اجتہادوتقلید

User Rating: 4 / 5

Star ActiveStar ActiveStar ActiveStar ActiveStar Inactive
 
اجتہادوتقلید
اجتہاد کی تعریف
اجتہاداس خاص قوت استنباط و استدلال کوکہتےہیں جس کے ذریعےامام اور فقیہ قرآن وحدیث کےوہ احکام ومعانی اوراسراروعلل کوشرح صدر کے ساتھ سمجھتا اورحاصل کرلیتاہےجن معانی اور احکام تک عوام الناس کی رسائی نہیں ہوتی اس اجتہادی قوت سے مسائل کاحل نکالنے والے کو ”مجتہد“کہتےہیں اور جو شخص یہ صلاحیت نہ رکھے اور مجتہد کی رائے کو قبول کرے اس کو ”مقلد“ کہتے ہیں۔
ضرورت اجتہاد
روزمرہ کی تغیرپذیرزندگی میں نئے مسائل پیش آتےہیں جن کاحل اصولی طور پر قران پاک اورسنت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں موجود ہوتا ہے لیکن صریح طور پر لکھا ہوا نہیں ہوتا۔اب یہ حل تلاش کرنا قرآن وسنت کے ماہر کا کام ہے۔جیسےہر ملک کا قانون مرتب اورطےشدہ ہوتاہےمگرجب کوئی نیا حادثہ پیش آتاہےتو ماہروکیل قانون کی کتابوں میں غورکرکے اس نئے مسئلے کاقانونی حل نکالتاہے،ایسے ہی ماہرمجتہدقرآن وسنت میں غور وفکر کرکے نئے پیش آمدہ مسائل کاحل نکالتاہے اورعوام الناس کوکبھی بھی شرعی رہنمائی سے مایوس نہیں ہونے دیتا۔
اجتہادکے مواقع
1: جب مسئلہ غیرمنصوص یعنی قرآن وسنت میں اس کی صراحت نہ ہو جیسے روزےکی حالت میں انجکشن لگوانا،ٹیلی فونک نکاح،مختلف کمپنیوں کے شیئرز خریدنا، انشورنس کروانا وغیرہ، یہ سب وہ مسائل ہیں جن کی صراحت قرآن وسنت میں موجودنہیں۔ اب مجتہدکاکام ہے کہ وہ ان چیزوں کاحکم معلوم کرے اور غیرمجتہد کاکام یہ ہےکہ وہ مجتہدکے بتائےہوئےمسئلہ پرعمل کرے۔
2: جہاں نص تو موجودہومگراس کے مقابل دوسری نص بھی موجود ہو یعنی نصوص میں تعارض ہوتواس صورت میں فقیہ ناسخ و منسوخ اور راجح ومرجوح کے ذریعے یا دونوں نصوص میں تطبیق دےکرعمل کی ایسی صورت نکالےگاکہ کسی نص کی مخالفت بھی نہ ہو اور تعارض کے با وجود لائحہ عمل متعین ہوجائے۔جیساکہ رفع الیدین کرنےکی احادیث بھی موجودہیں، مثلاً
أَنَّ رَسُوْلَ اللّهِ صَلَّى اللّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَرْفَعُ يَدَيْهِ عِنْدَ كُلِّ تَكْبِيرَةٍ
سنن ابن ماجۃ: ص61
کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہرتکبیرکے ساتھ رفع الیدین کرتےتھے اور اس کے معارض دوسری حدیث بھی موجودہےکہ حضرت عبداللہ بن مسعودرضی اللہ عنہ فرماتےہیں
أَلَا أُصَلِّي بِكُمْ صَلَاةَ رَسُولِ اللّهِ صَلَّى اللّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَصَلّٰى فَلَمْ يَرْفَعْ يَدَيْهِ إِلَّا مَرَّةً وَاحِدَةً
سنن النسائی ج 1 ص161، 162باب الرخصۃ فی ترک ذلک
کیامیں تمہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم والی نماز پڑھ کر نہ دکھاؤں؟ پھرآپ نے نماز پڑھ کردکھائی اورصرف شروع میں رفع الیدین کیا۔
اب ان متعارض روایات میں سے امام اعظم ابوحنیفہ رحمہ اللہ نےلائحہ عمل متعین فرمایاکہ رفع الیدین کرنے کی روایات اول دور کی ہیں اورنہ کرنےوالی آخری دورکی ہے۔ اور محدثین وفقہاءنےاصول بتایاکہ پہلاعمل منسوخ اوربعدوالاعمل ناسخ ہوگا۔اس لیے رفع الیدین کرنے کی روایات پہلے دورکی ہونے کی وجہ سے منسوخ ہیں اور نہ کرنے والی آخری دورکی ہونے کی وجہ سےناسخ ہیں۔
3: جہاں نص محتمل المعنی ہو یعنی نص کے کئی معنی نکلتے ہوں لیکن صاحب شریعت صلی اللہ علیہ وسلم نےکوئی ایک معنی متعین نہ کیاہو،جیسے
Īوَالْمُطَلَّقَاتُ يَتَرَبَّصْنَ بِأَنْفُسِهِنَّ ثَلَاثَةَ قُرُوْٓءٍĨ
البقرۃ:228
کہ اگرکسی مردنے اپنی بیوی کوطلاق دیدی تواس عورت کی عدت تین حیض ہوں گے۔لفظ ” قُرُوْٓءٍ“ کا معنی حیض بھی ہے اورطہر بھی، مگر کسی ایک معنی کا تعین رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے نہیں فرمایا۔ اب ایک معنی یعنی ”حیض “کا تعین امام اعظم ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ نے دیگر دلائل کی بنیاد پر فرمایا ہے۔
عوام الناس کی ذمہ داری
عوام الناس کی ذمہ داری یہ ہے کہ وہ بقدرضرورت شریعت کاعلم حاصل کریں، اس پرعمل کی کوشش کریں اورعلماءومجتہدین کےساتھ حسن عقیدت رکھتے ہوئے ان کے بتائےہوئےمسائل پرعمل کریں۔آج کل جو اجتہاد کےنام پراباحیت پھیلائی جارہی ہے یہ صرف بدعملی پھیلانےاورامت کواپنے اسلاف سےبدظن کرنے کی سازش ہےکہ جب امت کا رشتہ اپنے مجتہدین سے کٹ جائےگاتویہ کٹی ہوئی پتنگ کی طرح کسی بھی گمراہ اوربےدین کی گود میں گر جائےگی۔اس لیےحضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نےصحابہ اور اکابرینِ امت کی بات ماننے کوضروری قرار دیتےہوئےفرمایا
لَا يَزَالُ النَّاسُ صَالِحِيْنَ مُتَمَاسِكِيْنَ مَا أَتَاهُمُ الْعِلْمُ مِنْ أَصْحَابِ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَمِنْ أَكَابِرِهِمْ، فَإِذَا أَتَاهُمْ مِنْ أَصَاغِرِهِمْ هَلَكُوْا
المعجم الکبیرللطبرانی: ج4 ص 469 رقم الحدیث 8511
ترجمہ: لوگ جب تک صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اوراپنے اکابرسےعلم حاصل کرتےرہیں گے خیراوربھلائی پررہیں گے اور جب یہ نئےچھوٹے لوگوں مثلاً ڈاکٹر پروفیسر وغیرہ سےعلم حاصل کریں گے ہلاک ہوجائیں گے۔
ائمہ مجتہدین
اسلامی تاریخ میں بےشمارائمہ مجتہدین گزرےہیں لیکن اللہ تعالی نےتکوینی طور پرچارائمہ کی فقہ اوران کے پیروکاروں کوباقی رکھااوربقیہ ائمہ کی اجتہادی کاوشیں اللہ کے ہاں مقبول وماجور ہونےکےباجوداس طرح مرتب ہو کر امت کےپاس تواترسے نہیں پہنچی جس طرح چار جلیل القدرائمہ کی فقہ امت تک پہنچی ہے۔ وہ چار ائمہ مجتہدین یہ ہیں: امام اعظم ابوحنیفہ نعمان بن ثابت، امام مالک بن انس، امام احمدبن محمد بن حنبلجو کہ امام احمدبن حنبل کے نام سے مشہور ہیں امام محمد بن ادریس شافعی رحمہم اللہ۔ پھران چاروں میں سےبھی بڑےامام اعظم ابوحنیفہ رحمہ اللہ ہیں۔
امام اعظم ابوحنیفہ رحمہ اللہ
آپ کانام ”نعمان بن ثابت“ہے۔صحیح قول کے مطابق 80ھ میں پیدا ہوئےاور150 ہجری میں بغدادمیں وفات پائی۔کنیت”ابوحنیفہ“ہے۔ چونکہ ”حنفی“ یا”حنیف“ اُسے کہتےہیں جوباطل سےمنہ موڑکرایک خدا کا ہو رہے اس لیےامام اعظم نعمان بن ثابت کورجوع الی اللہ کی وجہ سے ”ابوحنیفہ“ کہاجاتا ہے
ایک غلط فہمی کاازالہ
بعض لوگ اس غلط فہمی کاشکارہیں کہ ”حنیفہ“ نام کی امام صاحب کی بیٹی تھی، جس نے ایک مسئلہ میں امام صاحب کی رہنمائی فرمائی تھی اس لیے آپ ”ابوحنیفہ“ کےنام سےمشہورہوگئے۔یہ بات سراسرغلط ہے، اس لیے کہ امام صاحب کاصرف ایک ہی بیٹاتھاجس کانام حمادتھا۔ چنانچہ علامہ ابن حجرالہیثمی رحمہ اللہ فرماتےہیں
لَایُعْلَمُ لَہُ ذَکَرٌوَلَااُنْثیٰ غَیْرُحمَاَّدٍ
الخیرات الحسان: ص12
ترجمہ : حماد کے علاوہ آپ کا کوئی لڑکا تھا اور نہ کوئی لڑکی۔
”ابوحنیفہ“ بھی ایسی ہی ایک کنیت ہے جیسے ابوالکلام، ابوالحسنات وغیرہ۔
امام اعظم ؛ دیگر ائمہ کی نظرمیں

1

امام مالک رحمہ اللہ امام صاحب کی شان میں فرماتےہیں
رَاَیْتُ رَجُلًالَوْکَلَّمَکَ فِیْ ہٰذِہِ السَّارِیَۃِ اَنْ یَجْعَلَہَاذَہَبًالَقَامَ بِحُجَّتِہٖ
اکمال: ص640
ترجمہ : میں نے ایک ایسےآدمی کودیکھاہے کہ اگروہ اس ستون کو سونے کا ثابت کرنا چاہے تو دلائل سے ثابت بھی کر دے گا۔

2

امام شافعی رحمہ اللہ آپ کی عظمت کا اعتراف کرتے ہوئے فرماتےہیں
اَلنَّاسُ فِی الْفِقْہِ عِیَالُ اَبِیْ حَنِیْفَۃَ۔
فقہ اہل العراق وحدیثہم للکوثری
ترجمہ : لوگ فقہ میں امام ابوحنیفہ کے خوشہ چیں ہیں۔

3)

امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ ارشاد فرماتے ہیں
اِنَّہٗ مِنْ اَہْلِ الْوَرِعِ وَ الزُّہْدِ وَ اِیْثَارِالْآخِرَۃِ بِمَحَلٍّ لَا یُدْرِکُہٗ اَحَدٌ وَ لَقَدْ ضُرِبَ بِالسِّیَاطِ لِیَلِیَ الْقَضَاءَ لِلْمَنْصُوْرِ فَلَمْ یَفْعَلْ فَرَحْمَۃُ اللہِ عَلَیْہِ وَ رِضْوَانُہٗ
الخیرات الحسان: ص68
ترجمہ: آپ عابد، زاہد اور فکر آخرت کے ا س مقام پر فائز تھے کہ کوئی شخص بھی اس مقام کو نہ پہنچ سکتا تھا، منصور کی جانب سے پیش کیے گئے عہدہ قضاء کو قبول نہ کرنے کی وجہ سے آپ کو کوڑے مارے گئے لیکن آپ نے عہدہ پھر بھی قبول نہ کیا۔ آپ پر اللہ کی رحمت ہو اور اللہ آپ سے راضی ہو۔امام صاحب کےمناقب اورفضائل جاننے کیلیے ان کتب کامطالعہ کیاجائے۔
امام اعظم ابوحنیفہ کامحدثانہ مقام
حافظ ظہوراحمدالحسینی
مقام ابی حنیفہ رحمہ اللہ
مولانا سرفراز خان صفدر رحمہ اللہ
آثار الحدیث
علامہ خالدمحمود پی ایچ ڈی لندن
اس کے علاوہ دیگر کئی علمائے کرام کی تصنیفات اس موضوع پر موجود ہیں۔
امام مالک رحمہ اللہ
امام مالک بن انس المدنی مشہورقول کےمطابق93ہجری میں پیدا ہوئے اورصحیح روایت کےمطابق179ہجری میں وفات پائی۔امام مالک رحمہ اللہ فن حدیث کےمسلمہ امام ہیں۔بڑےبڑےمحدثین اور نامور فقہاء کوآپ کی شاگردی کاشرف حاصل ہے۔مصر، بلادمغرب اور اندلس جیسےدور دراز کےعلاقوں سے تشنگان علم جوق درجوق آپ کےپاس مدینہ منورہ آتےاورآپ کی صحبت سےفیض یاب ہوتے تھے۔الزوادی نےاپنی کتاب مناقب امام مالک میں امام شافعی رحمہ اللہ سے نقل کیاہے
لَوْلَامَالِکٌ وَسُفْیَانُ لَذَہَبَ عِلْمُ الْحِجَازِ
مناقب امام مالک ص98
ترجمہ : کہ اگرامام مالک اور امام سفیان نہ ہوتےتوحجازکاعلم چلاجاتا۔
امام مالک رحمہ اللہ باوجودخودمجتہدہونےکےبہت سےمسائل میں امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ سےہم عصرہونےکی بناء پرمشاورت کرتےاوردل وجان سے امام اعظم رحمہ اللہ کی قدرکرتے تھے کیونکہ ائمہ اربعہ میں سےصرف امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کو شرف تابعیت حاصل ہے،اس لیےآپ بقیہ تین ائمہ سے مقام میں بڑےہیں۔
امام شافعی رحمہ اللہ
امام محمدبن ادریس بن العباس الشافعی رحمہ اللہ 150ھ کو پیدا ہوئے۔ آپ رحمہ اللہ وہ خوش قسمت امام ہیں جنہوں نے ”فقہ مالک“ امام مالک کی خدمت میں رہ کر سیکھی اور ”فقہ حنفی“ امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے جلیل القدر شاگردامام محمدبن حسن الشیبانی رحمہ اللہ سے حاصل کی۔یوں آپ اصحاب الحدیث اوراصحاب الرائے کےعلوم کاحسین مرقع بن گئے۔اسی لیے تو امام احمدبن حنبل رحمہ اللہ آپ کی شان میں فرماتےہیں
لَوْلَاالشَّافِعِیُّ رَحِمَہُ اللہُ مَا عَرِفْنَا فِقْہَ الْحَدِیْثِ
توالی التاسیس لابن حجرالعسقلانی ص125
ترجمہ: اگرامام شافعی رحمہ اللہ نہ ہوتےتوہمیں حدیث کی فقاہت نصیب نہ ہوتی۔
امام شافعی رحمہ اللہ امت مسلمہ کے امام ہیں،آپ ہی نے تو پوری دیانت داری کےساتھ فرمایاتھاکہ لوگ فقہ میں امام ابوحنیفہ کے خوشہ چیں ہیں۔
امام احمدبن حنبل رحمہ اللہ
امام احمدبن حنبل بن ہلال الذھبی الشیبانی المروزی 164ھ میں بغداد میں پیدا ہوئے اور 241 ھ کوبغدادہی میں وفات پائی۔ آپ نےحصول علم کیلیے کوفہ، بصرہ، مکہ، مدینہ اوریمن وغیرہ کے سفر کیے۔خلق قرآن کاعقیدہ قبول نہ کرنےکی وجہ سےشاہی عتاب کا شکار ہوئے۔ جسمانی اذیتیں برداشت کیں لیکن پائے ثبات میں لغزش نہ آئی۔آپ زبردست عالم اورفقیہ تھے۔ امام شافعی رحمہ اللہ ارشادفرماتےہیں
خَرَجْتُ مِنْ بَغْدَادَوَمَاخَلَفْتُ فِیْہَااَتْقیٰ مِنَ ابْنِ حَنْبَلٍ
التالیف بین الفرق ص265
ترجمہ :کہ جب میں بغدادسےنکلا تو میں نےاپنےپیچھےاحمدبن حنبل سےزیادہ پرہیزگار انسان نہیں چھوڑا۔
علم وعمل
اللہ تعالیٰ نے بنی نوع انسان کیلیے مختلف ادوارمیں مختلف کتب اور صحائف نازل کیےاورسب سےآخری کتاب جواپنےآخری نبی حضرت محمدصلی للہ علیہ وسلم پرنازل کی وہ قرآن مجیدہےاس کے بنیادی طور پرتین حقوق ہیں۔
1:قرآن پاک کوپڑھنا2:قرآن پاک کوسمجھنا3:قرآن پاک پر عمل کرنا
1:قرآن پاک کوپڑھنا
قرآن پاک کاحق ہےکہ اُسےدرست تلفظ کےساتھ قرأت کی رعایت کرتےہوئےپڑھاجائےاورکسی ماہرقرآن قاری کی رہنمائی میں اسے سیکھا جائے۔ کیونکہ قرآن پاک بغیرقاری سےپڑھےپڑھناہی نہیں آتا،اسی لیے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نےفرمایا تھا
اِسْتَقْرِؤا الْقُرْآنَ مِنْ أَرْبَعَةٍ مِنْ ابْنِ مَسْعُودٍ وَسَالِمٍ مَوْلَى أَبِي حُذَيْفَةَ وَأُبَيٍّ وَمُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ
صحیح البخاری: باب مناقب معاذ بن جبل
یعنی آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں سے جو قرآن کے ماہر قاری تھے، ان سے قرآن سیکھنے کا حکم دیا۔
2:قرآن پاک کوسمجھنا
جس طرح قرآن پڑھنےکیلئےانسان قاری کامحتاج ہےایسےہی اسے سمجھنے کیلیے علماء وفقہاء کامحتاج ہے۔ وجہ یہ ہے کہ قرآن پاک وہ کتاب ہے جو رہتی دنیاتک ایک معجزہ ہے۔ دقائق و اسرار، فصاحت و بلاغت اور علمی باریکیوں سے آراستہ قرآن اگر ہرخواندہ وناخواندہ کی سمجھ میں اتنی آسانی سے آنے والا ہوتا تو پھریہ معجزہ نہ ہوتا۔اس کےعجائبات اورخزانوں سےواقف بہت کم لوگ ہوتےہیں جنہیں ”مجتہدین“ اور ”فقہاء“ کہا جاتا ہے، اس لیےہمیں قرآن سمجھنے کیلیےعلماءکی طرف رجوع کرنا چاہیے جو سمجھتےبھی ہیں اوراِسےپڑھنابھی جانتے ہیں
3:قرآن پاک پرعمل کرنا
تیسرامرحلہ اس پرعمل کرنے کا ہے۔ جس طرح قرآن پڑھنے کیلیے قراء کی ضرورت ہے، اسے سمجھنے کیلیے علماء کی ضرورت ہوتی ہے،ایسےہی اس پرعمل کرنے کیلیےمشائخ کی ضرورت ہوتی ہیں جن کی مبارک صحبت سےشریعت انسان کی طبیعت بن جاتی ہے۔اس لیے دنیامیں جتنےبھی بڑےحضرات گزرے ہیں ان سب کی ظاہری ترقی کااصل سبب تعلق مع اللہ تھا۔ اس لیے مشائخ طریقت کی صحبت اور اس سےبیعت کرنا اصلاح نفس کیلیے بہت ضروری ہے۔
بیعت کی شرائط
مشہور شخصیت اور کثرت مریدین سے متاثر ہوئے بغیر بیعت کرنے مندرجہ ذیل اموردیکھ لیناچاہیے۔
1: جس پیرکی بیعت کی جائے وہ اہل حق میں سےہواورمتبع سنت ہو۔
2: اس کی مجلس میں بیٹھ کرآخرت کی فکرپیدا ہواوربندہ خدا کاقرب محسوس کرے۔
3: فسق وفجوراورخداکی ادنی ٰسی نافرمانی سےبچنےوالاہواوریہی رنگ اس کےفیض یافتگان میں ہو۔
4: اس کے اردگرد کا حلقہ زیادہ تر دین داروں کا ہو اور اسے علماء حق کی تائید حاصل ہو۔
5: وہ کسی شیخ طریقت سے مُجاز بیعت بھی ہو۔
چہل حدیث
عَنْ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : مَنْ حَفِظَ عَلٰى أُمَّتِيْ أَربَعِيْنَ حَدِيْثًا مِنْ أَمْرِ دِيْنِهَا بَعَثَهُ اللهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ فَقِيْهًا عَالِمًا.
کتاب العلل للدارقطنی: ج6ص33، س959
ترجمہ: حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص میری امت کے دینی امور کے متعلق چالیس حدیثیں یاد کرے گا اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اسےفقیہ و عالم حضرات کی صفوں میں شامل فرما کر اٹھائے گا۔
فائدہ: آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی احادیث مبارکہ کو شریعت میں اساسی حیثیت حاصل ہے۔ ان کا یاد کرنا اور ان پر عمل پیرا ہوناباعث کامیابی و کامرانی ہے۔ ذیل میں ہم مختلف عنوانات پر چالیس احادیث نقل کر رہے ہیں، انہیں یاد کیجیے، ان پر عمل کیجیے اور دوسروں تک پہنچاِئیے۔
ارکان ِاسلام
1: عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللهُ عَنْهُمَا قَالَ قَالَ رَسُولُ اللّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بُنِيَ الْإِسْلَامُ عَلَى خَمْسٍ شَهَادَةِ أَنْ لَا إِلٰهَ إِلَّا اللهُ وَأَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللّهِ وَإِقَامِ الصَّلَاةِ وَإِيْتَاءِ الزَّكَاةِ وَالْحَجِّ وَصَوْمِ رَمَضَانَ.
صحیح البخاری: باب الايمان وقول النبي صلى الله عليه وسلم بني الإسلام على خمس
ترجمہ: حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: اسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پر ہے؛1اس بات کی گواہی دینا کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد اللہ کے رسول ہیں،2 نماز قائم کرنا، 3 زکوٰۃ ادا کرنا، 4 حج کرنا اور 5 رمضان کے روزے رکھنا۔
فائدہ: عمارت کا بقاء اس کی بنیاد پر موقوف ہے، اگر بنیاد خراب ہو تو عمارت کی تباہی کا اندیشہ ہے، اسلام کی بنیاد بھی مذکورہ پانچ چیزوں پر ہے۔ ان پر کاربند رہنا اور زندگی میں انہیں اپنانا بھی اسلام کی بقاء و حفاظت کا ذریعہ ہے۔
ختم نبوت
2: عَنْ حُذَيْفَةَ أَنَّ نَبِيَّ اللّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: إِنِّيْ خَاتَمُ النَّبِيِّيْنَ لَا نَبِيَّ بَعْدِيْ.
مسندامام احمدبن حنبل: ج16 ص 603، رقم الحدیث 23251
ترجمہ :حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں خاتم النبیین ہوں میرے بعدکوئی نبی پیدا نہیں ہوگا۔
فائدہ: عقیدہ ختم نبوت تمام امت مسلمہ کااجماعی عقیدہ ہےکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعدکوئی نیا نبی پیدا نہیں ہوگا، اگرکوئی بعدمیں نبوت کا دعویٰ کرےگا تو وہ کذاب و دجال ہوگا۔
حیات النبی صلی اللہ علیہ و سلم
3: عَنْ أَنَسٍ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ أَنَّ رَسُوْلَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: اَلْأَنْبِيَاءُ أَحْيَاءٌ فِيْ قُبُوْرِهِمْ يُصَلُّوْنَ
مسند ابی يعلى: ج6ص147رقم3425
ترجمہ: حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: انبیاء علیہم السلام اپنی قبورمیں زندہ ہیں،اور نماز پڑھتے ہیں۔
فائدہ: اہل السنۃ والجماعۃ کااتفاقی عقیدہ ہے کہ انبیاءکرام علیہم السلام اپنی قبور مبارکہ میں زندہ ہیں، اس عقیدہ کامنکراہل السنت والجماعت سےخارج، بدعتی اورگمراہ ہےاور ایسے شخص کی اقتداء سے اجتناب کیا جائے کیونکہ شرعی فتویٰ کے مطابق ایسے شخص کے پیچھے نماز مکروہ تحریمی ہے۔
حفاظت اجساد انبیاء علیہم السلام
4: عَنْ أَوْسِ بْنِ أَوْسٍ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: إِنَّ اللّهَ عَزَّ وَجَلَّ قَدْ حَرَّمَ عَلَى الْأَرْضِ أَنْ تَأْكُلَ أَجْسَادَ الْأَنْبِيَاءِ عَلَيْهِمُ السَّلَامُ.
سنن النسائی:باب إكثار الصلاة على النبي صلى الله عليه و سلم يوم الجمعة
ترجمہ:حضرت اوس بن اوس رضی اللہ عنہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا:اللہ نے زمین پرحرام کردیاہے کہ انبیاء علیہم السلام کے جسموں کوکھائے۔
فائدہ: اس حدیث مبارک سے جہاں یہ ثابت ہوتا ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کے جسد عنصری کودرود شریف کے پیش ہونے میں پورا پورا دخل ہے وہاں یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کےسوال میں نبی صلی اللہ علیہ و سلم کیلیے ایسا جسم اطہر ہونا ضروری ہے جس پر درود شریف پیش بھی ہو سکے اور روح کے تعلق کے بغیر یہ ممکن نہیں، کیونکہ بے تعلقِ روح تو یہ محض بے حس اور لا شعور جسم ہو گا۔ معلوم ہوا کہ انبیاء علیہم السلام کے اجساد کی حفاظت بھی حیات انبیاء علیہم السلام کی مستقل دلیل ہے۔
سماع صلوۃ و سلام
5: عَنْ اَبِیْ ہُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللہِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: مَنْ صَلّٰی عَلَیَّ عِنْدَ قَبْرِیْ سَمِعْتُہٗ ‘وَمَنْ صَلّٰی عَلَیَّ مِنْ بَعِیْدٍ اُعْلِمْتُہٗ ‘ وَفِیْ رِوَایَۃٍ :مَنْ صَلّٰی عَلَیَّ نَائِیاًاُبْلِغْتُہٗ.
جلاء الافہام ص22 حدیث نمبر25،فتح الباری ج11ص279
ترجمہ: حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:جو شخص میری قبر کے قریب مجھ پر درود پڑھے تواسے میں خود سنتا ہوں اور جو دور سے مجھ پر درود پڑھے تو وہ مجھ تک پہنچا دیا جاتا ہے۔
فائدہ: آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم قبر مبارک میں درود شریف سنتے ہیں اور مناسب سمجھیں تو جواب بھی دیتے ہیں، یہ اہل السنۃ والجماعۃ کااجماعی عقیدہ ہے۔
فضیلت درود شریف
6: عَنْ اَبِیْ ہُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ أَنَّ رَسُوْلَ اللہِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: مَنْ صَلَّى عَلَيَّ وَاحِدَةً، صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ عَشْرًا.
صحیح مسلم: باب الصلاة على النبي صلى الله عليه وسلم بعد التشهد
ترجمہ: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جوشخص مجھ پرایک مرتبہ درود بھیجےگا تواللہ تعالیٰ اس پر دس رحمتیں نازل فرمائیں گے۔
فائدہ: آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی ذات پر درود شریف بھیجنا آپ صلی اللہ علیہ و سلم سے سراپا عشق ومحبت کی علامت ہے۔ ایک امتی کا اپنے نبی کیلیے رحمتوں، برکتوں اور رفع درجات کی دعا کرنا دراصل اس عزت و عظمت کا عملی اظہار ہےجو سچے عاشق کے دل میں ہوتی ہے۔ درود شریف کو وِردِ جاں بنائیے عشق و محبت کا اظہار کیجیے اور باری تعالیٰ کی رحمتوں کے سمندر میں ڈوب جائیے۔
عرض اعمال
7: عَنْ عَبْدِ اللهِ -رَضِیَ اللہُ عَنْہُ- قَالَ قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: حَيَاتِيْ خَيْرٌ لَكُمْ تُحَدِّثُوْنَ وَنُحَدِّثُ لَكُمْ، وَوَفَاتِيْ خَيْرٌ لَكُمْ تُعْرَضُ عَلَيَّ أَعْمَالُكُمْ، فَمَا رَأَيْتُ مِنْ خَيْرٍ حَمِدْتُ اللّهَ عَلَيْهِ، وَمَا رَأَيْتُ مِنْ شَرٍّ اسْتَغْفَرْتُ اللّهَ لَكُمْ.
مسند البزار: ج3 ص308 مسند عبد اللہ بن مسعود
ترجمہ:حضرت ا بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: میری زندگی تمہارے لیے بہتر ہےکہ تم مشکل مسئلے بیان کرو گے اورہم ان کی حقیقت کو تمہارے لیےبیان کر یں گے اور میری موت بھی تمہارے لیے بہتر ہو گی، تمہارے اعمال مجھ پر پیش ہوں گے، پس جو اچھے ہوں گے میں ان پر اللہ تعالیٰ کی تعریف کروں گا اور جو برے ہوں گے میں تمہارے لیے اللہ تعالیٰ سے معافی مانگوں گا۔
فائدہ: مقصد یہ ہے کہ امت کے اعمال خیر دیکھ کر آپ صلی ا للہ علیہ و سلم خدا کا شکر ادا کریں اور بد اعمالیوں کو دیکھ کر استغفار کرتے رہیں۔
قیامت
8: عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللّهُ عَنْهُ أَنَّ رَسُولَ اللّهِ صَلَّى اللّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ يَعْرَقُ النَّاسُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ حَتّٰى يَذْهَبَ عَرَقُهُمْ فِي الْأَرْضِ سَبْعِينَ ذِرَاعًا وَيُلْجِمُهُمْ حَتّٰى يَبْلُغَ آذَانَهُمْ۔
صحیح البخاری: باب قول الله تعالىٰ{ أَلَا يَظُنُّ أُولَئِكَ أَنَّهُمْ مَبْعُوثُونَ لِيَوْمٍ عَظِيمٍ الآیۃ
ترجمہ:حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: قیامت کے دن لوگوں کو اتناپسینہ آئے گا کہ زمین میں ستر گز تک پھیل جائے گا، پھر ان کے منہ کے اوپر پہنچ کر کانوں تک پہنچ جائے گا۔
فائدہ: قیامت کی ہولناکی،دنیا کی تباہی اور حشر برپا ہونے کو ذہن میں رکھیے اور اپنی زندگیوں کو سنواریے کیونکہ آخرت کی بازپرس کا خوف انسان کو صحیح طرز زندگی اختیار کرنے پر آمادہ کرتا ہے۔
شفاعت
9: عَنْ عَوْفِ بْنِ مَالكٍ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ أنَّ رَسُوْلَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: أَتَانِيْ آتٍ مِنْ عِنْدِ رَبِّيْ، فَخَيَّرَنِيْ بَيْنَ أَنْ يُدْخِلَ نِصْفَ أُمَّتِيَ الْجَنَّةَ، وَبَيْنَ الشَّفَاعَةِ، فَاخْتَرْتُ الشَّافِعَةَ، فَهِيَ نَائِلَةُ مَنْ مَاتَ لَا يُشْرِكُ بِاللهِ شَيْئًا.
جامع الترمذی: كتاب صفة القيامة والرقائق والورع
ترجمہ: حضرت عوف بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: میرے پاس میرے رب کی طرف سے ایک آنے والا یعنی فرشتہ آیا اور مجھے دو باتوں میں اختیار دیا کہ اللہ میری امت میں سے نصف امت کو جنت میں داخل کر دے یا مجھے حق شفاعت مل جائے۔ تو میں نےحق شفاعت اختیار کیا۔ میری یہ شفاعت اسے ملے گی جو اس حالت میں فوت ہوا کہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرنے والا ہو۔
فائدہ: آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی شفاعت کس طرح ملے گی؟ اس کیلیے عقیدہ توحید پر کار بند رہیے اور اذان کے بعد کی دعا پڑھتے رہیے جس کا ثمرہ یہ ہے کہ قیامت کے دن آپ صلی اللہ علیہ و سلم کی شفاعت ملے گی۔
وسیلہ
10: عَنْ أَبِيْ أُمَامَةَ بْنِ سَهْلِ بْنِ حُنَيْفٍ عَنْ عَمِّهٖ عُثْمَانَ بْنِ حُنَيْفٍ: أَنَّ رَجُلاً كَانَ يَخْتَلِفُ إِلٰى عُثْمَانَ بْنِ عَفَّانَ رَضِيَ اللّهُ عَنْهُ فِي حَاجَةٍ لَهُ فَكَانَ عُثْمَانُ لَا يَلْتَفِتُ إِلَيْهِ وَلا يَنْظُرُ فِي حَاجَتِهِ، فَلَقِيَ عُثْمَانَ بْنَ حُنَيْفٍ فَشَكٰى ذٰلِكَ إِلَيْهِ، فَقَالَ لَهُ عُثْمَانُ بْنُ حُنَيْفٍ: اِئْتِ الْمِيْضَأَةَ فَتَوَضَّأْ، ثُمَّ ائْتِ الْمَسْجِدَ فَصَلِّ فِيهِ رَكْعَتَيْنِ، ثُمَّ قُلْ: اَللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ وَأَتَوَجَّهُ إِلَيْكَ بِنَبِيِّنَا مُحَمَّدٍ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَ سَلَّمَ نَبِيِّ الرَّحْمَةِ.
المعجم الصغیر للطبرانی ج1 ص183
ترجمہ:ایک شخص حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کے پاس ایک کام کے سلسلے میں آیا جایا کرتا تھا، اور حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ غالباً کسی مصروفیت کی وجہ سے نہ تو اس کی طرف توجہ فرماتے اور نہ ہی اس کی حاجت براری کرتے۔ وہ شخص حضرت عثمان بن حنیف رضی اللہ عنہ سے ملا اور اس کی شکایت کی تو انہوں نے فرمایاکہ وضو کی جگہ جاؤ اور وضو کرو، پھر مسجد میں جا کر دو رکعت نماز پڑھو، پھر یہ دعا کرو
اَللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ وَأَتَوَجَّهُ إِلَيْكَ بِنَبِيِّنَا مُحَمَّدٍ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَ سَلَّمَ نَبِيِّ الرَّحْمَةِ.
اے اللہ!میں تجھ سے سوال کرتا ہوں اور محمد صلی اللہ علیہ و سلم کے وسیلہ سےجونبی الرحمۃ ہیں، تیری طرف متوجہ ہوتا ہوں
فائدہ: دعا کی جلدقبولیت میں وسیلہ کو بہت دخل ہے، چنانچہ اس روایت کے آخر میں تصریح ہے کہ اس نے ایسا ہی کیا اور دعا کی برکت سے حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ نے اس کی تعظیم و تکریم بھی کی اور اس کا کام بھی پورا کر دیا۔
فضیلت نماز
11: عَنْ أَبِيْ هُرَيْرَةَ أَنَّهُ سَمِعَ رَسُولَ اللّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ أَرَأَيْتُمْ لَوْ أَنَّ نَهَرًا بِبَابِ أَحَدِكُمْ يَغْتَسِلُ فِيْهِ كُلَّ يَوْمٍ خَمْسًا مَا تَقُولُ ذَلِكَ يُبْقِيْ مِنْ دَرَنِهِ قَالُوْا لَا يُبْقِيْ مِنْ دَرَنِهِ شَيْئًا قَالَ فَذٰلِكَ مِثْلُ الصَّلَوَاتِ الْخَمْسِ يَمْحُو اللهُ بِهِ الْخَطَايَا.
صحیح البخاری: باب الصلوات الخمس كفارة، ج1 ص76
ترجمہ:حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سےروایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا: اگرکسی شخص کے دروازے پر نہر جاری ہو جس میں وہ روزانہ پانچ مرتبہ غسل کرتا ہو تو بتاؤ اس کے بدن پر کوئی میل کچیل باقی رہے گا؟ صحابہ رضی اللہ عنہم نے عرض کی: نہیں، اس کے بدن پر کوئی میل کچیل باقی رہے گا۔ تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: یہی حال پانچ نمازوں کا ہے، اللہ تعالیٰ ان کے ذریعے گناہوں کو ختم فرما دیتے ہیں۔
فائدہ: اس حدیث میں نماز پنجگانہ کی ادائیگی پر گناہوں کی مغفرت کا اعلان خالصۃً اللہ تعالیٰ کی عطا ہے۔رب تعالیٰ شانہ اپنی رحمت عطاء فرمانے کیلیے بہانے ڈھونڈتے ہیں، پانچ نمازوں پر اتنی بڑی مغفرت کا مل جانا یقیناً خداوند تعالیٰ کا احسان ہے۔ لہٰذا نمازوں کی پابندی کیجیے، آداب و مستحبات کا خیال رکھیے اور مغفرت کے اس سفر کی جانب رواں دواں رہیے۔
نماز میں ہاتھ ناف کے نیچے باندھنا
12: عَنْ وَائِلِ بْنِ حُجْرٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ قَالَ رَاَیْتُ النَّبِیَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَضَعَ یَمِیْنَہٗ عَلٰی شِمَالِہٖ فِی الصَّلٰوۃِ تَحْتَ السُّرَّۃِ.
مصنف ابن ابی شیبۃ ج3 ص321،322، وضع الیمین علی الشمال،رقم الحدیث 3959
ترجمہ : حضرت وائل بن حجر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز میں دائیں ہاتھ کو بائیں ہاتھ پر ناف کے نیچے رکھے ہوئے تھے۔
فائدہ: نمازی کی حالت بارگاہِ الٰہی میں ایک تابع و عاجز شخص کی ہوتی ہے جس کا تقاضا یہ ہے کہ اس کی قلبی کیفیات کے ساتھ ساتھ اس کی ظاہری حالت بھی اس عاجزی کو ظاہر کر رہی ہو۔ نگاہ پست رکھنا، ہاتھ باندھ کر کھڑا ہونا بلکہ ہاتھوں کو ناف کے نیچے باندھنا یقیناً اس مسکنت کا تقاضا ہےجو رب ذوالجلال کے دربار میں مطلوب ہے۔
امام کے پیچھے قراءت نہ کرنا
13: عَنْ اَبِیْ ہُرَیْرَۃَ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اِنَّمَاجُعِلَ الْاِمَامُ لِیُؤْتَمَّ بِہٖ فَاِذَا کَبَّرَفَکَبِّرُوْاوَاِذَاقَرَئَ فَاَنْصِتُوْا وَاِذَا قَالَ غَیْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَیْہِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ فَقُوْلُوْا اٰمِیْنَ.
سنن ابن ماجۃ ج1 ص61 باب اذا قرء الامام فانصتوا
ترجمہ: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:’’ امام اس لئے بنایا جاتا ہے کہ اس کی اتباع کی جائے، جب وہ تکبیر کہے تو تم بھی تکبیر کہو، جب وہ قراءت کرے تو تم خاموش رہو اور جب
غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْہِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ
کہے تو تم ’’آمین ‘‘کہو۔‘‘
فائدہ: امام پوری جماعت کی جانب سے بارگاہِ الہی میں نمائندہ ہوتا ہے۔ جس طرح نمائندہ کی گفتگو اور بیانِ مدعی جماعت کی ترجمانی سمجھی جاتی ہے، اسی طرح شریعت مطہرہ نے امام کی قراءت کو بھی مقتدی کے حق میں قراءت قرار دیا اور بوقت قراءت خاموش رہنے کا حکم دیا، چاہے نماز سری ہو یا جہری۔
آمین آہستہ آواز سے کہنا
14: عَنْ وَائِلِ بْنِ حُجْرٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ قَالَ اِنَّہٗ صَلّٰی مَعَ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَلَمَّاقَرَئَ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْہِمْ وَلَاالضَّالِّیْنَ قَالَ اٰمِیْنَ خَفِضَ بِھَا صَوْتَہٗ.
مسند ابی داؤد الطیالسی ج1ص577 رقم الحدیث 1117
ترجمہ: حضرت وائل بن حجر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھی، جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے
غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْہِمْ وَلَاالضَّالِّیْنَ
کہا تو آمین آہستہ آواز سے کہا۔
نماز میں رفع یدین نہ کرنا
15: عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ قَالَ اَلاَ اُخْبِرُکُمْ بِصَلٰوۃِرَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ فَقَامَ فَرَفَعَ یَدَیْہِ اَوَّلَ مَرَّۃٍ ثُمَّ لَمْ یَعُدْ.
نسائی ج1ص158 باب ترک ذلک،ابی داؤد ج 1ص116باب من لم یذکر الرفع عند الرکوع
ترجمہ: حضرت ابن مسعودرضی اللہ عنہ نے ایک بار فرمایا :کیا میں تمہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز پڑھ کر نہ دکھاؤں؟ راوی کہتے ہیں کہ آپ رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے اور پہلی مرتبہ تکبیر تحریمہ رفع یدین کیا پھر دوبارہ پوری نماز میں نہیں کیا۔
فائدہ: ”رفع یدین“ دونوں ہاتھوں کے اٹھانے کو کہتے ہیں جیسا کہ نمازی تکبیر تحریمہ کے وقت ہاتھ اٹھاتا ہے۔ ابتداء اسلام میں نماز کی مختلف حالتوں قیام، رکوع،سجود میں رفع یدین کا عمل کیا جاتا رہا، بعد میں منع و منسوخ ہو گیا۔ لہٰذا اب پنجگانہ نمازوں میں صرف تکبیر تحریمہ کی رفع یدین کی جاتی ہے باقی مقامات کی نہیں کی جاتی، البتہ عیدین کی نماز میں تکبیرات زائدہ کے ساتھ اور دعاء قنوت سے پہلے تکبیر قنوت کے ساتھ رفع یدین احادیث و آثار سے ثابت ہے،لہٰذا اس پر ہم عمل پیرا ہیں۔
تین رکعات وتر
16: عَنْ اَبِیْ سَلْمَۃَ بْنِ عَبْدِالرَّحْمٰنِ اَنَّہٗ اَخْبَرَہٗ اَنَّہٗ سَاَلَ عَائِشَۃَ رَضِيَ اللهُ عَنْهَا کَیْفَ کَانَتْ صَلٰوۃُ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِیْ رَمَضَانَ فَقَالَتْ مَاکَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ یَزِیْدُ فِیْ رَمَضَانَ وَلَافِیْ غَیْرِہٖ عَلٰی اِحْدیٰ عَشَرَۃَ رَکْعَۃً یُّصَلِّیْ اَرْبَعًا فَلَا تَسْئَلْ عَنْ حُسْنِھِنَّ وَطُوْلِھِنَّ ثُمَّ یُصَلِّیْ اَرْبَعًا فَلَا تَسْئَلْ عَنْ حُسْنِھِنَّ وَطُوْلِھِنَّ ثُمَّ یُصَلِّیْ ثَلَاثًا.
صحیح بخاری ج 1ص154۔269۔باب قیام النبی صلی اللہ علیہ وسلم باللیل فی رمضان
ترجمہ: حضرت ابو سلمہ بن عبد الرحمن نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہاسے پوچھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز رمضان المبارک میں کیسی ہوتی تھی؟ تو انہوں نے جواب دیا:آپ صلی اللہ علیہ وسلم رمضان اور غیر رمضان میں گیارہ رکعتوں سے زیادہ نہیں پڑھتے تھے، پہلے چار رکعتیں پڑھتے، پس کچھ نہ پوچھو کہ کتنی حسین و لمبی ہوتی تھیں، اس کے بعد پھر چار رکعت پڑھتے، کچھ نہ پوچھو کہ کتنی حسین اور لمبی ہوتی تھیں، پھر تین رکعت وتر پڑھتے تھے۔
فائدہ: اس میں آپ صلی اللہ علیہ و سلم کے تہجد اور وتر کا ذکر ہے تہجد مستحب جبکہ وتر واجب ہیں، اس کی تین رکعات ہیں جو عشاء کے فرض و سنت ادا کرنے کے بعد پڑھی جاتی ہیں پہلی دو رکعتوں پر تشہد بیٹھا جاتا ہے، تیسری رکعت میں سورۃ فاتحہ اورکوئی دوسری سورت پڑھنے کے بعد اللہ اکبر کہہ کر رفع یدین کیا جاتا ہے،پھر ہاتھ باندھ کردعاء قنوت پڑھی جاتی ہے پھر رکوع کیا جاتا ہے۔
فضیلت روزہ
17: عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ عَنْ رَسُولِ اللّهِ صَلَّى اللّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ إِنَّ اللّهَ تَبَارَكَ وَتَعَالٰى يَقُولُ الصَّوْمُ لِيْ وَأَنَا أَجْزِيْ بِهِ وَلِلصَّائِمِ فَرْحَتَانِ حِيْنَ يُفْطِرُ وَحِيْنَ يَلْقٰى رَبَّهُ وَالَّذِيْ نَفْسِيْ بِيَدِهِ لَخُلُوفُ فَمِ الصَّائِمِ أَطْيَبُ عِنْدَ اللّهِ مِنْ رِيحِ الْمِسْكِ
سنن النسائی: فضل الصيام ج 1ص308
ترجمہ:حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:روزہ میرے لیے ہے اور میں ہی اس کا بدلہ دوں گا، روزہ دارکیلیے دو خوشیاں ہیں؛ ایک خوشی اس وقت ملتی ہے جب روزہ افطار کرتا ہےاور دوسری خوشی اس وقت ملے گی جب وہ اپنے پرودگار سے ملاقات کرے گا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم فرماتے ہیں: اس ذات کی قسم جس کےقبضے میں میری جان ہے روزہ دار کے منہ کی بو اللہ تعالیٰ کے ہاں مشک کی بو سے زیادہ محبوب ہے۔
فضیلت قربانی
18: عَنْ زَیْدِ ابْنِ اَرْقَمَ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ قَالَ قَالَ اَصْحَابُ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ یَارَسُوْلَ اللّٰہِ! مَا ھٰذِہِ الاَضَاحِیُّ؟ قَالَ: سُنَّۃُ اَبِیْکُمْ اِبْرَاہِیْمَ عَلَیْہِ السَّلَامُ قَالُوْا: فَمَا لَنَا فِیْھَا یَارَسُوْلَ اللّٰہِ؟ قَالَ بِکُلِّ شَعْرَۃٍ حَسَنَۃٌ، قَالُوْا: فَالصُّوْفُ یَارَسُوْلَ اللّٰہِ؟ قَالَ: بِکُلِّ شَعْرَۃٍ مِنَ الصُّوْفِ حَسَنَۃٌ.
سنن ابن ماجہ ص 226 باب ثواب الاضحیہ
ترجمہ: حضرت زید بن ارقم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے صحابہ رضی اللہ عنہم نے سوال کیا:یارسول اللہ!یہ قربانی کیا ہے؟ یعنی قربانی کی حیثیت کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:تمہارے باپ ابراہیم علیہ السلام کی سنت اور طریقہ ہے۔صحابہ رضی اللہ عنہم نےعرض کیا کہ ہمیں قربانی کرنے کے بدلے میں کیا ملے گا؟ فرمایا ہر بال کے بدلے میں ایک نیکی۔صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے پھر سوال کیا: یا رسول اللہ !اون کے بدلے میں کیا ملے گا فرمایا:اون کے ہر بال کے بدلے میں نیکی ملے گی۔
فائدہ: قربانی ایک عظیم الشان عبادت ہے۔ حضرت آدم علیہ السلام کے زمانے سے شروع ہوئی اور اُمتِ محمدیہ علی صاحبہا السلام تک چلی آرہی ہے، قربانی کا یہ عمل چونکہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے زمانہ میں خصوصی اہمیت اختیار کر گیا، اسی وجہ سے اسے’’سنتِ ابراہیمی‘‘کہاگیاہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر ہمیشگی فرمائی ہے۔اس سے مسلمان کو سبق ملتا ہے کہ وہ اللہ تعالی کی فرمانبرداری میں ہرقسم کی قربانی کے لئے تیار رہے۔
نماز جنازہ میں چار تکبیریں کہنا
19: عَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَعَی النَّجَاشِیَّ فِی الْیَوْمِ الَّذِیْ مَاتَ فِیْہِ وَخَرَجَ بِھِمْ اِلَی الْمُصَلّٰی فَصَفَّ بِھِمْ وَکَبَّرَ عَلَیْھِمْ اَرْبَعَ تَکْبِیْرَاتٍ.
صحیح البخاری ج1 ص178 باب التکبیر علی الجنازۃ اربعا
ترجمہ: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جس دن وہ فوت ہوئے تھے تو اسی دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نجاشی کی وفات کی اطلاع دی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کو لے کر عیدگاہ پہنچے، ان کی صف بندی کی اور ان کے نماز جنازہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے چار تکبیریں کہیں۔
فائدہ: حضرت نجاشی رحمہ اللہ کا انتقال حبشہ میں ہوا اور حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے ان کی نمازجنازہ مدینہ میں پڑھائی۔ ان کی میت معجزۃً آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے لائی گئی تھی یا ان کا جنازہ پڑھنا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خصوصیت تھی۔ نیز اس حدیث سے یہ بات بھی معلوم ہوتی ہے کہ نماز جنازہ میں چار تکبیریں ہیں اور دیگر روایات کے مطابق ان میں جو کچھ پڑھا جاتا ہے اس کی تفصیل یہ ہے کہ پہلی تکبیر کےبعداللہ تعالی کی حمد و ثناء، دوسری کے بعد نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر درود شریف، تیسری کے بعد میت کے لئے دعا اور چوتھی کے بعد سلام پھیرا جاتاہے۔
بیس تراویح
20: عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ : أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يُصَلِّي فِي رَمَضَانَ عِشْرِينَ رَكْعَةً وَالْوِتْرَ.
مصنف ابن ابی شیبۃ ج2 ص284 باب كم يصلي فِي رَمَضَانَ….. معجم کبیر ج5 ص433
ترجمہ: حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم رمضان میں بیس رکعت تراویح اور وتر پڑھتے تھے۔
فائدہ: قیام رمضان یعنی تراویح سنت مؤکدہ ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے بیس رکعات ادا فرمائی ہے، اسی پر حضرات خلفاءِ راشدین حضرت عمر، حضرت عثمان، حضرت علی، دیگرصحابہ کرام رضی اللہ عنہم، ائمہ مجتہدین و حضرات مشائخ رحمہم اللہ عمل پیرا رہے، بلاد اسلامیہ میں چودہ سو سال سے اسی پر عمل ہوتا رہاہے اورامت کا اسی پر اجماع ہے۔ لہٰذا بیس رکعت تراویح ہی ادا کرنی چاہییں۔
عظمت صحابہ رضی اللہ عنہم
21: عَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: لَا تَسُبُّوْا أَصْحَابِيْ، لَا تَسُبُّوْا أَصْحَابِيْ، فَوَالَّذِيْ نَفْسِيْ بِيَدِهِ، لَوْ أَنَّ أَحَدَكُمْ أَنْفَقَ مِثْلَ أُحُدٍ ذَهَبًا مَا أَدْرَكَ مُدَّ أَحَدِهِمْ، وَلَا نَصِيْفَهُ.
صحیح مسلم: باب تحريم سب الصحابة ج2 ص310
ترجمہ : حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ میرے صحابہ کوبرابھلامت کہنا، میرے صحابہ کوبرابھلامت کہنا، اس ذات کی قسم جس کے قبضے میں میری جان ہے اگرتم میں سے کوئی احدپہاڑکے برابر سونا صدقہ کرے تواس کااجرمیرے صحابہ کے ایک مُدّیانصف مُدّ صدقہ کرنے کے ثواب کوبھی نہیں پہنچ سکتا۔
فائدہ: صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کویہ مقام پیغمبرصلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت کےصدقے ملاہے، ان کے بعدامت کا بڑے سے بڑے عالم، عابداورزاہد کسی چھوٹے صحابی کے درجہ کو نہیں پہنچ سکتا صحابہ کرام رضی اللہ عنہم امت کے محسن ہیں ان کے بارے میں بدگمانی حرام اور بدزبانی تو اس سےبھی گھناؤنا جرم ہے۔ لہٰذا انکی عزت و عظمت کو دل میں جگہ دے کر انکی اور انکی تعلیمات کی قدر کیجیے۔
عظمت فقہ
22: عَنْ مُعَاوِيَةَ يَقُولُ قَالَ رَسُولُ اللّهِ صَلَّى اللّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَنْ يُرِدْ اللَّهُ بِهِ خَيْرًا يُفَقِّهْهُ فِي الدِّينِ.
صحیح البخاری: باب قول الله تعالى فَأَنَّ لِلَّهِ خُمُسَهُ وَلِلرَّسُولِ
ترجمہ: حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: جس شخص سے اللہ تعالیٰ بھلائی کا ارادہ فرماتے ہیں اسے دین میں فقاہت عطا فرماتے ہیں۔
فائدہ: فقہ وہ عظیم الشان علم ہے جس میں عملی زندگی سے متعلق مسائل کا حل قرآن، سنت، اجماع اور قیاس کی روشنی میں پیش کیا جاتا ہے۔ حلال و حرام، جائز و ناجائز، مکروہ و مباح افعال کا علم قرآن و سنت کی باریکیوں میں غور و خوض کرنے سے حاصل ہوتا ہے، غور و فکر کی یہ صلاحیت خالصتاً اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ ہے۔ اس لیے دین کی اس اعلیٰ درجہ سمجھ بوجھ کو سراپا خیر سے تعبیر کیا گیا۔ اللہ تعالیٰ فقہ و فقہاء سے ہماری وابستگی کو قائم و دائم رکھے۔
عظمتِ فقیہ
23: عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: فَقِيهٌ وَاحِدٌ أَشَدُّ عَلَى الشَّيْطَانِ مِنْ أَلْفِ عَابِدٍ.
سنن ابن ماجۃ: باب فضل العلماء والحث على طلب العلم
ترجمہ: حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: ایک فقیہ ہزار عابدوں پر بھاری ہوتا ہے۔
فائدہ: فقیہ کا مقام عابد سے اس لیے زیادہ ہےکہ فقیہ کی فقاہت کا نفع اس کی ذات کو بھی ہوتا ہے اور امت بھی اس سے مستفید ہوتی ہے جب کہ عابد کے پیش نظر اپنی ذات ہوتی ہے۔ جب کام میں فرق ہے تو مقام میں بھی فرق ہو گا۔
عظمت محدثین
24: عَنْ عَبْدِ اللّهِ بْنِ مَسْعُودٍ: قَالَ سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ نَضَّرَ اللهُ امْرَأً سَمِعَ مِنَّا شَيْئًا فَبَلَّغَهُ كَمَا سَمِعَ فَرُبَّ مُبَلَّغٍ أَوْعٰى مِنْ سَامِعٍ.
جامع الترمذی: ما جاء في الحث على تبليغ السماع
ترجمہ: حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم سے سنا، آپ فرما رہے تھے کہ اللہ تعالیٰ اس شخص کو ترو تازہ خوش و خرم رکھے جس نے ہم سے کوئی بات سنی اور بالکل اسی طرح دوسروں تک پہنچا دیا جس طرح سنی تھی، اس لیے کہ بہت سے ایسے لوگ جنہیں ہماری بات یعنی حدیث پہنچے گی وہ سننے والے کی بنسبت زیادہ سمجھ اور علم رکھتے ہوں گے۔
فائدہ: اس حدیث سے محدثین کرام کی بہت بڑی فضیلت ثابت ہوتی ہے۔ امت مسلمہ کا یہ طبقہ احادیث کے یاد کرنے، لکھنے اور متون و اسانید کی حد درجہ حفاظت میں اپنی عمریں کھپا دیتا ہے۔ احادیث کی اشاعت کرنےاور کمی و زیادتی سے محفوظ رکھنے اور آگے پہنچانے میں بڑی جانفشانی سے کام لیتا ہے۔
وراثت انبیاء علیہم السلام
25: عَنْ أَبِي الدَّرْدَآءِ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ قَالَ : سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُوْلُ : مَنْ سَلَكَ طَرِيقاً يَبْتَغِيْ فِيْهِ عِلْمًا سَهَّلَ اللهُ لَهُ طَريْقًا إِلَى الْجَنَّةِ، وَإنَّ الْمَلَائِكَةَ لَتَضَعُ أَجْنِحَتَهَا لِطَالِبِ الْعِلْمِ رِضًا بِمَا يَصْنَعُ، وَإنَّ الْعَالِمَ لَيَسْتَغْفِرُ لَهُ مَنْ فِي السَّمَاوَاتِ وَمَنْ فِي الْأَرْضِ حَتَّى الْحِيْتَانُ فِي الْمَاءِ، وَفَضْلُ الْعَالِمِ عَلَى الْعَابِدِ كَفَضْلِ الْقَمَرِ عَلٰى سَائِرِ الْكَوَاكِبِ، وَإنَّ الْعُلَمَاءَ وَرَثَةُ الْأنْبِيَاءِ، وَإنَّ الْأنْبِيَاءَ لَمْ يُوَرِّثُوْا دِيْنَارًا وَلَا دِرْهَمًا وَإنَّمَا وَرَّثُوا الْعِلْمَ، فَمَنْ أَخَذَهُ أَخَذَ بحَظٍّ وَافِرٍ .
سنن ابی داؤد: باب الحث علی طلب العلم
ترجمہ:حضرت ابو الدرداء رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا: جو شخص علم حاصل کرنے کے لیےکسی راستے پر چلتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کیلیے جنت کا راستہ آسان فرما دیتے ہیں، فرشتے طالب علم کی خوشنودی لیے اس کے پاؤں تلے پر بچھاتے ہیں، عالم کیلیے آسمان و زمین کی مخلوق حتی کہ مچھلیاں پانی میں مغفرت کی دعا کرتی ہیں۔ عالم کی فضیلت عابد پر ایسے ہے جیسے چودھویں کے چاند کی فضیلت تمام ستاروں پر۔علماء انبیاء علیہم السلام کے وارث ہیں، انبیاء علیہم السلام وراثت میں درہم اور دینارنہیں چھوڑتے بلکہ علم کی دولت چھوڑتے ہیں، چنانچہ جس نےاس علم میں سے تھوڑا سا حصہ بھی حاصل کر لیا تو گویااس نے بہت بڑا حصہ حاصل کر لیا۔
فائدہ: انبیاء علیہم السلام اپنی امت کو جہالت کے گھٹا ٹوپ اندھیروں سے نکال کر علم کی روشنی میں لاتے ہیں۔ ان کی زندگی کا مقصد مال و دولت اور دنیا کی رونق و شادابی کا حصول نہیں ہوتا۔ یہی وجہ ہے ان کی وراثت علم ہوتا ہے، مال و زر نہیں ہوتا۔ اس وراثت علمی کے جانشین علماء کرام ہیں جو علم کی بقاء و تحفظ اور نشر و اشاعت میں ہمہ تن مصروف ہیں۔ تو علماء کی قدر کیجیے، ان کی مجالس میں بیٹھیے اور ان کے فیض علم سے اپنے قلوب کو جلا بخشیے۔
عظمتِ قرآن
26: عَنْ عُثْمَانَ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: خَيْرُكُمْ مَنْ تَعَلَّمَ الْقُرْآنَ وَعَلَّمَهُ .
صحیح البخاری ج:1ص:752 باب خيركم من تعلم القرآن وعلمه
ترجمہ:حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم میں سب سے بہتر شخص وہ ہے جو قرآن سیکھے اور سکھائے۔
فائدہ: کلام پاک چونکہ دین کی اصل اور بنیاد ہے، اس کی بقاء اور اشاعت پر ہی دین کا مدار ہے، اس لیے اس کے سیکھنے اور سکھانے کا افضل ہونا ظاہر ہے۔ البتہ اس کے سیکھنےکی اقسام مختلف ہیں۔ کمال اس کا یہ ہے کہ معانی، مطالب اور مقاصد سمیت سیکھے اور ادنیٰ درجہ اس کا یہ ہے کہ فقط الفاظ سیکھے۔
حفظ القرآن
27: عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِيْ طَالِبٍ، قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:مَنْ قَرَأَ الْقُرْآنَ وَاسْتَظْهَرَهُ، فَأَحَلَّ حَلَالَهُ، وَحَرَّمَ حَرَامَهُ، أَدْخَلَهُ اللهُ بِهِ الْجَنَّةَ، وَشَفَّعَهُ فِي عَشَرَةٍ مِنْ أَهْلِ بَيْتِهِ، كُلُّهُمْ وَجَبَتْ لَهُ النَّارُ.
جامع الترمذی: باب ما جاء في فضل قارئ القرآن
ترجمہ:حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا :جس شخص نے قرآن پڑھا، پھر اس کو حفظ یاد کیا، اس کے حلال کو حلال سمجھا اور حرام کو حرام جانا تو اللہ تعالیٰ اسے جنت میں داخل فرمائیں گے اور اس کے گھرانے میں سےایسے دس آدمیوں کے بارے میں اس کی شفاعت قبول فرمائیں گے جن کیلیے جہنم واجب ہو چکی ہو گی۔
فائدہ: اس سے حفظ قرآن کی بڑی فضیلت ثابت ہوتی ہے بشرطیکہ حافظ قرآن باعمل ہو۔ کوشش کیجیے کہ خود حافظ قرآن بنیے یا اپنی اولاد کو اس زیور سے آراستہ کیجیے تاکہ حفط قرآن کی یہ نعمت آپ کو آخرت میں سرخرو کر سکے۔
اتباع سنت
28: عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُمَا عَنِ النَّبِيِّ قَالَ : قَالَ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: مَنْ تَمَسَّكَ بِسُنَّتِيْ عِنْدَ فَسَادِ أُمَّتِيْ فَلَهُ أَجْرُ مِاَةِ شَهِيْدٍ .
کتاب الزہد الکبیر للبیہقی:رقم الحدیث 217
ترجمہ: حضرت ابن عبا س رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: جس نے میری سنت پر اس وقت عمل کیا جب میری امت میں فساد برپا ہو چکا ہو یعنی لوگ سنتیں چھوڑ چکے ہوں تو اسے سو شُہدا کا ثواب ملے گا۔
فائدہ: ”سنت“ دین میں جاری طریقہ کا نام ہے، اس کی اتباع کرنا دراصل اس جاری طریقہ کے تسلسل کو فروغ دینا ہے اور یہی چیز کسی مذہب و شریعت کی بقاء کی ضامن ہوتی ہے۔یہی وجہ ہے کہ اسلام میں سنت کو بہت اہمیت حاصل ہے۔ چنانچہ اگر امت پر ایسا وقت آن پڑے کہ سنتیں لوگوں کے عمل سے نکل رہی ہوں تو ان پر عمل پیرا ہونے پر سو شہیدوں کے اجر و ثواب کا وعدہ ہے۔ لہٰذا سنتوں پر خود بھی عمل کیجیے اور دوسروں کو بھی اس کی ترغیب دیجیے۔
رد بدعت
29: عَنْ حُذَيْفَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَا يَقْبَلُ اللهُ لِصَاحِبِ بِدْعَةٍ صَوْمًا وَلَا صَلَاةً وَلَا صَدَقَةً وَلَا حَجًّا وَلَا عُمْرَةً وَلَا جِهَادًا وَلَا صَرْفًا وَلَا عَدْلًا يَخْرُجُ مِنْ الْإِسْلَامِ كَمَا تَخْرُجُ الشَّعْرَةُ مِنْ الْعَجِيْنِ.
سنن ابن ماجۃ: باب اجتناب البدع والجدل
ترجمہ: حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ بدعتی کاروزہ، نماز،صدقہ، حج، عمرہ،جہاد، فرض، نفل، غرض کوئی بھی نیک عمل قبول نہیں فرماتے، وہ اسلام سے اس طرح نکل جاتاہے جس طرح بال آٹےسےنکل جاتاہے۔
فائدہ: دین کے ثابت شدہ مسئلے کا انکار ”الحاد“ جبکہ غیر ثابت کو دین میں شامل کرنے کا نام ”بدعت“ ہے۔ بدعتی گویا یہ خیال کر رہا ہوتا ہے کہ دین مکمل نہیں بلکہ میں نے مکمل کر دیا ہے۔ آئے روز عقائد و اعمال کے باب میں نئی نئی چیزیں گھڑ گھڑ کر دین کے نام پر پھیلاتا رہتا ہے۔ اموردین مثلاً نماز، روزہ، حج، زکوٰۃ وغیرہ میں اپنی جانب سے زیادتی کرتا رہتا ہے اس لیے اس کے یہ افعال غارت جاتے ہیں اور قبول نہیں ہوتے۔ اللہ ہمیں بدعت سے محفوظ فرمائے۔ آمین
مسلمان کے حقوق
30: عَنْ أَبِيْ هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ قَالَ سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ یَقُوْلُ: حَقُّ الْمُسْلِمِ عَلَى الْمُسْلِمِ خَمْسٌ : رَدُّ السَّلَامِ، وَعِيَادَةُ المَرِيْضِ، وَاتِّبَاعُ الْجَنَائِزِ، وَإِجَابَةُ الدَّعْوَةِ، وتَشْمِيْتُ الْعَاطِسِ .
صحیح البخاری: باب الأمر باتباع الجنائز
ترجمہ:حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا: مسلمان کے دوسرے مسلمان پر پانچ حقوق ہیں؛ سلام کا جواب دینا، مریض کی عیادت کرنا،فوت ہو جائے تو جنازہ ادا کرنا، دعوت قبول کرنا اور چھینک کا جواب دینا۔
فائدہ: ان چیزوں کو”حق“سے تعبیر کرنے میں اس جانب اشارہ ہے کہ مسلمان کو ان باتوں کی حد درجہ پابندی کرنی چاہیے۔ ان پر عمل کرنے میں جہاں مسلمانوں کے حقوق ادا ہوتے ہیں وہاں ایک صالح معاشرہ بھی وجود میں آتا ہے اور باہمی اخوت اور رواداری کو فروغ ملتا ہے۔
والدین کے حقوق
31: عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ عمَرْوٍ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: رِضَى اللهَ مِنْ رِضَى الْوَالِدَيْنِ وَ سَخَطُ اللهِ مِنْ سَخَطِ الْوَالِدَيْنِ .
شعب الایمان: باب في بر الوالدين، ج6 ص177
ترجمہ: حضرت عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: اللہ کی خوشنودی والدین کی خوشنودی میں ہے اور اللہ کی ناراضگی والدین کی ناراضگی میں ہے۔
فائدہ: اولاد کی تربیت اور پرورش میں والدین کا کردار بنیادی اہمیت کا حامل ہے۔ بچوں کی دینی اصلاح و دنیوی دیکھ بھال ان کے روشن مستقبل کی ضامن ہیں۔ لہٰذا جس شخصیت سے انسان کا مستقبل وابستہ ہو اس کا حق یہی ہے کہ زندگی کے ہر موڑ پر اس کا خیال رکھا جائے۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن و سنت میں والدین کے بہت زیادہ حقوق بیان کیے گئے ہیں جن کی ادائیگی سے خدا راضی ہوتا ہے اور کوتاہی کرنے اور بے توجہی برتنے سے رب ناراض ہوتا ہے۔
اولاد کے حقوق
32: عَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ عَنْ أَبِيهِ عَنْ جَدِّهِ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُرُوْا أَوْلَادَكُمْ بِالصَّلَاةِ وَهُمْ أَبْنَاءُ سَبْعِ سِنِيْنَ وَاضْرِبُوْهُمْ عَلَيْهَا وَهُمْ أَبْنَاءُ عَشْرِ سِنِيْنَ وَفَرِّقُوْا بَيْنَهُمْ فِى الْمَضَاجِعِ .
سنن ابی داؤد: باب متى يؤمر الغلام بالصلاة
ترجمہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: جب تمہاری اولاد سات سال کی ہو جائے تو انہیں نماز کا حکم کرو اورجب دس سال کے ہو جائیں تو نماز نہ پڑھنے پر ان کو مارو اور ان کے بستر الگ الگ کر دو۔
فائدہ: بچے کا والدین پر حق یہ ہے کہ اس کی دینی اور اخلاقی تربیت پر خصوصی توجہ دیں اور حدیث مذکور میں اسی امر کو ملحوظ رکھ کر دو کاموں کا حکم دیا گیا ہے۔ سات سال کی عمر میں اسے نماز کا حکم دینے اور دس سال کی عمر میں نہ پڑھنے پر مارنے میں حکمت یہ ہے کہ بچہ شروع ہی سے ان عبادات کے احکام اور طریقہ سیکھ کر ان کو ادا کرنے کاعادی بنے۔ نیز دس سال کی عمر میں بستر الگ کرنے سے بھی مقصود تربیت ہے کہ بڑا ہو کر جب عملی زندگی میں قدم رکھے تو بے راہ روی اور غیر اخلاقی حرکتوں سے اجتناب کر سکے۔
خاوند کے حقوق
33: عَنْ أَبِيْ هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ أَنَّ رَسُولَ اللّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لَا يَحِلُّ لِلْمَرْأَةِ أَنْ تَصُومَ وَزَوْجُهَا شَاهِدٌ إِلَّا بِإِذْنِهِ وَلَا تَأْذَنَ فِي بَيْتِهِ إِلَّا بِإِذْنِهِ.
صحیح البخاری: باب لا تأذن المرأة في بيت زوجها لأحد إلا بإذنه
ترجمہ:حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کسی عورت کیلیے شوہر کی موجودگی میں اس کی اجازت کے بغیر روزہ رکھناجائز نہیں،عورت کو چاہیے شوہر کہ اجازت کے بغیر کسی کو گھر نہ آنے دے۔
فائدہ: خاوند کی حیثیت سربراہ کی ہے جو گھر کی ضروریات، بیوی کی نگہداشت اور بچوں کی پرورش میں بنیادی کردار ادا کرتا ہے،۔ حدیث میں بیوی کو تاکید کی گئی ہے کہ اس میں شوہر کی مرضی کو مقدم رکھے تاکہ اسے سکون پہنچا سکے۔ ایک اور حدیث میں آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نےشوہر کا حق یوں بیان کیا ہے کہ اگر میں کسی کو حکم دیتا کہ کسی کو سجدہ کریں تو عورتوں کو حکم دیتا کہ خاوندوں کو سجدہ کریں۔ لہٰذا بیوی کو چاہیے کہ خاوند کی خدمت میں اپنے آپ کو فنا کر دے۔
بیوی کے حقوق
34: عَنْ حَكِيْمِ بْنِ مُعَاوِيَةَ عَنْ أَبِيهِ أَنَّ رَجُلًا سَأَلَ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا حَقُّ الْمَرْأَةِ عَلَى الزَّوْجِ؟ قَالَ: أَنْ يُطْعِمَهَا إِذَا طَعِمَ وَأَنْ يَكْسُوَهَا إِذَا اكْتَسٰى وَلَا يَضْرِبِ الْوَجْهَ وَلَا يُقَبِّحْ وَلَا يَهْجُرْ إِلَّا فِي الْبَيْتِ.
سنن ابن ماجۃ: باب حق المرأة على الزوج
ترجمہ: حکیم بن معاویہ اپنے والد حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ ایک آدمی نےنبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا: عورت کا اپنے خاوند پر کیا حق ہے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: خاوند جب خود کھائے تو اسے بھی کھلائے،جب خود پہنے تو اسے بھی پہنائے، اس کے چہرے پر نہ مارے اور برا بھلا نہ کہے اور اگر ناراضگی ہو جائے تو اس کا بستر الگ کر دے لیکن اسے گھر ہی میں سلائے گھر سے باہر نہ نکالے۔
فائدہ: بیوی جہاں خاوند کے سکون کا باعث بنتی ہے وہاں اولاد کی ابتدائی تعلیم و تربیت اور دیکھ بھال میں بھی بنیادی کردار ادا کرتی ہے، اس لیے اس کے حقوق کا خیال رکھنا اور محبت سے پیش آنا لازمی قرار دیا گیا۔ چنانچہ حدیث مذکور میں اس کی بنیادی ضروریات مثلاً کھانا پینا، لباس وغیرہ مہیا کرنے کے ساتھ ساتھ بلا وجہ مارنے اور ترش روئی اختیار کرنے سے منع فرمایا گیا ہے۔ اگر میاں بیوی میں محبت کے جذبات ہوں تو گھر مثل جنت بن سکتا ہے۔
مدینۃ منورہ کی فضیلت
35: عَنْ اَبِیْ هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ يَقُولُ قَالَ رَسُولُ اللّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أُمِرْتُ بِقَرْيَةٍ تَأْكُلُ الْقُرٰى يَقُولُوْنَ يَثْرِبُ وَهِيَ الْمَدِيْنَةُ تَنْفِي النَّاسَ كَمَا يَنْفِي الْكِيرُ خَبَثَ الْحَدِيْدِ.
صحیح البخاری: باب فضل المدينة وأنها تنفي الناس
ترجمہ:حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشادفرمایا: مجھے اس بستی میں جانے کا حکم دیا گیا ہے جو دوسری بستیوں کو کھا جائے گی یعنی اسے مرکزی حیثیت حاصل ہو گی لوگ اسے یثرب کہتے ہیں، فی الحقیقت اس کا نام ”مدینہ“ ہے، یہ بستی برے لوگوں کو اس طرح سے نکال دے گی جیسے بھٹی لوہے کا میل کچیل نکال دیتی ہے۔
فائدہ: مدینہ منورہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی جائے ہجرت اور وفات کے بعد آپ کا مدفن ہے۔ مسلمانوں کو آپ کی ذات سے قلبی تعلق ہے اس لیے آپ کے جائے مدفن سے بھی روحانی عقیدت ہے۔ جس طرح آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو مرکزی حیثیت حاصل ہے اسی طرح مدینہ منورہ کو بھی مرکزی حیثیت حاصل ہے۔ لہٰذا ہر مسلمان کو مدینہ منورہ سے محبت کرنی چاہیے۔
اللہ کی راہ میں خرچ کرنا
36: عَنْ أَبِيْ هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَنْ تَصَدَّقَ بِعَدْلِ تَمْرَةٍ مِنْ كَسْبٍ طَيِّبٍ وَلَا يَقْبَلُ اللهُ إِلَّا الطَّيِّبَ وَإِنَّ اللّهَ يَتَقَبَّلُهَا بِيَمِيْنِهِ ثُمَّ يُرَبِّيْهَا لِصَاحِبِهِ كَمَا يُرَبِّيْ أَحَدُكُمْ فَلُوَّهُ حَتَّى تَكُوْنَ مِثْلَ الْجَبَلِ.
صحیح البخاری: باب لا يقبل الله صدقة من غلول ولا يقبل إلا من كسب طيب
ترجمہ:حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سےمروی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو حلال کمائی سے ایک کھجور کے برابر بھی صدقہ کرے اور اللہ تعالیٰ حلال کمائی ہی کو قبول کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اسے اپنے دائیں دست قدرت سے قبول فرما کر اس کے مال کی پرورش کرتا رہتا ہے جیسے تم میں کوئی اپنے بچھڑے کی پرورش کرتا ہے یہاں تک کہ صدقہ کا ثواب پہاڑ کے برابر ہو جائے گا۔
فائدہ: مال اللہ تعالیٰ کا عطا کردہ ہے۔ جو اسے اللہ کی راہ میں خرچ کرتا ہے تو اللہ رب العزت نہ صرف یہ کہ اس کا بدلا دیتے ہیں بلکہ اصل مال سے بھی زائد عطا فرماتے ہیں۔اس لیے غرباء و فقراء، محتاج و نادار، یتیموں و بیواؤں اور مستحقین پر کھلے دل سے خرچ کیجیے اور اللہ کے ہاں عظیم اجر کے مستحق بنیے۔
تعمیر مسجد
37: عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُوْلُ: مَنْ بَنٰى مَسْجِدًا يُذْكَرُ فِيْهِ اسْمُ اللهِ بَنَى اللهُ لَهُ بَيْتًا فِي الْجَنَّةِ.
سنن ابن ماجۃ: باب من بنى لله مسجدا
ترجمہ: حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا: جس نے مسجد اس مقصد کیلیے بنائی کہ اس میں اللہ کا نام لیا جاتا رہے تو اللہ تعالیٰ اس کیلیے جنت میں گھر بنا دیتے ہیں۔
فائدہ: مسجد اسلام کا اساسی مرکز ہے، کئی اہم امور کی ادائیگی مثلاً نمازوں کی ادائیگی،جمعہ کا قیام، اہم دینی امور میں مشاورت، تعلیم و تعلم وغیرہ مسجد میں سر انجام دیے جاتے ہیں۔ اس لیے اس کی تعمیر دراصل ان تمام شعبوں کی بقاء کا ذریعہ ہے جو مسجد میں ادا ہوتے ہیں، لہٰذا اس کےبنانے اور صاف ستھرا رکھنے میں مال و دولت خرچ کرنا دنیا و آخرت کی بھلائیوں کا بہترین ذریعہ ہے۔
بیعت
38: عَنْ عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ وَكَانَ شَهِدَ بَدْرًا وَهُوَ أَحَدُ النُّقَبَاءِ لَيْلَةَ الْعَقَبَةِ أَنَّ رَسُولَ اللّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ وَحَوْلَهُ عِصَابَةٌ مِنْ أَصْحَابِهِ بَايِعُونِي عَلٰى أَنْ لَا تُشْرِكُوْا بِاللّهِ شَيْئًا وَلَا تَسْرِقُوْا وَلَا تَزْنُوْا وَلَا تَقْتُلُوْا أَوْلَادَكُمْ وَلَا تَأْتُوْا بِبُهْتَانٍ تَفْتَرُوْنَهُ بَيْنَ أَيْدِيْكُمْ وَأَرْجُلِكُمْ وَلَا تَعْصُوْا فِي مَعْرُوفٍ فَمَنْ وَفٰى مِنْكُمْ فَأَجْرُهُ عَلَى اللّهِ وَمَنْ أَصَابَ مِنْ ذٰلِكَ شَيْئًا فَعُوْقِبَ فِي الدُّنْيَا فَهُوَ كَفَّارَةٌ لَهُ وَمَنْ أَصَابَ مِنْ ذَلِكَ شَيْئًا ثُمَّ سَتَرَهُ اللهُ فَهُوَ إِلَى اللّهِ إِنْ شَاءَ عَفَا عَنْهُ وَإِنْ شَاءَ عَاقَبَهُ فَبَايَعْنَاهُ عَلَى ذَلِكَ.
صحیح البخاری: باب بعد باب علامة الإيمان حب الأنصار
ترجمہ:حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی موجودگی میں فرمایا: ان امور پر میری بیعت کرو کہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ گے، چوری نہ کرو گے،زنا نہ کرو گے، اپنی اولاد کو قتل نہیں کرو گے،نہ کوئی ایسا بہتان باندھو گے جو تم نے اپنے ہاتھ اور پاؤں کے درمیان گھڑ لیا ہو اور نہ کسی بھلے کام میں نافرمانی کرو گے۔پس جس نے اس عہد کو پورا کیا تو اس کا ا جر اللہ کے ذمہ ہے، جس نے ان امور میں سے کسی کا ارتکاب کیا اور دنیا ہی میں اس کو سزا مل گئی تو یہی سزا اس گناہ کا کفارہ بن جائے گی اور جس نے ان امور میں سے کسی کا ارتکاب کیا پھر اللہ نے دنیا میں اس کی پردہ پوشی کی تو اس کا معاملہ اللہ کے سپرد ہے، اگر اللہ چاہے گا تو بخش دے گا اور اگر چاہے گا تو سزا دے گا۔ چنانچہ ہم نے ان امور پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی بیعت کی۔
فائدہ: جس طرح ڈاکٹر کے نسخہ پرعمل اور پرہیز کی رعایت کرنے سے انسان جسمانی بیماریوں سےبچتا ہے، اسی طرح شیخ اور پیر طریقت کی بتائی ہوئی ہدایات پر عمل کرنے سے روحانی بیماریوں سے بچ جاتا ہے۔ بیعت کا مقصد ان روحانی بیماریوں کا علاج کرانا ہے جو باطنی و روحانی طور پر انسان پر اثر انداز ہوتی ہیں۔عہد نبوت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی بیعت ہوتی تھی اور اب آپ کے نائبین کی بیعت ہوتی ہے۔ مردوں کی طرح خواتین بھی بیعت کر سکتی ہیں مگر ان کا طریقہ بیعت مردوں کی طرح نہیں ہے۔باشرع، متقی و پرہیزگار اورمجاز طریقت شیخ سے تعلق جوڑیے،اور تقویٰ والی پر سکون زندگی سے لطف اٹھائیے۔
ذکر اللہ تعالیٰ
39: عَنْ أَبِيْ مُوْسٰى رَضِيَ اللهُ عَنْهُ قَالَ قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَثَلُ الَّذِيْ يَذْكُرُ رَبَّهُ وَالَّذِيْ لَا يَذْكُرُ رَبَّهُ مَثَلُ الْحَيِّ وَالْمَيِّتِ.
صحیح البخاری: باب فضل ذكر الله عز وجل
ترجمہ:حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: رب تعالیٰ کا ذکر کرنے والے کی مثال زندہ اورذکر نہ کرنے والے کی مثال مردہ کی ہے۔
فائدہ: اللہ کی یاد میں سرشار ہونا اور اس کا ذکر ورد زبان کرنا روح کی غذا ہے۔ جس طرح غذا کے بغیر جسم کا مردہ ہو جانا یقینی ہے، اسی طرح ذکر اللہ کے بغیر روح کا مردہ ہو جانا بھی یقینی ہے۔ لہٰذا صبح و شام، اٹھتے بیٹھتے غرض ہر وقت ذکر اللہ سے زبانوں کو تر کیجیے، اللہ کا استحضار کیجیے اور روحانی غذا حاصل کر کے حیات جاودانی اختیار کیجیے۔
خاتمہ بالخیر
40: عَنْ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: مَنْ كَانَ آخِرُ كَلَامِهِ لَا إِلٰهَ إِلَّا اللهُ دَخَلَ الْجَنَّةَ.
سنن ابی داؤد: باب فى التلقين
ترجمہ: حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا:جس شخص کا آخری کلام”لَا إِلٰهَ إِلَّا اللهُ“ہو وہ جنت میں داخل ہو گا۔
فائدہ: اس حدیث کا مفہوم یہ ہے کہ انسان کو پوری زندگی شریعت کے مطابق گزارنی چاہیے، شب و روز اس حال میں گزریں کہ ”لَا إِلٰهَ إِلَّا اللهُ“ کا تقاضا پورا ہو۔ اس کی برکت یہ ہو گی کہ موت کے وقت یہ کلمہ زبان پر جاری ہو گا اور جنت آدمی کا مقدر بن جائے گی۔ اللہ تعالیٰ موت کے وقت کلمہ نصیب فرمائے۔ آمین
مسنون دعائیں
نیند سے بیداری کی دعاء
اَلْحَمْدُ لِلّهِ الَّذِيْ أَحْيَانَا بَعْدَ مَا أَمَاتَنَا وَإِلَيْهِ النُّشُوْرُ .
صحیح البخاری: باب ما يقول إذا نام
ترجمہ: تمام تعریفیں اس اللہ کے لیے ہیں جس نے ہمیں موت (نیند) دینے کے بعد زندگی بخشی(بیدار کیا) اور (ہمیں) اسی کی طرف لوٹ کر جانا ہے۔
بیت الخلاء جانے کی دعاء
اَللَّهُمَّ إِنِّيْ أَعُوْذُ بِكَ مِنَ الْخُبُثِ وَالْخَبَائِثِ .
صحیح البخاری: باب ما يقول عند الخلاء
ترجمہ: اے اللہ! میں خبیث شیاطین سے آپ کی پناہ مانگتا ہوں، چاہے وہ مذکر ہوں یا مؤنث۔
بیت الخلاء سےنکلنے کی دعاء
أَلْحَمـْدُ لِلهِ الَّذِيْ أَذْهَبَ عَنِّي الْأَذٰى وَعَافَـانِيْ .
سنن ابن ماجة: باب ما يقول إذا خرج من الخلاء
ترجمہ:سب تعریفیں اللہ کیلیےجس نے مجھے گندگی سے دوررکھا اور عافیت عطا کی۔
وضوشروع کرتے وقت کی دعاء
بسمِ اللهِ.
سنن أبی داؤد: باب التسمية على الوضوء.
ترجمہ: اللہ کے نام سے شروع کرتا ہوں۔
وضو کے درمیان کی دعاء
اَللَّهُمَّ اغْفِرْ لِي ذَنْبِي وَوَسِّعْ لِي فِي دَارِي وَبَارِكْ لِي فِي رِزْقِي.
عمل الیوم و اللیلۃ للنسائی: ما يقول إذا توضأ
ترجمہ: اے اللہ! میرے گناہ معاف فرما دیجیے، میرے گھر میں وسعت عطا فرمائیے اور میرے رزق میں برکت عطا فرمائیے۔
وضو کے آخر کی دعاء
أَشْهَدُ أنْ لاَ إلهَ إلا الله وَحْدَهُ لاَ شَريكَ لَهُ وأشْهَدُ أنَّ مُحمَّداً عَبْدُهُ ورَسُولُه . اللَّهُمَّ اجْعَلْنِي مِنَ التَوَّابِينَ واجْعَلْني مِنَ المُتَطَهِّرِينَ .
سنن الترمذی: باب فيما يقال بعد الوضوء
ترجمہ: میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے علاوہ کوئی معبود نہیں، وہ اکیلا ہے اس کا کوئی شریک نہیں، اور میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں۔ اے اللہ! مجھے بہت توبہ کرنے والوں اور بہت پاک رہنے والوں میں شامل فرما لیجیے۔
گهرسےنکلنے کی دعاء
بِسْمِ الله تَوَكَّلْتُ عَلَى اللهِ لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلاّ بِاللهِ
سنن أبی داؤد: باب ما يقول الرجل إذا خرج من بيته
ترجمہ: اللہ کے نام کے ساتھ (اپنے گھر سے نکلتا ہوں) اللہ پر بھروسہ کرتا ہوں، اللہ کے علاوہ کوئی ایسا نہیں جو قوت اور طاقت دے سکے۔
فائدہ : جو شخص اس دعا کو پڑھ لیتا ہے اس کو کہا جاتا ہے کہ تیری کفایت کی گئی تجھے بچا لیا گیا، تجھے ہدایت دے دی گئی۔شیطان اس سے دور ہو جاتا ہےاور دوسرے شیطان سے کہتا ہے کہ ایسے شخص سے تیرا کیا کام جس کو ہدایت دے دی گئی،جس کی کفایت کرلی گئ، اورجسے بچالیا گیا؟
مسجد میں داخل ہونے کی دعا
اللّهُمَّ افْتَحْ لِي أَبْوَابَ رَحْمَتِكَ .
صحیح مسلم: باب ما يقول إذا دخل المسجد
ترجمہ: اے اللہ! میرے لیے اپنی رحمت کے دروازے کھول دے۔
اذان کا جواب
جب مؤذن اذان دے تو انہی الفاظ میں جواب دے، صرف
(حَیَّ عَلٰی الصَّلٰوۃِ اور حَیَّ عَلَی الْفَلَاحِ) کے جواب میں (لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلاّ بِاللهِ)
پڑھے، باقی الفاظ کا جواب اسی طرح دے جس طرح مؤذن پڑھتا ہے۔
صحیح مسلم: باب استحباب القول مثل قول الموذن لمن سمعہ
فائدہ 1: فجر کی اذان میں (اَلصَّلٰوۃُ خَیْرٌ مِّنَ النَّوْمِ) کے بعد (صَدَقْتَ وَبَرَرْتَ ) پڑھے، یا وہی الفاظ پڑھے جو مؤذن نے پڑھے ہیں۔
بدائع الصنائع: فصل وأما بيان ما يجب على السامعين عند الأذان
فائدہ 2: جب اذان ختم ہوتو یہ پڑھے:
أَشْهَدُ أَنْ لاَ إلَهَ إِلاَّ اللَّهُ وَحْدَهُ لاَ شَرِيكَ لَه وَأَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدَهُ وَرَسُولَهُ رَضِيْتُ بِاللهِ رَبًّا، وَبِمُحَمَّدٍ رَسُوْلاً وَبِالإِسْلاَمِ دِينًا.
صحیح مسلم: باب استحباب القول مثل قول المؤذن لمن سمعه الخ
ترجمہ: میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے علاوہ کوئی معبود نہیں، وہ اکیلا ہے اس کا کوئی شریک نہیں اور (میں گواہی دیتا ہوں کہ) محمد اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں۔ میں اللہ تعالیٰ کے رب ہونے، محمد صلی اللہ علیہ و سلم کے رسول ہونے اور اسلام کے دین ہونے پر راضی ہوں۔
تو اس شخص کے گناه معاف ہوجائیں گے۔
اذان كے بعد دعاء
أللهُمَّ ربَّ هذِهِ الدَّعْوَةِ التَّامَّةِ وَالصَّلاَةِ الْقَائِمَةِ آتِ مُحَمَّداًن ِالْوَسِيلَةَ وَالْفضِيلَةَ وَابْعَثهُ مَقَاماً مَحمُوداً ن اِلَّذِي وَعَدْتَهُ إِنَّكَ لاَ تُخْلِفُ الْمِيعَادَ‏۔
السنن الکبری للبیہقی: باب ما یقول اذا فرغ من ذلک
ترجمہ: اے اللہ ! اے اس دعوت کاملہ اور اس کھڑی ہونے والی نماز کے رب تو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو وسیلہ اور فضیلت عطا فرما اور انہیں اس مقام محمود پر پہنچا دے جس کا تو نے ان سے وعدہ فرمایا ہے، بے شک تو اپنے وعدے کے خلاف نہیں کرتا۔
فائدہ : جوشخص یہ دعا پڑهے گا تو اس کے لیے قیامت کے دن کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی شفاعت واجب ہوجاتی ہے۔
صحیح البخاری: باب الدعاء عند النداء
نوٹ: صحیح بخاری میں یہ دعاء
وَابْعَثهُ مَقَاماً مَحمُوداً ن اِلَّذِي وَعَدْتَهُ
تک ہے۔
اقامت کا جواب
اقامت کا جواب دینا بهی مسنون ہے، جو الفاظ اقامت کہنے والا پڑھے وہی الفاظ جواب میں پڑھیں لیکن صرف
(قَدْ قَامَتِ الصَّلٰوۃُ) کے جواب میں (اَقَامَھَا اللّٰہُ وَاَدَامَھَا)
پڑھے۔
سنن ابی داؤد: باب ما یقول اذا سمع الاقامۃ
تلاوت قرآن کی دعاء
اَعُوْذُ بِاللّهِ مِنَ الشَّيْطٰنِ الرَّجِيْمِ.
سورۃ النحل: 98
میں اللہ کی پناہ مانگتا ہوں شیطان مردود سے۔
نماز کے بعد اذکار
عَنْ کَعْبِ بْنِ عُجْرَ ۃَ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ مُعَقِّبَاتٌ لَایَخِیْبُ قَائِلُھُنَّ اَوْفَاعِلُھُنَّ ثَلاَثاً وَّ ثَلاَثِیْنَ تَسْبِیْحَۃً وَّثَلَاثاً وَّ ثَلَاثِیْنَ تَحْمِیْدَۃً وَّاَرْبَعًا وَّثَلٰثِیْنَ تَکْبِیْرَۃً فِیْ دُبِرِکُلِّ صَلٰوۃٍ۔
صحیح مسلم: باب استحباب الذکر بعد الصلوٰۃ
ترجمہ: حضرت کعب بن عجرہ رضی اللہ عنہ نقل کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ چند تسبیحات ایسی ہیں جنہیں ہر نماز کے بعد پڑھنے والا کبھی ناکام نہیں ہو گا۔ 33 بار سبحان اللہ 33 بار الحمد للہ اور 34 بار اللہ اکبر۔
نماز کے بعد کی دعا
عَنْ اَبِیْ اُمَامَۃَ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ قَالَ قِیْلَ لِرَسُوْلِ اللّٰہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اَیُّ الدُّعَائِ اَسْمَعُ قَالَ جَوْفُ اللَّیْلِ الْاٰخِرُوَدُبُرَالصَّلَوَاتِ الْمَکْتُوْبَاتِ۔
جامع الترمذی: باب من ابواب الدعوات،ج 2ص187
ترجمہ: حضرت ابو مامہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا کہ کون سی دعا سب سے زیادہ قبول ہوتی ہے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : رات کے آخر میں اور فرض نمازوں کے بعد۔
نماز کے بعد ہاتھ اٹھا کر دعا مانگنا
عَنِ الْفَضْلِ بْنِ عَبَّاسٍ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اَلصَّلَاۃُ مَثْنٰی مَثْنٰی تَشَھُّدٌ فِیْ کُلِّ رَکْعَتَیْنِ وَتَخَشُّعٌ وَتَضَرُّعٌ وَتَمَسْکُنٌ وَتُقْنِعُ یَدَیْکَ یَقُوْلُ تَرْفَعُھُمَا اِلٰی رَبِّکَ مُسْتَقْبِلاً بِبُطُوْنِھِمَا وَجْھَکَ وَتَقُوْلُ یَا رَبِّ یَارَبِّ وَمَنْ لَّمْ یَفْعَلْ ذٰلِکَ فَھُوَکَذَاوَکَذَا۔
(جامع الترمذی ج 1ص87 باب ما جاء فی التشخع فی الصلوٰۃ،المعجم الکبیر للطبرانی ج8 ص26 رقم الحدیث 15154 )
ترجمہ: حضرت فضل بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا نماز دو دو رکعت ہے، ہر دو رکعت میں تشہد پڑھنا ہے، عاجزی، انکساری اور مسکینی ظاہر کرنا ہے، اپنے دونوں ہاتھ اپنے رب کی طرف اس طرح اٹھاؤ کہ ان کی ہتھیلیاں تمہارے چہرے کی طرف ہوں اور کہو کہ اے رب! اے رب! اور جس نے ایسا نہ کیا اس کی نماز ایسی ہے، ایسی ہے۔ یعنی ناقص و نا مکمل ہے۔
مسجد سے نکلنے کی دعاء
اَللّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ مِنْ فَضْلِكَ
صحیح مسلم: باب ما يقول إذا دخل المسجد
ترجمہ: اے اللہ! میں تجھ سے تیرے فضل کا سوال کرتا ہوں۔
فائدہ : سنت طریقہ یہ ہے کہ مسجد میں داخل ہوتے وقت دایاں پاؤں پہلے رکهے، اور مسجد سے نکلتے وقت بایاں پاؤں پہلے نکالے۔
خوش گوار واقعہ پیش آنےپر یہ دعاء پڑهے
اَلْحَمْدُ لِلّهِ الَّذي بِنِعْمَتِهِ تَتِـمُّ الصّالِـحَاتُ
ابن ماجۃ: باب فضل الحامدين
ترجمہ: تمام تعریفیں اللہ کے لیے ہیں جس کی نعمت (و عطا) کی وجہ سے تمام اچھے کام سرانجام پاتے ہیں۔
نا خوش گوار واقعہ پیش آنےپر یہ دعاء پڑهے
اَلـحَمْدُ لِلَّهِ عَلـیٰ كُلِّ حـَالٍ .
ابن ماجۃ: باب فضل الحامدين
ترجمہ: تمام تعریفیں ہر حال میں اللہ تعالیٰ کے لیے ہیں۔
کهانا کھاتے وقت کی دعاء
بِسْمِ اللهِ وَبَرَكَةِ اللهِ
المستدرک للحاکم: كتاب الأطعمة
ترجمہ: اللہ تعالیٰ کے نام اور اس کی برکت کے ساتھ کھانا شروع کرتا ہوں۔
فائدہ :اگر شروع میں بسم اللہ پڑھنا بهول جائے تودرمیان میں یہ دعاء پڑهے:
بِسْمِ الله أَوَّلَہُ وآخِرَهُ
سنن ابی داؤد: باب التسمية على الطعام
ترجمہ: اللہ کے نام کے ساتھ شروع میں بھی اور آخر میں بھی۔
کهانا کهانے کے بعد کی دعاء
اَلْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي أَطْعَمَنَا وَسَقَانَا وَجَعَلَنَا مِنَ الْمُسْلِمِينَ
کنز العمال: رقم18179
ترجمہ: تمام تعریفیں اللہ کے لیے ہیں جس نے ہمیں کھلایا، پلایا اور مسلمان بنایا۔
دودھ پینے کے بعد کی دعاء
اَلَّلهُمَّ بَارِك لنَا فِيهِ وَزِدْنَا مِنْهُ
سنن ابی داؤد: باب ما يقول إذا شرب اللبن
ترجمہ: اے اللہ! ہمارے لیے اس (دودھ) میں برکت عطا فرما اور اس (برکت)کو زیادہ فرما۔
مہمان کهانا کهانے کے بعد میزبان کو یہ دعاء دے
اللَّهُمَّ أَطْعِمْ مَنْ أَطْعَمَنِي وَاسْقِ مَنْ سَقَانِي
مسند احمد بن جبنل:رقم الحدیث 33890
ترجمہ: اے اللہ! جس نے مجھے کھانا کھلایا آپ کو کھلائیے، اور جس نے مجھے پلایا آپ اس کو پلائیے۔
کپڑے اتارنے کی دعاء
بِسْمِ اللهِ الَّذِي لَا إِلٰهَ إِلَّا ھُوَ
عمل الیوم و اللیلۃ لابن السني: ما يقول إذا خلع ثوبا لغسل أو نوم
ترجمہ: اللہ کے نام سے جس کے سوا کوئی معبود نہیں۔
فائدہ : جو شخص کپڑے اتارتے وقت یہ دعاء پڑھ لے تو یہ جنات کی آنکهوں اور بنی آدم کی شرمگاہوں اور پرده کی جگہ کے درمیان حجاب و پرده ہوجائے گا۔ اس لیے اس دعا کا خصوصیت کے ساتھ اہتمام فرمائیں۔
کپڑے بدلنے کی دعاء
الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِى كَسَانِى هَذَا الثَّوْبَ وَرَزَقَنِيهِ مِنْ غَيْرِ حَوْلٍ مِنِّى وَلاَ قُوَّةٍ
سنن ابی داؤد: باب ما يقول إذا لبس ثوبا جديدا
ترجمہ: تمام تعریفیں اللہ کے لیے ہیں جس نے مجھے یہ کپڑا پہنایا اور بغیر میری قوت اور طاقت کے، مجھے عطا فرمایا۔
نئے کپڑے پہننے کی دعا
اللَّهُمَّ لَكَ الْحَمْدُ أنْتَ كَسَوْتَنِيهِ أَسْأَلُكَ خَيْرَه وَخَيْرَ مَا صُنِعَ لَهُ وَأَعُوذُ بِكَ مِنْ شَرِّهِ وَشَرِّ مَا صُنِعَ لَهُ .
سنن ابی داؤد: باب ما يقول إذا لبس ثوبا جديدا
ترجمہ: اے اللہ! آپ ہی کی تعریف ہے جیسا کہ آپ نے مجھے یہ کپڑا پہنایا،میں آپ سے اس کپڑے اور اس کام کی بھلائی مانگتا ہوں جس کام کے لیے یہ بنایا گیا ہے، اور اس کے شر سے پناہ مانگتا ہوں اور جس کام کے لیے بنایا گیا ہے اس کی برائی سے بھی پناہ چاہتا ہوں۔
آئینہ دیکهنے کی دعاء
اللَّهُمَّ حَسَّنْتَ خَلْقِیْ فَحَسِّنْ خُلُقِیْ۔
المقصد العلي: ج2 ص2617
ترجمہ: اے اللہ! تو نےمیری شکل کو خوبصورت بنایا ہے میرے اخلاق کو بھی خوبصورت بنادے۔
مقیم؛ مسافر آدمی کو یہ دعا دے
أسْتَوْدِعُ الله دِينَكَ وأمَانَتَكَ وَخَوَاتِيمَ عَمَلِكَ.
سنن ابی داؤد: باب فى الدعاء عند الوداع
ترجمہ: میں تمہارے دین، تمہاری امانت و دیانت اور آخری اعمال کو اللہ کے پاس امانت رکھتا ہوں کہ اللہ ان کی حفاظت کرے۔
مسافر؛ مقیم آدمی کو یہ دعا دے
أَسْتَوْدِعُكُمُ اللَّهَ الَّذِي لاَ تَضِيْعُ وَدَائِعُهُ
عمل الیوم و اللیلۃلابن السني: باب ما يقول إذا ودع رجلا
ترجمہ:میں تمہیں اس اللہ کے پاس امانت رکھتا ہوں جو امانتوں کو ضائع نہیں کرتا۔
سواری پر سوار ہونےکی دعاء
سُبْحَانَ الَّذِي سَخَّرَ لَنَا هَذَا ومَا كُنَّا لَهُ مُقْرِنينَ وَإنّا إلى رَبِّنَا لَمُنْقَلِبُونَ۔
سورۃ الزخرف: 13، 14
ترجمہ: پاک ہے وہ ذات جس نے اس سواری کو ہمارے تابع کر دیا، ورنہ یہ ہمارے بس میں تو نہیں تھا اور یقینا ہم اپنے پروردگار کی طرف پلٹنے والے ہیں۔
دوران سفر تکبیر و تسبیح
دوران سفرجب سواری اوپر کی طرف کو جائے یعنی اونچائی کی طرف تو الله اکبر پڑهے اور نیچے کی طرف آئے تو سبحان الله پڑهے۔
صحیح البخاری
دوران سفر کسی جگہ ٹھہرے یا اترے تو یہ دعاء پڑھے
أَعُوذُ بِكَلِمَاتِ اللّهِ التَّامَّاتِ مِنْ شَرِّ مَا خَلَقَ .
صحیح مسلم: باب في التعوذ من سوء القضاء ودرك الشقاء وغيره
ترجمہ: اللہ کے کلمات تامہ کے ساتھ پناہ مانگتا ہوں اس کی ہرمخلوق کے شر سے
سفر سے واپسی کی دعاء
آيْبُوْنَ تَائِبُوْنَ عَابِدُوْنَ سَاجِدُوْنَ لِرَبِّنَا حَامِدُوْنَ.
صحیح مسلم: باب ما يقول إذا قفل من سفر الحج وغيره
ترجمہ: ہم سفر سے لوٹ آئے ہیں، ہم توبہ کرتے ہیں، ہم اللہ کے عبادت کرنے والے ہیں اور اپنے رب کی حمد و ثناء کرنے والے ہیں۔
کسی بهی قسم کی تکلیف اور درد کی دعاء
جسم میں اگر کسی جگہ درد ہو تو اس جگہ پر ہاتھ رکهیں ور تین مرتبہ (بسم الله ) پڑھیں، پهر سات مرتبہ یہ دعاء پڑھیں:
أَعُوذُ بِاللَّهِ وَقُدْرَتِهِ مِنْ شَرِّ مَا أَجِدُ وَأُحَاذِرُ.
صحیح مسلم: باب استحباب وضع يده على موضع الألم مع الدعاء
ترجمہ: میں اللہ کی عزت اور قدرت کی پناہ مانگتا ہوں اس کے شر سے جو میں محسوس کر رہا ہوں اور جس سے مجھے خوف (یا تکلیف) پہنچا ہے۔
جب تیز ہوا چل رہی ہو تو یہ پڑھیں
اَللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ خَيْرَهَا وَخَيْرَ مَا فِيهَا وَخَيْرَ مَا أُرْسِلَتْ بِهِ وَأَعُوذُ بِكَ مِنْ شَرِّهَا وَشَرِّ مَا فِيهَا وَشَرِّ مَا أُرْسِلَتْ بِهِ .
صحیح مسلم: باب التعوذ عند رؤية الريح والغيم والفرح بالمطر
ترجمہ: اے اللہ! میں تجھ سے اس ہوا کی بھلائی مانگتا ہوں اور جو کچھ اس میں ہے اس کی بھلائی اور جو کچھ اس میں بھیجا گیا ہے اس کی بھی بہتری مانگتا ہوں اور اس کے شر اور جو کچھ اس میں ہے اس کے شر اور جو شر اس کے ذریعہ بھیجا گیا ہے اس سے پناہ مانگتا ہوں۔
کڑک اور گرج چمک کے وقت دعاء
سُبْحَانَ الَّذِيْ يُسَبِّحُ الرَّعْدُ بِحَمْدِهِ وَالْمَلَائِكَةُ مِنْ خِيفَتِهِ.
السنن الكبرى للبیہقی: باب ما يقول إذا سمع الرعد
ترجمہ: پاک ہے وہ ذات کہ بادلوں کی گرج جس کی تسبیح اور حمد کرتی ہے، اور اس کے رعب سے فرشتے بھی (تسبیح میں لگے ہوئے ہیں)۔
بارش مانگنے کی دعاء
اللَّهُمَّ أَغِثْنَا. اللَّهُمَّ أَغِثْنَا. اللَّهُمَّ أَغِثْنَا.
صحیح البخاری: باب الاستسقاء في خطبة الجمعة غير مستقبل القبلة
ترجمہ: اے اللہ! ہمیں سیراب کر، اے اللہ! ہمیں سیراب کر، اے اللہ ہمیں سیراب کر۔
جب بارش ہونے لگے تو یہ دعاء پڑهے
اَللَّهُمَّ صَيِّباً نَافِعاً .
صحیح البخاری: باب ما يقال إذا أمطرت
ترجمہ: اے اللہ! نفع پہنچانے والی بارش برسا۔
بارش کے بعد دعاء
مُطِرْنَا بِفَضْلِ الله وَرَحْمَتِهِ .
صحیح البخاری: باب يستقبل الإمام الناس إذا سلم
ترجمہ: ہم پر اللہ کے فضل اور اس کی رحمت سے بارش ہوئی۔
مصیبت اور پریشانی دور کرنے کی دعاء
رَبِّ إِنِّي لِمَا أَنْزَلْتَ إِلَيَّ مِنْ خَيْرٍ فَقِيرٌ
القصص: 24
ترجمہ: اے پروردگا میں اپنے لیے آپ کی نازل کردہ ہر بھلائی کا محتاج ہوں۔
ہرقسم کے مرض سے شفاء حاصل کرنے کی دعاء
اَللَّهُمَّ رَبَّ النَّاسِ أَذْهِب الْبَأسَ وَاشْفِ أَنْتَ الشَّافي لا شِفَاءَ إِلاَّ شِفَاؤُكَ شِفاءً لا يُغَادِرُ سَقَماً .
صحیح البخاری: باب رقية النبي صلى الله عليه وسلم
ترجمہ: اے اللہ! لوگوں کے پروردگار! تکلیف دور کر، اس کو شفا دے اور تو شفا دینے والا ہے، شفاتیری ہی ہے ایسی شفا جو بیماری کو نہ چھوڑے۔
ہر مریض پر پڑھنے کے لیے مسنون دم
بِسْمِ اللَّهِ أَرْقِيكَ مِنْ كُلِّ شَيْءٍ يُؤْذِيكَ مِنْ شَرِّ كُلِّ نَفْسٍ أَوْ عيْنِ حَاسِدٍ اللَّهُ يَشْفِيك بِسْمِ اللَّهِ أَرْقِيكَ .
صحیح مسلم: باب الطب والمرض والرقى
ترجمہ: اللہ کے نام سے ہر اس چیز کے شر سے جو آپ کو تکلیف دینے والی ہو اور ہر نفس یا حسد کرنے والی آنکھ کے شر سے میں آپ کو دم کرتا ہوں، اللہ آپ کو شفا دے گا، میں اللہ کے نام سے آپ کو دم کرتا ہوں۔
میت کی آنکهیں بند کرتے وقت دعاء
اللَّهُمَّ اغْفِرْ لـ (اس میت کا نام لے ) وَارْفَعْ دَرَجَتَهُ فِي الْمَهْدِيِّينَ وَاخْلُفْهُ فِي عَقِبِهِ فِي الْغَابِرِينَ وَاغْفِرْ لَنَا وَلَهُ يَا رَبَّ الْعَالَمِينَ وَافْسَحْ لَهُ فِي قَبْرِهِ. وَنَوِّرْ لَهُ فِيهِ.
صحیح مسلم:
ترجمہ: اے اللہ! اس (میت کا نام لے) کو معاف فرما اور ہدایت یافتہ لوگوں میں اس کا درجہ بلند فرما اور اس کے ورثہ میں سے اس کا جانشین مقرر فرما۔یا رب العالمین! ہمیں اور اس کو بخش دے اور اس کی قبر اس کے لئے کشادہ فرما اور اس کی قبر اس کے لیے منور فرما۔
قبرستان کی زیارت کے وقت دعاء
السلام عليكم دار قوم مؤمنين وإنا إن شاء الله بكم لاحقون .
صحیح مسلم: باب استحباب إطالة الغرة والتحجيل في الوضوء
ترجمہ:سلامتی ہو تم پر مومنوں کے گھر! ہم بھی ان شاء اللہ تم سے ملنے والے ہیں۔
میت کوقبر میں داخل کرتے وقت یہ دعاء پڑهے
بِسْمِ اللَّهِ وَعَلَى مِلَّةِ رَسُولِ اللَّهِ،
سنن ابن ماجۃ: باب ما جاء في إدخال الميت القبر
ترجمہ: اللہ کے نام کے ساتھ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی ملت (شریعت) کے مطابق (اس میت کو دفن کرتے ہیں)۔
میت کو دفن کرنے بعد یہ دعاء پڑهے
الَّلهُمَّ اغفِرْ لَهُ الَّلهُمَّ ثَبِّتْهُ
ترجمہ: اے اللہ! اس میت کو معاف فرما اور (سوال جواب کے وقت) اس کو ثابت قدم رکھنا۔
فائدہ: آپ صلی الله علیہ وسلم جب میت کی دفن سے فارغ ہوتے تو فرماتے کہ اپنے بهائی کے لیے استغفار کرو اور ثابت قدمی کی دعاء کرو کیونکہ اب اس سے پوچھ گچھ ہوگی۔
سنن أبی داؤد: باب الاستغفار عند القبر للميت فى وقت الانصراف
بازار میں داخل ہونے کی دعاء
لَا إلٰهَ إلاَّ الله وَحْدَهُ لا شَرِيكَ لَهُ لَهُ المُلْكُ وَلَهُ الْحَمْدُ يُحْيي وَيُمِيتُ وَهُوَ حَيٌّ لا يَمُوتُ بِيَدِهِ الخَيرُ وهُوَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِير.
سنن الترمذی: باب ما يقول إذا دخل السوق
ترجمہ: اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں، وہ اکیلا ہے اس کا کوئی شریک نہیں، (سارے جہان میں) اسی کی ملکیت ہے اور اسی کے لیے ساری تعریفیں ہیں، وہ زندہ بھی کرتا ہے اور مارتا بھی ہے، وہ زندہ ہے اسے موت نہیں آئے گی، اسی کے ہاتھ میں ساری بھلائیاں ہیں اور وہ ہر چیز پر قادر ہے۔
جب کسی موسم کا نیا پهل دیکهے اورکهائے تو یہ دعاء پڑهے
اللَّهُمَّ بَارِكْ لَنَا فِي ثَمَرِنَا وَبَارِكْ لَنَا فِي مَدِينَتِنَا.
صحیح مسلم: باب فضل المدينة الخ
ترجمہ: اے اللہ! ہمارے پھلوں میں اور ہمارے شہر میں بھی برکت عطا فرما۔
جوشادی کرے یا سواری وغیره خریدے تویہ دعاء پڑهے
اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ خَيْرَهَا وَخَيْرَ ما جَبَلْتَهَا عَلَيْهِ وأَعُوذُ بِكَ مِنْ شَرِّهَا وَمِنْ شَرِّ مَا جَبَلْتَهَا عَلَيْهِ .
سنن أبی داؤد: باب فى جامع النكاح
ترجمہ: اے اللہ! میں آپ سے اس کی خیر و برکت مانگتا ہوں، اور آپ نے جن خصلتوں کے ساتھ اسے پیدا فرمایا ہے ان کی بھلائی کا طلبگار ہوں، اور اس کے شر سے اور جن خصلتوں کے ساتھ آپ نے اس کو پیدا فرمایا ہے ان کے شر سے پناہ مانگتا ہوں۔
نوٹ: حدیث میں وضاحت ہے کہ عورت یا سواری یا خادم کی پیشانی پکڑ کر یہ دعاء کرے۔
نکاح کی مبارک باد
بَارَكَ الله لَكَ وَبَارَكَ عَلَيْكَ وَجَمَعَ بَيْنَكُمَا فِي خَيْرٍ
سنن الترمذی: باب ما جاء فيما يقال للمتزوج
ترجمہ: اللہ تعالیٰ تمہارے لیےیہ نکاح مبارک فرمائے، تم پر برکتیں نازل فرمائے اور تم دونوں کو خیر و خوبی کے ساتھ اکٹھا رکھے۔
بیوی سے ہمبستری کرتے وقت یہ دعاء پڑهے
بِسْمِ اللّهِ اَللّهُمَّ جَنِّبْنَا الشَّيْطَانَ وَجَنِّبِ الشَّيْطَانَ مَا رَزَقْتَنَا۔
صحیح البخاری: باب صفة إبليس وجنوده
ترجمہ: اللہ کے نام سے، اے اللہ! ہم کو شیطان سے دور رکھ، اور شیطان کو اس چیز (یعنی اولاد) سے دور رکھ جو آپ ہمیں عطا فرمائیں۔
نیا چاند دیکهنے کی دعاء
اَللَّهُمَّ أهِلَّهُ عَلَـيْنا بِـالیُمْنِ وَالإيـمَانِ وَالسّلامَةِ وَالإسْلامِ وَالتَّوْفِـيقِ لِـمَا تُـحِبُّ وتَرْضَى رَبِّی وَرَبُّكَ اللَّهُ.
سنن الترمذي : باب ما يقول عند رؤية الهلال
ترجمہ: اے اللہ! ہم پر اس چاند کو خیر، ایمان، سلامتی اور اسلام کے ساتھ طلوع فرما۔ (اے چاند!) تیرا اور میرا رب اللہ ہے۔
روزه افطارکرنے کی د دعاء
اَللَّهُمَّ لَكَ صُمْتُ وَعلى رِزقِكَ أفْطَرْتُ .
سنن أبی داؤد: باب القول عند الإفطار
ترجمہ: اے اللہ! میں نے تیرے لیے روزہ رکھا اور تیرے دیے ہوئے رزق پر ہی افطار کر رہا ہوں۔
لیلۃ القدر کی دعاء
اللَّهُمَّ إِنَّكَ عَفُوٌّ تُحِبُّ العفْوَ فاعْفُ عنِّي .
سنن ابن ماجۃ: باب الدعاء بالعفو والعافية
ترجمہ: اے اللہ! آپ بہت معاف کرنے والے ہیں، اور معاف کرنے کو پسند فرماتے ہیں، پس ہم کو معاف کردیجئے۔
سونے کی دعائیں
دائیں کروٹ پر لیٹ کر یہ پڑھے:
اَللَّهُمَّ بِاسْمِكَ أَمُوتُ وَأَحْيَا
صحیح البخاری: باب وضع اليد اليمنى تحت الخد الأيمن
ترجمہ: اے اللہ! آپ ہی کے نام کے ساتھ میں مرتا ہوں (یعنی سوتا ہوں) اور آپ ہی کے نام سے زندہ ہوتا ہوں یعنی بیدار ہوتا ہوں۔)
نیز : اس کے علاوہ 33 بار سبحان اللہ 33 بار الحمد للہ 34 بار اللہ اکبر پڑھے۔
نیز یہ بھی پڑھے
آیۃ الکرسی، سورۃ فاتحہ، سورۃ اخلاص، سورۃ کافرون،
استغفر اللہ الذی لا الہ الا ھو الحی القیوم واتوب الیہ۔ تین تین بار، سورۃ البقرہ کا آخری رکوع: آمَنَ الرَّسُولُ بِمَا أُنْزِلَ إِلَيْهِ مِنْ رَبِّهِ وَالْمُؤْمِنُونَ
سے آخر سورۃ تک۔
دن رات کے اکثر اوقات میں درود شریف کثرت سے پڑھے اور تمام اہل اسلام کی بھلائی اور خیر مانگے۔ جس کسی سے بھی تکلیف پہنچی ہو اس کو اللہ تعالی کی رضا کے لیے معاف کردے اور اللہ تعالی سے جنت کا سوال کرکے اور جہنم سے پناہ مانگ کر سو جائے۔