قسط-16 -فضلائے مدارس کی خدمت میں

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 

قسط-16فضلائے مدارس کی خدمت میں

10گذارشات
اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے آپ نے اپنے تعلیمی سفر کو بخیر و خوبی مکمل کیا جس پر آپ قابل صد مبارک باد کے مستحق ہیں اب اس کی اشاعت و تحفظ کا فریضہ آپ کے کندھوں پر آن پڑا ہے ۔ آپ جانتے ہیں کہ اس وقت اسلام اور اہلیان اسلام کو ہدف تنقید بنانے کا سلسلہ زوروں پرہے ، فرقہ واریت ،تخریب کاری، دہشت گردی،انتہاء پسندی اور جہالت ملکی استحکام کو کھوکھلا کر رہی ہیں ۔ ایسے حالات میں علماء کرام پر بڑی ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں کہ وہ ملک کو اس فضاء سے نکالنے کے لیے اپنا کردار ادا کریں تاکہ اہلیان وطن علم ، امن اور اتفاق سے پرسکون زندگی بسر کریں ۔ اس حوالے سے چند گزارشات پراگر سنجیدگی سے غور کیا جائے تو امید ہے کہ حالات کا پانسا ضرور پلٹے گا اور ہم اپنی منزل کی طرف آگے بڑھ سکیں گے۔
1: عقائد ومسائل اھل السنۃ والجماعۃ پرسختی سے کاربند رہیں اور انہیں صدق دل سے اختیار فرمائیں۔ اس وقت پوری دنیا میں عموماً اور ہمارے برصغیر پاک وہند میں خصوصاً؛ اباحیت پسندی ، آزاد خیالی ، فکری یورش ، مغربی افکار ،ذہنی کج روی ،لبرل ازم ، سیکولر ازم اور بے دینی کا زور ہے ایسے پْرآشوب دور میں جہاں عقائد میں خرابیاں پیدا کر دی گئی ہیں وہاں الحاد وزندقہ اور بدعات کے بھوت بھی منہ کھولے کئی سادہ لوح لوگوں کو اپنی لپیٹ میں لیے ہوئے ہے۔ اس لیے قرآن ،سنت اور فقہ کی تعلیمات و تشریحات کے مطابق عوام کو صحیح اسلامی عقائد و مسائل سے آگاہی کرائیں۔
2: مسنون اعمال کی پابندی کریں کیونکہ سنت ایک ایسے نور کا نام ہے جس سے دلوں میں روشنی ، دماغ میں نورانیت، سوچ اور فکر کو تازگی ملتی ہے جبکہ اس کے مقابلے میں دین میں نئی اختراعات و خرافات اور رسومات سے دلوں میں تاریکیاں پیدا کرتی ہے اس سے خود بھی بچیں اور عوام کو بھی بچنے کی حکمت کے ساتھ تلقین کریں۔
3: گناہوں سے بچنے کا خصوصی اہتمام کریں۔امام شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ میں نے اپنے استاد امام وکیع رحمہ اللہ سے اپنے حافظے کی کمزوری کی شکایت کی تو انہوں نے مجھے گناہوں کو چھوڑنے کی نصیحت کی(اور فرمایا) علم اللہ کا نور ہے اور اللہ کا نور گناہ گار کو نہیں دیا جاتا۔آپ نے اپنے اساتذہ سے یہ کئی بار سنا ہوگا اور کتابوں میں پڑھا بھی ہوگا کینہ، غیبت اور حسد وغیرہ شیطانی وار ہیں اس لیے ان روحانی بیماریوں سے ہروقت اپنے آپ کو اور عوام کو بچائیں۔
4: عقیدہ کے تحفظ واشاعت کی بھرپور محنت کریں۔اس پر فتن دور میں جہاں اہل اسلام کو تہ تیغ کیا جارہا ہے وہاں اہل باطل ان کے عقائد پر بھی شب خون مار رہے ہیں اور دین اسلام کی تابناک اور مثل آفتاب روشن تصویر پر کفر و شرک اور فسق وفجور کی پرچھائیاں ڈال رہے ہیں۔ ایک ایسا ملغوبہ تیار کرنے میں مصروف عمل ہیں جو ماڈرن اسلام کی صورت میں پیش کیا جا سکے اس میں اسلام کی اساسیات کو کمزور کرنے کے منصوبے بنائے جا رہے ہیں ہمارے وطن کی بنیاد ہی اسلام ہے اس لیے اسلام کی حفاظت کرنے والا جہاں دین کا محافظ ہے وہاں لازمی طور پر پاکستان کا سپاہی بھی ہے۔ اس لیے اسلام کی اصلیت اور حقیقت کو باقی رکھنے کے لیے اس کی صحیح ترجمانی کا حق ادا کریں اور لوگوں کی ملامت اور بے دین طبقے کی منفی پروپیگنڈے کی پرواہ کیے بغیر اس میدان میں آگے بڑھیں۔بدقسمتی سے آج ایک طبقہ اسلامی لبادہ اوڑھے دین اسلام کی مسلمات کی من مانی تشریح کر کے اہل اسلام کو شکوک و شبہات میں مبتلا کر رہا ہے اور امت کے اجماعی اور اتفاقی نظریات کو اختلافی اور افتراقی بنانے کے در پے ہے۔ اس کے شر سے خود بھی بچیں اور اپنے معاشرے کو بھی بچائیے۔ تحفظ دین کے فریضے کی ادائیگی کے ساتھ ساتھ اس کی اشاعت ، فروغ اور پرچار کی ذمہ داریوں سے خود کو کبھی بری الذمہ نہ سمجھیں بلکہ یہ دونوں آپ ہی کے مناصب ہیں۔
5: اساتذہ کا ادب واحترام کریں۔کیونکہ ادب وہ پہلا زینہ ہے جس کو عبور کیے بغیر آپ دین کا فیض عام نہیں کر سکتے۔ محض نقوش اور الفاظ کی شناخت کو ہرگز ہرگز علم نہ سمجھیں بلکہ علم اور اس میں پختگی ادب سے ہی آتی ہے۔ اس لیے وقتا فوقتا ان کی خدمت میں حاضری دیتے رہا کریں اور ان کے پاس جاتے وقت حسب استطاعت تحائف بھی لے جایا کریں اپنے دینی کام کی کار گزاری ان کو سناتے رہیں اور ان سے مشاورت کو کبھی نظر انداز نہ کریں دین ودنیا کی بھلائیاں آپ کے قدم چومیں گی۔اسی طرح اپنے ہم سبق دوستوں کا بھی خیال کریں ان سے گاہے بگاہے رابطہ رکھیں اگر وہ کسی مشکل میں ہیں تو حتی الامکان ان کی داد رسی کریں اور ان کو اپنے دکھ سکھ میں شریک رکھیں۔
6: اکابرو مشائخ کی تحقیقات پر مکمل اعتماد رکھیں اور اختلافی مسائل میں جمہور امت کا دامن نہ چھوڑیں۔اکابر کے ساتھ کسی مسئلہ میں رائے کا اختلاف ہو تو اپنی رائے پر اکابر کی رائے کو ترجیح دیں۔ شیخ التفسیر والحدیث مولانا محمدسرفراز خان صفدر رحمہ اللہ نے دار العلوم کراچی میں طلبا کو نصیحت فرماتے ہوئے کہا تھا کہ میں نے تقریبا پچاس سال تک مختلف فکری واعتقادی اور فقہی واجتہادی مسائل پر تحقیق کی اور تحقیق کے دوران بعض علمی وفقہی ایسے مسائل بھی میرے سامنے آئے جن کے بارہ میں ذاتی تحقیق ومطالعہ کی بناء پر میری ذہنی رائے اکابر اھل السنۃ کی تحقیقی رائے سے مختلف رہی لیکن میں نے تقریری وتحریری طور پر کبھی پبلک کے سامنے اپنی ان ذہنی آراء کا اظہار نہیں کیا۔ اس لیے کہ خود کو اکابر و اسلاف کی علمی و تحقیقی سطح کے برابر لانے کا تصور بھی دل میں پیدا نہیں ہوا، ہمیشہ یہی سوچا کہ میری اس ذہنی رائے کے پیچھے تحقیق میں کوئی نہ کوئی کمی موجود ہے۔ اسی سوچ و فکر کے تحت ہمیشہ اپنے اکابر واسلاف کی تحقیقی آراء کو ہی اصح سمجھا، انہی کو دل و جان سے قابل قبول جانا اور انہی کی اتباع و پیروی کو اپنے لیے باعث ہدایت و نجات سمجھا۔ بلکہ ان میں سے بعض مسائل ایسے بھی تھے جن کے بارے میں طویل مدت کے بعد تحقیقی طور پر بھی مجھ پر یہ منکشف ہوگیا کہ اس مسئلہ میں بھی اکابر کی تحقیق و رائے ہی مدلل و محقق تھی۔
میں نے جن دلائل پر اپنی رائے قائم کی تھی وہ تو ریت کا گھروندا تھے۔ اس لیے میں اپنے عزیز علماء کرام اور طلبہ سے درخواست کرتا ہوں ان کو نصیحت کرتا ہوں کہ اپنے اکابر و اسلاف کی اجماعی واتفاقی تحقیقات وتعلیمات سے کبھی انکار وانحراف نہ کرنا اور نہ ہی کبھی جمہور اہل السنت کا دامن چھوڑنا کیونکہ ہمارے علم وفن اور دیانت وامانت کی انتہا بھی ان کے علم و حکمت کی ابجد کو نہیں چھو سکتی انہی پر اعتماد میں ہماری نجات ہے اور انہی میں ہمارے لیے خیر وبرکت ہے۔
7: دینی مدارس میں علومِ نبوت کے حصول کے بعد معمولاتِ نبوت کے حصول کے لیے خانقاہوں میں اہل اللہ کی صحبت میں کچھ وقت ضرور گزاریں۔کسی اللہ والے کے ہاتھ میں اپنا ہاتھ دے دیں اصلاحی تعلق قائم فرمائیں اورعلم حدیث میں جیسے آپ کی سند رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچتی ہے اسی طرح کسی شیخ طریقت سے بیعت ہوکر روحانی سلاسل میں اپنی نسبت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تک مضبوط بنائیں۔ اس کے فوائد واثرات آپ اپنی عملی زندگی میں محسوس فرمائیں گے۔
8: اگر آپ محقق ، سکہ بند ، پختہ علم اور بالغ نظر عالم بننے کے خواہاں ہیں توتشدد و تعصب کو ترک کرکے علم میں پختگی اور گہرائی والا مزاج بنائیں۔
9: اختلافی مسائل میں گفتگو کرتے ہوئے اعتدال کا خیال رکھیں۔دین اسلام کے متصادم نظریات کو دلیل اور برہان کی زبان سے واضح کرکے اسلام کی صحیح ترجمانی کریں اور فراست وبصیرت کو اپنا کر عملی میدان میں آئیں کسی بھی مسئلے میں راہ اعتدال کو نہ چھوڑیں کیونکہ ہمارے اکابر کا مزاج اعتدال پسندی والا رہا ہے اس کے فوائد ہیں کہ آج وہ طبقہ جو جہالت اور کم علمی کی بنیاد پر ہم سے دور تھا وہ اسلام کی طرف کھچا آرہا ہے دوسروں کے بزرگوں کی پگڑیاں اچھالنا اہل علم وفضل کا شیوہ نہیں ہے۔
10: وطن سے دہشت گردی ، فرقہ واریت ، جہالت کے خاتمے کے لیے اپنی تمام تر صلاحیتیں کھپا دیں ، عوام میں جذبہ حب الوطنی کو ہر فورم پر اجاگر کریں۔
دعاہے کہ اللہ تعالی آپ کو علمِ نافع،عملِ صالح اور رزقِ واسع نصیب فرمائے،دین اسلام کی نیک نامی کا ذریعہ بنائے دین اور وطن دونوں کا محافظ بنائے اور آپ کی تمام مساعی کو شرفِ قبولیت عطاء فرمائے۔
آمین بجاہ النبی الکریم صلی اللہ علیہ وسلم
والسلام
محمد الیاس گھمن
انٹر نیشنل ائیر پورٹ ،کوالالمپور، ملائیشیا
جمعرات ،27اپریل ، 2017ء
قسط-17عقائد اسلامیہ کی حفاظت
اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کی سورۃ العصر میں قسم اٹھا کر یہ مضمون ارشاد فرمایا ہے کہ ”وہ انسان کامیاب ہوگا جو ایمان لائے ، نیک اعمال کرے ، ایمان اور نیک اعمال کی دعوت دے اور اس دعوت پر آنے والی پریشانیوں کو خندہ پیشانی سے قبول کرے ۔“ اس سے معلوم ہوا کہ تمام کامیابیوں کا پہلا زینہ عقائد کا درستگی ہے ۔ تاریخ عالَم بتلاتی ہے کہ تمام انبیاء کرام علیہم السلام کی مشترکہ محنت اور دعوت بھی یہی تھی کہ لوگوں کے عقائد و اعمال درست ہو جائیں تاکہ جن و انس کی تخلیق کا مقصد پورا ہو ۔
خاتم الانبیاء حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی ختم نبوت کے صدقے عقائد کی اصلاح اور اعمال کی درستگی کا فریضہ علمائے امت کے سپرد ہوا ،خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس طبقہ کو انبیاء کرام علیہم السلام کا وارث قرار دیا ۔ اس لیے علماء کرام پر یہ بنیادی ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ جہالت ، دین دوری ، بدعقیدگی ، ضعف الاعتقادی ،باطل عقائد و نظریات ، توھم پرستی ، بدعات و خرافات اور غلط رسوم و رواج سے امت کی حفاظت کریں اور اس کے لیے اپنی تمام تر صلاحیتیں کھپا دیں ۔
اسی طرح علماء کرام کی یہ ذمہ داری بھی ہے کہ وہ دین کو اپنی اصل شکل میں پیش کریں ، اگر کوئی شخص ، فرقہ ، افراد یا گروہ دین کی غلط تشریح و تعبیر کر کے لوگوں کو دین سے بیزار کرنا چاہتا ہے تو ان کے اشکالات ، شبہات اور اعتراضات کو مضبوط دلائل و براہین، سنجیدہ لہجہ ، شُستہ زبان اور نرم انداز میں دور کریں ۔
بحمد اللہ تعالیٰ درستگی اعمال کی محنت کا دائرہ بہت وسعت اختیار کر چکا ہے ، اللہ تعالیٰ مزید اس میں وسعتیں عطا فرمائے ، اصلاح عقائد کی محنت کا سلسلہ بھی الحمد للہ روز افزوں ترقی پذیر ہے اور امت شکوک و شبہات کےگرداب اور بھنور سے نجات پا رہی ہے، مسلمہ عقائد پرمشکوک بنانے والے عناصر سے عوام کوچھٹکارا مل رہا ہے ۔
چنانچہ اس حوالے سے مرکز اھل السنۃ والجماعۃ سرگودھا میں12 دن کا شارٹ کورس دورہ تحقیق المسائل کے عنوان سے شروع ہے۔ ایک ہفتہ گزر چکا ہے جبکہ ابھی ایک ہفتہ باقی ہے ۔ علماء طلباء کی کثیر تعداد بحمد اللہ مرکز اھل السنۃ والجماعۃ میں اکابر کے مسلک و منہج ،فکر و نظر اور مزاج کو اپنانے کے لیے تشریف لا چکی ہے۔
مسلسل محنت سے پوری دنیا میں ایک ہلچل ہے عوام اور علماء شرح صدر کے ساتھ اسلامی عقائد و نظریات پر کاربند ہو رہے ہیں۔ اسی منہج اور فکر و نظر کی بدولت امت سےجہالت اور فرقہ واریت کا خاتمہ ہوگا ،باہمی اتحاد و اتفاق کی راہیں ہموار ہوں گی ۔ ان شاء اللہ
آپ احباب سے گزارش ہے کہ اس کی کامیابی کےلیے دعا فرمائیں ،اللہ تعالیٰ شرور وفتن سے حفاظت فرمائے ، اس محنت کو امت کی ہدایت اور ہم سب کی نجات کا ذریعہ بنائے ۔آمین یا رب العالمین بجاہ النبی الکریم صلی اللہ علیہ وسلم
والسلام
محمد الیاس گھمن
خانقاہ حنفیہ ،مرکز اھل السنۃ والجماعۃ ، سرگودھا
جمعرات ،4 مئی ، 2017ء