قسط-12 صدق وسچائی

User Rating: 5 / 5

Star ActiveStar ActiveStar ActiveStar ActiveStar Active
 
اللہ تعالیٰ نے انسانی معاشرے کو جن خطوط پر چلنے کا حکم دیا ہے ان میں سے ایک”صدق“ بھی ہے ۔ صدق وسچائی اللہ تعالیٰ،انبیاء کرام علیہم السلام، بالخصوص خاتم الانبیاءصلی اللہ علیہ وسلم ، ملائکہ ، اولیاء و صلحاء اور ہر منصف مزاج سلیم الفطرت شخص کا درجہ بدرجہ مشترکہ وصف ہے ۔اپنی اہمیت کے حوالے سے صرف مسلمان ہی نہیں بلکہ ہر انسان خواہ وہ مومن ہو یا کافر، مسلم ہو یا غیر مسلم ، نیک ہو یا بد ،حاکم ہو یا رعایا،افسر ہو یا ملازم ، قائد ہو یا کارکن ، استاد ہو یا شاگرد ، پیر ہو یا مرید ، امیر ہو یا غریب، اپنا ہو یا پرایا ، والدین ہوں یا اولاد الغرض زندگی کے ہر شعبے سے تعلق رکھنے والے کے لیے انتہائی ضروری ہے ۔
انسانی معاشرے کا امن و سکون ، راحت و چین اور اس کی تعمیر و ترقی کی بنیاد صدق پر ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام میں اس کو اپنانے کی بہت تاکید آئی ہے،قرآن و سنت کی تعلیمات میں اس کی فضیلت اور ضرورت روزروشن کی طرح واضح ہے ۔اللہ تعالیٰ کی سچی کتاب قرآن کریم کے متعدد مقامات پر صدق وسچائی ، سچ بولنے والے مرد و عورت کی فضیلت ،صادقین کا مصداق ،آخرت میں صادقین کےانعام و اکرام ، ان کے مقام و مرتبہ ، مخلوق میں مقبولیت اور سب سے بڑھ خالق کے ہاں ان کی محبوبیت کا تذکرہ موجود ہے ۔ قرآن و سنت کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ صدق کا مفہوم بہت وسیع ہے یہ صرف قول کی سچائی میں منحصر نہیں بلکہ قول کے ساتھ ساتھ فعل اور اعتقاد میں بھی سچائی کو شامل ہے ۔ چند آیات قرآنیہ کامفہوم پیش خدمت ہے :
سورۃ النساء آیت نمبر69 میں ان چار طبقات کا خصوصی طور پر تذکرہ موجود ہے جن کو اللہ نےخود انعام یافتہ قرار دیا، چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
مَنْ يُطِعِ اللّهَ وَالرَّسُولَ فَأُولَئِكَ مَعَ الَّذِينَ أَنْعَمَ اللّهُ عَلَيْهِمْ مِنَ النَّبِيِّينَ وَالصِّدِّيقِينَ وَالشُّهَدَاءِ وَالصَّالِحِينَ ۔
ترجمہ: جوشخص اللہ کی اطاعت کرے گا اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کرے گا تو وہ (آخرت میں ) ان کے ساتھ ہوگا جن پر اللہ تعالیٰ نے انعام فرمایا او روہ انبیاء ،صدیقین ،شہداء اور نیک لوگ ہیں ۔
سورۃ المائدہ آیت نمبر 119 میں صادقین کو روزقیامت صدق کی وجہ سے جنت ملنے کا تذکرہ موجود ہے :
قَالَ اللّهُ هَذَا يَوْمُ يَنْفَعُ الصَّادِقِينَ صِدْقُهُمْ لَهُمْ جَنَّاتٌ تَجْرِي مِنْ تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا أَبَدًا رَضِيَ اللّهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ ذَلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ
ترجمہ: آج )قیامت( کے دن صادقین کو ان کا صدق نفع اور فائدہ دے گا ان کے لیے جنتیں ہیں جن کے نیچے نہریں بہتی ہیں وہ اس خلد بریں میں ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے اللہ ان سے راضی اور وہ اللہ سے راضی ہوں گے یہ بہت بڑی کامیابی ہے ۔
سورۃ التوبۃ آیت نمبر 119 میں صادقین کی معیت میں رہنے کا حکم دیتے ہوئے کہا گیا:
يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللّهَ وَكُونُوا مَعَ الصَّادِقِينَ۔
ترجمہ: اے ایمان والو !اللہ سے ڈرو اور صادقین سے ساتھ رہو ۔
سورۃ الاحزاب کی آیت نمبر 22تا24میں قول و قرار کے سچے لوگوں کی مدح و توصیف بیان کرتے ہوئے کہا گیا:
وَلَمَّا رَأَى الْمُؤْمِنُونَ الْأَحْزَابَ قَالُوا هَذَا مَا وَعَدَنَا اللّهُ وَرَسُولُهُ وَصَدَقَ اللّهُ وَرَسُولُهُ وَمَا زَادَهُمْ إِلَّا إِيمَانًا وَتَسْلِيمًا۔ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ رِجَالٌ صَدَقُوا مَا عَاهَدُوا اللّهَ عَلَيْهِ فَمِنْهُمْ مَنْ قَضَى نَحْبَهُ وَمِنْهُمْ مَنْ يَنْتَظِرُ وَمَا بَدَّلُوا تَبْدِيلًا (23) لِيَجْزِيَ اللّهُ الصَّادِقِينَ بِصِدْقِهِمْ وَيُعَذِّبَ الْمُنَافِقِينَ إِنْ شَاءَ أَوْ يَتُوبَ عَلَيْهِمْ إِنَّ اللّهَ كَانَ غَفُورًا رَحِيمًا ۔
ترجمہ: اور جب اہل ایمان نے فوجوں کو دیکھا تو کہنے لگے یہ تو وہی ہے جس کا اللہ اور اس کے رسول نے ہمارے ساتھ وعدہ کیا تھا بالکل سچ کہا اللہ اور اس کے رسول نے ،ان کے ایمان اور اطاعت میں مزید پختگی آئی۔ ایمان والوں میں سے کچھ لوگ ایسے ہیں جنہوں نےاللہ کے ساتھ کیے ہوئے اپنے عہد کو سچ کر دکھلایا جبکہ کچھ ان میں پورا کرچکے اور کچھ ابھی انتظار میں ہیں اور ذرہ برابر بھی تبدیل نہیں ہوئے، تاکہ اللہ صادقین کو ان کے صدق کی وجہ سے جزا و انعام عطا کرے ۔
سورۃ الاحزاب کی آیت نمبر 35 میں اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :
وَالصَّادِقِیْنَ وَالصَّادِقَاتِ وَالصَّابِرِينَ وَالصَّابِرَاتِ وَالْخَاشِعِينَ وَالْخَاشِعَاتِ وَالْمُتَصَدِّقِينَ وَالْمُتَصَدِّقَاتِ وَالصَّائِمِينَ وَالصَّائِمَاتِ وَالْحَافِظِينَ فُرُوجَهُمْ وَالْحَافِظَاتِ وَالذَّاكِرِينَ اللَّهَ كَثِيرًا وَالذَّاكِرَاتِ أَعَدَّ اللَّهُ لَهُمْ مَغْفِرَةً وَأَجْرًا عَظِيمًا
مفہوم آیت: صدق و سچائی اور بعض دیگر صفات سے متصف مردو عورت کی جزاء و انعام کا تذکرہ کرتے ہوئے کہاگیااللہ تعالیٰ نے ان کے لیے مغفرت اور اجر عظیم کو مقرر کر دیا ہے ۔
سورۃ الحجرات آیت نمبر 15اور سورۃ الحشر آیت نمبر8 میں صادقین کا مصداق ذکر کیا گیا ہے دونوں آیات مبارکہ کا مشترکہ طور پرخلاصہ یہ نکلتا ہے کہ صادقین وہ ہیں جو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لائے ، دین اسلام پر شکوک و شبہات نہ کرے ، اپنی جان و مال کے ساتھ اعلائے کلمۃ اللہ کا فریضہ سرانجام دے ، اللہ کی رضااور خوشنودی کے حصول کے لیے کام کرے اور جب کبھی وقت پڑے تو اللہ اور اس کے رسول کے دین کی حفاظت کے لیے ہر طرح کی ممکن نصرت و کوشش کرے ۔
فرامین خدا کی طرح فرامین رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں بھی صدق کے بہت سے فضائل و مناقب مذکور ہیں :اسے دل کا اطمینان ، دنیوی و اخروی نجات کا وسیلہ ، حصول جنت کا سبب ، خدا کی خوشنودی و رضا کا باعث ، مال میں برکت اور خیر کا ذریعہ جبکہ شرمندگی ، ندامت ، پچھتاوے ،ہلاکت اور جہنم سے بچاؤ کا ذریعہ قرار دیا گیا ہے ۔ چند احادیث مبارکہ ملاحظہ فرمائیں ۔
1: عَنْ عَبْدِ اللَهِ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّ الصِّدْقَ يَهْدِى إِلَى الْبِرِّ وَإِنَّ الْبِرَّ يَهْدِى إِلَى الْجَنَّةِ وَإِنَّ الرَّجُلَ لَيَصْدُقُ حَتَّى يُكْتَبَ صِدِّيقًا وَإِنَّ الْكَذِبَ يَهْدِى إِلَى الْفُجُورِ وَإِنَّ الْفُجُورَ يَهْدِى إِلَى النَّارِ وَإِنَّ الرَّجُلَ لَيَكْذِبُ حَتَّى يُكْتَبَ كَذَّابًا».
صحیح مسلم ، باب قبح الکذب وحسن الصدق وفضلہ ، حدیث نمبر6803
ترجمہ: حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: صدق ایسا عمل ہے جو نیکی کی راہ پر چلاتا ہے اور نیکی والا راستہ سیدھا جنت جاتا ہے اور بے شک آدمی سچ بولتا رہتا ہے بولتا رہتا ہے یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ کے ہاں وہ” صدیق“ بن جاتا ہے ۔ اور جھوٹ ایسا عمل ہے جو برائی کی راہ پر چلاتا ہے اور برائی والا راستہ سیدھا جہنم جاتا ہے اور بے شک جب کوئی آدمی جھوٹ کی عادت ڈال لیتا ہے وہ جھوٹ بولتا رہتا ہے بولتا رہتا ہے یہاں تک کہ وہ اللہ تعالیٰ کے ہاں کذاب لکھ دیا جاتا ہے ۔
2: عن حَكِيمِ بْنِ حِزَامٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْبَيِّعَانِ بِالْخِيَارِ مَا لَمْ يَتَفَرَّقَا أَوْ قَالَ حَتَّى يَتَفَرَّقَا فَإِنْ صَدَقَا وَبَيَّنَا بُورِكَ لَهُمَا فِي بَيْعِهِمَا وَإِنْ كَتَمَا وَكَذَبَا مُحِقَتْ بَرَكَةُ بَيْعِهِمَا۔
صحیح بخاری ،باب اذا بین البیعان ولم یکتما ونصحا ، حدیث 2079
ترجمہ: حضرت حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا خرید و فروخت کرنے والوں کو اس وقت تک معاملہ ختم کرنے کا اختیار ہے جب تک وہ دونوں جدا نہ ہوجائیں اگر ان دونوں نے اس چیز کے بارے سچ بولا اور اس چیز کی حقیقت صحیح صحیح بیان کردی یعنی اگر کوئی عیب وغیرہ تھا بھی سہی تو وہ بتلا دیا تو ان کی خرید و فروخت میں برکت ڈال دی جاتی ہے اور اگر وہ جھوٹ سے کام لیں تو اس چیز سے برکت ختم کر دی جاتی ہے ۔
3: عَنْ أَبِي الْحَوْرَاءِ السَّعْدِيِّ قَالَ قُلْتُ لِلْحَسَنِ بْنِ عَلِيٍّ رَضِيَ اللهُ عَنْهُمَا مَا حَفِظْتَ مِنْ رَسُولِ اللّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ حَفِظْتُ مِنْ رَسُوْلِ اللّهِ صَلَّى اللّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ دَعْ مَا يَرِيبُكَ إِلَى مَا لَا يَرِيبُكَ فَإِنَّ الصِّدْقَ طُمَأْنِينَةٌ وَإِنَّ الْكَذِبَ رِيبَةٌ۔
جامع ترمذی ، باب منہ ، حدیث نمبر2518
ترجمہ: حضرت حسن رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان یاد ہے کہ صدق باعث اطمینان ہے جبکہ کذب باعث بے قراری ہے ۔
4: عَنْ عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ أَنَّ رَسُولَ اللّهِ صَلَّى اللّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: اضْمَنُوا لِيْ سِتًّا أَضْمَنْ لَكُمُ الْجَنَّةَ اصْدُقُوا إِذَا حَدَّثْتُمْ وَأَوْفُوْا إِذَا وَعَدْتُمْ وَأَدُّوْا إِذَا ائْتُمِنْتُمْ وَاحْفَظُوا فُرُوجَكُمْ وَغُضُّوا أَبْصَارَكُمْ وَكُفُّوْا أَيْدِيَكُمْ۔
صحیح ابن حبان،باب الصدق والامر بالمعروف، حدیث نمبر 271
ترجمہ: حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مجھے 6 چیزوں کی تم ضمانت دے دو ، جنت کی ضمانت میں تمہیں دیتا ہوں ۔ جب بولو تو سچ بولو ، وعدہ کرو تو پورا کرو ، امانت ادا کرو ، شرم گاہوں کی حفاظت کرو ، نگاہوں کو غیر محرم سے بچاؤ اور ظلم سے اپنے آپ کو روک کے رکھو ۔
5: مَالِكٌ، أَنَّهُ بَلَغَهُ أَنَّهُ قِيلَ لِلُقْمَانَ الْحَكِيمِ: مَا بَلَغَ بِكَ مَا نرَى؟ قال مالك: يُرِيدُونَ الْفَضْلَ ، قَالَ لُقْمَانُ: صِدْقُ الْحَدِيثِ، وَأَدَاءُ الأَمَانَةِ، وَتَرْكُ مَا لاَ يَعْنِينِي.
مؤطا امام مالک ، باب ماجاء فی الصدق والکذب، حدیث نمبر2087
ترجمہ: امام مالک رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ حضرت حکیم لقمان سے پوچھا گیا کہ آپ کو فضل و کمال اور عظیم الشان مرتبہ کیسے ملا؟ انہوں جواب دیا کہ قول و قرار میں صدق وسچائی، امانت داری اور فضول کاموں اور لایعنی و بے کار باتوں سے اپنے آپ کو بچانے کی وجہ سے حاصل ہوا۔
6: عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ عَمْرٍو رَضِيَ اللهُ عَنْهُ أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: أَرْبَعٌ إِذَا كُنَّ فِيْكَ فَلَا عَلَيْكَ مَا فَاتَكَ مِنَ الدُّنْيَا: حِفْظُ أَمَانَةٍ، وَصِدْقُ حَدِيثٍ، وَحُسْنُ خَلِيقَةٍ، وَعِفَّةٌ فِي طُعْمَةٍ
مسند احمد ، حدیث نمبر6652
ترجمہ: حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے روایت ہے ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب چار عادات تمہارے اندر پیدا ہوجائیں تو دنیا کی پریشانیاں تمہارا کچھ نہیں بگاڑ سکتیں۔ وہ چار عادات یہ ہیں :

امانت داری

صدق

حسن خلق

حلال رزق۔
7: عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو رَضِيَ اللهُ عَنْهُ أَنَّ رَجُلًا جَاءَ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللّهِ، مَا عَمَلُ الْجَنَّةِ ؟ قَالَ: الصِّدْقُ، وَإِذَا صَدَقَ الْعَبْدُ بَرَّ، وَإِذَا بَرَّ آمَنَ، وَإِذَا آمَنَ دَخَلَ الْجَنَّةَ ۔
مجمع الزوائد و منبع الفوائد ، باب ماجاء ان الصدق من الایمان، حدیث نمبر 324
ترجمہ: حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ ایک مرتبہ ایک شخص نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی کہ یارسول اللہ ! کوئی ایسا عمل بتلائیں جس کی وجہ سے جنت مل جائے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: صدق۔ کیونکہ صدق کو اختیار کرنے والا شخص نیک ہے اور نیکی کرنے والا پرامن ہے اور پرامن رہنے والا جنت میں داخل ہوگا۔
8: عن أوْسَطَ بْنِ إِسْمَاعِيْلَ قَالَ:سَمِعْتُ أبَا بَكْرٍ الصِّدِّيقَ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ يَقُولُ: قَالَ رَسُوْلُ اللهِ صَلَّى اللّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: عَلَيْكُمْ بِالصِّدْقِ فَإِنَّهُ مَعَ الْبِرِّ وَهُمَا فِي الْجَنَّةِ، وَإِيَّاكُمْ وَالْكَذِبَ فَإِنَّهُ مَعَ الْفُجُورِ وَهُمَا فِي النَّارِ۔
موارد الظمآن الی زوائد ابن حبان ، باب فی الصدق والکذب، حدیث نمبر106
ترجمہ: حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تمہارے اوپر صدق لازم ہے کیونکہ وہ نیک اعمال میں سے ایک عمل ہے اور وہ دونوں یعنی صدق اور نیک عمل جنت میں داخلے کا سبب ہے اور تم جھوٹ سے بچو کیونکہ یہ گناہوں میں سے ایک گناہ ہے اور وہ دونوں یعنی جھوٹ اور گناہ دونوں جہنم میں داخلے کا سبب ہیں ۔
ایک علمی نکتہ:
قرآن و سنت میں صادق ،صدوق اور صدیق کے الفاظ موجود ہیں ان کے معنیٰ اور مفہوم میں فرق ہے وہ اس طرح کہ سچے شخص کو ”صادق“، بہت سچے کو ”صدوق “جبکہ بہت ہی زیادہ سچے کو ”صدیق“ کہا جاتا ہے ۔
قسط-لمحہ فکریہ!
جھوٹ فیشن بن چکا ہے ، جو جس قدر جھوٹا اور فراڈ کرنے والا ہوتا ہے لوگ اسے اتنا ہی سمجھ دار سمجھتے ہیں ۔ معاشرے سے صدق و سچائی کی اہمیت کم جبکہ جھوٹ کی زیادہ ہو رہی ہے ۔ لوگوں کے دلوں میں اس گناہ کا احساس مر چکا ہے ۔ حالانکہ یہ ایسا عمل ہے جس سے پورا معاشرہ بے سکونی اور رزق کی تنگی میں مبتلا ہوتا جا رہا ہے ۔
ایک حدیث مبارک میں جھوٹ بولنے کو منافق کی علامت قرار دیا گیا ہے۔
9: عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ آيَةُ الْمُنَافِقِ ثَلَاثٌ إِذَا حَدَّثَ كَذَبَ وَإِذَا وَعَدَ أَخْلَفَ وَإِذَا اؤْتُمِنَ خَانَ
صحیح بخاری، باب علامۃ المنافق ،حدیث نمبر33
ترجمہ: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:منافق کی تین نشانیاں ہیں:جب بات کرتاہے تو جھوٹ بولتا ہے،وعدہ کرتا ہے تو خلاف ورزی کرتا ہے ،جب اس کے پاس امانت رکھی جائے تو خیانت کرتا ہے۔
ہمارے المیہ ہے کہ لوگ جھوٹ بولنے کو عام معمول کی بات سمجھنے لگے ہیں ، اسٹیج ڈراموں ، میلوں ٹھیلوں اور مختلف تقریبات میں جھوٹ کو ضروری تصور کر لیا گیا ہے ۔ حالانکہ
10: عَنْ بَهْزِ بْنِ حَكِيمٍ قَالَ حَدَّثَنِي أَبِي عَنْ أَبِيهِ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ قَالَ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ وَيْلٌ لِلَّذِي يُحَدِّثُ فَيَكْذِبُ لِيُضْحِكَ بِهِ الْقَوْمَ وَيْلٌ لَهُ وَيْلٌ لَهُ۔
سنن ابی داؤد ، باب فی التشدید فی الکذب، حدیث 4338
ترجمہ: ) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا( جوشخص لوگوں کو ہنسانے کےلیے جھوٹ بولے تو اس کےلیے ہلاکت ہو اس کےلیے ہلاکت ہو ۔
11: عَنْ قَيْسِ بْنِ أَبِي حَازِمٍ قَالَ سَمِعْتُ عَبْدَ اللّهِ بْنَ مَسْعُودٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ يَقُولُ: وَاللَّهِ، إِنَّ الرَّجُلَ لَيَتَكَلَّمُ بِكَلِمَةٍ فِي الرَّفَاهِيَةِ يُضْحِكُ بِهَا جُلَسَاءَهُ، فَتُرْدِيهِ أَبْعَدَ مَا بَيْنَ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ۔
کتاب الزھد لابن مبارک، باب من کذب فی حدیثہ لیضحک بہ الناس، حدیث نمبر 734
ترجمہ:حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :جب کوئی بندہ لوگوں کو ہنسانے کے لیے جھوٹ بولتا ہے تو اس کی وجہ سے وہ جہنم کے ایسے گڑھے میں جا گرتا ہے جس کا فاصلہ زمین و آسمان کے فاصلے سے بھی زیادہ ہے ۔
12: عَنْ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللهُ عَنْهُمَا أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ إِذَا كَذَبَ الْعَبْدُ تَبَاعَدَ عَنْهُ الْمَلَكُ مِيلًا مِنْ نَتْنِ مَا جَاءَ بِهِ۔
جامع ترمذی ،باب ماجاء فی الصدق والکذب، حدیث نمبر1895
ترجمہ: حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:اللہ کے ملائکہ اس جھوٹ کی بدبو کی وجہ سے میلوں دور چلے جاتے ہیں۔
13: عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَامِرٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ أَنَّهُ قَالَ دَعَتْنِي أُمِّي يَوْمًا وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَاعِدٌ فِي بَيْتِنَا فَقَالَتْ هَا تَعَالَ أُعْطِيكَ فَقَالَ لَهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَمَا أَرَدْتِ أَنْ تُعْطِيهِ قَالَتْ أُعْطِيهِ تَمْرًا فَقَالَ لَهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَمَا إِنَّكِ لَوْ لَمْ تُعْطِهِ شَيْئًا كُتِبَتْ عَلَيْكِ كِذْبَةٌ۔
سنن ابی داؤد، باب فی التشدید فی الکذب ، حدیث نمبر4339
ترجمہ: حضرت عبداللہ بن عامر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک مرتبہ ہمارے گھر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف فرما تھے ، میری والدہ نے مجھے بلایا اور کہا کہ آؤ میں تمہیں ایک چیز دیتی ہوں ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے میری والدہ سے پوچھا کہ بچے کو کیا دینا چاہتی ہو؟ انہوں نے کہا کھجور ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگر تم اس کو بلاتی اور کچھ نہ دیتی تو تمہارے نامہ اعمال میں جھوٹ لکھ دیا جاتا۔
14: عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللَهِ صَلَّى اللّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: اَلْكَذِبُ يُنْقِصُ الرِّزْقَ»
مساوی الاخلاق للخرائطی ، باب ما جاء فی الکذب ، حدیث نمبر 113
ترجمہ: حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جھوٹ بولنا رزق کو کم کردینا ہے۔
مذکورہ بالا اسلامی تعلیمات کی روشنی میں آپ خود اندازہ لگائیں بھلاہمارے دین اور ہماری شریعت میں اپریل فول جیسی غیراسلامی ، غیر اخلاقی اور غیر فطری رسم کی کیا کچھ گنجائش بھی نکلتی ہے؟ جھوٹ کو ایک رسم کے طور پر منانا سوائے جہالت اور نادانی کے اور کیا ہو سکتا ہے؟
اللہ تعالیٰ ہمیں سچ کی دولت نصیب فرمائے اور جھوٹ جیسی لعنت سے ہمارے پورے معاشرے کی حفاظت فرمائے ۔ آمین بجاہ النبی الکریم صلی اللہ علیہ وسلم
والسلام
محمد الیاس گھمن
خانقاہ حنفیہ ،پشاور، پاکستان
جمعرات، 30مارچ،2017ء