی تحقیق کے اپنی مرضی سے ائمہ کے اقوال کوچھوڑ دے اس کے لیے ائمہ کی تقلید ضروری ہے۔اس موضوع پر چند حوالے ملاحظہ فرمائیں
مولانامفتی محمد تقی عثمانی کی رائے:
شیخ الاسلام حضرت مولانا مفتی محمد تقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم نے اپنی کتاب تقلید کی شرعی حیثیت میں ص85تا 144پر اس موضوع پر کافی وشافی بحث فرمائی ہے۔ اس میں سے دومقام ملاحظہ فرمائیں تاکہ شاہ صاحب کی کذب بیانی سے بچ کے صراط مستقیم پر چلنے میں آسانی ہو۔
مفتی تقی عثمانی ص104 پر لکھتے ہیں:
بہر حال علماء اصول کی مذکورہ بالاتصریحات کی روشنی میں ایک متبحر عالم اگر کسی مسئلے کے تمام پہلوؤں اور ان کے دلائل کا احاطہ کرنے کے بعد کم از کم اس مسئلہ میں اجتہاد کے درجہ تک پہنچ گیا ہو خواہ پوری شریعت میں مجتہد نہ ہو )تو وہ فیصلہ کرسکتا ہے کہ میرے امام مجتہد کامسلک فلاں حدیث کے خلاف ہے ایسے موقع پر اس کے لیے ضروری ہوگا کہ وہ امام کے قول کو چھوڑ کر حدیث پر عمل کرے۔
مولانارشید احمد گنگوہی رحمہ اللہ تعالی کی رائے:
فقیہ العصر حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی قدس سرہ تحریر فرماتے ہیں:
الغرض بعد ثبوت اس امر کے کہ یہ مسئلہ اپنے امام کاخلاف کتاب وسنت کے ہے ترک کرنا ہرمؤمن کو لازم ہے۔ اورکوئی بعد وضوح اس امر کے اس کامنکر نہیں مگر عوام کو یہ تحقیق کیونکرہوسکتی ہے۔
سبیل الرشاد از حضرت گنگوہی رحمہ اللہ تعالی ص31مطبوعہ دہلی، تقلید کی شرعی حیثیت ص104
مولانا اشر ف علی تھانوی رحمہ اللہ تعالی کی رائے:
مفتی تقی عثمانی صاحب مولانااشرف علی تھانو ی رحمہ اللہ تعالی کے حوالے سے لکھتے ہیں:
اور اس جانب مرجوح میں گنجائش عمل نہیں بلکہ ترک واجب یا ارتکاب امر ناجائز لازم آتا ہے۔ اور بجز قیا س کے اس پر کوئی دلیل نہیں پائی جاتی اور جانب راجح میں حدیث صریح موجود ہے۔ اس وقت بلاتردد حدیث پر عمل کرنا واجب ہوگا۔ اور اس مسئلے میں کسی طرح تقلید جائز نہ ہوگی۔ کیونکہ اصل دین قرآن وحدیث ہیں اور تقلید سے بھی یہی مقصود ہے کہ قرآن وحدیث پرسہولت وسلامتی سے عمل ہوجب (کسی مسئلہ میں ) دونوں میں موافقت نہ رہی تو قرآن وحدیث پر عمل ہوگا ایسی حالت میں اسی پرجمے رہنا ہی وہ تقلید ہے جس کی مذمت قرآن وحدیث اور اقوال علماء میں آتی ہے۔
تقلید کی شرعی حیثیت ص105، 106
مفتی تقی عثمانی صاحب ایک اور مقام پرلکھتے ہیں:
بہر حال مذکور ہ بالاشرائط اور تفصیلات کوپیش نظر رکھتے ہوئے ایک متبحر عالم کسی خاص مسئلے میں اپنے ان امام کے قو ل کو صحیح وصریح حدیث کی بنیاد پر ترک کرسکتا ہے۔ لیکن اس طرح جزوی طور پر امام سے اختلاف کرنے کے باوجود مجموعی طور پر اسے مقلد ہی کہا اورسمجھا جاتا ہے۔
چنانچہ بہت سے فقہاء حنفیہ رحمہم اللہ نے اسی بنا پر امام بوحنیفہ رحمہ اللہ تعالی کے قول کو ترک کر کے دوسرے ائمہ کے قول پر فتوی دیا ہے۔
1) مثلاًانگور کی شراب کے علاوہ دوسری نشہ آوراشیا کو اتنا کم پینا جس سے نشہ نہ ہوامام ابو حنیفہ رحمہ اللہ تعالی کے نزدیک قوت حاصل کرنے کے لیے جائز ہے لیکن فقہا ء حنفیہ نے اس مسئلے میں امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ تعالی کے قول کو چھوڑ کر جمہور کا قول اختیار کیا ہے۔
2) اسی طرح مزارعت امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ تعالی کے نزدیک ناجائز ہے۔ لیکن فقہاء حنفیہ نے امام صاحب رحمہ اللہ تعالی کے مسلک کو چھوڑ کر متناسب حصہ پیداوار کی مزارعت کو جائز قرار دیا ہے۔
یہ مثالیں تو ان مسائل کی ہیں جن پر تمام متأخرین فقہاء حنفیہ رحمہ اللہ تعالی امام صاحب کے قول کوترک کرنے پر متفق ہوگئے اور ایسی مثالیں تو بہت سی ہیں جن میں بعض فقہا ء نے انفرادی طور پر کسی حدیث کی وجہ سے امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ تعالی کے قول کی مخالفت کی ہے۔
تقلید کی شرعی حیثیت ص107، 108
مذکورہ بالاحوالہ جات سے روزِ روشن کی طرح واضح ہوگیا کہ شاہ صاحب کا علماء دیوبند پر توہین حدیث کا الزام بے بنیاد اور غلط ہے۔
خود غلط، املا غلط، انشاء غلط
دیکھیے ہوتا ہے اب کیا کیا غلط
شاہ صاحب کے گھر کاحوالہ:
اب تک جتنے بھی حوالے نقل کیے گئے ہیں ان کی نسبت مقلدین کے علماء کی طرف ہے۔ اب غیر مقلدین کے عالم کی رائے ملاحظہ فرمائیں اورشاہ صاحب خود بھی دھوکہ سے نکل جائیں اور عوام النا س کوگمراہ نہ کریں۔
مشہور ومعروف غیر مقلد مولوی محمد جونا گڑھی صاحب لکھتے ہیں کہ’’شامی‘‘ میں ہے:
اذا صح الحدیث وکان علی خلاف المذہب عمل بالحدیث ویکون ذلک مذہبہ ولایخرج مقلدہ عن کونہ حنیفابالعمل بہ فقد صح عنہ انہ قال اذا صح الحدیث فہومذہبی وقد حکی ذلک ابن عبدالبر عن ابی حنیفۃ وغیرہ من الائمہ۔
یعنی جب کسی مقلد کوصحیح حدیث مل جائے اور وہ اس کے مذہب کے خلاف تو اسے چاہیے کہ حدیث پر عمل کرے اور اسی کواپنا مذہب سمجھے کوئی حنفی مذہب مقلد ایسا کرنے سے حنفی اور مقلد ہونے سے خارج نہیں ہوجائے گا۔ اس لیے کہ حضرت امام صاحب کا یہ قول حجت سے ثابت ہوچکا ہے کہ آپ نے فرمایاجو صحیح حدیث میں ہووہی میرا مذہب ہے اور یہی قول دوسرے اماموں کابھی ہے۔
طریق محمدی ص 183
نوٹ: یہ صرف متبحر عالم کے لیے ہے نہ کہ عوام الناس اور کم علم حضرات کے لیے تفصیل پہلے گذر چکی ہے۔
علامہ خطیب بغدادی لکھتے ہیں:
اما یسوغ لہ التقلید فہو العامی الذی لایعرف طرق الاحکام الشرعیۃ فیجوز لہ ان یقلدعالمایعمل بقولہ…ولانہ لیس من اہل الاجتہاد فکان فرضہ التقلید کتقلید الاعمی فی القبلۃ فانہ لمالم یکن معہ الۃ الاجتہاد فی القبلۃ کان علیہ تقلید البصیر فیہا۔
الفقہ والمتفقہ صفحہ 68
ترجمہ: رہی یہ بات کہ تقلید کس کے لیے جائز ہے ؟سو وہ عامی ہے جو احکام شرعیہ کے طریقوں سے واقف نہیں یعنی مجتہد نہیں لہٰذا اس کے لیے یہ ہے کہ وہ کسی عالم کی تقلید کرے اور اس کے قول پر عمل پیرا ہو …آگے قرآن وحدیث سے اس کے دلائل بیان کرنے کے بعدلکھتے ہیں نیز اس لیے کہ وہ (عامی) اجتہاد کا اہل نہیں ہے لہذا اس کافرض یہ ہے کہ وہ بالکل اس طرح تقلیدکرے جیسے ایک نابینا قبلے میں کسی آنکھ والے کی تقلید کرتا ہے اس لیے کہ جب اس کے پاس کوئی ایسا ذریعہ نہیں ہے جس سے وہ اپنی ذاتی کوشش کے ذریعے قبلہ کا رخ معلوم کر سکے تو اس پر واجب ہے کہ کسی آنکھ والے کی تقلید کرے۔
غیرمقلدین کی قرآن وسنت سے بغاوت:
غیر مقلدین اگرچہ قرآن وحدیث کادعوی کرتے ہیں لیکن حقیقت سے اس کاکوئی تعلق نہیں۔ جو بھی ان کے چنگل میں پھنس جاتا ہے وہ قرآن وحدیث پر عمل کے قابل نہیں رہتا۔ پھر وہ اندھا اور بہرہ ہوکر اپنی خواہشات پر چلتاہے خواہ اس کی خواہش قرآن وحدیث کے مطابق ہو یانہ ہو۔
بہت سارے مسائل ایسے ہیں جو قرآن وحدیث سے صراحتا ثابت ہیں لیکن غیر مقلدین چونکہ خواہشات کو ترجیح دیتے ہیں اور ضعیف سے ضعیف حدیث کا سہارا لے کر اعلیٰ درجے کی صحیح حدیث کا اس طرح انکار کرتے ہیں کہ یہ بخاری کی حدیث نہیں ہے۔ اپنے غلط مذہب کے لیے اگر غیر مقلدین کواحادیث میں تاویل بھی کرنا پڑے تو اس سے بھی دریغ نہیں کرتے۔ بطور نمونہ چندمثالیں ملاحظہ فرمائیں۔
غیر مقلدین کے نزدیک بغیر طہارت قرآن چھونا جائز ہے:
قرآن کس حالت میں چھونا چاہیے اور کس حالت میں نہیں اس بارے میں قرآن وحدیث کاصریح حکم موجود ہے۔ قرآن کریم میں ہے کہ لایمسہ الاالمطہرون یعنی قرآن نہیں چھوتے مگر پاک لوگ اور اس طرح بےشمار احادیث قرآن کوطہارت کی حالت میں چھونے پردلالت کرتی ہیں۔ ان میں سے دواحادیث ملاحظہ فرمائیں۔
مستدرک حاکم اور دارقطنی میں ہے:
عن حکیم بن حزام رضی ﷲ عنہ ان النبیﷺ لمابعثہ والیا الی الیمن قال لاتمس القرآن الا وانت طاہر
مستدر ک حاکم 3ص485، دار قطنی 1ص122
ترجمہ: حضرت حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ سے مروی ہے نبی کریم ﷺ نے جب انہیں یمن کاحاکم بنا کربھیجا تو فرمایا کہ تم قرآن کونہ چھونا مگر اس حالت میں کہ تم پا ک ہو۔
عن عبدﷲ بن ابی بکر بن حزم ان فی الکتاب الذی کتبہ رسول اللہﷺ لعمروبن حزم ان لایمس القرآن الاطاہر
مؤطا امام مالک ص185
ترجمہ: حضرت عبدا للہ بن ابی بکر بن حزم رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہﷺ نے جوخط عمروبن حزم رضی اللہ عنہ کولکھاتھا اس میں یہ بات تھی کہ قرآن کو پاک آدمی کے سواکوئی نہ چھوئے۔
علامہ وحید الزمان کی رائے:
غیر مقلد عالم نواب وحید الزمان لکھتا ہے :
وقیل لایشترط الطھارۃ لمس المصحف وجزم بہ الشوکانی وغیرہ من اصحابنا۔
ترجمہ: اور کہاگیا ہے کہ قرآن چھونے کے لیے طہارت شرط نہیں اس پر ہمارے اصحاب میں سے شوکانی نے جزم کیا ہے۔
نزل الابرار 1 ص9
نواب نور الحسن کی رائے:
نواب نور الحسن لکھتے ہیں:
اگرچہ محدث رامس مصحف جائز باشد
ترجمہ: اگرچہ بے وضو شخص کے لیے قرآن کوچھونا (ہاتھ لگانا)جائز ہے۔
عر ف الجادی ص15
اکابر غیر مقلدین کی رائے سامنے آنے کے بعد اب ہم قرآن وحدیث کو ترجیح دیں یا ان حضرات کے اقوال کو جوقرآن وحدیث کے محض نام لیوا ہیں ؟
غیر مقلدین کے ہاں نماز کے لیے بدن اور کپڑوں کاپاک ہونا شرط نہیں
نماز کے لیے کپڑوں اور بدن کی پاکی شرط ہے جیساکہ قرآن کریم میں ہے کہ وثیابک فطہر یعنی اپنے کپڑوں کوپاک رکھیے۔ اس آیت میں مطلق کپڑوں کی پاکی کا ذکر ہے یعنی ہرحالت میں اپنے کپڑے پاک رکھیے جب عام حالت میں کپڑوں کاپاک ہونا ضروری ہے تو کیا نماز کے لیے ضروری نہیں ؟اسی طرح کپڑوں اور بدن کی پاکی کے بارے میں حدیث میں صراحت آئی ہے۔
عن عائشۃ رضی اﷲ عنھا انھا قالت قالت فاطمۃ بنت ابی حبیش لرسول ﷲﷺ یا رسول اللہ انی لااطہرا فادع الصلوۃ فقال رسول ﷲﷺ انماذلک عرق ولیس بالحیضۃفاذا اقبلت الحیضۃفاترکی الصلوۃ فاذا ذہب قدرھا فاغسلی عنک الدم وصلی
بخاری 1 ص404
ترجمہ: حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ فاطمہ بنت ابی حبیش نے رسول اللہ ﷺ سے عرض کیا یارسول اللہ میں پاک ہی نہیں ہوتی تو کیامیں نمازپڑھنی چھوڑ دوں۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ یہ رگ سے نکلنے والا خون ہے حیض نہیں ہے اس لیے جب حیض کے دن آئیں تو نماز چھوڑدے اور جب انداز ہ کے مطابق وہ ایا م گذر جائیں تو خون کودھولے اور نماز پڑھ لے۔
قرآن کی آیت میں صراحتاًکپڑوں کی پاکی ذکر ہے اور حدیث میں بدن کی پاکی ذکر ہے لیکن غیر مقلدین کا کہنا ہے کہ بدن پر نجاست لگی ہوئی ہواور کپڑے ناپاک ہوں تونماز پڑھنے میں کوئی مضائقہ نہیں آپ غیر مقلدین کی عبارتیں ملاحظہ فرمائیں جس میں مذکور ہے کہ کپڑوں کی نجاست میں کوئی حرج نہیں۔
نواب صدیق حسن کی رائے:
نواب صدیق حسن لکھتا ہے :
فمن صلی ملابسا لنجاسۃ عامدا فقد اخل بواجب وصلاتہ صحیحۃ۔
الروضۃ الندیہ 1 ص80
ترجمہ: جس شخص نے جان بوجھ کر نجاست لگے ہوئے کپڑوں میں نماز پڑھی اس نے واجب میں خلل ڈالا البتہ نماز اس کی صحیح ہے۔
یہی نوا ب صدیق حسن اپنی کتاب بدور الاھلہ میں لکھتا ہے :
وطہارت محمول وملبوس راشرط صحت نماز گردانیدن کماینبغی نیست۔
بدورالاھلہ ص39
نماز کے صحیح ہونے کے لیے اٹھا ئی ہوئی چیز اور پہنے ہوئے کپڑوں کے پاک ہونے کوشر ط قرار دینا مناسب نہیں۔
نواب نور الحسن کی رائے:
نواب نور الحسن لکھتا ہے :
یادر جامہ ناپاک نماز گزاردونمازش صحیح است۔
عرف الجادی ص22
یعنی جس نے ناپاک کپڑوں میں نماز پڑھی تو اس کی نماز صحیح ہے۔
قرآن وحدیث تو ہمیں نماز کے لیے اور عمومی حالت میں پاکی کاحکم دے رہاہے لیکن غیرمقلدین کے اکابر ان کو کہہ رہے ہیں کہ ناپاکی کی حالت میں نماز پڑھنے میں کوئی حرج نہیں۔
غیرمقلدین کے ہاں عورت کی نماز ستر ڈھانپے بغیر بھی ہوجاتی ہے:
عورت کے لیے نماز میں سترڈھانپنے کاحکم قرآن وحدیث سے ثابت ہے لیکن غیر مقلدین کے نزدیک ستر ڈھانپنا ضروری نہیں۔
قرآن کریم میں ہے:
یابنی آدم خذ وازینتکم عند کل مسجد
یعنی اے بنی آدم تم نمازکے وقت پنی آرائش لے لو۔
اسی طرح حدیث شریف میں ہے:
عن عائشۃ رضی ﷲ عنھا قالت قال رسول اﷲﷺ لاتقبل صلوۃ الحائض الابخمار۔
ترجمہ: حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرماتی ہیں کہ رسول اللہﷺنے فرمایا کہ جوان عورت کی نماز اوڑھنی کے بغیر قبول نہیں ہوتی۔
ترمذی ا ص86،ابوداؤد ا ص94
قرآن وحدیث کے بعد غیر مقلدین کے اکابر کی رائے ملاحظہ فرمائیں۔
نواب صدیق حسن خان لکھتے ہیں:
و آنکہ نماز زن اگرچہ تنہا یاباذن یا شوہر یا دیگر محارم باشد بے ستر تمام عورت صحیح نیست پس غیر مسلم است۔
بدور الاھلہ ص39
ترجمہ: رہی یہ بات کہ عورت کی نماز اگرچہ تنہا ہو یا دوسری عورتوں کے ساتھ ہو شوہر یا دوسرے محارم کے ساتھ ہوتو پورے ستر کے ڈھانپے بغیر نماز نہیں ہوتی تو یہ بات تسلیم نہیں۔
غیر مقلدین کے یہ صرف چند حوالے ذکر کیے گئے ہیں ورنہ یہ حضرات ہر معاملے میں صرف اپنی خواہشات کوترجیح دیتے ہیں نہ کہ قرآن وحدیث کو اب فیصلہ عوام النا س کوکرناہے کہ یہ حضرات غیر مقلدین قرآن وسنت کے باغی ہیں یا نہیں؟
آج کا اہل حدیث، اہل حدیث نہیں :
حقیقت با ت یہی ہے کہ آج جو حضرات اپنے آپ کو اہل حدیث کہتے ہیں ان کاحدیث سے کوئی تعلق نہیں بلکہ ان کاتعلق اپنی خواہشات نفسانیہ سے ہے یہ حضرات نفسانی خواہشات کو پورا کرتے ہیں نہ کہ قرآ ن وحدیث کے حکم کو چنانچہ چند حوالے ملاحظہ فرمائیں
غیر مقلدین کے مناظر پروفیسر حافظ عبداللہ بہاولپوری صاحب ہراہل حدیث کے نام خط میں لکھتے ہیں
آج کا اہل حدیث اہل حدیث نہیں ایسے لوگوں کے لیے اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں فرمایا ہے یا ایھاالذین امَنوامنِوا (نساء )یعنی اے ایمان کادعوی کرنے والو اپنے ایمان کواپنے دعوے کے مطابق درست کرو۔ اللہ اور اس کے رسول ﷺ پرصحیح طریقے سے ایمان لاؤ۔ جیسا کہ ایمان لانے کاحق ہے اے رسمی اور نام کے اہلحدیثو! صحیح معنوں میں اہل حدیث بنو۔ حدیث کے مطابق اپنے عمل اور کردار کودرست کرو۔ اپنی پوری زندگی میں اہلحدیث کے نا م کو نافذ کرو یہ نہ ہوکہ کوئی عمل حدیث کے مطابق کرواور کوئی خلاف۔
کیا کوئی اپنے مقدمات انگریز کی عدالت میں لے جا کر اہلحدیث بن سکتا ہے؟ اہل حدیث حضرات جب قرآن وسنت کادعوی کرتے ہیں تو اپنے مقدمات انگریز کی عدالت میں کیوں لے جاتے ہیں ؟
حافظ عبد اللہ بہاولپوری صاحب لکھتے ہیں:
اب جو اہلحدیث اپنے مقدمات کوانگریزی عدالتوں میں لے جاتا ہے وہ کیسے اہل حدیث رہ سکتا ہے ؟وہ اہل حدیث اہلحدیث نہیں جو کفر کی عدالتوں کارخ کرے اور وہ جماعت اہل حدیث کی جماعت نہیں جو قاضی مقرر کرکے اہل حدیث کے مقدمات کا فیصلہ کرنے کاانتظام نہ کرے اہل حدیثوں نے بہت سی جماعتیں بنائیں اور وہ اپنے مفاد اور اقتدار کی خاطر خوب گھتم گتھا ہوئیں لیکن کسی نے قرآ ن کے اس حکم کوپورا نہیں کیا جیسے وہ اہل حدیث مجرم ہیں جنہوں نے اپنے اپنے کے تحت جماعتیں تو بنائیں لیکن ان جماعتوں میں قرآن وحدیث کانفاذ نہیں کیا۔
رسائل بہاول پوری ص 585
اہل حدیث قرآن وحدیث پر جمع نہیں ہوتے:
گذشتہ عبارت سے ثابت ہوچکا کہ غیر مقلدین اپنے مسائل انگریزوں کی عدالت میں لے جاتے ہیں کیا انگریز کی عدالت میں مقدمات لے جانے والا اپنے آپ کواہل حدیث کہہ سکتا ہے ؟ اس بارے میں غیر مقلدین کی رائے ملاحظہ فرمائیں:
حافظ عبداللہ بہاولپوری صاحب لکھتے ہیں:
اہل حدیثو!آخر تم قرآن وحدیث پرجمع کیوں نہیں ہوتے؟قرآن وحدیث کو اپنا حکم کیوں نہیں مانتے ؟کیا تم اہل حدیث نہیں یا تمہارے پا س قرآن وحدیث نہیں ؟ تم کیوں کفر کی سیاست اپناتے ہو کیوں کفر کی عدالتوں میں جاکر اپنا ایمان کھوتے ہو؟
اہل حدیثو !تم قرآن وحدیث کواپنا حکم بناؤ قرآن وحدیث کی عدالتیں بناؤ ان میں اپنے مقدمات کے فیصلے کرواؤ تاکہ تم کم از کم مسلمان تو رہ جاؤ۔ اہل حدیثو!اب بھی وقت ہے سنبھل جاؤقرآن وحدیث کی طرف رخ کرو پیٹھ نہ کرو قرآن وحدیث پر متحد ہوکر ان کو اپنا حکم بناؤ۔
رسائل بہاولپوری ص600،601
اہل حدیث قرآن وحدیث سے مخلص نہیں :
اہل حدیث اگرچہ قرآن وحدیث کا دعوی کرتے ہیں کیاوہ اپنے اس دعوی میں مخلص ہیں ؟ اس بارے میں غیر مقلدین کے عالم کی رائے ملاحظہ فرمائیں
حافظ عبداللہ بہاولپوری صاحب لکھتے ہیں:
یہی حال اہل حدیث کاہے دعوی اہل حدیث کا کرتے ہیں نام قرآن وحدیث کالیتے ہیں لیکن سیاست جمہوری لڑاتے ہیں اور آپس میں وہ رسہ کشی کرتے ہیں کہ اہل حدیث تباہ ہوتے جارہے ہیں جس سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ بھی سیاسی پارٹیوں کی طرح اپنے اقتدار کے پیچھے لگے ہوئے ہیں قرآن وحدیث سے بھی مخلص نہیں پہلے اہل حدیث کاایک کامل پلیٹ فارم قرآن وحدیث تھا اب ان کے کئی سیاسی پلیٹ فارم ہیں کوئی کچھ کوئی کچھ۔
آج کل اہل حدیث سیا سی زیادہ ہیں دینی کم ا ن کے جنازے سیاسی ان کی افطاریاں سیاسی ان کے خطبے سیاسی ان کے جمعے سیاسی ان کے جلوس سیاسی غر ض یہ کہ آج جمہوری اہل حدیثوں کامذہب سیاست میں گم ہوکر رہ گیا۔
رسائل بہاول پوری ص599
الزام نمبر 9:
دیوبندیوں بریلویوں میں اختلاف نہیں خاص کر عقائد میں اس کااظہار یوسف لدھیانوی سے سنیے
دیوبندی بریلوی اختلاف میرے علم میں نہیں اس لیے کہ یہ دونوں امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ تعالی کے ٹھیٹھ مقلد ہیں عقائد میں دونوں فریق امام ابو الحسن اشعری رحمہ اللہ تعالی اور امام ابو منصور ماتریدی کو امام ومقتداء مانتے ہیں الغرض یہ دونوں فریق اہل السنت والجماعت کے تمام اصول وفروع میں متفق ہیں۔
اختلاف امت صراط مستقیم ص37
نوٹ: امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ تعالی سے عقیدے میں بغاوت کیوں کی ہے؟ ظاہر ہے یاتو امام صاحب کے عقائد درست نہیں یاپھر دیوبندیوں کے درست نہیں۔
(موازنہ کیجئے صفحہ 23
جواب:
شاہ صاحب نے یہاں بھی کذب بیانی سے کام لیا ہے اور لکھا ہے کہ مولانا یوسف لدھیانوی شہید رحمہ اللہ تعالی کے نزدیک دیوبندی اور بریلوی عقائد میں کوئی فرق نہیں حالانکہ اسی کتا ب کاص37تا 127اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ دیوبندیوں اور بریلویوں میں اختلاف موجود ہے۔
مولانا محمد یوسف لدھیانوی شہید رحمہ اللہ تعالی نے اپنی کتاب (آپ کے مسائل اور ان کاحل 10ص219تا 225) میں دار العلوم دیوبند ومظاہرالعلوم سہارنپور کاایک فتوی نقل کیا ہے جس میں واضح الفاظ میں موجو ہے کہ دیوبندی بریلوی اختلاف فروعی نہیں بلکہ اصولی اور اعتقادی ہے۔
دیوبندی بریلوی اختلاف مولانا یوسف لدھیانوی شہید کی نظر میں :
حضرت مولانا یوسف لدھیانوی شہید رحمہ اللہ تعالی ایک سوال کے جواب میں لکھتے ہیں
الجواب ومن اللہ التوفیق حامدا ومصلیا ومسلما امابعد
دوسر ی جماعت کاخیال صحیح ہے کہ دیوبندیوں بریلوں سے اختلاف فروعی نہیں بلکہ اصولی اور اعتقادی بھی ہے۔
اور پہلی جماعت کاخیال صحیح نہیں ہے کہ فریقین کے درمیان فروعی اختلاف ہے اور دونوں فریق اہل السنت والجماعت میں سے ہیں اور مسلک حنفی پر قائم ہیں نیز اشاعر وماتریدیہ کے بیان کردہ عقائد پر قائم ہیں بیعت وارشاد میں بھی دونوں فریق صحیح طریقہ پر موجود ہیں کیونکہ بریلویوں (رضاخانیوں )نے اہل السنت والجماعت کے عقائد میں بھی اضافہ کیا ہے اور ایسے ہی (بعض) فروعی مسائل کوبھی دین کاجز بنایا ہے جن کی فقہ حنفی میں واقعی کوئی اصل نہیں ہے مثلاًچار اصول اور بنیادی عقائد بڑھائے ہیں۔
(1) نورو بشرکامسئلہ (2)علم غیب کامسئلہ (3)حاضر ناظر کامسئلہ (4) مختار کل ہونے کامسئلہ (5)اور فروعی مسائل میں غیراللہ کوپکارنا (6)قبروں پر سجدہ کرنا (7)قبروں کاطواف کرنا (8)غیر اللہ کی منتیں ماننا (9)قبروں پرچڑھاوے چڑھانا (10)میلاد مروجہ اور تعزیہ وغیرہ۔ سینکڑوں باتیں ان کی ایجاد ہیں۔ جو صریح بدعات ہیں۔
آپ کے مسائل اور ان کا حل 10 ص220مولانا یوسف لدھیانوی شہید
عقائد میں بریلوی اشاعری و ماتریدی نہیں :
حضرت مولانامحمد یوسف شہید رحمہ اللہ تعالی لکھتے ہیں:
لفظ اہل السنت والجماعت کااطلاق حضرات اشاعرہ وما تریدیہ پر ہوتا ہے احمد رضا خان بریلوی اور ان کی جماعت کا ان دونوں جماعتوں سے کوئی تعلق نہیں۔ احمد رضا خان جو رسول اللہ ﷺ کے لیے علم غیب کلی مانتے ہیں یا یوں کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ کو سارے اختیارات سپرد کر دیے گئے تھے۔ یہ دونوں باتیں اشاعرہ وماتریدیہ کے یہاں کہیں بھی نہیں نہ کتب عقائد میں کسی نے نقل کی ہیں اور نہ ان کی کتابوں میں ان کا کوئی ذکر ہے۔ یہ دونوں باتیں قرآن وحد یث کے صریح خلاف ہیں یہ سب بریلویوں کی اپنی ایجادیں ہیں اگر کوئی شخص بریلوی فرقہ کواہل السنت والجماعت میں شمار کرتا ہے تو یہ اس کی صریح گمراہی ہے۔
آپ کے مسائل اور ان کاحل ص224،225
نوٹ: یہ کتاب یعنی آپ کے مسائل اور ان کاحل حضرت لدھیانوی شہید کی آخری کتاب ہے۔
دیوبندی بریلوی اختلاف اکا بر غیر مقلدین کی نظر میں :
شاہ صاحب کاکہنا ہے کہ دیوبندی اور بریلوی ایک ہیں اور ان میں کوئی اختلاف نہیں حالانکہ اس حقیقت سے کوئی تعلق نہیں۔ غیر مقلدین کے اکابر کابھی یہی نظریہ ہے۔
پروفیسر محمد مبارک غیر مقلد لکھتا ہے:
مولاناعبد الوھاب صدری نے ا پنی جماعت کانام غرباء اہل حدیث رکھا اس کے بعد آج یہ دعوی کرنا کہ اہل حدیث اور غرباء اہل حدیث ایک جماعت ہے در اصل مغالطہ دینے کے برابر ہے کیونکہ جب دو اسم ہوں تو دونوں علیحدہ علیحدہ جماعت یا شخصیات ذہن میں آتی ہیں مثال کے طور پر احناف دو جماعتوں میں تقسیم ہیں بریلوی اور دیوبندی ان کوکوئی بھی ایک جماعت تسلیم نہیں کرتا۔
آئینہ غرباء اہلحدیث ص13،14
اشاعرہ، ماتریدیہ، امام ابوحنیفہ اور علماء دیوبند کے عقائد ایک ہیں :
شاہ صاحب نے آخر میں نوٹ لگا کر یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے امام ابوحنفیہ رحمہ اللہ تعالی اشاعرہ ما تریدیہ اور علماء دیوبند میں اختلاف ہے حالانکہ کوئی اختلاف نہیں ان سب کے وہی عقائد ہیں جو قرآن وحدیث میں مذکورہیں۔
سوال: اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب یہ قرآن وحدیث کے عقائد ہیں تو پھر یہ ان حضرات کی طرف کیوں منسوب ہوتے ہیں ؟
جواب: اس سوال کاجواب یہ ہے کہ جب بخاری شریف کی تما م احادیث نبی کریم ﷺ کی احادیث ہیں تو یہ کیوں کہاجا تا ہے کہ یہ بخاری کی حدیث ہے۔
جس طرح امام بخاری نے نبی کریم ﷺ کی احادیث مبارکہ کومحنت و کوشش سے جمع کرکے ایک کتاب کی شکل دی۔ اسی طرح امام خواجہ ابو الحسن اسماعیل بن علی الاشعری رحمہ اللہ تعالی اور امام ابومنصور ماتریدی نے اہل السنت والجماعت کے عقائد کو قرآن وحدیث سے استنباط کیا اوران عقائد پر ہونے والے اعتراضات کے دندان شکن جواب دیے اور مخالفین کے رد میں مختلف کتابیں تصنیف کیں۔ اب اگربخاری کی حدیث کو نبی اکرم ﷺ کی طرف منسوب کیاجاسکتاہے تو امام خواجہ ابو الحسن اسماعیل بن الاشعری رحمہ اللہ تعالی اور امام ابومنصور ماتریدی رحمہ اللہ تعالی کے قرآن وحدیث سے استنباط کردہ عقائد کوقرآن و حدیث کے عقائد کیوں نہیں کہاجا سکتا؟
اس موضوع پر علما ء غیرمقلدین ہماری تائید کرتے ہیں کہ علماء دیوبند کے عقائد قرآن وحدیث سے مستنبط ہیں۔ چنانچہ علماء غیر مقلدین کی رائے ملاحظہ فرمائیں۔
مشہور ومعروف غیر مقلد عالم ابراہیم سیالکوٹی لکھتے ہیں
اہل السنت ایک اور اس مقابلے میں اس قدر فرقے پیدا ہوگئے اور ابھی بس نہیں ہوگئی تھی۔ سب کی بناء عقلی شبہات پر تھی اور اہل السنت ہیں کہ ان کے علوم کی طرف کان نہیں دھرتے۔ ائمہ اہل السنت یعنی امام مالک، امام احمد اور امام شافعی رحمہم اللہ وغیرہم نے جوکچھ صحیح روایتوں سے لکھا۔ لیکن چونکہ وہ سب کچھ نقلی یعنی نبی سے صحابہ کی طرف، صحابہ سے تابعین کی طرف اسی طرح یکے بعددیگرے کی طرف منقول ہوا تھا اس لیے اس سے مریضان عقلی یعنی عقلی دلائل ماننے والوں کی تسلی نہیں ہوسکتی تھی آخر خداذوالجلال کو ایک نیاانقلاب منظورہوا۔اور ان سے بھی اس عقلی طریق سے کام لینے کاوقت آپہنچا تو خواجہ ابو الحسن علی الاشعری رحمہ اللہ تعالی جو دوواسطوں سے حضرت ابوموسی اشعری رضی اللہ عنہ صحابی کی اولادسے تھے اپنے استاد ابو علی جبائی معتزلی سے مختلف ہوکر طریق سنت پر آگئے۔
مولانا سیالکوٹی کی یہ بات درست نہیں ہے۔گھمن
چونکہ انہوں نے علوم عقلیہ میں تربیت پائی تھی اور مخالفین کے جواب میں بڑے ماہر تھے اس لیے انہوں نے اہل السنت کے عقائد کو دلائل عقلیہ سے بیان کرنا چاہا اور بہت سی کتابیں بھی تصنیف کیں جن کی تعدادپچیس (25)تک پہنچتی ہے۔ اشعری طریق کی بنیاد نصوص یعنی قرآن وحدیث پرہے چنانچہ خود خواجہ ابو الحسن اشعری رحمہ اللہ تعالی نے اپنی ایک کتاب ’’ الابانہ ‘‘ میں تصریح فرمائی ہے کہ ہم خدائے تعالی عزوجل کی کتاب اور نبی کریم ﷺ کی سنت سے اور نیز اس سے جوصحابہ کرام رضی اللہ عنہم وتابعین عظام رحمہم اللہ اورائمہ حدیث سے مروی ہے تمسک کرتے ہیں۔
(تاریخ اہل حدیث ص104،105)
سیالکوٹی صاحب اسی کتاب میں خواجہ ابو منصورمحمد بن محمود کے بارے میں لکھتے ہیں:
خواجہ ابو الحسن اشعری رحمہ اللہ تعالی کے زمانے ہی میں بمقام ماتریدیہ جو سمر قند کاایک محلہ یا اس کے متصل ایک موضع تھا امام ابومنصور محمد بن محمود پیدا ہوئے یہ دو واسطوں سے قاضی ابو یوسف رحمہ اللہ تعالی اور امام محمد رحمہ اللہ تعالی کے شاگرد تھے انہوں نے قاضی ابو بکر احمد جوز جانی سے علم فقہ حاصل کیاتھا جنہوں نے ابو سلیمان جوز جانی رحمہ اللہ تعالی سے پڑھا تھا اورانہوں نے امام محمد رحمہ اللہ تعالی سے امام ابومنصور ماتریدی رحمہ اللہ تعالی نے بھی خواجہ ابو الحسن اشعری رحمہ اللہ تعالی کی طرح معتزلہ، قرامطہ اور روافض کے رد میں کتابیں لکھیں عقائد کی بنا منصوص یعنی قرآن وحدیث پر رکھی لیکن طریق بیان اور صورت استدلال عقلی میں بعض مسائل میں خواجہ ابو الحسن اشعری رحمہ اللہ تعالی سے اختلاف کیا لہٰذ اان کا طریق الگ قرار پایا اور ماتریدی کے نام سے موسوم ہوا۔
تاریخ اہل حدیث، ص110
اہل السنت کے فرقوں کے اختلاف فروعی ہیں :
اہل السنت کے جتنے بھی فرقے ہیں چاہے ان کا تعلق فقہ حنفی سے ہو یا فقہ شافعی سے یا مالکی اورحنبلی سے ان کاآپس میں اصولی کوئی اختلاف نہیں بلکہ تمام کے تمام اختلاف فروعی ہیں اس بارے میں غیر مقلدین کے اکابر کی رائے ملاحظہ فرمائیں۔
غیر مقلدین کے مشہور ومعروف عالم حافظ محمد گوندلوی صاحب لکھتے ہیں
شیعہ اورسنی میں اختلاف اصولی ہیں اور اہل السنت کے فرقوں میں جو اختلاف پایاجاتا ہے (خواہ وہ اعتقادی ہو جیسے اشعریہ اورماتریدیہ میں )خواہ فقہی ہو جیسے اہل تخریج اور اہل حدیث اور اہل ظاہر میں ہے یا یوں کہیے حنفی، شافعی، مالکی، حنبلی اور اہل حدیث میں یا اہل قیاس اور اہل ظواہر )آج کل عمل بالحدیث اور تقلید کا اختلاف بھی فرعی ہے۔
خیر الکلام فی وجوب فاتحہ خلف الامام ص16،17
اہل حدیث بھی فروعا ً ماتریدی یا اشعری ہیں اور عقائد میں درس نظامی کے اندر ان کی اپنی کوئی کتاب نہیں۔ بعض عقائد میں اگرچہ غیر مقلدین ہماری مخالفت کرتے ہیں لیکن یہ مخالفت یا تو نفس کی خواہش کی وجہ سے ہے یا ضد وعناد کی وجہ سے ہے۔ یہ اپنے مدارس میں وہ کتابیں پڑھاتے ہیں جو ہمارے مدارس میں پڑھائی جاتی ہیں۔ چنانچہ اس بارے میں غیر مقلدین کے اکابر کی رائے ملاحظہ فرمائیں۔
غیر مقلدین کی مشہور کتاب ’’’فتاویٰ ستاریہ ‘‘ میں لکھا ہوا ہے:
علی ہذااہل حدیث بھی دوہی قسم کے ہیں۔ ایک خالص اصولاًوفروعاًاور ایک فروعاً اہل حدیث اصولاًغیر اہل حدیث یعنی ماتریدی یا اشعری اور یہ دونوں مذہب بھی عوام وخواص میں اہل السنت وناجی لقب پانے کے مستحق قرار دیئے گئے اور اسی کونظامی نے اپنے نظم میں منظم کرایا ہے۔ یہی درس نظامی حنفی و اہل حدیث کے عمار فضیلت کے ذمہ دار ہیں مدارس اہل حدیث میں خالص اہل حدیث کی کوئی چھوٹی، بڑی کتاب درس میں رکھی ہی نہیں گئی تھی اور نہ ہی اب ہے وہی درس نظامی اور عقائد نسفی وغیرہ اور ظاہر ہے جیسا تخم ریزی کیاجائے گا اسی قسم کاپھل حاصل ہوگا۔ کیکر بو کر آم کس نے حاصل کیا۔
فتاویٰ ستاریہ 3ص24
اکابر غیر مقلدین کی اصل عقائدسے دوری:
شاہ صاحب نے اپنے اس مختصر کتابچے میں علماء دیوبند کے عقائد پر اعتراضات کی بوچھاڑ کی ہے جب کہ ان کے ا کابر کا کہنا ہے کہ بڑے بڑے علماء اہل حدیث اصل عقائد سے بے بہرہ ہیں۔ ان کے اپنے اکابر کی رائے ملاحظہ فرمائیں
چنانچہ فتاوی ستاریہ میں ہے کہ بہر صور ت جب بڑے علماء ہی اصل عقائد اہل حدیث سے بے بہر ہ ہیں برانہ مانیں تو پھر عوام میں وہ صحیح عقائد کہاں سے پیدا ہوسکتے ہیں ؟
صاحب فتاوی ستاریہ کا علماء اہل حدیث کو چیلنج:
میں اپنے ہم عصر علماء کو چیلنج دیتا ہوں کہ وہ میری اس بات کو غلط ثابت کرکے انصافا ً بتا دیں کہ آپ لوگ اشعری اور ماتریدی کے عقائد کے پابند نہیں پھر تمہیں اپنے کواہل حدیث خالص کہتے ہوئے شر م نہیں آتی۔
فتاوی ستاریہ 3ص26
خلاصہ: اکابر غیر مقلدین کی ان عبارتوں سے چند امور ثابت ہوتے ہیں:
1) اشعریہ و ماتریدیہ کے وہی عقائد ہیں جوقرآن وحدیث میں مذکور ہیں۔
2) اشاعرہ و ماتریدیہ یہ خدائے عز وجل کی طرف سے انقلاب ہے۔
3) علماء اہل السنت والجماعت کے یہی عقائد ہیں۔
4) اہل السنت کے تمام اختلافات حتیٰ کہ مسئلہ تقلید بھی فرعی مسئلہ ہے۔
5) اہل حدیث فقہی مذہب ہے جیسا کہ حافظ محمدگوندلوی کی رائے ہے۔ نزل الابرار ،کنزالحقائق وغیرہ ان کی فقہی کتابیں ہیں۔
6) اہل حدیث بھی اشعری وماترید ی وغیرہ ہیں۔
7) عقائد میں ان کی اپنی کوئی کتاب نہیں ان کے مدارس میں حنفی عقائد کی کتابیں مثلاً ’’عقائدنسفی ‘‘وغیر ہ پڑھا ئی جاتی ہیں۔
8) بڑے بڑے علماء اہل حدیث کواپنے عقائد معلوم نہیں۔
9) غیر مقلدین خالص اہل حدیث نہیں ہیں۔
10) علما ء اہل حدیث اور عوام دونوں کے عقائد صحیح نہیں۔
تلک عشرۃ کاملہ