نماز جمعہ

User Rating: 4 / 5

Star ActiveStar ActiveStar ActiveStar ActiveStar Inactive
 
نماز جمعہ
فرضیت جمعہ:
جمعہ کے دن نماز جمعہ ادا کرنا فرض عین ہے۔ مریض، مسافر، عورت،بچے، غلام اور مجنون کے علاوہ باقی لوگوں پر نماز جمعہ میں شریک ہونا ضروری ہے۔ ورنہ سخت گنہگار ہوں گے
:1 عَنْ جَابِرٍ رضی اللہ عنہ أَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہ صلی اللہ علیہ وسلم قَالَ مَنْ کَانَ یُؤْمِنُ بِاللّٰہِ وَالْیَوْمِ الآْخِرِ فَعَلَیْہِ الْجُمْعَۃُ یَوْمَ الْجُمْعَۃِ اِلَّامَرِیْضٌ أَوْ مُسَافِرٌ أَوْاِمْرَأَۃٌ أَوْ صَبِیٌّ أَوْ مَمْلُوْکٌ فَمَنِ اسْتَغْنٰی بِلَھْوٍ أَوْ تِجَارَۃٍ اِسْتَغْنَی اللّٰہُ عَنْہُ وَاللّٰہُ غَنِیٌّ حَمِیْدٌ۔
(سنن الدار قطنی ص 273، باب من تجب علیہ الجمعۃ، رقم الحدیث 1560،السنن الکبریٰ للبیہقی ج3 ص184 باب من لا تلزمہ الجمعۃ)
ترجمہ: حضرت جابر سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’ جو شخص اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہے اس پر جمعہ کے دن نماز جمعہ فرض ہے سوائے مریض، مسافر، عورت،بچے،اور غلام کے۔ پس جو شخص کھیل کود اور تجارت میں مشغول رہ کر اس سے غافل رہا تو اللہ تعالیٰ بھی اس سے توجہ ہٹا لے گا اور اللہ تعالیٰ بے نیاز اور تعریف کے قابل ہے۔
:2 عَنْ عَبْدِاللّٰہِ رضی اللہ عنہ اَنَّ النَّبِیَّ صلی اللہ علیہ وسلم قَالَ لِقَوْمٍ یَّتَخَلَّفُوْنَِ عَنِ الْجُمْعَۃِ لَقَدْ ھَمَمْتُ اَنَّ اٰمُرَ رَجُلاً یُّصَلِّیْ بِالنَّاسِ ثُمَّ اُحَرِّقُ عَلیٰ رِجَالٍ یَّتَخَلَّفُوْنَ عَنِ الْجُمْعَۃِ بُیُوْتَھُمْ۔
(صحیح مسلم ج1ص232 باب فضل صلوۃ الجماعۃ وبیان التشدیدالخ)
ترجمہ: حضرت عبداللہ بن مسعود سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان لوگوں کے بارے میں جو نماز جمعہ سے پیچھے رہ جاتے ہیں فرمایا: میں ارادہ کرتا ہوں کہ کسی شخص کو حکم دوں کہ وہ لوگوں کو نماز پڑھائے۔ پھر میں ان لوگوں کو ان کے گھروں میں آگ لگا دوں جو نماز جمعہ سے پیچھے رہتے ہیں۔
آدابِ جمعہ:
:1 عَنْ عَبْدِاللّٰہِ رضی اللہ عنہ قَالَ سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم یَقُوْلُ اِذَا اَرَادَ اَحَدُکُمْ اَنْ یَأتِیَ الْجُمُعَۃَ فَلْیَغْتَسِلْ۔
(صحیح مسلم ج1ص 279 کتاب الجمعۃ)
ترجمہ: حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ کہتے ہوئے سنا کہ تم میں سے جب کوئی جمعہ کے لئے آئے تو اس کو غسل کر لینا چاہیے۔
:2 عَنْ سَمُرَۃَ رضی اللہ عنہ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم مَنْ تَوَضَّأَ یَوْمَ الْجُمُعَۃِ فَبِھَا وَنِعْمَتْ وَمَنِ اغْتَسَلَ فَھُوَ اَفْضَلُ۔
(سنن ابی داؤد ج 1 ص 57باب فی الرخصۃ فی ترک الغسل یوم الجمعۃ، سنن الترمذی ج 1ص111 باب ما جاء فی الوضوء یوم الجمعۃ)
ترجمہ حضرت سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے جمعہ کے دن وضو کیا تو اچھا ہے اور جس نے غسل کیا تو یہ افضل کام ہے۔
فائدہ: مشہور فقیہ ومحدث اور شارح بخاری علامہ بدرالدین عینی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ یہ حدیث سات صحابہ سے مروی ہے۔
(1) سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ (2) حضرت انس رضی اللہ عنہ (3) ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ (4) حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ (5) حضرت جابر رضی اللہ عنہ (6) عبدالرحمن بن سمرہ رضی اللہ عنہ (7)ابن عباس رضی اللہ عنہ (عمدۃ القاری للعینی ج4 ص 642 باب وضوء الصبیان ومتیٰ یجب علیھم الغسل الخ)
:3 عَنْ سَلْمَانَالْفَارِسِیُّ رضی اللہ عنہ قَالَ قَالَ النَّبِیُّ صلی اللہ علیہ وسلم لاَ یَغْتَسِلُ رَجُلٌ یَوْمَ الْجُمْعَۃِ وَیَتَطَھَّرُمَااسْتَطَاعَ مِنْ طُھْرٍ وَیَدَّھِنُ مِنْ دُھْنِہٖ اَوْیَمُسُّ مِنْ طِیْبِ بَیْتِہٖ ثُمَّ یَخْرُجُ فَلاَ یُفَرِّقُ بَیْنَ اثْنَیْنِ ثُمَّ یُصَلِّیْ مَاکُتِبَ لَہٗ ثُمَّ یُنْصِتُ اِذَا تَکَلَّمَ الْاِمَامُ اِلَّاغُفِرَلَہٗ مَابَیْنَہٗ وَبَیْنَ الْجُمْعَۃِ الْاُخْرٰی۔
(صحیح البخاری ج 1ص 121۔124باب الدھن للجمعۃ )
ترجمہ: حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جو شخص جمعہ کے دن غسل کرے اور حسب استطاعت خوب پاکی حاصل کرے اور تیل یا گھر میں میسر خوشبو لگائے پھر نماز جمعہ کے لئے نکلے (وہاں جاکر) دو کے درمیان تفریق نہ کرے پھر جو نماز مقرر کی گئی ہے ادا کرے اور جب امام خطبہ دے تو خاموشی اختیار کرے۔ ایسے شخص کے اس جمعہ سے دوسرے جمعہ تک کے تمام گناہ معاف کر دیے جاتے ہیں۔
:4 عَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ رضی اللہ عنہ اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم قَالَ فِیْ جُمُعَۃٍ مِّنَ الْجُمَعِ مَعَاشِرَالْمُسْلِمِیْنَ اِنَّ ھٰذَا یَوْمٌ جَعَلَہٗ اللّٰہُ لَکُمْ عِیْدًا فَاغْتَسِلُوْاوَعَلَیْکُمْ بِالسِّوَاکِ۔
(المعجم الکبیر للطبرانی ج11 ص 97 رقم 136قطعۃ من المفقود،المعجم الاوسط للطبرانی ج2ص325رقم 3433)
ترجمہ: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک جمعہ میں فرمایا کہ اے مسلمانوں کی جماعت!یہ دن اللہ تعالیٰ نے تمہارے لئے عید کا دن بنایا ہے۔ لہٰذا اس دن میں غسل کیا کرو اور مسواک ضرور استعمال کیا کرو۔
جمعہ کی دو اذانیں:
جمعہ کے دن دو اذانیں دی جائیں۔ پہلی اذان خطبہ سے اتنی دیر پہلے ہونی چاہیے کہ لوگ مسجد میں آکر اطمینان سے سنتیں پڑھ سکیں اور دوسری اذان عربی خطبہ سے پہلے دی جائے۔
عَنِ السَّائِبِ بْنِ یَزِیْدَ رضی اللہ عنہ یَقُوْلُ اِنَّ الْاَذَانَ یَوْمَ الْجُمُعَۃِ کَانَ اَوَّلُہٗ حِیْنَ یَجْلِسُ الْاِمَامُ یَوْمَ الْجُمُعَۃِ عَلَی الْمِنْبَرِ فِیْ عَھْدِرَسُوْلِ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم وَاَبِیْ بَکْرٍوَّعُمَرَ فَلَمَّا کَانَ فِیْ خِلَافَۃِ عُثْمَانَ وَکَثُرُوْا أمَرَعُثْمَانُ یَوْمَ الْجُمُعَۃِ بِالْاَذَانِ الثَّالِثِ فَاُذِّنََ بِہٖ عَلَی الزَّوْرَائِ فَثَبَتَ الْاَمْرُعَلٰی ذٰلِکَ۔
(صحیح البخاری ج1ص 125 باب التأذین عندالخطبۃ)
ترجمہ حضرت سائب بن یزید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم، حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں جمعہ کی پہلی اذان اس وقت ہوتی تھی جب امام منبرپر بیٹھ جاتا۔جب حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی خلافت کا زمانہ آیا اور لوگوں کی تعداد بڑھ گئی تو آپ رضی اللہ عنہ نے ایک اور اذان دینے کا حکم دیا۔ یہ اذان مقام زوراء پر دی جاتی تھی۔ پس امر اسی پر ثابت ہو گیا یعنی دوسری اذان پر امت کا عمل شروع ہوگیا
جمعہ کی رکعات:
4 سنت 2 فرض 4 سنت 2 سنت
:1 قَالَ عُمَرُ رضی اللہ عنہ صَلٰوۃُ الْجُمُعَۃِ رَکْعَتَانِ وَصَلٰوۃُ الْفِطْرِرَکْعَتَانِ وَصَلٰوۃُ الْاَضْحٰی رَکْعَتَانِ وَصَلٰوۃُ السَّفَرِ رَکْعَتَانِ، تَمَامٌ غَیْرُقَصْرٍعَلٰی لِسَانِ مُحَمَّدٍ صلی اللہ علیہ وسلم۔
(سنن النسائی ج1 ص209 عددصلوۃ الجمعۃ،سنن ابن ماجۃ ج1ص74باب تقصیر الصلوۃ فی السفر،المعجم الاوسط للطبرانی ج2 ص 180 رقم 2943)
ترجمہ: حضرت عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: نماز جمعہ کی دو رکعت، عید الفطر کی دو رکعت، عید الاضحی کی اور سفر کی دو د و رکعات ہیں یہ نماز پوری ہے اسمیں کمی نہیں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان مبارک پر۔
فائدہ: اس سے جمعہ کے دو فرض ثابت ہوئے۔
:2 عَنْ عَبْدِاللّٰہِ رضی اللہ عنہ عَنِ النَّبِیِّ صلی اللہ علیہ وسلم اَنَّہٗ کَانَ یُصَلِّیْ قَبْلَ الْجُمُعَۃِ اَرْبَعًاوَ بَعْدَھَا اَرْبَعًا۔
المعجم الاوسط للطبرانی ج3 ص 91 رقم 3959،نصب الرایۃ للزیلعی ج2ص 206 باب
ترجمہ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جمعہ سے پہلے چار رکعت اور جمعہ کے بعد چار رکعت پڑھتے تھے۔
:3 عَنْ عَبْدِاللّٰہِ بْنِ مَسْعُوْدٍ رضی اللہ عنہ اَنَّہٗ کَانَ یُصَلِّیْ قَبْلَ الْجُمُعَۃِ اَرْبَعًاوَبَعْدَھَا اَرْبَعًا۔
(جامع الترمذی ج1ص 117،118 باب فی الصلوۃ قبل الجمعۃ وبعدھا،مصنف عبدالرزاق ج3 ص131باب الصلوۃ قبل الجمعۃ وبعدھا، رقم 5541،صلوۃ الجمعۃ)
ترجمہ: حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ جمعہ سے پہلے چار اور جمعہ کے بعد چار رکعت پڑھتے تھے۔
:4 عَنْ عَلِیٍّ رضی اللہ عنہ اَنَّہٗ قَالَ مَنْ کَانَ مُصَلِّیًا بَعْدَ الْجُمُعَۃِ فَلْیُصَلِّ سِتًّا
(شرح معانی الآثار ج1 ص 234 باب التطوع بعد الجمعۃ کیف ھو)
ترجمہ: حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: جو جمعہ کے بعد نماز پڑھے اسے چاہیے کہ6 رکعت پڑھے۔
:5 عَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ رضی اللہ عنہ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم اِذَا صَلّٰی اَحَدُکُمُ الْجُمُعَۃَ فَلْیُصَلِّ بَعْدَھَااَرْبَعًا۔
(صحیح مسلم ج1 ص 288 فصل فی استحباب اربع رکعات الخ)
ترجمہ: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب کوئی جمعہ پڑھے تو اس کے بعد چار رکعتیں پڑھے۔
:6 عَنْ سَالِمٍ عَنْ اَبِیْہِ اَنَّ النَّبِیَّ صلی اللہ علیہ وسلم کَانَ یُصَلِّیْ بَعْدَالْجُمُعَۃِ رَکْعَتَیْنِ
(صحیح مسلم ج1 ص 288 فصل فی استحباب اربع رکعات الخ)
ترجمہ: حضرت سالم اپنے والد سے نقل کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جمعہ کے بعد دو رکعتیں پڑھتے تھے۔
فائدہ: مندرجہ بالا روایات سے معلوم ہوا کہ جمعہ سے پہلے چار رکعت اور جمعہ کے بعد چھ رکعت پڑھے۔ ان چھ میں سے پہلے چار رکعت پڑھے اور اس کے بعد دو رکعت۔
خطبہ جمعہ:
جمعہ کے دن امام منبر پر کھڑے ہو کر دو خطبے دیتا ہے۔ان دونوں خطبوں کے درمیان تھوڑی دیر بیٹھتا ہے۔
عَنِ ابْنِ عُمَرَ رضی اللہ عنہ قَالَ کَانَ النَّبِیُّ صلی اللہ علیہ وسلم یَخْطُبُ خُطْبَتَیْنِ، کَانَ یَجْلِسُ اِذَا صَعَدَ الْمِنْبَرَحَتّٰی یَفْرُغَ، اُرَاہٗ الْمُؤِذِّنُ، ثُمَّ یَقُوْمُ فَیَخْطُبُ، ثُمَّ یَجْلِسُ فلَاَیَتَکَلَّمُ،ثُمَّ یَقُوْمُ فَیَخْطُبُ۔
(سنن ابی داؤد ج 1 ص163باب الجلوس اذا صعد المنبر،سنن ابن ماجۃ باب ما جاء فی الخطبۃ یوم الجمعۃ)
ترجمہ: حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم دو خطبے دیا کرتے تھے۔ جب منبر پر چڑھتے تو اس پر بیٹھ جاتے یہاں تک کہ مؤذن اذان سے فارغ ہو جاتا۔ پھر کھڑے ہو کر خطبہ دیتے، پھر بیٹھ جاتے اور خاموش رہتے، اس کے بعد کھڑے ہو کر خطبہ دیتے۔
خطبہ جمعہ کا عربی زبان میں ہونا:
خطبہ جمعہ کا عربی زبان میں ہونا ضروری ہے۔ عربی کے علاوہ کسی اور زبان میں خطبہ پڑھنا مکروہ تحریمی ہے۔ اس کی بہت سی وجوہات ہیں۔
:1 خطبہ جمعہ درحقیقت’’ ذکراللہ‘‘ ہے:
یَااَیُّھَاالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اِذَا نُوْدِیَ لِلصَّلٰوۃِ مِنْ یَّوْمِ الْجُمُعَۃِ فَاسْعَوْا اِلٰی ذِکْرِاللّٰہِ
(سورۃ الجمعۃ: 9)
ترجمہ: اے ایمان والو!جب جمعہ کے دن نماز کے لئے اذان دی جائے تو اللہ کے ذکر کی طرف دوڑو۔
امام التفسیر ابو البرکات عبداللہ بن احمد بن محمود النسفی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
اِلیٰ ذِکْرِاللّٰہِ} اَیْ اِلَی الْخُطْبَۃِ عِنْدَالْجُمْھُوْرُ۔
(تفسیر النسفی ج4 ص 201 سورۃ الجمعۃ)
ترجمہ: اللہ کے فرمان’’ اِلیٰ ذِکْرِاللّٰہ’’ سے جمہور مفسرین کے ہاں خطبہ مرادہے۔
تائید حدیث پاک سے:
عَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ رضی اللہ عنہ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم فَاِذَاخَرَجَ الْاِمَامُ طَوَوْا صُحُفَھُمْ وَیَسْتَمِعُوْنَ الذِّکْرَ۔
(صحیح البخاری ج1 ص 127 باب الاستماع الی الخطبۃ، صحیح مسلم ج1 ص 281 کتاب الجمعۃ )
ترجمہ: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاجب امام (خطبہ کے لیے )نکلتا ہے، تو فرشتے اپنے رجسٹر بند کر لیتے ہیں اور توجہ سے ذکر(خطبہ)سنتے ہیں۔
مندرجہ بالا تصریحات سے معلوم ہوا کہ خطبہ دراصل’’ ذکراللہ’’ ہے۔ تو جس طرح ثناء، تعوذ، تسمیع،تحمید، التحیات وغیرہ ذکراللہ ہیں اور عربی زبان ہی میں پڑھی جاتی ہیں،اسی طرح خطبہ کے لئے بھی عربی زبان کا ہوناضروری ہے۔
حکمِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے خطبہ مختصر دیا جائے:
عَنْ عَمَّارِ بْنِ یَاسِرٍ رضی اللہ عنہ قَالَ اَمَرَنَارَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم بِاِقْصَارِالْخُطَبِ۔
(المستدرک للحاکم ج1 ص 584،الامر باقصار الخطب، رقم1105)
ترجمہ: حضرت عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں مختصر خطبے پڑھنے کا حکم دیا۔عربی کے علاوہ کسی اور زبان میں کی گئی آدھ یا پون گھنٹہ کی تقریر کو اگر مسنون خطبہ قرار دیا جائے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کی مخالفت لازم آئے گی۔
(2) عربی زبان میں خطبہ جمعہ پر ہمیشگی:
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے عربی زبان میں خطبہ جمعہ پر مواظبت اور ہمیشگی ثابت ہے۔ حالانکہ اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے خطبے میں عجمی لوگ بھی موجود ہوتے تھے۔ جن کو تبلیغ دین ضرورت بھی تھی۔لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عربی خطبے پر اکتفاء فرمایا۔ اسی طرح حضرات خلفائے راشدین اور دیگر صحابہ رضی اللہ عنہم کے ادوار میں اسلام جب جزیرہ عرب سے نکل کر دیگر عجم علاقوں میں پھیلا، لوگ عربی زبان سے نا آشنا تھے لیکن خطبہ جمعہ عربی میں ہی پڑھا گیا عربی خطبہ پر امت مسلمہ کا توارث و تعامل واضح دلیل ہے کہ خطبہ صرف عربی زبان ہی میں ہونا چاہیے
(3) اکابر فقہاء و سلف صالحین کی تصریحات:
امت مسلمہ کے اکابر فقہاء و سلف صالحین کی تصریحات سے بھی یہی ثابت ہوتا ہے کہ خطبہ کے لئے عربی زبان کا ہونا ضروری ہے۔
:1 امام یحییٰ بن شرف النووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’وَیُشْتَرَطُ کَوْنُھَابِالْعَرَبِیَّۃِ۔
(کتاب الاذکار للنووی ص148 کتاب حمداللہ تعالیٰ)
ترجمہ: خطبہ جمعہ کا عربی زبان میں ہونا شرط ہے۔
:2 امام ابو القاسم عبد الکریم بن محمد الرافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’وَھَلْ یُشْتَرَطُ اَنْ تَکُوْنَ الْخُطْبَۃُ کُلُّھَا بِالْعَرَبِیَّۃِ؟ وَجْھَانِِِ وَالصَّحِیْحُ اِشْتِرَاطُہٗ۔’’
(اتحاف السادۃ المتقین للزبیدی ج3 ص368)
ترجمہ: کیا سارے خطبہ کا عربی میں ہونا شرط ہے؟ اس میں دو وجہیں ہیں۔ صحیح یہ ہے کہ عربی میں ہونا شرط ہے۔
:3 شیخ الاسلام ابویحییٰ زکریاالانصاری فرماتے ہیں:
مِنْ شُرُوْطِھَامَاسَبَقَ وَھُوَکَوْنُھَابِالْعَرَبِیَّۃِ
(اسنی المطالب فی شرح روض الطالب ج1 ص 258)
ترجمہ: شرائط میں سے ایک شرط جو پیچھے مذکور ہوئی ہے، وہ یہ ہے کہ خطبہ عربی زبان میں ہو۔
:4 امام الہند شاہ ولی اللہ احمد بن عبدالرحیم محدث دہلوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
وعربی بودن نیز بجہت عمل مستمر مسلمین در مشارق ومغارب باوجود آنکہ در بسیارے از اقالیم مخاطباں عجمی بودند۔
مصفیّٰ شرح مؤطا ص154
ترجمہ: خطبہ کا عربی زبان میں ہونا، کیونکہ مسلمانوں کا مشرق و مغرب میں ہمیشہ کاعمل یہی رہا ہے (یعنی خطبہ کاعربی میں پڑھنے کا)باوجودیکہ بہت سارے ممالک میں ان کے مخاطب عجمی لوگ تھے۔
:5 عمدۃ المتأخرین علامہ ابو الحسنات عبدالحئی لکھنوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
وَلَاشَکَّ فِیْ اَنَّ الْخُطْبَۃَ بِغَیْرِالْعَرَبِیَّۃِ خِلَافُ السُّنَّۃِالْْمُتَوَارِثَۃِ مِّنَ النَّبِیِّ صلی اللہ علیہ وسلم وَالصَّحَابَۃِ فَیَکُوْنُ مَکْرُوْھًا تَحْرِیْمًا۔
(عمدۃ الرعایۃ علی شرح الوقایۃ ج1 ص 200)
ترجمہ: اس بات میں شک نہیں کہ عربی زبان کے علاوہ کسی دوسری زبان میں خطبہ دینا اس سنت کے خلاف ہے جو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے متواتر چلی آرہی ہے۔لہذا(غیر عربی میں خطبہ دینا)مکروہ تحریمی ہوگا۔
خطبہ کے وقت نماز وکلام کا ممنوع ہونا:
:1 عَنِ ابْنِ عُمَرَ رضی اللہ عنہ قَالَ سَمِعْتُ النَّبِیَّ صلی اللہ علیہ وسلم یَقُوْلُ اِذَا دَخَلَ اَحَدُکُمُ الْمَسْجِدَ وَالْاِمَامُ عَلَی الْمِنْبَرِ فَلاَ صَلَاۃَ وَلَا کَلَامَ حَتّٰی یَفْرُغَ الْاِمَامُ۔
(مجمع الزوائد للھیثمی ج 2ص407 باب فیمن یدخل المسجد والامام یخطب، رقم الحدیث 3120،جامع الاحادیث للسیوطی ج 3ص 114رقم الحدیث 1879)
ترجمہ: حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا۔ جب تم میں سے کوئی مسجد میں داخل ہو اور امام منبر پر ہو تو نہ کوئی نماز جائز ہے اور نہ بات چیت یہاں تک کہ امام فارغ ہو جائے۔
:2 حضرت نبیشہ ا لہذلی رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
فَاِنْ لَمْ یَجِدِ الْاِمَامَ خَرَجَ صَلّٰی مَابَدَا لَہٗ وَاِنْ وَجَدَ الْاِمَامَ قَدْخَرَجَ جَلَسَ فَاسْتَمَعَ وَاَنْصَتَ حَتیّٰ یَقْضِیَ الْاِمَامُ جُمْعَتَہٗ وَکَلَامَہٗ۔
(مسند احمد ج 15ص 300رقم الحدیث 20599،غایۃ المقصد فی زوائد المسند للہیثمی ج 1ص 1154 باب حقوق الجمعۃ من الغسل و غیرہ)
ترجمہ: پس اگر امام خطبہ کے لئے نہیں نکلا تو جو مناسب ہو نماز پڑھ لے اور اگر امام خطبہ کے لئے نکل چکا ہے تو بیٹھ جائے اور غور سے خطبہ سنے اور خاموش رہے یہاں تک کہ امام نماز جمعہ و خطبہ ختم کر لے۔
دیہات میں جمعہ نہیں:
نماز جمعہ کے لیے شہر یا مضافاتِ شہر کا ہونا ضروری ہے۔ دیہات میں جمعہ نہیں ہو گا مندرجہ ذیل دلائل اس بات کو ثابت کرتے ہیں:
:1 اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
یَااَیُّھَاالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اِذَا نُوْدِیَ لِلصَّلٰوۃِ مِنْ یَّوْمِ الْجُمُعَۃِ فَاسْعَوْا اِلٰی ذِکْرِاللّٰہِ وَذَرُوْا الْبَیْعَ۔ذٰلِکُمْ خَیْرٌلَّکُمْ اِنْ کُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ۔
(سورۃ الجمعۃ: 9)
ترجمہ:اے ایمان والو! جب جمعہ کے روز نماز کے لیے اذان کہی جایا کرے تو تم اللہ کی یاد کی طرف چل پڑا کرواور خرید وفروخت چھوڑ دیا کرو۔یہ تمہارے لیے زیادہ بہتر ہے اگر تم کو کچھ سمجھ ہو۔
(ترجمہ حضرت تھانوی ؒ)
اس آیت میں اذانِ جمعہ کے سنتے ہی خرید وفروخت چھوڑنے کا حکم دیا جارہا ہے اشارہ ہے کہ جمعہ وہاں ہوگا جہاں خرید وفروخت کا سلسلہ جاری ہو اور ظاہر ہے کہ دیہات خرید وفروخت اور تجارت کی جگہ نہیں ہوتے بلکہ کاروباری مراکزشہر یا قریہ کبیرہ میں ہوتے ہیں۔معلوم ہوا کہ جمعہ دیہات میں نہیں ہوتا۔
(2) عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضی اللہ عنہ اَنَّہٗ قَالَ اَوَّلُ جُمُعَۃٍ جُمِّعَتْ بَعْدَجُمُعَۃٍ فِیْ مَسْجِدِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم فِیْ مَسْجِدِ عَبْدِالْقَیْسِ بِجُوَاثیٰ مِنَ الْبَحْرَیْنِ۔
(صحیح البخاری ج1 ص 122 باب الجمعۃ فی القریٰ والمدن)
ترجمہ: حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مسجد میں جمعہ قائم ہونے کے بعد سب سے پہلا جمعہ بحرین کے شہرجواثیٰ میں عبدالقیس کی مسجد میں پڑھا گیا۔
حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
اِنَّ الظَّاھِرَاَنَّ عَبْدَالْقَیْسِ لَمْ یُجْمِعُوْا اِلَّابِاَمْرِالنَّبِیِّ صلی اللہ علیہ وسلم
(فتح الباری ج2 ص 489 باب الجمعۃ فی القریٰ والمدن)
ترجمہ: ظاہر یہ ہے کہ قبیلہ عبدالقیس والوں نے نماز جمعہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے ہی قائم کیاتھا۔بتصریح قاضی عیاض وفد عبدالقیس 8ھ کو فتح مکہ سے پہلے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہواتھا۔
(شرح مسلم للنووی ج1 ص34،فتح الملہم للعثمانی ج1 ص 524)
اس سے معلوم ہوا کہ 8ھ سے قبل مسجد نبوی سے پہلے کسی اور مقام میں جمعہ نہیں ہوتا تھا، حالانکہ اس وقت تک اسلام دور دور تک پھیل چکا تھا۔بیسیوں بستیاں مسلمانوں کی آباد ہو چکی تھیں، مگر جمعۃ کہیں نہیں ہوتا تھا۔معلوم ہوا کہ دیہات جمعہ کا محل نہیں ہے۔
فائدہ: سنن ابوداؤد کی روایت میں جواثیٰ کو’’ قریہ’’ کہا گیا ہے۔ اس سے یہ شبہ نہیں ہونا چاہیے کہ’ جواثیٰ‘ایک دیہات تھا۔ اس لیے کہ قریہ کا لفظ خود قرآن کریم میں شہروں پر بھی بولا گیا ہے مثلاً:
وَقَالُوْا لَوْلَا نُزِّلَ ھٰذَا الْقُرْاٰنُ عَلٰی رَجُلٍ مِّنَ الْقَرْیَتَیْنِ عَظِیْمٍ
(سورۃ الزخرف:31)
ترجمہ: کفار کہنے لگے یہ قرآن دو قریوں کے کسی بڑے آدمی پر کیوں نہ اتارا گیا۔
ان دو قریوں سے مکہ اور طائف کے شہر مراد ہیں۔معلوم ہوا کہ شہر پر بھی’’ قریہ‘‘ کا اطلاق لغت عرب میں عام ہے۔نیز محققین حضرات نے بھی تصریح کی ہے کہ’ جواثیٰ‘شہر تھا۔
:1 الشیخ ابو الحسن اللخمی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
اِنَّھَامَدِیْنَۃٌ یہ شہر تھا
(فتح الباری لابن حجر ج4 ص489)
:2 امام ابو عبیدعبداللہ البِکری رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
مَدِیْنَۃٌ بِالْبَحْرَیْنِ لِعَبْدِالْقَیْسِ
یہ بحرین میں قبیلہ عبدالقیس کا ایک شہر تھا۔
(شرح سنن ابی داؤد للعینی ج4 ص 389 باب الجمعۃ فی القری)
: 3` امام شمس الدین ابوبکر محمد بن ابی سھل السرخسی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
وَجُوَاثیٰ مِصْرٌ بِالْبَحْرَیْنِ۔
(جواثیٰ بحرین کا ایک شہر ہے)
(المبسوط للسرخسی ج2 ص40)
(3) عَنْ عَائِشَۃَ رضی اللہ عنہا زَوْجِ النَّبِیِّ صلی اللہ علیہ وسلم قَالَتْ کَانَ النَّاسُ یَنْتَابُوْنَ الْجُمْعَۃَ مِنْ مَّنَازِلِھِمْ وَالْعَوَالِیْ۔
(صحیح البخاری ج1 ص 123 باب الرخصۃ ان لم یحضر الجمعۃ فی المطر)
`ترجمہ: حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہافرماتی ہیں کہ لوگ جمعہ کے لئے اپنی اپنی جگہوں اور مضافات سے باری باری آتے تھے۔
مدینہ منورہ کے مضافات اور دیہاتوں میں جمعہ نہیں ہوتاتھا ورنہ وہ باری باری نہ آتے بلکہ سب کے سب آتے۔ اس سے بھی معلوم ہوا کہ دیہات میں جمعہ نہیں ہوتا۔
(4) آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جب ہجرت فرمائی تو قباء میں قیام فرمایا، جو چودہ یا چوبیس دن کا تھا۔ان ایام میں جمعہ بھی آیا لیکن کسی حدیث میں ثابت نہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بنفس نفیس وہاں جمعہ پڑھاہو یا دیگر لوگوں کو حکم دیا ہو۔معلوم ہوا کہ دیہات نماز جمعہ کا محل نہیں۔
(ملخصاً بذل المجہود للشیخ السہارنپوری ج2 ص170)
(5) خلیفہ راشد سیدنا علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کا فرمان ہے:
لاَ جُمْعَۃَ وَلَاتَشْرِیْقَ اِلَّافِیْ مِصْرٍجَامِعٍ۔
(مصنف عبدالرزاق ج 3 ص 70 باب القری الصغار رقم5189،مسند ابن الجعد ص 438 رقم 2990،السنن الکبریٰ للبیہقی ج3 ص 179 باب العدد الذین اذا کانوا فی قریۃ وجبت علیھم الجمعۃ)
ترجمہ: جمعہ اور تشریق (عیدین )مصر جامع (شہر )کے بغیر نہیں ہو سکتے۔