نماز جنازہ

User Rating: 5 / 5

Star ActiveStar ActiveStar ActiveStar ActiveStar Active
 
نماز جنازہ
نماز جنازہ کا طریقہ:
نماز جنازہ میں چار تکبیریں ہیں۔ پہلی تکبیر کے بعداللہ تعالی کی حمد و ثناء، دوسری کے بعد نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر درود شریف، تیسری کے بعد میت کے لئے دعا اور چوتھی کے بعد سلام پھیرا جاتا ہے۔
:1 عَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ رضی اللہ عنہ اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم نَعَی النَّجَاشِیَّ فِی الْیَوْمِ الَّذِیْ مَاتَ فِیْہِ وَخَرَجَ بِھِمْ اِلَی الْمُصَلّٰی فَصَفَّ بِھِمْ وَکَبَّرَ عَلَیْھِمْ اَرْبَعَ تَکْبِیْرَاتٍ۔
(صحیح البخاری ج1 ص178 باب التکبیر علی الجنازۃ اربعا)
ترجمہ: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نجاشی کی وفات کی خبر دی جس دن وہ فوت ہوئے تھے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کو لے کر عیدگاہ پہنچے ان کی صف بندی کی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے چار تکبیریں کہیں۔
:2 عَنِ الشَّعْبِیِّ قَالَ اَلتَّکْبِیْرَۃُ الْاُوْلیٰ عَلَی الْمَیِّتِ ثَنَائٌ عَلَی اللّٰہِ وَالثَّانِیَۃُ صَلَاۃٌ عَلَی النَّبِیِّ صلی اللہ علیہ وسلم وَالثَّالِثَۃُ دُعَائٌ لِلْمَیِّتِ وَالرَّابِعَۃُ تَسْلِیْمٌ۔
(مصنف عبدالرزاق ج3 ص 316 باب القرأۃ والدعاء فی الصلاۃ علی المیت، رقم 6462)
ترجمہ: مشہور تابعی امام شعبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: میت کے جنازہ پر پہلی تکبیر کے بعدثناء دوسری تکبیر کے بعد نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر درود جبکہ تیسری تکبیر کے بعد میت کے لیے دعا اور چوتھی تکبیر کے بعد سلام پھیرا جاتا ہے۔
:3 عَنْ اِبْرَاھِیْمَ النَّخْعِیِّ رحمہ اللہ قَالَ اَلْاُوْلیٰ الثَّنَائُ عَلَی اللّٰہِ وَالثَّانِیَۃُ صَلٰوۃٌ عَلَی النَّبِیِّ صلی اللہ علیہ وسلم وَالثَّالِثَۃُ دُعَائٌ لِلْمَیِّتِ وَالرَّابِعَۃُ سَلَامٌ تُسَلَّمُ۔
(کتاب الآثار لابی حنیفۃ بروایۃ الامام محمد ص 48 باب الصلوۃ علی الجنازۃ رقم 238)
ترجمہ: جلیل القدر تابعی حضرت ابراہیم نخعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: نماز جنازہ میں پہلی تکبیر کے بعد اللہ کی حمد وثنائ، دوسری کے بعد نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر درود، تیسری کے بعد میت کے لیے دعا اور چوتھی کے بعد سلام پھیرا جاتا ہے۔
ثنائ:
:1 عَنْ اَبِیْ سَعِیْدٍ رضی اللہ عنہ قَالَ کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم اِذَاافْتَتَحَ الصَّلٰوۃَ قَالَ سُبْحَانَکَ اللّٰھُمَّ وَبِحَمَدِکَ وَتَبَارَکَ اسْمُکَ وَتَعَالٰی جَدُّکَ وَلَا اِلٰہَ غَیْرُکَ۔
( سنن النسائی ج 1ص143 باب نوع آخر من الذکر )
ترجمہ: حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب نماز شروع فرماتے تو
سُبْحَانَکَ اللّٰھُمَّ وَبِحَمَدِکَ
آخر تک پڑھتے تھے۔
:2 حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی روایت میں ثناء میں’’ وَ جَلَّ ثَنَاؤُکَ‘‘ کے الفاظ بھی آئے ہیں:
اِنَّ مِنْ اَحَبِّ الْکَلاَمِ اِلیَ اللّٰہِ عَزَّ وَ جَلَّ اَنْ یَقُوْلَ الْعَبْدُ سُبْحَانَکَ اللّٰھُمَّ وَبِحَمَدِکَ وَتَبَارَکَ اسْمُکَ وَتَعَالٰی جَدُّکَ وَ جَلَّ ثَنَاؤُکَ وَلَا اِلٰہَ غَیْرُکَ۔
(مسند الفردوس لابی شجاع الدیلمی ج 1ص214 رقم الحدیث 819)
ترجمہ: بندے کا وہ کلام جو اللہ تعالیٰ کو بہت محبوب ہے وہ یہ ہے کہ بندہ کہے:
سُبْحَانَکَ اللّٰھُمَّ وَبِحَمَدِکَ وَتَبَارَکَ اسْمُکَ وَتَعَالٰی جَدُّکَ وَ جَلََّ ثَنَاؤُکَ وَلَا اِلٰہَ غَیْرُکَ۔
ترجمہ ثنائ: اے اللہ! تو شریکوں سے پاک ہے،میں تیری تعریف کرتا ہوں، تیرا نام برکت والا ہے، تیری شان سب سے او نچی ہے، تیری تعریف بلند ہے اور تیرے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں۔
درود شریف:
جنازہ پڑھنے والے کو دوسری تکبیر کے بعد درود شریف پڑھنا چاہیے۔افضل درود درود ابراہیمی ہے۔ اگر اس کے علاوہ کوئی اور پڑھنا چاہے تو پڑھ سکتا ہے۔ احادیث مبارکہ میں نماز جنازہ کے لیے لفظ بہ لفظ کوئی درود مقرر نہیں ہے۔
میت کے لئے دعا:
اگر میت بالغ ہے تو اس کے لئے دعا یہ ہے:
اَللّٰھُمَّ اغْفِرْ لِحَیِّنَا وَمَیِِّتِنَا وَشَاھِدِنَا وَ غَائِبِنَا وَصَغِیْرِنَا وَکَبِیْرِنَا و َذَکَرِنَا وَاُنْثَانَا،اَللّٰھُمَّ مَنْ اَحْیَیْتَہٗ مِنَّا فَاَحْیِہٖ عَلَی الْاِسْلَامِ وَمَنْ تَوَفَّیْتَہٗ مِنَّا فَتَوَفَّہٗ عَلَی الْاِیْمَانِ
(جامع الترمذی ج1 ص 198باب ما یقول فی الصلوۃ علی المیت، مصنف عبدالرزاق ج3ص 313باب القرأۃ والدعاء فی الصلاۃ علی المیت رقم 6447)
ترجمہ: اے اللہ ! ہمارے زندوں اور مردوں کو بخش دے، ہمارے حاضر اور غائب کو بخش دے ہمارے چھوٹوں اور بڑوں کو بخش دے،ہمارے مردوں اور عورتوں کو بخش دے۔ اے اللہ ! ہم میں سے جس کو زندہ رکھے تو اسلام پر زندہ رکھ اور جس کو موت دے تو ایمان کی حالت میں موت دے۔
اگر میت نابالغ ہوتو…:
حدیث میں آیا ہے: وَالسِّقْطُ یُصَلّٰی عَلَیْہِ وَیُدْعٰی لِوَالِدَیْہِ بِالْمَغْفِرَۃِ وَالرَّحْمَۃِ
ترجمہ: نابالغ کی نماز جنازہ ادا کی جائے اور اس کے والدین کے لیے مغفرت اور رحمت کی دعا کی جائے۔
(سنن ابی داؤد ج2 ص 97 باب المشی امام الجنازۃ)
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نابالغ میت کی نماز جنازہ میں یہ دعا پڑھتے تھے
اَللّٰھُمَّ اجْعَلْہُ لَنَا سَلَفًا وَّفَرَطاًوَذُخْرًا۔
(السنن الکبریٰ للبیہقی ج4 ص 10 باب السقط یغسل ویکفن ویصلی علیہ)
اسی طرح کے الفاظ حضرت حسن بصری سے بھی منقول ہیں۔
(صحیح البخاری ج1 ص178 باب قراء ۃ فاتحۃ الکتاب علی الجنازۃ)
چونکہ حدیث میں کوئی خاص دعا مقرر نہیں کی گئی اور حضرات سلف صالحین سے بھی مختلف الفاظ مروی ہیں اسی لئے فقہانے تمام روایات کے پیش نظر ایک جامع دعا ذکر فرمائی ہے:
اَللّٰھُمَّ اجْعَلْہُ لَنَا فَرَطاً وَاجْعَلْہُ لَنَا اَجْرًا وَذُخْرًا وَاجْعَلْہُ لَنَا شَافِعًا وَمُشَفَّعًا
(الھدایۃ مع نصب الرایۃ ج2 ص279 فصل فی الصلاۃ علی المیت، المحیط البرہانی ج2ص 328 الفصل الثانی والثلاثون فی الجنائز،کنز الدقائق للنسفی مع البحر الرائق ج2 ص 322 فصل السلطان احق بصلاتہ )
ترجمہ: اے اللہ!اس بچہ کو ہمارا پیش روبنا دے اور اسے ہمارے لیے باعث اجر بنا، اسے ہمارے لئے سفارش کرنے والا بنا اور اس کی سفارش قبول فرما۔
اگر نابالغ بچی کا جنازہ ہو تو اسی دعا میں’
’ اِجْعَلْہُ‘‘کی جگہ’’ اِجْعَلْھَا‘‘اور’’ شَافِعًا وَمُشَفَّعًا‘‘کی جگہ’’ شَافِعَۃً وَّمُشَفَّعَۃً‘
‘کہے۔
فائدہ: احادیث میں چونکہ مختلف دعائیں مروی ہیں اس لیے فقہاء نے تصریح کی ہے کہ اگر یہ دعائیں یاد نہ ہو تو جو چاہے دعا کر لے۔
فَاِنْ کَانَ لَایُحْسِنُ یَأتِیْ بِاَیِّ دُعَائٍ شَائَ۔
(الفتاویٰ الہندیہ ج1 ص 164 الصلوۃ علی المیت)
ترجمہ: اگر یہ دعائیں اچھی طرح نہ مانگ سکے تو تو جو دعا چاہے مانگے۔
سلام:
:1 وَقَالَ[رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم ]صَلُّوْا عَلَی النَّجَاشِیْ، سَمَّاھَا صَلٰوۃً لَیْسَ فِیْھَا رُکُوْعٌ وَلَاسُجُوْدٌ وَلَا یُتَکَلَّمُ فِیْھَا وَفِیْھَا تَکْبِیْرٌوَتَسْلِیْمٌ۔
(صحیح البخاری ج1 ص176باب سنۃ الصلوۃ علی الجنازۃ)
ترجمہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ نجاشی رحمہ اللہ پر نماز پڑھو۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جنازہ کو نماز کہا جس میں رکوع ہے، نہ سجدہ اور نہ ہی گفتگو کی جاتی ہے۔ اس میں تو تکبیرات اور سلام پھیرنا ہوتا ہے۔
:2 حضرت ابراہیم ہجری رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں:
حضرت عبداللہ بن ابی ا وفی رضی اللہ عنہ نے اپنی بیٹی کا جنازہ پڑھایا اور چار تکبیریں کہیں
’’ثُمَّ سَلَّمَ عَنْ یَمِیْنِہٖ وَعَنْ شِمَالِہٖ‘‘
(السنن الکبریٰ للبیہقی ج4ص 43باب من قال یسلم عن یمینہ وعن شمالہ)
ترجمہ: پھر اپنے دائیں طرف اور بائیں طرف سلام پھیرا۔
:3 حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
اَلتَّسْلِیْمُ عَلَی الْجَنَازَۃِ مِثْلُ التَّسْلِیْمِ فِی الصَّلٰوۃِ۔
(السنن الکبریٰ للبیہقی ج4 ص 43 باب من قال یسلم عن یمینہ وعن شمالہ،التلخیص الحبیر لابن حجر ج2 ص 124 رقم 771)
ترجمہ: جنازے کا سلام دوسری نمازوں کے سلام کی طرح ہے۔
نماز جنازہ مسجد میں نہ پڑھا جائے:
:1 عَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ رضی اللہ عنہ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم مَنْ صَلّٰی عَلَی جَنَازَۃٍ فِی الْمَسْجِدِ فَلَا شَیْئَ لَہٗ۔
(سنن ابی داؤد ج2 ص 98 باب الصلوۃ علی الجنازۃ فی المسجد،سنن ابن ماجۃ ج1ص 109 باب ما جاء فی الصلوۃ علی الجنازۃ فی المسجد، مصنف عبدالرزاق ج3 ص 344 باب الصلاۃ علی الجنازۃفی المسجدرقم 6606)
ترجمہ: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس نے مسجد میں نماز جنازہ پڑھی اس کے لیے کوئی اجر نہیں۔
:2 عَنْ کَثِیْرِ بْنِ عَبَّاسٍ رضی اللہ عنہ قَالَ لَأَعْرِفَنَّ مَاصُلِّیَتْ عَلَی جَنَازَۃٍ فِی الْمَسْجِدِ۔
(مصنف عبدالرزاق ج3 ص 344 باب الصلاۃ علی الجنازۃفی المسجدرقم6607)
ترجمہ: حضرت کثیر بن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:میں خوب جانتا ہوں کہ (عہد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں ) کسی بھی جنازہ پر نماز مسجد میں نہیں پڑھی گئی۔
نماز جنازہ میں صرف پہلی تکبیر میں رفع یدین کرنا:
:1 عَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ رضی اللہ عنہ اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم کَبَّرَ عَلَی الْجَنَازَۃِ فَرَفَعَ یَدَیْہِ فِیْ اَوَّلِ تَکْبِیْرَۃٍ۔
(جامع الترمذی ج1 ص 206 باب ماجاء فی رفع الیدین علی الجنازۃ، سنن الدار قطنی ج2 ص 75 کتاب الجنائز، باب وضع الیمنی علی الیسریٰ الخ)
ترجمہ: حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز جنازہ کے لیے تکبیر کہی اور اپنے ہاتھ پہلی تکبیر کے وقت اٹھائے۔
:2 عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضی اللہ عنہ اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم کَانَ یَرْفَعُ یَدَیْہِ عَلَی الْجَنَازَۃِ فِیْ اَوَّلِ تَکْبِیْرَۃٍ ثُمَّ لَایَعُوْدُ۔
(سنن الدار قطنی ج2 ص 75کتاب الجنائز، باب وضع الیمنی علی الیسریٰ الخ)
ترجمہ: حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز جنازہ میں صرف پہلی تکبیر کے وقت رفع یدین کرتے تھے پھر دوبارہ نہیں کرتے تھے۔
:3 عَنْ مُوْسیٰ بْنِ دِھْقَانَ قَالَ رَأیْتُ اَبَانَ بْنَ عُثْمَان یُصَلِّیْ عَلَی الْجَنَازَۃِ فَکَبَّرَ اَرْبَعًا یَرْفَعُ یَدَیْہِ فِیْ اَوَّلِ التَّکْبِیْرَۃِ۔
(جزء رفع الیدین للبخاری ص156 رقم 186)
ترجمہ: موسی بن دہقان کہتے ہیں کہ میں نے امیر مدینہ ابان بن عثمان کو دیکھا کہ انہوں نے نماز جنازہ پڑھایا، چار تکبیریں کہیں اور پہلی تکبیر میں رفع یدین کیا۔
نماز جنازہ آہستہ پڑھنا چاہیے:
:1 حضرت ابو امامہ بن سہل سے نماز جنازہ کا سنت طریقہ مروی ہے اس میں یہ الفاظ ہیں
سِرًّا فِیْ نَفْسِہٖ
(السنن الکبریٰ للبیہقی ج4ص 39باب القرائۃ فی صلاۃ الجنازۃ)
ترجمہ: نماز جنازہ آہستہ دل میں پڑھا جائے۔
:2 عَنْ جَابِرٍ رضی اللہ عنہ قَالَ مَا اَبَاحَ لَنَا رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم وَلَااَبُوْبَکْرٍ وَّلَاعُمَرُ رضی اللہ عنہ فِیْ شَیْئٍ مَا اَبَاحُوْا فِی الصَّلٰوۃِ عَلَی الْمَیِّتِ۔
(سنن ابن ماجۃ ج1ص108 باب ما جاء فی الدعاء فی الصلاۃ علی الجنازۃ)
ترجمہ: حضرت جابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت ابوبکر اورحضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ہمارے لیے نمازجنازہ میں کوئی چیز مقرر نہیں فرمائی۔
اس حدیث کے بارے میں حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
وَالَّذِیْ وَقَفْتُ عَلَیْہِ بَاحَ اَیْ جَھَرَ فَاللّٰہُ اَعْلَمُ
(التلخیص الحبیر لابن حجر ج2ص 123 رقم 771)
ترجمہ: جہاں تک میری معلومات ہیں تو (حدیث کے لفظ)بََاحَ کا معنی جَھَرَ ہے۔
مطلب یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم، حضرت ابوبکر اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے نمازجنازہ بلند آواز سے نہیں پڑھی۔
نماز جنازہ کے متصل بعد اجتماعی دعا ثابت نہیں:
نماز جنازہ بذات خود دعا ہے، اس کے متصل بعد اجتماعی دعا کرنا ثابت نہیں۔ اس لیے فقہاء و محدثین نے اس سے منع فرمایا ہے۔ چند تصریحات پیش خدمت ہیں:
:1 شارح مشکوۃ، سلطان المحدثین ملا علی قاری رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
وَلاَ یَدْعُوْ بَعْدَ صَلٰوۃِ الجَنَازَۃِ لِاَنَّہُ یَشْبَہُ الزِیَادَۃَ فِیْ صَلٰوۃِ الْجَنَازَۃِ۔
(المرقاۃ علی المشکوۃ ج4ص149،باب المشی بالجنازۃ)
ترجمہ: نماز جنازہ کے بعد میت کے لیے دعا نہ مانگے، اس لیے کہ یہ نماز جنازہ میں زیادتی کے مشابہ ہے۔
مشہور فقیہ شیخ علامہ محمد بن محمد بن شہاب بزازی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
لَا یَقُوْمُ بِالدُّعَائِ بَعْدَ صَلٰوۃِ الْجَنَازَۃِ لِاَنَّہٗ دَعَا مَرَّۃً۔
(الفتاوی البزازیۃ ج 1ص 72)
ترجمہ: نماز جنازہ کے بعد دعا کے لیے نہ ٹھہرے، کیونکہ اس نے ایک مرتبہ دعاکر لی ہے۔
غائبانہ نمازجنازہ جائز نہیں:
نمازجنازہ کے لیے ضروری ہے کہ میت سامنے ہو۔ اگر میت سامنے نہ ہو تو غائبانہ نمازجنازہ جائز نہیں ہے۔ اس لیے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے دور مبارک سے اب تک امت کا تواتر عملی یہی رہا ہے کہ میت جنازہ پڑھنے والے کے سامنے ہوتی ہے۔
اس ضمن میں ایک امر کی وضاحت ضروری ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے جو حضرت اصمحہ نجاشی رحمہ اللہ کا جنازہ پڑھایا تھا اس کی حقیقت کیا تھی؟ آیا یہ غائبانہ تھا یا نہیں؟
اس بارے میں تمام روایات سامنے رکھتے ہوئے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ یہ نمازجنازہ غائبانہ نہیں تھا بلکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے معجزۃ ً حضرت نجاشی رحمہ اللہ کی میت رکھ دی گئی تھی اور حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم بھی یہی تصور کر رہے تھے کہ جنازہ سامنے ہے چند روایات اور محققین کی تصریحات پیش کی جاتی ہیں۔
:1 عَنْ عِمْرَانَ بْنِ حُصَیْنٍ رضی اللہ عنہ اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم قَالَ اِنَّ اَخَاکُمُ النَّجَاشِیَّ تُوُفِّیَ فَصَلُّوْاعَلَیْہِ قَالَ فَصَفَّ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم وَصَفَفْنَا خَلْفَہٗ فَصَلّٰی عَلَیْہِ وَمَانَحْسَبُ الْجَنَازَۃَ اِلَّامَوْضُوْعَۃً بَیْنَ یَدَیْہِ۔
(مسند احمد ج15ص 98 رقم 19890)
ترجمہ: حضرت عمران بن حصین رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خبر دی کہ تمہارا بھائی نجاشی فوت ہوگیا ہے۔ اس پر جنازہ پڑھو۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم آگے کھڑے ہوئے اور ہم نے پیچھے صف باندھ لی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان پر نماز پڑھائی۔ ہم یہی گمان کرتے تھے کہ جنازہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے ہے۔
:2 ایک روایت میں یہ الفاظ ہیں:
وَھُمْ لَایَظُنُّوْنَ اِلَّا اَنَّ جَنَازَتَہٗ بَیْنَ یَدَ یْہِ
(صحیح ابن حبان ص 872 باب ذکر البیان بان المصطفی ﷺ نعی الی الناس النجاشی الخ، رقم 3102،التمہید لابن عبدالبر ج3 ص 140 تحت رقم145،الاستذکار لابن عبدالبر ج3 ص 28 کتاب الجنائز)
ترجمہ: صحابہ کرام رضی اللہ عنہم یہی گمان کر رہے تھے کہ جنازہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے ہے۔
:3 یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خصوصیت تھی کہ معجزۃ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے دور کی اشیاء بلا حائل سامنے پیش کر دی جاتی تھیں۔ مثلاً جنگ موتہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے جنگ کا پورا نقشہ معجزۃ ً پیش کیا گیا تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بتا رہے تھے کہ جھنڈا اب زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ کے پاس ہے، وہ شہید ہوگئے ہیں وغیرہ وغیرہ۔
(نصب الرایہ ج2 ص 292)
اسی طرح معراج سے واپسی پر جب کفار مکہ نے بیت المقدس کے متعلق سوالات کیے تو بیت المقدس آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے کردیا گیا اور تمام حجابات ہٹادیے گئے
(التمہید لابن عبدالبر ج3 ص138 تحت رقم 145)
حضرت معاویہ بن معاویہ لیثی رضی اللہ عنہ جب فوت ہوئے تو حضرت جبرئیل آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور کہا کہ ان کاجنازہ پڑھنا پسند کریں گے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جی ہاں!انہوں نے اپنا پر زمین پر مارا جس سے حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کا جنازہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے آگیا، جس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز پڑھی۔
(مسند ابی یعلی ج7 ص 258 رقم 4268)
اسی طرح حضرت نجاشی کی میت بھی معجزۃ ً آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے کر دی گئی۔ چنانچہ ابن عبدالبر رحمہ اللہ لکھتے ہیں:
لِاَنَّہٗ وَاللّٰہُ اَعْلَمْ… رُفِعَتْ لَہٗ جَنَازَتُہٗ کَمَاکُشِفَ لَہٗ عَنْ بَیْتِ الْمُقَدَّسِ حِیْنَ سَألَتْہُ قُرَیْشٌ عَنْ صِفَتِہٖ۔
(التمہید لابن عبدالبر ج3 ص138 تحت رقم 145)
ترجمہ: کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے نجاشی رحمہ اللہ کا جنازہ لایا گیا تھا جس طرح جب قریش نے بیت المقدس کے بارے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا تو بیت المقدس آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے کردیا گیا۔
:4 آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات طیبہ میں کئی صحابہ رضی اللہ عنہم دور دراز کے علاقوں میں فوت ہوئے لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی کی غائبانہ نماز جنازہ نہیں پڑھی، اسی طرح حضرات خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم نے بھی اپنے اپنے دور خلافت میں کسی غائب میت کی نماز جنازہ نہیں پڑھی۔ معلوم ہو اکہ غائبانہ نماز جنازہ درست نہیں۔
:5 حضرت نجاشی کا جنازہ پڑھنا صرف آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خصوصیت ہے۔ محققین نے اس کے خصوصیت ہونے کی تصریح کی ہے۔
:1 امام یوسف بن عبداللہ بن محمد ابن عبدالبر
(التمہید لابن عبدالبر ج3ص137,138 )
:2 علامہ عبدالرحمن الجزیری
(کتاب الفقہ علی المذاھب الاربعۃ ج1 ص 474 باب شروط صلوۃ الجنازۃ)
:3 امام ابو سلیمان حمد بن محمد بن ابراہیم الخطابی
(معالم السنن للخطابی ج1 ص 270 )