اُمّ المُومنین سیدہ اُمّ حبیبہ

User Rating: 5 / 5

Star ActiveStar ActiveStar ActiveStar ActiveStar Active
 
اُمّ المُومنین سیدہ اُمّ حبیبہ
اجمالی خاکہ
نام رملہ
کنیت ام حبیبہ
والد صخربن حرب ابو سفیان
والدہ صفیہ بنت ابو العاص
سن پیدائش بعثت نبوی سے17سال پہلےتقریباً
قبیلہ بنو امیہ
زوجیت رسول 6 ہجری
سن وفات 44ہجری
مقامِ تدفین جنت البقیع مدینہ منورہ
کل عمر 74سال
نام و نسب:
آپ کا نام رملہ تھا، سلسلہ نسب اس طرح ہے: رملہ بنت ابوسفیان بن حرب بن امیہ بن عبد شمس بن عبد مناف اور والدہ کی طرف سے سلسلہ نسب کچھ یوں ہے: رملہ بنت ام صفیہ بنت ابی العاص بن امیہ بن عبدشمس بن عبد مناف تھا۔ والد اور والدہ دونوں کی طرف سے پانچویں پشت میں جا کر آپ رضی اللہ عنہا کا سلسلہ نسب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نسب سے مل جاتا ہے۔
کنیت:
آپ کی کنیت” ام حبیبہ“ہے۔ آپ رضی اللہ عنہا کے پہلے شوہر عبیداللہ بن جحش سے ایک لڑکی حبیبہ پیدا ہوئی اس وجہ سے آپ کی کنیت ام حبیبہ ہے۔
ولادت:
سیدہ ام حبیبہ رضی اللہ عنہا کی ولادت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اعلان نبوت سے 17 سال پہلے مکہ مکرمہ میں ہوئی۔
خاندانی پس منظر:
سیدہ ام حبیبہ رضی اللہ عنہاخاندان بنو امیہ کی چشم و چراغ تھیں۔ اُمَیَّہ؛ قریش کا ایک سردار تھا جس کی اولاد کو” بنو امیہ“ کہا جاتا تھا۔ قریش کا ہی ایک دوسرا بڑا خاندان” بنو ہاشم“ بھی تھا جس سے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا تعلق تھا۔ ان دونوں خاندانوں میں خاندانی رقابت اور چشمک چلی آتی تھی۔ یہی وجہ تھی کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اعلان نبوت فرمایا تو آپ کی مخالفت میں بنو امیہ زیادہ پیش پیش رہے، وہ نہیں چاہتے تھے کہ ہمارے حریف بنو ہاشم کو یہ اعزاز نصیب ہو۔ تاریخ کا مطالعہ بتاتا ہے کہ عہد رسالت میں اسلام کے خلاف جو بھی جنگیں ہوئیں ان میں اسی خاندان بنو امیہ کے افراد نے قائدانہ کردار ادا کیا ہے۔ بدر میں جب اس خاندان کے سردار عتبہ، ولید اور حنظلہ کو موت کے گھاٹ اتارا گیا تو اپنے ان سرداروں کا انتقام لینے کے لیے ابو سفیان جب تک مسلمان نہیں ہوئے تھے نے کئی حربے آزمائے۔
بالآخر فتح مکہ کے موقع پر اس خاندان کے اکثر افراد نے اسلام قبول کر لیا۔ اس خاندان میں باصلاحیت لوگوں کی کوئی کمی نہیں تھی یہ لوگ بہادر، جانباز اور انتظامی صلاحیتوں کے مالک ہونے کے ساتھ ساتھ پڑھے لکھے بھی تھے، اس لیےان کو سیاسی و فوجی ذمہ داریاں سونپیں گئیں۔ فتح مکہ کے موقع پر ابو سفیان رضی اللہ عنہ کے گھر کو دارالامن قرار دیا گیا، حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کو کتابتِ وحی کی عظیم سعادت سے بہرہ ورفرمایا اور اسی خاندان کے چشم وچراغ حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کو خلافت کے اعلیٰ منصب پر فائز کیا گیا۔
اس کے علاوہ آپ رضی اللہ عنہا کے خاندان کا خاندانِ نبوت بنو ہاشم سے بہت گہرا تعلق ہے۔ سیدہ ام حبیبہ رضی اللہ عنہا کے بھائی حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ؛ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہم زُلف تھے، ام المومنین سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا کی بہن قریبہ صغریٰ حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے نکاح میں تھیں۔
قبل از اسلام آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بڑی صاحبزادی حضرت زینب رضی اللہ عنہا کا نکاح لقیط بن الربیع جن کی کنیت ابو العاص تھی، سے کیا جو اسی خاندان بنو امیہ کے ایک فرد تھے۔ اس کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی دو صاحبزادیاں یکے بعد دیگرے سیدہ رقیہ رضی اللہ عنہا اور سیدہ ام کلثوم رضی اللہ عنہا کا نکاح اسی خاندان بنو امیہ کے چشم و چراغ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ سے فرمایا۔
سیدہ ام حبیبہ رضی اللہ عنہا کی والدہ صفیہ بنت ابو العاص حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے والد عفان بن ابو العاص کی سگی بہن تھیں اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی پھوپھی تھیں۔اس لحاظ سے سیدہ ام حبیبہ رضی اللہ عنہا؛ حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کی پھوپھی زاد بہن تھیں۔
سیدہ ام حبیبہ رضی اللہ عنہا کی بہن میمونہ بنت ابی سفیان حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی خوشدامن ساس  تھیں اور حضرت حسین رضی اللہ عنہ کے فرزند شہید کربلا حضرت علی اکبر کی والدہ لیلیٰ بنت مرہ اسی میمونہ کی بیٹی ہیں۔
پہلا نکاح:
سیدہ ام حبیبہ رضی اللہ عنہا کا پہلا نکاح ام المومنین سیدہ زینب بنت جحش رضی اللہ عنہا کے بھائی عبیداللہ بن جحش سے ہوا۔
قبول اسلام:
سیدہ ام حبیبہ رضی اللہ عنہا اپنے شوہر عبیداللہ بن جحش کے ساتھ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کہ کیسے آنا ہوا؟ آپ رضی اللہ عنہا نے عرض کی کہ یارسول اللہ!ہم دونوں میاں بیوی اسلام قبول کرنے کے لیے آئے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کہ کس کی بیٹی ہو؟سیدہ ام حبیبہ رضی اللہ عنہا نے جواب دیا ابوسفیان صخر بن حرب اموی کی۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دونوں کو کلمہ شہادت پڑھا یا اور ان کو مسلمان کر دیا۔
ہجرت حبشہثانیہ
قبول اسلام کے بعد مکہ مکرمہ میں اہل اسلام پر حالات بہت تنگ کر دیے گئے تھے، چنانچہ سیدہ ام حبیبہ رضی اللہ عنہا نے اپنے شوہر عبیداللہ بن جحش کے ساتھ 6 نبوی میں ہجرت کی۔ یہ حبشہ کی طرف دوسری ہجرت تھی اس سے ایک سال قبل 5 نبوی میں اہل اسلام کے چند افراد نے حبشہ کی طرف ہجرت کی تھی۔ اس دوسری ہجرت میں83 مرد اور18 خواتین شامل تھیں۔ عبیداللہ بن جحش سے سیدہ ام حبیبہ رضی اللہ عنہا کے دو بچے پیدا ہوئے ایک عبداللہ اور دوسری حبیبہ۔
حبیبہ رضی اللہ عنہا؛آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تربیت میں رہیں اور داؤد بن عروہ بن مسعود ثقفی رحمہ اللہ سے ان کا نکاح ہوا۔
نوٹ: حبشہ؛عرب کے جنوب میں واقع مشرقی افریقہ کا ایک ملک ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے وقت اس ملک پر جو شخص حکمران تھا اس کا نام اَصحمہ بن اَبْجَر رضی اللہ عنہ تھا،یہ حضرت جعفر طیّار رضی اللہ عنہ کے ہاتھ پر مسلمان ہوئے تھے لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت کے لیے نہ آسکے، جب ان کے فوت ہونے اطلاع مدینہ منورہ آئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی نماز جنازہ ادا کی۔
متعدد احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت نجاشی رضی اللہ عنہ کے جنازہ کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے کردیا گیا تھا۔ عمران بن حصین رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں خبر دی تمہارے بھائی حضرت نجاشی رضی اللہ عنہ انتقال کرگئے ہیں، کھڑے ہوجاؤ، ان کی نماز جنازہ ادا کرو، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوگئے اور صحابۂ کرام نے آپ کے پیچھے صفیں بنالیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے چار تکبریں کہیں، صحابۂ کرام یہی سمجھ رہے تھے کہ حضرت نجاشی رضی اللہ عنہ کا جسم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے آگے ہے۔
صحیح ابن حبان، مسند احمد، فتح الباری
حبشی زبان میں بادشاہ کو” نجوس“ کہتے ہیں اورحبشی زبان کے اس لفظ کو عربی زبان میں پڑھتے وقت” نجوش” کہا جاتا ہے، اسی سے” نجاشی“ ہے۔ حبشہ کے ہر بادشاہ کو نجاشی کہا جاتا تھا،” حبشہ“اصل میں عربی نام ہے یونانی میں اسے” ایتھوپیا“ کہتے ہیں اور دنیا کے موجودہ نقشہ میں اسے” ایتھوپیا” ہی کے نام سے جانا جاتا ہے۔
ایک خواب:
حبشہ میں دونوں میاں بیوی خوشی کی زندگی بسر کر رہے تھے، ایک رات سیدہ ام حبیبہ رضی اللہ عنہا کو ایک خواب آیا، کیا دیکھتی ہیں کہ ان کے خاوند عبیداللہ بن جحش کا چہرہ بری طرح مسخ ہوچکا ہے۔ جب بیدار ہوئیں تو بہت پریشان ہوئیں۔ لیکن اس وقت اس خواب کا تذکرہ کسی سے نہیں کیا۔
پہلے شوہر کی حالت ارتداد میں وفات:
کچھ عرصہ گزرنے کے بعد سیدہ ام حبیبہ رضی اللہ عنہا کے شوہر عبیداللہ بن جحش نے آپ رضی اللہ عنہا سے کہا کہ میں پہلے عیسائی تھا، پھر اسلام قبول کیا لیکن اب پھر میں یہ محسوس کر رہا ہوں کہ نصرانیت ہی دین حق ہے اس لیے میں دوبارہ عیسائی ہو رہا ہوں۔ بلکہ میں تمہیں بھی یہی مشورہ دوں گا کہ تم بھی عیسائیت قبول کرلو۔ یہی ہمارے لئے بہتر ہے۔ سیدہ ام حبیبہ رضی اللہ عنہانے اپنے خاوند کو اپنا خواب سنایا کہ شاید وہ اس کو سن کر اپنے فیصلے سے باز رہیں۔ لیکن اس خواب کا عبیداللہ پر کچھ اثر نہ ہوا، عیسائی ہو گئے اور شراب پینا شروع کردی۔ ہر وقت شراب پیتے رہتے۔ اسی شراب نوشی کی کثرت کی وجہ سے حالت ارتداد اسلام قبول کرنے کے بعد پھر اسلام کو چھوڑ دینا” ارتداد“ کہلاتا ہےپر عبیداللہ بن جحش کی وفات ہوئی۔
پریشانی کے ایام:
اپنے وطن سے دوری، شوہر کے مرتد ہونے اور ان کی وفات یہ سب سانحات ایسے تھے جن سے سیدہ ام حبیبہ رضی اللہ عنہا کو سخت صدمات پہنچے۔ لیکن اس کے باوجود صبر وتحمل کا دامن نہیں چھوڑا بلکہ اللہ کی عبادت میں اور زیادہ مصروف ہو گئیں۔ حبشہ میں ہجرت کر کے تشریف لانے والی خواتین بالخصوص سیدہ ام سلمہ، سیدہ رقیہ، سیدہ لیلیٰ اور سیدہ اسماء رضی اللہ عنہن نے آپ کو دلاسہ دیتی رہیں۔
ام حبیبہ؛ ام المومنین بنتی ہیں:
سیدہ ام حبیبہ رضی اللہ عنہا کے شوہر کے مرتدہو کر فوت ہونے کی خبر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بہت صدمہ ہوا، سیدہ ام حبیبہ رضی اللہ عنہا کی دلجوئی کےلیےآپ صلی اللہ علیہ وسلم نےحضرت عَمْرو بن امیہ ضُمَرِی رضی اﷲعنہ کو بادشاہ حبشہ نجاشی کے پاس بھیجااور یہ پیغام دیا کہ آپ ام حبیبہ سے برضاء و رغبت معلوم کر کے ان کا نکاح میرے ساتھ کر دیں۔
نجاشی نے سیدہ ام حبیبہ رضی اﷲعنہا کے پاس پیغام بھیجا۔ سیدہ ام حبیبہ رضی اﷲعنہا کو اپنے سب دکھ بھول گئے آپ نے رضامندی کا اظہار فرمایا اور پیغام لانے والی باندی کو اپنے کنگن، انگوٹھیاں اور زیور اتار کر ہدیہ کر دیا اور خالد بن سعید بن ابی العاص رضی اللہ عنہ کو اپنے نکاح کا وکیل بنا کر نجاشی کے پاس بھیجا۔
نجاشی نے اپنے شاہی محل میں نکاح کی مجلس منعقد کی اور حضرت جعفر بن ابی طالب رضی اللہ عنہ اور دیگرصحابہ کرام رضی اﷲعنہم کی موجودگی میں سیدہ ام حبیبہ رضی اللہ عنہا کا نکاح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کر دیا اور 4000 درہم حق مہر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے خود ادا کیا، یہ رقم سیدہ ام حبیبہ رضی اللہ عنہا کے وکیل نکاح حضرت خالد بن سعید رضی اﷲعنہ کے سپرد کی گئی۔
آپ رضی اللہ عنہا نے اس رقم میں سےکچھ اس باندی کو دی جس نے نکاح کی خوشخبری سنائی تھی، لیکن اس باندی نے رقم اور دیگر زیورات وغیرہ آپ رضی اللہ عنہا کو واپس کر دیے جو کل اس باندی نے لیے تھا اور کہنے لگی کہ بادشاہ سلامت کا یہی حکم ہے، خود نجاشی نے اس خوشی میں سیدہ ام حبیبہ رضی اللہ عنہا کو بیش قیمت تحائف اور قیمتی خوشبوئیں ہدیہ کے طور پر بھیجیں۔
اسی مجلس میں نکاح کی تقریب میں شرکت کرنے والوں کو کھانا بھی کھلایا گیا۔ اس کے بعدسیدہ ام حبیبہ رضی اللہ عنہا کو حضرت شرحبیل بن حسنہ رضی اﷲعنہ کے ساتھ بحری جہاز میں خیبر کے راستے مدینہ منورہ روانہ کر دیا۔ آپ رضی اللہ عنہا مدینہ منورہ تشریف لائیں اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجہ مطہرہ بن کر ام المومنین کے معزز اعزاز سے سرفراز ہو گئیں۔
مبارک خواب کی تعبیر:
آپ رضی اللہ عنہا نے کافی عرصہ پہلے ایک خواب دیکھا تھا، آپ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں: میں نے خواب میں دیکھاکہ ایک شخص مجھے’’ یاام المؤمنین‘‘ کہہ کر مخاطب کررہا ہے،میرے دل میں آیا اور میں نے از خود اس مبارک خواب کی تعبیر یہی سمجھی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مجھے نکاح میں لائیں گے۔جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے آپ کا نکاح ہو گیا تو آپ رضی اللہ عنہا کے خواب کی تعبیر پوری ہو گئی۔
بستر رسول کی حرمت:
سیدہ ام حبیبہ رضی اللہ عنہا کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سےبے حد عقیدت و محبت تھی۔ جیسا کہ حدیث پاک میں آتا ہےنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ کہ تم میں سے کوئی بھی اس وقت تک کامل( مومن نہیں ہو سکتا جب تک میری محبت اسے اپنی اولاد،اپنے والدین اور تمام لوگوں سے زیادہ نہ ہو۔ایک بار سیدہ ام حبیبہ رضی اللہ عنہا کے والد ابو سفیان )جو اس وقت تک مسلمان نہیں ہوئے تھے مدینہ منورہ آئے اور اپنی بیٹی سیدہ ام حبیبہ رضی اللہ عنہا کے گھر پہنچے، اور آ کرآپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بستر پر بیٹھ گئے۔ سیدہ ام حبیبہ رضی اللہ عنہا فوراً اٹھی اور والد کو ادب سے عرض کی کہ آپ اس بستر سے اٹھ جائیں۔ یہ پاک بستر نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کا ہے اور آپ میں ابھی تک شرک سے پاک نہیں ہوئے۔
اتباعِ شریعت:
دین اسلام کی خصوصیت یہ ہے کہ اس میں زندگی کے ہر موڑ کی رہنمائی موجود ہے، خوشیاں کیسے منانی ہیں اورغم و مصیبت میں کیا کرنا ہے؟ چنانچہ جب کوئی فوت ہو جائے تو سوگ کتنے دن کیا جائے؟ ایسے حالات میں شریعت کے حکم کی اتباع کرنا بہت مشکل ہوتا ہے،سیدہ ام حبیبہ رضی اللہ عنہا کے مزاج میں شریعت کی اتباع رچ بس چکی تھی۔چنانچہ زینب رضی اللہ عنہابیان کرتی ہیں:میں ام المومنین ام حبیبہ رضی اللہ عنہا کے پاس اس وقت گئی جب ان کے والد ابو سفیان رضی اللہ عنہ کا انتقال ہوا تھا۔
سیدہ ام حبیبہ رضی اللہ عنہا نے خوشبو منگوائی جس میں خلوق خوشبو کی زردی یا کسی اور چیز کی ملاوٹ تھی، پھر وہ خوشبو ایک لونڈی نے ان کو لگائی اور ام المؤمنین نے خود اپنے رخساروں پر اسے لگایا۔ اس کے بعد فرمایا: واللہ ! مجھے خوشبو کے استعمال کی کوئی خواہش نہیں تھی لیکن میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے کہ اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھنے والی کسی عورت کے لیے یہ جائز نہیں کہ وہ تین دن سے زیادہ کسی کا سوگ منائے، سوائے شوہر کے (کہ اس کا سوگ ) چار مہینے دس دن کا ہے۔
نوٹ: عدت کا شرعی حکم ہم پہلے لکھ چکے ہیں، وہاں دیکھ لیا جائے۔
ذوق عبادت:
آپ رضی اللہ عنہا نہایت عبادت گزار خاتون تھیں، ہر وقت ذکر الہی میں مشغول رہتیں۔ فرائض و واجبات کی ادائیگی کے تو کیا کہنے آپ رضی اللہ عنہا نفلی عبادات بھی بہت زیادہ کرتیں۔ ایک بارآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص 12رکعات نفل روزانہ پڑھے گا اس کے لئے جنت میں گھر بنایا جائے گا۔ جب آپ رضی اللہ عنہا نے یہ سنا تو اس وقت سے لے کر آخر عمر تک کبھی بھی ان کا ناغہ نہیں کیا۔
فکرِآخرت:
آپ رضی اللہ عنہا کو فکر آخرت بہت تھی، وفات سےچند دن پہلےحضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو بلایا اور کہا:’’ میرے اور آپ کے درمیان سوکنوں والے تعلقات تھے، اگر کوئی غلطی مجھ سے ہوئی ہو تو اللہ کے لیے مجھے معاف کر دیجئے۔‘‘سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا’’ میں نے معاف کیا۔‘‘پھر ان کے لیے دعا مانگی۔سیدہ امّ حبیبہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا:’’ آپ نے مجھے خوش کیا اللہ آپ کو خوش رکھے۔‘‘اس کے بعد پھر حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا کے پاس یہی پیغام بھیجا۔
وفات:
سیدہ ام حبیبہ رضی اللہ عنہا کی وفات74 سال کی عمر میں 44 ہجری میں ہوئی، یہ سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کا زمانہ تھا۔ آپ رضی اللہ عنہا کو مدینہ منورہ جنت البقیع میں دفن کیا گیا۔
…… ……