انقلابی نظریات اور پیغمبرِ انقلابﷺ

User Rating: 1 / 5

Star ActiveStar InactiveStar InactiveStar InactiveStar Inactive
 
انقلابی نظریات اور پیغمبرِ انقلابﷺ
انقلاب کستے کہتے ہیں؟ انقلاب کیسا ہونا چاہیے؟ اور کیسے آئے گا؟ بہت اہم سوالات ہیں۔ آج ساری دنیا میں انقلاب لانے؛ بلکہ” برپا“ کرنے کے لیے مختلف سیاسی ومذہبی جماعتیں اور تحریکات معرضِ وجود میں آرہی ہیں۔
عموماً اسلامی ممالک میں؛ جب کہ پاکستان میں خصوصاً انقلاب کا نام زبان زدِ عام ہوگیا ہے۔
انقلاب کہتے ہیں کسی قوم کے دماغ اور قلوب کا ایک حالت سے نکل کر دوسری حالت میں بدل جانا۔ اور انقلاب ایسا ہونا چاہیے کہ قوم سے معاشرتی برائیوں کا عنصر نکل جائے اور اچھائی کا عنصر اس کی جگہ لے لے۔
تیسرا سوال سب سے اہم ہے کہ یہ انقلاب کیسے آئے گا؟ اس بارے میں تاریخ کے اوراق میں پھیلی” داستانِ انقلاب“ کو سمیٹا جائے تو چند نظریے سامنے آتے ہیں۔
پہلا نظریہ:
کسی نے تنگ دستی افلاس اور بھوک کو بڑھتا ہوا دیکھا تو اس نے اسبابِ دولت کی فراہمی کو نقطہ انقلاب قرار دیا اور یہ کہا کہ دولت کماؤ اورہر جائز وناجائز، حلال وحرام کی قیود سے بالاتر ہوکر خواہ سودی نظام سے ہو یا رشوت خوری سے، طریقہٴ آمدنی کی پرواہ کیے بغیر دولت کماکر مفلوک الحال اور بے بس انسانیت کی بھوک کو مٹانا ہی اس وقت کا” حقیقی انقلاب“ ہے۔
دوسرا نظریہ:
جہالت اور جدید ٹیکنالوجی وعلوم وفنون سے دوری ہمیں بہ حیثیت قوم پیچھے دھکیل رہی ہے؛ لہٰذا ایسے انقلاب کی راہ ہموار کی جائے کہ سب لوگ تعلیم یافتہ ہوں۔ ہاں اس کی پرواہ بھی نہ کی جائے کہ معیارِ تعلیم کیسا ہو؟ بنیادی اکائی توحید خداوندی سے الگ تھلگ رہ کر بھی تعلیم و تعلّم کا تاج سرپر سجایاجاسکتا ہے اور نبوت ورسالت کی راہنمائی لیے بغیر بھی؛ بلکہ ان سے مخالفت کرکے بھی” مخلوط نظامِ تعلیم“ عام کیا جائے؛ تاکہ انقلاب کا یہ عمل تشنہ نہ رہ جائے۔
تیسرا نظریہ:
اصل درپیش مسئلہ تو غلامی ہے جب تک آزادی ہر طرح کی آزادی اور ہر قاعدے اور ضابطے سے آزادی حاصل نہ کرلی جائے، انقلاب کی روح رونما نہیں ہوسکتی؛ لہٰذا حریت اور آزادی کی مالا پہنے بغیر” حقیقی انقلاب“ کبھی نہیں آسکتا؛ اس لیے بلا امتیاز اچھے اور برے حکمرانوں سے ٹکراکر اپنی آزادی حاصل کرو اور” میں نہیں مانتا“ کا اصول ہر منصف اور جابر حکمران کے سامنے کہہ ڈالو۔
چوتھا نظریہ:
انقلابی مفکرین کے گروہ اختلاف وافتراق کو قوم کی ذلت اور پسماندگی کا سبب بتلارہے ہیں اور اس مسئلے کو حل کیے بغیر کسی صورت میں قوم کو انقلاب کی معنویت سمجھانے سے قاصر ہیں۔ ان کے ہاں اتحاد ویکجہتی اور اتفاق کی فضاہموار کرنا ہی اصل انقلاب ہے، بھلے وہ اتحاد کسی سے بھی ہو․․․ دین دشمن سے ہو یا انسانیت کے دشمن سے؛ بس سب سے بناکر رکھنے میں ہی انقلاب کا راز مضمر سمجھتے ہیں۔یہ سب اپنی جگہ! بھوک وافلاس کو ختم کرنا ضروری ہے، جہالت اور جدید علوم سے دوری کی خلیج کو پاٹنا بھی بے شک مناسب ہے، غلامی کی زنجیروں کو توڑنا بھی لازمی ہے اور اختلاف وافتراق کی دبیز چادر کو پھاڑنا بھی ضروری ہے۔
لیکن کیسے؟ پیغمبرِ انقلاب صلی اللہ علیہ وسلم نے انّي رَسُوْلُ اللّٰہ! کا عالمگیر نعرہ لگاکر قرآنِ کریم جیسا ابدی دستور تھامے فاران کی چوٹیوں پر لوگوں کو یہ خطاب نہیں فرمایا تھا کہ تمہیں بھوک وافلاس نے تباہی کے کنارے پر لاکھڑا کیا ہے، تنگ دستی تمہیں ناکامی کی دلدل میں اتار رہی ہے؛ لہٰذا دولت کماؤ خوب کماؤ جائز وناجائز طریقِ کار کو اپناکر کماؤ سود اور رشوت سے مت گھبراؤ؛ بس اپنی زندگی کا مقصد دولت کا حصول رکھو۔اور نہ ہی پیغمبرِ انقلاب نے جدید علوم وفنون کی تعلیم کے لیے مخلوط ادارے کھولے۔ نہ ہی آپ نے تعلیم کے نام پر صنفِ نازک کے سر سے حیا وعفت اور پاک دامنی وپاک بازی کے آنچل کو سرکایا۔ آزادی کی آڑ میں پیغمبرِانقلاب کی تعلیمات میں کہیں یہ نہیں ملتا کہ بس غلامی کے طوق کو اتار پھینکنے سے تمہاری آخرت سنور جائے گی اور بس!اتحادِ ملل کے لیے کفار نے یہ منصوبے بھی آپ تک بہم پہنچادیے کہ ایک دن تم ہمارے خداؤں کی عبادت کرو اور ایک دن ہم تمہارے خدا کی عبادت کرکے اتحاد واتفاق کی مثال قائم کرتے ہیں۔
آپ ہی بتلادیں کہ کیا پیغمبرِ انقلاب نے اُن کی اِن شرائط کو قبول فرمالیا تھا؟ نہیں ہرگز نہیں؛ بلکہ عملاً فرمایا کہ جس کام کے کرنے کا میں حکم دوں اسے کرو اورجس سے روکوں اس سے باز آجاؤ مَا آتَاکُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوْہُ وَمَا نَہَاکُمْ عَنْہُ فَانْتَہُوْا یہ انسانی اور حقیقی انقلاب کی روح اور اساس ہے۔اسی اساس پر آج اصلی اور حقیقی انقلاب کی تعمیر ہوسکتی ہے۔ پھر تاریخ شاہد ہے کہ اس انقلاب کو بار آوار کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک ایسی جماعت دی جس نے ہر میدان میں پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کے انقلابی مشن کو جان پر کھیل کر پایہٴ تکمیل تک پہنچایا۔ انقلاب لانے والوں کے لیے آقائے نامدار صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت وکردار اور صحابہ رضی اللہ عنہم جیسی اطاعت وفرمانبرداری آج بھی لائحہ عمل ہے، جو اپنائے گا وہ انقلاب لائے گا اور جس کی زندگی میں سنت کی مہک نہ ہو وہ انقلاب، انقلاب کے نعرے لگاکر اپنا اور قوم کا وقت ضائع کرنے کے ساتھ ساتھ ان کے مال ومتاع کا بھی نقصان کرے گا، جیساکہ آج تمہارے سامنے ہورہا ہے۔
تعلیماتِ رحمتِ دو عالم ﷺ
ارشاد باری تعالیٰ ہے: وما ارسلناک الا رحمۃ للعالمین۔
اے میرے محبوب میں نے آپ کو تمام جہانوں کے لیے رحمت بنا کر بھیجا۔
یہ اس رب کا فرمان ہے جو خود رحمان اور رحیم ہے ، رحم و کرم فرماتا بھی ہے، اس کا حکم بھی دیتا ہے ، اور رحم و کرم کرنے والوں سے پیار بھی فرماتا ہے ، انسانیت کو رحم و کرم کرنے کی تلقین کرنے کے لیے نبی وہ بھیجا جو تمام جہانوں کے لیے رحمت ہے، کتاب وہ نازل فرمائی جس میں رحم و کرم کے مبادی اور اساسی اصول جمع ہیں ، آپس میں صلہ رحمی کا حکم دیا۔ جبکہ قطع رحمی کو جرم قرار دیا۔ رب کریم کا انسانیت پر مزید رحمت اور احسان کا یہ معاملہ بھی ہوا کہ رؤف رحیم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو مومنین میں مبعوث فرمایا۔ جس نے ایک صالح اور پر امن معاشرہ ترتیب دیا ، اور ایسے خطوط مقرر فرمائے کہ تا قیامت اگر انہی خطوط پر چلا جائے تو امن و آشتی اور سکون و راحت ہر شخص کا مقدر بن سکتا ہے۔ صحیح ابن حبان کی ایک روایت میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے فرمایا: کیا میں تمہیں قیامت کے روز اللہ کے محبوب بندے کی نشانی بتلاؤں جو اس روز میرے بھی بہت قریب ہوگا۔ صحابہ نے عرض کیا: ضرور اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !آپ نے فرمایا: کہ جو تم میں سے اخلاق حسنہ کا خوگر ہوگا۔ وہ روز قیامت اللہ کا محبوب بندہ ہوگا اور میرے قریب تر ہوگا۔ اخلاق حسنہ اپنانا اس قدر آسان ہے اور اس کے اتنے فوائد ہیں جو بیان سے باہر ہیں: اخلاق حسنہ کی ایک جھلک یوں دیکھی جا سکتی ہے کہ
والدین سے حسن سلوک ، بہن ، بھائی ، بیٹی ، بیوی اور شوہر سے حسن سلوک ، پڑوسیوں کے حقوق ادا کرنا ، عام انسانوں سے خندہ پیشانی سے پیش آنا ،کسی کی غلطی پر عفو و درگزر سے کام لینا ،نیک باتوں کی تلقین کرنا اور برے امور سے روکنا ، اپنے آپ کو کسی کے حسد ، کینہ ، بغض ، عداوت ، دشمنی، نفرت وغیرہ سے پاک رکھنا ، اپنی ضرورتوں پر دوسروں کی ضرورتوں کو ترجیح دینا ، ایثار ، ہمدردی اور جانثاری کا جذبہ رکھنا، دل کو غیراللہ کی محبت ، حرص ، ہوس ، لالچ ، طمع ، تکبر ، غرور اور خود پسندی کے امراض سے دور رکھنا ، اپنی زبان کو حرام کھانے اور پینے سے پاک رکھنا ،جھوٹ ، ایذارسانی ، غیبت ، ناحق تہمت ، چغل خوری اور فضول گوئی سے باز رکھنا ،جھوٹی وکالت سے خود کو روکنا ، اپنی آنکھوں کو نامحرم مرد اور عورت کے دیکھنے سے روکے رکھنا ، فحش اور بے ہودہ مناظر سے بچانا، حرام اور ناجائز امور سے اس کی حفاظت کرنا ، اپنے کانوں کو گانا ،موسیقی ، غیبت ،چغلی وغیرہ سننے سے بچائے رکھنا۔ اپنے ہاتھوں سے کسی کو ناحق تکلیف دینا ، مارنا ، لڑائی جھگڑا کرنا ، قتل وغارت گری ، ناحق فیصلے لکھنا ، حرام اور ناجائز امور میں ان کو استعمال کرنے سے رکے رہنا وغیرہ۔
معاشرے کو بدامنی ، انارکی ، سفاکی ،قتل وغارت گری ، فریب کاری ، دھوکہ دہی ، لوٹ مار، فراڈ سے پاک کرنے کیلیے ہمیں سب سے پہلے اپنے آپ کو نیک خصلتوں کا خوگر بنانا ہوگا ، ورنہ یہ کیسے ہو سکتا ہے ہم اپنی عادات بد سے باز بھی نہ آئیں اورپر سکون زندگی بھی گزاریں؟ رحمت دو جہاں صلی اللہ علیہ وسلم نے آج سے چودہ صدیاں قبل ان تمام امور کی نشاندہی فرما دی تھی جو فتنہ و فساد کا باعث ہیں اور ان تمام امور کی بھی جن سے ایک صالح معاشرہ تشکیل پاتا ہے۔ اس لیے رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات کے عملی تقاضے پورے کرنے کا وقت ہے۔ اللہ ہم سب کو اطاعت نبوی کی کامل توفیق عطا فرمائے۔
سراپا رحمتﷺ کی سیرتِ طیبہ
مخلوق خدا پر اپنے خالق لم یزل کی اتنی کرم نوازیاں اور انعامات و احسانات ہیں اگر جن و انس مل کر قیامت کی صبح تک بھی ان کا شمار کرنا چاہیں تو نہیں کر سکتے۔
وان تعدوا نعمۃ اللہ لا تحصوھا
محض کرم نوازیاں ہی نہیں بلکہ ان کی انتہا دیکھیں کہ کوئی نعمت دے کر احسان جتلایا نہیں۔ اپنوں پر بھی نعمتوں کی بارش غیروں کو بھی محروم نہیں کیا۔ لیکن ایک ایسی نعمت ہے جب وہ عطا کی تو خبردار کیا اور فرمایا
لقد من اللہ علی المومنین اذ بعث فیہم رسولا من انفسہم۔
ہم نے ایمان والوں پر احسان کیا کہ ان کے اندر انہی میں سے ایک رسول کو بھیجا۔
پھر اس نعمت کو اس طرح مزین کیا کہ جہاں کی ساری نعمتیں اس کے وجود میں گم کر دیں۔ اگر عبدیت نعمت ہے تو اس کو سبحٰن الذی اسریٰ بعبدہ کہہ کر اس کا مظہر اتم بنا دیا۔ اگر انسانیت نعمت ہے تو انما انا بشر مثلکم کا پیغام دے کر اس پر انسانیت کو ختم کردیا۔ اگر نبوت نعمت ہے تو ولٰکن رسول اللہ وخاتم النبیین کا تمغہ دے کر نبوت کو اسی پر مکمل فرما دیا۔ اگر اسلام نعمت ہے تو حرا کی تاریک غار سے اس کی روشنی کو ایسے عام کیا کہ کرہ ارضی بلکہ زمین و آسمان میں توحید و رسالت کے مینار روشن ہوئے۔ اگر قرآن نعمت ہے تو علیٰ قلبک کے مضبوط سینے پر اس کو نازل فرمادیا۔ اگر علم نعمت ہے تو علمک مالم تکن تعلم کا اعزاز دے کر اس کو معلم اعظم بنا دیا۔
اگر نرمی اور عفو و درگزر نعمت ہے تو حریص علیکم بالمومنین رؤف رحیم کا اسی کو خطاب دے دیا۔ اگر بشارت و خوشخبری نعمت ہے تو بشیراً کی صفت اس کے لیے بنا دی اگر خوف خداوندی نعمت ہے تو نذیراً کی طرف نگاہ اٹھاؤ تم اسی کو دیکھو گے۔ اگر تبلیغ دین نعمت ہے تو داعیاً الی اللہ باذنہ کا مصداق کامل تم اسی کو پائو گے۔ اگر حسن وجمال نعمت ہے تو دیکھو والضحیٰ جیسا چہرہ ہے ، واللیل جیسی کالی زلف ہے ، مازاغ البصر جیسی پیاری آنکھیں ہیں ، لاتحرک بہ جیسی نرم گفتار اور پر تاثیر زبان ہے
، الم نشرح لک صدرک
جیسا فراخ سینہ ہے ، طٰہٰ جیسی روشن پیشانی ہے ، یٰس جیسی وجاہت صرف اسی کی ہے۔
اگر صداقت کو نعمت کہتے ہو تو صدیق اکبر اس کے در کا غلام ہے۔ اگر عدالت نعمت ہے تو فاروق اعظم اس کے دربار کا پہریدار ہے ، اگر غنیٰ نعمت ہے تو اس مستغنی کے در پر عثمان غنی بھی اس کا تربیت یافتہ ہے۔ اگر شجاعت و دلیری نعمت ہے تو حیدر کرار اس کا ایک سپاہی ہے اگر تدبر و حلم نعمت ہے تو معاویہ بن ابی سفیان جیسا حلیم و بردبار بادشاہ اس کا پانی بھرتا ہے۔ اگر قوت و طاقت ، شوکت و سطوت ، ہیبت و جلال نعمتیں ہیں تو یہ اس کے گھر کی باندیاں ہیں اگر عفت و پاکدامنی، للہیت و تقویٰ، خشوع و خضوع، رحمدلی و اخوت ، محبت و مودت نعمتیں ہیں تو اصل میں اسی کا فیض کہلاتی ہیں۔
قصہ مختصر !گویا جس ذات میں تمام خوبیاں جوش مارتی ہوں اور تمام خامیاں و نقائص جس سے دور بھاگتے ہوں وما ارسلناک الا رحمۃ للعالمین کا سہرا سجائے خلق عظیم کے اس پیکر اعظم کو دیکھو جس کا پیغام سچا بھی ہے ، قابل عمل بھی ہے اور موجب امن بھی ہے۔ جس کی ذات کو قادرِ مطلق اور حکیم و خبیر ذات نے اسوۃ حسنۃقرار دیا ہے وہ سراپا عبدیت ، سراپا شرافت ، سراپا علم ، سراپا معرفت ، سراپا حسن و جمال ، سراپا صداقت ، سراپا انصاف ، سراپا عفت و حیا ، سراپا شجاعت ، سراپا عزیمت ، سراپا حکمت ، سراپا خوت اور سراپا رحمت نظر آتا ہے۔
امن وآشتی ، راحت و چین ، اطمینان و سکون کو جس ذات کی کسوٹی پر پرکھا جائے، علم و معرفت جس کے کردار و عمل سے پیدا ہو ، نظام عالم اورابدی قوانین جس کی زبان کے مرہون منت ہوں۔ بقول شاعر

بعد از خدا بزرگ توئی قصہ مختصر

اور بانی دارالعلوم دیوبند مولانا نانوتوی رحمہ اللہ کے بقول

جہاں کے سارے کمالات ایک تجھ میں ہیں

ربیع الاول کے مبارک مہینے میں
اذ اخذ اللہ میثاق النبیین لما اٰتیتکم من کتاب و حکمۃ ثم جائکم رسول
ایفائے عہد کی شکل میں نمودار ہوا۔ انسانوں کے خود تراشیدہ قوانین کی سنگلاخ اور پتھریلی زمین سے بے آب و گیاہ وادی مکہ میں ایسی کونپل نے جنم لیا جس نے شجرہ سایہ بن کر خدا کی ساری خدائی کو اپنی پناہ میں لے لیا۔ جہالت و لاقانونیت کے بادل چھٹے اور علم و امن کی برکھا رم جھم رم جھم برسی۔ یعنی آقا نامدار حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت باسعادت ہوئی۔
ظلم و سربریت کی آندھیوں نےمنہ موڑ لیا۔ جبر و جور کی چکیاں چکنا چور ہو گئیں ، کفر و شرک کی تاریکیاں دم توڑ گئیں ،مصنوعی معبود اوندھے منہ زمین پر آگرے ، آتش کدے بجھ گئے ، صنم کدوں میں بت پاش پاش ہوئے ، فسق وفجور کی منہ زور لہریں بیٹھ گئیں۔ نفرتیں ا ور عداوتیں ، اُنس و محبت میں بدلنا شروع ہوئیں ، سرکشی و نافرمانی؛ تسلیم و رضا اور اطاعت کے سانچے میں ڈھلنے لگیں۔
فاران کی چوٹیوں پر ایک ایسی باز گشت لگی کہ مقصد بعثت پیغمبر کی روح جاگ اٹھی ، ہرطرف خدا کی توحید کے ڈنکے بجنے لگے۔ معاشرے سے ناانصافی کو ختم کیا جانے لگا ، انسان کو خدا کے در پر لانے کی علمی اور عملی جدو جہد شروع ہوئی ، باطل نظام کے بجائے آفاقی اور آسمانی نظام نافذ ہونے لگا ، انسانیت سے سکھ کا سانس لیا ، لڑائی جھگڑے اور کٹنے مرنے کی باتیں ناپید ہونا شروع ہو گئیں۔ خدا کے باغیوں سے معرکے لڑے جانے لگے ، بدر واحد کی وادیاں تکبیر اور گھوڑوں کی ٹاپوں سے گونج اٹھیں۔
اسلام آگیا ، مسلمان کو اپنے معبود حقیقی کی معرفت نصیب ہوئی نبی نے ان کے قلوب کا تزکیہ کیا ، ان کے مابین تصفیہ کا عمل جاری کیا۔ اسی دوران ایک حکم نازل ہوا مااتاکم الرسول فخذوہ وما نہاکم عنہ فانتھوا۔ جو تمہیں میرا رسول [ محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم ] دے اسے لے لو اور جس سے روک دے اس سے رک جاؤ۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں عقیدہ توحید دیا ہم لے لیں ، کفر و شرک سے روکا ہم رک جائیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں عقیدہ ختم نبوت دیا ہم لے لیں ارتداد سے روکا ہم رک جائیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں قرآن دیا ہم لے لیں۔ تحریف شدہ اور تبدیل شدہ کتب سماویہ سے روکا ہم رک جائیں۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں سنت دی ہم لے لیں۔ بدعات و رسومات سے روکا ہم رک جائیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں مجتہد کی بات ماننے کا حکم دیا ہم مان لیں۔ اولیاء اللہ کی بے ادبی سے روکا ہم رک جائیں۔
اس لیے آج ہمیں سوچنا ہوگا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جس مقام پر ہم کو کھڑا کر کے گئے تھے ہم اس سے ہٹ تو نہیں رہے۔ ہم آج یہ فیصلہ کر لیں کہ ایمان و عمل والی زندگی بسر کرنی ہے۔ بدعقیدگی اور بدعملی سے دور رہنا ہے۔
مختصر یہ کہ ہمیں سنجیدگی سے اس پر غور کرنا ہوگا کہ ہمارے نبی پر جب ہمارے اعمال ان کے روضہ اقدس میں پیش کیے جاتے ہیں تو وہ ہماری کس بات سے خوش ہوتے ہیں۔ جب ان کے حکم کے مطابق ان کی سیرت کو اپنایا جائے یا محض ان کا میلاد منایا جائے؟” ماننے“ اور” منانے“ کے فرق کو ملحوظ رکھ کر فیصلہ کریں