قسط-59 خاتمہ بالایمان

User Rating: 5 / 5

Star ActiveStar ActiveStar ActiveStar ActiveStar Active
 
قسط-59 خاتمہ بالایمان
اللہ تعالیٰ جس کوایمان کی سلامتی والی موت نصیب فرمادیں اس سے بڑا خوش قسمت بھلا اور کون ہو سکتا ہے !! بسا اوقات انسان ساری زندگی جنت کے قریب کرنے والے اعمال کرتا رہتا ہے لیکن ان میں ریاکاری ، دکھلاوا اور خودنمائی کا زہر بھی خود ملاتا رہتا ہے جس کی وجہ سے اخلاص ، رضاء الہی اور خدا کی خوشنودی ختم ہو جاتی ہے۔ اب خدائے لم یزل کا قانون عدل یہ ہے کہ جو جیسا کام کرے اس کا صلہ اس کو ویسا ہی ملے اس لیے کبھی گناہوں کا زہر یوں ظاہر ہوتا ہے کہ انسان کی زندگی کا اختتام بہت برا ہوتا ہے ۔ اعاذنا اللہ
کبھی خدا کا دریائے کرم یوں موج مارتا ہے کہ نالائق اور عذاب کےمستحق کا بیڑا پار لگ جاتا ہے ۔ وہ ساری زندگی نافرمانی میں مبتلا رہتا ہے ایسے اعمال کرتا ہے جو اسے جہنم کے کنارے پر لا کھڑا کرتے ہیں لیکن یکایک وہ کریم ذات اس کو حسن خاتمہ کی دولت عطاء کر دیتی ہے ۔ اعطانا اللہ
اس لیے ہم سب کو ہر وقت حسن خاتمہ کی فکر کرتے رہنا چاہیے ، اس کے کرم کو مانگتے ہی رہنا چاہیے ، اس کے کرم کو اپنی طرف متوجہ کرنے والے چند اعمال کا تذکرہ ہم ذیل میں کرنے لگے ہیں جن کو کرتے رہنے سے انسان شقاوت و بدبختی سے محفوظ ہوجاتا ہے اور خاتمہ بالایمان کی دولت سے مالا مال ہو جاتا ہے ۔
1:نعمت ایمان پر شکر:
اس نعمت پر اللہ تعالیٰ کا جتنا شکر ادا کیا جائے کم ہے کہ اس ذات نے ہمیں گھر بیٹھے اسلام کی دولت نصیب فرمائی ، ایمان نصیب فرمایا ، اس کی قدر دنیا میں صحیح معنوں میں معلوم نہیں ہو سکتی آخرت میں جب کفار کو جہنم میں پھینک دیا جائے گا اور بعض بدعمل اہل ایمان کو بھی جہنم میں ڈالا جائے گا کچھ عرصے بعد کفار اُن اہل ایمان کو طعنہ دیں گے کہ ہم کافر ہو کر جہنم میں اور تم مسلمان ہو کر بھی جہنم میں ہمارے کفر نے ہمیں نقصان پہنچایا تو تمہارے ایمان نے تمہیں کون سے فائدہ دیا ؟ جیسے ہم ویسے ہی تم ۔ اللہ تعالیٰ ملائکہ کو حکم دیں گے کہ تم جہنم سے تمام اہل ایمان کو نکال کر جنت میں داخل کر دو ، چنانچہ ملائکہ جہنم میں اتریں گے ان پر جہنم کی آگ ایسے ہی بے اثر ہو جائے گی جیسے دنیا میں حضرت ابراہیم علیہ السلام پر ٹھنڈی ہو گئی تھی ، ملائکہ بدعمل اہل ایمان کو جہنم سے نکال کر جنت میں پہنچائیں گے جب کفار یہ منظر دیکھیں گے کہ صرف کلمہ اسلام کی وجہ سے اہل ایمان کو ہمیشہ کے لیے جہنم سے نجات اور جنت میں خلود )دوام اور ہمیشگی ( نصیب ہو رہی ہے تو وہ بے ساختہ ہو کر یہ حسرت کریں گے کاش ہم بھی مسلمان ہوتے ۔ چنانچہ قرآن کریم میں ہے :
رُبَمَا يَوَدُّ الَّذِينَ كَفَرُوا لَوْ كَانُوا مُسْلِمِينَ
سورۃ الحجر، آیت نمبر 2
ترجمہ: اس وقت کافر لوگ یہ خواہش کریں گے کہ کاش وہ مسلمان ہوتے۔
اس لیے اسلام والی نعمت اور ایمان والی حالت پر اللہ کا شکر ادا کرتے رہنا چاہیے ، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اپنا شکر ادا کرنے میں یہ تاثیر رکھی ہے کہ اس سے نعمت میں مسلسل اضافہ ہوتا رہتا ہے ، نعمت ایمان پر شکر کرنے کا انجام یہ ہوتا ہے کہ ایمان والی موت نصیب ہوتی ہے ۔
2:کثرت ذکر اللہ:
اللہ تعالیٰ نے اپنے ذکر میں ایسی تاثیر رکھی ہے کہ جو شخص اس کو تسلسل کے ساتھ کثرت سے کرتا رہے تو ایسا شخص خاتمہ بالایمان کی سرفرازی پا لیتا ہے۔ کثرت ذکر اللہ کے لیے صحبت اھل اللہ ضروری ہے ، اولیاء اللہ کی مجالس میں اصلاح عقائد و اعمال کی غرض سے طلب علم کی نیت سے شریک ہوتے رہنا چاہیے ۔ اس بابرکت عبادت کی مبارک عادت میں موت کے وقت انسان کے حسن خاتمہ کی ضمانت ہے۔ کثرت سے ذکر اللہ کرنے والے کو اللہ کریم آخر وقت میں کلمہ طیبہ نصیب فرماتے ہیں ۔
عَنْ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَنْ كَانَ آخِرُ كَلاَمِهِ لاَ إِلَهَ إِلاَّ اللهُ دَخَلَ الْجَنَّةَ
سنن ابی داؤد ، باب فی التلقین ، حدیث نمبر3118
ترجمہ: سیدنا معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جو شخص کلمہ پڑھتے ہوئے فوت ہوا تو جنت میں داخل ہو گا۔
3:دعاؤں کا اہتمام:
خاتمہ بالایمان اللہ کریم کی بہت بڑی نعمت ہے اسی پر اخروی زندگی کی کامیابی کا مدار ہے ،لہٰذا اس نعمت کے حصول کے لیے اللہ تعالی سے خوب دعائیں مانگنی چاہییں۔ قرآن کریم اور احادیث مبارکہ میں ایسی دعائیں مذکور ہیں ان میں سے صرف تین دعائیں ذکر کی جاتی ہیں ۔ جن کو اہتمام سے مانگنے پر اللہ خاتمہ بالایمان نصیب فرمائیں گے:
1: رَبَّنَا آتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً وَفِي الْآخِرَةِ حَسَنَةً وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ
سورۃ البقرۃ ، آیت نمبر 201
ترجمہ: اے ہمارے رب !ہمیں دنیا میں بھلائی عطاء فرما اور آخرت میں بھی بھلائی عطاء فرما اور ہمیں آگ )جہنم ( کے عذاب سے بچا۔
2: رَبَّنَا لَا تُزِغْ قُلُوبَنَا بَعْدَ إِذْ هَدَيْتَنَا وَهَبْ لَنَا مِنْ لَدُنْكَ رَحْمَةً إِنَّكَ أَنْتَ الْوَهَّابُ
سورۃ آل عمران، آیت نمبر 8
ترجمہ: اے ہمارے رب!آپ نے جو ہمیں ہدایت نصیب فرمائی ہے )اسی پر برقرار رکھیے گا(اس کے بعد ہمارے دلوں میں ٹیڑھ نہ پیدا ہونے دینا۔
3: أَنْتَ وَلِيِّي فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ تَوَفَّنِي مُسْلِمًا وَأَلْحِقْنِي بِالصَّالِحِينَ
سورۃ یوسف، آیت نمبر 101
ترجمہ: )اے اللہ (آپ ہی دنیا اور آخرت میں میری حفاظت فرمانے والے ہیں ۔ مجھے اس حالت میں موت نصیب فرمانا کہ میں فرماں بردار ہوں اور )حشرمیں ( نیک لوگوں کے ساتھ جمع فرمانا۔
نوٹ: اس بات کی کوشش کریں کہ عربی میں دعائیں یاد کریں اور مانگیں ۔ تاہم اگر عربی میں یاد کرنا کسی بھی وجہ سے دشوار ہو تو اپنی اپنی زبان میں اللہ سے حسن خاتمہ کی دعائیں مانگیں۔
4:اللہ سے حسن ظن رکھنا:
اللہ تعالیٰ سے خیر، مغفرت ، ثواب اور انعام کی امیدرکھیں۔ انسان میں یہ کیفیت اس وقت تک پیدا نہیں ہوتی جب تک وہ گناہوں میں مبتلا رہتا ہے ، پہلا کام یہ کرنا ہے کہ گناہ اور گناہوں والی جگہیں چھوڑ دیں ، دوسرا کام سابقہ گناہوں پر صدق دل کے ساتھ توبہ کریں ، اس کے بعد استغفار کریں ۔ تیسرا کام آئندہ اس گناہ کو چھوڑنے کا پکا ارادہ کریں ۔
اس کے باوجود پھر بھی گناہ ہوجائے فوراً توبہ کریں ۔ باربار توبہ کرنے سے انسان کے قلب کی کیفیت یہ ہوجاتی ہے کہ اسے خدا کی ذات کے رحم و کرم اور بخشش و مغفرت کی آس لگ جاتی ہے ۔ پھر اسی کیفیت میں مزید تقویت پیدا ہوتی ہے تو انسان کو یقین کامل ہو جاتا ہے کہ اللہ پاک ضرور میری مغفرت فرما دیں گے ۔ چنانچہ حدیث قدسی میں ہے:
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : يَقُولُ اللهُ عَزَّ وَجَلَّ : أَنَا عِنْدَ ظَنِّ عَبْدِيْ بِيْ
صحیح مسلم ، باب فضل الذکر ، حدیث نمبر 6902
ترجمہ: سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : میں اپنے بندے کے قلبی احساس کی رعایت کرتا ہوں ۔
نوٹ: حدیث قدسی کہتے ہیں:
ھُوَالْکَلَامُ الَّذِیْ یُبَیِّنُہُ النَّبِیُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِلَفْظِہِ وَیُنْسِبُہُ اِلٰی رَبِّہِ ۔
ترجمہ: حدیث قدسی وہ حدیث ہے جسے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنے لفظوں میں بیان فرمائیں اور اس کی نسبت اپنے رب کی طرف کریں ۔
5:صلوٰۃ وسلام :
اللہ تعالیٰ کے آخری نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات بابرکات کے ساری مخلوقات بالخصوص انسانوں پر اتنے احسانات ہیں کہ جن کو شمار بھی نہیں کیا جاسکتا۔ اور نہ ہی ان احسانات کا بدلہ چکایا جا سکتا ہے ۔
ہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حقوق میں ایک اہم حق آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر صلوٰۃ و سلام کا تحفہ پیش کرنا ہے ۔ کیونکہ اہل اسلام کا یہ عقیدہ ہے کہ اگر کوئی شخص مدینہ منورہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے روضہ مبارکہ کے قریب درود بھیجے تو آپ خود سنتے ہیں اور جواب بھی عنایت فرماتے ہیں اور اگر کوئی دور سے بھیجے تو ملائکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کرتے ہیں ۔
درود پاک خدا کی بارگاہ میں اتنی مقبول ترین عبادت ہے کہ اگر ریاکاری سے بھی کی جائے اللہ تب بھی قبول فرما لیتے ہیں ، درود بھیجنے والے شخص پر اللہ تعالیٰ نظر رحمت فرماتے ہیں اور جس پر اللہ کی نظر عنایت ہو جائے اس کو خاتمہ بالایمان کی دولت مل جاتی ہے ۔
نوٹ: یہ بات ہمیشہ ذہن نشین فرما لیں کہ درود پاک پڑھتے وقت اور لکھتے وقت مکمل پڑھا اور لکھا جائے اگرچہ مختصر ہی کیوں نہ ہو ۔ بعض لوگ اس میں سستی اور غفلت سے کام لیتے ہیں اور ) ؐ( کی علامت لگا لیتے ہیں ۔ اپنے محسن کے حق کی ادائیگی میں اس طرح بخل سے کام نہیں لینا چاہیے ۔ مختصر طور پر صلوٰۃ وسلام ان الفاظ میں پڑھ لیا کریں ۔ صلی اللہ علیہ وسلم
6:مسواک:
احادیث مبارکہ میں مسواک کرنے کے فضائل و احکام تفصیل کے ساتھ موجود ہیں مشائخ فرماتے ہیں کہ مسواک کرنے کے ستر فوائد ہیں ان میں سے ایک بڑا فائدہ یہ ہے کہ مسواک کرنے والے کا خاتمہ ایمان پر ہوتا ہے ۔
اہم ترین بات:
خاتمہ بالایمان صرف اسے نصیب ہوتا ہے جس کے عقائد درست ہوں ان میں لچک ، کمزوری اور فساد نہ ہو ، اس لیے خاتمہ بالایمان کے لیے بنیادی چیز عقائد کا درست اور پختہ ہونا ضروری ہے مذکورہ بالا اعمال اور دیگر تمام مسنون اعمال حسن خاتمہ کے لیے معاون ہیں۔
اس سے یہ بات بھی واضح طور پر سمجھ میں آ رہی ہے کہ اگر عقائد درست نہ ہوں اور اعمال سنت کے مطابق نہ ہوں تو حسن خاتمہ کے لیے کی جانے والی تمام محنتوں کا اختتام برا ہوتا ہے ۔
آخر میں مختصراً چند ان اعمال کا تذکرہ بھی ضروری ہے جن کی وجہ سے انسان خاتمہ بالایمان کی دولت سے محروم ہو جاتا ہے ۔
1: فرائض و واجبات کو مسلسل ترک کرتے رہنا ۔
2: شرعی احکام و مسائل کا مذاق اڑانا
3: اہل اسلام کی مقتدر شخصیات علما دین کی بوجہ علم دین تحقیر و تذلیل کرنا
4: توبہ میں تاخیر کرنا
5: حقوق العباد کی ادائیگی میں کوتاہی کرنا
اللہ تعالی کی بارگاہ میں دعا ہے کہ وہ ذات ہمیں ان تمام کاموں کی توفیق نصیب فرمائے جن کی برکت سے حسن خاتمہ کی سعادت ملتی ہے اور ایسے تمام کاموں سے محفوظ فرمائے جن کی نحوست سے خاتمہ بالایمان سے محرومی ملتی ہے ۔کیونکہ اعمال کا دارومدار حسن خاتمہ پر ہے ۔
آمین بجاہ النبی الکریم الذی قال:انما الاعمال بالخواتیم
والسلام
محمد الیاس گھمن
خانقاہ چشتیہ، شاہ عالم سلنگور ،ملائیشیا
جمعرات ، 21 دسمبر 2017ء