قسط-57 موت کی سختی سے بچنے کا نبوی نسخہ

User Rating: 0 / 5

Star InactiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
قسط-57 موت کی سختی سے بچنے کا نبوی نسخہ
اللہ تعالیٰ ہم سب کو موت کی سختی ، نزع کی تکلیف اور سکرات کی تلخی سے محفوظ فرما کر جنت میں داخل فرمائیں ۔ یہ ہر مسلمان کے دل کی خواہش اورقلبی تمنا ہے اس کے لیے وہ دعائیں بھی کرتا ہے۔ محسن کائنات صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کو اس کا مختصر اور آسان طریقہ بتلایا ہے اگر انسان اس پر عمل کرے تو موت کی سختی سے اللہ حفاظت فرماتے ہیں اور جنت عطا فرماتے ہیں ۔ سکرات ، نزع ، جان کنی اور سانس اکھڑنے کے وقت رحمت ایزدی اس انسان کو اپنی آغوش میں لے لیتی ہے اور وہ سختی ، تلخی اور تکالیف و مصائب سے بچ جاتا ہے ۔اللہ تعالیٰ مزید یہ کرم فرماتے ہیں کہ اسے جنت نصیب فرماتے ہیں ۔
یاد رکھیں !موت وہ اٹل حقیقت ہے کہ جس کا منکر اس دنیا میں آج تک کوئی نہیں ہو سکا۔ موت کے خالق کے منکر کو بھی اس سے انکار کی گنجائش نہیں۔جب انسان کی موت کا وقت آتا ہے تو بدن سے روح کو نکال لیا جاتا ہے ۔یہاں یہ بات بطور خاص سمجھیں کہ یہ معاملہ امتی کا ہوتا ہے جبکہ نبی کا معاملہ اس سے مختلف ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی موت روح کو جسم سے نکال کر نہیں آئی بلکہ روح مبارک کو پورے جسم مبارک سے سمیٹ کر دل مبارک میں جمع کر دی اور چند لمحے بعد واپس پھیلا دی گئی اور اس کے بعد مسلسل حیات ہی حیات حاصل ہے ۔
جب روح کو بدن سے کھینچ کر نکالا جاتا ہے اس وقت تکلیف کی شدت کا اندازہ لگانا بھی مشکل ہے…اللہُ اللہ…اس تصور سے ہی انسان کی جان نکل جاتی ہے ۔ رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں ، اور دوسری اس سے بھی اہم وجہ یہ ہے کہ اس وقت شیطان انسان کو ورغلانے کے سارے حربے آزماتا ہے ، اس کی پوری کوشش ہوتی ہے کہ کسی طریقے یہ اسلام سے ہاتھ دھو بیٹھے ، حالت ایمان پر اسے موت نصیب نہ ہو ، کیونکہ شیطان انسان کا کھلم کھلا اور خطرناک ترین دشمن ہے اس لیے یہ لعین پوری قوت سے حملہ کرتا ہے ، اللہ تعالیٰ ہماری حفاظت فرمائے۔
انسان زندہ رہتا ہے شیطان اس کو صحیح عقائد سے گمراہ کرنے کی فکر میں رہتا ہے ، مسنون اعمال سے غافل کرنے کی کوشش میں رہتا ہے اور عمدہ اخلاق سے ہٹانے کی تدبیر اختیار کرتا ہے ۔ صحیح عقائد کی بجائے گمراہیاں ، مسنون اعمال کے بجائے بدعات و خرافات اور عمدہ اخلاق کی جگہ غیر اسلامی تہذیب میں الجھائے رکھتا ہے۔
سب سے پہلے عقائد کو لے لیجیے ! انسان اپنی نادانی، غفلت یا ہٹ دھرمی اور ضد کی وجہ سے شیطان کے مکر وفریب کا شکار ہوجاتا ہے ۔ دنیا جہاں میں جتنےبھی غیر مسلم ہیں وہ سب پیدائشی طور پر فطرت اسلام پر تھے ، لیکن ابلیس کے شیطانی ماحول اور محنت کی وجہ سے ان کے والدین نے انہیں غیر مسلم بنا دیا ۔
اس کے بعد اعمال کو دیکھ لیجیے !شیطان کو اس بات کا بخوبی علم ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہر مسلمان کی کامیابی اطاعت رسول میں رکھی ہے ، مسنون اعمال کی بدولت اسے دنیاو آخرت کی کامرانیاں نصیب ہوتی ہیں بھلا ہمارا دشمن ہمیں کامیاب وکامران ہوتے ہوئے دیکھ کر کیسے برداشت کر سکتا ہے اس لیے وہ سنت چھڑا کر بدعت اور اسلامی کلچر کی جگہ غیر اسلامی تہذیب میں پھنسا دیتا ہے ۔
یہی معاملہ اخلاق و کردار کا ہے ۔ عمدہ اخلاق تو ہماری اسلامی شناخت ہیں ، اخلاق حسنہ کی بدولت انسان ؛ انسان کہلانے کا مستحق بنتا ہے ، ہمارے اخلاق برباد کرنے کے لیے شیطان اور اس کے چیلے چانٹے ہروقت بہکانےاور ورغلانے میں مسلسل مصروف عمل رہتے ہیں، شیطان کی محنت دیکھیے گناہوں کے زہر پر تسکین قلب کا خوشنما ٹائٹل لگا کر ہمارے سامنے پیش کرتا ہے اور ہم غٹاغٹ اسے چڑھا جاتے ہیں ۔
الغرض شیطان ہمیں کافرانہ ، مشرکانہ اور مرتدانہ خطوط پر چلانے کی پوری کوششیں کرتا رہتا ہے ، ہمیں مسنون اعمال سے دور کرنے کی بھرپور تگ ودو میں لگا رہتا ہے اور ہماری اسلامی شناخت مٹانے اور غیر اسلامی تہذیب کا دلدادہ بنانے کے لیے اپنے حربے استعمال کرتا ہی رہتا ہے ۔ لیکن جب اسے یہ معلوم ہوتا ہے کہ فلاں مسلمان کی موت کا وقت اب آپہنچا ہے ، قریب المرگ ہے ، غرغرہ موت ، سکرات ، نزع اور جان کنی کا عالم ہے تو وہ بدبخت ایمان سے ہٹانے کے لیے اس وقت ایڑی چوٹی کا زور لگاتا ہے ۔اب ذرا تصور کریں وہ لمحہ جب ایک طرف موت کی سختی اور دوسری طرف ابلیس کی شیطانی تدابیر ۔ انسان دہری اذیت میں مبتلا ہو جاتا ہے ، جسم مسلسل مشقت برداشت کر رہا ہوتا ہے جبکہ روح پر شیطانی وار چل رہے ہوتے ہیں ۔ اس لیے موت کی شدت سے اللہ کی پناہ مانگنی چاہیے۔
صحیح عقائد ، مسنون اعمال اور عمدہ اخلاق انسان کو دنیا میں فائدہ دیتے ہیں ،اللہ اور اس کا رسول راضی ہوتے ہیں ، دل کا سکون حاصل ہوتا ہے ، رزق حلال میں برکت ہوتی ہے۔یہ امور موت کے وقت بھی اس کو فائدہ دیتے ہیں فرشتے اور ملک الموت موت کے وقت اس کے سرہانے بیٹھ کر پیار سے یہ کہتے رہتے ہیں :
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:اَلْمَيِّتُ تَحْضُرُهُ الْمَلَائِكَةُ، فَإِذَا كَانَ الرَّجُلُ صَالِحًا، قَالُوْا: اُخْرُجِي أَيَّتُهَا النَّفْسُ الطَّيِّبَةُ كَانَتْ فِي الْجَسَدِ الطَّيِّبِ، اُخْرُجِي حَمِيدَةً، وَأَبْشِرِي بِرَوْحٍ وَرَيْحَانٍ وَرَبٍّ غَيْرِ غَضْبَانَ، فَلَا يَزَالُ يُقَالُ لَهَا ذَلِكَ حَتَّى تَخْرُجَ۔
سنن ابن ماجہ ، باب ذکر الموت ، حدیث نمبر 4262
ترجمہ: سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: قریب المرگ انسان کے پاس فرشتے آتے ہیں اگر وہ شخص نیک ہو تو فرشتے کہتے ہیں: اے پاک جسم میں رہنے والی پاکیزہ روح! تو قابل تعریف ہے، تجھے اخروی راحت و آرام، بے حساب رزق اور ایسے رب کی ملاقات کی خوشخبری ہو جو رب تجھ سے ناراض نہیں ہے ۔ وہ یہ جملے دہراتے رہتے ہیں کہ ایسے پکے اور نیک مسلمان کی روح جسم سے باہر آ جاتی ہے ۔بلکہ اس سے بھی بڑھ کر آخرت میں بھی ان کے فوائد ملیں گے :اللہ اور اس کے رسول کی رضا ملے گی ۔ساقی کوثر صلی اللہ علیہ وسلم کے مبارک ہاتھوں سے حوض کوثر کا جام کوثر نصیب ہوگی ۔جہنم سے بچالیا جاتا ہے،جنت اور اس کی تمام نعمتیں اس کا مقدر ٹھہریں گی۔ بلکہ جنت کی سب سےبڑی دولت ذات باری تعالیٰ کا دیدار اس کو نصیب ہوگا ۔
اس کے برعکس غلط عقائد ، بدعات اور غیر اسلامی تہذیب اپنانے والے کو دنیا میں نقصان ، موت کے وقت بھی نقصان اور آخرت میں تو ہے ہی خسارہ ہی خسارہ ۔ بالخصوص موت کے وقت فرشتہ اس کی روح کو سخت خطاب اور اس کی تکلیف کو دگنا کرنےکے لیے کہتا ہے :
وَإِذَا كَانَ الرَّجُلُ السُّوءُ قَالَ: اُخْرُجِي أَيَّتُهَا النَّفْسُ الْخَبِيثَةُ كَانَتْ فِي الْجَسَدِ الْخَبِيثِ،اُخْرُجِي ذَمِيمَةً، وَأَبْشِرِي بِحَمِيمٍ وَغَسَّاقٍ، وَآخَرَ مِنْ شَكْلِهِ أَزْوَاجٌ، فَلَا يَزَالُ يُقَالُ لَهَا ذَلِكَ حَتَّى تَخْرُجَ۔
سنن ابن ماجہ ، باب الذکر الموت، حدیث نمبر 4262
ترجمہ : اور اگر وہ برا آدمی ہو تو فرشتہ اسے کہتا ہے : اے خبیث جسم میں رہنے والی بدروح!تیرا برا ہو ، تجھ کو سخت کھولتے ہوئے پانی ، دوزخیوں کے زخموں سے نکلنے والے پیپ اور گند اور دوسرے طرح طرح کے عذاب کی غم انگیز خبر ہو ۔ اس کی روح نکلنے تک اسے یہی کہا جاتا رہتا ہے ۔
جسے موت کے وقت آسانی نصیب ہوگئی، اللہ کے رحم و کرم پر کامل بھروسہ اور بھرپور یقین و اعتماد ہے کہ اس کے لیے آگے آسانیاں ہی آسانیاں ہوں گی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے موت سے سختی سے بچنے اور جنت میں داخل ہونے کے لیے جو نسخہ تجویز فرمایا ہے وہ تین اوصاف کا مرکب ہے ۔
عَنْ جَابِرٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثَلَاثٌ مَنْ كُنَّ فِيهِ سَتَرَ اللَّهُ عَلَيْهِ كَنَفَهُ وَأَدْخَلَهُ جَنَّتَهُ رِفْقٌ بِالضَّعِيفِ وَشَفَقَةٌ عَلَى الْوَالِدَيْنِ وَإِحْسَانٌ إِلَى الْمَمْلُوكِ۔
جامع الترمذی باب منہ، حدیث نمبر 2418
ترجمہ: سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ جس شخص میں تین خوبیاں موجود ہوں گی اللہ تعالیٰ اس کی موت کو آسان فرما دے گا اور اسے جنت میں داخل فرما دے گا ۔ کمزور پر نرمی ، والدین سے شفقت اور غلاموں کے ساتھ حسن سلوک کرنا۔
رفق بالضعیف: کمزورشخص کے ساتھ نرمی کا برتاؤکرنا۔ انسانی معاشرے میں ظالموں کا ظلم ، جابروں کا جبراور ستم گروں کے ستم کا نشانہ ہمیشہ کمزور انسان اور کمزور قوم رہی ہے ۔ خواہ وہ خاندانی ، مالی یا جسمانی طور پر کمزور ہو۔ اصدق الصادقین پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم نے کمزور شخص سےنرمی کا برتاؤ کرنے والے کے لیے موت کی سختی سے حفاظت اور جنت میں داخلے کی بشارت ذکر فرمائی ہے ۔ اے کاش !ہم اس بات کو دل سے سمجھ سکیں کہ کمزور پر نرمی کرنے والا اللہ تعالیٰ کو کتنا محبوب ہے ۔
شفقۃ علی الوالدین:
والدین سے حسن سلوک کرنا ۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ والدین وہ ہستیاں ہیں جن کی محبت میں کھوٹ نہیں ، انسان کی تربیت میں بنیادی کردار والدین کا ہوتا ہے ، زمانے کی سرد وگرم ، مصائب و آلام اور پریشانیوں کی سخت تمازت سے بچنے کے لیےسایہ والدین کے سر کا سایہ ہوتا ہے،ان کو راضی کرنے سے اللہ راضی ہوجاتا ہے اور ان کو ناراض کرنے سے اللہ بھی ناراض ہو جاتا ہے۔ ان سے بدتمیزی، بداخلاقی، دھکے دینا ، مارنا پیٹنا تو کجا ان کے سامنے اف تک کہنے کی اجازت نہیں بلکہ ان کے سامنے بچھ جانے کا حکم ہے ۔ ماں کے قدموں تلے جنت تو والد کی فرمانبرداری کو اس کا دروازہ قرار دیا گیا ہے۔ والدین سے محبت و شفقت کا برتاؤ کرنے والوں کی یہ ادا بارگاہ ایزدی میں اتنی محبوب ہے کہ اللہ تعالیٰ ایسے شخص کو موت کی تلخی سے محفوظ فرما کر جنت میں داخل فرماتے ہیں ۔
احسان علی المملوک:
غلاموں ، نوکروں اور ملازموں پر احسان کرنا ۔ان کے حقوق ادا کرنا ، بروقت اجرت دینا ، معاملات میں نرمی اختیار کرنا اور اگر ان سے غلطی و کوتاہی ہو جائے تو حتی الامکان معاف کرنا ورنہ حکمت عملی اختیار کرکے مناسب انداز میں ان کی اصلاح کرنا ۔ بات بے بات گالم گلوچ ، مارنا پیٹنا ، طاقت سے زیادہ مشقت سے کام لینا ، حق تلفی کرنا اور ظلم کرنا تو شریعت میں جانوروں کے ساتھ بھی جائز نہیں چہ جائیکہ کے اشرف المخلوقات انسان کے ساتھ ایسا رویہ روا رکھا جائے ۔
اللہ تعالیٰ ہماری دنیا بہتر فرمائے ، موت کی تلخی ، قبر کی سختی ، حشر کی شرمندگی اور جہنم کی گرمی سے حفاظت فرمائے ۔ وہ اعمال کرنے کی توفیق نصیب فرمائے جن سے وہ خود راضی ہوجاتا ہے اور روضہ میں اس کے حبیب کا دل خوش ہو جاتا ہے ۔ آمین بجاہ شفیع المذنبین صلی اللہ علیہ وسلم ۔
والسلام
محمد الیاس گھمن
خانقاہ حنفیہ ، مرکز اھل السنۃ والجماعۃ، سرگودھا
جمعرات، 7 دسمبر 2017ء