مرکز اہل السنت والجماعت میں علم کی بہاریں

User Rating: 5 / 5

Star ActiveStar ActiveStar ActiveStar ActiveStar Active
 
مرکز اہل السنت والجماعت میں علم کی بہاریں
ماہنامہ بنات اہلسنت، ستمبر، اکتوبر 2011ء
کامیابی کا مدار دو چیزوں پرہے؛ ایمان اور اعمال صالحہ۔ پھر ان میں سے ایمان کو فوقیت حاصل ہے، یعنی ایمان درست ہوتوبغیراعمال …یا اعمال میں کوتاہی …کے باوجود بھی نجات ممکن ہے اور اگر ایمان درست نہ ہوا محض اعمال ہی اعمال ہوئے… الذین ضل سعیھم … توپھر قیامت کے دن یہ چیز بالکل کام نہیں آئے گی۔
ابدی اور دائمی نجات منحصر ہے ایمان اور اعمال صالحہ پر۔ اس مختصر سی تمہید کے بعد ایک اہم بات جو آپ کے نظر گزار کرنا چاہتاہوں وہ یہ ہے کہ آج کے اس پرفتن دورمیں ایمان اور اعمال صالحہ کی حفاظت کیسے ممکن ہے ؟اور محافظین کو کن چیزوں سے خود کو لیس رکھنا ضروری ہے ؟
جواہل اسلام کے عقائد ونظریات ہیں وہ باقی ادیان کے مقابلے میں بالکل صحیح ہیں عیسائیت، یہودیت، قادیانیت، ہندومت وغیرہ اسلام کے متوازی ادیان ہیں جنہیں ہر مسلمان کفر سمجھتاہے اسی طرح اعمال میں اہل السنت والجماعت کے متوازی چند فرقے ہیں جن کی بنیادی انسانی عقل نارساہے۔ نیچریت، سیکولر ازم وغیرہ ،یہ لوگ اسلام کی مقتدر شخصیات کے علم و تفقہ کو اہمیت نہیں دیتے حتی کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے فتاویٰ جات کوبھی بڑی دیدہ دلیری سے ٹھکراتے ہیں اور ائمہ متبوعین پر زبان طعن دراز کرنا ان کا شیوہ ہے۔
قرآن کی تعلیمات میں ابتدائی طور پر یہ بات سامنے آتی ہے کہ
صراط الذین انعمت علیھم
ان لوگوں کا راستہ صراط مستقیم کی عملی تصویر ہے جن لوگوں پر خدائے لم یزل نے انعامات کی موسلادھار بارش برسائی جیساکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات میں بھی یہ موجود ہے: اللہ تعالی جس سے بھلائی کا ارادہ فرماتے ہیں اسے دین کی سمجھ (تفقہ) عطافرماتے ہیں۔‘‘
اس لیے اس امت کا کثیرحصہ ان کی اتباع وتقلیدمیں زندگی بسر کررہاہے۔ مسائل اجتہادیہ میں امت مرحومہ اپنے جلیل القدر چار ائمہ امام اعظم ابوحنیفہ، امام مالک ،امام شافعی اور امام احمد بن حنبل کی مدون کردہ فقہ پر عمل پیراہے۔
قارئین کرام !دورحاضر میں نت نئی علمی واعتقادی گمراہیاں جنم لی رہی ہیں اور وہ وقت ہمیں بالکل قریب نظرآرہاہے جس کے بارے میں سواچودہ سو برس قبل آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاتھا کہ قریب قیامت میں فتنے اس قدر ہوں گے کہ جیسے تسبیح کا دھاگہ ٹوٹ جائے اور اس کے دانے گرنے لگ جائیں…صبح کو ایک شخص مومن ہو گا تو شام کو کافر لوٹے گا…شام کومومن ہوگا تو صبح کافر اٹھے گا۔
راقم اپنی دانست کے مطابق ان تمام گمراہیوں کی بنیاد اساطین امت اور صلحاء امت پر عدم اعتماد کو سمجھتاہے بالفاظ دیگر ترک تقلید۔ ہمارے اس معاشرے میں پہلے ہی دینی تعلیم کی بہت کمی ہے ذہنی آوارگی اور بے راہ روی اس قدر ہے کہ نام نہاد ’’مسلمان‘‘ سورۃ اخلاص دیکھ کر بھی غلط پڑھتے ہیں روزمرہ کے پیش آمدہ مسائل میں اسلامی احکام سے تقریباً تقریباً لوگ ناآشنا ہیں اور اس پر مشتزاد ان فتنوں کی یلغار…اللہ ہمیں اپنی حفاظت میں رکھے۔مرکز اھل السنت والجماعت سرگودھا کی بنیاد ہی انہی مشکلات کے حل کے لیے رکھی گئی تھی۔
پانچ سالوں میں فضلاء کی تعداد بالترتیب 15، 25، 35، 55 اور 70 ہے۔ والحمد للہ علی ذلک اور یہ فارغ التحصیل علماء کرام، مدرسین، مفتیان کرام مرکزاہل السنت والجماعت کے اساتذہ سے فیض حاصل کرکے ملک کے طول وعرض میں مسلک اہل السنت والجماعت کی اشاعت وحفاظت میں مصروف عمل ہیں۔
تعلیمی سلسلے ایک کڑی شارٹ کورسز ہیں۔ اس سال وفاق المدارس العربیہ کے سالانہ امتحانات کے فورا بعد مرکز میں 12روزہ کورس بعنوان تحقیق المسائل منعقد ہوا ، جس میں 180 کے لگ بھگ دوردراز سے علماء، طلباء، مدرسین، واعظین، خطباء، مقررین، ائمہ مساجد ،مفتیان کرام اور دیگر شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے حضرات نے شرکت کی۔
اس شارٹ کورس میں مندرجہ ذیل باتوں کو بطور خاص ملحوظ رکھا گیا۔
نمبر1: تمام شرکاء کورس کے وقت کو زیادہ سے زیادہ کارآمد بنایاگیا۔
نمبر2: نماز،ذکراذکار، تلاوت اور معمولات یومیہ کا بہت زیادہ خیال رکھاگیا۔
نمبر3: اسباق میں پابندی وقت کے ساتھ شرکت لازمی بنائی گئی۔
نمبر4: اسباق کے انتخاب میں دور حاضر کے علمی فتنوں سے آگاہی کو ترجیح دی گئی۔
نمبر5: سوالات جوابات کی کھلے عام اجازت دی گئی تاکہ اطمینان قلبی کے ساتھ مسلک کی حقانیت سامنے آئے۔
نمبر6: بالجملہ انتظامی امور میں مرکز کی انتظامیہ کو الرٹ کردیاگیا، تاکہ مہمانان گرامی کو کسی بھی پریشانی کاسامنانہ کرنا پڑے۔
نمبر7: تمام شرکاء کو اس بات کا پابند بنایاگیا کہ وہ سیاسی اور جماعتی تبصروں سے گریز کریں۔
جن عنوانات پر دروس دیے گئے ان میں چند ایک یہ ہیں:
1۔ صفات باری تعالیٰ 2۔ ختم نبوت
3۔ رفع ونزول عیسی علیہ السلام 4۔ اصول مناظرہ
5۔ تقلید کا شرعی مقام 6۔ پرویزیت
7۔ جماعت المسلمین 8۔ ڈاکٹر ذاکر نائیک کا علمی محاسبہ
9۔ بیس تراویح 10۔ عبارات اکابروغیرہ
تمام اسباق کو بذریعہ انٹرنیٹ آن لائن کیاگیا اور دنیا بھر کے اہل اسلام نے اس سے استفادہ کیا۔ علاوہ ازیں تمام اسباق کی ڈی وی ڈیز تیار کرلی گئی ہیں تاکہ یہ کام ہمیشہ کے لیے محفوظ ہوجائے اور ضرورت کے وقت اس استفادہ کیاجائے۔ ڈی وی ڈی منگوانے والے حضرات ان نمبرز پر رابطہ کرسکتے ہیں۔
0321-6353540 0332-6311808
اللہ ہم سب کو مسلک اہل السنت والجماعت پرکاربند رکھے۔ آمین
والسلام
محمد الیاس گھمن
اٹھو کہ کوچ نقارہ بج چکا!
ماہنامہ بنات اہلسنت، نومبر 2011ء
نومبر کا آغاز ہو چکا، ہواؤں میں یخ بستگی بڑھتی جا رہی ہے۔ آج صبح نماز فجر کی ادائیگی کے بعد سیر چمن کو نکلا تو ہر شے منجمد سی محسوس ہوئی ما سوائے اپنے خیالات کے۔! یا اللہ! کیا یہ وہی ملک ہے کہ جس کا خواب 9 نومبر کو پیدا ہو نے والے ایک فرزانے نے دیکھا تھا؟ ریڈ کلف ایوارڈ کی ظالمانہ تقسیم نے اس پاک وجود کے کتنے حصے اس سے جدا کر دیے۔
مقبوضہ جموں کشمیر، جونا گڑھ،حید آباددکن جیسے کتنے ہی زخم ہیں جو اس پاک سر زمین کے سینے پر لگائے گئے اور وہ آج تک ناسور بن کے رس رہے ہیں۔ رہی سہی کسر 1971ء میں’’ اپنوں‘‘ نے پوری کر دی۔ بھائی کو بھائی سے جدا کرنے کی سازشیں رنگ لائیں اور ہمارا بازو کاٹ کر نفرتوں کی وسیع خلیج ہمارے درمیان حائل کر دی گئی۔
بات صرف یہی ختم نہیں ہوتی بلکہ جس بنیادی نظریہ پر یہ ملک حاصل کیا گیا تھا اس بنیاد پر کاری ضربیں لگا ئیں گئیں اور ’’لاالہ الا اللہ محمد رسول اللہ‘‘ کے شرمندۂ خورشید جلوۂ تاباں سے نظریں چرا کر مغرب کے اندھیروں میں بھٹکنے کو ہی انسانیت کی معراج سمجھ لیا گیا۔
کیا یہ وہی اسلامی فلاحی ریاست ہے جس کا تصور اقبال مرحوم نے خطبہ الہ آباد میں پیش کیا تھا…؟ کیا یہ وہی خطۂ پاک ہے جس کو ہم نے ہزار ہا عصمتوں اور ان گنت جانوں کی قربانی دے کر حاصل کیا تھا …؟ کیا ان قربانیوں کا کوئی بدلہ ملنے والا نہیں …؟ کیا اس پاک سرزمین کا کاروبار سلطنت چلانے کے لیے ابھی تک اسی نظام پر انحصار کیا جا رہا ہے جیسے شاعر مشرق علامہ محمد اقبال نے ان الفاظ میں ’’خراج عقیدت‘‘ پیش کیا تھا:

جمہوریت اک طرز حکومت ہے کہ جس میں

بندوں کو گنا تو کرتے ہیں تولا نہیں کرتے

گستاخی معاف… اقبال مرحوم کی شوخی قلم کی ایک اور جھلک ملاحظہ ہو:
الیکشن، ممبری، کونسل، صدارت
بنائے ہیں خوب آزادی نے پھندے
میاں نجار بھی چھیلے گئے ساتھ

نہایت تیز ہیں یورپ کے پھندے

میں یہاں عرض کرتا چلوں کہ اقبال کی طنز اور ظرافت سطحیت سے بالکل پاک ہے۔ اقبال کے طنز میں جو گہرائی اور گیرائی ہے اس سے صاحب دل اور صاحب حال لوگ بڑی اچھی طرح آشنا ہیں۔ مغربی معاشرت کا سیلاب جس طرح ہمارے گلی کوچوں سے آگے بڑھ کر ہمارے گھروں کے اندر آ گھسا ہے اور اسلامی اور مشرقی تہذیب وتمدن کو دقیانوسیت کی علامت قرار دے دیا گیاہے، اسے دیکھتے ہو ئے اقبال کی چشم قلندارانہ اوردیدہ بینا ہمیں یہ پیغام دیتے ہوئے یہ محسوس ہو رہی ہے: ع

جو شاخ نازک پہ آشیانہ بنے گا، ناپائیدار ہوگا

اللہ تعالی من حیث القوم ہم سب کو اپنی ان ذمہ داریوں کے ادراک کی توفیق دے جو اس نظریاتی سر زمین کا باشندہ ہو نے ناطے ہم پر عائد ہو تی ہیں۔ کاش ہمارے ارباب اختیارو اقتدار دل کی آنکھوں سے اقبال کے خطبہ الہ آباد کو ایک مرتبہ پڑھ لیں اور اس میں جھلکتے پیغام کو حرز جان بنا لیں۔
ہم وطنو! خواب غفلت سے اٹھو اب اور کون سے صور اسرافیل کا انتظار ہے؟ اٹھو اٹھو کوچ نقارہ بج چکا۔ قافلہ حق کے ساتھ چل نکلو۔ اہل السنت والجماعت کے عقائد ونظریات کو مضبوطی سے تھام لو اور مغربی تہذیب وافکار پہ دو حرف بھیج کر یہ ثابت کر دو کہ:
اپنی ملت پہ قیاس اقوام مغرب سے نہ کر

خاص ہے ترکیب میں قوم رسول ہاشمی

اس نومبر کا یہی پیغام ہے اور اقبال کے دل میں بھی یہی نغمہ درد تھا جسے وہ ساری عمر قوم کو سناتے رہے۔
والسلام
محمد الیاس گھمن
تربیت یافتگان پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم
ماہنامہ بنات اہلسنت، دسمبر 2011ء
آل واصحاب نبی رضی اللہ عنہم پر تاریخی اور وضعی روایات کی پڑی ہوئی گرد ان کے منور و مجلّیٰ خوبصورت و خوب سیرت چہروں کی تابناکی کو کبھی دھندلا نہیں کرسکتی۔اہل بیت کرام ہوں یا اصحاب عظام؛ دونوں شمع رسالت کے پروانے، آسمان نبوت کے روشن ستارے، بستان نبوت مہکتے پھول ، آفتاب رسالت کی چمکتی شعائیں، آغوش نبوت کی پروردہ ہستیاں اور کاشانہ نبوت کے فیض یافتہ شمار ہوتے ہیں۔
کیوں۔۔؟
اس لیے کہ رسول؛ خالق ارض و سما کا شاہکار اور انوار الہی کا آئینہ دار ہوتاہے۔اسی طرح اہل بیت کرام اور اصحاب عظام رسول خدا کی مرصع نگاریوں کے انمول شاہکار اور کمالات نبوت کے آئینہ دار ہوتے ہیں۔
خالق نے اگر ہستی سرور کو سنوارا

آل واصحاب کے دل ساقی کوثر نے سنوارے

قدرت خود زلف رسول میں شانہ کرتی ہے، حسن نبی کو نکھارتی ہے ،جمال حبیب کو سنوارتی ہے کیونکہ جمال حبیب میں کمال محب جھلکتاہے اسی رسالت اپنے اہل بیت اور اصحاب کے نفوس وقلوب کا تزکیہ وتصفیہ کرتی ہے ،ان کی عملی زندگی کے گلے میں اوصاف حمیدہ اور اخلاق کریمانہ کی مالاڈالتی ہے کیونکہ انہی مبارک ہستیوں کے سیرت وکردار سے حسن نبوت کی خُوآتی ہے اور جمال رسالت نمودار ہوتاہے۔ صلی اللہ علیہ وآلہ واصحابہ وسلم
اہل بیت کرام ازواج نبی اور اصحاب رسول کے بے خار پھولوں سے لدا ایک حسین گلدستہ اپنی عطر بیزیوں سے اقوام عالم کے قلوب واذہان کو توحید باری تعالی ،ختم رسالت ،صداقت قرآن ،یوم میعاد اور ایمانیات کی طرف مشک آفریں پیغام حق دیتا رہا ہےاور ان کی روحانی نسل ان شاء اللہ تاقیام قیامت ان کا یہ فیض بانٹتی رہے گی۔
انہی کے جادہ منزل کو 'صراط مستقیم' کا نام خدا کی لاریب کتاب ا ور لاشک کلام میں دیا گیا۔انہی کے ایمان کو معیار قراردیاگیا جیسے کلام الہی کی معتبر وضاحت تشریح نبوت سنت نبوی ہے ایسے کلام رسول کی معتبر اور مستند وضاحت تشریح صحابی ہے۔
انہی کے قلوب میں رب ذوالعلیٰ نے جھانک کر دنیوی واخروی اوردائمی وابدی کامیابیوں کے اعزاز عطا فرمائے۔ اب ان مقدس ہستیوں سے خدا کی طرف سے ملنے والے انعامات کو کوئی تاریخ دان، کوئی انشاء پرداز، کوئی مصنف،کوئی محقق الغرض کوئی بھی۔۔۔ہاں ہاں کوئی بھی۔۔۔نہیں چھین سکتا۔
بلکہ من گھڑت واقعات ،خود تراشیدہ روایت کے بل بوتے ان پر ہائے ہائے کرنا ، ان کے جرات مندانہ کردار کو بزدلانہ روشں کا روپ دینا، عفت مآب بیبیوں کا ننگے سر پھرانا، سینہ چاک کرنا، نوحہ وماتم وغیرہ جیسے غیر اسلامی افعال کاخوگر بتلانا ، اہل بیت کی عزت ناموس اور تقدس وحرمت کو پامال کرناہے۔
ہم تمام ایسی تاریخی کتب کو آگ کے الاؤ میں جھونکتے ہیں جس میں اہل بیت کرام یا اصحاب رسول کے خلاف ایک حرف بھی درج ہو۔ ہم قرآن پر ایمان لانے والے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سچے فرامین پریقین رکھنے والے ہیں۔ اہل بیت بھی ہمارے ہیں اور اصحاب رسول بھی ہمارے۔۔۔ہم ان کو اپنا مقتدا مانتے ہیں۔۔۔ اوراپنے مقتداؤ ں کی عزت وآبرو سے کسی کوکسی بھی میدان میں خواہ علمی ہو یا عملی کھیلنے کی اجازت نہیں دے سکتے ہیں۔
وطن عزیز کی سالمیت، استحکام اور بقا اصحاب رسول اور اہل بیت کرام کے روشن اور اجلے کردار کو بیان کرنے میں ہے محرم الحرام میں حکومت پاکستان کی جانب سے تمام ان اقدامات کو ماننا جن سے اصحاب رسول اور اہل بیت کرام کی عزت ناموس اور وقار کا تحفظ ہوتاہو اپنا ایمانی فرض ادا کرنا کہلائے گا۔
اللہ ہمیں اپنے فرائض کو بخوبی اداکرنے کی توفیق بخشے اور ماہ محرم کو امن سکون اور اطمینان سے گزارنے کی توفیق بخشے۔
آمین بجاہ سیدالانام والمرسلین
والسلام
محمد الیاس گھمن
تجدید عہد کیجئے
ماہنامہ بنات اہلسنت، جنوری 2012ء
2011ء کا سورج غروب ہوا، 2012ء کی آمد آمد ہے لیکن یہ بھی رکنے والا نہیں کہ ع…

ثبات اک تغیر کو ہے زمانے میں

2012ء بھی چلا جائے گا اور بعد میں آنے والے ماہ وسال بھی گزرتے جائیں گے۔ یہ سلسلہ یونہی رہے گا یہاں تک کہ اس کائنات کا خالق اس نظام کی بساط لپیٹ دے گا۔ ایک لمحہ کے لیےغور کیجئے ہم بھی رکنے والے نہیں! ذرا سوچئے کہ جب 2011ء کے دسمبر کا آخری سورج غروب ہوا تو اگراس کے ساتھ ساتھ ہماری زیست کا چراغ بھی گل ہوجاتا تو۔۔۔؟ہم نے کیا تیاری کی تھی اس سفر کے لیے ؟
حضرت انسان بھی عجیب شے ہے کسی چھوٹے سے طے شدہ سفر پر نکلنا ہو تو اس کے لیے کتنی تیاری کرتا ہے لباس، جوتے، توشہ دان، زادراہ، سواری ، رفیق سفر۔۔۔کیا کیا گنوایا جائے، ہم سب اسی نوع سے تعلق رکھتے ہیں اور اس معاملے سے بخوبی آگاہ ہیں۔
لیکن۔۔۔کبھی سوچا ہم نے کہ ہم میں سے ہر کسی کو ایک دن اک لمبے۔۔۔ بہت ہی لمبے اور کٹھن سفر پر نکلنا ہے۔ کٹھنائیوں اور صعوبتوں سے بھر پور سفر اور اس پر مستزاد یہ کہ کوئی وقت مقرر نہیں۔ کچھ پتہ نہیں کہ کب اجل کا بلاوا آجائے۔ بیٹھ کر سوچا جائے توجھرجھری آ جاتی ہے جب اس گوشت پوست کے مکان کا مقیم؛ مسافر بنے گا تو یہ سب کچھ اچانک ہی ہو جائے گا۔ اتنی فرصت بھی نہ ملے گی کہ اپنے ابنائے جنس کو اپنا حال ہی بتا سکیں۔ نخل ہائے تمنا یوں مرجھائیں گے کہ ان کو آرزؤں سے سینچنا ممکن نہ رہے گا۔
یادش بخیر۔۔ مالک ارض و سمانے جب ہماری روحوں کووجود بخشا تھا تو ایک اقرار لیا تھا۔۔۔ الست بربکم؟۔۔۔ کیا میں تمہارا پروردگار نہیں ہوں ؟ تب سب نے یک زبان ہوکر بھلا کیا کہاتھا: کیوں نہیں! آپ ہی تو ہمارے رب ہیں۔ پھر۔۔۔ہماری روحوں کو ہمارے جسموں میں ڈال کر اس دنیا میں بھیج دیا گیا۔۔۔اور۔۔۔ نیک وبد کی پہچان کرواکر۔۔۔اچھے نتائج سے آگاہ کر کے۔ عمل کی کسوٹی پر خود کو پرکھنے کے لیے چھوڑ دیا گیا۔
تو۔۔۔کیا ہوا۔۔۔؟ کس سے مخفی ہے یہ داستان بے وفائی؟۔۔۔سوائے چند سعادت مند روحوں کے اکثریت نے اس عہد کو بھلا ڈالا۔ مالک ارض وسماوات کی یوں علی الاعلان نافرمانی! اتنی سرکشی۔۔۔ایسی بغاوت۔۔۔الامان والحفیظ۔۔۔کیا ہوگیا اس نسل انسانی کو۔۔۔؟
آدم کے بیٹے بیٹیوں نے اپنے باپ کے دیے گئے سبق کو بھلا دیا۔ تمام نصیحتوں، کو اپنے فائدے کی باتوں کو پس پشت ڈال دیا۔اس ذات رحیم وکریم کو اپنے بندوں کا یوں راہ بھٹک جانا کیونکرپسند ہوگا۔۔۔اس نے اپنے خاص اور نیک بندوں کو اس عالم فانی میں بھیجا۔ ان کے ذمے یہی تھاکہ بنی نوع انسان کو وہ بھولا ہوا عہد دوبارہ یاد کروائیں۔
یہ سلسلہ چلتا رہا۔۔۔نیکی اور بدی کی قوتوں میں پنجہ آزمائی ہوتی رہی۔۔۔چراغ مصطفوی سے شراربولہبی کی ستیزہ کاریوں کی ایک لمبی داستان ہے۔۔ کہاں تک کہی جائے۔۔ تاآنکہ صحرائے عرب میں وہ پھول کھلا جس کی نوید موسی وعیسی علیہما السلام نے سنائی تھی۔ اللہ کے بندوں کو اللہ کی غلامی میں دینے کی کوششیں کرنے والی مبعوث من اللہ جماعت کے آخری فرد ہونے کی حیثیت سے اس اُمی نبی صلی اللہ علیہ وسلم۔۔۔ ہمارے ماں باپ ان پر قربان۔۔۔ نے اس دنیا سے پردہ فرمانے سے پہلے ایک ایسی جماعت تیار کردی تھی جو آدم کی اولاد کو وہ بھولا ہوا عہد یاد کرواتی رہی۔
اس مقدس جماعت نے یہ ذمہ داری پوری دیانت سے نبھائی اور یہ سلسلۃ الذہب آج تک برابر جاری وساری ہے۔صحابہ کرام کی جانشین یہ امت، میں اور آپ۔۔۔ ہم سب مردوزن۔۔۔ہم سب کو آج وہی بھولا ہوا عہد خود بھی یاد کرنا ہے اور دوسروں تک بھی تجدید عہد کا یہ پیغام پہنچانا ہے چشم تصور واکیجئے خود کو عظمت و جبروت والی اس ذات کے سامنے کھڑا دیکھئے۔۔۔آئیے دل کی گہرائیوں سے یہ نعرہ وفا لگائیے۔۔۔کیوں نہیں آپ ہی ہمارے پرودگار ہیں۔۔۔سچا پیمان باندھئے کہ اپنی کوتاہیوں گناہوں اور نافرمانیوں کو ہمیشہ کے لیے خیر باد کہہ دیں گے جلدی کیجئے اس سے قبل کہ موت کا فرشتہ پیغام روانگی کا جان فرسا حکم سنا دے اور یہ مسافر زیست اس جہاں کو خیر باد کہہ دے جیسے 2011ء ہمیں چھوڑکر چلا گیا، کبھی واپس نہ آنے کے لیے
والسلام
محمد الیاس گھمن