نماز عیدین

User Rating: 5 / 5

Star ActiveStar ActiveStar ActiveStar ActiveStar Active
 
نماز عیدین
مسلمانوں کی خوشی وشادمانی کے لئے شریعت مطہرہ نے دو عیدوں کو مشروع کیا ہے، رمضان کے بعد عیدالفطر اور ۱۰ ذوالحجہ کو عیدالاضحیٰ۔ان دو مواقع پر نماز عید اس بات کا ثبوت ہوتا ہے کہ مسلمان خوشی وغمی میں اپنے رب کی یاد سے غافل نہیں رہتے۔
نماز عید کا طریقہ:
عید الفطر اور عید الاضحی دو دو رکعات چھ زائد تکبیروں کے ساتھ ادا کی جاتی ہیں۔پہلی رکعت میں ثناء کے بعد قرأت سے پہلے تین تکبیریں اور دوسری رکعت میں قرأت کے بعد تین تکبیریں زائد کہی جاتی ہیں۔ پہلی رکعت میں زائد تکبیریں کہتے وقت ہاتھ کانوں تک اٹھا کر چھوڑ دیے جاتے ہیں اور تیسری تکبیر کے بعد باندھ لئے جاتے ہیں اور دوسری رکعت میں تین زائد تکبیروں کے بعد چوتھی تکبیرکہہ کر نمازی رکوع میں چلا جاتا ہے۔
اس طرح پہلی رکعت میں تکبیرتحریمہ اور تین زائد تکبیریں مل کر چار تکبیریں ہوئیں اور دوسری رکعت میں تین زائد تکبیریں اور رکوع کی تکبیر مل کر چار ہوئیں۔ یوں گویا کہ ہر رکعت میں چار تکبیریں ہوئیں۔
:1 اَنَّ سَعِیْدَ بْنَ الْعَاصِ رضی اللہ عنہ سَأَلَ اَبَامُوْسٰی الْاَشْعَرِیَّ وَحُذَیْفَۃَ بْنَ الْیَمَانِ رضی اللہ عنہ کَیْفَ کَانَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم یُکَبِّرُ فِی الْاَضْحٰی وَالْفِطْرِ فَقَالَ اَبُوْ مُوْسیٰ رضی اللہ عنہ کَانَ یُکَبِّرُاَرْبَعًا تَکْبِیْرَۃً عَلَی الْجَنَائِزِ فَقَالَ حُذَیْفَۃُ رضی اللہ عنہ صَدَقَ فَقَالَ اَبُوْمُوْسیٰ کَذٰلِکَ کُنْتُ اُکَبِّرُ فِی الْبَصْرَۃِ حَیْثُ کُنْتُ عَلَیْھِمْ۔
(سنن ابی داؤد ج1 ص170باب التکبیر فی العیدین، السنن الکبریٰ للبیہقی ج3ص 289 باب ذکر الخبر الذی روی فی التکبیر اربعا)
ترجمہ: حضرت سعید بن العاص رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ اور حضرت حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ سے سوال کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عیدالاضحی اور عیدالفطر میں کتنی تکبیریں کہتے تھے؟ حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ نے جواب دیا چار تکبیریں کہتے تھے جنازہ کی تکبیروں کی طرح۔
حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ نے (حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ )انہوں نے سچ کہا۔ حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ نے بتایا کہ جب میں بصرہ میں گورنر تھا تو وہاں بھی ایسے ہی کیا کرتا تھا۔
:2 عَنِ الْقَاسِمِ اَبِیْ عَبْدِالرَّحْمٰنِ قَالَ حَدَّثَنِیْ بَعْضُ اَصْحَاب رَسُوْلِ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم قَالَ صَلّٰی بِنَا النَّبِیُّ صلی اللہ علیہ وسلم یَوْمَ عِیْدٍ فَکَبَّرَ اَرْبَعًا وَاَرْبَعًا ثُمَّ اَقْبَلَ عَلَیْنَا بِوَجْھِہٖ حِیْنَ انْصَرَفَ فَقَالَ لَاتَنْسَوْا کَتَکْبِیْرِ الْجَنَائِزِ وَاَشَارَ بِاَصَابِعِہٖ وَقَبَضَ اِبْھَامَہٗ۔
(شرح معانی الآثار ج2 ص 371 باب صلوۃ العیدین کیف التکبیرفیھا)
ترجمہ: ابو عبدالرحمن قاسم فرماتے ہیں کہ مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعض اصحاب رضی اللہ عنہ نے بتایا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں عید کی نماز پڑھائی تو چار چار تکبیریں کہیں جب نماز سے فارغ ہوئے تو ہماری طرف متوجہ ہوکرفرمایا: بھول نہ جاناعید کی تکبیریں جنازہ کی طرح (چار) ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہاتھ کی انگلیوں کا اشارہ فرمایا اور انگوٹھا بند کر لیا۔
:3 حضرت عمرفاروق رضی اللہ عنہ کے دور خلافت میں تکبیراتِ جنازہ کی تعداد میں اختلاف ہوا کہ چار،پانچ یا سات ہیں؟ تو آپ رضی اللہ عنہ نے تمام صحابہ اور دیگر لوگوں کو جمع فرمایا اور کسی ایک صورت پر متفق ہونے کا مشورہ دیا۔ حدیث کے الفاظ ہیں:
فَاجْمَعُوْا اَمْرَھُمْ عَلٰی اَنْ یَجْعَلُوْا التَّکْبِیْرَ عَلَی الْجَنَائِزِ مِثْلَ التَّکْبِیْرِ فِی الْاَضْحیٰ وَالْفِطْرِ اَرْبَعَ تَکْبِیْرَاتٍ فَاجْمَعَ اَمْرُھُمْ عَلیٰ ذٰلِکَ۔
(شرح معانی الآثار ج1ص319 باب التکبیر علی الجنائز کم ھو )
ترجمہ: تو انہوں نے اس امر پر اتفاق کیا کہ جنازہ کی بھی چار تکبیریں ہیں نماز عیدالاضحیٰ اور عیدالفطر کی چار تکبیروں کی طرح۔ پس اس بات پر سب کا اتفاق ہوا۔
:4 عَنْ عَلْقَمَۃَ وَالْاَسَوَدِ بْنِ یَزِیْدَ قَالَا کَانَ ابْنُ مَسْعُوْدٍ رضی اللہ عنہ جاَلِسًا وَعِنْدَہٗ حُذَیْفَۃُ وَاَبُوْمُوْسَیٰ رضی اللہ عنہ فَسَألَھُمْ سَعِیْدُ بْنُ الْعَاص رضی اللہ عنہ عَنِ التَّکْبِیْرِ فِی الصَّلٰوۃِ یَوْمَ الْفِطْرِ وَالْأضْحٰی … قَالَ لَہٗ حُذَیْفَۃُ رضی اللہ عنہ سَلْ ھٰذَا لِعَبْدِاللّٰہِ بْنِ مَسْعُوْدٍ رضی اللہ عنہ فَسَألَہٗ فَقَالَ ابْنُ مَسْعُوْدٍ رضی اللہ عنہ یُکَبِّرُ اَرْبَعًا ثُمَّ یَقْرَأ ثُمَّ یُکَبِّرُ فَیَرْکَعُ ثُمَّ یُکَبِّرُ فِی الثَّانِیَۃِ فَیَقْرَأثُمَّ یُکَبِّرُ اَرْبَعًا بَعْدَ الْقِرَائَۃِ۔
(المعجم الکبیر للطبرانی ج4 ص 593 رقم 9402،مصنف عبدالرزاق ج3ص167باب التکبیر فی الصلوۃ یوم العید رقم 5704)
ترجمہ: علقمہ اور اسود بن یزیدکہتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بیٹھے ہوئے تھے اور ان کے پاس حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ اور حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ بھی تھے۔ تو ان سب سے حضرت سعیدبن العاص رضی اللہ عنہ نے عید الفطر اور عید الاضحی کی تکبیروں کے متعلق سوال کیا۔حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ یہ مسئلہ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے پوچھو۔ انہوں نے پوچھا تو ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا: نمازی چار تکبیریں کہے۔ پھر قراء ت کرے، پھر تکبیر کہ کر رکوع کرے دوسری رکعت میں تکبیر کہے پھر قراء ت کرے، پھر قرأت کے بعد چار تکبیریں کہے۔
خطبہ عید:
نماز عید کے لیے دو خطبے ہیں:
عَنْ عَامِرِ بْنِ سَعْدٍ عَنْ اَبِیْہِ اَنَّ النَّبِیَّ صلی اللہ علیہ وسلم صَلَّی الْعِیْدَ بِغَیْرِ اَذَانٍ وَ لاَ اِقَامَۃٍ وَکَانَ یَخْطُبُ خُطْبَتَیْنِ قَائِماً، یَفْصِلُ بَیْنَھُمَا بِجَلْسَۃٍ۔
(مسند البزار ج3 ص321 رقم الحدیث1116،مجمع الزوائد للھیثمی ج 2ص439 رقم الحدیث3239)
ترجمہ: حضرت عامر بن سعد اپنے والد حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز عید بغیر اذان و اقامت کے پڑھی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم عید کے دو خطبے کھڑے ہو کر دیتے تھے اور ان کے درمیان تھوڑی دیر بیٹھتے تھے۔
خطبہ عید کا نماز کے بعد ہونا:
عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عُمَرَ رضی اللہ عنہ اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم کَانَ یُصَلِّی فِی الْاَضْحٰی وَ الْفِطْرِ وَ یَخْطُبُ بَعْدَ الصَّلٰوۃِ۔
(صحیح البخاری ج1 ص131 باب المشی و الرکوب الی العید بغیر اذان و لا اقامۃ)
ترجمہ: حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عید الاضحی ا ور عید الفطر کے دن نماز پڑھتے، پھر نماز کے بعد خطبہ دیتے تھے۔
عید کی نماز کے بعد اجتماعی دعا:
عَن اُمِّ عَطِیَۃَ رضی اللہ عنہاقَالَتْ کُنَّا نُؤْمَرُ اَنْ نَخْرُجَ یَوْمَ العِیْدِ حَتّٰی نُخْرِجَ البِکْرَ مِنْ خِدْرِھَا،حَتّٰی نُخْرِجَ الحُیَّضَ فَیَکُنَّ خَلْفَ النَّاسِ فَیُکَبِّرْنَ بِتَکْبِیْرِہِمْ وَ یَدْعُوْنَ بِدُعَائِھِمْ، یَرْجُوْنَ بَرَکَۃَ ذٰلِکَ الْیَوْمِ وَ طُھْرَتَہٗ۔
(صحیح البخاری ج 1ص132 باب التکبیر ایام منی الخ)
ترجمہ: ام عطیہ رضی اللہ عنہافرماتی ہیں کہ ہمیں حکم دیا جاتا تھا کہ ہم عید کے دن نکلیں، یہاں تک کہ ہم کنواری عورت کو بھی پردے کے ساتھ لے جاتیں اور حائضہ کو بھی۔ پس وہ مردوں کے پیچھے رہتیں تھیں، مردوں کی تکبیرکے ساتھ تکبیر کہتیں اور ان کی دعاؤں کے ساتھ دعا کرتیں، اس دن کی برکت اور پاکی کی امید کرتیں۔
اس حدیث میں دعا سے دعاء خطبہ مراد نہیں لی جا سکتی، کیونکہ خطبہ میں صرف امام دعا کرتا ہے سامعین دعا نہیں کر سکتے اور حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ حائض عورتیں عیدین میں مردوں کے پیچھے کھڑی رہتیں، اورمردوں کی تکبیرکے ساتھ تکبیر کہتیں اور ان کی دعا کے ساتھ دعا کرتیں۔اس سے مردوں اور عورتوں سب کا دعا کرنا ثابت ہوتا ہے۔
(امداد الاحکام از مولانا ظفر احمد عثمانی ج 1ص743)
فائدہ: عورتیں عیدگاہ میں نہ جائیں:
ابتداء اسلام میں عورتوں کو دین کے بنیادی احکامات، مسائل اور آداب سے روشناس کرنے کے لیے مختلف اجتماعات مثلاً فرض نماز، جمعہ، عیدین وغیرہ میں شرکت کی اجازت تھی۔ جب یہ ضرورت پوری ہوئی اور عورتیں بنیادی مسائل واحکام سے واقف ہو گئیں تو انہیں ان اجتماعات سے روک دیا گیا۔ مندجہ ذیل روایات اس پر شاہد ہیں۔
:1 عَنْ عَائِشَۃَ رضی اللہ عنہاقَالَتْ لَوْاَدْرَکَ رَسُوْلُ اللّٰہِ صلی اللہ علیہ وسلم مَااَحْدَثَ النِّسَائُ لَمَنَعَھُنَّ الْمَسْجِدَ کَمَا مُنِعَتْ نِسَائُ بَنِیْ اِسْرَائِیْلَ۔
(صحیح البخاری ج1ص120 باب خروج النساء ای المساجد الخ،صحیح مسلم ج1ص183 باب خروج النساء الی المساجدالخ)
ترجمہ: حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ آج اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان باتوں کو دیکھ لیتے جو لوگوں نے اختیار کر رکھی ہیں تو عورتوں کو مسجد جانے سے ضرور روک دیتے، جس طرح بنی اسرائیل کی عورتیں روک دی گئی تھیں۔
:2 عَنِ ابْنِ عُمَرَ رضی اللہ عنہ اَنَّہٗ کَانَ لَا یَخْرُجُ نِسَائُ ہٗ فِی الْعِیْدَیْنِ
(مصنف ابن ابی شیبۃ ج 4ص234، باب من کرہ خروج النساء الی العیدین رقم 5845 )
ترجمہ: حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کی بیویاں نماز عیدین کے لیے نہیں جاتی تھیں۔
:3 عَنْ ھِشَامِ بْنِ عُرْوَۃ عَنْ اَبِیْہِ اَنَّہٗ کَانَ لَایَدَعُ اِمْرَأۃً مِّنْ اَھْلِہٖ تَخْرُجُ اِلٰی فِطْرٍ وَلَااَضْحٰی۔
(مصنف ابن ابی شیبۃ ج 4ص234، باب من کرہ خروج النساء الی العیدین رقم 5846)
ترجمہ: ہشام بن عروہ اپنے والد عروہ بن زبیر بن عوام کے بارے میں فرماتے ہیں کہ وہ اپنے گھر کی کسی عورت کو عیدالفطر اور عید الاضحی کی نماز پڑھنے کے لیے نہیں جانے دیتے تھے۔
:4 عَنْ عَبْدِالرَّحْمٰنِ بْنِ القَاسِمِ قَالَ کَانَ الْقَاسِمُ اَشَدَّ شَیْئٍ عَلَی الْعَوَاتِقِ، لَایَدَعُھُنَّ یَخْرُجْنَ فِی الْفِطْرِ وَالْاَضْحٰی۔
(مصنف ابن ابی شیبۃ ج4ص234، باب من کرہ خروج النساء الی العیدین رقم 5847)
ترجمہ: حضرت عبدالرحمن بن قاسم کہتے ہیں کہ قاسم بن محمد بن ابی بکر صدیق رحمہ اللہ نوجوان عورتوں کے بارے میں بہت سخت تھے کہ انہیں عیدالفطر اور عیدالاضحی میں نہیں جانے دیتے تھے۔
:5 عَنْ اِبْرَاھِیْمَ قَالَ یُکْرَہُ خُرُوْجُ النِّسَائِ فِی الْعِیْدَیْنِ۔
(مصنف ابن ابی شیبۃ ج4 ص234، باب من کرہ خروج النساء الی العیدین رقم 5844)
ترجمہ: جلیل القدر تابعی حضرت ابراہیم نخعی فرماتے ہیں کہ عورتوں کو عیدین کی نمازوں کے لئے جانا مکروہ ہے۔