قسط-15- ایثار و ہمدردی

User Rating: 5 / 5

Star ActiveStar ActiveStar ActiveStar ActiveStar Active
 
قسط-15ایثار و ہمدردی
اللہ تعالیٰ کی محبت، معرفت، خوشنودی اور رضا حاصل کرنے کے لیے دوسروں کی ضروریات کو اپنی ذاتی ضروریات وحاجات پر ترجیح دینا ” ایثار“ کہلاتا ہے ۔ ویسے تو یہ سخاوت ہی ایک قسم ہے لیکن عام طور پر سخاوت اور ایثار میں یہ فرق ملحوظ رکھا جاتا ہے کہ سخاوت تب کی جاتی ہے جب اپنے پاس مال و زر خاطر خواہ مقدار میں موجود ہو جبکہ ایثار خود بھوکے پیاسے اور شدید حاجت مند ہونے کے باوجود اپنے مسلمان بھائی کی ضروریات کو پورا کرنے کو کہتے ہیں ، اس اعتبار سے یہ جود و سخاء، فیاضی و دریا دلی کا اعلی ترین درجہ ہے۔
یہ عمل اسلامی معاشرت کا وہ روشن باب ہے جس کی تابانیوں سے اقوام عالم میں اہل اسلام کے چہرے چمک رہے ہیں،دیگر اوصاف حمیدہ اور صفات حسنہ کی طرح ایثار بھی اہل ایمان کی خاص پہچان ہے، تبلیغ دین کا موثر ترین ذریعہ ہے ۔ اس کی بدولت معاشرہ بدحالی سے خوشخالی، بدامنی سے امن ،تنزلی سے ترقی، بےسکونی سے راحت اور بے حسی سے احساس کی طرف گامزن ہوتا ہے یعنی غم مٹتے اور خوشیاں جنم لیتی ہیں ۔
آج کی جدید دنیا باہمی محبت کے لیے ہزار جتن کر رہی ہےلیکن اسلامی طرز معاشرت اور اسلامی تعلیمات پر عمل کیے بغیر یہ خواب کبھی بھی شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکتا کیونکہ دین اسلام بقائے باہمی کا نہ صرف یہ کہ نظریہ پیش کرتا ہے بلکہ اس نظریہ کو اپنانے کی تعلیم بھی دیتا ہے ۔ اسلام کی تعلیمات میں ایک اہم سبق ایثار و ہمدردی کا بھی ہے۔ اس کی معاشرتی اہمیت وضرورت کے پیش نظر قرآن کریم اور احادیث مبارکہ میں بہت تلقین کی گئی ہے ۔
1: قرآن کریم نے اہل ایمان)انصار ِمدینہ( کےدیگر اوصاف کے تذکرے کے ساتھ جذبہ ایثار و ہمدردی کو سراہتے ہوئے اس کی خوب تعریف و توصیف بیان فرمائی ہے کہ
وَيُؤْثِرُونَ عَلَى أَنْفُسِهِمْ وَلَوْ كَانَ بِهِمْ خَصَاصَة۔
سورۃ الحشر ، آیت نمبر 9
ترجمہ: ”وہ خود بھوکے پیاسے اور شدید حاجت مند ہونے کے باوجود اپنے آپ پر اپنے مسلمان بھائیوں)کی ضروریات پورا کرنے( کو تر جیح دیتے ہیں ۔ “
نوٹ: اگرچہ یہ آیت کریمہ ایک خاص موقع پر نازل ہوئی ،لیکن احکامات قرآنیہ کا اسلوب یہ ہے کہ اس سے مقصود پوری امت کو تعلیم دینا ہوتا ہے ۔
2: اس آیت کے شان نزول کے حوالے سے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے ایک طویل حدیث مروی ہے ۔
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ قَالَ أَتَى رَجُلٌ رَسُوْلَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللهِ أَصَابَنِي الْجَهْدُ فَأَرْسَلَ إِلَى نِسَائِهِ فَلَمْ يَجِدْ عِنْدَهُنَّ شَيْئًا فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَلَا رَجُلٌ يُضَيِّفُهُ هَذِهِ اللَّيْلَةَ يَرْحَمُهُ اللهُ فَقَامَ رَجُلٌ مِنَ الْأَنْصَارِ فَقَالَ أَنَا يَا رَسُولَ اللهِ فَذَهَبَ إِلَى أَهْلِهِ فَقَالَ لِامْرَأَتِهِ ضَيْفُ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَا تَدَّخِرِيهِ شَيْئًا قَالَتْ وَاللهِ مَا عِنْدِي إِلَّا قُوتُ الصِّبْيَةِ قَالَ فَإِذَا أَرَادَ الصِّبْيَةُ الْعَشَاءَ فَنَوِّمِيهِمْ وَتَعَالَيْ فَأَطْفِئِي السِّرَاجَ وَنَطْوِي بُطُونَنَا اللَّيْلَةَ فَفَعَلَتْ ثُمَّ غَدَا الرَّجُلُ عَلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ لَقَدْ عَجِبَ اللهُ عَزَّ وَجَلَّ أَوْ ضَحِكَ مِنْ فُلَانٍ وَفُلَانَةَ فَأَنْزَلَ اللهُ عَزَّ وَ جَلَّ وَيُؤْثِرُونَ عَلَى أَنْفُسِهِمْ وَلَوْ كَانَ بِهِمْ خَصَاصَةٌ۔
صحیح بخاری ، باب قولہ ویوثرون علی انفسہم ، حدیث نمبر 4889
ترجمہ: ایک شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر ہوا اور آ کر عرض کی کہ یا رسول اللہ !مجھے بھوک نے ستایا ہوا ہے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے تمام گھروں سے معلوم کرایا ،وہاں سے کچھ نہ ملا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام سے سے فرمایا کہ کوئی ہے جو ان کی ایک رات کی مہمانی قبول کرے۔ ایک صحابی رضی اﷲ عنہ نے عرض کیا یا رسول اﷲ میں مہمانی کروں گا۔ ان کو گھر لے گئے اور بیوی سے فرمایا کہ یہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے مہمان ہیں ان کی مہمان نوازی میں کمی نہ ہونے پائے اور کوئی چیز چھپا کر نہ رکھنا۔ بیوی نے کہا خدا کی قسم بچوں کے لیے کچھ تھوڑا سا رکھا ہے اور کچھ بھی گھر میں نہیں۔ انہوں نے فرمایا کہ بچوں کو بہلا کر سلا دینا اور جب وہ سو جائیں تو کھانا لے کر مہمان کے ساتھ بیٹھ جائیں گے اور تو چراغ درست کرنے کے بہانے سے اٹھ کر اس کو بجھا دینا۔ چنانچہ بیوی نے ایسا ہی کیا اور دونوں میاں بیوی اور بچوں نے فاقہ سے رات گذاری۔قرآن کریم کی آیت یُؤْثِرُوْنَ عَلٰی اَنْفُسِہِمْ نازل فرمائی ۔
فائدہ : اسی آیت کے ذیل میں امام نسفی رحمہ اللہ نےمدارک التنزیل میں واقعہ نقل فرمایا ہے: ابو زید کہتے ہیں مجھ سے اہل بلخ کے ایک نوجوان نے پوچھا کہ زُہد کیا ہے؟ میں نے جواب دیا اذا وجدنا اکلنا جب مل جاتا ہے تو کھا لیتے ہیں واذا فقدنا صبرنا اور جب نہیں ملتا تو صبر کرتے ہیں ۔
وہ مجھے کہنے لگا کہ یہ تو ہمارے بلخ کے کتوں میں بھی پایا جاتا ہے پھر اس نے کہا کہ زہد یہ ہے کہ اذا فقدنا صبرنا جب ہمیں نہیں ملتا تو ہم صبر کرتے ہیں واذا وجدنا اثارنا اور جب ہمیں ملتا ہے تو ہم ایثار کرتے ہیں ۔
3: عَنْ مُوسَى بْنِ أَنَسٍ عَنْ أَبِيهِ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ قَالَ مَا سُئِلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى الْإِسْلَامِ شَيْئًا إِلَّا أَعْطَاهُ قَالَ فَجَاءَهُ رَجُلٌ فَأَعْطَاهُ غَنَمًا بَيْنَ جَبَلَيْنِ فَرَجَعَ إِلَى قَوْمِهِ فَقَالَ يَا قَوْمِ أَسْلِمُوا فَإِنَّ مُحَمَّدًا يُعْطِي عَطَاءً لَا يَخْشَى الْفَاقَة۔
صحیح مسلم ، باب ما سئل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم شیئا، حدیث نمبر 4275
ترجمہ: حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک مرتبہ ایک شخص کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بکریوں کا بہت بڑا ریوڑ جو کہ دو پہاڑوں کے درمیان پھیلا ہوا تھا ، اسے عنایت فرمایا، وہ شخص آپ کی اس دریا دلی فیاضی سخاوت اور ایثار وہمدردی سے اس قدر متاثر ہوا کہ وہ اپنی قوم میں جا کر کہنے لگا :” اے لوگو ! اسلام لے آؤ کیونکہ )اس دین کی طرف بلانے والا (محمد صلی اللہ علیہ وسلم)اس قدر سخی ہیں اور ( اتنا دیتے ہیں کہ وہ اپنے فقیر ہونے کی بھی پروا نہیں کرتے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ایثار و ہمدردی صرف اپنی ذات کی حد تک محدود نہ تھی آپ نے اپنے اہل و عیال اور قریبی متعلقین کو بھی اس کا سختی سے پابندکرکے ساری دنیا کے لیے تاقیام قیامت یہ واضح پیغام دیا کہ ایثار و ہمدردی جیسی انسانی خدمت کو محض سیاسی مفادات اور بیان بازی کی بھینٹ نہ چڑھایا جائےبلکہ یہ وہ پھول ہیں جن کی بدولت اپنی عملی زندگی کے چمن میں بہاریں لائی جاتی ہیں۔
4: فَقَالَ عَلِيٌّ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ يَا رَسُولَ اللّهِ وَاللَّهِ لَقَدْ سَنَوْتُ حَتَّى اشْتَكَيْتُ صَدْرِي، وَقَالَتْ فَاطِمَةُ: قَدْ طَحَنْتُ حَتَّى مَجَلَتْ يَدَايَ، وَقَدْ جَاءَكَ اللَّهُ بِسَبْيٍ وَسَعَةٍ فَأَخْدِمْنَا، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «وَاللَّهِ لَا أُعْطِيكُمَا وَأَدَعُ أَهْلَ الصُّفَّةِ تَطْوَى بُطُونُهُمْ، لَا أَجِدُ مَا أُنْفِقُ عَلَيْهِمْ، وَلَكِنِّي أَبِيعُهُمْ وَأُنْفِقُ عَلَيْهِمْ أَثْمَانَهُمْ
مسند احمد ، حدیث نمبر 838
ترجمہ: حضرت علی رضی اللہ عنہ نےکی ذکر کردہ ایک طویل روایت میں ہےایک بار میں اور سیدہ فاطمہ دونوں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے ، میں نے عرض کی یا رسول اللہ ! چکی پیستے پیستے فاطمہ کے ہاتھوں میں چھالے پڑ گئے ہیں۔ )حالیہ غزوے کے( مال غنیمت میں جو لونڈیاں آئی ہیں، ان میں سے چند ایک ہماری خدمت کے لیے مقرر فرما دیں ۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :” خدا کی قسم میں تمہیں نہیں دے سکتا۔ میں تمہیں کیسے دے دوں؟جبکہ اہل صفہ بھوکے بیٹھے رہیں۔ )فی الحال( میرے پاس کوئی ایسی چیز نہیں ہے جو میں ان پر خرچ کر سکوں، میں ان غلاموں کو بیچوں گا اور ان کی رقم اہل صفہ پر خرچ کروں گا۔“
باجودیکہ رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کو معلوم تھا کہ آپ کی لاڈلی صاحبزادی کن مشکل حالات اور تنگ دستی و فاقہ کشی جیسی آزمائش سے دوچار ہے ، مگر اس سب کے باوجود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان پر اصحاب صفہ کو ترجیح دی۔
ایثار و ہمدردی کے چند مواقع :