ربیع الاول جب بھی آتا ہے

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
ربیع الاول جب بھی آتا ہے
ماہنامہ بنات اہلسنت، فروری 2012ء
چھ صدیاں گزر چکی تھیں۔ ابھی تک مسلمان اپنے رسول کی سیرت پر عمل کر رہے تھے۔ زمانہ نبوت ،عہد خلفائے راشدین، ائمہ متبوعین مجتہدین کے مبارک ادوار بھی سیرت کے سچے پھولوں سے معاشرے میں خوشبوئیں بانٹ رہے تھے۔ سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر جانیں نچھاور تھیں، سنجیدگی اور متانت کا دور تھا، فضولیات ولغویات اور لایعنی امور سے کلی اجتناب جیسی نعمت سے اہل اسلام مالامال تھے کہ…
اچانک۔۔۔۔604ھ میں موصل نامی شہر میں ایک شخص نے ربیع الاول کا ایک نیا تصور متعارف کرایا۔ اس دن جشن منانے کا اہتمام کیا، فضول خرچ بادشاہ۔۔۔ جسے تاریخ کے اوراق میں مظفر الدین کو کری کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔۔۔ رعایا کے خون پسینے کی محنت سے حاصل شدہ رقوم سے اس کا خاطر خواہ انتظام کرتا۔
تاریخ ابن خلکان
بلکہ علامہ ذہبی رحمہ اللہ رقم طراز ہیں کہ یعنی یہ فضول خرچ بادشاہ ہر سال جشن کا سامان پیدا کرتا اور اس پر تین لاکھ خرچ کرتا تھا۔
دول الاسلام ج 2 ص 103
اس کا چنگل اس قدر مضبوط نہیں تھا کہ لوگ اس میں پھنس جاتے۔۔۔لیکن خوشامدی ملا دحیہ بن ابو الخطاب نے اس کی یہ پریشانی بھی ختم کر ڈالی اور اس نئے کام کو بھی "اسلامی شریعت" کا درجہ دے ڈالا۔ خوشامدی ملا کا کرتب بادشاہ کے دل کو لبھا گیا اور شاہی خزانے میں سے ایک ہزار پونڈ اسے بطور انعام کے دیے گئے۔
دول الاسلام ص104
ممکن ہے یوں کہہ دیا جائے کہ اس میں کیا حرج ہے؟آخر وہ بھی تو عالم ہوگا آپ کے تصور میں اس کی برگزیدہ صورت بن رہی ہو اس سے پہلے ہمیں علامہ ابن حجر کا فیصلہ جاننا ضروری ہوگا۔ چنانچہ لکھتے ہیں:
یہ شخص اولیاء اور سلف صالحین کا گستاخ تھا، گندی زبان کا مالک تھا بڑا احمق اور متکبر تھا ،دین کے کاموں میں سست اور بے پرواہ تھا۔
فضول خرچ بادشاہ کو ایسے حواری میسر آنے تھے کہ اس نے اس جشن کو مستقل قانون کی شکل دے دی۔ جب معاملہ بڑھااور یہ جشن میلاد جس میں قوالیاں، ناچ گانے،من گھڑت قصے ،کرشماتی کہانیاں عام ہونے لگیں توا ہل السنۃ والجماعۃ کے تمام علماء نے اس کی بھر پور تردید کی بلکہ ائمہ متبوعین کے پیروکاروں نے ڈٹ کر اس نوزائیدہ بدعت کا گلا دبایا چنانچہ
امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ کے مقلدین میں سے امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے اپنے فتاوی ج1ص312 پر ،امام محمد بن ادریس شافعی رحمہ اللہ کے مقلد ین میں سے نصیر الدین الشافعی رحمہ اللہ نے رشاد الاخیار ص 20 پر، امام مالک رحمہ اللہ کے مقلدین میں سے علامہ ابن امیر الحاج رحمہ اللہ نےاپنی کتاب مدخل ج1 ص 85 اور امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ کے مقلدین میں سے مجدد الف ثانی شیخ احمد سرہندی نے مکتوبات حصہ پنجم ص22میں دو ٹوک فیصلہ سنایا کہ یہ شریعت نہیں بلکہ شریعت کے نام پر ایک دھوکہ ہے۔
وقت گزرتا گیا۔۔۔دھیرے دھیرے دو گروہ بن چکے تھے کچھ تو اپنی کم علمی اور ناقص معلومات کی بناء پر اب اس نئے مفروضے کو دین کا درجہ دے بیٹھے اور کچھ پختہ علم والے اس کو کسی صورت بھی تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں تھے۔پھر ایک یلغار اٹھی۔۔وہ کیا۔۔ ؟ وہ یہ کہ جو شخص ربیع الاول میں مروجہ جشن آمد رسول صلی اللہ علیہ وسلم نہیں مناتا وہ "سنی" نہیں ہے۔
شور بڑھتا رہا۔۔۔اسی اثناء میں دارالعلوم دیوبند کی مسند تدریسں پر فقیہ وقت شیخ رشید احمد گنگوہی تخت نشین آراءتھے۔ بعض لوگوں نے آپ پر اور آپ کے ہم خیال علماء پر الزام لگایا کہ "یہ لوگ حضور سرورکائنات صلی اللہ علیہ وسلم کے نام سے چِڑتے ہیں ان کو حضور کا ذکر کرنا اور سننا پسند نہیں ،وغیرہ وغیرہ " تو حضرت گنگوہی رحمہ اللہ نے اپنے فتاوی میں لکھا:
نفس ذکر ولادت فخر عالم مندوب ہے مگر بسبب انضمام ان قیود کے یہ مجلس ممنوع ہوگی۔
فتاوی رشیدیہ ج1ص110
آج بھی ہمار نظریہ وہی ہے جو اکابر بتلا گئے تھے،نفس ذکر ولاوت ہمارے ہاں ایک مستحسن امر ہے جو کسی ربیع الاول کا انتظار نہیں کرتا اور کبھی بھی وقت کا محتاج نہیں۔ہمارے ہاں علمی دلائل کی بنیاد پر اختلاف رائے کرنا مفقود ہوچلا ہے اور نظر وفکر کے پیمانے لبریز ہوچکے ہیں بدعات کو رواج دینے والے " عشاق "کہلاتے ہیں اور سنت کا فیض عام کرنے والے "گستاخ" آپ بتلائیے کہ کیا اسی کا نام انصاف ہے؟میں جب بھی غور کرتا ہوں توسر پکڑ کر بیٹھ جاتا ہوں۔
کیا اتنی سی بات پر ہم سے عشق رسالت کا تمغہ چھینا جاتا ہے کہ ہم اس کام کو دین نہیں کہتے جسے ہمارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے دین نہیں کہا اتنی سی بات پر گستاخ بن جاتے ہیں کہ ہم نئی رسومات کو عشق نبوت کا معیار قرار نہیں دیتے۔۔۔کیا کھڑے ہوکر جھنڈے لہرانا، جلسوں میں زرق برق لباس پہننا ، گھر کو چراغاں کرنا، عیدیاں بانٹنا ،بیجز لگانا، مقامات مقدسہ کی شبیہیں تیار کرنا اور خرافات ورسومات میں اپنے قیمتی اوقات کو ضائع کرنا محبت رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم ہے؟
اور قال اللہ وقال الرسول کے زمزے لگانا ،عقائد اور اعمال کی درستگی کرنا، اپنے نفس کی اصلاح، حقوق اللہ اور حقوق العباد کی پاسداری میں منہمک رہنا ،رسومات وبدعات سے اجتناب کرنا ،سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر عمل کرنا ،تلاوت قرآن کریم کرنا، ذکر اذکار کرنا اور تمام اسلامی افعال کو اپنی زندگیوں میں بجا لانا ایسا جرم ہے جس پر نام نہاد ین کے ٹھیکے دار ہم کوستے رہتےہیں؟ ربیع الاول جب بھی آتا ہے مجھے ایسی باتوں پر سوچنے کے لیے مجبور ساکردیتا ہے میرے پاس تو اس کا جواب نہیں ہوتا شاید آپ کے پاس ہو۔
والسلام
محمد الیاس گھمن
وطن کی محبت ایمان ہے
ماہنامہ بنات اہلسنت، مارچ 2012ء
72برس قبل23مارچ 1940ء میں اقبال پارک لاہور میں مسلمانان برصغیر نے ایک الگ اسلامی ریاست کی قرارداد منظور کی جسے قرارداد پاکستان کا نام دیا جاتا ہے۔ اس قرارداد کا اولین مقصد مسلمانان برصغیر کی نظریاتی اقدار کا تحفظ تھا۔ اس خطے کے مسلمان یہ چاہتے تھے کہ ہم الگ سے اپنی اسلامی ریاست قائم کریں جہاں ہمارے عقائد ونظریات کا تحفظ ہو، ہمارا کلچر خالصتا اسلام کے وضع کردہ قوانین کا علمبردار ہو، ہماری بودوباش کسی غیرمسلم قوم کی نقالی نہ ہو بلکہ نقالی سے پاک ہوچونکہ اسلام ہمارا بنیادی مذہب ہے اس لیے ہمارے حکمران بھی مسلمان ہونے چاہیں۔
اس ساری جدوجہد کا سبب علماء حق کی بے مثال قربانیاں تھیں جنہوں نے اسلام اور اہل اسلام کو بچانے کی خاطر جہاں میدان کارزار میں اپنی جانوں کا نذانہ پیش کیا وہاں عقائد اسلامیہ کے تحفظ کے لیے دینی جامعات کی داغ بیل ڈالی۔ چنانچہ حکیم آفتاب حسن قریشی لکھتے ہیں
1857ء کی جنگ آزادی میں ناکامی کے باوجود جہاد کا سلسلہ جاری رہا انگریزوں نے انبالہ اور پٹنہ میں مجاہدین پر مقدمات چلا کر انہیں قید وبند کی سزائیں دیں۔ اس کے علاوہ انہوں نے اسلام اور مسلمانوں کے خلاف منظم تحریک چلائی اور مسلمانوں کو اسلام سے برگشتہ کرنے کے لیے عیسائی مشنریوں کی پشت پناہی کی۔ اس وقت یہ علماء ہی تھے جو اسلام کے تحفظ اور احیا کے لیے میدان عمل میں اترے۔ انہوں نے مختلف جگہوں پر دینی مدارس قائم کیے اور نوجوانوں کو دین کی تعلیم دینے لگے۔ ان مدارس میں سے دارالعلوم دیوبند اور مدرسہ دار العلوم سہارنپور خاص طور پر مشہور ہیں۔ طرابلس اور بلقان کی جنگوں میں علماء اور مشائخ نے مسلمانوں کی رہنمائی اور ترکوں کی مدد کے لیے چندہ جمع کیا۔ تحریک خلافت آغاز ہوا تو علماء اور مشائخ بڑی بہادری سے برطانوی حکومت کے خلاف نبرد آزما ہوئے۔ تاریخ گواہ ہے کہ تحریک خلافت نے برصغیر میں برطانوی حکومت کی بنیادیں ہلا دیں۔
مطالعہ پاکستان بی۔ اے)لازمی(علامہ اقبال یونیورسٹی پاکستان صفحہ 305
تاریخ شاہد ہے کہ پاکستان کے نام سے آزادی کی جس کونپل نے غلامی کی سنگلاخ زمین کا سینہ چیرا ، اس کی آبیاری علماء حق کے خون اور پسینے سے ہوئی ہے۔ ”تعمیر پاکستان اور علماء ربانی“ میں منشی عبدالرحمن صاحب لکھتے ہیں:
”سیرت اشرف کی تالیف کے دوران یہ راز کھلا کہ پاکستان کا ابتدائی تخیل علامہ اقبال کا نہیں تھا بلکہ حضرت مولانا اشرف علی تھانوی کا تھا۔ اس کی خبر جب ارباب علم و ذوق کو ہوئی تو انہوں نے اصرار کیا کہ اس تاریخی راز کو سیرت کی اشاعت تک پردہ خفا میں نہیں رہنا چاہیے اسے الگ رسالہ کی صورت میں میں شائع کردیا جائے تاکہ ایک تاریخی غلط فہمی جلد دور ہوجائے مگر حضرت تھانوی کے بعض خلفاء نے نہایت نیک نیتی کے ساتھ اس تقاضا کی مخالفت کی کہ اس انکشاف کی اشاعت سے علامہ اقبال کے عقیدت مندوں کو روحانی صدمہ پہنچے گا۔ “
ایک طرف آزادی وطن کی خاطر علماء حق دارورسن پر جھول رہے تھے تو دوسری طرف اسلام کی نظریاتی سرحدات پر بھی پہرے دار بنے رہے اور مذاہب عالم میں اسلام کی ہمہ جہت اور عالم گیریت کا لوہا منوایا۔ ہمیں آزادی تو مل گئی مگر افسوس کہ ہم اس ”آزادی“ کو ”پابندی شریعت“ کا مقابل تصور کر بیٹھے جن کی شبانہ روز کاوشوں کی بدولت ہمیں” حریت“ نصیب ہوئی ہم ان کا تمسخر اڑانے میں فخر محسوس کرتے ہیں۔ جس نعرہ مستانہ ……پاکستان کا مطلب کیا لاالہ الا للہ محمد رسول اللہ…… کی برکت سے پاکستان جیسی عظیم آزاد ریاست نصیب ہوئی بدقسمتی سے اس میں کلمہ طیبہ کا نفاذ نہ ہوسکا۔
نفاذ تو در کجااس کلمہ کے ماننے والوں کو شدید اذیتوں سے دوچار کیا جارہاہے۔ کیا آپ اس معمار کی دل شکستگی کا ادراک کرسکتے ہیں جس نے شب و روز ایک کر کے خوبصور ت محل تعمیر کیا ہو ، اب اس کے بالاخانے پر کھڑے ہوکر کوئی شخص اس معمار کی محنت اور کاری گری کا مذاق اڑائے تو کیاگزرے گی اس کے دل پر؟ یاد رکھیں علماء دیوبند اس محل پاکستان کے معمار ہیں۔سب سے زیادہ اس ملک کے لیے قربانی ہم نے دی۔ سرکاری سطح پر سب سے پہلے علماء دیوبند کے عظیم سپوت علامہ شبیر احمد عثمانی نےمغربی پاکستان کراچی میں سبز ہلالی پرچم لہرایا اور مشرقی پاکستان میں علامہ ظفر احمد عثمانی دیوبندی نے پرچم کشائی کر کے مسلمانان برصغیر کے خوابوں کو شرمندہ تعبیر کیا۔ اللہ ہم سب کو وطن سے محبت نصیب فرمائے کیونکہ وطن کی محبت ایمان ہے۔
والسلام
محمد الیاس گھمن
حق کی پہچان اور داعی قرآن
ماہنامہ بنات اہلسنت، جون 2012ء
اللہ اللہ کیسی عظیم شخصیت تھی میرے استاذ محترم مولانا محمد اسلم شیخو پوری شہید رحمہ اللہ کی، جن کی اس اچانک جدائی پرکلیجہ منہ کو آتا ہے۔ اس ماہ میں یہ مسلسل شہادتیں، یکے بعدیگرے علمائے حقہ کا یوں دنیا سے اٹھتے چلے جانا قربِ قیامت کی علامت ہے۔ استاذ محترم جن کی پوری زندگی کتاب اللہ کی خدمت میں گزر گئی جو بظاہر معذور ہو کر بھی توانا لو گوں کا سہارا تھے، جنہوں نے زمانے کے سرد وگرم کو دیکھا، بحر وبر کو روندا، سیاہ سفید کو پر کھا…… بغیر ٹانگوں کے محض وہیل چیئر پر بیٹھ کر گلی گلی، نگر نگر خدا کا قرآن سنایا اور اس کے مطالب ومعانی کو خوب کھولا۔
حضرت استاذ محترم انتہائی معتدل مزاج اور نرم دل انسان تھے۔ زند گی بھر ایسی کوئی بات نہ کی جس سے کسی کوعداوت وعناد کی آگ بھڑکانے کا موقع ملے۔آپ ہر مجلس و محفل میں سنے جاتے تھے۔ حضرت کا اپنا ذوق تھا کہ لوگوں کو زیادہ سے زیادہ قرآن مجیدکے قریب کیا جائے اور واقعی یہ مبارک ذوق تھا جس کی تکمیل کے لئے حضرت کبھی کبھی غیروں کی مجلس میں بھی چلے جاتے کہ ؏

شاید کہ اتر جائے تیرے دل میں میری بات

لیکن افسوس ظلم کا ہاتھ ان تک بھی پہنچ گیا جنہوں نے ساری زند گی کسی کے خلاف بات نہ کی، صرف دعوت الی اللہ ہی دیتے رہے ،مگر وہ بد طینت جن کو اس بات سے کوئی غرض نہیں ہوتی کہ ہم کس کے خون سے ہاتھ رنگ رہے ہیں ؟ جیسے جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو بچھو نے ڈسا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا"اس کو اتنی بھی پہچان نہیں کہ نبی اور غیر نبی کا فرق کر لے۔ "
آج میرا اُن امن کے علمبر داروں سے سوال ہے جو ہمیں کھل کر کلمۂ حق کہنے اور ہر باطل کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرنے سے صرف اس لئے منع کرتے ہیں کہ اس سے تمہاری جانیں محفوظ نہیں ہوں گی، تو ذرا بتائیں کہ مولانا اسلم شیخو پوری رحمۃ اللہ علیہ جیسے بے ضرر انسان جس نے ساری زند گی وہیل چیئر پر بیٹھ کر درس قرآن دیتے ہوئے گزار دی ،اس درویش صفت انسان کا خون آخر کس کے ہوس انتقام کی تسکین تھا؟ آخر جب بد بختوں نے ان سے کوئی رعایت نہیں کی تو ہم ان تخریب کار، دہشت گردوں سے کس خیر کی امید رکھیں؟
زند گی اور موت کا وقت متعین ہے ، موت ہر حال میں آ کر رہنی ہے، پھر کیوں نہ اس حیات ِفانی کو غنیمت سمجھتے ہوئے خم ٹھو نک کر میدان میں آجائیں اور دنیا کو بتا دیں:
ذرے ہی سہی کوہ سے ٹکرا تو گئے ہم
دل لے کے سر عرصہ میدان آ تو گئے ہم
وہ جو کہتےتھے اب جان سے گزر کوئی نہیں سکتا

اور جان سے گزر کر انہیں جھٹلا تو گئے ہم

اہل حق علماء کی مسلسل شہادتیں …… کبھی ہمارے مخدوم و مکرم ولی کامل حضرت مولانا نصیب خان شہید رحمۃ اللہ کی مظلومیت کی داستان سنائی ہو ئی لاش تو کبھی مولانا عطا ء الرحمٰن شہید رحمۃ اللہ علیہ کی الم ناک شہادت ، لکی مروت کے بزرگ شیخ الحدیث کی ٹارگٹ کلنگ تو کبھی مولانا حسن عزیر اور مولانا اسلم شیخو پوری پر گو لیوں کی بو چھاڑ…… کیا حق کے چہرے سے شک کی چادریں اتارنے کے لئے کافی نہیں ہیں؟
اگر آج میرا زخمی دل میرے قلم کے راستے خون کے آنسو رو رہا ہے تو ساتھ ہی مجھے الحمد للہ جناب رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کی مبارک زبان سے اپنے علماء اور اپنے عقیدے کے بر حق ہونے کی سند بھی تو مل رہی ہے۔
قال رسول الله صلى الله عليه و سلم ليأتين على العلماء زمان يقتلون فيه كما يقتل اللصوص فياليت العلماء يومئذ تحامقوا
رواہ ابو عمر الدانی فی السنن الواردۃ فی الفتن ج:3 ص:661
کہ علماء پر ایک وقت ایسا آئے گا کہ انہیں چوروں کی طرح قتل کیا جائے گا کاش اس دن علماء جان بوجھ کر انجان بن جائیں۔
اب صاف ظاہر ہے جن علماء کے بے دریغ قتل پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم فکر مند ہوئے وہ علماء حقہ ہی ہوں گے ،علماء سو ء سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو کیاسرو کار؟ اور آپ تاریخ اٹھا کر دیکھ لیں کہ کس نظریہ اور کس عقیدے کے حامل علماء ہر دور میں بے دریغ قتل ہوتے رہے اور آج تک ہو رہے ہیں۔
تحفظِ ختمِ نبوت صلی اللہ علیہ وسلم سے لے کر ناموس صحابہ رضی اللہ تعالی عنہم تک، اِعلائے کلمۃ اللہ سے لے کر احیائے خلافت واحیائے جہاد تک قربانیوں کا ایک حسین تسلسل ہے جس میں ہر نگینہ اپنی جگہ پر فٹ بیٹھتا چلا جا رہا ہے۔ ہمارے ہزاروں بے گناہ علماء کے بہیمانہ قتل کو پتھر کے دل اور تانبے کے دماغ رکھنے والوں نے ہمیشہ فرقہ وارانہ قتل قرار دیا۔ لیکن کاش اب ہی ان کی آنکھیں کھل جاتیں کہ مولانا محمد اسلم شیخوپوری رحمۃ اللہ جیسے مفسر ِقرآن کو شہید کرنے سے کس مسلک کی سر بلندی وابستہ تھی ؟
میری آخری گزارش اپنے ان غیور علماء کرام سے ہے جو دن رات ایک کر کے حفاظتِ دینِ متین کا فریضہ سر انجام دے رہے ہیں کہ اپنی حفاظت کا بھی خود کوئی نہ کوئی بندو بست فرمائیں، ایسا نہ ہو کہ ہمیں آج کی طرح مزید کوئی اور روز بد دیکھنا پڑے۔
آپ کے سینوں میں قرآن وسنت کی امانت ہے، خد اکے لئے اس کی حفاظت کریں اوریہ بات یاد رکھیں ابلیسی لشکر حاملین دین ِمصطفوی کو کچل دینا چاہتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو شرورو فتن سے محفوظ فرمائے اور استاذ محترم اور دیگر علماء کرام کی شہادتوں کو اپنی بار گاہ میں شرف قبولیت عطا فرمائے۔
آمین بجاہ النبی الامی الکریم
والسلام
محمد الیاس گھمن
ہمارا تعلیمی نظام اور صراط مستقیم کورس
ماہنامہ بنات اہلسنت، جولائی 2012ء
تعلیم کسی بھی قوم کے عروج اور بلندیوں کا پہلا زینہ شمار ہوتی ہے اس کے ذریعے معاشرتی اور اخلاقی اقدار کا سنگ بنیاد رکھا جاتا ہے انسانیت ، رواداری اور باہمی معاملات بھی تعلیم کی کوکھ سے جنم لیتے ہیں۔ انسانی تاریخ کا مطالعہ بتلاتا ہے جب بھی ہم نے اپنی تعلیمی سرگرمیوں میں لاپرواہی اور کوتاہی سے کام لیا تو تقدیر نے ہمیں اوجِ ثریا سے زمین پر دے مارا۔
نبوت کے اولین مقاصد میں سے یہ ہے کہ یعلمہم الکتاب پیغمبر ان کو تعلیم کتاب سے بہرہ ور کرتا ہے کیوں اس لیے کہ نبوت کی بعثت ہی اس لیے ہوتی ہے کہ وہ زمین پر خدا کا فرستادہ اور خلیفہ بن کر انسانیت میں خوشگواری کو پیدا کرے تعلیم کے روشنی سے جہالت کے اندھیروں کو ختم کرے توحید کی تابانی سے شرک کی گھنگھور گھٹاؤں کا مقابلہ کرے ، بدعات اور خرافات کواپنی سنت سے مٹاڈالے۔
زمانہ اس پر شاہد ہے کہ نبوت نے تعلیم کتاب کے ذریعے انسان کو ”انسانیت“کے سانچے میں ڈھالا۔ خون کے پیاسے اپنا خون دے کر دوسروں کی جان بچاتے نظر آنے لگے۔ عزت وناموس کے لٹیرے اب دوسروں کی عزت بچانے کے لیے سر دھڑ کی بازی لگانے میں فخر محسوس کرنے لگے۔ اس تعلیم کتاب نے نئے معاشرے کو وہ بنیادیں فراہم کیں جس سے فکر ونظر اور علم وعمل ، اخلاق وکردار اور شعور وآگہی کے محلات تعمیر ہوئے سوءِ ظن کو حسن ظن میں بدل کر رکھ دیا۔
یقین جانیے جب تک مسلمان شریعت کی تعلیم سے بہرہ ور تھا اس وقت تک زمانے کی زمام سیادت اس کے ہاتھ میں تھی۔ ایک وقت آیا جب مسلم ذہنیت غیروں کی تہذیب اور کلچر سے مرعوب ہونے لگی دھیرے دھیرے انہی جیسا رہن سہن ، بودوباش ثقافتی اور معاشرتی اطوار اپنانے لگے۔ نتیجہ وہی نکلا جو دشمن چاہتا تھا کہ کہنے کو ہم مسلمان لیکن ہمارے اذہان گوروں کے غلام ہوگئے۔
لارڈ میکالے نے ایسا نصاب تعلیم متعارف کرایا اور بڑی بڑی ڈگریوں کا لالچ سوار کیا جس نے اسلام، ادب، انسانیت، علم کی بجائے اخلاق باختگی ،بے ادبی، بہیمیت ،جہالت اور افکار کفریہ کو فروغ دیا۔ ہمارے عصری اداروں میں پروان چڑھتی نسل نو غیر شعوری طور پر دین بیزاری کی جس راستے پر چل نکلی ہے، ایک ڈر سا لگا رہتا ہے کہ کہیں اپنی تہذیب ، ثقافت اور اپنے ایمانی ورثے سے محروم نہ ہوجائے۔
ان خدشات کے پیش نظر ہمارے علمائے اہل السنت والجماعت سالانہ تعطیلات میں مختلف سمر کیمپس کا اہتمام کرتے ہیں جن میں ایمانیات ، اخلاقیات عبادات اور روز مرہ کی دینی ضرورتوں سے روشناس کرانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اس حوالے سے راقم نے بھی ایک مختصر سا نصاب …….صراط مستقیم کورس …….کے نام سے ترتیب دیا ہے۔ الحمدللہ اندرون اور بیرون ممالک میں اس کو بے حد مقبولیت حاصل ہوئی۔
موسم گرما کی سالانہ چھٹیاں شروع ہیں، اپنے علاقوں میں اس کورس کو خوب عام کریں۔ خصوصاً میں اپنی بہنوں سے التماس کروں گا کہ وہ ضرور اس کورس کی باقاعدہ اور باضابطہ ترتیب بنائیں۔ ان شاء اللہ اس سے جہاں اخروی فوائد ہوں گے وہاں دنیا میں بھی آپ اپنی زندگی میں اطمینان ، سکون اور راحت محسوس کریں گی۔
40 آیات قرانیہ 40 احادیث نبویہ صلی اللہ علیہ وسلم 40 سے زائد عقائد ضروریہ 40 مسنون دعاؤں اور اذکار کے علاوہ بے شمار ایسے مسائل جن سے روز مرہ آپ کا واسطہ رہتا ہے یہ سب کچھ آپ بحمد اللہ صرف چند دنوں میں سیکھ سکتی ہیں۔ اللہ آپ کا حامی وناصر ہو۔
نوٹ:
صراط مستقیم کورس باقاعدہ کتابی شکل میں دستیاب ہے۔ خواتین کے لیے الگ نصاب ہے جبکہ مرد حضرات کےلیے الگ۔ کتاب منگوانے کے لیے مکتبہ اہل السنت والجماعت 87 جنوبی لاہور روڈ سرگودھا اور دارالایمان لاہور سے رابطہ کریں۔
بیرون ممالک سے تعلق رکھنے والی خواتین ہماری ویب سائیٹwww.ahnafmedia.com سے اس کورس کو مفت ڈاؤن لوڈ کر کے استفادہ کرسکتی ہیں۔
صراط مستقیم کورس سے متعلق مزید معلومات کے لیے ان نمبرز پر رابطہ کرلیجئے
والسلام
محمد الیاس گھمن
مولا کریم! امت مسلمہ کی حفاظت فرما
ماہنامہ بنات اہلسنت، اگست 2012ء
رمضان المبارک اپنی برکتوں اور رحمتوں کے ساتھ جلوہ فگن ہے۔ پوری اسلام ی دنیا اس بابرکت مہینے کے فیوض وبرکات سمیٹ رہی ہے۔ اللہ تعالی کا خصوصی فضل و کرم ہے کہ گذشتہ کئی سال سے یہ ماہ مبارک حرمین شریفین میں گذارنے کی سعادت حاصل ہورہی ہے۔ امسال بھی اپنی تیسری اہلیہ کےہمراہ رمضان المبارک سے چند دن قبل ہی حاضری ہوگئی تھی۔
بہت کوشش کے باوجود لاہور سے مدینہ منورہ کے لیے فلائٹ نہ مل سکی اس لیے پہلے جدہ جانا پڑا۔ در حبیب صلی اللہ علیہ وسلم پر حاضری کا شرف ملا تو بے اختیار دل بھر آیا۔ مظلوم برمی مسلمانوں کی جلی اور کٹی پھٹی لاشوں کے جو مناظر انٹرنیٹ پر دیکھے تھے گویا نظروں کے سامنے سے ہٹ ہی نہیں رہے تھے۔ شام میں روافض کے ہاتھوں اہل السنت عوام پر ناقابل بیان مظالم کے مناظر بھی دیکھے نہیں جاتے۔معصوم بچے، فرشتہ سیرت خواتین اور لاچار بوڑھے بھی ظالموں کے جذبہ چنگیزی سے محفوظ نہیں۔ اس پر میڈیا کی بے حسی اور مسلم حکمرانوں کے رویے سے بھی دل کٹ رہا ہے۔
آقا صلی اللہ علیہ وسلم کے حضور سلام پیش کرتے وقت منہ سے الفاظ ہی نہیں نکل رہے تھے۔ اللہ تعالی ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے صدقے مظلوم و مقہور برمی اور شامی مسلمانوں کی حفاظت فرمائیں اور ظالموں کے دست و بازو کو اپنے قہر اور انتقام سے توڑ کر مظلوموں کی داد رسی فرمائیں اور مسلم حکمرانوں کو اپنی ذمہ داریوں کا احساس کرنے اور ان سے کماحقہ عہدہ برآ ہونے کی توفیق مرحمت فرمائیں۔ دعا مسلمان کا ہتھیار ہے اور ہم یہ ہتھیار کبھی بھی نہیں رکھنےوالے۔
فتنوں کا دور ہے، جہاں مسلمانوں کی جان و مال ظالم کفار اور ان کے آلہ کاروں کے ہاتھوں محفوظ نہیں، وہیں ان سے کہیں بڑھ کر حملے ان کے عقائد پر ہورہے ہیں۔ ملحدین مختلف روپ دھار کر اہل السنت والجماعت کے مسلمہ عقائد و اعمال پر چہار اطراف سے حملہ آور ہیں۔ آقا صلی اللہ علیہ وسلم کے حضور کھڑے میں سوچ رہا تھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر امت کے اعمال و احوال کے پیش ہونے کے اجماعی عقیدہ کو بھی یار لوگوں نے نہیں چھوڑا تو اور ان سے کس خیر کی امید رکھی جاسکتی ہے؟
مولا کریم! امت مسلمہ کی حفاظت فرما۔ جان و مال کے لٹیروں سے بھی اور ایمان کے ڈاکوؤں سے بھی۔ عزت و آبرو کے راہزنوں سے بھی اور عقائد و اعمال کی عمارت میں نقب زنی کی کوششیں کرنے والوں سے بھی۔
حرمین شریفین سے واپسی پردعوتی کاموں کے سلسلہ میں چند دن دبئی رکوں گا ، بعد ازاں تین دن کے لیے کراچی کا سفر ہوگا۔ ان شاء اللہ العزیز 26 رمضان المبارک کو مرکز پہنچوں گا اور اسی دن میرا تراویح میں ختم قرآن ہوگا۔
والسلام
محمد الیاس گھمن
اندھا بانٹے ریوڑیاں
ماہنامہ بنات اہلسنت، ستمبر 2012ء
رمضان المبارک کی برکتیں سمیٹنے کے بعد اب شوال میں دینی علم کی نورانی تجلیوں کو اپنے سینوں میں محفوظ کرنے کے لیے طالبین علم مدارس کا رخ کر رہے ہیں۔مختصر سا زادِراہ ساتھ لیے سفر کی صعوبتیں جھیل کر علومِ نبوت کے حصول کے لیے جوق در جوق چلے آئے ہیں، انہیں دیکھ کر مجھے 93ھ میں ایک 16 سالہ طالب علم کا منظر یاد آنے لگا کہ اپنے والد گرامی کےہمراہ سفر حج پر آیا ہوا ہے۔ کہنے لگا:
ابو جان! میں نے ایک سن رسیدہ بزرگ کو دیکھا ہے جس کے اردگرد لوگوں کا بے پناہ ہجوم ہے، ابوجان! بتائیے یہ بزرگ کون ہیں ؟
والد نے جواب دیا: بیٹا !یہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابی ہیں۔
ابو جان !ان کا نام کیا ہے ؟
بیٹا! ان کا نام عبد اللہ بن الحارث جزء الزبیدی ہے۔
نوجوان اپنے والد سے کہنے لگا: پھر ابو جان مجھے بھی ان سے ملا دیجئےتاکہ میں ان سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث سن سکوں !
والد اپنے بیٹے کا ہاتھ تھا مے مجلس حدیث میں لے جاتا ہے۔ اس کے بعد کی داستان نوجوان کی زبانی سنیے۔
” جب میں اس بزرگ کے قریب پہنچاتو وہ فرما رہے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:جس کسی نے دین الٰہی میں تفقہ حاصل کر لیا اللہ تعالیٰ اس کو فکر رزق سے اس طرح سبک دوش کر دے گا کہ اس کے وہم وگمان میں بھی نہیں ہو گا۔ “
جامع بیان العلم وفضلہ
یہ سولہ سالہ نوجوان جس نے صحابی رسول حضرت عبد اللہ بن الحارث بن جزاء الزبیدی رضی اللہ تعالی عنہ سے اس حدیث کو براہ راست سنا اور اس کو اپنے علم کے لیے بنیاد قرار دیا۔ اسے دنیا سرتاج الفقہاءوالمحدثین امام اعظم ابو حنیفہ نعمان بن ثابت رحمہ اللہ تعالی کے نام سے یاد کرتی ہے۔
طلباء برادری کی اکثریت میں ہمیں وہ لوگ نظر آتے ہیں جو غربت زدہ ہوتے ہیں۔ پھٹے پرانے۔۔۔ مگر پاک اور صاف۔۔۔ لباس میں ملبوس دینی کتب کو سامنے لیے بالکل با ادب ہوئے سبق کا تکرار کر رہے ہوتے ہیں۔ راقم چونکہ خود بھی دینی مدارس کا خوشہ چین ہے۔ مجھے اپنا زمانہ بھی یاد آنے لگتا ہے۔۔ میں سوچ رہا تھا کہ کیا ہماری حالت اب ایسی ہو گئی یا۔۔۔۔ ؟
اچانک مجھے وہ ایک اونچا سا ٹیلا …… اصحاب صفہ کا چبوترہ …….. یا دآیا جہاں طالب علم صحابہ کرام بیٹھا کرتے تھے ان پر بھی لباس کی تقریبا ًوہی کیفیت، وہی مالی وسائل کی قلت ،وہی بھوک اور افلاس۔
تاریخی جھروکوں سے چند اور طالبعلم بھی میری نظر میں گھومنے لگے۔
جن کے بارے علامہ ابن عبد البر اندلسی نے اپنی کتاب میں لکھا:
”حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ لڑکوں کو پڑھتے دیکھتے تو فرماتے شاباش !تم حکمت کے سر چشمے ہو اندھیروں میں روشنی ہو، تمہارے کپڑے پھٹے پرانے ہیں مگر اےہو نہارو تمہارے دل تروتازہ ہیں۔ تم علم کے لیے بظاہر قید ہوئے ہو لیکن تم ہی قوم کے مہکنے والے پھول ہو۔“
جامع بیان العلم وفضلہ
ہمارے معاشرہ میں علم دین کی قدردانی برابر مٹتی ہی چلی جا رہی ہے ،دین کے طلباء کی حوصلہ افزائی کا کہیں نام و نشان تک نہیں اور عصری تعلیم میں نمایاں پوزیشنز لینے والوں کو لاکھوں کے انعامات سے نوازا جارہا ہے۔ دنیاوی فنون کے طلباءبھی ہمارے بھائی ہیں، ہمیں خوشی ہے کہ ان کو انعامات سے نوازا جائے لیکن کیا علم دوست کہلانے والوں کا یہ جانبدارانہ رویہ طلبائے دین کے ساتھ سوتیلی ماں جیسا سلوک نہیں کہلائے گا؟ یا پھر اندھا بانٹے ریوڑیاں ہِر پھر کے دے”اپنوں“کو !
ہاں ! یہ الگ بات ہے کہ ہمیں ان جیسے نذرانوں کی قطعاً ضرورت نہیں لیکن ”علم دوستی “کے دعویداروں کو یہ بات نہیں بھلانی چاہئے کہ علم حقیقی ،علم مقصودی اصل میں علم دین ہی ہے باقی سب فنون۔
والسلام
محمد الیاس گھمن