قسط-11 عفو و درگزر

User Rating: 4 / 5

Star ActiveStar ActiveStar ActiveStar ActiveStar Inactive
 
قسط-11 عفو و درگزر
اللہ تعالیٰ کی صفات میں سے ایک صفت ”عفو“ بھی ہے ۔ جس کا معنی و مفہوم یہ ہے کہ مجرم، خطاکار اور سزاو عذاب کےمستحق کو معاف کرنے والا اور اس کی نافرمانیوں ، خطاؤں اور سیئات سے درگزر کرنے والا۔ جرم ، غلطی اور نافرمانی کے باوجود سخت برتاؤ کے بجائے نرمی و محبت سے پیش آنے والا ۔ تمام انبیاء بالخصوص خاتم الانبیاء حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ کی صفتِ”عفو “ کے مکمل نمونہ اورآئینہ دار تھے،آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عملی زندگی اس دعویٰ کی سب سےبڑی، روشن اور واضح دلیل و برہان ہے ۔
چنانچہ سیرت کی تمام کتب میں ملتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کودکھوں ، مصیبتوں ، پریشانیوں اور مشکل حالات سے دوچار کرنے والے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات اقدس کو رنج و غم اور تکالیف میں مبتلا کرنے والے ، آپ کو ہر طرح کی اذیتیں دینے والے ، مارنے پیٹنےوالے ، گردن مبارک میں کپڑے اور رسیاں ڈال کربھینچنے اور بَل دینے والے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے مقدس جسم کوتیر وتفنگ ، نیزوں اور پتھروں سے لہولہان کرنے والے۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ذہنی کوفت دینے والے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر ساحر ، مجنون اور دیوانہ جیسے ناپاک جملے کسنے والے ، آپ کو اپنے وطن سے ہجرت پر مجبور کرنے والے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے آل و اصحاب علیہم الرضوان کوخاک و خون میں تڑپا تڑپا کر شہید کرنے والے، حتی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی جان کے پیاسے کھانے میں زہر دینے والے لوگ جب مفتوح،جنگی قیدی اور بے بس ہو کر مکمل طور پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دسترس میں آئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں نہ صرف یہ کہ دل و جان سے معاف کر دیا بلکہ ان کو اپنے سینے سے لگایا اور ان کے لیے اللہ تعالیٰ سے دعائیں کیں ۔ یہی وجہ تھی کہ وہ لوگ جو کبھی اسلام کو دیس نکالا دینا چاہتے تھا اسلام نےخود انہی کے دلوں میں ڈیرہ ڈال دیا۔
انسانی معاشرے میں امن و امان اور سکون و راحت کا خوشگوار ماحول بنانے کے لیے اللہ تعالیٰ اور اس کے آخری نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے ”عفو و درگزر“ پر بہت زور دیا ہے ۔ قرآن کریم میں متعدد مقامات پر عفو و درگزر کی فضیلت ، اجر وثواب ، اس کی معاشرتی اہمیت و ضرورت کو واضح لفظوں میں بیان کیا گیا ہے ۔
اللہ کے برگزیدہ نیک بندوں کی اعلیٰ صفات کا جہاں تذکرہ ہے وہاں پر ان کی”عفو و درگزر“ جیسی عمدہ صفت سرفہرست ہے ۔ چونکہ غصہ کا آنا ایک فطری عمل ہے اور اس کی وجہ سے معاشرہ میں خون خرابہ، قتل و غارت اور دشمنی و عداوت پیدا ہوتی ہے اس لیے شریعت نے اس کا حل ”عفو ودرگزر“ کو قرار دیا ہے ۔
لیکن یہ بات اچھی طرح یاد رہے کہ ”عفو و درگزر“ کا حکم ایسے معاملات میں ہے جن کا تعلق انسان کی اپنی ذات سے ہوتا ہے اور اگر معاملہ دین اسلام اور پیغمبر اسلام کی عزت وحرمت کا ہو تو وہاں غصہ کا نہ آنا مذموم و ناپسند ہے۔
وہ کفار اور دین دشمن قوتیں جو اسلام اور اہل اسلام کو مٹانے کے درپے ہوں ان کے بارے میں ہرگز ” عفو و درگزر “کا حکم نہیں ۔اسی طرح سماجی برائیوں کو روکنے اور ختم کرنے کے لیے قانونی سزائیں جاری کرنے میں بھی” عفو و درگزر“ سے کام نہیں لیا جائے گا ورنہ بدامنی مزید پھیلے گی۔
قرآن کریم کی طرح احادیث مبارکہ میں بھی جہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اپنے” عفو و درگزر “کے سینکڑوں بلکہ ہزاروں واقعات ملتے ہیں وہاں پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی تعلیم اور خوب ترغیب بھی دی ہے ۔ چنانچہ
1: عَنْ أَبِى هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ عَنْ رَسُوْلِ اللّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ ۔۔۔۔۔مَا زَادَ اللّهُ عَبْدًا بِعَفْوٍ إِلاَّ عِزًّا۔
صحیح مسلم ، باب استحباب العفو والتواضع ،حدیث نمبر 6757
ترجمہ: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: معاف کرنے والے کی اللہ تعالیٰ عزت بڑھا دیتے ہیں ۔
2: عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ قَالَ وَهُوَ عَلَى الْمِنْبَرِ: اِرْحَمُوا تُرْحَمُوا، وَاغْفِرُوا يَغْفِرِ اللهُ لَكُمْ
مسند احمد ،مسند عبداللہ بن عمرو ، حدیث نمبر6541
ترجمہ: حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے منبر پر تشریف فرما ہو کر فرمایا: تم مخلوق پر رحم کرو اللہ تم پر رحم فرمائے گا اور تم لوگوں کو معاف کرو اللہ تمہیں معاف کرے گا ۔
3: عَنْ أُبَيِّ بْنِ كَعْبٍ رَضِيَ اللّهُ عَنْهُ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: مَنْ سَرَّهُ أَنْ يُشْرِفَ لَهُ الْبُنْيَانُ، وَتُرْفَعَ لَهُ الدَّرَجَاتُ، فَلْيَعْفُ عَمَّنْ ظَلَمَهُ، وَلْيُعْطِ مَنْ حَرَّمَهُ وَيَصِلْ مَنْ قَطَعَهُ۔
ترجمہ: حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جو شخص یہ چاہتا ہو کہ جنت میں اس کے لیے محلات تعمیر کیے جائیں اور اس کے درجات بلند کر دیے جائیں تو اسے چاہیے کہ وہ ظلم کے جواب میں عفو ودرگزر سے کام لے ، محروم کرنے والے کو عطا کرے اور قطع تعلقی کرنے والے سے صلہ رحمی کا سلوک کرے۔
مستدرک حاکم ، تحت تفسیر سورۃ آل عمران، حدیث نمبر3161
4: عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللّهُ عَنْهُ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ………مَنْ أَتَاهُ أَخُوهُ مُتَنَصِّلًا فَلْيَقْبَلْ ذَلِكَ مِنْهُ مُحِقًّا كَانَ أَوْ مُبْطِلًا فَإِنْ لَمْ يَفْعَلْ لَمْ يَرِدْ عَلَيَّ الْحَوْضَ»
مستدرک حاکم،کتاب البر والصلۃ ،حدیث نمبر7258
ترجمہ: حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:جس کے پاس اس کا بھائی معذرت خواہ ہو کر آئے تو اس کا عذر قبول کرے خواہ صحیح ہو یا غلط۔اگر ایسا نہیں کرے گا تو میرے حوض پر نہ آئے۔
5: عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «ثَلَاثٌ مَنْ كُنَّ فِيهِ حَاسَبَهُ اللَّهُ حِسَابًا يَسِيرًا وَأَدْخَلَهُ الْجَنَّةَ بِرَحْمَتِهِ» قَالُوا: لِمَنْ يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ قَالَ: «تُعْطِي مَنْ حَرَمَكَ، وَتَعْفُو عَمَّنْ ظَلَمَكَ، وَتَصِلُ مَنْ قَطَعَكَ» قَالَ: فَإِذَا فَعَلْتُ ذَلِكَ، فَمَا لِي يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ قَالَ: «أَنْ تُحَاسَبَ حِسَابًا يَسِيرًا وَيُدْخِلَكَ اللَّهُ الْجَنَّةَ بِرَحْمَتِهِ»
مستدرک حاکم ، تحت تفسیر سورۃ اذا السماء انشقت ، حدیث نمبر3912
ترجمہ: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تین عادتیں جس شخص کے اندر ہوں گی اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس سے آسان حساب و کتاب لے گا اوراپنی رحمت کے ساتھ جنت میں داخل فرمائے گا ۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کی ہمارے ماں باپ آپ پر قربان ہوں وہ کون سی تین عادات ہیں ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا : جو تمہیں محروم کرے تم اسے نواز دو ، جو تم سے تعلق توڑے تم اس سے جوڑواور جو تجھ پر ظلم کرے تم عفو ودرگزر سے کام لو ۔ جب تم یہ کام کر لو تو جنت میں داخل ہو جانا ۔
6: عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: بَيْنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ جَالِسٌ إِذْ رَأَيْنَاهُ ضَحِكَ حَتَّى بَدَتْ ثَنَايَاهُ، فَقَالَ لَهُ عُمَرُ: مَا أَضْحَكَكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ بِأَبِي أَنْتَ وَأُمِّي؟ قَالَ: رَجُلَانِ مِنْ أُمَّتِي جَثَيَا بَيْنَ يَدَيْ رَبِّ الْعِزَّةِ، فَقَالَ أَحَدُهُمَا: يَا رَبِّ خُذْ لِي مَظْلِمَتِي مِنْ أَخِي، فَقَالَ اللَّهُ تَبَارَكَ وَتَعَالَى لِلطَّالِبِ: فَكَيْفَ تَصْنَعُ بِأَخِيكِ وَلَمْ يَبْقَ مِنْ حَسَنَاتِهِ شَيْءٌ؟ قَالَ: يَا رَبِّ فَلْيَحْمِلْ مِنْ أَوْزَارِي قَالَ: وَفَاضَتْ عَيْنَا رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالْبُكَاءِ، ثُمَّ قَالَ: إِنَّ ذَاكَ الْيَوْمَ عَظِيمٌ يَحْتَاجُ النَّاسُ أَنْ يُحْمَلَ عَنْهُمْ مِنْ أَوْزَارِهِمْ، فَقَالَ اللَّهُ تَعَالَى لِلطَّالِبِ ارْفَعْ بَصَرَكَ فَانْظُرْ فِي الْجِنَّانِ فَرَفَعَ رَأْسَهُ، فَقَالَ: يَا رَبِّ أَرَى مَدَائِنَ مِنْ ذَهَبٍ وَقُصُورًا مِنْ ذَهَبً مُكَلَّلَةً بِالُّلؤْلُؤِ لِأَيِّ نَبِيٍّ هَذَا أَوْ لِأَيِّ صِدِّيقٍ هَذَا أَوْ لِأَيِّ شَهِيدٍ هَذَا؟ قَالَ: هَذَا لِمَنْ أَعْطَى الثَّمَنَ، قَالَ: يَا رَبِّ وَمَنْ يَمْلِكُ ذَلِكَ؟ قَالَ: أَنْتَ تَمْلِكُهُ، قَالَ: بِمَاذَا؟ قَالَ: بِعَفْوِكَ عَنْ أَخِيكَ، قَالَ: يَا رَبِّ فَإِنِّي قَدْ عَفَوْتُ عَنْهُ، قَالَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ: فَخُذْ بِيَدِ أَخِيكَ فَأَدْخِلْهُ الْجَنَّةَ " فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عِنْدَ ذَلِكَ: «اتَّقُوا اللَّهَ وَأَصْلِحُوا ذَاتَ بَيْنِكُمْ فَإِنَّ اللَّهَ تَعَالَى يُصْلِحُ بَيْنَ الْمُسْلِمِينَ»
مستدرک حاکم ، کتاب الاھوال ،حدیث نمبر 8718
ترجمہ: حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ روایت ہے کہ ایک بار ہماری مجلس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف فرما تھے ہم نے دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مسکرائے یہاں تک کہ آپ کے سامنے کے دانت مبارک نظر آنے لگے ۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کی یارسول اللہ !میرے ماں باپ آپ پر قربان کس وجہ سے آپ مسکرا رہے ہیں؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : میری امت کے دو آدمیوں نے اللہ رب العزت کے ہاں کسی معاملہ پر بحث و مباحثہ کیا ایک ان میں سے کہنے لگا کہ اے اللہ میرے بھائی نے جو مجھ پر زیادتی کی مجھے اس کا بدلے میں اس کی نیکیاں عطا کر ۔ اللہ تعالیٰ نے اسے کہا: اس کی نیکیاں تمہیں کیسے بدلے کے طور پر دوں وہ تو ختم ہو چکی ہیں ؟ وہ شخص کہنے لگا اے میرے رب پھر میرے گناہ اس پر ڈال دے ۔ یہ بات کہتے ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی آنکھیں بہہ پڑیں آپ روئے پھر فرمایا: بے شک وہ دن بہت بڑا دن ہے اس دن لوگ یہ چاہیں گے کہ ان کے گناہ ان سے ہٹا کر دوسروں پر ڈال دیے جائیں ۔
پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے اس نیکیاں طلب کرنے والے شخص سے فرمایا : آنکھ اٹھاؤ اور دیکھو ۔ اس نے آنکھ اٹھائی اور کہا : اے میرے رب میں سونے کے شہر اور سونے کے محلات دیکھ رہا ہوں جس میں موتی جڑے ہوئے ہیں یہ کسی نبی کے لیے ہیں ؟ یا کسی صدیق یا کسی شہید کے لیے ہیں ؟
اللہ تعالیٰ نے فرمایا : یہ اس کے لیے جو اس کی قیمت ادا کرے گا ۔
وہ شخص کہنے لگا کہ اس کی قیمت کون ادا کرے گا ؟
اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ تو اس کا مالک ہو سکتا ہے ۔
وہ شخص پوچھنے لگا کہ وہ کیسے ؟ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اگر تو اپنے بھائی کو معاف کر دے تو تو اس کا مالک بن سکتا ہے ۔ وہ شخص کہنے لگا کہ اے میرے رب میں نے اپنے بھائی کو معاف کیا ۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: اپنے بھائی کا ہاتھ پکڑ کر جنت میں داخل ہو جا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس واقعہ کو آیت کی تفسیر کے طور پر ذکر فرمایا کہ جس کا ترجمہ یہ ہے : اللہ سے ڈرو اور باہمی صلح صفائی سے معاملات طے کرو ، بے شک اللہ تعالیٰ مسلمانوں کے درمیان صلح کرانے والے ہیں ۔
آج ہمارے معاشرے کو بدلہ ، زیادتی اور انتقامی جذبات کی آگ نے ہر طرف سے جھلسا رکھا ہے ، ہمارے اخلاق و عادات کو ظلم کی دیمک چاٹ رہی ہے ،ہر طرف سے اینٹ کا جواب پتھر سے دینے کی آوازیں سنائی دیتی ہیں ، ہر شخص نواب کے مقابلے میں ڈیڑھ نواب بننے کو تُلا بیٹھا ہے ، غلطی اور جرم سے بڑھ کر سزا اور بدلے کی روش ظلم در ظلم کی شکل میں دکھائی دے رہی ہے ،افسوس کہ آج ہمارے دل ، رحم و کرم ، صبر وتحمل اور عفو و درگزر جیسی اعلیٰ اوصاف سے یکسر خالی ہو رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہماری اجتماعی طاقت کا شیرازہ بکھر کر پارہ پارہ ہو چکا ہے ، باہمی نفرت و عدوات ، لڑائی جھگڑے اور انتقامی کارروائیوں نے ہماری ہیبت و جلال ، سطوت و شوکت اور وجاہت و دبدبے کو سلب کر لیا اور آپسی انتشار کی وجہ سے ہماری ہوا اکھڑ گئی ہے ۔ آئیے عزم کریں !محض ارادے نہیں بلکہ فیصلے کریں !کہ ہم سب ایسی زندگی گزاریں گے جو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو پسند ہو ، معاشرے کو خوشگوار، محبت افزاء اور پرامن بنانے کے لیے بقائے باہمی پر عمل کریں گے اور اپنے اندر دیگر اعلی اوصاف کی طرح ”عفو و درگزر“ کی صفت بھی پیدا کریں گے ۔ آئندہ اس امید بلکہ پختہ یقین کے ساتھ لوگوں کی غلطیاں اور جرائم کو معاف کریں گے کہ کل قیامت اللہ کریم”عفو ودرگزر“ کا معاملہ کرتے ہوئے ہماری غلطیاں اور ہمارے جرائم معاف کر دے گا ۔
نوٹ : اپنی روزمرہ کی دعاؤں میں درج ذیل دعا کو بطور خاص شامل فرما لیں :
اللھم انک عفوتحب العفو فاعف عنا یاغفور یاکریم ۔ اے اللہ تو معاف کرنے والا ہے ، معافی کو پسند فرماتا ہے ، ہمیں معاف فرما! اے بخشنے والے ، اے کرم کرنے والے ۔ آمین بجاہ النبی الکریم صلی اللہ علیہ وسلم
والسلام
محمد الیاس گھمن کوٹہ ، پاکستان
23مارچ، جمعرات،2017ء