صحابیت

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
صحابیت
صحابی کی تعریف
”صحابی“ اسے کہتے ہیں جس نے بحالت ایمان حضورصلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت کی ہویاحضورصلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اس کے ایمان کی حالت میں دیکھاہواورایمان پرہی اس کاخاتمہ ہواہو۔
عظمت صحابی
انبیاء کرام علیہم السلام کےبعدتمام دنیاسے افضل صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ہیں اس لیے کہ وحی کے پہلے مخاطب یہی ہیں۔ لہٰذاصحابہ رضی اللہ عنہم کے بعد امت کاکوئی فردچاہےکتناہی پارسا، عابد وزاہدکیوں نہ ہوکسی ادنیٰ سے صحابی کےرتبےکو نہیں پہنچ سکتا۔جیساکہ حضرت ابو سعیدخدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا
لَا تَسُبُّوا أَصْحَابِي فَلَوْ أَنَّ أَحَدَكُمْ أَنْفَقَ مِثْلَ أُحُدٍ ذَهَبًا مَا بَلَغَ مُدَّ أَحَدِهِمْ وَلَا نَصِيفَه
صحیح البخاری:ج1 ص518
ترجمہ : میرے صحابہ کوگالی نہ دو،اگرتم میں سے کوئی ایک احدپہاڑ کے برابربھی سونا صدقہ کردےتوصحابی کے ایک یاآدھےمُدّکوبھی نہیں پہنچ سکتا۔
معیارایمان وعمل
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کواللہ تعالی نے ایمان اورعمل کیلیے معیار بنایا ہےکہ ایمان اورعمل وہی معتبرہوگاجوصحابہ رضی اللہ عنہم کےایمان وعمل جیسا ہو گا۔ ارشاد فرمایا
فَإِنْ آمَنُوْا بِمِثْلِ مَا آمَنْتُمْ بِهٖ فَقَدِ اهْتَدَوْا
البقرۃ : 137
ترجمہ: اگرتمہاراایمان صحابہ کے ایمان جیساہوگاتوہدایت پاؤگے۔
فائدہ: ”مثل“ سے مراد کیفیت نہیں بلکہ کمیت ہے یعنی جن جن چیزوں پر صحابہ رضی اللہ عنہم ایمان لائے ان تمام پر ایمان لاؤ۔ البتہ صحابہ رضی اللہ عنہم کو جو ایمانی کیفیت صحبت رسول صلی اللہ علیہ و سلم کی وجہ سے حاصل تھی وہ بعد والوں کو حاصل ہونا شرعاً ناممکن ہے۔
اسی طرح ایک مقام پر ارشاد ہے
وَالسَّابِقُوْنَ الْأَوَّلُوْنَ مِنَ الْمُهَاجِرِينَ وَالْأَنْصَارِ وَالَّذِيْنَ اتَّبَعُوْهُمْ بِإِحْسَانٍ رَضِيَ اللّهُ عَنْهُمْ وَرَضُوْا عَنْهُ
التوبۃ:100
ترجمہ: مہاجرین اور انصار میں سے جو لوگ پہلے ایمان لائےاور جنہوں نے نیکی کے ساتھ ان کی پیروی کی اللہ ان سے راضی ہو گیا ہےاور وہ اُس سے راضی ہیں۔
اہل بیت کرام رضی اللہ عنہم
رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات، تین صاحبزادے؛ قاسم، عبد اللہ، ابراہیم رضی اللہ عنہم، چارصاحب زادیاں؛ حضرت زینب، حضرت رقیہ، حضرت ام کلثوم اور حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہن اوران چار صاحب زادیوں کی اولاد اہل بیت ہے۔اس لیے جولوگ صرف حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا ہی کو اہل بیت سمجھتے ہیں بقیہ بیٹیوں اور ازواج کواہل بیت نہیں سمجھتے وہ سخت غلطی پر ہیں۔
خلافت راشدہ
حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعدتیس سال تک کا زمانہ خلافت راشدہ کا زمانہ ہے،جس کوخلافت ِ نبوت بھی کہا جاتاہے۔ان تیس سالوں کی بشارت آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان الفاظ سے دی تھی
:اَلْخِلَافَةُ فِيْ أُمَّتِيْ ثَلَاثُوْنَ سَنَةً
کہ میرے بعدخلافت تیس سال رہے گی۔
سنن الترمذی: باب ما جاء فی الخلافۃ ج2ص46
ان تیس سالوں میں آپ صلی اللہ علیہ سلم کےچارجلیل القدرصحابہ بالترتیب خلیفہ ہوئے:
خلیفۃ المسلمین
مدت خلافت
خلیفہ اول سیدناابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ
2 سال، 3 ماہ، 10دن
خلیفہ دوم سیدناعمرفاروق رضی اللہ عنہ
10 سال، 5ماہ،21 دن
خلیفہ سوم سیدناعثمان غنی رضی اللہ عنہ
12 سال، 11 دن
خلیفہ چہارم سیدناعلی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ
4 سال، 9 ماہ
ان چاروں کو ”خلفاء راشدین“ اور”حق چار یار“ بھی کہتے ہیں۔
مشاجرات صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین
صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے جوآپس میں تنازعات ہوئے ہیں جیسے جنگ جمل اورجنگ صفین وغیرہ، ان نزاعات کو نیک نیتی پرمحمول کرنا چاہیےاوران صحابہ رضی اللہ عنہم کوجوان جنگوں میں شریک ہوئےحُبِّ جاہ، حب مال اورخواہش پرستی سے پاک سمجھناچاہیےکیونکہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تربیت یافتہ جماعت ہیں جونفس امّارہ کی ذلیل حرکات کاشکارنہیں ہوسکتے۔اس بات پر اجماع ہے کہ اس امت میں سب سے افضل صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ہیں، کوئی اعلیٰ سے اعلیٰ امتی بھی کسی ادنیٰ صحابی کےدرجے کونہیں پہنچ سکتالیکن اس سب کے باوجودصحابہ کرام رضی اللہ عنہم بشرتھے، لہٰذا بمقتضائے بشریت ان سے اجتہادی خطاکاسرزدہوجاناان کے تقویٰ اورعدالت کے منافی نہیں ہے۔
اہل السنت والجماعت کا موقف
اس لیے ہمارا موقف ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے تنازعات و مشاجرات کے بارے میں لب کشائی نہیں کرنی چاہیےاورصحابہ رضی اللہ عنہم کا جب بھی ذکرکیا جائے خیرکےساتھ کیا جائے۔
حضرت اما م شافعی رحمہ اللہ سےکسی نے پوچھاکہ حضرت علی رضی اللہ عنہ اورحضرت عائشہ رضی اللہ عنہاکے باہمی جھگڑےکی حقیقت کیاہے کون حق پر ہےاورکون غلطی پر؟توحضرت امام شافعی رحمہ اللہ نے فرمایا:جب اس خون ریزی سے اللہ تعالی نے ہمارے ہاتھوں کو محفوظ رکھاہےتواب ہم اپنی زبانوں کواس خون ریزی میں کیوں ملوث کریں؟
تنقیداورحق تنقید
یہ اصول ہے کہ چھوٹے کے کسی فعل پربڑاگرفت کر سکتا ہے لیکن بڑے کے معاملات پرچھوٹےکوتنقیدکاحق نہیں ہوتا۔اورصحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے بڑےآپ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم سے بڑے اللہ تعالیٰ ہیں۔ لہذاصحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے کسی فعل پرگرفت کاحق یا تو مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہے یاخداکوہےمگروہ دونوں ہستیاں اپنی دائمی رضا مندی کا اعلان فرمارہی ہیں، اب بعدوالوں میں کس کی مجال ہے کہ صحابہ کرامرضی اللہ عنہم کے کسی کام پراعتراض کرے؟ صحابہ رضی اللہ عنہم پر اعتراض کرنا گویا چاند پر تھوکنا ہے۔
تمام اہل السنت والجماعت کا اجماع ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین تمام کے تمام عادل ہیں اور ان میں سے کسی پر بھی تنقید یا جرح کرنا اہل السنت والجماعت کے عقائد و نظریات کے خلاف اور گمراہی ہے۔