محبت ِرسول جاگ اٹھی ہے

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
محبت ِرسول جاگ اٹھی ہے
ماہنامہ بنات اہلسنت، اکتوبر 2012ء
دشمنانِ اسلام کی طرف سے آئے روز انبیاء کرام خصوصا ً امام الانبیاء، اسلام، قرآن، جماعت صحابہ اور مقتدر شخصیات کی توہین، بے حرمتی ،بے ادبی اور گستاخی کا عمل بڑھتا ہی چلا جا رہا ہے اہل اسلام ان دلخراش واقعات سے جب دل برداشتہ ہوکر رد عمل کا اظہار کرتے ہیں تو امن کی فاختائیں اڑانے والے بذات خود اڑ کر ان کے پاس آن پہنچتے ہیں اور انہیں صبر کی لوریاں سنا کر تحمل وبرداشت کی تھپکی دے کر پھر سے خواب غفلت کی آغوش میں سلانا شروع کردیتے ہیں۔
برمی مسلمان پر مظالم کی ان کہی داستان ،نیٹو سپلائی کی بحالی ،رمشا مسیح کیس ، مسوری انڈیا میں قرآن جلانے کا واقعہ ،متنازعہ ترین گستاخانہ فلم اور خاکے و کارٹون اس کے علاوہ بھی بہت کچھ ہے جس پر اہل قلم لکھ رہے ہیں۔ یوں لگتا ہے کہ اس وقت یہودی لابی بلکہ یوں کہیں کہ ہر غیر مسلم لابی صرف اہل اسلام کے قلبی عقیدت اور جذبات سے کھیل کر ہی فریشمنٹ حاصل کر رہی ہے۔
ایران میں حضرت یوسف علیہ السلام کی فلم بنائی گئی۔دوسری طرف حضرت مریم علیہا السلام کی فلم، دیگر انبیاء کرام علیہم الصلوۃ والسلام کی فلمیں، صحابہ وتابعین کرام رضی اللہ عنہم کے سنہرے کارناموں کو مسخ کر وحشیانہ اور ظالمانہ طرز پر فلمایا جا رہا ہے اور غیر شعوری طور پر اہل اسلام کے اذہان میں یہ زہر گھولا جارہا ہے کہ العیاذ باللہ فلاں نبی اور فلاں پیغمبر ، فلاں صحابی اور فلاں ولی ایسی شکل اور ایسے کردار والا تھا۔ ان کے اہل خانہ میں بیٹی کی شکل ایسی تھی، بیوی اس طرح کی تھی۔ ان کے گھریلو مسائل اس طرح کے تھے اور معاشرتی اور معاشی طور پر وہ اس اس طرح سے زندگی بسر کیا کرتے تھے۔
پھر یہاں یہ کوشش بھی کی جاتی ہے کہ ان کو غیر مدبرانہ سوچ کا حامل قرار دیا جائے۔ انتہائی ظالمانہ اسکرپٹ ان کے بارے میں لکھے اور سنائے جاتے ہیں اور یہ باور کرایا جاتا ہے کہ وہ جس نظام حیات یعنی اسلام کے داعی تھے وہ نظام دائمی اور ابدی نہیں تھا بلکہ وہ تو اس زمانے کی ضروریات کو بھی پورا نہ کرسکتا تھا۔
شرعی مسئلہ یہ ہے کہ اس طرح کی ویڈیو دیکھنا، دکھانا، بیچنا، خریدنا یا کسی کو اس کےلنک شیئر کرنا حرام ہے۔ کسی طرح بھی جائز نہیں۔
جبکہ موافق ومخالف کتب تاریخ آج بھی اس بات پر شاہد ہیں کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسل اور ان کے جانشینوں نے انسانیت کو انصاف فراہم کیا ،عدل ومساوات کا عملی درس دیا ، برتری اور احساس کمتری کے تصور کو یکسر مٹا ڈالا ، ظالم کے بڑھتے ہوئے ہاتھوں کو روک کر مظلوم ولاچار لوگوں کی فریاد رسی کی۔ مرد وزن سب کو یکساں عزت کا حامل ٹھہرایا ، اپنے اور بیگانے کی خلیج پاٹ کر سب کو امن کی شاہراہ پر کا راہی بنادیا۔ حتی کہ کافروں کو بھی تحفظ فراہم کیا ،ان کے حقوق کا خیال رکھا۔ اور اس پر خود اغیار کی کتب گواہ ہیں۔
لیکن اے احسان فراموشو!
تم نے اس کا کیا صلہ دیا ؟ جس نبی نے تمہیں جیون کی بھیک ڈالی تھی اس نبی کو تم روضہ میں تکلیف دیتے ہو؟بھکاریو!جس نبی نے تمہارے کشکول گدائی کو اپنی فراخ دلی ، دریا دلی اور سخاوت سے لبریز کیا تھا تم نے اس کی گستاخی کر کے نمک حرامی کا ثبوت دیا ہے تمہارے ان گھٹیا کاموں سے ہمارے دل صدمات سے چُور چُور ہیں۔
سنو اور بگوش ہوش سنو !
مسلمان اب یہ صدمات مزید سہنے کا یارا نہیں رکھتے۔انہوں نے طاؤس ورباب کو توڑ ڈالا ہے اب شمشیر وسناں سے خود کو مسلح کر چکے ہیں یہ کشتیاں جلا چکے اور سروں پر کفن باندھ چکے ہیں۔ لیبیا سے مراکش تک ،اٹلی سے تیونس تک ، سوڈان سے لبنان تک اور افغانستان سے پاکستان تلک، الغرض ہر خطے سے گستاخوں کو سزا دینے کے لیے نکل آئے ہیں اور اب یہ اپنی محبت کا ثبوت دے کر ہی دم لیں گے انہیں اس میدان میں موت بھی محبوب سے اور غازی بننا بھی قبول ہے۔
گستاخو یاد رکھو !
اب سسکنے بلکنے کےدن تمہارے ہیں ،کٹنے اور مرنے کی راتیں تمہاری ہیں ذلت ورسوائی کی صبحیں تمہاری اور حسرت ناکامی کی شامیں تمہارا انتظار کر رہی ہیں اور ہاں اب مسلمان نہیں جاگا بلکہ اس میں محبت رسول صلی اللہ علیہ وسلم جاگ اٹھی ہے۔ اب ان کی زندگیوں میں اطاعت رسول کو آنے سے تمہاری دلفریبیاں کبھی نہیں روک سکتیں۔ آج ہر مسلمان تمہارے نظام زندگی پر، تمہاری تعلیم پر ، تمہارے کلچر پر ، تمہاری ثقافت پر،تمہاری تہذیب پر اور سب سے بڑھ کر تمہاری غلامی پر چار حرف لعنت بھیج رہا ہے۔
ہر مسلمان اب زبان حال سے پکار پکار کر کہہ رہا ہے کہ
جن کو ہوجائے ان کی غلامی کا شرف
بالقین وارث فردوس بریں ہوتا ہے
مرے آقا کی زمیں ہے وہ زمیں کہ
جہاں خاک نشیں؛ خلد نشیں ہوتا ہے
فلسفی؛ فکر کی رکھتا ہے گماں پر بنیاد
رہ نما اہل محبت کا یقیں ہوتا ہے
عشقِ پیغمبرِ حق کا ہے یقینا اعجاز
مجھ پہ باطل اثر انداز نہیں ہوتا ہے
ایک درد ایسا بھی ہوتا ہے محبت میں کہ
درد تو ہوتا ہے احساس نہیں ہوتا ہے
والسلام
محمد الیاس گھمن
یقین کی محنت
ماہنامہ بنات اہلسنت، نومبر 2012ء
میری، آپ کی بلکہ سارے عالم کامیابی اللہ رب العزت نے پورے کے پورے دین میں رکھی ہے۔ دین ہماری زندگیوں میں آئے گاحضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم والی مبارک محنت سے۔اسی محنت کے بارے میں !
مندرجہ بالا پیرا یے میں غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اجمالی طور پر فکر و دانش کا یہی پہلا زینہ طے ہو جائےتو تخلیقِ انسانیت اور بعثتِ انبیاء کی حکمت عقل انسانی کا صحیح رخ متعین کر سکتی ہے۔مسلمانوں کی پستی ،دیگر اقوام عالَم کے مقابلے میں اہلِ اسلام کی شکستگی ،مرعوبیت اور احساس کمتری کے گھٹاٹوپ اندھیروں میں گمگشتگانِ راہ کو کہیں اپنی منزل دکھائی دیتی ہے۔تو وہ یہی… یقین کی محنت…کا روشن مینارہ ہی ہے۔
اس میں کوئی عاقل شخص اختلاف نہیں کر سکتا کہ جن نفوسِ قدسیہ نے دنیا کے نقشے پر کفر کو مٹا کر اسلام کا تابندہ پھریرا لہرایا وہ صحبت نبوی میں رنگے ہوئے تھے۔ان کا ایمان، ان کے اعمال ،اخلاق ، معاشرت ،معیشت ،رہن سہن ،بود وباش،طور طریقے ،مراسم وعادات حتی کہ ان کااقتدار و حاکمیت ، خلافت ونیابت اور اطاعت شعاری الغرض زندگی کے ہر گوشے پر تصدیق نبوی کی مہر ثبت تھی۔
آج کے اس دور میں بھی اگر کوئی دین متین کے احیاء کا خواہاں ہے یا اسلامی معاشرے کو تشکیل کرنے کا جذبہ اپنے دل میں موجزن پاتا ہےتو ایک ایسے مشترک پلیٹ فارم پر جمع ہونا ہو گا۔جہاں احکام خداوندی پر طرز حبیب خداوندی کے مطابق عمل کیا جائے۔
لاشک ولاریب !کہ ہمارے اکابر نے جس مشن، کاز اور طرز عمل کو شریعت کی روشنی میں ترتیب دیا آج اس کے فوائد جہانِ عالَم میں دیکھے جا سکتے ہیں۔ زمین کا کون سا وہ ٹکڑا ہے جہاں اسلام کی دعوت نہ پہنچائی گئی ہو ؟کون سا ایسا ملک ہے جہاں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ختمِ نبوت کا پرچار نہ کیا گیا ہو؟ الحمدللہ اسی محنت کی بدولت اسلام کی ان معتبر تشریحات کا فروغ ہو رہا ہےجن میں تفقہ ائمہ دین کی جھلک موجود ہے۔
شدت اور غلو کے بغیر اصول دین میں اتفاق کے ساتھ ہر مسلک کے ماننے والوں کی رعایت کا حسین امتزاج مطلوب ہو تو آئیں میرے اکابر کی دور اندیشی اور خداداد فراست کا مظہر اس محنت …یقین والی محنت…. میں ملاحظہ فرمائیں۔
عرب و عجم پر چھائی ان درویش صفت خدا رسیدہ لوگوں کی عملی محنت کے ثمرات آپ کو کرۂ ارض پر بسنے والے انسانوں کی زندگیوں میں یقیناً جلوہ گر دکھائی دیں گے۔جن کی صبح شام ایک ہی صدا ہے اللہ رب العزت نے ہماری اور آپ کی بلکہ سارے عالم کی کامیابی اپنے دین پر چلنے میں رکھی ہے۔یہ دین آئے گا حضور اکرم صلی ا للہ علیہ وسلم کی مبارک محنت سے…….
اور اس محنت کی ابجد یقین و اعتقاد سے شروع ہو کر اسلامی معاشرے کی تشکیل پر جا ختم ہوتی ہے۔ اللہ ہمارے بزرگوں پر راضی ہو اور ان کی اس محنت کو اپنی بارگاہ میں مزید قبولیت کا شرف نصیب فرمائے۔اس سلسلے میں تبلیغی جماعت کا سالانہ اجتماع مورخہ 8نومبر 2012ء سے رائے ونڈ میں شروع ہو رہا ہے۔ان شا ء اللہ علمائے کرام کے بیانات ،انفرادی و اجتماعی اعمال کی مجالس، نالہ ہائے نیم شب کے ساتھ ساتھ امت مرحومہ کے زوال وانحطاط کے خاتمے اور اسلامی تہذیب و تمدن کے فروغ پر قیمتی نصائح بھی یہ بزرگ ارشاد فرمائیں گے۔
اپنے اکابر کی اس جماعت یعنی تبلیغی جماعت پر لا مذہب لوگوں کے بودے اور رکیک شبہات کے رد کےلیے ان شاء اللہ منبر کی مغربی جانب بازار نمبر 3 میں اسٹال نمبر5،6 موجود ہو گا۔جہاں پر آپ کو ایسی کتب اور لٹریچر بکثرت دستیاب ہوں گی جس سے اس یقین والی محنت کرنے والوں کا مزید انشراح ہو گا۔ احباب کے اصرار پر راقم بھی اپنے اسٹال پر ان شاء اللہ موجود ہو گا۔
اللہ ہم سب کو ایمان و عمل والی محنت میں قبو ل فرمائے۔ آمین بجاہ النبی الکریم
والسلام
محمد الیاس گھمن
عقائد ونظریات کامحافظ
ماہنامہ بینات، اشاعت خصوصی ، اکتوبر تا دسمبر 2011ء
پچھلے کئی عشروں سے عالم اسلام میں عموما اور وطن عزیز پاکستان میں خصوصا بدامنی اور انارکی کے تعفن نے ماحول کو مکدر کررکھا ہے۔ آئے دن نامور علماء ،مذہبی قائدین واراکین کا قتل اب معمول بنتا جارہاہے۔ناموس رسالت کا مسئلہ ،حرمت قرآن ،ناموس صحابہ اور ناموس اولیاء اللہ جیسے اہم مسائل میں جن علمائے حق نے قربانی دی ہے ان میں سے ایک نام مولانا سعید احمد جلال پوری رحمہ اللہ کا بھی ہے۔
مولانارحمہ اللہ کی زندگی کا مقصد دین کی سرفرازی تھا اور وہ اسی لئے شہید ہوئے اور اسی لئے وہ غازی تھے کہتے ہیں کہ:
تمہی سے اے مجاہدو جہان کا ثبات ہے

شہید کی جو موت ہے وہ قوم کی حیات ہے

مجھے اس جملے سے مکمل اتفاق ہے کہ شہید کی موت قوم کی حیات ہوتی ہے، لیکن جن لوگوں کے علم کا دائرہ اس جملے کو صرف اَفواجِ پاکستان میں منحصر سمجھتا ہے، میں ان سے کہوں گا کہ اگر فوجی جرنیلوں سے قوم ِپاکستان کو حیات ملتی ہے تو مذہبی جرنیلوں کی شہادت سے صرف قوم پاکستان کو نہیں بلکہ عالم اسلام کو حیات ِجاوداں ملتی ہے۔ شہید یقینازندہ ہوتے ہیں ،ہم انہیں آج بھی زندہ سمجھتے ہیں ،اور وہ اپنے مشن ،اپنے کاز اور اپنے عقائد ونظریات سمیت زندہ ہیں۔
میرا مولانا شہید رحمہ اللہ سے تعلق مسلک کے حوالے سے خاص رہا ہے۔ اہل السنت والجماعت کے عقائد کی ترویج اور اِشاعت کا مسئلہ ہو یا دِفاع کا ،ہر دو مراحل میں حضرت کی ذات ِگرامی انتہائی حساس تھی۔
مجھے یاد ہے کہ تقریباً آج سے چارسال قبل جب میں اپنے اِدارے مرکز اہل السنۃ والجماعۃ میں لائبریری کی کتب کے حوالے سے حضرت شہید رحمہ اللہ سے بات کی تو حضرت نے فوراًاپنے خادم کو چیک بک لانے کو فرمایا ،میں سمجھ رہاتھا کہ شاید دس پندرہ ہزار روپے کا چیک کاٹیں گے ،لیکن میں نے جب چیک پردرج شدہ رقم دیکھی تو میرا خیال غلط ثابت ہوا ،حضرت رحمہ اللہ نے پورے ایک لاکھ روپے کا چیک میرے حوالے کیا ،ساتھ ہی فرمایا
مولانا!مسلک کے دفاع کے لئے میری جان تک حاضر ہے۔
اور واقعتاایسا ہی تھا ،مسلک کے دفاع کے لئے حضرت جلال پوری رحمہ اللہ نے اپنی ساری زندگی قربان کی ہے ،اور دورِجدید کے تمام فتنوں سے دلائل کی قوت سے نبرد آزما رہے ہیں۔ دور حاضر میں فتنہ زید حامد ،فتنہ یوسف کذاب ،فتنہ منکر ین حیات انبیاء علیہم السلام ، فتنہ انکارِ حدیث،فتنہ انکارِفقہ کا حضرت رحمہ اللہ نے مردانہ وار مقابلہ کیا اور ان کے تمام سرغنوں کو چاروں شانے چت کیا۔
آخری ایام میں فتنہ زید حامد کے خلاف آپ کی کوششیں حد درجہ بڑھ گئی تھیں۔ آپ کویاد ہوگا کہ ہمارے مؤقر اخبار روزنامہ اسلام میں حضرت کی باطل شکن تحریر نے دُشمن کے دانت کھٹے کررکھے تھے اور دشمن نے جب خود کو دلائل کی دنیا میں کھوکھلا پایا تو اپنی شکست چھپانے کے لئے آخر کار انہی ہتھکنڈوں پر اتر آیا جو روز ِاول سے باطل کا شیوہ اور وطیرہ رہا ہے ،یعنی قتل۔!
حضرت رحمہ اللہ کو دشمن اپنے باطل عزائم کی تکمیل میں کوہ گراں سمجھتے تھے،اس لئے انہیں قتل کرادیا ،لیکن اللہ کا فضل ہے ،حق کا قافلہ اب بھی اس جوانمردی اور جرأت کے ساتھ اپنی منزل کی طرف بڑی تیزی سے رواں دواں ہے۔ حضرت رحمہ اللہ کے سینے میں چھپے درد کا اِحساس صرف انہی کو ہوسکتاہے جو عقائد ونظریات میں متصلب ہوں۔
اللہ تعالیٰ عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کے جملہ قائدین اور اراکین اورآپ رحمہ اللہ کے تمام متوسلین اور منتسبین اور ہم سب کو حضرت رحمہ اللہ کے مشن کا امین بنائے ،آمین!
محتاج دعا
محمد الیاس گھمن
عید کیا پیغام دیتی ہے؟
بر موقع عید الفطر 1432ھ
دنیا کی ہر قوم اپنا ایک تہوار رکھتی ہے۔ان تہواروں میں اپنی خوشی کے ساتھ ساتھ اپنے جدا گانہ تشخص کا اظہار بھی ہوتا ہے۔عیسائیوں کا کرسمس ڈے، ہندؤوں کی ہولی اور دیوالی اور پارسیوں کے ہاں نوروز اور مہرجان کی عیدیں ان کے تہوار کی نمائندہ ہیں۔ لیکن مسلمانوں کی عید دیگر مذاہب و اقوام کے تہواروں سے بالکل مختلف حیثیت رکھتی ہے۔ وہاں عید کا دن نفسیات کی پابندی، عیش و عشرت کے اظہار اور فسق و فجور کے افعال میں گزرتا ہے، لیکن اہل اسلام کی عید صرف خوشی ہی نہیں بلکہ اللہ رب العزت کی عبادت، ذکر اور شکرمیں گزرتی ہے۔ یعنی یومِ عید خوشی و شادمانی کے ساتھ ساتھ عبادت کا دن بھی ہے۔
اہل اسلام کی عید اپنے اندر اطاعتِ خداوندی، اظہار شادمانی، اجتماعیت، تعاون و تراحم کے احساسات، مال و دولت کی حرص سے اجتناب جیسے جذبات رکھتی ہے۔اس دن جو امور مشروع کیے گئے ہیں ان سے یہی ظاہر ہوتا ہے انسان غمی و مصیبت میں تو خدا کو یاد کرتا ہی ہے لیکن مسلمان اپنی خوشی کے لمحات میں بھی یاد الٰہی سے غافل نہیں رہتے۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم عید الفطر کے دن نماز عید سے قبل طاق عدد کھجوریں کھا کر عید گاہ تشریف لے جاتے تھے۔
صحیح البخاری حدیث نمبر 953
اس لیے عید گاہ جانے سے قبل کوئی میٹھی چیز کھا کر جانا مسنون ہے۔ گویا اس دن کمالِ اطاعت کا درس دیا جا رہا ہے کہ عید سے پہلے رمضانِ مقدس کے مہینے میں روزہ دار کا نہ کھانا بھی شریعت کے حکم کی تعمیل تھی اور آج کے دن نماز سے قبل کچھ کھا کر جانا، یہ بھی سنتِ نبویہ علی صاحبہا الصلوۃ و السلام کی تعمیل ہے۔ ظاہر ہے کہ اس سے زیادہ اطاعت شعاری کیا ہو سکتی ہے؟ اس میں ایک پیغام یہ بھی ہے کہ مؤمن کا ہر عمل اللہ رب العزت کے احکامات اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کے مطابق ہونا چاہیے۔
تقدیر کے پابند ہیں نباتات و جمادات

مؤمن فقط احکام الٰہی کا ہے پابند

اہل نصاب کو عید گاہ جانے سے قبل صدقئہ فطر کی ادائیگی کی ترغیب دی گئی ہے۔
صحیح البخاری حدیث نمبر 1503
گویا یہ پیغام دیا جا رہا ہے کہ عید کی خوشیوں میں اپنے فقراء و مساکین بھائیوں سے غافل نہ رہو ،بلکہ تعاون اور تراحم کے جذبات لے کر انھیں بھی اپنی خوشیوں میں شامل کرو۔یوں باہمی تعلقات کے جذبات پیدا ہو کر معاشرہ میں جو امیر و غریب کے درمیان بُعد ہے وہ ختم ہو گا۔ صدقہ فطر کی مشروعیت میں ایک اہم امر یہ بھی کارفرما ہے کی انسان کو مال کی حرص و ہوس سے بچنا چاہیے اور یہ ملحوظِ خاطر رکھنا چاہیے کہ دولت خدا تعالٰی کا عطیہ ہے،میری اپنی کاوش و کوشش کا کمال نہیں۔ جہاں باری تعالٰی چاہیں گے وہیں خرچ کروں گا۔
عید کے دن صاف ستھرے کپڑے پہننے میں اللہ تعالی کی نعمت کا اظہار ہوتا ہے۔ حدیث مبارکہ میں ہے کہ اللہ تعالٰی اس بات کو پسند کرتے ہیں کہ بندے پر اس کی نعمت کا اثر نظر آئے۔
جامع الترمذی، حدیث نمبر 2819
تو بندہ صاف ستھرا یا نیا لباس پہن کر اس نعمتِ مال کا اظہار و اقرار کرتا ہے۔ یہاں یہ بات ملحوظ رہنی چاہیے کہ حقیقی عید محض زیبائش و آرائش اور فاخرانہ لباس پہننے کا نام نہیں بلکہ عذاب آخرت سے بچ جانا ہی حقیقی عید ہے۔ بعض بزرگوں کا قول ہے:
لَیْسَ الْعِیْدُ لِمَنْ لَبِسَ الْفَاخِرَۃِ

اِنَّمَا الْعِیْدُ لِمَنْ اَمِنَ عَذَابَ الْآخِرَۃِ

الکشکول للشیخ بہاء الدین العاملی ج 1ص168
کہ عید اس کی نہیں جو فاخرہ لباس پہنے بلکہ جو آخرت کے عذاب سے بچ جائے، عید تو اس کی ہے۔
عید کے دن عید نماز کی ادائیگی کے لیے عید گاہ کی طرف جانااور تمام مسلمانوں کا ایک امام کی اقتداء میں نماز ادا کرنا اسلام کی شان و شوکت کا اظہار ہے، امتِ مسلمہ عملاً یہ ثابت کر رہی ہوتی ہے کہ مسلمانوں میں امیر غریب، محتاج و غنی، گورا کالا تمام برابر ہیں۔ کسی کو دوسرے پر مال و عہدہ کی وجہ سے برتری نہیں۔ اللہ تعالٰی کی نظر میں سب مساوی ہیں۔
ایک ہی صف میں کھڑے ہو گئے محمود و ایاز

نہ کوئی بندہ رہا نہ کوئی بندہ نواز

نیز اس اجتماع میں آخرت کے دن کی یاد بھی ہوتی ہے۔ جب تمام انسان اللہ تعالٰی کے حضور پیش ہوں گے، جہاں ہر قوم و قبیلہ کے لوگ جمع ہوں گے۔ تو یہ اجتماع جہاں خوشیوں کی ساعات مہیا کرتا ہے وہاں یادِ آخرت سے بھی غافل نہیں ہونے دیتا۔
نماز عید کی ادائیگی دراصل روزہ کی ادائیگی پر شکرانہ ہے۔ مسلمانوں نے رمضان مقدس میں روزہ رکھا، تراویح ونوافل ادا کیے۔ غیبت، چغلی، جھوٹ، بدکاری اور فحاشی جیسی برائیوں سے بچتے رہے۔ اعمال صالحہ کی برکات سے ان کی زندگی میں تبدیلی آئی کہ وہ گناہوں کو چھوڑ کرتقوی و پرہیزگاری کی زندگی بسر کرنے لگے۔اب اللہ تعالٰی کے حضور حاضر ہو کر اس بات کا اظہار کرتے ہیں کہ نیکیوں کی توفیق دینے والی ذات اللہ تعالٰی کی ہے۔ نیز
لَاِنْ شَکَرْتُمْ لَاَزِیْدَنَّکُمْ
سورۃ ابراہیم:7
کے فرمانِ قرآنی کے تحت اس دن نیکی کی توفیق پر جتنا شکر ادا کریں گے اتنی ہی توفیق زیادہ ملتی ہے۔
یہاں ایک بات کا خیال رکھنا از حد ضروری ہے کہ ’’عید کی تیاری‘‘ کے عنوان سے ہمارے معاشرے میں فضول خرچی اور اسراف کا جو رواج چل نکلا ہے شریعت اس سے منع کرتی ہے۔ اتنی بات تو ثابت ہے کہ جو عمدہ لباس میسر ہو پہنا جائے لیکن اگر کسی کی مالی حالت کمزور ہو تو خواہ مخواہ قرض اٹھا کر وقتی زیب و زینت کا سامان کرنا کسی طرح درست نہیں۔
عید سے دس بارہ دن قبل ہی زرق برق کے لباس، مرغن کھانوں اور گھروں کی آرائش پر جو روپیہ پیسہ بے جا اڑایا جاتا ہے شریعت کی نظر میں یہ فضول خرچی ہے۔ قرآن مقدس میں فضول خرچی کرنے والون کو شیطان کا بھائی کہا گیا ہے۔ ارشاد گرامی ہے:
إِنَّ الْمُبَذِّرِينَ كَانُوا إِخْوَانَ الشَّيَاطِينِ
سورۃ الاسراء:27
نیز رمضان المقدس کا آخری عشرہ جسے ’’جہنم سے آزادی کا عشرہ‘‘ کہا گیا ہے ،کی ساری عبادات و ریاضات ’’عید کی تیاری‘‘ کی نظر ہو جاتی ہیں۔ جو راتیں گوشئہ تنہائی میں باری تعالیٰ سے عرض و مناجات میں گزرنی چاہییں وہ بازاروں میں گھومنے میں گزرتی ہیں۔
رمضان المقدس کی آخری راتیں آخرت کمانے کا بہترین ذریعہ ہیں۔ حدیث مبارک میں مروی ہے:
وَ یَغْفِرُ لَھُمْ فِیْ آخِرِ لَیْلَۃ
مسند احمد بن حنبل، حدیث نمبر 7904
کہ اللہ تعالی آخری رات روزہ داروں کی مغفرت فرماتے ہیں۔
انہی راتوں میں لیلۃ القدر بھی ہوتی ہے۔ لہذا ان مبارک ساعات کو فضول کاموں کی وجہ سے ضائع نہ کیا جائے بلکہ پورے اہتمام اور توجہ کے ساتھ عبادت میں مشغول رہا جائے اور عید کی حقیقی مسرتوں کو حاصل کرنے کے لیے شریعت مطہرہ کے بتائے گئے فرامین پر عمل کیا جائے۔
والسلام
محمد الیاس گھمن
رہبر ہمیں درکا ر نہ محتاجِ خضر ہم
مولانا فضل الرحمن اور جمعیت علمائے اسلام
افقِ عالم پہ با م شہرت کو پہنچنے وا لی ہستیوں میں سے ایک ہستی ہما رے مخدو م ومکر م عا لم با عمل مولا نا فضل الر حمن صا حب دا مت برکاتہم کی ہے، جنہو ں نے میدان ِسیاست میں اہلِ حق کی تر جمانی فر ما ئی اور ایوا نِ اقتدار سے اٹھنے والی ہر اس با د سموم کا سختی سے مقا بلہ کیا جو گلشن اسلام کو ویرا نے میں بدلنا چا ہتی تھی۔ ہر دور کے کٹھن حالا ت کا خندہ پیشا نی سے مقا بلہ کر نا، اپنوں کے نشتر سہہ کر مسکرانا اور خر من باطل پر بجلیا ں گرا نا، یہ و ہ صفات ہیں جو اللہ تعا لیٰ نے مو لا نا موصو ف کو وافر مقدار میں عطا ء فرمائی ہیں۔
مولا نا علما ئے حق کی اس جما عت کے سر خیل ہیں جس جما عت نے اس وقت مسند نبوی کا تحفظ کرتے ہو ئے امت مسلمہ کی اشک شو ئی کی تھی جب نااہل لوگ وراثت پیغمبر کے وارث بننے کی ناکام کوشش کر رہے تھے اور انبیاء کی مقدس ورا ثت ’’سیاست ‘‘ نا اہل لو گو ں کے ہاتھ میں کھلو نا بن چکی تھی۔ شا ید آپ کو لفظ’’سیا ست‘‘ انبیاء کے سا تھ دیکھ کر اچنبھا محسوس ہو ،تو اس اجنبیت کو بخا ری شریف کی مندرجہ ذیل حد یث پڑھ کر دور فر مائیں۔
عن النبی صلی اللہ علیہ وسلم قال کا نت بنو اسرا ئیل تسو سہم الانبیائ
بخاری شریف رقم الحدیث 3196
بنو اسرا ئیل کے سیا ست دا ن ان کے انبیاء کرا م تھے اس حد یث کی وضا حت کرتے ہو ئے علامہ عینی رحمۃ اللہ علیہ عمدۃ القاری میں ارشا د فر ما تے ہیں
ای تتولیٰ امورہم کما تفعل الامراء والولاۃ با لرعیۃ والسیاسۃ
عمدۃ القا ری ج23ص454
کہ بنی اسرائیل کے امور کے متولی ان کے انبیاء کرا م تھے۔
تو سیا ست انبیاء کرا م کی مقدس ورا ثت ہے ،جسے اہل حق علما ء ہی کے ہا تھوں میں رہنا چا ہئے۔ ہم سر زمین ہند کی سیاست پر نظر دوڑا ئیں تو جمعیت علما ء اسلا م کا کردار سب سے نرا لا اور اجلا نظر آتا ہے۔ تا ریخ کے طا لب علم کے لیے یہ با ت با عث تشنگی ہو گی اگر جمعیت کے موجود ہ سیٹ اپ کے تعارف سے قبل اس کے شا ن دار ما ضی کی جھلک نہ دکھائی جا ئے ،کیو نکہ وہی قومیں اپنا مستقبل محفو ظ کر سکتی ہیں جو اپنے ما ضی کے تابنا ک اور المناک، دونوں واقعات سے آشنا ہو ں اور جنہیں اپنے قومی دوست اور دشمن کی پہچان ہو۔
آئیے !ہم مختصراً جمعیت کے ما ضی پر ایک نظر دوڑا ئیں تا کہ مو جودہ جمعیت کی قدر واہمیت کا اندا زہ ہو اور ہر اٹھتے طوفان کو دیکھ کر اصحا ب علم وفضل کو ہدف طعن بنا نے کی بجا ئے انہیں اپنے اسلا ف کی یا د گا رسمجھ کر سینے سے لگا ئیں۔
غنیمت ہے جو بچ گئے کچھ آدھ جلے تنکے

سینے سے لگا لو یادگار آشیاں سمجھو

آئیے !ذرا وہ آشیا نہ تو دیکھ لیں کہ کس قدر محنت اور جا ن فشا نی سے امت کو جمعیت کا سا ئبان فرا ہم کیا گیا جس نے کڑ کتی دھو پ میں نو نہلا ن چمن کو ٹھنڈاسا یہ فراہم کیا۔
بر صغیر پا ک وہند میں 1611 ء میں انگر یز کے منحوس قدم برا جما ن ہونے سے لے کر 1947 ء کی آزادی تک وہ کو نسا دن تھا جب اہل دل آزادی وطن کے لیے بے تا ب ہو کر سو چ و بچا ر اور جہد مسلسل نہ کرتے رہے ہوں۔ انگریزی جبر واستبداد کے خلا ف پہلی تحریک سید احمد شہید اور شاہ اسما عیل شہید کے زیر قیادت 26 مئی 1831 ء کو دو نوں بزرگو ں کی شہا دت پر ختم ہو ئی۔ دوسری تحریک 1857 ء کی جنگ آزاد ی تھی ،جسے غدارا ن ملت نے ’’غدر‘‘ کا لقب دیا۔ تیسری تحریک علما ء صادق پور کی تھی جو 1882 ء کومشہور مقدمہ انبالہ پر ختم ہو گئی۔ چو تھی تحریک حضرت شیخ الہند محمود الحسن صا حب ؒکی زیر قیا دت رکھی جو تحریک ریشمی رو ما ل کے نا م سے معروف ہو ئی اور یہی تحریک تھی جس نے بعد ازاں 1919 ء میں جمعیت العلما ء کی شکل اختیا ر کی۔
یہ وقت تھا جب بہت سے ا صحا ب جبہ و دستار انگر یز کی خد مت میں اپنے سپاس نا مے پیش کر کے اس کی خو ش نودی کے سر ٹیفکیٹ لے رہے تھے۔ یہ جمعیت ہی تھی جو ان دگر گو ں حالا ت میں دفاع اسلا م اور دفا ع مسلمین کا فر یضہ انجا م دے رہی تھی۔ جمعیت علما ء اسلام کے دستو ر میں چو نکہ اسلا می مراکز اور مسلمانو ں کے قومی تشخص کا دفاع کر نا شا مل ہے، لہذا 1914 ء میں برپا ہو نے والی جنگ عظیم کے سلسلہ میں جب انگریزی استعما ر نے حجا ز مقدس پر قبضہ جما نے اور خلا فت عثما نیہ کو ختم کر دینے کا تہیہ کر لیا تھا تو جمعیت العلما ء ہی نے ترک موا لا ت اور عدم تعا ون کی تحریک چلا کر انگر یز کے مصا ئب میں خا طر خوا ہ اضا فہ کیا ، تر کو ں کی بھر پور معاونت کی اور اپنے جماعتی دستو ر کی لا ج رکھ لی۔
1932 ء میں جب بر طا نوی اسمبلی میں مسلم اور غیر مسلم کے با ہمی نکا ح کا ایجنڈا پیش کیا گیا تو جمعیت ہی تھی جس نے ڈٹ کر اس کا مقا بلہ کیا، حتی کہ یہ ظا لما نہ قانون ختم ہو گیا۔ 1929 ء میں حکومت ہند کی مر کزی اسمبلی میں ایک قا نون پاس ہوا جس کی رو سے اسلام کے ازدوا جی قوا نین میں بے جا مداخلت کی گئی تھی اور یہ قانون’’سار دا ایکٹ ‘‘ کے نا م سے معروف ہوا۔ جمعیت نے بر وقت اس خلا ف شرع قانون کا تعا قب کیا اور سول نا فر ما نی کی تحریک چلا کر اس قانون کو بے اثر بنا دیا۔
الغرض 1927 ء کے سائمن کمیشن کا با ئیکا ٹ ہویا 1931 ء کو پشا ور کے قصہ خوا نی با زار کی اندونہا ک شہا دتیں، انقلاب ہندکے بعد مرزائیت کے مقا بلے میں تحفظ ختم نبوت 1953 ء کی جنگ ہو یا ایوا ن اقتدارسے 1974 ء میں قا ئد حریت مفکراسلام مفتی محمود صا حبؒ کا مرزائیت کے تا بو ت میں آخری کیل ٹھو نکنا،یہ سا ری تاریخ شاندا ر ہے اور اس داستا ن کا ہر فرد تا ریخ اسلام کا ایک چمکتا ستا رہ ہے۔ جمعیت کی قیادت یو م تأ سیس سے آ ج تک ان لو گو ں کے ہا تھ میں رہی ہے جو دینی رسوخ اور سیاسی بصیرت رکھتے ہیں۔
در کفے جام شریعت در کفے سندان عشق

ہر ہوس ناکے نہ دند جام وسندان باختن

یہاں یہ با ت لطف سے خا لی نہ ہو گی کہ تحفظ نا موس رسا لت کا قا نو ن اگر اسمبلی سے پاس کروایا ہے تو مفتی محمود علیہ الرحمہ نے اور اگر اغیا ر کے اشا رو ں پر اب اسلا می جمہوریہ پا کستا ن میں تحفظ نا موس رسا لت کے قانون295.Cسے گو رنمنٹ نے چھیڑ چھاڑ کی تو اس قانون کو مزید پیو ند کا ری سے اگر تحفظ فرا ہم کیا ہے تو عظیم با پ کے عظیم بیٹے مولانا فضل الرحمن صا حب نے۔ تحفظ نا موس رسا لت کا مسئلہ ہو یا دفاع افغا نستا ن وپاکستا ن کا، نا موس مدارس کی جنگ ہو یا تحفظ مساجد کی، مولانا فضل الرحمن صا حب نے اپنے فرا ئض منصبی کی ادائیگی میں کو ئی کو تا ہی نہیں فر ما ئی اور ہر دو ر میں قو م کی تمنا ؤں کی لا ج رکھی۔ جب ایک سا بقہ جر نیل اس قو م کی بچیوں کو میراتھن کے نا م پر سڑکو ں پہ لا نا چا ہتا تھا تو ببا نگ دہل پا رلیمنٹ میں اس کے خلا ف آواز بلند کر نے والے یہی مرد قلند ر تھے جن کو ہر دور میں مطعون کیا گیا مگر وہ بغیر کسی طعن وتشنیع کی پروا ہ کیے قافلہ کو لیکر جانب منزل روانہ رہے۔
یوں تو ہر دور کی تذلیل ہم نے سہی ہے لیکن
ہم نے ہر دور کے چہرے کو ضیاء بخشی ہے
کج کلاہوں کی رعونت کا اڑایا ہے مذاق

ہم نے مجبور زبانوں کو نوا بخشی ہے

میدان سیاست میں مولانا حفظہ اللہ کی موجو دگی میں ہم تو بے فکری سے یو ں ہی کہیں گے۔
مجذوب ہیں طے جذب سے کر لیں گے سفر ہم

رہبر ہمیں درکار نہ محتاج خضر ہم

محتاج دعا
محمد الیاس گھمن