پارہ نمبر: 26

User Rating: 5 / 5

Star ActiveStar ActiveStar ActiveStar ActiveStar Active
 
پارہ نمبر: 26
سورۃ الاحقاف
"احقاف "ریت کو ٹیلے کو کہتے ہیں۔ چونکہ اس سورۃ میں قوم عاد کا ذکر ہےجو ریت کے ٹیلوں کے پاس آباد تھی، اسی وجہ سے اس سورۃ کا نام" احقاف" رکھ دیا ہے۔
توحید خداوندی پر دلائل نقلیہ اور عقلیہ :
﴿قُلۡ اَرَءَیۡتُمۡ مَّا تَدۡعُوۡنَ مِنۡ دُوۡنِ اللہِ اَرُوۡنِیۡ مَاذَا خَلَقُوۡا مِنَ الۡاَرۡضِ ِ﴿۴﴾ ﴾
اسلام کے بنیادی عقائد میں سے یہاں عقیدہ تو حید کودلائل کی تین قسموں کے ساتھ اس طرح ثابت کیا جارہا ہے کہ مشرکین کے پاس اپنے عقیدہ شرک کو ثابت کرنے کےلیے نہ تو دلیل عقلی ہے اور نہ ہی دلائل نقلیہ میں سے کوئی دلیل ہے تو عقیدہ توحید خود بخود ثابت ہوجائے گا۔ عقیدہ توحید تو دلائلِ عقلیہ و نقلیہ سے ثابت ہے۔ دلیل عقلی: آپ ان سے فرمائیں کہ یہ جو تم اللہ تعالیٰ کے علاوہ اوروں کی عبادت کرتے ہو تو یہ بتاؤ کہ جن کو تم خدا بناتے ہو کیا انہوں نے زمین کی کوئی چیز پیدا کی ہے؟ یا آسمانوں کی تخلیق میں ان کا کوئی حصہ ہے؟ دلیل نقلی آسمانی کتاب سے :
اِیْتُوْنِیْ بِکِتٰبٍ مِّنْ قَبْلِ ہٰذَا
تمہارے اس دعوے پر اگر اس سے پہلے کسی آسمانی کتاب میں کوئی بات درج ہے تو میرے پاس لاؤ! دلیل نقلی پیغمبر کی زبان سے:
اَوْ اَثٰرَۃٍ مِّنْ عِلْمٍ
یا کسی پیغمبر کی زبان سے کوئی بات نکلی ہو، کوئی علمی بات ہو تو بتاؤ اگر تم سچے ہو!
قرآن کریم کی حقانیت:
﴿اَمۡ یَقُوۡلُوۡنَ افۡتَرٰىہُ قُلۡ اِنِ افۡتَرَیۡتُہٗ فَلَا تَمۡلِکُوۡنَ لِیۡ مِنَ اللہِ شَیۡئًا﴿۸﴾ ﴾
کفار ومشرکین کا الزام یہ تھا کہ محمد(صلی اللہ علیہ وسلم )نے یہ قرآن اپنی طرف سے گھڑ لیا ہے۔ انہیں جواب دیا جارہا ہے کہ "اگر میں نے اسے اپنی طرف سے گھڑلیاہے تو تم مجھے اللہ تعالیٰ کی پکڑ سے بالکل بھی نہیں بچا سکو گے"یعنی اللہ تعالیٰ کا طریقہ اور دستور یہ ہے کہ جب بھی کوئی شخص اللہ تعالیٰ کی طرف ایسی چیز کی نسبت کرے جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے نہ ہوتو اللہ تعالیٰ ایسے شخص کو دنیا میں ہی ذلیل ورسوا فرمادیتے ہیں۔ بالفرض میں نے یہ اپنی طرف سے گھڑاہے تو اللہ تعالیٰ کی پکڑ سے مجھے کوئی بھی نہیں بچا سکے گا۔ معلوم ہوا کہ یہ قرآن کریم اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہی ہے۔
اہل کتاب قرآن پر ایمان لائیں گے:
﴿قُلۡ اَرَءَیۡتُمۡ اِنۡ کَانَ مِنۡ عِنۡدِ اللہِ وَ کَفَرۡتُمۡ بِہٖ وَ شَہِدَ شَاہِدٌ مِّنۡۢ بَنِیۡۤ اِسۡرَآءِیۡلَ عَلٰی مِثۡلِہٖ فَاٰمَنَ وَ اسۡتَکۡبَرۡتُمۡ ﴿٪۱۰﴾ ﴾
اس آیت میں ایک تو یہ پیشین گوئی کی جارہی ہے کہ اہل کتاب میں سے کچھ حضرات(عبد اللہ بن سلام، عدی بن حاتم رضی اللہ عنہماوغیرہما) قرآن کریم پر ایمان لائیں گے اور گواہی دیں گے کہ اسی جیسی کتاب حضرت موسیٰ علیہ السلام پر بھی نازل ہوئی تھی۔ مشرکین کو تنبیہ بھی کی جارہی ہے کہ اہل کتاب میں سے اہل ایمان قرآن کریم پر بھی ایمان لاکر تم پر سبقت لیے جارہے ہیں اور تم غروروتکبر میں پڑے ہو۔
حقوق الوالدین :
﴿وَ وَصَّیۡنَا الۡاِنۡسَانَ بِوَالِدَیۡہِ اِحۡسٰنًا حَمَلَتۡہُ اُمُّہٗ کُرۡہًا ﴿۱۵﴾ ﴾
یہاں اولاد کو والدین کے ساتھ حسن سلوک کرنے کا حکم دیا جارہا ہے۔ بعض دفعہ ایسا ہوتا تھا کہ والدین اسلام لے آتے اور اولاد کفر پرہوتی۔ بعض دفعہ اولاد اسلام قبول کرلیتی مگر والدین کفر پر برقرار رہتے اور بعض مرتبہ اپنی مسلمان اولاد پر تشدد بھی کرتے۔ تویہاں اولاد کو سمجھایا جارہا ہے کہ والدین جیسے بھی ہوں، ان کے حقوق کا خیال رکھو۔ البتہ کفر، غلط عقائد اور گناہ کے کام میں ان کی اطاعت نہ کرنا۔
شانِ صدیق اکبر رضی اللہ عنہ:
﴿حَتّٰۤی اِذَا بَلَغَ اَشُدَّہٗ وَ بَلَغَ اَرۡبَعِیۡنَ سَنَۃً ۙ قَالَ رَبِّ اَوۡزِعۡنِیۡۤ اَنۡ اَشۡکُرَ نِعۡمَتَکَ الَّتِیۡۤ اَنۡعَمۡتَ عَلَیَّ وَ عَلٰی وَالِدَیَّ وَ اَنۡ اَعۡمَلَ صَالِحًا تَرۡضٰہُ ﴿۱۵﴾﴾
ایک تفسیر کے مطابق یہ دعا حضرت صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے مانگی تھی۔ اے اللہ! مجھے توفیق دیں کہ وہ نعمتیں جو آپ نے مجھ پر اور میرے والدین پر فرمائی ہیں؛ میں ان پر آپ کا شکر ادا کروں۔ میں ایسے نیک اعمال کروں جن سے آپ راضی ہو جائیں اور آپ میری اولاد کو بھی نیک بنا دیں۔ اے اللہ! میں آپ کی طرف رجوع کرتا ہوں اور میں فرمانبرداروں میں سے ہوں۔
قوم عاد کو توحید کی طرف دعوت :
﴿وَ اذۡکُرۡ اَخَا عَادٍ ؕ اِذۡ اَنۡذَرَ قَوۡمَہٗ بِالۡاَحۡقَافِ ﴿۲۱﴾﴾
توحید اسلام کے بنیادی عقائد میں سے پہلا عقیدہ ہے۔ یہ عقیدہ تمام انبیاء علیہم السلام کے درمیان متفق علیہ رہا ہے۔ قوم عادجو یمن کے علاقے میں آباد تھی، حضرت ہود علیہ السلام کو ان کی طرف مبعوث کیا گیا۔ حضرت ہود علیہ السلام نے بھی دیگر انبیاء کی طرح اپنی قوم کو توحید کی دعوت دی۔ لیکن انہوں دعوت قبول کرنے سے انکار کیا۔ اللہ تعالیٰ نے ان پر عذاب نازل کرکے انہیں ہلاک کردیا۔
جنات کااسلام قبول کرنا:
﴿وَ اِذۡ صَرَفۡنَاۤ اِلَیۡکَ نَفَرًا مِّنَ الۡجِنِّ یَسۡتَمِعُوۡنَ الۡقُرۡاٰنَ ﴿۲۹﴾﴾
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اہل طائف کو تبلیغ کرکے واپس مکہ تشریف لاتے ہوئے مقام نخلہ پر فجر کی نماز کی ادائیگی میں تلاوت فرمارہے تھے۔ جنات کی ایک جماعت وہاں سے گزررہی تھی وہ ایک دوسرے کوخاموش کرواکر قرآن کریم سننے کےلیے رک گئے۔ اسلام بھی قبول کرلیا اور اپنی قوم کےلیے داعی بنے۔ پھر وقتاًفوقتاً کئی وفود نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آتے اور اسلام قبول کرتے رہے۔
امام الانبیاء کو صبر کی تلقین :
﴿فَاصۡبِرۡ کَمَا صَبَرَ اُولُوا الۡعَزۡمِ مِنَ الرُّسُلِ وَ لَا تَسۡتَعۡجِلۡ لَّہُمۡ ﴿٪۳۵﴾﴾
گزشتہ آیت میں تھا کہ آپ طائف سے واپس آرہے تھے جب جنوں کی ایک جماعت نے قرآن کریم سنا۔ اہل طائف نے آپ کو تکلیفیں پہنچائیں۔ اب یہاں سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو صبر کی تلقین کی جارہی ہے کہ آپ ان کی تکلیفوں پر صبر کریں جس طرح اولوالعزم پیغمبروں نے صبر کیا۔
سورۃ محمد
اس سورۃ میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا نام نامی اسم گرامی لیاگیا ہے۔اس لیے اس سورۃ کانام "محمد" رکھا گیا ہے۔
کفار اور مؤمنین کے نتائج:
﴿اَلَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا وَ صَدُّوۡا عَنۡ سَبِیۡلِ اللہِ اَضَلَّ اَعۡمَالَہُمۡ ﴿۱﴾ وَ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ وَ اٰمَنُوۡا بِمَا نُزِّلَ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّ ہُوَ الۡحَقُّ مِنۡ رَّبِّہِمۡ﴿۲﴾﴾
کافروں نےدوکام کیےہیں:پہلا: انہوں نے خود بھی کفر اختیار کیا۔ دوسرا: دیگرلوگوں کو بھی اللہ تعالیٰ کے راستے سے روکا۔ نتیجۃً اللہ تعالیٰ نے ان کے اعمال ضائع فرمادیے۔ جبکہ ان کے مقابلے میں اہل ایمان ؛ ایمان لائے، نیک اعمال کیے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر جو کچھ نازل ہوا اس کو دل وجان سے مانا۔ نتیجۃً اللہ تعالیٰ نے ا ن کے گناہوں کو معاف فرما دیااور ان کے احوال اور دلوں کی بھی اصلاح فرمادی۔
جنگی قیدیوں کے متعلق احکامات :
﴿فَاِذَا لَقِیۡتُمُ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا فَضَرۡبَ الرِّقَابِ حَتّٰۤی اِذَاۤ اَثۡخَنۡتُمُوۡہُمۡ فَشُدُّوا الۡوَثَاقَ ٭ۙ فَاِمَّا مَنًّۢا بَعۡدُ وَ اِمَّا فِدَآءً حَتّٰی تَضَعَ الۡحَرۡبُ اَوۡزَارَہَا ﴿۴﴾﴾
اس آیت سے ثابت ہو رہا ہے کہ قیدیوں کے بارے دو اختیار ہیں؛ فدیہ لے کر آزاد کر دیں یا بغیر فدیہ لیے آزاد کر دیں۔ جب بدر کے موقع پر کفار کے ستر آدمی گرفتارہوئے تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام کی اکثریت کے مشورہ سے فدیہ لے کر انہیں چھوڑدیا تھا جس پر اللہ تعالیٰ نے ناراضی کی اظہار فرمایاتھا۔ جبکہ یہاں فدیہ لے کر چھوڑنے کا اختیار دیا جارہا ہے۔ مذکورہ دونوں میں کوئی تعارض نہیں۔ اصل حکم یہ ہے کہ کفار کی طاقت کو کچل کر ختم کرنا ہے۔ چونکہ غزوہ بدر میں فدیہ لے کر چھوڑنے کا مطلب یہ بن رہا تھا کہ ان کی طاقت کو اچھے طریقے سے کچلے بغیررہاکیا جارہا تھا اس لیے اللہ تعالیٰ نے ناراضی کا اظہار فرمایا۔ بعد میں جب مسلمان اور اسلام طاقتور اور کفار کمزور ہو گئے تو پھر اس آیت والاحکم دے دیا گیا۔ خلاصہ کلام یہ ہےکہ مسلمان حاکم کو قیدیوں کے متعلق چارقسم کے اختیار حاصل ہیں :
قتل کر دے۔ غلام بنا دے۔ فدیہ لے کر آزاد کر دے [فدیہ میں پیسے بھی ہیں اور قیدیوں کا تبادلہ بھی ہے]۔ فدیہ کے بغیرآزاد کردے۔
اہل جنت کےلیے انعامات:
﴿مَثَلُ الۡجَنَّۃِ الَّتِیۡ وُعِدَ الۡمُتَّقُوۡنَ ؕ فِیۡہَاۤ اَنۡہٰرٌ مِّنۡ مَّآءٍ غَیۡرِ اٰسِنٍ ﴿۱۵﴾ ﴾
گزشتہ آیات میں جہادوقتال کا بیان تھا۔ اب جنتیوں کے انعامات کو بیان کیا جارہاہے۔ دوسرے انعامات کے علاوہ اللہ تعالیٰ چارقسم کی نہریں بھی عطا فرمائیں گے :
پانی کی نہر جو بالکل صاف ہوگی۔ دودھ کی نہر جس کا ذائقہ تبدیل نہیں ہو گا۔ شراب کی نہر جو لذت والی ہوگی،کڑوی نہیں ہو گی، بدبو دار نہیں ہو گی۔ شہد کی نہر جو بالکل صاف ستھری ہو گی۔
مؤمنین اور منافقین کے درمیان فرق:
﴿وَ یَقُوۡلُ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا لَوۡ لَا نُزِّلَتۡ سُوۡرَۃٌ ۚ فَاِذَاۤ اُنۡزِلَتۡ سُوۡرَۃٌ مُّحۡکَمَۃٌ وَّ ذُکِرَ فِیۡہَا الۡقِتَالُ ۙ﴿ۚ۲۰﴾﴾
اہل ایمان یعنی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم مخلص تھے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور قرآن کریم کے ساتھ ان کے عشق کی انتہا تھی، تویہ انتظار میں رہتے تھے کہ کوئی نئی سورت نازل ہو تاکہ ہمارا ایمان تازہ ہو اور جہاد کی اجازت بھی مل جائے۔ منافقین بھی زبانی طور پر یہی بات کہہ دیتے ہوں گے۔ جب کوئی سورۃ نازل ہوتی اور اس میں جہاد کا بھی ذکر ہوتاتو منافقین کی حالت(خوف کی وجہ سے) اس شخص کی طرح ہوجاتی جس پر موت کی غشی طاری ہو چکی ہو۔
کفار کے لیے وعید:
﴿اِنَّ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا وَ صَدُّوۡا عَنۡ سَبِیۡلِ اللہِ وَ شَآقُّوا الرَّسُوۡلَ مِنۡۢ بَعۡدِ مَا تَبَیَّنَ لَہُمُ الۡہُدٰی ۙ لَنۡ یَّضُرُّوا اللہَ شَیۡئًا ؕ وَ سَیُحۡبِطُ اَعۡمَالَہُمۡ ﴿۳۲﴾﴾
اس وعید کا مصداق ہر وہ کافر ہے جو شریعت کے راستے سے روکتا ہے لیکن بطور خاص اس سے مراد بنوقریظہ اور یہود ہیں۔ یہ وہ لوگ تھے جنہوں نے مسلمانوں کے خلاف مشرکین مکہ کی بہت مدد کی تھی۔ ان کے اعمال تباہ وبرباد ہوجائیں گے یعنی آخرت میں انہیں کوئی ثواب نہیں ملے گا۔
اللہ تعالیٰ بے نیاز ہیں:
﴿وَ اِنۡ تَتَوَلَّوۡا یَسۡتَبۡدِلۡ قَوۡمًا غَیۡرَکُمۡ ۙ ثُمَّ لَا یَکُوۡنُوۡۤا اَمۡثَالَکُمۡ ﴿۳۸﴾﴾
پہلے اللہ تعالیٰ نے مال خرچ کرنے کا حکم دیا، اب اللہ تعالیٰ اپنی شانِ بے نیازی بیان فرما رہے ہیں کہ ہمیں تمہارے اموال کی ضرورت نہیں یعنی اس کا فائدہ تمہیں ہی ہونا ہے۔ بلکہ تم خود بھی اگر تبدیل ہو گئے تو تمہاری جگہ ہم اور لوگوں کو لائیں گےجو تمہاری طرح نہیں ہوں گے بلکہ وہ ہماری مکمل اطاعت کریں گے اور ہمارے حکموں کو مانیں گے۔
سورۃ الفتح
اس سورۃ میں فتح مکہ کا ذکر ہے۔ پہلی آیت میں لفظ فتح موجودہے۔ اسی وجہ سے اس کانام "فتح"رکھا گیاہے۔
﴿اِنَّا فَتَحۡنَا لَکَ فَتۡحًا مُّبِیۡنًا ۙ﴿۱﴾﴾
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارادہ فرمایا کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے ساتھ عمرہ کریں اور آپ نے خواب بھی دیکھا تھا کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے ساتھ مکہ مکرمہ میں داخل ہو رہے ہیں۔ چنانچہ سن 6 ہجری کو آپ عمرہ کرنے کےلیے اپنی جماعت کے ساتھ روانہ ہو ئے۔ مشرکین کی رکاوٹ کی وجہ سے حدیبیہ کے مقام پر پڑاؤ ڈالا۔ اس موقع پر یہ آیت نازل ہوئی جس میں خوشخبری ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو ایک کھلی فتح عطا فرمادی۔ جوسن 8ہجری کو فتح مکہ کی صورت میں پوری ہوئی۔
عصمت خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم :
﴿لِّیَغۡفِرَ لَکَ اللہُ مَا تَقَدَّمَ مِنۡ ذَنۡۢبِکَ وَ مَا تَاَخَّرَ ۙ﴿۲﴾﴾
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اسی طرح دیگر تمام انبیا ء علیہم السلام معصوم ہیں۔ یہاں"ذنب "سے مراد گناہ نہیں بلکہ اجتہادی لغزش اور بھول چوک ہے۔
فتح اور مغفرت میں جوڑ:
"ذنب " کا ایک معنی الزام ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پرمکی اور مدنی زندگی میں جن لوگوں نے الزام لگائے تھے، اس کھلی اور شاندار فتح کی وجہ سے وہ آپ کے معتقد وموافق بن جائیں گے۔ اب وہ الزام کی بجائے آپ کی مدح کریں گے۔
بیعت رضوان :
﴿اِنَّ الَّذِیۡنَ یُبَایِعُوۡنَکَ اِنَّمَا یُبَایِعُوۡنَ اللہَ ؕ یَدُ اللہِ فَوۡقَ اَیۡدِیۡہِمۡ ﴿٪۱۰﴾ ﴾
جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی جماعت کے ساتھ عمرہ کےلیے جارہے تھے تو حدیبیہ کے مقام پر مشرکین کی طرف سے رکاوٹ ڈالی گئی۔ آپ نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو مکہ مکرمہ بھیجا کہ مشرکین کو اطلاع کریں کہ ہم صرف عمرہ کرنا چاہتے ہیں اور کوئی مقصد نہیں۔ اس وقت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو اطلاع دی گئی کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ مکہ میں شہید کردیے گئے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے جاں نثاروں سے بیعت(رضوان) لی کہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کا بدلہ لیے بغیر واپس نہیں جائیں گے۔ اس آیت میں اسی کی طرف اشارہ ہے۔
”ید“اللہ تعالیٰ کی صفت اورمتَشابہات میں سے ہے جس کا حقیقی معنی اللہ تعالیٰ کے علاوہ کسی کو معلوم نہیں۔ ہاں البتہ متأخرین حضرات درجہ ظن میں اس کا معنی قدرت کرتے ہیں۔
منافقین کے حیلے بہانے :
﴿سَیَقُوۡلُ لَکَ الۡمُخَلَّفُوۡنَ مِنَ الۡاَعۡرَابِ شَغَلَتۡنَاۤ اَمۡوَالُنَا ﴿۱۱﴾ ﴾
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب حدیبیہ کے سفر پر جانے لگے تو حضرات صحابہ کرام تو پہلے ہی سے تیار تھے۔ لیکن منافقین کے دل میں یہ تھا کہ اگر ہم عمرہ کے لیے مکہ گئے تو قتل ہو جائیں گے، واپس نہیں آ سکتے جبکہ زبان سے یہ کہتے ہیں کہ ہماری مجبوری تھی، کچھ مصروفیت تھی اس لیے ہم نہیں جا سکے۔ تو ان کی زبان پر کچھ اور ہے اور دل میں کچھ اور۔
شرکاء بیعت ِحدیبیہ سے رضاکااعلان :
﴿لَقَدۡ رَضِیَ اللہُ عَنِ الۡمُؤۡمِنِیۡنَ اِذۡ یُبَایِعُوۡنَکَ تَحۡتَ الشَّجَرَۃِ فَعَلِمَ مَا فِیۡ قُلُوۡبِہِمۡ فَاَنۡزَلَ السَّکِیۡنَۃَ عَلَیۡہِمۡ وَ اَثَابَہُمۡ فَتۡحًا قَرِیۡبًا ﴿ۙ۱۸﴾﴾
جوصحابہ کرام رضی اللہ عنہم نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حدیبیہ میں شریک تھے انہوں نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ پر بیعتِ حدیبیہ کی جسے بیعتِ رضوان بھی کہتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ان تمام شرکاء سے غزوہ بدرکے شرکاء کی طرح اپنی رضا کا اعلان فرمادیاہے۔
وَ اَثَابَہُمْ فَتْحًا قَرِیْبًا
سے مراد فتح خیبرہےجو حدیبیہ سے واپسی کے بعد حاصل ہوئی۔ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کوبہت سارا مال غنیمت بھی عطا فرمایا جس سے معاشی خوش حالی حاصل ہوگئی۔
اللہ تعالیٰ کی حکمت بالغہ:
﴿وَ ہُوَ الَّذِیۡ کَفَّ اَیۡدِیَہُمۡ عَنۡکُمۡ وَ اَیۡدِیَکُمۡ عَنۡہُمۡ بِبَطۡنِ مَکَّۃَ مِنۡۢ بَعۡدِ اَنۡ اَظۡفَرَکُمۡ عَلَیۡہِمۡ ﴿۲۴﴾ ﴾
جب حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ حدیبیہ سے مکہ گئے تھے ادھر سے مشرکین نے 50آدمی بھیج کر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو نعوذباللہ قتل کرنےکی ناکام کوشش کرناچاہی۔ مگر اللہ تعالیٰ نے ان افراد کو مسلمانوں کے ہاتھوں گرفتار کروا دیا۔ ادھر مشرکین نے حضرت عثمان اور آپ کے ساتھیوں کو مکہ میں روک لیا۔ اس وقت اللہ تعالیٰ نے ان پچاس افراد کو قتل کرنے سے مسلمانوں کے ہاتھوں کو روک دیا۔ ادھر مشرکین کے دل میں مسلمانوں کا رعب ڈال دیا وہ بھی حضرت عثمان اور ان کے ساتھیوں کو شہید کرنے سے رک گئے اور صلح پر آمادہ ہوگئے۔
سکینت کا نازل ہونا:
﴿فَاَنۡزَلَ اللہُ سَکِیۡنَتَہٗ عَلٰی رَسُوۡلِہٖ وَ عَلَی الۡمُؤۡمِنِیۡنَ ﴿٪۲۶﴾ ﴾
جب صلح حدیبیہ کا معاہدہ لکھا جانے لگا تو مشرکین نے ضد اور تکبرکی وجہ سے کچھ ایسی چیزوں پر اصرار کیا جو صحابہ کرام کو ناگوار گزریں مثلاً
" بسم اللہ الرحمن الرحیم"
کے بجائے
" باسمک اللہم "
اور
"محمد رسول اللہ"
کے بجائے
"محمد بن عبداللہ"
لکھاگیا۔ تو اس وقت اللہ تعالیٰ نے اپنے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے دلوں میں تحمل پیدا کیااور انہیں تقویٰ پر ثابت قدم رکھااسی کوسکینت سے تعبیر کیا ہے۔
خواب کا ذکر:
﴿لَقَدۡ صَدَقَ اللہُ رَسُوۡلَہُ الرُّءۡیَا بِالۡحَقِّ ۚ لَتَدۡخُلُنَّ الۡمَسۡجِدَ الۡحَرَامَ اِنۡ شَآءَ اللہُ اٰمِنِیۡنَ﴿۲۷﴾﴾
نبی کا خواب وحی ہوتا ہے۔ یہاں سے اس خواب کا ذکر ہےجو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حدیبیہ کے سفر پر جانے سے پہلے دیکھا تھا کہ ہم عمرہ کرنے کےلیے مکہ مکرمہ میں داخل ہو رہے ہیں۔ اس خواب کی تعبیر سن 6ہجری کے بجائے 7ہجری کو پوری ہوئی آپ نے اپنی جماعت کے ہمراہ امن وسکون کے ساتھ عمرہ کی ادائیگی فرمائی۔
غلبہ برہانی اور غلبہ عملی:
﴿ہُوَ الَّذِیۡۤ اَرۡسَلَ رَسُوۡلَہٗ بِالۡہُدٰی وَ دِیۡنِ الۡحَقِّ لِیُظۡہِرَہٗ عَلَی الدِّیۡنِ کُلِّہٖ ؕ وَ کَفٰی بِاللہِ شَہِیۡدًا ﴿ؕ۲۸﴾﴾
وہی ہے جس نے اپنے پیغمبر کو ہدایت اور دین حق دےکر بھیجا تاکہ اس دین کو تمام ادیان پر غالب کر دے اور اس کی گواہی کے لیے اللہ ہی کافی ہے۔
غلبہ کی دوقسمیں ہیں : ایک ہے غلبہ برہانی اور ایک ہے غلبہ عملی۔ غلبہ برہانی یعنی دلیل کے ساتھ تمام ادیان پر دینِ محمد کا غالب ہونا؛ یہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں ہو چکا ہے اور غلبہ عملی؛ صحابہ رضی اللہ عنہم کے دور میں ہو چکا ہے اور پورے کرہ ارض پر غلبہ عملی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے دور میں ہو گا، ان شاء اللہ العزیز۔
محمد رسول اللہ :
﴿مُحَمَّدٌ رَّسُوۡلُ اللہِ﴿٪۲۹﴾﴾
صلح نامہ میں مشرکین نے اپنی ضد اور تکبر کی وجہ سے "محمد رسول اللہ " لفظ رسول اللہ لکھوانے سے انکار کیا تھا۔ تو اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں "محمد رسول اللہ " کونازل فرماکر قیامت تک کےلیے اس کو مستقل حصہ بنادیا۔ محمد پیغمبر کی ذات کو کہتے ہیں۔ رسول پیغمبر کی بات کو کہتے ہیں۔ پیغمبرکی ذات بھی محفوظ ہے۔ پیغمبر کی بات بھی محفوظ ہے۔
صحابہ کرام رضی اللہ تعالیٰ عنہم کی صفات:
﴿وَ الَّذِیۡنَ مَعَہٗۤ اَشِدَّآءُ عَلَی الۡکُفَّارِ رُحَمَآءُ بَیۡنَہُمۡ تَرٰىہُمۡ رُکَّعًا سُجَّدًا یَّبۡتَغُوۡنَ فَضۡلًا مِّنَ اللہِ وَ رِضۡوَانًا﴿٪۲۹﴾﴾
جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھی ہیں وہ کفار کے مقابلے میں سخت ہیں، آپس میں نرم ہیں، تم دیکھو گے کہ وہ رکوع کرتے ہیں، سجدے کرتے ہیں، اللہ کا فضل اور اللہ کی خوشنودی تلاش کرتے ہیں۔ کثرتِ سجود کی وجہ سے ان کے چہرے پر نشان نظر آتے ہیں۔ ان کے اوصاف تورات و انجیل میں بھی بیان کیے گئے ہیں۔ ان کی مثال ایسے ہے جیسے کھیتی ہو، جس نے پہلے تو اپنی کونپل نکالی ہو، پھر اس کو مضبوط کیا ہو، پھر تھوڑی سی موٹی ہوئی ہو، پھر اپنے تنے کے سہارے کھڑی ہوئی ہو کہ کسان اس کو دیکھ کر خوش ہوتا ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ اس لیے کرتے ہیں کہ اس سے کافر وں کا دل جلے۔
سورۃ الحجرات
اس سورۃ میں حجرات یعنی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے رہائشی حجروں کے پیچھے سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو آواز دینے سے منع کیا گیاہے۔ اسی وجہ سے اس کانام حجرات رکھ دیا گیا ہے۔
مجلس نبوی کے آداب :
﴿یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا لَا تُقَدِّمُوۡا بَیۡنَ یَدَیِ اللہِ وَ رَسُوۡلِہٖ وَ اتَّقُوا اللہَ ؕ﴿۱﴾﴾
سورۃ کی شروع والی آیات میں مجلس نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے آداب کو بیان کیا جارہا ہے کہ جن معاملات کا فیصلہ نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کرنا ہو اور ان معاملات میں آپ نے مشورہ بھی طلب نہ کیا ہو توان میں نبی(صلی اللہ علیہ وسلم) سے آگے بڑھنا اور پھر اس میں بحث ومباحثہ کرنا خلاف ِادب ہے۔ جیسے قبیلہ تمیم کے وفد کے امیر بنانے کے متعلق نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے فیصلے سےپہلے حضرات شیخین رضی اللہ عنہما کے مابین بحث ہوئی تھی۔ اس وقت یہ ابتدائی آیات نازل ہوئیں جن میں ایمان والوں کو حکم دیا گیا ہے کہ اپنی آوازیں نبی کی آواز سے بلند نہ کریں(یہ حکم جس طرح نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں تھا اسی طرح آپ کی وفات کے بعد آج بھی مسجد نبوی کی حدود میں یہی حکم ہے ) کہیں ایسا نہ ہو کہ تمہارے اعمال برباد ہوجائیں۔
آداب معاشرت:
﴿ یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا لَا یَسۡخَرۡ قَوۡمٌ مِّنۡ قَوۡمٍ عَسٰۤی اَنۡ یَّکُوۡنُوۡا خَیۡرًا مِّنۡہُمۡ ﴿۱۱﴾ ﴾
ہر وہ بات جس سے معاشرے میں لڑائی یا فتنہ ہو یا اس سے کسی مسلمان کو تکلیف پہنچےاس سے ان دوآیات میں منع کیا گیا ہے۔ مثلاًکوئی مرد کسی مرد کا مذاق نہ اڑائے۔ نہ ہی کوئی عورت کسی عورت کا مذاق اڑائے۔ ایک دوسرے کو طعنہ نہ دیں۔ ایک دوسرے کو برے القاب سے نہ پکاریں۔ بد گمانی نہ کریں۔ کسی کے عیب تلاش نہ کریں۔ کسی کی غیبت نہ کریں۔
عزت کا دارومدار تقویٰ پرہے:
﴿یٰۤاَیُّہَا النَّاسُ اِنَّا خَلَقۡنٰکُمۡ مِّنۡ ذَکَرٍ وَّ اُنۡثٰی ﴿۱۳﴾﴾
اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام کی اولاد کے مختلف قبائل، اقوام اور خاندان بنائے ہیں۔ ان کا مقصد صرف پہچان ہے۔ یہ مقصد نہیں کہ ایک دوسرے پر بڑائی اور عزت جتائیں۔ عزت اور بڑائی کا دارومدار تقویٰ پر ہے۔
سورۃ ق
"ق" حروف مقطعات میں سے ہے جس کا معنی اللہ تعالیٰ ہی کو معلوم ہے۔ اس سورۃ میں زیادہ تر عقیدہ آخرت کو دلائل سے ثابت کیا گیا ہے۔
بعث بعد الموت کا اثبات :
﴿قَدۡ عَلِمۡنَا مَا تَنۡقُصُ الۡاَرۡضُ مِنۡہُمۡ ۚ وَ عِنۡدَنَا کِتٰبٌ حَفِیۡظٌ ﴿۴﴾﴾
ابتدائی آیات میں منکرین آخرت کے اعتراض کا جواب دیا جارہاہے۔ ان کا اعتراض یہ تھا کہ جب ہم مر کر مٹی ہوجائیں گے اور ہمارے جسم کے تمام حصوں کو مٹی کھاجائے گی ان کو دوبارہ جمع کیسے کیاجائے گا ؟انہیں جواب دیا گیا کہ زمین جن حصوں کو گھٹادے گی ان کا ہمارے پاس پورا علم ہے اور ہمارے پاس کتاب میں سب کچھ محفوظ ہے۔
منکرینِ انبیاء کا کچھ تذکرہ:
﴿ کَذَّبَتۡ قَبۡلَہُمۡ قَوۡمُ نُوۡحٍ وَّ اَصۡحٰبُ الرَّسِّ وَ ثَمُوۡدُ ﴿ۙ۱۲﴾ وَ عَادٌ وَّ فِرۡعَوۡنُ وَ اِخۡوَانُ لُوۡطٍ ﴿ۙ۱۳﴾﴾
اللہ تعالیٰ نے اپنے پیغمبر کو تسلی دی ہے کہ یہ آپ کو جھٹلاتے ہیں تو اس سے پہلے بھی نوح علیہ السلام کو جھٹلایا گیا۔ کنویں والی قوم نے اپنے پیغمبر حضرت صالح علیہ السلام کو جھٹلا یا۔ قوم ثمود نے بھی حضرت صالح علیہ السلام کو جھٹلایا۔ قوم عاد نے بھی جھٹلایا۔ قوم فرعون نے موسیٰ علیہ السلام کو جھٹلایا اور قومِ لوط نے بھی جھٹلایا۔
کراماً کاتبین :
﴿اِذۡ یَتَلَقَّی الۡمُتَلَقِّیٰنِ عَنِ الۡیَمِیۡنِ وَ عَنِ الشِّمَالِ قَعِیۡدٌ ﴿۱۷﴾﴾
قیامت کے دن ہر انسان کا اعمال نامہ بطور حجت اس کے سامنے پیش کیا جائے گا تاکہ وہ خود دیکھ لے کہ دنیا میں کیا کرکے آیاہے۔ اس کےلیے اللہ تعالیٰ نے دو فرشتے مقرر فرمائے ہوئے ہیں ایک انسان کے دائیں کندھے پر اور ایک انسان کے بائیں کندھے پر موجود ہے وہ جو بھی کام کرتا ہے اسے لکھ لیتے ہیں۔
جہنم سے سوال اور اس کا جواب:
﴿یَوۡمَ نَقُوۡلُ لِجَہَنَّمَ ہَلِ امۡتَلَاۡتِ وَ تَقُوۡلُ ہَلۡ مِنۡ مَّزِیۡدٍ ﴿۳۰﴾﴾
اس وقت کو بھی یاد رکھو جب ہم جہنم سے کہیں گے کہ کیا تمہارا پیٹ بھر گیا ہے؟ تو وہ کہے گی: کیا کچھ اور بھی ہے؟ جہنم سے یہ سوال صرف تحدیداً اور زجر کے لیے ہو گاکہ جو لوگ پہلے سے جہنم میں ہوں گے تو اس سے ان پر خوف طاری ہو جائے گا۔
متقین کا انعام:
﴿وَ اُزۡلِفَتِ الۡجَنَّۃُ لِلۡمُتَّقِیۡنَ غَیۡرَ بَعِیۡدٍ ﴿۳۱﴾ ﴾
گزشتہ آیت میں جہنم اور اہل جہنم کا تذکرہ تھا۔ اب یہاں سے اہل جنت کا تذکرہ ہے کہ جنت کو متقین کے بالکل قریب کر دیا جائے گا اور یہ بالکل بھی دور نہیں ہوگی۔ یہ چیز ہر اس بندے کے لیے ہے جو اللہ کی طرف رجوع کرنے والا ہو اور اپنی حفاظت کرنے والا ہو۔
فریضہ امام الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم :
﴿نَحۡنُ اَعۡلَمُ بِمَا یَقُوۡلُوۡنَ وَ مَاۤ اَنۡتَ عَلَیۡہِمۡ بِجَبَّارٍ ۟ فَذَکِّرۡ بِالۡقُرۡاٰنِ مَنۡ یَّخَافُ وَعِیۡدِ ﴿٪۴۵﴾ ﴾
امام الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کا فریضہ صرف لوگوں تک نصیحت کو پہنچادینا ہے لوگوں کو منوانا نہیں۔ بس آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنا فریضہ ادا فرمادیں ۔جس کے دل میں آخرت کے دن اور اللہ تعالیٰ کا خوف ہوگا وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت کو قبول کرلےگا۔
وَاٰخِرُ دَعْوَانَا أَنِ الْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ