طریقہ نماز

User Rating: 5 / 5

Star ActiveStar ActiveStar ActiveStar ActiveStar Active
 
طریقہ نماز
نیت کرنا:
:1 اللہ تعالی کا فرمان ہے:
وَمَااُمِرُوْااِلاَّ لِیَعْبُدُوْااللّٰہَ مُخْلِصِیْنَ لَہٗ الدِّیْنَ حُنَفَآئَ۔
(سورۃ البینۃ: 5)
ترجمہ: انہیں حکم دیا گیا تھا کہ اللہ تعالی کی عبادت کریں اُس کے لئے اپنے دین کو خالص کرکے یکسو ہو کر۔
:2 عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطِّابِ رضی اللہ عنہ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم اَلْاَعْمَالُ بِالنِّیَّاتِ۔
(مسند ابی حنیفۃ بروایت الحارثی ج1 ص250 رقم الحدیث264، صحیح البخاری ج 1ص 2باب کیف بدء الوحی الی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم )
ترجمہ: حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ اعمال کا دارومدار نیت پر ہے۔
استقبال قبلہ:
:1 اللہ تعالی کا فرمان ہے:
وَحَیْثُ مَاکُنْتُمْ فَوَلُّوْاوُجُوْھَکُمْ شَطْرَہٗ۔
(سورۃ البقرۃ: 144)
ترجمہ: اور تم جہاں کہیں بھی ہو تو پھیر دو اپنے چہروں کو اسی کی طرف۔
:2 عَنْ اَبِیْ ہُرَیْرَۃَ رضی اللہ عنہ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم اِذَا قُمْتَ اِلَی الصَّلٰوۃِ فَاسْبِغِ الْوُضُوْئَ ثُمَّ اسْتَقْبِلِ الْقِبْلَۃَ۔
(صحیح بخاری ج 2ص286 باب اذا حنث ناسیا فی الایمان،صحیح مسلم ج 1ص170 باب وجوب قراء الفاتحۃ فی کل رکعۃ )
ترجمہ: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جب تو نماز کے لئے کھڑا ہو تو اچھی طرح وضو کر اور پھر قبلہ کی طرف منہ کر۔
استقبال قبلہ کے و قت چہرہ قبلہ کی طرف ہونا:
عَنْ عَبْدِاللّٰہِ بْنِ عُمَرَ رضی اللہ عنہ قَالَ بَیْنَ النَّاسِ بِقُبَآئٍ فِیْ صَلٰوۃِ الصُّبْحِ اِذْ جَآئَ ہُمْ آتٍ فَقَالَ اِنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم قَدْ اُنْزِلَ عَلَیْہِ اللَّیْلَۃَ قُرْاٰنٌ وَقَدْاُمِرَاَنْ یَّسْتَقْبِلَ الْکَعْبَۃَ فَاسْتَقْبِلُوْھَاوَکَانَتْ وُجُوْھُھُمْ اِلَی الشَّامِ فَاسْتَدَ ارُوْااِلَی الْکَعْبَۃِ۔
(صحیح البخاری ج1 ص58 باب ما جا ء فی القبلۃ، صحیح مسلم ج 1ص200 باب تحویل القبلۃ۔۔)
ترجمہ: حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ لوگ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم مسجد قبا میں صبح کی نماز پڑھ رہے تھے کہ ایک آنے والا آیا اور کہنے لگا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر اس رات قرآن نازل ہوا ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم ہوا ہے کہ کعبہ کی طرف منہ کر لیں، تم بھی کعبہ کی طرف منہ کر لو۔ پہلے ان کے چہرے شام (بیت المقدس ) کی طرف تھے تو وہ (نماز ہی میں) کعبہ کی طرف پھر گئے۔
تکبیر کہتے ہوئے استقبال قبلہ کرنا:
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک آدمی کو نماز کا طریقہ سکھاتے ہوئے فرمایا:
ثُمَّ اسْتَقْبِلِ الْقِبْلَۃَ فَکَبِّرْ۔
( صحیح البخاری ج 2ص986 باب اذا حنث ناسیا فی الایمان، صحیح مسلم ج 1ص170 باب تحویل القبلۃ )
ترجمہ: پھر قبلہ کی طرف منہ کر۔
قیام کرنا:
:1 اللہ تعالی کا فرمان ہے۔
وَقُوْمُوْا لِلّٰہِ قَانِتِیْنَ۔
(سورۃ البقرۃ: 238)
ترجمہ: اور اللہ کے حضور عاجزی کے ساتھ کھڑے رہا کرو۔
:2 عَنْ عِمْرَانَ بْنَ حُصَیْنٍ رضی اللہ عنہ قَالَ: فَسَئَلْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم عَنِ الصَّلٰوۃِ فَقَالَ صَلِّ قَائِماً۔
(صحیح البخاری ج 1ص150 با ب اذا لم یطق قاعدا، سنن ابی داؤد ج 1ص144 باب فی صلوۃ القاعد )
ترجمہ: حضرت عمر ان بن حصین رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے نماز کے بارے میں پوچھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کھڑے ہو کر پڑھو۔
قیام میں نگاہیں سجدے کی جگہ رکھنا:
:1 عَنْ اَنَسٍ رضی اللہ عنہ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم یَااَنَسُ: اِجْعَلْ بَصَرَکَ حَیْثُ تَسْجُدُ۔
(السنن الکبری للبیہقی ج 2ص284 باب لایجاوز بصرہ موضع السجود، مشکوۃ المصابیح ج 1ص91 باب ما لا یجوز من العمل فی الصلوۃ)
ترجمہ: حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے انس ! اپنی نظر سجدے کی جگہ پر رکھو۔
:2 عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضی اللہ عنہ قَالَ کَان رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم اِذَااسْتَفْتَحَ الصَّلٰوۃَ۔۔۔۔۔۔ وَیَشْخَصُ بِبَصَرِہٖ اِلٰی مَوْضِعِ سُجُوْدِہٖ۔
(الترغیب والترھیب للاصبھانی ج2 ص421 فصل فی الترھیب من الالتفات فی الصلوۃ )
ترجمہ: حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب نماز شروع فرماتے تو اپنی نگاہوں کو سجدہ کی جگہ پر جمالیتے۔
تکبیر تحریمہ کہنا:
:1 اللہ تعالی کا فرمان ہے:
وَذَکَرَاسْمَ رَبِّہٖ فَصَلّٰی۔
(سورۃ الاعلیٰ: 15)
ترجمہ: اور اپنے رب کانام لیا پھر نماز پڑھی۔
:2 عَنْ عَلِیٍّ رضی اللہ عنہ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم: مِفْتَاحُ الصَّلٰوۃِ الطُّھُوْرُ وَتَحْرِیْمُھَاالتَّکْبِیْرُوَتَحْلِیْلُھَاالتَّسْلِیْمُ۔
(سنن ابی داؤد ج 1ص98 باب فی تحریم الصلوۃ، جامع الترمذی ج 1ص6 باب ما جاء فی مفتاح الصلوۃ الطھور )
ترجمہ: حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ نما زکی کنجی طہارت ہے۔ اس کی تحریم’’ اللہ اکبر‘‘ کہنا ہے اور اس کی تحلیل سلام پھیرنا ہے۔
الفاظ تکبیر:
:1 اللہ تعالی کا فرمان ہے۔
وَرَبَّکَ فَکَبِّرْ۔
(سورۃ المدثر: 3)
ترجمہ: اور اپنے رب کی بڑائی بیان کیجئے۔
:2 عَنْ مُحَمَّدِبْنِ مَسْلَمَۃَ رضی اللہ عنہ قَالَ اِنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم کَانَ اِذَا قَامَ یُصَلِّیْ تَطَوُّعاً قَالَ اَللّٰہُ اَکْبَرُ۔
(سنن النسائی ج 1ص143 باب نوع آخر من الذکر والدعا الخ،المعجم الکبیر للطبرانی ج8 ص226 رقم الحدیث 15857)
ترجمہ: حضرت محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب نفل نماز کے لئے کھڑے ہوتے تو’’ اللہ اکبر‘‘ کہتے۔
امام کا جہراً تکبیر کہنا:
عَنْ سَعِیْدِبْنِ الْحَارِثِ قَالَ: اِشْتَکیٰ اَبُوْھُرَیْرَۃَ رضی اللہ عنہ اَوْغَابَ فَصَلّٰی اَبُوْسَعِیْدِنِ الْخُدْرِیِ رضی اللہ عنہ فَجَھَرَ بِالتَّکْبِیْرِحِیْنَ اِفْتَتَحَ وَحِیْنَ رَکَعَ
(السنن الکبری للبیہقی ج 2ص 18باب جہر الامام بالتکبیر، صحیح البخاری ج 1ص114 باب یکبر وھو ینحض من السجدتین )
ترجمہ: حضرت سعید بن حارث رضی اللہ عنہما سے روایت ہے:
ایک بار حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیمار ہوگئے یا کہیں گئے ہوئے تھے ( اس میں راوی کو شک ہے )توحضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے نماز پڑھائی تو تکبیر کو بلند آواز سے کہا جب نماز شروع کی اور جب رکوع کیا۔
مقتدی و منفرد کا سراً تکبیر کہنا:
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے مرض وفات کی نماز کا ذکر کرتے ہوئے فرماتی ہیں:
خَرَجَ النَّبِیُّ صلی اللہ علیہ وسلم یُھَادِیْ بَیْنَ رَجُلَیْنِ کَاَنِّیْ اَنْظُرُ اِلَیْہِ یَخُطُّ بِرِجْلَیْہِ الْاَرْضَ فَلَمَّارَاٰہُ اَبُوْبَکْرٍ رضی اللہ عنہ ذَھَبَ یَتَاَخَّرُفَاَشَارَاِلَیْہِ اَنْ صَلِّ فَتَاَخَّرَاَبُوْبَکْررضی اللہ عنہ وَقَعَدَ النَّبِیُّ صلی اللہ علیہ وسلم اِلٰی جَنْبِہٖ وَاَبُوْبَکْرٍ رضی اللہ عنہ یُسْمِعُ النَّاسَ التَکْبِیْرَ۔
(صحیح بخاری ج1 ص98۔99 باب من اسمع الناس تکبیر الامام )
ترجمہ: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم دو آدمیوں کے بیچ میں سہارا لیتے ہوئے باہر تشریف لے گئے گویا میں اِس وقت بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف دیکھ رہی ہوں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دونوں پیر زمین پر گھسٹتے جاتے ہیں۔ جب حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا تو پیچھے ہٹنے لگے لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو فرمایا کہ پڑھو چنانچہ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کچھ پیچھے ہٹنے لگے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پہلو میں بیٹھ گئے۔ اور ابو بکررضی اللہ عنہ لوگوں کو تکبیر سناتے جاتے تھے
چار رکعت نمازمیں بائیسں تکبیریں ہیں:
:1 عَنْ عِکْرَمَۃَ قَالَ صَلَّیْتُ خَلْفَ شَیْخٍ بِمَکَۃَ فَکَبَّرَ ثِنَتَیْنِ وَعِشْرِیْنَ تَکْبِیْرَۃً۔
( صحیح البخاری ج1 ص108 باب التکبیر اذا قام من السجود )
ترجمہ: حضرت عکرمہ رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ میں نے مکہ میں ایک شیخ کے پیچھے نماز پڑھی تو انہوں نے بائیس تکبیریں کہیں۔
فائدہ: ’’شیخ‘‘سے مراد حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ ہیں جیسا کہ سنن طحاوی ج 1ص161 پر تصریح موجود ہے۔
:2 حضرت ابو مالک اشعری رضی اللہ عنہ نے ایک بار لوگوں کو جمع کرکے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ نماز سکھایا:اس حدیث میں یہ الفاظ ہیں:
’’ثُمَّ صَلّٰی بِھِمُ الظُّھْرَ فَکَبَّرَفِیْھِمَا ثِنَتَیْنِ وَعِشْرِیْنَ تَکْبِیْرَۃً‘‘
(مصنف عبد الرزاق ج2 ص40 باب التکبیر،رقم الحدیث 2509 )
ترجمہ: آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو ظہر کی نماز پڑھائی اور اس میں بائیس تکبیریں کہیں۔
شروع نماز میں رفع یدین کرنا:
:1 عَنِ ابْنِ عُمَرَوَابْنِ عَبَّاسٍ رضی اللہ عنہ عَنِ النَّبِیِّ صلی اللہ علیہ وسلم قَالَ تُرْفَعُ الْاَیْدِیْ فِیْ سَبْعِ مَوَاطِنَ …فِیْ اِفْتِتَاحِ الصَّلٰوۃِ۔
(شرح معانی الٓاثار ج1 ص416 باب رفع الیدین عند رویت البیت )
ترجمہ: حضرت ابن عمراور حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا سات مقامات پر ہاتھوں کو اٹھایا جاتا ہے (ان میں سے ایک) شروع نماز میں۔ یعنی تکبیر تحریمہ کے وقت
:2 عَنْ وَائِلِ بْنِ حُجْرٍ رضی اللہ عنہ قَالَ رَاَیْتُ النَّبِیَّ صلی اللہ علیہ وسلم حِیْنَ افْتَتَحَ الصَّلٰوۃَ رَفَعَ یَدَیْہِ
(سنن ابی داؤد ج1 ص112 باب تفریع استفتاح الصلوۃ )
ترجمہ: حضرت وائل بن حجر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ جب نماز شروع کی تورفع یدین کیا۔
رفع یدین کی کیفیت:
عَنْ اَبِیْ ہُرَیْرَۃَ رضی اللہ عنہ قَالَ کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم اِذَاکَبَّرَ لِلصَّلٰوۃِ نَشَرَاَصَابِعَہٗ۔
(جامع الترمذی ج 1ص 56باب نشر الاصابع عند التکبیر، صحیح ابن خزیمہ ج 1ص263 باب نشر الاصابع عند رفع الیدین..۔ رقم الحدیث 458)
ترجمہ: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب نمازکے لئے تکبیر کہتے تو اپنی انگلیوں کو کھلا رکھتے۔
تکبیر تحریمہ کے وقت ہاتھ کہاں تک اٹھائے جائیں؟
:1 عَنْ وَائِلِ بْنِ حُجْرٍ قَالَ اِنَّہٗ رَاَیٔ النَّبِیَّ صلی اللہ علیہ وسلم اِذَا افْتَتَحَ الصَّلٰوۃَ رَفَعَ یَدَیْہِ حَتیّٰ تَکَادَ اِبْھَامَاہُ تُحَاذِیْ شَحْمَۃَ اُذُنَیْہِ۔
(سنن النسائی ج 1ص141 باب موضع الابھامین عند الرفع، سنن ابی داؤد ج 1ص 112باب تفریع استفتاح الصلوٰۃ، مصنف ابن ابی شیبہ ج 2ص406باب الی این یبلغ بیدہ،رقم الحدیث2425 )
ترجمہ: حضرت وائل بن حجر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ جب نماز شروع فرماتے تو رفع یدین کرتے یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دونوں انگوٹھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے کانوں کی لو کے برابر ہو جاتے۔
:2 عَنْ مَالِکِ بْنِ الْحُوَیْرِثِ رضی اللہ عنہ قَالَ اِنَّ رَسُوْلَ اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم کَانَ اِذَا کَبَّرَرَفَعَ یَدَیْہِ حَتیّٰ حَاذٰی بِھِمَا اُذُنَیْہِ… وَفِیْ رِوَایَۃٍ… حَتیّٰ یُحَاذِیَ بِھِمَا فُرُوْعَ اُذُنَیْہِ۔
(المحلی بالآثارلابن حزم ج2 ص264 تحت مسئلہ 35،مصنف ابن ابی شیبہ ج2 ص407 باب الی این یبلغ بیدہ، رقم الحدیث2427 )
ترجمہ: حضرت مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب تکبیر کہتے تھے تو دونوں ہاتھوں کو اٹھاتے تھے یہاں تک کہ انہیں کانوں کے قریب کر لیتے ایک روایت میں ہے کہ اپنے کانوں کی لو کے برابر کر لیتے تھے۔
رفع یدین میں ہتھیلیوں کا قبلہ رخ ہونا:
عَنِ ابْنِ عُمَرَ رضی اللہ عنہ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم اِذَااسْتَفْتَحَ اَحَدُکُمْ (الصَّلٰوۃَ)فَلْیَرْفَعْ یَدَیْہِ وَلْیَسْتَقْبِلْ بِبَاطِنِھِمَا الْقِبْلَۃَ فَاِنَّ اللّٰہَ اَمَامَہٗ۔
(المعجم الاوسط للطبرانی ج 6ص9 رقم الحدیث 7801،السنن الکبری للبیہقی ج2 ص27 باب کیفیۃ رفع الیدین، مجمع الزوائد ج 2ص 270باب رفع الیدین فی الصلوٰۃ رقم الحدیث 2589)
ترجمہ: حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب تم میں سے کوئی نماز شروع کرے تو دونوں ہاتھوں کو اٹھائے اور ہتھیلیوں کو قبلہ رخ کرے کیونکہ اللہ تعالی اس کے سامنے ہوتا ہے۔
دائیں ہاتھ سے بائیں کو پکڑنا:
عَنِ ابْنِ عَبَّاس رضی اللہ عنہ اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم قَالَ اِنَّا مَعْشَرَالْاَنْبِیَائِ اُمِرْنَااَنْ نُؤَخِّرَسُحُوْرَنَا وَنُعَجِّلَ فِطْرَنَاوَاَنْ نُمْسِکَ بِاَیْمَانِنَاعَلٰی شَمَائِلِنَا فِیْ صَلٰوتِنَا۔
( صحیح ابن حبان ص 555.554ذکر الاخبار عما یستحب للمرئ، رقم الحدیث 1770، المعجم الکبیر للطبرانی ج 5ص233 رقم الحدیث 10693،المعجم الاوسط ج 3ص 179 رقم الحدیث 4249)
ترجمہ: حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہم انبیاء علیہم السلام کی جماعت کو یہ حکم دیا گیا ہے کہ سحری تاخیر سے کریں، افطار جلدی کریں اور نماز میں اپنے دائیں ہاتھ سے بائیں ہاتھ پر رکھ کر پکڑیں۔
دائیں ہاتھ کو بائیں ہاتھ کے گٹے (کلائی )پر رکھنا:
:1 عَنْ وَائِلِ بْنِ حُجْرٍ رضی اللہ عنہ قَالَ: لَاَ نْظُرَنَّ اِلٰی رَسُوْلِ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم کَیْفَ یُصَلِّیْ؟ قَالَ فَنَظَرْتُ اِلَیْہِ قَامَ فَکَبَّرَ وَرَفَعَ یَدَیْہِ حَتّٰی حَاذَتَا اُذُنَیْہِ ثُمَّ وَضَعَ یَدَہٗ الْیُمْنٰی عَلٰی ظَھْرِکَفِّہِ الْیُسْریٰ وَالرُّسْغِ وَالسَّاعِدِ۔
(صحیح ابن حبان ص 577ذکر ما یستحب للمصلی رفع الیدین۔۔ رقم الحدیث 1860،سنن النسائی ج1 ص141 باب موضع الیمین من الشمال فی الصلوٰۃ، سنن ابی داؤد ج 1ص112 باب تفریع استفتاح الصلوٰۃ )
ترجمہ: حضرت وائل بن حجر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک بار میں نے کہا کہ دیکھوں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کیسے نماز پڑھتے ہیں؟
تو میں نے دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نما زکے لئے کھڑے ہوئے، تکبیر کہی اور اپنے دونوں ہاتھ اٹھائے یہاں تک کہ کانوں کے قریب کر لئے پھر اپنا دایاں ہاتھ بائیں ہاتھ کی پشت، گٹے اور کلائی پر رکھا۔
:2 عَنْ سَھْلِ بْنِ سَعْدٍ رضی اللہ عنہ قَالَ کَانَ النَّاسُ یُؤْمَرُوْنَ اَنْ یَّضَعَ الرَّجُلُ الْیَدَ الْیُمْنٰی عَلٰی ذِرَاعِہِ الْیُسْریٰ فِی الصَّلٰوۃِ۔
(صحیح البخاری ج 1ص 102باب وضع الیمنی علی الیسریٰ)
ترجمہ: حضرت سہل بن سعد رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ لوگوں (یعنی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم و تابعین رحمہم اللہ کو حکم دیا جاتا کہ نمازکے وقت آدمی اپنے دائیں ہاتھ کو بائیں کلائی پر رکھے۔
ناف کے نیچے ہاتھ باندھنا:
:1 عَنْ وَائِلِ بْنِ حُجْرٍ رضی اللہ عنہ قَالَ رَاَیْتُ النَّبِیَّ صلی اللہ علیہ وسلم وَضَعَ یَمِیْنَہٗ عَلَی شِمَالِہٖ فِی الصَّلٰوۃِ تَحْتَ السُّرَّۃِ۔
 (مصنف ابن ابی شیبۃ ج3 ص321،322، وضع الیمین علی الشمال،رقم الحدیث 3959 )
ترجمہ: حضرت وائل بن حجر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز میں دائیں ہاتھ کو بائیں ہاتھ پر ناف کے نیچے رکھے ہوئے تھے۔
:2 عَنْ عَلِیٍّ رضی اللہ عنہ قَالَ اِنَّ مِنَ السُّنَّۃِ فِی الصَّلٰوۃِ وَضْعَ الْاَکُفِّ عَلَی الْاَکُفِّ تَحْتَ السُّرُّۃِ۔
(الاحادیث المختارہ للمقدسی ج2 ص387 رقم الحدیث 771,مصنف ابن ابی شیبۃ ج 3ص324، وضع الیمین علی الشمال، رقم الحدیث 3966 )
ترجمہ: حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نماز میں سنت یہ ہے کہ اپنے (دائیں)ہاتھ کو (بائیں) ہاتھ پر ناف کے نیچے رکھا جائے۔
:3 عَنْ اَنَسٍ رضی اللہ عنہ قَالَ ثَلاَثٌ مِّنْ اَخْلَاقِ النُّبُوَّۃِ تَعْجِیْلُ الْاِفْطَارِ وَ تَاخِیْرُ السُّحُوْرِ وَوَضْعُ الْیَدِالْیُمْنٰی عَلَی الْیُسْریٰ فِی الصَّلٰوۃِ تَحْتَ السُّرَّۃِ۔
(الجوہر النقی علی البیہقی ج2 ص32 باب وضع الیدین علی الصدر فی الصلوۃ )
ترجمہ: حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ تین چیزیں نبوت کے اخلاق میں سے ہیں۔
: 1 روزہ جلدی افطار کرنا۔
:2 سحری دیر سے کھانا۔
: 3 نماز میں دائیں ہاتھ کو بائیں پر ناف کے نیچے رکھنا۔
ثنائ سبحانک اللھم پڑھنا:
عَنْ اَبِیْ سَعِیْدٍ رضی اللہ عنہ قَالَ کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم اِذَاافْتَتَحَ الصَّلٰوۃَ قَالَ سُبْحَانَکَ اللّٰھُمَّ وَبِحَمَدِکَ وَتَبَارَکَ اسْمُکَ وَتَعَالٰی جَدُّکَ وَلَا اِلٰہَ غَیْرُکَ۔
( سنن النسائی ج 1ص143 باب نوع آخر من الذکر )
ترجمہ: حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب نماز شروع فرماتے تو سُبْحَانَکَ اللّٰھُمَّ وَبِحَمَدِکَ آخر تک پڑھتے تھے۔
ترجمۂِ ثنائ: اے اللہ! تو( شریکوں سے) پاک ہے،تیری تعریف کرتا ہوں، تیرا نام برکت والا ہے، تیری شان سب سے او نچی ہے اور تیرے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں۔
:2 عَنْ عَبْدَۃَ اَنَّ عُمَرَبْنَ الْخَطَّابِ رضی اللہ عنہ کَانَ یَجْھَرُبِھٰؤُلَائِ الْکَلِمَاتِ یَقُوْلُ سُبْحَانَکَ اللّٰھُمَّ وَبِحَمَدِکَ وَتَبَارَکَ اسْمُکَ وَتَعَالٰی جَدُّکَ وَلَا اِلٰہَ غَیْرُکَ۔
(صحیح مسلم ج1 ص172 باب حجۃ من قال لا یجھر بالبسملۃ )
ترجمہ: حضرت عبدہ فرماتے ہیں کہ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ ان کلمات کو بلند آواز سے کہتے تھے
سُبْحَانَکَ اللّٰھُمَّ وَبِحَمَدِکَ
آخر تک۔ غالباً یہ تعلیم کے لئے ہوگا
ثناء سراً پڑھنا:
عَنْ اِبْرَاھِیْمَ قَالَ اَرْبَعٌ یُخَافِتُ بِھِنَّ الْاِمَامُ …سُبْحَانَکَ اللّٰھُمَّ وَبِحَمَدِکَ۔
(کتاب الآثار لابی حنیفۃ ج 1ص 108رقم الحدیث83 باب الجہر ببسم اللہ الرحمن الرحیم، مصنف عبد الرزاق ج2 ص57 باب ما یخفی الامام، رقم الحدیث 2599 )
ترجمہ: حضرت ابراہیم نخعی رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ چار چیزیں ہیں جنہیں امام آہستہ پڑھے ان میں پہلی
سَبْحَانَکَ اللّٰھُمَّ وَبِحَمْدِکَ
ہے۔
اعوذ باللہ پڑھنا:
:1 اللہ تعالی کا فرمان ہے:
وَاِذَا قَرَأْتَ الْقُرْاٰنَ فَاسْتَعِذْ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ۔
(سورۃ النحل: 98)
ترجمہ: جب آپ قرآن کی تلاوت کیا کریں تو شیطان مردود سے بچاؤ کے لئے اللہ کی پناہ مانگ لیا کریں۔ (یعنی اعوذ باللہ پڑھا کریں)
:2 عَنْ اَبِیْ سَعِیْدِ الْخُدْرِیِّ رضی اللہ عنہ اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم کَانَ یَقُوْلُ قَبْلَ الْقِرَائَ ۃِ اَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ۔
(مصنف عبد الرزاق ج 2ص 56 باب متی یستعیذ، رقم الحدیث 2599)
ترجمہ: حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قرات سے قبل
اَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ
پڑھتے تھے۔
بسم اللہ پڑھنا:
:1 عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضی اللہ عنہ قَالَ کَانَ النَّبِیُّ صلی اللہ علیہ وسلم یَفْتَتِحُ صَلٰوتَہٗ بِبِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔
(جامع الترمذی ج1 ص57 باب من رای الجھر ببسم اللہ )
ترجمہ: حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بسم اللہ الرحمن الرحیم کے ساتھ نماز شروع فرماتے تھے۔
: 2عَنِ ابْنِ عُمَرَ رضی اللہ عنہ اَنَّہٗ اِذَا کَانَ افْتَتَحَ الصَّلٰوۃَ قَرَئَ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔
(مصنف ابن ابی شیبہ ج1 ص449 باب من کان یجھر بھا )
ترجمہ: حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ جب نماز شروع کرتے تو بسم اللہ الرحمن الرحیم پڑھتے تھے
اعوذ باللہ اور بسم اللہ آہستہ پڑھنا:
:1 عَنْ اَنَسٍ رضی اللہ عنہ قَالَ صَلَّیْتُ مَعَ رَسُوْلِ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم وَاَبِیْ بَکْرٍ رضی اللہ عنہ وعمَرَ رضی اللہ عنہ وَعُثْمَانَ رضی اللہ عنہ فَلَمْ اَسْمَعْ اَحَدًا مِّنْھُمْ یَقْرَئُ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔
(صحیح مسلم ج 1ص172 باب حجۃ من قال لایجھر بالبسملۃ )
ترجمہ: حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ، حضرت عمر رضی اللہ عنہ اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے پیچھے نما ز پڑھی ہے۔ میں نے ان میں سے کسی سے بھی نہیں سنا کہ وہ بسم اللہ الرحمن الرحیم پڑھتے ہوں۔
:2 عَنْ اَنَسٍ رضی اللہ عنہ اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم کَانَ یُسِرُّ بِبِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ فِی الصَّلٰوۃِ وَاَبُوْبَکْرٍ رضی اللہ عنہ وَّعُمَرُ رضی اللہ عنہ۔
(صحیح ابن خزیمۃ ج1 ص277 باب ذکر خبر غلط فی الاحتجاج بہ۔۔، رقم الحدیث 494)
ترجمہ: حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت ابوبکراور حضرت عمر رضی اللہ عنہ نماز میں بسم اللہ الرحمن الرحیم آہستہ پڑھتے تھے۔
:3 عَنْ اَبِیْ وَائِلٍ رضی اللہ عنہ قَالَ کَانَ عُمَرُوَعِیٌّ رضی اللہ عنہ لَایَجْھَرَ انِ بِبِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ وَلَا بِالتَّعَوُّذِوَ لاَبِالتَّامِیْنِ۔
(شرح معانی الآثار ج 1ص 150باب قراء ۃ بسم اللہ الرحمن الرحیم فی الصلوۃ )
ترجمہ: حضرت ابو وائل رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت عمر اور حضرت علی رضی اللہ
عنہ بسم اللہ الرحمن الرحیم، اعوذ باللہ
اور آمین بلند آواز سے نہیں کہتے تھے۔
:4 عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ رضی اللہ عنہ اَنَّہٗ کَانَ یُخْفِیْ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ وَالْاِسْتِعَاذَۃَ وَرَبَّنَالَکَ الْحَمْدُ۔
(مصنف ابن ابی شیبۃ ج 3ص374، من کان لایجھر ببسم اللہ، رقم الحدیث4160 )
ترجمہ: حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم، تعوذ اور َرَبَّنَا لَکَ الْحَمْد
آہستہ آواز میں کہتے تھے۔
امام و منفرد کا فاتحہ کے ساتھ سورۃ ملانا:
:1 عَنْ عُبَادَۃَ بْنِ الصَّامِتِ رضی اللہ عنہ یُبَلِّغُ بِہِ النَّبِیَّ صلی اللہ علیہ وسلم قَالَ لَا صَلٰوۃَ لِمَنْ لَّمْ یَقْرَئْ بِفَاتِحَۃِ الْکِتَابِ فَصَاعِدًاقَالَ سُفْیَانُ لِمَنْ یُّصَلِّیْ وَحْدَہٗ۔
(سنن ابی داؤد ج 1ص126 باب من ترک القراء ۃ فی صلٰوتہ،صحیح مسلم ج1 ص169 باب وجوب قراء ۃ الفاتحۃ فی کل رکعۃ، سنن النسائی ج 1ص145 باب ایجاب قراء ۃ فاتحۃ الکتاب فی الصلوٰۃ )
ترجمہ: حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو سورۃ فاتحہ اور اس سے زائد (یعنی ایک اور سورۃ) نہ پڑھے تو اس کی نماز نہیں ہوتی۔ اس حدیث کے راوی سفیان رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ یہ حکم اس شخص کے لئے ہے جو اکیلے نماز پڑھ رہا ہو۔
:2 عَنْ اَبِیْ سَعِیْدٍ رضی اللہ عنہ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم لَاصَلٰوۃَ لِمَنْ لَمْ یَقْرَئْ بِالْحَمْدِ وَسُوْرَۃٍ فِیْ فَرِیْضَۃٍ اَوْغَیْرِھَا۔
(جامع الترمذی ج 1ص 55باب ما جا ء فی تحریم الصلوٰۃ وتحلیلھا، سنن ابن ماجہ ج 1ص60 باب القراء ۃ خلف الامام )
ترجمہ: حضرت ابو سعیدرضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اس شخص کی نماز نہیں ہوتی جو فرض نماز یا اس کے علاوہ (نفل وغیرہ) میں الحمد للہ اور کوئی دوسری سورت نہ پڑھے۔
فاتحہ کے بعد نئی سورت سے پہلے بسم اللہ پڑھنا:
:1 عَنْ اَنَس رضی اللہ عنہ اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم کَانَ یُسِرُّ بِبِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ فِی الصَّلٰوۃِ وَاَبُوْبَکَرٍوَعُمَرُ رضی اللہ عنہ۔
(صحیح ابن خزیمۃ ج1 ص277 باب ذکر خبر غلط فی الاحتجاج بہ۔۔، رقم الحدیث 494)
ترجمہ: حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت ابو بکر اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ نماز میں بسم اللہ الرحمن الرحیم آہستہ پڑھتے تھے۔
:2 عَنِ ابْنِ عُمَرَ رضی اللہ عنہ اَنَّہٗ کَانَ اِذَاافْتَتَحَ الصَّلٰوۃَ قَرَئَ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ فَاِذَا فَرَغَ مِنَ الْحَمْدِ قَرَئَ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔
( مصنف ابن ابی شیبۃ ج 3ص377، من کا ن یجھر بھا،رقم الحدیث 4178 )
ترجمہ:حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ جب نماز شروع فرماتے تو بسم اللہ الرحمن الرحیم پڑھتے تھے اور جب سورۃ فاتحہ کی قرات سے فارغ ہوتے تو بسم اللہ الرحمن الرحیم پڑھتے
قرات کے وقت مقتدیوں کا خاموش رہنا:
:1 اللہ تعالی کا فرمان ہے:
وَاِذَاقُرِیَٔ الْقُرْآنُ فَاسْتَمِعُوْالَہٗ وَاَنْصِتُوْالَعَلَّکُمْ تُرْحَمُوْنَ۔
(اعراف: 204)
ترجمہ: جب قرآن پڑھا جائے تو غور سے سنو اور خاموش رہو تاکہ تم پر رحم کیا جائے۔
:2 عَنْ مُحَمَّدِبْنِ کَعْبِ الْقُرَظِیِّ رضی اللہ عنہما قَالَ کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم اِذَاقَرَئَ فِی الصَّلٰوۃِ اَجَابَہٗ مَنْ وَّرَائَہٗ اِنْ قَالَ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ قَالُوْامِثْلَ مَایَقُوْلُ حَتّٰی تَنْقَضِیَ الْفَاتِحَۃُ وَالسُّوْرَۃُ فَلَبِثَ مَا شَائَ اللّٰہُ اَنْ یَّلْبِثَ ثُمَّ نَزَلَتْ وِاِذَاقُرِیَٔ الْقُرْآنُ فَاسْتَمِعُوْالَہٗ وَاَنْصِتُوْا لَعَلَّکُمْ تُرْحَمُوْنَ فَقَرَئَ وَاَنْصَتُوْا۔
(تفسیر ابن ابی حاتم الرازی ج4 ص259 حدیث نمبر9493)
ترجمہ: حضرت محمد بن کعب قرظی رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب نماز میں قرات کرتے تھے تو مقتدی بھی آپ کے پیچھے پیچھے قرات کرتے تھے۔ چنانچہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم بسم اللہ الرحمن الرحیم کہتے تو مقتدی بھی اسی طرح کہتے یہاں تک کہ سورۃ فاتحہ اور دوسری سورت ختم ہو جاتی۔ یہ معاملہ جب تک اللہ تعالی نے چاہا چلتا رہا۔ پھر آیت وِاِذَاقُرِیَٔ الْقُرْآنُنازل ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم قرات کرتے تھے اور صحابہ رضی اللہ عنہم خاموش رہتے تھے۔
:3 قَالَ الْعَلَّامَۃُ ابْنُ تَیْمِیَّۃَ: وَقَوْلُ الْجُمْھُوْرِھُوَالصَّحِیْحُ فَاِنَّ اللّٰہَ سُبْحَانَہٗ وَتَعَالٰی قَالَ وَاِذَاقُرِیَٔ الْقُرْآنُ فَاسْتَمِعُوْا لَہٗ وَاَنْصِتُوْالَعَلَّکُمْ تُرْحَمُوْنَ قَالَ اَحْمَدُ اَجْمَعَ النَّاسُ عَلٰی اَنَّھَا نَزَلَتْ فِی الصَّلٰوۃِ۔
(فتاوی ابن تیمیۃ ج22 ص150، باب صفۃ الصلوۃ )
ترجمہ: علامہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں جمہور حضرات کا قول صحیح ہے کیونکہ اللہ سبحانہ و تعالی نے فرمایا ہے کہ جب قرآن پڑھا جائے تو غور سے سنو اور خاموش رہو تاکہ تم پر رحم کیا جائے امام احمدرحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ لوگوں کا اس پر اتفاق ہے کہ یہ آیت (اعراف: 204) نماز کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔
:4 عَنْ اَبِیْ ہُرَیْرَۃَ رضی اللہ عنہ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم اِنَّمَاجُعِلَ الْاِمَامُ لِیُؤْتَمَّ بِہٖ فَاِذَا کَبَّرَفَکَبِّرُوْاوَاِذَاقَرَئَ فَاَنْصِتُوْا وَاِذَا قَالَ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْہِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ فَقُوْلُوْا اٰمِیْنَ۔
(سنن ابن ماجۃ ج1 ص61 باب اذا قرء الامام فانصتوا، مصنف ابن ابی شیبۃ ج3ص282،من کرہ القراء ۃ خلف الامام، رقم الحدیث3820، سنن النسائی ج 1ص146 باب تاویل قولہ عزوجل واذا قریٔ القرآن )
ترجمہ: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: امام اس لئے بنایا جاتا ہے کہ اس کی اتباع کی جائے، جب وہ تکبیر کہے تو تم بھی تکبیر کہو! جب وہ قرات کرے تو تم خاموش رہو اور جب غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْہِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ کہے تو تم’’ آمین’’ کہو۔‘‘
:5 عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللّٰہِ رضی اللہ عنہ اَنَّ رَجُلاً قَرَاَخَلْفَ النَّبِیِّ صلی اللہ علیہ وسلم فِی الظُّھْرِاَوِالْعَصْرِقَالَ قَالَ فَاَوْمَاَاِلَیْہِ رَجُلٌ فَنَھَاہُ فَاَبٰی فَلَمَّا انْصَرَفَ قَالَ اَتَنْھَانِیْ اَنْ اَقْرَئَ خَلْفَ النَّبِیِّ صلی اللہ علیہ وسلم فَتَذَاکَرْنَاذٰلِکَ حَتّٰی سَمِعَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم فَقَالَ النَّبِیُّ صلی اللہ علیہ وسلم مَنْ صَلّٰی خَلْفَ اِمَامٍ فَاِنَّ قِرَائَۃَ الْاِمَامِ لَہٗ قِرَائَ ۃٌ۔
(کتاب الآثار لابی حنیفۃ بروایۃ القاضی ص 23.24باب افتتاح الصلوٰۃ)
ترجمہ: حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک آدمی نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے ظہر یا عصر کی نمازمیں قرات کی تو ایک آدمی نے اس کی طرف اشارہ کیا اور اسے قرات کرنے سے روکا لیکن وہ شخص نہ رکا۔
جب وہ نماز پڑھ کر فارغ ہوا تو روکنے والے کو کہا کہ تو مجھے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے قرات کرنے سے روکتا ہے؟
ہم نے اس بات کا تذکرہ کیا یہاں تک کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سن لیاتو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جو امام کے پیچھے نماز پڑھے تو امام کی قرات ہی مقتدی کی قرات ہے۔
امام کی قراء ت ہی مقتدی کی قراء ت ہے:
:1 عَنْ جَابِرٍ رضی اللہ عنہ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم مَنْ کَانَ لَہٗ اِمَامٌ فَقِرَائَ ۃُ الْاِمَامِ لَہٗ قِرَائَ ۃٌ۔
( اتحاف الخیرۃ المھرۃ ج 2ص216 باب ترک القراء ۃ خلف الامام، رقم الحدیث1832 )
ترجمہ: حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو امام کے پیچھے نماز پڑھ رہا ہو تو امام کی قراء ۃ ہی اس کی قرات ہے۔
:2 عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عُمَرَ رضی اللہ عنہ کَانَ اِذَا سُئِلَ ھَلْ یَقْرَئُ اَحَدٌ خَلْفَ الْاِمَامِ؟ قَالَ اِذَا صَلّٰی اَحَدُکُمْ خَلْفَ الْاِمَامِ فَحَسْبُہٗ قِرَائَ ۃُ الْاِمَامِ وَاِذَاصَلّٰی وَحْدَہٗ فَلْیَقْرَئْ۔۔۔۔ وَکَانَ عَبْدُاللّٰہِ رضی اللہ عنہ لَایَقْرَئُ خَلْفَ الْاِمَامِ۔
(موطا امام مالک ص 68باب ترک القراء ۃ خلف الامام فیما جھر فیہ، مصنف عبد الرزاق ج2 ص 91باب القراء ۃ خلف الامام رقم الحدیث 2818.2817، شرح معانی الآثار ج1 ص160 باب القراء ۃ خلف الامام )
ترجمہ: حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے جب یہ سوال کیا جاتا کہ اگر کوئی امام کے پیچھے ہو تو کیا قرات کرے؟
تو آپ یہ فرماتے تھے کہ جب کوئی امام کے پیچھے نماز پڑھ رہا ہو تو اسے امام کی قرات کافی ہے اور اگر اکیلا پڑھ رہا ہو تو پھر قرات کرے اور حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ خود امام کے پیچھے قرات نہیں کرتے تھے۔
امام’’ ولاالضآ لین‘‘ کہے تو آمین کہنا:
:1 عَنْ اَبِیْ ہُرَیْرَۃَ رضی اللہ عنہ اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم قَالَ اِذَا قَالَ الْاِمَامُ وَفِیْ رِوَایَۃٍ اِذَاقَالَ الْقَارِیُٔ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْہِمْ وَلَا الضَّالِّیْنَ فَقُوْلُوْا اٰمِیْنَ۔
(صحیح البخاری ج 1ص108 باب جھر الما موم بالتامین، صحیح مسلم ج 1ص176 باب التسمیع و التحمید والتامین )
ترجمہ: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب امام
غیر المغضوب علیہم ولا الضالین
کہے تو تم آمین کہا کرو۔
:2 عَنْ اَبِیْ ہُرَیْرَۃَ رضی اللہ عنہ اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم قَالَ اِذَااَمَّنَ الْاِمَامُ فَاَمِّنُوْا۔
(صحیح البخاری ج 1ص108 باب جھر الامام بالتامین، صحیح مسلم ج 1ص176 باب التسمیع والتحمید والتامین )
ترجمہ: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جب امام آمین کہے تو تم بھی آمین کہو۔
امام، مقتدی اور منفرد کا آمین آہستہ کہنا:
:1 عَنْ وَائِلِ بْنِ حُجْرٍ رضی اللہ عنہ قَالَ اِنَّہٗ صَلّٰی مَعَ رَسُوْلِ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم فَلَمَّاقَرَئَ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْہِمْ وَلَاالضَّالِّیْنَ قَالَ اٰمِیْنَ خَفَضَ بِھَا صَوْتَہٗ۔
(مسند ابی داؤد الطیالسی ج1ص577 رقم الحدیث 1117، مسند احمد ج14ص285 رقم الحدیث 18756،المعجم الکبیر للطبرانی ج9 ص138رقم الحدیث 17472)
ترجمہ: حضرت وائل بن حجر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھی جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے
غیر المغضوب علیہم ولا الضالین
کہا تو آمین آہستہ آواز سے کہا۔
:2 عَنْ اَبِیْ وَائِلٍ رضی اللہ عنہما قَالَ کَانَ عُمَرُوَعَلِیٌّ رضی اللہ عنہ لَا یَجْھَرَانِ بِبِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ وَلَابِالتَّعَوُّذِ وَلَابِالتَّامِیْنِ۔
(شرح معانی الآثار ج 1ص 150باب قراء ۃ بسم اللہ الرحمن الرحیم فی الصلوٰۃ )
ترجمہ: حضرت وائل بن حجر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت عمر اور حضرت علی رضی اللہ عنہ بسم اللہ الرحمن الرحیم, تعوذ اور آمین اونچی آواز میں نہیں کہتے تھے۔
:3 عَنْ اِبْرَاہِیْمَ قَالَ خَمْسٌ یُخْفِیْنَ سُبْحَانَکَ اللّٰھُمَّ وَبِحَمْدِکَ وَالتَّعَوُّذُ وَبِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ وَاٰمِیْنَ وَاَللّٰھُمَّ رَبَّنَالَکَ الْحَمْدُ۔
(مصنف عبد الرزاق ج 2ص57 باب ما یخفی الامام رقم الحدیث 2599)
ترجمہ: حضرت ابراہیم نخعی رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ پانچ چیزیں آہستہ آواز میں کہی جائیں۔
سُبْحَانَکَ اللّٰھُمَّ وَبِحَمْدِک، تعوذ، بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم، آمین اور اَللّٰھُمَّ رَبَّنَالَکَ الْحَمْد۔
رکوع کرنا:
:1 اللہ تعالی کا فرمان ہے۔
وَارْکَعُوْامَعَ الرَّاکِعِیْنَ۔
(سورۃ البقرۃ: 43)
ترجمہ: رکوع کرنے والوں کے ساتھ رکوع کرو۔
:2 حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک آدمی کونماز سکھاتے ہوئے فرمایا:
اِذَاقُمْتَ اِلَی الصَّلٰوۃِ فَکَبِّرْثُمَّ اقْرَئْ مَاتَیِسَّرَمَعَکَ مِنَ الْقُرْاٰنِ ثُمَّ ارْکَعْ حَتّٰی تَطْمَئِنَّ رَاکِعاً۔
( صحیح البخاری ج1 ص 109باب امر النبی صلی اللہ علیہ وسلم الذی لا یتم رکوعہ صحیح مسلم ج 1ص170 باب وجوب قراء ۃ الفاتحۃ فی کل رکعۃ )
ترجمہ: جب تم نماز کے لئے کھڑے ہو جاؤ تو تکبیر کہو پھر جو تمہیں آسان ہو قرآن پڑھو پھر رکوع کرو اطمینان کے ساتھ۔
تکبیر کہتے ہوئے رکوع کرنا:
عَنْ اَبِیْ ہُرَیْرَۃَ رضی اللہ عنہ قَالَ کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم اِذَاقَامَ اِلَی الصَّلٰوۃِ یُکَبِّرُحِیْنَ یَقُوْمُ ثُمَّ یُکَبِّرُحِیْنَ یَرْکَعُ۔
(صحیح البخاری ج 1ص109 باب التکبیر اذا قام من السجود، صحیح مسلم ج 1ص169 باب اثبات التکبیر فی کل خفض ورفع )
ترجمہ: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب نمازکے لئے کھڑے ہوتے تو قیام کی حالت میں تکبیر کہتے پھر جب رکوع میں جاتے تکبیر کہتے۔
کیفیت رکوع:
:1 حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا:
یَابُنَیَّ اِذَارَکَعْتَ فَضَعْ کَفَّیْکَ عَلٰی رُکْبَتَیْکَ وَفَرِّجْ بَیْنَ اَصَابِعِکَ وَارْفَعْ یَدَیْکَ عَنْ جَنْبَیْکَ۔
(المعجم الاوسط للطبرانی ج 4ص281 رقم الحدیث 5991، المعجم الصغیر للطبرانی ج 2ص32 )
ترجمہ: اے میرے بیٹے ! جب تم رکوع کرو تو دونوں ہتھیلیوں کو اپنے گھٹنوں پر رکھو اور انگلیاں کشادہ رکھو اور اپنے بازؤوں کو پہلو سے جدا رکھو۔
:2 عَنْ اَبِیْ حُمَیْدٍ رضی اللہ عنہ قَالَ اِنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم رَکَعَ فَوَضَعَ یَدَیْہِ عَلٰی رُکْبَتَیْہِ کَاَنَّہٗ قَابِضٌ عَلَیْھِمَاوَوَتَّرَ یَدَیْہِ فَنَحَاھُمَا عَنْ جَنْبَیْہِ… وَفِیْ رِوَایَۃِابْنِ عُمَرَ رضی اللہ عنہ قَالَ فَاِذَا رَکَعْتَ فَضَعْ رَاحَتَیْکَ عَلٰی رُکْبَتَیْکَ ثُمَّ فَرِّجْ بَیْنَ اَصَابِعِکَ ثُمَّ امْکُثْ حَتّٰی یَاْخُذَکُلُّ عُضْوٍمَّاْخَذَہٗ۔
(جامع الترمذی ج 1ص60 باب ما جاء انہ یجا فی یدیہ عن جنبہ فی الرکوع، صحیح ابن حبان ص586 باب ذکر وصف بعض السجود والرکوع، رقم الحدیث 1887)
ترجمہ: حضرت ابو حمید رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب رکوع فرماتے تو اپنے دونوں ہاتھ اپنے گھٹنوں پر رکھ لیتے گویا کہ آپ انہیں پکڑے ہوئے ہیں اور اپنے ہاتھوں کو تان لیتے اور اپنے پہلوؤوں سے دور رکھتے۔ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ کی روایت میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب تو رکوع کرے تو اپنی ہتھیلیوں کو اپنے گھٹنوں پر رکھ پھر اپنی انگلیوں کو کشادہ کر اتنی دیر ٹھہرا رہ کہ ہر عضو اپنی جگہ پر آجائے۔
تسبیح رکوع:
:1 عَنْ عُقْبَۃَ بْنِ عَامِرٍ رضی اللہ عنہ قَالَ لَمَّانَزَلَتْ فَسَبِّحْ بِاسْمِ رَبِّکَ الْعَظِیْمِ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم اِجْعَلُوْھَافِیْ رُکُوْعِکُمْ فَلَمَّانَزَلَتْ سَبِّحِ اسْمَ رَبِّکَ الْاَعْلٰی قَالَ اِجْعَلُوْھَافِیْ سُجُوْدِکُمْ۔
(سنن ابی داؤد ج1 ص133 باب ما یقول الرجل فی رکوعہ وسجود، سنن ابن ماجۃ ج 1ص63 باب التسبیح فی الرکوع والسجود )
ترجمہ: حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب آیت فَسَبِّحْ بِاسْمِ رَبِّکَ الْعَظِیْمِ نازل ہوئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اسے رکوع میں پڑھا کرو اور جب سَبِّحِ اسْمَ رَبِّکَ الْاَعْلٰیوالی آیت نازل ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اسے اپنے سجدوں میں پڑھا کرو۔
:2 عَنْ حُذَیْفَۃَ رضی اللہ عنہ اَنَّہٗ صَلّٰی مَعَ النَّبِیِّ صلی اللہ علیہ وسلم فَکَانَ یَقُوْلُ فِیْ رُکُوْعِہٖ سُبْحَانَ رَبِّیَ الْعَظِیْمِ وَفِیْ سُجُوْدِہٖ سُبْحَانَ رَبِّیَ الْاَعْلیٰ۔
(سنن ابی داؤد ج1 ص134 باب ما یقول الرجل فی رکوعہ وسجودہ، جامع الترمذی ج1 ص61 باب ما جا ء فی التسبیح فی الرکوع والسجود )
ترجمہ: حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم رکوع میں سُبْحَانَ رَبِّیَ الْعَظِیْمِ اور سجدوں میں سُبْحَانَ رَبِّیَ الْاَعْلٰی پڑھتے تھے۔
رکوع کی تسبیح اور الفاظ تعداد:
عَنِ ابْنِ مَسْعُوْدٍ رضی اللہ عنہ اَنَّ النَّبِیَّ صلی اللہ علیہ وسلم قَالَ اِذَارَکَعَ اَحَدُکُمْ فَقالَ فِیْ رُکُوْعِہٖ سُبْحَانَ رَبِّیَ الْعَظِیْمِ ثَلٰثَ مَرَّاتٍ فَقَدْ تَمَّ ُرکُوْعُہٗ وَذَالِکَ اَدْنَاہُ۔
(جامع الترمذی ج 1ص60 باب ما جاء فی التسبیح فی الرکوع والسجود، سنن ابن ماجۃ ج 1ص63 باب التسبیح فی الرکوع والسجود )
ترجمہ: حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جب تم میں سے کوئی رکوع کرے تواس میں
سُبْحَانَ رَبِّیَ الْعَظِیْم
تین بار کہنے سے اس کا رکوع پورا ہو جاتا ہے اور یہ کم از کم مقدار ہے۔
امام کا تسبیح اور مقتدی کا تحمید کہنا:
عَنْ اَبِیْ ہُرَیْرَۃَ رضی اللہ عنہ اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم قَالَ؛ اِذَا قَالَ الْاِمَامُ سَمِعَ اللّٰہُ لِمَنْ حَمِدَہٗ فَقُوْلُوْا اَللّٰھُمَّ رَبَّنَالَکَ الْحَمْدُ۔
(صحیح مسلم ج 1ص176 باب التسمیع والتحمید والتامین، صحیح البخاری ج 1ص109 باب ما یقول الامام ومن خلفہ اذا رفع راسہ من الرکوع )
ترجمہ: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
جب امام سَمِعَ اللّٰہُ لِمَنْ حَمِدَہکہے تو تم اَللّٰھُمَّ رَبَّنَالَکَ الْحَمْدُکہو۔
منفرد کا تسمیع و تحمید دونوں کہنا:
عَنْ اَبِیْ ہُرَیْرَۃَ رضی اللہ عنہ قَالَ کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم اِذَاقَامَ اِلَی الصَّلٰوۃِ یُکَبِّرُحِیْنَ یَقُوْمُ ثُمَّ یُکَبِّرُحِیْنَ یَرْکَعُ ثُمَّ یَقُوْلُ سَمِعَ اللّٰہُ لِمَنْ حَمِدَہٗ حِیْنَ یَرْفَعُ صُلْبَہٗ مِنَ الرَّکْعَۃِ ثُمَّ یَقُوْلُ وَھُوَقَائِمٌ رَبَّنَا لَکَ الْحَمْدُ۔
(صحیح البخاری ج1 ص109 باب التکبیر اذا قام من السجود )
ترجمہ: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب نماز کے لئے کھڑے ہوتے توقیام کی حالت میں تکبیر کہتے، پھر جب رکوع میں جاتے تکبیر کہتے۔ جب رکوع سے
اٹھتے تو سَمِعَ اللّٰہُ لِمَنْ حَمِدَہٗ کہتے پھر کھڑے ہونے کی حالت میں رَبَّنَا لَکَ الْحَمْدُکہتے
۔
قومہ کرنا:
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک آدمی کو نماز کا طریقہ سکھاتے ہوئے فرمایا:
ثُمَّ ارْکَعْ حَتّٰی تَطْمَئِنَّ رَاکِعاً ثُمَّ ارْفَعْ حَتّٰی تَعْتَدِلَ قَائِماً۔
(صحیح البخاری ج 1ص109 باب امر النبی صلی اللہ علیہ وسلم الذی لایتم رکوعہ بالاعادۃ،صحیح مسلم ج1 ص170 باب وجوب الفاتحۃ فی کل رکعۃ )
ترجمہ: پھر رکوع کرو یہاں تک کہ اطمینان سے رکوع کر لو پھر رکوع سے اٹھو یہاں تک کہ اعتدال (اطمینان) سے کھڑے ہوجاؤ۔
کیفیتِ قومہ:
:1 قَالَ اَبُوْحُمَیْدِ السَّاعِدِیِ رضی اللہ عنہ رَفَعَ النَّبِیُّ صلی اللہ علیہ وسلم وَاسْتَویٰ حَتّٰی یَعُوْدَ کُلُّ فَقَارٍمَّکَانَہٗ۔
(صحیح البخاری ج1 ص110 باب الطمانیۃ حین یرفع راسہ من الرکوع )
ترجمہ: حضرت ابو حمید الساعدی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے رکوع سے اپنا سر اٹھایا اور سیدھے کھڑے ہوگئے یہاں تک کہ آپ کی ہر ہڈی اپنی جگہ پر آگئی۔
:2 حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہاآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز کا تذکرہ کرتے ہوئے یہ ارشادفرماتی ہیں:
وَکَانَ اِذَارَفَعَ رَاْسَہٗ مِنَ الرُّکُوْعِ لَمْ یَسْجُدْ حَتّٰی یَسْتَوِیَ قَائِماً۔
(صحیح مسلم ج 1ص194 باب ما یجمع صفۃ الصلوٰۃ وما یفتح بہ )
ترجمہ: جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم رکوع سے سر اٹھاتے تو جب تک سیدھے کھڑے نہ ہو جاتے سجدہ نہ کرتے تھے۔
دعاء قومہ:
عَنْ رِفَاعَۃَ بْنِ رَافِعِ الزُّرَقِیِّ رضی اللہ عنہ قَالَ کُنَّایَوْمًا نُصَلِّیْ وَرَائَ النَّبِیِّ صلی اللہ علیہ وسلم فَلَمَّارَفَعَ رَأْسَہٗ مِنَ الرَّکْعَۃِ قَالَ سَمِعَ اللّٰہُ لِمَنْ حَمِدَہٗ قَالَ رَجُلٌ وَرَائَہٗ رَبَّنَا وَلَکَ الْحَمْدُحَمْدًاکَثِیْرًاطَیِّباً مُبَارَکاً فِیْہِ۔
(صحیح البخاری ج 1ص110 باب فضل اللھم ربنا ولک الحمد، سنن ابی داؤد ج 1ص119 باب ما یستفتح بہ الصلوٰۃ من الدعا)
ترجمہ: حضرت رفاعہ بن رافع الزرقی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ ایک دن ہم نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے نماز پڑھی۔ جب آپ نے رکوع سے سر اٹھایا توسَمِعَ اللّٰہُ لِمَنْ حَمِدَہٗکہا تو ایک شخص نے آپ کے پیچھے رَبَّنَاوَلَکَ الْحَمْدُ حَمْدًا کَثِیْرًا طَیِّباً مُبَارَکاً فِیْہِکہا۔
رکوع میں جاتے اور اٹھتے وقت رفع یدین نہ کرنا:
:1 اللہ تعالی کا فرمان ہے:
قَدْ اَفْلَحَ الْمُؤْمِنُوْنَ۔اَلَّذِیْنَ ھُمْ فِیْ صَلٰوتِھِمْ خَاشِعُوْنَ۔
(سورۃ المومنون: 2,1)
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں:
مُخْبِتُوْنَ مُتَوَاضِعُوْنَ لَایَلْتَفِتُوْنَ یَمِیْناً وَّ لَاشِمَالاً وَّلَایَرْفَعُوْنَ اَیْدِیَھُمْ فِی الصَّلٰوۃِ۔
(تفسیر ابن عباس ص 212)
ترجمہ: ’’خاشعون’’ سے مراد وہ لوگ ہیں جو عاجزی و انکساری سے کھڑے ہوتے ہیں، دائیں بائیں نہیں دیکھتے اور نہ ہی نماز میں رفع یدین کرتے ہیں۔
امام حسن بصری اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں:
خَاشِعُوْنَ الَّذِیْنَ لَایَرْفَعُوْنَ اَیْدِیَھُمْ فِی الصَّلٰوۃِ اِلَّافِی التَّکْبِیْرَۃِ الْاُوْلیٰ۔
 (تفسیر سمر قندی ج2 ص408 طبع بیروت )
ترجمہ:’’خاشعون’’ سے مراد وہ لوگ ہیں جو تکبیر تحریمہ کے علاوہ پوری نماز میں رفع یدین نہیں کرتے
:2 عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ (بْنِ مَسْعُوْدٍ رضی اللہ عنہ قَالَ اَلاَ اُخْبِرُکُمْ بِصَلٰوۃِرَسُوْلِ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم قَالَ فَقَامَ فَرَفَعِ یَدَیْہِ اَوَّلَ مَرَّۃٍ ثُمَّ لَمْ یُعِدْ۔
(سنن النسائی ج1 ص158 باب ترک ذالک، سنن ابی داؤدج 1ص116 باب من لم یذکر الرفع عند الرکوع، جامع الترمذی ج1 ص59 باب رفع الیدین عند الرکوع )
ترجمہ: حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے ایک بار فرمایا کیا میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز کے بارے میں تمہیں بتاؤں؟ راوی کہتے ہیں کہ آپ رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے اور پہلی مرتبہ (تکبیر تحریمہ ) رفع یدین کیا پھر دوبارہ (پوری نماز میں ) نہیں کیا۔
:3 عَنْ عَبْدِاللّٰہِ رضی اللہ عنہ قَالَ صَلَّیْتُ مَعَ رَسُوْلِ اللَّہِ صلی اللہ علیہ وسلم وَاَبِیْ بَکْرٍوَّ عُمَرَ رضی اللہ عنہ فَلَمْ یَرْفَعُوْااَیْدِیَھُمْ اِلَّاعِنْدَافْتِتَاحِ الصَّلٰوۃِ۔
(معجم الشیوخ لابی بکر الاسماعیلی ج1 ص693 رقم الحدیث 318، مسند ابی یعلی الموصلی ج8 ص453 رقم الحدیث 5039 )
ترجمہ: حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت ابوبکر اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پیچھے نمازیں پڑھی ہیں، وہ سب شروع نماز کے علاوہ اپنے ہاتھوں کو نہیں اٹھاتے تھے۔
:4 عَنْ عَلِیٍّ رضی اللہ عنہ قَالَ کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم اِذَاقَامَ اِلَی الصَّلٰوۃِ الْمَکْتُوْبَۃِ کَبَّرَ وَ رَفَعَ یَدَیْہِ حَذْوَمَنْکِبَیْہِ …وَفِیْ رِوَایَۃٍ… اَنَّہٗ کَانَ یَرْفَعُ یَدَیْہِ فِیْ اَوَّلِ الصَّلٰوۃِ ثُمَّ لَایَعُوْدُ۔
(مصنف عبد الرزاق ج2 ص51 باب استفتاح الصلوٰۃ، رقم الحدیث 2569، کتاب العلل للدارقطنی ج4 ص 106سوال نمبر 457)
ترجمہ: حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب فرض نماز کے لئے کھڑے ہوتے تو تکبیر کہتے اور اپنے ہاتھوں کو کندھوں تک اٹھاتے اور ایک روایت میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم صرف شروع نماز میں رفع یدین کرتے تھے پھر دوبارہ نہیں کرتے تھے۔
:5 عَنِ الْبَرَائِ بْنِ عَازِبٍ رضی اللہ عنہ قَالَ کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم اِذَاافْتَتَحَ الصَّلٰوۃَ رَفَعَ یَدَیْہِ حَتّٰی یُحَاذِیَ مَنْکِبَیْہِ لَایَعُوْدُ بِرَفْعِھِمَا حَتّٰی یُسَلِّمَ مِنْ صَلٰوتِہٖ۔
(مسند ابی حنیفہ بروایۃ ابی نعیم ص344 حدیث نمبر225، سنن ابی داؤد ج 1ص117 باب من لم یذکر الرفع عندالرکوع )
ترجمہ: حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب نماز شروع فرماتے تو رفع یدین کرتے یہاں تک کہ اپنے ہاتھ کندھے کے قریب کر لیتے اور نماز کا سلام پھیرنے تک دوبارہ رفع یدین نہیں کرتے تھے۔
:6 عَنِ ابْنِ عُمَر رضی اللہ عنہ قَالَ رَاَیْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم اِذَاافْتَتَحَ الصَّلٰوۃَ رَفَعَ یَدَیْہِ حَذْوَمَنْکِبَیْہِ وَاِذَا اَرَادَ اَنْ یَّرْکَعَ وَبَعْدَ مَایَرْفَعُ رَاْسَہٗ مِنَ الرُّکُوْعِ فَلَا یَرْفَعُ وَلَابَیْنَ السَّجْدَ تَیْنِ۔
(مسند الحمید ی ج2 ص277 حدیث نمبر 614،مسند ابی عوانہ ج 1ص 334باب رفع الیدین فی افتتاح الصلوٰۃ قبل التکبیر،رقم الحدیث 1251 )
ترجمہ: حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا جب نماز شروع کرتے تو رفع یدین کرتے۔
رکوع کی طرف جاتے ہوئے، رکوع سے سر اٹھاتے ہوئے اور سجدوں کے درمیان رفع یدین نہیں کرتے تھے۔
:7 عَنْ عَبْدِاللّٰہِ بْنِ عُمَرَ رضی اللہ عنہ قَالَ کُنَّا مَعَ رَسُوْلِ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم بِمَکَّۃَ نَرْفَعُ اَیْدِیْنَا فِیْ بَدْئِ الصَّلٰوۃِ وَفِیْ دَاخِلِ الصَّلٰوۃِ عِنْدَ الرُّکُوْعِ فَلَمَّا ھَاجَرَالنَّبِیُّ صلی اللہ علیہ وسلم اِلَی الْمَدِیْنَۃِ تَرَکَ رَفْعَ الْیَدَیْنِ فِیْ دَاخِلِ الصَّلٰوۃِ عِنْدَ الرُّکُوْعِ وَثَبَتَ عَلٰی رَفْعِ الْیَدَیْنِ فِیْ بَدْئِ الصَّلٰوۃِ۔
(اخبار الفقہاء والمحدثین للقیروانی ص 214 رقم 378)
ترجمہ: حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ (ہجرت سے پہلے) مکہ میں ہوتے تھے تو شروع نماز میں اور رکوع کے وقت رفع یدین کرتے تھے۔ جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ کی طرف ہجرت فرمائی تو رکوع والا رفع یدین ترک کر دیا اور صرف شروع نماز والے رفع یدین پر قائم رہے۔
تکبیر کہتے ہوئے سجدہ کرنا:
:1 اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
یَااَیُّھَاالَّذِیْنَ اٰمَنُوْاارْکَعُوْاوَاسْجُدُوْاوَاعْبُدُوْارَبَّکُمْ وَافْعَلُوْاالْخَیْرَ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَ۔
(الحج: 77)
ترجمہ: اے ایمان والو! رکوع و سجدہ کرو، اپنے رب کی عبادت کرو اور بھلائی کے کام کرو تاکہ تم فلاح پا جاؤ۔
:2 عَنْ اَبِیْ ہُرَیْرَۃَ رضی اللہ عنہ قَالَ کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم اِذَا قَامَ اِلَی الصَّلٰوۃِ یُکَبِّرُحِیْنَ یَقُوْمُ۔۔۔۔۔۔ ثُمَّ یُکَبِّرُحِیْنَ یَھْوِیْ سَاجِدًا۔
( صحیح مسلم ج 1ص 169باب اثبات التکبیر فی کل خفض ورفع فی الصلوٰۃ)
ترجمہ: حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب نماز کے لئے کھڑے ہوتے تو قیام کرتے وقت تکبیر کہتے اسی طرح ہر رکن کے لئے تکبیر کہتے جاتے پھر تکبیر کہتے جب سجدہ کے لئے جھکتے تھے۔
:3 عَنْ اَبِیْ سَلْمَۃَ بْنِ عَبْدِالرَّحْمٰنِ اَنَّ اَبَاہُرَیْرَۃَ رضی اللہ عنہ کَانَ یُکَبِّرُ فِیْ کُلِّ صَلٰوۃٍ مِّنَ الْمَکْتُوْبَۃِ وَغَیْرِھَافِیْ رَمْضَانَ وَغَیْرِہٖ ………… ثُمَّ یُکَبِّرُحِیْنَ یَسْجُدُ۔
(صحیح البخاری ج 1ص110 باب یھو ی بالتکبیر حین یسجد )
ترجمہ: حضرت ابو سلمہ بن عبد الرحمن سے مروی ہے کہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ ہر فرض و غیر فرض (نوافل وغیرہ)، رمضان وغیر رمضان کی نماز میں تکبیر کہتے تھے (پھر مزید تکبیرات کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں) پھر تکبیر کہتے جب سجدہ کرتے۔
سجدہ میں جاتے ہوئے پہلے گھٹنے، پھر ہاتھ، پھر پیشانی کو زمین پررکھنا:
:1 عَنْ وَائِلِ بْنِ حُجْرٍ رضی اللہ عنہ اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم کَانَ یَضَعُ رُکْبَتَیْہِ قَبْلَ یَدَیْہِ اِذَاسَجَدَ۔
(صحیح ابن خزیمۃ ج 1ص342 باب البدء بوضع الرکبتین علی الارض قبل الیدین۔۔،رقم الحدیث 626)
ترجمہ: حضرت وائل بن حجر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب سجدہ کرتے تو ہاتھوں سے پہلے اپنے گھٹنے زمین پر رکھتے تھے۔
:2 عَنْ اَنَسٍ رضی اللہ عنہ قَالَ رَاَیْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم کَبَّرَفَحَاذٰی بِاِبْھَامَیْہِ اُذُنَیْہِ ثُمَّ رَکَعَ حَتّٰی اسْتَقَرَّکُلُّ مَفْصَلٍ مِّنْہُ وَانْحَطَّ بِالتَّکْبِیْرِحَتّٰی سَبَقَتْ رُکْبَتَاہُ یَدَیْہِ۔
(المستدرک للحاکم ج 1ص 3()(49۔ باب التامین، رقم الحدیث 822)
ترجمہ: حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ آپ نے تکبیر کہی اور اپنے دونوں انگوٹھے کانوں کے برابر کر لیے پھر رکوع فرمایا یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہر جوڑ اپنی جگہ پر درست ہوگیا۔ پھر آپ تکبیر کہتے ہوئے جھکے یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھٹنے ہاتھوں سے پہلے زمین پر لگے۔
سجدہ سات اعضاء پر کرنا:
عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضی اللہ عنہ قَالَ اُمِرَالنَّبِیُّ صلی اللہ علیہ وسلم اَنْ یَّسْجُدَعَلٰی سَبْعَۃِ اَعْضَائٍ وَلَایَکُفَّ شَعْرًاوَ لاَ ثَوْباً، اَلْجَبْھَۃِ وَالْیَدَیْنِ وَالرُّکْبَتَیْنِ وَالرِّجْلَیْنِ۔
(صحیح البخاری ج1 ص112 باب السجود علی سبعۃ اعظم، صحیح مسلم ج 1ص193 باب اعضاء السجود والنھی عن کف الشعر)
ترجمہ: حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم دیا گیا تھا کہ سات اعضاء پر سجدہ کریں اور اپنے بالوں اور کپڑوں کو تہ نہ کریں، (وہ اعضاء یہ ہیں) پیشانی، دونوں ہاتھ، دونوں گھٹنے اور دونوں پاؤں۔
عدد و الفاظ تسبیح سجدہ:
عَنِ ابْنِ مَسْعُوْدٍ رضی اللہ عنہ اَنَّ النَّبِیَّ صلی اللہ علیہ وسلم قَالَ… وَاِذَاسَجَدَ فَقَالَ فِیْ سُجُوْدِہٖ سُبْحَانَ رَبِّیَ الْاَعْلٰی ثَلٰثَ مَرَّاتٍ فَقَدْ تَمَّ سُجُوْدُہٗ وَذَالِکَ اَدْنَاہٗ۔
(جامع الترمذی ج1 ص60 باب ما جاء فی التسبیح فی الرکوع والسجود، سنن ابن ماجۃ ج1 ص63 باب التسبیح فی الرکوع والسجود )
ترجمہ: حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جب تم میں سے کوئی سجدہ کرے تو سجدہ میں سُبْحَانَ رَبِّیَ الْاَعْلٰی تین بار کہے تو اس کا سجدہ مکمل ہوتاہے اور یہ کم از کم مقدار ہے۔
تکبیر کہہ کر سجدہ سے سر اٹھانا:
عَنْ اَبِیْ ہُرَیْرَۃَ رضی اللہ عنہ قَالَ کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم اِذَاقَامَ اِلَی الصَّلٰوۃِ یُکَبِّرُحِیْنَ یَقُوْمُ … ثُمَّ یُکَبِّرُحِیْنَ یَھْوِیْ سَاجِداً ثُمَّ یُکَبِّرُحِیْنَ یَرْفَعُ رَاْسَہٗ۔
(صحیح مسلم ج1 ص169 باب اثبات التکبیر فی کل خفض ورفع فی الصلوٰۃ)
ترجمہ: حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب نماز کے لئے کھڑے ہوتے تو قیام کرتے وقت تکبیر کہتے (اسی طرح تکبیرات کہتے جاتے) پھر جب سجدہ کے لئے جھکتے تو تکبیر کہتے پھر جب سجدہ سے سر اٹھاتے تو تکبیر کہتے۔
سجدوں کے درمیان جلسہ کرنا:
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک آدمی کو نماز کا طریقہ سکھاتے ہوئے فرمایا:
ثُمَّ اسْجُدْحَتّٰی تَطْمَئِنَّ سَاجِداً ثُمَّ ارْفَعْ حَتّٰی تَطْمَئِنَّ جَالِساً۔
صحیح البخاری ج1ص109باب امر النبیﷺالذی لایتم رکوعہ بالاعادۃصحیح مسلم ج1ص170باب وجوب قراءۃالفاتحۃفی کل رکعۃ
ترجمہ: پھر سجدہ کرو اطمینان کے ساتھ پھر سجدہ سے سر اٹھاؤ یہاں تک کہ اطمینان سے بیٹھ جاؤ۔
دعاء جلسہ:
عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضی اللہ عنہ قَالَ کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم یَقُوْلُ بَیْنَ السَّجْدَتَیْنِ فِیْ صَلٰوۃِ اللَّیْلِ رَبِّ اغْفِرْلِیْ وَارْحَمْنِیْ وَاجْبُرْنِیْ وَارْزُقْنِیْ وَارْفَعْنِیْ۔ وَمِثْلَہٗ عَنْ عَلِیٍّ رضی اللہ عنہ۔
(سنن ابن ماجۃ ج1 ص64 باب ما یقول بین السجدتین، مصنف عبد الرزاق ج2 ص123 باب القول بین السجدتین رقم الحدیث 3014)
ترجمہ: حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم رات کی نماز (تہجد یا نفلی وغیرہ) میں دو سجدوں کے درمیان یہ دعا پڑھتے تھے (ترجمہ دعا) اے میرے رب ! میری مغفرت فرما، مجھ پر رحم فرما، میری کمزوری دور فرما، مجھے روزی عطا فرما اورمجھے بلند فرما۔
تکبیر کہہ کر دوسرا سجدہ کرنا:
عَنْ اَبِیْ ہُرَیْرَۃَ رضی اللہ عنہ قَالَ کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم اِذَاقَامَ اِلَی الصَّلٰوۃِ یُکَبِّرُحِیْنَ یَقُوْمُ…ثُمَّ یُکَبِّرُحِیْنَ یَھْوِیْ سَاجِداً ثُمَّ یُکَبِّرُحِیْنَ یرْفَعُ رَاْسَہٗ ثُمَّ یُکَبِّرُحِیْنَ یَسْجُدُ۔
(صحیح مسلم ج1 ص169 باب اثبات التکبیر فی کل خفض ورفع فی الصلوٰۃ)
ترجمہ: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب نماز کے لئے کھڑے ہوتے تو قیام کرتے وقت تکبیر کہتے (اسی طرح دیگر اعمال میں تکبیر کہتے جاتے) پھر تکبیر کہتے جب سجدہ کے لئے جھکتے پھر جب سجدہ سے سر اٹھاتے تو تکبیر کہتے، پھر جب سجدہ کرتے تو تکبیر کہتے۔
سجدہ میں چہرہ ہاتھوں کے درمیان ہو:
عَنْ وَائِلِ بْنِ حُجْررضی اللہ عنہ قَالَ صَلَّیْتُ خَلْفَ رَسُوْلِ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم فَکَانَ اِذَا سَجَدَ وَضَعَ وَجْھَہٗ بَیْنَ کَفَّیْہِ
(شرح معانی الآثار ج1 ص182 باب وضع الیدین فی السجود این ینبغی ان یکون )
ترجمہ: حضرت وائل بن حجر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے نماز پڑھی، جب آپ سجدہ کرتے تھے تو اپنا چہرہ دونوں ہتھیلیوں کے درمیان رکھتے۔
ہاتھوں کی انگلیوں کو ملانا:
عَنْ وَائِلِ بْنِ حُجْرٍ رضی اللہ عنہ اَنَّ النَّبِیَّ صلی اللہ علیہ وسلم کَانَ اِذَاسَجَدَضَمَّ اَصَابِعَہٗ۔
(صحیح ابن خزیمۃ ج1 ص347 باب ضم اصابع الیدین فی السجود، رقم الحدیث 642، صحیح ابن حبان ص 593 ذکر مایستحب للمصلی ضم الاصابع فی السجود، رقم الحدیث 1920 )
ترجمہ: حضرت وائل بن حجر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب سجدہ کرتے تو اپنی انگلیوں کو ملا لیتے تھے۔
ہاتھوں کی انگلیوں کا قبلہ رخ ہونا:
:1 قَالَ اَبُوْحُمَیْدِ السَّاعِدِیُّ رضی اللہ عنہ اَنَاکُنْتُ اَحْفَظَکُمْ لِصَلَاۃِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم رَاَیْتُہٗ اِذَاکَبَّرَجَعَلَ یَدَیْہِ حِذَائَ مَنْکِبَیْہِ… فَاِذَا سَجَدَ وَضَعَ یَدَیْہِ غَیْرَمُفْتَرِشٍ وَلَاقَابِضِھِمَاوَاسْتَقْبَلَ بِاَطْرَافِ اَصَابِعِہِ الْقِبْلَۃَ۔
(صحیح ابن خزیمۃ ج1 ص347 باب استقبال اطراف اصابع الیدین من القبلۃ فی السجود، رقم الحدیث 643 )
ترجمہ: حضرت ابو حمید ساعدی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز تم سے زیادہ جانتا ہوں۔ میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا جب تکبیر کہتے تو اپنے ہاتھوں کو کندھوں کے برابر کر لیتے۔ پھر جب سجدہ کرتے تو اپنے ہاتھوں کو اس طرح زمین پر رکھ دیتے کہ نہ انہیں خوب پھیلاتے اور نہ ہی ان کو سکیڑتے (بلکہ اعتدال سے رکھتے) اور انگلیوں کو قبلہ کی جانب کر دیتے تھے۔
:2 عَنْ حَفْصِ بْنِ عَاصِمٍ قَالَ صَلَّیْتُ اِلٰی جَنْبِ ابْنِ عُمَرَ رضی اللہ عنہ فَفَرَّجْتُ بَیْنَ اَصَابِعِیْ حِیْنَ سَجَدْتُّ فَقَالَ یَاابْنَ اَخِیْ اُضْمُمْ اَصَابِعَکَ اِذَا سَجَدْتَّ وَاسْتَقْبِلِ الْقِبْلَۃَ وَاسْتَقْبِلْ بِالْکَفَّیْنِ الْقِبْلَۃَ فَاِنَّھُمَا یَسْجُدَانِ مَعَ الْوَجْہِ۔
(مصنف عبد الرزاق ج 2ص112 باب السجود، رقم الحدیث 2938)
ترجمہ: حضرت حفص بن عاصم رضی اللہ عنہما سے مروی ہے فرماتے ہیں:’’ میں نے حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کے پہلومیں کھڑے ہوکر نماز پڑھی جب میں نے سجدہ کیا تو اپنی انگلیوں کو کشادہ کیا تو حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اے بھتیجے ! جب سجدہ کرو تواپنی انگلیوں کو ملا لو اور انہیں قبلہ کی طرف کر لیا کرو اور اپنی ہتھیلیوں کو بھی قبلہ کی طرف کیا کرو کیونکہ یہ بھی چہرے کے ساتھ سجدہ کرتی ہیں۔’’
پائوں کی ایڑیاں ملانا:
عَنْ عَائِشَۃَ رضی اللہ عنہا زَوْجِ النَّبِیِّ صلی اللہ علیہ وسلم قَالَتْ فَقَدْتُّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم وَکَانَ مَعِیْ عَلٰی فِرَاشِیْ فَوَجَدْتُّہٗ سَاجِداً رَاصّاً عَقِبَیْہِ مُسْتَقْبِلاً بِاَطْرَافِ اَصَابِعِہِ الْقِبْلَۃَ۔
(صحیح ابن خزیمۃ ج1 ص351 باب ضم العقبین فی السجود، رقم الحدیث 654،صحیح ابن حبان ص595 باب ذکر ما یستحب للمصلی ان یتعوذ برضاء اللہ۔۔، رقم الحدیث 1932)
ترجمہ: حضرت عائشہ رضی اللہ عنہافرماتی ہیں:’’میں نے ایک بار رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو نہ پایا حالانکہ آپ میرے ساتھ میرے بستر پر تھے پھر میں نے آپ کو اس حالت میں پایا کہ آپ سجدہ کر رہے تھے اور اپنی ایڑیوں کو ملا کر انگلیوں کا رخ قبلہ کی جانب کئے ہوئے تھے۔’’
پاؤں کی انگلیوں کا قبلہ رخ ہونا:
عَنْ اَبِیْ حُمَیْدِالسَّاعِدِیِّ رضی اللہ عنہ قَالَ اَنَاکُنْتُ اَحْفَظَکَمْ لِصَلٰوۃِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم رَاَیْتُہٗ اِذَاکَبَّرَجَعَلَ یَدَیْہِ حَذْوَ مَنْکِبَیْہِ… وَاِذَا سَجَدَوَضَعَ یَدَیْہِ غَیْرَمُفْتَرِشٍ وَلَاقَابِضِھِمَاوَاسْتَقْبَلَ بِاَطْرَافِ اَصَابِعِ رِجْلَیْہِ الْقِبْلَۃَ۔
(صحیح البخاری ج1 ص114 باب سنۃ الجلوس فی التشہد )
ترجمہ: حضرت ابو حمید ساعدی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز تم سے زیادہ جانتا ہوں۔ میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا جب تکبیر کہتے تو اپنے ہاتھوںکو کندھے کے برابر کر لیتے۔ پھر جب سجدہ کرتے تو اپنے ہاتھوں کو اس طرح زمین پر رکھتے کہ نہ انہیں پھیلاتے نہ سکیڑتے اور پاؤں کی انگلیوں کو قبلہ کی جانب کر دیتے تھے۔
کہنیاں؛ پہلو سے جدا رکھنا:
عَنْ عَبْدِاللّٰہِ بْنِ مَالِکِ ابْنِ بُحَیْنَۃَ رضی اللہ عنہ اَنَّ النَّبِیَّ صلی اللہ علیہ وسلم کَانَ اِذَا صَلّٰی فَرَّجَ بَیْنَ یَدَیْہِ حَتّٰی یَبْدُوَ بَیَاضُ اِبْطَیْہِ… وَفِیْ رِوَایَۃٍ… وَیُجَافِیْ عَنْ جَنْبَیْہِ۔
(صحیح البخاری ج 1ص112 باب یبدی ضبعیہ ویجا فی فی السجود، صحیح ابن خزیمۃ ج 1ص349 باب التجا فی فی السجود، رقم الحدیث 648)
ترجمہ: حضرت عبد اللہ بن مالک ابن بحینہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے: نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب نماز پڑھتے تو اپنے بازو کشادہ رکھتے حتی کہ آپ کی بغلوں کی سفیدی ظاہر ہوتی تھی اور ایک روایت میں ہے کہ اپنے بازو پہلو سے جدا رکھتے تھے۔
کہنیاں زمین پر نہ پھیلانا:
:1 عَنِ الْبَرَائِ رضی اللہ عنہ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم اِذَاسَجَدْتَّ فَضَعْ کَفَّیْکَ وَارْفَعْ مِرْفَقَیْکَ۔
(صحیح مسلم ج1 ص194 باب الاعتدال فی السجود ووضع الکفین علی الارض )
ترجمہ: حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب تم سجدہ کرو تو اپنے ہاتھوں کو (زمین پر) رکھو اور اپنی کہنیوں کو اوپر اٹھا لیا کرو۔
:2 عَنْ اَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رضی اللہ عنہ عَنِ النَّبِیِّ صلی اللہ علیہ وسلم قَالَ اِعْتَدِلُوْا فِی السُّجُوْدِ وَلَایَبْسُطُ اَحَدُکُمْ ذِرَاعَیْہِ اِنْبِسَاطَ الْکَلْبِ۔
صحیح البخاری ج 1ص113 باب لا یفترش ذراعیہ فی السجود،جامع الترمذی ج 1ص63 باب ما جاء فی الاعتدال فی السجود )
ترجمہ: حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: سجدوں میں اعتدال اختیار کرو اور کوئی اپنے بازو کتے کی طرح زمین پر نہ بچھائے۔
سرین اوپر اٹھا کر سجدہ کرنا:
عَنْ اَبِیْ اِسْحَاقَ قَالَ وَصَفَ لَنَا الْبَرَائُ رضی اللہ عنہ السُّجُوْدَ فَوَضَعَ یَدَیْہِ بِالْاَرْضِ وَرَفَعَ عَجِیْزَتَہٗ وَقَالَ ھٰکَذَارَاَیْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم یَفْعَلُ۔
(سنن النسائی ج1 ص166 باب صفۃ السجود، سنن ابی داؤد ج 1ص137 باب صفۃ السجود)
ترجمہ: حضرت ابو اسحق فرماتے ہیں: حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ نے ہمیں سجدہ کرنے کا طریقہ بتایا تو اپنے ہاتھوں کو زمین پر رکھا اور اپنی سرین کو اوپر اٹھا یا اور فرمایا میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اسی طرح کرتے دیکھا ہے۔
سجدہ میں جاتے اور اٹھتے وقت رفع یدین نہ کرنا:
:1 عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عُمَرَ رضی اللہ عنہ اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم کَانَ یَرْفَعُ یَدَیْہِ حَذْوَ مَنْکِبَیْہِ اِذَاافْتَتَحَ الصَّلٰوۃَ … وَکَانَ لَایَفْعَلُ ذٰلِکَ فِی السُّجُوْدِ… وَفِیْ رِوَایَۃٍ …وَلَایَفْعَلُ ذٰلِکَ حِیْنَ یَسْجُدُ وَلَاحِیْنَ یَرْفَعُ رَاسَہٗ مِنَ السُّجُوْدِ وَفِیْ رِوَایَۃٍوَلَایَرْفَعُھُمَابَیْنَ السَّجْدَتَیْنِ۔
(صحیح البخاری ج 1ص102 باب رفع الیدین فی التکبیرۃ الاولیٰ مع الافتتاح سواء غیرہ،صحیح مسلم ج 1ص168 باب استحباب رفع الیدین حذو المنکبین مع تکبیرۃ الاحرام 
ترجمہ: حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب نماز شروع فرماتے تھے تو کندھوں تک رفع یدین کرتے تھے اور سجدوں میں ایسا نہیں کرتے تھے ایک روایت میں ہے کہ جب سجدہ کرتے تو ایسا نہ کرتے تھے اور نہ ہی جب سجدہ سے سر اٹھاتے اور ایک روایت میں ہے کہ دو سجدوں کے درمیان رفع یدین نہیں کرتے تھے۔
:2 عَنْ عَبْدِاللّٰہِ بْنِ عُمَرَ رضی اللہ عنہ قَالَ رَاَیْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم اِذَاافْتَتَحَ الصَّلٰوۃَرَفَعَ یَدَیْہِ حَتّٰی یُحَاذِیَ بِھِمَاوَقَالَ بَعْضُھُمْ حَذْوَ مَنْکِبَیْہِ وَاِذَااَرَادَ اَنْ یَّرْکَعَ وَبَعْدَمَایَرْفَعُ رَاْسَہٗ مِنَ الرُّکُوْعِ لَایَرْفَعُھُمَاوَقَالَ بَعْضُھُمْ وَلَایَرْفَعُ بَیْنَ السَّجْدَتَیْنِ۔
(صحیح ابی عوانۃ ج1 ص334 باب رفع الیدین فی افتتاح الصلوٰۃ۔۔، رقم الحدیث 1251 )
ترجمہ: حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے فرماتے ہیں: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا جب نماز شروع کرتے تو رفع یدین کرتے اور جب رکوع کا ارادہ کرتے تو رکوع سے سر اٹھانے کے بعد رفع یدین نہ کرتے تھے اور نہ ہی سجدوں کے درمیان رفع یدین کرتے تھے۔
تکبیر کہہ کر دوسری رکعت کے لیے اٹھنا:
عَنْ اَبِیْ ہُرَیْرَۃَ رضی اللہ عنہ قَالَ۔۔۔۔۔۔ وَکَانَ النَّبِیُّ صلی اللہ علیہ وسلم اِذَارَکَعَ وَاِذَارَفَعَ رَاْسَہٗ یُکَبِّرُ وَ اِذَا قَامَ مِنَ السَّجْدَتَیْنِ قَالَ اَللّٰہُ اَکْبَرُ۔
(صحیح البخاری ج 1ص109 باب ما یقول الامام ومن خلفہ اذا رفع رأسہ من الرکوع )
ترجمہ: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب رکوع فرماتے اور رکوع سے سر اٹھاتے تھے تو تکبیر کہتے تھے اور جب دونوں سجدے کرکے کھڑے ہوتے تو اللہ اکبر کہتے تھے۔
جلسہ استراحت نہ کرنا:
:1 عَنْ اَبِیْ ہُرَیْرَۃَ رضی اللہ عنہ قَالَ کَانَ النَّبِیُّ صلی اللہ علیہ وسلم یَنْھَضُ فِی الصَّلٰوۃِعَلٰی صُدُوْرِقَدَمَیْہِ۔
(جامع الترمذی ج1 ص64 باب کیف النھوض من السجود )
ترجمہ: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نماز میں اپنے قدموں کے کناروں پر کھڑے ہو جاتے تھے۔
:2 عَنْ عَبْدِالرَّحْمٰنِ بْنِ یَزِیْدَقَالَ رَمَقْتُ عَبْدَاللّٰہِ بْنَ مَسْعُوْدٍ رضی اللہ عنہ فِی الصَّلٰوۃِ فَرَاَیْتُہٗ یَنْھَضُ وَلَایَجْلِسُ قَالَ یَنْھَضُ عَلٰی صُدُوْرِ قَدَمَیْہِ فِی الرَّکْعَۃِ الْاُوْلیٰ وَالثَّانِیَۃِ۔
(مصنف عبد الرزاق ج 2ص 117باب کیف النھوض من السجدۃ الاخرۃ، رقم الحدیث 2971)
ترجمہ: حضرت عبد الرحمن بن یزید فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کا نماز میں غور سے مشاہدہ کیا۔ میں نے دیکھا کہ آپ کھڑے ہو جاتے تھے اور بیٹھتے نہ تھے آپ پہلی اور دوسری رکعت میں اپنے قدموں کے کناروں پر کھڑے ہو جاتے تھے۔
:3 عَنِ الشَّعْبِیِّ اَنَّ عُمَرَ وَعَلِیًّا رضی اللہ عنہ وَاَصْحَابَ رَسُوْلِ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم کَانُوْا یَنْھَضُوْنَ فِی الصَّلٰوۃِ عَلٰی صُدُوْرِاَقْداَمِہِمْ۔
(مصنف ابن ابی شیبۃ ج 3ص330،من کان ینھض علی صدور قدمیہ،رقم الحدیث 4004 )
ترجمہ: جلیل القدر تابعی حضرت امام شعبی فرماتے ہیں کہ حضرت عمر، حضرت علی رضی اللہ عنہ اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے دیگر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نماز میں اپنے قدموں کے کناروں پر کھڑے ہو جاتے تھے۔
بوجہ عذر یا ضعیف العمری کے جلسہ استراحت کرنا:
:1 عَنْ اَبِیْ اُمَامَۃَ رضی اللہ عنہ اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم کَانَ یُوْتِرُ بِتِسْعٍ فَلَمَّابَدَّنَ وَکَثُرَ لَحْمُہٗ اَوْتَرَبِسَبْعٍ وَصَلّٰی رَکْعَتَیْنِ وَھُوَجَالِسٌ۔
(شرح معانی الآ ثار ج1 ص204 باب الوتر)
ترجمہ: حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نو رکعت وتر پڑھتے تھے (یعنی تین وتر اور چھ نفل) جب آپ کا بدن بھاری ہوا اور لحیم ہوئے تو سات وتر (یعنی تین وتر اور چار رکعت نفل) پڑھتے اور دو رکعتیں بیٹھ کر پڑھتے تھے۔
:2 عَنْ اَیُّوْبَ عَنْ اَبِیْ قِلَابَۃَ رضی اللہ عنہما قَالَ جَائَ نَامَالِکُ بْنُ الْحُوَیْرِثِ رضی اللہ عنہ فِیْ مَسْجِدِنَا ھٰذَا فَقَالَ اِنِّیْ لَاُصَلِّیْ بکُمْ َو مَا اُرِیْدُ الصَّلٰوۃَ اُصَلِّیْ کَیْفَ رَاَیْتُ النَّبِیَّ صلی اللہ علیہ وسلم یُصَلِّیْ فَقُلْتُ لِاَبِیْ قِلَابَۃَ کَیْفَ کَانَ یُصَلِّیْ قَالَ مِثْلَ شَیْخِنَاھٰذَا وَکَانَ الشَّیْخُ یَجْلِسُ اِذَارَفَعَ رَاْسَہٗ مِنَ السُّجُوْدِ قَبْلَ اَنْ یَّنْھَضَ فِی الرَّکْعَۃِ الْاُوْلیٰ۔
(صحیح البخاری ج1 ص93 باب من صلی بالناس وھولا یرید الاان یعلمھم صلوٰۃ النبی صلی اللہ علیہ وسلم )
ترجمہ: حضرت ایوب رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں:’’ ابو قلابہ رضی اللہ عنہما نے فرمایا کہ حضرت مالک بن الحویرث رضی اللہ عنہ ہماری اس مسجد میں تشریف لائے۔انھوں نے فرمایا کہ میں تمہارے سامنے نماز پڑھتا ہوں، میرا مقصود نماز پڑھنا نہیں ہے بلکہ جس طرح میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو نماز پڑھتے دیکھا ہے اسی طرح (تمہیں دکھانے کے لیے) پڑھتا ہوں۔ ایوب رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ میں نے ابو قلابہ سے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کس طرح نماز پڑھتے تھے؟ تو انہوں نے فرمایا کہ ہمارے اس شیخ کی طرح۔ شیخ (کی عادت تھی کہ) پہلی رکعت میں جب سجدہ سے اپنا سر اٹھاتے تھے تو کھڑے ہونے سے پہلے بیٹھ جاتے تھے۔
دو رکعتوں کے درمیان رفع یدین نہ کرنا:
حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کی روایت میں یہ الفاظ آتے ہیں:
‘‘ وَلَا یَفْعَلُ ذٰلِکَ حِیْنَ یَسْجُدُ وَلَا حِیْنَ یَرْفَعُ رَاْسَہُ مِنَ السُّجُوْدِ‘‘
(صحیح البخاری ج1ص 102باب الی این یرفع)
ترجمہ: آپ صلی اللہ علیہ وسلم جب سجدہ کرتے اور سجدوں سے سر اٹھاتے تو رفع یدین نہیں کرتے تھے۔
فائدہ:1 اس سے ثابت ہوا کہ نمازی (دو رکعتوں کے درمیان)جب دوسری اور چوتھی رکعت کے لیے سجدہ سے سر اٹھائے تو رفع یدین نہ کرے۔
(فتح الباری لابن حجر ج 2ص288 ملخصاً)
فائدہ2: مذکورہ روایت کے ابتدائی حصہ میں رکوع کی جس رفع یدین کا ذکر ملتا ہے اس کی نفی خود حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کی دیگر روایات سے ثابت ہے جیسا کہ پہلے باحوالہ بات گزر چکی ہے۔
(نماز اہل السنۃ والجماعۃ ص69،70)
دوسری رکعت کی قرات فاتحہ مع بسم اللہ سے شروع کرنا:
عَنِ ابْنِ عُمَرَ رضی اللہ عنہ اَنَّہٗ کَانَ لَایَدَعُ بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ قَبْلَ السُّوْرَۃِ وَبَعْدَ ھَا اِذَا قَرَئَ بِسُوْرَۃٍ اُخْریٰ فِی الصَّلٰوۃِ۔
(شرح معانی الآثار ج1 ص146 باب قراء ۃ بسم اللہ الرحمن الرحیم فی الصلوٰۃ)
ترجمہ: حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ نماز میں سورۃ فاتحہ سے پہلے اور اس کے بعد دوسری سورت سے پہلے بسم اللہ الرحمن الرحیم پڑھنا نہیں چھوڑتے تھے۔
پہلی رکعت بڑی اور دوسری رکعت چھوٹی رکھنا:
عَنْ اَبِیْ قَتَادَۃَ رضی اللہ عنہ قَالَ کَانَ النَّبِیُّ صلی اللہ علیہ وسلم یَقْرَئُ فِی الرَّکْعَتَیْنِ الْاُوْلَیَیْنِ مِنْ صَلٰوۃِ الظُّھْرِ بِفَاتِحَۃِ الْکِتَابِ وَسُوْرَتَیْنِ یَطُوْلُ فِی الْاُوْلیٰ وَیَقْصُرُ فِی الثَّانِیَۃِ وَیُسْمِعُ الْاٰیَۃَ اَحْیَانًاوَکَانَ یَقْرَئُ فِی الْعَصْرِبِفَاتِحَۃِ الْکِتَابِ وَسُوْرَتَیْنِ وَکَانَ یَطُوْلُ فِی الْاُوْلٰی وَکَانَ یَطُوْلُ فِی الرَّکْعَۃِالْاُوْلٰی مِنْ صَلٰوۃِ الصُّبْحِ یَقْصُرُفِی الثَّانِیَۃِ۔
(صحیح البخاری ج1 ص105 باب القرأۃ فی الظہر، صحیح مسلم ج 1ص185 باب القراۃ فی الظہر والعصر)
ترجمہ: حضرت ابو قتادہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نماز ظہر کی پہلی دو رکعتوں میں سورۃ الفاتحہ اور دو سورتیں پڑھتے تھے، پہلی رکعت لمبی اور دوسری چھوٹی کرتے تھے اور کبھی کبھی کوئی آیت سنا بھی دیتے تھے۔ عصر کی نماز میں فاتحہ اور دو سورتیں پڑھتے اور پہلی رکعت لمبی کرتے اور فجر کی نماز میں بھی پہلی رکعت لمبی اور دوسری چھوٹی کرتے تھے۔
ہر دو رکعت پر قعدہ کرنا:
عَنْ عَائِشَۃَ رضی اللہ عنہاقَالَتْ کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم یَسْتَفْتِحُ الصَّلٰوۃَ بِالتَّکْبِیْرِوَالْقِرَائَ ۃَ بِالْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ…… وَکَانَ یَقُوْلُ فِیْ کُلِّ رَکْعَتَیْنِ اَلتَّحِیَّۃُ۔
(صحیح مسلم ج 1ص194 باب مایجمع صفۃ الصلوٰۃ ومایفتح بہ ویختم بہ، مصنف عبد الرزاق ج2 ص134 باب من نسی التشہد، رقم الحدیث 3086، مصنف ابن ابی شیبۃ ج 3ص47، قدر کم یقعد فی الرکعتین الاولیین، رقم الحدیث 3040)
ترجمہ: حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے، فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز تکبیر سے شروع فرماتے اور قرات الحمد للہ رب العالمین سے اور یہ فرماتے تھے کہ ہر دو رکعت پر تشہد ہے۔ یعنی قعدہ کرنا ہوتا ہے 
کیفیت قعدہ اولیٰ:
:1 عَنْ عَبْدِاللّٰہِ بْنِ عُمَرَ رضی اللہ عنہ وَقَالَ اِنَّمَاسُنَّۃُ الصَّلٰوۃِ اَنْ تَنْصَبَ رِجْلَکَ الْیُمْنٰی وَتُثْنُِیَ الْیُسْریٰ
(صحیح البخاری ج 1ص114 باب سنۃ الجلوس فی التشہد )
ترجمہ: حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں نماز کی سنت یہ ہے کہ تشہد میں دایاں پاؤں کھڑا رکھو اور بایاں پائوں بچھائو۔
:2 حضرت ابو حمید الساعدی رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز کا تذکرہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
فَاِذَاجَلَسَ فِی الرَّکْعَتَیْنِ جَلَسَ عَلٰی رِجْلِہِ الْیُسْریٰ وَنَصَبَ الْیُمْنیٰ۔
(صحیح البخاری ج 1ص114 باب سنۃ الجلوس فی التشہد )
ترجمہ: جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم دو رکعتوں کے بعد بیٹھتے تو بائیں پاؤں پر بیٹھتے اور دایاں پاؤں کھڑا رکھتے۔
:3 عَنْ عَائِشَۃَ رضی اللہ عنہاقَالَتْ کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم یَسْتَفْتِحُ الصَّلٰوۃَ بِالتَّکْبِیْرِ… وَکَانَ یَفْرِشُ رِجْلَہٗ الْیُسْریٰ وَیَنْصِبُ رِجْلَہٗ الْیُمْنیٰ۔
(صحیح مسلم ج 1ص195 باب ما یجمع صفۃ الصلوٰۃ ومایفتح بہ ویختم بہ )
ترجمہ: حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تکبیر کے ساتھ نماز شروع فرماتے۔ (تشہد میں) آپ بایاں پاؤں بچھا دیتے اور دایاں پاؤں کھڑا کرلیتے۔
قعدہ اولیٰ میں صرف تشہد پڑھنا:
:1 عَنْ عَبْدِاللّٰہِ رضی اللہ عنہ قَالَ عَلَّمَنَارَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم اَنْ نَقُوْلَ اِذَاجَلَسْنَا فِی الرَّکْعَتَیْنِ اَلتَّحِیَّاتُ لِلّٰہِ وَالصَّلَوَاتُ وَالطَّیِّبَاتُ السَّلَامُ عَلَیْکَ اَیُّھَا النَّبِیُّ وَرَحْمَۃُ اللّٰہِ وَبَرَکَاتُہٗ اَلسَّلَامُ عَلَیْنَاوَعَلٰی عِبَادِاللّٰہِ الصَّالِحِیْنَ اَشْھَدُاَنْ لَّااِلٰہَ اِلَّااللّٰہُ وَاَشْھَدُاَنَّ مُحَمَّداًعَبْدُہٗ وَرَسُوْلُہٗ۔
(سنن النسائی ج1 ص174 باب کیف التشہد الاولی،السنن الکبری للبیہقی ج2 ص148 باب الصلوٰۃ علی النبی صلی اللہ علیہ وسلم فی التشہد)
ترجمہ: حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں تعلیم دی کہ جب دو رکعتوں کے بعد بیٹھا کریں تو یہ پڑھا کریں التحیات للہ والصلوات آخر تک۔
-2 عَنْ عَبْدِاللّٰہِ بْنِ مَسْعُوْدٍ َ رضی اللہ عنہ قَالَ عَلَّمَنِیْ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم اَلتَّشَھُّدَ فِیْ وَسْطِ الصَّلَاۃِ وَفِیْ اٰخِرِھَا……… اَلتَّحِیَّاتُ لِلّٰہِ وَالصَّلَوَاتُ وَالطَّیِّبَاتُ…… قَالَ ثُمَّ اِنْ کَانَ فِیْ وَسْطِ الصَّلَاۃِ نَھَضَ حِیْنَ یَفْرُغُ مِنْ تَشَھُّدِہٖ۔
(مسند احمد ج4 ص238 حدیث نمبر4382 )
ترجمہ: حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے درمیان نماز اور آخر نماز میں تشہدکی تعلیم دی…… فرماتے تھے کہ نمازی اگر درمیان میں ہوتو اپنے تشہد سے فارغ ہونے کے بعد کھڑا ہو جائے۔
:3 عَنِ الْحَسَنِ اَنَّہٗ کَانَ یَقُوْلُ لَا یَزِیْدُ فِی الرَّکْعَتَیْنِ الْاُوْلَیَیْنِ عَلَی التَّشَھُّدِ۔
(مصنف ابن ابی شیبۃ ج 3ص47، قدرکم یقعد فی الرکعتین الاولیین،رقم الحدیث 3038 )
ترجمہ: حضرت حسن رحمہ اللہ فرماتے تھے کہ نمازی پہلی دو رکعتوں میں تشہد کے علاوہ کچھ زیادہ نہ پڑھے۔
الفاظ تشہد:
عَنْ عَبْدِاللّٰہِ بْنِ مَسْعُوْدٍ رضی اللہ عنہ قَالَ کُنَّااِذَاصَلَّیْنَاخَلْفَ النَّبِیِّ صلی اللہ علیہ وسلم فَقَالَ اِنَّ اللّٰہَ ھُوَالسَّلَامُ فَاِذَاصَلّٰی اَحَدُکُمْ فَلْیَقُلْ اَلتَّحِیَّاتُ لِلّٰہِ وَالصَّلَوَاتُ وَالطِّیِّبَاتُ السَّلَاَمُ عَلَیْکَ اَیُّھَا النَّبِیُّ وَرَحْمَۃُ اللّٰہِ وَبَرَکَاتُہٗ اَلسَّلَامُ عَلَیْنَاوَعَلٰی عِبَادِاللّٰہِ الصَّالِحِیْنَ… اَشْھَدُاَنْ لَّااِلٰہَ اِلَّااللّٰہُ وَ اَشْھَدُاَنَّ مُحَمَّداًعَبْدُہٗ وَرَسُوْلُہٗ۔
(صحیح البخاری ج 1ص115 باب التشہد فی الاخرۃ، صحیح مسلم ج 1ص173 باب التشہد فی الصلوٰۃ)
ترجمہ: حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے نماز پڑھتے تھے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا کرتے تھے کہ اللہ تعالی ہی’’ سلام‘‘ ہے۔ جب تم میں سے کوئی نماز پڑھے تو اسے (تشہد) یوں کہنا چاہئے التحیات للہ آخرتک۔
ترجمہ تشہد : ساری حمد و ثناء، نماز یں اور ساری پاک چیزیں اللہ تعالی ہی کے لئے ہیں۔ اے نبی! آپ پر سلام ہو اور اللہ کی رحمتیں اور برکتیں۔ سلامتی ہو ہم پر اور اللہ تعالی کے نیک بندوں پر۔ میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ تعالی کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں اور یہ بھی گواہی دیتا ہوں کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں۔
تشہد میں انگلی کا اشارہ:
علی بن عبد الرحمن المعاوی فرماتے ہیں کہ میں نماز میں کنکریوں سے کھیل رہا تھا تو حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ نے مجھے دیکھا اور فرمایا:
اِصْنَعْ کَمَاکَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم یَصْنَعُ۔ قُلْتُ وَکَیْفَ کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم یَصْنَعُ؟ قَالَ کَانَ اِذَا جَلَسَ فِی الصَّلٰوۃِ وَضَعَ کَفَّہٗ الْیُمْنٰی عَلٰی فَخِذِہٖ الْیُمْنٰی وَقبَضَ اَصَابِعَہٗ کُلَّھَا وَاَشَارَبِاِصْبَعِہِ الَّتِیْ تَلِی الْاِبْھَامَ وَوَضَعَ کَفَّہٗ الْیُسْریٰ عَلٰی فَخِذِہٖ الْیُسْریٰ۔
(صحیح مسلم ج 1ص216 باب صفۃ الجلوس فی الصلوٰۃ وکیفیتہ ووضع الیدین، سنن ابی داؤد ج1 ص149 باب الاشارۃ فی التشہد)
ترجمہ: جیسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کرتے تھے ویسے کیا کرو۔ میں نے کہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیسے کرتے تھے؟ تو فرمایا کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز میں بیٹھتے تھے تو اپنی دائیں ہتھیلی دائیں ران پر رکھتے تھے اور اپنی تمام انگلیاں بند کرکے شہادت والی انگلی سے اشارہ فرماتے تھے اور اپنی بائیں ہتھیلی بائیں ران پر رکھتے تھے۔
کیفیت اشارہ:
عَنِ ابْنِ عُمَرَ رضی اللہ عنہ اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم کَانَ اِذَاقَعَدَ فِی التَّشَھُّدِ وَضَعَ یَدَہٗ الْیُسْریٰ عَلٰی رُکْبَتِہِ الْیُسْریٰ وَوَضَعَ یَدَہٗ الْیُمْنٰی عَلٰی رُکْبَتِہِ الْیُمْنٰی وَعَقَدَ ثَلاَ ثاً وَّخَمْسِیْنَ وَاَشَارَبِالسَّبَّابَۃِ۔
(صحیح مسلم ج1 ص216 باب صفۃ الجلوس فی الصلوٰۃ )
ترجمہ: حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب تشہد میں بیٹھتے تھے تو اپنا بایاں ہاتھ بائیں گھٹنے پر اوردایاں ہاتھ دائیں گھنٹے پر رکھتے تھے اور دائیں ہاتھ سے(۵۳) کے عدد کی شکل بناتے اور کلمہ کی انگلی سے اشارہ کرتے۔
اشارہ کے وقت انگلی کو بار بار حرکت نہ دینا:
عَنْ عَبْدِاللّٰہِ بْنِ الزُّبَیْرِ رضی اللہ عنہ اَنَّ النَّبِیَّ صلی اللہ علیہ وسلم کَانَ یُشِیْرُبِاِصْبَعِہٖ اِذَادَعَا وَ لاَ یُحَرِّکُھَا۔
(سنن النسائی ج 1ص187 باب بسط الیسری علی الرکبۃ،سنن ابی داؤد ج1 ص149 باب الاشارۃ فی التشہد )
ترجمہ: حضرت عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنی انگلی سے اشارہ کرتے تھے اور اسے حرکت نہیں دیتے تھے۔
شہادت والی انگلی کوآخر نماز تک بلا حرکت بچھائے رکھنا:
عَنْ عَاصِمِ بْنِ کُلَیْبٍ عَنْ اَبِیْہِ عَنْ جَدِّہٖ قَالَ دَخَلْتُ عَلَی النَّبِیِّ صلی اللہ علیہ وسلم وَھُوَیُصَلِّیْ وَقَدْوَضَعَ یَدَہٗ الْیُسْریٰ عَلٰی فَخِذِہٖ الْیُسْریٰ وَوَضَعَ یَدَہٗ الْیُمْنٰی عَلٰی فَخِذِہٖ الْیُمْنٰی وَقَبَضَ اَصَابِعَہٗ وَبَسَطَ السَّبَّابَۃَ وَھُوَ یَقُوْلُ یَامُقَلِّبَ الْقُلُوْبِ ثَبِّتْ قَلْبِیْ عَلٰی دِیْنِکَ۔
(جامع الترمذی ج 2ص199 ابواب الدعوات باب بلا ترجمۃ)
ترجمہ: حضرت عاصم بن کلیب اپنے باپ کلیب سے وہ اپنے باپ حضرت شہاب بن مجنون رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں:
’’ شہاب بن مجنون فرماتے ہیں کہ میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ نماز پڑھ رہے تھے اور اپنا بایاں ہاتھ بائیں ران پر رکھا ہوا تھا اوردایاں ہاتھ دائیں ران پر۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی کلمہ کی انگلی کو بچھایا ہوا تھا اور یہ دعا پڑھ رہے تھے۔
نوٹ: ( دعامذکورہ کا ترجمہ یہ ہے ) اے دلوں کو پھیرنے والی ذات میرا دل اپنے دین پر ثابت قدم فرما!
فائدہ: دعا ء تشہد میں درود شریف کے بھی بعد سلام کے قریب مانگی جاتی ہے۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت بھی انگلی کو بچھا کر اسی حالت پر برقرار رکھے ہوئے تھے۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ انگلی کو آخر نماز تک بچھائے رکھنا چاہئے۔ چنانچہ حضرت مولانا محمد اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
’’قُلْتُ فِیْہِ اِدَامَۃُ اِشَارَۃِ التَّشَھُّدِاِلٰی اٰخِرِالصَّلٰوۃِ۔‘‘
(الثواب الحلی علی جامع الترمذی للتھا نوی ج2 ص199 )
ترجمہ: میں(مولانا محمد اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ ( کہتا ہوں کہ اس حدیث میں یہ ثابت ہے کہ اشارہ آخر نماز تک برقرار رکھنا چاہیے۔
تشہد میں نظریں شہادت کی انگلی سے آگے نہ بڑھیں:
حضرت عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو نماز پڑھتے دیکھا۔
قَالَ: لَایُجَاوِزُبَصَرُہٗ اِشَارَتہٗ۔
(سنن ابی داؤد ج 1ص149 باب الاشارۃ فی التشہد، سنن النسائی ج1 ص 173باب موضع البصر فی التشہد)
ترجمہ: آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نظر انگلی کے اشارہ سے آگے نہ جاتی تھی۔
تشہد سراً پڑھنا:
عَنْ عَبْدِاللّٰہِ بْنِ مَسْعُوْدٍ رضی اللہ عنہ قَالَ مِنَ السُّنَّۃِ اَنْ یُّخْفَی التَّشَھُّدُ۔
(سنن ابی داؤد ج 1ص149 باب اخفاء التشہد، جامع الترمذی ج 1ص65 باب ما جاء انہ یخفی التشہد )
ترجمہ: حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ ارشاد فرماتے ہیں کہ سنت میں سے یہ ہے کہ تشہد آہستہ پڑھا جائے۔
قعدہ اولیٰ سے تکبیر کہتے ہوئے اٹھنا:
عَنْ مُطَرِّفٍ قَالَ صَلَّیْتُ اَنَاوَعِمْرَانُ بْنُ حُصَیْنٍ رضی اللہ عنہ صَلٰوۃً خَلْفَ عَلِیِّ بْنِ اَبِیْ طَالِبٍ رضی اللہ عنہ فَکَانَ اِذَاسَجَدَکَبَّرَوَاِذَا رَفَعَ کَبَّرَوَاِذَا نَھَضَ مِنَ الرَّکْعَتَیْنِ کَبَّرَ۔
(صحیح البخاری ج1 ص114 باب یکبر وینھض من السجدتین )
ترجمہ: حضرت مطرف رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ میں نے اور حضرت عمران بن حصین رضی اللہ عنہ نے حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کے پیچھے نماز پڑھی۔ جب آپ سجدہ کرتے تو تکبیر کہتے، جب سر اوپر اٹھاتے تکبیر کہتے اور جب دو رکعتوں سے اٹھتے تو تکبیر کہتے۔
تیسری رکعت کے شروع میں رفع یدین نہ کرنا:
عَنِ ابْنِ عُمَرَ رضی اللہ عنہ قَالَ کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم اِذَادَخَلَ فِی الصَّلٰوۃِرَفَعَ یَدَیْہِ نَحْوَصَدْرِہٖ وَاِذَارَفَعَ رَأْسَہٗ مِنَ الرُّکُوْعِ وَلَایَفْعَلُ بَعْدَذٰلِکَ
(الناسخ والمنسوخ لابن شاھین ص153 باب رفع الیدین فی الصلوٰۃ)
ترجمہ: حضرت بن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب نماز شروع کرتے تو اپنے ہاتھ سینہ تک اٹھاتے اور جب رکوع سے سر اٹھاتے اور نہ اس کے بعد کرتے۔
فرض کی آخری دو رکعتوں میں سورۃ فاتحہ پڑھنا:
عَنْ اَبِیْ قَتَادَۃَ رضی اللہ عنہ اَنَّ النَّبِیَّ صلی اللہ علیہ وسلم کَانَ یَقْرَئُ فِی الظُّھْرِ فِی الْاُوْلَیَیْنِ بِاُمِّ الْکِتَابِ وَسُوْرَتَیْنِ وَفِی الرَّکْعَتَیْنِ الْاُخْرَیَیْنِ بِاُمِّ الْکِتَابِ۔
(صحیح البخاری ج 1ص107 باب یقرأ فی الاخریین بام الکتاب،صحیح مسلم ج1 ص185 باب القراء ۃ فی الظہر والعصر)
ترجمہ: حضرت ابو قتادہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ظہر کی پہلی دو رکعتوں میں سورۃ فاتحہ اور دو سورتیں پڑھتے تھے اور آخری دو رکعتوں میں صرف سورۃ فاتحہ پڑھتے تھے۔
قعدہ اخیرہ کرنا:
:1 عَنْ عَبْدِاللّٰہِ بْنِ مَسْعُوْدٍ رضی اللہ عنہ قَالَ کُنَّااِذَاصَلَّیْنَاخَلْفَ النَّبِیِّ صلی اللہ علیہ وسلم …… فَقَالَ اِنَّ اللّٰہَ ھُوَالسَّلَامُ فَاِذَاصَلّٰی اَحَدُکُمْ فَلْیَقُلْ اَلتَّحِیَّاتُ لِلّٰہِ وَالصَّلَوَاتُ وَالطِّیِّبَاتُ، اَلسَّلَاَمُ عَلَیْکَ اَیُّھَا النَّبِیُّ وَرَحْمَۃُ اللّٰہِ وَبَرَکَاتُہٗ، اَلسَّلَامُ عَلَیْنَاوَعَلٰی عِبَادِاللّٰہِ الصَّالِحِیْنَ…… اَشْھَدُاَنْ لَّااِلٰہَ اِلَّااللّٰہُ وَاَشْھَدُاَنَّ مُحَمَّدًاعَبْدُہٗ وَرَسُوْلُہٗ۔
(صحیح البخاری ج1 ص 115باب التشہد فی الٓاخرۃ، صحیح مسلم ج 1ص173 باب التشہد فی الصلوٰۃ)
ترجمہ: حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے نماز پڑھتے تھے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا کرتے تھے کہ اللہ تعالی ہی سلام ہے۔ جب تم میں سے کوئی نماز پڑھے تو اسے (تشہد) یوں کہنا چاہئے
التحیات للہ والصلوات والطیبات …ا
ٓخر تک۔
:2 عَنْ عَبْدِاللّٰہِ بْنِ مَسْعُوْدٍ رضی اللہ عنہ قَالَ عَلَّمَنِیْ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم اَلتَّشَھُّدَ فِیْ وَسْطِ الصَّلَاۃِ وَفِیْ اٰخِرِھَا۔
)مسند احمد ج4 ص238 حدیث نمبر4382 )
ترجمہ: حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے درمیان نماز اور آخر نماز میں تشہد کی تعلیم دی۔
تورک نہ کرنا:
تشہد میں سرین کے بل بیٹھنے کو’’ تورک‘‘ کہتے ہیں۔ تورک کی نفی احادیث میں وارد ہے اور دایاں پاؤں کھڑا کرنے اور بائیں کو بچھا کر اس پر بیٹھنے کا ذکر ملتا ہے۔
:1 عَنْ عَبْدِاللّٰہِ بْنِ عُمَرَ رضی اللہ عنہ وَقَالَ اِنَّمَاسُنَّۃُ الصَّلٰوۃِ اَنْ تَنْصَبَ رِجْلَکَ الْیُمْنٰی وَتُثْنِیَ الْیُسْریٰ۔
(صحیح البخاری ج 1ص114 باب سنۃ الجلوس فی التشہد، سنن النسائی ج 1ص173 باب کیف الجلوس للتشہد الاول)
ترجمہ: حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں نماز میں سنت یہ ہے کہ آپ دایاں پاؤں کھڑا رکھیں اور بایاں پاؤں بچھا دیں۔
:2 عَنْ عَائِشَۃَ رضی اللہ عنہاقَالَتْ کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم یَسْتَفْتِحُ الصَّلٰوۃَ بِالتَّکْبِیْرِوَالْقِرَائَ ۃَ بِالْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ ……… وَکَانَ یَفْرِشُ رِجْلَہٗ الْیُسْریٰ وَیَنْصَبُ رِجْلَہٗ الْیُمْنٰی۔
(صحیح مسلم ج1 ص194 باب ما یجمع صفۃ الصلوٰۃ وما یفتح بہ ویختم بہ )
ترجمہ: حضرت عائشہ رضی اللہ عنہاسے روایت ہے، فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز تکبیر سے شروع کرتے اور قرات الحمد للہ رب العالمین سے اور (تشہد میں) اپنا بایاں پاؤں پھیلاتے اور دائیں پاؤں کو کھڑا رکھتے۔
درود شریف پڑھنا:
عَنْ فُضَالَۃَ بْنِ عُبَیْدٍ رضی اللہ عنہ قَالَ سَمِعَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم رَجُلاً یَدْعُوْفِی الصَّلٰوۃِ لَمْ یَحْمِدِ اللّٰہَ وَلَمْ یُصَلِّ عَلَی النَّبِیِّ صلی اللہ علیہ وسلم فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم عَجَّلْتَ اَیُّھَاالْمُصَلِّی ثُمَّ عَلَّمَھُمْ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم فَسَمِعَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم رَجُلاً یُّصَلِّیْ فَمَجَّدَ اللّٰہَ وَحَمِدَہٗ وَصَلّٰی عَلَی النَّبِیِّ صلی اللہ علیہ وسلم فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم اُدْعُ تُجَبْ وَسَلْ تُعْطَ۔
(سنن النسائی ج 1ص189 باب التمجید والصلوٰۃ علی النبیﷺ فی الصلوٰۃ )
ترجمہ: حضرت فضالہ بن عبید رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک آدمی کو سنا کہ وہ نماز میں نہ اللہ تعالی کی حمد بیان کرتا ہے اور نہ ہی نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر درود پڑھتا ہے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے فرمایا کہ اے نمازی تم نے جلدی کی۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو سکھایا (کہ پہلے اللہ تعالی کی حمد و ثناء پھر نبی علیہ السلام پر درود پڑھا کرو) پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک اور آدمی سے سنا کہ وہ نماز پڑھ رہا ہے اور اللہ کی بزرگی بیان کر رہا ہے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر درود پڑھ رہا ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا دعا کر تیری دعا قبول ہوگی، سوال کر عطا کیا جائے گا۔
الفاظ درود شریف:
حضرت کعب بن عجرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
سَاَلْنَارَسُوْلَ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم فَقُلْنَا یَارَسُوْلَ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم کَیْفَ الصَّلٰوۃُ عَلَیْکُمْ اَہْلَ الْبَیْتِ؟ فَاِنَّ اللّٰہَ قَدْ عَلَّمَنَاکَیْفَ نُسَلِّمُ عَلَیْکَ۔ قَالَ قُوْلُوْا اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّعَلٰی اٰلِ مُحَمَّدٍکَمَاصَلَّیْتَ عَلٰی اِبْرَاہِیْمَ وَ عَلٰی اٰلِ اِبْرَاہِیْمَ اِنَّکَ حَمِیْدٌ مَّجِیْدٌ اَللّٰھُمَّ بَارِکْ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّعَلٰی اٰلِ مُحَمَّدٍکَمَا بَارَکْتَ عَلٰی اِبْرَاہِیْمَ وَعَلٰی اٰلِ اِبْرَاہِیْمَ اِنَّکَ حَمِیْدٌ مَّجِیْدٌ۔
صحیح البخاری ج1 ص477 باب یزفون النسلان فی المشیترجمہ: ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا اور عرض کیا یا رسول اللہ! ہم آپ پر اور اہل بیت پر صلوۃ کیسے بھیجیں، کیونکہ اللہ تعالی نے ہمیں سلام بھیجنے کا طریقہ تو بتلا دیا ہے۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یوں کہا کرو اللھم صل علی محمد آخر تک۔ (ترجمہ یہ ہے) اے اللہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کی آل پر رحمت نازل فرما جس طرح تو نے حضرت ابراہیم علیہ السلام اور ان کی آل پر رحمتیں نازل کیں، بے شک تو قابل تعریف بزرگی والا ہے۔ اے اللہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کی آل پر برکت نازل فرما جس طرح تو نے حضرت ابراہیم علیہ السلام اور ان کی آل پر برکت نازل کی تھی، بے شک تو قابل تعریف بزرگی والا ہے۔
بعد از تشہد اختیاری دعا:
عَنْ عَبْدِاللّٰہِ بْنِ مَسْعُوْدٍ رضی اللہ عنہ قَالَ کُنَّا اِذَا صَلَّیْنَا خَلْفَ النَّبِیِّ صلی اللہ علیہ وسلم … فَقَالَ اِنَّ اللّٰہَ ھُوَالسَّلَامُ فَاِذَا صَلّٰی اَحَدُکُمْ فَلْیَقُلْ اَلتَّحِیَّاتُ لِلّٰہِ…… اَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَرَسُوْلُہٗ ثُمَّ لْیَتَخَیَّرْمِنَ الدُّعَائِ اَعْجَبَہٗ اِلَیْہِ فَیَدْعُوْ۔
(صحیح البخاری ج1 ص115 باب ما یتخیر من الدعاء بعد التشہد ولیس بواجب، صحیح مسلم ج 1ص 173باب التشہد فی الصلوٰۃ )
ترجمہ: حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے نماز پڑھتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:
اللہ ہی سلام ہے۔ جب تم میں سے کوئی نماز پڑھے تو اسے چاہیے کہ یوں کہے التحیات للہ (آخر تشہد تک) پھر اس کو اختیار ہے کہ جو دعا ا سے پسند ہو مانگے۔
الفاظ دعا:
:1 اللہ تعالی نے قرآن مجید میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کی دعا ذکر فرمائی:
رَبِّ اجْعَلْنِیْ مُقِیْمَ الصَّلٰوۃِ وَمِنْ ذُرِّیَتِیْ رَبَّنَاوَتَقَبَّلْ دُعَائَ رَبَّنَا اغْفِرْلِیْ وَلِوَالِدَیَّ وَلِلْمُؤْمِنِیْنَ یَوْمَ یَقُوْمُ الْحِسَابُ۔
(سورۃ ابراھیم: 41.40)
ترجمہ: اے اللہ ! مجھے اور میری اولاد کو نماز قائم کرنے والا بنا اور میری دعا قبول فرما۔ اے ہمارے پروردگار! مجھے، میرے والدین کو اور تمام مومنین کو حساب والے دن بخش دے
:2 عَنْ اَبِیْ بَکْرِنِ الصِّدِّیْقِ رضی اللہ عنہ اَنَّہٗ قَالَ لِرَسُوْلِ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم عَلِّمَنِیْ دُعَائً اَدْعُوْ بِہٖ فِیْ صَلَا تِیْ۔ قَالَ قُلْ اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ ظَلَمْتُ نَفْسِیْ ظُلْمًا کَثِیْرًا وَّلَا یَغْفِرُ الذُّنُوْبَ اِلَّا اَنْتَ فَاغْفِرْلِیْ مَغْفِرَۃً مِّنْ عِنْدِکَ وَارْحَمْنِیْ اِنَّکَ اَنْتَ الْغَفُوْرُ الرَّحِیْمُ۔
(صحیح البخاری ج1 ص115 باب الدعا قبل السلام، صحیح مسلم ج1 ص347 باب الدعوات والتعوذ )
ترجمہ: حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے بارے میں روایت ہے کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں عرض کی کہ مجھے کوئی دعا سکھائیں جسے میں اپنی نماز میں مانگا کروں۔تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ دعا مانگا کرو۔
ترجمہ دعا اے اللہ میں نے اپنی جان پر بہت ظلم کیا اور تیرے علاوہ کوئی اور ذات نہیں جو گناہ بخش دے پس اپنے ہاں میری مغفرت فرما اور مجھ پر رحم فرما۔ بے شک تو ہی مغفرت کرنے والا ہے اور رحم کرنے والا ہے۔
کسی بھی رکن میں امام سے سبقت نہ کرنا:
عَنْ اَنَس رضی اللہ عنہ قَالَ صَلّٰی بِنَا رَسُوْلُ اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم ذَاتَ یَوْمٍ فَلَمَّا قَضَی الصَّلٰوۃَ اَقْبَلَ عَلَیْنَا بِوَجْھِہٖ فَقَالَ اَیُّھَا النَّاسُ اِنِّیْ اِمَامُکُمْ فَلَا تَسْبِقُوْنِیْ باِلرُّکُوْعِ وَلَا بِالسُّجُوْدِ وَلاَ بِالْقِیَامِ وَلَابِالْاِنْصِرَافِ۔
(صحیح مسلم ج 1ص180 باب تحریم سبق الامام برکوع اوسجود ونحوھما )
ترجمہ: حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں نماز پڑھائی جب نماز مکمل کی تو ہماری طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا اے لوگو! میں تمہارا امام ہوں۔ تم لوگ رکوع، سجدہ، قیام اور نماز ختم کرنے میں مجھ سے سبقت نہ کیا کرو۔
نماز کا اختتام سلام پر ہے:
عَنْ عَائِشَۃَ رضی اللہ عنہاقَالَتْ کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم یَسْتَفْتِحُ الصَّلٰوۃَ بِالتَّکْبِیْرِ…وَکَانَ یَخْتِمُ الصَّلٰوۃَ بِالتَّسْلِیْمِ۔
(صحیح مسلم ج 1ص195 باب ما یجمع صفۃ الصلوٰۃ وما یفتتح بہ ویختم بہ، سنن ابی داؤد ج 1ص121 باب من لم یجھر ببسم اللہ الرحمن الرحیم )
ترجمہ: حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز تکبیر سے شروع فرماتے اور سلام پر ختم کرتے تھے۔
الفاظ سلام:
عَنْ عَبْدِاللّٰہِ بْنِ مَسْعُوْدٍ رضی اللہ عنہ عَنِ النَّبِیِّ صلی اللہ علیہ وسلم اِنَّہٗ کَانَ یُسَلِّمُ عَنْ یَّمِیْنِہٖ وَعَنْ یَّسَارِہٖ اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ وَرَحْمَۃُ اللّٰہِ۔ اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ وَرَحْمَۃُ اللّٰہِ۔
(جامع الترمذی ج1 ص65 باب ماجاء فی التسلیم فی الصلوٰۃ، شرح معانی الآثار ج 1ص190 باب السلام فی الصلوٰۃ کیف ھو؟ )
ترجمہ: حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم دائیں بائیں سلام پھیرتے تھے اور یہ فرماتے تھے
السلام علیکم ورحمۃ اللہ۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ۔
کیفیت سلام:
:1 عَنْ عَبْدِاللّٰہِ رضی اللہ عنہ قَالَ رَاَیْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم یُکَبِّرُ فِیْ کُلِّ خَفْضٍ وَّرَفْعٍ وَقِیَامٍ وَقُعُوْدٍ وَ یُسَلِّمُ عَنْ یَّمِیْنِہٖ وَعَنْ شِمَالِہٖ اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ وَرَحْمَۃُ اللّٰہِ، اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ وَرَحْمَۃُ اللّٰہِ حَتّٰی یُرَیٰ بَیَاضُ خَدِّہٖ وَرَاَیْتُ اَبَا بَکْرٍ رضی اللہ عنہ وَعُمَرَ رضی اللہ عنہ مایَفْعَلَانِ ذٰلِکَ۔
(سنن النسائی ج1 ص194باب کیف السلام علی الیمین )
ترجمہ: حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ آپ ہر اونچ، نیچ، قیام، قعدہ، وغیرہ میں تکبیر کہتے تھے اور دائیں بائیں سلام پھیرتے تھے (اور فرماتے تھے) السلام علیکم و رحمۃ اللہ۔ السلام علیکم و رحمۃ اللہ، یہاں تک کہ آپ کے گالوں کی سفیدی نظر آتی تھی اور میں نے حضرت ابو بکر اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو بھی دیکھا کہ وہ بھی ایسا ہی کرتے تھے۔
:2 عَنْ عَامِرِبْنِ سَعْدٍ عَنْ اَبِیْہِ قَالَ کُنْتُ اَریٰ رَسُوْلَ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم یُسَلِّمُ عَنْ یَّمِیْنِہٖ وَعَنْ یَّسَارِہٖ حَتّٰی اَریٰ بَیَاضَ خَدِّہٖ۔
(صحیح مسلم ج1 ص216 باب السلام التحلیل من الصلوٰۃ عند فراغھا وکیفیتہ )
ترجمہ: حضرت عامر بن سعد اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے دائیں اور بائیں سلام پھیرتے تھے یہاں تک کہ میں آپ کے گالوں کی سفیدی دیکھتا تھا۔
مقتدیوں کا امام کے سلام کے ساتھ سلام پھیرنا:
:1 عَنْ عِتْبَانَ بْنِ مَالِکٍ رضی اللہ عنہ قَالَ صَلَّیْنَامَعَ رَسُوْلِ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم فَسَلَّمْنَاحِیْنَ سَلَّمَ۔
(صحیح البخاری ج1 ص116 باب یسلم حین یسلم الامام )
ترجمہ: حضرت عتبان بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، فرماتے ہیں کہ ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھی۔ جس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سلام پھیرا ہم نے سلام پھیرا۔
:2کَانَ ابْنُ عُمَرَ رضی اللہ عنہ یَسْتَحِبُّ اِذَاسَلَّمَ الْاِمَامُ اَنْ یُّسَلِّمَ مَنْ خَلْفَہٗ۔ ایضاً
ترجمہ: حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ اس بات کو پسند کرتے تھے کہ جب امام سلام پھیرے تو مقتدی بھی سلام پھیردیں۔
جہری نمازوں میں جہراً اور سری نمازوں میں سراً قراء ت کرنا:
عَنْ اَبِیْ ہُرَیْرَۃَ رضی اللہ عنہ یَقُوْلُ فِیْ کُلِّ صَلٰوۃٍ یُقْرَاُ فَمَا اَسْمَعَنَا رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم اَسْمَعْنَاکُمْ وَمَااَخْفٰی عَنَّا اَخْفَیْنَا عَنْکُمْ۔
(صحیح البخاری ج 1ص 106باب القرا ء ۃ فی الفجر،صحیح مسلم ج 1ص170 باب وجوب قرا ء ۃ الفاتحہ فی کل رکعۃ )
ترجمہ: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے تھے کہ ہر نماز میں قرات کی جاتی ہے۔ پس جس نماز میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں قرات سنائی (یعنی بلند آواز سے پڑھی) ہم بھی تمہیں سناتے ہیں اور جس نماز میں ہم سے اخفاء کیا (یعنی آہستہ پڑھی) تو ہم بھی تم سے اخفاء کرتے ہیں۔
دوران نماز آنکھیں بند نہ کرنا:
عَنِ ابْنِ عَبَّاس رضی اللہ عنہ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم اِذَاقَامَ اَحَدُکُمْ فِی الصَّلٰوۃِ فَلاَ یَغْمِضْ عَیْنَیْہِ۔
(المعجم الکبیر للطبرانی ج 5ص 247رقم الحدیث 10794،المعجم الاوسط للطبرانی ج 1ص603 رقم الحدیث 2218)
ترجمہ: حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب تم میں سے کوئی نماز کے لئے کھڑا ہو تو اپنی آنکھیں بند نہ کرے۔
تعدیل ارکان کا خیال رکھنا:
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک آدمی مسجد میں داخل ہوا اور جلدی جلدی نماز پڑھی تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے بلایا اور نماز کا طریقہ سکھاتے ہوئے فرمایا:
اِذَاقُمْتَ اِلَی الصَّلٰوۃِ فَکَبِّرْ ثُمَّ اقْرَئْ مَاتَیَسَّرَمَعَکَ مِنَ الْقُرْاٰنِ ثُمَّ ارْکَعْ حَتّٰی تَطْمَئِنَّ رَاکِعًا ثُمَّ ارْفَعْ حَتّٰی تَعْتَدِلَ قَائِمًا ثُمَّ اسْجُدْحَتّٰی تَطْمَئِنَّ سَاجِداً ثُمَّ ارْفَعْ حَتّٰی تَطْمَئِنَّ جَالِساً ثُمَّ اسْجُدْ حَتّٰی تَطْمَئِنَّ سَاجِداً ثُمَّ افْعَلْ ذٰلِکَ فِیْ صَلٰوتِکَ کُلِّھَا۔
(صحیح البخاری ج 1ص 109باب امر النبی صلی اللہ علیہ وسلم الذی لا یتم رکوعہ بالاعادۃ،صحیح مسلم ج 1ص170 باب وجوب قر اء ۃ الفاتحۃ فی کل رکعۃ )
ترجمہ: جب تو نماز کے لئے کھڑا ہوتو تکبیر کہہ پھر جس قدر قرآن تجھے یاد ہو پڑھ، اس کے بعد رکوع کر، جب اطمینان سے رکوع کرلے تو اس کے بعد سر اٹھا کر سیدھا کھڑا ہو جا، اس کے بعد سجدہ کر۔ جب اطمینان سے سجدہ کر چکے تو اس کے بعد سر اٹھا کر اطمینان سے بیٹھ جا، اس کے بعد اطمینان سے سجدہ کر، اپنی پوری نماز میں اسی طرح کیا کر۔
امام کا نماز مختصر پڑھانا:
عَنْ اَبِیْ ہُرَیْرَۃَ رضی اللہ عنہ اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم قَالَ ِاذَا صَلّٰی اَحَدُکُمْ لِلنَّاسِ فَلْیُخَفِّفْ فَاِنَّ فِیْھِمُ الضَّعِیْفَ وَالسَّقِیْمَ وَالْکَبِیْرَ وَاِذَاصَلّٰی اَحَدُکُمْ لِنَفْسِہٖ فَلْیُطَوِّلْ مَاشَائَ۔
(صحیح البخاری ج 1ص 97باب اذا صلی لنفسہ فلیطول ماشائ،صحیح مسلم ج 1ص188 باب امر الائمۃ بتخفیف الصلوٰۃ فی تمام الخ )
ترجمہ: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب تم میں سے کوئی لوگوں کو نماز پڑھائے تو مختصر پڑھائے، کیونکہ ان میں کمزور، بیمار اور بوڑھے بھی ہوتے ہیں۔ ہاں جب کوئی اکیلے نماز پڑھ رہا ہو تو جتنا لمبی کرے اس کی مرضی۔
سلام پھیرنے کے بعد
امام کا مقتدیوں کی طرف متوجہ ہونا:
عَنْ سَمُرَۃَ بْنِ جُنْدُبٍ رضی اللہ عنہ قَالَ کَانَ النَّبِیُّ صلی اللہ علیہ وسلم اِذَاصَلّٰی صَلٰوۃً اَقْبَلَ عَلَیْنَابِوَجْھِہٖ۔
(صحیح البخاری ج 1ص117 باب یستقبل الامام الناس اذا سلم )
ترجمہ: حضرت سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب نما ز سے فارغ ہوتے تو ہماری طرف متوجہ ہوکر بیٹھ جاتے۔
اسی مضمون کی روایات حضرت زید بن خالد جہنی اور حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے بھی مروی ہیں۔
(صحیح البخاری ج 1ص117 باب ایضاً )
ذکر و اذکار:
آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے سلام پھیرنے کے بعد موقع بہ موقع مختلف اوراد و اذکار مروی ہیں۔
:1 حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے:
اِنَّ فُقَرَائَ الْمُھَاجِرِیْنَ اَتَوْارَسُوْلَ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم فَقَالُوْا قَدْ ذَھَبَ اَھْلُ الدُّثُوْرِ بِالدَّرَجَاتِ الْعُلٰی وَالنَّعِیْمِ الْمُقِیْمِ فَقَالَ وَمَاذَاکَ قَالُوْا یُصَلُّوْنَ کَمَا نُصَلِّیْ وَیَصُوْمُوْنَ کَمَا نَصُوْمُ وَیَتَصَدَّقُوْنَ وَ لاَ نَتَصَدَّقُ وَیُعْتِقُوْنَ وَلَانُعْتِقُ۔ فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم اَفَلَا اُعَلِّمُکُمْ شَیْأً تُدْرِکُوْنَ بِہٖ مَنْ سَبَقَکُمْ وَتَسْبِقُوْنِ بِہٖ مَنْ بَعْدَکُمْ وَلَایَکُوْنُ اَحَدٌ اَفْضَلَ مِنْکُمْ اِلَّامَنْ صَنَعَ مِثْلَ مَاصَنَعْتُمْ، قَالُوْا بَلٰی یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم ! قَالَ تُسَبِّحُوْنَ وَتُکَبِّرُوْنَ وَتَحْمِدُوْنَ فِیْ دُبُرِکُلِّ صَلٰوۃٍ ثَلاَثاً وَّ ثَلَاثِیْنَ مَرَّۃً قَالَ اَبُوْصَالِحٍ فَرَجَعَ فُقَرَائُ الْمُہَاجِرِیْنَ اِلٰی رَسُوْلِ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم فَقَالُوْا سَمِعَ اِخْوَانُنَا اَھْلُ الْاَمْوَالِ بِمَافَعَلْنَا فَفَعَلُوْامِثْلَہٗ فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم ذٰلِکَ فَضْلُ اللّٰہِ یُؤْتِیْہِ مَنْ یَّشَآئُ۔
(صحیح مسلم ج1 ص219 باب استحباب الذکر بعد الصلوٰۃ )
ترجمہ: حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ فقراء مہاجرین آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ مال دار لوگ تو بلند درجات اور جنت کی نعمتوں میں ہم پر سبقت لے گئے۔ آپ نے پوچھا کیسے؟ تو انہوں نے کہا کہ وہ نماز پڑھتے ہیں جیسے ہم پڑھتے ہیں اور روزہ رکھتے ہیں جیسے ہم رکھتے ہیں لیکن وہ صدقہ کرتے ہیں جو ہم نہیں کر سکتے اور وہ غلام آزاد کرتے ہیں جو ہم نہیں کر سکتے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: کیا تمہیں ایسی چیز نہ بتاؤں جس سے تم بھی اپنے سبقت لے جانے والوں کے برابر ہو جاؤ اور کوئی تمہارے برابر نہ ہو سکے مگر وہ لوگ جو یہ کام کرتے رہیں۔ انہوں نے عرض کیا ضرور بتائیے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہر نماز کے بعد 33,33بار سبحان اللہ، الحمد للہ، اللہ اکبر پڑھا کرو۔ حضرت ابو صالح فرماتے ہیں کہ فقراء مہاجرین دوبارہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کرنے لگے کہ ہمارے مالدار بھائیوں کو ہمارے اس عمل کا پتا چل گیا ہے اور انہوں نے بھی ایسا عمل کرنا شروع کر دیا ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ اللہ تعالی کا فضل ہے جس کو چاہے عطا کرتا ہے۔
:2 حضرت کعب بن عجرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے:
عَنْ کَعْبِ بْنِ عُجْرَ ۃَ رضی اللہ عنہ عَنْ رَسُوْلِ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم قَالَ مُعَقِّبَاتٌلَایَخِیْبُ قَائِلُھُنَّ اَوْفَاعِلُھُنَّ ثَلاَثاًوَّثَلاَثِیْنَ تَسْبِیْحَۃً وَّثَلَاثاًوَّ ثَلَاثِیْنَ تَحْمِیْدَۃً وَّاَرْبَعًا وَّثَلٰثِیْنَ تَکْبِیْرَۃً فِیْ دُبِرِکُلِّ صَلٰوۃٍ۔
صحیح مسلم ج1 ص219 باب استحباب الذکر بعد الصلوٰۃ )
ترجمہ: حضرت کعب بن عجرہ رضی اللہ عنہ حضور کا فرمان نقل کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا چند تسبیحات ایسی ہیں جنہیں ہر نماز کے بعد پڑھنے والا کبھی ناکام نہیں ہو گا۔ 33 بار سبحان اللہ 33 بار الحمد للہ اور 34 بار اللہ اکبر۔
:3 حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ سے مروی ہے:
عَنْ ثَوْبَانَ رضی اللہ عنہ قَالَ کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم اِذَاانْصَرَفَ مِنْ صَلٰوتِہٖ، اِسْتَغْفَرَثَلاَثًاوَقَالَ اَللّٰھُمَّ اَنْتَ السَّلَامُ وَمِنْکَ السَّلَامُ تَبَارَکْتَ ذَاالْجَلَالِ وَالْاِکْرَامِ وَفِیْ رِوَایَۃٍ قَالَ یَاذَالْجَلَالِ وَالْاِکْرَامِ۔
(صحیح مسلم ج 1 ص218 باب استحباب الذکر بعد الصلوٰۃ )
ترجمہ: حضرت ثوبان رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب نماز سے فارغ ہوتے تو تین بار استغفار پڑھتے اور یہ دعا پڑھتے۔ اَللّٰھُمَّ اَنْتَ السَّلَامُ وَمِنْکَ السَّلَامُ تَبَارَکْتَ ذَاالْجَلَالِ وَالْاِکْرَامِ۔ ایک روایت میں ہے:َ یَا ذَاالْجَلَالِ وَالْاِکْرَامِ۔
:4 حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے:
اَنَّ النَّبِیَّ صلی اللہ علیہ وسلم کَانَ یَقُوْلُ فِیْ دُبُرِکُلِّ صَلٰوۃٍ مَّکْتُوْبَۃٍ لَااِلٰہَ اِلَّااللّٰہُ وَحْدَہٗ لَاشَرِیْکَ لَہٗ؛ لَہٗ الْمُلْکُ وَلَہٗ الْحَمْدُوَھُوَعَلٰی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیْرٌ اَللّٰھُمَّ لَامَانِعَ لِمَااَعْطَیْتَ وَلَامُعْطِیَ لِمَامَنَعْتَ وَلَایَنْفَعُ ذَا الْجَدِّ مِنْکَ الْجَدُّ۔
(صحیح البخاری ج 1ص117 باب الذکر بعد الصلوٰۃ، صحیح مسلم ج 1ص218 باب استحباب الذکر بعد الصلوٰۃ)
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہر فرض نماز کے بعد یہ کلمات کہتے تھے۔
کلمات کا ترجمہ: اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں، وہ اکیلا ہے، اس کا کوئی شریک نہیں، اسی کے لئے (تمام جہانوں کی) بادشاہت ہے اور اسی کے لئے تمام تعریفیں ہی۔اے اللہ! تو عطا کرے تو کوئی روکنے والا نہیں اور اگر تو روک دے تو عطا کرنے والا کوئی نہیں اور مالدار آدمی کو اس کی دولت تیرے عذاب سے فائدہ نہ دے گی۔
:5 عَنْ عَلِیٍّ رضی اللہ عنہ قَالَ سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم عَلٰی اَعْوَادِ ھٰذَا الْمِنْبَرِ یَقُوْلُ مَنْ قَرَئَ اٰیَۃَ الْکُرْسِیِّ فِیْ دُبُرِکُلِّ صَلٰوۃٍ لَمْ یَمْنَعْہُ مِنْ دُخُوْلِ الْجَنَّۃِ اِلَّا الْمَوْتُ۔
(شعب الایمان للبیہقی ج2 ص458 تخصیص آیۃ الکرسی بالذکر، رقم الحدیث2395، مشکوٰۃ المصابیح ج 1ص89 باب الذکر بعد الصلوۃ )
ترجمہ: حضرت علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس منبر پر یہ کہتے ہوئے کہ جو شخض ہر نماز کے بعد آیت الکرسی پڑھے گا تو اس کے جنت میں جانے کے لئے رکاوٹ صرف موت ہے۔
اسی مضمون کی روایت حضرت ابو امامہ باہلی رضی اللہ عنہ سے بھی مروی ہے۔
(عمل الیوم واللیلۃ للنسائی ص182 رقم الحدیث 100، المعجم الکبیر للطبرانی ج 4ص260 رقم الحدیث 7408 )
نماز کے بعد دعا مانگنا:
:1 عَنْ اَبِیْ اُمَامَۃَ رضی اللہ عنہ قَالَ قِیْلَ لِرَسُوْلِ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم اَیُّ الدُّعَائِ اَسْمَعُ قَالَ جَوْفُ اللَّیْلِ الْاٰخِرُوَدُبُرَالصَّلَوَاتِ الْمَکْتُوْبَاتِ۔
(جامع الترمذی ج 2ص187 باب بلا ترجمۃ ابواب الدعوات، السنن الکبریٰ للنسائی ج6 ص32 ما یستحب من الدعاء دبر الصلوات المکتوبات، رقم 9936، عمل الیوم واللیلۃ للنسائی ص186، رقم الحدیث 108)
ترجمہ: حضرت ابو مامہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا کہ کون سی دعا سب سے زیادہ قبول ہوتی ہے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: رات کے آخر میں اور فرض نمازوں کے بعد۔
:2 عَنْ اَنَسِ بْنِ مَالِک رضی اللہ عنہ عَنِ النَّبِیِّ صلی اللہ علیہ وسلم قَالَ اَلدُّعَائُ مُخُّ الْعِبَادَۃِ۔
(جامع الترمذی ج 2ص175، ابواب الدعوات، رقم الباب 2، المعجم الاوسط للطبرانی ج 2ص255 رقم الحدیث 3196، جامع الاحادیث للسیوطی ج 13ص2 رقم الحدیث 12413)
ترجمہ: حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا دعا عبادت کا مغز ہے۔
دعا میں ہاتھ اٹھانا:
:1 عَنْ اَنَسٍ رضی اللہ عنہ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم یَااَیُّھَاالنَّاسُ اِنَّ رَبَّکُمْ حَیٌّ کَرِیْمٌ یَسْتَحِیْ اَنْ یَّمُدَّہٗ اَحَدُکُمْ یَدَیْہِ اِلَیْہِ فَیَرُدَّھُمَا خَائِبَتَیْنِ۔
(مسند ابی یعلی ج 7ص 142رقم الحدیث 4108)
ترجمہ: حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے لوگو! تمہارا رب با حیا کریم ہے۔اسے پسند نہیں کہ بندہ اس کی طرف ہاتھ اٹھائے اور وہ انہیں خالی لوٹا دے۔
اسی مضمون کی روایت حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ سے بھی مروی ہے۔
(سنن ابن ماجۃ ج 1ص275 باب رفع الیدین فی الدعائ،جامع الترمذی ج 2ص196 ابواب الدعوات، باب بلا ترجمۃ، صحیح ابن حبان ص343،ذکر استجابۃ الدعائ۔۔، رقم الحدیث 880 )
:2 عَنْ اَنَسٍ رضی اللہ عنہ قَالَ رَاَیْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم یَرْفَعُ یَدَیْہِ فِی الدُّعَائِ حَتّٰی یُریٰ بَیَاضَ اِبْطَیْہِ۔
(الجمع بین الصحیحین ج 2ص437 رقم الحدیث 3943،السنن الکبری للبیہقی ج3 ص357 باب رفع الیدین فی دعاء الاستسقاء، صحیح ابن حبان ص342 ذکر الاباحۃ للمرء ان یرفع یدیہ الخ، رقم الحدیث 877 )
ترجمہ: حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ آپ دعا میں اپنے ہاتھوں کو اٹھاتے تھے یہاں تک کہ آپ کی بغلوںکی سفیدی نظر آنے لگتی۔
:3 عَنْ عُمَرَبْنِ الْخَطَّابِ رضی اللہ عنہ قَالَ کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم اِذَارَفَعَ یَدَیْہِ فِی الدُّعَائِ لَمْ یَحُطَّھُمَاحَتّٰی یَمْسَحَ بِھِمَا وَجْھَہٗ۔
(جامع الترمذی ج 2ص176 باب ما جاء فی رفع الایدی عند الدعاء، المعجم الاوسط للطبرانی ج 5ص197 رقم الحدیث 7053، مسند البزارج1 ص243 رقم الحدیث 129)
ترجمہ: حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب دعا میں اپنے ہاتھ اٹھاتے تھے تو انہیں گرانے سے پہلے اپنے چہرہ مبارک پر پھیر لیتے تھے۔
:4 عَنِ السَّائِبِ بْنِ یَزِیْدَ عَنْ اَبِیْہِ اَنَّ النَّبِیَّ صلی اللہ علیہ وسلم کَانَ اِذَادَعَا فَرَفَعَ یَدَیْہِ مَسَحَ وَجْھَہٗ بِیَدَیْہِ۔
(سنن ابی داؤد ج1 ص 216 باب الدعائ،المعجم الکبیر للطبرانی ج 9ص273 رقم الحدیث 18088 )
ترجمہ: حضرت سائب بن یزید اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب دعا فرماتے تھے تو ہاتھوں کو اٹھاتے اور( آخر میں) اپنے چہرے پر پھیر لیتے تھے۔
نماز کے بعد ہاتھ اٹھا کر دعا مانگنا:
:1 عَنِ الْفَضْلِ بْنِ عَبَّاسٍ رضی اللہ عنہ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم اَلصَّلَاۃُ مَثْنٰی مَثْنٰی تَشَھُّدٌ فِیْ کُلِّ رَکْعَتَیْنِ وَتَخَشُّعٌ وَتَضَرُّعٌ وَتَمَسْکُنٌ وَتُقْنِعُ یَدَیْکَ یَقُوْلُ تَرْفَعُھُمَا اِلٰی رَبِّکَ مُسْتَقْبِلاً بِبُطُوْنِھِمَا وَجْھَکَ وَتَقُوْلُ یَارَبِّ یَارَبِّ وَمَنْ لَّمْ یَفْعَلْ ذٰلِکَ فَھُوَکَذَاوَکَذَا۔
(جامع الترمذی ج 1ص87 باب ما جاء فی التشخع فی الصلوٰۃ،المعجم الکبیر للطبرانی ج8 ص26 رقم الحدیث 15154 )
ترجمہ: حضرت فضل بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا نماز دو دو رکعت ہے، ہر دو رکعت میں تشہد پڑھنا ہے، عاجزی، انکساری اور مسکینی ظاہر کرنا ہے، اپنے دونوں ہاتھ اپنے رب کی طرف اس طرح اٹھاؤ کہ ان کی ہتھیلیاں تمہارے چہرے کی طرف ہوں اور کہو کہ اے رب! اے رب! اور جس نے ایسا نہ کیا اس کی نماز ایسی ہے، ایسی ہے یعنی ناقص و نا مکمل ہے
:2 عَنْ اَبِیْ ہُرَیْرَۃَ رضی اللہ عنہ اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم رَفَعَ یَدَہٗ بَعْدَمَاسَلَّمَ وَھُوَمُسْتَقْبِلُ الْقِبْلَۃِ فَقَالَ اَللّٰھُمَّ خَلِّصِ الْوَلِیْدَ بْنَ الْوَلِیْدِ۔
(تفسیر ابن ابی حاتم ج3 ص123 رقم الحدیث 5906، تحت قولہ تعالی: لاَ یَسْتَطِیْعُوْنَ حِیْلَۃً تفسیرابن کثیرص522 تحت قولہ تعالی:فَاُولٰئِکَ عَسَی اللّٰہُ اَنْ یَّعْفُوَ عَنْہُمْ)
ترجمہ: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز کا سلام پھیرنے کے بعد قبلہ کی طرف رخ کرنے کی حالت ہی میں ہاتھ اٹھائے اور یہ دعا فرمائی: اے اللہ! ولید بن ولید کو نجات دے۔
:3 عَنْ مُحَمَّدِبْنِ اَبِیْ یَحْیٰ قَالَ رَاَیْتُ عَبْدَاللّٰہِ بْنَ الزُّبَیْرِ رضی اللہ عنہ وَرَایٰ رَجُلاً رَافِعاً یَدَیْہِ یَدْعُوْقَبْلَ اَنْ یَّفْرُغَ مِنْ صَلٰوتِہٖ فَلَمَّا فَرَغَ مِنْھَا قَالَ اِنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم لَمْ یَکُنْ یَرْفَعُ یَدَیْہِ حَتّٰی یَفْرُغَ مِنْ صَلٰوتِہٖ۔
(المعجم الکبیر للطبرانی ج11 ص22 رقم الحدیث90 قطعۃ من المفقود،الاحادیث المختارۃ للمقدسی ج 9ص336 رقم الحدیث 303 )
ترجمہ: حضرت محمد بن ابی یحیٰ سے روایت ہے کہ حضرت عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ نے ایک شخص کو دیکھا کہ وہ نماز پوری کرنے سے پہلے ہاتھ اٹھا کر دعا مانگ رہا تھا۔ جب وہ نماز سے فارغ ہوا توحضرت ابن زبیر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز سے فارغ ہونے سے پہلے اپنے ہاتھ اٹھا کر دعا نہ مانگتے تھے یعنی نماز سے فارغ ہونے کے بعد ہاتھ اٹھا کر دعا مانگتے تھے 
مردوں اور عورتوں کی نماز میں فرق
شریعت اسلامیہ میں احکام خداوندی کے مخاطب مرد و عورت دونوں ہیں۔ نماز، روزہ، حج، زکوۃ کے احکام جس طرح مردوں لئے ہیں عورتیں بھی اس سے مستثنیٰ نہیں لیکن عورت کی نسوانیت اور پردہ کا خیال ہر مقام پر رکھا گیا ہے۔ ان عبادات کی ادائیگی میں عورت کے لئے وہ پہلو اختیار کیا گیا ہے جس میں اسے مکمل پردہ حاصل ہو۔
ایمان کے بعد سب سے بڑی عبادت’’ نماز‘‘ ہے۔ اس کے بعض احکام مشترک ہونے کے باوجود بعض تفصیلات میں واضح فرق ملتا ہے۔ ذیل کی احادیث اس فرق کو واضح بیان کرتی ہیں۔
:1 عَنْ وَائِلِ بْنِ حُجَرٍ رضی اللہ عنہ قَالَ جِئْتُ النَّبِیَّ صلی اللہ علیہ وسلم۔۔۔۔ فَقَالَ لِیْ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم یَاوَائِلَ بْنَ حُجَرٍ! اِذَاصَلَّیْتَ فَاجْعَلْ یَدَیْکَ حَذْوَاُذُنَیْکَ وَالْمَرْاَۃُ تَجْعَلُ یَدَیْھَاحِذَائَ ثَدْیَیْھَا۔
(المعجم الکبیر للطبرانی ج 9ص144 رقم الحدیث 17497،مجمع الزوائد للھییثمی ج 2ص272 باب رفع الیدین، رقم الحدیث 2594،جامع الاحادیث للسیوطی ج23 ص 439 رقم الحدیث 26377)
ترجمہ: حضرت وائل بن حجر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے وائل بن حجر ! جب تم نماز پڑھو تو اپنے کانوں کے برابر ہاتھ اٹھاؤ اور عورت اپنے ہاتھوں کو چھاتی کے برابر اٹھائے۔
:2 عَنْ یَزِیْدَ بْنِ حَبِیْبٍ رحمہ اللہ اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم مَرَّ عَلٰی اِمْرَاَتَیْنِ تُصَلِّیَانِ فَقَالَ اِذَاسَجَدْتُّمَا فَضُمَّا بَعْضَ اللَّحْمِ اِلَی الْاَرْضِ فَاِنَّ الْمَرْاَۃَ لَیْسَتْ فِیْ ذٰلِکَ کَالرَّجُلِ۔
(مراسیل ابی داؤد ص28،السنن الکبری للبیہقی ج 2ص223 باب ما یستحب للمراۃ الخ، جامع الاحادیث للسیوطی ج3 ص 233 رقم الحدیث 2110)
ترجمہ: حضرت یزید بن حبیب رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دو عورتوں کے قریب سے گزرے جو نماز پڑھ رہی تھیں۔ تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب تم سجدہ کرو تو جسم کا کچھ حصہ زمین سے ملا لیا کرو کیونکہ عورت کا حکم اس میں مرد کی طرح نہیں ہے۔
:3 عَنْ اَبِیْ سَعِیْدٍالْخُدْرِیِّ رضی اللہ عنہ صَاحِبِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم اَنَّہٗ قَالَ۔۔۔۔ کَانَ یَاْمُرُالرِّجَالَ اَنْ یَّتَجَافُوْا فِیْ سُجُوْدِھِمْ وَ یَاْمُرُالنِّسَائَ اَنْ یَّتَخَفَّضْنَ وَکَانَ یَاْمُرُالرِّجَالَ اَنْ یَّفْرِشُوْا الْیُسْریٰ وََیَنْصَبُوْا الْیُمْنٰی فِی التَّشَھُّدِ وَ یَاْمُرُالنِّسَائَ اَنْ یَّتَرَبَّعْنَ۔
(السنن الکبری للبیہقی ج 2ص222.223 باب ما یستحب للمراۃالخ،التبویب الموضوعی للاحادیث ص2639 )
ترجمہ: صحابی رسول صلی اللہ علیہ وسلم حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مردوں کو حکم فرماتے تھے کہ سجدے میں (اپنی رانوں کو پیٹ سے) جدا رکھیں اور عورتوں کو حکم فرماتے تھے کہ خوب سمٹ کر (یعنی رانوں کو پیٹ سے ملا کر) سجدہ کریں۔ مردوں کو حکم فرماتے تھے کہ تشہد میں بایاں پاؤں بچھا کر اس پر بیٹھیں اور دایاں پاؤں کھڑا رکھیں اور عورتوں کو حکم فرماتے تھے کہ چہار زانو بیٹھیں۔
:4 عَنْ عَبْدِاللّٰہِ بْنِ عُمَرَ رضی اللہ عنہ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم اِذَاجَلَسَتِ الْمَرْاَۃُ فِی الصَّلٰوۃِ وَضَعَتْ فَخِذَھَا عَلٰی فَخِذِھَا الْاُخْریٰ فَاِذَا سَجَدَتْ اَلْصَقَتْ بَطْنَھَا فِیْ فَخِذِھَاکَاَسْتَرِمَا یَکُوْنُ لَھَا فَاِنَّ اللّٰہَ یَنْظُرُ اِلَیْھَا وَ یَقُوْلُ یَا مَلَائِکَتِیْ اُشْھِدُکُمْ اَنِّیْ قَدْغَفَرْتُ لَھَا۔
(الکامل لابن عدی ج 2ص501، رقم الترجمۃ 399، السنن الکبری للبیہقی ج2 ص223 باب ما یستحب للمراۃالخ،جامع الاحادیث للسیوطی ج 3ص43 رقم الحدیث 1759)
ترجمہ: حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
جب عورت نماز میں بیٹھے تو اپنی ایک ران دوسری ران پر رکھے اور جب سجدہ کرے تو اپنا پیٹ اپنی رانوں کے ساتھ ملا لے جو اس کے لئے زیادہ پردے کی حالت ہے۔ اللہ تعالی اس کی طرف دیکھتے ہیں اور فرماتے ہیں:اے میرے ملائکہ ! گواہ بن جاؤ میں نے اس عورت کو بخش دیا۔
:5 عَنْ عَائِشَۃَ رضی اللہ عنہاقَالَتْ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم لاَ تُقْبَلُ صَلٰوۃُ الْحَائِضِ اِلَّا بِخِمَارٍ۔
(جامع الترمذی ج1 ص 86 باب ماجاء لا تقبل صلوٰۃ الحائض الابخمار، سنن ابی داؤد ج1 ص101 باب المراۃ تصلی بغیر خمار)
ترجمہ: حضرت عائشہ رضی اللہ عنہاسے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بالغہ عورت کی نماز اوڑھنی کے بغیر قبول نہیں ہوتی۔
:6 قَالَ عَلِیٌّ رضی اللہ عنہ اِذَاسَجَدَتِ الْمَرْاَۃُ فَلْتَضُمَّ فَخْذَیْھَا۔
(السنن الکبری للبیہقی ج 2ص222 باب ما یستحب للمراۃالخ، مصنف ابن ابی شیبۃ ج 2ص504، المرا ۃ کیف تکون فی سجودھا،رقم الحدیث 2793،مصنف عبد الرزاق ج 3ص50 باب تکبیر المراۃ بیدہا الخ، رقم الحدیث 5086 )
ترجمہ: حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ عورت جب سجدہ کرے تو اپنی رانوں کو ملائے یعنی خوب سمٹ کر سجدہ کرے
:7 عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضی اللہ عنہ اَنَّہٗ سُئِلَ عَنْ صَلٰوۃِ الْمَرْاَۃِ فَقَالَ تَجْتَمِعُ وَتَحْتَفِزُ
(مصنف ابن ابی شیبۃ ج 2ص505، المرا ۃ کیف تکون فی سجودھا، رقم الحدیث2794)
ترجمہ: حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے عورت کی نماز سے متعلق سوال کیا گیا تو آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا خوب اکٹھی ہو کر اور سمٹ کر نماز پڑھے۔
:8 عَنْ نَافِعٍ اَنَّ صَفِیَّہَ کَانَتْ تُصَلِّیْ وَھِیَ مُتَرَبِّعَۃٌ۔
(مصنف ابن ابی شیبۃ ج 2ص506، فی المرا ۃ کیف تجلس فی الصلوۃ،رقم الحدیث 2800)
ترجمہ: حضرت نافع رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ حضرت صفیہ رحمۃ اللہ علیھا زوجہ ابن عمر رضی اللہ عنہ نماز پڑھتی تو چہار زانو ہو کر بیٹھتی تھیں۔