محبتوں کا تاج محل

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
محبتوں کا تاج محل
ماہنامہ حق چار یار، خصوصی شمارہ، مارچ اپریل 2005ء
سمجھ میں نہیں آ رہا ،انہیں کیا کہہ کر مخا طب کروں ؟ بلاشبہ وہ دین کا درد سینے میں لیے مسلم نوجوانوں کے سر پرست تھے۔ بے شک وہ گناہوںمیں ڈوبے ہوؤں کے لیے رشد وہدایت کاروشن مینارہ تھے۔بلا ریب وہ اس راہ کا سنگ میل تھے جسے محبوب حقیقی کا قصد کئے ہوئے راہروان باصفا طے کیے جا رہے ہیں۔ یقیناً وہ اس دور کے وہی چراغ مصطفوی صلی اللہ علیہ وسلم تھے جو ازل سے تا امر وز شرارِ بو لہبی سے ستیزہ کاررہا ہے۔
مانتا ہوں وہ تقدیس مذہب و ملت کے لیے ہردور میں جبر کی آندھیوں کے سامنے استقامت کا وہ کوہِ گراں بن کر رہے کہ بڑے سے بڑا جابر وقت ان سے ٹکرا کر پاش پاش ہوتا گیا۔ کون سا فتنہ ہے جس کے آگے انہوں نے سد سکندری کھڑی نہ کی۔ مگر یہ تو آپ کی شخصیت کے وہ پہلو ہیں کہ اعداء کو بھی ان کے اقرار سے مفر نہیں، میرے لیے وہ ان سب سے بڑھ کر شفیق ترین باپ بھی تھےاور مخلص ترین مربی بھی۔ انہوں میرا ہاتھ اس وقت تھاما ، جب سب اپنے بھی ہاتھ چھڑا لیتے ہیں اور پرانے تعلق اور دیرینہ رفاقتوں والے نام تک بھول جاتے ہیں ، جیسے مٹی کے تیل میں مٹی کا نام تک نہیں ہوتا۔
1996ء میں جب مجھے کمشنر سرگودھا ، آنجہانی تجمل عباس کے جھوٹے مقدمہ قتل میں ملوث کیا گیا تو حضرت رحمۃ اللہ علیہ ہی تھے جو سب سے آگے آئے اور مجھ پر اتنی شفقت فر مائی کہ شاید کوئی سگا باپ بھی نہ کر سکے۔میرا ایمان ہے کہ اس کیس سے )بظاہر عالم اسباب میں نا ممکن (باعزت رہائی میں میرے مالک کریم کے لطف وکرم کے ساتھ ساتھ حضر ت قاضی صاحب کی مربیانہ توجہات، پدرانہ بے لوث کاوشوں اور آپ کے نالہ ہائے نیم شب کا بھی دخل ہے۔
یہاں پر ملحوظ رہے کہ اس کیس میں میری نامزدگی ،گرفتاری اور بعد ازاں رہائی تک حضرت رحمۃ اللہ علیہ سے بالمشافہ یا ٹیلی فونک ملاقا ت تک نہ تھی، صرف غائبانہ تعارف تھا۔ دوم یہ کہ ہر چند میر ا کبھی بھی سپاہ صحابہ رضی اللہ عنہ سے کے ساتھ جماعتی تعلق نہیں رہا مگر یہ کیس بوجوہ سپاہ صحابہ کے حوالے سے ہی تھا اور سپاہ والوں کے خدام اہل سنت سے صرف تنظیمی اور تربیتی (نہ کہ نظریاتی )اختلاف کے با وجود ،اس پُرآشوب دور میں بھی حضرت رحمۃ اللہ علیہ نے جس انداز میں میرے ساتھ تعاون فرمایا، باوجود یکہ یہ تمام معاملات مابینی و بینہ وبین اللہ ہیں ، مگر اتنا ضرور کہوں گا کہ حضرت رحمۃ اللہ علیہ کے بعد ان کی کوئی مثال نظر نہیں پڑتی۔
2002ء میں جیل سے رہائی کے بعد پہلی مرتبہ حضرت رحمۃ اللہ علیہ کی زیارت کے لیے حاضر ہوا۔ بغیر اطلاع دیے اور بغیر وقت لیے ہی حضرت رحمۃ اللہ علیہ کے ہاں جا پہنچا۔ ناظم دفتر عبدالوحید حنفی سے عرض مدعا کیا۔ انہوں نے حضرت رحمۃ اللہ علیہ کو اطلاع دی۔ حضرت رحمۃ اللہ علیہ نے فوراً شرف بازیابی بخشا، بڑی دیر تک محبت سے گفتگو فرماتے رہے اور جب تک میں خود نہ اٹھا حضرت رحمۃ اللہ علیہ نے چلے جانے کا اشارہ تک نہ فرمایا۔
حضرت کی ان محبتوں اور شفقتوں کو نہ صرف دنیا میں اپنے لیے مایہ صد افتخار سمجھتا ہوں بلکہ فاو لئک مع الذین کے پیش نظر حشر میں بھی نجات دائمی کا سبب گردانتا ہوں۔
بلاشبہ حضرت رحمۃ اللہ علیہ سے فیض کے اتنے سوتے پھوٹے کہ شاید ہمالہ کے سلسلہ ہائے کوہ سے بھی اتنے چشمے رواں نہ ہوئے ہوں گے۔
دعا ہے اللہ تعالیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ کے صاحبزادے مولانا ظہور الحسین دامت برکاتہم مرکزی امیر خدام اہل السنۃ والجماعۃ کی حفاظت فرمائیں اور حضرت رحمۃ اللہ علیہ کے نقش قدم پر چلاتے ہوئے
والذین امنوا واتبعتھم ذریتھم بایمان الحقنا بھم ذریتھم
کا مصداق بنا دیں۔ آمین
آخر میں پھر کہوں گا کہ جہاں میری عقیدتوں کا محور میرے حضرت رحمۃ اللہ علیہ تھے ، اس سے کہیں فزوں تر وہ میری محبتوں کا تاج محل تھے۔
وللناس فیما یعشقون مذاھب
والسلام
محمد الیاس گھمن
آہ امت اسلامیہ کا مصلح چل بسا !
ماہنامہ نصرۃ العلوم، مفسر قرآن نمبر
چل چلاؤ کے اس جہان میں آنےاور آکر چلے جانے کی تاریخ انتی ہی قدیم ہے جتنی کہ نسل انسانیت کے کرۂ ارض پر بسائے جانے کی ، پیدا ہونا اور فوت ہونا ایسے اجنبی جملے نہیں ہیں جو کسی کان کی قوت سماعت کے لیے غیر مانوس ہوں ہر شخص جانتا ہے کہ پیدا ہونے والا بچہ روتا اور اس کے ماں باپ خوشی ومسرت کا اظہار کرتے ہیں مگر دنیا سے واپسی کا مرحلہ قدرے مختلف ہے۔ بہت تھوڑے ہی وہ بندگانِ خدا مست ہیں جو ہنستے مسکراتے بازارِ جہاں سے کوچ فرماتے ہیں اور مخلوقِ خدا سمیت آسمان وزمین سسکیاں لیتی اور آنسو برساتی ہے۔
وہ جن کی زندگی نے ان کی آخرت کو تابندہ وروشن کردیا ان لائق تحسین ،قابلِ تکریم ، کمیاب، بزرگانِ ملت میں وہ مرد درویش ،داعئ حق، خدا شناس، علم وعرفان کا دمکتا ستارہ، قافلۂ حریت کا میر کارواں، علم وحکمت کا جامع ، اسلاف کی باقیات صالحات ، جن کو دنیا شیخ الاسلام سیدحسین احمد مدنی کے علوم ومعارف کا امین حضرت اقدس الشیخ صوفی عبدالحمید سواتی رحمہ اللہ کے نام سے جانتی ہے شریعت وطریقت ،علم وعرفان ،تقویٰ وزہد کا وہ مجمع البحرین کہ ایک طرف اتباع سنت اور اخلاقِ نبوت؛ حیاتِ اصحاب رسول اور اسوہ مشائخ کا سرچشمہ ہیں تو دوسری طرف اصلاحِ امت، ایثار ، ہمدردئ خلق خدا، جذبہ حب الوطنی اور صدائے قرآن سے ہرکان کو آشنا کرنے کے پھوٹتے چشموں کی طرح شفاف جذبات سے معمور تھے۔ دینی وملی خدمت کے جذبات نے جہاں ان کے دل میں خشیت الہٰی کا چراغ روشن رکھا وہاں ذاتی آرام وراحت وچین سے ان کی زندگی بالکل ہی ناآشنا رہی۔
حضرت شیخ الاسلام کا روحانی فرزند اور اپنی ملت کا محافظ وپاسبان جہاں ایک طرف صدائے قرآن سے افراد ملت کو بیدار کرتا ہے تو وہیں تشنگانِ علوم نبوت کی نگہبانی کا فرض بھی نبھاتا نظر آتا ہے۔ نصرۃ العلوم کی علمی بہاریں اور صدائے قال اللہ و قال الرسول کی فرحت آفریں صدائیں دراصل حضرت شیخ الاسلام مولانا حسین احمد مدنی کے چشمہ صافی کی نمایاں جھلک ہیں ،ہمارے اکابرین کو خدائے لم یزل نے یہ امتیازی وصف عطا فرمایا ہے کہ اکثر ان نفوس قدسیہ کی شخصیات ہمہ جہت اور تعلیم و تربیت میں کامل رہی ہیں۔ ہ
مارے حضرت صوفی صاحب رحمہ اللہ جہاں ملت کی نظر یاتی حدود کو دائرہ اعتدال میں محفوظ رکھنے کی جدوجہد میں مشغول ومصروف رہے وہاں عمل کی راہِ اعتدال کو پوری دیانت داری اور زورِ بازو سے امت تک پہنچا دیا ،حضرت صوفی صاحب کی یاد گار اور معرکۃ الآراء تفسیر معالم العرفان کا ورق ورق شاہد عدل ہے کہ عقائد و نظریات میں امتِ وسط کو راہ اعتدال سے ہٹنے اور افراط و تفریط کا شکار ہوتے دیکھا تو ان کی زبان تلوار کی طرح برستی اور قلم تیر وسنان سے زیادہ تیز رو ہو کر اسلام کی حدود میں داخل افراط وتفریط کا کامیاب آپریشن کرتا چلا گیا نظریاتی عمارت کے ساتھ اسلام کا طریقہ عبادت بھی جب اغیار کی چیرہ دستیوں سے زخمی ہونے لگا تو نماز مسنون جیسی ضخیم اور پر مغز دلائل سے لبریز کتاب سے دودھ اور پانی کے فرق کو با خوبی نمایا ں کر دیا۔
ماضی کے دریچوں میں جھانک کر دیکھا جائے تونصرۃ العلوم پورے عزم سے دَور حاضر کے نومولود یا قدیم شکاری جدید جالوں سے لیس ہو کر جب بڑھنے لگے تو ان کے تعاقب میں رواں دواں تھا۔نصرۃ العلوم کی چار دیواری نے اکابرین دیوبند کی جانشینی کا واقعی حق ادا کیا ہے۔ یہی نصرۃ العلوم حضرت اقدس صوفی صاحب کے دردِوروں خانہ کا امین، ملت کے نظریاتی پہرے داروں کا ہمیشہ سر پرست اور نگہبان رہا ہے۔وطن کی سیاسی ناؤجب بھی ہچکولے کھانے لگی تو حضرت صوفی صاحب کی راہنمائی نے وطنِ عزیز کے مستقبل کو حرام خوری سے محفوظ رکھنے کی کوشش فر مائی۔جمیعت علماء اسلام کے نام قافلہ حق کی تنظیم نو میں حضرت صوفی صاحب کی بصیرت افروزنظر کا عنصر آج بھی شامل ہے۔جب سودی نظام کا دفاع کیا جانے لگا اور وطن عزیز کو سود کے کاروبار میں قید کرنے کی جسارت کی گئی تو حضرت صوفی صاحب نے بالائی سطح پر بھی اپنا کردار ادا کیا اور ملت اسلامیہ کے عوام کو اس خراب اور اسلام دشمن طریقہ معیشت سے بچانے میں بھر پور کردار ادا کیا۔
حضرت کے درس قرآن پاک کا مجموعہ آج بھی اس مرد میدان کی آوازفرزند ان ملت کے رگ و ریشہ میں ڈال رہا ہے۔حضرت شیخ نے نہ صرف عامۃالناس بلکہ ارباب اختیار کی اصلاح میں بھی اپنا کردار بلا خوف و تر دد ادا کیا۔ حکام بالا ہوں یا لباس خضری میں جبہ پوش ملت کے نظریات پر حملہ آور نام نہاد گدی نشین و علمائے سو کوئی بھی حضرت صوفی صاحب کی تنقید برائے اصلاح سے محفوظ نہیں رہ سکا۔ چنانچہ دروس القرآن میں ارباب اختیار اور حکام بالا کے نامناسب رویہ ،اموال کے ناجائز استعمال، قومی املاک میں بے جا تصرف پر انہیں معیشت کی تباہی کا ذمہ دار قرار دیا،قدرتی معدنیات کے منافع اور فوائد یہودو نصاریٰ بلا شرکت غیر لوٹ رہے ہیں۔اس المناک اور انتہائی پریشانی کن احوال پر حضرت صوفی صاحب نے امت اسلامیہ کے سامنے خون جگر کی لکیروں سے اپنا دکھڑا بیان کیا ہے۔نیز ارباب علم کے غلط او ر نا مناسب رویہ پر بھی بھر پور گرفت فرماتے ہوئےوطنِ عزیز کے نظامِ تعلیم ،نظامِ معیشت ،نظامِ عدل ،ودیگر نظامہائے مملکت کی تباہ کاری کا ان کو ذمہ دار قرار دیا کہ ارباب ِعلم نے اپنا فرض ادا کرنے سے روگردانی کی اور درست سمت چلنے سے رکے رہے۔قومی مفادات پر ذاتی مفادات کو ترجیح دی جس کا نقصان پوری ملت اسلامیہ کو اٹھانا پڑا۔
الغرض ہمارے ممدوح رحمہ اللہ نے اپنی زندگی کو چراغ کی طرح روشن رکھا جس سے طلاب شائقین نے اپنے اپنے ظرف کے مطابق روشنی پائی ،بیشک جان کو جوکھوں پر ڈال کر وہ اپنا فرض نبھا گئے۔اب دیکھنا یہ ہے کہ ان ارباب بصیرت سے تربیت پانے والے اپنا فرض کیسے نبھاتے ہیں۔؟ہم پر امید ہیں کہ حضرت اقدس صوفی صاحب کی یہ علمی یادگار اپنے اسلاف کے نقش پا پر پوری استقامت سے قائم رہتے ہوئے فتنوں کے تعاقب میں مصروف حضرت اقدس مولانا محمد امین صفدر اکاڑوی صاحب رحمہ اللہ قربانیوں کا تسلسل اتحاد اہل السنۃ والجماعۃ پاکستان کی سرپرستی فرماتی رہے گی۔ہم حضرت الشیخ صوفی صاحب کے لیے رفع درجات اور پسماندگان کے لیے صبر جمیل کے لیے دست بدعا ہیں۔اللہ کریم اپنے شایانِ شان حضرت کو اپنے خزانہ سے اجر جزیل اور ارباب نصرۃ العلوم کو صبر جمیل عطا فرمائے۔ آمین
محمد الیاس گھمن